جمعرات، 27 مئی، 2021

صلاۃ التسبیح کا حکم؟ مختلف علماء

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
؛*+*+*+*+*+*+*+*+*؛

صلاۃ التسبیح کا حکم؟ 

مختلف علماء کے عربی و اردو مقالات، فتاوی' اور کتب 

جمع کردہ 
سید محمد عزیر ادونوی 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛
؛~~~~~~~~~~~~~~؛

۱. 
ما حكم صلاة التسابيح؟ 

علامة إبن باز 

لنک

~~~~

۲. 
ماحكم صلاة التسبيح ؟ 

علامة الألباني


~~~~

۳. 
صلاة التسابيح وما ورد فيها


~~~~

۴. 
ماحكم صلاة التسابيح وكيفيتها وهل يوجد فيها تشهد بعد الركعة الثانية؟ 

موقع فضيلة الشيخ مشهور بن حسن آل سلمان 


~~~~

۵. 
ما حكم صلاة التسابيح؟ 

مشهور حسن سلمان 

لنک

~~~~

۶. 
صلاة التسابيح 


~~~~

۷. 
تخريج حديث صلاة التسابيح


~~~~

۸. 
«التّنقيح والتّرجيح» للاختلاف الواقع في «صلاة التّسبيح». 

الشيخ الدكتور خالد الحايك


~~~~

۹. 
القول الصحيح في صلاة التسابيح ... تفاصيل اختلاف المحدثين والفقهاء حولها والرأي الشرعي بها وكيفيتها - الأزهري 

لنک

~~~~

۱۰. 
نماز تسبیح کے تمام روایات ضعیف ہیں 

کفایت اللہ

http://forum.mohaddis.com...

~~~~

۱۱. 
رفع یدین پر حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ اورحدیث صلوۃ التسبیح پر ایک نظر  

تحریر: فضل اکبر کاشمیری 


~~~~

۱۲. 
(290) نماز تسبیح کو مکروہ ہے، ائمہ کرام میں سے کسی امام نے بھی اسے مستحب قرار نہیں دیاہے؟ 



~~~~

۱۳. 
(203) حدیث نماز تسبیح کی فضیلت حسن درجے کی روایت سے ثابت ہے


~~~~

۱۴. 
نماز تسبیح کے بارے میں کن کا موقف راجح ہے؟

محدث فتوی کمیٹی 


~~~~

۱۵. 
نماز تسبیح کی تین احادیث حجت ہیں، نماز تسبیح کے مسائل  

محدث العصر زبیر علی زئی 


~~~~

۱۶. 
(26) نلماز تسبیح کی روایات سندا و متنا دونوں ہی اعتبار سے قابل اعتماد نہیں ہیں 


~~~~

۱۷. 
(207) صلاة التسبیح کی روایت صحیح ہے 



~~~~

۱۸. 
نماز تسبیح کا حکم؟

مقبول احمد سلفی



~~~~

۱۹. 
تسبیح نماز کچھ فضائل اعمال کی قسم سے ہے۔ اس لیے اس پر عمل جائز ہے 


~~~~

۲۰. 
 نماز تسبیح کا راجح موقف لنکک
مقبول احمد سلفی 



~~~~

۲۱. 
نماز تسبیح کی حدیث تعدد طرق کی وجہ سے قابل عمل ہے 


~~~~

۲۲. 
(178) صلوٰۃ التسبیح رمضان المبارک میں ستائیس تاریخ کو جماعت سے پڑھنا 


~~~~

۲۳. 
(331) نماز تسبیح باجماعت پڑھنا جائز نہیں


~~~~

۲۴. 
(50) نماز تسبیح کو متعدد جلیل القدر محدثین نے صحیح قرار دیا ہے 


~~~~

۲۵. 
(928) حدیث نمازِ تسبیح صحیح لغیرہ کے درجہ کو پہنچتی ہے


~~~~

۲۶. 
نماز تسبیح کی روایات کن کن محدثین نے کیا کیا حکم لگایا 


~~~~

۲۷. 
سوال: نماز تسبیح کی فضیلت و طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں پیش کریں۔؟ 


~~~~

۲۸. 
🔴 صلاۃ التسبیح 🔴 

*“نمازِ تسبیح” پڑھنا صحیح نہیں۔ اس لئے کہ علماء نے اس سلسلے میں وارد أحادیث کو ضعیف بلکہ بعض نے موضوع تک کہا ہے۔*

◾️ *اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے، تو اس کے متن میں بڑی خرابی ہے، جو صحیح حدیثوں سے ٹکراتی ہے۔*

◾️ *اس طرح کی نماز (جس کی نظیر دوسری فروض ونوافل سے نہیں ملتی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں پڑھی ہی نہیں۔*

🔷 *ابنِ باز رحمہ اللہ اس ضمن میں کہتے ہیں:*
*"كل متن يخالف الأحاديث الصحيحة - وإن صح سنده- فإنه يعتبر شاذًا، فكيف إذا كان الإسناد معلولًا !".*
يعنی *ہر وہ متن جو صحیح احادیث کے مخالف ہو - بھلے ہی اس کی سند صحیح ہو - تو اسے شاذ سمجھا جائے گا [اور شاذ کا شمار ضعیف حدیثوں میں ہوتا ہے], پھر بات کیوں کر بنے، جب کہ سند بھی معلول [علت والی] ہو !۔*
*ماخوذ:* من الموقع الرسمي لسماحة الشيخ الإمام ابن باز رحمه الله

◾️ *علاوه ازیں،،*
*اس نماز کے قائل نہ تو چاروں امام ہیں۔ نہ ہی شیخ الإسلام ابنِ تیمیہ، ابن عثیمین اور شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ وغیرہ۔*

🟪 *لہذا؛*
*عجیب وغریب نمازِ تسبیح سے دور رہنا چاہیئے، اور ثابت شدہ نفلی نمازوں کا اہتمام کرنا چاہیئے۔*
              ✍️: ابو ہریرہ بن بشیر

~~~~

۲۹. 
🌹صلاة التسبیح کا ثبوت🌹

سوال(16- 429):صلاة التسبیح کا ادا کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟ 

جواب:صلاة التسبیح والی حدیث کی روایت امام ابو داود(1/499[1299]کتاب الصلاة، باب صلاة التسبيح)ابن ماجہ (1/443[1387] کتاب إقامة الصلاة،باب ماجاء في صلاة التسبيح)،ابن خزیمۃ فی صحیحہ (2/223[1216]كتاب الصلاة، باب صلاة التسبيح)، حاکم فی المستدرک(1/318 ،320[1192]كتاب صلاة التطوع)بیہقی فی السنن (3/51-52[5113] كتاب الصلاة، باب ما جاء في صلاة التسبيح) وفی الدعوات الکبیر(2/22[445]باب صلاة التسبيح) اور بخاری فی جزء القرأة (جزء: ص57)نے کی ہے۔
 اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے علاوہ یہ حدیث فضل ابن عباس،عبد اللہ بن عمرو،علی بن ابی طالب، جعفر بن ابی طالب،ام سلمہ اور ابو رافع رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔
 
 اس حدیث کے ضعف وصحت کے تعلق سے علماء کے دو اقوال ہیں:
 
 (١)علماء کی ایک جماعت نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، جس میں عقیلی،ابن العربی ، امام نووی (فی شرح المہذب)،ابن تیمیہ،ابن الہادی،مزی اور حافظ ابن حجر(فی التلخیص)ہیں، اور ابن الجوزی نے تو اس کو کتاب الموضوعات میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت میں ایک راوی موسیٰ بن عبد العزیز مجہول ہے۔
 
 (٢)اور علماء کی دوسری جماعت نے اس کو صحیح قرار دیا ہے، ان میں ابو بکر آجری،ابو محمد عبد الرحیم مصری،امام ابو داود،امام مسلم،حافظ صلاح الدین العلائی،خطیب،زرکشی،ابن الصلاح،سراج الدین بلقینی،ابن مندہ،حاکم،منذری،بیہقی،ابو موسی المدینی،ابو سعد السمعانی ،سبکی،بیہقی اور دار قطنی ہیں ،حافظ ابن حجر نے بھی”الخصال المکفرة“اور” امالی الاذکار“ میں اور نووی نے تہذیب الاسماء واللغات میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
 اور علامہ دیلمی رحمۃ اللہ علیہ مسند الفردوس میں فرماتے ہیں:
 ”صلاة التسبيح اشهر الصلوات واصحها اسنادا“
 یعنی صلاة التسبیح تمام(نفلی)نمازوں میں سب سے زیادہ مشہور اور سنداً سب سے زیادہ صحیح ہے۔
 اور بہت سارے حفاظ نے ابن الجوزی کی کتاب الموضوعات میں اس کو ذکر کرنے کی وجہ سے سخت تردید کی ہے، کیونکہ امام نسائی اور ابن معین نے موسیٰ بن عبد العزیز کو ثقہ قرار دیا ہے۔
 اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
 ”كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ يُصَلِّيهَا وَتَدَاوَلَهَا الصَّالِحُونَ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ“(عون المعبود شرح سنن ابي داود: 4/177)
 یعنی عبد اللہ بن مبارک اس کو(یعنی صلاة التسبیح)پڑھتے تھے اور صالحین اس کو ایک دوسرے سے لیتے رہے ہیں۔
 نیز فضل بن عباس،عبد اللہ بن عمرو،ابن عمر ،علی بن ابی طالب ،جعفر بن ابی طالب،ام سلمہ اور ابو رافع رضی اللہ عنہم وغیرہ کی روایتوں سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
 اسی واسطے علامہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
 ”والحق عندي أن حديث ابن عباس ليس بضعيف فضلاً عن أن يكون موضوعاً أو كذباً، بل هو حسن لا شك في ذلك عندي، فسنده لا ينحط عن درجة الحسن، بل لا يبعد أن يقال إنه صحيح لغيره لما ورد من شواهده، وبعضها لا بأس بإسناده“(مرعاة المفاتيح:4/374)
 یعنی میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ضعیف نہیں ہے،چہ جائیکہ وہ موضوع یا کذب ہو ،بلکہ اس کے حسن ہونے میں میرے نزدیک کوئی شک نہیں ،کیونکہ اس کی سند حسن کے درجہ سے کم نہیں ہوتی ہے،بلکہ یہ کہنا بعید نہیں کہ وہ صحیح لغیرہ ہے ،اس وجہ سے کہ اس کے بہت سارے شواہد ہیں اور ان میں سے بعض کی سندوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔
 اورعلامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ مشکاة المصابیح کے حاشیہ(1/419 )میں لکھتے ہیں :
  ”واشار الحاکم(1/308 )ثم الذهبي الی تقويته، وهو حق فإن للحديث طرقاً وشواهد کثيرة يقطع الواقف عليها بأن للحديث اصلاً اصيلاً، خلافا لمن حکم عليه بالوضع،أو قال:انه باطل“
 یعنی حاکم اور ذہبی نے اس کی تقویت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہی حق ہے، کیونکہ اس حدیث کے بہت سارے طرق اور شواہد ہیں جن کو جاننے والا قطعی طور سے کہہ سکتا ہے کہ اس حدیث کے لئے اصل اصیل ہے برخلاف اس شخص کے جو اس پر وضع کا حکم لگاتا ہے یا کہتا ہے کہ وہ باطل ہے۔
 میرے نزدیک دوسرا قول راجح ہے، یہ حدیث قابل عمل ہے، جو چاہے یہ نماز ادا کر سکتا ہے۔

🥀☘️☘️☘️☘️☘️🥀 

نعمة المنان مجموع فتاوى فضيلة الدكتور فضل الرحمن: جلد دوم، صفحہ: 291 - 293 

•••═══ ༻✿༺═══ •••

دکتور فضل الرحمن المدنی چینل.
(علمی٬ عقدی٬ تربوی٬ دعوی)


~~~~

۳۰. 
صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ اور اسکی شرعی حیثیت 

خلیل الرحمٰن ندوی 
مدرس: المعہد الاسلامی السلفی رچھا،بریلی 



لنک ‏۲

~~~~

۳۱. 
نماز تسبیح کا ثبوت 

محدث العصر علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ 




~~~~ 

۳۲. 
عربی کتب 

الترشيح لبيان صلاة التسبيح 

المؤلف 
محمد بن علي بن طولون الدمشقي 

المحقق
سعد عبد الحميد محمد السعدني 

عدد الأوراق 63 



~~~~

۳۳. 
عربی کتب 

عنوان الکتاب 
الترجيح لحديث صلاة التسبيح 

 ابن ناصر الدين الدمشقی 

عددالصفحات: 81 

نشر دار البشائر الأسلامية 



~~~~

۳۴. 
عربی کتب 

عنوان الکتاب:
التنقيح لما جاء في صلاة التسبيح 

 تالیف:
جاسم بن سليمان، الکویت

عدد الصفحات: ۱۱۱


~~~~

۳۵. 
ثلاث صلوات مهجورة 
1. صلاة الإستخارة 
2. صلاة التوبة 
3. صلاة التسابيح 

عدنان بن محمد آل عرعور

عدد الصفحات 156 




~~~~


.

ایک فقیہ شطیان پر بھاری ہے ہزار عابد سے؟ عامر بن عبد القیوم اثری

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
؛()()()()()()()()()()()()؛

ایک فقیہ شطیان پر بھاری ہے ہزار عابد سے؟ 

عامر بن عبد القیوم اثری 

~~~~~~~~~~~~~~؛

سوال 
کیا یہ حدیث "فقيه واحد أشد على الشيطان من ألف عابد" ترجمہ: ایک فقیہ (عالم) ہزار عبادت کرنے والوں کے مقابلہ میں اکیلا شیطان پرحاوی اور بھاری ہے۔

کیا یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے؟ دلائل کی روشنی میں وضاحت فرمادیں۔ (سائل)


جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على إمام المتقين وعلى آله وصحبه أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.

أما بعد 

امام ترمذی نے اس حدیث کو اپنی سنن میں(2681) اور امام ابن ماجہ نے بھی اپنی سنن (222) میں تقل کیا ہے۔ روح بن جناح پر سند کا دارومدار ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس سند سے حدیث کو روایت کیا:

حدثنا محمد بن إسماعيل ، قال : حدثنا إبراهيم بن موسى ، قال : أخبرنا الوليد بن مسلم ، قال : حدثنا روح بن جناح ، عن مجاهد ، عن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " فقيه أشد على الشيطان من ألف عابد ". هذا حديث غريب، ولا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث الوليد بن مسلم.

اس حدیث کو اکثر محدثین نے موضوع/اسنادہ ضعیف جدا کہا ہے۔

چند حوالے اپنے اصل مصادر سے پیش کئے جاتے ہیں:

حوالہ نمبر 1: امام ساجی رحمہ اللہ (ت: 307ھ) نے اس حدیث کو منکر کہا۔ (تهذيب التهذيب:3/292)

حوالہ نمبر 2: ابن حبان رحمہ اللہ (ت: 354ھ) نے اس حدیث کو موضوع کہا۔ (تھذیب التھذیب: 3/292)

حوالہ نمبر 3: ابو سعید النقاش (ت: 414ھ) نے بھی موضوع کہا۔ (3/293)

حوالہ نمبر 4: ابن الجوزی (ت: 597ھ) نے لکھا: لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم۔ (العلل المتناهية: 1/134)

حوالہ نمبر 5: امام عراقی (ت: 808ھ) نے إسناده ضعيف کہا۔ (تخریج الأحیاء: 1/21)

حوالہ نمبر 6: امام سخاوی (ت: 902ھ) نے بھی إسناده ضعيف کہا۔ (المقاصد الحسنة: 396)

حوالہ نمبر 7: امام سفارینی (ت: 1188ھ) نے في إسناده مقال کہا۔ (شرح كتاب الشهاب: 299)

حوالہ نمبر 8: محدّث العصر محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف جدا اور موضوع کہا۔ (ضعيف الترغيب: 66)، (تمام المنة: 115)، (ضعیف ابن ماجہ: 41)، (تخریج مشکاۃ: 215)، (ضعیف الجامع: 3986)، (السلسلة الضعيفة: 4461,5159)

حوالہ نمبر 9: علامہ شعیب ارناؤوط رحمہ اللہ (ت: 1438ھ) نے إسناده ضعيف کہا۔ (تخریج شرح السنة: 1/278).

حوالہ نمبر 10: محدّث العصر حافظ زبیر علیزئی رحمہ اللہ (ت: 1435ھ) نے إسناده ضعيف جدا کہا۔ (سنن ابن ماجہ: 222)، (سنن ترمذی: 2681)

تلك عشرة كاملة.

حدیث کا بنیادی راوی أبو سعد روح بن جناح القرشي الأموي جمہور محدّثین کے نزدیک سخت ضعیف ہے۔ ذیل میں چند ایک کی جرح نقل کی جاتی ہے:

1. ابن حبان رحمہ اللہ (ت: 354ھ) نے روح بن جناح کو منکر الحدیث جدا کہا۔ (کتاب المجروحین: 1/374)

2. أبو زرعة الرازي رحمہ اللہ (ت: 264ھ) نے لکھا : يكتب حديثه ولا يحتج به، ليس بالقوی

3. أبو حاتم رازی رحمہ اللہ (ت:277ھ) لکھا: یکتب حدیثه ولا يحتج به.

4. أحمد بن شعيب النسائي رحمہ اللہ (ت: 303ھ) نے لکھا : ليس بالقوي. (الضعفاء للنسائي: 189)

5. أبو علي الحسين بْن علي النيسابوري الحافظ (ت: 349ھ) نے لکھا: في أمره نظر. (تاريخ دمشق (تهذيبه: 5 / 339) .

6. امام دارقطنی (ت: 385ھ) رحمہ اللہ نے لکھا: متروك. (علل للدارقطني: 3/70)

7. الحافظ أبو نعيم رحمہ اللہ(ت: 430ھ) لکھتے ہیں: *يروي عن مجاهد أحاديث مناكير لا شيء.* (ضعفاء أبي نعيم: الترجمة 67)

8. ابن القیسرانی (ت: 508ھ) نے متروک الحدیث اور منکر کہا۔ (معرفة التذكرة: 170)

نوٹ: سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ دونوں کی سندوں میں روح بن جناح نے یہ حدیث مجاھد سے ہی روایت کی ہے۔

9. امام ذھبی رحمہ اللہ (ت: 748ھ) نے لکھا: ليس بقوي. (تاريخ الإسلام: 6/64)

10. ابن حجر العسقلاني رحمہ اللہ (ت: 852) نے لکھا: ضعيف، اتهمه ابن حبان. (تقريب التهذيب: 1972)

تفصیلات کیلئے ان کتاب کی طرف مراجعت کریں:

تاريخ البخاري الكبير: 3 / الترجمة 1046، وأحوال الرجال للجوزجاني: الترجمة 285، وتاريخ أبي زرعة الدمشقي: 356، وضعفاء النَّسَائي: الترجمة 189، والكنى للدولابي: 1 / 186، وضعفاء العقيلي: الورقة 68، والجرح والتعديل: 3 / الترجمة 2243، والمجروحين لابن حبان: 1 / 300، والكامل لابن عدي: 1 / الورقة 347، وعلل الدارقطني: 3 / الورقة 70، والمدخل للحاكم: الترجمة 59، وضعفاء أبي نعيم: الترجمة 67، وتاريخ دمشق (تهذيبه: 5 / 338) ، وضعفاء ابن الجوزي: الورقة 54، وتاريخ الاسلام: 6 / 64، وتذهيب التهذيب: 1 / الورقة 229، والكاشف: 1 / 133، والميزان: 2 / الترجمة 2799، والمغني: 1 / الترجمة 2137، وديوان الضعفاء: الترجمة 1426، والمقتنى في سرد الكنى: الورقة 58، وإكمال مغلطاي: 2 / الورقة 28، ونهاية السول: الورقة 98، والكشف الحثيث: 290، وتهذيب ابن حجر: 3 / 292، وخلاصة الخزرجي: 1 / الترجمة 2081.

خلاصۂ تحقیق: یہ حدیث سخت ترین ضعیف ہے اور بعض کے نزدیک موضوع۔

نوٹ: محدّث العصر حافظ زبير علي زئي رحمه الله لکھتے ہیں: کتاب و سنت اور اجماع کے بغیر خیالات کے ہوائی قلعے تعمیر کرتے ہوئے غیر وقوعہ اور غیر ممکنہ مسائل گھڑنا تفقہ نہیں بلکہ تفقہ کے ساتھ مذاق ہے۔

[الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک (ص 602)]

والله أعلم بالصواب. 

✍تحقیق 
خادم العلم والعلماء 
عامر بن عبدالقيوم الأثري 


.