منگل، 24 نومبر، 2020

تدفین ‏میت ‏کے ‏بعد ‏اجتماعی ‏دعاء ‏مولانا ‏اسعد ‏اعظمی ‏

.
  ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ
؛•┈•┈•⊰✿🌹🌼🌹✿⊱•┈•┈•؛ 

میت ‏کو ‏دفن ‏کرنے ‏کے ‏بعد ‏کی ‏دعا ‏ 

مولانا ‏اسعد ‏اعظمی ‏ 


.

جمعہ، 20 نومبر، 2020

موسم ‏سرما، شرعی ‏سہولیات ‏مامون ‏رشید ‏السلفی ‏

.

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ
 •┈┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈┈ ؛

 موسم سرما میں شرعی سہولیات کے چند مظاہر 

✍️: مامون رشید ہارون رشید سلفی 

~~~~~~~~~~~~~~~~؛

کائنات کے اندر موسموں کی تبدیلی اور سردی و گرمی کا باہمی تعاقب اللہ رب العالمین کی قدرت کاملہ اور ربوبیت تامہ کی دلیل ہے یہ اللہ کی عظیم قدرت ہی کا مظہر ہے کہ اللہ نے سال میں دو موسم بنائے جن کا ذکر قرآن پاک کے سورہ قریش میں کچھ اس طرح وارد ہے: 
"لإيلاف قريْش إِيلافهمْ رحلة الشتاء والصّيف" 
(ہم نے ابرہہ اور اس کی فوج کے ساتھ جو کچھ کیا) قریش کو مانوس بنانے کے لئے کیا، انہیں جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس بنانے کے لئے کیا- 
(تفسیر تیسیر الرحمن)

قرآن کریم میں لفظ "شتاء" (جاڑا) کا ذکر صرف ایک بار آیا ہے محققین کہتے ہیں کہ سال میں صرف دو موسم ہوتے ہیں ایک سردی دوسرا گرمی چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
"الشتاء نصف السنة، والصيف نصفها" 
جاڑا سال کا ادھا ہے اور گرمی آدھا - 
(تفسیر القرطبی : 20/207) 

جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ: 
 زمانے اور موسم کی چار قسمیں ہیں: 
جاڑا، سردى، بہار اور خزاں
امام ابن العربی اس قول کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: 
"جو بات امام مالک رحمہ اللہ نے کہی ہے وہی صحیح ترین ہے کیونکہ اللہ رب العالمین نے زمانے کو دو ہی قسموں میں تقسیم کیا ہے کوئی تیسری قسم بیان نہیں کی ہے" 
(احکام القرآن: 4/451) 
اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے ان موسموں کے کچھ باطنی اسباب بھی بیان کئے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں: 
"جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا کہ میرے رب ! میرے ہی بعض حصے نے بعض کو کھالیا ہے. تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی، ایک سانس جاڑے میں اور ایک گرمی میں۔ تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو، اس کا یہی سبب ہے۔ 
( بخاری 3260، مسلم 1401) 

قارئین کرام ابھی ہم جس موسم کا استقبال کر رہے ہیں وہ جاڑے کا موسم ہے اور اللہ کی قدرت سے جب اس کی ٹھنڈی میں شدت آ جاتی ہے تو کمزور یا بڑے بوڑھے اور بیمار قسم کے لوگوں کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عبادات انجام دینے کے لیے پانی استعمال کرنے یا مسجد جانے یا اس طرح کے دیگر اعمال انجام دینے کی وجہ سے انہیں بیماری اور ضرر لاحق ہونے کا اندیشہ رہتا ہے لیکن چونکہ مذہب اسلام آسانی اور رحم دلی کا پیکر ہے اور اپنے متبعین کو ہر قسم کے اضرار و خطرات سے محفوظ رکھنے کا حل اپنے اندر رکھتا ہے اس لیے جاڑے کے موسم میں لوگوں کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مشقتوں کا علاج بھی بعض آسانیوں اور سہولیات کی صورت میں امت مسلمہ کو عطا کر دیا ہے جن میں سے چند چیزوں کا ذکر میں اس تحریر کے اندر کروں گا ان شاء اللہ. 

مشقت آسانیاں لے کر آتی ہے 
````````````````````````````````؛

اس سے پہلے کہ میں اصل موضوع کی وضاحت کروں مشقت اور حرج کے تعلق سے ایک اہم ترین اسلامی اصول 
" المشقة تجلب التيسير" 
(مشقت آسانیاں لے آتی ہے) 
کے دلائل کا ذکر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ اس مضمون کے مسائل کا دار و مدار اسی قاعدہ پر ہے. 

قرآن کے اندر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 
(1) "يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر" 
(البقرة 185) 
اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے سختی و تنگی نہیں چاہتا-

(2) "لا يكلف الله نفسا إلا وسعها" 
( البقرة، 282) 
اللہ کسی آدمی کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا-

(3) "ربنا ولا تحمل علينا إصرا كما حملته على الذين من قبلنا ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنا به" 
( البقرة، 286) 
اے ہمارے رب ! اور ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال، جیسا کہ تو نے ہم سے پہلے کے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے رب ! اور ہم پر اس قدر بوجھ نہ ڈال جس کی ہم میں طاقت نہ ہو.

(4) "يريد الله أن يخفف عنكم" 
(النساء،28) 
اللہ تعالیٰ تم سے بوجھ کو ہلکا کر دینا چاہتا ہے. 

(5) "ما يريد الله ليجعل عليكم من حرج" 
( المائدة،6) 
اللہ تعالیٰ تمہیں کسی تنگی میں ڈالنا نہیں چاہتا- 

(6) "وما جعل عليكم في الدين من حرج" 
(الحج،78) 
اور اس نے تمہارے لیے دین میں کسی طرح کی تنگی نہیں رکھی-

(7) "لا تكلف نفس إلا وسعها" 
(البقرة 233) 
کسی پر اس کے مقدور سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے۔

(8) "لا نكلف نفسا إلا وسعها" 
( الأنعام 152، الأعراف 42، المؤمنون 62)
ہم ( اللہ تعالیٰ ) کسی بھی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتے-

اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے: 
"فإذا أمرتكم بشيء فأتوا منه ما استطعتم، وإذا نهيتكم عن شيء فدعوه" 
(بخاری 7288، مسلم 1337 یہ مسلم کے الفاظ ہیں) 
جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو بقدر استطاعت اسے کرو اور جب کسی چیز سے منع کروں تو اسے چھوڑ دو. 

نیز فرمایا: 
" بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا ( اور اس کی سختی نہ چل سکے گی ) پس ( اس لیے ) اپنے عمل میں پختگی اختیار کرو۔ اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتو اور خوش ہو جاؤ ( کہ اس طرز عمل سے تم کو دارین کے فوائد حاصل ہوں گے ) اور صبح اور دوپہر اور شام اور کسی قدر رات میں ( عبادت سے ) مدد حاصل کرو" 
(صحیح بخاری: 39) 

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: 
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے لیے کہا گیا تو آپ نے ہمیشہ اسی کو اختیار فرمایا جس میں آپ کو زیادہ آسانی معلوم ہوئی بشرط یہ کہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو. 
(بخاری 3560، مسلم 2327) 

ان تمام آیات و احادیث اور اجماع صحابہ و سلف امت سے یہ قاعدہ بلکل واضح اور ثابت ہو جاتا ہے کہ جہاں بھی مشقت آئے گی وہاں اسے دور کرنے کے لیے شرعی سہولیت بھی حاضر ہو جائے گی بشرط یہ کہ وہ مشقت حقیقتاً شرعی نقطہ نگاہ سے مشقت ہو. 

موسم سرما میں سہولیات 
````````````````````````````````؛ 

اب ہم موسم سرما میں شرعی سہولیات کے چند مظاہر کو دلائل کی روشنی میں ذکر کریں گے ملاحظہ فرمائیں: 

 اول
``````؛
 سخت ٹھنڈی کی وجہ سے گرم پانی سے وضو کا جواز: 

شریعت اسلامیہ میں گرم پانی بھی عام پانیوں ہی کی طرح ہے جس میں طاہر و مطہر دونوں وصف موجود رہتا ہے، گرم ہونے کے باوجود اس کے وصف طہوریت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی گرچہ وہ اپنی اصل حقیقت و خلقت پر باقی نہیں رہتا- 

چنانچہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
"گرم پانی من جملہ ان پانیوں میں سے ہے جن سے لوگوں کو طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے... اور (سلف صالحین میں سے) جن سے ہم نے گرم پانی سے وضو کا جواز نقل کیا ہے ان میں عمر بن خطاب، ابن عمر، ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم ہیں-" 
(الأوسط لابن المنذر 1/250) 

لہذا خواہ ٹھنڈا پانی استعمال کرنے میں پریشانی ہو یا نہ ہو ہر حال میں گرم پانی سے وضو کرنا جائز ہے. لیکن کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر گرم پانی کے بجائے مشقت برداشت کرتے ہوئے ٹھنڈے پانی سے وضو کریں گے تو یہ افضل ہوگا اور اس سے زیادہ ثواب ملے گا. یہ سراسر غلط فہمی کا نتیجہ ہے اگر دونوں قسم کا پانی موجود ہو یا ٹھنڈے پانی کو گرم کیا جا سکتا ہو تو گرم پانی سے وضو کرنا ہی افضل ہے کیونکہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم سے جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے لیے کہا گیا تو آپ نے ہمیشہ اسی کو اختیار فرمایا جس میں آپ کو زیادہ آسانی معلوم ہوئی بشرط یہ کہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو. 
(بخاری 3560، مسلم 2327) 

لہذا سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے سہولت اور آسانی کو ترجیح دینا ہی افضل ہے البتہ اگر گرم پانی موجود نہ ہو یا پانی گرم کرنے کے وسائل مہیا نہ ہوں تو ایسی صورت میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا بیش بہا فضائل کا حامل ہے. 

اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں: 
"تین چیزیں گناہوں کو مٹانے والی ہیں، تین چیزیں درجات کو بلند کرنے والی ہیں، تین چیزیں نجات دلانے والی ہیں اور تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں، جہاں تک گناہوں کو مٹانے والی چیزوں کا تعلق ہے تو وہ سخت ٹھنڈی کی حالت میں قاعدے سے مکمل طور پر وضو کرنا... ہے" 
(صحیح الترغیب 453 حسن لغیرہ) 

 دوم 
``````؛ 
 سخت ٹھنڈی کی وجہ سے وضو یا غسل جنابت کے بدلے تیمم سے طہارت حاصل کرنے اور نماز پڑھنے کا جواز: 

اللہ تعالٰی کا فرمان ہے: 
"اور اگر تم مريض ہو يا مسافر يا تم ميں سے كوئى ايک قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو، يا پھر تم نے بيوى سے جماع كيا ہو اور تمہيں پانى نہ ملے تو پاكيزہ اور طاہر مٹى سے تيمم كر لو. 
(المائدة 6) 

اس آيت ميں دليل ہے كہ جو مريض شخص پانى استعمال نہ كرسكتا ہو يا پھر اسے غسل كرنے سے موت كا خدشہ ہو، يا مرض زيادہ ہونے كا، يا مرض سے شفايابى ميں تاخير ہونے كا، يا پھر شديد سردى ميں پانى استعمال كرنے سے کسی کمزور و ناتواں اور بوڑھے شخص کو بیمار ہونے یا بيمارى ميں مزید اضافہ ہونے كا خدشہ ہو اور پانى گرم كرنے كے ليے كوئى چيز نہ ہو تو وہ تيمم كر لے. 

حضرت عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ: 
" غزوہ ذات سلاسل ميں شديد سرد رات ميں مجھے احتلام ہوگيا اس ليے مجھے يہ خدشہ پيدا ہوا كہ اگر ميں نے غسل كيا تو ہلاک ہو جاؤں گا اس ليے ميں نے تيمم كر كے اپنے ساتھيوں كو فجر كى نماز پڑھا دى، چنانچہ انہوں نے اس واقعہ كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے ذكر كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم فرمانے لگے: 
" اے عمرو كيا آپ نے جنابت كى حالت ميں ہى اپنے ساتھيوں كو نماز پڑھائى تھى ؟ 
چنانچہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم كو غسل ميں مانع چيز كا بتايا اور كہنے لگا كہ ميں نے اللہ تعالى كا فرمان سنا ہے: 
"اور تم اپنى جانوں كو ہلاک نہ كرو، يقينا اللہ تعالى تم پر رحم كرنے والا ہے". 
( النساء 29 ) 
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسكرانے لگے اور كچھ بھى نہ فرمايا "
(سنن ابی داود : 334 وصححہ الالبانی) 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں: 
" اس حديث ميں اس بات كا جواز پايا جاتا ہے كہ سردى وغيرہ كى بنا پر اگر پانى استعمال كرنے سے ہلاكت كا خدشہ ہو تو تميم كيا جا سكتا ہے، اور اسى طرح تيمم كرنے والا شخص وضوء كرنے والوں كى امامت بھى كروا سكتا ہے. 
( فتح البارى 1 / 454 )

 سوم 
``````؛ 
سخت ٹھنڈی کی وجہ سے موزوں، جرابوں، جوتوں، پگڑیوں اور عورتوں کے سروں پر بندھی چادروں پر مسح کا جواز: 

موزوں پر مسح کرنا بالاجماع جائز ہے بلکہ یہ اہل سنت کے خصائص میں سے ہے کیونکہ شیعہ رافضی حضرات موزوں پر مسح نہیں کرتے ہیں، اور موزہ خواہ کسی بھی چیز سے بنا ہو اور اس کی نوعیت خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہو جس پر بھی (خف) موزہ کا اطلاق ہوتا ہے اس پر مسح کیا جائے گا موٹا ہونا چاہیے یا چمڑے کا ہونا چاہیے یا اس طرح کی کوئی بھی شرط شریعت مطہرہ میں ثابت نہیں ہے. 

موزوں پر مسح کے دلائل احادیث نبویہ میں بالتواتر منقول و مروی ہیں جن میں سے بعض صحیحین اور بغض دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں 

امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
"ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مجھ سے بیان کیا کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم موزوں پر مسح کیا کرتے تھے". 
( الاوسط لابن المنذر 1/226) 

جرابوں (چمڑے کے علاوہ کپڑے وغیرہ سے بنا ہوا پیر کا لباس) اور جوتوں پر مسح کرنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے. 

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : 
"اللہ کے رسول نے وضو کیا تو موزوں اور جوتوں پر مسح کیا" 
(ابو داؤد 159، ترمذی 99، 
صححہ الالبانی فی الارواء ح: 101) 

اسی طرح اوس بن ابی اوس ثقفی اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی مرفوعا اللہ کے رسول کا جوتوں پر مسح کرنا ثابت ہے. 
(ملاحظہ فرمائیں: سنن ابی داؤد 150، صحیح ابن خزیمہ 109 و صححہما الالبانی رحمہ اللہ) 

اور حضرت علی و ابن عباس سے موقوفا ایسا کرنا ثابت ہے. 
(ملاحظہ فرمائیں مصنف عبد الرزاق 783 و 784، و صححہ الالبانی فی صحیح ابی داؤد 156) 

پگڑیوں پر مسح کی دلیل مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث 
"اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا تو اپنی پیشانی پگڑی اور موزوں پر مسح کیا. 
( بخاري 182، مسلم 274 واللفظ له). 

موزوں جرابوں جوتوں اور پگڑیوں پر مسح عام حالات میں بھی جائز ہے اور جواز کی علت بندوں کو بار بار اتارنے اور پہننے کی مشقت سے بچانا ہے لہذا ٹھنڈی کے موسم میں جب کہ مشقت مزید بڑھ جاتی ہے ان چیزوں کا مسح بدرجہ اولی جائز ہوگا-

 چہارم 
````````؛ 
 سخت ٹھنڈی کی وجہ سے گھروں میں نماز پڑھنے کا جواز: 

نافع حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سردی، ہوا اور بارش والی ایک رات میں اذان دی اور اذان کے آخر میں کہا: 
" سنو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو، سنو! گھروں میں نماز پڑھو،" 
پھر کہا: 
 جب سفر میں رات سرد یا بارش والی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موذن کو یہ کہنے کا حکم دیتے 
" أَلَا صَلُّوا فِی رحَالِکُم "
"سنو! اپنی قیام گاہوں میں نماز پڑھ لو۔" 
(بخاری 632، مسلم 1601) 

اسی طرح حضرت نعیم بن نحام رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: 
ایک ٹھنڈی والے دن فجر کی اذان دی گئی اس حال میں کہ حضرت نعیم اپنی بیوی کے چادر میں تھے تو انہوں نے کہا کاش موذن کہتا کہ جو شخص گھر میں رہ جائے اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے تو اللہ کے رسول کے موذن نے اذان کے اخیر میں کہا 
"من قعد فلا حرج" 
کہ جو شخص گھر میں رہ جائے اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے" 
(مصنف عبد الرزاق 1926، و صححہ الالبانی فی الصحیحۃ 2605) 

ان دونوں حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ اگر سخت ٹھنڈی کی وجہ سے گھروں سے نکلنا مشکل ہو یا بیماری یا کسی بھی قسم کی مشقت کا اندیشہ ہو تو بجائے مسجد کے گھروں میں نماز پڑھ لینا جائز ہے. 

امام نووی جماعت ترک کرنے کو جائز قرار دینے والے اعذار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
"سخت ٹھنڈی عذر ہے خواہ رات میں ہو یا دن میں، اور سخت گرمی عذر ہے ظہر کی جماعت کے لیے اور برف باری بھی عذر ہے اگر اس سے کپڑا بھیگ جائے" 
( المجموع 4/99) 

 پنجم 
````````؛ 
سخت ٹھنڈی کی وجہ سے جمع بین الصلاتین کا جواز: 

اگر جاڑے کی شدت کی وجہ سے بار بار مسجد میں جمع ہونا لوگوں کے لیے مشقت پریشانی اور حرج کا باعث ہو تو ایسی صورت میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے ایک ہی وقت میں پڑھ لینا جائز ہے. 
 
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر، عصر اور مغرب، عشاء کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کیا. وکیع کی روایت میں ہے(سعید نے) کہا: 
 میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: 
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کیوں کیا؟ 
انھوں نے کہا: 
تاکہ اپنی امت کو دشواری میں مبتلا نہ کریں اور ابو معاویہ کی حدیث میں ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا: 
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا چاہتے ہوئے ایسا کیا؟ 
انہوں نے کہا: 
 آپ نے چاہا کہ اپنی امت کو دشواری میں نہ ڈالیں۔
(صحیح مسلم : 1632) 

اس حدیث میں مذکور ہے کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے بغیر کسی عذر کے ایسا کیا تھا اس وجہ سے بعض علما بلا کسی معقول عذر کے بھی محض انسانی حاجات کی وجہ سے جمع بین الصلاتین جائز سمجھتے ہیں جیسے ابن عباس، ابن سیرین، اشہب قفال شاشی، ابو اسحاق مروزی اور امام ابن المنذر وغیرہم لیکن راجح قول کے مطابق اگر کسی قسم کی پریشانی یا حرج میں واقع ہونے کا خدشہ ہو. جیسا کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آپ نے ایسا اس لیے کیا تاکہ اپنی امت کو دشواری میں نہ ڈالیں. تبھی جمع بین الصلاتین جائز بلکہ سنت و مستحب ہے. 

چونکہ سخت ٹھنڈی جس سے انسان کو ضرر لاحق ہونے کا خطرہ ہو عذر ہے لہذا اس کی وجہ سے بھی جمع بین الصلاتین جائز ہے چنانچہ اس کا جواز حضرت عبد اللہ بن عمر سے ثابت ہے، اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ، شیخ ابن عثیمین شیخ عبید الجابری، شیخ سلیمان الماجد اور شیخ ولید بن راشد السعیدان نے بھی جواز کا فتویٰ دیا ہے. 
( ملاحظہ فرمائیں: مجموع الفتاویٰ 24/29 موقع الشیخ ابن عثیمین، موقع میراث الانبیاء... ) 

 ششم 
```````؛ 
 سخت ٹھنڈی کی وجہ سے ہیٹر کی طرف منھ کر کے نماز پڑھنے کا جواز: 

 آگ کے پرستار مجوسیوں کی مشابہت کی وجہ سے آگ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا حرام ہے لیکن گرمی حاصل کرنے کے لیے ہیٹر کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا جائز ہے. 

 ہفتم 
``````؛ 
 منھ ڈھانپ کر نماز پڑھنے کا جواز: 

حدیث کے اندر وارد ہے: 
"اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے نماز میں سدل کرنے اور منھ ڈھانپ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے" 
( صحیح ابن حبان 2353، سنن ابی داود 643، ترمذی 387، و صححہ الالبانی) 
یہ حدیث میرے نزدیک ضعیف ہے جیسا کہ امام ابن باز نے اس سلسلے میں وارد تمام احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے البتہ جو لوگ اسے صحیح سمجھتے ہیں ان کے حساب سے عام حالات میں سدل کرنا اور منھ ڈھانپ کر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے. 
سدل کہتے ہیں کسی کپڑے کو بدن پر ڈال کر اس کے دونوں اطراف کو ایک دوسرے کے ساتھ ملایا نہ جائے... 
 لیکن شدید ٹھنڈی کی وجہ سے سے اگر کوئی شخص منھ ڈھانپ کر نماز پڑھتا ہے تو المشقۃ تجلب التیسیر کے تحت یہ بھی جائز ہے. 
ان کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں ہیں لیکن طوالت کے خوف سے انہیں کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب و سنت کو صحیح سے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین. 

.

منگل، 17 نومبر، 2020

ناخن کاٹنے میں انگلیوں کی ترتیب شیخ محمد معاذ عمری نذیری

.

   ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ
••━━••✠✠✥✥•••✥✥✠✠••━━•

ناخن کاٹنے میں انگلیوں کی ترتیب 

شیخ محمد معاذ عمری نذیری 

~~~~~~~~~~~~؛

ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﻭﺣﺪﻩ، ﻭﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﻻ ﻧﺒﻲ ﺑﻌﺪﻩ، ﻭﺑﻌﺪ !

ﺁﭖ ﻧﮯ ﺟﻮ ﭘﻮﺳﭧ ﺍﺭﺳﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﯿﺮ ﮐﮯ ﻧﺎﺧﻦ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﮐﮯ ﺁﺩﺍﺏ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﺧﻦ ﭘﮭﺮ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ۔۔۔۔۔ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺁﺩﺍﺏ ﺳﻨﺖِ ﻣﻄﮩﺮﮦ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﮨﮯ !

 ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺕ 
ﻧﺎﺧﻦ ﮐﺎﭨﻨﺎ ﺍﻣﻮﺭ ﻓﻄﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ، ﺟﺴﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ‏ (ﺳُﻨﻦُ ﺍﻟﻔﻄﺮﺓ) ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔

ﺩﯾﻦِ ﺍﺳﻼﻡ ﺩﯾﻦِ ﻓﻄﺮﺕ ﮨﮯ، ﺍﺳﻼﻡ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻭ ﺑﺪﻧﯽ ﮨﺮ ﺩﻭ ﮐﯽ ﺗﻄﮩﯿﺮ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ، ﻗﻠﺒﯽ ﻭ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﯾﻌﻨﯽ ﺷﺮﮎ ﮐﯽ ﺁﻟﻮﺩﮔﯽ ﺳﮯ ﺗﻄﮩﯿﺮ، ﺍﻭﺭ ﺑﺪﻧﯽ ﺗﻄﮩﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﺮ ﺩﻭ ﭘﮩﻠﻮ ﺳﮯ ﺟﻤﺎﻝ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮨﮯ۔
ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﺱ ﻗﻠﺒﯽ ﻭ ﺑﺪﻧﯽ ﺟﻤﺎﻝ ﺳﮯ ﮐﺎﻣﻞ ﺗﮭﮯ، ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺍﻗﺘﺪﺍﺀ ﮐﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ : ﴿ﻓَﺒِﻬُﺪَﺍﻫُﻢْ ﭐﻗْﺘَﺪِﻩْ﴾ ‏ 
( ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ : 90 ‏) .

 ﺍﺑﻮ ﮬﺮﯾﺮﮦ‏ ( ﺕ 59 ﮪ ‏) ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
» ﺍﻟﻔِﻄْﺮَﺓُ ﺧَﻤْﺲٌ : ﺍﻟﺨِﺘَﺎﻥُ، ﻭَﺍﻟِﺎﺳْﺘِﺤْﺪَﺍﺩُ، ﻭَﻗَﺺُّ ﺍﻟﺸَّﺎﺭِﺏِ، ﻭَﺗَﻘْﻠِﻴﻢُ ﺍﻷَﻇْﻔَﺎﺭِ، ﻭَﻧَﺘْﻒُ ﺍﻵﺑَﺎﻁِ .«
 ‏( ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻴﻪ : ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ : 5891 ، ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ : 257 ‏) .

ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﻣﯿﮟ » ﺗَﻘْﻠِﻴﻢُ ﺍﻷَﻇْﻔَﺎﺭِ « ﯾﻌﻨﯽ ‏( ﻧﺎﺧﻦ ﮐﺎﭨﻨﺎ ‏) ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﻨﻦ ﺍﻟﻔﻄﺮۃ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔

 ﻧﻮﭦ 
ﺭﺍﺟﺢ ﻗﻮﻝ - ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ - ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻧﺎﺧﻦ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ‏ ( ﺳﻨﺖ) ﮨﮯ۔
ﺍﻣﺎﻡﻧﻮﻭﯼ‏ ( ﺕ 676 ﮪ ‏) ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ‏ ( ﺍﻟﻤﻨﻬﺎﺝ : ٣/ ١٦٥ ‏) ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ :
 ﻭﺃﻣَّﺎ ﺗﻘﻠﻴﻢُ ﺍﻷﻇﻔﺎﺭِ ﻓﺴُﻨَّﺔٌ ﻟﻴﺲ ﺑﻮﺍﺟﺐٍ .

 ﻓﺎﺋﺪﮦ: 
ﺍﻣﺎﻡ ﻧﻮﻭﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻔﯿﺪ ﺑﺎﺕ ﺫﮐﺮ ﮐﺌﮯ ﮨﯿﮟ، ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ :
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﻧﮯ ﺟﻮ‏ ( ﺳﻨﻦ ﺍﻟﻔﻄﺮۃ) ﺑﺘﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺳﻨﺖ ﻭ ﺍﺳﺘﺤﺒﺎﺏ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ 
ﯾﻌﻨﯽ ﮐﭽﮫ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﺫﮐﺮ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ‏( ﺣﮑﻢ ‏) ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮨﻮ۔ 

 ﻣﺜﻼً : 
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﴿ﻛُﻠُﻮﺍ ﻣِﻦْ ﺛَﻤَﺮِﻩِ ﺇِﺫَﺍ ﺃَﺛْﻤَﺮَ ﻭَﺁﺗُﻮﺍ ﺣَﻘَّﻪُ ﻳَﻮْﻡَ ﺣَﺼَﺎﺩِﻩِ﴾ ‏
( ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ : ١٤١ ‏) .

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﴿ﻭَﺁﺗُﻮﺍ﴾ ﻭﺟﻮﺏ ﭘﺮ ﺩﻻﻟﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﴿ﻛُﻠُﻮﺍ﴾ ﻭﺍﺟﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺣﮑﻢ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﯿﮟ۔

 ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺕ 
ﻧﺎﺧﻦ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﻧﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﺤﺪﯾﺪ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ .

 ﺍﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ‏( ﺕ 93 ﮪ ‏) ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺍﻣﻮﺭ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺩﻥ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ 

ﺍﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ :
» ﻭُﻗِّﺖَ ﻟَﻨَﺎ ﻓِﻲ ﻗَﺺِّ ﺍﻟﺸَّﺎﺭِﺏِ، ﻭَﺗَﻘْﻠِﻴﻢِ ﺍﻟْﺄَﻇْﻔَﺎﺭِ، ﻭَﻧَﺘْﻒِ ﺍﻟْﺈِﺑِﻂِ، ﻭَﺣَﻠْﻖِ ﺍﻟْﻌَﺎﻧَﺔِ، ﺃَﻥْ ﻟَﺎ ﻧَﺘْﺮُﻙَ ﺃَﻛْﺜَﺮَ ﻣِﻦْ ﺃَﺭْﺑَﻌِﻴﻦَ ﻟَﻴْﻠَﺔً . 
‏(ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ : ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﻄﻬﺎﺭﺓ . ﺭﻗﻢ : 258 ‏) .

 ﺗﻨﺒﯿﮧ: 
ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺩﻥ ﯾﮧ ﺁﺧﺮﯼ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ، ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺑﺲ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺗﺠﺎﻭﺯ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺗﻨﺒﯿﮧ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ 

ﺍﻣﺎﻡﻧﻮﻭﯼ رﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ‏ ( ﺍﻟﻤﻨﻬﺎﺝ : ٣/١٦٥ ‏) ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ :
ﻓﻤﻌﻨﺎﻩ ﻻ ﻳُﺘﺮَﻙُ ﺗﺮْﻛﺎً ﻳَﺘَﺠﺎﻭﺯُ ﺑﻪ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﻻ ﺃﻧَّﻬﻢ ﻭﻗَّﺖ ﻟﻬﻢ ﺍﻟﺘَّﺮْﻙَ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ، ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ .

 ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺑﺎﺕ 
ﺭﮨﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﺎﺧﻦ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﮐﮯ ﺁﺩﺍﺏ ﮐﺎ ﺗﻮ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﯽ ﺑﺎﺕ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﻧﺎﺧﻦ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﭘﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔ 

ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺍﻥ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯽ ﮔﺌﯽ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻤُّﻦ ﮐﯽ ﺑﺎﺑﺖ ﺯﻭﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﮐﺎ ﻋﺎﻡ ﻭﺻﻒ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔

ﺍﻡ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦﻋﺎﺋﺸﮧ‏ ( ﺕ 57 ﮪ ‏) ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ :
» ﻛَﺎﻥَ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﷺ ﻳُﺤِﺐُّ ﺍﻟﺘَّﻴَﻤُّﻦَ ﻓِﻲ ﺷَﺄْﻧِﻪِ ﻛُﻠِّﻪِ، ﻓِﻲ ﻧَﻌْﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺗَﺮَﺟُّﻠِﻪِ ﻭَﻃُﻬُﻮﺭِﻩِ .«

ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﻣﯿﮟ، ﺍﭘﻨﮯ ﺟﻮﺗﮯ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻣﯿﮟ، ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻨﮕﮭﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻭُﺿﻮﺀ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ 
ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ‏ ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻴﻪ ﮨﮯ، ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢﮐﯽ ‏( ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﻄﻬﺎﺭﺓ، ﺭﻗﻢ : 268 ‏) ﺳﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻘﻞ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻻﺋﯽ ﮔﺌﯽ ہے. 

 ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺑﺎﺕ 
ﮨﻢ ﺑﺤﯿﺜﯿﺖِ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﺲ ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﮑﻠﻒ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻧﺎﺧﻦ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺩﻥ ﺁﺧﺮﯼ ﻣﯿﻌﺎﺩ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮩﺮ ﺣﺎﻝ ﺗﺠﺎﻭﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔

ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﺷﺪﮦ ﺍﻣﺮ ﮨﮯ، ﺑﺎﻋﺚِ ﺍﺟﺮ ﻭﺛﻮﺍﺏ ﮨﮯ۔

ﺭﮨﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮭﺮ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﮭﺮ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ۔۔۔۔۔۔ ﯾﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﮨﻢ ﺍﺱ ﺍﻣﺮ ﮐﮯ ﻗﻄﻌﺎً ﻣﮑﻠﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺴﺘﺰﺍﺩ ﯾﮧ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺲ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﺧﻦ ﭘﮭﺮ ﮐﺲ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﭨﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﺐ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺘﻨﺪ ﮨﯿﮟ۔

ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻮ ﺍﻟﻔﻀﻞ ﺯﯾﻦ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﯿﻢ ﺍﻟﻌﺮﺍﻗﻲ‏ (ﺕ 806 ‏) ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ‏(ﻃﺮﺡ ﺍﻟﺘﺜﺮﻳﺐ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ ﺍﻟﺘﻘﺮﻳﺐ : ١ /٤٠٧ ‏) ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ :
 ﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﻓﻲ ﻛﻴﻔﻴَّﺔِ ﺗﻘﻠﻴﻢ ﺍﻷﻇﻔﺎﺭِ ﺣﺪﻳﺚٌ ﻳُﻌﻤﻞُ ﺑﻪ .
 
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺣﺎﻓﻆ ﻋﺮﺍﻗﯽ ﮐﮯ ﺗﻠﻤﯿﺬ ﺷﺎﺭﺡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺣﺎﻓﻆ اﺑﻦ ﺣﺠﺮ‏ ( ﺕ 852 ‏) ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ‏(ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﻱ : ١٣ / ٤٠٢ ، ﺩﺍﺭ ﻃﻴﺒﺔ ‏) ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ :
 ﻭﻟﻢْ ﻳَﺜﺒُﺖْ ﻓﻲ ﺗﺮﺗﻴﺐِ ﺍﻷﺻﺎﺑﻊِ ﻋﻨﺪ ﺍﻟﻘﺺِّ ﺷﻲﺀٌ ﻣﻦ ﺍﻷﺣﺎﺩﻳﺚِ .

 ﺁﺧﺮﯼ ﺑﺎﺕ 
ﻧﺎﺧﻦ ﮐﺎﭨﻨﺎ ﻓﻄﺮﯼ ﺍﻣﺮ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﻣﺴﺘﺤﺐ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺟﺮ ﻭﺛﻮﺍﺏ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺮ ﻋﮑﺲ ﻧﺎﺧﻦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻣﺸﺎﺑﮩﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﯽ ﻣﺸﺎﺑﮩﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﻻﺯﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﺍﺗﺒﺎﻉ ﺳﻨﺖ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔

 ﻣﺤﻤﺪ ﻣﻌﺎﺫ ﺃﺑﻮ ﻗﺤﺎﻓﺔ 
٢٠ ﺭﺑﻴﻊ ﺍﻷﻭﻝ ١٤٤٢ﮪ، ﻟﻴﻠﺔ ﺍﻟﺴﺒﺖ . 

.

اتوار، 15 نومبر، 2020

لعنت ‏بھیج ‏کر ‏شئیر ‏کریں ...‏

.

🌙••┈┈••◈• ﷽ •◈••┈┈•• 🌙 

👈 ایک ضروری اصلاح 👉

کفار مکہ نے بہت سے اشعار لکھے  ..
جن میں حضورؐ کی گستاخی و توہین کی کوشش کی گئی تھی 
لیکن 
وہ اشعار ہم تک نہیں پہنچے ...

کیوں ؟؟؟
کیونکہ 
صحابہ کرام نے وہ اشعار نہ ہی یاد کئے ...
اور نہ ہی شئیر کئے ...
اس طرح وہ سارے اشعار فنا ہو گئے. 

آج کل یہ  
دیکھنے میں آرہا ھے کہ گستاخانہ مواد کو کفار سے زیادہ مسلمان پھیلا رہے ہیں ۔۔۔۔
اور وہ یوں کہ ۔۔۔۔۔

کفار ایک گستاخانہ خاکہ یا تصویر بناتے ہیں اور اوپر لکھ دیتے ہیں کہ : 

لکھنے یا بنانے والے پر لعنت بھیج کر شیئر کریں۔۔. 


اب  کفار کا کام ختم 
اور مسلمانوں کا کام شروع ہو جاتا ہے ...

اس کے بعد مسلمان لعنت بھیجنے کے چکر میں ایسے شروع ہوجاتے ہیں کہ پوری دنیا میں یہ گستاخانہ مواد پہنچ جاتا ہے. 

حل ۔۔۔
کوئی بھی گستاخانہ مواد، خاکہ، تصویر یا کسی فلم کا ٹکرا 
یا کوئی ایسی چیز آپ تک پہنچے !!!...
تو آپ خود اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے ...
صحابہ کرام کے راستے پر چلیں ...

بغیر دیکھے، 
بغیر کسی کو شیئر کیے، 
فوراً اسے  ڈیلیٹ کر دیں ۔

لعنتی تو لعنتی ھے، 
اس کو لعنت بیجھنے سے کیا فرق پڑے گا ؟؟؟... 

ہماری بیوقوفی کی وجہ سے گستاخانہ مواد کی پوری دنیا میں تشہير ہو جاتی ہے اور 
کفار کا مقصد پورا ہو جاتا ہے. 
ہمیں چاہئے کہ ھم ایسا مواد آگے مزید شیئر کرنے کی بجائے اسے 
Hide ''یا Delete 
کردیں، 
 اس پوسٹ پر اور اس کی آئی ڈی پر رپورٹ کر دیں 
تاکہ گستاخانہ مواد کی تشہير رک جائے اور کفار کا مقصد ناکام ہو جائے ...

اگر مذکورہ تجویز معقول نظر آئے تو اس کو آگ ضرور شئیر کریں. 

قلم کار: نامعلوم 

.

جمعہ، 13 نومبر، 2020

بلیک ‏ڈے ‏وائیٹ ‏ڈے ‏عزیر ‏ادونوی

.

***بسم اللہ الرحمن الرحیم****

◼ بلیک ڈے Black Day ◼

🖊️ سید محمد عزیر ادونوی، ایم. اے. 

🔸🔹🔸🔹🔸🔹🔸🔹

ایک مسلمان کا ہر وہ دن بلیک ڈے ہے، 

جس میں اس نے اللہ اور اس کے رسول کی بڑی بڑی نافرمانیاں کیں 

شرک کر کے 
یا نماز چھوڑ کر کے 
یا بدعات کر کے 
یا دھوکہ دہی کر کے 
یا فلم بینی اور ناچ گانا سن کر کے 
🍤 یا غیبت اور چغلی کر کے 
🔪 یا دوسروں کا حق مار کے 
یا جوا کھیل کے 
یا دوسروں کی ٹانگ کھینچ کر کے 
🍷 یا شراب پی کر .....وغیرہ 

⚫ گناہ کر کر کے اس کا ہر دن اس کے نامئہ اعمال میں بلیک ڈے بن چکا ہے اور وہ جھنم سے قریب ہو چکا ہے 

💥 اس کی اسے کوئی فکر نہیں رہی 

⬛ بس صرف چھ دسمبر کو بلیک ڈے سمجھ بیٹھا ہے اور بس صرف اسی کی ایک اس کو فکر لگی رہتی ہے 

صرف 6-12 کو بلیک ڈے منانے سے کام نہیں چلے گا جب تک مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان نہیں بنے گا 6-12 منانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا 

مسلمان جب حقیقی مسلمان، مؤمن، ایماندار بن جائےگا تو وہ دونوں عالم میں کامیاب ہو جائے گا، مسجد بھی اسے حاصل ہوجائئے گی دنیا کی حکومت بھی اس کے قدموں میں ہوگی ...

ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان 
اپنے ہر دن کو جو کہ بلیک ڈے بن کر گزر رہا ہے، گناہ کر کر کے، 

⛅ اس کو وائیٹ ڈے میں تبدیل کر لے، گناہوں کو چھوڑ کر کے، 
اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانیاں چھوڑ کر کے، نیکوکار، بااخلاق خیر خواہ بن کر کے 

افسوس 
افسوس 

دھول چہرے پر تھی 
آئینہ صاف کرتا رہا 

اقوال عزیر ادونوی 
01-12-2014 


~~~~~~~~~~~~~; 

◼ Black Day ◼

🖊️Syed Md. Uzair Adonvi, M.A. 

🔸🔹🔸🔹🔸🔹🔸🔹

Ek Musalman ka har wo din black day hy

Jisme osne Allah Rasul ki badi badi naafarmania ki

Shirk karke
Ya Namaz chord kerke
Ya Bid-aat karke 
Ya Dhoka-dahi karke
Ya FilmBini aur Naach Gaana sunkar ke 
🍤 Ya Ghibat choghli karke
🔪 Ya Doosro ka haq marke 
Ya Juwwa kheal kar
🍷Ya Sharaab pikar ...waghaira 

⚫ Gunah kar kar ke oska har din oske nama e aamaal me black day ban chuka hy aur wo jahannam se qarib hochuka hy

💥 Iski isay koi fikar nahi rahi

⬛ Bus Sirf 6 December ko black day samajh baitha hy aur bus sirf isi ki ek isko fikar lagi rehti hy

Sirf 6 -12 ko black day mananay say kaam nahi chalega jabtak musalman sahi maanay me musalman nahi banega 6 - 12 mananay ka kuch faeda nahi hoga

Musalman jab haqiqi musalman, momin, emandar ban jaega towo dono aalam me kaamyab hojaega

Masjid bhi osay haasil hojaegi, dunya ki hukumat bhi oske qadmo me hogi ...

Zarurat is baat ki hy ke musalman 

Apne har din ko jo ke black day bankar guzar raha hy, gunah karkar ke 

⛅ Osko white day me tabdeel karle, gunaho ko chord kar
ke, 
Allah aur oske Rasool ki nafarmani chordkar ke, nekokar , ba-akhlaq, khairkhuah ban kerke. 

Afsoass 
Afsoass 

Dhool chehre per thi
Aina saaf karta raha.

Aqwalay Uzair Adonvi.
01-12-2014 


.

پیر، 9 نومبر، 2020

اہل حدیث کا وجود کب سے ہے ؟ شیخ کفایت اللہ سنابلی ‏

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
✿  ✿  ✿  ✿  ✿  ✿  ✿  ✿؛

اہل حدیث کا وجود کب سے ہے ؟ 
 
⁦✍️⁩ فضیلۃ الشیخ کفایت اللہ سنابلی 

؛~~~~~~~~~~~~~

اس سوال کے جواب میں بہت سارے لوگ غلط رخ پر تحقیق کرنے لگتے ہیں ، اور نام ’’اہل حدیث‌‘‘ کے پیچھے پڑجاتے ہیں‌ کہ یہ نام کب سے استعمال ہورہا ہے !!!

سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی چیز کے وجودکی تاریخ معلوم کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ کیا کسی چیز کی تاریخ اس کے نام کے ذریعہ معلوم کی جاتی ہے یا اس کی خوبیوں واوصاف اورمادے کے ذریعہ ؟

سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے وجود کی تاریخ معلوم کرنا ہو تو صر ف اس کے نام سے یہ چیز ہرگزمعلوم نہیں کی جاسکتی ، بلکہ ہمیں اس کے اوصاف اورخوبیوں اورمادوں کو دیکھ کر ہی پتہ لگانا ہوگا کہ اس چیز کا وجود کب سے ہے؟
آئیے اسی بات کوہم چندمثالوں سے سمجھتے ہیں ۔

سرزمین کی مثال :
سرزمین کی مثال لیجئے اگرکوئی پوچھے کہ دنیا میں سرزمین پاکستان کا وجود کب سے ہے ؟ توکیا اس کا جواب یہ ہوگا کہ تقسیم ہندکے بعد؟ کیا تقسیم ہند سے پہلے اس سرزمین کا وجود نہ تھا؟ یقینا اس سرزمین کا وجود تھا لیکن اس کانام پاکستان بعدمیں پڑا اوربعد میں یہ الگ نام پڑجانے سے یہ سرزمین نئی نہیں ہوجائے گی۔

شہرکی مثال:
ہندوستان کا شہر ممبئی پوری دنیا میں مشہور ہے اگرکوئی سوال کرے کہ ہندوستان میں اس کا وجود کب سے ہے توکیا یہ جواب دیا جائے گا کہ سترہ اٹھارہ سال سے ؟ کیونکہ اس سے قبل اس کا نام ''بمبئی '' تھا ''ممبئی '' نہیں ، یقینا ''ممبئی '' یہ نیا نام ہے،تو کیا اس شہر کے نام میں تبدیلی آجانے اس شہر کے وجود کی تاریخ بدل جائے گی؟ ہرگز نہیں۔

اشخاص کی مثال:
بہت سارے لوگ اسلام قبول کرتے ہیں تو مسلمان ہونے کے بعد اپنا نام بدل دیتے ہیں ، یعنی عبداللہ یا عبدالرحمن وغیرہ نیا نام رکھ لیتے ہیں ، تو کیا اس نئے نام کی وجہ سے ان کی تاریخ پیدائش بھی بدل جائے گی؟
ایک نومسلم جس نے قبول اسلام کے بعد اپنا نام عبداللہ رکھ لیا اگرکسی سے سوال ہوکہ اس دنیا میں وہ کب سے ہے؟ توکیا وہ تاریخ بتلائی جائے گی جب اس نے عبداللہ نام رکھا یا وہ تاریخ جب وہ پیدا ہوا؟

مذہب کی مثال:
اگوکوئی سوال کرے کہ ''کرسچن'' (Christian )مذہب اس دینا میں کب سے ہے توکیا یہ جواب دیا جائے گا ، کہ جب سے اس لفظ کا وجود ہواہے؟ یا یہ کو جب سے عیسی علیہ السلام کی بعثت ہوئی ہے؟ یقینا مذہب عیسائیت کا یہ نام بعد میں اختیار کیا گیا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے قبل اس مذہب کا وجود نہ تھا۔

عود الی المقصود:
مسلک کا بھی یہی معاملہ ہے۔
کسی مسلک کے نئے پرانے کا فیصلہ اس کے نام سے ہرگزنہیں ہوگا بلکہ اس کے منہج ،عقائد اوراصولوں سے ہوگا، اگرکوئی گروہ نئے منہج اوراصولوں کا پا پند ہوتو وہ بھلے اپنے لئے کوئی پرانہ نا م منتخب کرلے ایسا کرنے سے اس کا مسلک پرانا نہیں ہوجائے گا، اسی طرح اگرکوئی گروہ قدیم منہج اوراصولوں پرگامزن ہوتو گرچہ وہ اپنے لئے کوئی نیا نام چن لے اس سے اس کا مسلک نیا نہیں ہوجائے گا،اس لئے جب بھی یہ پتہ لگانا ہو کہ کون سامسلک کب سے ہے تو اس کے نام کے پیچھے پڑنے کے بجائے اس کے منہج اوراصول کا پتہ لگائیے کہ ان کا وجود کب سے ہے ،اگرمنہج اوراصول نیا ہے تو مسلک نیا ہے اوراگرمنہج واصول قدیم ہے تو مسلک بھی قدیم ہے۔
جہاں تک نام کا معاملہ ہے تویہ ایک الگ مسئلہ ہے اس پر صر ف اس پہلو سے گفتگو ہوسکتی ہے کہ یہ نام درست ہے یا نہیں ، لیکن یہ چیزقدامت وحداثت کی دلیل کبھی نہیں بن سکتی۔
یعنی اگرنام نیا ہو لیکن عقائدواصول قدیم ہوں تو مسلک قدیم ہی ہوگا، اوراگر نام قدیم ہولیکن عقائدواصول نئے ہوں تو مسلک نیا ہی ہوگا، پرانا نام رکھ لینے سے نہ توکوئی جدید مسلک قدیم ہوجائے گا اورنا ہی نیا نام رکھ لینے سے کوئی قدیم مسلک جدید بن سکتاہے،بہرحال مسلک کے ناموں کا ان کے وجود کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہوتاہے۔

اب اگر مسلک اہل حدیث کی تاریخ دیکھنی ہو اور یہ معلوم کرناہوکہ یہ مسلک کب سے ہے تو اس مسلک کے عقائد واصول دیکھیں ان کا منہج وطرزاستدلال دیکھیں ، ان کے دینی اعمال کی کیفیت دیکھیں ، ان کی نماز دیکھیں ، ان کا رزہ وحج دیکھیں ان کا ہر دینی عمل دیکھیں ۔ 

اس کے بعد پھر پتہ لگائیں کہ عہدنبوت میں ان کے عقائدواصول کا وجود تھا یا نہیں؟ عہدنبوت میں ان کے منہج وطرزاستدلال کا وجودتھا یا نہیں، ان کے دینی اعمال، عہدنبوی کے اعمال سے موافقت رکھتے ہیں یا نہیں ، اگرہاں اوربے شک ہاں تو یہ مسلک قدیم ہے ، اس کا وجود عہدنبوی سے ہے والحمدللہ۔ 

اسی کسوٹی پر ہرمسلک کی تاریخ معلوم کی جانی چاہئے، دیگرجنتے بھی مسالک ہیں خواہ ان کے نام نئے ہوں یاپرانے ،ان کے عقائد واصول اورمنہج دیکھیں گے توعہدنبوی میں ان کا ثبوت قطعانہیں ملے گا، بلکہ یہ خوبی صرف اورصرف مسلک اہل حدیث کی ہے کہ اس کا ہرعقیدہ واصول کا عہدنبوی میں واضح طورثبوت پر ملتاہے۔ 

الغرض یہ کہ مسلک اہل حدیث کوئی نیا مسلک نہیں ہے ، دنیا کا کوئی بھی شخص اسے نیا ثابت نہیں کرسکتا زیادہ سے زیادہ اس بات پرحجت کرسکتاہے کہ یہ نام کب سے چل رہاہے۔
لیکن جیسا کہ عرض کیا گیاکہ اگریہ فرض بھی کرلیں کہ یہ نام عصرحاضر میں اختیا رکیا گیاہے (حالانکہ اس نام کی قدامت پر بے شمارشواہد موجودہیں ) توبھی اس مسلک کو نیا مسلک نہیں باورکرایاجاسکتا، یہ باورکرانے کے لئے ضروری ہوگا کہ اہل حدیث کے منہج اورصحابہ کے منہج میں اختلاف ثابت کردیا جائے، اوریہ ناممکن ہے۔

لہذا مسلک ا ہل حدیث کا وجود تب سے ہے جب سے اس دنیا میں حدیث (فرمان الہی وفرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کا وجودہے کیونکہ یہی اہل حدیث کا عقیدہ واصول ہے، والحمدللہ

.

برکت کی قسمیں جو اللہ تعالی نے چیزوں میں رکھی ہے عبد الرحیم رستم الریاضی

.

*✿❁࿐❁✿​•─•﷽•─•✿❁࿐❁✿* 

برکت کی قسمیں جو اللہ تعالی نے چیزوں میں رکھی ہے 

 عبد الرحیم رستم الریاضی 

=========================== 

اللہ تعالی نے چیزوں میں جو برکت رکھی ہے اس کی دو قسمیں ہیں: 

پہلی قسم: 
ےےےےے 

 ذاتی برکت‏: 
 ''"""""""""""""""؛
 یعنی وہ برکت جو اللہ تعالی خاص شخصيات میں رکھی ہے۔
 
 یہ وہ برکت ہے جسے اللہ تعالی نے انبیاء اور رسولوں کے جسموں کو عطا فرمائی ہے، ہر نبی کی امت کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے نبی کے جسم، پسینہ اور بالوں سے تبرک حاصل کرے، کیوں کہ اللہ تعالی نے ان کے جسموں کو با برکت بنایا ہے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم بابرکت تھا، صحابہ کرام ان کے بال وغیرہ سے تبرک حاصل کرتے تھے۔ 
 
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمی جمار کیا، ہدی کا جانور ذبح کیا، اپنے سر کا بال منڈ وائے، نائی کی طرف اپنے سرکا دایاں حصہ بڑھایا، اس نے حلق کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ کو بلا کر بال ان کے حوالے فرمایا، پھر نائی کی طرف اپنے سر کا بایاں حصہ بڑھایا، اس نے حلق کیا، آپ نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا کیا اور ان سے فرمایا کہ ان بالوں کو لوگوں میں تقسیم کردو" 
( صحیح مسلم) 

اسی طرح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم : " جب وضو کرتے تھے تو صحابہ کرام اس پانی کو لینے کے لئے ٹوٹ پڑتے تھے" 
( صحیح بخاری) 
یہ ذاتی برکت صرف انبیاء اور رسولوں کے ساتھ خاص ہے۔ 


دوسری قسم: 
ےےےےےے 

 معنوی برکت:
''"""""""""""""""""؛
(ا) مسمان کی برکت: 
ہر مسلمان مبارک ہے اور یہ برکت اس کے اسلام، پرہیزگاری اور اتباع سنت کے طفیل میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں 
( إن من الشجرلما بركته كبركة المسلم) " 
ایک درخت ایسا ہے کہ اس کی برکت کی مثال مسلمان کی برکت کی مانند ہے" 
( صحیح بخاری) 

اس برکت کا تعلق عمل سے ہے، مسلمان جتنا ہی کتاب و سنت کی پابند ہوگا وہ اتنا ہی با برکت ہوگا، لہذا اہل علم و تقوی سے تبرک حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے علم، پرہیزگاری اور نیک اعمال کو دیکھا جائے اور ان جیسے بننے کی کوشش کی جائے، ان کے جسم کو چھو کر یا ان کے تھوک وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے کے صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا ہے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے نیک افراد ان میں موجود تھے جیسے حضرت ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم ۔ 

(ب) بعض مقامات کی برکت:
جیسے خانہ کعبہ، مسجد اقصی کے اطراف 
اللہ تعالی فرماتا ہے: 
(الذی بارکنا حولہ ) 
(الاسراء: 1) 
"جس کےآس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے" 
لہذا یہ مقامات رہنے اور عبادات کے لئے با برکت ہیں، اسی طرح حجر اسود اس شخص کے لئے با برکت ہے جو اتباع رسول صلی اللہ میں اللہ کی اطاعت کے پیش نظر اسے استلام کرے یا چومے 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو چومتے وقت فرمایا تھا: 
( إني أعلم أنك حجرلا تضر ولا تنفع ولولا أني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك ) 
"میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع، اگر میں نبی صلی اللہ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے ہرگز نہ چومتا " 
(صحیح بخاری و مسلم) 

(ت) بعض اوقات کی برکت: 
جیسے ماہ رمضان، ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ان دنوں میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان دنوں میں اللہ کی اطاعت اور حصول ثواب کے لئے جد و جہد کرے گا، اسے وہ عظیم اجر ملے گا جس کا حصول عام دنوں میں ممکن نہیں ۔

(ث) بعض درختوں کی برکت: 
جیسے کھجورکا درخت نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں 
( إن من الشجر لما بركته كبركة المسلم) " 
ایک درخت ایسا ہے کہ اس کی مثال مسلمان کی برکت کی مانند ہے" 
( صحیح بخاری ومسلم) 
اس میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اس کے پھل، ڈالی اور پتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

محتاج دعا: عبدالرحیم رستم الریاضی، دعوہ سنٹر مزاحمیہ، سعودی عرب۔ 

.