پیر، 21 دسمبر، 2020

کیا رسول اللہ سے نکاح کے وقت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی ؟ مامون رشید سلفی

.

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ
❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀ 

کیا رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم سے نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی ؟ 

✒️: مامون رشید ہارون رشید سلفی 

<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<؛
معاصرین میں سے سوائے گنے چنے چند اشخاص کے تمام لوگوں کا اس بات پر کامل یقین ہے کہ اللہ کے رسول سے نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی...یہ بات مسلم امت کے عوام وخواص کے بیچ اس قدر مشہور و معتمد علیہ ہے کہ گویا یہی متفق و مجمع علیہ قول ہو اس کے علاوہ کسی دوسرے قول کا وجود ہی نہ ہو یا یہ قول قرآن مجید اور صحیحین کی احادیث سے ثابت ہو-حالانکہ قضیہ بالکل اس کے برعکس ہے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے...
واضح رہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے مکی دور کے واقعات بالخصوص بعثت سے ماقبل کے واقعات میں صحیح اور متصل روایات نادر ہی پائی جاتی ہیں ان میں سے زیادہ تر یا تو مراسیل ہیں یا سیرت نگاروں کی منقطع ومعضل حکایات...
سیرت نبوی پر سب سے علمی و تحقیقی کتاب "السيرة النبوية الصحيحة" کے مؤلف دكتور أكرم ضياء عمری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "بہت ساری ضعیف بلکہ کمزور ترین روایتیں ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلد کے ساتھ اللہ کے رسول کی شادی کی تفصیلات کی طرف اشارہ کرتی ہیں, وہ روایات اس بات کی تحدید کرتی ہیں کہ آپ دونوں کے اپسی تعارف کا آغاز حضرت خدیجہ کی تجارت میں اللہ کے رسول کی شراکت کی وجہ سے ہوا تھا..."(السيرة النبوية الصحيحة :1/112) آپ کی باتیں صد فیصد درست ہیں حضرت خدیجہ سے اللہ کے رسول کے نکاح کے تعلق سے وارد تمام روایات اصول محدثین کی رو سے ضعیف منقطع غیر ثابت اور ناقابل حجت ہیں...لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ  سندا وروایتا کسی واقعہ کے ثبوت کا انکار کرنے اور سرے سے واقعہ کے وقوع کا انکار کرنے میں کافی فرق ہے...کسی واقعہ کے ثابت ہونے سے ہم اس سے مواعظ و عبر اور احکام ومسائل مستنبط کر سکتے ہیں جبکہ غیر ثابت واقعات سے ایسا نہیں کر سکتے... ثابت شدہ واقعات پر ہم یقین کر سکتے ہیں ان میں مذکور اشیاء پر ایمان رکھ سکتے ہیں اور انہیں لوگوں کے سامنے بیان کر سکتے ہیں جبکہ غیر ثابت واقعات کے بیان کرنے سے بھی ہمیں اجتناب کرنا چاہیے کیوں کہ "إن في الحق ما يغني عن الباطل" اگر ان واقعات میں مذکور باتیں حق ہوتیں تو وہ لزوما ہم تک صحیح طور پر ضرور پہنچتیں...!

اب اصل موضوع پر آتے ہیں:"ابن اسحاق کا بیان ہے، کہ خدیجہ بنت خویلد ایک معزز مالدار تاجر خاتون تھیں، لوگوں کو اپنا مال تجارت کے لئے دیتی تھیں اور مضاربت کے اصول پر ایک حصہ طے کر لیتی تھیں۔ پورا قبیلہ قریش ہی تجارت پیشہ تھا۔جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راست گوئی، امانت اور مکارم اخلاق کا علم ہوا تو انہوں نے ایک پیغام کے ذریعے پیشکش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکا مال لیکر تجارت کے لئے ان کے غلام میسرہ کے ساتھ ملک شام تشریف لے جائیں۔ وہ دوسرے تاجروں کو جو دیتی ہیں اس سے بہتر اجرت آپ کو دیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشکش قبول کر لی۔ انکا مال لیکر انکے غلام میسرہ کے ساتھ ملک شام تشریف لے گئے. ( ابن هشام 1/ 187-188 نقلا من الرحيق المختوم ص:51) ابن اسحاق رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:"
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ واپس تشریف لائے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مال میں ایسی امانت وبرکت دیکھی جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ ادھر انکے غلام میسرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شیریں اخلاق، بلند پایہ کردار ،موزوں انداز فکر راست گوئی اور امانت دارانہ طور طریق کے متعلق اپنے مشاہدات بیان کئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کو اپنا گم گشتہ مطلوب دستیاب ہو گیا۔ اس سے پہلے بڑے بڑے سردار اور رئیس ان سے شادی کے خواہاں تھے لیکن انہوں نے کسی کا پیغام قبول نہ کیا تھا۔اب انہوں نے اپنے دل کی بات اپنی سہیلی نفیسہ بنت منبہ سے کی اور نفیسہ نے جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفت و شنید کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہو گئے اور اپنے چچاؤں سے اس معاملے میں بات کی۔ انہوں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا سے بات کی اور شادی کا پیغام دیا۔ اس کے بعد شادی ہو گئی۔ نکاح میں بنی ہاشم اور رؤسائے مضر شریک ہوئے۔ یہ ملک شام سے واپسی کے دو ماہ بعد کی بات ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر میں بیس اونٹ دیے۔ اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی اور وہ نسب و دولت اور سوجھ بوجھ میں اپنی قوم میں سب سے زیادہ معزز اور افضل خاتون تھیں۔ یہ پہلی خاتون تھیں جن سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور ان کی وفات تک کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی۔(ابن هشام 1/189-190، فقه السيرة لمحمد الغزالي ص 59، تلقيح فهوم أهل الأثر ص 7، نقلا من الرحيق المختوم ص:51)
یہ ہے اصل قصہ جس میں شادی کے واقعات کا ایک گونہ تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے لیکن اصول حدیث کی رو سے یہ واقعات ضعیف ہیں (یہاں تفصیلات کی گنجائش نہیں ہے ) اس تفصیلی قصے کو ذکر کرکے یہ بتانا مقصود ہے کہ اس میں اللہ کے رسول سے نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال بتائی گئی ہے جس پر صفی الرحمن مبارک پوری صاحب اور دیگر سیرت نگاروں نے بھی اعتماد کیا ہے... 
نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر کتنی تھی اس تعلق سے متعدد روایات آئی ہیں:

پہلی روایت:نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر اٹھائیس (28) سال تھی.(كشف الغمّة للإربلي ج 2 / ص 139 یہ روایت بلا سند بلاغا مروی ہے اسی طرح امام حاکم نے اسے ابن اسحاق سے نقل کیا ہے"المستدرك على الصحيحين "3/182" ابن اسحاق نے اپنے سے آگے کی سند بیان نہیں کی ہے) 

دوسری روایت: نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر پچیس سال تھی.(البداية والنهاية 3/ 359 امام ابن کثیر نے اس روایت کو امام بیہقی کے حوالے سے نقل کیا ہے لیکن یہ روایت مصعب بن عبد اللہ الزبیری کے بعد کی سند نامعلوم ہونے کی وجہ سے منقطع ومعضل ہے) 

تیسری روایت: نکاح کے وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی. (طبقات ابن سعد 1/132 اس کی سند میں ابن سعد کے استاد واقدی متروک وکذاب ہیں لہذا یہ روایت سخت ضعیف ہے) 

چوتھی روایت: نکاح کے وقت آپ کی عمر پینتیس (35) سال تھی.(البداية والنهاية 2/360 امام ابن کثیر نے اس بے سند روایت کو بیہقی کے حوالے سے نقل کیا ہے لیکن سنن بیہقی میں یہ روایت نہیں ملی لہذا سند نامعلوم ہونے کی وجہ سے یہ روایت بھی ضعیف ہے.)

قارئین کرام آپ نے ملاحظہ کیا کہ نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر کے تعلق سے کئی روایتیں منقول ہیں لیکن سب کے سب یا تو بلا سند ہیں یا معضل ہیں یا متروکین وکذابین کے طریق سے مروی ہیں... لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ان میں سے جس قول کو سب زیادہ شہرت حاصل ہے اور جس پر جمہور اہل اسلام کا اعتماد ہے یعنی چالیس سال والا قول وہ من جملہ روایتوں میں سب سے زیادہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں محمد بن عمر الواقدی متروک وکذاب راوی ہے اور جس حدیث کی سند میں ایسا روای ہو محدثین کے ہاں وہ حدیث ضعیف جدا اور موضوع کہلاتی ہے...بنا بریں نہ ہمیں چالیس سال والی روایت پر اعتماد کرنا ہے اور نہ ہی کسی دوسری روایت پر کیونکہ سب غیر ثابت ہیں البتہ ان غیر ثابت روایتوں میں سب سے کم ضعیف روایت وہ ہے جس میں آپ رضی اللہ عنہا کی عمر پچیس سال بیان کی گئی ہے... 
اس کی کئی وجوہات ہیں:
اول:مصعب بن عبد الله الزبيري تک سند صحیح ہے اور مصعب ثقہ راوی ہیں اور ان کا تعلق اہل بیت سے ہے کیونکہ وہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی نسل سے ہیں لہذا انہیں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ علم ہوگا.
دوم:اس کے علاوہ بقیہ روایتوں کا ضعف اور انقطاع اس سے شدید ہے. 
سوم: یہ عام احوال الناس کے بھی موافق ہے کہ لوگ عموما اپنی ہم عمر خواتین ہی سے شادی کرتے ہیں.

چہارم: اللہ کے رسول سے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ کے بطن سے چار بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے چنانچہ اس سے بھی پچیس سال والی روایت کو تقویت ملتی ہے کیونکہ عموما عورتیں پچاس سال سے قبل ہی ائسہ ہو جاتی ہیں...اور اگر چالیس سال والی روایت کو ترجیح دی جائے تو اس سے لازم آئے گا کہ حضرت خدیجہ پچاس سال کے بعد بھی ائسہ نہیں ہوئی تھیں...اور اس کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ راجح قول کے مطابق حضرت عائشہ کی وفات پچاس سال کی عمر میں ہوئی ہے اسی کو امام بیہقی نے مصعب بن عبد اللہ الزبیری سے روایت کرتے ہوئے دلائل النبوۃ(2/70)کے اندر اور امام حاکم نے پینسٹھ سال میں وفات پانے کے تعلق سے وارد روایت کو شاذ قرار دیتے ہوئے راجح قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ میرے نزدیک راجح  یہ ہے کہ آپ ساٹھ سال کی عمر کو نہیں پہنچی تھیں.(مستدرك على الصحيحين 3/200) اور صحیح طور پر یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عائشہ کی اللہ کے رسول کے ساتھ رفاقت کی مدت پچیس سال تھی آپ ہجرت سے تین سال قبل داعی اجل کو لبیک کہہ گئی تھیں.(صحيح البخاري 3896)لہذا اگر آپ کی عمر پچاس سال ہو اور آپ کی شادی کے بعد کی زندگی پچیس سال کی ہو تو لزوما اپ کی شادی پچیس سال کی عمر میں ہی ہوئی ہوگی. 

یہ سب توجیہات علی سبیل التنازل ہیں ورنہ یہ بات پہلے ہی ثابت کی جا چکی ہے کہ عمر کی تحدید کے سلسلے میں ایک بھی روایت ثابت نہیں ہے. 

اخیر میں موضوع سے متعلق چند فوائد اور علمی نکات ملاحظہ فرمائیں:
(1) شادی کی تفصیلات سے متعلق ایک بھی روایت ثابت نہیں ہے.
(2)حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال سے اللہ کے رسول کا تجارت کرنا بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے. 

(3) اللہ کے رسول پر بادل کا سایہ کرنا اور حضرت خدیجہ کا اسے دیکھ کر متاثر ہونا بھی ثابت نہیں ہے. 

(4) میسرہ کا اللہ کے رسول کے ساتھ سفر کرنا بھی ثابت نہیں ہے. 

(5) حضرت خدیجہ اللہ کے رسول کی پہلی بیوی تھی یہ بات سندا ثابت نہیں ہے البتہ امت کا اس بات پر اجماع ہے اور اجماع دلیل کے طور پر کافی ہے. 

(6) اللہ کے رسول سے قبل حضرت خدیجہ کی دو جگہ اور شادی ہوئی تھی... سب سے پہلے عتیق بن عابد سے اس کے بعد ابو ھالۃ التمیمی سے اور اخیر میں اللہ کے رسول سے. 

(7)اللہ کے رسول سے نکاح سے قبل حضرت خدیجہ کے تین بچے تھے   (١) ہند بنت عتیق (۲) ہالہ بنت ابی ہالہ (٣) ہند بن ہالہ. 
(8) صحیح روایات سے اللہ کے رسول کا حضرت خدیجہ سے نکاح کرنا ثابت ہے. 
(9) صحیح احادیث سے اللہ کے رسول کا حضرت خدیجہ کی تعریف کرنا ان سے وفات کے بعد تک محبت کرتے رہنا اور ان کا ذکر کرتے وقت آپ کا غمزدہ ہو جانا  ثابت ہے. 

(10) نزول وحی کے وقت ان کا اللہ کے رسول کو تسلی دینا اور پر خلوص طریقے سے آپ کا ساتھ دینا ثابت ہے. 

(11)حضرت خدیجہ کا اللہ کے رسول پر عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لانا بھی ثابت ہے. 

(12)یہ بھی ثابت ہے اللہ کے رسول سے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ کے بطن سے چار بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے تھے. 

(13) یہ بھی ثابت ہے کہ آپ کی موجودگی میں اللہ کے رسول نے کوئی دوسری شادی نہیں کی تھی. 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح علم سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین. 

.