جمعہ، 30 اکتوبر، 2020

وہ گستاخ نبی مگر تم کیا ہو؟ صفی الرحمن فیضی

.

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ 
╰┄┅┄┅┄┅┄┄┅┄┅┄┅┄╯

وہ ہیں گستاخ نبی ﷺ۔۔۔۔۔مگر تم کیا ہو؟ 

   صفی الرحمن ابن مسلم فیضی بندوی 
جامع عمار بن یاسر۔ الجبیل۔ سعودی عرب 

~~~~؛ 

فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ ضروری۔۔۔مگر شرکیہ عقائد، بدعات و خرافات اور بداخلاقیوں کا بائیکاٹ کب؟۔۔۔۔۔ 

فرانس کے صدر میکرون ملعون نے نبی اکرم ﷺ کے متعلق نازیبا بیان کے ذریعہ اپنے اندر کی غلاظت و خباثت کا اظہار کر کے دنیا کا بدترین دہشت گرد ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔

مسلمان اپنے نبی ﷺ پہ جان و مال، والدین و اولاد سب کچھ قربان کر سکتا ہے، مگر اس طرح کی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا۔

لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمان اس وقت جاگتا ہے، جب اس طرح کے ناہنجار کھڑے ہوتے ہیں، وقتی طور پر شور مچاتا ہے پھر خواب غفلت کی نیند سو جاتا ہے۔

 کیونکہ اس سے پہلے مسلمان خود شرک و بدعات کو اسلام میں داخل کر کے، رسم و رواج اورخرافات کو جاری کر کے، ترکِ صوم و صلاۃ کے ذریعہ، نبی  ﷺ کی سیرت و اسوہ سے بے پرواہ ہو کر، خود ہی اسلام کا خون کرتے ہیں، مگر ذرہ برابر بھی تکلیف نہیں ہوتی نہ ہی ہمارا ضمیر جاگتا ہے۔

ایسا لگتا ہے غیرتِ مذہبیت تو ہے، لیکن غیرت شریعت مردہ ہو چکی ہے، ہمارا نوجوان نبی ﷺ کے نام پر جان تو دے سکتا ہے، مگر نبی کے فرمان کی اس کے درمیان کوئی اہمیت و مقام نہیں۔ 

آج مسلم نوجوان لہو لعب، موبائل کے بیجا استعمال اور دیگر فضولیات میں پڑا رہتا ہے، مگر نبی ﷺ کے آنکھوں کی ٹھنڈک، اسلام کا ستون، کفر اور اسلام کے درمیان فرق کرنے والی صلاة کی کوئی فکر نہیں۔ 

مسلم نوجوان دنیاوی کامیابی کے لئے شب و روز محنت کریں، ٹھیک ہے اچھی بات ہے ۔
مگر ۔۔۔ تلاوت قرآن کے لئے، سیرتِ نبی ﷺ  اور سیرت صحابہ کے لئے، دین کی بنیادی چیزوں کو سیکھنے کے لئے ہر روز ایک گھنٹے بھی نہ نکال سکیں تو صحیح معنوں میں یہ گھاٹے کا سودا ہے 

مسلم نوجوان سائنس و ٹیکنالوجی میں آگے بڑھیں بہت خوب ۔۔۔  
مگر قرآن و سنت سے بالکل نابلد ہوں؟ یہ حقیقی کامیابی نہیں۔۔۔ 

نام کا مسلمان، کام کافر و مشرک والے، اصل میں مسلمان، شکل میں غیروں کی مشابہت، اسلامی تہذیب کا دعویدار، کافر اور یہود و نصاریٰ کی تہذیب کا علمبردار، کہنے کو موحد، محبت نبی ﷺ سے سرشار، مگر شرک و بدعت کا پرچار، اسلام پر قربان ہونے کو تیار، لیکن اسلام پر عمل پیرا ہونا دشوار ۔ 
کیا مسلمان کی کامیابی کا یہی ہے معیار؟؟؟ 
تم ہی بتاو۔ ۔۔۔۔ 
وہ ہیں گستاخ نبی ﷺ۔۔۔۔۔مگر ہم کیا ہیں؟ 

.

منگل، 27 اکتوبر، 2020

جشن میلاد سے متعلق شہزاد قادری کی تحریر کا تحقیقی جائزہ یونس اثری ‏

.

 ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ 
✶┈┈┈•─╮.......╭─•┈┈┈✶

جشن میلاد سے متعلق شہزاد قادری کی تحریر کا تحقیقی جائزہ 

شیخ یونس اثری 

مجلہ دعوت اہل حدیث سندھ، شمارہ نومبر 2019 


کچھ عرصہ قبل ہم تک ایک لٹریچر بنام ’’عید میلاد کی شرعی حیثیت‘‘ پہنچا ۔جو عوام الناس میں تقسیم کیا گیا تھا ۔یہ لٹریچر ماہنامہ تحفظ کے ایڈیٹرشہزاد قادری صاحب کی تحریر پر مشتمل تھا ،جس میں جشن عید میلاد النبی کو ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی گئی تھی۔نیز یہی مضمون ماہنامہ تحفظ جنوری ،فروری ،2013ءکے شمارے میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ اگرچہ یہ لٹریچر قابل التفات نہ تھا ،کیونکہ اس سے پہلے اکابر بریلویت نے جو کچھ لکھا، اس کے بحمداللہ علمی و تحقیقی جوابات وقتاً فوقتاً جماعت کے رفقاء کی طرف سے شائع ہوتے رہے ہیں۔لیکن اس لٹریچر کے کچھ منفی اثرات کو دیکھتےہوئے، بعض احباب کی خواہش تھی کہ اس کی حیثیت کو واضح کیا جائے ۔بتوفیق اللہ و عونہ ہم نے اس حوالےسےچند گزارشات لکھی ہیں ۔

مسئلہ تاریخ ولادت :
ـــــــــــــــــــــــ؛

موصوف نے اپنی بات کا آغاز اس بات سے کیا ہے کہ بارہ ربیع الاول ہی نبی ﷺ کی ولادت کی تاریخ ہے ۔

جہاں تک نبی ﷺ کی ولادت کی تاریخ کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ہماری درج ذیل گفتگو،موصوف کے پیش کئے گئے سارے اقوال سے مستغنی کردے گی(ان شاءاللہ) اگرچہ بعض اقوال میں موصوف نے جو کاری گری کی ہے اس کی حقیقت اپنے مقام پر عیاں کی جائے گی۔

نبی ﷺ کی ولادت کے حوالےسے کچھ تفصیل قابل توجہ ہےکہ آپکی ولادت کے دن کے حوالے سے خود نص صریح سے واضح ہے کہ آپﷺ پیر کے دن پیدا ہوئے۔(صحیح مسلم : 1162،) اب سال اور مہینہ اور دن کے تعین کا مسئلہ رہ گیا۔تو آئیے اس کی وضاحت بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

جہاں تک سال کا معاملہ ہے تو یہ بھی کثیر تعداد بلکہ بعض نے اس پر اتفاق کی بات کی ہے کہ وہ سال عام الفیل تھا،اور یہ بات خود موصوف کے نزدیک بھی مسلّم ہے۔

اور جہاں تک مہینہ کا معاملہ ہے ،تو وہ بھی جمہور کے نزدیک ماہ ربیع الاول ہے۔اور اس پر بھی موصوف متفق ہیں۔

لہذا تعیّن سال ،ماہ اور دن میں ہمارا اورموصوف کا اتفاق ہے۔ اب رہ گیا مسئلہ تعیّن تاریخ کا !!تو یہ ایک حقیقت ہے کہ اس حوالے سے کافی اختلاف ہے ،بلکہ صرف مطلق اختلاف سے قطع نظر ماہ ربیع الاول کی ہی تاریخوںکے حوالے سے کافی اختلاف ہے،مثلاً بعض کے نزدیک دو ،بعض کے نزدیک آٹھ ،بعض کے نزدیک نو ،بعض کے نزدیک بارہ اور بعض کے نزدیک سترہ ربیع الاول ہے ۔اب اس اختلاف کی صورت میں یا تو توقف کیا جائے گا یا پھر کسی ایک قول کو ترجیح دی جائے گی اور ترجیح کے لئے سبب ترجیح ہوناضروری ہے ۔لہذا ہم نے نو والے قول کو ترجیح دی ہے اس کا سبب ترجیح یہ ہے کہ فلکیات کا علم جو ایک مسلمہ علم ہےاور اس علم کے ما ہر محمود پاشا فلکی کی نبی ﷺ کے دور میں ہونے والے چاند گرہنوں کے ذریعے سےتحقیق کے ساتھ یہ نتیجہ نکلتاہے کہ آپﷺ کی ولادت نو ربیع الاول کو ہوئی۔اس تحقیق کو کئی ایک سیرت نگاروں نے ذکر کیا اور تسلیم بھی کیا ۔لہذا یہی راجح ہے کہ نو (9) ربیع الاول ہی آپﷺ کی ولادت کا دن ہے ۔

اس تحقیق کا موصوف اور ان کے ہم مسلکوں کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ۔لہذا انہیں بھی یہی مؤقف اختیار کر لینا چاہئے ۔ورنہ اسی علم فلکیات کے ذریعے سے ان پر اپنے مؤقف کو ثابت کرنا ،ایک ایسا قرض ہے جسے ابھی تک چکایا نہیں جا سکا ۔

اس مختصر سی گفتگو سے موصوف کے بارہ ربیع الاول کی تائید میں پیش کئے جانے والے تمام اقوال کی حیثیت واضح ہوجاتی ہے ۔البتہ چندایک اقوال جن میں موصوف نے انتہائی نا انصافی اوردھوکہ سے کام لیا ہے ہم ان کی حقیقت بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

موصوف البدایہ والنھایہ اور بلوغ الامانی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’حافظ ابو بکر ابن ابی شیبہ (متوفی 235ھ ) سندصحیح کے ساتھ روایت کرتےہیں کہ عفان سے روایت ہے کہ وہ سعیدبن میناء سے روایت کرتے ہیںکہ حضرت جابر اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ کی ولادت عام الفیل میں بروز پیر بارہ ربیع الاول کو ہوئی‘‘(عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت :صفحہ نمبر 1) 

جواب:
ــــــــــ؛
اولاً: آپ نے جو اس کی سند پر یہ کلمات کہہ دئیے ہیں کہ’’ سند صحیح کے ساتھ ‘‘اس کلمہ سے چند سوال پیدا ہوتے ہیں کہ آپ ویسے ہر ضعیف و موضوع کو اپنے مطلب کے لئے بیان کرتے پھرتے ہیں ،تو یہاں آپ کا یہ کلمہ کہنا چہ معنیٰ دارد ۔بلکہ مزید اس پر بھی یہ کہ آپ کےکتنے ہی عقائد و مسائل کی اساس صحیح تو درکنار موضوع روایات ہیں ۔اور ایسی ضعیف و موضوع روایات کو خوب بیان کیا جاتا ہے ۔جن کی چند مثالیں دیکھنے کے لئے ماہنامہ دعوت اہل حدیث شمارہ نمبر 143،144میں شائع شدہ راقم الحروف کے مقالات کا مطالعہ کیا جائے ۔

ثانیاً:قبل اس کے کہ ہم یہ حقیقت واضح کریں کہ اس کی سند صحیح نہیں۔یہاں اس اثر سے متعلق جسے موصوف نے صحیح قرار دیا ہے ۔محض میلاد کے اثبات کے لئے انہوں نے اپنی شب معراج کی بدعتوں پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے ؟؟کیونکہ موصوف نے اس اثر کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور اسی اثر میں یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ کو اسی دن (12 ربیع الاول کو ) معراج بھی کروایا ہے ۔اب یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ اس اثر کی سند کو صحیح قرار دینے کےبعد موصوف کس منہ سے 27 رجب کو شب معراج کے نام پر مختلف قسم کی اختراعات کے حامل ہیں ؟کیسی دو رنگی ہے کہ یہی اثر اس بارے میں پیش کیا جائے کہ معراج 27رجب کو نہیں ہوئی تو یہ اثر ناقابل عمل ہوجاتا ہے اور پھر جب ربیع الاول آئے تو اسی کی سند صحیح ہوجاتی ہے اور اسی اثر کی بنیاد پر نبی ﷺ کی ولادت کی تاریخ بارہ ربیع الاول کو متعین کردیا جاتا ہے ۔کیا یہ بالکل وہی طرز عمل نہیں کہ جس کا نقشہ قرآن نے یوں کھینچا: [أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ](البقرہ : 85) یعنی: کیا تم کتاب کے بعض احکام مانتے ہو اور بعض کا انکار کر دیتے ہو؟

لہذا ہماری محترم سے یہی گزارش ہے کہ دو رنگی چھوڑ یک رنگ ہوجا!!

ثالثاً: اس میں معراج کے ساتھ ساتھ ہجرت کا بھی ذکر ہے ۔اور وفات کا بھی ۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ آگےچل کر خود موصوف یہ لکھتے ہیں کہ : ’’ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ علمائے اسلام کا حضور ﷺکی تاریخ وصال میں اختلاف ہے۔‘‘(مذکورہ لٹریچر : صفحہ نمبر: 3) موصوف کے اس طرز عمل کو قارئین ہی جو چاہیں نام دیں کہ مذکورہ اثر میں ہی وفات کا لفظ موجود ہے کہ وہ بھی بارہ ربیع الاول کو ہوئی مگر موصوف کواس میں اختلاف نظر آرہا ہے حالانکہ بہ نسبت ولادت،تاریخ وفات میں اختلاف بہت کم ہے ۔اورصحیح نتیجے تک پہنچنا بہت آسان ۔اور پھر مزید اہل علم کی بڑی تعداد کا مؤقف یہی ہے ،جن میں سیدہ عائشہ ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما ،ابن سعد ،،ابن اسحق ،ابن حبان ،امام طبری ،ابن اثیر ،امام نووی،مولاناشبلی نعمانی،قاضی سلیمان منصورپوری،صفی الرحمن مبارکپوری، ابوالحسن علی ندوی ۔ان سب کا یہی مؤقف ہے کہ نبی ﷺ کی وفات بارہ ربیع الاول کوہوئی ۔[دیکھئے:طبقات ابن سعد :273 ،272/2، البدایۃ والنھایۃ:255/5،الکامل فی التاریخ لابن الاثیر :219/2، دارالکتاب العربی ،شرح مسلم :82/15،تاریخ طبری:455/2، مؤسسۃ العلمی للمطبوعات ،سیرت النبی: 183/2،رحمۃ للعالمین:251/1،الرحیق المختوم :۷۵۲،السیرۃ النبویۃ: 404، دارالشرق الطبعۃ السابعۃ ]

امام ذہبی نے یہی مؤقف سعید بن عفیر ،محمدبن سعد الکاتب کا بھی نقل کیا ہے ۔(تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر الاعلام للذھبی، 633/1) 

ملا علی قاری نے اسی مؤقف کو اکثر کا مؤقف قرار دیا ۔(مرقاۃ شرح مشکوۃ :104/11،مکتبہ حقانیہ پشاور ) 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی مؤقف کو جمہور کا مؤقف قرار دیا ۔(فتح الباری : 163/8) 

اور پھر مزید یہ کہ یہی مؤقف احمد رضا صاحب کا ہے ۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت : 252/2) 

اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ موصوف کا یہ جملہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟؟

رابعاً:اب آئیے مذکورہ بالا اثر کی سند پر بحث کر لیں، جسے موصوف صحیح قرار دے چکے ہیں ۔

عرض یہ ہے کہ یہ اثر سنداً ضعیف ہے ۔اسے کئی ایک ائمہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔مثلاً

1۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ :
      انہوں نے اس اثر کو نقل کیا اور اس کے بعد اس کی سند پر کلام کرتے ہوئے یہ کہا ’’فیہ انقطاع ‘‘ اس کی سند میں انقطاع ہے ۔(البدایہ والنھایہ : 107/3،طبع دارالریان ،و نسخۃ اخری :109/3 ،طبع مکتبۃ المعارف بیروت) 

2۔امام جورقانی :
      امام جورقانی نے اس روایت کو اپنی کتاب الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير میں نقل کیا ہے اوراسے صحیح نہیں کہا ہے ۔اور کوئی بھی باشعور سمجھ سکتا ہے کہ ایک روایت کو الاباطیل والمناکیر والصحاح والمشاہیر کے تحت لایاجائے اور اس پر صحت کا حکم نہ لگایاجائے تو اس کا کیا مطلب ہوا؟

خلاصہ یہ ہے کہ یہ اثر ضعیف اور وجہ ضعف جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے بیان کی ہے کہ اس میں انقطاع ہے ۔کیونکہ عفان بن مسلم کا سعید بن میناء سے سماع ثابت نہیں ۔عفان بن مسلم اتباع التابعین کے شاگردوں میں سے ہیں ،اور سعید بن میناء متوسط طبقے کے تابعین میں سے ہیں ۔نیز کتب رجال میں کسی نے بھی عفان بن مسلم کے اساتذہ میں سعید بن میناء کا ذکر نہیں کیا اسی طرح سعید بن میناء کے تلامذہ میں عفان بن مسلم کا ذکر نہیں ملتا ۔

لہذا یہ اثر سنداً ضعیف و منقطع ہے ۔جو ناقابل حجت ہے ۔

امام ابن جریر طبری سے متعلق شبہ کا جواب :
ــــــــــ؛ــــــــــ؛ــــــــــ؛ــــــــــ؛
موصوف نے یہ بات لکھی کہ نبی ﷺ کی ولادت ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی ۔جبکہ یہ قطعاً امام طبری کا اپنا مؤقف نہیں ہے بلکہ امام طبری نے اس حوالے سے کئی ایک اقوال پیش کئے ہیں۔ امام طبری کی اس حوالے سے یہ بات قابل غور ہے فرماتے ہیں کہ صحیح احادیث کی روشنی میں نبی ﷺ کی پیدائش کے حوالے سے واضح ہے کہ آپ ﷺ پیر کو پیدا ہوئے اب وہ پیر کون سا تھا اس میں اختلاف ہے ،پھر اختلاف کو ذکر کیا ۔(تاریخ طبری : باب من الشھر الذی نبئی فئیہ و ما جاء فی ذلک ) 

اب اندازہ لگائیں کہ امام صاحب تو اختلاف ذکر کرہے ہیں اور اس حوالےسے دن کی طرف توجہ دلارہے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ،کہ آپ کی ولادت کا دن پیر ہے ،البتہ تاریخ میں اختلاف ہے ،جبکہ محترم کا مزعومہ بات کو امام طبری کی طرف منسوب کرنا یقیناً خیانت اور دھوکہ ہے ۔

صدیق حسن خان صاحب کا قول :
موصوف صدیق حسن خان صاحب کی عبارت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’غیر مقلدین (اہلحدیث ) کے پیشوا علامہ سیدصدیق حسن خان اپنی کتاب الشمامۃ العنبریہ کے صفحہ نمبر 6 پر رقم طراز ہیں کہ اہل مکہ کا اس پر عمل ہے ۔ طیبی نے کہا کہ آپ ﷺ کی ولادت پیر کے دن بارہ ربیع الاول کو ہوئی ۔‘‘(مذکورہ لٹریچر : صفحہ نمبر : 1) 

جواب:
ــــــــــ؛
کتنی واضح سی عبارت ہے جو موصوف نے نقل کی ہے کہ صدیق حسن خان صاحب طیبی کا قول نقل کر رہے ہیں۔ اب اس سے یہ مفہوم کشید کرنا کہ ان کا بھی یہی مؤقف ہے یہ بڑی نا انصافی ہے ۔بلکہ اس اصول کے تحت آپ کے اعلیٰ حضرت بھی آجائیں گے کہ انہوں نے 12ربیع الاول کے علاوہ دیگر اقوال بھی پیش کئے ہیں جو اس بات کو مستلزم نہیں کہ انہوںنے جتنے اقوال پیش کئے ہیں،وہ سب ہی ان کا مؤقف ہیں ۔

اب جب ہم نے صدیق حسن خان صاحب کی اس عبارت کی وضاحت کردی ہے ،اب یہاں ایک حوالہ ہم پیش کئے دیتے ہیں ۔

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’ولدنبینا محمد ﷺ فیہ‘‘ یعنی : ہمارے نبی کریمﷺ کی ولادت دس محرم کو ہوئی ہے۔

(غنیۃ الطالبین مع فتوح الغیب مترجم : 869/1،کتب خانہ سعودیہ، حدیث منزل کراچی ) 

معصومیت دیکھئے ایک طرف تو شیخ عبدالقادر جیلانی کو غوث الاعظم مانا جائے آپ کو مختار کل مانا جائے ،اور آپ کے کشف و کرامات بیان کرتے ہوئے آپ کو عالم الغیب مان لیا جائے ۔لیکن جب یہی شیخ عبدالقادر جیلانی کہہ دیںکہ نبی ﷺ کی ولادت دس محرم کو ہوئی ۔اس وقت شیخ عبدالقادر جیلانی سے متعلق سارے عقائد ونظریات کو پس پشت ڈال کر ان کے اس قول سے اعراض کر لیا جاتا ہے ۔

تاریخ ولادت کےحوالے سے ہماری اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کی ولادت نو ربیع الاول کو ہوئی ،البتہ موصوف کے پاس سوائے تضاد کے اور کچھ نہیں ۔کیوں کہ اگر وہ بارہ ربیع الاول کو تاریخ ولادت کے طور پر مانتے ہیں اور مذکورہ بالا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اثرسے سہارا لیتے ہیں تو شب معراج کی بدعتیں خطرے میں پڑتی ہیں ۔اوردوسری طرف اپنے عقائد کی رو سےشیخ عبدالقادر جیلانی جن کے بارے میں آپ کا عقیدہ ہے کہ وہ غوث الاعظم ہیں ،ان کی بات نہ مان کر گستاخ بھی ٹھہرتےہیں۔ اور اگر بارہ ربیع الاول کی تاریخ ولادت کو نہیں مانتے تو بارہ ربیع الاول کی منائی جانے والی بدعات خطرے میں پڑتی ہیں ۔

کیاجشن میلاد قرآن سے ثابت ہے ؟
 موصوف اپنے مزعومہ فلسفے کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتےہوئے عنوان قائم کرتے ہیں :’’قرآن مجیدسے میلادمصطفٰی ﷺ منانے کے دلائل‘‘اس عنوان کے تحت سورۃ الضحیٰ کی یہ آخری آیت پیش کرتے ہیں ۔

ترجمہ : اپنے رب کی نعمت کا خوب خوب چرچا کرو ۔ (مذکورہ لٹریچر : صفحہ نمبر 1) 

تبصرہ :
یہی ترجمہ احمد رضاخان بریلوی اور مفتی احمد یار خان نعیمی نے کر رکھا ہے اور موصوف نے تھوڑا اس ترجمے میں مزید اضافہ کردیااحمد رضا صاحب نے ترجمہ کیا :اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ۔

مگر موصوف کو شاید اپنے اعلیٰ حضرت کا یہ ترجمہ پسندنہ آیا اور شایدان سے بڑے اعلیٰ حضرت بننے کی کوشش میں ایک اور’’ خوب ‘‘ کا اضافہ کر دیا ۔یعنی موصوف نے لفظ ’’خوب ‘‘ کو تکرارکے ساتھ اور ان کے اعلیٰ حضرت نے بغیر تکرار کے ساتھ ترجمہ کیا ۔چہ خوب!

اب اس ترجمے کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یا تو اعلیٰ حضرت پیچھے رہ گئے اور موصوف آگے نکل گئے یا پھر موصوف اپنے مبالغے کو تسلیم کر لیں !!

اولاً: ہماری گزارش یہ ہے کہ کیا یہ ہی ترجمہ جو آپ نے کیا ہے صحابہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اس آیت پر اس طرح سے عمل کیا ہو جس طرح سے آپ نے کیا اگر نہیں !!تو پھر کوئی بھی با شعور آدمی یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ آپ کے یہاں فہم صحابہ کی کیا وقعت ہے ؟؟ نیز قرون اولیٰ کے فہم سلف صالحین کی کیا وقعت ہوگی آپ کے یہاں ؟؟حقیقت یہ ہے کہ یہ ترجمہ کرنا معنوی تحریف ہے ۔

تحریف کے حوالے سے احمد یار خان نعیمی صاحب کا قول ملاحظہ کیجئے :

’’قرآن کی تحریف کرنا کفر ہے ۔‘‘ (جاء الحق : 18/1) 

مزید لکھتے ہیں : ’’اب تفسیر قرآن کے چند مرتبے ہیں ،تفسیر بالقرآن۔ یہ سب سے مقدم ہے ۔اس کے بعد تفسیر قرآن بالاحادیث کیوں کہ حضور علیہ السلام صاحب قرآن ہیں ۔ان کی تفسیر قرآن نہایت ہی اعلیٰ،پھر قرآن کی تفسیر صحابہ کرام کے قول سے خصوصاً فقہاء صحابہ اور خلفاء راشدین کی تفسیر ۔

رہی تفسیر قرآن تابعین و تبع تابعین کے قول سے ۔یہ اگر روایت سے ہے تو معتبر ورنہ غیر معتبر ‘‘ (جاء الحق : ایضاً) 

اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ سب سے مقدم قرآن کی تفسیر ہے پھر نبی ﷺ ،پھر صحابہ اور پھر تابعین بلکہ تابعین کے بارے میں تو نعیمی صاحب نے لکھ دیا ہے کہ اگر ان کا قول روایت سے نہیں تو غیر معتبر ہے۔یقیناً جب تابعی کے قول کی جب کوئی حیثیت نہیں تو آج کے کسی مولوی ،مفتی کے قول یا غیر مستند تفسیر کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے ؟بلکہ قرآن کے معنیٰ میں تحریف کرنے والا نعیمی صاحب کے قول کی روشنی میں کفر کا مرتکب ہے ۔

اس آیت کا صحیح مفہوم : جیسا کہ نعیمی صاحب کا قول گزرا کہ تفسیر قرآن میں سب سے مقدم جو قرآن سے ہو ۔اب قرآن مجید ہی کی روشنی میں اس آیت کا صحیح مفہوم سمجھتے ہیں ۔

سورۃ الضحیٰ پوری سورت کو سامنے رکھیں کہ اس میں سب سے پہلے اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے آپ کو تنہا نہیں چھوڑا اور نزول وحی کا سلسلہ جاری ہے ۔جس کا پس منظر فترت وحی کے ایام میں عوراء بنت حرب ،ابو سفیان کی بہن اور ابو لہب کی بیوی نے کہا تھا کہ تیرے شیطان نے تجھے چھوڑ دیا تو اللہ نے نبی ﷺ کو بطور تسلی کے اور اس قول کے مقابلے میں یہ سورت نازل کی کہ اللہ نے تجھے اکیلا نہیں چھوڑا ،اور سلسلہ وحی جاری ہے اور پھر آیت نمبر(4) میں ایک اور خوشخبری سنادی کہ اب آئندہ زندگی میں آپ کے لئے بڑے اچھے دن آنے والے ہیں ۔اور یہ آیت ایسی جامع ہے کہ گویا کہ اس جملے کی ضمن میں اللہ نے اپنی کتنی ہی نعمتوں کا ذکر کردیا گیا جن سے نبی ﷺ کو نوازا گیا ۔پھر آیت نمبر (5) میں مزید انعام کا ذکر ہے کہ اللہ آپ کو دے گا آپ راضی و خوش ہو جائیں گے ۔تو ان آیات نمبر 3تا 5 میں عظیم انعامات کاذکر کرنے کے بعد آیت نمبر (6،7،8) میں آپ کی زندگی کے مختلف مراحل سے متعلق نعمتوں کا ذکر جن میں یتیمانہ بچپن میں نصرت ،راہ ہدایت کا راہی اور ایام افلاس میں تونگری و غنی کردینا ۔ان نعمتوں کا ذکر ہے ۔اور پھر انہی کی نسبت آپ ﷺ کوبالخصوص کفالت یتامی ،سائلین کو دینا اور اور اللہ کی نعمتوں کامطلق طور پر بھی شکر ادا کرنے کا حکم دیا جارہاہے۔

یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ بکثرت رات کا قیام کیا کرتے کہ آپ کے پاؤں سوجھ جاتے ،اور جب آپ سے کہا جاتا کہ آپ کو اس قدر عبادات کی کیا ضرورت آپ تو معصوم عن الخطاء ہیں ؟تو نبی ﷺ فرماتے کہ افلا اکون عبداً شکوراً ۔کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بن جاؤں ۔

(صحیح بخاری : 4837،) 

خلاصہ یہ ہے کہ اس سیاق قرآنی سے اس آیت کا صحیح مفہوم واضح ہو چکا ہے ۔

ثانیاً: اس آیت میں کہاں یہ لکھا ہےکہ بارہ ربیع الاول کو جلوس نکال کر نبی ﷺ کی ولادت کی خوشی منانی ہے ۔

ثالثاً: اگر خوشی منانے کو مان بھی لیا جائے تو طریقہ بھی محمد ﷺ کا ہوگا یاخود ساختہ ومن گھڑت؟؟اور نبی ﷺ نے اپنی ولادت کی خوشی روزہ رکھ کر منائی ۔کما سیاتی ان شاءاللہ

رابعاً:کس دن کو خوشی منانی ہے؟گذشتہ گفتگو کی روشنی میں یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔

دوسری دلیل :
موصوف نے سورہ یونس سے ایک آیت کا غلط مفہوم لیتے ہوئے ترجمہ کیا : ’’تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں ۔وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ۔‘‘(سورہ یونس آیت نمبر : 58) (مذکورہ لٹریچر : صفحہ نمبر : 1) 

احمد رضا نے بھی اس کا یہاں معنی کیا کہ’’ خوشی کریں ۔‘‘

تبصرہ :
  محترم کا یہ ترجمہ قرآن میں معنوی تحریف ہے جس کے حوالے سے ہم رد پیش کر آئے ہیں ۔اگرموصوف کا کیا ہوا معنی یہاں کیا جائے تو قرآن مجید کے ایسے دیگر کئی مقامات کا معنی غلط ہوجائے گا،کہ وہاں اسی مادے ’’فرح ‘‘سے مختلف صیغے آئے ہیں ۔جیسا کہ :

[فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ ] (التوبہ : 81) یعنی : پیچھے رہ جانے والے اس پر خوش ہوئے کہ وہ رسول کے پیچھے بیٹھ رہے ۔

 اگر مذکورہ آیت کا معنی انہوں نے خوشی منائی تھی اور عید منائی تھی۔ جوکہ تا قیام قیامت کوئی ثابت نہیں کر سکتا ۔اور کمال کی بات یہ ہے کہ یہاں بریلویت کے اعلی حضرت نے بھی خوشی منانے کا معنی نہیں کیا۔ جیسا کہ اوپر کیا گیا ترجمہ انہی کا ہے ۔اب ایک جگہ خوشی منانے کا معنی اور دوسری جگہ خوش ہونے کا معنی کرنا ؟؟

اسی طرح (الشوری : 48) میں اسی مادے ’’فرح ‘‘ سے لفظ [وَ اِنَّاۤاِذَاۤ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا ] استعمال ہوا ہے ۔اس آیت کا احمد رضا بریلوی کا ترجمہ یہ ہے : اور جب ہم آدمی کو اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ دیتے ہیںاور اس پر خوش ہوجاتا ہے ۔

اب دیکھیں یہاں ترجمہ کیا جارہا ہے کہ ’’خوش ہو جاتا ہے ‘‘لیکن وہاںاسی مادہ کا معنی ’’خوشی کریں‘‘کیا؟؟جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا۔جو معنی سورہ یونس کی مذکورہ آیت کا کیا جاتا ہے، وہی معنی’’یہاں‘‘ کیا جائے تو نتیجہ نکلے گا کہ ہر انسان ہی خوشی منارہا ہے اور جلوس نکال رہا ہے اور عید منا رہا ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت کا مذکورہ معنی صحیح نہیں اور یہ ترجمہ کرنے والوں نے محض اپنی خواہش پرستی کا ثبوت دیتے ہوئے قرآن مجید میں معنوی تحریف کی ہے ۔

 اس آیت کا صحیح مفہوم : اس صورت کی آیت نمبر (57) میں قرآن مجید کی نعمت کا خصوصی تذکرہ ہوا ہے کہ لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت آچکی ۔یہ دلوں کی امراض کی شفاء اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے ۔

اس آیت نمبر (57) میں قرآن مجید کا ذکر ہے اور پھر اگلی آیت (58) میں ہی کہا گیا کہ اس پر خوش ہو جاؤ یعنی اسے اپنا مطاع بنانےمیں خوش ہوجاؤاور اس سے یہ تعلق جو کچھ تم جمع کرتے ہو اس سے یہ بہتر ہے ۔مزید بھی اس آیت میں مذکور الفاظ فضل اور رحمت کے حوالے سے اہل علم کے اقوال موجود ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے ۔مگر جو اس سے آیت سے اثبات میلاد کے لئے کشیدہ جاتا ہے ۔وہ سراسر غیر ثابت ہے ۔نبی ﷺ کے اخلاق کو قرآن کہا گیا معنیٰ یہ کہ قرآن مجید کی عملی تصویر اور آپ کی زندگی میں یہ دن 63مرتبہ آیا ،مگر کوئی ایک مثال مروجہ جشن کی صورت کی سی ثابت نہیں کی جاسکتی ۔

کیا احادیث سے جشن میلاد ثابت ہے ؟
موصوف نے عنوان قائم کیا :احادیث مبارکہ سے میلادمصطفٰی ﷺمنانے کے دلائل ‘‘اس عنوان کے تحت دلیل ذکر کی :

’’حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت ﷺ میں عرض کی گئی یا رسول اللہ ﷺ !آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟آپ نے جواب دیا اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ۔ (صحیح مسلم جلد اول صفحہ نمبر 7) (صفحہ نمبر 1) 

تبصرہ :
یہی گزارش ہماری ہےکہ اس حدیث پر عمل کریں کیونکہ اس حدیث میں آپ ﷺ کےروزہ رکھنے کا ذکر ہے نہ کہ کسی اور عمل کا ۔اب جسے خوشی ہے اور نبی ﷺ کی خوشی جیسی خوشی ہے تو اسے یہی عمل کرنا چاہئے ،یعنی ہر پیر کو روزہ رکھنا چاہئے ۔اور جسے نبی ﷺ کی خوشی جیسی خوشی نہیں وہ جو چاہے مرضی کرے چاہے جلوس ،جلسے نکالے اور اربوں روپے خرچ کردے ۔اسے نبی کی خوشی جیسی خوشی نہیں ۔البتہ یہ تو واضح ہے کہ جسے نبی جیسی خوشی نہیں(یعنی جوآپ کی ولادت کی مناسبت سے بس صرف روزے پر اکتفاء نہ کرے اور باقی اختراعات سے خود کو محفوظ نہ رکھے ۔) اسے نبی کی ولادت پر خوشی کیسے ہوسکتی ہے ؟؟

فافھم فانہ واضح

ثانیاً:پر نبی ﷺ نے اس روزے کی دو وجہ بتائیں۔ ایک ولادت اور دوسری نبوت۔میلادکے قائلین سے گزارش ہے کہ ذرا اپنا جائزہ لیں کہ نبی ﷺ سے عشق کا نعر ہ بڑے زور و شور سے لگایا جاتا ہے اور جس دن نبوت ملے اس دن خاموشی کیوں ؟؟

تنبیہ : یہ جملہ بطور التزامی جواب کے کہا گیا اس سے ہر گز یہ کشید نہ کیا جائے کہ ہم نبوت والے دن کو مروجہ جشن کی طرح منانے کی دعوت دے رہے ہیں ۔

ثالثاً: اس میں دن کا ذکر ہے نہ کہ بارہ تاریخ کا ۔جبکہ موصوف بارہ ربیع الاول کے مروج جشن عید میلاد کو ثابت کر رہے ہیں ۔

رابعاً:اس حدیث سے صحابہ نے وہی سمجھا جو آپ ﷺنے بیان کیا، کہ اس دن روزہ رکھنا چاہئے۔ نہ کہ وہ جو بریلویہ نے تراشہ کہ بارہ ربیع الاول کو جشن منانا چاہئے ،جس کا اس حدیث سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ اب جن کی عقل دانی کا عالم یہ ہو کہ انہیں پیر کے روزے میں بارہ ربیع الاول کا جشن نظر آرہا ہو تو ایسی عقلوں پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ۔

دوسری دلیل :
’’حدیث شریف ابو لہب کو جب اپنے بھائی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے یہاں بیٹے کی خوشخبری ملی تو بھتیجے کی آمد کی خوشخبری لانے والی کنیز ’’ثویبہ ‘‘ کو اس نے انگلی کا اشارہ کردیا ۔ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑے برے حال میں ہے تو اس سے پوچھا گیا کیا گزری ؟ ابولہب نے جواب دیا ’’مرنے کے بعد کوئی بہتری نہ مل سکی ،ہاں مجھے اس انگلی سے پانی ملتا ہے کیونکہ میں نے (اپنے بھتیجے محمد ﷺ کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا۔ ‘‘(بخاری شریف ،کتاب النکاح ،حدیث5101 ،ص912،مطبوعہ داراسلام ریاض سعودی عرب ) (مذکورہ پملٹ : 2) 

مذکورہ واقعہ سے متعلق موصوف کی کذب بیانیاں :
پہلا جھوٹ : موصوف نے اسے حدیث باور کروایا جبکہ یہ حدیث نہیں ۔حدیث نبی ﷺ کے قول فعل اور تقریر کو کہا جاتا ہے یہاں یہ تینوں چیزیں موجود نہیں ہیں ۔بلکہ کسی مجہول کا خواب اور وہ بھی کافر کے بارے میں اسے حدیث کہنا آپ کے مبلغ علم کو واضح کردیتا ہے ۔

دوسرا جھوٹ :
موصوف نے صحیح بخاری طبع دارالسلام کےحوالے سے، ابو لہب کے ثویبہ کو آزاد کرنے کی مذکورہ وجہ لکھی ،کہ ’’ابو لہب کو جب اپنے بھائی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے یہاں بیٹے کی خوشخبری ملی تو بھتیجے کی آمد کی خوشخبری لانے والی کنیز ’’ثویبہ ‘‘ کو اس نے انگلی کا اشارہ کردیا ۔‘‘جبکہ ہم نے اس محولہ طبع کو بھی چیک کیااور موصوف کے مکتبہ فکر کے کسی ادارے کے مطبوعہ میں بھی یہ الفاظ جو موصوف نے لکھے ہیں ۔نظر نہیں آئے ۔صحیح بخاری کی روایت میں قطعاً یہ مذکورہ کلمات موجود نہیں ۔لہذا یہ امام بخاری کی طرف بہت بڑا جھوٹ ہے ۔

تیسرا جھوٹ :
اسی طرح موصوف نے خواب دیکھنے والے کا جو نام لکھا ہے وہ عباس ہے ،حالانکہ صحیح بخاری میںقطعاً عباس کا نام نہیں ۔بلکہ صحیح بخاری کے علاوہ بھی بعض دیگر کتب میں ہمیں یہ روایت ملی لیکن عباس کا نام ہمیں اس میں نہیں ملا اور یہ مرسل ہی ملی ۔لہذاموصوف کا صحیح بخاری کے حوالےسے یہ الفاظ لکھنا ’’ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا ‘‘۔یہ صحیح بخاری پر الزام باندھا گیا ہے ۔اورسیاہ جھوٹ ،نرا دھوکہ ہے ۔

مذکورہ واقعہ کا رد :
اولاً: یہ روایت مرسل ہے، عروہ اس خواب کو بیان کر رہے ہیں ۔لیکن عروہ نے کس سے سنا یہ واضح نہیں ۔

ثانیاً : یہ خواب دیکھنے والا مجہول ہے اور مجہول کےبارے میں آپ کے اعلیٰ حضرت کیا فرماتے ہیں ،ملاحظہ فرمائیں :’’ان لفظۃ یعنی قبل ان یغسلوھا مدرج فی الحدیث ولا یدری قول من ھو ولاحجۃفی المجہول۔‘‘

کہہ رہے ہیں کہ لفظ ’’یعنی قبل ان یغسلوھا ‘‘ مدرج ہے اور یہ نہیں معلوم کہ یہ کس کا قول ہے،اور مجہول سے دلیل نہیں لی جاتی۔

(فتاوی رضویہ : جلد نمبر 2) 

اگر ابھی بھی نہیں سمجھے تو لیجئے ایک اور حوالہ احمد رضا صاحب کا ملاحظہ فرمالیں : ’’والنقل فــــــعن المجھول لایعتمد ‘‘ یعنی : مجہول سے نقل کرنا قابل اعتماد نہیں ۔(فتاوی رضویہ : جلد نمبر 1) 

لہذا مجھول سے بیان کرنا کوئی حجت نہیں رکھتا۔

ثالثاً : کئی ایک سیرت نگاروں کے حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں،جن میں ابن سعد ،ابوالفرج عبدالرحمن ابن الجوزی، ابن عبدالبر وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ ابو لہب نے ثویبہ کو نبی ﷺ کی ہجرت کے بعد آزاد کیا تھا ۔حافظ ابن حجرنے بھی ابن سعد کے حوالے سے اسی بات کو نقل کیا۔ حوالوں کے لئے دیکھئے :طبقات ابن سعد :109 ،108/1 طبع دار صادر بیروت،المنتظم فی التاریخ:260/2،دارالکتب العلمیہ الوفا باحوال المصطفی : 107/1،دارالکتب الحدیثۃ،الاستیعاب :135/1دارالکتب العلمیہ ،الاصابہ :36/4،دارالکتب العلمیہ ) 

لہذا مذکورہ بالا مرسل قول،جوکہ ایک مجہول کے خواب پر مشتمل ہے۔ ان اقوال کے بھی منافی ہے ۔

رابعاً: یہ آیت قرآن مجید کے بھی خلاف ہے کیوں کہ قرآن مجید میں واضح طور پر یہ بات موجود ہے :’’ تَبَّتْ يَدَاۤ اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّؕ۰۰۱ مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَؕ۰۰۲‘‘ (اللھب : 1) یعنی : ابولہب کے دونوں ہاتھ تباہ ہوں اور وہ (خود بھی) ہلاک ہو۔ نہ اس کا مال اس کے کسی کام آیا اور نہ وہ جو اس نے کمایا۔

اب ہر ذی عقل جانتا ہے کہ اس آیت میں ہاتھ کی ہلاکت کا خصوصی طور پر ذکر موجود ہے ۔اب یہاں قرآن کہے کہ ابولہب کے ہاتھ ہلاک ہوگئے لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق موصوف اور ان کے ہمنوااس مرسل قول کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ ابو لہب کو اس کی انگلی سے کچھ پینے کو مل جاتا ہے ۔مزید یہ کہ قرآن کہے کہ کہ مال کسب اسے کوئی فائدہ نہ دے گا ۔لیکن یہاں کہاجائے کہ نہیں اس کا مال کسب (لونڈی ) نے اسے فائدہ دیا ۔

خامساً : یہ ایک غیر نبی (اوریہاں تو اس کے دیکھنے والے کا بھی معلوم نہیں ،کہ کون ہے ؟ ) کا خواب ہے اور غیر نبی کے خواب کے بارے میں الیاس قادری صاحب کچھ یوں کہتے ہیں :

’’غیر نبی کا خواب شریعت میں حجت یعنی دلیل نہیں اور فقط خواب کی بنیاد پر کسی مسلمان کو کافر نہیں کہا جاسکتا ۔‘‘(بیانات عطاریہ : 109/2) اس قول کی روشنی میں دیکھیں آج کیا ایک خواب کی بنیاد پر میلاد کی اساس رکھ کر نہ منانے والوں کی ان الفاظ میں تکفیر نہیں کی جاتی کہ’ ’سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منارہے ہیں‘‘ جو چوکوں چوراہوں پر لکھے دکھائی دیتے ہیں۔

لہذا یہ واقعہ جو ایک غیرنبی کے خواب پر مشتمل ہے ۔اسےشریعت کا درجہ نہیں دیا جاسکتااور قرآن کے بھی منافی جبکہ فقہ حنفی کا اصول ہےکہ خبر واحد قرآن کےخلاف ہو تو قابل قبول نہیں (تمام حنفی اصول فقہ کی کتب میں یہ بات موجود ہے۔اور سراسر غلط اصول ہے یہاں اس اصول کا حوالہ محض اس لئے دیا گیا ہے کہ موصوف حنفی ہونے کے دعویدار ہیں۔) مگر یہاں خبر واحد تو کجا ؟؟ایک ایسی روایت جس کے لکھنے والے کا علم تک نہیں اس کے ذریعے سےقرآن کی مخالفت کی جارہی ہے ؟؟

ضرورت ہے خدا کے لئے نادم ہو جا

کر رہا تیرے اغماض کا شکوہ کوئی

جشن میلاد کو عیدکہنا :
اما ابوالقاسم اصفہانی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 502ھ ) عید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’عید اسے کہتےہیںجو بار بار لوٹ کر آئے ، شریعت میں لفظ ’’عید ‘‘ یوم الفطر اور یوم النحر کے لئے خاص نہیں ہے۔ عید کا دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے ۔رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عید کے ایام کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے ہیں ،اس لئے ہر وہ دن جس میں خوشی حاصل ہو، اس دن کے لئے عید کا لفظ مستعمل ہوگیا ہے ۔(صفحہ : 2) 

امام قسطلانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب مواہب الدنیہ کے صفحہ نمبر 75پر فرماتے ہیں اللہ تعالی اس مرد پر رحم کرے جس نے آنحضرت کی ولادت کے مبارک مھینہ(ربیع ا لاول) کی راتوں کو ’’ عیدین‘‘اختیار کیا ہے تاکہ اس کا یہ (عید) اختیار کرنا ان لوگوںپر سخت تر بیماری ہو جن کے دلوں میں سخت مرض ہے اور عاجز کرنے والی لا علاج بیماری ، آپ کے مولد شریف کے سبب ہے ۔ بعض نادان لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عیداس دن کو کہتے ہیں جس دن عید کی نمازپڑھی جائے ، حالانکہ یہ نادانی ہے ، ’’عید میلاد النبی ‘‘بمعنی حضور کی ولادت کی خوشی ہے ۔(ایضاً) 

جواب :
ــــــــــ؛
قارئین غور فرمائیں کہ عید میلاد کو عید ثابت کرنے کے لئے کوئی نص قرآنی یاحدیث نہیں ملی۔بلکہ قرون اولیٰ سے بھی کوئی مثال پیش نہیں کی۔ا ب چھٹی صدی کے علماء کی بات کوئی دلیل شرعی کی حیثیت نہیں رکھتی ۔مزید یہ کہ امام قسطلانی کا یہ قول تو اگر ثابت ہے تو بالکل ہی شاذ ہے کیونکہ محدثین کی کتب اٹھاکر دیکھیں تو سب نے کتاب العیدین (دو عیدیں ) ہی کا عنوان قائم کیا ہے ۔اور یہی اسلامی شعار ہیں ۔

امام بخاری ،امام مسلم ،امام ابوداؤد ،امام ترمذی ،امام نسائی، امام ابن ماجہ ،امام مالک ،امام بیہقی ،امام دارمی ،امام حاکم ،امام ابن حبان ،امام ابن خزیمہ ،امام دارقطنی ،امام ابن ابی شیبہ ،امام عبدالرزاق ،امام فریابی (احکام العیدین) کتاب الآثار لابی یوسف،کتاب الآثار لمحمد بن حسن الشیبانی ،فقہ حنفی میں البحر الرائق شرح کنز الدقائق ،ابن نجیم حنفی ،درمختار حصکفی کی ،العنایۃ شرح الھدایۃ لبابرتی ،ھدایہ ،مرغینانی ،ابن ھمام ،سرخسی ،زیلعی وغیرہ سب نے عیدین کے ابواب قائم کئے اور عیدین سے متعلق شرعی مسائل کو ذکر کیا ۔کسی نے بھی اس ضمن میں نہ ہی عید میلاد کا ذکر کیا اور نہ ہی اس سے متعلق مسائل ذکر کئے بلکہ جو مزعومہ فلسفہ موصوف نے لکھا ہے یہ بھی کسی نے بیان نہیں کیا۔

بلکہ دور حاضر میں سے بعض بریلویہ کے اقوال پیش کئے جا سکتے ہیں جنہوں نے اسے عید شرعی شمار نہیں کیا ،سردست طاہر القادری صاحب ہیں انہوںنے اپنی کتاب معمولات میلاد میں عنوان قائم کیا کہ’’ جشن میلاد النبی ﷺعید مسرت ہے عیدشرعی نہیں ‘‘۔(معمولات میلاد : 207) اس عنوان کے تحت صریح طور پر لکھا : ’’جشن میلاد النبی ﷺعید شرعی ہے نہ ہم اسے عید شرعی سمجھتے ہیں ۔‘‘(ایضاً) پھر اگلے ہی صفحےپر لکھا:’’ ہمارے نزدیک شرعی طور پر صرف دو ہی عیدیں ہیں ،عید الفطر اور عید الاضحیٰ ۔‘‘ (معمولات میلاد : 208) اب اندازہ لگائیں ایک طرف یہ بھی کہا جائے کہ یہ عیدوں کی عید اور دوسری طرف یہ بھی کہا جائے کہ یہ شرعی عید نہیں ۔

بہرحال موصوف کا صرف جشن میلاد کے اثبات کے لئے معنی عید میں وسعت اور عموم پیدا کردینے کی حیثیت واضح ہوچکی ہے ۔

صحابہ اور میلاد :
موصوف نے ’’صحابہ کرام کا میلاد منانا ‘‘کا عنوان قائم کرکے بخاری شریف سے نقل کرتے ہوئے سیدنا حسان سے میلاد منانا ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔’’حدیث شریف : حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ،سرکار ﷺ کی تعریف میں فخریہ (نعتیہ ) اشعار پڑھتے ،سرکار کریم ﷺ، حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لئے فرماتے ۔اللہ تعالی روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام ) کے ذریعہ حسان کی مدد فرمائے ۔‘‘

(مذکورہ لٹریچر : 2) 

تبصرہ :
اس سے استدلال بھی بہت بڑا دھوکہ ہے ،کیونکہ محفل میلاد کا معنی آپ نے خود کیا ہے کہ میلاد کا تذکرہ کرنا (صفحہ ایضاً) مگر سیدنا حسان سے جو حدیث پیش کررہے ہیں ۔اس میں خود آپ نے ترجمہ کیا ہے ’’حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ،سرکار ﷺ کی تعریف میں فخریہ (نعتیہ) اشعار پڑھتے ‘‘ اب یہاں ہمیں بھی دکھایا جائے کہ تذکرہ میلاد کہاں ہے؟ چہ جائیکہ کہ اس طرز عمل کو ثابت کیا جائے جو آپ اختیار کرتے ہیں ۔اور بارہ ربیع الاول والے دن جشن منانا ثابت کیا جائے ۔مختصر یہ کہ اس کا آپ کےبارہ ربیع الاول کے جشن میلاد سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔باقی رہا مسئلہ نبی ﷺ کی شان اور سیرت بیان کرنا اور اشعار میں پڑھنا یقیناً کار خیر ہےجس کا کسی کو انکار نہیں ۔

اسی طرح رضیہ التنویر فی مولد السراج المنیرکے حوالے سے عامر انصاری کا اثر پیش کیا کہ وہ اپنے گھر میں بچوں کو نبی کی ولادت کے واقعات سکھلا رہے تھے ۔(صفحہ : 2) 

اولاً : رضیہ التنویر کا حوالہ معتمد نہیں اصل مرجع کا حوالہ پیش کیا جائے ۔

ثانیاً: نبی کی ولادت کے واقعات سکھلانا یابتلانا اور چیز ہے اور بارہ ربیع الاول کو محفل منعقد کرکے جشن منانا اور چیز ہے ۔ورنہ محض نبی ﷺ کی بیان اور اس کا علم اپنے بچوں کو دینا مستحسن عمل ہے۔کہ نبی ﷺ کی سیرت سے اپنے گھر والوں اور بچوں کو متعارف کروانا تربیت کا حصہ ہے ،جو بالعموم پورے سال کے لئے عام بلکہ پوری زندگی کے لئے عام ہے اور آپﷺ کی سیرت کے پہلوؤں میں سے ایک پہلو ولادت بھی ہے جس کا کسی کو انکار نہیں ۔لیکن اس سے یہ تراشنا کہ یہ میلادمناتے تھے اور آپ کا موضوع تو بارہ ربیع الاول کے جشن عید میلاد کو بیان کرنا ہے جس سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں ۔

لہذا حقیقت یہ ہے کہ مروجہ میلاد کسی صحابی سے ثابت نہیں اور اس کا خود آل بریلویت کو بھی اعتراف ہے چناچہ چند حوالے پیش خدمت ہیں ۔ مثلاً:

 جناب احمد یار خاں نعیمی نے اسے بدعت مستحبہ کہہ کر بدعت مانا ہے ۔(جاء الحق : 198/1) اب بدعت کی مستحبہ وسیئہ کی تقسیم ناجائز ہے اس تفصیل کا یہ محل نہیں ۔یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ انہوں نے بدعت مان لیا ہے ۔

جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب یوں اعتراف ِحقیقت کرتے ہیں:

’’سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے محافلِ میلاد نہیں منعقد کیں بجا ہے۔‘‘ (شرح صحیح مسلم : 179/3) 

جناب عبد السمیع رامپوری بریلوی لکھتے ہیں :ــ’’یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوایعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔‘‘(انوارِ ساطعہ در بیان مولود و فاتحہ :267،ضیاء القرآن پبلی کیشنز ) 

بلکہ خود موصوف لکھتے ہیں : ’’یہ کہنا کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان سے مروجہ میلاد منانا ثابت نہیں ہے ،ایسا کہنے والوں سے ہمارا سوال ہے کہ کیا کبھی صحابہ کرام علیھم الرضوان نے سالانہ اجتماعات حج کے علاوہ کئے ۔۔۔الخ ‘‘ (مذکورہ لٹریچر : 2) 

اس عبارت کو بغور پڑھا جائے موصوف خود اعتراف کر رہے ہیں کہ صحابہ سے یہ ثابت نہیں تبھی تو اپنے تئیں التزاماً مثالیں پیش کررہے ہیں ۔

ان تمام حوالوں سے واضح ہوگیا کہ میلاد کا دور صحابہ سے کوئی تعلق نہیں ۔جوکہ خود بریلویہ کی عبارات سے واضح ہے ۔اب اسے تسلیم کرلینے کے باوجود زبردستی صحابہ سے ثابت کرنے کی کوشش کرنا!!واضح تضاد بیانی ہی نہیں بلکہ موصوف کے مبلغ علم کی بھی آئینہ دار ہے ۔

کیا شب ولادت ، شب قدر سے افضل ہے :
موصوف لکھتے ہیں : ’’شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :سرور کونین ﷺ کی ولادت کی شب یقیناً شب قدر سے افضل ہے کیونکہ شب ولادت آپ ﷺ کی ولادت کی شب ہے اور شب قدر آپ ﷺ کو عطا ہوئی شب ہے ۔ ‘‘(مذکورہ لٹریچر : 2) 

تبصرہ :
 آپ کا اس باب میں کوئی شرعی نص پیش نہ کرنا آپکی اس حوالے سے بے بسی کو واضح کر رہا ہے ،کیونکہ اس باب میں آپ کو اگر موضوع روایت بھی مل جاتی تو مزے لے لے کے بیان کرتے کہ ۔۔۔مگر افسوس ! چہ باید کرد

جہاں تک شب قدر کی فضیلت کا تعلق ہے قرآنی آیات ،احادیث اور اسلاف صالحین کے اس پر اقوال و ادلہ موجود ہیں کہ یہ سارے سال کی تمام راتوں سے افضل رات ہے اور قرآن نے اسے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا یہ اس کا اور ایک رات کا باہم فضیلت میں فرق ہے ۔جو کہ قرآن سے ثابت ہوگئی ۔اب موصوف کو بھی چاہئے کہ ایسی صریح آیت پیش کر کے وہ کسی اور رات کو شب قدر سے افضل ثابت کردیں ،ہم مان لیں گے ۔

شاہ عبدالحق محدث دہلوی کا قول اس بارے میں کوئی شرعی دلیل نہیں ۔اور نہ ہی آپ ان کے مقلد ہیں آپ پر لازم تو یہ ہے کہ آپ حق تقلید نبھاتے ہوئے اس حوالے سے امام ابوحنیفہ سے یہ ثابت کرتے ،لیکن اس حوالے سے موصوف کے پاس ادلہ شرعیہ سے دلیل تو درکناراپنے مقلَّد امام کا کوئی قول بھی نہیں ۔

جھنڈے و پرچم لگانا:
موصوف لکھتے ہیں : ’’شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ما ثبت من السنۃ میں رقم طراز ہیں کہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ (شب ولادت) میں نے تین پرچم اس طرح دیکھے کہ ان میں سے ایک مشرق میں دوسرا مغرب میں اور تیسرا خانہ کعبہ کی چھت پر نصب تھا‘‘ (مذکورہ لٹریچر : 3) 

تبصرہ :

اس حوالے سے بھی ہماری عرض وہی ہے جو پچھلے فقرے میں تبصرہ گزر چکا ہے ۔

شب ولادت کھڑے ہو کر سلام پڑھنا :
موصوف لکھتے ہیں : ’’حضرت امام سبکی علیہ الرحمہ کی محفل میں کسی نے یہ شعر پڑھا ’’ بے شک عزت و شرف والے لوگ سرکار اعظم ﷺ کا ذکر سن کر کھڑے ہو جاتے ہیں ‘‘ یہ سن کر امام سبکی علیہ الرحمہ اور تمام علماء و مشائخ کھڑے ہوگئے ۔ اس وقت بہت سرور اور سکون حاصل ہوا ‘‘(مذکورہ پمفلٹ : 3) 

برصغیر کے معروف محدث اور گیارھویں صدی کے مجدد شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتےہیں کہ میں محفل میلاد میں کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہوں ۔ میرا یہ عمل شاندار ہے ۔(ایضاً) 

تبصرہ :
گیارھویں صدی کے عالم دین کے عمل سے کوئی کام شریعت نہیں بن جاتا ۔شریعت وہی ہے جو قرآن اور صاحب قرآن سے ثابت ہے،جوکہ موصوف پیش نہیں کر سکے ۔اور تا قیامت پیش نہیں کر سکیں گے۔ باقی مزید گفتگو پچھلے فقرے میں کی جا چکی ہے ۔

کرسمس اور عید میلاد النبی میں فرق :
موصوف لکھتے ہیں :’’کرسمس اور عید میلاد النبی میں بڑا فرق ہے ۔ عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام کا یوم (معاذاللہ ) ان کو خدا ہونے یا خدا کا بیٹا ہونے یا تیسرا خدا ہونے کے لحاظ سے مناتے ہیں ۔لیکن مسلمان اپنےآقا و مولٰی ﷺ کی ولادت پر خوشی مناتے ہیں ۔آقا کریم ﷺکو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ﷺ مانتے ہیں ۔اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ کتنا بڑا فرق ہے کرسمس اور عید میلاد النبی ﷺ منانے میں ۔‘‘(ایضاً) 

تبصرہ:
کوئی فرق نہیں ۔عیسائی اس دن خوشی عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی ہی مناتے ہیں ۔بطور آئینہ طاہر القادری کی اس حوالے سے تقاریر اور تحریروں کو بھی شامل حال رکھیں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ کا یہ جملہ بھی محل نظر ہے کہ ’’آقا کریم ﷺکو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ﷺ مانتے ہیں ۔‘‘ کیونکہ آپ کےمکتبہ فکر کی ایسی عبارات پیش کی جاسکتی ہیں کہ آپ نبی ﷺ کو نور بلکہ نور من نور اللہ مانتے ہیں ۔

پھر مزید یہ ہے کہ بعض نے صریح طور پر خدا بھی کہا ہے ۔یا اس مفہوم کے کلمات بھی کہے ہیں ۔

اب ان عبارات کی موجودگی میں آپ کا مذکورہ جملہ کہہ کر راہ فرار اختیار کرنا ،بہت بڑا دھوکہ ہے ۔

کیا مروجہ میلاد النبی ﷺ ایک ظالم اور عیاش بادشاہ کی ایجاد ہے ؟
عید میلاد النبی ﷺ سے عداوت رکھنے والے ایک من گھڑت بات یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ میلاد کی ابتداء عیاش اور ظالم بادشاہ مظفرالدین نے کی ۔ حالانکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ مظفر الدین شاہ اربل عیاش نہ تھا بلکہ عادل تھا ۔ دیوبندیوں اور غیر مقلدین کے معتبر مؤرخ ابن کثیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :

شاہ اربل مظفر الدین بن زین الدین ربیع الاول میں میلاد شریف مناتا ،اور عظیم الشان جشن برپا کرتا تھا ۔ وہ ایک نڈر،جانباز عاقل ،عالم، اور عادل بادشاہ تھا ۔اللہ تعالٰی ان پر رحم فرمائے اور انہیں بلند درجہ عطا فرمائے ۔ شیخ ابوالخطاب بن دحیہ نےان کے لئے میلاد شریف کی ایک کتاب تصنیف کی اور اس کا نام ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر ‘‘رکھا تو انہوں نے شیخ کو ایک ہزار دینار پیش کیا ۔انہوں نے ایک طویل عرصے تک حکمرانی کی اور سات سو تیس ہجری میں جب وہ عکا شہر میں فرنگیوں کے گرد حصار ڈالے ہوئے تھے ، ان کا انتقال ہوگیا ۔ وہ اچھی سیرت و خصلت کے حامل تھے ۔ (البدایہ والنھایہ ، جلدسوم ، صفحہ 136) (مذکورہ : 4) 

تبصرہ :
اولاً:آپ کی یہ عبارت ’’عید میلاد النبی ﷺ سے عداوت رکھنے والے ایک من گھڑت بات یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ میلاد کی ابتداء عیاش اور ظالم بادشاہ مظفرالدین نے کی ۔ حالانکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ مظفر الدین شاہ اربل عیاش نہ تھا بلکہ عادل تھا ۔ ‘‘ بالکل واضح ہے کہ آپ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ اسی کی ایجاد ہے ۔جب آپ نے اس عبارت کے ذریعے سے اپنے اکابر کی طرح آپ کے پاس یہ ماننے کے علاوہ چارہ ہی نہیں تھا کہ یہ مظفر الدین کی ایجاد ہے ۔تو کیوں خوامخواہ پچھلے فقرات میں قرآن و احادیث و آثار صحابہ کو توڑنے مروڑنے کی جسارت کرتے رہے ۔

ثانیاً:جب یہ تسلیم کیا جا چکا ہے کہ مروجہ میلادکی اصل یہ ہے کہ اب مؤجد اگر بالفرض آپ اسے ایک عادل بادشاہ ثابت کر بھی دیں تو بھی شریعت کسی عادل بادشاہ کے عمل کا نام نہیں اور نہ ہی آپ کسی عادل بادشاہ کے مقلد ہیں۔پھر یہاںبادشاہ کے عادل و ظالم کی بحث چہ معنیٰ دارد ۔

ثالثاً : تاریخی روایات میں اس بادشاہ کا شاہ خرچ اور اسراف کرنا ثابت ہے اور اسی کا نام عیاشی ہے ۔بلکہ بعض میں اس کا رقص کرنے کا ذکر بھی ہے ۔نیز آپ اس کی عدالت ثابت کر رہے ہیں جبکہ کسی کے محض عادل ہونے سے اس کی باقی عصمت کا پاک ہونا ثابت نہیں ہوجاتا ۔ابن خلکان نے لکھاہے کہ وہ محفل سماع کا شوقین تھا ،اور کبھی کبھی اپنے کپڑوں کا بعض حصہ اتار بھی دیاکرتا تھا ۔مزید شہاب الدین ابی عبداللہ یاقوت بن عبداللہ الحموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے :طباع ھذا الامیر مختلفۃ متضادۃ فانہ کثیر الظلم ،عسوف بالرعیۃ راغب فی اخذ الاموال نم غیر وجھھا ،و ھو مع ذلک مفضل علی الفقراء ،کثیر الصدقات علی الغرباء ،یسیّر الاموال الجمۃ الوافرۃ یستفک بھا الاساری من ایدی الکفار ،(معجم لبلدان : 138/1،دار احیاء التراث العربی) 

یعنی: اس کی شخصیت مختلف قسم کی تھی کہ وہ بہت زیادہ ظلم کرنے والا بھی تھا اور لوگوں سے مال لینے والا بھی تھا ،اور ساتھ ہی قراءسے اچھے انداز سے پیش آنے والا ،صدقہ کرنے والا ،کفار سے قیدیوںکو چھڑانے والا بھی تھا ۔

بہرحال اس کی شخصیت کے حوالے سے اور بھی کئی اقوال مل جائیں گے ۔اصل بات وہی ہے کہ اس کے عادل اور ظالم کے فرق سے بدعت سنت نہیں بن جائے گی بلکہ بدعت ،بدعت ہی رہے گی ۔

رابعاً: مسئلہ صرف بادشاہ کا نہیں اس مولوی کا بھی ہے جس نے کتاب شائع کرکے پیسے کمائے اور وہ کتاب اس بدعت کی عام ہونے کا سبب بنی اور اس پر متعدد ائمہ کی جرح ثابت ہے ۔مثلاً

امام ذہبی : متہم

ابن نقطہ : ابن دحیہ ایسی چیزوں کا دعوی کرتا تھا جن کی کوئی حقیقت نہیں ۔

حافظ ضیاء : لم يعجبني حاله كان كثير الوقيعة في الأئمةیعنی : مجھے وہ پسند نہیں تھا ائمہ کے بارے میں بہت زیادہ سب و شتم سے کام لیتا تھا ۔

 إبراهيم السنهوري: أن مشائخ المغرب كتبوا له جرحه وتضعيفه یعنی : مغرب کے مشائخ نے اس پر جرح و تضعیف کی ہے ۔

قاضی حماۃ بن واصل : معرفت حدیث کے باوجودبے تکی باتیں نقل کرنے میں متہم ہے ۔

 وقال ابن النجار: رأيت الناس مجتمعين على كذبه وضعفه وادعائه سماع ما لم يسمعه ولقاء من لم يلقه

یعنی : میں نے لوگوں کے اس کے کذب ،ضعف سماع و لقاء کے جھوٹے دعووں پر مجتمع پایا ہے ۔

[میزان الاعتدال :181/3 ،لسان المیزان :163/5 ]

لہذا ابن دحیہ مجروح اور درباری عالم تھا ۔اور ایسے شخص نے جو کتاب لکھی محض شاہ اربل کے تقرب اور پیسہ کمانے کے لئے ۔لہذا اس کی کتاب اور اس عمل کی میدان علم میں کوئی حیثیت نہیں۔

میلاد النبی اور علماء اسلام :
موصوف نے امام قسطلانی ،شاہ ولی اللہ ،شاہ عبدالعزیز کے اقوال پیش کئے ہیں ۔جبکہ یہ انتہائی متاخر علماء کے اقوال پیش کئے ہیں، جو قرآن و وسنت کے برخلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں ۔بلکہ اس کے برعکس متعد علماء نے اسے بدعت قرار دے رکھا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں ۔

(1) تاج الدین عمر بن علی فاکہانی رحمہ اللہ :نے اس حوالے سے مستقل رسالہ بنام المورد فی عمل المولد بھی لکھا۔ اس بدعت کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

إِنَّ عَمَلَ الْمَوْلَدِ بِدْعَۃٌ مَّذْمُومَۃٌ یعنی : میلاد منانامذموم بدعت ہے ۔

نیز فرماتے ہیں : بَلْ ہُوَ بِدْعَۃٌ أَحْدثَہَا الْبَطَّالُونَ، وَشَہْوَۃُ نَفْسٍ اعْتَنٰی بِہَا الْـأَکَّالُونَ .

’’بلکہ یہ باطل پرست اور شکم پروروں کی ایجاد کردہ بدعت ہے۔ ‘‘(رسائل فی حکم الاحتفال بالمولد النبوی ،رسالۃ الاولیٰ المورد فی احکم المولد :9) 

(2) حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمہ اللہ :میلاد کے عمل کی اصل،بدعت ہے ۔ یہ عمل قرون ثلاثہ کے سلف صالحین میں سے کسی سے منقول نہیں۔‘‘ (الحاوی للفتاوی ،شرح صحیح مسلم از غلام رسول سعیدی بریلوی :176/3،فرید بک اسٹال ) 

(3) ابن الحاج نے بھی اسے دین میں زیادتی قرار دیا اور فرمایا اسلاف صالحین سے یہ عمل ثابت نہیں ۔(الحاوی للفتاوی سیوطی ،شرح صحیح مسلم از غلام رسول سعیدی بریلوی : 179/3) 

(4) امام سیوطی نے اس کے رد میںطویل کلام کر کے اس کا رد کیا اور کئی ایک ائمہ سے اس کا رد نقل کیا اورکہا کہ اس کا مؤجد بادشاہ اربل تھا۔(ایضاً) 

(5) شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ: یہ سلف صالحین سے ثابت نہیں۔ اگر یہ کام کار خیر ہوتا تو سلف سے ضرور منقول ہوتا۔(اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیۃ :333،جمعیۃ احیاء التراث الاسلامی ) 

(6) حافظ سخاوی : لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ .

میلاد شریف تینوں زمانوں میں (خیر القرون) کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا۔‘‘ (جاء الحق :212/1) 

اسی طرح امام شعبی ،امام سخاوی ،امام ابو عبداللہ الحفار ، عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوھاب ،محمد بن عبدالوھاب ،محمدبن عبداللطیف ،محمد عبدالسلام الشقیری،ابن الطباخ ،ابو زرعۃ العراقی ،الشیخ ظہیر الدین جعفر التزمنتی ان سب نے اس عمل کو بدعت قرار دیا ہے ۔(کما فی القول الفصل فی حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل ﷺ) 

 ان چند اقوال سے واضح ہوا کہ موصوف نے جو عنوان قائم کیا دراصل حقیقت اس کے برعکس ہے ۔

مزیدکئی ایک اہل علم نے اس کے رد میں کتب لکھیں ،جن میںسے چند ایک یہ ہیں ۔

(1) المورد فی عمل المولد ،للشیخ ابی حفص تاج الدین الفاکھانی

(2) حکم الاحتفال بالمولد النبوی والرد علی من اجازہ مفتی الدیار السعودیہ الشیخ محمد بن ابراھیم آل الشیخ

(3) حکم الاحتفال بالمولد النبوی ،الشیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز

(4) الرد القوی علی الرفاعی والمجھول وابن علوی و بیان اخطائھم فی المولد النبوی ،فضیلۃ الشیخ بن عبداللہ التویجری

(5) الانصاف فیما قیل من المولد من الغلو والاحجاف لفضیلۃ الشیخ ابی بکر الجزائری

(6) القول الفصل فی حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل ﷺلفضیلۃ الشیخ اسماعیل بن محمد الانصاری

(7) الاحتفال بالمولد بین الاتباع والابتداع لفضیلۃ الشیخ محمد بن سعد بن شقیر

یہ سات رسائل اب ایک کتاب کی شکل میں بنام رسائل فی المیلاد دستیاب ہیں ۔یہ کتاب دو جلدوں میں ہیں ۔اہل ذوق اس کا مطالعہ فرمائیں ۔

بحمدللہ موصوف کے دلائل کا علمی رد قارئین کی خدمت میں پیش کردیا گیا ہے ۔اب ہم چند سوالات پراس بحث کو ختم کرتے ہیں ۔

ہمارے قائلین میلاد سے چند سوالات :

(1) مقلد ہونے کی حیثیت سے امام ابو حنیفہ سے یہ میلاد ثابت کیا جائے؟ 

(2) مقلد ہونے کی حیثیت سے امام ابو حنیفہ سے اس کا حکم شرعی بھی ثابت کیا جائے؟ 

(3) میلاد نہ منانے والوں کا کیا حکم ہے امام ابو حنیفہ سے ثابت کیا جائے ؟ 

.

پیر، 26 اکتوبر، 2020

آخرت کی عدالت کے کچھ قوانین ‏

.

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ 
╭┄┅◐═══◐══◐══◐═══◐┅┄╮

آخرت کی عدالت کے کچھ قوانین 

~~~~~~~~~~~~؛

 آخرت کی عدالت میں پیش ہونے سے پہلے یہ قوانین جان لیجئے 

‏1- ساری فائلیں بالکل اوپن ہوں گی 

‏﷽ ﴿ونُخرِجُ لَهُ يَوْمَ القِيامَةِ كِتابا يَلقاهُ مَنْشُورًا﴾... سورة بني إسرائيل 13

ترجمہ: اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پا لے گا۔ 

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؛

‏2- سخت نگرانی کی حالت میں پیشی ہو گی 

‏﷽ ﴿ وَجَاءتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ ﴾... سورة ق 21 

ترجمہ: اور ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک لانے والا ہوگا اور ایک گواہی دینے والا۔ 

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؛

‏3- کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا 

‏﷽ ﴿وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ﴾.. ... سورة ق 29 

ترجمہ: نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا ہوں۔ 

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؛

‏4- آپ کی دفاع کے لیے وہاں کوئی وکیل نہ ہوگا 

‏﷽ ﴿اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا﴾.. سورة بني إسرائيل 14 

ترجمہ: لے! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے، آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے۔ 

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؛

‏5- رشوت اور سورس بالکل نہیں چلے گا 

‏﷽ ﴿يَوْمَ لا يَنفَعُ مَالٌ وَلا بَنُونَ﴾... سورة الشعراء 88

ترجمہ: اس دن نہ مال کام آئے گا نہ اولاد۔ 

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؛

‏6- ناموں میں کوئی تشابہ نہ ہوگا 

‏﷽ ﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا﴾... سورة مريم 64 

ترجمہ: تمہارا رب بھولنے والا نہیں۔ 

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؛

‏7- فیصلہ ہاتھ میں دیا جائے گا 

‏﷽ ﴿فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَؤُوا كِتَابِيهْ﴾... سورة الحاقة 19 

ترجمہ: سو جسے اس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہنے لگے گا کہ لو میرا نامۂ اعمال پڑھو۔ 

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؛

‏8- کوئی غائبانہ فیصلہ نہیں ہوگا 

‏﷽ ﴿وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ﴾... سورة يس 32 

ترجمہ: اور سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کئے جائیں گے۔ 

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؛

‏9- فیصلے میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا 

‏﷽ ﴿مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ﴾... سورة ق 29 

ترجمہ: میرے یہاں فیصلے بدلے نہیں جاتے۔ 

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؛

‏10- وہاں جھوٹے گواہ نہ ہوں گے 

‏﷽ ﴿ يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ }... سورة النور 24 

ترجمہ: جبکہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ 

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؛

‏11- ساری فائلیں حاضر ہونگی 

‏﷽ { أحْصَاهُ اللَّهُ وَنَسُوهُ ۚ } سورة المجادلة 6 

ترجمہ: جسے اللہ نے شمار رکھا ہے اور جسے یہ بھول گئے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؛

‏12- اعمال تولنے کا باریک پیمانہ ہوگا 

‏﷽ {وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَىٰ بِنَا حَاسبين } سورة الأنبياء 47 

ترجمہ: قیامت کے دن ہم درمیان میں لا رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو، پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا، اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم اسے لا حاضر کریں گےاور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے۔ 

( رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ) 

عربی سے منقول 

.

کیا یہ اہل حدیث نہیں؟ فاروق عبد اللہ نراین پوری

.

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ 
○═┅═┅═┅═┅═┅═┅═┅═┅○ 

سلف صالحین کے نزدیک لفظ ”اہل حدیث“ کا معنی ومفہوم 

✍ فاروق عبداللہ نراین پوری 

بعض حضرات کہتے ہیں کہ علمائے متقدمین جب لفظ ”اہل الحدیث“ یا ”اصحاب الحدیث“ کا اطلاق کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد وہ جماعت ہوتی ہے جن کا مشغلہ علم حدیث پڑھنا اور پڑھانا ہے۔ یعنی محدثین کی جماعت۔

ان کے مطابق آج کل جو ”منہج صحابہ وتابعین پر چلنے والوں‘‘ کے معنی میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے اور ایسے شخص کے لیے بھی اسے استعمال کرتے ہیں جن کا علم حدیث سے کوئی شغف نہیں ہوتا یہ ایک نئی اصطلاح ہے۔ سلف اس معنی میں اس لفظ کا استعمال نہیں کرتے تھے۔

اسی مغالطہ کو دور کرنے کے لیے یہ چند سطور آپ کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

اگر علماء متقدمین ومتاخرین کی کتابوں میں بغور دیکھا جائے تو لفظ ”اہل حدیث“ یا ”اصحاب حدیث“ کا اطلاق ان کے نزدیک دو معنوں میں ہوتا ہے:

(۱)خاص معنی: 
ہر وہ شخص جس کا تعلق علم حدیث پڑھنے پڑھانےسے ہو۔ یعنی محدثین کرام۔چونکہ اس معنی کا کوئی انکار نہیں کرتا اس لیے اس کی تفصیل کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔

(۲)عام معنی: 
ہر وہ شخص جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وتابعین اور ان کی اتباع کرنے والوں کے طریقے اورمنہج پر قائم ہو، چاہے اس کا تعلق علم حدیث سے ہو، یا فقہ سے، یا لغت وادب سے، یا کسی بھی دوسرے فن سے۔ بلکہ ایک عام شخص بھی اس وصف کے اندر داخل ہے گرچہ اس کا تعلق کسی بھی علم سے نہ ہو، جاہل ہو، اگر وہ صحابہ وتابعین کے منہج پر قائم ہے، بدعات وخرافات سے دور ہے، توسلف صالحین اس پر ”اہل حدیث“اور ”اصحاب حدیث“ کا اطلاق کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ ان کے نزدیک ”اہل سنت والجماعت“کےمترادف ہے۔ جس کسی نے بھی علمائے سلف کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اس کے لیے یہ چیز اظہر من الشمس ہے۔
سلف صالحین کے اقوال سے چند دلیلیں بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں: 

پہلی دلیل: 
یزید بن ہارون رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے حماد بن زید رحمہ اللہ سے پوچھا:
يَا أَبَا إِسْمَاعِيلَ هَلْ ذَكَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ فِي الْقُرْآنِ؟ فَقَالَ:بَلَى، أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى قَوْلِهِ: {لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ} فَهَذَا فِي كُلِّ مَنْ رَحَلَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ، وَيَرْجِعُ بِهِ إِلَى مَنْ وَرَاءَهُ، يُعَلِّمُهُمْ إِيَّاهُ(اے ابو اسماعیل کیا اللہ تعالی نے قرآن میں اصحاب حدیث کا تذکرہ کیا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا: ہاں،کیا تم نے یہ آیت نہیں سنی: {لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ}، یہ آیت ہر اس شخص کے متعلق ہے جو علم وفقہ کے حصول کے لیے سفر کرتا ہے اور واپس آکر دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا ہے) [ شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی ، ص۵۹]
یہاں حماد بن زیدرحمہ اللہ نے ”اصحاب حدیث“ کا لقب صرف محدثین کے لیے خاص نہیں کیا ہے، بلکہ ہر وہ شخص جو علم دین حاصل کرتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی فن سے ہو اس پر ”اصحاب حدیث“ کا اطلاق کیا ہے۔
اسی طرح کی بات عبد الرزاق الصنعانی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔[دیکھیں: شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی ، ص۵۹] 

دوسری دلیل: 
ابو بکر احمد بن عبد الرحمن النسفی المقری فرماتے ہیں:
كَانَ مَشَايِخُنَا يُسَمُّونَ أَبَا بَكْرِ بْنَ إِسْمَاعِيلَ أَبَا ثَمُودَ، لِأَنَّهُ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ، فَصَارَ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْيِ، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: {وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى}(ہمارے مشایخ ابو بکر بن اسماعیل کو ابوثمود کے نام سے یاد کرتے تھے؛ کیونکہ وہ پہلےاصحاب حدیث میں سے تھے، بعد میں اصحاب رائے میں سے ہو گئے۔ اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اور ثمود کو ہم نے ہدایت کا راستہ دکھایا لیکن انھوں نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو پسندکیا) [شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی، ص۷۵]
یہاں پر سیاق بالکل واضح ہے کہ ”اصحاب حدیث“ کا اطلاق ”اہل سنت والجماعت“ کے معنی میں کیا گیا ہے۔ جب تک وہ صحیح منہج پر قائم رہے انھیں وہ ”اصحاب حدیث“ میں سے شمار کرتے رہے لیکن جیسے ہی ان کا منہج بگڑا اور نصوص کو چھوڑ کر رائے ،قیاس اور خواہشات نفسانی کے پیچھے پڑ گئے انھیں ”اصحاب حدیث“ کے زمرے سے نکال کر ”ابو ثمود“ کہنے لگے؛ کیونکہ قرآن میں اللہ تعالی نے ثمود کی یہ صفت بیان کی ہے کہ انھوں نے ہدایت کا راستہ پانے کے باوجود گمراہی کو ہدایت پر فوقیت دی۔
یعنی ان مشایخ کے بقول صحیح منہج پر چلنے والے ہدایت یافتہ اور ”اصحاب حدیث“ ہیں۔ اور ان کے مقابلے میں ”اہل بدعت“ہیں۔
پتہ چلا کہ سلف ”اصحاب حدیث“ کا اطلاق علم حدیث کے ماہرین پر ہی نہیں کرتے تھے بلکہ صحیح منہج کے پیروکاروں کے لیے یہ لقب ان کے یہاں بالکل عام تھا۔ ورنہ یہ لازم آئےگا کہ ابو بکر بن اسماعیل پہلے علم حدیث کے ماہر تھے پھر اچانک جاہل ہو گئے جس کی وجہ سے سلف نے ان کے لیے یہ لقب استعمال کرنا بند کر دیا۔ یہ معنی کوئی متعصب شخص بھی نہیں سوچ سکتا۔ 

تیسری دلیل: 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی ہے کہ قیامت تک ایک جماعت حق پر قائم رہے گی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائےگی ، سبھی جہنم جانے والے ہیں سوائے ایک فرقے کے، اور یہ وہ جماعت ہے جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوں۔
اس جماعت کی تشریح میں سلف صالحین کی ایک جماعت مثلا: عبد اللہ بن مبارک، یزید بن ہارون، علی بن مدینی، احمد بن حنبل اور محمد بن اسماعیل البخاری رحمہم اللہ وغیرہم نے کہا ہے کہ وہ ”اصحاب حدیث“ ہیں۔ [دیکھیں: شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی، ص۲۵-۲۷]
ظاہر سی بات ہے کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ صرف علم حدیث پڑھنے پڑھانے والے ہی اس نجات یافتہ جماعت میں داخل ہیں اور باقی جو دوسرے علوم وفنون سے تعلق رکھتے ہیں، یا جن کا تعلق علم کے ساتھ نہیں ہے وہ نجات یافتہ نہیں۔ بلکہ ہر کوئی یہ مانتا ہے کہ چاہے کوئی جاہل ہی کیوں نہ ہواگر سلف صالحین کے منہج پر ہے، اہل بدعت کے منہج پر نہیں تو وہ ان شاء اللہ نجات یافتہ ہے۔ اور انھی کے متعلق نبوی بشارت ہے۔ باقی جو دوسرے گروہ ہیں وہ تحت المشیئہ ہیں۔ [تفصیل کے لیے امام صنعانی رحمہ اللہ کی کتاب: ”افتراق الأمة إلى نيف وسبعين فرقة“ کی طرف رجوع کریں]
ان اجلائے سلف کا مذکورہ احادیث کی شرح میں نجات یافتہ جماعت پر ”اصحاب الحدیث“ کا اطلاق کرنا واضح دلیل ہے کہ یہ لفظ ان کے نزدیک صرف علم حدیث کے ساتھ جڑے رہنے والوں کے لیے خاص نہیں تھا بلکہ ”اہل بدعت“کے مقابلے میں ہر اس شخص پر جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طریقے پر ہو اس کا اطلاق کرتے تھے۔ اور یہ اطلاق ان کے نزدیک بہت معروف ومشہور تھا۔ ورنہ یہ لازم آئےگا کہ سلف کے نزدیک نجات یافتہ جماعت صرف علم حدیث پڑھنے پڑھانے والے ہی ہیں۔ جس کا بطلان ہر ایک کے لیے بالکل واضح ہے۔ 

چوتھی دلیل: 
امام ابو عثمان اسماعیل بن عبد الرحمن الصابونی (متوفی۴۴۹ھ) نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب کا نام ہی ”عقیدۃ السلف اصحاب الحدیث“ رکھا ہے جس سے واضح ہے کہ اہل حدیث سے ان کی مراد سلف صالحین ہیں، صرف علم حدیث پڑھنے پڑھانے والے نہیں۔ اور اس کتاب میں بہت ساری جگہوں پر سلف کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے اسے ”اہل حدیث اور اصحاب حدیث کا عقیدہ“ کہا ہے۔ بطور مثال چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:

الف:
ويعتقد أهل الحديث ويشهدون أن الله سبحانه وتعالى فوق سبع سموات على عرشه[عقيدة السلف أصحاب الحديث:ص۶]

ب:
مذهب أهل الحديث أن الإيمان قول وعمل ومعرفة، يزيد بالطاعة وينقص بالمعصية[عقيدة السلف أصحاب الحديث:ص۲۵]

ج:
يشهد أصحاب الحديث ويعتقدون أن القرآن كلام الله وكتابه، ووحيه وتنزيله غير مخلوق، ومن قال بخلقه واعتقده فهو كافر عندهم[عقيدة السلف أصحاب الحديث:ص۳]

د:
ومن قال: إن القرآن بلفظي مخلوق، أو لفظي به مخلوق فهو جاهل ضال كافر بالله العظيم. وإنما ذكرت هذا الفصل بعينه من كتاب ابن مهدي لاستحساني ذلك منه، فإنه اتبع السلف أصحاب الحديث [عقيدة السلف أصحاب الحديث:ص۴]

ه:
يثبت أصحاب الحديث نزول الرب سبحانه وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا، من غير تشبيه له بنزول المخلوقين، ولا تمثيل ولا تكييف بل يثبتون ما أثبته رسول الله صلى الله عليه وسلم، وينتهون فيه إليه، ويمرون الخبر الصحيح الوارد بذكره على ظاهره، ويكلون علمه إلى الله [عقيدة السلف أصحاب الحديث:ص۹]

و:
يعتقد ويشهد أصحاب الحديث أن عواقب العباد مبهمة، لا يدري أحد بما يختم له[عقيدة السلف أصحاب الحديث:ص۳۰]

ان تمام نصوص کو بغور دیکھیں! مسئلہ کی حقیقت جاننے کے لیے یہ کافی وشافی ہیں۔

امام صابونی کی اس کتاب میں ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جن سے بالکل صاف ہے کہ ”اہل حدیث“ اور ”اصحاب حدیث“ کا استعمال سلف صالحین کے نزدیک علم حدیث پڑھنے پڑھانے والوں کے لیے خاص نہیں تھا بلکہ عمومی معنی میں ہر اس شخص پر اس کا استعمال ان کے نزدیک معروف ومشہور تھا جو صحابہ وتابعین کے منہج پر چلنے والے تھے۔

پانچویں دلیل: 
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ صفات باری تعالی کے سلسلے میں سلف کا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مذهب أهل الحديث -وهم السلف من القرون الثلاثة، ومن سلك سبيلهم من الخلف-: أن هذه الأحاديث تمر كما جاءت [مجموع الفتاوى:۶/۳۵۵](اہل حدیث کا مذہب -اور وہ قرون ثلاثہ کے سلف ہیں اور خلف میں سے جو بھی ان کے راستے پر چلنے والے ہیں- یہ ہے کہ ان احادیث کو ویسے ہی بیان کیا جائے جیسے وہ وارد ہوئے ہیں)
یہاں شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بہت ہی صریح لفظوں میں بیان کیاہے کہ ”اہل حدیث“ کا اطلاق قرون ثلاثہ کے سلف صالحین اور بعد کے زمانے میں ان کے منہج پر چلنے والوں پر ہوتا ہے۔

خلاصۂ کلام: سلف صالحین کے نزدیک ”اہل حدیث“ اور ”اصحاب حدیث“ کا اطلاق جس طرح ’’محدثین“ پر ہوتا ہے اسی طرح عام معنی میں وہ ”صحابہ وتابعین کے منہج پر چلنے والوں“ پر بھی ہوتا ہے، چاہے ان کاتعلق علم حدیث پرھنے پڑھانے سے ہو یا کسی بھی علم سے۔ بلکہ اگر پڑھنا لکھنا نہ بھی جانتے ہوں اگر اہل سنت والجماعت کے اصول سے منحرف نہیں ہیں، سلف کے منہج پر چلنے والے ہیں تو سلف کی اصطلاح میں وہ اہل حدیث ہیں۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ ان کے کلام میں”اہل حدیث“ و ”اصحاب حدیث“ کا مطلب محدثین ہی ہیں، منہج صحابہ وتابعین پر چلنے والے نہیں۔ 

اللهم أرنا الحق حقًا، وارزقنا اتباعه، وأرنا الباطل باطلًا، وارزقنا اجتنابه 

.

اتوار، 25 اکتوبر، 2020

ہم ‏بچوں ‏کو ‏کیسے ‏زخم ‏دے ‏رہے ‏ہیں؟ ‏

.

⁉️ہم بچوں کے جذبات کو کیسے زخم دے رہے ہیں۔

□بچے کو کمتر محسوس کروانا،
□اسکی تحقیر کرنا،
□اسکو worthless محسوس کروانا،
□اسکو جذباتی طور پر اکیلا اور تنہا کرنا،
□اسکا موازنہ کرنا،کمپیئر کرنا،
□اسکا مذاق اڑانا،
□اسکی شکل، رنگ، قد کا مذاق اڑانا،
□اسکو ریجیکٹ کرنا ہے۔

اور یہ سب کام ہماری زبان اور جملے کرتے ہیں۔

⁉️اسکے نقصان کیا ہوتے ہیں؟
□بچہ کنفیوز ہو جاتا ہے، 
□وہ کسی کو بتا نہیں پاتا، اسکے پیارے ہی یہ سب کر رہے ہیں تو اسے سمجھ نہیں آتی کہ کس کو بتاوں۔
□وہ ڈر جاتا ہے، ڈیپریس ہوتا ہے۔
□جو صلاحیت ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے، کانفیڈینس تباہ ہو جاتا ہے،
□شادی شدہ زندگی میں اچھے تعلقات نہیں بنا پاتے،
□سوشل ہونا پسند نہیں کرتے۔
□ان کو محبت نہیں ملی ہوتی تو misuse ہوتے جیسا کہ کسی غیر لڑکے یا لڑکی سے دوستی کرنا۔
□اپنی سیلف respect کو گِرا کر اپنے شوہر یا بیوی کیلئے حد سے زیادہ کام کرتے ہیں کہ کسی طرح مجھے محبت مل جائے۔

⁉️اس کی علامات کیا ہیں۔

□بچے کرنے والا کام مثلا پڑھائی وغیرہ چھوڑ دیتے ہیں۔
□بہت غصہ کرتا ہے۔
□بہت خوفزدہ ہے۔
□کانفیڈنس کی کمی ہوتی ہے۔
□سکول سے چھٹیاں کرنا شروع کر دیتا ہے۔
□گھر سے بھاگ جاتا ہے، بھاگنا چاہتا ہے۔
□بچہ گھر کی بجائے سکول یا ہاسٹل میں رہنا پسند کرتا ہے۔
□بغاوت والا رویہ ہو جاتا، والدین غصہ کرتے ہیں تو وہ بھی اتنا ہی غصہ ان کو دکھاتا ہے۔
□اور زیادہ تشویش والا مسئلہ ہو تو معاملہ self harm اور خودکشی کی کوشش تک چلا جاتا ہے۔

⁉️اس کو ہینڈل کیسے کیا جائے

✨بچے کی پریشانی کو سمجھیں، concerned ہوں۔ یہ مت سوچیں کہ وہ جان بوجھ کر تنگ کرتا ہے۔

✨بچے کی تحقیر مت کیجئے۔  وہ خود کو بے وقعت سمجھنا شروع کردے گا۔

✨بچے کو توجہ دیجئے۔
ورنہ اسمیں حسد پروان چڑھے گا۔

✨بچے سے اسکی عمر سے زیادہ،  پڑھائی کے لیول اور ان کی صلاحیت سے زیادہ توقع مت لگائیں۔

✨حد سے زیادہ روک ٹوک مت کریں کہ وہ سانس بھی آپکی مرضی سے لیں۔

✨بچے کو اسکے دوستوں، کزنز، بہن بھائیوں سے کمپیئر نہ کیجئے۔ نہ ہی یہ کہیں کہ ہم تو اس عمر میں یہ یہ کیا کرتے تھے۔

✨آپ بچے کو بڑی محنت سے آداب، ettiqautaes سکھاتے ہیں۔ پڑھاتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ الٹ کر رہا ہے۔تب بھی آپکو نہ اسکو مارنا ہے نہ emotional abuse کرنا ہے۔ بلکہ آپکو پیرنٹنگ سیکھنی ہے، کیا وجہ ہے وہ ایسے کر رہا ہے اور کیسے ہینڈل کروں۔

✨بچے کی عزت نفس کا کیا خیال رکھیں۔ کسی تیسرے شخص کے سامنے ایسی بات نہ کریں جسمیں اسکی بے عزتی کا پہلو ہے۔ وہ تیسرا اسکی پھپھو، خالہ، ٹیچر، اسکا بہن بھائی ، دادا، دادی بھی ہو سکتے ہیں 

✨حتی کہ ڈاکٹر کے سامنے بھی اس چیز کا خیال رکھیں۔ یا تو بچے کے سامنے بات نہ کیجئے یا الفاظ ٹھیک سے چنیں یا کوئی اردگرد نہ ہو۔
کیا آپ پسند کریں گے دوسروں کے سامنے کوئی آپکی ایسی بات بیان کرے؟

✨اگر آپ سنگل پیرینٹ ہیں آپ پر لوڈ ہے لیکن آپ کو بچے کو تکلیف دینے کا حق نہیں۔ خود کو victim نہ سمجھیں۔ بلکہ جو تقدیر کا فیصلہ تھا اسے قبول کریں۔

✨بچے کی شکل و صورت، رنگت، قد، موٹا ہونے پتلا ہونے پر ہم جو مذاق اڑاتے ہیں اسکو عام سی بات نہ سمجھیں۔
ہم بچوں کو اسطرح بہت تکلیف دیتے ہیں۔

میلاد منانا دین ہے یا ...؟ شارب بن شاکر سلفی

.

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴم 
✺  ✺  ✺  ✺  ✺  ✺  ✺  ✺  ✺

کیا آپ میلاد منانا دین سمجھتے ہیں؟ 

اگر آپ عقلمند ہیں تو پھرفیصلہ خود کرلیجئے!! 

✍️......ابومعاویہ شارب بن شاکر السلفی 
 بینی پٹی ـ مدھوبنی 
امام و خطیب مسجداہل حدیث، فتح دروازہ، آدونی، 
و ناظم جامعہ ام القری للبنین و البنات، ادونی، ضلع کرنول. 

محترم قارئین! 

اگرآپ میلاد مناتے ہیں اور میلاد منانے کو ہی دین سمجھتے ہیں، میلاد منانے کو محبت رسول سمجھتے ہیں تو پھر مندرجہ ذیل میں دئے گئے باتوں پر ٹھنڈے دماغ سے غور وفکرکریں اور پھرفیصلہ خود کرلیں کہ آپ کہاں پر کھڑے ہیں؟ آپ سنت کی راہ پر ہیں یا پھر بدعت کی راہ پر! 

👈۔آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر آپ ﷺ رمضان کے مہینے میں رسول بنائے گئے!

👈۔آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر قرآن کریم کا نزول رمضان کے مہینے میں ہوا!(البقرۃ:185)

👈۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر قرآن مجید میں صرف رمضان مہینے کا نام مذکور ہوا!(البقرۃ:185)

👈۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر روزے رمضان کے مہینے میں رکھنے کا حکم ہوا!(البقرۃ:185)

👈۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر آپﷺ نے رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنے والوں کو حج کے برابرثواب ملنےکی بشارت دی یا پھر اپنے ساتھ حج کرنے کے جیسا قراردیا!(مسلم:1256)

👈۔آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگرساری فضیلتیں رمضان کے مہینے کو ملی۔

👈۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگریہ حرمت والے مہینوں میں سے بھی نہیں ہے!(بخاری:2958)

👈۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگرحج و قربانی جیسے عظیم عبادت کے لئے ذی الحجہ کا مہینہ مقررہوا!

👈۔آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر آپ نے اپنی زندگی میں ایک بھی عمرہ اس مہینے میں ادا نہ کیا!(بخاری:1654،مسلم:1253)

👈۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگرآپ نے محرم کے مہینے کو اللہ کا مہینہ قراردیا!(مسلم:1163)

👈۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگرآپ نے خود نفلی روزہ رکھنے کے لئے محرم کے مہینے کو افضل مہینہ قراردیا!(مسلم:1163)

👈۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگرہجری سال کا آغازمقدس ہستیوں نے محرم کے مہینے سے کیا۔

👈۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگرخود آپ ﷺ اس مہینے کو چھوڑ کر شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے۔(بخاری:1969،مسلم:1156)

👈۔آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر نامۂ اعمال شعبان کے مہینے میں اٹھائے جاتے ہیں۔(صحیح النسائی للألبانیؒ:2221)

👈۔ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی مگر رب ذوالجلا ل والاکرام نے مسلمانوں کے عید کے لئے شوال اور ذی الحجہ کے مہینے کو منتخب کیا۔

👈۔ آپﷺ کی ولادت پیر کے دن ہوئی مگر اللہ نے فضیلت جمعہ کے دن کو عطا کیا۔

👈۔آپ ﷺ کی ولادت پیر کے دن ہوئی مگر فضیلت عرفہ کے دن کو ملی۔

👈۔آپﷺ کی ولادت 9/12 ربیع الاول کی تاریخ کو ہوئی مگر قربانی 10 ذی الحجہ کو مشروع کی گئی۔

👈۔ آپﷺ کی ولادت 9/12 ربیع الاول کی تاریخ کو ہوئی مگر نفلی روزے رکھنے کا جو اجروثواب بیان ہوا وہ 9 ذی الحجہ ہے یا پھر 9 اور10 محرم ہے۔(مسلم:1162)

👈۔ آپﷺ کی ولادت 9/12 ربیع الاول کی تاریخ کو ہوئی مگر آپ ﷺ خود ہرمہینے کم سے کم قمری تاریخ کے حساب سے 13/14/15 یعنی ایام بیض کے روزے رکھتے تھے۔(نسائی:2347،الصحیحۃ للألبانیؒ:580)

👈۔ آپﷺ کی ولادت 9/12 ربیع الاول کی تاریخ کو ہوئی مگر تمام فضیلتیں رمضان کے آخری عشرے اور عشرۂ ذی الحجہ کو ملی۔(القدر:3،ترمذی:757)

👈۔ آپﷺ کی ولادت 9/12 ربیع الاول کی تاریخ کو ہوئی مگررب العالمین نے مسلمانوں کو جو دو عیدیں عطا کی وہ بھی ان تاریخ میں سے نہیں ہے!

الغرض دین اسلام کی کسی بھی قسم کی کوئی بھی عبادت اس مہینے میں مقرر نہیں ہے کیا عقل وخرد رکھنے والوں کے لئے بس اتنی سی بات کافی نہیں ہے کہ میلاد منانااسلام میں ناجائز ہی نہیں ہے بلکہ  اس کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے،
’’ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّاُولِى النُّـهٰى ‘‘ یقینا اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔(طہ:54)

🤲دعاؤں کا طالب⤵️

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی 

.

جشن میلاد کس کی سنت؟ حافظ أبو یحییٰ نورپوری

.

✦✦ بسم الله الرحمن الرحيم ✦✦

💥 جشن میلاد کس کی سنت؟ 

حافظ أبو یحییٰ نورپوری 

~~~~~~~~~~~~؛

بریلوی احباب عید میلاد ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں بدترین کافر ابو لہب کے لونڈی کو آزاد کرنے والے عمل کو دلیل بناتے ہیں...
 
♦️ اولا؛ یہ روایت منقطع ہے، ثابت ہی نہیں.

♦️ دوسرے نمبر پر اس میں ایک کافر کا خواب مذکور ہے. کسی کافر کا خواب کیسے دلیل شرعی بن سکتا ہے؟ 

♦️ تیسرے نمبر پر اس میں ولادت کی خوشی میں ایسا کرنے کا کوئی ذکر تک نہیں، اس منقطع روایت میں یہ جھوٹ بھی شامل کرنا ضروری سمجھا گیا، اس کے بغیر استدلال ہی نہیں ہو سکتا تھا.

♦️ چوتھے نمبر پر قرآن کریم کے خلاف ہے. قرآن کہتا ہے کہ ابو لہب کو اس کے کسی عمل نے کوئی فائدہ نہیں دیا، یہاں منقطع روایت میں ایک کافر کا خواب فائدہ دکھا رہا ہے.

♦️ پانچویں نمبر پر افسوس کی بات ہے کہ عاشقان رسول کو عمل کرنے کے لیے ابو لہب کی سنت ملی ہے، کاش کہ وہ محبت رسول میں ابو بکر وعمر وعثمان وعلی رضی اللہ عنہم کا طریقہ اپناتے.

♦️ چھٹے نمبر پر بریلوی علماء نے اس بات کا قرار کیا ہے کہ تینوں بہترین زمانوں (صحابہ، تابعین اور تبع تابعین) نے عید میلاد النبی کو نہیں منایا، بل کہ پہلے چھ سو سال تک کسی نے ربیع الاول کے مہینے یا بارہ ربیع الاول کو کوئی خصوصیت نہیں دی. کسی کافر کے اس غیر ثابت خواب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور چھ سو سال تک کے مسلمانوں نے کیوں دلیل نہ بنایا؟

♦️ ساتویں نمبر پر شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ جیسے ولی اس خواب سے کیسے لاعلم رہے؟ سوال تو یہ بھی یے کہ جیلانی رحمہ اللہ کس تاریخ کو جشن ولادت مناتے تھے، کیوں کہ وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت 10 محرم قرار دیتے تھے.

♦️ آٹھویں نمبر پر کسی حدیث کی کتاب میں تیسری عید کا ذکر تک نہیں، کیا وجہ ہے کہ "سب سے بڑی عید (عیدوں کی عید)" چھوڑ کر محدثین صرف دو ہی عیدوں کا بیان کرتے رہے؟ یہ منقطع روایت ذکر کرنے والے کسی محدث نے تین عیدوں کا عنوان قائم کیا؟

♦️ نویں نمبر پر فقہ حنفی کی ہر کتاب میں دو عیدوں کا تذکرہ ملتا ہے، اس خواب کو کسی حنفی فقیہ نے بھی تیسری عید کی دلیل کیوں نہ بنایا؟

♦️ دسویں نمبر پر برصغیر میں کچھ عرصہ پہلے تک 12 ربیع الاول کو بارہ وفات کے نام سے منایا جاتا تھا، جسے بعد میں 12 میلاد سے بدل دیا گیا. کیا اس دور کے بریلوی علماء کو کسی کافر کا یہ خواب اور ابو لہب کی یہ سنت معلوم نہ تھی؟

.

محمد بن عبد الوھاب اور خروج ... مامون رشید سلفی

.

▪•════• ✭ ﷽ ✭ •════•▪ 

کیا شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب نے خلافت عثمانیہ کے خلاف خروج کیا تھا ؟ 

✍️: مامون رشید ہارون رشید سلفی 

فہم سلف صالحین کے مطابق اتباع کتاب و سنت کے مناد اور دعوت توحید کے پرچارک عظیم سلفی (وہابی) تحریک کو عنفوان تحریک سے لے کر آج تک ہمیشہ دشمنان توحید  اور تقلدیوں کی جانب سے بے سروپا الزامات اور کذب وتزویر سے لبریز اتہامات کا سامنا کرنا پڑا ہے،لیکن ہر دور میں تحریک کے جیالوں نے ان الزامات کا دندان شکن جواب دے کر ایسے باطل پرستوں کو لوہے کے چنے چبوائے ہیں. 
انہیں اباطیل اور اتہامات میں سے ایک یہ ہے کہ "محمد بن عبد الوہاب نے خلافت عثمانیہ کے خلفاء کے خلاف خروج کیا تھا،اور یہ کہ وھابیوں کی دعوت کا ظہور ہی خلافت عثمانیہ کے زوال کا سبب تھا،دولت اسلامیہ میں وھابیوں نے محمد بن سعود اورپھر ان کے بیٹے عبدالعزيز کی زير قیادت شورش برپا کی توبرطانیہ نے انہیں مال واسلحہ سے نوازا، ان کی یہ شورش سلطان و خلیفہ کے زیرِ حکومت بلاد اسلامیہ پرقبضہ کرنے کے لیے مذھبی اساس پر تھی، یعنی انہوں نے انگریز کے تعاون اور ان کے ابھارنے کی بنا پر خلیفہ کے مقابلہ میں تلوار اٹھائی اور اسلامی لشکر سے لڑائی کی جو کہ امیر المومنین کا لشکر تھا."اخوانیوں ارہابیوں اور تحریکیوں کی جانب سے یہ اتہام طرازی اس وقت زیادہ زوروں پر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل حدیث سلفی علمائے عرب کتاب و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں بارہا خطبات ودروس اور عام مجالس میں اپنی عوام کو حاکم وقت کی سمع وطاعت کی ترغیب دلاتے اور مخالفت سے منع کرتے رہتے ہیں، جبکہ اخوانیت زدہ تحریکی فکر کے علم بردار خطبا ودعاۃ خروج مظاہرے( Protest) اور انقلاب کی دعوت دیتے ہیں اور جب ان کے سامنے سلفی کبار اہل علم کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ یہ الزام لگا کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان سلفیوں کے جد اعلی محمد بن عبد الوہاب نے خود خلافت عثمانیہ کے خلاف خروج کیا تھا تو جب ان کے لیے مظاہرہ اور ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج جائز تھا تو ہمارے لیے کیوں نہیں؟

اس مختصر سی تحریر میں میں مذکورہ اتہام کی نقاب کشائی کروں گا. 

قارئین کرام: اس سے پہلے کہ ہم مذکورہ عقدہ کو حل کریں کہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب نے خروج کیا تھا یا نہیں یہ جان لیتے ہیں کہ خود شیخ الاسلام محمد بن عبد کا خروج کے تعلق سے کیا موقف تھا.

 شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"میں ائمۃ المسلمین کی سمع وطاعت واجب سمجھتا ہوں خواہ وہ نیک ہوں یا فاسق و فاجر جب تک کہ وہ معصیت الہی کا حکم نہ دیں،اور جو شخص خلیفہ بنا دیا گیا، لوگ اس کی خلافت پر متفق ہو گئے اور اس سے راضی ہو گئے،یا وہ لوگوں پر بزور شمشیر غالب آ گیا یہاں تک کہ خلیفہ بن گیا تو اس کی اطاعت واجب ہو گئی اور اس کے خلاف خروج حرام ہو گیا"(مجموعة مؤلفات الشيخ محمد بن عبد الوھاب"5/11)

ایک دوسری جگہ پر شيخ فرماتے ہیں :"اجتماعیت کی تکمیل میں یہ بھی شامل ہے کہ جو بھی ہم پرامیر بنادیا جائے ہم اس کی سمع واطاعت کریں گرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو" ۔
مجموع مؤ‎لفات الشیخ ( 1 / 394 ) 

اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب اور ان کے معاونین نے خلافت عثمانیہ کے خلاف خروج نہیں کیا تھا اس کے چند دلائل ملاحظہ فرمائیں:

پہلی دلیل: نجد کا علاقہ جہاں سے شیخ رحمہ اللہ نے اپنی دعوت کا آغاز کیا تھا وہ عثمانی خلافت کے زیر اثر نہیں تھا اور نہ ہی عثمانی خلفا اسے اپنے حیطہ حکومت میں شمار کرتے تھے، وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں نجد نہایت بنجر اور بالکل صحرائی علاقہ تھا جہاں سے کسی قسم کے منافع کی امید نہ تھی سو وہ حکمرانوں کی نظر عنایت سے دور تھا، یہی سبب ہے کہ نہ تو عثمانی سلطنت کے رجسٹروں میں ماتحتی امارتوں کی فہرست میں کہیں نجد کا ذکر ہے اور نہ ان لوگوں کی جانب سے کبھی کسی امیر یا والی کے وہاں بھیجنے کا ذکر ہی کوئی تذکرہ ہے.

ڈاکٹر صالح عبود لکھتے ہیں :
نجد پر عمومی طور پر خلافت عثمانیہ کا اثر و رسوخ قائم  ہی نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اس کی حکومت وہاں تک آئي اور نہ ہی وہاں پر کوئی خلافت عثمانیہ کی طرف سے گورنر ہی مقرر ہوا ، اورجب شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کی دعوت کا ظہور ہوا تو اس وقت تک ترکی حکومت کی کوئی فوج بھی وہاں نہیں پہنچی تھی. 
اس تاریخی حقیقت پر دولت عثمانیہ کی اداری تقسیمات کا استقراء دلالت کرتا ہے، ایک ترکی لیٹر جس کا  عنوان "قوانين آل عثمان مضامين دفتر الديوان " ہے یعنی دیوانی رجسٹر میں آل عثمان کے قوانین ،جسے یمین افندی نے تالیف کیا ہے جو کہ خاقانی دفتر کا 1018ھ الموافق 1609میلادی میں خزانچی تھا، اس لیٹر کے ذریعے یہ واضح ہوتا ہے کہ گیارہ ھجری کے اوائل میں دولت عثمانیہ بتیس 32 حکومتوں میں منقسم تھی جن میں چودہ عرب حکومتیں تھیں جن میں نجد شامل نہیں تھا سوائے احساء کا علاقہ لیکن وہ بھی اگر ہم اسے نجد میں شامل کریں تو۔۔۔"( عقیدۃ الشيخ محمد بن عبدالوھاب واثرھا فی العالم الاسلامی:1/27  (نقلا من كتاب دعاوي المناوئين لدعوة الشخ:1/235)

اسی طرح شیخ عبد اللہ بن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اور جو کچھ بھی ہو لیکن شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کی دعوت کے ظہور سے قبل نجد نے عثمانیوں کے اثر و رسوخ کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا تھا،اسی طرح نجد نے کسی طرف سے بھی کوئی قوی نفوذ نہيں دیکھا جو وہاں حوادث پر اپنی موجودگی کو مسلط کرتا ہو، اس کے اطراف میں نہ تو بنوجبر کے نفوذ نے اور نہ بنی خالد کے اورنہ ہی اس کے دوسرے اطراف میں اشراف کے اثر و رسوخ نے کسی قسم کا سیاسی استقرار قائم کیا، نجدی علاقوں کی جنگیں اورلڑائياں بدستور قائم رہیں اور ان کے مختلف قبائل کے درمیان باہمی کشمکش پر تشدد طریقے پر جاری رہا۔(محمد بن عبدالوھاب حیاتہ وفکرہ ص:11  بحوالہ دعاوی المناوئین (1/235 ) ۔

علامہ عبدالعزيز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہيں :
"میرے علم اوراعتقاد کے مطابق شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی نے خلافت عثمانیہ کے خلاف خروج نہيں کیا تھا،کیونکہ نجد میں ترکیوں کی کوئی ریاست یا امارت ہی نہ تھی بلکہ نجد تو چھوٹی چھوٹی امارتوں اور بہت سی  پھیلی ہوئی  بستیوں کا مجموعہ تھا۔اور ان میں سے ہر ایک شہر اور بستی پر چاہے وہ جتنی بھی چھوٹی کیوں نہ ہو ایک مستقل امیر تھا ۔۔۔ اور ان امارتوں کے درمیان لڑائياں، جنگيں اوراختلافات رہتے تھے ،شيخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی نے خلافت عثمانیہ کے خلاف خروج نہیں کیا بلکہ ان کا خروج تو اپنے علاقے کے بگڑے ہوئے حالات کے خلاف تھا، انہوں نے اللہ تعالی کے لیے جہاد کیا اور اس کا حق بھی ادا کیا، اس کے راستے میں مسلسل صبر کیا حتی کہ اس دعوت کا نور دوسرے شہروں اور علاقوں تک جا پہنچا ۔( دعاوی المناوئین ص:237 )

دکتور عجیل النشمی لکھتے ہیں:"نجد اور اس کے گرد ونواح کے علاقوں کو خلافت عثمانیہ نے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی،اور شاید ملک نجد کی طرف اس کی اس پالیسی کی وجہ ایک طرف تو سرزمین نجد کی وسعت اور اس کے حدود کی غیر محدودیت تھی،جبکہ دوسری طرف قبائلی اور خاندانی تقسیم کو ممکن بنانا تھا"
(دعاوی المناوئین ص:236) 

أمين سعيد لکھتے ہیں:"ہم نے اموی اور عباسی ریاستوں کی تاریخ ،مصر میں ایوبیوں اور مملوکوں کی تاریخ، اور پھر ان کے بعد آنے والے ان کے وارث بننے والے عثمانیوں کی تاریخ کے مطالعہ کے دوران بہت کوشش کی کہ ہمیں کسی ایک والی ، یا حاکم کا نام مل جائے جسے انہوں(امویوں، عباسیوں، ایوبیوں اور عثمانیوں) نے یا ان میں سے کسی ایک نے  نجد یا اس کے وسطی ، شمالی ، مغربی ، یا جنوبی صوبوں میں سے کسی ایک میں بھی بھیجا ہو،لیکن ہمیں کچھ بھی نہیں ملا،......."(تاريخ الدولة السعودية ص:23)

مزید لکھتے ہیں:"نجد میں ہر شیخ یا امیر اپنے ملک کو سنبھالنے میں مکمل طور پر آزاد تھا، وہ ترک کو نہیں جانتے تھے، اور نہ ہی ترک  انہیں جانتے تھے۔"(دعاوي المناوئين ص:236) 

جیکولین پیرن(Jacqueline Perrin) لکھتا ہے:"لیکن جزیرہ نما عرب اپنے ان صحراؤں کی بدولت ترکی کے ہاتھوں فتح ہونے سے محفوظ رہا ، جن میں پیاس کی وجہ سے وہ فوجیں ہلاک ہو گئیں جنہیں سلطان سلیمان نے 1550 ء میں بھیجا تھا"(اكتشاف جزيرة العرب"، نقله إلى العربية قدري قلعجي ص:24) 
اسی طرح کی بات علامہ نسیب الرفاعی ، حسین خزعل وغیرہما اہل علم نے بھی ذکر کی ہے...

 تمام تر تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ نجد کا علاقہ عثمانی سلطنت کے تابع نہیں تھا اور جب نجد اور اہل نجد عثمانی خلیفہ کے رعایا میں شامل نہ تھے تو ان کی مخالفت خروج نہیں کہلائے گا جس طرح کہ ہندوستانیوں کا مظاہرہ کرنا سعودی حکومت کے خلاف خروج نہیں کہلاتا ہے.


دوسری وجہ: اگر بطور مفروضہ یہ مان بھی لیا جائے کہ نجد خلافت عثمانیہ کے زیر نگیں تھا تو بھی یہ بات ثابت شدہ ہے کہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب نے کبھی بھی عثمانی خلافت کے تعلق سے کچھ بھی نہیں کہا تھا اور نہ ہی عملی طور پر ان کے خلاف کچھ کیا تھا آپ کا دائرہ کار نجد اور اور اس کے گرد ونواح تک محدود تھا،حاقدین حاسدین اور علمائے سو کی باتوں میں آکر ظلم و ستم اور جنگ و جدال کی ابتداء تو خود عثمانی خلیفہ نے کی تھی.

دکتور عجیل نشمی لکھتے ہیں:"ہم اطمنان کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کی تحریروں میں خلافت عثمانیہ کے خلاف کسی قسم کے مخالفانہ موقف کی صراحت نہیں ملتی۔.......
اور ہمیں شیخ کا کوئی ایسا فتویٰ نہیں ملا جس میں وہ خلافت عثمانیہ کی تکفیر کرتے ہوں، اس کے بجائے انہوں نے اپنے فتاویٰ جات قریبی وادیوں تک ہی محدود رکھا تھے جن کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ یہ شرک میں مبتلا ہیں..."(دعاوی المناوئین ص:238) 

مزید لکھتے ہیں:شیخ کی پالیسی اور حجاز کے تعلق سے ان کا رویہ یہ تھا کہ انہوں نے زندگی بھر میں کبھی بھی لوگوں کو اس کے خلاف نہ ہی ابھارا تھا نہ اس سے دشمنی کی تھی اور نہ ہی لوگوں کو اس سے جنگ کرنے اور اس پر قبضہ جمانے کی دعوت دی تھی، کیونکہ انہیں احساس تھا کہ خلافت کے خلاف خروج کے طور پر اس فعل کی ترجمانی کی جاسکتی ہے"(دعاوی المناوئین ص:238) 

تیسری وجہ: اگر مذکورہ بالا ساری چیزیں مان لی جائیں کہ نجد خلافت عثمانیہ کے تابع تھا اور شیخ الاسلام نے ان کے خلاف کچھ کیا بھی تھا تب بھی اس سے خروج ثابت نہیں ہوتا کیونکہ علماء الدعوہ کے نزدیک خلافت عثمانیہ کافر اور عثمانی سلطنتیں دار الحرب تھیں اور کافر حاکم کے خلاف خروج اور ان کی مخالفت جائز ہے.
اس سلسلے میں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کے اتباع کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں: 


 شيخ عبد الرحمن بن عبد اللطيف بن عبد الله بن عبد اللطيف ال الشيخ رحمہ نے فرمایا ہے: "ومعلوم أن الدولة التركية كانت وثنية تدين بالشرك والبدع وتحميها" 
"یہ بات معلوم ہے کہ خلافت عثمانیہ بت پرست تھی شرک وبدعت کو دین سمجھتی اور ان کی حفاظت کرتی تھی"(علماء الدعوة للشيخ عبد الرحمن. ..ص:56) 

شیخ سلیمان بن سحمان نے فرمایا ہے:"وما قال في الأتراك من وصف كفرهم فحق فهم من أكفر الناس في النحل
اور ترکوں کو کفر سے متصف کرنے کے تعلق سے جو کچھ کہا ہے...........وہ حق ہے یہ لوگ دین میں سب سے بڑے کافروں میں سے ہیں.(ديوان ابن سحمان) ص 191.


شیخ عبد الله بن عبد اللطيف رحمه الله تعالى (متوفی 1339 هـ) نے فرمایا ہے:"من لم يعرف كفر الدولة ولم يفرق بينهم وبين البغاة من المسلمين لم يعرف معنى لا إله إلا الله، فإن اعتقد ......" جو شخص خلافت عثمانیہ کے کفر کو نہیں پہچانتا اور ان کے اور شرکش مسلمانوں کے مابین تفریق نہیں کر پاتا وہ لا الہ الا اللہ کے معنی کو نہیں جانتا ہے،  اس کے ساتھ ساتھ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ خلافت عثمانیہ مسلمان ہیں تو یہ اور زیادہ شدید اور سنگین ہے، یہی کافروں کے کفر میں شک کرنا ہے، اور جو شخص انہیں بلاتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف ان کا تعاون کرتا ہے چاہے کسی بھی قسم کا تعاون ہو وہ صریح ارتداد ہے" (الدرر السنية 8/242)

علامہ حمد بن عتیق رحمہ اللہ(1301ھ) اس حکومت کے سب بڑے مخالفین میں سے تھے جب عثمانی افواج جزیرہ عرب میں داخل ہوئیں اور بعض خائنین اور گمراہ دیہاتی افراد ان کی صفوں میں گھس کر ان کا تعاون کرنے لگے تو آپ نے ایسے لوگوں کی تکفیر اور ان کے مرتد ہونے کے بیان میں ایک کتاب لکھی جس کا نام "سبيل النجاة والفكاك من موالاة المرتدين والأتراك" تھا،غور کریں جب ترکوں کی حمایت کرنے والے مرتد ٹھہرے تو خود عثمانی ترک کیا قرار پائیں گے.

اسی طرح امام سعود بن عبد العزيز رحمہ اللہ (الدرر السنية) 7/397)، شیخ سليمان بن عبد الوهاب بن الشيخ محمد بن  عبد الوہاب رحمہ اللہ .(الدرر السنية) 7/ 57 - 69)، شيخ عبد اللطيف بن عبد الرحمن بن حسن رحمہ اللہ (الدرر السنية) 7/184)،اور شیخ عبد الله بن محمد بن سليم رحمہ اللہ (تذكرة أولي النهى 3/ 275) نے بھی خلافت عثمانیہ کو کافر قرار دیا ہے .

خلاصہ یہ ہے کہ  شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کے متبعین کے ہاں خلافت عثمانیہ کافر ہے اور کافر کے خلاف خروج کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے. 

چوتھی دلیل: اگر شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کو خارجی اور سعودی حکومت کو خوارج کی حکومت تسلیم کر لیا جائے تو عثمانی خلافت پر کیا حکم لگایا جائے گا اس سے قبل عباسی خلافت اور اس سے بھی قبل اموی خلافت پر کیا حکم لگایا جائے گا.....کیا یہ ساری خلافتیں خارجی تھیں؟؟؟ اگر سعودی حکومت خلافت عثمانیہ کی مخالفت کی وجہ سے خارجی حکومت مان لی جائے تو یہ ساری حکومتیں بھی اپنے سے ماسبق خلافتوں کی مخالفت کی وجہ سے خارجی حکومت قرار پائیں گی.فما ھوا جوابھم فھو جوابنا

جہاں تک وہابیوں اور انگریزوں کے مابین دوستی اور تعاون کا الزام ہے تو اس قدر کمزور اور بے بنیاد ہے کہ اس کے سلسلے میں زیادہ بحث وتفصیل کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ تاریخ آزادی ہند سے واقفیت رکھنے والے اس امر سے آگاہ ہیں کہ انگریزوں کے ہاں وہابی سب سے بڑا دہشت گرد متصور ہوتا تھا چنانچہ ہندوستان میں اگر وہ کسی کو سزا دینا چاہتے تو اس پر وہابیت کا لیبل لگا کر پس دیوار زنداں پھینک دیتے تھے. 

مولانا محمد منظورنعمانی صاحب لکھتے ہیں :
ہندوستان میں انگریز نے شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالی کے مخالف حالات کوایک فرصت اورسنہری موقع سمجھتے ہوئے اپنے مخالفین کو وہابی کہنا شروع کردیا اور اپنے خلاف اٹھنے والی تحریک کو وہابیت کا نام دیا ۔
اور اسی طرح انگريز نے علماء دیوبند کو بھی انگريز کی مخالفت کرنے کی بنا پر وہابی کہنا شروع کیا اور ان پر تنگی شروع کردی ۔( دعایات مکثفۃ ضد الشيخ محمد بن عبدالوھاب ص ( 105 - 106 ) 

اخیر میں عرض ہے کہ یہ سب دشمنان توحید کی شبہات اور فتنہ انگیزیاں ہیں جو شرک وبدعت اور قبر پرستی ومزار پرستی کو رواج دینے کے لیے سر توڑ محنت کر رہے ہیں لہذا ان سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کے سروں کو کچلنے کی ضرورت ہے اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توحید وسنت پر استقامت عطا فرمائے آمین. 

.

بارہ ربیع الاول کی ایک روایت کفایت اللہ سنابلی

.

رسول اکرم ﷺ کی تاریخ پیدائش سے متعلق ایک تحریف شدہ روایت 

کفایت اللہ سنابلی مدنی 

✿ ✿ ✿ ✿ ✿ ✿ 

بعض حضرات ”تلخیص المستدرک“ سے ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کی تاریخ پیدائش (12 ) بارہ ربیع الاول تھی۔
ان کی پیش کردہ روایت یہ ہے: 
”عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس رضي الله عنهما ، قال : ولد النبي ﷺ عام الفيل لاثنتي عشرة ليلة مضت من شهر ربيع الأول“ 
”حضرت سعید بن جبیر نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ بنی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل میں۔ پیر کے روز ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو ہوئی“[تلخیص المستدرک ،جلد2، صفحہ 603] 

جوابا عرض ہے کہ:
ان الفاظ کے ساتھ مذکورہ روایت کا ذخیرہ احادیث میں کوئی وجود ہی نہیں ہے ، دنیا کا کوئی بھی شخص اس روایت کو کسی سند والی کتاب میں پیش نہیں کرسکتا۔

اصل کتاب ”مستدرک“ میں یہ روایت مذکورہ الفاظ کے ساتھ موجود نہیں
دراصل بات یہ ہے کہ ’’تلخیص المستدرک‘‘ کی اصل ’’المستدرک للحاکم‘‘ ہے، امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسی کتاب کی تلخیص کی ہے ، اوراس اصل کتاب میں بلکہ اس کے کسی بھی مطبوعہ یا مخطوطہ نسخہ میں یہ روایت مذکوہ الفاظ کےساتھ یعنی تاریخ پیدائش والی بات کے ساتھ ہرگزنہیں ہے بلکہ اس میں صرف سال یعنی عام الفیل کا ذکر ہے ، ملاحظہ ہو اصل کتاب مستدرک سے یہ روایت:
✿ امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
 ”حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ، حدثنا محمد بن إسحاق الصغاني ، حدثنا حجاج بن محمد ، حدثنا يونس بن أبي إسحاق ، عن أبيه ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس رضي الله عنهما ، قال :« ولد النبي ﷺ عام الفيل». هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه“ 
 ”صحابی رسول عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سےمنقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ «آپﷺ کی پیدائش عام الفیل (ہاتھی والے سال) میں ہوئی»“ [المستدرك للحاكم، ط الهند: 2/ 658 رقم4180]

 ”مستدرک حاکم“ کی اس روایت کو غور سے پڑھیں اس میں صرف یہ ہے کہ : ”آپ ﷺ کی ولادت عام الفیل میں ہوئی“ 
اسی روایت کو امام ذھبی رحمہ اللہ نے ”تلخیص“ میں نقل کیا ہے لہٰذا جب اصل کتاب ”المستدرک“ میں تاریخ پیدائش والے مذکورہ الفاظ نہیں ہیں تو ”تلخیص“ کا حوالہ بے سود ہے۔
یادرہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب ”تلخیص“ سند والی کتاب نہیں ہے بلکہ اصل سند والی کتاب امام حاکم کی ”مستدرک“ ہے جس کی امام ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص کی ہے ، لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کی اس کتاب میں کوئی بات ایسی ملے جو امام حاکم کی اصل کتاب میں نہ ہو تو امام ذہبی رحمہ اللہ کی اس کتاب کا حوالہ بے سود ہے ۔
بعض محدثین کا منہج تو یہ ہے کہ کوئی راوی کسی کتاب والے محدث کے طریق سے کوئی منفرد والگ تھلگ راویت بیان کرے اوروہ روایت کتاب والے محدث کی کتاب میں نہ ملے تو ایسی روایت مردود ہوگی ۔
مثلا ولید بن مسلم کے طریق سے ایک ایسی حدیث بیان کی گئی جو ولید بن مسلم کی تصنیف کردہ کتاب میں نہ تھی تو امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى:277) نے اس روایت کو منکر قراردیا اس پر ان کے بیٹے نے سوال کیا اور اس کی وجہ دریافت کی تو فرمایا:
 ”لأن حديث ابن أبي العشرين لم يرو أحد سواه وكان الوليد صنف كتاب الصلاة وليس فيه هذا الحديث“ 
 ”کیونکہ ابن ابی العشرین کی حدیث کو اس کے سوا کسی نے روایت نہیں کیا ، اور ولید بن مسلم نے نماز پر کتاب تالیف کی ہے اس میں بھی یہ حدیث نہیں ہے“ [علل الحديث لابن أبي حاتم ت، سعد الحميد: 2/ 422]
لہٰذا جب کسی محدث کی کتاب کے خلاف اسی کے طریق سے روایت کردہ منفرد روایت حجت نہیں ہے تو پھر کسی محدث کی کتاب ہی سے نقل کردہ روایت جو اصل کتاب کے الفاظ سے ہٹ کر ہو وہ کیونکر قابل قبول ہوسکتی ہے۔

”تلخیص“ کے ساتھ موجود ”مستدرک“ کے نسخہ میں بھی زیر بحث روایت کے ساتھ مذکورہ الفاظ نہیں
زیر بحث روایت کو ”تلخیص“ کے جس مطبوعہ نسخہ سے نقل کیا جاتا ہے وہ ماضی قریب ہی میں دار المعرفہ بیروت ، لبنان سے اصل کتاب ”مستدرک حاکم“ کے ساتھ طبع ہوا ہے اوراس مطبوعہ نسخہ میں جس صفحہ پر ”تلخیص“ کی زیربحث روایت درج ہے اسی صفحہ کے اوپر ”مستدرک حاکم“ میں وہی روایت موجود ہے مگر اس میں ”تلخیص“ والے زائد الفاظ نہیں ہیں ۔
[ملاحظہ ہو اس مطبوعہ نسخہ سے متعلقہ صفحہ کا فوٹو، عکس نمبر ا]

معلوم ہواکہ ”تلخیص“ کے محولہ مطبوعہ نسخہ میں کاتب کی غلطی سے ایک روایت میں کچھ الفاظ زیادہ بڑھ گئے ، یہ کیسے ہوا اس کی تفصیل آگے ملاحظہ ہو۔

کاتب نے کس طرح غلطی کی ؟
دراصل ”مستدرک حاکم“ میں زیر بحث روایت کے بعد ایک اور روایت ہے اوراس کے بعد ”ابن اسحاق“ کا یہ قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو ہوئی تفصیل ملاحظ ہو:
مستدرک حاکم میں تین روایات اس طرح ہیں:
 ✿ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِيُّ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «وُلِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ » هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ 
 ✿ حَدَّثَنَاهُ أَبُو سَعِيدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ بِالْكُوفَةِ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، ثنا أَبِي، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «وُلِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِيلِ» تَفَرَّدَ حُمَيْدُ بْنُ الرَّبِيعِ بِهَذِهِ اللَّفْظَةِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهِ 
 ✿ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ شَبُّوَيْهِ الرَّئِيسُ بِمَرْوَ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ النَّيْسَابُورِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ مِهْرَانَ، ثنا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: «وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِاثْنَتَيْ عَشْرَةَ لَيْلَةً مَضَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ »
[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 2/ 659] 

غورفرمائیں کہ :
 ● ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت عام الفیل پر ختم ہوگئی ہے۔
 ● اس کے بعد ایک دوسری روایت یوم الفیل کی ہے ۔
 ● اس کے بعد ابن اسحاق کا قول ہے۔
 ”تلخیص“ میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان تینوں روایات کو اسی ترتیب سے نقل کیا ہے جیساکہ آگے ہم مخطوطہ سے متعلقہ صفحہ کا فوٹو پیش کررہے ہیں مگر مطبوعہ نسخہ میں کاتب سے غلطی یہ ہوئی ہے کہ اس نے بیچ کی یوم الفیل والی روایت چھوڑدی اور اوراس کے بعد ابن اسحاق کے قول کو ابن عباس کی روایت کے ساتھ ملادیا۔
یہ غلطی تلخیص کے مطبوعہ نسخہ میں ہے جو ٹائپ ہوکر چھپا ہے لیکن تلخیص کے کسی بھی مخطوطہ میں اس غلطی کا کوئی سراغ ہمیں نہیں مل سکا۔
یادرہے کہ تلخیص کے اس مطبوعہ نسخہ کی طباعت کے وقت تلخیص کے کون سے مخطوطہ کو سامنے رکھا گیا تھا اس بات کی وضاحت کتاب میں بالکل نہیں کی گئی ، لہٰذا تلخیص کے اس مطبوعہ نسخہ کی بنیاد وماخذ مجہول ہے ، نتیجتا اصل کتاب کے خلاف اس کا حوالہ بھی یک قلم مردود ہے۔

724 ہجری میں امام ذہبی رحمہ اللہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ”تلخیص“ کا قلمی نسخہ
زیربحث روایت میں تاریخ پیدائش والے الفاظ کے باطل ہونے کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ”تلخیص“ کے قلمی نسخہ میں زیربحث روایت میں مذکورہ الفاظ نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ اس قلمی نسخہ میں زیربحث روایت کے آگے ایک دوسری روایت کا ذکر ہے پھر اس کے بعد ابن اسحاق کا قول درج ہے کی آپ ﷺ کی تاریخ ولادت 12 ربیع الاول ہے لیکن مطبوعہ نسخہ میں زیربحث روایت اور اگے ابن اسحاق کے قول کے درمیان کی پوری عبارت اس طرح غائب ہے کہ ابن اسحاق کا قول زیربحث روایت کے اخر میں جڑ گیا ہے۔
کاتب کی اسی غلطی کی وجہ بعض نے ابن اسحاق کے قول کو زیربحث روایت کاحصہ سمجھ لیا ہے۔
[ملاحظہ ہو امام ذہبی رحمہ اللہ کے قلمی نسخہ سے متعلقہ صفحہ کا فوٹو، عکس نمبر 2]

یہ قلمی نسخہ امام ذہبی رحمہ اللہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اورنسخہ کے اختتام پر امام ذہبی رحمہ اللہ نے تاریخ نوشت درج کردی ہے، یادرہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے 724 ہجری سے قبل بھی تلخیص کے نسخے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں لیکن یہ نسخہ امام ذہبی رحمہ اللہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا آخری نسخہ ہے اس نسخہ میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے بعض مقامات پر اپنی سابقہ تحقیق سے رجوع بھی کیا ہے مثلا:
مستدرک حاکم کی ایک طویل روایت ہے:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ الْقَطِيعِيُّ، بِبَغْدَادَ مِنْ أَصْلِ كِتَابِهِ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، ثنا أَبُو عَوَانَةَ، ثنا أَبُو بَلْجٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: إِنِّي لَجَالِسٌ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ،۔۔۔۔۔۔۔وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَإِنَّ مَوْلَاهُ عَلِيٌّ» ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَقَدْ أَخْبَرَنَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْقُرْآنِ إِنَّهُ رَضِيَ عَنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ، فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ، فَهَلْ أَخْبَرَنَا أَنَّهُ سَخِطَ عَلَيْهِمْ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ قَالَ: ائْذَنْ لِي فَاضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ: وَكُنْتَ فَاعِلًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ: «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ» [المستدرك على الصحيحين للحاكم: 3/ 143 رقم 4652] 
 . 
امام ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص میں پہلے اس روایت کو امام حاکم کی موافقت کرتے ہوئے صحیح کہا تھا اورمطبوعہ کے نسخہ میں بھی امام ذہبی رحمہ اللہ کی موافقت منقول ہے مگر ہم نے جس نسخہ سے ایک صفحہ کا فوٹو پیش کیا ہے اس نسخہ میں متعلقہ مقام پر امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی اس تحقیق سے رجوع کرلیا ہے اور قلمی نسخہ کے جس صفحہ پر یہ حدیث ہے وہاں حاشیہ لگاتے ہوئے لکھا ہے :
 ”منکر جدا“ 
معلوم ہوا کہ ہم نے امام ذہبی رحمہ اللہ کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ”تلخیص“ کے جس قلمی نسخہ کا فوٹو پیش کیا ہے اس کی امام ذہبی رحمہ اللہ نے نظرثانی بھی کی ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات قطعی طور پر معلوم ہوگئی کہ ”تلخیص“ کے مطبوعہ نسخہ میں زیربحث روایت کے ساتھ تاریخ پیدائش والے الفاظ کا اضافہ کاتب کی غلطی ہے اورحقیقت میں یہ ”ابن اسحاق“ کا قول ہے جو کاتب کی غلطی کی وجہ سے زیربحث روایت کے ساتھ جڑ گیا ہے ۔

خارجی شواہد
ہماری بات کی تائید کے لئے خارجی شواہد بھی ہیں اور وہ یہ کہ زیربحث روایت کو امام حاکم کے علاوہ بھی متعدد محدثین نے اسی طریق سے روایت کیا ہے مگر کسی کی روایت میں بھی تاریخ پیدائش والے الفاظ کا اضافہ نہیں ہے ، ملاحظہ ہو:
 ❀ پہلی خارجی شہادت:
امام طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
”حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: وُلِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ“ [شرح مشكل الآثار 15/ 216 رقم 5967]۔
 ❀ دوسری خارجی شہادت:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
”حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «وُلِدَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ“[المعجم الكبير للطبراني: 12/ 47 رقم 12432]۔
 ❀ تیسری اورزبردست خارجی شہادت:
بلکہ امام حاکم کے شاگرد امام بیھقی رحمہ اللہ نے امام حاکم ہی کے طریق سے اسی روایت کو نقل کیا اوراس میں تاریخ پیدائش والے الفاظ نہیں ہیں چنانچہ:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
”حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ: مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ: مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِيُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:وُلِدَ النَّبِيُّ، صلى الله عليه وسلم، عَامَ الْفِيلِ“[دلائل النبوة للبيهقي: 1/ 75]۔

خلاصہ بحث
 ”تلخیص المستدرک“ کے مطبوعہ نسخہ سے آپ ﷺ کی تاریخ پیدائش 12 ربیع الاول بتلانے والی جو روایت نقل کی جاتی ہے اس میں اخیرکے الفاظ کا اضافہ غلط ہے، حقیقت کی دنیا میں ان اضافہ شدہ الفاظ کے ساتھ اس روایت کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے، نہ تو ”تلخیص المستدرک“ میں اور نہ ہی اس کی اصل کتاب ”المستدرک“ میں کمامضی ، لہٰذا مذکورہ روایت بے اصل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
(کفایت اللہ سنابلی) 

.