پیر، 21 دسمبر، 2020

کیا رسول اللہ سے نکاح کے وقت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی ؟ مامون رشید سلفی

.

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ
❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀ 

کیا رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم سے نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی ؟ 

✒️: مامون رشید ہارون رشید سلفی 

<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<؛
معاصرین میں سے سوائے گنے چنے چند اشخاص کے تمام لوگوں کا اس بات پر کامل یقین ہے کہ اللہ کے رسول سے نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی...یہ بات مسلم امت کے عوام وخواص کے بیچ اس قدر مشہور و معتمد علیہ ہے کہ گویا یہی متفق و مجمع علیہ قول ہو اس کے علاوہ کسی دوسرے قول کا وجود ہی نہ ہو یا یہ قول قرآن مجید اور صحیحین کی احادیث سے ثابت ہو-حالانکہ قضیہ بالکل اس کے برعکس ہے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے...
واضح رہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے مکی دور کے واقعات بالخصوص بعثت سے ماقبل کے واقعات میں صحیح اور متصل روایات نادر ہی پائی جاتی ہیں ان میں سے زیادہ تر یا تو مراسیل ہیں یا سیرت نگاروں کی منقطع ومعضل حکایات...
سیرت نبوی پر سب سے علمی و تحقیقی کتاب "السيرة النبوية الصحيحة" کے مؤلف دكتور أكرم ضياء عمری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "بہت ساری ضعیف بلکہ کمزور ترین روایتیں ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلد کے ساتھ اللہ کے رسول کی شادی کی تفصیلات کی طرف اشارہ کرتی ہیں, وہ روایات اس بات کی تحدید کرتی ہیں کہ آپ دونوں کے اپسی تعارف کا آغاز حضرت خدیجہ کی تجارت میں اللہ کے رسول کی شراکت کی وجہ سے ہوا تھا..."(السيرة النبوية الصحيحة :1/112) آپ کی باتیں صد فیصد درست ہیں حضرت خدیجہ سے اللہ کے رسول کے نکاح کے تعلق سے وارد تمام روایات اصول محدثین کی رو سے ضعیف منقطع غیر ثابت اور ناقابل حجت ہیں...لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ  سندا وروایتا کسی واقعہ کے ثبوت کا انکار کرنے اور سرے سے واقعہ کے وقوع کا انکار کرنے میں کافی فرق ہے...کسی واقعہ کے ثابت ہونے سے ہم اس سے مواعظ و عبر اور احکام ومسائل مستنبط کر سکتے ہیں جبکہ غیر ثابت واقعات سے ایسا نہیں کر سکتے... ثابت شدہ واقعات پر ہم یقین کر سکتے ہیں ان میں مذکور اشیاء پر ایمان رکھ سکتے ہیں اور انہیں لوگوں کے سامنے بیان کر سکتے ہیں جبکہ غیر ثابت واقعات کے بیان کرنے سے بھی ہمیں اجتناب کرنا چاہیے کیوں کہ "إن في الحق ما يغني عن الباطل" اگر ان واقعات میں مذکور باتیں حق ہوتیں تو وہ لزوما ہم تک صحیح طور پر ضرور پہنچتیں...!

اب اصل موضوع پر آتے ہیں:"ابن اسحاق کا بیان ہے، کہ خدیجہ بنت خویلد ایک معزز مالدار تاجر خاتون تھیں، لوگوں کو اپنا مال تجارت کے لئے دیتی تھیں اور مضاربت کے اصول پر ایک حصہ طے کر لیتی تھیں۔ پورا قبیلہ قریش ہی تجارت پیشہ تھا۔جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راست گوئی، امانت اور مکارم اخلاق کا علم ہوا تو انہوں نے ایک پیغام کے ذریعے پیشکش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکا مال لیکر تجارت کے لئے ان کے غلام میسرہ کے ساتھ ملک شام تشریف لے جائیں۔ وہ دوسرے تاجروں کو جو دیتی ہیں اس سے بہتر اجرت آپ کو دیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشکش قبول کر لی۔ انکا مال لیکر انکے غلام میسرہ کے ساتھ ملک شام تشریف لے گئے. ( ابن هشام 1/ 187-188 نقلا من الرحيق المختوم ص:51) ابن اسحاق رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:"
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ واپس تشریف لائے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مال میں ایسی امانت وبرکت دیکھی جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ ادھر انکے غلام میسرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شیریں اخلاق، بلند پایہ کردار ،موزوں انداز فکر راست گوئی اور امانت دارانہ طور طریق کے متعلق اپنے مشاہدات بیان کئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کو اپنا گم گشتہ مطلوب دستیاب ہو گیا۔ اس سے پہلے بڑے بڑے سردار اور رئیس ان سے شادی کے خواہاں تھے لیکن انہوں نے کسی کا پیغام قبول نہ کیا تھا۔اب انہوں نے اپنے دل کی بات اپنی سہیلی نفیسہ بنت منبہ سے کی اور نفیسہ نے جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفت و شنید کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہو گئے اور اپنے چچاؤں سے اس معاملے میں بات کی۔ انہوں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا سے بات کی اور شادی کا پیغام دیا۔ اس کے بعد شادی ہو گئی۔ نکاح میں بنی ہاشم اور رؤسائے مضر شریک ہوئے۔ یہ ملک شام سے واپسی کے دو ماہ بعد کی بات ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر میں بیس اونٹ دیے۔ اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی اور وہ نسب و دولت اور سوجھ بوجھ میں اپنی قوم میں سب سے زیادہ معزز اور افضل خاتون تھیں۔ یہ پہلی خاتون تھیں جن سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور ان کی وفات تک کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی۔(ابن هشام 1/189-190، فقه السيرة لمحمد الغزالي ص 59، تلقيح فهوم أهل الأثر ص 7، نقلا من الرحيق المختوم ص:51)
یہ ہے اصل قصہ جس میں شادی کے واقعات کا ایک گونہ تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے لیکن اصول حدیث کی رو سے یہ واقعات ضعیف ہیں (یہاں تفصیلات کی گنجائش نہیں ہے ) اس تفصیلی قصے کو ذکر کرکے یہ بتانا مقصود ہے کہ اس میں اللہ کے رسول سے نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال بتائی گئی ہے جس پر صفی الرحمن مبارک پوری صاحب اور دیگر سیرت نگاروں نے بھی اعتماد کیا ہے... 
نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر کتنی تھی اس تعلق سے متعدد روایات آئی ہیں:

پہلی روایت:نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر اٹھائیس (28) سال تھی.(كشف الغمّة للإربلي ج 2 / ص 139 یہ روایت بلا سند بلاغا مروی ہے اسی طرح امام حاکم نے اسے ابن اسحاق سے نقل کیا ہے"المستدرك على الصحيحين "3/182" ابن اسحاق نے اپنے سے آگے کی سند بیان نہیں کی ہے) 

دوسری روایت: نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر پچیس سال تھی.(البداية والنهاية 3/ 359 امام ابن کثیر نے اس روایت کو امام بیہقی کے حوالے سے نقل کیا ہے لیکن یہ روایت مصعب بن عبد اللہ الزبیری کے بعد کی سند نامعلوم ہونے کی وجہ سے منقطع ومعضل ہے) 

تیسری روایت: نکاح کے وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی. (طبقات ابن سعد 1/132 اس کی سند میں ابن سعد کے استاد واقدی متروک وکذاب ہیں لہذا یہ روایت سخت ضعیف ہے) 

چوتھی روایت: نکاح کے وقت آپ کی عمر پینتیس (35) سال تھی.(البداية والنهاية 2/360 امام ابن کثیر نے اس بے سند روایت کو بیہقی کے حوالے سے نقل کیا ہے لیکن سنن بیہقی میں یہ روایت نہیں ملی لہذا سند نامعلوم ہونے کی وجہ سے یہ روایت بھی ضعیف ہے.)

قارئین کرام آپ نے ملاحظہ کیا کہ نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر کے تعلق سے کئی روایتیں منقول ہیں لیکن سب کے سب یا تو بلا سند ہیں یا معضل ہیں یا متروکین وکذابین کے طریق سے مروی ہیں... لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ان میں سے جس قول کو سب زیادہ شہرت حاصل ہے اور جس پر جمہور اہل اسلام کا اعتماد ہے یعنی چالیس سال والا قول وہ من جملہ روایتوں میں سب سے زیادہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں محمد بن عمر الواقدی متروک وکذاب راوی ہے اور جس حدیث کی سند میں ایسا روای ہو محدثین کے ہاں وہ حدیث ضعیف جدا اور موضوع کہلاتی ہے...بنا بریں نہ ہمیں چالیس سال والی روایت پر اعتماد کرنا ہے اور نہ ہی کسی دوسری روایت پر کیونکہ سب غیر ثابت ہیں البتہ ان غیر ثابت روایتوں میں سب سے کم ضعیف روایت وہ ہے جس میں آپ رضی اللہ عنہا کی عمر پچیس سال بیان کی گئی ہے... 
اس کی کئی وجوہات ہیں:
اول:مصعب بن عبد الله الزبيري تک سند صحیح ہے اور مصعب ثقہ راوی ہیں اور ان کا تعلق اہل بیت سے ہے کیونکہ وہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی نسل سے ہیں لہذا انہیں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ علم ہوگا.
دوم:اس کے علاوہ بقیہ روایتوں کا ضعف اور انقطاع اس سے شدید ہے. 
سوم: یہ عام احوال الناس کے بھی موافق ہے کہ لوگ عموما اپنی ہم عمر خواتین ہی سے شادی کرتے ہیں.

چہارم: اللہ کے رسول سے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ کے بطن سے چار بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے چنانچہ اس سے بھی پچیس سال والی روایت کو تقویت ملتی ہے کیونکہ عموما عورتیں پچاس سال سے قبل ہی ائسہ ہو جاتی ہیں...اور اگر چالیس سال والی روایت کو ترجیح دی جائے تو اس سے لازم آئے گا کہ حضرت خدیجہ پچاس سال کے بعد بھی ائسہ نہیں ہوئی تھیں...اور اس کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ راجح قول کے مطابق حضرت عائشہ کی وفات پچاس سال کی عمر میں ہوئی ہے اسی کو امام بیہقی نے مصعب بن عبد اللہ الزبیری سے روایت کرتے ہوئے دلائل النبوۃ(2/70)کے اندر اور امام حاکم نے پینسٹھ سال میں وفات پانے کے تعلق سے وارد روایت کو شاذ قرار دیتے ہوئے راجح قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ میرے نزدیک راجح  یہ ہے کہ آپ ساٹھ سال کی عمر کو نہیں پہنچی تھیں.(مستدرك على الصحيحين 3/200) اور صحیح طور پر یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عائشہ کی اللہ کے رسول کے ساتھ رفاقت کی مدت پچیس سال تھی آپ ہجرت سے تین سال قبل داعی اجل کو لبیک کہہ گئی تھیں.(صحيح البخاري 3896)لہذا اگر آپ کی عمر پچاس سال ہو اور آپ کی شادی کے بعد کی زندگی پچیس سال کی ہو تو لزوما اپ کی شادی پچیس سال کی عمر میں ہی ہوئی ہوگی. 

یہ سب توجیہات علی سبیل التنازل ہیں ورنہ یہ بات پہلے ہی ثابت کی جا چکی ہے کہ عمر کی تحدید کے سلسلے میں ایک بھی روایت ثابت نہیں ہے. 

اخیر میں موضوع سے متعلق چند فوائد اور علمی نکات ملاحظہ فرمائیں:
(1) شادی کی تفصیلات سے متعلق ایک بھی روایت ثابت نہیں ہے.
(2)حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال سے اللہ کے رسول کا تجارت کرنا بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے. 

(3) اللہ کے رسول پر بادل کا سایہ کرنا اور حضرت خدیجہ کا اسے دیکھ کر متاثر ہونا بھی ثابت نہیں ہے. 

(4) میسرہ کا اللہ کے رسول کے ساتھ سفر کرنا بھی ثابت نہیں ہے. 

(5) حضرت خدیجہ اللہ کے رسول کی پہلی بیوی تھی یہ بات سندا ثابت نہیں ہے البتہ امت کا اس بات پر اجماع ہے اور اجماع دلیل کے طور پر کافی ہے. 

(6) اللہ کے رسول سے قبل حضرت خدیجہ کی دو جگہ اور شادی ہوئی تھی... سب سے پہلے عتیق بن عابد سے اس کے بعد ابو ھالۃ التمیمی سے اور اخیر میں اللہ کے رسول سے. 

(7)اللہ کے رسول سے نکاح سے قبل حضرت خدیجہ کے تین بچے تھے   (١) ہند بنت عتیق (۲) ہالہ بنت ابی ہالہ (٣) ہند بن ہالہ. 
(8) صحیح روایات سے اللہ کے رسول کا حضرت خدیجہ سے نکاح کرنا ثابت ہے. 
(9) صحیح احادیث سے اللہ کے رسول کا حضرت خدیجہ کی تعریف کرنا ان سے وفات کے بعد تک محبت کرتے رہنا اور ان کا ذکر کرتے وقت آپ کا غمزدہ ہو جانا  ثابت ہے. 

(10) نزول وحی کے وقت ان کا اللہ کے رسول کو تسلی دینا اور پر خلوص طریقے سے آپ کا ساتھ دینا ثابت ہے. 

(11)حضرت خدیجہ کا اللہ کے رسول پر عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لانا بھی ثابت ہے. 

(12)یہ بھی ثابت ہے اللہ کے رسول سے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ کے بطن سے چار بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے تھے. 

(13) یہ بھی ثابت ہے کہ آپ کی موجودگی میں اللہ کے رسول نے کوئی دوسری شادی نہیں کی تھی. 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح علم سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین. 

.

ہفتہ، 12 دسمبر، 2020

گیارہویں ہندوستانی بدعت ہے ‏علامہ ‏غلام ‏مصطفی ‏

.

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ
 ┄─═✧═✧═✧═✧═─┄

گیارہویں ہندوستانی بدعت ہے 

تحریر: 
علامہ غلام مصطفے ظہیر امن پوری 

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

اللہ تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا انعام ہے کہ اس نے ہمیں کامل شریعت عطا کی۔ اس نعمت عظمٰی پر اس کا شکر بجا لانا چاہیے۔ اس کے باوجود بہت سارے لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہدایت کو کافی نہیں سمجھتے۔ آئے دن دین اسلام میں رخنہ اندازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دین کے نام ہر نئے شکم پروری کے اسباب و ذرائع متعارف کراتے رہتے ہیں۔
سادہ لوح مسلمان ان کی فریب کاریوں میں آ جاتے ہیں، کیونکہ یہ ٹھگ میٹھا زہر کھلاتے ہیں۔ ان کی وحشیانہ نہ لوٹ مار کے بہت سے طریقے ہیں۔ جہاں یہ تیجا، جمعرات، ساتواں، دسواں، چالیسواں اور برسی کے نام پر بیوگان اور یتیموں کا بے دریغ مال ہڑپ کر جاتے ہیں، وہاں اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ کو ”ریفریشمنٹ“ (گیارہویں) کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے ”علماء“ کا کہنا ہے کہ یہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ ہے، جبکہ ان کے عوام تو اس کو کچھ اور ہی سمجھتے ہیں۔ وہ تو اسے شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ الله کے نام کی نیاز و نذر سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ اعتقاد بد ہے کہ اگر انہوں نے گیارہویں کا دودھ نہ دیا تو اس کی وجہ سے ان کی بھینس یا گائے مر جائے گی یا بیمار ہو جائے گی یا رزق ختم ہو جائے گا اور اولاد کی موت واقع ہو جائے گی یا گھر میں نقصان ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ عقیدہ شرعاً حرام و نا جائز اور صریح شرک ہے۔ 

رہا ایصال ثواب کے لیے صدقہ کی بات کرنا تو سوال یہ ہے کہ آخر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله کی اس قدر تعظیم کیوں ؟ گیارہویں صرف انہیں کے نام پر کیوں، حالانکہ یہ لوگ عقیدہ میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله کے سخت خلاف ہیں۔ شیخ رحمہ الله صحیح العقیدہ اور متبع سنت مسلمان تھے، جبکہ یہ بدعقیدہ اور بدعتوں کے دلدادہ ہیں۔

گیارہویں ہندوستانی بدعت ہے، جو شیعہ کی تقلید میں اپنائی گئی ہے، کیونکہ وہ بھی اپنے ائمہ کے لیے نیاز برائے ایصال ثواب دیتے ہیں۔ خوب یاد رہے کہ سلف صالحین اور ائمہ اہل سنت سے یہ طریقہ ایصال ثواب ہرگز ہرگز ثابت نہیں۔ اگر اس کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی اور یہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا باعث ہوتا تو وہ اس کا اہتمام کرتے۔

علامہ ابن رجب رحمہ الله (795-736ھ) نے کیا خوب لکھا ہے : 

فاما ما اتفق السلف على تركه، فلا يجوز العمل به، لأنهم ما تركوه إلا على علم أنه لا تعمل به . 

”جس کام کو چھوڑنے پر سلف کا اتفاق ہوا، اسے کرنا جائز نہیں، کیونکہ انہوں نے یہ جان کر اسے چھوڑا تھا کہ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔“ 
 [فضل علم السف على علم الخلف لابن رجب : ص 31]

جس کام کے چھوڑنے پر سلف صالحین متفق ہوں، اس کام کا کرنا جائز نہیں۔ گیارہویں سلف صالحین اور ائمہ اہل سنت سے ثابت نہیں، لہٰذا یہ بدعت سئیہ اور شنیعہ ہے۔


گیارہویں باطل ہے۔ 
****************

➊ علامہ شاطبی رحمہ الله (م 790ھ) بدعات کا ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 

لو كان دليلا عليه لم يعزب عن فهم الصحابة والتابعين، ثم يفهمه هؤلاء، فعمل الأولين كيف كان مصادم لمقتضي هذا المفهورم و معارض له، ولو كان ترك العمل فما عمل به المتأخرون من هذا القسم مخالف لإجماع الأولين، وكل من خالف الإجماع فهو مخطيء، و أمة محمد صلى الله عليه وسلم لا تجتمع على ضلالة، فما كانوا عليه من فعل أو ترك فهو السنة و الأمر المعتبر، وهو الهدي، وليس ثم إلا صواب أو خطأ، فكل من خالف السلف الأولين فهو على خطأ، و هذا كاف . . . . . 

”اگر اس پر کوئی دلیل ہوتی تو فہم صحابہ و تابعین سے غائب نہ رہتی کہ بعد میں لوگ اسے سمجھ لیتے ! سلف کا عمل اس مفہوم کے خلاف و معارض کیسے تھا ؟ اگرچہ ان کا عمل یہاں ترک عمل ہی ہے۔ اس طرح کی چیزوں میں متاخرین نے جو عمل کیا ہے، وہ سلف کے اجماع کے خلاف ہے اور ہر وہ شخص جو اجماع کی مخالفت کرتا ہے، وہ خطا کار ہے، کیونکہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی، لہٰذا سلف جس کام کو کرنے یا چھوڑنے پر متفق ہوں، وہی سنت اور معتبر امر ہے اور وہی ہدایت ہے۔ کسی کام میں دو ہی احتمال ہوتے ہیں، درستی یا غلطی، جو شخص سلف کی مخالفت کرے گا، وہ خطا پر ہو گا اور یہی اس کے خطا کار ہونے کے لیے کافی ہے۔۔۔ “
[الموافقات للشاطبي : 72/3]

نیز لکھتے ہیں : 

فلهذا كله يجب على كل ناظر فى الدليل الشرعي مراعاة ما فهم الأولون، وما كانوا عليه فى العمل به، فهو أحري بالصواب، وأقوم فى والعمل . . . . . 

” ان ساری باتوں کے پیش نظر شرعی دلیل میں غور کرنے والے ہر شخص کے لیے سلف کے فہم و عمل کا لحاظ رکھنا فرض ہے، کیونکہ وہی درستی کے زیادہ قریب اور علم وعمل میں زیادہ پختہ ہے۔ “ 
[الموافقات للشاطبي : 77/3]

➋ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ الله (744-704ھ) لکھتے ہیں : 

ولا يجوز إحداث تأويل فى آية أو سنة لم يكن على عهد السلف، ولا عرفوه و لا بينوه للأمة، فإن هذا يتصمن أنهم جهلوا الحق فى هذا، وضلوا عنه، واهتدي إليه هذا المعترض المتأخر . 

”کسی آیت یا حدیث کا ایسا مفہوم و مطلب نکالنا جائز نہیں، جو سلف کے زمانہ میں نہ تھا، نہ انہوں نے اسے پہچانا اور نہ امت کے لیے بیان کیا۔ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ وہ اس بارے میں حق سے جاہل رہے ہیں اور اس سے گمراہ رہے ہیں اور یہ اعتراض کرنے والا، بعد والا شخص اس کی طرف راہ پا گیا ہے۔“
 [الصارم المنكي فى الرد على السبكي لابن عبدالهادي : ص 318]

➌ سنی امام، ابوبکر محمد بن القاسم بن بشار، المعروف بابن الانباری رحمہ الله (328-272ھ) فرماتے ہیں : 

من قال فى القرآن قولا يوافق هواه، لم يأخذ عن أئمّة السلف، فأصاب، فقد أخطأ، لحكمه على القرآن بما لا يعرف أصله، ولا يقف على مذهب أهل الأثر والنقل فيه . 

”جس شخص نے قرآن کریم کی تفسیر میں اپنی خواہش کے موافق ایسا قول کہا، جسے اس نے ائمہ سلف سے اخذ نہیں کیا، اگر وہ درست ہے تو بھی غلط ہے، کیونکہ اس نے قرآن کریم پر ایسا حکم لگایا ہے، جس کی وہ دلیل نہیں جانتا تھا اور نہ ہی وہ اس بارے میں اہل اثر و نقل (سلف صالحین) کے مذہب پر واقف ہوا ہے۔“ 
[الفقيه والمتفقه للخطيب البغداي : 223/1، وسندهٗ صحيحٌ]

➍ حافظ ابن القیم رحمہ الله (751-691ھ) لکھتے ہیں : 

إن إحداث قول فى تفسير كتاب الله الذى كان السلف والأئمة على خلافه يستلزم أحد الأمرين، إما أن يكون خطأ فى نفسه، أو تكون أقوال السلف المخالفة له خطأ، ولا يشك عاقل أنه أولي بالغلط و الخطأ من قول السلف . 

”کتاب اللہ کی تفسیر میں کوئی ایسا قول نکالنا کہ سلف اور ائمہ دین اس کے خلاف تھے، اس کی دو صورتیں بن سکتی ہیں، یا تو وہ قول خود غلط ہو گا یا پھر اس کے خلاف سلف کے اقوال غلط ہوں گے۔ کوئی عاقل اس بات میں شک نہیں کر سکتا کہ سلف کے اقوال کی نسبت وہ قول خود غلطی اور خطا کے زیادہ لائق ہے۔“ 
 [مختصر الصواعق المرسلة لابن القيم : 128/2]

ثابت ہوا کہ اہل بدعت عقائد و اعمال میں جو سلف صالحین کی مخالفت کرتے ہیں، ان کی ضلالت و جہالت کے لیے اتنا ہی کافی ہے، لہٰذا مبتدعین اپنے شرکیہ عقائد و بدعیہ اعمال پر جو قرآن و حدیث کے دلائل سے سلف کے خلاف استدلال کرتے ہیں، اس سے ان کی ضلالت و جہالت پر مہر ثبت ہو جاتی ہے۔ 

یاد رہے کہ سلف صالحین و ائمہ اہل سنت کے خلاف عقائد و اعمال رکھنے والے اہل سنت والجماعت کہلوانے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر گیارہویں کا کوئی شرعی ثبوت یا جواز ہوتا تو سلف صالحین اور ائمہ اہل سنت کرنے میں پہل کرتے۔ اگر انہوں نے ایسا کام نہیں کیا تو یہ باطل ہے۔

علامہ شاطبی رحمہ الله ( م 790ھ) لکھتے ہیں : 

فالحذر من مخالفة الأولين، فلو كان ثم كان ثم فضل ما، لكان الأولون أحق به، والله المستعان ! 

سلف کی مخالفت سے بہت زیادہ بچنا چاہیئے۔ اگر اس کام (جسے سلف نے نہیں کیا) میں کوئی فضیلت ہوتی تو پہلے لوگ اس کے بہت زیادہ مستحق تھے۔ 
واللہ المستعان۔  
[الموافقات للشاطبي : 56/3]


گیارہویں بدعت ہے ! 
******************

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله (728-661ھ) لکھتے ہیں : 

و من تعبد لعبادة ليست واجبة و الا مستحبة، وهو تعتقدها واجبة أو مستحبة، فهو ضال مبتدع بدعة سيئة، لا بدعة حسنة، باتفاق أئمة الدين، فإن الله لا يعبد إلا بما هو واجب أو مستحب . 

”جو شخص ایسی عبادت کرے جو شریعت میں واجب یا مستحب نہیں ہے اور وہ اس کو واجب یا مستحب سمجھتا ہے، وہ گمراہ بدعتی ہے، اس کی یہ بدعت سیئہ ہے، حسنہ نہیں ہے۔ اس پر ائمہ دین کا اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت صرف اسی طریقے سے کی جائے گی، جو شریعت میں واجب یا مستحب ہے۔“  
[مجموع الفتاوي لابن تيمية : 160/1]

علامہ شاطبی رحمہ الله (م 790ھ) لکھتے ہیں : 

في كثير من الأمور يستحسنون أشياء، لم يأت فى كتاب و لا سنة و لا عمل بأمثالها السلف الصالح، فيعملون بمقتضاها و يشابرون عليها، و يحكمونها طريقا لهم مهيعا و سنة لا تخلف، بل ربما أوجبوها فى بعض الأحوال . 

”بدعتی لوگ بہت سے امور میں ان کاموں کو مستحب قرار دے دیتے ہیں، جن پر کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں، نہ ہی سلف صالحین نے اس طرح کا کوئی کام کیا ہے۔ بدعتی لوگ اس طرح کے کام کرتے ہیں، ان پر دوام کرتے ہیں اور اس بدعت کو اپنے لیے واضح راستہ اور غیرمعارض سنت سمجھتے ہیں، بلکہ بسا اوقات وہ اس کو بعض حالات میں واجب بھی قرار دیتے ہیں۔“ 
[الاعتصام : 212/1]

امام ابن ابی لعزالحنفی (731-792ھ) لکھتے ہیں : 

و صاروايبتدعون من الدلائل والمسائل ما ليس بمشروع، و يعرضون عن الأمر المشروع . 

”بدعتی لوگ ایسے دلائل و مسائل کے گھڑنے کے درپے ہیں، جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ مشروع کام سے اعراض کرتے ہیں۔ “
 [شرح العقيدة الطحاوية لابن ابي العزالحنفي : 593]


گیارہویں قرب الہٰی کا ذریعہ نہیں ! 
****************************

گیارہویں اگر قرب الہٰی کا ذریعہ ہوتی تو ائمہ اہل سنت ضرور ایسا کرتے۔ 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله ( 728-661ھ) لکھتے ہیں : 

باب العبادات والديانات والتقربات متلقاة عن الله ورسوله، فليس لأحد أن يجعل شيئا عبادة أو قربة إلا بدليل شرعي . 

”عبادات، دین کے مسائل اور قرب الہٰی کے کام اللہ و رسول سے ہی لیے جاتے ہیں۔ کسی اور کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دلیل شرعی کے بغیر کوئی عبادت یا قرب الہٰی کا کوئی طریقہ گھڑ لے۔“ 
[مجموع الفتاوي لابن تيمية : 35/31]

اگر گیارہویں کے ثبوت پر کوئی دلیل ہوتی تو سلف صالحین ضرور اس کا اہتمام کرتے، لہٰذا یہ بے ثبوت عمل ہے، جو قرب الہٰی کا ذریعہ نہیں۔ 

امام ابن قیم رحمہ الله (751-691ھ) لکھتے ہیں : 

و لا دين إلا ما شرعه الله، فالأصل فى العبادات البطلان حتي يقوم دليل على الأمر . 

”دین صرف وہی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع قرار دیا ہے۔ عبادات میں قاعدہ یہ ہے کہ جب تک کسی دینی امر پر دلیل شرعی قائم نہ ہو جائے، وہ باطل ہے۔“ 
 [اعلام الموقعين لابن القيم : 344/1]

ابن کثیر رحمہ اللہ رحمہ الله (774-770ھ) عبادات کے متعلق لکھتے ہیں : 

وباب القربات يقتصبر فيه على النصوص، ولا ينصرف فيه بأنواع الأقيسة والآرء . 

”قرب الہٰی کے کام نصوص شرعیہ پر موقوف ہیں۔ ان میں کسی قسم کے قیاس و آراء کو کوئی دخل نہیں۔“  
[ تفسير ابن كثير : 401/4]

علامہ شاطبی رحمہ الله (م 790ھ) لکھتے ہیں : 

لا تجد مبتدعا ممن ينسب إلي الملة ألا و هو يستشهد على بدعته بدليل شرعي، فينزله على ما وافق عقله و شهونه . 

”آپ اسلام کی طرف منسوب ہر بدعتی کو ایسا ہی پائیں گے کہ وہ اپنی بدعت پر دلیل شرعی سے استدلال کرتا ہے، پھر اس کو اپنی عقل و خواہش کے مطابق ڈھال لیتاہے۔“  
[ الاعتصام للشاطبي : 134/1]


گیارہویں کے بدعت ہونے پر ایک دوسری دلیل 
********************************

یاد رہے کہ عبادات کے لیے وقت یا جگہ کا تعین کرنا شریعت کا حق ہے ، بندوں کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ عبادات کے لیے جگہ یا وقت کا تقرر کرتے رہیں . سلف صالحین نے سختی سے اس کا رد کیا ہے ، لہٰذا خاص شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے لیے صدقہ کرنا اور خاص کر گیارہویں کو ، یہ اسے ناجائز اور غیرمشروع بنا دیتا ہے .

علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م 790ہ) لکھتے ہیں : 

و من ذلك تخصيص الأيام الفاضلة بأنواع من العبادات التى لم تشرع بها تخصيصا كتخصيص اليوم الفلاني بكذا و كذا من الركعات أو بصدقة كذا و كذا، أو الليلة بقيام كذا و كذا ركعة أو بختم القرآن فيها أو ما أشبه ذلك. 

”عام دنوں کو ان عبادات کے ساتھ خاص کرنا، جو ان دنوں میں مشروع نہیں ہیں، جیسا کہ کسی دن کو خاص عدد رکعات یا خاص صدقہ کے ساتھ خاص کرنا یا فلاں رات کو اتنی اتنی رکعات پڑھنا یا خاص رات میں قرآن کریم مکمل کرنا وغیرہ۔“  
[ الاعتصام للشاطبي : 12/2]

علامہ ابوشامہ (225-599ھ) لکھتے ہیں : 

و لا ينبغي تخصيص العبادات بأوقات لم يخصصها بها الشرع، بل يكون جميع أفعال البر مرسلة فى جميع الأزمان، ليس لبعضها على بعض فضل إلا ما فضله الشرع، و خصة بنوع من العبادة، فإن كان ذلك اختص بتلك الفضيلة تلك العبادة دون غيرها كصوم يوم عرفة و عاشوراء و الصلاة فى جوف الليل والعمرة فى رمضان، و من الأزمان ما جعله الشرع مفضلا فيه جميع أعمال البركعشر ذي الحجة وليلة القدر التى هي خير من ألف شهر، أى العمل فيها أفضل من العمل فى ألف شهر، ليس فيها ليلة القدر، فمثل ذلك يكون أى عمل من اعمال البرحصل فيها كان له الفضل على نظيره فى زمن آخر، فالحاصل أن المكلف ليس له منصب التخصيص، بل ذلك إلي الشارع، وهذه كانت صفة عبادة رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم . 

”عبادات کو ان اوقات کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں، جن اوقات کے ساتھ ان کو شریعت نے خاص نہیں کیا، بلکہ تمام نیکی کے کام تمام زمانوں میں جائز ہیں۔ کسی کام کو تخصیص میں کسی پر فضلیت نہیں ہے، مگر اس کو جسے شریعت نے فضلیت دی ہے اور کسی قسم کی عبادت کے ساتھ خاص کیا ہے۔ اگر کسی فضلیت کو کسی کام کے ساتھ خاص کر دیا گیا تو وہ عبادت ہے، جیسا کہ یوم عرفہ و عاشوراء کا روزہ، آخری رات کی عبادت اور رمضان میں عمرہ، دوسرے کام عبادت نہیں بن سکتے۔ اور بعض اوقات وہ ہیں، جن میں انسانوں کے تمام اعمال کو فضلیت دے دی جاتی ہے، جیسا کہ ذی الحجہ کے دس دن اور وہ لیلۃ القدر، جو ہزار سال سے بہتر ہے، یعنی اس رات میں عمل کرنا ایسے ہزار سال میں عمل کرنے سے بہتر ہے، جن میں لیلۃ القدر نہ ہو۔ اس طرح ہر وہ نیکی کا کام ہے، جس میں خاص فضلیت مقرر کر دی گئی ہو، اس کو دوسرے وقت میں اپنے نیکی کے کام پر فضلیت ہو گی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مکلّف (امتی) کے لیے تخصیص کا منصب نہیں ہے، بلکہ تخصیص کا معاملہ شارع کی طرف لوٹتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا انداز یہی تھا." 
[الباعث على انكار البدع و الحوادث لابي شامة : ص 165 ]


الحاصل :
*********
گیارہویں بدعت ہے۔ سلف صالحین سے صدقہ کی یہ ہیئت و کیفیت ثابت نہیں۔ 


.

شیخ ‏جیلانی ‏حیات ‏عقائد ‏گیارہویں ‏اور ‏منسوب ‏جھوٹ ‏شیخ ‏مبشر ‏حسین ‏لاہوری

.

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ
─━━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━━─

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ کے عقائد اور ان سے منسوب جھوٹ 

شیخ مبشر حسین لاہوری 

<<<<<<<<<<<<<<<>>>>>>>>>>>>>>>

شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے نام سے کون واقف نہیں۔ علمی مرتبہ ،تقویٰ وللہیت اور تزکیۂ نفس کے حوالہ سے شیخ کی بے مثال خدمات چہار دانگ عالم میں عقیدت واحترام کے ساتھ تسلیم کی جاتی ہیں۔مگر شیخ کے بعض عقیدت مندوں نے فرطِ عقیدت میں شیخ کی خدمات وتعلیمات کوپس پشت ڈال کر ایک ایسا متوازی دین وضع کر رکھا ہے جو نہ صرف قرآن وسنت کے صریح منافی ہے بلکہ خود شیخ کی مبنی بر حق تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ اس پرطرہ یہ کہ اگر ان عقیدت مندوں کو ان کی غلو کاریاں سے آگاہ کیاجائے تو یہ نہ صرف یہ کہ اصلاح کرنے والوں پر برہم ہوتے ہیں بلکہ انہیں اولیاء ومشائخ کا گستاخ قرار دے کر مطعون کرنے لگتے ہیں۔ بہر حال ایک دینی واصلاحی فریضہ سمجھتے ہوئے راقم یہ مضمون لکھنے کی جسارت کر رہا ہے۔ اگر اس کے ذریعے ایک فرد کی بھی اصلاح ہو جائے تو اُمید ہے کہ وہ میری نجات کے لیے کافی ہو گا۔ ان شاء اللہ

مضمون ہذا کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ شیخ جیلانی ؒ کے سوانح حیات پرمشتمل ہے۔ دوسرے حصہ میں شیخ کے عقائد ونظریات اور دینی تعلیمات کے بارے میں بحث کی گئی ہے جب کہ تیسرے حصہ میں ان غلط عقائد کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں شیخ کے بعض عقیدت مندوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر عوام میں پھیلا رکھاہے۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~؛

پہلا حصہ 
1. شیخ کے سوانح حیات 


ابتدائی حالاتِ زندگی
•••••••••••••••••••••••
شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکا پورا نام عبدالقادر بن ابی صالح عبداللہ بن جنکی دوست الجیلی (الجیلانی) ہے جبکہ آپ کی کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین اور شیخ الاسلام ہے۔(دیکھئے: سیر اعلام النبلاء:۲۰؍۴۳۹)، (البدایہ والنھایہ:۱۲؍۲۵۲)، (فوات الوفیات:۲؍۳۷۳)، (شذرات الذہب:۴؍۱۹۸)، علاوہ ازیںامام سمعانی نے آپ کا لقب 'امامِ حنابلہ' ذکر کیا ہے۔ (الذیل علی طبقات الحنابلہ لابن رجب:۱؍۲۹۱)

صاحب ِشذرات نے آپ کا سلسلہ نسب حضرت حسنؓ بن علیؓ تک پہنچایا ہے۔ آپ ۴۷۱ھ (اور بقولِ بعض ۴۷۰ھ)میں جیلان میں پیدا ہوئے۔ (سیراعلام النبلاء، ایضاً) اور ''جیلان یا گیلان(کیلان) کو ویلم بھی کہا جاتا ہے، یہ ایران کے شمالی مغربی حصے کا ایک صوبہ ہے، اس کے شمال میں روسی سرزمین 'تالیس' واقع ہے، جنوب میں برز کا پہاڑی سلسلہ ہے جو اس کو آذربائیجان اور عراقِ عجم سے علیحدہ کرتا ہے۔ جنوب میں مازندان کا مشرقی حصہ ہے اور شمال میں بحرقزوین کا مغربی حصہ، وہ ایران کے بہت خوبصورت علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔'' (دائرۃ المعارف:۱۱؍۶۲۱بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت:۱؍۱۹۷)

علاقائی نسبت کی وجہ سے آپ کو جیلانی، گیلانی یاکیلانی کہا جاتاہے۔


تعلیم و تربیت
••••••••••••••••
شیخ صاحب کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا تذکرہ کتب ِتواریخ میں نہیں ملتا، البتہ یہ بات مختلف مؤرخین نے بیان کی ہے کہ

''آپ اٹھارہ برس کی عمر میںتحصیل علم کے لئے بغداد روانہ ہوئے۔'' (اردو دائرۃ المعارف:۱۲؍۹۲۹)

امام ذہبی کا بھی یہی خیال ہے کہ آپ نوجوانی کی عمر میں بغداد آئے تھے۔ (سیر ایضاً)

علاوہ ازیں اپنے تحصیل علم کا واقعہ خود شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ

''میں نے اپنی والدہ سے کہا: مجھے خدا کے کام میں لگا دیجئے اور اجازت مرحمت کیجئے کہ بغداد جاکر علم میں مشغول ہوجاؤں اور صالحین کی زیارت کروں۔والدہ رونے لگیں، تاہم مجھے سفر کی اجازت دے دی اور مجھ سے عہد لیا کہ تمام احوال میں صدق پرقائم رہوں۔ والدہ مجھے الوداع کہنے کے لئے بیرونِ خانہ تک آئیں اور فرمانے لگیں:

''تمہاری جدائی، خدا کے راستے میں قبول کرتی ہوں۔ اب قیامت تک تمہیں نہ دیکھ سکوں گی۔''

(نفحات الانس ص:۵۸۷، از نورالدین جامی بحوالہ دائرۃ المعارف ،ایضاً)


شیوخ و تلامذہ
••••••••••••••••
حافظ ذہبیؒ نے آپ کے شیوخ میں سے درج ذیل شیوخ کا بطورِ خاص تذکرہ کیا ہے:

''قاضی ابوسعد مخرمی، ابوغالب (محمد بن حسن) باقلانی، احمد بن مظفر بن سوس، ابوقاسم بن بیان، جعفر بن احمد سراج، ابوسعد بن خشیش، ابوطالب یوسفی وغیرہ'' (سِیَر:۲۰؍ ۰ ۴۴)

جبکہ دیگر اہل علم نے ابوزکریا یحییٰ بن علی بن خطیب تبریزی، ابوالوفا علی بن عقیل بغدادی، شیخ حماد الدباس کو بھی آپ کے اساتذہ کی فہرست میں شمار کیا ہے۔ ( دائرۃ المعارف، اُردو:۱۱؍۶۳۰)

علاوہ ازیں آپ کے درج ذیل معروف تلامذہ کو حافظ ذہبیؒ وغیرہ نے ذکر کیا ہے :

''ابو سعد سمعانی، عمر بن علی قرشی، شیخ موفق الدین ابن قدامہ، عبدالرزاق بن عبدالقادر، موسیٰ بن عبدالقادر (یہ دونوں شیخ کے صاحبزادگان سے ہیں)، علی بن ادریس، احمد بن مطیع ابوہریرہ، محمد بن لیث وسطانی، اکمل بن مسعود ہاشمی، ابوطالب عبداللطیف بن محمد بن قبیطی وغیرہ''( ایضاً)


شیخ کی اولاد
••••••••••••••••
امام ذہبیؒ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے بیٹے عبدالرزاق کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: «ولد لأبي تسعة وأربعون ولدا سبعة وعشرون ذکرا والباقي أناث» (سیر:۲۰؍۴۴۷ نیز دیکھئے:فوات الوفیات:۲؍۳۷۴)

''میرے والد کی کل اولاد ۴۹ تھی جن میں ۲۷ بیٹے اور باقی سب بیٹیاں تھیں۔''


شیخ کا حلقہ درس
•••••••••••••••••••••
شیخ نے تعلیم سے فراغت کے بعد دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کا نصب ُالعین بنا لیا جس اخلاص وللہیت کے ساتھ آپ نے یہ سلسلہ شروع کیا، اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اللہ نے آپ کے کام میں بے پناہ برکت ڈالی اور آپ کا حلقہ درس آپ کے دور کا سب سے بڑا تعلیمی و تربیتی حلقہ بن گیا۔حتیٰ کہ وقت کے حکمران، امراء و وزرا اور بڑے بڑے اہل علم بھی آپ کے حلقہ ٔ وعظ و نصیحت میں شرکت کو سعادت سمجھتے۔ جبکہ وعظ و نصیحت کا یہ سلسلہ جس میں خلق کثیر شیخ کے ہاتھوں توبہ کرتی، شیخ کی وفات تک جاری رہا۔ (سیر:۲۰؍۴۴۱)

حافظ ابن کثیر شیخ کی ان مصروفیات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ

''آپ نے بغداد آنے کے بعد ابوسعید مخرمی حنبلی ؒ سے حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ ابوسعید مخرمی کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے سپرد کردیا۔ اس مدرسہ میں شیخ لوگوں کے ساتھ وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کی مجالس منعقدکرتے اور لوگ آپ سے بڑے مستفید ہوتے۔'' (البدایہ والنھایہ:۱۲؍۲۵۲)


شیخ کی وفات 
•••••••••••••••••
امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ''شیخ عبدالقادر ۹۰ سال زندہ رہے اور ۱۰؍ ربیع الآخر ۵۶۱ھ کو آپ فوت ہوئے۔'' (سیر:۲۰؍۴۵۰)


تالیفات و تصنیفات
•••••••••••••••••••••
شیخ جیلانی ؒ بنیادی طور پر ایک مؤثر واعظ و مبلغ تھے تاہم مؤرّخین نے آپ کی چند تصنیفات کا تذکرہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صاحب ِقلم بھی تھے۔ مگر اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہیںہونی چاہئے کہ مؤرخین نے آپ کی جن تصنیفات کا احاطہ کیا ہے، وہ تمام فی الواقع آپ ہی کی تصنیفات تھیں بلکہ آپ کی ذاتی تصنیفات صرف تین ہیں جبکہ باقی کتابیں آپ کے بعض شاگردوں اور عقیدت مندوں نے تالیف کرکے آپ کی طرف منسوب کررکھی ہیں۔ 


اب ہم ان تمام کتابوں کا بالاختصار جائزہ لیتے ہیں :

1. غنیۃ الطالبین: 
اس کتاب کا معروف نام تو یہی ہے مگر اس کا اصل اوربذاتِ خود شیخ کا تجویز کردہ نام یہ ہے: الغنیۃ لطالبي طریق الحق یہ کتاب نہ صرف یہ کہ شیخ کی سب سے معروف کتاب ہے بلکہ شیخ کے افکار و نظریات پرمشتمل ان کی مرکزی تالیف بھی یہی ہے۔ دورِ حاضر میں بعض لو گوں نے اسے شیخ کی کتاب تسلیم کرنے سے انکار یا تردّد کا اظہار بھی کیاہے لیکن اس سے مجالِ انکار نہیں کہ یہ شیخ ہی کی تصنیف ہے جیساکہ حاجی خلیفہ اپنی کتاب 'کشف الظّنون' میں رقم طراز ہیں کہ''الغنیة لطالبي طریق الحق للشیخ عبد القادر الکیلاني الحسني المتوفی سنۃ۵۶۱ ھ إحدی وستین وخمس مائة'' (ص:۲؍۱۲۱۱)

''غنیۃ الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جو ۵۶۱ہجری میں فوت ہوئے، انہی کی کتاب ہے۔''

حافظ ابن کثیرؒ نے بھی اپنی تاریخ (البدایہ:۱۲؍۲۵۲) میں اور شیخ ابن تیمیہؒ نے اپنے فتاویٰ (ج۵؍ ص۱۵) میں اسے شیخ کی تصنیف تسلیم کیا ہے۔

2. فتوح الغیب: 
یہ کتاب شیخ کے ۷۸ مختلف مواعظ مثلاً توکل، خوف، اُمید، رضا، احوالِ نفس وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہ بھی شیخ کی کتاب ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ

''شیخ عبدالقادرؒ نے غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب لکھی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں بڑی بڑی اچھی باتیں ہیں، تاہم شیخ نے ان کتابوں میں بہت سی ضعیف اور موضوع روایات بھی درج کردی ہیں۔'' (البدایہ ایضاً اور دیکھئے کشف الظنون :۲؍۲۴۰)

3. الفتح الربانی والفیض الرحماني: 
یہ کتاب شیخ کے ۶۲ مختلف مواعظ پر مشتمل ہے، یہ بھی شیخ کی مستقل تصنیف ہے۔ (دیکھئے: الأعلام از زرکلی:۴؍ ۴۷)

4. الفیوضات الربانیۃ فی المآثر والأوراد القادریۃ: 
اس میں مختلف اوراد و وظائف جمع کئے گئے ہیں۔ اگرچہ بعض مؤرخین نے اسے شیخ کی طرف منسوب کیا ہے مثلاً دیکھئے الاعلام(ایضاً) مگر فی الحقیقت یہ آپ کی تصنیف نہیںبلکہ اسے اسمٰعیل بن سید محمد القادری نامی ایک عقیدت مند نے جمع کیا ہے جیسا کہ اس کے مطبوعہ نسخہ سے اس کی تائید ہوتی ہے اور ویسے بھی اس میں ایسے شرکیہ وظائف واَرواد اور بدعات وخرافات پر مبنی اذکارہیں کہ جن کا صدور شیخ سے ممکن ہی نہیں۔ واللہ أعلم

5. الأوراد القادریۃ: 
یہ کتاب بھی بعض قصائد و وظائف پر مبنی ہے۔ اسے محمد سالم بواب نے تیار کرکے شیخ کی طرف منسوب کردیا ہے حالانکہ اس میں موجود شرکیہ قصائد ہی اسے شیخ کی تصنیف قراردینے سے مانع ہیں۔

اس کے علاوہ بھی مندرجہ ذیل کتابوں کو آپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے :

(۶) بشائر الخیرات 
 (۷) تحفۃ المتقین وسبیل العارفین
(۸) الرسالۃ القادریۃ 
 (۹) حزب الرجا والا نتہاء
(۱۰) الرسالۃ الغوثیۃ 
(۱۱) الکبریت الأحمرفی الصلاۃ علی النبیؐ
(۱۲) مراتب الوجود 
(۱۳) یواقیت الحکم
(۱۴) معراج لطیف المعاني
(۱۵) سرالأسرار ومظھر الأنوارفیما یحتاج إلیه الأبرار
(۱۶) جلاء الخاطر في الباطن والظاهر
(۱۷) آداب السلوك والتوصل إلی منازل الملوك

شیخ کی مندرجہ تصنیفات و تالیفات کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : معجم المؤلفین: ۵؍۳۰۷، دائرۃ المعارف اردو:۱۱؍۹۳۲،ہدیۃ العارفین:۱؍۵۹۶، کشف الظنون بترتیب اسماء الکتب وغیرہ

‏~~~~~~~~~~~~~~~~~~؛

دوسرا حصہ 
2. شیخ کے عقائد و نظریات اور تعلیمات
••••••••••••••••••••••••••••••••
شیخ کی ذاتی تصنیفات کے حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کا عقیدہ وہی تھا جو اہل السنۃ کا متفقہ عقیدہ ہے بلکہ آپ خود اپنے عقیدہ کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ''اعتقادنا اعتقاد السلف الصالح والصحابة'' (سیراعلام النبلائ:۲۰؍۴۴۲) ''ہمارا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کا ہے۔''بلکہ شیخ دوسروں کو بھی سلف صالحین کا عقیدہ ومذہب اختیارکرنے کی اس طرح تلقین کرتے ہیں کہ

''علیکم بالاتباع من غیر ابتداع، علیکم بمذھب السلف الصالح امشوا في الجادة المستقیمة'' '' تمہیں چاہیے کہ (کتاب وسنت کی) اتباع اختیار کرو اور بدعات کا ارتکاب نہ کرو اور تمہیں چاہیے کہ سلف صالحین کے مذہب کو اختیار کرو اور یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر تمہیں گامزن رہنا چاہیے۔'' (الفتح الربانی: المجلس العاشر ص۳۵)

نیز فرماتے ہیں کہ ''فعلی المؤمن اتباع السنة والجماعة فالسنة ما سنه رسول اﷲﷺ والجماعة ما اتفق علیه أصحاب رسول اﷲ'' ''مومن کوچاہیے کہ سنت اور سنت پر چلنے والی جماعت کی پیروی کرے۔ سنت وہ ہے جسے رسول اللہؐ نے سنت قرار دیا اور جماعت وہ ہے جس پر اللہ کے رسول کے صحابہ کا اتفاق رہا۔'' (الغنیۃ: ۱؍۱۶۵)

شیخ جیلانی ؒ کے عقائد و نظریات کی مزید معرفت کے لئے ہم ان کی مختلف کتابوں سے ان کے عقائد و نظریات کا سرسری جائزہ پیش کرتے ہیں :


ایمان کے بارے میں
•••••••••••••••••••••
شیخ جیلانی ؒ کے ہاں ایمان کی وہی تعریف ملتی ہے جو اہل السنۃ کے ہاں معروف ہے جیسا کہ شیخ فرماتے ہیں:

''ونعتقد أن الإیمان قول باللسان ومعرفة بالجنان وعمل بالأرکان یزید بالطاعة وینقص بالعصیان ویقوي بالعلم ویضعف بالجھل وبالتوفیق یقع''(الغنیۃ:۱؍ ۱۳۵)

''ہمارا عقیدہ ہے کہ ایمان، زبانی اقرار، قلبی تصدیق اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہونے کے مجموعہ کا نام ہے۔ ایمان اطاعت سے بڑھتا، نافرمانی سے کم ہوتا، علم سے مضبوط اور جہالت سے کمزور ہوتا رہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے یہ حاصل ہوتا ہے۔''

غنیۃکے پہلے باب میں بھی شیخ اسی سے ملتی جلتی تعریف بیان کرتے ہیں کہ

''الإیمان قول وعمل لأن القول دعوی والعمل ھو البینة والقول صورة والعمل روحھا'' (ص۱۴، ایضاً)

''ایمان قول و عمل کا نام ہے کیونکہ قول (زبانی) دعویٰ ہے اور عمل اس دعویٰ کی دلیل ہے۔ قول صورت ہے اور عمل اس کی روح ہے۔''


توحید کے بارے میں
••••••••••••••••••••••
توحید ِربوبیت واُلوہیت کے بارے میں شیخ رقم طراز ہیں کہ

''النفس بأجمعھا تابعة لربھا موافقة له إذ ھو خالقھا ومنشؤھا وھي مفتقرة له بالعبودیة'' (فتح الغیب: ص۲۱)

''انسانی نفس (فطرت) مکمل طور پر اپنے ربّ کا مطیع ہے کیونکہ ربّ تعالیٰ ہی اس کے خالق و مالک ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کی بندگی کرنے پر محتاج ہے۔''

نیز فرماتے ہیں کہ

''الذي یجب علی من یرید الدخول في دیننا أو لا أن یتلفظ بالشهادتین لا إله إلا اللہ محمد رسول اللہ ویتبرأ من کل دین غیر دین الإسلام ویعتقد بقلبه وحدانیة اﷲ تعالیٰ'' (الغنیۃ:۱؍۱۳)

''جو شخص اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے، اس پر واجب ہے کہ سب سے پہلے کلمہ شہادت کا اپنی زبان سے اقرار کرے اور دین اسلام کے علاوہ دیگر تمام ادیان سے اعلانِ برأت کرے اور اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت تسلیم کرے۔''


اسماء و صفات کے بارے میں
••••••••••••••••••••••••••••••••••
اسماء و صفات کے بارے میں شیخ اپنا موقف اس طرح بیان کرتے ہیں:

''ولا نخرج عن الکتاب والسنة نقرأ الآیة والخبر ونؤمن بما فیھما ونکل الکیفیة إلی علم اﷲ عزوجل'' (ایضاً:۱؍۱۲۵)

''(اسماء وصفات کے سلسلہ میں) ہم کتاب و سنت سے باہر نہیں جاتے۔ ہم آیت پڑھتے ہیں یا حدیث اور ان دونوں پر ایمان لاتے ہیں جبکہ ان کی کنہ و حقیقت کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔''

اسماء و صفات کے حوالہ سے اہل السنۃ کا یہی موقف ہے جسے شیخ نے اپنی تصنیفات میں جابجا اختیار کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ گمراہ کن عقائد و نظریات کی تردید بھی کی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: (ایضاً :۱؍۱۲۵ تا ۱۴۰)


قرآن مجیدکے بارے میں
••••••••••••••••••••••••••
شیخ فرماتے ہیں کہ: 
''ونعتقد أن القرآن کلام اللہ وکتابه وخطابه ووحیه الذي نزل به جبریل علی رسول اﷲ...'' (الغنیۃ:۱؍۱۲۷)

''ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ قرآنِ مجید اللہ کاکلام، مقدس کتاب، خطاب اور اس کی وہ وحی ہے جسے جبریل ؑ کے ذریعے محمد رسول اللہﷺپر نازل کیا گیاہے۔''

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
شیخ فرماتے ہیں کہ: 
''ویعتقد أھل الاسلام قاطبة أن محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب بن هاشم رسو ل اﷲ وسید المرسلین وخاتم النبیین علیهم السلام'' (الغنیة: ایضاً)

''تمام اہل اسلام کا ا س بات پر متفقہ اعتقاد ہے کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ تمام رسولوں کے سردار اور خاتم النّبیین یعنی آخری رسول ہیں۔''


آخرت کے بارے میں
•••••••••••••••••••••
شیخ آخرت کے بارے میں لکھتے ہیں

''ثم إن الإیمان بالبعث من القبور والنشر عنھا واجب کما قال اﷲ...'' ''روزِ آخرت قبروں سے جی اُٹھنے اور حشرونشر پر ایمان لانا بھی واجب ہے۔'' (الغنیۃ:۱؍۱۴۶)

علاوہ ازیں عذابِ قبر، پل صراط، حوضِ کوثر، جنت و جہنم، میزان و شفاعت ِکبریٰ وغیرہ کے حوالہ سے بھی شیخ نے غنیۃ میں وہی عقائد رقم کئے ہیں جو اہل السنۃ کے ہاں معروف ہیں۔


ردّ ِشرک و بدعت کے حوالہ سے شیخ کی تعلیمات
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
شیخ جیلانی ؒ توحید کے زبردست حامی اور شرک و بدعت کے قاطع تھے جیسا کہ ان کے مندرجہ اقتباسات سے واضح ہے :

1. ''أن یمد یدیه ویحمد اﷲ ویصلي علی النبي ﷺ ثم یسأل اﷲ حاجته''

''انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ کے حضور دست ِسوال دراز کرے، اللہ کی حمد و ثنا کرے، محمدؐ پر درود و سلام بھیجے پھر اللہ سے اپنی حاجت کا سوال کرے۔'' (الغنیۃ:۱؍۹۲)

2.''ویکرہ أن یقسم بأبیه أو بغیر اﷲ في الجملة فإن حلف حلف باﷲ وإلا لیصمت'' (الغنیۃ: ایضاً) ''آباء و اجداد یا غیر اللہ کی قسم کھانا مکروہ (بمعنی حرام) ہے لہٰذا قسم کھانی ہو تو صرف اللہ کی قسم کھائی جائے ورنہ خاموشی اختیار کی جائے۔''

3. '' وإذا زار قبرا لا یضع یدًا علیه ولایُقَبِّله فإنه عادة الیھود ولا یقعد علیه ولا یتکأ إلیه ... ثم یسأل اللہ حاجته'' (الغنیۃ:۱؍۹۱)

شیخ آدابِ قبور کی مسنون دعا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ

''جب قبر کی زیارت کرنے جاؤ تو قبر پر ہاتھ نہ رکھو اور نہ ہی قبر کو چومو۔ کیونکہ یہ یہودکی علامت ہے اور نہ ہی قبر پر بیٹھو اور نہ اس کے ساتھ ٹیک لگاؤ۔پھر اللہ سے اپنی حاجت طلب کرو''

4. ''وتکرہ الطِّیَرَة ولا بأس بالتفاؤل'' (ایضاً) ''بدشگونی حرام ہے البتہ فال (نیک اور اچھی بات) میں کوئی حرج نہیں۔'' بلکہ بدشگونی کے حوالہ سے شیخ حدیث نبوی سے استدلال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ

''جس شخص کو بدشگونی نے اس کے کام سے روک دیا، اس نے شرک کیا۔'' (الغنیۃ:۱؍۹۶)

5. ° ''اتبعوا ولا تبتدعوا، وافقوا ولا تخالفوا، أطیعوا ولا تعصوا، اخلصوا ولا تشرکوا وحدوا الحق وعن بابه لا تبرحوا، سلوہ ولا تسئلوا غیرہ استعینوا به ولا تستعینوا بغیرہ توکلوا علیه ولا تتوکلوا علی غیرہ''(الفتح الربانی:ص۱۵۱)

''سنت کی پیروی کرو اور بدعات جاری نہ کرو۔ (دین کی) موافقت کرو اور خلاف ورزی نہ کرو۔ فرمانبرداری کرو اور نافرمانی نہ کرو۔ اخلاص پیدا کرو اور شرک نہ کرو۔حق تعالیٰ کی توحید کا پرچار کرو اور اس کے دروازے سے منہ نہ موڑو، اسی خدا سے سوال کرو ، کسی اور سے سوال نہ کرو۔ اسی سے مدد مانگو،کسی اور سے مدد نہ مانگو۔ اسی پر توکل واعتماد کرو اس کے علاوہ کسی اور پر توکل نہ کرو۔''

6. شیخ رقمطراز ہیں کہ جب تم میں سے کوئی شخص خود یا اس کا بھائی (عزیز) بیمار ہو تو وہ اس طرح دعا کرے: ''اے ہمارے ربّ! جو آسمان میں ہے، تیرا نام مقدس ہے، ارض وسما پرتیرا ہی حکم ہے۔ جس طرح ارض و سما میںتیری ہی رحمت کے دریا بہتے ہیں، اے پاکیزہ لوگوں کے ربّ! ہمارے گناہ معاف فرما دے، اپنی رحمت سے ہم پر مہربانی فرما، اس مصیبت و بیماری میں اپنی طرف سے شفا عطا فرما۔'' (الغنیۃ :۱؍۹۶)

7. ''ساری مخلوق عاجز ہے، نہ کوئی تجھ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، جو کچھ تیرے لئے مفید ہے یا مضر، اس کے متعلق اللہ کے علم میں (تقدیر کا) قلم چل چکا ہے، اس کے خلاف نہیںہوسکتا...'' (فیوضِ یزدانی ترجمہ الفتح الربانی: مجلس ۱۳، ص۸۹) 


قبولیت ِعبادات کے بارے میں شیخ کا موقف
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
شیخ فرماتے ہیں :''إذا عملت ھذہ الأعمالَ...وإصابة السنة''(الفتح الربانی: ص۱۰)

''تم سے تمہارے اعمال اس وقت تک قبول نہیں کئے جاسکتے ہیں جب تک کہ تم اِخلاص پیدا نہ کرلو۔ کوئی قول، عمل کے بغیر مقبول نہیں اور کوئی عمل اخلاص اور سنت کی مطابقت کے بغیر مقبول نہیں۔''


خلاصۂ بحث
••••••••••••••
مندرجہ اقتباسات کے سرسری مطالعہ سے کم از کم یہ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ شیخ جیلانی سلفی ُالعقیدہ تھے۔ اس کی مزید تائید ا س بات سے بھی ہوتی ہے کہ شیخ نے اپنی کتاب غنیۃ الطّالبین میں تمام گمراہ کن عقائد کی بھرپور تردید کی ہے۔ ۔ ۔ لہٰذا اب یہ فیصلہ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ شیخ صحیح العقیدہ مسلمان تھے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ ابن تیمیہ نے شیخ جیلانی اور ان کے بعض اقوال و فرمودات کو اپنے فتاویٰ میں بطورِ تائید و استشہاد جابجا نقل کیا ہے مثلاً دیکھئے: فتاویٰ ابن تیمیہؒ: (ج۵؍ ص۸۵،ج۱۰؍ ص۴۵۵، ۵۲۴،۵۴۸، ج۱۱؍ ص۶۰۴)

اگر شیخ جیلانی کے عقائد و نظریات میں کوئی بگاڑ ہوتا تو ابن تیمیہ اس کی ضرور نشاندہی اورتردید فرماتے مگر اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے شیخ جیلانی ؒ کا نہ صرف ذکر ِخیر فرمایا ہے بلکہ انہیں 'اکابر الشیوخ'، 'الشیخ الامام' اور 'أئمتنا' میں شمار فرمایا ہے۔ (دیکھئے مجموع الفتاویٰ: ج۱۱؍ ص۶۰۴،ج۵؍ ص۸۵)

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ شیخ جیلانیؒ کی کتابوں کے تتبع سے ان کے بعض تفردات بھی ملتے ہیں جن پر آئندہ سطور میں 'شیخ کے بعض تفردات' کے ضمن میں تبصرہ کیا جائے گا۔


فقہی مسلک
••••••••••••••
آپ کے بارے میں اہل علم نے متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی ہے کہ آپ فقہی مسائل میں حنبلی المسلک تھے۔ جیسا کہ حافظ ذہبیؒ نے سیر أعلام النبلاء(۲۰؍۴۳۹) اور عبدالحی بن عماد حنبلی نے شذرات الذھب(۴؍۱۹۹) اور محمد بن شاکر کتبی نے فوات الوفیات (۲؍۲۹۵) میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں خود شیخ کے درج ذیل اقتباسات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ فقہی مسائل میں امام احمد بن حنبل کے پیرو تھے :

1. ''وینبغي للإمام أن لا یدخل طاق القبلة فیمنع من ورآۂ رؤیته بل یخرج منه قلیلا وعن إمامنا أحمد رحمه اﷲ روایة أخری: أنه یستحب قیامه فیه'' (الغنیۃ :ج۲،ص۲۰۰)

''امام کے لیے جائز نہیں کہ وہ بالکل محراب کے اندراس طرح گھس کر کھڑا ہو کہ مقتدیوں کی نظر ہی سے اوجھل ہو جائے بلکہ اسے چاہیے کہ محراب سے قدرے باہر ہو کر کھڑا ہو اور ہمارے امام احمد بن حنبل سے اس مسئلہ میں ایک دوسری روایت یہ بھی ہے کہ امام کا محراب میں کھڑا ہونا مستحب ہے۔''

2. ''وروی إمامنا أبوعبد اﷲ أحمد رحمه اﷲ في رسالة له بإسنادہ عن أبي موسیٰ الأشعري...'' (ایضاً: ص۲۰۳)

'' ہمارے امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل ؒ نے اپنے ایک رسالہ میں اپنی اسناد کے ساتھ حضرت ابو موسی اشعری ؓ سے روایت کیا ہے...''

3. ''قال الإمام أبوعبد اﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیباني رحمه اﷲ وأَمَاتَنَا علی مذھبه أصلا وفرعا وحَشَرْنا في زمرته...'' (ایضاً)

''امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل الشیبانی ؒ نے فرمایا ... اللہ تعالیٰ ہمیں عقائد وفروعی مسائل میں انہی کے مذہب پر مو ت دے اور روزِ محشر انہی کے گروہ میں ہمیں اُٹھائے...''

امام شعرانی نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ شیخ، امام احمدؒ اور امام شافعیؒ دونوں ہی سے متاثر تھے اور ان دونوں اماموں کے مسلک پر فتویٰ دیتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ:۱۰۹) مگر مذکورہ اقتباسات سے آپ کا حنبلی المسلک ہونا ہی ثابت ہوتا ہے۔ نیز یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ شیخ بھی بعض متعصبین کی طرح اپنے امام کے اندھے مقلد تھے بلکہ آپ کی تقلید کا دائرہ صرف وہاں تک تھا کہ جہاں تک قولِ امام شرعی نصوص سے متعارض نہ ہوتا جب کہ ایسے تعارض کی صورت میں آپ حدیث ِنبوی ہی کو ترجیح و فوقیت دینے کے قائل تھے۔ جیسا کہ موصوف غنیۃ الطالبین میں رقمطراز ہیں کہ

''ولا ینظر إلی أحوال الصالحین (وأفعالھم) بل إلی ما روي عن الرسولﷺ والاعتماد علیه حتی یدخل العبد في حالة ینفرد بھا عن غیرہ'' (ج۲؍ص۱۴۹)

'' صالحین (علماء ومشائخ) کے افعال واعمال (اور اقوال) کو پیش نظر نہ رکھا جائے بلکہ اس چیز کو پیش نظر رکھا جائے جو آنحضرت ؐ سے مروی ہے اور اسی مروی(حدیث) پر اعتماد کیا جائے خواہ اس طرح کرنے سے کوئی شخص دوسرے لوگوں سے ممتاز ومنفرد ہی کیوں نہ ہو جائے۔ ''

(پھر بھی کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اندریں صورت اس کی انفرادیت حدیث مصطفی کی وجہ سے ہے نا کہ خواہش پرستی کی بنا پر!) 


شیخ جیلانی ؒ اور زہد و تصوف
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
تصوف کے حوالہ سے یہ بات واضح رہے کہ حلول، وحدت الوجود اور وحدت الشہود وغیرہ کے وہ نظریات جو متاخر صوفیا (مثلاً ابن عربی ۶۳۸ھ ، عبدالکریم جیلی ۸۱۱ھ، وغیرہ) کے ہاں پائے جاتے ہیں، متقدمین کے ہاں ماسوائے منصور حلاج (۳۰۹ھ) کے، ان کا واضح سراغ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ متقدم صوفیا کے مستند حالات اور ان کی تصنیفات سے ان کے صحیح العقیدہ ہونے کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ (دیکھئے: تاریخ ِتصوف از یوسف سلیم چشتی: ص۱۴۳ تا ۵۲۰) البتہ تزکیہ ٔ نفس کے سلسلہ میں انہی متقدمین کے ہاں بعض خلاف ِشرع اُمور بھی پائے جاتے ہیں (مثلاً دیکھئے: شریعت و طریقت از عبدالرحمن کیلانی: ص۱۵۶، ۲۱۸ تا ۲۲۱، ۲۲۸، ۲۶۴ تا۲۷۱، ۲۷۴، ۲۷۵، ۴۹۶، ۴۹۸، ۵۰۰ وغیرہ)البتہ ان خلافِ شرع امور کا تعلق عقائد وایمانیات کی بجائے عبادات ومعاملات سے ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ خیرالقرون کے تصوف اور مابعد کے تصوف میں بُعد المشرقین کی طرح نمایاں خلا ہے۔ بلکہ پہلی صدی ہجری میں تو یہ لفظ تصوف کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا، البتہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں انتہائی متقی حضرات کے لئے زاہد، عابد اور صالح وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے جاتے تھے جبکہ دوسری صدی ہجری ہی میں ان کے ساتھ لفظ 'صوفی' بھی مترادف کے طور پراستعمال ہونے لگا۔ (دیکھیے :شریعت وطریقت:ص۱۱۷ نیز مجموع الفتاویٰ:۱۱؍۶) اور رفتہ رفتہ یہی لفظ اتنا معروف ہوا کہ زاہد، عابد اور صالح جیسی اصطلاحات معدوم ہوکر رہ گئیں۔ گویا متقدمین کے ہاں لفظ صوفی دراصل زاہد وعابد کی جگہ مستعمل تھا۔

زہد کا تصور چونکہ اسلام میں موجود ہے یعنی ''ازھد في الدنیا یحبك اﷲ '' دنیا سے بے رغبتی کرو تو خدا تم سے محبت کرے گا۔''(صحیح ابن ماجہ: ۳۳۱۰) اس لئے متقدم صوفیا جودراصل زہاد و عباد ہی تھے، کے طرزِ عمل، طریقۂ عبادت اور تزکیۂ نفس کے سلسلہ کو دیگر ائمہ دین نے ہدفِ تنقید نہیں بنایا اور ویسے بھی ان صوفیا اور زہاد کی طرزِ زندگی مجموعی طور پر شریعت ہی کی آئینہ دار تھی کیونکہ ان میں سے اکثر حضرات کتاب و سنت کے عالم باعمل اور دین و شریعت کے اَسرار و رموز سے کماحقہ واقف تھے۔ تاہم ان میں عقائد سے ہٹ کر عبادات ومعاملات میں غلو اور بگاڑ پیدا ہوچکا تھا، اس کی طرف بھی گذشتہ سطور میں نشاندہی کردی گئی ہے۔ یہی غلو رفتہ رفتہ اس قدر بڑھا کہ متاخرین صوفیا نے شعوری یا غیر شعوری طور پر دین شریعت کے متوازی دین 'طریقت' ایجاد کرلیا جو نہ صرف عبادات و معاملات میں دین و شریعت کے برخلاف تھا بلکہ عقائد ونظریات میں بھی اسلامی عقائد کے منافی تھا اور یہ صورتِ حال اس وقت پیدا ہوئی جب مسلمان صوفیا نے ہندی و یونانی فلسفہ تصوف کو اسلام میں درآمد کرلیا اور اس پر طرہ یہ کہ بعض مسلمان صوفیا وحدتُ الوجود جیسے شرکیہ فلسفہ تصوف کے حق و اثبات میں قرآن و سنت سے غلط وبے جا استشہاد کرنے لگے...!!

شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے غنیۃ الطالبین میں تصوف اور اس کے متعلقات پرایک طویل بحث سپردِ قلم فرمائی ہے۔ (دیکھئے: ج۲؍ ص۲۶۹تا ۳۳۶) جو دراصل زہد و تقویٰ سے متعلقہ تعلیمات یعنی توکل، صبر،شکر، رضا، صدق اور آدابِ معاشرت وغیرہ پر مبنی ہے۔ ہم واضح کر آئے ہیں کہ متقدمین کے ہاں تصوف دراصل زہد و تقوی ہی کے مترادف سمجھا جاتا تھا اور متاخر صوفیا کے عقائد و نظریات (یعنی وحدت الوجود، حلول وغیرہ) متقدمین کے ہاں نہیں پائے جاتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ شیخ جیلانی ؒ کے عقائد و نظریات سراسر اہل السنۃ کے موافق ہیں جیسا کہ 'شیخ کے عقائد و نظریات' کے ضمن میں اس پر تفصیلی بحث کی جاچکی ہے ۔ ویسے بھی شیخ جیلانی ؒ ایسے گمراہانہ نظریات کے سخت مخالف تھے مثلاً منصور حلاج جو حلول جیسے گمراہانہ نظریہ کا قائل ہوچکا تھا، کے بارے میں شیخ جیلانی ؒ نے ایک مرتبہ فرمایا:

''منصور حلاج کے دور میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو اس کا ہاتھ پکڑتا اور اسے اس کی لغزش سے باز رکھتا، اگر میں اس کے زمانے میں ہوتا تو منصور کے معاملے کو اس صورتِ حال سے بچاتا جو اس نے اختیار کرلی تھی۔''

(اخبار الاخیار ص۲۳ از عبدالحق محدث دہلوی بحوالہ دائرۃ المعارف اردو: ج۱۲؍ص۹۳۴ )

علاوہ ازیں دائرہ المعارف کے مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ

''شیخ عبدالقادر تصوف میں پُراسرار رمزیت (جو باطنیہ یا غیر متشرع متصوفین کو تقویت پہنچاتی تھی) کے خلاف تھے۔'' (ایضاً)

علاوہ ازیں وحدت الوجود وغیرہ کی تردید شیخ کے مندرجہ ذیل فرمودات سے بھی ہوتی ہے:

''وھو بجھة العلو مستو علی العرش... واﷲ تعالیٰ علی العرش... وھو باین من خلقه ولا یخلو من علمه مکان ولا یجوز وصفه بأنه في کل مکان بل یقال أنه في السماء علی العرش...''

اللہ تعالیٰ بلندی کی طرف عرش پر مستوی ہے...اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے... اور وہ مخلوق سے جدا ہے۔ اس کے علم سے کوئی جگہ (اور چیز) مخفی نہیں اور اس کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں کہ وہ ہر جگہ پر موجود ہے بلکہ اس کا وصف یوں بیان کرنا چاہئے کہ وہ آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ہے اور یہی چیز اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کی ہے کہ﴿الرَّ‌حم۔ٰنُ عَلَى العَر‌شِ استَوىٰ ﴿٥﴾... سورة طه ''رحمن، عرش پر مستوی ہے۔'' (الغنیۃ:۱؍۱۲۱تا۱۲۴)


شیخ کی کرامات
••••••••••••••••••
جب اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ انبیاء و رسل کے ہاتھوں کوئی خرقِ عادت کام ظاہر ہوتواسے معجزہ کہا جاتا ہے جیسے حضرت موسیٰ ؑ کی لاٹھی کا اژدھا بن جانا، حضرت ابراہیم ؑ کے لئے آگ کا ٹھنڈا ہوجانا، نبی اکرمؐ کے لئے چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا وغیرہ وغیرہ۔ اور جب کسی نیک صالح مؤمن کے ہاتھوں کوئی خرقِ عادت چیز ظاہر ہو تو اسے کرامت کہا جاتا ہے جیسے حضرت مریم ؑ کے پاس بے موسمی پھلوں کا آنا(آلِ عمران:۳۷)، بعض صحابہ کے لئے اندھیرے میں عصا کا روشن ہونا وغیرہ البتہ معجزہ اور کرامت کے حوالہ سے یہ باتیں یاد رہیں کہ

1. معجزہ نبی کے ہاتھوں ظاہر ہوتا ہے اور کرامت ولی کے۔

2. جس طرح کوئی ولی، کسی نبی کی فضیلت کو نہیں پہنچ سکتا، اسی طرح کسی ولی کی کرامت کسی نبی کے معجزے کے مساوی نہیں ہوسکتی۔ ( النبوات لابن تیمیہؒ: ص۱۰۹ تا ۱۱۶)

3. معجزہ یا کرامت کے ظہور میں انبیاء و اولیا کا کوئی اختیار نہیں ہوتا بلکہ ان کا صدور اللہ کے حکم و مرضی پر موقوف ہوتا ہے۔ (مثلاً دیکھئے الاسرائ:۹۰ تا ۹۳)

4. نبی کے معجزے سے اِنکار تو کسی مسلمان کے لئے ہرگز جائز نہیں لیکن کسی ولی کی کرامت کو تسلیم بھی کیاجاسکتا ہے اور ردّ بھی۔ (دیکھئے مجموع الفتاویٰ:۱۱؍۲۰۸)

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیخ جیلانی ؒ انتہائی متقی، عالم باعمل اور اللہ کے ولی تھے، اس لئے ان کے ہاتھوں کرامات کا ظہور کوئی امر ِمستبعد نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سینکڑوں کرامتیں منسوب ہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر ایسی ہیں جنہیں ان کے عقیدت مندوں نے بلا دلیل ان کی طرف منسوب کررکھا ہے۔ شیخ کی ان کرامتوں کے حوالہ سے عام طور پر لوگوں میں دو طرح کے طبقہ ہائے فکر پائے جاتے ہیں ۔ ایک تو وہ عقیدت مند جو شیخ کی طرف منسوب ہر چیز آنکھیں بند کرکے تسلیم کرلیتے ہیں اور دوسرے وہ جو آپ کی کسی بھی کرامت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شیخ جیلانی ؒ اللہ کے ولی تھے، اس لئے ان کی کوئی بھی کرامت بشرطیکہ وہ ثابت ہو، تسلیم کرنی چاہئے۔ البتہ شیخ کی کرامتوں کے اثبات یا عدمِ اثبات کے حوالہ سے مزید گزارش یہ ہے کہ اکثر و بیشتر کرامتیں محض آپ کی طرف منسوب ہیں، حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ جیسا کہ حافظ ذہبی رقم طراز ہیں کہ

''قلت لیس في کبار المشائخ من له أحوال وکرامات أکثر من الشیخ عبدالقادر لکن کثیرا منھا لا یصح وفي بعض ذلك أشیاء مستحیلة'' (سیر:ج۲۰؍ص۴۵۰ )

''میں کہتا ہوں کہ کبار اولیاء و مشائخ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں گزرا جس کی شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے زیادہ کرامتیں معروف ہوں، تاہم شیخ جیلانی ؒکی طرف جو کرامتیں منسوب ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر درست نہیں بلکہ بعض تو ویسے ہی ناممکنات میں سے ہیں۔''

کچھ اسی طرح کا تبصرہ حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی تاریخ البدایہ والنھایہ (ج۱۲؍ص۲۵۲) میں کیاہے مگر حافظ ابن کثیرؒ یا حافظ ذہبی نے یہ نشاندہی نہیں فرمائی کہ شیخ کی کون کون سی کرامات غیر صحیح اور کون سی مستحیل ہیں، تاہم اس سلسلہ میں کچھ مزید حقائق درج ذیل ہیں:

شیخ جیلانی کی کرامتوں کو سب سے پہلے جس عقیدت مند نے کتابی شکل میں جمع کیا وہ علی بن یوسف الشطنوفی ہے جس کی وفات کا شیخ جیلانی کی وفات سے تقریباً ۱۵۰ سال کا فاصلہ ہے یعنی شطنوفی ۷۱۳ھ میں فوت ہوا۔ (دیکھئے الاعلام:۵؍۱۸۸،کشف الظنون:۱؍۲۵۷) جبکہ شیخ کی وفات ۵۶۱ھ کو ہوئی۔

شطنوفی شیخ جیلانی کی بعض کرامتوں کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جس سے ان کی شیخ جیلانی ؒ کے معاصر ہونے کا شک گزرتا ہے، علاوہ ازیں جن کرامتوں کو شطنوفی نے اپنی سند سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے، ان میںبھی اکثر و بیشتر اسناد میں ضعیف راوی موجود ہیں۔ اسی لئے ائمہ محققین نے شطنوفی کی اس تالیف پرزبردست تردیدو تنقید کی ہے۔ بطورِ مثال چند ائمہ کے اقوال ذکر کئے جاتے ہیں :

1. حافظ ابن حجر شیخ الکمال جعفر کے حوالہ سے رقمطراز ہیں کہ

''ذکر فیه غرائب وعجائب وطعن الناس في کثیر من حکایات وأسانیدہ فیه''

'' شطنوفی نے اس کتاب میں بڑی عجیب وغریب باتیں ذکر کی ہیں اور لوگوں نے اس کی بیان کردہ اکثر حکایتوں اور اسناد پر جرح کی ہے۔'' (الدرالکامنہ: ۳؍ ۲ ۴ ۱)

2. ابن الوردی اپنی تاریخ میں رقمطراز ہیں کہ

''إن في البھجة أمور لا تصح ومبالغات في شان الشیخ عبدالقادر لا تلیق إلابالربوبیة'' (کشف الظنون:۱؍۶۵۷)

'' بہجۃ الأسرار میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جنہیں تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور شیخ جیلانی کے بارے میں بعض ایسے مبالغہ آمیز خیالات کا اظہار کیا گیا ہے جو باری تعالیٰ کے سوا اور کسی کی شان کے لائق نہیں ۔''

3. ابن رجب فرماتے ہیں کہ

''قد جمع المقریٔ أبوالحسن الشطنوفي... فیه من الروایة عن المجھولین ... إن الشطنوفي نفسي کان متھما فیما یحکیه في ھذا الکتاب بعینه''

(ذیل الطبقات لابن رجب:۱؍۲۹۳)

''شطنوفی نے شیخ جیلانی ؒ پر تین جلدوں میں کتاب لکھی ہے اور اس میں رطب و یابس کا طومار باندھا ہے۔ حالانکہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کردے۔ میں نے اس کتاب کے بعض مندرجات دیکھے ہیں مگر میرا نفس اس بات پر مطمئن نہ ہوا کہ میں اس میں مذکور باتوں پراعتماد کرسکوں کیونکہ اوّل تو اس میں مجہول راویوں سے روایتیں لی گئی ہیں اور دوسرا یہ کہ اس میں نہ صرف کذب و افترا اور جھوٹ کے بے شمار پلندے ہیں بلکہ ان جھوٹی باتوں کو شیخ جیلانی ؒ کی طرف منسوب کرنا بھی شیخ جیلانی ؒ کے شان کے منافی ہے۔ علاوہ ازیں شیخ الکمال جعفر کی یہ بات بھی میری نظروں سے گزری ہے کہ شطنوفی نے اپنی اس کتاب بہجۃ الأسرارمیںجو چیزیں بیان کی ہیں، انہیں بیان کرنے میں شطنوفی مُتَّّ۔۔۔ہَم (جس پر جھوٹا ہونے کا شک ہو)ہے۔''

مندرجہ بالا ائمہ محققین کے اقتباسات ہی سے بہجۃ الأسراراور اس میں موجود شیخ کی کرامتوں کی اصلیت واضح ہوجاتی ہے، تاہم سردست حاجی خلیفہ کے حوالے سے یہ بات ذکر کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مندرجہ پہلے دو اقتباس کشف الظنون میں نقل کئے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ دیگرائمہ کی تنقید بھی ان کی نظر میں تھی مگر اسکے باوجود انہوں نے ان آئمہ نقاد کے بارے میں علمی وتحقیقی جواب دینے کی بجائے اسطرح اپنے خیالات کا اظہار فرمایا:

''وأني لغبي جاھل حاسد ضیع عمرہ في فھم ما في السطور وقنع بذلك عن تزکیة النفس وإقبالھا علی اﷲ أن یفھم ما یعطي اللہ (سبحانه و تعالیٰ) أولیاء ہ من التصریف في الدنیا والآخرة''

'' اس کندہ نا تراش احمق اور حاسد شخص پر افسوس ہے کہ جس نے بہجۃ الأسرار کی عبارتوں کو سمجھنے میں اپنی عمر ضائع کر دی اور تزکیۂ نفس اور اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اس بات کو سمجھنے کی ذرا بھی کوشش نہ کی کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیا کو دنیا وآخرت میں آزادانہ تصرف واختیار کی دولت سے نواز دیتے ہیں۔''

حاجی خلیفہ کی اس عبارت سے ائمہ نقاد کی وہ جرح تو بالکل رفع نہیں ہوئی جو انہوں نے بہجۃ الأسرار پر کی ہے تا ہم اس سے یہ خدشہ ضرور لاحق ہوا ہے کہ حاجی خلیفہ کے افکار ونظریات میں بھی واضح جھول ہے، اس لیے اہل تحقیق کو حاجی خلیفہ کے عقیدہ ومسلک کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینا چاہئے...!

شیخ جیلانی کی کرامتوں پر دوسری جامع و مستقل کتاب قلائد الجواھرہے جسے محمد بن یحییٰ القاذفی (۹۶۳م، دیکھئے الاعلام:۸؍۱۱) نے شیخ کی وفات سے تقریباً چار سو سال بعد لکھا اور اس کی اسنادی حیثیت بھجۃ الأسرارسے بھی زیادہ مجروح ہے۔ اکثر و بیشتر واقعات تو بہجۃ ہی سے ماخوذ ہیں جبکہ بعض واقعات تو اتنے جھوٹے ہیں کہ خود جھوٹ بھی ان سے شرما جائے۔ بغرضِ اختصار ایک واقعہ کی نشاندہی ضروری ہے، صاحب ِکتاب رقمطراز ہیں کہ

''سہل بن عبداللہ تستری نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ اہل ِبغداد کی نظر سے آپؒ عرصہ تک غائب رہے، لوگوں نے آپ کو تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کو دجلہ کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ لوگ آپ کو تلاش کرتے ہوئے دجلہ کی طرف گئے تو ہم نے دیکھا کہ آپ پانی پر سے ہماری طرف چلے آرہے ہیں اور مچھلیاں بکثرت آپ کی طرف آن آن کر آپ کو 'سلام علیک' کہتی جاتی ہیں۔ ہم آپ کو اور مچھلیوں کے آپ کا ہاتھ چومنے کو دیکھتے جاتے تھے۔ اس وقت نمازِ ظہر کا وقت ہوگیاتھا۔ اسی اثنا میں ہمیں ایک بڑی بھاری جائے نماز دکھائی دی اور تخت سلیمانی کی طرح ہوا میں معلق ہوکر بچھ گئی۔ یہ جائے نماز سبز رنگ اور سونے چاندی سے مرصع تھی۔ اس کے اوپر دو سطریں لکھی ہوئی تھیں۔ پہلی سطر میں ﴿أَلا إِنَّ أَولِياءَ اللَّهِ لا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿٦٢﴾... سورة يونس" اور دوسری سطر میں «اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ أَھْلَ الْبَیْتِ إنَّه حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ»لکھا ہوا تھا۔ جب یہ جائے نماز بچھ چکی تو ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگ آئے اور جائے نماز کے برابر کھڑے ہوگئے... سہل بن عبداللہ تستری بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آپ کی دعا پر فرشتوں کے ایک بہت بڑے گروہ کو 'آمین' کہتے سنا۔ جب آپ دعا ختم کرچکے تو پھر ہم نے یہ ندا سنی أبشرفإني قد استجبت لك ''تم خوش ہو جاؤ میں نے تمہاری دعا قبول کرلی...'' (قلائد الجواہر ترجمہ محمد عبدالستارقادری: ص۸۸،۸۹)

شیخ کی طرف منسوب اس کرامت کے اِمکان یا عدم اور اس کے حضرت سلیمان ؑ کی مقبول دعا (ص ٓ:۳۵) کے منافی ہونے سے بھی قطع نظر اس وقت صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ سہل بن عبداللہ تستری شیخ جیلانی ؒ کی پیدائش سے بھی بہت پہلے یعنی ۲۸۳ھ میں فوت ہوچکے تھے۔ (الاعلام: ۳؍۲۱۰) جبکہ شیخ جیلانی ؒ۴۷۱ھ کو پیدا ہوئے۔ اب تستری اور شیخ جیلانی کا یہ درمیانی دو سو سالہ وقفہ یہ ثابت کرتا ہے کہ تستری کی شیخ سے کسی طرح بھی ملاقات ثابت نہیں مگر یہ تو ان مؤلفین ہی کی کرامت ہے جنہوں نے تستری کو وفات کے بعد شیخ جیلانی کا دیدار نصیب کروا دیا...!!

اس پر طرہ یہ کہ' قلائد' کے مترجم اور قلائد کا یہ حوالہ اپنی تصنیفات میں پیش کرنے والے عقیدت مند(مثلاً ضیاء اللہ قادری فی 'سیرت غوث الثقلین': ص۱۶۴ وغیرہ) اور ان 'محققین' کو یہ بھی توفیق نہیں کہ ایسی بے تکی باتوں کو لکھتے وقت ذراعقل و بصیرت کو بھی استعمال کرلیں!!

شیخ کے حالات و کرامات سے متعلقہ سب سے بنیادی اور جامع کتابوں کی استنادی حیثیت تو خوب واضح ہوچکی ہے اور اب یہ بھی واضح رہے کہ شیخ کی جملہ کرامات میںسے ننانوے فیصد کرامتوں کا تعلق انہی دو کتابوں سے ہے اور انہی دو کتابوں کے ننانوے فیصد واقعات وکرامات محض جھوٹ کا پلندہ ہیں جبکہ شیخ کی کرامتوں پر مبنی دیگر کتابوں کی استنادی حیثیت تو ان سے بھی بدرجہا بدتر ہے بلکہ جو اضافی کرامتیں ان کے علاوہ کتابوں میں موجود ہیں، انہیں 'ہوائی فائر' سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

اب یہاں یہ سوال باقی ہے کہ اگر شیخ کی ننانوے فیصد کرامتوںکی کوئی اصلیت نہیںتو پھر ایک فیصد کرامتیں جنہیں صحیح کہا جاسکتا ہے، وہ کہاں ہیں؟تو اس سلسلے میں گزارش ہے کہ انہیں تراجم کی کتابوں (مثلاً سیراعلام النبلاء ازذہبیؒ، الطبقات الکبریٰ ازشعرانی وغیرہ) میں سے تلاش کیاجاسکتاہے۔ البتہ ان کی بھی صحت پر قطعی حکم لگانے سے پہلے ان کی اسناد کی تحقیق از بس ضروری ہے مگر افسوس کہ شیخ جیلانی پر لکھنے والوں میں سے کسی نے بھی آج تک اس کی زحمت گوارا نہیں کی۔بلکہ آپ کے عقیدت مند ان سنی سنائی کرامتوں کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ جیسے یہ شیخ کی کرامتیں نہیں بلکہ ان کے 'مختارِ کل' و 'مالک ِملک' ہونے کے نمونے ہیں، حالانکہ یہ حیثیت تو معجزات کے حوالہ سے انبیا کو بھی حاصل نہیں۔(دیکھئے الاسراء:۹۰ تا ۹۳)


شیخ کے بعض تفردات
•••••••••••••••••••••••
ہمارے ہاں شخصیات پرلکھنے والے عموماً اس بات کاخیال تو رکھتے ہیں کہ مطلوبہ شخصیت کے فضائل و مناقب پر جہاں سے اور جو بھی رطب و یابس ملے، اسے بلا تحقیق سپردِ قلم کردیا جائے۔ مگر اس بات کی طرف توجہ نہیں دی جاتی کہ زیر مطالعہ شخصیت کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتے ہوئے ان حقائق کو بھی سامنے لایاجائے جو ان کی علمی و فکری لغزشوں پر مشتمل ہو۔ عملی کوتاہیوں سے صرفِ نظر کرنا تو یقینا مستحسن ہے مگر علمی و نظریاتی لغزشوں کو اس لئے نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ کسی کے فضائل و مناقب اور علمی وجاہت سے متاثر ہونے والا شخص اس کی علمی وفکری لغزشوں کو بھی عین حق سمجھ کر اپنا لیتا ہے، اس لئے ایسی چیزوں کی نشاندہی ایک علمی امانت کو آگے منتقل کرنے کے مترادف ہے۔ امانت و دیانت کے انہی تقاضوں کے پیش نظر ذیل میں ہم اس حوالہ سے کچھ بحث کرنے کی جسارت کررہے ہیں۔

شیخ کے عقائد و نظریات کے حوالہ سےابن تیمیہ کا جونکتہ نظر ہے وہ تو اوپر بیان ہوچکا ، تاہم ابن تیمیہ کے شاگردِ رشید حافظ ذہبیؒ کے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے بارے میں خیالات کچھ اس طرح کے ہیں کہ

''وفي الجملة الشیخ عبدالقادر کبیر الشان وعلیه مآخذ في بعض أقواله ودعاویه واﷲ الموعد وبعض ذلك مکذوب علیه'' (سیراعلام النبلاء:۲۰؍۴۵۱ )

'' حاصل بحث یہ ہے کہ شیخ جیلانی بڑی اونچی شان کے مالک تھے مگر اس کے باوجود ان کے بعض اقوال اور دعوے قابل مؤاخذہ اور محل نظر ہیں جنہیں ہم اللہ ہی کے سپرد کرتے ہیں جب کہ بعض تو محض جھوٹ کا پلندہ ہیںجنہیں ان کی طرف منسوب کر دیا گیاہے۔''

شیخ جیلانی ؒکے وہ کون سے خیالات و فرمودات ہیں جو محل نظر ہیں، اس کی تفصیل تو حافظ ذہبیؒ نے بیان نہیں فرمائی، تاہم شیخ کی مطبوعہ کتابوں کے مطالعہ سے ممکن ہے کہ ایسی کئی چیزیں سامنے آجائیں۔ ویسے بھی انسان ہونے کے ناطے خطا و نسیان ایک فطرتی بات ہے جس سے کسی بشر کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی و جہ ہے کہ راقم الحروف نے جب شیخ کی بعض کتابوں کاغیر جانبدارانہ مطالعہ کیا تو شیخ کے بعض ایسے تفردات بھی نظر سے گذرے جن سے اتفاق ممکن نہیں۔ ان میں سے بعض تفردات کی نشاندہی تو راقم نے غنیۃ الطالبین پراپنے حواشی میں کردی ہے جو زیر طبع ہے۔جبکہ بعض اہم تفردات کی نشاندہی ذیل میں کی جاتی ہے:

1. شیخ غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں کہ

''قل بسم اﷲ، اسم الذي أجری الأنھار وأنبت الأشجار، اسم من عَمَّر البلاد بأھل الطاعة من العباد فجعلھم لھا أوتادا کالجبال فصارت الأرض بھم لمن علیھا کالمھاد فھم الأربعون الأخیار من الأبدال المنزھون الرب عن الشرکاء والأنداد وملوك في الدنیا وشفعاء الأنام یوم التناد إذ خلقھم ربي مصلحة للعالم ورحمة للعباد'' (ج۱؍ص۲۲۶)

'' کہو بسم اللہ، یہ اس ذات کا نام ہے جس نے دریا جاری کیے ، درخت پیدا کیے ، اپنے اطاعت شعار بندوں کے ساتھ شہر آباد کیے اور ان بندوں کو پہاڑوں کی طرح اوتاد(میخیں، کیل) بنایا، جن کی وجہ سے زمین اپنے باشندوں کے لیے فرش کی طرح ہو گئی۔ یہ چالیس برگزیدہ بندے ہیں جنہیں اَبدال کہا جاتاہے۔ یہ ابدال اللہ تعالیٰ کے شریکوں کی نفی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی (بیان) کرتے ہیں۔ یہ ابدال دنیا کے بادشاہ اور روزِ قیامت سفارش کرنے والے ہیں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کائنات کی تدبیر کرنے اور بندوں پر لطف وکرم کرنے کے لیے پیداکیا ہے۔''

(نیز دیکھئے: الغنیۃ مترجم ازشمس بریلوی :ص ۲۵۰)

مذکورہ اقتباس میں اَوتاد واَقطاب وغیرہ کے حوالہ سے شیخ نے جو نکتہ نظر پیش کیا ہے، اس کے ظاہری مفہوم کی کوئی ایسی توجیہ جس سے اس کی شرکیہ آمیزش بآسانی دور ہوسکے، سے راقم قاصر ہے، مگر اس بنیاد پر معاذ اللہ شیخ پر کوئی فتویٰ صادر کرنے کی بھی راقم اس لئے جسارت نہیں کرسکتا کہ ائمہ نقاد مثلاً ابن تیمیہؒ، حافظ ذہبیؒ، ابن حجرؒ ، ابن رجبؒ وغیرہ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اکثر و بیشتر نے شیخ کے اہل السنۃ اور صحیح العقیدہ ہونے کی گواہی دی ہے اور ویسے بھی شیخ جیلانی کے عقائد و نظریات کے حوالے سے ہم یہ ثابت کر آئے ہیں کہ شیخ صحیح العقیدہ مسلمان اور اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے ولی تھے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس اقتباس کے بارے میں یہ موقف اپنایا جائے کہ یہ شیخ کی کتاب میں کسی اور نے شامل کردیا ہوگا اور ویسے بھی یہ بات معقول ہے کہ جب بعض متعصبین نے احادیث وضع کرنے یا کتب ِاحادیث میں تحریف کرنے میں خوف خدا کا لحاظ نہیں رکھا تو شیخ کی کتاب میں ایسی بات کا پیوند لگانے میں یہ خوف ان کے لئے کیسے مانع ہوسکتا تھا۔ یاپھر اس کی کوئی ایسی توجیہ تلاش کرنی چاہئے جس سے اس کا بگاڑ باقی نہ رہے۔اور اس کی توجیہ یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ متقدم صوفیا کے ہاں ابدال واقطاب کی اصطلاحات زہاد وعباد کے محض درجاتِ تفاوت کے لیے مستعمل تھیں، لیکن متاخر صوفیا نے چند موضوع احادیث کی بنا پر غوث،قطب، اَبدال وغیرہ سے وہ اولیا مراد لینے شروع کر دیے کہ جنہیں ان کے زعم باطل میں اللہ تعالیٰ نے کائنات کے مختلف اُمور کا مختار ونگران بنایا ہے۔حالانکہ یہ نظریہ نہ صرف واقعات حقائق کے خلاف ہے بلکہ اسلامی عقائد کے بھی صریح منافی ہے۔ اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ شیخ جیلانی کے ہاں اَبدال واوتاد سے مراد وہی مفہوم تھا جو متقدم صوفیا سمجھتے تھے، نہ کہ وہ جو متاخرین کے ہاں معروف ہو گیا۔ واللہ اعلم!

2. شیخ فرماتے ہیں کہ'' ونؤمن بأن المیت یعرف من یزورہ إذ أتاہ وآکدہ یوم الجمعة بعد طلوع الفجر قبل طلوع الشمس'' (غنیۃ الطالبین:۱؍۱۴۲)

''ہمارا ایمان ہے کہ مردہ کی قبر پر آنے والے کو مردہ پہنچانتا ہے ۔جمعہ کے دن طلوعِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب تک یہ شناخت اور زیادہ قوی ہوتی ہے۔'' (الغنیۃ مترجم شمس بریلوی: ص۱۶۵)

3. اللھم إني أتوجه إلیك بنبیك علیه سلامك نبي الرحمة یا رسول اﷲ! إني أتوجه بك إلی ربي لیغفرلي ذنوبي اللھم إني أسئالك بحقه أن تغفرلي وترحمني...'' (الغنیۃ: ج۱؍ص۳۶ )

'' یا اللہ ! میں تیرے نبی علیہ السلام کے وسیلے سے جو نبی الرحمہ تھے، تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔ یا رسول اللہ ! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے ربّ کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ وہ میرے گناہ معاف فرما دے۔ یا اللہ ! میں تیری نبی کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے اور مجھ پر رحم فرما۔''

4. اسی طرح شیخ نے الغنیۃ (ج۱؍ ص۳۱۷ تا۳۳۵) میں شہر رجب میں نماز اور روزوں کے بہت سے فضائل ذکر کئے ہیں مگر شیخ نے اس ضمن میں جن روایات سے استشہاد کیا ہے، انہیں اہل علم نے موضوع قرار دیا ہے۔ مثلاً دیکھئے الموضوعات :۲؍۲۰۵، تنزیہ الشریعہ:۲؍۱۶۱ اور اللآلی المصنوعۃ:ص۱۱۷

5. اسی طرح شیخ نے غنیۃ الطالبین (ج۲؍ص۲۳۵ تا۲۶۱) میں ہفتہ کے مختلف دنوں اور راتوں کی بہت سی نفلی نمازوں کا بھی ذکر کیا ہے مگر بطورِ استشہاد جن روایتوں کو شیخ نے پیش کیا ہے، انہیں محدثین نے موضوع قرار دیا ہے۔

علامہ ابن تیمیہؒ کی رائے

شیخ کے مذکورہ تفردات میں سے پہلے تفرد کی کچھ توجیہ راقم نے پیش کردی ہے تاہم دیگر تفردات کی توجیہ اور تحقیق و تطبیق، میں دیگر غیر جانبدار اہل علم کے سپرد کرتا ہوں لیکن اس گزارش کے ساتھ کہ علمائے سلف اور سچے اولیاء و مشائخ کے حوالہ سے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی اس نصیحت کو بھی مدنظر رکھیں :

''وکثیر من مجتھدي السلف قالوا وفعلوا ما ھو بدعة ولم یعلموا أنھا بدعة إما لأحادیث ضعیفة ظنوھا صحیحة وأما الآیات فھموا منھا ما لم یرد منھا وأما لرأي رأوہ وفي المسألة نصوص لم تبلغھم وإذا اتقی الرجل ربه ما استطاع دخل في قوله تعالیٰ: {رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ أَخْطَأْنَا} وفي الصحیح (مسلم ؛ ۱۲۶) أن اﷲ قال: قد فعلت'' (مجموع الفتاویٰ: ۱۹؍۱۹۱)

''سلف صالحین میں سے بہت سے مجتہدین سے بعض ایسے اقوال وافعال مروی ہیں جو بدعت کے زمرے میں شامل ہوتے ہیں ۔لیکن ان اہل علم نے انہیں بدعت سمجھ کر اختیار نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے یا تو انہیں ضعیف روایات کی بنا پر یہ سمجھتے ہوئے اختیار کیا تھا کہ یہ روایات صحیح ہیں۔یا پھر انہوں نے بعض آیات سے استنباط کرتے ہوئے ایسا کیا مگر ان کا وہ استنباط درست نہ تھا اور انہیں اس خاص مسئلہ میں بعض نصوص نہ مل سکیں(جن سے ان کی صحیح رہنمائی ہو سکتی تھی)۔بہر حال جب کوئی شخص حتیٰ المقدور اللہ تعالیٰ کے خوف کو دل میں جگہ دے تو پھر وہ اس فرمانِ خداوندی میں شامل ہے: '' اے ہمارے ربّ ! اگر ہم سے بھول چوک یا خطا سرزد ہو تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا'' اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواباً فرماتے ہیں کہ میں نے تمہاری بات قبول کر لی ہے۔''


شیخ جیلانی کی آڑ میں ایک نیا دین 
………………………………………………………
………………………………………………………

1. شیخ جیلانی ؒ کو' غوثِ اعظم' کہنا 
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
نفس مسئلہ پربحث سے پہلے ضروری ہے کہ لفظ 'غوثِ اعظم' کے معنی و مفہوم پر ذرا غور کرلیا جائے۔ 'غوث' عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے 'مدد'۔ اگر اسے مصدر کے طور پر استعمال کیا جائے تو پھر اس کا معنی ہے 'مدد کرنا' البتہ مدد کرنے والے کو 'غائث' (بروزن فاعل) کہا جائے گا اور مدد مانگنے والے کو 'مستغیث'۔لیکن اگر مصدر کوبطورِ اسم فاعل استعال کیا جائے تو پھر 'غوث' مددگار کا معنی ادا کرے گا اور شیخ جیلانی کو غو ث کہنے والے اس کا یہی مفہوم مراد لیتے ہیں۔ اسی طرح لفظ 'اعظم' بھی عربی زبان میں بطورِ اسم تفضیل استعمال ہوتا ہے جس کا معنی ہے 'سب سے بڑا'۔ گویا 'غوثِ اعظم' کا معنی ہوا... 'سب سے بڑا مددگار'

سب سے بڑا مددگار کون ہے؟ یہ سوال اگر آپ ایک عام مسلمان سے بھی کریں گے تو وہ جواباً یہی کہے گا کہ 'اللہ تعالیٰ'... کیونکہ دین اسلام نے عقیدئہ توحید کے حوالہ سے یہی تعلیم دی ہے کہ اللہ کے سوا اور کوئی مددگار نہیں، نفع و نقصان صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے، صرف وہی مشکل کشا، حاجت روا ہے۔ وہی خالق ، رازق (داتا)اور مالک الملک ہے۔ بطورِ مثال چند آیات ملاحظہ فرمائیں:

1. ﴿وَمَا النَّصرُ‌ إِلّا مِن عِندِ اللَّهِ العَزيزِ الحَكيمِ ﴿١٢٦﴾... سورة آل عمران

'' اور مدد تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے۔''

2. ﴿وَلا يَجِدونَ لَهُم مِن دونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلا نَصيرً‌ا ﴿١٧﴾... سورة الاحزاب

'' اور وہ اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد گار اور حمایتی نہیں پائیں گے۔''

3. ﴿وَما لَكُم مِن دونِ اللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلا نَصيرٍ‌ ﴿١٠٧﴾... سورة البقرة

''اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور مدد گار نہیں۔''

4. ﴿وَما كانَ لَهُم مِن أَولِياءَ يَنصُر‌ونَهُم مِن دونِ اللَّهِ...٤٦﴾... سورة الشورى

''ان کے کوئی مدد گار نہیں جو اللہ تعالیٰ سے الگ ان کی امداد کر سکیں۔''

5. ﴿وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ‌ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِ‌دكَ بِخَيرٍ‌ فَلا ر‌ادَّ لِفَضلِهِ...١٠٧﴾... سورة يونس

'' اور اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس تکلیف کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہیں کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو بھی کوئی ہٹانے والا نہیں۔''

مندرجہ بالا آیات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی حقیقی مددگار ہے جبکہ دیگر بہت سی آیات میں نہ صرف غیر اللہ کو پکارنے، اسے مددگار سمجھنے کی نفی کی گئی ہے بلکہ ایسا کرنے والے کو مشرک، ظالم اور عذاب کامستوجب قرار دیا گیاہے، مثلاً

1. ﴿وَلا تَدعُ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُكَ وَلا يَضُرُّ‌كَ ۖ فَإِن فَعَلتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظّ۔ٰلِمينَ ﴿١٠٦﴾... سورة يونس

'' اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو نہ پکارنا جو تمہیں نہ کوئی فائدہ پہنچا سکے اور نہ کوئی نقصان پھر اگر تم نے ایسے کیا(غیر اللہ کو پکارا) تو تم اس حالت میںظالموں میں سے ہو جائوگے۔''

2. ﴿وَمَن أَضَلُّ مِمَّن يَدعوا مِن دونِ اللَّهِ مَن لا يَستَجيبُ لَهُ إِلىٰ يَومِ القِي۔ٰمَةِ وَهُم عَن دُعائِهِم غ۔ٰفِلونَ ﴿٥﴾... سورة الاحقاف

'' اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا؟ جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو تا قیامت اس کی پکار کاجواب نہیں دے سکتے بلکہ وہ تو ان (پکارنے والوں) کی پکار سے بھی بے خبر ہیں!''

3. ﴿لا تَدعُ مَعَ اللَّهِ إِل۔ٰهًا ءاخَرَ‌ فَتَكونَ مِنَ المُعَذَّبينَ ﴿٢١٣﴾... سورة الشعراء

''پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار کہ تو بھی (ایسا کر کے)سزا پانے والوں میں سے ہو جائے۔''


ایک شبہ کا ازالہ: 
کئی سادہ لوح یہاں یہ اعتراض اٹھا دیتے ہیں کہ اگر غیر اللہ(انبیاء و رسل، اولیاء و مشائخ وغیرہ) سے مانگنا عقیدہ توحید کے خلاف ہے تو پھر اولاد، اپنے والدین سے، خاوند اپنی بیوی یا بیوی اپنے خاوند سے، مزدور اپنے مالک، دوست اپنے دوستوں سے اشیاے ضرورت کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ اور دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا نہیں جو کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے سے مدد وتعاون کا مطالبہ نہ کرتا ہو اور اس طرح تو یہ تمام لوگ مشرک ہوئے...؟

یہاں دراصل ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کو مختلط کرکے خلط ِمبحث کیا گیا ہے حالانکہ جن کاموں کا تعلق ظاہری اسباب سے ہے، انہیں خود قرآن مجید کی رو سے شرک قرار نہیں دیا جاسکتا اور مذکورہ بالا تمام مثالوں کا تعلق ظاہری اسباب سے ہی جسے دوسرے لفظوں میں ماتحت الاسباب بھی کہا جاسکتا ہے جبکہ غیر اللہ سے استمداد اس وقت عقیدہ توحید کے خلاف کے زمرے میں داخل ہے جب ظاہری اسباب کی عدم موجودگی میں ان سے مدد مانگی جائے، اسے ہی مافوق الاسباب میں شمار کیاجاتا ہے۔ مثلاً کسی زندہ یا فوت شدہ بزرگ سے اگر کوئی اولاد مانگے تو یہ عقیدہ توحید کے خلاف ہے، اس لئے کہ اس کے پاس اولاد عطا کرنے کے ظاہری اسباب موجود نہیں مگر اولیاو مشائخ اور بالخصوص شیخ جیلانی کو غوثِ اعظم کہنے والے یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے اختیارات سونپ رکھے ہیں حتیٰ کہ کائنات کی تقدیر بھی انہی کے ہاتھ میں تھما رکھی ہے اور انہیں کُنْ فَیَکُوْنَ کی قدرت سے نواز رکھا ہے! ہمارے اس دعوی پریقین نہ آئے تو پھر شیخ کی طرف منسوب درج ذیل واقعات کا کیا جواب ہے ...

1.''شیخ شہاب الدین سہروردیؒ جو سلسلہ سہروردیہ کے امام ہیں، کی والدہ ماجدہ حضور غوث الثقلین کے والد ماجد کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں اور عرض کرتی ہیں کہ حضور دعا فرمائیں میرے لڑکا پیدا ہو۔ آپ نے لوحِ محفوظ میںدیکھا اور اس میں لڑکی مرقوم تھی۔ آپ نے فرما دیا کہ تیری تقدیر میں لڑکی ہے۔ وہ بی بی یہ سن کر واپس ہوئیں۔ راستہ میں حضور غوثِ اعظم ملے۔ آپ کے استفسار پر انہوں نے سارا ماجرا بیان کیا۔ حضورنے ارشاد فرمایا: جا تیرے لڑکا ہوگا مگر وضع حمل کے وقت لڑکی پیدا ہوئی۔ وہ بی بی بارگاہِ غوثیت میں اس مولود کو لے کر آئیں اور کہنے لگیں: حضور لڑکا مانگوں اور لڑکی ملے؟ فرمایا یہاں تو لاؤ اور کپڑا ہٹا کر ارشاد فرمایا یہ دیکھو تو، یہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ دیکھا تو لڑکا تھا اور وہ یہی شہاب الدین سہروردی تھے۔ آپ کے حلیہ مبارک میں ہے کہ آپ کی پستان مثل عورتوں کے تھیں۔'' (باغِ فردوس معروف بہ گلزارِ رضوی: ص۲۶ نیز دیکھئے کراماتِ غوث اعظم: ص۸۱)

اسی واقعہ کے اوپر شیخ جیلانی کے بارے میں یہ شعر لکھا ہے ؎
لوحِ محفوظ میں تثبیت کا حق ہے حاصل مرد عورت سے بنا دیتے ہیں غوث الاغواث

2.''ایک روز ایک عورت حضرت محبوب سبحانی غوث صمدانی شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی بارگاہِ غوثیت کی پناہ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگی کہ حضور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولاد عطا فرمائے۔ آپ نے مراقبہ فرما کر لوحِ محفوظ کا مشاہدہ فرمایا تو پتہ چلا کہ اس عورت کی قسمت میں اولاد نہیں لکھی ہوئی تھی۔ پھر آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دو بیٹوں کے لئے دعا کی۔ بارگاہِ الٰہی سے ندا آئی کہ اس کے لئے تو لوحِ محفوظ میں ایک بھی بیٹا نہیں لکھا ہوا۔ آپ نے دو بیٹوں کا سوال کردیا۔ پھر آپ نے تین بیٹوں کے لئے سوال کیا تو پہلے جیسا جواب ملا پھر آپ نے سات بیٹوں کا سوال کیا تو ندا آئی: اے غوث! اتنا ہی کافی ہے، یہ بھی بشارت ملی کہ اللہ تعالیٰ اس عورت کو سات لڑکے عطا فرمائے گا۔''

(کراماتِ غوثِ اعظم از محمد شریف نقشبندی:ص۸۰،۸۱)

3.''حضرت محبوبِ سبحانی قطب ِربانی غوث صمدانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا ایک خادم انتقال کرگیا۔ اس کی بیوی آہ و زاری کرتی ہوئی آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگی کہ حضور میرا خاوند زندہ ہونا چاہئے۔ آپ نے مراقبہ فرمایا اور علم باطن سے دیکھا کہ عزرائیل علیہ السلام اس دن کی تمام ارواح قبضہ میںلے کر آسمان کی طرف جارہا ہے تو آپ نے عزرائیل علیہ السلام سے کہا ٹھہر جائیں اور مجھے میرے فلاںخادم کی روح واپس کردیں توعزرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں ارواح کو حکم الٰہی سے قبض کرکے اس کی بارگاہِ الٰہیہ میں پیش کرتا ہوں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اس شخص کی روح تجھے دے دوں جس کو بحکم الٰہی قبض کرچکا ہوں۔ آپ نے اصرار کیا مگر ملک الموت نہ مانے۔ ان کے ایک ہاتھ میں ٹوکری تھی جس میں اس دن کی ارواح مقبوضہ تھیں۔ پس قوتِ محبوبیت سے ٹوکری ان کے ہاتھ سے چھین لی تو ارواح متفرق ہوکر اپنے اپنے بدنوں میںچلی گئیں۔ عزرائیل علیہ السلام نے اپنے ربّ سے مناجات کی اور عرض کیا: الٰہی تو جانتا ہے جو میرے اور تیرے محبوب کے درمیان گزری، اس نے مجھ سے آج کی تمام مقبوضہ ارواح چھین لیں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا: اے عزرائیل! بے شک غوثِ اعظم میرا محبوب و مطلوب ہے تو نے اسے اس کے خادم کی روح واپس کیوں نہ دے دی۔ اگر ایک روح واپس دے دیتے تو اتنی روحیں ایک روح کے سبب کیوں واپس جاتیں۔'' (ایضاً:ص۹۲،۹۳)

یاد رہے کہ مندرجہ واقعات بھی اسی نوعیت کے ہیں جن کے بارے میں 'ہم شیخ کی کرامات' کے ضمن میں واضح کرآئے ہیں کہ ان کی استنادی حیثیت سخت مجروح اورناقابل اعتماد ہے۔ اس لئے ان کی عدمِ اثبات پر دلائل کا طومار باندھنے کی بجائے شیخ کے عقیدت مندوں سے صرف اتنی گزارش کرنا مقصود ہے کہ شیخ جیلانی یا کسی بھی ولی، نبی اور رسول کے بارے میں تصرف واختیار کے ایسے عقیدہ کی قرآن و سنت کی مؤحدانہ سچی تعلیمات قطعاً اجازت نہیں دیتیں مگر افسوس ہے کہ ان اندھے عقیدت مندوں پر جو ایسی جھوٹی کرامتوں کی آڑ میں سادہ لوح مسلمانوں کی نہ صرف جیبوں پر بلکہ ان کے دین وایمان پر بھی ڈاکے ڈال رہے ہیں اور پھر ہمیں اس بات پر بھی حیرانی ہے کہ خود شیخ جیلانی کی تعلیمات بھی ایسے غلط نظریات کی نفی کرتی ہیں جنہیں انکے عقیدت مندوں نے ان کی طرف منسوب کرکے عملاً اپنا رکھا ہے۔


شیخ جیلانی ؒ 'غوث' نہیں ہیں!
••••••••••••••••••••••••••••••••••
گذشتہ سطور میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ شیخ جیلانی کو 'غوثِ اعظم' سمجھنا نہ صرف قرآن و سنت کے خلاف ہے بلکہ خود شیخ کی موحدانہ تعلیمات کے بھی منافی ہے مگر اس کے باوجود آپ کے عقیدت مند آپ کو غوث کہنے ہی پر مصر ہیں بلکہ ان عقیدت مندوں نے غوث، قطب، ابدال کے پس منظرمیں دین اسلام کے متوازی ایک الگ دین وضع کر رکھا ہے۔ مثلا کہا جاتا ہے کہ دنیا میں چار ولی ایسے ہیں جنہیں 'اوتاد' کہا جاتا ہے۔ انہوں نے دنیا کے چاروں کناروں کو تھام رکھا ہے۔ (اصطلاحات الصوفیہ للکاشانی: ص۵۸) علاوہ ازیں سات اور ایسے اولیا ہیں جنہوں نے سات آسمانوں میںسے ایک ایک آسمان کا نظام سنبھالا ہوا ہے انہیں 'ابدال' کہا جاتا ہے۔ ('معجم الفاظ الصوفیہ' از ڈاکٹر شرقاوی: ص۲۲)

چالیس ولی ایسے ہیں جنہوں نے مخلوق کا بوجھ اٹھا رکھا ہے انہیں 'نجبا' کہا جاتا ہے۔ (اصطلاحاتِ کاشانی: ص۱۱۴) تین سو ولی ایسے ہیں جولوگوں کے ساتھ شہروں میں رہتے ہیں۔ (ایضاً:۱۱۶) ان سب پر ایک بڑا ولی ہوتا ہے جسے قطب ِاکبر یا غوثِ اعظم کہا جاتا ہے اور یہ ہمیشہ مکہ مکرمہ میں رہتا ہے۔ جبکہ دنیا میں جو آفت و مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ ان سب اولیا سے ہوکر غوث اعظم تک پہنچتی ہے اور وہ اسے دور فرماتے ہیں۔ نعوذ باللہ من ذلك

مندرجہ بالا گمراہانہ عقائد و نظریات اسلام میں کیسے آئے اور ان کی شرعی حیثیت کیا ہے اس کی تفصیل کے لئے مجموع الفتاویٰ (۱۱؍۱۶۷، ۴۳۳،۴۳۸ اور ۲۷؍۱۰۳) وغیرہ کوملاحظہ کیا جائے جہاں اس عقیدے کو ابن تیمیہ ؒ نے عقیدہ توحید کے خلاف کہا ہے۔ علاوہ ازیں راقم بھی اپنے ایک مضمون التوسل والوسیلۃ مطبوعہ 'محدث' لاہور (ج۳۴؍ عدد ۱۲: ص ۲۴ تا ۳۶) میں غوث و ابدال والی روایات کی کمزوری واضح کرچکا ہے۔ تاہم اس وقت صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ شیخ جیلانی جنہیں غوثِ اعظم کہا جاتاہے ، نے ساری زندگی بغداد ہی میں گزار دی، ان کا مولد و مدفن بھی بغداد ہی ہے تو پھر جب غوث کی شرائط ان پر منطبق نہیں ہوتیں تو انہیں غوثِ اعظم کہنا چہ معنی دارد؟ علاوہ ازیں یہاں یہ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ شیخ جیلانی کے بعد آج تک کون کون سے غوث دنیا میں گزرے ہیں؟ اور اس وقت مکہ میں کون صاحب غوث کے مقام پرفائز ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب اس عقیدہ کا پرچار کرنے والوں کے پاس بھی نہیں ہے...!

یہاں ہم ایک اور دلخراش حقیت کی بھی نشاندہی کرنا چاہیں گے کہ شیخ جیلانی جن کے بارے میں یہ جھوٹے دعوے کئے جاتے ہیں کہ وہ زندگی ہی میں نہیںبلکہ وفات کے بعد بھی اپنے مریدوں کی دستگیری فرماتے اور دنیا سے مصائب و آفات رفع کرتے ہیں، کی اپنی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ آپ کی وفات کے چند ہی سال بعد ناصر الدین کے وزیر ابوالمظفر جلال الدین عبداللہ بن یونس بغدادی نے آپ کے مکان (روضہ) کو مسمار کرکے آپ کی اولاد کو دربدر کردیا حتیٰ کہ آپ کی قبر تک کھود ڈالی اور آپ کی ہڈیاں دریائے دجلہ کی لہروں میں پھینک دیں اور کہا کہ'' یہ وقف کی زمین ہے، اس میں کسی کا بھی دفن کیا جانا جائز نہیں۔'' تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو شذرات الذہب (۴؍۳۱۳،۳۱۴)، النجوم الزاہرۃ (۶؍۱۴۲) الزبل علی الروضتین لابی شامہ (ص۱۲) خود شیخ کے عقیدت مندوں نے بھی اس واقعہ کونقل کرکے اس کی صحت کوتسلیم کیاہے۔ دیکھئے: قلائد الجواہر (ص۲۶۰) اور غوث الثقلین (ص۲۰۳)۔

اس واقعہ سے چند اہم باتیں معلوم ہوئیں :

1. ایک تو یہ کہ شیخ جیلانی ؒ کو کائنات میں تصرف کی قدرت نہیں تھی۔ ورنہ آپ اپنی قبر اور لاش کی اس طرح بے حرمتی کو برداشت نہ کرتے ہوئے بروقت اس کا انسداد کرتے۔

2. آپ قبر میں زندہ نہیں تھے۔

3. آپ کی بوسیدہ ہڈیاں دریائے دجلہ میں بہا دی گئیں، اس لئے اب بغداد میں آپ کے نام کا جو مزار ہے وہ محض فرضی قبر ہے۔

لیکن افسوس ان اندھے عقیدت مندوں پر جنہوں نے اس سے نصیحت حاصل کرنے کے برعکس شیخ کی قبر پر آج بھی یہ شرکیہ شعر رقم کر رکھے ہیں کہ
با دو شاہی ہار دو عالم
شیخ عبد القادر ہست
سرورِ اولاد آدم
شیخ عبد القادر ہست
آف تاب و باہ تاب و
عرش و کرسی و قلم
زیر پائی شیخ
عبد القادر ہست​

'' دونوں جہانوں کے بادشاہ شیخ عبد القادر ہیں، بنی آدم کے سردارشیخ عبد القادر ہیں، شمس وقمر، عرش، کرسی اور قلم (یہ سب) شیخ عبدالقادر کے پاؤں تلے ہیں''۔ نعوذ باﷲ من ذلک

علاوہ ازیں اگر شیخ جیلانی واقعی غوث تھے تو پھر انہوں نے سقوطِ بغداد کے موقع پر امریکی فوج کے خلاف مظلوم عراقی مسلمانوں کی مدد کیوں نہ کی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی بمباری سے شیخ خود اپنے فرضی مزار کو بھی نہ بچا سکے توپھر آپ دوسروں کی مدد کے لئے کیسے آسکتے ہیں؟


2. یا عبد القادر شیئا ﷲ اور صلاۃِ غوثیہ کی حقیقت
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
یہاں اس غلط فہمی کو دور کرنا بھی ضروری ہے جو بعض عقیدت مندوں نے پیدا کر رکھی ہے کہ خود شیخ جیلانی نے یہ تعلیم دی تھی کہ مشکلات کے وقت مجھے پکارا کرو میں زندگی میں بھی اور بعد از حیات بھی تاقیامت تمہاری سنتا اور مدد کرتا رہوں گا۔ اس سلسلہ میں آپ کی طرف جو جھوٹی باتیں منسوب کی جاتی ہیں، ان میں سے بطورِ نمونہ ایک جھوٹ ملاحظہ فرمائیں:

''شیخ نے فرمایا کہ جو کوئی اپنی مصیبت میں مجھ سے مدد چاہے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کروں گا اور جو کوئی میرے توسل سے خدائے تعالیٰ سے اپنی حاجت روائی چاہے گا تو خدا تعالیٰ اس کی حاجت کو پورا کرے گا۔ جو کوئی دو رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد گیارہ دفعہ سورۃ اخلاص یعنی 'قل ہو اللہ احد' پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھے اور مجھ پر بھی سلام بھیجے اور اس وقت اپنی حاجت کا نام بھی لے تو ان شاء اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری ہوگی۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ دس پانچ قدم جانب مشرق میرے مزار کی طرف چل کر میرا نام لے اور اپنی حاجت کو بیان کرے اور بعض کہتے ہیںکہ مندرجہ ذیل دو شعروں کو بھی پڑھے :

(ترجمہ اشعار: ''کیا مجھ کو کچھ تنگدستی پہنچ سکتی ہے جبکہ آپ میرا ذخیرہ ہیں اور کیا دنیا میں مجھ پر ظلم ہوسکتا ہے جبکہ آپ میرے مددگار ہیں۔ بھیڑ کے محاذ پر خصوصاً جبکہ وہ میرا مدد گار ہو، ننگ و ناموس کی بات ہے کہ بیابان میں میرے اونٹ کی رسی گم ہوجائے۔) '' (قلائد الجواہر، مترجم:ص۱۹۲)، بہجۃ الأسرار میں ہے کہ

''پھر عراق (بغداد) کی سمت میرا نام لیتاہوا گیارہ قدم چلے۔'' (ص۱۰۲)

نقد وتبصرہ

1. اوّل تو یہ واقعہ ان کتابوں سے ماخوذ ہے جن کی استنادی حیثیت کے حوالہ سے ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں۔

2. اگر بالفرض شیخ نے یہ بات خود فرمائی بھی ہو تو تب بھی اس پرعمل اس لئے نہیں کیاجاسکتا کہ یہ قرآن و سنت کے صریح خلاف ہے۔

3. فی الحقیقت یہ بات خود شیخ کی مؤحدانہ تعلیمات کے منافی ہے کیونکہ شیخ تو یہ فرماتے ہیں کہ

''اَخلصوا ولا تشرکوا وَحِّدوا الحق وعن بابه لا تبرحوا سلوہ ولا تسئلوا غیرہ استعینوا به ولا تستیعنوا بغیرہ توکلوا علیه ولا تتوکلوا علی غیرہ''

''اخلاص پیدا کرو اورشرک نہ کرو، حق تعالیٰ کی توحید کا پرچار کرو اور اس کے دروازے سے منہ نہ موڑو۔ اسی خدا سے سوال کرو ، کسی اور سے سوال نہ کرو ،اسی سے مدد مانگو، کسی اور سے مد د نہ مانگو، اسی پر توکل واعتماد کرو اور کسی پر توکل نہ کرو۔'' ( الفتح الربانی:مجلس۴۸؍ص۱۵۱)


3. شیخ جیلانی ؒ کے نام کی گیارہویں
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
گیارہویں کی حقیقت و اصلیت واضح کرنے سے پہلے سردست یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ 'گیارہویں' کسے کہتے ہیں؟ ضیاء اللہ قادری لکھتے ہیں کہ

''گیارہویں شریف درحقیقت حضرت سرکار محبوب سبحانی، قطب ِربانی غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کی روح پرفتوح کو ایصالِ ثواب کرنا ہے۔'' (غوث الثقلین: ص۲۱۷)

اسی طرح خلیل احمد رانا 'گیارہویں کیا ہے؟' میں لکھتے ہیں کہ

''موجودہ دور میں ایصالِ ثواب کے پروگرام مختلف ناموں سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں جن میں ایک نام 'گیارہویں شریف' کا بھی آتا ہے۔ حضور غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒ سے عقیدت و محبت کی وجہ سے ہر اسلامی مہینے کی گیارہویں تاریخ کو مسلمان اکیلے یا اکٹھے ہوکر آپ کی روح کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں۔ گیارہ تاریخ کو ایصالِ ثواب کرنے کی وجہ سے اس ایصالِ ثواب کا نام 'گیارہویں' مشہور ہوگیا ہے۔'' (ص:۴)

اس کے علاوہ بھی اس کے کئی پس منظر بیان کیے جاتے ہیں بہر حالمذکورہ اقتباسات سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ گیارہویں شیخ جیلانی کی روح کو ایصالِ ثواب کے لئے منائی جاتی ہے۔ تاہم عوام اسے محض ایصالِ ثواب ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس سے بھی آگے شیخ کو غوثِ اعظم، مختارِ کل، مشکل کشا، حاجت روا اور بگڑی بنانے والا سمجھتے ہوئے آپ کے نام کی نذر و نیاز کے لئے اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ ہر سال اس کا اہتمام کیا جاتاہے بلکہ وقتاً فوقتاً اور بالخصوص ہر ماہ چاند کی گیارہ تاریخ کو بھی ایک عرصہ سے اب اس کا اہتمام کیا جارہا ہے اور اسے چھوٹی گیارہویں سے جبکہ سالانہ گیارہویں کو بڑی گیارہویں سے موسوم کیا جاتاہے۔

گیارہویں خواہ ایصالِ ثواب کے لئے ہو یا نذر و نیاز کے لئے بہردو صورت شرعی اعتبار سے اس کے جواز کی کوئی دلیل نہیں، جیساکہ مندرجہ تفصیل سے واضح ہے :


نذر ونیاز کی نیت سے گیارہویں 
••••••••••••••••••••••••••••••••
نذر بنیادی طور پر عربی زبان کا لفظ ہے اردو میں اس کا ترجمہ 'منت' اور فارسی میں 'نیاز' کیاجاتا ہے۔ یہ دراصل عبادت کی وہ قسم ہے ''جسے کوئی شخص اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے۔'' (فیروز اللغات: ص ۶۷۹) جیساکہ مولانا وحید الزمان قاسمی رقم طراز ہیں کہ

''نذر، منت وہ صدقہ یا عبادت وغیرہ جو اللہ کے لئے اپنے اوپر لازم کیا جائے اور اپنے مقصد کی تکمیل پراسے ادا اور پورا کیاجائے۔'' (القاموس الوحید:ص۱۶۳)

اور اس بات میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ عبادت خواہ وہ کسی بھی نوعیت کی ہو (زبانی، مالی، بدنی)، وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں اور نذر و نیاز کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ؑ کویہ طریقہ سکھایا:

﴿فَقولى إِنّى نَذَر‌تُ لِلرَّ‌حم۔ٰنِ صَومًا فَلَن أُكَلِّمَ اليَومَ إِنسِيًّا ﴿٢٦﴾... سورة مريم

''تو کہہ دینا کہ میں نے اللہ رحمن کے نام کا روزہ مان رکھا ہے کہ میں آج کسی شخص سے بات نہ کروں گی۔''

علاوہ ازیں حضرت مریم ؑ کی والدہ کی نذر کا تذکرہ بھی قرآنِ مجید نے اس طرح کیا ہے: ﴿رَ‌بِّ إِنّى نَذَر‌تُ لَكَ ما فى بَطنى مُحَرَّ‌رً‌ا فَتَقَبَّل مِنّى...٣٥﴾... سورة آل عمران

'' اے میرے رب ! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مان رکھی ہے لہٰذا تو میری طرف سے (یہ)قبول فرما۔۔''

معلوم ہوا کہ نذر ونیاز اور دیگر عبادات کے لائق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ کفارِ مکہ چونکہ غیراللہ کے لئے نذر ونیاز کرتے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کو شرک قرار دیا ہے۔ (دیکھئے المائدۃ:۱۰۳، الانعام:۱۳۶) جبکہ ایک صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ ایک شخص محض اس و جہ سے جہنم میں داخل کیا گیا کہ اس نے غیر اللہ کے لئے ایک مکھی کا چڑھاوا و نذرانہ پیش کیا تھا۔ (حلیۃ الاولیائ:۱؍۲۰۳) مگر افسوس ان لوگوں پر جو بکروں کے بکرے اور دیگوں کی دیگے غیر اللہ کی نذر کرنے کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں جہنم کچھ نہ کہے گی۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رہے کہ تمام فقہا نے غیر اللہ کے لئے نذر و نیاز کو حرام قرار دیا ہے۔ مثلاً دیکھئے: الردّ المحتار علی الدر المختار:۲؍۱۲۸،البحر الرائق:۲؍۲۹۸، فتاویٰ عالمگیری:۱؍۲۱۶


ایصالِ ثواب کے لئے گیارہویں شریف
••••••••••••••••••••••••••••••••
مُردوں کے لئے ایصالِ ثواب کی بعض صورتیں اگرچہ قرآن و سنت کی رو سے جائز ہیں مگر ان میں گیارہویں کسی طرح بھی داخل نہیںہوتی۔ مزید تفصیل کے لئے ہم غیر جانبدارانہ طور پر ایصالِ ثواب کی ان تمام صورتوںکی نشاندہی کردیتے ہیں جن کا جواز قرآن و حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے البتہ بغرضِ اختصار ہم عبارتوں کی بجائے محض حوالہ جات پر اکتفا کریں گے۔

1. دعا: کوئی بھی مسلمان جو توحید و ایمان کی حالت میںفوت ہوا ہو اس کے لئے مغفرت کی دعا کی جاسکتی ہے۔دلائل کے لئے دیکھئے: الحشر:۱۰۱،التوبہ:۱۱۳ اور مسنداحمد:۲؍۹۲، ۲۲۱، ۲۵۲،بخاری:۱۳۲۷،مسلم:۹۷۴ ،موطأ:۱؍۲۰۸

2.صدقہ جاریہ: صدقہ جاریہ سے مراد وہ نیک کام ہیں جن کا ثواب آدمی کووفات کے بعد بھی ملتا رہتا ہے اور حدیث ِنبوی کے مطابق اس کی تین صورتیں ہیں:

1. محض صدقہ جاریہ یعنی اللہ کی راہ میں کسی چیز (گھر، ہسپتال، سبیل وغیرہ) کو وقف کردینا

2. نیک اولاد (اولاد کے نیک عمل کا ثواب قدرتی طور پر موحد والدین کو بھی پہنچتا رہے گا)

3. نفع بخش علم (خواہ شاگردوں کی صورت میں ہو یاکتابوں اور مدرسہ وغیرہ کی شکل میں)

دلائل کے لئے ملاحظہ ہو: یٰسین:۱۲ اورمسلم:۱۶۳۱،ترمذی:۱۳۸۱،ابوداؤد: ۲۸۸۰، نسائی: ۳۶۵۳،ابن ماجہ:۲۴۱،مسنداحمد:۲؍۳۷۲،السنن الکبریٰ للبیہقی:۲؍۲۷۸،الترغیب والترہیب: ۱؍ ۱۰۰... اسی طرح جہاد میں پہرہ دینے والے کو مرنے کے بعد بھی تا قیامت اس عمل کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ دیکھئے: مسلم:۱۹۱۳،ابوداؤد:۲۵۰۰، ترمذی:۱۶۲۱، حاکم:۲؍ ۱۴۴

3. میت کی طرف سے صدقہ: اگر میت کی اولاد انکی وفات کے بعد ان کی طرف سے صدقہ کرے تو فوت شدہ والدین کو اسکا ثواب پہنچتا ہے۔ حوالہ جات کیلئے دیکھئے: بخاری: ۲۷۶۰، مسلم : ۱۰۰۴،ابوداود:۲۸۸۱، نسائی:۳۶۵۱،ترمذی:۶۶۹،ابن ماجہ:۲۷۱۷،احمد: ۲؍۵۱، بیہقی:۶؍۲۷۸

میت کی طرف سے صدقہ کرنے کے حوالہ سے یہ واضح رہے کہ صرف اولاد ہی اپنے والدین کی طرف سے ایصال ثواب کے لئے صدقہ کرسکتی ہے۔ البتہ دیگر افراد کے میت کی طرف سے صدقہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: (نیل الاوطار: ۳؍۱۰۵)

4.میت کی طرف سے حج کرنا: میت کی طرف سے اگر حج کیا جائے تو میت کا یہ فرض ادا ہوجاتا ہے۔ حوالہ جات کیلئے دیکھئے: بخاری :۱۸۵۲، نسائی:۲۶۳۱، احمد:۱؍۲۳۹، ۲۷۹

5.میت کی طرف سے روزوں کی ادائیگی: اگر میت کے ذمہ نذر کے روزے رہ جائیں تو اس کے اولیا اس کی طرف سے یہ روزے رکھ سکتے ہیں۔ البتہ اولیا کے علاوہ دیگر افراد کے لئے ایسا کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ حوالہ جات کے لئے دیکھئے:

بخاری:۱۹۵۲،مسلم:۱۱۴۷،ابوداؤد:۲۴۰۰،احمد:۶؍۶۹،بیہقی:۵؍۲۵۵ ، ۲۵۶

واضح رہے کہ میت کے متروکہ فرضی (یعنی رمضان کے) روزے رکھنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض تونذر کی طرح اس کے بھی جواز کے قائل ہیں جبکہ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ صرف نذر کے روزے جائز ہیں تاہم میت کے متروکہ رمضان کے روزوں کی جگہ فدیہ ادا کیا جائے مگر یہ روزے نہ رکھے جائیں۔

تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: تہذیب السنن:۳؍۸۲ ، ۲؍ ۲۸۹

6.میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی: میت کے ذمہ اگر قرض ہو تو اس کی طرف سے کوئی بھی دوسرا شخص میت کا یہ قرض ادا کرسکتا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: مسند احمد:۳؍۳۳۰، حاکم:۲؍۵۸، بیہقی:۶؍۷۴

مندرجہ بالا سطور میں قرآن و حدیث کی روشنی میں وہ تمام صورتیں ذکر کردی گئی ہیں جن کا فائدہ کسی نہ کسی طرح میت کو پہنچتا ہے، البتہ اس کے علاوہ ایصالِ ثواب کے دیگر طریقے مثلاً قل، تیجہ، ساتواں، چالیسواں، قرآن خوانی اور گیارہویں وغیرہ سب بدعتی اُمور ہیں جن کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا گیارہویں سمیت ان تمام امور سے از بس اجتناب ضروری ہے۔ 


~~~~~~~~~~~~~~~~~~؛

تیسرا حصہ 
شیخ عبد القادر جیلانی ؒ سے متعلق مزید منسوب اور من گھڑت باتیں
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
شیخ کے بارے میں ایسی جھوٹی باتیں منسوب ہیں کہ شیخ تمام ولیوں کے سردار تھے۔ بلکہ شیخ کی طرف یہ بات بھی منسوب کی گئی ہے کہ آپ کہا کرتے تھے کہ ''قدمَيّ ھذہ علی رقبۃ کل ولی اﷲ'' '' میرا پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے۔''

بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہاں تک دعویٰ کیا گیا ہے کہ شیخ کو خود آنحضرتؐ نے 'خرقہ' (صوفیا کا مخصوص زاہدانہ لباس) پہنا کر اس عالی شان مقامِ ولایت پر فائز فرمایا تھا اور آپ کی ولایت کا یہ مقام تھاکہ حضرت خضر سمیت تمام انبیاء کرام اور صحابہ کرام بھی آپ کی مجلس میں شرکت کی سعادت سے بہرہ مند ہوا کرتے تھے۔

یہ تمام باتیں بھجۃ الأسرار اور قلا ئد الجواہر جیسی اُن غیر معتبر کتابوں میں موجود ہیں جن کی استنادی حیثیت ہم خوب واضح کرچکے ہیں۔ تاہم دورِ حاضر میں عملی طور پر ان سلاسل سے وابستہ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ کسی سلسلہ میں داخل ہوئے بغیر اور کسی پیرومرشد کو پکڑے بغیر نجات مشکل ہے اور بیعت کرکے کسی سلسلہ میں محض داخل ہوجانا ہی نجات کے لئے کافی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان سلسلوں میں داخل کرنے والے اب خود ہی ایسے گمراہانہ عقائد کا شکار ہیں کہ الامان والحفیظ...! بلکہ وہ اپنے مریدوںکو بھی اس طرح کی تعلیم دیتے ہیں جو قرآن و سنت کے صریح مخالف ہے۔ حتیٰ کہ بعض نام نہاد پیرو مشائخ تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ اگر تم اپنے شیخ کو خلافِ شرع حالت میں بھی دیکھو تو شیخ کے بارے میں بدگمانی کی بجائے یہی سمجھو کہ تمہیں دیکھنے، سننے اور سمجھنے میں غلطی لگی ہے ...!!

البتہ شیخ عبدالقادر جیلانی اور ان کے مابعد کے اَدوار میں جب ایسے سلسلوں کی بنیاد پڑی تھی تو اس وقت صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔ اس دور میں سرکاری طور پر اسلام نافذ العمل تھا، جہاد جاری تھا اور کفر و شرک ہر طرف سرنگوں تھا، البتہ روحانی طور پر مسلمانوں میں کمیاں، کوتاہیاں پائی جاتی تھیں اور زہد و تقویٰ کی بجائے عیش و عشرت اور خواہش پرستی کی وبا چہار سو پھیلتی جارہی تھی جس کے آگے بند باندھنے اور روحانیت کو زندہ کرنے کے لئے اولیا نے میدانِ عمل میں قدم رکھا۔ تزکیۂ نفس اور تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کئے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق زہد و تقویٰ کے دیے جلائے۔ اُس دور میں اکثر و بیشتر زہاد و صوفیا کے کم از کم عقائد درست رہے تاہم عملی طور پر بعض مسائل میں یہ بھی غلو اور افراط کا شکار ہوتے گئے۔ جن میں سے ایک یہ مسئلہ بھی تھا کہ اولیاء و مشائخ کے پاس ہر شخص کا حاضر ہو کر 'سلوک' کی منزلیں طے کرنا فرض ہے جیسا کہ شیخ جیلانی خود رقم طراز ہیں کہ

''فلابد لکل مرید اﷲ عزوجل من شیخ'' (الغنیۃ:۲؍۲۸۱)

''ہر مرید کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا ایک شیخ ۔(پیر)لازم پکڑے۔''

پھر جب مرید سلوک کی منازل طے کرکے شیخ و مرشد کے درجے پر پہنچ جاتا تو اسے ایک مخصوص قسم کا موٹا لباس جسے 'خرقہ' کہا جاتا، پہنا دیا جاتا اور یہ اس بات کی علامت سمجھا جاتا کہ اب یہ شخص مریدوں کی تربیت کرنے کے لائق ہوچکا ہے اور اسے تزکیۂ نفس کے لئے کسی اور علاقے میں بھیج دیا جاتا۔ یہ طریقہ چونکہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں تھا، اس لئے ائمہ محققین نے اس کی بھرپور تردید کی۔ بطورِ مثال ابن تیمیہ کا ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے۔ ابن تیمیہ رقم طراز ہیں کہ

''وأما لباس الخرقة التي یلبسھا بعض المشائخ المریدین فھذہ لیس لھا أصل یدل علیھا الدلائل المعتبرة من جھة الکتاب والسنة ولا کان المشائخ المتقدمون وأکثر المتأخرین یلبسونھا المریدین'' ''مریدوں کو'خرقہ' پہننانے کی رسم جسے بعض مشائخ ادا کرتے ہیں، یہ سراسر بے بنیاد ہے۔کتاب وسنت کے معتبر دلائل میں اس کا کوئی وجود نہیں۔متقدم مشائخ بلکہ اکثر متاخر مشائخ بھی ایسا کوئی کام نہیں کیا کرتے تھے۔ البتہ متاخرین میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا تھا جو اسے نہ صرف جائز بلکہ مستحب سمجھتا تھا...''

پھر ابن تیمیہ اس ضمن میں پیش کئے جانے والے دلائل کی کمزوری واضح کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ''رہی یہ بات کہ کوئی گروہ اپنے آپ کو کسی خاص شخص کی طرف منسوب کرے، تو اس سلسلہ میںگذارش ہے کہ ایمان و قرآن سیکھنے کے لئے لوگ یقینا ان علما کے محتاج ہیں جو انہیں اس کی تعلیم دیں مثلاً جس طرح صحابہ کرامؓ نے نبی اکرم ﷺسے پھر صحابہ سے تابعین نے اور ان سے تبع تابعین وغیرہ نے علم حاصل کیا۔ علاوہ ازیں جس طرح کسی عالم سے کوئی شخص قرآنِ مجید وغیرہ کی تعلیم حاصل کرتاہے، اسی طرح اس سے ظاہر و باطن (تزکیۂ نفس) کی بھی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ لیکن اس کے لئے کسی عالم (شیخ، ولی، پیر وغیرہ) کو متعین نہیںکرنا چاہئے اور نہ ہی انسان اس بات کا محتاج ہے کہ وہ لازماً اپنے آپ کو کسی متعین شیخ کی طرف منسوب کرے بلکہ ہر وہ شخص جس کے ذریعے اسے کوئی دینی فائدہ پہنچے، وہ اس فائدہ پہنچانے میں اس کا شیخ ہی ہے۔ بلکہ اگر کسی فوت شدہ انسان کا کوئی ایسا قول یا عمل اسے پہنچے جس سے اسے دینی اعتبار سے فائدہ ہو تو وہ فوت شدہ شخص بھی اس جہت سے اس کا شیخ ہے۔ اس لئے امت کے سلف صالحین نسل در نسل خلف (بعد والوں) کے لئے شیوخ ہی متصور ہوں گے۔

اسی طرح کسی کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے شیخ کی طرف نسبت کرے جو صرف اپنی پیروی (بیعت) کرنے والے سے دوستی اور دوسروں (بیعت نہ کرنے والوں) سے دشمنی رکھتا ہو بلکہ انسان کو چاہئے کہ ہر اس شخص سے جو اہل ِایمان ہے اور ہر اس شیخ، عالم وغیرہ جس کا زہد و تقویٰ معروف ہے، سے دوستی رکھے اور اس کے باوجود خصوصی دوستی کے لئے کسی ایک (شیخ)کو خاص نہ کرے، اِلاکہ اس کا خصوصی تقویٰ اور ایمان اس کے لئے ظاہر ہو، اور اپنی ترجیحات میں صرف اسے مقدم رکھے جسے اللہ اور اس کا رسول (یعنی قرآن و حدیث) مقدم کریں اور اسے ہی اَفضلیت دے جسے اللہ اوراس کے رسول (قرآن و حدیث) فضیلت سے نوازیں۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے : ﴿ي۔ٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقن۔ٰكُم مِن ذَكَرٍ‌ وَأُنثىٰ وَجَعَلن۔ٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَ‌فوا ۚ إِنَّ أَكرَ‌مَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم...١٣﴾... سورة الحجرات

'' اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک(ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں کنبے اور قبیلے اس لیے بنا دیا تا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانو۔بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔''

اور ارشادِ نبوی ہے کہ''لا فضل لعربي علی عجمي ولا لعجمي علی عربي ولا أسود علی أبیض ولا أبیض علی أسود إلا بالتقوٰی'' (مجموع الفتاویٰ: ج۱۱؍ص۵۱۱،۵۱۲)

'' کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی سیاہ کو کسی سفید پر یا کسی سفید کو کسی سیاہ پر سوائے تقوی کے اور (کسی لحاظ سے بھی) کوئی فضیلت ومرتبہ حاصل نہیں ہے۔'' 


خلاصۂ بحث
••••••••••••••
(۱) شیخ عبدالقادر جیلانی انتہائی متقی، دیندار، عالم باعمل اور اللہ کے ولی تھے۔

(۲) شیخ ۴۷۱ھ (یا ۴۷۰ھ )کو بغداد کیقریب(جیلان ، کیلان) میں پیدا ہوئے اور وہیں عمر بھر دینی واصلاحی خدمات انجام دینے کے بعد ۵۶۱ھ کو فوت ہو کر دفن ہوئے۔

(۳) غنیۃ الطالبین، فتوح الغیباور الفتح الرباني آپ کی تصانیف ہیں جبکہ ان کے علاوہ دیگر کتابیں جنہیں آپ کی تصانیف میں شامل کیا جاتاہے، انکی کوئی دلیل نہیں۔

(۴) شیخ عقائد و نظریات کے حوالہ سے صحیح العقیدہ مسلمان تھے۔

(۵) شیخ نے اپنے متبعین کو طریقت و باطنیت کی بجائے قرآن و سنت پر مبنی شریعت کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔

(۶) شیخ فقہی مسائل میں حنبلی المسلک تھے مگر قرآن و سنت کے خلاف امام کی رائے پر ڈٹے رہنے کے قائل نہ تھے۔

(۷) جن لوگوں نے شیخ کو 'حنفی' قرار دینے کی کوشش کی ہے، انہوں نے محض کذب بیان سے کام لیا ہے۔

(۸) شیخ جیلانی ان معنوں میں صوفی تھے کہ آپ زاہد تھے، ورنہ صوفیامتاخر کی طرح وحدت الوجود اور حلول وغیرہ جیسے گمراہانہ عقائد آپ میں نہیں پائے جاتے بلکہ آپ ایسے نظریات کی تردید کرنے والے تھے۔

(۹) بشر ہونے کے ناطے شیخ بھی بعض تفردات کا شکار ہوئے جن میں زہد و تقویٰ میں غلو ومبالغہ سرفہرست ہے۔

(۱۰) شیخ کی بہت سی کرامتیں زبان زدِ عام ہیں لیکن ان میں سے ننانوے فیصد غیر مستند اور جھوٹ کا پلندہ ہیں جنہیں عقیدت مندوں نے وضع کررکھا ہے۔

(۱۱) آپ کی طرف منسوب سلاسل جو اگرچہ تعلیم و تعلّم اور تزکیۂ نفس کی خاطر شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ غلط عقائد کی آمیزش سے دین و شریعت کے متوازی آگئے، سراسر محل نظر ہیں بلکہ اب تو ان میں شمولیت سے بہرصورت اجتناب کرنا چاہئے۔

(۱۲) شیخ جیلانی کو 'غوثِ اعظم' کہنا نہ صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی (معاذ اللہ) اہانت ہے بلکہ خود شیخ کی موحدانہ تعلیمات کے بھی سراسر منافی ہے۔

(۱۳) صلاۃ ِغوثیہ اور یا عبد القادر شیئا ﷲ کہنا نہ صرف یہ کہ شیخ جیلانی کی تعلیمات سے بھی ثابت نہیں بلکہ یہ صریح عقیدہ توحید کے خلاف ہے!!

(۱۴) شیخ جیلانی کے نام کی گیارہویں اگر بطورِ نذرو نیاز ہو تو صریح عقیدہ توحید کے خلاف ہے اور اگر محض ایصالِ ثواب کے لئے ہو تو واضح بدعت ہے۔

(۱۵) اولیاء ومشائخ کی صرف انہی تعلیمات سے استفادہ کرنا چاہیے جو قرآن وسنت (شریعت) کے موافق ہوں جب کہ ان کی ایسی باتیں جو انہوں نے فی الواقع کہی ہوں یا محض ان کی طرف بعد والوں نے منسوب کر دی ہوں، انہیں لائق اعتماد نہیں سمجھنا چاہیے جو قرآن وسنت کے صریح منافی ہوں او رخود اولیاء وائمہ کرام کا بھی یہی نکتہ نظر تھا کہ اگر ہمارا کوئی قول وفعل قرآن وسنت کے منافی ہو تو اسے در خور اعتنانہ سمجھا جائے! 

‏.