بدھ، 30 جون، 2021

بیعت ‏پیر ‏و ‏مرشد ‏کا ‏شرعی ‏حکم؟ ‏

.


بسم اللہ الرحمن الرحیم 
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

بیعت اور بیعتِ پیر و مرشد کی شرعی حیثیت 


مسئلہ بیعت 
شرع کی نظر میں 

شیخ صہیب حسن 

سوال: 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین بابت اس مسئلہ کے، کہ ہند و پاک میں پیر و مرشد عوام سے جو بیعت لیتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور یہ بات کہاں تک درست ہے کہ جس کا کوئی پیر و مرشد نہ ہو، اس کا پیر و مرشد شیطان ہوتا ہے، جیسا کہ عوام میں مشہور ہے؟ براہِ کرام کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما کر ممنون فرمائیں. 
(قاری محمد ایاز الدین، حیدر آباددکن) 


جواب: 
الحمد ﷲ رب العالمین و الصلاة و السلام علی سیّد المرسلین محمد و علی آله و أصحابه أجمعین 

جواباً عرض ہے کہ یہ سوال تفصیلی وضاحت چاہتا ہے جو درج ذیل ہے: 

بیعت کا لفظ بـیـع سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے سودا کرنا، چاہے یہ سودا مال کا ہو یا کسی اور ذمہ داری کا، اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں: 

إِنَّ ٱللَّهَ ٱشْتَرَ‌ىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَ‌ٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلْجَنَّةَ ۚ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِى ٱلتَّوْرَ‌ىٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ وَٱلْقُرْ‌ءَانِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِۦ مِنَ ٱللَّهِ ۚ فَٱسْتَبْشِرُ‌وا بِبَيْعِكُمُ ٱلَّذِى بَايَعْتُم بِهِۦ ۚ وَذَ‌ٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿١١١﴾
سورة التوبہ 

''بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور اُن کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں۔ اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور کون ہے اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا؟ تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے، خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔'' 

اور اصطلاحاً بیعت اس معاہدے کو کہتے ہیں جو امیر کی اطاعت کے لئے کیا جاتا ہے۔ بیع و شراء میں چونکہ خریدنے والا، بیچنے والے کے ہاتھ میں پیسہ تھماتا ہے اور بیچنے والا مشتری کے ہاتھ میں اس کی خرید کردہ چیز دیتا ہے، اُسی طرح بیعت کرنے والا اپنے امیر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کا اقرار کرتا ہے۔ 

قرآنِ مجید میں چار  مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اہل ایمان کی بیعت کا ذکر ہے: 

ن ۱ 
عمومی بیعت: 
…………………؛ 

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 

إِنَّ ٱلَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ ٱللَّـهَ يَدُ ٱللَّـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِۦ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَـٰهَدَ عَلَيْهُ ٱللَّـهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿١٠﴾ 
سورة الفتح 

''جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں، وہ یقینا اللہ سے بیعت کرتے ہیں ۔ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ تو جو شخص عہد شکنی کرے، وہ اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔'' 


ن ۲ 
بیعت ِرضوان: 
…………………؛

جو ۶ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر لی گئی تھی: 

لَّقَدْ رَ‌ضِىَ ٱللَّـهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَ‌ةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَـٰبَهُمْ فَتْحًا قَرِ‌يبًا ﴿١٨﴾ 
سورة الفتح 

''یقینا اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے خوش ہو گیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا، اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔'' 


ن ۳ 
فتح مکہ اور اس کے بعد عورتوں سے خاص طورپر بیعت: 
…………………………………؛

 فرمایا: 
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُؤْمِنَـٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰٓ أَن لَّا يُشْرِ‌كْنَ بِٱللَّـهِ شَيْـًٔا وَلَا يَسْرِ‌قْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَـٰدَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَـٰنٍ يَفْتَرِ‌ينَهُۥ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْ‌جُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِى مَعْرُ‌وفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَٱسْتَغْفِرْ‌ لَهُنَّ ٱللَّـهَ ۖ إِنَّ ٱللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٢﴾ 
سورة الممتحنہ 

''اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری حکم عدولی نہ کریں گی تو آپ اُن سے بیعت کر لیا کریں اور اُن کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں، بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے اور معاف کرنے والا ہے۔'' 


ن ۴ 
انفرادی بیعت: 
…………………؛ 

عمرو بن العاصؓ اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: 
''جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا: 
اپنا دایاں ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کر سکوں، تو آپؐ نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا، لیکن میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپؐ نے کہا: عمرو! کیا ہوا؟ میں نے کہا: میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں. آپؐ نے کہا: کون سی شرط؟ میں نے کہا کہ اللہ میری مغفرت فرمائیں ! تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام لانے سے پچھلے (تمام گناہ) ختم ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی ہجرت کرنے اور حج کرنے سے جو کچھ پہلے کیا تھا، سب معاف ہوجاتا ہے؟'' 1

بیعت سے متعلق چند دیگر احادیث بھی ملاحظہ ہوں: 
~~~~~~~~~~~~~؛

حاکم وقت کی اطاعت کا عہد: 
………………………………؛

عبادة بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں پر بیعت کی: 

''آپ کی سمع و اطاعت کریں گے چاہے تنگی کا عالم ہو یا فراخی کا، چاہے پسندیدہ بات ہو یا ناپسندیدہ، چاہے ہمارے اوپر کسی کو ترجیح ہی کیوں نہ دی گئی ہو، اس شرط کے ساتھ کہ ہم صاحبِ امر کے ساتھ جھگڑ انہیں کریں گے، اور یہ کہ ہم جہاں کہیں ہوں حق بات کہیں گے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔'' 2 

ابن کثیر نے البدایة و النھایة میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیعت وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے آنے والوں سے مقامِ عقبہ (منیٰ) میں لی تھی: 

''اور یہ کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یثرب آئیں تو ہم ان کی مدد کریں گے اور جس طرح ہم اپنی جانوں، اپنی اَرواح اور اپنی اولاد کا دفاع کرتے ہیں، ویسا ہی اُن کا بھی دفاع کریں گے اور ہمارے لئے جنت ہو گی۔'' 3 


یہ اطاعت مشروط ہے: 
……………………………؛ 

حضرت ابن عمرؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

''ایک مسلمان کے لیے سمع و اطاعت کرنا لازم ہے، چاہے پسندیدہ امر ہو یا ناپسندیدہ امر میں، الا یہ کہ اسے کسی گناہ کا حکم دیا جائے۔ ایسی صورت میں سمع و اطاعت نہیں ۔'' 4 


ایک امام کی بیعت کے بعد دوسرے امام کی بیعت جائز نہیں: 
……………………………؛ 

عبد اللہ بن عمرو بن العاص آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طویل خطبہ نقل کرتے ہیں، جس میں یہ الفاظ شامل ہیں: 

''جس کسی نے کسی امام کی بیعت کی یا اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا اور اپنا دل اس کے حوالہ کر دیا تو جب تک استطاعت ہے، اس کی اطاعت کرے۔ پھر اگر کوئی دوسرا شخص (امامت میں ) اس کے ساتھ نزاع کرے تو دوسرے شخص کی گردن مار دو۔'' 5 


جماعت سے خروج نا جائز ہے 
……………………………؛ 

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

''جو شخص حلقہ اطاعت سے نکل گیا اور جماعت کو چھوڑ گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اور جو شخص کسی اندھے جھنڈے کے نیچے قتال کرتا ہے، یا کسی عصبیت کی بنا پر غصہ میں آجاتا ہے یا عصبیت کی طرف دعوت دیتا ہے یا عصبیت کی مدد کرتا ہے اور اس دوران قتل ہوجاتا ہے تو اس کی موت بھی جاہلیت کی موت ہو گی اور جو شخص میری اُمت پر خروج کرتا ہے، نیکو کار یا گناہ گار، سب کو مارتا ہے اور کسی مؤمن کے ساتھ برائی کرنے سے باز نہیں آتا اور جس سے عہد کیا ہے اُس عہد کو پورا نہیں کرتا تو وہ مجھ سے نہیں اور میں اُس سے نہیں.'' 6 


آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیعت کے سلسلہ میں صحابہ کرامؓ کا بھی یہی طرزِ عمل تھا. 
…………………………………؛ 

نافع روایت کرتے ہیں کہ
''عبد اللہ بن عمرؓ، عبد اللہ بن مطیع کے پاس آئے اور یہ وہ وقت تھا جب یزید بن معاویہؓ کے زمانہ میں حرہ کا واقعہ پیش آیا۔ ابن مطیع نے کہا: ''ابو عبد الرحمن کے لئے تکیہ بچھا دو۔'' 
عبداللہ بن عمرؓ نے کہا: میں بیٹھنے کے لئے نہیں آیا، تمہیں صرف ایک حدیث سنا نے آیا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور وہ یہ کہ 
''جس نے اپنا ہاتھ، حلقہ اطاعت سے ہٹا لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس عالم میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل (عذر خواہی) نہ ہوگی، اور جو شخص اس عالم میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔'' 7


مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ باتیں معلوم ہوئیں:
؛*********************؛ 

*  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کسی دوسرے خلیفہ یا امام کی بیعت سے مختلف ہے، اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت گویا اللہ سے بیعت ہے۔ 

*  آپؐ نے عقبہ میں جب انصارِ مدینہ سے بیعت لی تھی تو گو اس وقت آپؐ کے پاس اقتدار نہ تھا، لیکن بحیثیتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ؐ نے یہ بیعت لی تھی، اور یہ بھی ایک خاص مقصد کے لئے تھی کہ جب آپ مدینہ پہنچ جائیں گے تو انصار آپؐ کی پوری پوری حفاظت کریں گے. 

*  مدینہ پہنچ کر آپؐ بلا شرکتِ غیرے اقتدار کے مالک تھے۔ آپؐ نے صحابہ کرام ؓسے مختلف مواقع پر سمع و اطاعت کی بیعت لی، اور بعض مواقع پر خاص خاص باتوں پر بیعت لی. حدیبیہ کے مقام پر جب یہ افواہ پھیلی کہ مکہ والوں نے آپؐ کے ایلچی حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا ہے تو آپؐ نے اپنے پندرہ سو رفقا سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ راہِ فرار اختیار نہ کریں گے اور دوسری روایت کے مطابق یہ بیعت موت پر تھی۔ 

*  صلح حدیبیہ کے بعد جو خواتین ہجرت کر کے مدینہ آئیں یا فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئیں، اُن سے سورہ الممتحنہ کی آیت کے مطابق چند مخصوص باتوں پر بیعت لی گئی۔ یہ عورتیں چونکہ نئی نئی مسلمان ہوئیں تھیں، اس لئے اُن چیزوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جو ایامِ جاہلیت میں عام تھیں. آپؐ نے تومسلم مردوں سے بھی انہی باتوں پر بیعت لی تھی۔ 

*  آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہر حال میں واجب ہے اور بعد کے امراء و خلفا کے لئے بھی سمع و اطاعت کی بیعت کا حکم دیا گیا ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر وہ گناہ کی طرف بلائیں گے تو ان کی اطاعت نہیں ہوگی. 

*  خلیفہ کی بیعت اتنی اہم ہے کہ اگر کوئی دوسرا دعویدارِ خلافت پیدا ہو جائے تو اُس کی گردن مارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ اس لئے ہے کہ اسلامی مملکت میں بد امنی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب خلیفہ کے پاس مکمل اقتدار ہو، وہ حدود نافذ کر سکتا ہو، جنگ اور صلح کے معاہدے کرسکتا ہو. 

*  خلیفہ کے ہوتے ہوئے اس کی اطاعت نہ کرنا اور جماعت سے خروج کرنا قابل مؤاخذہ جرم ہیں اور ایسے آدمی کی موت جاہلیت کی موت ہے اور ایسے ہی اُن لوگوں کی بھی جو کسی مذموم عصبیت (برادری، قومیت، زبان، رنگ اور پارٹی) کی بنا پر قتل و قتال پر آمادہ ہوجائیں. 

بنی اُمیہ کے دور کے بعد جب بنی عباس سریر آرائے خلافت ہوئے، لیکن اندلس جیسے دور دراز علاقہ میں بنی اُمیہ کے امراء نے اپنی حکومت قائم کرلی، تو علمائے امت نے فتنہ و فساد کا دروازہ بند کرنے کے لئے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک وقت میں دور دراز کے علاقوں میں دو علیحدہ علیحدہ خلافتیں ہوسکتی ہیں. اور پھر اس اُصول کے تحت، بعد کے ادوار میں،  خراسان اور ہندوستان کی مملکتیں بھی برداشت کی گئیں. 

*  صحابہ کرامؓ نے اس شخص کی بیعت نہیں کی جس نے خلیفہ وقت کے خلاف خروج کیا ہو۔ 

*  ان تمام تفصیل سے یہ تو واضح ہو گیا کہ بیعت کا دائرہ 'امامت ِکبریٰ' تک محدود ہے، ایسے امام کی بیعت ہی کی جا سکتی ہے جو واقعی اقتدار رکھتا ہو، حدود نافذ کر سکتا ہو، صلح و جنگ کے معاہدے کرسکتا ہو۔ وہ چاہے جہاد پر بیعت لے یا کسی فعل خیر پر یا کسی برائی سے رُکنے پر۔ بیعت لینا اس کا حق ہے، البتہ اگر وہ کسی غیر اسلامی کام پر بیعت لینا چاہے تو اس کی بات ہرگز نہ مانی جائے گی۔ 


پیر و مرشد کی بیعت: 
……………………………؛ 

صوفیائے کرام کے حلقہ میں "بیعتِ اصلاح و ارشاد" کے نام سے ایک نئی روایت ڈالی گئی ہے جس کا خیر القرون میں وجود نہیں ملتا۔ اگر اس فعل کا مقصود لوگوں کی اصلاح ہے تو وہ مسجد کے منبر سے، خطیب کے خطبات سے، معلم کی تعلیم سے اور بڑے بوڑھوں کی فہمائش سے بھی حاصل ہو سکتی ہے اور ان سب سے بڑھ کر نیک لوگوں کی صحبت اس کام کیلئے ایک نسخہ کیمیا ہے. 

شریعت اپنے ماننے والوں کو کوئی ایسا حکم نہیں دیتی جو غیر ضروری اور بے فائدہ ہو، وہ شیخ یا مرشد جسے کوئی اختیار حاصل نہ ہو، اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے آخر کونسا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ بالفرض اگر ایک لمحہ کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ لوگوں کی اصلاح کے لئے یہ طریقہ کارگر ہو سکتا ہے، تب بھی مندرجہ ذیل قباحتوں کی بنا پر اسے قبول نہیں کیا جاسکتا: 

وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَ‌ٰ‌طِى مُسْتَقِيمًا فَٱتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا ٱلسُّبُلَ فَتَفَرَّ‌قَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِۦ ۚ ذَ‌ٰلِكُمْ وَصَّىٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٥٣﴾ 
سورة الانعام 

''اور یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے، سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔ اس کا تم کو اللہ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔'' 

اور فرمایا: 

وَلَا تَكُونُواكَٱلَّذِينَ تَفَرَّ‌قُوا وَٱخْتَلَفُوامِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُ ۚ وَأُولَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ  ﴿١٠٥﴾ 
سورة آل عمران 

''تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا۔ ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔'' 

اُمتِ مسلمہ میں ایک طرف مذہبی فرقہ بندی شروع ہوگئی تھی تو دوسری طرف طریقت کے نام پر بے شمار سلسلے وجود میں آگئے اور پھر ہر سلسلہ ایک مستقل فرقہ اور جماعت بنتی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ناجی جماعت کی نشانی یہ بتائی تھی: 

ما أنا علیه و أصحابي 
''جس پر میں ہوں اورمیرے صحابہ''

لیکن اس کے بالکل برعکس ہر صاحبِ سلسلہ اور ہر وہ جماعت جو بیعت کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے، اپنے طرزِ عمل سے یہ کہہ رہی ہوتی ہے: 

 ''ما أنا علیه وسلسلتي أو حزبي'' 
''یعنی جس پر میں ہوں اور میرا طریقہ یا میری جماعت۔'' 

چنانچہ اس سلسلہ یا جماعت کو چھوڑنے کا مطلب ہے کہ گویا وہ شخص اسلام سے خارج ہوگیا ہے۔

یہاں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمة اللہ علیہ کا ذکر کردہ ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جو ان کے جریدہ "اہل حدیث" امرتسر کے شمارہ 17، مارچ 1924ء میں شائع ہوا تھا، لکھتے ہیں: 
''یہاں پر ایک واقعہ بلاکم و کاست ناظرین کے سامنے رکھتا ہوں. 

حافظ عزیز الدین صاحب مراد آبادی (جو میرے گمان میں مردِ صالح ہیں ) مولوی اشرف علی تھانوی کے مرید تھے۔ بعد بیعت آپ مسئلہ تقلید کی تحقیق کر کے مقلد سے غیر مقلد ہو گئے مگر مولانا مرحوم کے حق میں اُنہوں نے کسی قسم کی بدگمانی نہیں کی۔ اس پر بھی مولانا کا ایک پوسٹ کارڈ (جو میں نے بچشم خود دیکھا ہے) موصوف کو پہنچا جس کا مضمون یہ تھا کہ غیر مقلد ہو جانے کی وجہ سے میں تم کو اپنے حلقہ بیعت سے خارج کرتا ہوں. اب میرا تمہارا پیری مریدی کا تعلق نہیں رہا۔ (اوکما قال) ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔'' 8 

شیخ سے بیعت کرنا عذابِ قبر سے چھٹکارا دلاتا ہے، پہلے یہ واقعہ پڑھئے اور پھر تبصرہ ملاحظہ کیجئے: 
……………………………؛ 

''شیخ الاسلام خواجہ فرید الدین احمد نے فرمایا کہ اُن کے دادا پیر شیخ معین الدین حسن سنجری چشتی اجمیری قدس سرہ العزیز کی یہ رسم تھی کہ جو کوئی ہمسایہ میں سے اس دنیا سے نقل (انتقال) کرتا، اس کے جنازہ کے ساتھ جاتے اور خلق کے لوٹ جانے کے بعد اس کی قبر پر بیٹھتے اور جو درود، کہ ایسے وقت میں پڑھتے آئے ہیں،  پڑھتے۔ پھر وہاں سے آتے۔چنانچہ اجمیر میں آ پ کے ہمسایوں میں سے ایک نے انتقال کیا۔ دستور کے مطابق آپ جنازہ کے ساتھ گئے، جب اُسے دفن کرچکے، خلق لوٹ آئی اور خواجہ وہیں ٹھہر گئے اور تھوڑی دیر کے بعد آپ اُٹھے۔ شیخ الاسلام قطب الدین فرماتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ تھا۔ میں نے دیکھا کہ دم بدم آپ کا رنگ متغیر ہوا، پھر اسی وقت برقرار ہوگیا۔ جب آپ وہاں سے کھڑے ہوئے تو فرمایا: الحمدﷲ! بیعت بڑی اچھی چیز ہے۔'' 
شیخ الاسلام قطب الدین اوشی نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب لوگ اس کو دفن کر کے چلے گئے تھے تو میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ عذاب کے فرشتے آئے اور چاہا کہ اس کو عذاب کریں، اسی وقت شیخ عثمان ہارونی (آپ کے پیر، م634ھ) قدس سرہ العزیز حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ شخص میرے مریدوں میں سے ہے۔ جب خواجہ عثمان نے یہ کہا تو فرشتوں کو فرمان ہوا کہ کہو: ''یہ تمہارے برخلاف تھا۔'' خواجہ نے فرمایا: بے شک اگرچہ برخلاف تھا مگر چونکہ اس نے اپنے آپ کو اس فقیر کے پلے باندھا تھا، تو میں نہیں چاہتا کہ اس پر عذاب کیا جائے، فرمان ہوا: اے فرشتو! شیخ کے مرید سے ہاتھ اُٹھاؤ، میں نے اس کو بخش دیا۔ پھر شیخ الاسلام کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور فرمانے لگے کہ اپنے آپ کو کسی کے پلے باندھنا بہت ہی اچھی چیز ہے۔" 9 

* سبحان اللہ! 
نہ شریعت پرعمل کرنے کی ضرورت نہ کتاب و سنت کا کوئی لحاظ، شیخ کی بیعت جنت کا پروانہ ہوگیا۔ اور پھر جس طرح سے یہاں کتاب و سنت کی دھجیاں اُڑائی گئی ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمالیں: 

* اللہ عالم الغیب ہے، لیکن یہاں شیخ عذابِ قبر کا سارا انتظام دیکھ رہے ہیں. 

* اللہ کے رسول فرشتہ جبرئیل ؑ سے ہم کلام ہوتے تھے، یہاں شیخ عذاب کے فرشتوں سے مجادلہ کررہے ہیں. 

* حدیث کے مطابق انبیا اور صلحا کو قیامت کے دن شفاعت کا موقع دیا جائے گا، یہاں عین عذابِ قبر سے پہلے شفاعت کی جارہی ہے جو فوراً ہی اجابت کے مراحل طے کرگئی۔ 

* جس صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو قبروں پر سے گزرنے، دونوں کوعذابِ قبر ہونے، آپ ؐ کے ان دونوں قبروں پر ٹہنی لگانے کا واقعہ نقل ہوا ہے اور پھر ٹہنیوں کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف کا ذکر ہے، اُسے ذرا ذہن میں تازہ کیجئے۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں الہامِ خداوندی سے دو اشخاص کے عذابِ قبر کے بارے میں بتایا گیا، وہ یقینا مسلمان تھے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں داخل تھے، لیکن اُنہیں تو یہ بیعت کام نہ آئی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی اور بطورِ علامت دو ٹہنیاں بھی لگائیں کہ جن کے خشک ہونے تک دونوں کے عذاب میں تخفیف کی گئی تھی۔ 

کیا یہ ایک قباحت ہی کافی نہیں کہ جس سے مزعومہ بیعت کی قلعی کھل جاتی ہے؟ 


طریقت اور بیعت چونکہ لازم و ملزوم ہیں، چنانچہ اس تعلق سے بھی نئے نئے شگوفے کھلتے رہتے ہیں. 

مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: 

''بیعت کے سلسلہ میں صوفیا نے ایک اور شاندار کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اُنہوں نے جب دیکھا کہ اویس قرنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا، نہ بیعت کی، تو اُن کی ارواح کی آپس میں بیعت کرا دی اور اسے نسبتِ اُویسیہ کا نام دیا اور راستہ کی اس رکاوٹ کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ فلاں شیخ کی فلاں شیخ سے ملاقات ہی ثابت نہیں یا پیر کی وفات کے بہت عرصہ بعد مرید کی پیدائش ہو تو وہ یہی نسبتِ اُویسیہ قائم کر کے اپنا سلسلہ جاری فرما کر کام چلا لیتے ہیں.'' 10 

انہی غلط رسموں کو جائز کرنے کے لئے قرآن و سنت کی نصوص کی ایسی تاویلاتِ فاسدہ کی جاتی ہیں کہ انسان اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے. 

ابن الجوزی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: 
محمد بن طاہر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ''پھٹے ہوئے کپڑے (مرقعہ) پہننے کے بارے میں شیخ کا مرید پر شرط رکھنا، اور بطورِ دلیل عبادة بن صامت کی حدیث پیش کی کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ہم تنگی اور فراخی ہر حال میں سمع و اطاعت کریں گے۔'' 

دیکھئے کیا خوب نکتہ نکالا ہے، کہاں شیخ کا مرید پر مذکورہ شرط رکھنا اور اُسے جوڑنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعتِ اسلام سے جو کہ نہ صرف لازم ہے بلکہ خود رسول کی اطاعت بھی واجب ہے۔" 11 

اگر اُمتِ مسلمہ ایک بڑے جہاز کی مانند ہے تو یہ مختلف فرقے اور طریقے چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی مانند ہیں. شدید طوفان کی صورت میں جہاز تو بچ جاتا ہے، لیکن چھوٹی کشتیاں غرقِ آب ہوجاتی ہیں. تعجب ہے کہ کتاب و سنت کے جہاز کو چھوڑ کر لوگ ان بجروں (چھوٹی کشتیوں ) پر کیوں سوار ہوتے ہیں!؟ جب کہ سمندر میں تلاطم ہی تلاطم ہے اور کشتی کسی وقت بھی ڈوب سکتی ہے۔ 


قائلین بیعت کے شبہات
اور آخر میں ان چند شبہات کا جائزہ بھی لے لیا جائے جو قائلین بیعت کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں: 
………………………………؛ 


* "تین آدمی بھی سفر کر رہے ہوں تو ایک کو امیر بنانے کا حکم ہے، چہ جائیکہ پوری جماعت ہو اور اس کا امیرنہ ہو۔'' 

جائزہ: 
سفر میں امیر بنانا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے، لیکن وہاں بیعت کا ذکر نہیں ہے، اور یہ امارت سفر کے ختم ہونے کے ساتھ تمام ہوجاتی ہے۔ گویا وقتی طور پر نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لئے ایسے امیر کی اطاعت لازمی قرار دی گئی لیکن اس کا قیاس امامتِ کبریٰ پر نہیں کیا جا سکتا جہاں دوسرے مدعی ٔامارت کو برداشت نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی گردن مار دی جاتی ہے. 


*  "بیعتِ اصلاح و ارشاد کو نماز کی امامت کی طرح سمجھا جائے، یعنی امامتِ کبریٰ کے ساتھ امامتِ صغریٰ کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔'' 

جائزہ: 
امارتِ سفر کی طرح نماز کی امامت بھی نماز کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔جو نہی امام نے 'السلام علیکم و رحمتہ اﷲ' کہا، مقتدی اور امام کا تعلق ختم ہو گیا۔ دوسرے یہ کہ خلیفہ وقت کی موجودگی میں کیا صرف ایک ہی نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاتا تھا یا ہر علاقے بلکہ ہر محلے کی مسجد میں نماز نہیں ہوتی تھی؟ 

حضرت معاذؓ بن جبل عشاء کی نماز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے اور پھر عوالی جا کر اہل محلہ کو نماز پڑھایا کرتے تھے۔ لیکن امامِ وقت یا خلیفہ حاضر سے بیعت کرنے کے بعد کیا ہر شہر یا ہر محلہ میں جزوی بیعت ہوا کرتی تھی جو ہر مرشد اپنے لئے روا رکھتا ہو؟ کم از کم خیرالقرون کے زمانہ میں تو ایسی بیعت کا نام و نشان نہ تھا۔ قرونِ ثلاثہ (زمانۂ رسول ؐ اور زمانۂ صحابہؓ ، زمانۂ تابعین رحمة اللہ علیہ اور تبع تابعین رحمة اللہ علیہ) کے بعد جہاں فرقہ بازی کی بدعت پیدا ہوئی، وہاں تصوف کے سلسلوں کے نام پر مشائخ کے ہاتھ پر بیعتِ اصلا ح و ارشاد کا دروازہ بھی کھول دیا گیا۔ 


* فرمانِ نبویؐ ہے: ''جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں طوقِ بیعت نہ تھا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔" 12 

جائزہ: 
شریعت کے تمام احکامات استطاعت سے مشروط ہیں۔ ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہو لیکن بیت اللہ تک پہنچنے کے تمام راستے مسدود ہوں، چاہے جنگ و جدال کی بنا پر یا کسی دوسرے سبب کی بنا پر، تو ایسے شخص پر حج کرنا واجب نہ ہوگا جب تک کہ راستے کھل نہ جائیں. حالانکہ ایسی ہی وعید حج پر نہ جانے والوں کے لئے بھی ہے، ایسے ہی زکوٰة نہ ادا کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے، لیکن جس شخص کے پاس اتنا مال ہی نہ ہو کہ جس میں زکوٰة واجب ہو تو وہ زکوٰة دینے سے مستثنیٰ ہے۔ وضو میں ہاتھ پیر دھونے لازم ہیں، لیکن اگر کسی کا ہاتھ یا پیر کٹا ہوا ہو تو وہ اُسے کیسے دھوئے گا؟ 
بعینہٖ اگر ایسا خلیفہ موجود ہو جو صاحب ِاقتدار ہو، حدود کو نافذ کرسکتا ہو، صلح و جنگ کے جھنڈے بلند کر سکتا ہو، قرآن و سنت کو نافذ کرسکتا ہو تو جہاں جہاں اس کا اقتدار ہے، وہاں وہاں تمام لوگوں پر اس کی بیعت لازم ہے۔ بیعت نہیں کریں گے تو بموجب ِحدیثِ مذکور جاہلیت کی موت مریں گے۔ 
لیکن اگر ایسا خلیفہ سرے سے موجود ہی نہ ہو تو پھر بیعت کا محل نہ ہونے کی بنا پر یہ حکم بھی ساقط ہوجائے گا، اور ایسے ہی وہ لوگ جو ایک خلیفہ کے دائرئہ اقتدار سے خارج رہتے ہوں، اُن کے لئے بھی ایسے خلیفہ کی بیعت لازم نہ ہوگی. 
۱۹۲۴ء میں خلافت ِعثمانیہ کے ختم کئے جانے کے بعد اوّل تو مسلم ممالک پر استعمار کا غلبہ ہو گیا، خود ہندوستان بھی سو ڈیڑھ سو سال انگریزی استعمار کا ہر اول دستہ بنا رہا، جب خلیفہ ہی نہ رہا تو بیعت کس کے ہاتھ پر کی جاتی؟مسلم ممالک آزاد ہونا شروع ہوئے تو اکثر نے جمہوری یا آمرانہ نظام اپنایا، بیعت کے اُس طریقہ کو خیر باد کہہ دیا گیا جو اہل حل و عقد کی مشاورت سے منعقد ہوتی ہے، لہٰذا نظامِ بیعت بھی معطل ہوتا چلا گیا۔ اب جہاں جہاں کسی درجے میں بھی ایسا نظام قائم ہو جو کتاب و سنت کو نافذ کرتا ہو، لیکن بادشاہ کی بیعت کے بعد ہی اس کی حکومت کا آغاز ہوتا ہے۔ 


* بیعتِ اصلاح و ارشاد کا ایک "عہدنامہ" کی طرح اعتبار کیا جائے تو کیا حرج ہے؟ کیا یہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ سلف صالح میں اس کا رواج نہ تھا؟ 

جائزہ: 
ابو نعیم اصبہانی اپنی کتاب حلیة الأولیاء (2، 204) میں اپنی اسناد ذکر کرنے کے بعد مطرف بن عبداللہ بن شخیر (تابعی) کی یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ہم زید بن صوحان کے پاس جایا کرتے تھے جو کہا کرتے تھے: 
''اے اللہ کے بندو! اکرام کرو اور (عمل میں) خوبصورتی پیدا کرو! بندے اللہ تک ان دو وسیلوں سے پہنچ سکتے ہیں: خوف اور طمع''
ایک دن ہم ان کے پاس آئے تو دیکھا کہ (شاگردوں) نے ایک عبارت اس مضمون کی لکھی ہے: 
''اللہ ہمارا ربّ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبیؐ ہیں ، قرآن ہمارا امام ہے، جو ہمارے ساتھ ہوگا، ہم اس کے ساتھ ہیں اور اس کے لئے ہیں. جو ہمارے مخالف ہوگا، ہمارا ہاتھ اس کے خلاف ہوگا اور ہم ایسا ویسا کریں گے۔'' 
پھر اُنہوں نے یہ مکتوب لیا اور ہر شخص سے باری باری یہ کہا: اے فلاں! کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو؟ یہاں تک کہ میری باری آگئی اور اُنہوں نے کہا: اے لڑکے! تم بھی اقرار کرتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں. کہنے لگے: اس لڑکے کے بارے میں جلد بازی نہ کرو، پھر مجھ سے پوچھا: بچے! تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: اللہ نے اپنی کتاب میں مجھ سے ایک عہد لیا ہے اور میں اس عہد کے بعد کسی اور عہد کا پابند نہیں ہوں۔'' یہ سننا تھا کہ تمام کے تمام لوگ اس عہد نامے سے رجوع کر گئے، کسی ایک نے بھی اقرار نہ کیا۔ میں نے مطرف سے پوچھا: تمہاری تعداد کیا تھی؟ بولے: ''تیس کے قریب آدمی تھے۔" 13 

امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اس مسئلہ کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ وہ ایک فتویٰ کے ضمن میں کہتے ہیں: 
''اگر لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت اور بر و تقویٰ پر تعاون کرنے پر جمع ہوں تو بھی ہر شخص دوسرے شخص کے ساتھ ہر بات میں معاون نہ ہوگا بلکہ صرف اس حد تک جہاں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہوگی، اگر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہو رہی ہو تو وہ ساتھ نہ دے گا، یہ لوگ سچائی، انصاف، احسان، امربالمعروف، نہی عن المنکر، مظلومین کی مدد اور ہر اس کام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہیں.  وہ نہ ظلم کرنے پر، نہ کسی جاہلی عصبیت پر، نہ ہی خواہشات کی پیروی پر تعاون کریں گے، نہ ہی فرقہ بازی اور اختلاف پر، اور نہ ہی اپنی کمر کے گرد پیٹی باندھ کر کسی شخص کی ہر بات ماننے پر تعاون کریں گے اور نہ ہی کسی ایسے حلف نامے میں شریک ہوں گے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہو۔'' 

''ان میں سے کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ اپنے یا کسی دوسرے کے استاد کی خاطر اپنی کمر کے گرد پیٹی باندھے اور جیسے سوال میں پوچھا گیا ہے، کسی ایک معین شخص کے لئے پیٹی باندھنا یا اس کی طرف نسبت کرنا، جاہلیت کی بدعات میں سے ہے اور ان حلف ناموں کی مانند ہے جو اہل جاہلیت کیا کرتے تھے یا قیس و یمن کی فرقہ بازیوں کی طرح ہے۔ اگر اس کے باندھنے سے مراد بر و تقویٰ پر تعاون ہے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی ایسے بندھن کے اس کا حکم دیا ہے اور اگر اس سے مراد گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون ہے تو وہ ویسے ہی حرام ہے، یعنی اگر اس طرح خیر کا کام کرنا مقصود ہے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کام کی پوری رہنمائی ملتی ہے، استاد کے ساتھ (اس نسبت) کی کوئی ضرورت نہیں. اگر برائی مقصود ہے تو اللہ اور اس کے رسول اُسے حرام قرار دے چکے ہیں ۔۔۔ 

کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ کسی دوسرے شخص سے اپنی ہر بات منوانے پر عہد لے یا اس بات پر کہ جس کامیں دوست ہوں، اس سے دوستی رکھو اور جس کا میں دشمن ہوں، اُس سے دشمنی رکھو، بلکہ ایسا کرنے والا چنگیز خان اور اس کے حواریوں جیسا ہے جو ہر اس شخص کو اپنا دوست اور حمایتی سمجھتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتا ہو اور ہر اس شخص کو اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہیں جو ان کی مخالفت کرتا ہو، بلکہ اُنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہوا عہد یاد رکھنا چاہئے کہ اطاعت صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہے۔ اسے وہی کام کرنا ہے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسولؐ نے دیا ہے، ہر اُس چیز کو حرام ٹھہرانا ہے جسے اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ وہ اپنے اساتذہ (و مشائخ) کے حقوق کا ضرور خیال رکھے، لیکن اُتنا جتنا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کسی کا اُستاد مظلوم ہو تو اس کی مدد کرے، اگر ظلم کرے تو اس کی ظلم پر اعانت نہ کرے بلکہ اُسے ظلم کرنے سے روکے، جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یامظلوم!'' 
آپؐ سے کہا گیا: مظلوم ہو تو ہم اس کی مدد کرتے ہیں، لیکن ظالم ہو تو اس کی مدد کیسے ہوگی؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''تم اُسے ظلم کرنے سے روکو، یہی اس کی مدد ہے۔'' 14 


''جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر و مرشد شیطان ہے۔'' 

جائزہ: 
یہ بات اُس شخص کے لئے تو درست ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا طوق اپنی گردن سے اُتار پھینکا ہو، لیکن وہ شخص جو صرف اپنی نسبت اللہ کے رسولؐ اور اُن کی حدیث کی طرف کرتا ہو، اُسے شیطان کی طرف منسوب کرنا، اپنے ایمان کو ضائع کرنا ہے، ''ما أنا علیه و أصحابي'' کا تقاضا یہی ہے کہ ہر اُس عمل سے اجتناب کیا جائے جس پر مہر نبوت ثبت نہ ہو اور جسے صحابہ کرامؓ نے نہ کیا ہو۔ 

اللہ تعالیٰ تمام کلمہ گو حضرات کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں. 

و آخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العالمین  


~~~~~~~~~~~~~~؛


حوالہ جات 

1. صحیح مسلم : 121 

2. صحیح بخاری: 7199، صحیح مسلم: 1709، سنن نسائی: 4160 

3. البدایة والنهایة: 3، 189 

4. صحیح مسلم: 1839 

5. صحیح مسلم: 1844 

6. صحیح مسلم: 1848 

7. صحیح مسلم: 1851 

8. فتاویٰ ثنائیہ: 1، 356 

9. بحوالہ شریعت و طریقت از مولانا عبدالرحمن کیلانی: ص 305 

10. شریعت و طریقت: ص 433 

11. تلبیس ابلیس: ص 192 

12. صحیح مسلم: 1851 

13. بحوالہ عربی کتابچہ:  ''بیعت،سنت و بدعت کے مابین'' از شیخ علی حسن 

14. فتاویٰ ابن تیمیہ: 8، 16 تا 18 


https://magazine.mohaddis.com/shumara/67-sep2007/1262-masla-beaat-sharaa-ki-nazar-main

.

منگل، 29 جون، 2021

حج ‏و ‏عمرہ ‏کے ‏برابر ‏ثواب ‏ ‏مقبول ‏احمد ‏سلفی

.


بسم اللہ الرحمن الرحیم 
~•~•~•~•~•~•~•~•~

ایسے اعمال جن کا ثواب حج و عمرہ کے برابر ہے 

مقبول احمد سلفی 
اسلامک دعوۃ سنٹر، طائف 

؛~~~~~~~~~~~~~؛

اللہ کے بہت سے بندے ایسے ہیں جنہیں بیت اللہ کا سفر کرنے کی توفیق مل جاتی ہے وہ تو بڑے خوش نصیب لوگ ہیں، تاہم بعض ایسے بھی بندے جو رات و دن زیارت حرمین کی تمنا کرتے ہیں، روتے ہیں، رب سے دعائیں کرتے ہیں، تھوڑے بہت پیسے بھی جمع کرتے ہیں اورد یگر اسباب اپنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر اللہ کی مرضی کے سامنے کسی کی مرضی نہیں چلتی جسے اللہ کے گھر سے بلاوا آتا ہے بس وہی اس کے گھر کا دیدار کر سکتا ہے، پیسہ ہوتے ہوئے بھی رب کی مرضی کے سامنے آدمی بے بس و لاچار ہے۔ بہت سے لوگوں کو غربت و افلاس کی بنا پر حج بیت اللہ اور زیارت مسجد نبوی نصیب نہیں ہو پاتی ۔بسا اوقات فقراء و مساکین احساس کہتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں آج دولت دی ہوتی تو فلاں فلاں کی طرح ہم بھی حج کرتے، ہمیں بھی لوگ حاجی کہتے اور ہمارا بھی نام ہوتا۔ ایسے بندوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ حج شہرت و ناموری کا ذریعہ نہیں ہے، اگر مالدار بھی شہرت کی خاطر حج کرے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ غریب ہوتا اور اسے حج کرنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ عبادت میں شہرت و ناموری اعمال کی بربادی کا ذریعہ ہے اور جہنم میں لے جانے کا سبب بھی ہے. ہاں جو لوگ اللہ کی رضا کے لئے حج مبرور کرتے ہیں ایسے لوگ اللہ کے محبوب بندے ہیں، اسی طرح جو غریب و مسکین لوگ اللہ کی رضا کے لئے حج کرنا چاہتے ہیں مگر غربت و افلاس کے سبب ان کی یہ آرزو پوری نہیں ہوتی ایسے بندوں کو بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، اللہ نے اپنے بندوں کو مایوسی سے منع کیا ہے۔ اس احکم الحاکمین نے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی، حج کے معاملہ میں بھی اس نے سب کے ساتھ انصاف کیا. اگر کسی کو اللہ نے مالدار بنایا ہے تو کل قیامت میں اس سے پوچھا جائے گا کہ تو نے مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ اور یہ بڑا کٹھن سوال ہوگا۔ جسے اللہ نے زیادہ مال نہیں دیا اس کے لئے آخرت میں آسانی ہی آسانی ہے کیونکہ مال کی آزمائش بہت سخت ہے۔ مالداری اور غریبی دونوں میں رب کی حکمت پوشیدہ ہے۔ 

آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العالمین نے حج و عمرہ میں سب کے ساتھ کیسے انصاف کیاچنانچہ اس نے اپنے محبوب پیغمبر محمدﷺ کے ذریعہ ہمیں ایسے اعمال کی خبر دی جو کرنے کے اعتبار سے معمولی ہیں مگر اجر و ثواب کے اعتبار سے میزان میں حج و عمرہ کے برابر ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں نیچے بعض وہ اعمال ذکر کئے جاتے ہیں جن کی انجام دہی سے غریب و امیر سب کو حج و عمرہ کے برابر ثواب ملتاہے. 

(1) 
فجر کی نماز کے بعد سے طلوع شمس تک مسجد ہی میں ٹھہرنا اور پھر دو رکعت نماز پڑھنا: 
؛°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°؛

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: 

من صلى الغداة في جماعة، ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة تامة تامة تامة۔ 
(صحيح الترمذي: 586) 

ترجمہ: 
جس نے جماعت سے فجر کی نماز پڑھی پھر اللہ کے ذکر میں مشغول رہا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا پھر دو رکعت نماز پڑھی، تو اس کے لئے مکمل حج اور عمرے کے برابر ثواب ہے. 

یہی حدیث الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ اس طرح بھی وارد ہے. 

من صلَّى صلاةَ الصبحِ في جماعةٍ، ثم ثبت حتى يسبحَ للهِ سُبحةَ الضُّحى، كان له كأجرِ حاجٍّ و معتمرٍ، تامًّا له حجتُه و عمرتُه. 
(صحيح الترغيب:469) 

ترجمہ: 
 جس نے جماعت سے فجر کی نماز پڑھی اور ٹھہرا رہا یہاں تک کہ اس نے چاشت کی نماز پڑھ لی تو اس کے لئے حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے کے برابر ثواب ہے یعنی مکمل حج اور مکمل عمرے کا ثواب.ط


(2) 
جماعت سے نماز پڑھنے جانا اور نفل پڑھنے جانا: 
؛°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°؛

ابو امامہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: 

من مشي إلى صلاة مكتوبة في الجماعة فهى كحجة، ومن مشي إلى صلاة تطوع. 
في رواية أبي داود ـ أي صلاة الضحى ـ فهي كعمرة تامة. 
(صحيح الجامع: 6556) 

ترجمہ: 
جو آدمی جماعت سے فرض نماز پڑھنے نکلتا ہے تو اس کا ثواب حج کے برابر ہے اور جو نفلی نماز کے لئے نکلتا ہے. 
ابوداؤد کی روایت میں ہے چاشت کی نماز کے لئے نکلتا ہے تو اسے مکمل عمرہ کا ثواب ملتاہے. 


(3) 
جماعت کے ساتھ عشاء کی اور ظہر کی نماز پڑھنا: 
؛°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°؛

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے دریافت کیا: 

یا رسول الله ذهب أهل الدثور بالأجور، يصلون كما نصلي ويصومون كما نصوم، ويتصدقون بفضول أموالهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم أوليس قد جعل الله لكم صلاة العشاء في جماعة تعدل حجة، وصلاة الغداة في جماعة تعدل عمرة. 
(صحيح مسلم: 1006) 

ترجمہ: 
 اے اللہ کے رسول مال و دولت والے تو سارا ثواب لے گئے، وہ بھی ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں، اور ہماری طرح روزہ رکھتے ہیں، ساتھ ہی اپنے زائد مال سے صدقہ دیتے ہیں. تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے تمہارے لئے بھی جماعت کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھنے میں حج کا ثواب اور فجر کی نماز پڑھنے میں عمرے کا ثواب رکھا ہے. 


(4) 
مسجدوں کے علمی مجالس میں شریک ہونا: 
؛°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°؛

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: 

من غدا إلى المسجد لا يريد إلا أن يتعلم خيراً أو يُعَلِّمه، كان له كأجر حاج تاماً حجته۔ 
( صحیح الترغیب: 86) 

ترجمہ: 
 جو مسجد کی طرف علم حاصل کرنے یا علم سکھلانے کے لئے نکلتا ہے تو اسے مکمل حج کے برابر ثواب ملتا ہے. 
 

(5) 
نماز کے بعد ذکر و اذکار کرنا: 
؛°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°؛

حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: 

جاء الفقراء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: ذهب أهل الدثور بالدرجات العُلى والنعيم المقيم، يصلون كما نصلي ويصومون كما نصوم، ولهم فَضْلٌ من أموال يحجون بها ويعتمرون ويجاهدون ويتصدقون، قال: ألا أحدثكم بأمر إن أخذتم به أدركتم من سبقكم ولم يدرككم أحد بعدكم، وكنتم خير من أنتم بين ظهرانيه إلا من عمل مثله: تسبحون وتحمدون وتكبرون خلف كل صلاة ثلاثاً وثلاثين. 
(صحیح البخاری: 843) 

ترجمہ: 
 کچھ مسکین لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بولے کہ مال والے تو بلند مقام اور جنت لے گئے۔ وہ ہماری ہی طرح نماز پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں اور ان کے لئے مال کی وجہ سے فضیلت ہے، مال سے حج کرتے ہیں، اور عمرہ کرتے ہیں، اور جہاد کرتے ہیں، اور صدقہ دیتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جس کی وجہ سے تم پہلے والوں کے درجہ پا سکو اور کوئی تمہیں تمہارے بعد نہ پا سکے اور تم اپنے بیچ سب سے اچھے بن جاؤ سوائے ان کے جو ایسا عمل کرے،  وہ یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد تم تینتیس بار (33) سبحان اللہ، تینتیس بار (33) الحمدللہ اور تینتیس بار (33) اللہ اکبر کہو. 


(6) 
رمضان میں عمرہ کرنا: 
؛°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°؛

رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے یعنی حج کی طرح ثواب ملتا ہے ۔نبی ﷺ نے ایک انصاریہ عورت سے فرمایا تھا: 

فإذا جاء رمضانُ فاعتمِري فإنَّ عُمرةً فيه تعدِلُ حجَّةً .
(صحيح مسلم:1256) 

ترجمہ: 
جب رمضان آئے تو تم عمرہ کرلینا کیونکہ اس (رمضان ) میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے. 

دوسری صحیح روایات میں ذکر میں ہے کہ رمضان میں عمرہ کرنا نبی ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے. 

 صحیح ابن خزیمہ اور ابوداؤد وغیرہ میں مروی ہے کہ ایک عورت اپنے شوہر سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرانے کی مانگ کرتی ہے اس حدیث میں آگے ذکر ہے: 

وإنَّها أمرَتْني أن أسألَك ما يعدِلُ حجَّةً معَكَ فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أقرِئها السَّلامَ ورحمةَ اللَّهِ وبرَكاتِه وأخبِرْها أنَّها تعدِلُ حجَّةً معي يَعني عُمرةً في رَمضانَ. 
(صحيح أبي داود:1990) 

ترجمہ: 
اس مرد نے نبی ﷺ سے کہا کہ اس عورت (میری بیوی) نے مجھے کہا ہے کہ میں آپ سے یہ دریافت کروں کہ کون سا عمل آپ کے ساتھ حج کے برابر ہو سکتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
اسے ( میری طرف سے ) السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کہنا اور اسے بتانا کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے. 


(7) 
 والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا: 
؛°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°؛

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: 

أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: إني أشتهي الجهاد ولا أقدر عليه، قال: هل بقي من والديك أحد؟ قال: أمي، قال: قابل الله في برها، فإن فعلت فأنت حاج ومعتمر ومجاهد. 

ترجمہ: 
 ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں جہاد کی خواہش رکھتا ہوں مگر اس کی طاقت نہیں. تو آپ نے پوچھا کہ تمہارے والدین میں سے کوئی باحیات ہیں؟ تو اس نے کہا کہ ہاں میری ماں تو آپ نے بتایا کہ جاؤ ان کی خدمت کرو، تم حاجی، معتمر اور مجاہد کہلاؤ گے. 

٭ بوصیری نے کہا کہ ابویعلی اور طبرانی نے اسے جید سند کے ساتھ روایت کیاہے۔ 
(اتحاف الخیرہ: 5/474) 
عراقی نے تخریج الاحیاء میں حسن اور منذری نے الترغیب والترہیب میں جید کہاہے۔ 

(8) 
مسجد قبا میں نماز پڑھنا: 
؛°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°؛

جو شخص مسجد نبوی ﷺ کی زیارت کرے، اس کے لئے مسنون ہے کہ وہ مسجد قبا کی بھی زیارت کرے اور اس میں بھی دو رکعت نماز پڑھے کیونکہ نبی کریم ﷺ ہر ہفتے قباکی زیارت کیا کرتے اور اس میں دو رکعت نماز ادا فرمایا کرتے تھے اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے گھر وضو کرے اور خوب اچھے طریقے سے وضو کرے اور پھر مسجد قبا میں آکر نماز پڑھے تو اسے عمرہ کے برابر ثواب ملتا ہے. 

حدیث کے الفاظ یہ ہیں: 
من تطَهَّرَ في بيتِهِ , ثمَّ أتى مسجدَ قباءٍ، فصلَّى فيهِ صلاةً، كانَ لَهُ كأجرِ عمرةٍ. 
(صحيح ابن ماجه: 1168) 

ترجمہ: 
جو شخص اپنے گھر میں وضو کرے پھر مسجدِ قبا آئے اور اس میں نماز ادا کرے، تو اس کو عمرہ کے برابر ثواب ملے گا. 

مختصر الفاظ کے ساتھ روایت اس طرح بھی آئی ہے. 
الصَّلاةُ في مسجدِ قُباءَ كعُمرةٍ. 
(صحيح الترمذي: 324) 

ترجمہ: 
مسجد قبا میں نماز پڑھنا عمرہ کے برابر ہے. 

یہاں یہ بات یاد رہے کہ دوسرے ممالک سے صرف مسجد قبا کے لئے زیارت کر کے آنے کا حکم نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو مدینہ طیبہ میں رہتے ہوں یا سعودی عرب یا سعودی عرب سے باہر سے آنے والے مسجد نبوی کی زیارت پہ آئے ہوں۔ 

(9) 
حاجی کا سامان سفر تیار کرنا یا ان کے گھر والوں کی خبر گیری کرنا: 
؛°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°؛

نبی ﷺ کا فرمان ہے: 
من جهَّز غازيًا، أو جهزحاجًّا، أوخلَفه في أهلِه، أوفطَّر صائمًا ؛ كان له مثلُ أجورِهم، من غير أن ينقصَ من أجورِهم شيءٌ. 
(صحيح الترغيب:1078) 

ترجمہ: 
 جس نے مجاہد کا سامان سفر تیار کیا یا حاجی کا سامان سفر تیار کیا یا ان کے گھر والوں کی خبر گیری کی یا کسی روزے دار کو افطار کرایا تو اس کے لئے ان ہی کے برابر اجر ہے اور ان کے یعنی غازی یا حاجی یا روزہ دار کے اجر میں ذرہ برابر کمی نہیں کی جائے گی. 


حج و عمرہ کے برابر ثواب سے متعلق ضعیف و موضوع روایات 
؛°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°؛

قارئین کرام! یہ بات جان لیں کہ میں نے اوپر جو احادیث بیان کی ہیں وہ ساری صحیح ہیں، ان پر عمل کر سکتے ہیں اور اللہ تعالی سے حج و عمرہ کے برابر اجر و ثواب کی امید کر سکتے ہیں، نیز یہ بات بھی جان لیں کہ حج و عمرہ کے برابر ثواب سے متعلق بہت ساری دیگر روایات بھی آئی ہیں جو یا تو ضعیف ہیں یا موضوع جنہیں میں طوالت کے خوف سے یہاں ذکر نہیں کر رہا ہوں تاہم چند احادیث کی طرف اشارے کئے دیتا ہوں. 

مثلا: 
(1) 
جمعہ والی مسجد میں فرض پڑھنا حج مبرور اور نفل پڑھنا حج مقبول ہے. 

(2)
 مسجد نبوی میں نماز ادا کرنا حج کے برابر ہے. 

(3) 
 ماں کی قبر کی زیارت کرنا عمرہ کے برابر ہے. 

(4) 
 رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف دو حج اور دو عمروں کے برابر ہے. 

(5)
 جس نے مسجد کو صاف کیا اسے چار سو حج کا ثواب ہے. 
 
(6)
 جو صبح و شام سو مرتبہ تسبیح بیان کرے اسے سو حج کا ثواب ہے. 
 
(7)
 جو اپنے بھائی کی مدد کرے اس کے لئے حج و عمرہ کا ثواب ہے. 
 
(8)
 جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی گویا اس نے آدم علیہ السلام کے ساتھ پچاس دفعہ حج کیا. 
 
(9)
 عرفہ کے دن جمعہ ہونا سترحج سے افضل ہے. 
 
(10)
 پیدل والوں کے لئے ستر حج اور سوار کے لئے تیس حج کا ثواب ہے. 
 
(11)
 اللہ کی راہ میں ایک لمحہ پچاس یا ستر حج سے افضل ہے. 
 
(12)
 اہل بیت کی قبروں کی زیارت کا ثواب ستر حج کے برابر ہے. 
 
(13)
 والدین کے چہرے کی طرف نظر رحمت سے دیکھنا حج مقبول و مبرور کے برابر ہے. 
 
(14)
 سورہ حج کی تلاوت حاجیوں کی تعداد کے برابر ثواب ہے. 
 
(15)
 مغرب کے بعد چار رکعت نماز ادا کرنا حج کے برابر ہے. 
 
(16)
 جو حج کے راستے میں مرگیا اسے ہرسال حج کا ثواب ملتا ہے. 
 
(17)
 جس نے سورہ یسین پڑھی اسے بیس حج کا ثواب ہے. 
 
(18)
جس نے مغرب کی نماز جماعت سے پڑھی اسے حج مبرور اور عمرہ مقبول کا ثواب ہے. 

 اس قسم کی اور بھی بہت سی روایات ہیں جن میں بعض ضعیف اور بعض موضوع ہیں. 

اے اللہ! جنہیں تو نے حج و عمرہ کی سعادت سے نوازا ان کی عبادتوں کو قبول فرما اور جنہیں حج و عمرہ کی سعادت نصیب نہیں ہوئی انہیں اس کے برابر اجر و ثواب سے نواز دے. آمین 

.

ہفتہ، 26 جون، 2021

نکاح ‏کے ‏بعد ‏دعائے ‏زلیخا ‏و ‏بلقیس ‏ ‏علامہ ‏عبید ‏اللہ ‏مبارکپوری

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،

نکاح کے بعد دعائے زلیخا و بلقیس 

علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری 


؛~~~~~~~~~~~~~؛ 


سوال 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

دلہا یا دلہن کےحق میں نکاح میں خطبہ مسنونہ کے بعد ذیل کی دعائیں پڑھنی جیسا کہ علاقہ مدراس میں جماعت احناف کے نکاح خواں میں پڑھتے ہیں جائز ہیں یا نہیں؟ نیز بعد نکاح دلہا قاضی اور خویش و اقارب کی قدم بوسی کرتا ہے۔ کیا ایسا کرنا بدعت اور خلاف سنت نہیں ہے؟ 

مروجہ ادعیہ یہ ہے: 

1:اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا آدم وسيدنا حواء الصلوة والسلام 

2: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدناابراهيم وسيدناساره الصلوة والسلام 

3: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا موسىٰ وسيدنا صفوره الصلوة والسلام 

4: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا سليمان وسيدنا بلقيس الصلوة والسلام 

5: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنايوسف وسيدنا زليخا الصلوة والسلام 

6: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا محمد صلى الله عليه وسلم وسيدنا خديجة الكبرىٰ وعائشه عليهم الصلوة والسلام 

7: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا آدم وسيدنا فاطمه عليهم الصلوة والسلام 

؛………………؛

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

دولہا دلہن دونوں کےحق میں یاصرف دولہا کےحق میں بعد از نکاح متعد صحیح حدیثوں میں دعا نبوی وارد ہے اور جسے آں حضرت ﷺ نے صحابہ کو تعلیم دی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: 

1: حضرت عبدالرحمن بن عوف سے ان کے نکاح کی خبر سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: 
بارك الله لك (بخاري) 

2: بارك الله لك و بارك عليك و جمع بينكما فى خير (ترمذى) 

3: اللهم بارك لهم و بارك عليهم (نسائى) 

4: بارك الله لكم و بارك فيكم و بارك عليكم 

5: بارك الله فيك و بارك لك فيها (احمد عن عقيل) 

یہ مختصر دعا جو الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ مختلف صحابہ سے مروی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ: 
 اللہ تعالیٰ اس نکاح کو تم دونوں (میاں بیوی) اور تمہارے متعلقین کے لئے ہر قسم کی بھلائی اور خیر و برکت کا باعث بنائے تمہیں آفات و بلیات سے محفوظ رکھے۔ 
تمہیں صالح اور سعادت مند اولاد بخشے تم دونوں  کو محبت الفت کے ساتھ بھلائی اور نیکی پر قائم  رکھے۔ ظاہر  ہے کہ یہ دعا نہایت جامع کافی اور وافی ہے۔ 

امام بخاری نے اپنے صحیح میں باب کیف یدعی للمتزوج؟ کے تحت میں عبد الرحمن بن عوف کی حدیث ذکر کی ہے۔ جس میں بارک اللہ لک کے ساتھ دعاء مذکور ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: 
و دل صنيع المؤلف على أن الدعاء للمتزوج بالبركة هو المشروع و لاشك أنها لفظه جامعة يدخل فيها كل مقصود من والد وغيره 
(فتخ البارى222/9) 

پس اس جامع مسنون دعا کے ہوتے ہوئے اپنی طرف سے دوسری دعا گھڑنا دعائے نبوی کو کافی اور جامع نہ سمجھنے پر دال ہے اور دعائے نبوی سے اعراض کرنا ہے جو بڑی بدبختی اور شقاوت ہے ادعیہ مذکورہ مسنونہ مبتدعہ میں چوتھی اور پانچویں دعا اس وجعہ سے بھی واجب الترک ہے کہ حضرت یوسف کا امراۃ عزیر مصر (زلیخا یا راعیل بنت رعابیل) سے اور حضرت سلیمان کا بلقیس سے نکاح کرنا کسی صحیح اور معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے۔ 

و في القصة إن الملك توَّجَهُ و ختمه و ولاه مكان العزيز و عزله فمات بعد، فزوجه امرأته فوجدها عذراء و ولدت له ولدين و أقام العدل بمصر و دانت له الرقاب. قاله السيوطي. و عن ابن زيد أن يوسف عليه السلام تزوج امرأة العزيز فوجدها بكراً، و كان زوجها عنيناً (5/47) 

وَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ: لَمَّا قَالَ يُوسُفُ لِلْمَلِكِ: اجْعَلْنِي عَلى خَزائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ [يوسف: 55] قَالَ الْمَلِكُ: قَدْ فَعَلْتُ، فَوَلَّاهُ فِيمَا ذَكَرُوا عَمَلَ إِطْفِيرَ، وَعَزَلَ إِطْفِيرَ عَمَّا كَانَ عَلَيْهِ، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ: وَكَذلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْها حَيْثُ يَشاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنا مَنْ نَشاءُ وَلا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ قال: فَذُكِرَ لِي- وَاللَّهُ أَعْلَمُ- أَنَّ إِطْفِيرَ هَلَكَ فِي تِلْكَ اللَّيَالِي، وَأَنَّ الْمَلِكَ الرَّيَّانَ بْنَ الْوَلِيدِ زَوَّجَ يُوسُفَ امْرَأَةَ إِطْفِيرَ رَاعِيلَ، وَأَنَّهَا حين دخلت عليه قال لها: أَلَيْسَ هَذَا خَيْرًا مِمَّا كُنْتِ تُرِيدِينَ؟ قَالَ: فَيَزْعُمُونَ أَنَّهَا قَالَتْ: أَيُّهَا الصِّدِّيقُ لَا تَلُمْنِي، فَإِنِّي كُنْتُ امْرَأَةً كَمَا تَرَى حَسْنَاءَ جَمِيلَةً نَاعِمَةً فِي مُلْكٍ وَدُنْيَا، وَكَانَ صَاحِبِي لَا يَأْتِي النِّسَاءَ، وَكُنْتَ كَمَا جَعَلَكَ اللَّهُ فِي حُسْنِكَ وَهَيْئَتِكَ عَلَى مَا رَأَيْتَ، فَيَزْعُمُونَ أَنَّهُ وجدها عذراء. 
(تفسير ابن كثير 2/594) 

ان عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت یوسف کے عزیز مصر کی بیوی سے نکاح کی حکایت محض ایک داستان ہے جس کی کوئی اصل اور سند نہیں۔ 

و أخرج ابن المنذر، وعبد بن حميد، و ابن أبي شيبة و غيرهم عن ابن عباس في أثر طويل " إن سليمان تزوجها بعد ذلك "، قال أبو بكر بن أبي شيبة: ما أحسنه من حديث. 

قال ابن كثير في تفسيره بعد حكاية هذا القول: بل هو منكر جداًً، ولعله من أوهام عطاء بن السائب على ابن عباس والله أعلم. والأقرب في مثل هذه السياقات أنها متلقاة عن أهل الكتاب مما يوجد في صحفهم كروايات كعب ووهب سامحهما الله فيما نقلا إلى هذه الأمة من بني إسرائيل؛ من الأوابد والغرائب والعجائب، مما كان، ومما لم يكن ومما حرف وبدل ونسخ، وقدأغنانا الله سبحانه عن ذلك بما أصح منه وأنفخ وأوضح وأبلغ انتهى. 
(فتح البيان 7/73) 

غرض یہ کہ حضرت یوسف کا زلیخا سے اور حضرت سلیمان کا بلقیس سے نکاح کا معاملہ داستان سے زیادہ کچھ نہیں رکھتا۔ 

بنا بریں یہ مروجہ دعا ترک کر دینی چاہئے۔ کسی صحیح یا ضعیف روایت سے زمانہ رسالت یا زمانہ صحابہ میں نکاح کے بعد دولہا کا قاضی یا دیگر خویش و اقارت کی قدم بوسی کرنی ثابت نہیں. اس لئے یہ فعل بھی بدعت ہونے کی وجہ سے سخت مذموم ہے۔ ایسا ہی ایجاب و قبول کے بعد دولہا کا حاضرین مجلس نکاح کو کھڑا ہو کر سلام کرنا بھی بدعت ہے۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب 

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری 
جلد نمبر 2، کتاب النکاح 
صفحہ نمبر 181 

.

.

بدھ، 23 جون، 2021

کیا موت کے فرشتے کا نام عزرائیل ہے؟ ‏ ‏مختلف ‏علماء ‏

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
؛•[•]•[•]•[•]•[•]•[•]•[•]•[•]•؛

کیا موت کے فرشتے کا نام عزرائیل ہے؟ 
اردو و عربی فتاوی 

مختلف علماء 

جمع و ترتیب 
سید محمد عزیر ادونوی 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛

۱. 
حكم تسمية ملك الموت عزرائيل 

السؤال: 
هل ثبت في السنة أن اسم ملك الموت عزرائيل كما ذكر الشيخ عند تعداد أسماء بعض الملائكة؟ 


الجواب 

لا أعلم في هذا شيئاً ثابتًا، وإنما هو مشهور بين أهل العلم جاء في بعض الآثار أن اسمه عزرائيل، لكن لا أعلم فيه حديثًا صحيحًا بأن اسمه عزرائيل، وإنما جاء فيه آثار ضعيفة لا تقوم بها حجة إنما هو مشهور يسمى عزرائيل.

https://binbaz.org.sa/fatwas/1501/%D8%AD%D9%83%D9%85-%D8%AA%D8%B3%D9%85%D9%8A%D8%A9-%D9%85%D9%84%D9%83-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%88%D8%AA-%D8%B9%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D9%89%D9%8A%D9%84 

؛~~~~~~~~~~~~~؛

۲. 
لا نجزم بأن اسم ملك الموت عزرائيل 


السؤال:

هل ورد ما يدل على أن ملك الموت اسمه عزرائيل ؟.


الجواب: 

الحمد لله.

اشتهر أن اسم ملك الموت عزرائيل، إلا أنه لم ترد تسمية ملك الموت بهذا الاسم في القرآن الكريم ولا في السنة النبوية الصحيحة، وإنما ورد ذلك في بعض الآثار والتي قد تكون من الإسرائيليات. 

وعلى هذا، لا ينبغي الجزم بالنفي ولا بالإثبات، فلا نثبت أن اسم ملك الموت عزرائيل، ولا ننفي ذلك، بل نفوض الأمر إلى الله تعالى ونسميه بما سماه الله تعالى به"مللك الموت"قال الله تعالى: ( قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ) السجدة /11. 

قال ابن كثير في"البداية والنهاية"(1/49): 

وأما ملك الموت فليس بمصرح باسمه في القرآن، ولا في الأحاديث الصحاح، وقد جاء تسميته في بعض الآثار بعزرائيل، والله أعلم .

وقد قال الله تعالى: ( قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ) السجدة /11. 

وقال السندي: لم يرد في تسميته حديث مرفوع اهـ .

وقال المناوي في"فيض القدير"(3/32) بعد أن ذكر أن ملك الموت اشتهر أن اسمه عزرائيل، قال: 

ولم أقف على تسميته بذلك في الخبر اهـ . 

وقال الشيخ الألباني في تعليقه على قول الطحاوي: 

"ونؤمن بملك الموت الموكل بقبض أرواح العالمين". قال رحمه الله: 

قلت: هذا هو اسمه في القرآن، وأما تسميته بـ"عزرائيل"كما هو الشائع بين الناس فلا أصل له، و إنما هو من الإسرائيليات اهـ .

وقال الشيخ ابن عثيمين: 

(ملك الموت): وقد اشتهر أن اسمه (عزرائيل)، لكنه لم يصح، إنما ورد هذا في آثار إسرائيلية لا توجب أن نؤمن بهذا الاسم، فنسمي من وُكِّل بالموت بـ (ملك الموت) كما سماه الله عز وجل في قوله: ( قل يتوفاكم ملك الموت الذي وكل بكم ثم إلى ربكم ترجعون ) اهـ . 

"فتاوى ابن عثيمين"(3/161). 

والله أعلم. 

https://islamqa.info/ar/40671 لا نجزم بأن اسم ملك الموت عزرائيل - الإسلام سؤال وجواب 


؛~~~~~~~~~~~~~؛


۳. 
اسم ملك الموت كما ورد في نصوص الوحي 


السؤال 

سمعت أن ملك الموت اسمه سيدنا عبد الرحمن هل هذا صحيح أم لا أرجو الإفادة؟ 


الإجابــة 

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد: 

فلم نقف على الاسم المذكور لملك الموت، والذي جاء في نصوص الوحي من القرآن الكريم والسنة هو تسميته عليه السلام: بملك الموت، قال الله تعالى: قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ [السجدة:11].

وقد سماه النبي صلى الله عليه وسلم بهذا الاسم كما جاء في الصحيحين وغيرهما، وقد جاء في بعض الآثار أن اسمه عزرائيل.

والله أعلم. 

https://www.islamweb.net/ar/fatwa/51101/%D8%A7%D8%B3%D9%85-%D9%85%D9%84%D9%83-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%88%D8%AA-%D9%83%D9%85%D8%A7-%D9%88%D8%B1%D8%AF-%D9%81%D9%8A-%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%B5-%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%AD%D9%8A 


؛~~~~~~~~~~~~~؛


۴. 
سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیاموت کے فرشتہ کا نام عزرائیل صحیح ہے؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے کسی صحیح حدیث  میں یہ  نہیں آیا کہ ملک الموت کا نام عزرائیل ہے۔[1]
…………………………؛ 

[1] ۔یہ بات درست ہے کہ موت کے فرشتے کا نام عزرائیل قرآن وسنت سے کہیں ثابت نہیں ہے۔بعض سلف نے اس کا یہ نام ذکر کیاہے لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔لہذا ملک الموت کا عزرائیل نام درست نہیں اور موت کے فرشتے کو ملک الموت کہنا چاہیے۔(راشد)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ
عذاب قبر، صفحہ:151
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/21818/%D8%B9%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84 


؛~~~~~~~~~~~~~؛


۵. 
روح قبض کرنے والے فرشتے کا درست نام ملک الموت ہے 


سوال 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا ملک الموت کے لیے عزرائیل کا لفظ سنت میں ثابت ہے؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

لا حولا ولا قوة الاباللہ. 

شیخ البانی نے تعلیق احکام الجنائذ (ص:155) میں فرمایا ہے ’’کتاب وسنت میں اس کا نام ملک الموت ہے اور یہ کہ ان کا نام عزرائیل ہے یہ صرف لوگوں میں مشہور ہے اس کی کوئی اصل نہیں اور شاید یہ اسرائیلیات میں سے ہے۔ 

امام ابن کثیر ( 2؍ 457) میں آیت [قل یتوفاکم ملک الموت الذی وکل بکم ] (سجدہ آیت:11) کے تحت لکھتے ہیں: 

’’اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک الموت فرشتوں میں سے کسی معین فرشتے کا نام نہیں ہے اور یہی حدیث براء سے بھی متبادر ہے جو ہم نے سورۃ ابراہیم میں ذکر کی. 

اور بعض آثار میں انکا نام عزرائیل بھی آیا ہے قتادۃ وغیرہ نے یہی کہا ہے اور اس کے معاون (فرشتے) بھی ہیں. 

تفسیر روح المعانی (21؍126) میں کہا گیا ہے وہ عزرائیل ہیں اور اس کا معنی عبداللہ ہے. 

میں کہتا ہوں: ’’شیخ البانی کا قول درست ہے کیونکہ امام سیوطی سے آیات سے متعلق احادیث و آثار کی کثرت تتبع کے باوجود انکی دُرً (5؍173) میں کچھ وارد نہیں، صرف یہی کہا  ہے کہ ’’ابن ابی الدنیا نے اور ابو الشیخ نے (العظمۃ ) میں اشعث بن شعیب سے روایت کیا ہے اس نے کہا، ابراہیم علیہ السلام نے ملک الموت سے پوچھا اور ان کا نام عزرائیل ہے اور اس کی دو آنکھیں ہیں. الخ ۔ تو جیسے آپ دیکھ رہے ہیں یہ اثر اسرائیلیات میں سے ہے. 

اور امام شنقیطی نے اضواء البیان (2؍) میں کہا ہے کہ اس کا نام عزرائیل ہے جیسے کہ آثار میں آتا ہے اور جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے کسی مفسر نے یہ ذکر نہیں کیا، تفسیر اور سنت کی کتابوں کا میں نے خوب مطالعہ کیا ہے، رجوع کریں خازن (3؍473) التسھیل (ص: 130) 

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب 

فتاویٰ الدین الخالص
ج1ص189
محدث فتویٰ 

https://urdufatwa.com/view/1/11512/%D8%B9%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84


؛~~~~~~~~~~~~~؛


۶. 
کیا ملک الموت علیہ السلام کا نام یعنی ’’عزرائیل‘‘ قرآن یا حدیث سے ثابت ہے؟ 

تحریر: 
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ 


جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام کے نام قرآن مجید سے ثابت ہیں۔ 
(دیکھئے سورۃ البقرۃ:۹۸) 

اسرافیل علیہ السلام کا نام صحیح مسلم (۷۷۰، دارالسلام:۱۸۱۱) میں مذکور ہے۔ 

لیکن موت کے فرشتے (ملک الموت) کا نام عزرائیل کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ 

وہب بن منبہ تابعی سے ایک موقوف (مقطوع) روایت میں یہ نام آیا ہے۔ 

لیکن اس کی سند میں محمد بن ابراہیم بن العلاء منکر الحدیث ہے۔ 

دیکھئے العظمۃ لابی الشیخ لاصبہانی (۳/ ۸۴۸ ح ۳۹۴، ۳/ ۹۰۰ ح۴۳۹) 

لہٰذا یہ روایت سخت ضعیف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ 

اشعث نامی کسی تبع تابعی سے ثابت ہے کہ انھوں نے فرمایا: 

"ملک الموت علیہ السلام کا نام عزرائیل ہے۔"

(کتاب العظمۃ لابی الشیخ ج۳ص ۹۰۹ ح ۴۴۳ وسندہ صحیح) 

اشعث تک سند صحیح ہے اور اشعث کے بارے میں شیخ رضاء اللہ بن محمد ادریس مبارکپوری لکھتے ہیں: 
وہ اشعث بن اسلم العجلی البصری الربعی ہیں۔ (ایضاً مترجماً) 

اشعث بن اسلم رحمہ اللہ کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: 
ثقۃ (تاریخ یحییٰ بن معین، روایۃ الدوری:۳۴۰۳، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ۲/ ۲۶۹ وسندہ صحیح) 

حافظ ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات میں ذکر کیاہے۔ (۶/ ۶۳) 

معلوم ہوا کہ عزرائیل کا لفظ تبع تابعین کے دور سے ثابت ہے. 

 واللہ اعلم 

دیکھئے اضواء المصابیح فی تحقیق مشکوۃ المصابیح حدیث 144 کا تفقہ صفحہ 198 

https://ishaatulhadith.com/unicode/malakul-maut-ka-naam-ezraheel 

.

اہل ‏حدیث ‏نام ‏پچاس ‏حوالے ‏ ‏علامہ ‏زبیر ‏علی ‏زئی

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
 *()*()*()*()*()*()*()* 

لقب اہل حدیث 50 حوالے 

اہلِ حدیث کے صفاتی نام پر اجماع پچاس حوالے 

 محدث العصر علامہ زبیر علی زئی 

؛~~~~~~~~~~~~~؛ 

سلف صالحین کے آثار سے پچاس [50] حوالے پیش خدمت ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہل حدیث کا لقب اور صفاتی نام بالکل صحیح ہے اور اسی پر اجماع ہے۔ 


1. 
بخاری : 

◈ امام بخاری نے طائفہ منصورہ کے بارے میں فرمایا : 

يعني أهل الحديث ”یعنی اس سے مراد اہل الحدیث ہیں۔“ 

 [مسألة الاحتجاج بالشافعي للخطيب ص 47 و سنده صحيح، الحجة فى بيان المحجة 246/1] 

◈ امام بخاری رحمہ اللہ نے یحییٰ بن سعید القطان سے ایک راوی کے بارے میں نقل کیا : 

لم يكن من أهل الحديث . . . 
”وہ اہل الحدیث میں سے نہیں تھا۔“ 

 [التاريخ الكبير 429/6، الضعفاء الصغير : 281] 

؛…………………………………؛

2. 
مسلم : 

◈ امام مسلم مجروح راویوں کے بارے میں فرماتے ہیں : 

هم عند أهل الحديث متهمون 

”وہ اہلحدیث کے نزدیک متہم ہیں۔“ 

 [صحيح مسلم، المقدمه ص 6 (قبل الباب الاول) دوسرا نسخه ج 1ص 5] 

◈ امام مسلم رحمہ اللہ نے مزید فرمایا : 

وقد شرحنا من مذهب الحديث و أهله 

 ”ہم نے حدیث اور اہل حدیث کے مذہب کی تشریح کی۔“ 

[حواله مذكوره] 

◈ امام مسلم رحمہ اللہ نے ایوب السختیانی، ابن عون، مالک بن انس، شعبہ بن الحجاج، یحییٰ بن سعید القطان، عبدالرحمٰن بن مہدی اور ان کے بعد آنے والوں کو 

 من أهل الحديث 

”اہل حدیث میں سے قرار دیا۔“ 

[صحيح مسلم، المقدمه ص 22 [باب صحة الاحتجاج بالحديث المعنعن] دوسرا نسخه 26/1 تيسرا نسخه 23/1]

؛…………………………………؛

3. 
شافعی : 

◈ ایک ضعیف روایت کے بارے میں امام محمد بن ادریس الشافعی فرماتے ہیں : 

لا يثبت أهل الحديث مثله 

”اس جیسی روایت کو اہل حدیث ثابت نہیں سمجھتے۔“ 

 [السنن الكبريٰ للبيهقي 260/1 و سنده صحيح] 

◈ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا : 

إذا رأيت رجلا من أصحاب الحديث فكأني رأيت النبى صلى الله عليه وسلم حيا 

”جب میں اصحاب الحدیث میں سے کسی شخص کو دیکھتاہوں تو گویا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ دیکھتا ہوں۔“ 

[شرف اصحاب الحديث للخطيب : 85 و سنده صحيح] 

؛…………………………………؛

4. 
احمد بن حنبل : 

◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے طائفۂ منصورہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : 

إن لم تكن هذه الطائفة المنصورة أصحاب الحديث فلا أدري من هم ؟ 

”اگر یہ طائفہ منصورہ اصحاب الحدیث نہیں ہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں ؟ 

 [معرفة علوم الحديث للحاكم ص 2 رقم : 2 و سنده حسن، و صححه ابن حجر فى فتح الباري 293/13تحت ح 7311] 

؛…………………………………؛

5. 
یحییٰ بن سعید القطان : 

◈امام یحییٰ بن سعید القطان نے سلیمان بن طرخان التیمی کے بارے میں فرمایا : 

كان التيمي عندنا من أهل الحديث 

”تیمی ہمارے نزدیک اہل حدیث میں سے ہیں۔ 

 [مسند على الجعد 594/1ح 1354 و سنده صحيح، دوسرا نسخه : 1314، الجرح و التعديل لا بن ابي حاتم 125/4 و سنده صحيح] 

◈ ایک راوی حدیث عمران بن قدامہ العمی کے بارے میں یحییٰ القطان نے کہا : 

ولكنه لم يكن من أهل الحديث 

"لیکن وہ اہل حدیث میں سے نہیں تھا۔“ 

[الجرح والتعديل 303/6 و سنده صحيح] 

؛…………………………………؛

6. 
ترمذی : 

◈ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ابوزید نامی ایک راوی کے بارے میں فرمایا : 

وأبو زيد رجل مجهول عند أهل الحديث 

”اور اہل حدیث کے نزدیک ابوزید مجہول آدمی ہے۔“ 

[سنن الترمذي : 88] 

؛…………………………………؛

7. 
ابوداود : 
◈ امام ابوداود السجستانی رحمہ اللہ نے فرمایا : 

عند عامة أهل الحديث”عام اہل حدیث کے نزدیک“ 

[رسالة ابي داود اليٰ مكه فى وصف سننه ص 30، و مخطوط ص 1] 

؛…………………………………؛

8. 
نسائی : 
◈ امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا : 

ومنفعة لأهل الإسلام ومن أهل الحديث و العلم والفقه والقرآن 

”اور اہل اسلام کے لئے نفع ہے اور اہل حدیث، علم و فقہ و قرآن والوں میں سے۔“ 

[سنن النسائي 135/7 ح 4147، التعليقات السلفية : 4152] 

؛…………………………………؛

9. 
ابن خزیمہ : 
◈ امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ النیسابوری نے ایک حدیث کے بارے میں فرمایا : 

لم نرخلافا بين علماء أهل الحديث أن هذا الخبر صحيح من جهة النقل 

”ہم نے علمائے اہل حدیث کے درمیان کوئی اختلاف نہیں دیکھا کہ یہ حدیث روایت کے لحاظ سے صحیح ہے۔ “ 

[صحيح ابن خزيمه 21/1 ح 31] 

؛…………………………………؛

10. 
ابن حبان : 

◈ حافظ محمد بن حبان البستی نے ایک حدیث پر درج ذیل باب باندھا : 

ذكر خبر شنع به بعض المعطلة على أهل الحديث، حيث حرموا توفيق الإصابة لمعناه 

”اس حدیث کا ذکر جس کے ذریعے بعض معطلہ فرقے والے اہل حدیث پر تنقید کرتے ہیں کیونکہ یہ (معطلہ) اس کے صحیح معنی کی توفیق سے محروم ہیں۔“ 

[صحیح ابن حبان، الاحسان : 566 دوسرا نسخہ : 565] 

◈ ایک دوسرے مقام پر حافظ ابن حبان نے اہل حدیث کی یہ صفت بیان کی ہے : 

ينتحلون السنن و يذبون عنها و يقمعون من خالفها 

”وہ حدیثوں پر عمل کرتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے مخالفین کا قلع قمع کرتے ہیں۔“ 

[صحيح ابن حبان، الاحسان : 6129، دوسرا نسخه : 6162]نیز دیکھئے [الاحسان 140/1 قبل ح 61] 

؛…………………………………؛

11. 
ابوعوانہ : 

◈ امام ابوعوانہ الاسفرائنی ایک مسئلے کے بارے میں امام مزنی کو بتاتے ہیں : 

اختلاف بين أهل الحديث ”اس میں اہل حدیث کے درمیان اختلاف ہے۔“ 

[ديكهئے مسند ابي عوانه ج 1ص 49] 

؛…………………………………؛

12. 
عجلی : 

◈ امام احمد بن عبداللہ بن صالح العجلی نے امام سفیان بن عینیہ کے بارے میں فرمایا : 

وكان بعض أهل الحديث يقول : هو أثبت الناس فى حديث الزهري….. 

”اور بعض اہل حدیث کہتے تھے کہ وہ زہری کی حدیث میں سب سے زیادہ ثقہ ہیں۔“ 

[معرفة الثقات 417/1ت 631، دوسرا نسخه : 577] 

؛…………………………………؛

13. 
حاکم : 

◈ ابوعبداللہ الحاکم النیسابوری نے امام یحییٰ بن معین کے بارے میں فرمایا : 

إمام أھل الحدیث ”اہل حدیث کے امام۔“ 

[المستدرك 198/1 ح 710] 

؛…………………………………؛

14. 
حاکم کبیر : 

◈ ابواحمد الحاکم الکبیر نے ایک کتاب لکھی ہے : 

شعار أصحاب الحديث”اصحاب الحدیث کا شعار“ 

یہ کتاب راقم الحروف کی تحقیق اور ترجمے سے چھپ چکی ہے۔ 

دیکھئے [ماہنامہ الحدیث 9 ص 4 تا 28]

؛…………………………………؛

15. 
فریابی : 

◈ محمد بن یوسف الفریابی نے کہا : 

رأينا سفيان الثوري بالكوفة و كنا جماعة من أهل الحديث 

”ہم نے سفیان ثوری کو کوفہ میں دیکھا اور ہم اہل حدیث کی ایک جماعت تھے۔“ 

 [الجرح و التعديل 60/1 و سنده صحيح] 

؛…………………………………؛

16. 
فریابی : 

◈ جعفر بن محمد الفریابی نے ابراہیم بن موسیٰ الوزدولی کے بارے میں کہا : 

وله ابن من أصحاب الحديث يقال له : إسحاق 

”اس کا بیٹا اصحاب الحدیث میں سے ہے، اسے اسحاق کہتے ہیں۔“ 

 [الكامل لا بن عدي 271/1 دوسرا نسخه 440/1 و سنده صحيح] 

؛…………………………………؛

17. 
ابوحاتم الرازی : 

◈ اسماء الرجال کے مشہور امام ابوحاتم الرازی فرماتے ہیں : 

واتفاق أهل الحديث على شئ يكون حجة 

”اور کسی چیز پر اہل حدیث کا اتفاق حجت ہوتا ہے۔“ 

[كتاب المراسيل ص 192 فقره : 703] 

؛…………………………………؛

18. 
ابوعبید : 

◈ امام ابوعبید القاسم بن سلام کے ایک اثر کے بارے میں فرماتے ہیں : 

وقد يأخذ بهذا بعض أهل الحديث 

 ”بعض اہل حدیث اسے لیتے ہیں۔“ 

[كتاب الطهور لا بي عبيد : 174، الاوسط لابن المنذر 265/1] 

؛…………………………………؛

19. 
ابوبکر بن ابی داود : 

◈ امام ابوداود السجستانی کے صدوق عندالجمہور صاحب زادے ابوبکر بن ابی داود فرماتے ہیں : 

ولا تك من قوم تلهو بدينهم فتطعن فى أهل الحديث و تقدح 

”اور تو اس قوم میں نہ ہونا جو اپنے سے دین سے کھیلتے ہیں (ورنہ) تو اہل حدیث پر طعن و جرح کر بیٹھے گا۔“ 

[كتاب الشريعة لمحمد بن الحسين الآجري ص 975 و سنده صحيح] 

؛…………………………………؛

20. 
ابن ابی عاصم : 

◈ امام احمد بن عمرو بن الضحاک بن مخلد عرف ابن ابی عاصم ایک راوی کے بارے میں فرماتے ہیں : 

رجل من أهل الحديث ثقة ”وہ اہل حدیث میں سے ایک ثقہ آدمی ہے۔“ 

[الآحادو المثاني 428/1ح 604] 

؛…………………………………؛

21. 
ابن شاہین : 

◈ حافظ ابوحفص عمر بن شاہین نے عمران العمی کے بارے میں یحییٰ بن القطان کا قول نقل کیا : 

ولكن لم يكن من أهل الحديث ”لیکن وہ اہلحدیث میں سے نہیں تھا۔“ 

 [تاريخ اسماء الثقات لا بن شاهين : 1084] 

؛…………………………………؛

22. 
الجوزجانی : 

◈ ابواسحاق ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی نے کہا : 

ثم الشائع فى أهل الحديث….. 

”پھر اہل حدیث میں مشہور ہے۔“ 

[احوال الرجال ص 43 رقم : 10] نیز دیکھئے[ص 214] 

؛…………………………………؛

23. 
احمد بن سنان الواسطی : 

◈ امام احمد بن سنان الواسطی نے فرمایا : 

ليس فى الدنيا مبتدع إلا وهو يبغض أهل الحديث 

”دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہیں ہے جو کہ اہل حدیث (اہل الحدیث) سے بغض نہیں رکھتا۔“ 

[معرفة علوم الحديث للحاكم ص 4، رقم : 6 و سنده صحيح] 

↰ معلوم ہوا کہ جو شخص اہل حدیث سے بغض رکھتا ہے یا اہل حدیث کو برا کہتا ہے تو وہ شخص پکا بدعتی ہے۔ 

؛…………………………………؛

24. 
علی بن عبداللہ المدینی : 

◈ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کے استاد امام علی بن عبداللہ المدینی ایک روایت کی تشریح میں فرماتے ہیں : 

يعني أهل الحديث 

”یعنی وہ اہل حدیث (اصحاب الحدیث) ہیں۔“ 

[سنن الترمذي : 2229، عارضة الاحوذي 74/9] 

؛…………………………………؛

25. 
قتیبہ بن سعید : 

◈ امام قتیبہ بن سعید نے فرمایا : 

إذا رأيت الرجل يحب أهل الحديث….. فإنه على السنة 

”اگر تو کسی آدمی کو دیکھے کہ وہ اہل الحدیث سے محبت کرتا ہے تو یہ شخص سنت پر (چل رہا) ہے۔“ 

 [شرف اصحاب الحديث للخطيب : 143 و سنده صحيح] 

؛…………………………………؛

26. 
ابن قتیبہ الدینوری : 

◈ المحدث الصدوق امام ابن قتیبہ الدینوری ( متوفی 276ھ) نے ایک کتاب لکھی ہے : 

تأويل مختلف الحديث فى الرد على أعداء أهل الحديث 

”اس کتاب میں انہوں نے اہل الحدیث کے دشمنوں کا زبردست رد کیا ہے۔“ 

؛…………………………………؛

27. 
بیہقی : 

◈ احمد بن الحسین البیہقی نے مالک بن انس، اوزاعی، سفیان ثوری، سفیان بن عینیہ، حماد بن زید، حماد بن سلمہ، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہم کو 

من أهل الحديث 

 ”اہل حدیث میں سے“، لکھا ہے۔ 

[كتاب الاعتقاد و الهداية الي سبيل الرشاد للبيهقي ص 180] 

؛…………………………………؛

28. 
اسماعیلی : 
◈ حافظ ابوبکر احمد بن ابراہیم اسماعیلی نے ایک راوی کے بارے میں کہا : 

لم يكن من أهل الحديث 

”وہ اہل حدیث میں سے نہیں تھا۔“ 

 [كتاب المعجم 469/1 ت 121، محمد بن جبريل النسوي] 

؛…………………………………؛

29. 
خطیب : 

◈ خطیب بغدادی نے اہل حدیث کے فضائل پر ایک کتاب شرف أصحاب الحديث لکھی ہے جو کہ مطبوع ہے۔ 

خطیب کی طرف نصيحة أهل الحديث ”نامی کتاب بھی منسوب ہے۔“ 

نیز دیکھئے [تاریخ بغداد 224/1 ت 51 ] 

؛…………………………………؛

30. 
ابونعیم الاصبہانی : 

◈ ابونعیم الاصبہانی نے ایک راوی کے بارے میں کہا : 

لا يخفي على علماء أهل الحديث فساده 

”علمائے اہل حدیث پر اس کا فساد مخفی نہیں ہے۔“ 

[المستخرج عليٰ صحيح مسلم ج 1 ص 67 فقره : 89] 

◈ ابونعیم الاصبہانی نے کہا : 

وذهب الشافعي مذهب أهل الحديث 

”اور شافعی اہل حدیث کے مذہب پر گامزن تھے۔“ 

[حلية الاولياء 112/9]

؛…………………………………؛

31. 
ابن المنذر : 

◈ حافظ محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری نے اپنے ساتھیوں اور امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کو اهل الحديث کہا۔ 

دیکھئے [الاوسط 307/2 تحت ح : 915] 

؛…………………………………؛

32. 
الآجری : 

◈ امام ابوبکر محمد بن الحسین الآجری نے اہل حدیث کو اپنا بھائی کہا : 

نصيحة لإخواني من أهل القرآن و أهل الحديث و أهل الفقه وغيرهم من سائر المسلمين 

”میرے بھائیوں کے لئے نصیحت ہے۔ اہل قرآن، اہل حدیث اور اہل فقہ میں (جو) تمام مسلمانوں میں سے ہیں۔“ 

[الشريعة ص 3، دوسرا نسخه ص 7] 

تنبیہ : 
منکرین حدیث کو اہل قرآن یا اہل فقہ کہنا غلط ہے۔ اہل قرآن، اہل حدیث اور اہل فقہ وغیرہ القاب اور صفاتی نام ایک ہی جماعت کے نام ہیں۔ الحمد للہ 

؛…………………………………؛

33. 
ابن عبدالبر : 

◈ حافظ یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر الاندلسی نے کہا : 

وقالت طائفة من أهل الحديث 

 ”اہل حدیث کے ایک گروہ نے کہا۔“ 

 [التمهيد ج 1 ص 16] 

؛…………………………………؛

34. 
ابن تیمیہ : 

◈ حافظ ابن تیمیہ الحرانی نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا : 

الحمد لله رب العالمين، أما البخاري و أبو داود فإما مان فى الفقه من أهل الإجتهاد۔ و أما مسلم و الترمذي و النسائي و ابن ماجه و ابن خزيمة و أبو يعلي و البزار و نحوهم فهم على مذهب أهل الحديث، ليسوا مقلدين لواحد بعينه من العلماء ولا هم من الأئمة المجتهدين على الإطلاق….. 

”الحمد للہ رب العالمین، بخاری اور ابوداود تو فقہ کے امام (اور) مجتہد (مطلق) تھے۔ رہے امام مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابویعلیٰ اور البزار وغیرہم تو وہ اہل حدیث کے مذہب پر تھے، علماء میں سے کسی کی تقلید معین کرنے والے، مقلدین نہیں تھے اور نہ مجتہد مطلق تھے۔“ 

[مجموع فتاويٰ ج 20 ص 40] 

تنبیہ : 
ابن تیمیہ کا ان کبائر ائمہ حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ ”نہ مجتہد مطلق تھے“ محل نظر ہے۔ 

؛…………………………………؛

35. 
ابن رشید : 

◈ ابن رشید الفہری (متوفی 721) نے امام ایوب السختیانی وغیرہ کبار علماء کے بارے میں فرمایا : 

من أهل الحديث 

"(وہ) اہل حدیث میں سے (تھے)۔“ 

 [السنن الابين ص 119، نيز ديكهئے السنن الابين ص 124] 

؛…………………………………؛

36. 
ابن القيم : 

◈ حافظ بن القيم نے اپنے مشہور قصيدے نونيه ميں كہا : 

يا مبغضا أهل الحديث و شاتما أبشر بعقد و لا ية الشيطان 

”اے اہل حدیث سے بغض کرنے والے اور گالیاں دینے والے، تجھے شیطان سے دوستی قائم کرنے کی بشارت ہو۔“ 

 [الكافية الشافية فى الانتصار للفرقة الناجية ص 99 افصل فى ان اهل الحديث هم انصار رسول الله صلى الله عليه وسلم و خاصة] 
 
؛…………………………………؛

37. 
ابن کثیر : 

◈ حافظ اسماعیل بن کثیر الدمشقی نے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر : 71 کی تفسیر میں فرمایا : 

وقال بعض السلف : هذا أكبر شرف لأصحاب الحديث لأن إمامهم النبى صلى الله عليه وسلم 

”بعض سلف (صالحین) نے کہا : یہ (آیت) اصحاب الحدیث کی سب سے بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے امام نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔“ 

[تفسير ابن كثير 164/4] 

؛…………………………………؛

38. 
ابن المنادی : 

◈ امام ابن المنادی البغدادی نے قاسم بن زکریا یحییٰ المطرز کے بارے میں کہا : 

وكان من أهل الحديث و الصدق 

”اور وہ اہل حدیث میں سے (اور) سچائی والوں میں سے تھے۔“ 

 [تاريخ بغداد 441/12 ت 6910 و سنده حسن] 

؛…………………………………؛

39. 
شیرویہ الدیلمی : 

◈ دیلم کے مشہور مؤرخ امام شیرویہ بن شہردار الدیلمی نے عبدوس (عبدالرحمٰن) بن احمد بن عباد الثقفی الہمدانی کے بارے میں اپنی تاریخ میں کہا : 

روي عنه عامة أهل الحديث ببلدنا و كان ثقة متقنا 

”ہمارے علاقے کے عام اہل الحدیث نے ان سے روایت بیان کی ہے اور ثقہ متقن تھے۔“ 

[سير اعلام النبلاء 438/14 والا حتجاج به صحيح لأن الذهبي يروي من كتابه] 

؛…………………………………؛

40. 
محمد بن علی الصوری : 

◈ بغداد کے مشہور امام ابوعبداللہ محمد بن علی بن عبداللہ بن محمد الصوری نے کہا : 

قل لمن عاند الحديث و أضحي عائبا أهله ومن يدعيه . . . . أبعلم تقول هذا، أبن لي أم بجهل فالجهل خلق السفيه . . . . أيعاب الذين هم حفظوا الدين من الترهات و التحويه 

”حدیث سے دشمنی اور اہل حدیث کی عیب جوئی کرنے والے سے کہہ دو کیا تو علم سے یہ کہہ رہا ہے ؟ بتا دے۔ اگر جہالت سے تو جہالت بیوقوف کی عادت ہے۔ کیا ان لوگوں کی عیب جوئی کی جاتی ہے جنہوں نے دین کو باطل اور بے بنیاد باتوں سے بچایا ہے ؟“ 

[تذكرة الحفاظ للذهبي 1117/3 ت 1002 وسنده حسن، سير اعلام النبلاء 631/17، المنتظم لابن الجوزي 324/15] 

؛…………………………………؛

41. 
سیوطی : 

◈ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ آیت کریمہ ﴿يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ﴾ [بني اسرآئيل : 71] کی تشریح میں فرماتے ہیں : 

ليس لأهل الحديث منقبة أشرف من ذلك لأنه لا إمام لهم غيره صلى الله عليه وسلم 

”اہل حدیث کے لئے اس سے زیادہ فضیلت والی اور کوئی بات نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اہل حدیث کا کوئی امام نہیں ہے۔“ 

[تدريب الراوي 126/2، نوع 27] 

؛…………………………………؛

42. 
قوام السنہ : 

◈ قوام السنہ اسماعیل بن محمد بن الفضل الاصبہانی نے کہا : 

ذكر أهل الحديث و أنهم الفرقة الظاهرة على الحق إلى أن تقوم الساعة 

”اہل حدیث کا ذکر اور وہی قیامت تک حق پر غالب فرقہ ہے۔“ 

[الحجة فى بيان المحجة و شرح عقيدة اهل السنة 246/1] 

؛…………………………………؛

43. 
رامہرمزی : 

◈ قاضی حسن بن عبدالرحمٰن بن خلاد الرامہرمزی نے کہا : 

وقد شرف الله الحديث و فضل أهله 

”اللہ نے حدیث اور اہل حدیث کو فضیلت بخشی ہے۔“ 

[المحدث الفاصل بين الراوي و الواعي ص 159 رقم : 1] 

؛…………………………………؛

44. 
حفص بن غیاث : 

◈ حفص بن غیاث سے اصحاب الحدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : 

ھم خیر أھل الدنیا 

"وہ دنیا میں سب سے بہترین ہیں۔“ 

[معرفة علوم الحديث للحاكم ص 3 ح 3 و سنده صحيح] 

؛…………………………………؛

45. 
نصر بن ابراہیم المقدسی : 

◈ ابوالفتح نصر بن ابراہیم المقدسی نے کہا : 

باب : فضيلة أهل الحديث 

”اہل حدیث کی فضیلت کا باب۔" 

[الحجة عليٰ تارك المحجة ج 1 ص 325] 

؛…………………………………؛

46. 
ابن مفلح : 

◈ ابوعبداللہ محمد بن مفلح المقدسی نے کہا : 

أهل الحديث هم الطائفة الناجية القائمون على الحق

”اہل حدیث ناجی گروہ ہے جو حق پر قائم ہے۔“ 

[الآداب الشرعية 211/1] 

؛…………………………………؛

47. 
الامیر الیمانی : 

◈ محمد بن اسماعیل الامیر الیمانی نے کہا : 

عليك بأصحاب الحديث الأفاضل تجد عندهم كل الهدي و الفضائل 

”فضیلت والے اصحاب الحدیث کو لازم پکڑو، تم ان کے پاس ہر قسم کی ہدایت اور فضیلتیں پاؤ گے۔“ 

[الروض الباسم فى الذب عن سنة ابي القاسم ج 1 ص 146] 

؛…………………………………؛

48. 
ابن الصلاح : 

◈ صحیح حدیث کی تعریف کرنے کے بعد حافظ ابن الصلاح الشہرزوری لکھتے ہیں : 

فهذا هو الحديث الذى يحكم له بالصحة بلا خلاف بين أهل الحديث 

”یہ وہ حدیث ہے جسے صحیح قرار دینے پر اہل حدیث کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔“ 

[علوم الحديث عرف المقدمة ابن الصلاح مع شرح العراقي ص 20] 

؛…………………………………؛

49. 
الصابونی : 

◈ ابواسماعیل عبدالرحمٰن بن اسماعیل الصابونی نے ایک کتاب لکھی ہے : 

عقيدة السلف أصحاب الحديث 

 ”سلف اصحاب الحدیث کا عقیدہ“ 

◈ اس میں وہ کہتے ہیں : 

و يعتقد أهل الحديث و يشهدون أن الله سبحانه و تعالىٰ فوق سبع سموات على عرشه 

”اہل حدیث یہ عقیدہ رکھتے اور اس کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر عرش پر ہے۔“ 

[عقيده السلف اصحاب الحديث ص 14] 

؛…………………………………؛

50. 
عبدالقاہر البغدادی : 

◈ ابومنصور عبدالقاہر بن طاہر بن محمد البغدادی نے شام وغیرہ کی سرحدوں پر رہنے والوں کے بارے میں کہا : 

كلهم على مذهب أهل الحديث من أهل السنة 

”وہ سب اہل سنت میں سے اہل حدیث کے مذہب پر ہیں۔“ 

[اصول الدين ص 317] 

؛…………………………………؛

↰ ان پچاس حوالوں سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا مہاجرین، انصار اور اہل سنت کی طرح صفاتی نام اور لقب اہل حدیث ہے اور اس لقب کے جواز پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ کسی ایک امام نے بھی اہل حدیث نام و لقب کو غلط، ناجائز یا بدعت ہرگز نہیں کہا 

لہذا بعض خوارج اور ان سے متاثرین کا اہل حدیث نام سے نفرت کرنا، اسے بدعت اور فرقہ وارانہ نام کہہ کر مذاق اڑانا اصل میں تمام محدثین اور امت مسلمہ کے اجماع کی مخالفت کرنا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے ہیں جن سے اہل حدیث یا اصحاب الحدیث وغیرہ صفاتی ناموں کا ثبوت ملتا ہے۔ 

محدثین کرام کی ان تصریحات اور اجماع سے معلوم ہوا کہ اہل حدیث ان صحیح العقیدہ محدثین و عوام کا لقب ہے جو بغیر تقلید کے کتاب و سنت پر فہم سلف صالحین کی روشنی پر عمل کرتے ہیں اور ان کے عقائد بھی کتاب و سنت اور اجماع کے بالکل مطابق ہے۔ یاد رہے کہ اہل حدیث اور اہل سنت ایک ہی گروہ کے صفاتی نام ہیں۔ 

 بعض اہل بدعت یہ کہتے ہیں کہ اہل حدیث صرف محدثین کو کہتے ہیں چاہے وہ اہل سنت میں سے ہوں یا اہل بدعت میں سے، ان لوگوں کا یہ قول فہم سلف صالحین کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ اہل بدعت کے اس قول سے یہ لازم آتا ہے کہ گمراہ لوگوں کو بھی طائفۂ منصورہ قرار دیا جائے حالانکہ اس قول کا باطل ہونا عوام پر بھی ظاہر ہے۔ بعض راویوں کے بارے میں خود محدثین نے یہ صراحت کی ہے وہ اہل حدیث میں سے نہیں تھے۔ [ديكهئے فقره : 5، 21، 28] 
دنیا کا ہر بدعتی اہل حدیث سے نفرت کرتا ہے تو کیا ہر بدعتی اپنے آپ سے بھی نفرت کرتا ہے۔ 

حق یہ ہے کہ اہل حدیث کے اس صفاتی نام و لقب کا مصداق صرف دو گروہ ہیں : 

➊ حدیث بیان کرنے والے (محدثین)۔ 

➋ حدیث پر عمل کرنے والے (محدثین اور ان کے عوام)۔ 

◈ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 

ونحن لا نعني بأهل الحديث المقتصرين على سماعه أو كتابته أو روايته، بل نعني بهم : كل من كان أحق بحفظه و معرفته و فهمه ظاهرا و باطنا، واتباعه باطنا و ظاهرا، و كذلك أهل القرآن۔ 

”اہل حدیث کا ہم یہ مطلب نہیں لیتے کہ اس سے مراد صرف وہی لوگ ہیں جنہوں نے حدیث سنی، لکھی یا روایت کی ہے بلکہ اس سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ ہر آدمی جو اس کے حفظ، معرفت اور فہم کا ظاہری و باطنی لحاظ سے مستحق ہے اور ظاہری و باطنی لحاظ سے اس کی اتباع کرتا ہے اور یہی معاملہ اہل قرآن کا ہے۔“ 

[مجموع فتاويٰ ابن تيميه 95/4] 

 حافظ ابن تیمیہ کے اس فہم سے معلوم ہوا کہ اہل حدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام ہیں۔ آخر میں عرض ہے کہ اہل حدیث کوئی فرقہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریاتی جماعت ہے۔ ہر وہ شخص اہل حدیث ہے جو قرآن و حدیث و اجماع پر سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں عمل کرے اور اسی پر اپنا عقیدہ رکھے۔ اپنے آپ کو اہل حدیث (اہل سنت) کہلانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اب یہ شخص جنتی ہو گیا ہے۔ اب اعمال صالحہ ترک، خواہشات کی پیروی اور من مانی زندگی گزاری جائے بلکہ وہی شخص کامیاب ہے جس نے اہل حدیث (اہل سنت) نام کی لاج رکھتے ہوئے اپنے اسلاف کی طرح قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزاری۔ واضح رہے نجات کے لئے صرف نام کا لیبل کافی نہیں ہے بلکہ نجات کا دار و مدار قلوب و اذہان کی تطہیر اور ایمان و عقیدے کی درستی کے ساتھ اعمال صالحہ پر ہے۔ یہی شخص اللہ کے فضل و کرم سے ابدی نجات کا مستحق ہوگا۔ ان شاء اللہ 
(29 رجب 1427؁ھ) 

؛…………………………………؛

اس تحقیقی مضمون میں جن علماء کے حوالے پیش کئے گئے ہیں ان کے ناموں کی ترتیب درج ذیل ہیں : 


● ابن ابی عاصم (متوفی 287؁ھ) 

● ترمذی (متوفی 279؁ھ) 

● ابن تیمیہ (متوفی 728؁ھ) 

● جعفر بن محمد الفریابی (متوفی301؁ھ) 

● ابن حبان (متوفی 354؁ھ) 

● جوزجانی (متوفی259؁ھ) 

● ابن خزیمہ (متوفی 311؁ھ) 

● حاکم صاحب مستدرک (متوفی405؁ھ) 

● ابن رشید (متوفی 721؁ھ) 

● حاکم کبیر (متوفی378؁ھ) 

● ابن شاہین (متوفی 385؁ھ) 

● حفص بن غیاث (متوفی194؁ھ) 

● ابن الصلاح (متوفی 806؁ھ) 

● خطیب بغدادی (متوفی463؁ھ) 

● ابن عبدالبر (متوفی 463؁ھ) 

● رامہرمزی (متوفی360؁ھ) 

● ابن قتیبہ (متوفی 276؁ھ) 

● سیوطی (متوفی911؁ھ) 

● ابن القیم (متوفی 751؁ھ) 

● شافعی (متوفی204؁ھ) 

● ابن کثیر (متوفی 774؁ھ) 

● شیرویہ الدیلمی (متوفی509؁ھ) 

● ابن مفلح (متوفی 763؁ھ) 

● عبدالرحمٰن الصابونی (متوفی449؁ھ) 

● ابن المنادی (متوفی 336؁ھ) 

● عبدالقاہر بن طاہر (متوفی429؁ھ) 

● ابن المنذر (متوفی 318؁ھ) 

● عجلی (متوفی261؁ھ) 

● ابوبکر بن ابی داود (متوفی 316؁ھ) 

● علی بن عبداللہ المدینی (متوفی234؁ھ) 

● ابوحاتم الرازی (متوفی 277؁ھ) 

● قتیبہ بن سعید (متوفی240؁ھ) 

● ابوداود (متوفی 275؁ھ) 

● قوام السنۃ (متوفی535؁ھ) 

● ابوعبیدہ (متوفی 224؁ھ) 

● محمد بن اسماعیل الصنعانی (متوفی840؁ھ) 

● ابوعوانہ (متوفی 316؁ھ) 

● محمد بن الحسین الآجری (متوفی360؁ھ) 

● ابونعیم الاصبہانی (متوفی 430؁ھ) 

● محمد بن علی الصوری (متوفی441؁ھ) 

● احمد بن حنبل (متوفی 241؁ھ) 

● محمد بن یوسف الفریابی (متوفی212؁ھ) 

● احمد بن سنان (متوفی 259؁ھ) 

● مسلم (متوفی261؁ھ) 

● اسماعیلی (متوفی 371؁ھ) 

● نسائی (متوفی303؁ھ) 

● بخاری (متوفی 256؁ھ) 

● نصر بن ابراہیم المقدسی (متوفی490؁ھ) 

● بیہقی (متوفی 458؁ھ) 

● یحییٰ بن سعید القطان (متوفی198؁ھ) 


.