ہفتہ، 31 جولائی، 2021

ہاروت ماروت فرشتے تھے یا شیطان؟

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
؛۷۸۷۸۷۸۷۸۷۸۷۸۷۸۷۸۷۸؛

ہاروت ماروت فرشتے تھے یا شیطان؟


سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہاروت ماروت فرشتے تھے یا شیطان بعض علماء کہتے ہیں کہ وہ شیطان تھے  بادلائل بیان فرمائیں۔ ازراہ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔ جزاكم الله خيرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

و علیکم السلام و رحمة اللہ و برکاته!

الحمد لله، و الصلاة و السلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

ہاروت ماروت فرشتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید کے الفاظ اس بات کو واضح کر رہے ہی ۔ارشادہے:

﴿وَ مَآ أُنزِلَ عَلَى ٱلۡمَلَكَيۡنِ بِبَابِلَ هَٰرُوتَ وَ مَٰرُوتَۚ﴾-
سورة البقرة 102

اس آیت میں ہاروت و ماروت ملکین سے بدل ہے اور معنی یہ ہے کہ اہل کتاب نے اس شئے کی تابعداری کی جو بابل شہر میں دو فرشتوں ہاروت ماروت پر اتاری گئی اور جو شیطان کہتے ہیں۔ بعض لوگ "و لکن الشیاطین" میں شیاطین سے بدل بناتے ہیں۔ حالانکہ اگر اس سے بدل ہوتا اس کے ساتھ ذکر ہوتا. نیز کفروا وغیرہ صیغے جمع کے اس کے خلاف ہیں. غرض قرآنی روش صاف بتا رہی ہے کہ ہاروت ماروت فرشتے تھے. 

علاوہ ازیں وہ جادو سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ کفر نہ کرو. اگر وہ شیطان ہوتے تو کفر سے کیوں روکتے. تیسری وجہ یہ ہے کہ بعض اس قسم کی احادیث بھی آتی ہیں جن میں ذکر ہے کہ فرشتوں نے خدا سے عرض کی کہ اگر انسانوں کی جگہ ہم ہوں تو گناہ نہ کریں. اس بنا پر اللہ تعالی نے ہاروت و ماروت کو خواہشات نفسانی لگا کر بھیجا مگر وہ گناہ سے بچ نہ سکے. چنانچہ جامع صغیر اور تفاسیر وغیرہ میں اس قسم کی روایتیں موجود ہیں. بیضاوی ہو یا رازی یا کوئی اور جس کا قول مذکور بالا بیان کے خلاف ہو وہ صحیح نہیں. 
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب. 

فتاویٰ اہل حدیث 
کتاب الایمان، مذاہب، 
ج 1، ص 132 

.

بدھ، 28 جولائی، 2021

تجارت ‏میں ‏منافع ‏کی ‏حد ‏ہے ‏یا ‏نہیں؟ ‏محدث ‏فتوی ‏

.
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
>)>)>)>)>)>)>)>)>)> 

تجارت میں منافع کی حد؟ 

محدث فتوی 

تخریج 
سید محمد عزیر ادونوی 

~~~~~~~~~~~~~~؛


سوال 
 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا شریعت نے تجارت میں منافع (Profit) کی کوئی حد مقرر کی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کس حد تک منافع لیا جا سکتا ہے؟یا شریعت نے اس معاملے میں تاجر کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق منافع کی شرح مقرر کرلے؟ اُمید ہے کہ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں گے۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
و علیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! 

الحمد لله، و الصلاة و السلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

بلاشبہ شریعت کی نظر میں دولت کمانے اور منافع حاصل کرنے کے لیے تجارت ایک بہترین اور معزز پیشہ ہے۔ قرآن کی متعدد آیتوں اور صحیح حدیثوں میں تجارت کا تذکرہ اچھے (Profit) میں ہوا ہے۔ بلکہ قرآن کی مختلف آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے منافع کو "فَضْلِ اللَّهِ " (اللہ کا فضل) قراردیا ہے: 

﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلو‌ٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ وَابتَغوا مِن فَضلِ اللَّهِ ... ﴿١٠﴾... 
سورة الجمعة 

’’پس جب نماز ختم ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔‘‘ 

﴿وَءاخَرونَ يَضرِبونَ فِى الأَرضِ يَبتَغونَ مِن فَضلِ اللَّهِ...﴿٢٠﴾... 
سورة المزمل 

’’اور کچھ دوسرے ہیں جو زمین میں سفر کرتے ہیں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے۔‘‘

حج جیسی عظیم عبادت کے دوران بھی اللہ نے اس فضل کو کمانے سے منع نہیں کیا ۔۔۔ فرماتا ہے: 

﴿لَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَبتَغوا فَضلًا مِن رَبِّكُم...﴿١٩٨﴾... 
سورة البقرة 

’’تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو (یعنی حج کے دوران بھی)‘‘ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 

"أَلَا مَنْ وَلِيَ يَتِيمًا لَهُ مَالٌ فَلْيَتَّجِرْ فِيهِ وَلَا يَتْرُكْهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الصَّدَقَةُ" 
(ترمذی) 

’’سنو جب کوئی شخص کسی ایسے یتیم کا سرپرست بنایا جائے جس کے پاس مال و دولت ہے تو اسے چاہیے کہ اس مال میں تجارت کرے اور اسے یونہی بغیر تجارت کے نہ چھوڑ دے کیونکہ اس طرح چھوڑنے سے اس کا سارا مال زکوٰۃ کھا جائے گی۔‘‘ (۱) 

جس مال میں تجارت نہ کی جائے اور ہر سال اس میں زکوٰۃ ادا کی جائے تو دھیرے دھیرے یہ بغیر کسی منافع کے ختم ہو جائے گا۔ یہ حدیث تجارت کے سلسلے میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ وہ یہ کہ کسی بھی تجارت کا کم از کم یہ مقصد ہونا چاہیے کہ اس سے نفع حاصل کیا جائے تاکہ اس نفع سے انسان کی ضرورتیں پوری ہوں۔ نان و نفقہ کا انتظام ہو جائے۔ اور اس نفع کی وجہ سے اصل سرمایہ میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے نہ کہ زکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے دھیرے دھیرے یہ اصل سرمایہ بھی ختم ہوجائے۔

قرآن و سنت کے تفصیلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے منافع کی کوئی شرح متعین نہیں کی ہے۔ نہ دس فیصد نہ بیس فیصد اور نہ اس سے زیادہ یا کم۔ شاید اس کی حکمت و مصلحت یہ ہے کہ ہر زمانے اور ہر علاقے کے لیے منافع کی ایک ہی شرح متعین کرنا عدل و انصاف کے منافی ہے، کیونکہ کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کی کھپت (Consurning) بہت تیز ہوتی ہے۔ اور ان کی فروخت جلد جلد ہوتی ہے۔ مثلاً کھانے پینے کی چیزیں۔ کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کی کھپت بہت سست اور کبھی کبھی ہوتی ہے۔ مثلاً کار، فرنیچر اور کپڑے وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں طرح کے سامان تجارت میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ جس سامان تجارت کی کھپت جلد اور تیز ہوتی ہے ان میں منافع کی شرح کم ہونی چاہیے۔ جب کہ دوسری قسم کے سامان تجارت میں یہ شرح زیادہ ہوسکتی ہے۔ 

سامان تجارت کبھی نقد بیچے جاتے ہیں اور کبھی اُدھار۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہو سکتی. نقد خرید و فروخت میں منافع کی شرح اُدھار کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ 

بعض دکان دار چھوٹے ہوتے ہیں اور کم سرمایے سے تجارت کرتے ہیں۔ جب کہ بڑے دکان دار بڑے سرمایہ سے تجارت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بڑا سرمایہ دار بہت کم منافع لے کر بھی فائدے میں رہے گا۔ جب کہ چھوٹا دکان دار کم منافع لے کر اپنی تجارت کو فروغ نہیں دے سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ نفع لے۔ 

کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کا شمار ضروری اور بنیادی اشیاء صرف (Essential) (Goods اور کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کاشمار سامان تعیش (Luxury Goods) میں ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں قسم کے سامان تجارت میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ بنیادی اشیاء غریب لوگ بھی خریدتے ہیں اس لیے ان میں منافع کی شرح بہت کم ہونی چاہیے۔ جب کہ سامان تعیش میں منافع کی شرح زیادہ بھی کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ضروری اور بنیادی اشیاء صرف مثلاً غلہ وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے ان میں بہت زیادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو غریبوں کے لیے تباہ کن ہے۔

بعض سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جو صرف ایک واسطے (Mediator) کے بعد بازار میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے ان میں منافع کی شرح کم ہوتی ہے۔ جب کہ بعض سامان تجارت فیکٹری سے نکل کر کئی واسطوں سے ہوتے ہوئے بازار میں آتے ہیں۔ اس قسم کے سامان تجارت میں پہلے سامان کے مقابلے میں منافع کی شرح زیادہ ہونی چاہیے۔ 

غرض کہ منافع کی شرح متعین کرنے میں بہت سارے عوامل کارفرما ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ 

عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ منافع کی شرح متعین کرتے وقت ان سب عوامل کی رعایت کی جائے اگر شریعت نے تمام حالات اور تمام طرح کے سامان تجارت میں منافع کی ایک ہی شرح متعین کردی ہوتی تو یہ بات عدل و انصاف کے منافی ہوتی۔ شریعت نے تاجر کے ضمیر پر یہ بات چھوڑ دی ہے کہ وہ ان سب عوامل کی رعایت کرتے ہوئے اور معاشرہ میں مروجہ اصول کو دیکھتے ہوئے منافع کی کوئی شرح متعین کر لے۔ وہ ایسی شرح متعین کرے جس سے نہ اسے نقصان ہو اور نہ خریداروں کو، کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ کیونکہ اسلامی معاشیات میں اخلاقیات کا بڑا عمل دخل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بالکل برعکس کہ جس میں دولت کمانے کی خاطر یہ طریقہ کار جائز ہے چاہے یہ دولت سود سے آتی ہو یا ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ یا شراب اور دوسری مضر اشیاء فروخت کر کے۔ اسلامی معاشیات میں ہر وہ طریقہ تجارت حرام ہے جس میں کسی کی حق تلفی ہوتی ہو یا جو اخلاقیات کے منافی ہو۔ 

اسلام نے اگرچہ منافع کی کوئی شرح متعین نہیں کی ہے لیکن اخلاقیات کی پابندی ہرحالت میں ضروری ہے۔ 

بعض حنفی علماء نے سو یا اس سے زائد فیصد منافع حاصل کرنے کو غلط قرار دیا ہے۔ جب کہ بعض مالکی علماء نے تیس پینتیس فیصد سے زیادہ نفع کو غلط قرار دیا ہے۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عمل سے ثابت ہے کہ انھوں نے کبھی سو فیصد اور کبھی اس سے بھی زیادہ نفع لیا ہے۔ ان لوگوں کا عمل اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ بعض صورتوں میں سو یا اس سے زیادہ فیصد نفع لیا جا سکتا ہے بشرط یہ کہ کسی پر ظلم نہ ہو رہا ہو یا کسی کی حق تلفی نہ ہو رہی ہو۔ 

میں چند ایسے واقعات پیش کررہا ہوں جن میں سو فیصد یا اس سے بھی زیادہ نفع لینے کا تذکرہ موجود ہے۔ 

1۔ 
بخاری، ترمذی اور مسند احمد وغیرہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دینار دے کر بھیجا کہ وہ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بکری خرید لیں۔ عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بکری والے سے مول تول کیا اور ایک دینار میں دو بکریاں خرید لیں۔ وہ دونوں بکریاں لے کر آ رہے تھے کہ راستے میں انھیں ایک شخص مل گیا اس نے دونوں بکریوں میں سے ایک بکری ایک دینار کے عوض خرید لی۔ (گویا حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سو فیصد نفع لے کر بکری فروخت کی) پھر عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ یہ لیجئے ایک بکری اور ساتھ میں ایک دینار۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے دریافت کیا کہ عروہ تم نے یہ کیسے کیا؟ عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا واقعہ بیان کردیا۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی تجارت میں برکت کی دعادی۔ ( ۲) 

2۔ 
سو فیصد سے زیادہ نفع لینے کا واقعہ بخاری شریف میں ذرا تفصیل کے ساتھ درج ہے۔ اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن العوام جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور جنھیں دنیا ہی میں جنت کی خوش خبری دے دی گئی تھی۔ انھوں نے مدینہ کے مضافات میں ایک زمین ایک لاکھ ستر ہزار درہم میں خریدی۔ ان کی شہادت کے بعد ان کا قرض چکانے کے لیے ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی زمین سولہ لاکھ درہم میں فروخت کی۔ (۳) 

گویا کئی سو گنا نفع حاصل کیا۔ یہ واقعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کا ہے۔ زمین فروخت کرنے والے حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور زمین خریدنے والے متعدد جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے مثلاً معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ۔ اور یہ سودا بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں طے پایا۔ اگر اس طرح کوئی سو فیصد نفع لینا شریعت کی نظر میں غلط ہو تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ضرور اعتراض کرتے لیکن کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ اس لیے یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ سو فیصد سے زیادہ نفع بھی لیا جا سکتا ہے بشرط یہ کہ اس میں کوئی غبن دھوکا اور ذخیرہ اندوزی نہ ہو۔ 

ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہر طرح کی تجارت میں سو یا اس سے زیادہ فیصد نفع لینا جائز ہے۔ ان کے بیان کامقصد صرف یہ ہے کہ شریعت نے نفع کی کوئی شرح مقرر نہیں کی ہے۔ بعض صورتوں میں نفع کی شرح سو فیصد یا اس سے زائد بھی ہو سکتی ہے اور شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ بشرط یہ کہ غبن، دھوکا اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے یہ نفع نہ حاصل کیا جائے۔ 


ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن منافعوں کا بھی تذکرہ کردوں جن کا حاصل کرنا حرام ہے۔ 

1۔ 
حرام اشیاء مثلاً شراب، نشیلی دواؤں اور مورتیوں وغیرہ کی تجارت سے حاصل کیا گیا نفع حرام ہے۔ اسی طرح ہر اس چیز کی تجارت سے حاصل کیا ہوا نفع حرام ہے جو لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ مثلاً کھانے کی وہ چیزیں جو زیادہ وقت گزرنے کی وجہ سے گل سڑ گئی ہوں یا وہ دوائیں جو صحت کے لیے مضر ہوں وغیرہ وغیرہ۔ 

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: 

"إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ" (۴) 
(بخاری، مسلم) 

’’بلا شبہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردہ، سور اور مورتیوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ 

2۔ 
فریب دھوکے سے حاصل کیا گیا منافع حرام ہے۔ مثلاً سامان تجارت کا عیب چھپا کر اسے فروخت کرنا یا دھوکے سے کسی چیز کو فروخت کرنا۔ اس ضمن میں وہ اشتہارات بھی آئیں گے جن میں کمپنیوں کی پیداوار (Product) کی ترویج کے لیے اس کی تعریف میں بہت کچھ جھوٹ بولا جاتا ہے۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
"مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا" (۵) 
(بخاری) 

’’جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ 

ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: 

"المُسلِمُ أخُو المُسلِمِ، و لا يَحِلُّ لِمُسلِمٍ باعَ مِن أخيهِ بَيعاً فيهِ عَيبٌ إلّا بَيَّنَهُ لَهُ" (۶) 
(مسند احمد، ابن ماجه) 

’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے کسی بھائی سے کچھ فروخت کرے اور اس میں کوئی عیب ہو مگر یہ کہ وہ اسے اس عیب کے بارے میں بتا دے۔‘‘ 

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کبھی بھی سامان کا عیب چھپا کر سامان فروخت نہیں کرتے تھے۔ اگر اس میں کوئی عیب ہوتا تو خریدنے والے پر عیب ظاہر کر دیتے۔ اس بات پر ان کا سختی سے عمل تھا۔ 

دھوکے کی صورتیں یہ بھی ہیں کہ خریدار کو بھولا بھالا اور سادہ لوح سمجھ کر اس سے ضرورت سے زیادہ قیمت وصول کرلی جائے۔ یاخریدار کی شدید ضرورت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دگنی چوگنی قیمت وصول کی جائے۔ نفع حاصل کرنے کے یہ طریقے حرام ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ کم منافع پر قناعت کیا جائے۔ کم منافع لینے سے سامان کی فروخت بڑھ جاتی ہے اور کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ زیادہ منافع لینے سے وقتی فائدہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن حقیقت میں زیادہ نفع لینے سے کاروبار میں زوال شروع ہوجاتا ہے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو نہایت مال دار صحابی تھے اور دنیا ہی میں انھیں جنت کی خوشخبری دے دی گئی تھی ان سے ان کی مال داری کا سبب پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے کبھی کم سے کم نفع کو بھی نہیں ٹھکرایا۔ 

3۔ 
سامان تجارت کی ذخیرہ اندوزی کر کے حاصل کیا گیا نفع بھی حرام ہے۔ 

حدیث نبوی ہے: 
"لَا يَحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ" (۷) 
(مسلم) 

’’وہی شخص ذخیرہ اندوزی کرتا ہے جو گناہگار ہوتا ہے۔‘‘ 

ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: 

"من احتكر طعاما أربعين يوما يريد به الغلاء فقد برئ من الله و برئ الله منه" (۸) 
(مسند احمد) 

’’جس نے کھانے پینے کی اشیاء کی چالیس دن تک ذخیرہ اندوزی کی تو وہ اللہ سے بری ہے اور اللہ اس سے بری ہے۔‘‘ 

ذخیرہ اندوزی یہ ہے کہ سامان تجارت کو بازار میں جانے سے روک دیا جائے تاکہ اس قلت کی وجہ سے سامان کی قیمت بڑھ جائے، اور اس کے بعد اسے فروخت کیا جائے۔ 

ایسی ذخیرہ اندوزی اس لیے حرام ہے کہ اس سے عوام کو تکلیف اور نقصان ہوتا ہے۔ یہ تکلیف اور نقصان اس وقت دو چند ہوتا ہے کہ جب ذخیرہ اندوزی کرنے والا صرف ایک شخص یا ایک کمپنی ہو۔ یہ شخص یا کمپنی اشیاء صرف کو بازار میں پہنچنے سے قبل اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔ اور جب ان اشیاء صرف کی مانگ بڑھتی ہے تو یہ کمپنی ان کی من مانی قیمت وصول کرتے ہیں۔ اسے اصطلاح میں Monopcly یا اجارہ بھی کہتے ہیں۔ سود کی طرح سے یہ چیز بھی سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں میں سے ہے۔ 

فقہاء کے نزدیک اس بات میں اختلاف ہے کہ کن اشیاء صرف کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے؟ بعض فقہاء کے نزدیک صرف کھانے پینے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے۔ میرے نزدیک زیادہ صحیح اور متعبر رائے یہ ہے کہ ان تمام اشیاء صرف کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے جنھیں ضروری اور لازمی اشیاء (Essential Goods) کا نام دیا جا سکتا ہے مثلاً کھانے پینے کی چیزیں، دوائیں، کپڑے، مکانات اور روز مرہ کے استعمال کی چیزیں وغیرہ وغیرہ۔ 

لازمی اور ضروری اشیاء کا تعین زمانے کے لحاظ سے کیا جائے گا کیوں کہ بہت ساری ایسی چیزیں جنھیں آج سے چند سال قبل سامان تعیش (Luxury Goods) کہا جاتا تھا۔ آج انھیں لازمی اشیاء میں شمار کیا جاتا ہے۔ 

امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "الخراج" میں لکھا ہے کہ ہر اس چیز کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے جس کی ذخیرہ اندوزی سے عوام کو نقصان اور تکلیف ہو۔ 

فقہاء کے درمیان اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ کیا ہر حالت میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے یا صرف تنگی اور قلت کی حالت میں؟ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ صرف تنگی اور قلت کے زمانے میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے۔ لیکن اگر ان اشیاء کی تنگی اور قلت نہ ہو بلکہ مارکیٹ میں ان اشیاء کی بہتات ہو تو ایسی صورت میں ان اشیاء کی ذخیرہ اندوزی حرام نہیں ہے۔ لیکن بعض فقہاء کےنزدیک ہر حالت میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے کیونکہ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے لازمی طور پر ان اشیاء کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ 

قصہ مختصر یہ کہ شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے اور اسے مارکیٹ پر چھوڑ دیا ہے کیونکہ مانگ اور سپلائی کے اُصول پر مارکیٹ منافع کی شرح خود ہی مقرر کرلیتا ہے۔معاشیات کا علم رکھنے والے اس اُصول کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ البتہ اگر صورت حال ایسی ہو کہ مارکیٹ میں منافع کی شرح چند اسباب کی بنا پر ضرورت سے زیادہ ہو تو ایسی صورت میں حکومت کے لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ میں دخل اندازی کرتے ہوئے قیمت اور منافع کی شرح کو متعین کردے۔ 

اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ تجارت میں منافع حاصل کرنا جائز بلکہ پسندیدہ عمل ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے "فضل اللہ" سے تعبیر کیا ہے۔ شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ بعض احادیث میں سو فیصد یا اس سے زیادہ نفع لینے کا تذکرہ موجود ہے۔ 

بہت زیادہ نفع لینا صرف بعض حالات میں جائز ہے۔ تمام حالات میں نہیں۔ وہ اشیاء صرف جن کا تعلق غریبوں سے ہوتا ہے اور وہ اشیاء صرف جنھیں ہم لازمی اور ضروری اشیاء قرار دیتے ہیں۔ مثلاً کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑے وغیرہ۔ ان میں ضرورت سے بہت زیادہ نفع لینا جائز نہیں ہے۔ 

دھوکا، غبن، ذخیرہ اندوزی یا ہر اس طریقے سے نفع حاصل کرنا حرام ہے، جس سے خریداروں کو نقصان پہنچے۔ اسی طرح حرام چیزوں کی تجارت سے کمایا ہوا نفع بھی حرام ہے۔ 

گرچہ تاجروں کو حلال نفع کمانے کا پورا حق ہے، لیکن حکومت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ ضرورت پڑنے پر اشیاء صرف کی قیمت اور منافع کی شرح متعین کرنے کے لیے دخل اندازی کرے تاکہ چند لوگ مل کر عوام کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ 

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب 
محدث فتویٰ 


~~~~~~~~

تخریج از عزیر ادونوی: 

(۱) ترمذی 641، علامہ البانی و زبیر علی زئی نے ضعیف قرار دیا 

(۲) صحیح بخاری 3642، سنن ترمذی 1258، سنن ابن ماجہ 2402، مسند احمد 19356 

(۳) بخاری 3129 

(۴) بخاری 2236، مسلم 1581 

(۵) مسلم 101 

(۶) أخرجه ابن ماجه (2246) واللفظ له، وأحمد (17487) بنحوه، صححه الألباني 

(۷) مسلم 1605 

(۸) أنكره الألباني، تخريج مشكاة المصابيح 2728 

~~~~~~~~~~~~~; 


Salafi Tehqiqi Library
سلفی تحقیقی لائبریری

Website:
ویبسائٹ:

فیس بک گروپ:

کتاب و سنت اور فہم سلف پر مبنی تحقیق و تخریج کردہ دینی کتب و مقالات کی لنکس حاصل کر سکتے ہیں کبھی بھی کسی بھی وقت، ٹیلگرام چینل

*"سلفی تحقیقی لائبریری"*

میں جوائین ہوکر، سرچ کرکے

بذریعہ ٹیلیگرام اس چینل میں جوائین کرنے کیلئے لنک 👇🏻
ٹیلی گرام چینل:
Telegram Channel:

~~~~

ٹیلی گرام اکاؤنٹ اوپن کرنے کیلئے حاصل کریں ٹیلی گرام کی ایپ نیچے کی لنک سے 👇🏻

 "Telegram"

~~~~

شئیر

.

ہفتہ، 24 جولائی، 2021

گائے ‏کے ‏گوشت ‏میں ‏بیماری ‏مختلف ‏علماء

.
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
۸-۸-۸-۸-۸-۸-۸-۸-۸-۸-۸-۸-۸


؛~~~~~~~~~~~~~~~~~
؛~~~~~~~~~~~~~~~~~

گائے کا گوشت زیادہ کھانا ...: 

علامہ ابن القیم رقمطراز ہیں 

"اس کے کھانے سے بہت سی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جیسے: بدہضمی، کھجلی، کوڑہ، کینسر، بھولنے کی بیماری وغیرہ.."

[الطب النبوی ص:284] 

؛~~~~~~~~~~~~~~~~~
؛~~~~~~~~~~~~~~~~~


گائے کے گوشت میں بیماری کے متعلق حديث كی صحت و تشریح 

مقالات و فتاوی عربی و اردو 

مختلف علماء 

جمع و ترتیب 
سید محمد عزیر ادونوی 

~~~~~~~~~~~


۱. 
ایک بھائی نے فورم پر (حدیث کی تحقیق کے زمرہ میں) سوال بھیجا ہے ، سوال حسب ذیل ہے ؛

اسحاق سلفی رحمہ اللہ 

سوال 
اس حديث كی صحت درکار ہے 
عن مليكة بنت عمرو الجعفية أن النبي صلى الله عليه و سلمقال :
( ألبانها شفاء – يعني البقر -، وسمنها دواء، ولحمها داء) 

رواه علي بن الجعد في " مسنده " (ص/393)، وأبو داود في " المراسيل " (ص/316)، والطبراني في " المعجم الكبير " (25/42)، ومن طريقه أبو نعيم في " معجم الصحابة " (رقم/7850)، ورواه البيهقي في " السنن الكبرى " (9/345) وفي " شعب الإيمان " (5/103)
http://islamqa.info/ar/134801
اردو میں جواب چاہیے۔ جزاکم اللہ خیرا


جواب: 

اس حدیث کا ترجمہ درج ذیل ہے: 
ملیکہ بنت عمرو سے مروی ہے ، کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : گائے کے دودھ میں شفاء ہے ، اور اس کا گھی دواء ہے، 
اور اسکے گوشت میں بیماری ہے ‘‘ 

اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر ‘‘ میں ۔اور امام بیہقیؒ نے " السنن الكبرى " (9/345)اور شعب الایمان میں روایت کیا ہے ۔ 

اور جہاں سے سائل نے یہ حدیث نقل کی (islamqa.info) وہاں ساتھ ہی لکھا ہے: 

وهذا إسناد ضعيف ، اس کی سند ضعیف ہے
ومليكة بنت عمرو الزيدية السعدية مختلف في صحبتها، اور اس کی راوی ملیکہ بنت عمروے صحابیہ ہونے میں اختلاف ہے، (یعنی وہ صحابیہ ہیں ۔۔یا ۔۔تابعیہ) 

لیکن یہ روایت مزید دو صحابہ سے دوسری اسناد سے مروی ہے ۔۔ اگلی نشست میں انہیں پیش کرتے ہیں. 
ان شاء اللہ 

دوسری نشست 
صحیح الجامع الصغیر میں علامہ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے ان الفاظ کو دو روایتوں سے ۔۔ صحیح ۔۔کہا ہے ؛

7509 - عليكم بألبان البقر فإنها دواء وأسمانها فإنها شفاء! وإياكم ولحومها فإن لحومها داء
(ابن السني أبو نعيم ك) عن ابن مسعود. 

[حكم الألباني] 
(صحيح) انظر حديث رقم: 4060 في صحيح الجامع 

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ تم گائے کا دودھ پیا کرو ۔کیونکہ اس میں (کئی بیماریوں کی) دواء ہے ۔اور اس کا گھی استعمال کرو ، اس میں شفاء ہے ، البتہ اس کے گوشت میں بیماری (کے عناصر) پائے جاتے ہیں ‘‘
علامہ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے اسے ’’ صحیح ‘‘ کہا ہے 

7510 - عليكم بألبان البقر فإنها شفاء وسمنها دواء ولحمها داء
(ابن السني أبو نعيم) عن صهيب. 

[حكم الألباني] 
(صحيح) انظر حديث رقم: 4061 في صحيح الجامع
اس کا ترجمہ وہی ہے اور اسے علامہ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے اسے ’’ صحیح ‘‘ کہا ہے. 

اس حدیث کو پڑھنے بعد یہ سوال کہ ’’ گائے اسلام میں حلال ہے ۔۔ اور نبی کریم ﷺ سے اس کی قربانی کرنا ثابت ہے ، 
تو اگر اس کا گوشت مضر ہے تو قربانی کیوں کی اور اسکی حلت کیوں ؟ 

اس سوال کا جواب علامہ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے یہ دیا: 

’’ السائل : ألبان البقر دواء، ولحومها داء، فكيف التوفيق بينه وبين كون البقر يجوز أن يكون هديا، لأن الشريعة لا يمكن أن تكون يهدى بضار. 

جواب
الشيخ : نعم؛ لقد صح عن النبي صلى الله عليه و سلمفي حجة الوداع أنه ضحى لنسائه بالبقر، وصح أيضا أمره - صلى الله عليه وآله و سلم- أمره بسمنان البقر ونهيه عن لحومها، فإن سمنانها دواء ولحومها داء، لقد وفق العلماء بين هذا الحديث وبين حديث تضحيته - صلى الله عليه وآله و سلم- بالبقر عن نسائه أن المقصود حينما نهى عن لحوم البقر إنما هو الإكثار منها، أما إذا أكل منها احيانا فلا ضير في ذلك ولا ضرر، ‘‘

جواب کا خلاصہ یہ کہ ’’ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گائے قربانی کی ، اور اس کے گوشت کو نقصان دہ قرار دینے سے مراد
کثرت سے اس کا استعمال ہے ۔یعنی اگر کثرت سے گائے کا گوشت کھایا جائے ، تو نقصان کا اندیشہ ہے ۔ہاں اگر احیاناً یعنی کبھی ، کبھی کھانا مضر نہیں ‘‘
(شريط مفرغ) 
سلسلة الهدى والنور
لسماحة الشيخ المحدث ناصر الدين الألبانى رحمه الله 

https://forum.mohaddis.com/threads/%DA%AF%D8%A7%D8%A6%DB%92-%DA%A9%DB%92-%DA%AF%D9%88%D8%B4%D8%AA-%D8%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AF%D9%88%D8%AF%DA%BE-%D8%8C%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%92-%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AD%D8%AF%D9%8A%D8%AB-%D9%83%DB%8C-%D8%B5%D8%AD%D8%AA-%D8%AF%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%DB%81%DB%92.29949 

~~~~~~~~~~~

۲. 
(494) کیا گائے کا گوشت بیماری کا باعث ہے؟ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا احادیث میں اس طرح کی صراحت ہے کہ گائے کا گوشت بیماری کا باعث ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو قربانی میں گائے کو کیوں ذبح کیا جاتا ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں؟ 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

 گائے کے دودھ کے متعلق احادیث میں صراحت ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمنے اسے استعمال کرنے کی ترغیب دلائی ہے، ارشاد نبوی ہے: 
’’ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر اس کی شفاء بھی نازل کی ہے، البتہ بڑھاپے کا کوئی علاج نہیں ہے، تم گائے کا دودھ استعمال کیا کرو کیونکہ وہ ہر درخت سے پتے وغیرہ کھاتی ہے۔‘‘ [1]

یہ روایت معمولی تبدیلی کے ساتھ مسند امام احمد میں بھی موجود ہے۔[2]

البتہ اس کے گوشت کے متعلق بعض روایات میں صراحت ہے کہ یہ بیماری کا باعث ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمنے فرمایا: 

'’ تم گائے کا دودھ اور گھی استعمال کیا کرو اور اس کے گوشت سے گریز کرو کیونکہ اس کا دودھ اور گھی باعث دواء اور ذریعہ شفاء ہے لیکن اس کے گوشت کا استعمال بیماری کا باعث ہے۔ ‘‘[3]

ممکن ہے کہ علاقائی طور پر ایسا ہو کیونکہ حجاز کی سر زمین میں خشکی ہے اور اس کے گوشت میں بھی پیوست ہے، اس لئے آپ نے فرمایا کہ اس کے گوشت میں بیماری ہے۔ 

البتہ جو علاقے خشک نہیں جیسا کہ ہمارا برصغیر ہے۔ یہاں بیماری کا اندیشہ نہیں ہے، البتہ اس کی قربانی کی جا سکتی ہے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمنے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی بیویوں کی طرف سے گائے ذبح کی تھی جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمنے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے ذبح کی تھی۔ [4]

ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گائے کا گوشت لایا گیا، آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ کہاں سے آیا ہے، آپ کو جواب دیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمنے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے ذبح کی ہے۔[5]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمکی طرح قربانی دینے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمسے اس کا عملی ثبوت ملتا ہے اگرچہ اس کے متعلق صراحت ہے کہ اس کا گوشت بیماری کا باعث ہے۔ ممکن ہے کہ علاقائی طور پر سرزمین حجاز میں یہ مفید نہ ہو البتہ جو علاقے خشک نہیں ہیں، وہاں اس کا گوشت بھی ضرر رساں نہیں ہے۔ 
 (واللہ اعلم) 

[1] مستدرك حاکم ص ۱۹۷ ج۴۔
[2] مسند امام احمد ص ۳۱۵ ج۴۔
[3] مستدرك ص ۵۰۷ ج۵۔
[4] صحیح بخاری، الحیض : ۲۹۴۔
[5] صحیح بخاری، الحج : ۱۷۰۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب 

فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد4۔ صفحہ نمبر:435
محدث فتویٰ

~~~~~~~~~~~

۳. 
کیا گائے کے گوشت میں بیماری ہے ؟ 

دکتور حافظ محمد زبیر تیمی 


دوست کا سوال ہے کہ کیا کوئی ایسی صحیح حدیث ہے کہ جس میں یہ موجود ہو کہ گائے کے گوشت میں بیماری ہے۔ جواب: ایسی کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے البتہ ایک روایت نقل کی جاتی ہے کہ جسے بیہقی اور طبرانی رحمہما اللہ وغیرہ نے نقل کیا ہے: "ألبانها شفاء، وسمنها دواء، ولحمها داء"۔ ترجمہ: گائے کے دودھ میں شفاء ہے، اس کا گھی دواء ہے جبکہ اس کا گوشت بیماری ہے۔

یہ روایت "منکر" ہے جیسا کہ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ کیا ہے بلکہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے، اس کی کوئی اصل نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمپر جھوٹ ہے۔ شیخ نے اس حوالے سے علامہ البانی رحمہ اللہ پر نقد بھی کی ہے کہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کے لیے صرف سند کو دیکھنا کافی نہیں ہوتا بلکہ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ حدیث معلل یا شاذ تو نہیں ہے۔ تو یہ روایت اپنے متن کے اعتبار سے "منکر" روایت ہے۔

اسی طرح شیخ بن باز رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شیء نفس انسانی کے لیے ضرر رساں ہو اور شریعت اسلامیہ میں جائز ہو۔ یہ بات بنیادی شرعی قواعد کے خلاف ہے لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔ امام ابو داود رحمہ اللہ نے اس روایت کو "مراسیل" میں ذکر کیا ہے یعنی یہ مرسل روایت ہے کہ جس میں تابعی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمسے نقل کرتا ہے۔ لہذا روایت ضعیف ہے کہ صحابی کا واسطہ موجود نہیں ہے اور سند منقطع ہے۔ عام طور سے معاصر اہل علم نے اس روایت کو مرسل ہونے کے سبب سے ضعیف قرار دیا ہے۔ تو روایت نقل کرنے والی راویہ ملیکہ کے بارے راجح قول یہی ہے کہ وہ تابعیہ ہے۔

بعض اہل علم نے اس روایت کو مجہول راوی کی وجہ سے بھی ضعیف قرار دیا ہے کہ زہیر راوی جس عورت سے روایت نقل کر رہا ہے، وہ مجہول راویہ ہے۔ لیکن یہ اعتراض قوی معلوم نہیں ہوتا کیونکہ زہیر جس سے نقل کر رہا ہے، اس کے بارے میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ وہ اس کی بیوی ہے یا اس نے اس کو "صدوقہ" یعنی سچا کہا ہے۔ البتہ سب سے قوی اعتراض یہی ہے کہ اس روایت کا متن "منکر" ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ مرسل روایت ہے۔ اس لیے ضعیف ہے۔ 

البتہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو شواہد کی وجہ سے "حسن" کہا ہے۔ لیکن اس روایت کے جو شواہد موجود ہیں، ان پر بعض معاصر محققین نے جرح کرتے ہوئے انہیں بھی ضعیف قرار دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ شواہد بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن مانتے ہوئے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ گائے کا زیادہ گوشت کھانا مضر صحت ہے، یعنی حدیث میں اکثار کی ممانعت ہے۔ لیکن یہ توجیہ بہت ہی کمزور اور غیر منطقی ہے۔ البتہ ایک توجیہ ابن قیم رحمہ اللہ کے ہاں کی گئی ہے کہ یہ علاقائی ممانعت تھی کہ حجاز میں خشکی زیادہ تھی اور گائے کا گوشت کھانے سے بھی مزاج میں خشکی پیدا ہوتی ہے لہذا اہل حجاز کو اس سے منع کیا گیا۔ لیکن یہ بھی کمزور توجیہ ہے۔

اس حدیث کی عمدہ توجیہ اگرچہ ممکن ہے کہ اسے شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی تقسیم کے مطابق طب نبوی کی کیٹیگری سے خاص قرار دیا جائے کہ جس کا موضوع بیان شریعت نہیں ہوتا بلکہ علاقائی طبی تصورات میں ارشاد و رہنمائی ہوتا ہے لیکن جمہور اہل علم کا صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ یہ روایت منکر ہے۔ لہذا توجیہ کی ضرورت نہیں ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمسے صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنی ازواج رضی اللہ عنہن کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے: وَضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ [صحیح بخاری: 5559]۔ 

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمنے اپنی بیویوں کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی۔ 

اور پھر قرآن مجید میں بھی اس کے کھانے کی رغبت موجود ہے: (وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ)۔ ترجمہ: اور اونٹ میں سے دو یعنی اونٹ اور اونٹنی، اور گائے میں سے دو یعنی بیل اور گائے۔ 


~~~~~~~~~~~~~

۴. 
کیا گائے کے گوشت میں بیماری ہے؟ 

(احادیث و آثار کی تحقیق عربی میں) 

ترتیب و تخریج 
ابو عمار عبدالغفار بن عمر بن محمود یاقوت پوری حفظہ اللہ

پی ڈی یف لنک: 

~~~~~~~~~~~

۵. 
لُحومُ البَقَرِ داءٌ، وسَمنُها ولَبَنُها دواءٌ. 
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية 


~~~~~~~~~~~

۶. 
أكل لحم البقر والتداوي بسمنه ولبنه - إسلام ويب - مركز الفتوى 

https://www.islamweb.net/ar/fatwa/76185/%D8%A3%D9%83%D9%84-%D9%84%D8%AD%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D9%82%D8%B1-%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AA%D8%AF%D8%A7%D9%88%D9%8A-%D8%A8%D8%B3%D9%85%D9%86%D9%87-%D9%88%D9%84%D8%A8%D9%86%D9%87 

~~~~~~~~~~~

۷. 
هل صح عن النبي صلى الله عليه و سلموصف لحوم البقر أنها داء؟ 

موقع الإسلام سؤال وجواب 


~~~~~~~~~~~

۸. 
لحم البقر، كيف يحل الله ما فيه الضرر ؟!! - منتديات الإمام الآجري 

https://www.ajurry.com/vb/forum/%D9%85%D9%86%D8%A7%D8%A8%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AA%D9%88%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%84%D9%85%D9%8A%D8%A9-%D9%88%D8%B4%D8%B1%D9%88%D8%AD%D9%87%D8%A7/%D9%85%D9%86%D8%A8%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AF%D9%8A%D8%AB-%D9%88%D8%B9%D9%84%D9%88%D9%85%D9%87/45224-%D9%84%D8%AD%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D9%82%D8%B1%D8%8C-%D9%83%D9%8A%D9%81-%D9%8A%D8%AD%D9%84-%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87-%D9%85%D8%A7-%D9%81%D9%8A%D9%87-%D8%A7%D9%84%D8%B6%D8%B1%D8%B1%D8%9F 

~~~~~~~~~~~

۹. 
هل صح عن النبي صلى الله عليه و سلموصف لحوم البقر أنها داء؟>>(صلوا عليه وسلموا تسليما) - هوامير البورصة السعودية


~~~~~~~~~~~

۱۰. 
Gae Ke Gosht Me Bimari Hy? 
Sh. Safat Aalam Taimi 
Raidio Kuwait Urdu 

گائے کے گوشت میں بیماری ہے، 
شیخ صفت عالم تیمی 
ریڈیو کویت اردو 


~~~~~~~~~~~

۱۱. 
Gai - Cow Ke Doodh Me Shifa Hai Isse Ilaaj Karna Chahiye

By 
Adv. Faiz Syed


~~~~~~~~~~~

۱۲. 
صحة حديث البقر لحمه داء ولبنه دواء للشيخ صالح الفوزان


~~~~~~~~~~~

۱۳. 
كيف نجمع بين حديث إن لحوم البقر داء وبين تضحيته صلى الله عليه و سلمعن نسائه بالبقر ؟ الألباني


حديث أنّ لحم البقر داء وقوله تعالى فقلنا اضربوه ببعضها وكيفية التعامل مع النصوص التي ظاهرها التعارض؟ الالبانی

https://www.al-albany.com/audios/content/10696/%D8%AD%D8%AF%D9%8A%D8%AB-%D8%A3%D9%86-%D9%84%D8%AD%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D9%82%D8%B1-%D8%AF%D8%A7%D8%A1-%D9%88%D9%82%D9%88%D9%84%D9%87-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%89-%D9%81%D9%82%D9%84%D9%86%D8%A7-%D8%A7%D8%B6%D8%B1%D8%A8%D9%88%D9%87-%D8%A8%D8%A8%D8%B9%D8%B6%D9%87%D8%A7-%D9%88%D9%83%D9%8A%D9%81%D9%8A%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D9%85%D9%84-%D9%85%D8%B9-%D8%A7%D9%84%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%B5-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%8A-%D8%B8%D8%A7%D9%87%D8%B1%D9%87%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D8%B1%D8%B6 

~~~~~~~~~~~

۱۴. 
حديث لحوم البقر داء - الشيخ ابو اسحاق الحويني 



~~~~~~~~~~~

۱۵.
حديث لحم البقر داء
ابن عثیمین 

https://youtu.be/jUt0jkVeDIQ 

هل لحم البقر داء - وما صحة الحديث الوارد فيه
ابن عثیمین


~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~

"نور الھدیٰ" 
ٹیلی گرام چینل میں 
 بذریعہ ٹیلیگرام جوائین کرنے کیلئے لنک 
👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻

~~~~~~~~~~~

ٹیلی گرام اکاؤنٹ اوپن کرنے کیلئے حاصل کریں ٹیلی گرام کی ایپ نیچے کی لنک سے:
👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻

 "Telegram"

~~~~~~~~~~~

شئیر

.

بدھ، 21 جولائی، 2021

عید الاضحی و دیگر مواقع پر سر منڈانے کا حکم ‏علامہ ‏غلام ‏مصطفی ‏ظہیر

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
°^°^°^°^°^°^°^°^°^°^°^°
عید الاضحی و دیگر مواقع پر سر منڈانے کا حکم 

~~~~~~~~~~~~~؛ 

سر کے بال منڈوانے کی مشروعیت اور جواز 

محدث العصر علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری 
(شاگرد محدث العصر علامہ زبیر علی زئی) 



حج و عمرہ کے علاوہ سر منڈوانا جائز ہے، کراہت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ جیسا کہ 

1. 
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ، وَأَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یُّضَحِّيَ، فَلَا یَمَسَّ مِنْ شَعَرِہٖ وَبَشَرِہٖ شَیْئًا. 

”جب عشرہ ذو الحجہ داخل ہو جائے اور تم قربانی کرنا چاہتے ہو، تو اپنے سر اور جسم کے بال نہ مونڈھیں۔” 
(صحیح مسلم: ١٩٧٧) 

سنن النسائی (٤٣٦٢) میں یہ الفاظ ہیں: 
مَنْ أَرَادَ أَنْ یُّضَحِّيَ فَلَا یَقْلِمْ مِنْ أَظْفَارِہٖ، وَلَا یَحْلِقْ شَیْئًا مِّنْ شَعْرِہٖ فِي عَشْرِ الْـاُوَلِ مِنْ ذِي الْحِجَّۃِ. 

”جو قربانی کرنا چاہتا ہو، وہ ذو الحجہ کے پہلے دس دن ناخن تراشے، نہ جسم سے کوئی بال مونڈھے۔” 


2. 
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: 
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَآی صَبِیًّا قَدْ حُلِقَ بَعْضُ شَعْرِہٖ وَتُرِکَ بَعْضُہ، فَنَہَاہُمْ عَنْ ذَالِکَ، وَقَالَ: احْلِقُوہُ کُلَّہ، أَوِ اتْرُکُوہُ کُلَّہ. 

”نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر ایک بچے پر پڑی، جس کے کچھ بال مونڈھ دئے گئے تھے اور بعض چھوڑ دئے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع کر دیا اور فرمایا: اس کا مکمل سر مونڈھیں یا مکمل چھوڑ دیں۔” 
(سنن أبي داؤد: ٤١٩٥، و سندہ صحیحٌ، وأصلہ، في صحیح مسلم: ٢١٢٠) 

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ بچوں اور بچیوں دونوں کا سر مونڈھنا جائز ہے، صرف بچوں کی تخصیص ثابت نہیں! 

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٩٧ھ) فرماتے ہیں: 
وَقَوْلُہ، : اِحْلِقُوا کُلَّہ، دَلِیلٌ عَلٰی جَوَازِ حَلْقِ الرَّأْسِ مِنْ غَیْرِ کَرَاہِیَۃٍ. 

”یہ حدیث بغیر کسی کراہت کے سر منڈوانے کا جواز فراہم کرتی ہے۔” 
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین: ٢/٥٥٧) 

شارح صحیح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (م: ٦٧٦ھ) لکھتے ہیں: 
وَھٰذَا صَرِیحٌ فِي إِبَاحَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ لَا یَحْتَمِلُ تَأْوِیلًا، وَقَالَ أَصْحَابُنَا: حَلْقُ الرَّأْسِ جَائِزٌ بِّکُلِّ حَالٍ. 

”یہ سر مونڈھنے کی ایسی صریح دلیل ہے، جس میں تاویل کی گنجائش نہیں، ہمارے اصحاب کہتے ہیں کہ سر کے بال مونڈھنا ہر حال میں جائز ہے۔” 
(شرح صحیح مسلم: ٤/٢٤) 

علامہ سندھی حنفی صاحب (م: ١١٣٨ھ) لکھتے ہیں: 
وَھٰذَا صَرِیحٌ فِي إِبَاحَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ، لَایَحْتَمِلُ تَأْوِیلًا. 

”یہ سر مونڈھنے کی ایسی صریح دلیل ہے، جسمیں تاویل کی گنجائش نہیں۔” 
(حاشیۃ السندي علی سنن ابن ماجۃ: ١/٧٥) 

ملا علی قاری حنفی صاحب (١٠١٤ھ) لکھتے ہیں: 
(اِحْلِقُوا کُلَّہ، ): أَيْ کُلَّ الرَّأْسِ أَيْ شَعْرَہ، ، (أَوِ اتْرُکُوا کُلَّہ،) : فِي إِشَارَۃٍ إِلٰی أَنَّ الْحَلْقَ فِي غَیْرِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ جَائِزٌ، وَأَنَّ الرَّجُلَ مُخَیَّرٌ بَّیْنَ الْحَلْقِ وَتَرْکِہٖ. 

”اس حدیث میں واضح اشارہ ہے کہ حج و عمرہ کے علاوہ بھی سر کے بال منڈھوانا جائز ہے، نیز انسان کو سر منڈوانے یا بال رکھنے میں اختیار ہے۔” 
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: /٢٨١٨، ح: ٢٤٢٧) 


3. 
سیدنا عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: 
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْہَلَ آلَ جَعْفَرٍ ثَلَاثًا أَنْ یَّأْتِیَہُمْ، ثُمَّ أَتَاہُمْ، فَقَال: لَاتَبْکُوا عَلٰی أَخِي بَعْدَ الْیَوْمِ، ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا لِي بَنِي أَخِي، فَجِيءَ بِنَا کَأَنَّا أَفْرُخٌ، فَقَالَ: ادْعُوا لِي الْحَلَّاقَ، فَأَمَرَہ، فَحَلَقَ رُءُ وسَنَا. 

”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آل جعفر کو تین دن تک چھوڑ دیا کہ رو دھو لیں، پھر ان کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا: میرے بھائی (جعفر کی شہادت) پر آج کے بعد کوئی نہ روئے، پھر فرمایا: میرے بھتیجوں کو بلایا جائے۔ ہمیں لایا گیا، ہم تو گویا رو رو کر چوزے بن چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نائی کو بلاؤ، اور اسے ہماری ٹنڈ کرنے کو کہا۔” 
(مسند الإمام أحمد: ١/٢٠٤، سنن أبي داو، د: ٤١٩٢، سنن النسائي: ٥٢٢٩، وسندہ، صحیحٌ) 
حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
رَوَاہُ أَبُو دَاو، دَ بِإِسْنَادٍ صَحِیحٍ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٌ. 
”یہ سنن ابو داود کی روایت ہے۔ سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔”
(ریاض الصالحین: ١٦٤٠) 
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (٧٣٥۔٨٠٧ھ) لکھتے ہیں: 
رَوَاہُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُھَا رِجَالُ الصَّحِیحِ. 
”یہ مسند احمد اور معجم طبرانی کی روایت ہے اور اس کے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔” 
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ٦/١٥٧) 

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کی: 
أَرَأَیْتَ إِنْ لَّمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِیَّۃً أُنْثٰی أَفَأُضَحِّي بِہَا؟ قَالَ: لَا، وَلٰکِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِکَ وَأَظْفَارِکَ وَتَقُصُّ شَارِبَکَ وَتَحْلِقُ عَانَتَکَ، فَتِلْکَ تَمَامُ أُضْحِیَّتِکَ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ. 

”میرے پاس صرف ایک بکری ہے (جو میں نے کسی کو دودھ کے لے عاریۃً دے رکھا ہے) کیا میں اس کی قربانی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، آپ اپنے بال مونڈھ لیں، ناخن تراش لیں، مونچھیں کاٹ لیں اور زیر ناف بال صاف کر لیں، آپ کو پوری قربانی کا ثواب مل جائے گا۔” 
مسند الإمام أحمد: ٢/١٦٩، سنن أبي داو، د: ٢٧٨٩، سنن النسائي: ٤٣٦٥، وسندہ، حسنٌ) 
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (٥٩١٤) نے ”صحیح” اور امام حاکم رحمہ اللہ (٤/٢٢٣) نے ”صحیح الإسناد” کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ 

علامہ عینی حنفی (٧٦٢۔٨٥٥ھ) اس کی سند کو ”صحیح ” قرار دے کر لکھتے ہیں: 
فِیہِ اسْتِحْبَابُ حَلْقِ الرَّأْسِ وَقَصِّ الْـأَظْفَارِ وَالشَّارِبِ وَحَلْقِ الْعَانَۃِ یَوْمَ عِیْدِ الْـأُضْحِیَۃِ. 

”اس حدیث میں عید الاضحی والے دن سر منڈوانے، ناخن اور مونچھیں کاٹنے اور زیر ناف بال مونڈنے کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔” 
(نخب الأفکار في تنقیح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار: ١٤/٥٢١) 


4.
سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: 
مَنْ تَرَکَ مَوْضِعَ شَعْرَۃٍ مِّنْ جَنَابَۃٍ لَّمْ یَغْسِلْہَا فُعِلَ بِہَا کَذَا وَکَذَا مِنَ النَّارِ قَال عَلِيٌّ: فَمِنْ ثَمَّ عَادَیْتُ رَأْسِي ثَلَاثًا، وَکَانَ یَجُزُّ شَعْرَہ. 

”جس نے غسل جنابت کے دوران بال برابر بھی جسم کا حصہ خشک چھوڑ دیا، اسے دوزخ میں ایسا ایسا عذاب ہوگا۔  علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہ حدیث سننے کے بعد میں نے اپنے سر سے لگالی۔ آپ رضی اللہ عنہ سر منڈوا کر رکھتے تھے۔” 
(حدیث شعبۃ ابن الحجاج للحافظ محمد بن المظفر بن موسیٰ ابو الحسین البزار: ٢٤، الختارۃ للضیاء: ٤٥٣، مسند الإمام أحمد: ١/٩٤، سنن أبي داؤد: ٢٤٩، سنن ابن ماجۃ: ٥٩٩، وسندہ حسنٌ) 
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے۔ 
(التلخیص الحبیر: ١/١٤٢) 

علامہ طیبی (٧٤٣ھ) اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
وَفِیہِ أَنَّ الْمُدَاوَمَۃَ عَلٰی حَلْقِ الرَّأْسِ سُنَّۃٌ؛ لِـأَنَّہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَّرَہ، عَلٰی ذٰلِکَ، وَلِـأَنَّہ، رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ الَّذِینَ أُمِرْنَا بِا تِّبَاعِ سُنَّتِہِمْ، وَالْعَضِّ عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ. 

”اس میں دلیل ہے کہ سدا بہار سر منڈوانا سنت ِتقریری ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ثابت رکھا ہے اور اس لیے بھی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میں سے ہیں، جن کے طریقے کو دل و جان سے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔” 
(شرح الطیبي: ٣/٨١٤) 

علامہ سندھی حنفی (م: ١١٣٨ھ) لکھتے ہیں: 
وَاسْتُدِلَّ بِالْحَدِیثِ عَلٰی جَوَازِ حَلْقِ الرَّأْسِ وَجَزِّہٖ لِـأَنَّہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقَرَّ عَلِیًّا عَلٰی ذَالِکَ وَلِـأَنَّہ، مِنْ جُمْلَۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ الْمَأْمُورِ النَّاسَ بِالِاقْتِدَاءِ بِہِمْ وَالتَّمَسُّکُ بِسُنَّتِہِمْ. 

” اس حدیث سے سر منڈوا نے کا جواز ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عمل کو ثابت رکھا۔ نیز آپ رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میں سے ہیں، کہ جن کے طریقے کو سختی سے اپنانے کا حکم ملا ہے۔” 
(حاشیۃ السندي علی ابن ماجۃ: ١/٢٠٨) 


5. 
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: 
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْقَزَعِ. 
 
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”قزع” سے منع فرمایا۔” 
(صحیح البخاري: ٥٩٢٠، صحیح مسلم: ٢١٢٠، واللفظ لہ) 

”قزع” کا معنی یہ ہے کہ سر کے بعض حصے کے بال مونڈھ دینا اور بعض کو چھوڑ دینا۔ جیسے فوجی کٹنگ، پیالہ کٹنگ وغیرہ۔ 

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) اس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
وَلِـأَنَّہ، نَھٰی عَنِ الْقَزَعِ، وَالْقَزَعُ حَلْقُ الْبَعْضِ، فَدَلَّ عَلٰی جَوَازِ حَلْقِ الْجَمِیعِ. 

”چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرما دیا ہے اور قزع سر کے کچھ حصے کو مونڈھنے کو کہتے ہیں، لہٰذا یہ پورا سر مونڈھنے کے جواز پر دلیل ہے۔” 
(مجموع الفتاویٰ: ٢١/١١٩) 


6. 
مشہور تابعی احنف بن قیس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: 
قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ فَدَخَلْتُ مَسْجِدَہَا، فَبَیْنَمَا أَنَا أُصَلِّي إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ طَوِیلٌ آدَمُ أَبْیَضُ اللِّحْیَۃِ، وَالرَّأْسُ مَحْلُوقٌ، یُشْبِہُ بَعْضُہ، بَعْضًا، فَخَرَجْتُ فَاتَّبَعْتُہ، ، فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ قَالُوا: أَبُو ذَرٍّ. 

”میں مدینہ آیا اور مسجد نبوی میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ اسی اثنا میں ایک آدمی داخل ہوا، جس کا قد قدرے طویل، رنگ گندمی، داڑھی سفید، سر مونڈھا ہوا اور ایک حصہ دوسرے سے واضح مشابہت رکھتا ہوا تھا۔ میں جلدی سے اس کے پیچھے ہو لیا اور لوگوں سے پوچھا: یہ صاحب کون ہیں: جواب ملا: صحابی رسول ابو ذر رضی اللہ عنہ ۔” 
(مصنَّف ابن أبي شیبۃ: ٢٥٠٥٦، وسندہ، حسنٌ) 


7. 
تابعی کبیر امام نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: 
کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ یَقُولُ: لَیْسَ حِلاَقُ الرَّأْسِ بِوَاجِبٍ عَلٰی مَنْ ضَحّٰی، إِذَا لَمْ یَحُجَّ وَقَدْ فَعَلَہُ ابْنُ عُمَرَ. 

”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ قربانی کرنے والے غیر حاجی کے لیے سر منڈھوانا واجب نہیں ہے۔ ” جب کہ آپ (ابن عمر) خود سر منڈھوا لیا کرتے تھے۔” 
(موطّأ الإمام مالک: ٢/٤٨٣، موطّأ الإمام مالک بروایۃ أبي مصعب: ٢/١٨٦، واللفظ لہ، ، السنن الکبریٰ للبیھقي: ٩/٢٨٨، وسندہ، صحیحٌ) 


8. 
امام نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: 
إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ لَمْ یَتْرُکِ الْحَجَّ إِلَّا عَامًا وَّاحِدًا اشْتَکٰی، فَأَرْسَلَنِي، فَاشْتَرَیْتُ أُضْحِیَّۃً، ثُمَّ ذَبَحَہَا فِي الْمُصَلّٰی، ثُمَّ جِئْتُ حِینَ صَلَّی النَّاسُ، فَأَخْبَرْتُہ، ، فَحَلَقَ رَأْسَہ. 

”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر سال حج کیا کرتے تھے۔ ایک سال بیماری کی وجہ سے نہ کر سکے۔ مجھے قربانی خریدنے کے لیے بھیجا، لے آیا، تو عید گاہ میں ذبح کر دی۔ جب عید کی نماز ہو گئی، میں آیا اور آپ کو خبر دی، تو آپ نے اپنا سر مونڈھ لیا۔ 
(جزء أبي جھم: ٦٤، وسندہ، صحیحٌ) 

دوسری روایت میں ہے: 
أَنَّہ، ضَحّٰی بِالْمَدِینَۃِ، وَحَلَقَ رَأْسَہ. 

”آپ رضی اللہ عنہما نے مدینہ میں قربانی کی اور سر مونڈھ لیا۔” 
(مصنّف ابن أبي شیبۃ: ٤/١/٢٥٢) 


9. 
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں: 
وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ فِي جَمِیعِ الْـآفَاقِ عَلٰی إِبَاحَۃِ حَبْسِ الشَّعْرِ وَعَلٰی إِبَاحَۃِ الْحِلَاقِ. 

”تمام علاقوں کے اہل علم کا بال رکھنے اور بال مونڈھنے کے جواز پر اجماع ہے۔” 
(التمھید لما في الموطّأ من المعاني والأسانید: ٢٢/١٣٨) 

علامہ غزالی(٤٥٠۔٥٠٥ھ) لکھتے ہیں: 
شَعْرُ الرَّأْسِ وَلَا بَأْسَ بِحَلْقِہٖ لِمَنْ أَرَادَ التَّنْظِیفَ وَلَا بِأْسَ بِتَرْکِہٖ لِمَنْ یُدَہِّنُہ، وَیُرَجِّلُہ، إِلَا إِذَا تَرَکَہ، قَزَعَاً أَيْ قَطْعاً وَہُوَ دَأْبُ أَہْلِ الشَّطَارَۃِ أَوْ أَرَسَلَ الذَّوَائِبُ عَلٰی ہَیْئَۃِ أَہْلِ الشَّرَفِ حَیْثُ صَارَ ذٰلِکَ شِعَارًا لَّہُمْ فَإِنَّہ، إِذَا لَمْ یَکُنْ شَرِیفًا کَانَ ذٰلِکَ تِلْبِیسًا. 

”جو صفائی کے ارادے سے سر منڈوائے، تو کوئی حرج نہیں اور جو تیل،  کنگھی کر سکتا ہو، وہ بال رکھ بھی سکتا ہے۔ لیکن ”قزع” (سر کے بعض حصے کو منڈھوا دینا اور بعض کو چھوڑ دینا) جائز نہیں۔ کیوں کہ یہ بد معاشوں کا کام ہے۔ اسی طرح شرفا کی نقالی کرتے ہوئے لٹکیں چھوڑے، جو کہ شرفا کا شعار تھا، ایسا شخص شرفا میں سے نہ ہوا، تو تلبیس کر رہا ہے۔” 
(إحیاء علوم الدین: ١/١٤٠) 

حنفی مذہب کی معتبر ترین کتاب میں لکھا ہے: 
وَیُسْتَحَبُّ حَلْقُ الرَّأْسِ فِي کُلِّ جُمُعَۃٍ، کَذَا فِي الْغَرَائِبِ. 

”ہر جمعہ سر منڈوانا مستحب ہے۔ الغرائب میں ایسے ہی لکھا ہے۔” 
(فتاویٰ عالمگیری: ٥/٣٥٧)


10. 
 ہشام بن حسان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: 
إِنَّ الْحَسَنَ کَانَ یَحْلِقُ رَأْسَہ، یَوْمَ النَّحْرِ بِالْبَصْرَۃِ. 
 
”بصرہ میں حسن بصری رحمہ اللہ عید الاضحی والے دن سر منڈواتے تھے۔” 
(مصنّف ابن أبي شیبۃ: ٤/١/٢٥٢، وسندہ، صحیحٌ) 

امام قتادہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
کُنَّا نُصَلِّي مَعَ الْحَسَنِ عَلَی الْبَوَارِي، وَکَانَ الْحَسَنُ یَحْلِقُ رَأْسَہ، کُلَّ عَامٍ یَّوْمَ النَّحْرِ. 

”ہم حسن بصری رحمہ اللہ کی معیت میں نماز پڑھتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ ہر سال عید الاضحی کو سر منڈھوایا کرتے تھے۔” 
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد: ٧/١٣٠، وسندہ، صحیحٌ) 


11. 
عبد اللہ بن عون رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: 
قُلْتُ لِمُحَمَّدٍ: کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ أَنْ یَّأْخُذَ الرَّجُلُ مِنْ شَعْرِہٖ یَوْمَ النَّحْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ. 
”میں امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے پوچھا: [آیا صحابہ کرام] عید الاضحی والے دن حلق کروانا مستحب سمجھتے تھے؟ فرمایا: جی۔” 
(مصنّف ابن أبي شیبۃ: ٤/١/٢٥٢، وسندہ، صحیحٌ) 


12. 
ابو وائل شقیق بن سلمہ تابعی کبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: 
حَلَقَ حُذَیْفَۃُ رَأْسَہ، بِالْمَدَائِنِ. 

”سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے مدائن کے علاقے میں سر منڈھوایا۔” 
(الأموال للإمام القاسم بن سلام: ١٣٥، الأموال لابن زبجویہ: ٢١٣، مجموع فیہ مصنّفات أبي جعفر ابن البختري: ٢٥٦، وسندہ، صحیحٌ کالشمس) 

زبیر بن خریت رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
عَن عِکْرِمَۃَ فِي الرَّجُلِ یَحْلِقُ رَأْسَہ، یَوْمَ النَّحْرِ قَالَ: کَانَ لَا یَرٰی بِہٖ بَأْسًا بِّأَنْ یَّغْسِلَہ، بِالْخَِطْمِيِّ ثُمَّ یَحْلِقُہ. 

”عکرمہ رحمہ اللہ سے عید الاضحی والے دن حلق کروانے کی بابت پوچھا گیا۔ فرمایا: کوئی حرج نہیں، خطمی (بوٹی کا نام) سے سر دھو کر حلق کر وا سکتا ہے۔” 
(الثّقات لابن حبان: ٦/٣٣٢، ت: ٧٩٧٧، وسندہ، صحیحٌ) 

حافظ نووی رحمہ اللہ (م: ٦٧٦ھ) لکھتے ہیں: 
وَالْمُخْتَارُ أَنْ لَّا کَرَاہَۃَ فِیہِ وَلٰکِنَّ السُّنَّۃَ تَرْکُہ، فَلَمْ یَصِحَّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَلَقَہ، إلَّا فِي الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ وَلَمْ یَصِحَّ تَصْرِیحٌ بِّالنَّہْيِ عَنْہُ. 

”سر منڈوانے کی عدم کراہت ہی درست معلوم ہوتی ہے، لیکن سر کے بال نہ منڈوانا سنت ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے حج و عمرہ کے علاوہ سر منڈوانا ثابت نہیں اور نہ ہی منع ثابت ہے۔” 
(المجموع شرح المھذب: ١/٢٩٦) 


لطیفہ: 
علامہ خطابی رحمہ اللہ (٣١٩۔٣٨٨ھ) حدیث (نَھٰی عَنِ الحلق قَبْلَ الصَّلٰوۃِ یَوْمَ النَّحْرِ) کے تحت لکھتے ہیں: 

اَلْحِلَقُ مَکْسُورَۃُ الْحَاءِ مَفْتُوحَۃُ اللَّامِ جَمَاعَۃُ الْحَلْقَۃِ وَکَانَ بَعْضُ مَشَایِخُنَا یَرَوْنَہ، أَنَّہ، نَہٰی عَنِ الْحَلْقِ بِسُکُونِ اللَّامِ وَأَخْبَرَنِي أَنَّہ، بَقِيَ أَرْبَعِینَ سَنَۃً لَّا یَحْلِقُ رَأْسَہ، قَبْلَ الصَّلَاۃِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فَقُلْتُ لَہ، إِنَّمَا ہُوَ الْحِلَقُ جَمْعُ الْحَلْقَۃِ؛ وَإِنَّمَا کَرِہَ الِاجْتِمَاعَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ لِلْعِلْمِ وَالْمُذَاکَرَۃِ وَأَمَرَ أَنْ یَّشْتَغِلَ بِالصَّلَاۃِ وَیَنْصِتَ لِلْخُطْبَۃِ وَالذِّکْرِ فَإِذَا فَرَغَ مِنْہَا کَانَ الِاجْتِمَاعُ وَالتَّحَلُّقُ بَعْدَ ذٰلِکَ فَقَالَ: قَدْ فَرَّجْتَ عَنِّي وَجَزَانِي خَیْراً وَکَانَ مِنَ الصَّالِحِینَ رَحِمَہ، اللّٰہُ. 

”(حلق) حا کے نیچے زیر اور لام پر زبر کے ساتھ حلقہ کی جمع ہے۔ ہمارے بعض مشائخ اس حلق (لام کی جزم کے ساتھ) سے سمجھے کہ اس سے مراد جمعہ والے دن نماز سے پہلے سر نہ منڈوایا جائے۔ مجھے خبر ملی کہ وہ چالیس سال تک نمازِ جمعہ سے پہلے سر منڈوانے سے رکے رہے۔ پھر میں نے انہیں کہا کہ یہ تو حلقہ کی جمع ہے، مراد یہ ہے کہ نمازِ جمعہ سے پہلے اجتماع اور علمی مذاکرہ قائم کرنے کے لیے بیٹھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور نوافل اور خطبہ سننے کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اجتماع و حلقے جائز ہیں۔ شیخ فرمانے لگے: آپ نے میرا مسئلہ ہی حل کردیا۔ نیز انہوں نے مجھے جزاک اللہ خیرا کہا۔ آپ رحمہ اللہ نیک و پارسا آدمی تھے۔” 
(معالم السنن: ١/٢٤٧) 

تنبیہ: 
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: 
قِیلَ: مَا سِیمَاہُمْ؟ قَالَ: سِیمَاہُمْ التَّحْلِیقُ أَوْ قَالَ: التَّسْبِیدُ. 

”[صحابہ کرام] نے پوچھا: خارجیوں کی نشانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سر منڈوانا۔” 
(صحیح البخاري: ٧٥٦٢) 
صحیح مسلم (١٠٦٤) کی روایت ہے۔ 

سِیمَاھُمُ التَّحَالُقُ. 
”سر منڈوانا ان کی نشانی ہے۔” 
اس حدیث کی وضاحت شارحینِ حدیث کی زبانی سنیں۔ 

شارحِ صحیح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں: 
وَالْمُرَادُ بِالتَّحَالُقُ حَلْقُ الرُّؤُوسِ وَفِي الرِّوَایَۃِ الْـأُخْرٰی التَّحَلُّقُ وَاسْتَدَلَّ بِہٖ بَعْضُ النَّاسِ عَلٰی کَرَاہَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ وَلَا دَلَالَۃَ فِیہِ وَإِنَّمَا ہُوَ عَلَامَۃٌ لَّہُمْ وَالْعَلَامَۃُ قَدْ تَکُونُ بِحِرَامٍ وَّقَدْ تَکُونُ بِمُبَاحٍ کَمَا قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: آیَتُہُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدٰی عَضُدَیْہِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَۃِ وَمَعْلُومٌ أَنَّ ہٰذَا لَیْسَ بِحِرَامٍ وَّقَدْ ثَبَتَ فِي سُنَنِ أَبِي دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٍ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (رَآی صَبِیًّا قَدْ حَلَقَ بَعْضَ رَأْسِہٖ فَقَالَ احْلِقُوہُ کُلَّہ، أَوِ اتْرُکُوہ، کُلَّہ،) وَہٰذَا صَرِیحٌ فِي إِبَاحَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ لَا یَحْتَمِلُ تَأْوِیلًا، قَالَ أَصْحَابُنَا حَلْقُ الرَّأْسِ جَائِزٌ بِّکُلِّ حَالٍ لّٰکِنْ إِنْ شَقَّ عَلَیْہِ تَعَہُّدُہ، بِالدُّہْنِ وَالتَّسْرِیحِ اسْتُحِبَّ حَلْقُہ، وَإِنْ لَمْ یَشُقَّ اسْتُحِبَّ تَرْکُہ. 

”تحالق سے مراد سروں کو مونڈھنا ہے، دوسری روایت میں تحلق کے الفاظ ہیں۔ بعض لوگوں نے اس سے سر منڈوانے کی کراہت پر دلیل بنانے کی کوشش کی ہے، جب کہ ان کی یہ دلیل بنتی نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ تو خارجیوں کی ایک علامت بیان ہوئی ہے اور علامت حرام چیز سے بھی ہو سکتی ہے اور مباح اور جائز سے بھی۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ان کی علامت یہ ہے کہ ان میں ایک سیاہ فام آدمی ہوگا، جس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح ہو گا۔ یہ تو طے ہے کہ یہ کوئی حرام چیز نہیں ہے۔ اس پر سہاگہ یہ کہ سنن ابو داؤد (٤١٩٢) کی روایت جو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے، میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا جس کا کچھ سر مونڈھا ہوا تھا اور کچھ چھوڑ دیا گیا تھا، آپ نے فرمایا: ”سارا سر مونڈھو یا سارا چھوڑ دو۔” حلق کے جواز پر یہ حدیث اس قدر صریح ہے کہ تاویل کی کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی۔ ہمارے اصحاب کہتے ہیں کہ سر منڈوانا ہر حال میں جائز ہے۔ بالوں کو تیل و کنگھی کا اہتمام کرنا مشکل ہو، تو سر منڈوانا مستحب ہے اور اگر مشکل نہیں، تو بال رکھنا مستحب ہے۔” 
(شرح صحیح مسلم: ٧/١٦٧) 

علامہ طیبی (٧٤٣ھ) لکھتے ہیں: 
(اَلتَّحْلِیقُ) أَيْ عَلَامَتُہُمُ التَّحْلِیقُ، وَإِنَّمَا أُتِي بِہٰذَا الْبَنَاءِ إِمَّا لِتَعْرِیفِ مُبَالَغَتِہِمْ فِي الْحَلْقِ أَوِ لْـإِکْثَارِہِمْ مِّنْہ، ، وَفِیہِ وَجْہَانِ، أَحَدُہُمَا: اسْتِئْصَالُ الشَّعْرِ مِنَ الرَّأْسِ، وَہُوَ لَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْحَلْقَ مَذْمُومٌ، فَإِنَّ الشِّیَمَ والْحِلَی الْمَحْمُودَۃَ قَدْ یَتَزَیَّنُ بِہِ الْخَبِیثُ تَلْبِیسًا تَرْوِیجًا لِّخُبْثِہٖ وَإِفْسَادِہٖ عَلٰی النَّاسِ، وَہُوَ کَوَصْفِہِمْ بِّالصَّلَاۃِ وَالصِّیَامِ. 

”یعنی ان کی علامت سر منڈوانا ہے۔ تحلیق کا لفظ اس لیے لایا گیا کہ یا تو وہ سر مونڈھنے میں مبالغہ کرتے ہوں گے یا کثرت سے سر منڈواتے ہوں گے۔ لہٰذا اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلاً سر کے بال جڑ سے ہی اکھاڑ دینا۔ اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ حلق کرنا مکروہ ہے، کیوں کہ کبھی برا آدمی اپنی خباثت کو فروغ دینے اور لوگوں کے لیے فساد کھڑا کرنے کے لیے عمدہ اخلاق اور ظاہری وضع قطع کا روپ دھارتا ہے۔ یہ خارجی بھی ایسے ہی ہوں گے، جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان کر دیا ہے۔” 
(شرح الطیبي: ٨/٢٥٠٤) 

علامہ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩۔٩١١ھ) لکھتے ہیں: 
قَالَ الْقُرْطُبِيُّ: قَوْلُہ، سِیمَاہُمُ التَّحْلِیقُ أَيْ جَعَلُوا ذَالِکَ عَلَامَۃً لَّہُمْ عَلٰی رَفْضِہِمْ زِینَۃَ الدُّنْیَا وَشِعَارًا لِّیُعْرَفُوا بِہٖ وَہٰذَا مِنْہُمْ جَہْلٌ بِّمَا یُزْہَدُ وَمَالَا یُزْہَدُ فِیہِ وَابْتِدَاعٌ مِّنْہُمْ فِي دِینِ اللّٰہِ شَیْئًا. 

”امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سِیمَاہُمُ التَّحْلِیقُ" کا معنی یہ ہے کہ وہ سر منڈوانے کو دنیا سے بے رغبتی کا معیار اور شعار بنا لیں گے کہ اس سے پہچان ہو سکے۔ یہ ان کی معیارِ زہد سے نا واقفیت اور دین میں اختراع کی بنا پر ہو گا۔” 
(حاشیۃ السیوطي علی النسائي: ٧/١٢١) 


تنبیہات: 
~~~~~؛

1. بعض لوگ بچوں کو مزاروں، مقبروں اور خانقاہوں پر لے جا کر ان کے سر کے بال منڈاتے ہیں، بزرگوں کے نام پر بالوں کی لٹ چھوڑ دیتے ہیں، یہ واضح شرک ہے، نیز ممنوع و حرام بھی ہے، کیوں کہ یہ قزع کی صورت بنتی ہے۔ 

2. شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) سر کے بال منڈوانے کی ایک نا جائز اور حرام صورت یوں بیان کرتے ہیں: 

حَلْقُہ، عَلٰی وَجْہِ التَّعَبُّدِ وَالتَّدَیُّنِ وَالزُّہْدِ؛ مِنْ غَیْرِ حَجٍّ وَّلَا عُمْرَۃٍ مِّثْلَ مَا یَأْمُرُ بَعْضُ النَّاسِ التَّائِبَ إذَا تَابَ بِحَلْقِ رَأْسِہٖ وَمِثْلَ أَنْ یُّجْعَلَ حَلْقُ الرَّأْسِ شِعَارَ أَہْلِ النُّسُکِ وَالدِّینِ؛ أَوْ مِنْ تَمَامِ الزُّہْدِ وَالْعِبَادَۃِ أَوْ یُجْعَلَ مَنْ یَّحْلِقُ رَأْسَہ، أَفْضَلَ مِمَّنْ لَّمْ یَحْلِقْہُ أَوْ أَدْیَنَ أَوْ أَزْہَدَ أَوْ أَنْ یُّقَصَّرَ مِنْ شَعْرِ التَّائِبِ
کَمَا یَفْعَلُ بَعْضُ الْمُنْتَسِبِینَ إلَی الْمَشْیَخَۃِ إذَا تُوْبَ أَحَدًا أَنْ یَّقُصَّ بَعْضَ شَعْرِہٖ وَیُعَیِّنُ الشَّیْخُ صَاحِبَ مِقَصٍّ وَسَجَّادَۃٍ؛ فَیَجْعَلُ صَلَاتَہ، عَلَی السَّجَّادَۃِ وَقَصَّہ، رُءُوسَ النَّاسِ مِنْ تَمَامِ الْمَشْیَخَۃِ الَّتِي یَصْلُحُ بِہَا أَنْ یَّکُونَ قُدْوَۃً یَّتُوبُ لِلتَّائِبِینَ فَہٰذَا بِدْعَۃٌ لَّمْ یَأْمُرِ اللّٰہُ بِہَا وَلَا رَسُولُہ، ؛ وَلَیْسَتْ وَاجِبَۃً وَّلَا مُسْتَحَبَّۃً عِنْدَ أَحَدٍ مِّنْ أَئِمَّۃِ الدِّینِ؛ وَلَا فَعَلَہَا أَحَدٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ لَہُمْ بِّإِحْسَانِ وَّلَا شُیُوخِ الْمُسْلِمِینَ الْمَشْہُورِینَ بِالزُّہْدِ وَالْعِبَادَۃِ لَا مِنَ الصَّحَابَۃِ وَلَا مِنَ التَّابِعِینَ وَلَا تَابِعِیہِمْ وَمَنْ بَّعْدَہُمْ مِّثْلُ الْفُضَیْلِ بْنِ عِیَاضٍ؛ وَإِبْرَاہِیمَ بْنِ أَدْہَمَ؛ وَأَبِي سُلَیْمَانَ الدَّارَانِيِّ وَمَعْرُوفٍ الْکَرْخِيِّ وَأَحْمَد بْنِ أَبِي الْحِوَارِيِّ؛ وَالسَّرِيِّ السَّقَطِيِّ؛ والْجُنَیْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَّسَہْلِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ التُسْتَرِيِّ وَأَمْثَالِ ہٰؤُلَاءِ لَمْ یَکُنْ ہٰؤُلَاءِ یَقُصُّونَ شَعْرَ أَحَدٍ إذَا تَابَ وَلَا یَأْمُرُونَ التَّائِبَ أَنْ یَّحْلِقَ رَأْسَہ، ، وَقَدْ أَسْلَمَ عَلٰی عَہْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیعُ أَہْلِ الْأَرْضِ وَلَمْ یَکُنْ یَّأْمُرُہُمْ بِّحَلْقِ رُءُ وسِہِمْ إذَا أَسْلَمُوا وَلَا قَصَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأْسَ أَحَدٍ. 

”حج و عمرہ کے علاوہ نیکی، دینداری اور زہد سمجھ کر سر منڈوانا ممنوع و حرام ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ توبہ کرنے والے کو سر منڈوانے کا کہتے ہیں۔ یا سر منڈوانا اللہ والوں کا شعار و معیار قرار دینا یا زہد و عبادت کی تکمیل کا ذریعہ سمجھنا یا اسے دوسروں سے افضل، دیندار اور زاہد سمجھنا یا گناہ سے تائب ہونے والے کے کچھ بال کاٹ دینا، جیسا کہ بزرگوں کی طرف منسوب بعض لوگوں کا وطیرہ ہے کہ جب کسی کو توبہ کرواتے ہیں، تو اس کے کچھ بال کاٹ دیتے ہیں اور بزرگ صاحب کاٹنے والے اور جائے نماز کا تعین بھی کرتا ہے۔ وہ نماز اس مصلے پر ادا کرتا ہے اور اس کے بال بزرگی کی تکمیل کے لیے سب کے سامنے کاٹے جاتے ہیں، تاکہ توبہ کرنے والوں کے لیے نمونہ بن جائے۔ یہ تو صریح بدعت ہے، اللہ اور اس کے رسول نے اس کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی ائمہ دین کے ہاں اس کے واجب، یا مستحب ہونے کی کوئی حیثیت ہے۔  صحابہ کرام، تابعین عظام اور زہد و تقوی سے مزین شیوخ المسلمین نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ایسا کوئی نہ صحابہ میں تھا، نہ ہی تابعین و اتباع تابعین میں۔ جیسا کہ فضیل بن عیاض، ابراہیم بن ادہم، ابو سلیمان دارانی، معروف کرخی، سری سقطی، جنید بن محمد اور سہل بن عبد اللہ تستری وغیرہم گناہ سے توبہ کرتے ہوئے بال نہیں کاٹتے تھے اور نہ کسی توبہ کرنے والے کو کاٹنے کا کہتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پورا عرب مسلمان ہو کر تائب ہوا لیکن آپ نے انہیں اپنے بال کاٹنے کا نہیں کہا اور نہ ہی خود کسی کے بال کاٹے۔ 
(مجموع الفتاویٰ: ٢١/١١٧۔١١٩) 

احمد رضا خان بریلوی صاحب لکھتے ہیں: 
”بعض جاہل عورتوں میں دستور ہے کہ بچے کے سر پر بعض اولیائے کرام کے نام کی چوٹی رکھتی ہیں اور اس کی کچھ میعاد مقرر کرتی ہیں، اس میعاد تک کتنے ہی بار بچے کا سر منڈے وہ چوٹی برقرار رکھتی ہیں، پھر میعاد گزار کر مزار پر لے جا کر وہ بال اتارتی ہیں، تو یہ ضرور محض بے اصل وبدعت ہے۔” 
(فتاوی افریقہ، ص: 73) 

3. مصیبت کے وقت سر منڈوانا کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ محرم الحرام میں غم حسین میں سر کے بال منڈوا لیتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی بات ہے۔ مومنوں کو چاہیے کہ وہ مصائب و آلام میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کا مظاہرہ کریں۔ جیسا کہ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے بیماری کی حالت میں کہا تھا: 

أَنَا بَرِيءٌ مِّمَّنْ بَّرِیئَ مِنْہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَرِیئَ مِنَ الصَّالِقَۃِ وَالْحَالِقَۃِ وَالشَّاقَّۃِ. 

”جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بری ہیں، میں بھی اس سے بری ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کے وقت بین اور واویلہ کرنے والی، سر منڈوانے والی اور کپڑے پھاڑنے والی سے بری ہیں۔” 
(صحیح البخاري: ١٢٩٦، صحیح مسلم: ١٠٤) 


حج وعمرہ میں بال منڈانا مستحب ہے: 
~~~~~~~~~~~~~؛

حج و عمرہ میں سر کے بال منڈوانے کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ اس کی مشروعیت و سنیت کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(مُحَلِّقِینَ رُء ُوسَکُمْ وَمُقَصِّرِینَ) 
(الفتح: ٢٧) 
”اپنے سر کے بال منڈوانے والے اور کٹوانے والے۔” 


حج و عمرہ میں سر کے بال منڈوانا افضل اور کٹوانا جائز ہے۔ 
~~~~~~~~~~~~~؛

جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

اَللّٰہُمَّ ارْحَمِ المُحَلِّقِینَ، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِینَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: اللّٰہُمَّ ارْحَمِ المُحَلِّقِینَ قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِینَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: وَالْمُقَصِّرِینَ. 

”اللہ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ عرض گزار ہوئے: اللہ کے رسول! سر کے بال کٹوانے والوں کے لیے بھی دعا فرمائیے۔ فرمایا: اللہ! سر کے بال منڈوانے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ کرام نے پھر عرض کی: اللہ کے رسول! بال کٹوانے والوں پر بھی!۔ فرمایا: بال کٹوانے والوں پر بھی۔” 
(صحیح البخاري: ١٧٢٧، صحیح مسلم: ٣١٠١) 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بال منڈوانے والوں کے حق میں تین بار دعائے رحمت و مغفرت فرمائی۔ صحابہ کرام کے کہنے پر بال کٹوانے والوں کے حق میں ایک بار دعا فرمائی۔ 

فائدہ نمبر 1: 
صحیح البخاری (١٧٢٨) اور صحیح مسلم (١٣٠٢) میں دعائے مغفرت بھی ثابت ہے۔ 

فائدہ نمبر 2: 
حج و عمرہ میں عورتوں کے لیے ایک دو انچ بال کٹوانے کی اجازت ہے۔  جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

لَیْسَ عَلَی النِّسَاءِ الْحَلْقُ، إِنَّمَا عَلَی النِّسَاءِ التَّقْصِیرُ. 

”عورتیں سر کے بال نہیں منڈوائیں گی، بلکہ صرف (معمولی) بال کاٹ لیں گی۔” 
(سنن أبي داؤد: ١٩٨٥، سنن الدارمي: ٢/٦٤، سنن الدارقطني: ٢/٢٧١، و سندہ، حسنٌ) 
اس حدیث کو امام ابو حاتم رازای رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔ 
(العلل لابن أبي حاتم: ١/٢٨١) 
حافظ نووی رحمہ اللہ (المجموع: ٨/١٩٧) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (بلوغ المرام: ٧٦٩) نے اس کی سند کو ”حسن” کہا ہے۔ 

حافظ ابن المنذر (٢٤٢۔٣١٩ھ) لکھتے ہیں: 
أَجْمَعُوا أَنْ لَّیْسَ عَلَی النِّسَاءِ حَلْقٌ. 

”اہل علم کا اجماع ہے کہ عورتیں بال نہیں منڈوائیں گے۔ 
(الإجماع، ص: ٥٨، الإشراف علی مذاہب العلماء: ٣/٣٥٩) 

بہت سارے اہل علم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ جیسا کہ
حافظ ابن القطان فاسی (الامتناع فی مسائل الاجماع: ١٦٤٦)، حافظ نووی (المجموع: ٨/٢١٠)، علامہ ابن قدامہ مقدسی (المغنی: ٣/٣٩٠)، علامہ قرطبی (تفسیر قرطبی: ٢/٣٨١)، علامہ کاسانی حنفی (بدائع الصنائع: ٢/١٤١) وغیرہ۔ 
شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٨٥٢ھ) لکھتے ہیں: 

وَأَمَّا النِّسَاءُ فَالْمَشْرُوعُ فِي حَقِّہِنَّ التَّقْصِیرُ بِالْإِجْمَاعِ. 

”حج و عمرہ میں عورتوں کے لیے (معمولی) بال کاٹنا بالاجماع مشروع ہے۔”
(فتح الباري: ٣/٥٦٥) 

تنبیہ: 
علامہ کاسانی حنفی (م: ٥٨٧ھ) لکھتے ہیں: 
لِہٰذَا لَمْ تَفْعَلْہُ وَاحِدَۃٌ مِّنْ نِّسَاءِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. 

”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں کسی نے بھی سر نہیں منڈوایا۔” 
(بدائع الصنائع: ٢/١٤١) 

کاسانی صاحب کی یہ بات درست نہیں۔ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے ایسا کرنا ثابت ہے۔ 

یزید بن اصم رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
رَأَیْتُ أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ مَیْمُونَۃَ تَحْلِقُ رَأْسَہَا بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. 

”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد میں نے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو سر منڈواتے دیکھا۔” 
(طبقات ابن سعد: ٨/١١٠، المعجم الکبیر للطبراني: ٢٣/٤٢٢، ح: ١٠٢٢، وسندہ، حسنٌ) 

نیز کہتے ہیں: 
دَفَنَّا مَیْمُونَۃَ بِسَرِفَ فِي الظُّلَّۃِ الَّتِي بَنٰی بِہَا فِیہَا رَسُولُ اللّٰہِ وَکَانَتْ یَوْمَ مَاتَتْ مَحْلُوقَۃً قَدْ حَلَقَتْ فِي الْحَجِّ. 

”ہم نے سرف مقام پر سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو اسی شامیانے میں دفن کیا، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی رخصتی ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے سر کے بال وفات والے دن مونڈے ہوئے تھے، جو انہوں نے حج کے موقع پر منڈوائے تھے۔” 
(الطبقات لابن سعد: ٨/١١٠، سندہ، صحیحٌ) 

سیدہ میمونہ نے اجتہاداً ایسا کر لیا، چوں کہ آپ بوڑھی تھیں اور دنیا سے بے غرض تھیں۔ 


حالتِ احرام میں عذر کی بنا پر سر منڈانے کی اجازت: 
~~~~~~~~~~~~~؛

احرام میں مریض کو دوائی لگانے یا جوؤں کو تلف کرنے کی غرض سے سر کے بال منڈوانے کی شریعت مطہرہ میں اجازت ہے۔ 

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
(وَلَا تَحْلِقُوا رُء ُوسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْيُ مَحِلَّہ، فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیضًا أَوْ بِہٖ أَذًی مِّنْ رَّأْسِہٖ فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ) 
(البقرۃ: ١٩٦) 

”اس وقت تک سر نہ منڈواؤ، جب تک قربانی ذبح نہ کر دی جائے، جو بیمار ہو یا سر میں تکلیف ہو (وہ ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوا سکتا ہے لیکن) روزوں، صدقہ یا دم کا فدیہ ہے۔” 

سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے سر میں جوئیں پڑ گئیں، جو ان کے لیے حالت احرام میں باعث اذیت تھیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

اِحْلِقْ رَأْسَکَ، وَصُمْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ، أَوْ أَطْعِمْ سِتَّۃَ مَسَاکِینَ، أَوْ انْسُکْ بِشَاۃٍ. 

”اپنے سر کے بال منڈوا دیں اور تین روزیں رکھ لیں یا چھ مساکین کو کھانا کھلا دیں یا ایک بکری ذبح کردیں۔” 
(صحیح البخاري: ١٨١٤، صحیح مسلم: ١٢٠١) 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: ٧٢٨ھ) فرماتے ہیں: 
حَلْقُ الرَّأْسِ لِلْحَاجَۃِ مِثْلُ أَنْ یَّحْلِقَہ، لِلتَّدَاوِي فَہٰذَا أَیْضًا جَائِزٌ بِّالْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَالْإِجْمَاعِ. 

”حاجی کے لیے بہ وقت ضرورت دوائی وغیرہ لگانے کے لئے سر منڈوانا کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔” 
(مجموع الفتاویٰ: ٢١/١١٧) 


پیالہ کٹنگ: 
~~~~~~؛

قزع (پیالہ کٹنگ) کی بہت ساری صورتیں ہیں۔ 

1. 
سر کے بال بغیر ترتیب کے منڈوانا۔ مثلا سر کے دائیں بائیں اور پیشانی کے بال منڈوا لینا اور باقی کو چھوڑ دینا۔ 

2. 
سر کے درمیان سے بال منڈوانا اور سائیڈوں کے بال چھوڑ دینا۔ 

3. 
سر کے درمیان سے بال چھوڑ دینا اور سائیڈوں کے بال منڈوا دینا۔ 

4. 
پیشانی کے بال منڈوانا اور سر کے باقی حصے کے بال چھوڑ دینا وغیرہ۔ 

یہ ساری کی ساری ممنوع و حرام صورتیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہ کفار کی مشابہت ہے، کافروں کی وضع قطع اختیار کرنا حرام ہے، یہ غیر سنجیدہ، گھٹیا اور پست ذہنیت کی عکاسی ہے۔ 

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: 
سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہٰی عَنِ القَزَعِ. 

”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیالہ کٹنگ سے منع فرماتے ہوئے سنا۔” 
(صحیح البخاري: ٥٩٢٠، صحیح مسلم: ٢١٢٠) 


http://mazameen.ahlesunnatpk.com/masla-sar-k-balon-ka 

~~~~~~~~~~~~~; 

Salafi Tehqiqi Library
سلفی تحقیقی لائبریری

Website:
ویبسائٹ:

فیس بک گروپ:

کتاب و سنت اور فہم سلف پر مبنی تحقیق و تخریج کردہ دینی کتب و مقالات کی لنکس حاصل کر سکتے ہیں کبھی بھی کسی بھی وقت، ٹیلگرام چینل

*"سلفی تحقیقی لائبریری"*

میں جوائین ہوکر، سرچ کرکے

بذریعہ ٹیلیگرام اس چینل میں جوائین کرنے کیلئے لنک 👇🏻
ٹیلی گرام چینل:
Telegram Channel:

~~~~

ٹیلی گرام اکاؤنٹ اوپن کرنے کیلئے حاصل کریں ٹیلی گرام کی ایپ نیچے کی لنک سے 👇🏻

 "Telegram"

~~~~

شئیر

.

منگل، 20 جولائی، 2021

مسجد میں عید کی نماز اور تحیۃ المسجد مختلف علماء ‏

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
^…^…^…^…^…^…^…^…^

مسجد میں عید کی نماز اور تحیۃ المسجد 

مختلف علماء 

جمع و ترتیب 
سید محمد عزیر ادونوی 

~~~~~~~~~~~~~; 

۱. 
عیدگاہ میں نفل ادا کرنا: 

نماز عید سے قبل اور بعد میں کوئي نفل نہیں ہیں ، جیسا کہ مندرجہ ذيل ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں ہے :

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن نماز عید کے لیے عیدگاہ نکلے اور دو رکعت ادا کی ان سے پہلے اور بعد میں کوئي نماز ادا نہيں فرمائي ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1159 ) ۔

یہ تو اس وقت ہے کہ جب عیدگاہ یا پھر عام جگہ پر نماز عید ادا کی جائے لیکن اگر لوگ نماز عید مسجد میں ادا کریں تو پھر مسجد میں داخل ہو کر بیٹھنے سے قبل دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کریں گے  ۔ 

بحوالہ 
عید کے احکام و آداب 
محمد صالح المنجد 
https://islamqa.info/ur/articles/72/%D8%B9%DB%8C%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AD%DA%A9%D8%A7%D9%85-%D9%88%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%A8

~~~~~~~~~~~~~; 

۲. 
س: عید کی نماز سے پہلے یا بعد عیدگاہ میں نوافل پڑھنے منع ہیں ۔ دوسری حدیث ہے کہ تم میں سے جب بھی کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیے کہ وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرلے۔ ایک جگہ عید کی نماز مسجد میں ادا کی جاتی ہے تو آنے والے تحیۃ المسجد ادا کریں یا نہ کریں ؟ (محمد یونس ، نوشہرہ ورکاں )


ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (( إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَّجْلِسَ))[ ’’ جب تم میں سے کوئی ایک مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ( نفل تحیۃ المسجد کے طور پر) پڑھ لے۔‘‘ [1] آپ کی پیش کردہ صورت کو بھی شامل ہے۔ عید کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نہیں ۔ عیدگاہ میں پڑھا کرتے تھے۔ اس صورت میں یہ سوال وارد ہی نہیں ہوتا۔ عیدگاہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید سے پہلے اور بعد کچھ نہیں پڑھتے تھے۔ تحیۃ المسجد کی نفی نہیں ۔ 

احکام و مسائل 
ج ۲،  ص ۳۴۸ 

~~~~~~~~~~~~~; 

۳. 
س: اگر بلا عذر یا باعذر عید کی نماز مسجد میں پڑھی جائے تو تحیۃ المسجد (دو رکعتیں ) نماز عید سے پہلے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟ (ماسٹر عبدالرؤف) 


ج: بے عذر یا باعذر عید کی نماز مسجد میں پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان و حکم: (( إِذَا دَخَلَ أحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَجْلِسَ)) [2] [ ’’ جب تم مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھا کرو۔‘‘] ثابت اور صحیح بخاری میں موجود ہے۔ ۲۹ ؍ ۱۲ ؍ ۱۴۲۳ھ

احکام و مسائل 
ج ۲،  ص ۳۴۸ 

~~~~~~~~~~~~~; 

۴. 
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نمازِ عید کے بعد اجتماعی دعا کرنا سنت سے ثابت ہے۔ جبکہ حیض و نفاس والیوں کو بھی دعا میں شریک ہونے کا حکم ہے اور کیا مسجد میں نماز عید پڑھنے کی صورت میں مسجد میں تحیۃ المسجد پڑھے جائیں گے یا ویسے ہی بیٹھ جائیں ؟ صحیح احادیث کی روشنی میں جواب دیویں۔ شکری ہ. 
  (ظفر اقبال ، نارووال) 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
:… آپ لکھتے ہیں ’’ جبکہ حیض و نفاس والیوں کو بھی دعا میں شریک ہونے کا حکم ہے‘‘ تو دعاء کو تو جناب خود ہی تسلیم فرما رہے ہیں البتہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا ہاتھ اُٹھانا اس دعاء میں بھی ثابت نہیں۔ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا فرمان: ((إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَجْلِسَ)) آپ کی پیش کردہ صورت کو بھی متناول و شامل ہے لہٰذا دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے یا کھڑا رہے کیونکہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں۔           

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 04
https://urdufatwa.com/view/1/4729 

~~~~~~~~~~~~~; 

۵. 
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر نماز عید مسجد میں پڑھی جائے تو کیا نماز عید سے پہلے تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھ لینی چاہیے یا انہیں ادا کیے بغیر ہی بیٹھ جائے۔ قرآن وحدیث میں اس کے متعلق کیا وضاحت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز عید سے پہلے کسی قسم کی نماز سنت یا نفل پڑھنا ثابت نہیں ہے، ایک حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن دو رکعت نماز پڑھائی جبکہ دو رکعتوں سے پہلے اور بعد کوئی نماز نہیں پڑھی۔ [1]

 البتہ عیدگاہ سے فارغ ہونے کے بعد گھر جا کر دو رکعت پڑھی جا سکتی ہیں جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عید سے پہلے کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے البتہ جب اپنے گھر کی طرف لوٹتے تو دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ [2]

 البتہ سوال میں ذکر کردہ تحیۃ المسجد کی دو رکعت سے ضرور مغالطہ ہوتا ہے، واقعی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو اس وقت تک مسجد میں نہ بیٹھے جب تک دو رکعت نماز ادا نہ کر لے۔ [3]اس روایت کی بنا پر تحیۃ المسجد کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے، لیکن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید سے پہلے کوئی نماز نہیں پڑھی، اس لیے ہمارے رجحان کے مطابق بہتر یہ ہے کہ نماز عید سے پہلے کوئی نفل وسنت نہ پڑھے جائیں خواہ نماز عید مسجد میں ہی کیوں نہ ادا کی جائے، کیونکہ لوگ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے ان دو رکعت کو نماز عید کا کچھ حصہ سمجھ کر ادا کرنا شروع کر دیں گے۔ (و ﷲ اعلم) 
 
[1] صحیح بخاری، العیدین: ۹۸۹۔
[2] ابن ماجہ، اقامة الصلوٰت: ۱۲۹۳۔
[3] بخاری، التہجد: ۱۶۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب 


فتاویٰ اصحاب الحدیث 
جلد3۔صفحہ نمبر 147 
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/19795 

~~~~~~~~~~~~~; 

۶. 
~~~~~~~~~~~~~; 

۷. 

Salafi Tehqiqi Library
سلفی تحقیقی لائبریری

Website:
ویبسائٹ:

فیس بک گروپ:

کتاب و سنت اور فہم سلف پر مبنی تحقیق و تخریج کردہ دینی کتب و مقالات کی لنکس حاصل کر سکتے ہیں کبھی بھی کسی بھی وقت، ٹیلگرام چینل

*"سلفی تحقیقی لائبریری"*

میں جوائین ہوکر، سرچ کرکے

بذریعہ ٹیلیگرام اس چینل میں جوائین کرنے کیلئے لنک 👇🏻
ٹیلی گرام چینل:
Telegram Channel:

~~~~

ٹیلی گرام اکاؤنٹ اوپن کرنے کیلئے حاصل کریں ٹیلی گرام کی ایپ نیچے کی لنک سے 👇🏻

 "Telegram"

~~~~

شئیر

.

اتوار، 18 جولائی، 2021

بھینس ‏کی ‏قربانی ‏اور ‏کتب ‏احناف ‏محمد ‏جعفر ‏انوار ‏الحق ‏الھندی

.
بسم اللہ الرحمن الرحیم 

بھینس کی قربانی کتبِ احناف کی نظر میں 

‌استاذ الاساتذہ، شیخ الحدیث، (جامعہ اسلامیہ دریاباد) فضیلۃالشیخ مولانا محمد جعفر انوارالحق الھندی 

---------------------------------------------

بھینس کی قربانی کے متعلق فرماتے ہیں کہ '' بھینس کی قربانی درست نہیں ہے کیوں کہ اسکی قربانی کا ثبوت قرآن و سنت اور تعامل صحابہ میں موجود نہیں ہے اس لئیے اس کی قربانی کرنا غلط ہے، قربانی ایک عبادت ہے اور عبادت کے لئیے دلیل چاہئیے بغیر دلیل کے عبادت ثابت نہ ہوگی اور چونکہ بھینس کی قربانی کے لئیے کوئی دلیل نہیں ہے اس لئیے شریعت میں بھینس کی قربانی درست نہ ہوگی''
‌قاعدہ ہے اَلْأَصْلُ فِي الْعِبَادَاتِ اَلْبُطْلَانُ حَتَّى يَقُومَ دَلِيْلٌ عَلَى الْأَمْرِ
‌ شرعی نقطئہ نظر سے جب تک کسی عبادت کے متعلق کوئی دلیل نہیں مل جاتی تب تک کسی بھی قسم کی عبادت کرنا بدعت، باطل اور فاسد ہے 

‌ قارئین :- سورۃ الانعام 142/143/144 میں جن جانوروں کی قربانی کرنے کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے اس میں بھینس شامل ہی نہیں ہے تو پھر ہمیں اسکی قربانی کرنے کا حق کہاں سے مل گیا؟
‌ اس کی مشروعیت کا ثبوت کہاں سے مل گیا؟
‌ ہمیں اس کی قربانی کرنے کی اجازت کس نے دی؟
‌ کیا ہمارا دین ساڑھے چودہ سو سال پہلے مکمل نہیں ہوا تھا؟
‌یا نعوذباللہ اب بھی مسئلوں کے ایاب و ذہاب کا سلسلہ جاری و ساری ہے؟
‌بعض حضرات لغویوں کے اس قول '' *اَلْجَامُْوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ*'' کے بناء پر کہتے ہیں کہ بھینس کی قربانی جائز ہے
‌ شیخ الحدیث (جامعہ اسلامیہ دریاباد) اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں
‌ کہ ایسے لوگوں کو'' اہل لغت کے ان اقوال پر بھی غور کرنا چاہئیے '' * وَ یُقَالُ اَلثَّوْرُ الْوَحْشِیُّ '' شَاۃً'' (تہذیب اللغۃ 6/191
‌ اور: وَ قِیْلَ اَلشَّاۃُ تَکُوْنُ مِنَ الْضَأْنِ وَالْمَعْزِ وَالظَّبَاءِ وَالْبَقَرِ وَالنِّعَامِ وَ حِمْرِالْوَحْشِ (تہذیب اللغۃ4/402-403)
‌ اور: وَالْشَّاۃُ: اَلْوَاحِدَۃُ مِنَ الْغَنَمِ تَکُوْنُ لِلذَّکَرِ وَالْأُنْثىَ وَقِیْلَ: اَلْشَّاۃُ تَکُوْنُ مِنَ الضَّأْنِ وَالْمَعْزِ وَالظَّبَاءِ وَالْبَقَرِ وَالِّنعَامِ وَ حِمْرِالْوَحْشِ (لسان العرب لابن منظور 13/509''
تو اب یہ بتائیے کیا لغت کے اعتبار سے یہ کہا جائے گا کہ ہرن، اور نیل گائے، بھیڑیا، اور جنگلی گدھے شاۃ کی قسم میں داخل ہونے کی وجہ سے ان کی قربانی جائز ہوگی؟ ان کی قربانی کرنا مشروع ہوگا؟
نیز
کہتے ہیں :- کہ بھینس کی قربانی اس لئیے جائز ہے کیوں کہ وہ جگالی کرتی ہے
حضور جگالی تو Sheep (🐺 بھیڑیا)،
🦌 (Deer ہرن)،
Red Deer( لال ہرن 🦌)
Domestik Sheep (🐺 گھریلو بھیڑ)
Zingo
Bongos
Info Dunia
یہ سب بھی کرتے ہیں تو ان کی بھی قربانی کو مشروع قرار دے دیجئیے
اسی لئیے قاعدہ بنایا گیا کہ '' *لا قیاس مع النص*'' قرآن و سنت کے ہوتے ہوئے عقل کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا، اگر عقل کا اعتبار کریں گے تو ایسی صورت میں اِن جانوروں کی قربانی کو بھی مشروع قرار دینا پڑے گا-
اور رہ گئی بات بھینس کے گوشت اور دودھ کو کھانے پینے کے ناطے قربانئی بھینس کے جواز کی
تو اس متعلق شیخ الحدیث (جامعہ اسلامیہ دریاباد) فرماتے ہیں کہ '' شریعت نے اس کو حرام قرار نہیں دیا ہے، اور ماکولات میں جسے شریعت نے حرام قرار نہیں کیا ہے وہ بالاتفاق حلال ہے کیوں کہ حدیث میں ہے
........ اَلْحَلاَلُ مَا أَحَلَّ اللّهُ وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ (ابوداؤد :380)
بھینس کا گوشت کھانا اور اس کا دودھ پینا عبادت نہیں ہے کہ اس کے لئیے دلیل کی ضرورت ہو بلکہ اس کا تعلق معاملات سے ہے جس میں اصل یہ ہے کہ ہر چیز حلال ہے سوائے اس کے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہو اس لئیے بلا شک و شبہ بھینس کا گوشت حلال و مباح ہے قاعدہ ہے وَالْأَصْلُ فِي الْعِبَادَاتِ اَلْمَنَعُ وَالتَّوْقِيْفُ؛ وَ فِی الْعَادَاتِ اَلْإِبَاحَةُ وَالْإِذنُ؛ وَ فِي الْإِبْضَاعِ التَّحْرِيْمُ؛ وَ فِي الْأَمْوَالِ اَلْمَنَعُ
اب آئیے کتب احناف سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں
قارئین عظام وکرام:.
احناف کے نزدیک بھینس کی قربانی جائز ہے اور ان کا یہ جواز کسی آیت و حدیث سے ماخوذ نہیں، بلکہ بھینس کی قربانی کے جواز کی دلیل '' *ہدایہ*'' کی یہ عبارت ہے :'' وَيَدْخُلُ في الْبَقَرِ الْجَامُوْسُ لِأَنَّهُ مِنْ جِنْسِهِ'' اور بھینس گائے کے حکم میں داخل ہے کیوں کہ بھینس گائے کی جنس ہے -
لیکن یہ استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے
1_ صاحب ہدایہ کی عبارت ہی دلیل ہے کہ بھینس اور گائے کی اجناس مختلف ہیں. کیوں کہ جو چیز حکماً کسی اور جنس میں داخل ہو. اسکی جنس اس چیز سے یقیناً مختلف ہوتی ہے -
2_ احناف کی عبارات اس بات کی گواہ ہیں کہ بھینس گائے کی جنس نہیں بلکہ بھینس اور گائے کی جنس مختلف ہیں. اس کے دلائل حسب ذیل ہیں
‌1_فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب در المختار میں مذکور ہے کہ '' وَلَا یَعُمُّ الْبَقَرُ الْجَامُوْسَ '' گائے بھینس کو عام نہیں (جنسِ گائے میں بھینس شامل نہیں) درالمختار :4/80
‌ حاشیہ رد المختار کے مصنف اس عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں : '' وَلَا یَعُمُّ الْبَقَرُ الْجَامُوْسَ (گائے بھینس کو شامل نہیں) أَیْ فَلَوْ حَلَفَ لَا يَأْكُلُ لَحْمَ بَقَرٍ وَلَا يَحْنَثُ بِأَكْلِ الْجَامُوْسٍ كَعَكْسِهِ لِأَنَّ النَّاسَ يُفَرِّقُوْنَ بَيْنَهُمَا؛
‌قِيْلَ يَحْنَثُ لِأَنَّ الَبَقَرَ أعم
‌ وَالصَّحِيْحُ الْاَوَّلُ كَمَا فِی النَّهْرِ التَّاتَرْخَانِيَةِ ''
‌ یعنی اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ وہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا. تو بھینس کا گوشت کھانے سے اسکی قسم نہیں ٹوٹے گی.
‌اسی طرح کوئی بھینس کا گوشت نہ کھانے کی قَسم کھائے تو گائے کا گوشت کھانے سے اسکی قَسم نہیں ٹوٹے گی.
‌ ایک ضعیف قول ہے کہ اِس عمل سے اسکی قَسم ٹوٹ جائےگی. کیوں کہ گائے عام ہے جس میں بھینس شامل ہے.
‌ لیکن پہلا قول راجح ہے
‌ جیسا کہ '' النھر'' میں فتاویٰ '' تاتار خانیہ'' سے منقول ہے- ( دیکھیں حاشیہ رد المختار :4/80)
‌ ''ہدایہ'' کی معروف شرح '' فتح القدیر'' میں منقول ہے : '' وَالْبَقَرُ لَا یَتَنَاوَلُ الْجَامُوْسَ لِلْعُرْفِ''
‌عرفِ عام میں بھینس گائے کی جنس میں شامل نہیں ہے- (دیکھیں فتح القدیر:11/267)
‌جب خود احناف بھینس کو گائے کی جنس تسلیم نہیں کرتے تو اِس مختلفُ الجنس چوپائے کو قربانی کے اُن چوپاؤں میں کیسے شامل کیا جاسکتا ہے. جن کے بارے میں قرآن و سنت میں واضح نص بیان ہوئی ہے
‌ میرے والد محترم شیخ الجامعہ (جامعہ اسلامیہ دریاباد) فضیلۃالشیخ حافظ مولانا عبد السمیع المدنی نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ '' اگر احناف اپنی کتابوں کا مطالعہ تعصب کے عینک کو اتر کر کریں تو انہیں اہل حدیثوں کا منہج اپنانے میں زرا دیر نہ لگے گی ''
‌محترم قارئین :- جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ احناف کی کتابوں میں خود اس بات کا ذکر موجود ہے کہ بھینس گائی کی جنس سے نہیں ہے
‌ پھر بھی علماء احناف بھینس کو جبرا گائے کی جنس میں شامل کرتے ہیں
‌ اللہ رب العالمین سے دعاء ہے کہ رب العالمین سب کو دین اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے
‌ آمین

بھینس کی قربانی سے متعلق مزید مقالات کیلئے 
.