جمعہ، 31 جولائی، 2020

اڈوانس ‏عید ‏مبارک ‏اور ‏عید ‏کے ‏دن ‏مصافحہ ‏و ‏معانقہ ‏کا ‏حکم ‏مقالات ‏و ‏فتاوی

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

عید سے پہلے مبارکبادی 
عید کے دن مصافحہ اور معانقہ کا حکم 

مجموعہ مقالات و فتاوی 

جمع کردہ 
سید محمد عزیر ادونوی 

=================

پوسٹ نمبر ۱ 

ایک علمی گذارش :- 

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ  

    علماء کرام و پڑھے لکھے حضرات! 
    
 ابھی ھند و نیپال میں عید کی نماز ہوئی بھی نہیں اور مبارکبادی و تھنیئات کا انبار لگ گیا- کون عالم اور کون متعلم سارے برابر ہیں اس باب میں- 
 
      مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مدنی طلبہ حضرات بھی اس میں پیش پیش نظر آتے ہیں جبکہ ان کا ہمیشہ دلیل اور علم کے ساتھ چلنے کا شیوہ رہا ہے وہ کیسے عید کی نماز سے قبل مبارکبادی دے رہے ہیں- 

      نیز کچھ محققین علماء و طلاب بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھلنے سے چکے نہیں ہیں- 
       لیکن  کچھ علم دوست حضرات (جزاھم اللہ خیرا) شیخ فوزان و دیگر علماء کے فتاوے نقل کر بھی رہے ہیں لیکن مبارکبادی کے اس سیل رواں میں کس کو فرصت ہے کہ طائرانہ نظر ہی ڈال لیتے ان فتاوی پر- 
       
   علی کل حال :-  
بہت سارے علماء نے نماز عید سے قبل تہنیئہ اور مبارکبادی دینے کو محدثات میں شمار کیا ہے- لہذا ہم لوگ باز آجائیں اور جب کل عید کی نماز سے فارغ ہو جائیں تب جی بھر کر مبارکبادی پیش کردیں- 
     اللہ تعالی ہمیں صحیح اور درست باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- 
آمین 

اخوکم/ محمد مستقیم مدنی نیپال 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲ 

سوال 
 عید آنے سے ایک یا دو دن پہلے عید کی مبارک باد دینے کا کیا حکم ہے؟ 
 
 
جواب 
الحمد للہ 
عید کی مبارک باد دینا اچھا عمل ہے، کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی یہ عمل مروی ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن عقیل  رحمہ اللہ نے عید کی مبارک باد دینے کے متعلق کچھ احادیث ذکر کی  ہیں، جن میں یہ حدیث بھی ہے کہ محمد بن زیاد کہتے ہیں میں ابو امامہ باہلی  اور دیگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے ساتھ ہوتا تھا، چنانچہ جب صحابہ کرام نماز عید سے فارغ ہوتے تو ایک دوسرے کو کہتے "تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ" امام احمد اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی سند جید ہے" انتہی
" المغنی " (2/130)

صحابہ کرام کے اس منقول عمل سے یہی واضح ہوتا ہے کہ عید کی مبارک باد عید کی نماز کے بعد ہو گی، چنانچہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی بات پر اکتفا کیا جائے تو یہ اچھا ہے،  تاہم اگر دوستوں کو عید کی  نماز سے پہلے مبارک باد دے دے تو یہی لگتا ہے کہ ان شاء اللہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہو گا کیونکہ عید کی مبارک باد کا تعلق عادات اور عرف سے ہے،  اور شریعت میں عادات و عرف کا معاملہ عبادات سے کا وسیع ہے، کیونکہ عرف اور رواج کی بنیاد معاشرتی اقدار پر ہوتی ہے۔

چنانچہ شروانی  شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں 
" مؤلف  [ تحفۃ المحتاج] کی ذکر کردہ قید "عید کے دن" سے  یہ اخذ ہوتا ہے کہ عید کی مبارک باد ایام تشریق اور عید الفطر کے بعد  نہیں دی جا سکتی، لیکن لوگوں میں یہ رواج عام ہو چکا ہے کہ وہ ان دنوں میں بھی  عید کی مبارک باد دیتے ہیں، نیز عید کی مبارک باد دینے میں کوئی مانع بھی نہیں ہے؛ کیونکہ عید کی مبارک باد دینے کا مقصد  باہمی محبت میں اضافہ اس کا اظہار ہے ، نیز مؤلف کی اس قید سے یہ بھی  اخذ ہوتا ہے کہ  عید کی مبارک باد کا وقت فجر کے بعد داخل ہوتا ہے، عید کی رات سے نہیں، اگرچہ [تحفۃ المحتاج کے] کچھ حاشیوں میں  [فجر سے پہلے کا بھی ذکر ہے] انتہی
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ  اگر لوگوں میں چاند رات کو ہی عید کی مبارک باد دینے کا رواج ہو جائے تو اس میں بھی کوئی مانع نہیں ہے؛ کیونکہ عید کی مبارک باد دینے کا مقصد  باہمی محبت میں اضافہ اس کا اظہار ہے ، نیز اس [رات کو عید مبارک کہنے] کی  تائید عید کی رات میں تکبیرات کہنے سے بھی ملتی ہے" انتہی
"حواشي الشرواني على تحفة المحتاج" (2/57)

واللہ اعلم.
https://islamqa.info/ur/answers/192665/ 
 
~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۳ 

سوال: عیدین میں خطبۂ عید کے بعد عید مبارک کی ملاقات کرنا اور بغل گیر ہونے کا جو دستور ہے، شرعاً کیسا ہے؟

الجواب: بغل گیر ہونے کا کوئی ثبوت میرے علم میں نہیں ہے، البتہ تقبل اللہ منا و منک والی دعا صحابہ کرام سے منقول ہے۔ (دیکھئے فتاویٰ علمیہ زبیر علی زئی 132/2، 133)

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ 121 صفحہ 13 
https://ishaatulhadith.com/unicode/eid-ky-baaz-masahil/

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۴ 

مبارکبادیں 
(مبارکبادیاں) 

ابوصفوان عبدالرزاق جامعیؔ 

رمضان شروع ہونے سے ایک دو ماہ قبل سے لے کر رمضان کی عید ختم ہونے کے ایک ہفتہ تک کتنی مبارکبادیاں دی جاتی ہیں اس کی لسٹ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔

یاد رہے کہ صرف عیدکی نماز کے بعد کی دعا "تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ"(حواله:فتحُ الباري،الترغيب والترهيب للأصبهاني ،وتمام المنّہ)  احادیث سے ثابت ہے اور بقیہ غیرمسلموں کی نقالی اور سوشیل میڈیا کی پیداوار ہے اور کاپی، پیسٹ کرنے والے جاہل قسم کے لوگوں نے اس کو بڑھاوا دیا ہوا ہےجن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات سے کوئی واسطہ اور مطلب نہیں ہے۔ اہلِ علم سے گذارش ہے کہ اس کورد کرنے میں جلدی کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والی  نسلیں اس کو دین کا حصہ نہ سمجھ بیٹھیں۔

1۔ رمضان شروع ہونے سے ایک دو مہینے پہلے ہی سے ایک میسیج گردش کرتا رہتاہے کہ جس نے سب سے پہلے رمضان کی مبارکبادی دی اس کوجھنم کی آزادی کا پروانہ مل جائیگا۔ یعنی ہماری ساری عبادات اس ایک میسج کے مقابلے میں فیل ہیں۔ تو پھر مبارکبادیاں ہی دیتے رہو، عبادت کی ضرورت ہی کیاہے۔ (اللہ کی پناہ) 

2۔چاند نظر آنے سے دو تین دن پہلے"اڈوانس میں چاند مبارک"۔ 

3۔چاند رات کو"چاندمبارک"۔

4۔سحری سے قبل "پہلی سحری مبارک"۔ 

5۔رمضان کے پہلے روزے کو "رمضان مبارک"۔

6۔پہلے دس روزے ختم ہونے پر "پہلا عشرہ مبارک"۔

7۔پندرہ روزے ختم ہونے پر"نصف(آدھا) رمضان مبارک"۔ 

8۔سَترہ(17) رمضان کو "یومِ بدر مبارک"۔ 

اس سال تو سوشیل میڈیا پر لوگوں نے حد کردی اور اس کو دین کا حصہ بنا ڈالا۔ حتی کہ ایک میسیج پڑھنے کو ملا جس میں لکھا ہوا تھا "جس نے یوم بدر کی مبارکبادی نہیں دی اس کو اصحابِ بدر سے بغض ہے۔ العیاذ باللہ 

9۔ستائیسویں رات کو یہ میسیج عام ہوگا دیکھ لینا "شبِ قدر مبارک ہو"۔  
جبکہ ایسی مبارکبادی دینے والوں کی رات مسجد وں میں نہیں بازاروں، چوراہوں، ہوٹلوں، قبرستانوں اور شاپنگ سنٹرس  میں گزری ہوگی۔ 

بھلا بتلایئے کیا ایسے لوگ صرف مبارکبادی کے ذریعے سے اجر و ثواب کے مستحق ہونگے؟ 

10۔عید سے ایک دو دن قبل"اڈوانس میں عید مبارک"۔ 

11۔عید کی چاند رات "چاند مبارک"۔ 

12۔عید کے دن" عید مبارک، عید مبارک"۔ 
اس وقت ان کو وہ دعا ہی یاد نہیں آئے گی۔جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ 

13۔عید کے دوسرے اور تیسرے دن تک"باسِی عید مبارک۔ (باسی یعنی پرانی)

14۔شوال کے چھے روزے جنہوں نے رکھے ہوتے ہیں ان کو اس طرح مبارکبادی دی جاتی ہے۔ 
"چھوٹی عید مبارک"۔ کچھ لوگ شوال کے چھےروزے رکھنے کے بعد گھروں میٹھا بناکر کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری چھوٹی عید ہے۔"پتہ نہیں اس چھوٹی عید کی نماز کتنی رکعت ہے؟؟؟

اس میسیج کو زیادہ سے زیادہ عام کریں تاکہ اس طرح کی خرافات سے تمام مسلمان محفوظ رہ سکیں۔
اللہ تعالٰی ہمیں دین کی صحیح سمجھ دے اور صراطِ مستقیم پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۵ 

نماز عید کے بعد گلے ملنا اور مصافحہ کرنا کیسا ہے۔؟ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 
بعد نماز عید آپس میں عید مبارک کہہ کر گلے ملے  سکتے یا مصافحہ کر سکتے ہیں۔اس کا جواب حدیث سے یا خلافت راشدہ کے زمانے کے عمل سے کوئی روایت ہو تو بتایئں؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعون الوہاب نماز عید پڑھ کر ناواقف لوگ مصافحۃ کرتے ہیں  اور گلے ملتے ہیں حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔البتہ مجمع الندو وائد جلد نمبر 2 ص 104 میں ہے کہ نماز عید  سے فارغ ہوکر ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا ومنکم کہنا مسنون ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری سب کی طرف سے قبول فرمائے۔البتہ دور سے آنے والا مصافحہ یا معانقہ کرے۔تو اس کا  کوئی مضائقہ نہیں اس لئے کہ یہ مصافحہ اور معانقہ مروجہ عید کے لئے نہیں۔ بلکہ ملاقات کے لئے ہے جو سنت ہیت اور مقصد بدلنے سے حکم کی نوعیت بدل جاتی ہے۔فقط عبد القادر روپڑی۔ 
(اخبار تنظیم اہل حدیث  لاہور جلد نمبر 22 ش 37۔38)

توضیح المرام
نماز عید کے بعد مصافحہ یا معانقہ کی اگر قرآن و حدیث میں مخالفت  آئی ہے تو منع ہے ورنہ حدیث ترکتمونی لھ ترکتم کے تحت جائز ہے بدعت وغیرہ نہیں۔الراقم علی محمد سعیدی خانیوال 

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 11 ص 254
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/3651/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۶ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عید کے دن ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کا کیا حکم ہے ؟ اور کیا نماز کے بعد معانقہ و مصافحہ ثابت ہے ؟ اس کی ذرا ہمیں وضاحت فرما دیں۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جاننا چاہیئے کہ اچھا طریقہ طریقہ محمدی ہے اور عید کے دن معانقے اور مصافحے کے ساتھ مبارکبادی آپﷺ کا طریقہ نہ تھا ، جیسے کہ ہمارے علاقوں میں عادت ہے اور اس قسم کا ہر کام بدعت ہے اور نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر وہ عمل جس پر ہمارا امر نہیں وہ مردود ہے (مسلم)۔

مگر صحابہ ؓ جب عید پڑھ کر واپس آتے تو ایک دوسرے کو "تقبل الله منا ومنكم" کہتے جیسے کہ الجوهر النقى (3/319) باب قول الناس في العيد تقبل الله منا ومنك میں ہے ، محمد بن زیاد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ابو امامہ باھلی اور دیگر صحابہ کے ساتھ تھا جب وہ عید کی نماز پڑھ کر لوٹتے تو ایک دوسرے کو کہتے ، اللہ تعالی ہم سے بھی قبول کرے اور آپ سے بھی۔

امام احمد بن حنبل کہتے ہیں اس کی سند عمدہ ہے امام بیہقی ؒ نے اپنی سنن میں اس مضمون کو ضعیف حدیثیں ذکر کی ہیں اور اسی طرح هيثمي ؒ نے مجمع الزوائد (2/206) باب التهنئة بالعيد میں ایک حدیث ذکر کی ہے اور اس کی سند کو ضعیف کہا ہے اور اسی وجہ سے امام ابن قدامۃ ؒ نے المغنی (2/250) میں کہا ہے کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں "اگر کوئی شخص دوسرے کو عید کے دن "تقبل الله منا ومنكم" کہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔"

حربؒ کہتے ہیں : "امام احمدؒ سے عیدین میں لوگوں کا "تقبل الله منا ومنكم" کہنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ۔" اہل شام ابو امامہؓ سے اسے روایت کرتے ہیں۔

پوچھا گیا : اور واثلہ بن اسقع ؟ فرمایا : "ہاں" کہا گیا کہ عید کے دن اگر یہ کہا جائے تو آپ اسے مکروہ نہیں سمجھتے تو انہوں نے کہا "نہیں"۔

اور ابن عقیلؒ نے عید کی مبارک بادی کے بارے میں کچھ حدیثیں ذکر کی ہیں ان میں سے ایک محمد بن زیاد کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں میں ابو امامہ الباہلی اور دیگر صحابہ کے ساتھ تھا جب وہ عید سے واپس ہوتے تو ایک دوسرے کو "تقبل الله منا ومنك" کہتے اور امام احمدؒ ابو امامہ کی حدیث کی سند کو جید کہتے ہیں اور علی بن ثابت کہتے ہیں میں مالک بن انس سے پینتیس سال سے پوچھتا رہا ہوں وہ کہتے ہیں یہ مدینہ میں معروف چلا آرہا ہے۔

اور امام احمدؒ کہتے سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں کسی کو ابتداء نہیں کہوں گا اور کسی نے مجھے کہا تو میں اسے جوابا کہوں گا۔

اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ سے پوچھا گیا : کہ عید کی مبارکبادی اور "عید مبارک " جو زبان زد عام ہے اور اس جیسے اور کلمات کیا اس کی شریعت میں اصل ہے یا نہیں ؟ اور اس کی شریعت میں اصل ہے تو کیا کہنا چاہیئے ؟ ہمیں فتوی دیں اللہ تعالی آپ کو اجر دے تو انہوں نے جواب دیا ؛ عید کے دن مبارکبادی کے طور پر نماز عید کے بعد ملتے وقت "تقبل الله منا ومنكم" اللہ تعالی ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے۔ اور "أحاله الله عليك" اللہ تعالی اسے تم پر دوبارہ لائے، وغیرہ کہنا تو یہ صحابہ کے ایک  طائفہ سے مروی ہے کہ وہ یہ کرتے تھے اور ائمہ میں امام احمد وغیرہ نے اس کی رخصت دی ہے، لیکن امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ پہل نہیں کرونگا اگر کسی نے مجھ پر پہل کی تو میں اسے جواب دونگا اس لیے کہ تحیہ کا جواب دینا فرض ہے اور مبارکبادی کی پہل کرنی مامور بہا سنت نہیں اور نہ اس سے روکا گیا ہے کرنے والے کے بھی مقتداء ہیں اور چھوڑنے والے کے بھی مقتدا ہیں۔

میں کہتا ہوں: کہ مسجد میں شور مچانا اور معانقہ کرنا جبکہ وہیں اکھٹے رہنے والے ہوں تو یہ بدعت و معصیت ہے اس سے اجتناب ضروری ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ الدین الخالص
ج1ص234
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/11788/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۷ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز عید کےبعد مصافحہ ،معانقہ کرنے یا نہ کرنے کےمتعلق صحیح مؤقف کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم نے اہل حدیث مجریہ ۲۰دسمبر ۲۰۰۲ءمیں اس مسئلہ کےمتعلق تفصیلی فتویٰ لکھا تھا کہ نماز عید کےبعد مصافحہ کرنے  یا گلے ملنے کا ثبوت  کتاب و سنت سے نہیں ملتا، یہ ایک رسم و رواج ہے جس سے گریز کرنا چاہیے۔ البتہ عید کے بعد ایک دوسرے کو بایں الفاظ مبارک باد دی جاسکتی ہے‘‘تقبل اللہ منا و منکم’’یعنی‘‘اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے (یہ عبادت)قبول فرمائے۔’’اگرچہ اس کے متعلق بھی کوئی مرفوع روایت صحیح سندسے ثابت نہیں ہے،تاہم بعض صحابہ کرامؓ سے ان الفاظ کے ساتھ عید کےموقع پر مبارک باد دینا صحیح سند سے مروی ہے۔اب ہم اس کےمتعلق مزید گزارشات پیش کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں عید کے بعد جس دھوم دھام سے مصافحہ اور معانقہ کا جاتا ہے، یہ عمل رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ سے بالکل ثابت نہیں ہے۔رسول اللہﷺ کا ارشادگرامی ہے کہ ‘‘جس عمل پر ہماری طرف سے کوئی امر نہ ہو وہ رد کردینے کے قابل ہے۔’’ (صحیح مسلم ،الاقضیہ:۴۴۹۳)

پھر مصافحہ اور معانقہ ملاقات اور رخصت ہوتے وقت مشروع ہے لیکن عید کے موقع پر اکٹھے روانگی ،پھر واپسی ہوتی ہے اس موقع پر مصافحہ اور معانقہ کا کوئی سبب اور وجہ معلوم نہیں ہوتی مولانا ثناءاللہ امرتسری ؒ سے کسی نے اس کےمتعلق سو ال کیا تو آپ نے بڑے جامع الفاظ میں جواب دیا فرماتے ہیں:‘‘مصافحہ بعد سلام آیا ہے،عید کے روز بھی بنیت تکمیل سلام مصافحہ تو جائز ہے،بنیت خصوص عید ،بدعت ہے کیونکہ زمانہ ٔرسالت و خلافت میں مروج نہ تھا۔’’(فتاویٰ ثنائیہ،ص:۴۵۰،ج۱)

امام احمد بن حنبلؒ سےسوال ہوا کہ لوگ عیدین کےموقع پر ‘‘تقبل اللہ منا ومنکم’’سے ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں  اس کی کیا حیثیت ہے؟تو آپ نے فرمایا :‘‘ایساکہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اہل شام حضرت ابوامامہ باہلی ؓ سے اسے بیان کرتے ہیں اس کی سند جید ہے۔’’امام احمدؒ سے یہ بھی روایت ہے کہ میں ابتدا میں کسی کو ان الفاظ سے مبارک باد نہیں دیتا،البتہ اگر مجھے کوئی کہتا ہے تو اس کا جواب دے دیتا ہوں علی بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے آج سے پینتیس سال قبل اس مبارک باد کے متعلق سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ ہمارے ہاں مدینہ میں عرصہ دراز سے یہ بات معروف ہے۔ (مغنی ابن قدامہ،ص:۲۹۵،ج۳)

امام ابن تیمیہؒ سے سوال ہوا کہ لوگ عید کےموقع پر ایک دوسرے کو ‘‘عید مبارک’’ کہتے ہیں کی شرعی طورپر اس کی کوئی بنیاد ہے اگر ہے تو اس کی وضاحت فرمائیں۔امام صاحب نے بایں الفاظ جواب دیا:‘‘عید کےدن نماز کے بعد ‘‘تقبل اللہ منا و منکم’’سے ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاسکتی ہے کیونکہ چند ایک صحابہ کرام ؓ سے یہ عمل مروی ہے اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے ائمہ کرام نے بھی اس کی رخصت دی ہے اس کے متعلق رسول اللہﷺ سے کوئی حکم یا نہی مروی نہیں ہے ،اس لئے اس کےکرنے یا نہ کرنے میں چنداں مضائقہ نہیں ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ،ص:۲۵۳،ج۲۴)

امام ا بن تیمیہ ؒ نے جن صحابہ کرامؓ کےعمل کی طرف اشارہ کیا ہے اس کی تفصیل ہم پہلے فتویٰ میں بیان کرآئے ہیں، اسے دوبارہ ذکرکیاجاتا ہے:

٭حضرت جبیر بن مطعم ؓ فرماتےہیں کہ صحابہ کرامؓ جب عید کے دن ملتے تو مذکورہ الفاظ سے ایک دوسرے کو مبارک باددیتے تھے۔ (فتح الباری،ص:۴۴۶۔ج۳)

٭محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ باہلیؓ اوردیگر صحابہ کرامؓ کےہمراہ تھا جب وہ عید پڑھ کر واپس ہوئے تو انہوں نے انہی الفاظ کےساتھ ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔ (الجوہرالنقی،ص:۳۲۰،ج۳)

کتب حدیث میں بعض ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے اس کی کراہت معلوم ہوتی ہے اور اسے اہل کتاب کا طریقہ بتایا گیا ہے لیکن  وہ روایات محدثین کےقائم کردہ معیار صحت  پر پورا نہیں اترتیں۔ (بیہقی،ص:۳۲۰،ج۳)

ان حقائق کےپیش نظر‘‘تقبل اللہ منا و منکم’’کےالفاظ سے عید  کے موقع پر مبارک باد تو دی جاسکتی ہے لیکن مصافحہ کرنا اور گلے ملنا ایک رواج ہے جس کا ثبوت محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث
جلد:2 صفحہ:168
https://urdufatwa.com/view/1/12087/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۸ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عید کے موقع پر گلے ملنے اور ’’ عید مبارک‘‘ کہنے کی کتاب وسنت سے کوئی دلیل ہے؟ ایک مولانا صاحب نے فرمایا کہ عید کے موقع پر گلے ملنا بدعت ہے مہربانی فرما کر کتاب وسنت کی روشنی میں جواب سے مطلع فرما دیں۔

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عید کا دن مسلمانوں کے لیے خوشی اور باہمی موّدت ومحبت کے اظہار کا دن ہے۔ لہٰذا اس میں خوشی کااظہار ہونا چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   بسند حسن جبیر بن نفیر سے بیان کرتے ہیں، کہ نبیﷺ کے اصحاب عید کے روز جب آپس میں ملاقات کرتے تو" تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنكَ" (اللہ ہماری اور تمہاری عید قبول فرما لے! کہہ کر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے۔ فتح الباری ۲/ ۴۴۶، السنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ مَا رُوِیَ فِی قَولِ النَّاسِ یَومَ العِیدِ بَعضُهُم لِبَعضٍ: تَقَبَّلَ …الخ، رقم:۶۲۹۴، الجامع الصحیح للسنن والمسانید، اَلتَّهنِئَة بِالعِیدِ

امام احمد فرماتے ہیں۔ کہ اس میں کوئی حرج نہیں، کہ ایک آدمی دوسرے کو عید کے دن " تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنكَ" کہے۔ حرب نے کہا، کہ امام احمد سے سوال ہوا کہ عیدین میں لوگ یہ کہتے ہیں" تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنكَ" اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ یہ بات اہلِ شام نے ابوامامہ سے نقل کی ہے۔ (المغنی ۳/ ۲۹۴) ابوامامہ کا یہ أثر ترکمانی نے سنن کبری بیہقی کے حاشیے پر ذکر کیا ہے(۳/۳۲۰)۔ امام احمد نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔ البتہ خصوصی گلے ملنے کی کسی روایت میں صراحت نہیں، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(عید کے دن ایک دوسرے سے گلے ملنا کوئی مسنون اورثابت شدہ عمل نہیں۔ البتہ عام اظہارِ محبت کے لیے اگر معانقہ کر بھی لیا جائے، تو اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔ (واللہ اعلم)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:842
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/25070/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۹ 

حكم التهنئة قبل حلول العيد 

السؤال 
التواصل الاجتماعي الحديثة في هذه الأيام أنه لا تجوز المعايدة أو المباركة بالعيد ـ عيد الفطر أو الأضحى ـ قبل صلاة العيد، فهل هذا صحيح؟ وهل من دليل على جواز أو عدم جواز هذا العمل؟ أفيدوني أفادكم الله. 

الإجابــة 
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد:

فلم نقف على دليل يمنع التهنئة قبل صلاة العيد، جاء في إجابة للشيخ ابن عثيمين رحمه الله: التهنئة بالعيد قد وقعت من بعض الصحابة ـ رضي الله عنهم ـ وعلى فرض أنها لم تقع فإنها الآن من الأمور العادية التي اعتادها الناس، يهنئ بعضهم بعضاً ببلوغ العيد واستكمال الصوم والقيام.

فالشيخ جعلها من الأمور التي اعتادها الناس ببلوغ العيد واستكمال الصوم...

وسئل فضيلة الشيخ العلامة صالح الفوزان ـ حفظه الله ـ سؤالا نصه: انتشر بين الناس في هذه الأيام رسائل عبر الجوال تتضمن تحريم التهنئة بالعيد قبل العيد بيوم أو يومين وأنه من البدع، فما رأي فضيلتكم؟ الشيخ الفوزان: لا أعلم هذا الكلام، هذه يروجوها ولا أعلم له أصلا، فالتهنئة مباحة في يوم العيد، أو بعد يوم العيد مباحة، أما قبل يوم العيد فلا أعلم أنها حصلت من السلف وأنهم يهنئون قبل يوم العيد، كيف يُهَنَأ بشيء لم يحصل، التهنئة تكون يوم العيد أو بعد يوم العيد مع أنها لا دليل عليها...

والظاهر من بعض الآثار الواردة في التهنئة أن بعض السلف كانوا يفعلونها بعد الصلاة، فقد جاء في المغني لابن قدامة قال: وذكر ابن عقيل في تهنئة العيد أحاديث منها: أن محمد بن زياد، قال: كنت مع أبي أمامة الباهلي وغيره من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فكانوا إذا رجعوا من العيد يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا ومنك، وقال أحمد: إسناد حديث أبي أمامة إسناد جيد، وقال علي بن ثابت: سألت مالك بن أنس منذ خمس وثلاثين سنة وقال: لم يزل يعرف هذا بالمدينة.

وفي سنن البيهقي: عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ قَالَ: لَقِيتُ وَاثِلَةَ بْنَ الأَسْقَعِ فِي يَوْمِ عِيدٍ فَقُلْتُ: تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكَ، فَقَالَ: نَعَمْ تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكَ، قَالَ وَاثِلَةُ: لَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ عِيدٍ فَقُلْتُ: تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكَ، فَقَالَ: نَعَمْ تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكَ.

ولم نقف على نهي عنها قبل الصلاة ـ كما أشرنا ـ أو تخصيصها بما بعد الصلاة أو غيره.

والله أعلم. 

https://www.islamweb.net/ar/fatwa/187457/%D8%AD%D9%83%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%87%D9%86%D8%A6%D8%A9-%D9%82%D8%A8%D9%84-%D8%AD%D9%84%D9%88%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%8A%D8%AF

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۰ 

..تقبل الله منا ومنك..؟ 

~~~~؛

1. 
أن واثلة لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عيد 
فقال : تقبل الله منا ومنك ، 
فقال : نعم تقبل الله منا ومنكم. 

الراوي: - المحدث: ابن حجر العسقلاني - 

المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 2/517 

خلاصة حكم المحدث: [فيه] محمد بن إبراهيم الشامي ضعيف، وقد تفرد به مرفوعا، وخولف فيه

2. 
كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض : 
تقبل الله منا ومنك. 

الراوي: جبير بن نفير (تابعي) 

المحدث: ابن حجر العسقلاني - 

المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 2/517

خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

3. 
كنت مع أبي أمامة الباهلي وغيره من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ، فكانوا إذا رجعوا من العيد يقول بعضهم لبعض : 
تقبل الله منا ومنك. 

الراوي: محمد بن زياد 

المحدث: الإمام أحمد - 

المصدر: المغني - الصفحة أو الرقم: 3/294

خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد

4. 
كان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض : 
تقبل الله منا ومنك. 

الراوي: جبير بن نفير (تابعي) 

المحدث: الألباني - 

المصدر: تمام المنة - الصفحة أو الرقم: 354

خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۱ 

حكم قول كل عام وأنتم بخير 

الشيخ ابن عثيمين رحمه اللّٰه كل عام أنتم بخير لا تقال لافي عيد فطر ولا أضحى ولاغيره 
 لقاء الباب المفتوح ص202

الشيخ الفوزان حفظه اللّٰه لا ليست مشروعة ولا يجوز هذا 
 الإجابات المهمةص229

الشيخ الألباني رحمه اللّٰه: قول كل عام وأنتم بخير لاأصل لها وحسبك تقبل الله طاعتكم أما هي فهي تحية الكفار دخلت إلينا في غفلة منا 
سلسلة الهدى والنور شريط رقم 323

هنا قول الشيخ ابن باز رحمه الله عن ماورد في تهنئة المسلمين يوم العيد 

تقبل الله منا ومنك، أو عيدكم مبارك، أو العيد مبارك، أو جعل الله عيدكم مباركًا سواء كان عيد الأضحى أو عيد الفطر كله واحد، وهكذا في الحج حجك مقبول، تقبل الله منك، عمرة مقبولة، تقبل الله منك، كل هذا وأشباهه كافِ، نسأل الله للجميع الهداية والتوفيق، نعم. 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

ختم شد 

.

جمعرات، 30 جولائی، 2020

صوم یوم عرفہ یا نو ذو الحجہ کا روزہ مقالات و فتاوی

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
                  
صوم یوم عرفہ یا نو ذو الحجہ کا روزہ 

مجموعہ مقالات و فتاوی 

جمع کردہ 
سید محمد عزیر ادونوی 

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱ 

عرفہ کے دن کا روزہ یا نو ذی الحجہ کا ؟

فضیلۃ 
الشیخ عبد العلیم عبد الحفیظ سلفی 
داعیہ مکتب توعیۃ الجالیات یدمہ سعودی عرب  

الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده,وبعد 

عرفہ کے دن کے روزے کی احادیث میں بہت بڑی فضیلت وارد ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن کی اہمیت کئی اعتبارسے شریعت میں مسلم ہے ، مثلا :

1 -  عرفہ کا دن اہل موقف کے لئے عید کا دن ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (يوم عرفة ويوم النحر وأيام منى عيدنا أهل الإسلام ) رواه أبو داود وصححه الألباني .
یعنی :( عرفہ ، نحر(قربانی ) اور منی کے ایام ہم اہل اسلام کے لئے عیدکے دن ہیں )

2 – اس روز دعاء کا خاص مقام ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(خير الدعاء دعاء يوم عرفة ) صححه الألباني في كتابه السلسة الصحيحة. قال ابن عبد البر – رحمه الله - : وفي ذلك دليل على فضل يوم عرفة على غيره.
یعنی : (سب سے بہترین دعاء عرفہ کے دن کی دعاء ہے)

3 – عرفہ کے دن اللہ تعالی کثرت سے لوگوں کو جہنم سے رہا کرتاہے  اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم کا ارشادہے : ( ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا من النار من يوم عرفة) رواه مسلم في الصحيح.
یعنی : ( عرفہ کے دن سے زیادہ اللہ تعالی کسی دن بندوں کو آزاد نہیں کرتا)

4 – اللہ تعالی عرفہ میں وقوف کرنے والوں پر اہل آسمان کے درمیان فخرکرتاہے  ، اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم کا ارشادہے :( إن الله يباهي بأهل عرفات أهل السماء) رواه أحمد وصحح إسناده الألباني .
اس کے علاوہ بھی اور بہت ساری خصوصیات ہیں جو اس دن کو دیگر ایام سے ممتازکرتی ہیں ۔
عصر حاضرمیں  اختلاف مطالع اور اس سے پیدہ شدہ بعض مسائل  کی بنیاد پر عرفہ کے دن کےروزہ کی تاریخ کی تعیین میں  کچھ علماء  بعض شبہات کے شکا رہیں اور عرفہ کے دن کے روزہ  کی تاریخ  کی تعیین میں نو ذی الحجہ کے قا‏ئل وفاعل ہیں     ، اس سلسلے میں بنیادی چیزجو قابل غورہے وہ  یہ ہے کہ  عرفہ کے دن کے روزے کا سبب کیا ہے ؟ اوراس کا تعلق دن  اور تاریخ سے ہے یا حاجیوں کے کسی مخصوص دن میں شریعت  کے ذریعہ   مخصوص عمل (یعنی عرفات میں وقوف ) سے  ؟ جب اس چیز کی تعیین ہوجائےگی تو مسئلہ  میں کسی التباس کی کوئی  وجہ باقی نہیں رہ جائے گی ۔آیئے اس سلسلے میں چند نکتوں پہ غور کرتے ہیں :

1 – کسی بھی مسئلہ کی وضاحت اوراس سے متعلق امورمیں حکم کا بہت بڑا دخل ہوتاہے  ، تاکہ مکلف پر اس پر عمل کی حیثیت واضح اور مدون ہوسکے ۔عرفہ کے دن کا روز ہ حکم کے اعتبار سے ( اپنی بے انتہا فضیلت کے باوجود)مستحب  یا سنت مؤکدہ کے  زمرے میں آتاہے  ،اس لئے ترک وعمل اورتعیین وتحدید میں  اس کا اعتباربھی اسی   حیثیت سے ہوگا ،   نہ کہ  بالکلیہ دوسرے سببی اور غیر سببی روزوں کے اعتبارسے ۔

2-  بلا شبہ رمضان اورغیررمضان کے روزوں میں رؤیت ہلال کا بہت بڑا دخل ہے جبکہ عرفہ کے دن کا روزہ   رؤیت کے تخمینہ کے ساتھ ساتھ عرفہ میں حاجیوں کے وقوف سے متعلق ہے ۔ اسی وجہ سےہم دیکھتے ہیں کہ اس روزہ کی فضیلت  جن روایتوں میں بیان کی گئی ہے ان میں زیادہ ترمیں   "یوم عرفہ " کا ذکرہے نہ کہ تاریخ ذی الحجہ کا یہ الگ بات ہے کہ یوم عرفہ نو ذی الحجہ ہی کو پڑتاہے ۔
 یہاں یہ بات قابل غورہے کہ اگرکسی  اجتہادی غلطی کی وجہ سے حجاج آٹھ یا دس ذ ی الحجہ میں وقوف کرتے ہیں تو اسی دن کو یوم عرفہ شمارکیا جائے گاجیسا کہ فقہاء نے اپنی کتابوں میں  اس کی صراحت کی ہے  ۔ (دیکھئے :  حاشية ابن القيم على سنن أبي داود6/317, المحلى  لابن حزم : 5/203-204 ،  المغني لابن قدامة 3/456 ,  المهذب مع شرحه المجموع 8/292 , المجموع  للإمام النووي 8/292  , مجموع فتاوى الإمام ابن تيمية  25/107 ,  بدائع الصنائع 2/304  , شرح الخرشي على مختصر خليل 2/321 )
چنانچہ " صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ -والی روایت کو مطلقا یوم عرفہ کے روزہ کے لئے تاریخ کی  تحدید کے طورپرپیش کرنا محل نظرہے ، کیونکہ اس روزے کا تعلق یوم عرفہ (حاجیوں کے مقام عرفات میں قیام ) سے ہے ۔

3- جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ عرفہ کے دن کا روزہ کوئی واجبی روزہ نہیں ہے کہ اس کا توڑنے والا گنہگار ہوگا البتہ اس کے لئے  خیرکثیر سے محرومی کا باعث ضرورہے ۔

4 –  (ساری عبادتوں  میں تاریخ  ، دن اوراوقات  کی تعیین میں اختلاف مطالع کا واقعی معتبر ہونے کے باوجود) جب اس  بات کی تعیین ہوجاتی ہے کہ اس روزہ کا تعلق عرفہ کے دن سے ہے تو  اس میں اختلاف مطالع کا کوئی  اعتبار نہیں رہ جاتاہے ، دنیا میں تاریخ  کوئی بھی  ہوعرفہ کا دن وہی ہوگا جس روز حاجی مقام عرفات میں قیام فرمائیں گے۔
یہاں پر یہ اشکا ل پیش کرنا کہ  : (بعض ممالک مثلاً : لیبیا ، تیونس اور مراکش ۔۔۔ ایسے ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آتا ہے۔ یعنی ان ممالک میں جب 10۔ذی الحج کا دن آتا ہے تو مکہ مکرمہ میں یومِ عرفہ کا دن ہوتا ہے۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات والے دن روزہ رکھیں تو یہ گویا ، ان کے ہاں عید کے دن کا روزہ ہوا اور یہ تو سب کو پتا ہے کہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے۔ )
تو یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ  عرفہ کے دن کا روزہ ( جیساکہ پہلے بیان کیاجاچکا ہے) کو ‏ئی واجبی روزہ نہیں ہے جس کا نہ رکھنے والا گنہگار ہوگا ۔ خاص طورسے جب اسے چھوڑنے کے لئے کوئی مناسب اورمضبوط سبب موجود ہو ، اس لئے جن ممالک میں قربانی کا دن حاجیوں کے عرفات میں وقوف کے  دن      پڑ جائے توان کے یہاں قربانی کے دن کو ترجیح حاصل ہوگی اور عرفہ کا روزہ ان سے ساقط ہوجائے گا ۔
 شریعت میں اس  نوع کے  بہت سارے اعمال   ہیں جو کسی سبب مناسب کی بناء پر ساقط ہوجاتے ہیں ، مثلا :
- جمعہ کے روزے کی ممانعت عرفہ کے روزے کی عزیمت کی وجہ سے ساقط ہے ۔
- عرفہ کے دن وقوف عرفات کی وجہ سے حاجیوں سے اس روز روزہ ساقط ہے۔
- مقیم امام کی اقتداءمیں نماز پڑھنے کی وجہ مسافرکے لئے قصر ساقط ہے ۔
- فجر اور ظہر وغیرہ کی سنتوں  یا جماعت کھڑی ہونے کی وجہ سے تحیۃ المسجد ساقط ہے کیونکہ یہ سنتیں تحیۃ المسجدکے لئے کفایت کرتی ہیں ۔
- اسی طرح سببی نمازوں  جیسے فرض نمازوں کی قضاء ، طواف کی دورکعتیں ، تحیۃ المسجد اورسورج گرہن  کی نماز وغیرہ  کی وجہ سے ممنوعہ اوقات میں نماز کی  ممانعت ساقط ہے ۔
ان کے علاوہ بھی اور بہت سارے مسائل ہیں جو اس  نقطے کی وضاحت کے لئے کافی ہیں ۔
اس لئے جن ممالک میں یوم النحر عرفہ کے دن پڑجائے وہاں کے رہنے والوں سے عرفہ کے دن کا روزہ ساقط مانا جائے یہ احوط ہے اس بات سے کہ  شریعت کے متعین کردہ دن  کو ہی بدل دیا جائے ۔

5 - (واضح رہے کہ   مختلف ممالک میں  اختلاف مطالع کی وجہ سے نو ذی الحجہ الگ الگ ہوتاہے  ، اوران الگ الگ ایام کو عرفہ کا نام دینا  مناسب نہیں ہے ، جن میں حاجیوں کا عرفات میں  قیام ہی نہیں ہوا ، بلکہ  دیگر ایام کو وہ نام دینا جو شریعت نے کسی خاص دن کو دے رکھاہے  شریعت پہ زیادتی  کے قبیل سے ہے ۔
اگر اس چیزکی اجازت دے دی جائےکہ نو ذی الحجہ کو یوم عرفہ کہاجائے خواہ وہ دنیا کے کسی اور خطے میں کسی دوسرے دن ہی کیوں نہ پڑے  تو پوری دنیامیں ایک سے زیادہ  عرفہ کے ایام ہوجائیں گے اور نام " یوم عرفہ " کے بجائے " ایام عرفہ " رکھنا ہوگا۔)

http://abuzahraabdulaleemsalafi.blogspot.com/2014/10/blog-post.html 

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲ 

یوم عرفہ ذوالحجہ کی نو تاریخ ہے​ 

مقبول احمد سلفی طائف 

عرفہ کے روزہ سے متعلق پہلے کبھی اس قدر شدیداختلاف نہیں رہا جس قدرآج ٹکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں اس نئی ایجاد سے متاثر ہوکر بعض لوگوں نے اختلاف کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ اختلاف بعض لوگوں میں اس قدر شدید ہے کہ ایک دوسرے پر لعن طعن ، گالی گلوج اور زبان درازی تک کی جاتی ہے ۔ ایسا کرنے والے جہال نہیں اکثر علماء کہے جانے والے ہوتے ہیں۔ اس ماحول کو دیکھ کر دل پر چوٹ لگتی ہے کہ لوگوں نے اختلاف کو طعن وتشنیع کا ذریعہ بنا لیا ۔ اسی ماحول سے چوٹ کھاکرمیں نے یوم عرفہ کی حقیقت دلائل کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگوں کو اس دن اوراس دن کےروزہ کے متعلق غلط فہمی نہ ہو،اس التماس کے ساتھ کہ جسے اس موقف سے اختلاف کرنا ہے وہ ادب واحترام کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے، خالص علمی انداز میں مسئلہ کوواضح کرنے کی کوشش کرے ،مقصد حق تک پہنچنا ہو نہ کہ کسی سے زبردستی اختلاف کرنا ۔
یوم عرفہ کے روزہ والی حدیث:
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
صيامُ يومِ عرفةَ ، أَحتسبُ على اللهِ أن يُكفِّرَ السنةَ التي قبلَه . والسنةَ التي بعده . وصيامُ يومِ عاشوراءَ ، أَحتسبُ على اللهِ أن يُكفِّرَ السنةَ التي قبلَه.(صحيح مسلم:1162)
ترجمہ: عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کاکفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی اور یوم عاشورہ کاروزہ،میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔
یہ حدیث صحیح مسلم سمیت سنن اربعہ اور کئی کتب حدیث میں مروی ہے، اس حدیث میں "صیام یوم عرفہ" کا لفظ آیا ہے اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ اس دن ہے جب حجاج کرام میدان عرفات میں ہوتے ہیں جبکہ اکثر اہل علم کا ماننا ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ اپنے اپنے علاقے کے حساب سے رکھا جائے گا،یہی دوسرا موقف قوی ہے کہ لوگ اپنے اپنے علاقہ کے اعتبار سے نوذوالحجہ کا روزہ رکھیں ۔
یوم عرفہ سے مرادصرف اور صرف ذوالحجہ کی نو تاریخ ہے:
یوم عرفہ سے مراد ذو الحجہ کی نویں تاریخ ہے، اس بات کو مختلف طریقے سے استدلال کرکے بتلاؤں گا ۔
(1)قرآن سے استدلال :
اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَالْفَجْرِ. وَلَيَالٍ عَشْرٍ. وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ(الفجر:1-3)
ترجمہ: قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی ، اور جفت اور طاق کی۔
یہاں محل شاہد وتر کا لفظ ہے تفسیر ابن کثیر میں ہے وتر سے مراد عرفے کا دن ہے اوریہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو شفع سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقرعید کا دن ہے ،وہ طاق ہے یہ جفت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
وتر سے مراد یوم عرفہ ہے اس بابت بہت سارے اقوال ہیں جو تفاسیر میں دیکھے جاسکتے ہیں ، اس بابت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ وہ اس طرح ہے ۔
عن ابنِ عباسٍ أنه قالَ : الوترُ يومُ عرفةَ والشفعُ يومُ الذبحِ(فتح الباري لابن حجر:421/6 )
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ وتر سے مراد عرفہ کا دن اور شفع سے مراد قربانی کا دن ہے ۔
برصغیرہندوپاک میں عرفہ کا دن اپنے حساب سے نو ذوالحجہ کا ہوگا تبھی قرآن کے لفظ وتر(طاق) کا صحیح اطلاق ہوگا ورنہ سعودی کے حساب سے عرفہ کا روزہ رکھنے پر ہندوپاک میں عموما آٹھ تاریخ ہوگی اور یہ جفت ہے طاق نہیں ہے اس لئے جن کا مطلع سعودی سے مختلف ہے انہیں لازمی طور پر یوم عرفہ کے لئے اپنے علاقے کی نویں تاریخ کا اعتبار کرنا ہوگا۔
(2)حدیث سے استدلال :
مذکورہ بالاحدیث میں وارد الفاظ " صیام یوم عرفہ "سے ہی دلیل ملتی ہے کہ اس سے مراد ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے ۔ ذرا غور کریں ، اس حدیث میں آگے کے الفاظ ہیں صیام یوم عاشوراء ، یہاں یوم عاشوراء سے محرم کی دسویں تاریخ مراد ہے جیساکہ دوسری حدیث میں بصراحت مذکور ہے ۔ عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں:
أمرَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بِصَومِ عاشوراءُ ، يومُ العاشِرِ(صحيح الترمذي:755)
ترجمہ: رسول اللہﷺ نے دسویں تاریخ کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
جس طرح صیام یوم عاشوراء سے محرم کی دسویں تاریخ مراد ہے اسی طرح صیام یوم عرفہ سے ذوالحجہ کی نویں تاریخ مراد ہے ۔ اس بات کو اس حدیث سے تقویت ملتی ہے جس میں نبی ﷺ کے متعلق نویں ذوالحجہ کے روزہ کا احتمال ہے۔ بعض ازواج مطہرات کا بیان ہے :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن ذي الحجَّةِ ، ويومَ عاشوراءَ ، وثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ وخَميس(صحيح أبي داود:2437)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
(3)لغوی استدلال :
لغت کی کتابوں میں یوم عرفہ تلاش کریں تو عام طور سے ہرجگہ ذوالحجہ کی نویں تاریخ ملے گی یعنی یوم عرفہ سے مراد اہل لغت کے یہاں بھی ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے بطور مثال دیکھیں : القاموس الفقهي، معجم لغة الفقهاء وغیرہ
(4)عربی گرامر سے استدلال :
یوم عرفہ میں یوم کا لفظ زمان پراطلاق ہوتا ہے یعنی یہ زمانہ ہے اس لئے یوم عرفہ سے ہرگزہرگز میدان عرفات مراد نہیں ہوگا بلکہ کوئی زمانہ ہی مراد ہوگا اور وہ ہے ذوالحجہ کی نویں تاریخ ۔
(5)وجہ تسمیہ سے استدلال:
یوم عرفہ کی وجہ تسمیہ کے متعلق کئی اقوال ملتے ہیں ،ابن قدامہ صیام یوم عرفہ کی حدیث کے تحت یوم عرفہ کی وجہ تسمیہ سے متعلق لکھتے ہیں :
فأما يوم عرفة : فهو اليوم التاسع من ذي الحجة ، سمي بذلك ، لأن الوقوف بعرفة فيه . وقيل : سمي يوم عرفة ، لأن إبراهيم عليه السلام أري في المنام ليلة التروية أنه يؤمر بذبح ابنه ، فأصبح يومه يتروى ، هل هذا من الله أو حلم ؟ فسمي يوم التروية ، فلما كانت الليلة الثانية رآه أيضا فأصبح يوم عرفة ، فعرف أنه من الله ، فسمي يوم عرفة(المغني : 4/ 442 )
ترجمہ: یوم عرفہ سے مراد ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے ، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس دن وقوف عرفہ ہوتا ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے یوم عرفہ اس لئے نام پڑاکہ ابراہیم علیہ السلام نے ترویہ کی رات خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دئے جارہے ہیں پس پورے دن غوروفکر کرتے رہے کہ یہ واقعی اللہ کا حکم ہے یا پھر کوئی خواب ہے ؟ اس لئے اس دن کا نام ترویہ پڑا پھر دوسری رات بھی یہی خواب آپ کو دکھایا گیا اور جب عرفہ کی صبح ہوئی تو جان گئے کہ یہ اللہ کی طرف سے اس کا حکم ہی ہے پس اس وجہ سے یوم عرفہ پڑ گیا۔
اس قول میں شروع میں ہی اصل اور اہم بات بتلادی گئی کہ یوم عرفہ سے مراد ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے ۔ گویا یوم عرفہ ،وقوف عرفہ یا خواب کی معرفت کی نسبت پہ اس کانام پڑا تاہم مراد نویں تاریخ ہی ہے ،ٹھیک اسی طرح جیسے یوم النحر قربانی کی نسبت سے موسوم ہے اور مراد دسویں تاریخ ہے۔
(6)عقلی اور منطقی استدلال:
اسلام ایک ہمہ گیر دین رحمت ہے ، اس کے احکام آفاقی ہیں ،اس دین رحمت کے زیر سایہ ہرکسی کو اپنے اپنے علاقہ میں رہ کر بہ آسانی دین پر عمل کرنے کی سہولت ابتداء سے ہی موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی کیونکہ یہ فطری نظام ہے ، ہماراخالق ہمارے حالات وکیفیات سے مکمل باخبر ہے اس کے عین مطابق ہمیں دینی تعلیمات کا مکلف بنایا ہے۔اسلام نے کسی کو روزہ اور نماز کی انجام دہی میں مکہ مکرمہ کی تاریخ اور وقت معلوم کرنے کی زحمت نہیں دی ہے ۔آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے نبی ﷺ نےلوگوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ، نبی ﷺ کو مسلمانوں کا دور دراز علاقوں میں رہنا بھی معلوم رہا ہوگا پھر بھی اس وقت عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے کی تعلیم دینا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ جو مسلمان جس طرح اپنے علاقے کے اعتبار سے رمضان ، ایام بیض اور عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں اسی طرح اپنے علاقہ کے اعتبار سے یوم عرفہ کا یعنی نو ذوالحجہ کا بھی روزہ رکھیں ۔ وقوف عرفات پہ تمام دنیا والوں کو روزہ رکھنےکا حکم اسلام دیتا تو ساتھ ہی پوری دنیا کے مسلمانوں کو وقوف عرفات کی اطلاع کا نظام بھی دیا ہوتاجبکہ ٹکنالوجی کی آمد سے قبل کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس کی مدد سے دنیا کے کونے کونے میں پھیلے مسلمانوں کو وقوف عرفات کی اطلاع دی جاسکے۔ آج بھی دنیا کے سارے کونے میں یہ خبر نہیں پہنچ پاتی ہوگی کیونکہ بہت سارے علاقوں میں رابطوں کی سہولت نہیں اور بہت سارے مقامات پر رہنے والوں کو دنیا کی کوئی خبر نہیں ہوتی مثلا قید خانہ۔
(7)مناسک حج سے استدلال:
حج کے اعمال بھی تواریخ کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ یوم الترویہ یعنی آٹھ ذوالحجہ کو منی میں قیام ، یوم عرفہ یعنی نو ذوالحجہ کو وقوف عرفات ، یوم النحریعنی دس ذوالحجہ کو رمی، حلق/تقصیر، قربانی، طواف افاٖضہ، سعی جیسے اعمال ، ایام تشریق میں رمی جمرات اور منی میں قیام ۔ یہ سارے حج کے اعمال تاریخ کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ کوئی یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) کو عرفات میں وقوف کرے تو اس کا وقوف ہوگا ہی نہیں، کوئی یوم عرفہ(نو ذوالحجہ) کو حج کی قربانی کردے یا طواف افاضہ کرلے، حج کی سعی کرلے تو یہ اعمال مقبول نہیں ہوں گے یعنی حج ہی نہیں ہوگا۔ گویا مناسک حج بھی تاریخ سے مربوط ہونے کے سبب لامحالہ ماننا پڑے گا کہ یوم عرفہ ذوالحجہ کی نو تاریخ کو ہی کہا جاتا ہے۔
یوم عرفہ اور عرفات میں فرق:
لفظ عرفہ کا بسااوقات استعمال وادی کے لئے ہوتا ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
عرفةُ كلُّها مَوقفٌ ووقفتُ ههنا(صحيح مسلم:1218)
ترجمہ: میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور سارا عرفہ جائے وقوف ہے ۔
لیکن عرفات کا اطلاق صرف وادی پر ہوتا ہے ، قرآن میں عرفات کا لفظ آیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ (البقرۃ: 198)
ترجمہ: جب تم عرفات سے لوٹو تو مسجد حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: الحجُّ عَرفاتٌ، الحجُّ عَرفاتٌ، الحجُّ عَرفاتٌ(صحيح الترمذي:2975)
ترجمہ:حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ حج عرفات کی حاضری ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں : رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، بعَرفاتٍ واقِفًا (مسند أحمد) اس کی سند کو مسند کے محقق احمد شاکر نے صحیح کہا ہے(4/173)
ترجمہ: میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کے میدان میں کھڑے ہیں۔
غرض جہاں کہیں بھی عرفات کا لفظ آیا ہے ان جگہوں پر کہیں بھی یوم عرفات نہیں آیا ہے کیونکہ عرفات وادی کا نام ہے جبکہ عرفہ کبھی وادی پر بولاجاتا ہے تو کبھی دن پر اور جب عرفہ پر یوم کا لفظ داخل ہوجائے تو صرف اور صرف تاریخ پر اطلاق ہوگا یعنی نویں ذوالحجہ۔ یوم عرفہ کہنے سے وقوف عرفہ یا میدان عرفات کبھی بھی مراد نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ یوم کا لفظ دن کے لئے استعمال ہوتا ہےجبکہ وقوف عرفہ عمل اور میدان عرفات وادی ہے۔ اوراگر عرفات پر یوم کا لفظ بھی لگادیا جائے تو پھر بھی وہی دن مراد ہوگا جو یوم عرفہ سے مراد ہے یعنی نو ذوالحجہ۔ جیسے منی کے ساتھ ایام منی کا لفظ ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد ایام تشریق کے تین دن ہیں۔
خلاصہ کلام اور آخری بات :
عرفہ کے دن کے روزے سے متعلق جو اشکالات اور اعتراضات ہیں ان سب کا جواب الگ مضمون میں "عرفہ کا روزہ: ایک تحقیقی جائزہ" کے عنوان سے دیا گیا ہے جو اسی نام سے میرے ذاتی بلاگ،محدث فورم اور اردومجلس فورم وغیرہ پر تلاش کرسکتے ہیں۔ یہاں اس مضمون میں صرف یہ بتلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یوم عرفہ سے مراد ذوالحجہ کی نو تاریخ ہے یعنی رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو ذوالحجہ کی نو تاریخ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے لہذا جس ملک میں جب ذوالحجہ کی نو تاریخ ہو اس دن یوم عرفہ کا روزہ رکھیں. 

https://forum.mohaddis.com/threads/%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%B9%D8%B1%D9%81%DB%81-%D8%B0%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AC%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%D9%88-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%DB%81%DB%92.38189/ 

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۳ 

عرفہ کا روزہ احکام و فضائل اوربعض شبہات کاازالہ 

 عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی 
 
مترجم: اسلامی دعوۃ  سینٹر یدمہ ، نجران ، سعودی عرب
سابق باحث : امام ابن باز اسلامك اسٹڈیز سینٹرانڈیا /  ومدرس جامعۃالإمام ابن تيمیہ 
                          

 إنِ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلا هَادِيَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلا و أَنْنمْ مُسْلِمُونَ}(آل عمران :102) {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا}(النساء:1) {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا}( الأحزاب :70-  71 ) أما بعد: 
 
     فإن أحسن الحديث كلام الله و خير الهدي هدي محمد ـ صلى الله عليه و آله و سلم ـ و شر الأمور محدثاتها و كل  محدثة بدعة و كل بدعة ضلالة و كل ضلالة في النار.
أعوذبالله من الشيطان الرجيم :{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا}(النساء: 59)۔  
     روزہ شریعت اسلامیہ کی نہایت ہی اہم اور  اس کی  پاکیزہ عبادتوں میں سے ایک ہے جو انسان کی دینی تربیت کے ساتھ ساتھ اس کے لئے  ذہنی ،فکری  اور بدنی  فوائد وثمرات کی  حامل ہے ۔ روزہ تقوی ، طہارت ،تزکیہ اورتربیت  وصحت کا عظیم  ذریعہ ہے ، ایک طرف جہاں اسے ایک ماہ فرض کرکے اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کواپنے احکام کا مکلف کیاہے ، وہی دوسری طرف اس کے نوافل کےوسیلے اپنی قربت ورضاکا اظہارکیاہے ۔ اس کے علاوہ عاشوراء اور عرفہ کے روزوں کو  ایک مسلمان سے سرزد ہونے والے گناہوں کے لئے کفارہ  قراردیاہے ۔
      اس کے علاوہ متشرد نفس کی بے جاخواہشات اور انتشار کو کنٹرول کرنے کا ایک بہترین اور کارگرآلہ قراردیاگیاہے ، اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے  ایسے افراد خصوصا نوجوانوں کے لئے جن کے پاس شادی کی استطاعت نہیں ہے فرمایا : " ومن لم يستطع فعليه بالصوم فانه له وجاء"( صحیح البخاری /1905  وصحیح مسلم/1400(۔  "ایسے لوگ جو نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں روزہ رکھنا چاہئے کیونکہ روزہ  اس کی شہوت کو کم کرتاہے "۔
     اسی طرح بعض شرعی مخالفات میں روزہ کو اللہ تبارک وتعالی نے بطورکفارہ متعین  کیاہے جو اس کی اہمیت کو بیان کرتاہے مثلا : حج میں کی جانے والی بعض غلطیوں پر  ، حرم میں کسی جانور کےشکار ، کسی کوشبہ عمد یا خطا کی بنیادپر قتل کردینے ، ظہار، قسم توڑنےاور رمضان میں دن میں بحالت روزہ  بیوی  سے جماع کرنے پر۔
     یہاں اس بات کی وضاحت مناسب ہے کہ مذکورہ ہر نوع کا روزہ  بعض امور   میں کچھ حد تک یکسانیت کے باوجود اپنی الگ  حیثیت وفضیلت کا حامل ہے ، انہیں میں عرفہ کے دن کا روزہ ہے جسے اللہ رب العزت نے اس دن کی اہمیت اور اس کی بےشمار فضیلت کےپیش نظر مشروع قراردیاہے ۔
      عصر حاضرمیں  اختلاف مطالع اور اس سے پیدہ شدہ بعض مسائل  کی بنیاد پر عرفہ کے دن کےروزہ کی تاریخ کی تعیین میں  کچھ علماء  بعض شبہات کے شکا رہیں اور عرفہ کے دن کے روزہ  کے دن کی تعیین میں  صرف نو ذی الحجہ کے قا‏ئل وفاعل ہیں، اس سلسلے میں بنیادی چیزجو قابل غورہے وہ  یہ ہے کہ عرفہ کے دن  کےروزے کا سبب کیا ہے ؟ اوراس کا تعلق دن  اور  تاریخ سے ہے یا حاجیوں کے کسی مخصوص دن میں شریعت  کے ذریعہ مخصوص عمل (یعنی عرفات میں وقوف) سے؟ جب اس چیز کی تعیین ہو جائےگی تو مسئلہ  میں کسی التباس کی کوئی  وجہ باقی نہیں رہ جائے گی ۔
     ابتدائے اسلام میں اس بات پر اتفاق تھا کہ یہ روزہ اسی دن مشروع ہے جس دن حج کے ایک مخصوص دن میں جب کہ حاجیو ں کا قیام مکہ کے میدان عرفات میں ہوتاہے ۔لہذا اس روزہ کی مشروعیت کے لئے یہی اصل اوربنیادہے ۔ لیکن جب اسلام دنیاکے دور دراز علاقوں میں پھیل گیااور متنوع مسائل امت کے سامنے درپیش ہوئے تو اس میں بعض وجوہات اور غیر متوفر وسائل کی بنیادپر امت کے مجتہدین نے اپنے اپنے طور پر دلائل ونصوص اور اسباب  ووسائل کی پیش نظر مسائل میں اجتہاد سے کام لے کرامت کی رہنمائی کی ۔ لیکن پھر بھی  حالات کی تبدیلی اور دلائل ونصوص کی صحیح معرفت وابلاغ کے وقت ان سے رجوع کا راستہ کھلارکھا ، بلکہ شریعت کا یہی مقصود اور مطلوب بھی ہے ،مثال کے طور پر رمضان کے روزہ اور عیدکے لئے حدیث میں ر‏ؤیت ہلال اصل ہے ، لیکن دوردرازعلاقوں میں ایک ساتھ رؤیت  غیرممکنات میں سے ہے اسی لئے روایات کے مطابق علم یقینی اور شہادت کا باب کھلاہواہے ، لہذا صحابہ کرام نے اسی کو اپنایا اور اسی کے مطابق فتوے دئے ۔ اب اس ضمن میں  وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ وسائل اعلام نے اپنی ایک حیثیت بنالی جس کی وجہ سے اختلاف مطالع اور اتحاد مطالع نے نزاعی صورت اختیار کرلی  اور رؤیت اور عدم ر‏ؤیت کے باوجود اختلاف واتحاد مطالع نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ۔ 
     ایک وقت تھا جب وسائل کی قلت کی وجہ سے دوسو چار سوکیلومیٹرکی خبریں بروقت نہیں مل  پاتی تھیں اور لوگ اپنے علاقے اور شہر کی رؤیت   اور عدم رؤیت پر اعتماد کرکے روزہ اور عید کرتے تھے ۔ لکھنؤ کے لوگوں کو الہ آباد کی  رؤیت پہنچنا بھی  عام طورپر محال  تھا ، لیکن اب یہ عذر قطعا باقی نہیں رہاکہ الہ آباد والے لکھنؤ کی رؤیت  سے نا بلد ہوں ، اس لئے مسائل کا اعتباربھی بدلے ہوئے حالات کے مطابق ہونے لگا ۔
     مذکورہ وضاحت  ضمنی طورپر صرف اس لئے کرنی پڑی کہ اس بات کو سمجھنے میں آسانی ہو کہ   روزہ اور عید کے سلسلے میں  رؤیت اور عدم رؤیت کے سلسلےمیں امت کس راہ  پہ چل رہی ہے ۔
     یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ   رؤیت کے سلسلے میں اس اختلاف کے باوجود عرفہ کے دن کے روزے کو  رؤیت اور عدم رؤیت کے اعتبار سے قرون مفضلہ میں  کوئی جگہ نہیں ملی ہے ، کیونکہ یہ روزہ ایک مخصوص دن کے ساتھ متعین ومعروف رہاہے ۔ تلاش بیشیار کے بعد بھی کسی سے یہ مروی نہیں ہے کہ انہوں نے شام و مصراور عراق وبخارا میں رہنے کے باجود عرفہ کا روزہ  رکھنے میں کسی تاریخ  کا اہتمام کیاہو ، کیونکہ جو چیز متعین ومعروف ہو اس میں اختلاف اوراجتہاد غیر ضروری امرہے ۔
        گیارہوں صدی ہجری میں امام خرشی مالکی نے عرفہ  کا اطلاق مکان کے بجائے زمان سے لیاہے ، جو مختلف وجوہات کی بناپرمرجوح قول ہے ،جس کا بیان ان شاء اللہ اپنی جگہ پرآئےگا ۔
      گذشتہ چندسالوں سے اس مسئلہ نے خاصی  اختلافی صورت اختیار کرلیاہے ، اس ضمن میں سوشل  میڈیا وغیرہ پر مختلف زبانوں میں  بہت سارے  مضامین اور بیانات دیکھنے کو ملے ہیں جو دونوں طرح کے دلائل سے مزین ہیں جن کی وجہ سے عوام کا ایک بڑا طبقہ ذہنی  انتشارکا شکار ہے۔  
     کچھ لوگوں نے تو اس مسئلہ کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیاہے ، کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہی حق وصواب ہے ،جبکہ یہ مسئلہ اگر متعین نہیں مانتے ہیں تو اجتہادی بن جاتاہے ، لہذا اپنی بات کو اونچی رکھنے کے لئے اور اور اپنی تحقیق کو حرف آخر سمجھ کر ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کرنا شریعت اور بحث وتحقیق کے مزاج کے یکسر خلاف ہے ۔ جب کسی مسئلہ میں تحقیق کی جاتی ہے تو صاحب تحقیق کے اندر برداشت اور دوسروں کی تحقیق  کی قدر کرنے کے لئے اپنے اندر وسعت ظرفی پیداکرنی چاہئے ۔ دین کے معاملے میں اختلاف برائے اطلاع حق وصواب ہو تو کارخیرہے ورنہ اگر محض تنقیداور تذلیل وتعلی ہو تو پھر : "واللہ المستعان" ۔
      وجہ اختلاف کی بات کریں تو یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی مسئلے میں کسی بھی وجہ سے اصل سے ہٹنا ہی اختلاف کا سبب ہے ، جو عمل شریعت کی اصل پہ  اور نصوص کے عین مطابق ہوپھربھی  اس کے اندر قیاس کو جگہ دینا اور حالات وظروف کا حوالہ دے کر نامساعی اجتہاد کی راہ اختیار کرنا ہی مسئلے کو مختلف فیہ بنادیتا ہے ۔ لہذا  عرفہ کے دن کے روزے کو ہم اس کے اصل پہ رکھیں  اور اس کے حکم اور حیثیت کے تعین کے بعدامکان اور عدم امکان کی راہ تلاش کریں تومسئلہ واضح اور مبین ہے ۔
      میں نے اس مسئلہ کو اپنی اس مختصر کتاب کے اندر مختلف دلائل اور براہین کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کی تعیین میں  پیش کردہ  اشکالات واشتباہات کا جائزہ لیا ہے تاکہ حق وصواب واضح ہو اور امت کے افراد کو کتاب وسنت کے مطابق عمل کی راہ ملے ۔
     اور میں مشکور ہوں اپنے مربی اور استاد شیخ احمد مجتبی سلفی مدنی حفظہ اللہ کا جنہوں نے اس موضوع پر میرے مختلف مقالات اور تحریروں کی حوصلہ افزائی اور تائید کی ہے ، فجزاہ  اللہ خیرا فی الدنیا والآخرۃ  خیرالجزاء عنی وعن الاسلام والمسلمین وطلبۃ العلم والعلماء ۔
اس کتاب کو محدث لائبریری نے اپی سائٹ اپلوڈکیا ہے ۔فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔
https://kitabosunnat.com/kutub-library/Arfa-Ka-Roza
      اللہ تعالی اسے ہمارے لئے اور ہمارے اساتذہ ووالدین کے لئے ذخیرۂ آخرت بنائے اور دین کے صحیح راستے پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔

عرفہ وعرفات سے مراد
     عرفہ یا عرفات : معرفہ یا اعتراف یا العرف (یعنی خوشبو) سے مشتق ہے، جس کی پوری تفصیل فخرالرازی نےاپنی تفسیرکے اندر ذکرکی ہے (جب گنہ گارمقام عرفات میں اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں تو گناہوں کی نجاست سے پاک ہوکراللہ تعالی کے نزدیک بہترین خوشبوکے مستحق قرارپاتےہیں ۔(دیکھئے : تفسیرالرازی:5/189)) ۔
     عام طورپر اہل لغت کے یہاں عرفہ کا اطلاق زمان اورعرفات کا مکان کے لئے ہوتا ہے، اور دونوں بحیثیت علم اور مترادف کے بھی استعمال ہوتے ہیں(دیکھئے :معجم المعانی وغیرہ  ۔)۔بعض اہل لغت  جیسے زمخشری اور ابن عطیہ وغیرہ نے دونوں کو"علم مرتجل "( علم مرتجل کا مطلب ہے جو ابتداء سے ہی بطور علم کے مستعمل ہو، اور غیرعلمیت میں کبھی استعمال نہ کیاگیاہو۔) قراردیاہے (دیکھئے: التحریروالتنویرلمحمد الطاھربن عاشور:2/238۔)۔ بعض اہل لغت  لکھتےہیں :" وعرفة اسم لموقف الحاج ذالك اليوم وهي إثناعشرميلا من مكة وسمي عرفات أيضا وهو المذكور في التنزيل  ....."اور عرفہ حاجی کے اس دن قیام کے مقام کا نام ہے جو مکہ سے بارہ میل کی دوری پر ہے ، اس  کانام عرفات بھی ہے جس کا ذکرقرآن مجید کے اندرہے " نیساپوری کے بقول :"عرفات جمع عرفة وكلاهما علم للموقف , كأن كل قطعة من تلك الأرض عرفة فسمي مجموع تلك القطعة بعرفات " "عرفات عرفہ کی جمع ہے اور دونوں موقف کے لئے بطورعلم استعمال ہوتاہے ، گویا اس کا ہرحصہ عرفہ ہے لہذا اس کے سارے حصوں کے مجموعے کا نام عرفات ہے " اسی طرح کی بات ابن الحاجب نے شرح المفصل کے اندرلکھی ہے ۔ اورطبرسی کے بقول :"عرفات :إسم للبقعة المعروفة التي يجب الوقوف بها,ويوم عرفة يوم الوقوف بها" "عرفات : اس  معروف جگہ کا نام ہے جہاں (حاجی کے لئے ) وقوف واجب ہے ، اور وہاں وقوف کرنے کادن عرفہ کا دن ہے " فیروزآبادی نے بھی ان کی تائید کی ہے(مزید وضاحت کے لئے دیکھئے: الصحاح للجوھری :4/1401-1402 ،معجم الفروق اللغویۃ للعسکری : ص 354 ، المغرب فی ترتیب المعرب  للمطرزی : ص 312 ، شرح الرضی علی الکافیۃ لابن الحاجب :3/259 ، المصباح المنیر للفیومی : 2/404 ، القاموس المحیط للفیروزآبادی : 1/836  ،اور تاج العروس للزبیدی  : 24/137 ) ۔
چنانچہ مختصر الفاظ میں عرفہ یا عرفات دونوں کی  اصطلاحی تعریف  یوں ہے :"  وہ جگہ جہاں حجاج کرام حج کا ایک رکن  (یعنی وقوف ) اداکرتےہیں عرفہ یا عرفات کہلاتاہے  "۔
عرفہ کی وجہ تسمیہ 
     عرفہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں امام ابن قدامہ فرماتے ہیں :" فأما يوم عرفة : فهو اليوم التاسع من ذي الحجة ، سمي بذلك لأن الوقوف بعرفة فيه،وقيل : سمي يوم عرفة لأن إبراهيم عليه السلام أري في المنام ليلة التروية أنه يؤمر بذبح ابنه، فأصبح يومه يتروى، هل هذا من الله أوحلم ؟ فسمي يوم التروية،فلما كانت الليلة الثانية رآه أيضا فأصبح يوم عرفة، فعرف أنه من الله، فسمي يوم عرفة "( المغني : 4/ 442 ) "عرفہ کا دن ذی الحجہ کی نویں تاریخ  ہے یہ نام اس لئے پڑاکہ اسی دن وقوف عرفہ ہوتاہے ، اور کہاجاتاہے کہ يوم عرفہ کانام  یوم عرفہ اس لئے پڑاکیونکہ ابراہیم علیہ السلام کویوم ترویہ کی رات میں خواب میں دکھایاگیا کہ انہیں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کاحکم دیاجارہاہے ، پھر وہ پورے دن اس غور و فکر میں رہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے یا پھرمحض ایک خواب ؟ اسی وجہ سے اس دن کا نام یوم ترویہ پڑا  ،پھر دوسری رات بھی آپ کو یہ خواب دکھایاگیا پھرجب عرفہ کی صبح ہوئی تو آپ جان گئے کہ یہ اللہ کی جانب سے (حکم) ہے ، اسی وجہ سے اس کا نام عرفہ کا دن پڑا"۔
اس کے علاوہ بھی عرفہ یا عرفات کی وجہ تسمیہ سے متعلق بہت سارے اقوال مفسرین نے نقل کئے ہیں جن میں آدم علیہ السلام کا اس جگہ کو پہچاننا , آدم وحواء علیہما السلام کا اسی مقام میں ایک دوسرے کو پہچاننا ، ابراہیم علیہ السلام کا جبریل علیہ السلام کے ذریعہ بتانے پر حج کے ارکان کا پہچاننا اور لوگوں کا اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا جس کے عوض میں  گناہوں کی گندگی سے پاک ہوکر اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک بہترین خوشبو کا مستحق قرارپانا وغیرہ (ان سارے اقوال کے لئے دیکھئے : " تفسسير الطبري : 2 / 297، البحر المحيط :2 / 275 ( فإذا أفضتم من عرفات ... الآيۃ   , کی تفسیرمیں) ،اور اسی طرح  " لسان العرب لابن منظور : 4 / 2898  مادة : (عرف ) نیزدیکھئے : تفسیرالرازی:5/189)۔ 
یوم عرفہ کے دیگر نام  
     اس دن کو عرفہ کے علاوہ بھی کئی ناموں سے جانا جاتا ہے، مثلا : یوم التمام  یا اتمام النعمۃ   ، یوم الحج الاکبر، المشھود،الوتراور یوم الرضاء  یا الرضوان ،یو م ایاس الکفار، یوم اکمال الدین وغیرہ ۔
عرفہ کادن
     یوم عرفہ کو یوم عرفات بھی کہتے ہیں کیونکہ حج کے ایام میں نویں ذی الحجہ کو حاجی حج کے ایک اہم  رکن کی ادائیگی کے لئے  مقام عرفات میں اکٹھا ہوتے ہیں جو مکہ  سے قریب بائیس کیلو میٹر کی مسافت پر ایک پہاڑی کا نام ہے(دیکھئے: معجم المعانی اور لغت کی ديگر کتب ،  مادہ : "عرف") ۔ اہل لغت کی تصریح کے مطابق  عرفہ کے دن کی تعیین میں زمان ومکان دونوں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں۔  
     جب عرفہ یا عرفات کے ساتھ یوم کی اضافت ہوتی ہے تو اس دن کی تعیین کے لئے ہی ہوتی ہے جس دن مخصوص اعمال انجام دئے جاتے ہیں  ،نیز عرفہ کے دن  کی تعیین کے سلسلے میں عام طور پر اہل لغت  لکھتے ہیں کہ  عرفہ  ذی الحجہ کا نواں دن ہے (دیکھئے: " القاموس الفقهي " "معجم لغة الفقهاء"،اسی طرح دیگر شروح كتب السنۃ  )۔
     اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عرفہ کا دن ذی الحجہ کی نویں تاریخ کوہی پڑتاہے اور ذی الحجہ کا اعتبارمکہ ونواحی کی رؤیت کے اعتبار سے ہوتاہے کیونکہ عرفہ کا دن حج کے اعمال سے متعلق ہے جو بلاشبہ مکہ کی رؤیت کے اعتبارسے ہی ہوتاہے۔
عرفہ کے دن کی فضیلت
      عرفہ کے دن   کی نصوص قرآن وسنت میں  بہت بڑی فضیلت وارد ہے  ، مثلا :
1- عرفہ کا دن اہل موقف کے لئے عید کا دن ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "يوم عرفة ويوم النحر وأيام منى عيدنا أهل الإسلام"( رواه أحمد/16932 ،أبوداود:7/63 رقم/ 2419,الترمذي :3/417 رقم/768 والنسائي: 5/278 رقم 3006 وصححہ الألباني في صحيح سنن أبي داؤد رقم/2090الإرواء :4/130) یعنی :" عرفہ ، نحر(قربانی) اور منی کے ایام ہم اہل اسلام کے لئے عیدکے دن ہیں "۔ 
2- اس روز دعاء کا خاص مقام ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"خير الدعاء دعاء يوم عرفة " یعنی : "سب سے بہترین دعاء عرفہ کے دن کی دعاء ہے" (الترمذي:رقم /3585 وحسنہ الألباني في صحيح الترمذي وتخريج مشكاة المصابيح :رقم/2531)۔ 
3- عرفہ کے دن اللہ تعالی کثرت سے لوگوں کو جہنم سے رہا کرتاہے  اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم کا ارشادہے : " ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا من النار من يوم عرفة"( صحيح مسلم / 1348)  یعنی : " عرفہ کے دن سے زیادہ اللہ تعالی کسی دن بندوں کو آزاد نہیں کرتا"۔
4- اللہ تعالی عرفہ میں وقوف کرنے والوں پر اہل آسمان کے درمیان فخرکرتاہے  ، اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم کا ارشادہے : "إن الله يباهي بأهل عرفات أهل السماء ,فيقول لهم :أنظروا إلى عبادي جاءوني شعثا غبرا  "( رواه أحمد  والحاكم /1751  والبيهقي وابن خزيمۃ وابن حبان وصحح إسناده الألباني  في صحيح الترغيب /1132) "اللہ تعالی عرفات میں قیام کرنے والوں پہ آسمان والوں میں فخرکرتے ہوئے فرماتاہے : میرے بندوں کی طرف دیکھوجومیری خاطرپراگندہ بال  گرآلود ہوگرآئے ہیں " اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"وإنه ليدنو ثم يباهي بهم ......."  " اللہ تعالی قریب ہوتاہے پھر ان پرفخرکرتاہے " (صحیح مسلم / 1348 )۔
5-  اسی دن دین اسلام کی تکمیل ہو‏ئی اورنعمت کا اتمام ہوا(صحیح البخاری : 4606 )۔
6-  اس دن کی اللہ تعالی نے مختلف آیتوں میں قسم کھائی ہے جو اس دن کی اہمیت ومرتبہ کو بیان کرتاہے ، جیسے سورۃ البروج میں " مشھود"( البيهقي فی السنن :" 3/170 ، الترمذی :رقم/3339  وحسنہ الالبانی في الصحيحۃ  رقم/1502۔)  اور بتفسیر عکرمہ وضحاک سورۃ الفجرمیں " الوتر"( دیکھئے : تفسیر الطبری وغیرہ (۔  
7- اسی دن اللہ تعالی نے بنی آدم سے توحید پر عہدومیثاق لیاتھا (رواہ احمد/2455 ،والحاكم /75  وصححہ الالبانی )۔ 
اس کے علاوہ بھی اور بہت ساری خصوصیات ہیں جو اس دن کو دیگر ایام سے ممتازکرتی ہیں ۔
عرفہ کے دن کے روز ہ کی فضیلت
     ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرفہ کے دن کے روزہ سے متعلق پوچھاگیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:"إني أحتسب على الله  أن يكفر السنة التي قبله  والسنة التي بعده ......"( صحیح مسلم/1162 ) " مجھے اللہ تعالی سے امیدہے کہ (اس روزے کے بدلے) اس سے پہلے والے سال اور اس کے بعدوالے سال کے گناہوں کو معاف فرماد‎ےگا)"۔
عرفہ کے روزے کا حکم
     کسی بھی مسئلہ کی وضاحت اوراس سے متعلق امورمیں حکم کا بہت بڑا دخل ہوتاہے  ، تاکہ مکلف پر اس پر عمل کی حیثیت واضح اور مدون ہوسکے ۔ارکان ، فرائض ، سنن ونوافل اور مستحبات ومندوبات ہر ایک پر عمل اس کی حیثیت وحکم کے اعتبار سے ہی مرتب ہوتاہے اور عامل اسی کے مطابق عمل میں مخیر و مکلف ہوتاہے ۔ اور یہ شریعت سمحہ کا  اللہ رب العزت کی طرف سے امت پر اعمال وعبادات میں مزاج و کیف  اور حالات وظروف  کی رعایت کرتے ہوئے تیسیر اور احسان ہے، تاکہ امت بدلتے حالات اور اسباب نازلہ کی بنیاد پر عمل کے اختیار اورعدم اختیار میں  کسی حرج اور پریشانی میں مبتلانہ ہو ۔ 
     عرفہ کے دن کا روز ہ حکم کے اعتبار سے ( اپنی بے انتہا فضیلت کے باوجود)مستحب  یا سنت مؤکدہ کے زمرے میں آتاہے ،اس لئے ترک وعمل اورتعیین وتحدید میں  اس کا اعتباربھی اسی حیثیت سے ہوگا ، نہ کہ  بالکلیہ دوسرے سببی اور غیر سببی روزوں کے اعتبارسے ۔
     چنانچہ  عرفہ کے دن کا روزہ کوئی واجبی روزہ نہیں ہے کہ اس کا توڑنے والا گنہگار ہوگا البتہ اس کے لئے  خیرکثیر سے محرومی کا باعث ضرورہے ۔
 کیا حاجی مقام عرفات میں روزہ رکھ سکتاہے؟
حاجی مقام عرفات میں روزہ رکھنے کے سلسلے میں علماء کی مختلف رائیں ہیں :
اول : مقام عرفات میں حاجی کے روزہ کے سلسلے میں روایت واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے عرفات میں  روزہ نہیں رکھا(دیکھئے  :صحیح بخاری : 1658 ،صحیح مسلم /1123 )۔ 
  یہ قول مالکیہ ، شافعیہ کا معتمد قول ، حنابلہ  عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما  اور اکثر علماء کا ہے ۔
عبداللہ بن عمر فرمایا کرتے تھے کہ :"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ نہیں رکھا اورنہ ہی ابوبکرنےاورنہ ہی عمرنے    اور نہ ہی عثمان نے ،  اور نہ میں رکھتاہوں ،اور نہ میں اس کا حکم دیتاہوں اور نہ اس سے روکتاہو ں"( اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے ، دیکھئے : عارضۃ الاحوضي : 3/ 285 رقم /752  ، امام البانی نے اسے صحیح الاسناد قراردیا ہے ، صحیح سنن الترمذی : رقم /599)۔
امام ابن بازایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :"الحاج ليس عليه صيام عرفة وإن صام يخشى عليه الإثم ; لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن صوم عرفة بعرفة ولم يصم . وإن تعمد الصيام وهويعلم النهي يخشى عليه من الإثم لأن الأصل في النهي التحريم " " حاجی کےاوپرعرفہ کا روزہ نہیں ہے اور اگروہ روزہ رکھ لیتاہے تو اثم کا خطرہ ہے ، اس لئے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ میں عرفہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے  اور خود بھی نہیں رکھا ہے ۔ اوراگر ممانعت کوجانتے ہوئےبھی روزہ رکھتاہوتو آثم ہونے کا خطرہ ہے ، کیونکہ نہی میں اصل تحریم ہوتی ہے"( مجموع فتاوى ومقالات الشیخ ابن باز :15/405)۔
دوم : اگرحاجی اس روز روزہ رکھنے پہ قادرہواور اس سے اس کی عبادات اور ذکرواذکارپر کوئی اثر نہ پڑتا ہوتو اس کے لئے روزہ رکھنا مستحب ہے ، یہ قول حنفیہ کا ہے اور شافعیہ کا قدیم قول بھی یہی ہے ، اور اس کے قائلین میں سے قتادہ اورعطاء بھی ہیں ،صاحب عون المعبود لکھتے ہیں : "امام خطابی کے بقول : یہ ممانعت استحبابی ہے نہ کہ ایجابی ،اس روز حاجیوں کے لئے روزہ کی ممانعت اس لئے ہےکہ مبادہ اس مقام میں ذکرودعاء میں حاجی  کمزور پڑجائےگا، لہذاجوقدرت رکھتاہواورروزے کے ساتھ کمزروی کا خوف نہ ہوتواس کے لئے اس دن کا روزہ بمشئۃ اللہ افضل ہے ، کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ کا (عمومی) فرمان ہے : " عرفہ کے دن کاروزہ  اس کے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد  دوسالوں  کے گناہوں کے لئے کفارہ ہے "۔حاجی عرفہ کے دن روزہ رکھ سکتاہے یا نہیں  ؟  اس سلسلےمیں لوگوں کی مختلف رائیں ہیں ، عثمان بن ابی العاص اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ دونوں روزہ رکھا کرتے تھے ،  امام احمد بن حنبل کہتے ہیں : "اگر روزہ رکھنے پہ قادرہے تو رکھےگا اوراگرنہیں رکھتاہے تو یہ ایسادن ہے جس دن  (دعاء وعبادت کے لئے ) قوت کی ضرورت پڑتی ہے " اور امام اسحاق اس دن حاجی کےلئے روزہ کو مستحب  سمجھتے تھے ۔ امام مالک ، امام سفیان ثوری اور اسی طرح امام شافعی روزہ نہ رکھنے کے قائل تھے ۔ عطاءکہتے تھے کہ میں  جاڑے کے موسم میں روزہ رکھتاہوں اور گرمی میں نہیں رکھتاہوں(عون المعبود :7/75- 76 ، نیزدیکھئے :دلائل الاحکام لابن شداد : 4299- 4305 ، الحاوی الکبیر : 3/472)۔
سوم : اس روز روزہ رکھنا حاجی کے لئے مطلقا مستحب ہے ،  یہ قول عائشہ وعبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہما اور اسحاق بن راہویہ اور ظاہریہ کا ہے (دیکھئے :مؤطاامام مالک: 1/375 ، شرح السنۃ للبغوی : 6/345-346  ،  تحفۃالاحوذی : 3/378 )۔
حاجیوں کے لئے اس دن روزہ نہ رکھنے کی حکمت
حاجیوں کے اس دن روزہ نہ رکھنے کی مختلف حکمتیں بیان کی جاتی ہیں ، مثلا :
  -  تاکہ اس دن حاجی بلاکسی تھکاوٹ وپریشانی کے ذکرودعاء اور  عبادت میں خودکو یکسوئی کے ساتھ مشغول کرسکے۔
 -  یہ دن اہل موقف کے لئے عید کا دن ہے ۔
-   اس دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں روزہ نہیں رکھا ۔
        
عرفہ کا روزہ اور اختلاف مطالع کا اثر
     بلا شبہ رمضان اورغیررمضان کے روزوں میں رؤیت ہلال کا بہت بڑا دخل ہے جبکہ عرفہ کے دن کا روزہ رؤیت کے تخمینہ کے ساتھ ساتھ عرفہ میں حاجیوں کے وقوف سے متعلق ہے ۔ اسی وجہ سےہم دیکھتے ہیں کہ اس روزہ کی فضیلت  جن روایتوں میں بیان کی گئی ہے ان میں زیادہ ترمیں"یوم عرفہ " کا ذکرہے نہ کہ تاریخ ذی الحجہ کا یہ الگ بات ہے کہ یوم عرفہ مکہ اور نواحی مکہ کی قمری تاریخ کے اعتبارسے  نو ذی الحجہ ہی کو پڑتا ہے ۔
  دائمی کمیٹی برائے فتاوی نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے  : 
"يوم عرفة هو اليوم الذي يقف الناس فيه بعرفة ، وصومه مشروع لغير من تلبس بالحج، فإذا أردت أن تصوم فإنك تصوم هذا اليوم، وإن صمت يومًا قبله فلا بأس، وإن صمت الأيام التسعة من أول ذي الحجة فحسن؛ لأنها أيام شريفة يستحب صومها...."( فتاوى  اللجنۃ الائمۃ  /10 / 393)  " عرفہ کا دن وہی دن ہے جس دن لوگ (مقام ) عرفہ میں وقوف کرتے ہیں ، اور غیرحاجیوں کے لئے اس (دن) کا روزہ مشروع ہے ، اگرآپ روزہ رکھنا چاہتے ہیں تو اسی دن رکھیں ، اور اگرایک دن قبل رکھاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، اور اگرپہلی ذی الحجہ سے ہی نو دنوں تک رکھنا چاہیں تو اچھاہے ، اس لئے کہ یہ مبارک دن ہیں جن کاروزہ مستحب ہے ۔۔۔"۔
شیخ عبدالرحمن السحیم ایک استفتاء کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں   :
"والعبرة بوقوف الناس في "عرفة "،ولا عبرة بِمن خالف إجماع امة الإسلام ، فأمّة الإسلام تحج وتقف وتُجمِع على أن يوم عرفة ،وهو اليوم الذي يقف فيه الناس .ولا عبرة هنا باختلاف المطالع ؛ لأن الأمة تجتمع على أن يوم عرفة في ذلك اليوم الْمُحدَّد."( منتديات شبكۃ السنۃ النبويۃ و علومها/ فتاوی   سنہ  1428 ھ) " لوگوں کے عرفہ میں وقوف کا اعتبار ہوگا نہ  کہ جوامت اسلام کی مخالفت کرے اس کا ، چنانچہ امت مسلمہ حج ،وقوف اور اجتماع اس بنیاد پر کرتی ہے کہ عرفہ کادن ہی ہے جس میں لوگ وقوف کرتےہیں ، اوریہاں پر اختلاف مطالع کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، کیونکہ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ عرفہ کادن اسی متعین ومحددد  دن میں ہے "۔
اورایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :" يوم عرفة يوم يقف الناس في عرفات ، وليس لأحد أن يُخالف أمة الإسلام ، فإن امة الإسلام تجتمع وتُجمِع على أن يوم عرفة يوم يقف الناس ، وهو اليوم التاسع من ذي الحجة . فمن قدّم أو أخّر في الصيام فاته أجر صيام يوم عرفة، والله أعلم "( منتديات شبكۃ السنۃ النبويۃ وعلومها)۔ عرفہ کادن وہی دن ہے جس دن لوگ عرفات میں وقوف کرتے ہیں او رکسی کے لئے جائزنہیں کہ امت اسلام کی مخالفت کرے، کیونکہ امت اس بنیاد پر اکٹھی ہوتی ہے اور اس کا اجماع  ہے کہ عرفہ کادن لوگوں کے وقوف کا دن ہے ،جو ذی الحجہ کی نویں تاریخ  ہے ، لہذا جو  روزے میں تقدیم وتاخیر کرتاہے اس سےعرفہ کےدن کےروزے کا اجرفوت ہوجاتاہے،اللہ اعلم" ۔
ہمارے استاد اور معروف محقق شیخ احمد مجتبی  سلفی مدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ واضح رہے کہ یوم عرفہ سے مراد مکہ کے کیلنڈرکے حساب سے نو ذی الحجہ کی تاریخ ہے ، کسی دیگرملک میں اگرچاندمکہ سے ایک دن بعد دیکھا گیاہوتووہاں کے لوگ بھی مکہ کے کیلنڈرہی سے نوذی الحجہ کا روزہ رکھیں  "( تقدیم  ومراجعہ بکتاب "قربانی کے احکام ومسائل قرآن وسنت کی روشنی میں " /ص 23 )۔ 
شیخ محمد المغراوی اپنے ایک فتوی میں فرماتے ہیں  : 
"عرفات هو اسم للجبل الذي يقف عليه الحجاج في اليوم التاسع من شهر ذي الحجة، وهو يوم واحد لا يتعدد، فالصيام مع وقوف الحجاج هو الصيام الصحيح، وأما ما سواه فلا أعلم له أصلا لا في الكتاب ولا في السنة.اهـ " "عرفات اس پہاڑی  کانام ہے جہاں نویں ذی الحجہ کو حجاح کرام وقوف فرماتےہیں ، اور وہ صرف ایک ہی دن ہے متعددنہیں ، اس لئے (عرفہ کا) روزہ حاجیوں کے وقوف کے ساتھ ہی صحیح ہے ، اورجہاں تک اس کے علاوہ (دن) کی بات ہے تو میں قرآن وسنت میں اس کی کوئی اصل نہیں جانتا "۔  
     چنانچہ ساری عبادتوں  میں تاریخ  ، دن اوراوقات  کی تعیین میں اختلاف مطالع کا واقعی معتبر ہونے کے باوجود)  جب اس  بات کی تعیین ہوجاتی ہے کہ اس روزہ کا تعلق عرفہ کے دن سے ہے تو  اس میں اختلاف مطالع کا کوئی  اعتبار نہیں رہ جاتاہے ، دنیا میں تاریخ  کوئی بھی  ہوعرفہ کا دن وہی ہوگا جس روز حاجی مقام عرفات میں قیام فرمائیں گے۔ 
عرفہ کے دن کاروزہ اور بعید ممالک   
     یہاں پر یہ اشکا ل پیش کرنا کہ: "بعض ممالک مثلاً : لیبیا ، تیونس اور مراکش ۔۔۔ ایسے ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آتا ہے۔ یعنی ان ممالک میں جب 10/ذی الحج کا دن آتا ہے تو مکہ مکرمہ میں عرفہ کا دن ہوتا ہے۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات والے دن روزہ رکھیں تو یہ گویا ، ان کے ہاں عید کے دن کا روزہ ہوا اور یہ تو سب کو پتا ہے کہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے۔ "۔ تو یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ ( جیساکہ پہلے بیان کیاجاچکا ہے) کو ‏ئی واجبی روزہ نہیں ہے جس کا نہ رکھنے والا گنہگار ہوگا ۔ خاص طورسے جب اسے چھوڑنے کے لئے کوئی مناسب اورمضبوط سبب موجود ہو ، اس لئے جن ممالک میں قربانی کا دن حاجیوں کے عرفات میں وقوف کے  دن  پڑ جائے توان کے یہاں قربانی کے دن کو ترجیح حاصل ہوگی ،کیونکہ ایسے لوگوں کے لئے عدم قدرت کی وجہ سے یہ روزہ مشروع ہی نہیں ہے ۔ اور جوعبادت  خاص طورسے نفلی عبادت کسی کے لئے مشروع نہ ہو اس کے اندرتاویل کرکے زبردستی کسی دوسرے دن میں لے جانا اور اس کی خصوصیت کو تعمیم میں بدل دینا کیا یہ احداث فی الدین نہیں ہے  ؟؟؟۔
     نیز یہ بھی واضح رہے کہ  مختلف ممالک میں  اختلاف مطالع کی وجہ سے نو ذی الحجہ الگ الگ ہوتاہے  ، اوران الگ الگ ایام کو عرفہ کا نام دینا  مناسب نہیں ہے ، جن میں حاجیوں کا عرفات میں  قیام ہی نہیں ہوا ، بلکہ  دیگر ایام کو وہ نام دینا جو شریعت نے کسی خاص دن کو دے رکھاہے  شریعت پہ زیادتی  کے قبیل سے ہے۔
     اگر اس چیزکی اجازت دے دی جائےکہ نو ذی الحجہ کو یوم عرفہ کہاجائے خواہ وہ دنیا کے کسی اور خطے میں کسی دوسرے دن ہی کیوں نہ پڑے  تو پوری دنیامیں ایک سے زیادہ  عرفہ کے ایام ہوجائیں گے اور نام " یوم عرفہ " کے بجائے " ایام عرفہ " رکھنا ہوگا۔
شریعت میں اس  نوع کے  بہت سارےاعمال  ہیں جو کسی مناسب یا شرعی سبب کی بناء پریا توبعض افراد کے لئے غیرمشروع  یا ان سےساقط ہوتےہیں ، مثلا :
 ایک آدمی سفرکرکے کسی دوسرے ملک میں گیا اور وہاں کے لوگ عید منارہے ہوں ، جبکہ اس کا روزہ  جس ملک میں شروع کیا ہے کے مطابق ایک کم ہورہاہے پھربھی لوگوں کے ساتھ روزہ توڑدیگا ، یہ الگ بات ہے کہ یہ روزہ  فرض ہونے کی وجہ سے اس کی قضاء واجب ہوگی ۔ 
  جمعہ کے روزے کی ممانعت عرفہ کے روزے کی عزیمت کی وجہ سے ساقط ہے ۔
 عرفہ کے دن وقوف عرفات کی وجہ سے حاجیوں سے اس روز روزہ ساقط ہے۔
 مقیم امام کی اقتداءمیں نماز پڑھنے کی وجہ مسافرکے لئے قصر ساقط ہے ۔
  فجر اور ظہر وغیرہ کی سنتوں  یا جماعت کھڑی ہونے کی وجہ سےمسجدمیں داخل ہونے والے کے لئے  تحیۃ المسجد مشروع نہیں  ہے کیونکہ یہ سنتیں تحیۃ المسجدکے لئے کفایت کرتی ہیں ۔
 اسی طرح سببی نمازوں  جیسے فرض نمازوں کی قضاء ، طواف کی دورکعتیں ، تحیۃ المسجد اورسورج گرہن  کی نماز وغیرہ  کی وجہ سے ممنوعہ اوقات میں نماز کی  ممانعت ساقط ہے ۔
ان کے علاوہ بھی اور بہت سارے مسائل ہیں جو اس  نقطے کی وضاحت کے لئے کافی ہیں ۔
اس لئے جن ممالک میں یوم النحر عرفہ کے دن پڑجائے وہاں کے رہنے والوں سے عرفہ کے دن کا روزہ ساقط مانا جائے یہ احوط ہے اس بات سے کہ  شریعت کے متعین کردہ  دن  کو ہی بدل  دیا جائے ۔
      بعض سلف سے اختلاف کی صورت میں  اس روزہ کے ساقط ہونے کی روایت آتی  ہے ،  ابن  ابی شیبہ نے امام ابراہیم النخعی کا قول نقل کیاہے کہ : جب ان سے حضرمیں شک  یا غیر معتمد شہادت کی بنا پر اختلاف کی صورت میں عرفہ کے روزہ کے بارے میں سوال کیاگیاتوفرمایا:" إذا كان فيه اختلاف فلا تصومن" (مصنف ابن ابی شیبہ :3/97، اس روایت کو امام ابن رجب حنبلی کی  کتاب أحكام الاختلاف في رؤيۃ هلال ذي الحجۃ (ص19-20)کی تحقیق  میں  ڈاکٹر عبدالله بن عبد العزيز الجبرين نےحسن قراردیاہے ۔)"اگر اس سلسلےمیں اختلاف ہوجائے تو روزہ مت رکھنا"۔ 
 (نوٹ : جب میں نے  کسی خاص سبب کی وجہ سے عرفہ کے  روزہ کے سقوط والی بات لکھی تو بہت سارے احباب نے اس پر یہ کہہ کر تنقید کی کہ آپ کون ہوتے ہیں کسی عمل کو ساقط کرنے والے  ؟
     اس طرح کی بات  جب کسی ایسے آدمی کی زبان سے صادرہو جو شریعت کے علوم سے نابلد ہو تو سمجھ میں آتی ہے ، لیکن یہی بات کسی عالم دین جو کتاب وسنت کے رموزواسرار سے واقف ہو اور عبادتوں میں توقیف اور اسباب ومصالح کے دخل کا ادراک رکھتا ہو سے صادرہوتو پھر کیا کہاجاسکتاہے  ؟، جبکہ اشارۃ کچھ مسائل  کا ذکربھی کردیاگیاہو ۔)
عرفہ کا دن اور رؤيت والی روایت کا اعتبار 
"     صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته ......"  والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء اس بات پرزور دیتے ہیں کہ اس روایت میں  جو عمومیت وارد ہے وہ  رمضان کے ساتھ ساتھ سال کے ہرماہ  کے لئے عام ہے جس میں عرفہ کا دن بھی شامل ہے ،  امام خرشی  مالکی  کے بقول :والمواسم جمع موسم الزمن المتعلق به الحكم الشرعي  ولم يرد بعرفة موضع الوقوف بل أراد به زمنه وهو اليوم التاسع من ذي الحجة ،وأراد بعاشوراءاليوم العاشر من المحرم "اهـ (شرح مختصر خليل:2/234)"مواسم موسم الزمن کی جمع ہے جس سےحکم شرعی متعلق ہوتا ہےلہذاعرفہ سےوقوف کی جگہ مراد نہ لے کر وقت وزمن مراد لیاگیا ہے جو نو ذی الحجہ کوپڑتاہے اور اسی طرح عاشوراء بول کردس محرم مراد لیاگیاہے ۔"۔   امام خرشی کا مذکورہ استدلال کئی وجہوں سے قابل اعتبارنہیں ہے:  
 بلاشبہ بہت ساری عبادتیں موسم وزمان سے متعلق ہیں ، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بہت ساری عبادتوں میں زمان ووقت کا قطعا اعتبار نہیں ہوتا ، اور بسااوقات  اعتبار ہوتابھی ہے تو اس کے بعض احکام ومسائل اورجز‌ئیات اس اعتبارسے نکل جاتےہیں ، انہیں میں عرفہ کا دن ہے ، جوشروع  تو ہوتا مکہ ونواحی کی رؤیت سےہےلیکن اعتبارعرفات کے میدان میں  حاجیوں کے اجتماع کا ہوتاہے ، مثلا : مکہ ونواحی کے غیرحجاج افراد جنہیں اس بات کا یقین بھی ہو کہ تعیین یوم عرفہ میں غلطی ہوئی ہے اور باعتبار طلوع قمر  ایک دن بعد یا ایک دن قبل یوم عرفہ ہونا چاہئے پھربھی ان کے روزے کا اعتباراس دن کا ہوگا جس دن خطأ کے باوجود  حاجی میدان عرفات میں ہوں ۔
 امام خرشی کا یہ کہنا کہ عرفہ سے جگہ نہ مراد لے کرنو ذی الحجہ  کی تاریخ مراد لی گئی ہے ،  دعوی بدون دلیل ہے ، جب کہ معاملہ اس کے برخلاف ہے ، روایت میں واضح طورپر یوم عرفہ سے وقوف عرفات کا دن ہی مراد لیا گیا ہے ،لہذا جس روز مقام عرفات میں حاجیوں کا قیام ہی نہ ہوا ہو اس روز کو یوم عرفہ کہنے کے لئے دلیل صریح کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ فقہاء کے بیان کے مطابق  یوم عرفہ اسی دن کوکہاجائے گا جس دن حاجی مقام عرفات میں  ہونگے ۔ 
  امام خرشی رحمہ اللہ نے عاشوراء یعنی دس محرم کی مثال دی ہے کہ جس طرح عاشوراء بول کر دس محرم کی تاریخ مراد لی جاتی ہےاسی طرح عرفہ بول کرنو ذی الحجہ کی تاریخ مراد لی جائے گی۔     یہاں یہ بات  واضح ہونی چاہئے کہ عاشوراء  یا  تاسوعاء معین تاریخ کا نام ہے ، جس میں اعتبار گنتی  وعدد کےمطابق محرم کے نویں  اور دسویں دن کا ہوتاہے اور یہ تاریخ دنیا کےہرملک میں بروقت جاری شہری و قمری اعتبارکے مطابق ہوتاہے ، جبکہ عرفہ کے ساتھ ایسی کسی بھی عمومیت کے لئے دلیل چاہئے ہوتی ہے ، خاص طور سے جب اس کے ساتھ کچھ خاص اعمال واحکام اور تعیین وتحدید مرتبط ہو ں، نیز یہ واضح ہونا چاہئے کہ عرفہ کا بیان  لفظ "یوم" سے خالی ہرگزنہیں ہے ، جو یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہ دن اپنی عمومیت پہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ  زمان کے ساتھ ساتھ اجتماع ومکان  کی تخصیص موجودہے جس کے بغیر نہ یہ دن مکمل ہوتاہے اور نہ ہی حاجی کا حج ۔۔۔ فافھم وتدبر۔ 
     لہذا یہ چیز واضح ہے کہ عرفہ ایک مخصوص دن کا نام ہے، جس روز  مقام عرفات میں حاجیوں کااجتماع ہوتاہے،اس لئےاسے محض کسی تاریخ سے متعلق کرکے اس میں تعددپیدا کرناقطعا مناسب نہیں ہے، اسی وجہ سےہم دیکھتے ہیں کہ اس روزہ کی فضیلت  جن روایتوں میں بیان کی گئی ہے ان میں زیادہ ترمیں "یوم عرفہ " کا ذکرہے نہ کہ تاریخ ذی الحجہ کا یہ الگ بات ہے کہ یوم عرفہ مکہ ونواحی کی رؤيت  کے اعتبارسے نو ذی الحجہ ہی کو پڑتاہے ۔
      یہاں یہ بات قابل غورہے کہ اگرکسی اجتہادی غلطی کی وجہ سے حجاج آٹھ یا دس ذ ی الحجہ میں وقوف کرتے ہیں تو اسی دن کو یوم عرفہ شمارکیا جائے گاجیسا کہ فقہاء نے اپنی کتابوں میں  اس کی صراحت کی ہے (دیکھئے:حاشيۃ ابن القيم على سنن أبي داود : 6/317, المحلى  لابن حزم :5/203-204 ،المغني لابن قدامۃ : 3/456, المهذب مع شرحہ المجموع: 8/292, المجموع  للإمام النووي : 8/292, مجموع فتاوى الإمام ابن تيميۃ: 25/107 , بدائع الصنائع: 2/304 , شرح الخرشي على مختصر خليل : 2/ 321 , روضۃالطالبين :2/377)۔ 
چنانچہ"صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ –" والی روایت کو عمومیت کی بنیاد پرمطلقا یوم عرفہ کے روزہ کے لئے  تاریخ کی  تحدید کے طورپرپیش کرنا محل نظرہے ، کیونکہ اس روزے کا تعلق یوم عرفہ (حاجیوں کے مقام عرفات میں قیام ) سے ہے نہ کہ تاریخ سے ۔
     یہاں یہ نکتہ کافی اہم ہے کہ مذکورہ روایت رمضان کےروزوں کے باب میں صریح ہے اور اس کا تعلق مطلقاتمام روزوں سے نہیں ہے کیونکہ کچھ روزے دن سے متعلق ہیں نہ کہ تاریخ سے، جیسےسوموار وجمعرات اورخود یوم عرفہ کا روزه ۔
     عرفہ کے روزے کے لئےدن کی تعیین کی وجہ سے جب رؤيت كا اعتبارکالعدم کےحکم میں ہے تو یہاں پر اختلاف مطالع کی بحث بے معنی ہے .یہاں یہ اشکال پیش  کرنا کہ :"اگر روزے سےمتعلق  ر‏ؤیت  ہلال کا حکم نکال دیا جائے تو روزہ بے معنی ہوجائےگا  , ایک دن کا بھی کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا ہے ، نہ سحری کھاسکتا اور نہ ہی  افطار کرسکتاہے ۔"، شریعت سے کج فہمی کی دلیل ہے ، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ  دین کے زیادہ تر مسائل میں ر‏ؤیت ہلال کے اعتبار وحکم  کا کوئی بھی فرد انکارنہیں کرتا ، جو لوگ  توحید مطالع کے قائل ہیں ان کے یہاں بھی اعتبار رؤیت ہی ہے ، نہ کہ فلکی حسابات اور اعداد تاریخ  ۔  
     قاعدے کی رو سے رؤیت کا اعتبار ان روزوں میں ہے جو رؤیت سے متعلق ہیں ، نہ کہ ان روزوں میں جو سببی اور مخصوص دن اور مخصوص وجہ سے متعلق ہیں ۔ کیا عرفہ اور اس دن  حاجی او ر غیر حاجی کے لئے مشروع اعمال  کا تعلق خاص نہیں ہے ؟ ۔
     واضح رہے کہ رؤيت كے اعتبارکومطلق تمام روزوں کے لئے پیش کرکے ہی اشکال پیدا کیاجاتاہے،قطع نظر اس کے کہ تمام روزوں کی حیثیت وماہیت میں یکسانیت نہیں ہے. اور "یوم" اور"تاریخ " اور "تعیین"اور"تخمینہ " کے اس بے انتہا "فرق" کے باوجود کچھ حضرات "واضح نص" کے مطالبے پر مصرہیں ؟؟؟؟  اور زبردستی ایک مخصوص ومعمول عمل کو "نسبتی" عمل قرار دینے پرتلے ہوئے ہیں ۔اس  پرمستزاد یہ کہ اپنے تأويلى موقف کو زبردستی ثابت کرنےکے لئے غیرضروری تأويلات وشبہا ت كا سہارالیتے ہیں ۔     
کیا روایات میں وارد نو ذی الحجہ کا لفظ دنیا کے تمام خطوں کے لئے ہے ؟
     جو حضرات عرفہ کے دن کے روزے کے تعدد کے قائل ہیں ان کی سب سے بڑی دلیل  ہے کہ عرفہ کے دن کے لئے روایات میں نو ذی الحجہ کا ذکر بصراحت موجود ہے  ۔  
     بلاشبہ عرفہ کے دن کے لئے نوذی  الحجہ کا  کے دن کی تعیین  باعتبار رؤیت مکہ اور حوالی مکہ وارد ہے ، اور اہل لغت بھی جہاں عرفہ کی تعریف کرتے ہیں اس میں نوذی  الحجہ کی تحدید کرتے ہیں ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عرفہ مکہ اورحوالی مکہ کی ر‎ؤیت کے اعتبار سے عام طورسے نو ذی الحجہ کو ہی پڑتاہے ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس تحدید وتخصیص کو تعمیم میں بدل دیا جائے اور سارے عالم کےاختلاف رؤیت کو مخصوص ومتعین عمل کے لئے سبب اختلاف بنا دیاجائے،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حج ایک مستقل عبادت ہے، اس کے تمام ارکان وایام متعین ہیں، دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی دن یا تاریخ ہو ایام حج اور ارکان واعمال حج پر اس کا کوئی اثرنہیں ہوتاہے۔  
ایام حج اور یوم النحر سے استدلال
     یہاں پراس اشکال کی توجیہ بھی ضروری ہے کہ :" ایام حج میں جس دن قربانی کی جاتی ہے دنیا کے تمام ممالک میں اس کے علاوہ کے ایام میں وہاں کی رؤیت کے اعتبار سے کی جاتی ہے؟؟" ۔
      جیساکہ میں نے ذکرکیاکہ حج ایک مستقل عمل ہے اس کا تعلق چند مخصوص ایام اور اعمال سے ہے،اس پر دوسرے ممالک میں اداکئے جانے والے اعمال کوقیاس نہیں کیاجاسکتا، بلاشک  دونوں قربانیوں کی ہیئت وماہیت اور ارکان وادائگیے میں یکسانیت ہے لیکن دونوں کی ادائیگی کے اوقات واستحقاق میں بے تحاشہ فرق ہے، مثلا : 
  قرآن وسنت کے مطابق دونوں حاجی وغیرحاجی کی طرف سے اللہ کےتقرب کے لئے ذبح ہے ، لیکن ایک کے لئے ھدي اور دوسرے کے لئےاضحیہ کا لفظ واردہے، گرچہ اس کو مکہ اور بالخصوص منی میں ہی کیوں نہ ذبح کیاگیاہو۔
 تمتع ،قران یا لزوم دم کے سبب ھدي کا حکم وجوب کا ہے برخلاف اضحیہ کے، کیونکہ  یہ جمہورفقہاء کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے(المغنی لابن قدامہ :9/435)۔   
حالانکہ بعض اہل علم وجوب کے قائل بھی ہیں ۔
 عام قربانی کے جانوراور حج کے ھدي کے جانورمیں تبدیلی کے امکان کے بارےمیں امام مالک کا فتوی ہے کہ قربانی کے جانورکوکسی حادث عیب کی وجہ سے اس سے اچھے جانورسے تبدیل کیاجاسکتاہے برخلاف  ھدي کے(المدونہ:1/549) ۔ 
  ھدي ایک خاص جگہ کے ساتھ مخصوص ہے برخلاف قربانی کے اسے منی ، مکہ یا کسی دوسری جگہ کہیں بھی کیاجاسکتاہے ، امام شافعی فرماتے ہیں : " اضحیہ مسلمانوں میں سے ہرصاحب استطاعت کے لئے سفر،حضر، گا‏ؤں ، شہر، مکہ ، حج میں منی وغیرہ میں ہرجگہ سنت ہے  اس کے ساتھ ھدي ہو یا نہ ہو "( المجموع للامام النووی: 8/383)۔
 قربانی کے بدلے کوئی دوسرا عمل نہیں کرسکتے جبکہ متمتع اورقارن کو اگرھدي میسرنہ ہوتواس کے اوپردس روزے واجب ہیں ، تین  حج کے ایام میں اور سات گھرواپسی کے بعد۔
 قربانی کا ایک جانوریا حصہ اہل  خانہ کے لئے کفایت کرتاہے جبکہ ھدي صرف حاجی کےلئے ہوتاہے ۔
 اضحیہ کے لئے عید کی نماز شرط ہے جبکہ ھدي کے روزنمازعید ہے ہی نہیں ۔
 قربانی کی نیت کرنے والے کے لئے اول ذی الحجہ سے  بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم ہے ، جب کہ  حاجی کے لئے یہ حکم صرف حالت احرام تک ہی محدود ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
     یہاں دونوں قربانیوں میں فرق ذکرکرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ حج کے ایام میں حرم ، منی ، مزدلفہ ، یا عرفات سے متعلق اعمال وعبادت دیگرایام وامکنہ میں کئے جانے والے اعمال سے حکم میں مختلف ہیں لہذا یہ کہنا کہ جس طرح یوم النحریا رمضان وعیدین پوری دنیا میں اختلاف مطالع کےاعتبارسے مختلف ہوتے ہیں  اسی طرح یوم عرفہ بھی مختلف ہوگا قطعا درست نہیں ہے، کیونکہ یوم عرفہ ایک خاص دن ہے جو ایک خاص مقام میں قیام اور خاص اعمال واحکام سےمتعلق ہے،جسے دوسرے ایام و اعمال پرقیاس  کرنا صحیح نہیں ہے ۔
روایات میں وارد "تسع ذی الحجہ" کی  حقیقت
     ابو داود اور نسائی وغیرہ کی روایت میں  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض  بیویوں سے مروی ہے :" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِويوم ‏عاشوراء، وثلاثة أيام من كل شهر "( سنن ابی داود:2436 ،سنن النسائی /2417  سنن الکبری للبیہقی /8176، علامہ البانی نے صحیح سنن ابی داود/2106 میں اس روایت کو صحیح قراردیاہے) "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ ذی الحجہ کے نو دنوں  اور محرم کے دسویں دن اور ہر ماہ کے تین دن کا روزہ رکھاکرتےتھے"۔ بعض روایات میں بطورتغلیب"عشر " ( یعنی ذی الحجہ کے دس دن ) کا لفظ وارد ہے ، جس سے مراد ذی الحجہ کے شروع کے نودن ہیں ، کیونکہ دسواں دن قربانی کا دن ہے جس میں  روزہ ممنوع ہے ۔
     کچھ لوگوں کو روایات میں وارد "تسع من ذی الحجہ" سے مغالطہ ہوا ہے کہ اس سے مراد نویں ذی الحجہ کا روزہ ہے ، جبکہ اس روایت میں نویں ذی الحجہ کی تعیین کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے ، کیونکہ " تسع" سے مراد ذی الحجہ کے شروع کے نو دن ہیں نہ کہ نواں دن ، دائمی کمیٹی برائے فتاوی نے اس غلط تاویل اور فہم کی تصحیح کرتے ہوئے لکھا ہے:"وقول بعضهم :إن المراد بتسع ذي الحجة اليوم التاسع,تأويل مردود,وخطأ ظاهر للفرق بين التسع والتاسع ""کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ تسع ذی الحجہ سے مراد نویں ذی الحجہ ہے ، تاسع اور تسع کے فرق کی بنا پرمردود تاویل اور واضح غلطی ہے "( فتاوی  اللجنۃ  الدائمہ :رقم /20247)۔

بعض شبہات کا ازالہ
1- بعض حضرات  یوم عرفہ اور عرفات کا فرق واضح کرتے ہوئے لکھتےہیں :" یوم عرفہ اور وقوف عرفات دوالگ الگ چیزیں ہیں ، یوم عرفہ دن اور تاریخ کو کہتے ہیں اورجوقمری حساب سے نو ذوالحجہ کو کہتےہیں جبکہ وقوف عرفات کا تعلق میدان عرفات سے ہے۔"
     میں نے شروع میں ہی عرفات وعرفات کا فرق اہل لغت کے بیان کے مطابق واضح کردیاہے جس سے دونوں کی حیثیت واضح ہوجاتی ہے ۔
     یہاں اس وضاحت کی ضرورت تھی کہ "یوم عرفہ " کو دن اور تاریخ کی گنتی میں کس سبب سے لایاگیاہے؟ کیادنیاکے کسی بھی خطے میں نو ذوالحجہ کو " یوم عرفہ" لکھا اور بولاجاتاہے؟۔
بلاشبہ وقوف عرفات کا تعلق میدان عرفات سے ہے،  ٹھیک اسی طرح " یوم عرفہ " کاتعلق بھی وقوف عرفات سے ہے ،دن اور تاریخ سے نہیں،گویایہ دونوں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں ، جیسا کہ مذکورہ سطورمیں فقہاءکے اقوال کی روشنی میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ "یوم عرفہ " کا اطلاق اسی دن پرہوگا جس دن حجاج وقوف عرفات کریں گے وہ دن بسبب اجتہاد وخطا آٹھ یا دس ذی الحجہ ہی کیوں  نہ ہو ۔
2- ایک اشکال یہ پیش کیاجاتاہے کہ : " اگرعرفات میں وقوف سے متعلق روزه ہوتاتوعرفہ نہیں عرفات کا ذکرہوتا" اس اشکال میں  دین میں ایک نئی  اصطلاح گھڑنے کے ساتھ ساتھ لغت معانی کے ساتھ خردبرد کی کوشش کی گئی ہے ، گویا مقام عرفات میں حاجیوں کے قیام  کےدن کے علاوه بهی کئی دن ہیں جنہیں عرفہ کا دن کہاجائےگا.(جب کہ نصوص اور اہل لغت کی صراحت کے مطابق "عرفہ " عرفات" اور ان کی طرف "یوم " کی نسبت  اور " اس دن " اور " اس دن اور اس مقام  کا عمل " ایک دوسرے سے متعلق ہیں  !!!) واضح رہےکہ "یوم عرفہ" "عرفہ کادن"یعنی جس دن حاجی میدان عرفات میں جمع ہوں کا بصراحت ذکرہے. لہذا میں نے پہلے ہی ذکرکیاہےکہ فقہاء كى صراحت کے مطابق اگرکسی اجتہادی غلطی کی وجہ سے حجاج آٹھ یا دس ذ ی الحجہ میں وقوف کرتے ہیں تو اسی دن کو یوم عرفہ شمارکیا جائے گا. گویاتاریخ نہیں حجاج کے مقام عرفات میں اجتماع کا اعتبار ہوگا.
3- ایک اشکال یہ پیش کیاجاتاہے کہ:"اگر یہ وقوف عرفہ کی وجہ سے ہوتاتوحاجیوں کے لئے بهی یہ روزہ مشروع  ہوتا". کہنا یہ چاہتے ہیں حاجی اور غیرحاجی کے لئے احکام ومسائل میں کوئی فرق ہی نہیں ہے ؟؟؟؟ 
     یہ ملحوظ رہےکہ حجاج کرام کے لئے یہ روزہ ان کے مقام عرفات میں قیام کی وجہ سے ہی ممنوع ہے (ياغيرمسنون ، كيونكہ بعض اسلاف کے یہاں حاجیوں کے لئے بهی عرفہ کا روزہ مشروع ہے، جس کابیان گذرچکاہے ) جیساکہ غیرحاجیوں کےلئےایام عیدکا روزہ  ، جیسا کہ روایت میں ہے کہ عرفہ ان کے لئے عیدکا دن ہے۔
4- کچھ حضرات یہ اشکال پیش کرتے ہیں کہ:"  اگر عرفہ کے دن  کے روزہ کا مقصد حاجیوں کے مقام عرفات میں قیام سے مطابقت ہوتا تو ان لوگوں کے لئے کیاکہیں گے جن کا روزہ حاجیوں کے قیام سے کئی گھنٹے پہلے یا کئی گھنٹے بعد میں شروع یا ختم ہوجاتا ہے ؟"
     اس قسم کا اعتراض یا اشکال پیداکرنااسلامی عبادات کے اسرارورموز ، اسباب ومقاصد اور روح ومعانی سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہوتاہے ، یہ بات  ایک عام آدمی بھی جانتاہے کہ روزے رکھے توقمری اعتبار سے جاتےہیں لیکن امساک وافطارمیں اعتبارشمسی ہوتاہے ، اور اعداد میں دن کا اطلاق صرف سورج کے آسمان پرباقی رہنے تک نہیں ہوتا بلکہ دن اور رات کو ملا کر ہوتا ہے۔
     یہ بھی واضح رہنی چاہئے کہ عرفات میں قیام  یوم النحرکی طلوع فجرسے قبل چند لمحات قیام یا مرور سے بھی حاصل ہوجاتاہے جبکہ روزہ صرف طلوع فجرسے غروب شمس تک ہوتاہے (روضۃ الطالبین :2/377)۔
5- بعض علماء عرفہ کی وجہ تسمیہ کے ذکرمیں اہل لغت  کے اقوال کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں  کہ  :"ان لوگوں کا دعوی بلا دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ عرفہ کے دن کا نام فقط حاجیوں کے وہاں وقوف کی بنا پرہے"  ۔  
     دراصل یہاں یہ اشکال پیش کیا جاتاہے کہ اللہ رب العزت نے جس دن ذریت آدم سے توحید پر عہدوپیمان لیاتھا وہ دن عرفہ کا تھا ، اور یہ معلوم ہے کہ اس وقت مقام عرفات میں حاجیوں کا قیام نہیں ہوتاتھا، پھربھی اسے عرفہ کا دن کہاگیا ۔                
     اس میں  کوئی شک نہیں کہ اہل معرفت کے بیان کے مطابق عرفہ  کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں ڈھیروں وجوہات مذکورہیں ، لیکن یہ بھی حق ہے کہ قیام عرفہ اور اس سے متعلق دیگر احکام وامور کا اعتبار قرآن وسنت پرہے ، ماقبل الاسلام کوئی بھی عمل ، رواج  یا مسمی جب تک  انہیں اسلام میں باقی نہ رکھا گیاہو قابل اعتبار ہرگز نہیں ہیں ، یہاں مسئلہ وجہ تسمیہ کے ساتھ ساتھ اس دن کے لئے نصوص قرآن وسنت سے ثابت احکام واعمال کا ہے ، کیونکہ کسی چیزکا تعارف اس کی حیثیت وماہیت کے بیان کے لئے ہوتا ہے نہ کہ  قرآن وسنت میں وارد احکام کی تشریع یا ان  کے رد کے لئے ۔ 
     اور عرفہ کی  وجہ تسمیہ اور دن اور وقت کی تعیین جو کتب احادیث ، فقہ اور لغات ومعاجم میں بھرے پڑے ہیں اس دن کے نام کے لئے دلیل نہیں  ہیں ؟ آخرانہیں کس الہامی دلیل کا انتظارہے ؟
6- نیز عرفہ کے دن کی تعیین کے انکارکے لئے ایام تشریق اور یوم ترویہ کومثال بنا عرفہ کو ایک نسبتی نام کےطورپر پیش کیاجاتاہے  کہ  :" مناسک حج میں حج کی نسبت سے بہت سارے نام رکھے گئے ہیں  ان سب پرعمومی قاعدہ ہی لگے گا  الایہ کہ خاص وجہ ہو۔۔۔"  ایک طرف  بہت سارے ناموں کو حج سے نسبت کیاجارہاہے اور دوسری طرف "عرفہ" کو جو حج کے ساتھ خاص ہے عموم کی فہرست میں ڈالا جا رہا ہے ۔ ایں چہ بوالعجبی است ۔ یوم الترویہ یا یوم عرفہ  یہ ایسے نام ہیں جو حج کے بعض ایام کے ساتھ خاص ہیں  جن کے خاص امورواحکام ہیں ، اور رہی بات ایام تشریق کی تو یہ نام حاجیوں کی قربانی (ھدي) کے ایام  اور غیرحاجیوں کی قربانی (اضحیہ) کے ایام کے ساتھ عام (مشترک) ہے ۔ (بلکہ ھدي اور اضحیہ دونوں کے ایام کے لئے یوم النحر کا لفظ وارد ہے جس کی نسبت سے دونوں کے اگلے تین دنوں کے لئے ایام تشریق کا اطلاق ہوتا ہے)۔ 
      یہاں یہ  بات بھی  قابل اعتناء ہے کہ ایام تشریق کے اعمال بھی حاجی اور غیر حاجی کے اعتبار سے مختلف ہیں ، مثلا : ایام تشریق میں روزہ رکھنا ممنوع ہے، سوائے متمتع اورقارن حاجی کے ، کیونکہ ان کے لئے ان ایام میں اگر وہ ھدي نہ پائیں تو روزہ مشروع ہے ۔ 
     تعجب تو اس بات پرہے کہ عرفہ کے دن کو حج کی طرف "  نسبت" کرکے بھی اس دن کے روزے کو "عموم" کے زمرے میں رکھا جاتا ہے ۔  پتا نہیں یہ منطق کا کون سا کلیہ ہے ؟ 
7- یہ کہنا کہ  سلف کے یہاں عرفہ سے مرادمطلق  نو ذی الحجہ کی تاریخ ہے ، ان پہ اتہام باندھنا ہے ، سلف سے یہ کہیں مروی نہیں ہے کہ وہ عرفہ کے قیام کے دن کے علم یقینی کے باوجود اس کے پہلے یا دوسرے دن کو یوم عرفہ مانتے ہوں ، بلا شبہ عدم وسائل  اوررؤیت ومطالع میں اجتہاد اور دیگر اسباب کا اس دن کے اعمال پر اثر پڑسکتاہے لیکن  یہ کہناکہ وہ پوری دنیا کے اختلاف مطالع کی وجہ سے عرفہ کے دن کو متعدد مانتے تھے دعوی بلا دلیل ہے ، اور اگر کسی نے اختلاف مطالع کو بنیاد بناکر کوئی بات کہی بھی ہے تو یہ ان کا محض اجتہاد ہے ۔ 
     بلکہ صحابہ کرام اورتابعین   کے یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ،جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے جس میں مسروق نے عرفہ کے دن روزہ اس احتمال کی بنیاد پرنہیں رکھا کہ کہیں قربانی کا دن نہ ہو اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان اس کی تصحیح فرمائی  جس کا مستفاد یہ ہے کہ آج عرفہ کا دن ہے اورعیداور قربانی وغیرہ میں  اعتباراسی  دن کا ہوگا جس دن  لوگ اسے انجام دے رہے ہوں  گرچہ اس دن کےبارے  میں شک ہی کیوں نہ  ہو (بیھقی /8301 ، شیخ البانی نے اس روایت کی سند کو جیدقرار دیا ہے ، دیکھئے:سلسلہ صحیحہ : 1/1/ 442(۔ 
     اور بیہقی اورشافعی کے اندرعطاء کی ایک مرسل روایت میں ہے:" أضحاكم يوم تضحون " "قربانی کا وہی دن ہوتاہے جس دن تم لوگ قربانی کرتے ہو"وأراه قال:"وعرفة يوم تعرفون " "عرفہ کا دن وہی ہے جس دن تم لوگ عرفہ میں قیام کرتے ہو " (البيهقي في " السنن الكبرى "( 5 / 176 ) والشافعي في " الأم "( 1/ 264) عن عطاء مرسلاً،وصححہ الألباني في "صحيح الجامع " ( 4224)اور بیھقی کی روایت میں عبدالعزيز بن عبد الله بن خالد بن أسيد  سے مرسلا مروی ہے :"يوم عرفة الذي يعرف فيه الناس""عرفہ کادن وہی دن ہے جس دن لوگ عرفہ میں قیام کرتے ہیں"( السنن الكبرى للبيهقي : 5/ 176 امام بیھقی فرماتےہیں :"هذا مرسل جيد أخرجه أبوداؤد في المراسيل " رقم /149" اور ابن حجر فرماتے ہیں :"وورواه الترمذي واستغربه وصححه , والدارقطني من حديث عائشة مرفوعا ,صوب الدارقطني وقفه في العلل ..." " اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے "غریب اور صحیح " کہاہے ، اور دراقطنی نے اسے علل کے اندرموقوف قرار دیاہے "دیکھئے : التلخیص الحبیر: 2/256 رقم /1051)۔ 
     اسی معنی کی روایت طبرانی نے اوسط کے اندر ذکر کیا ہے:"إنما عرفة يوم يعرف الإمام"( ہیثمی لکھتے ہیں :" اس کو طبرانی نے اوسط کے اندرروایت کیا ہے اوراس کی سندمیں دلہم بن صالح ہیں جنہیں ابن معین اور ابن حبان نے ضعیف قراردیا ہے ، اوراس کی سند حسن ہے " مجمع الزوائد:3/190 ، دلہم  بن صالح کو امام ابوداؤد نے "لاباس  بہ "قراردیا ہے ،تھذیب التھذیب :رقم /303 ،اور نسائی ،ذہبی اور ابن حجر نے ضعیف قراردیاہے ،دیکھئے :ضعفاء النسائی :ص 101 ، الجرح والتعدیل : 3/436، التقریب : 1/236)۔ 
      اسی  چیزکی تصریح فقہاء کے اس بیان میں بھی موجود ہے جس میں بسبب اجتہاد وخطا  آٹھ یا نو ذی الحجہ کو حاجی کے مقام عرفات میں اجتماع کے دن کو ہی عرفہ کا دن قراردیاگیاہے ۔          مذکورہ روایات وتوجیہات کودیکھتے ہوئے کہ عرفہ کے دن کے روزے کا تعلق  مقام عرفات میں حاجیوں کے قیام سے ہے یہ کہنا کہ:"اپنے اپنے ملک کےحساب سے نو ذی الحجہ کو عرفہ کا روزہ ماننا ہوبہو سلف کا عملی نمونہ ہے "،  کتنی مضحکہ خیزبات ہے ۔ نیزیہ کہنا کہ :" اگر سلف کے یہاں صوم عرفہ حاجیوں کے عرفات میں وقوف سے متعلق ہوتا یقینا وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے حاجیوں کے وقوف عرفات جاننے کی کوشش کرتے ۔۔۔۔"سلف پراتہام اور مغالطےمیں ڈالنے والی بات ہے ، جب سلف  کے یہاں اس بات میں کوئی اختلاف ہی نہیں تھا کہ عرفہ کا دن عین وقوف عرفات ہے، تو پھر وہ آخر کس ذریعہ سے کس چیزکوتلاش کرتے ؟کیا سلف میں کسی سے اس اختلاف کی بابت مروی ہے کہ یوم وقوف کے علاوہ بھی عرفہ ہوتاہے ؟ ۔ بناکسی دلیل کے باربار سلف کے فہم کا حوالہ ذہنی انتشار کی دلیل اور لوگوں پر اپنے من کی تھوپنے کی نارواکوشش  ہے ۔ چاہئےتویہ تھا کہ عرفہ کو وقوف عرفات کے علاوہ پر اطلاق کے لئے کوئی ایسی دلیل لائی جاتی جو قرآن وسنت سے ثابت ہو اور صحابہ کرام نے اس پرعمل کیا ہو !!!  جبکہ وقوف عرفہ ہی اصل یوم عرفہ ہے جس دن کے احکام واعمال  حاجی اورغیرحاجی کے لئے متعین ومعروف ہیں  جس پر قرون اولی میں تعامل رہاہے ۔
8- وقوف عرفات سے  عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق ماننے پر اشکال پیداکرتےہوئے کہا جاتاہے کہ :(لوگوں کا یہ کہنا کہ) : "سو سال پہلے لوگ اپنے ملک کے حساب سے نوذی الحجہ کا ہی روزہ رکھتے تھےمگروقوف عرفات نہ جان سکنے کی وجہ سے معذورتھے ، اب وہ عذرباقی نہ رہا ۔ اس بات سے لازم آتاہے کہ ان سب میں سے کسی نے صحیح روزہ نہیں رکھا سوائے وقوف عرفات کا علم رکھنے والے کے ، اس سے ان لوگوں بشمول سلف صالحین کی فہم  حدیث اور عمل میں نتقیص کا پہلو نکلتاہے " ۔   
     میں کہتا ہو ں کہ سلف صالحین کے عمل میں تنقیص کا پہلو نکلتاہے اور نہ ہی ان کی فہم حدیث میں ، البتہ صاحب اشکال کی فہم  کا قصور ضرور ہے ، یہ کہاں ہے کہ اجتہادوخطا کی بنیاد پر کسی کا عمل ناقص اور فہم کمزور ہوجاتاہے ، مذکورہ  نامعقول بیان کے مطابق تو - نعوذ باللہ - ان سارے صحابہ کرام ، ائمہ محدثین وفقہاء اورمجتہدین کا عمل جو  بسبب اجتہادوخطأ  نص کے خلاف تھا ناقص ہوا اور ان کے فہم میں تقصیر تھا ۔ اللہ ہدایت دے ۔
     تاریخ میں بارہا ایسا ہو اہے کہ لوگوں نے عیدین منائی اور حج کیا ، اور پھر بعدمیں پتاچلا کہ وہ دن صحیح نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے یا بعد والا دن صحیح تھا ، کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کاعمل  مردود و  ناقص تھا یا مقبول ومصاب ؟ کیا ایسے لوگوں کو اپنے حج اور دیگرعبادات کا اعادہ کرنا چاہئے تھا  ؟۔ بزعم خویش" تحقیقی" مضمون لکھنے کا دعوی کرنے والے کو اتنی سطحی بات لکھنے سے پہلے صحیح فہم اور اسلاف کے منہج وطریقہ کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے  ۔
9 –  بعض ہم عصر علماء کا یہ کہناکہ :" ہرملک کے لوگ اپنی رؤیت کے اعتبار سے عرفہ کا روزہ رکھیں  اس پر ایک طرح سے امت کا عملی اجماع ہے " دعوی بلا دلیل ہے کیونکہ اجماع کے لئے اس کے شرائط کاپایاجانا ضروری ہے جو کہ یہاں مفقود ہے، اور علماء سلف سے کہیں بھی اس پر اجماع منقول نہیں ہے ۔
      اور دوسری بات یہ کہ  جو امت  سالوں سے رمضان اور عیدکی رؤیت  پر اجماع  نہ کرسکی  اس کے لئے عرفہ کے روزے کے لئے اختلاف رؤیت کے پائے جانے اور اختلاف شرط وثبوت کی موجودگی میں  اجماع کا دعوی کہاں تک صحیح ہوسکتاہے ؟   
     بلکہ میں کہتاہوں کہ کچھ علماء نے اس کے خلاف اجماع کا دعوی کیاہے ، شیخ  ڈاکٹرسلیمان الاشقر لکھتے ہیں :" إن المسلمين في جميع أقطار العالم الإسلامي قد أجمعوا إجماعاً عملياً منذ عشرات السنين على متابعة الحجاج في عيد الأضحى ولا يجوز لأي جهة أو مجموعة من الناس مخالفة هذا الإجماع" (فتوى  مؤرخۃ   بتاريخ : 5/ 12/ 1422 ھ)"عالم اسلام کے تمام گوشوں کے مسلمان دسیوں سال سے اس بات پر عملا متفق ہیں کہ  عیدالاضحی میں حجاج کرام کی متابعت کی جائے گی ، کسی جہت یا جماعت کے لئے اس اجماع کی مخالفت جائزنہیں ہے "۔
 اس اجماع کی تائید امام سرخسی حنفی ، امام ابن العربی مالکی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے کلام سے  بھی ہوتی ہے(دیکھئے:أحكام القرآن لابن العربي :1/199- 200 ،مجموع الفتاوى:24/227)۔ 
10 – قرآن کریم کی آیت  : {وَالْفَجْرِ. وَلَيَالٍ عَشْرٍ. وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ}(الفجر:1-3) میں وترسے مراد  بعض مفسرین نے عرفہ کا دن لیاہے ،کیونکہ عرفہ کا دن طاق دن میں پڑتاہے ، اس کو بنیاد بناکر یہ کہنا کہ ‎:"برصغیرہندوپاک میں عرفہ کا دن اپنے حساب سے نو ذوالحجہ کا ہوگا تبھی قرآن کے لفظ وتر(طاق) کا صحیح اطلاق ہوگا ورنہ سعودی کے حساب سے عرفہ کا روزہ رکھنے پر ہندوپاک میں عموما آٹھ تاریخ ہوگی اور یہ جفت ہے طاق نہیں ہے اس لئے جن کا مطلع سعودی سے مختلف ہے انہیں لازمی طور پر یوم عرفہ کے لئے اپنے علاقے کی نویں تاریخ کا اعتبار کرنا ہوگا"بے جاتاویل ہے ، اگر وتر سے مراد عرفہ لیاجائے جوکہ مکہ کی رؤیت کے اعتبارسے واقعی ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو ہی پڑتاہے ،  پھر بھی یوم عرفہ کے روزہ کے تعدد ایام کے لئےیہاں پر دلیل نہیں بنتی ، کیونکہ  اول تو وتریعنی عرفہ کا تعلق  ایام حج سے ہے جو قیام عرفات سے متعلق ہے ، اور دوم  کس بنیاد پر عرفہ کے روزے کے لئے آٹھ اور نو کی تقسیم کی  جائے گی ؟ کیا شریعت نے اس کے لئے کہیں اجازت دی ہے ؟ کیا سلف نے  اس  سے ایسا ہی استدلال کیاہے جیساکہ کیاجارہاہے کہ  رؤیت کے اختلاف کی بنیادپر یوم وتر یعنی عرفہ کا دن متعدد ہوتاجائےگا ؟۔
     واضح رہے کہ اس مخصوص روزے کا تعلق صرف اورصرف یوم عرفہ سے ہے جو حاجیوں کے قیام عرفات سے متعلق ہے ،جو زمان ومکان اور رؤیت وتاریخ میں معروف اور متعین ہے  کسی مصنوعی  اشکال اور ذہنی  اختراعی دلیل سے نہیں۔ جو اصل ہے وہ اپنی اصلیت پہ باقی رہے گا اگرچہ اس کے لئے آپ اور ہم جتنے اشکالات و اشتباہات پیش کریں  ۔
     جب  یوم عرفہ کا مسمی قیام عرفات سے ہے تو اسے سعودی  اور برصغیرکی تاریخ بنانے کے لئے کسی مضبوط دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ ناپید ہے ،لہذ ا اس قسم کی باتیں  بے معنی ہیں جو کسی  امر کو اس کی اصل سے بناکسی دلیل کےپھیردے ۔  
11 – یوم عرفہ کو متعدد کرنے کے لئے لغت کا سہارا لیاجاتاہے کہ :"اہل لغت نے جہاں جہاں  عرفہ کی تعریف کی ہے  ہر جگہ ذوالحجہ کی نو تاریخ ہی لکصی ہے "۔
میں نے گذشتہ سطورمیں اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ چونکہ  حج کی نسبت اور مکہ کی ر‎ؤیت کے اعتبار سے ذوالحجہ کی نو تاریخ کو ہی عرفہ کا دن متعین ہے اس لئے اہل لغت کا نو تاریخ لکھنا بدیہی ہے، لہذا اس بنیاد پرکہ اہل لغت نے عرفہ کی تعریف میں نو ذی الحجہ لکھا ہے  اس دن کو متعدد کردینا غیرمناسب ہے جب کے عرفہ کا دن ایک خاص دن ہے جس سے غیر حاجی کا روزہ متعلق ہے ۔ 
     اگر اہل لغت کے بیان پر غور کیاجائے تو اس سے ان لوگوں کے موقف کا صریحا ردہوتاہے جو اس دن کو متعدد مانتے ہیں، کیونکہ اہل لغت کے بیان میں نوذی الحجہ کی تصریح اس بات کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ عرفہ کا دن متعدد نہیں بلکہ متعین اور مخصوص ہے ، کیونکہ عرفہ کا دن نو تاریخ کے ساتھ خاص ہے  جو حج سے متعلق ہے،  چنانچہ روزہ اسی  دن کے ساتھ خاص ہے۔ 
     یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اہل لغت نے عمومی عالمی قمری تاریخ کے اعتبار سے اس دن کی  تاریخ کی  تعمیم نہیں کی ہے، بلکہ حج کے لئے ثابت ر‎‌ؤیت کی بناپر اس دن کی تعیین اور تخصیص  کی ہے،جس کے اندر مکہ اور حوالی مکہ کا اعتبارہوتاہے ،  اور یہ تعیین ہر اس عمل کی   تعیین وتخصیص کےبیان کے لئے کافی ہےجواس دن سے متعلق ہے   ۔ 
     لہذا یہ کہنا کہ  اہل لغت نے عرفہ کے دن کو پوری دنیا میں متعدد اور مختلف  رؤیت کے اعتبار سے عام اور متعدد ماناہے بعید ازعقل اور خلاف واقع ہے ۔
12 –  نہایت ہی دیدہ دلیری  کے ساتھ اور  الفاظ وجمل کے مدلول سےعدم واقفیت کی بنا پریہ کہہ دیاجاتاہے کہ : "یوم عرفہ میں" یوم"  کا لفظ زمان پراطلاق ہوتا ہے یعنی یہ زمانہ ہے اس لئے " یوم عرفہ "سے ہرگز ہرگز میدان عرفات مراد نہیں ہوگا بلکہ کوئی زمانہ ہی مراد ہوگا اور وہ ہے ذوالحجہ کی نویں تاریخ" ۔ 
     کتنی کمزور  بات ہے کہ  یہ جانتے ہوئے کہ یوم عرفہ  ایک خاص دن ہے جو حج اور مکہ سے متعلق ہے  اس کو عمومی تعریف میں استعمال کرکے ایک متعین دن کو زمان و مکان کی گتھیوں میں الجھایاجارہاہے۔  یہ سوچنے والی بات ہے کہ جب" یوم "کی نسبت یوم  خاص کی طرف ہوگئی تو پھر اس کی  عمومیت  کیسے باقی رہ سکتی ہے ؟ ۔
     اور  " یوم عرفہ سے ہرگز ہرگز میدان عرفات مراد نہیں ہوگا" کہہ کر آخر کیا ثابت کیاجارہا ہے ؟ کیاکوئی شخص "یو م "سے مکان یا جگہ بھی مراد لیتاہے ؟ اس قسم کی باتیں کرکے عوام کے ذہن میں مسئلہ کو  خلط مبحث   کرکے ‏غلط مفہوم ڈالنے کی نارواکوشش ہے ۔ یہاں کسی نے "یوم " سے جگہ ہرگزہرگز مراد نہیں لیاہے ،بلکہ اس "یوم " کاتعلق ایک خاص رکن سے ہے جو ایک خاص وقت پر اور خاص جگہ پر انجام دیاجاتاہے ، جس سے کچھ خاص داخلی اورخارجی امور متعلق ہیں ،جن میں سے ایک اس خاص دن کا روزہ  بھی ہے ۔لہذا یہ کہنا کہ کسی نے " یوم " سے خاص جگہ مراد لیاہے محض اتہام ہے ، ہاں اس وقت کا تعلق ضرور باضرور   کسی خاص عمل اور اس عمل کا تعلق کسی خاص مکان اور جگہ سے ہی ہے۔ 
    اسکے علاوہ بهی غیرضروری اشکالات وتوجیہات اورمحاکمات پیش کی جاتی ہیں جوناقابل اعتناءاور عقل وذہن کی پیداوار ہیں  ۔ 
یاد رکهیں کہ کوئی بهی عمل توحید کے بعد اتباع سنت پرہی منحصر ہے ۔ 
اللہ رب العزت ہمیں حق وصواب کی توفیق عطا فرمائے۔ 

وصلى الله على خيرخلقه وسلم .

                  ~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۴ 

عرفہ کا روزہ کب رکھا جائے؟؟ 

ابو احمد کلیم 
جامعہ اسلامیہ،  مدینہ منورہ 

عرفہ کے روزہ کی تحدید میں علماء کے درمیان بڑا اختلاف پایا جاتا ہے،  بعض علماء کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کے لوگ مکہ کے حساب سے عرفہ کا روزہ رکھیں گے،  جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ سب اپنی اپنی رؤیت کے حساب سے روزہ رکھیں گے۔
محترم قارئین!  اگر آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل اور امت کے تعامل پر غور وفکر کریں گے تو آپ پر حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی ان شاء اللہ۔
سب سے پہلی بات یہ کہ دین اسلام میں بعض روزہ کا تعلق چاند دیکھنے سے ہے،  یعنی چاند دیکھ کر روزہ رکھا جائے، جیسے ماہِ رمضان کا روزہ، محرم الحرام کی نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ،  اور ایامِ بیض کا روزہ۔
اور بعض روزہ کا تعلق چاند دیکھنے سے نہیں ہے،  بلکہ اس کی تخصیص بعض ایام سے کی گئی ہے،  جیسے سموار اور جمعرات کا روزہ۔
اب ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ یومِ عرفہ کے روزہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کے ساتھ خاص کیا ہے یا پھر کسی دن کے ساتھ۔
اگر چاند کے ساتھ خاص ہے تو پھر سب لوگ اپنی اپنی رؤیت کے حساب سے روزہ رکھیں گے جیسے ماہِ رمضان اور ایامِ بیض کا روزہ رکھا جاتا ہے،  اور اگر کسی دن کے ساتھ خاص ہے تو پوری دنیا کے لوگ اسی دن روزہ رکھیں گے جیسے سموار جمعرات کا روزہ رکھا جاتا ہے۔
اگر عرفہ کے روزہ کو ہم دن کے ساتھ خاص کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عرفہ کا دن تاریخ کے بدلنے سے نہیں بدلے گا بلکہ وہ اپنی جگہ قائم ودائم رہے گا،  جیسے سموار اور جمعرات کا دن ہوتا ہے،  لیکن عرفہ کے روزہ کو دن کے ساتھ مخصوص کرنا صحیح نہیں کیوں کہ عرفہ کا دن ہفتہ کے دنوں کی طرح ثابت نہیں رہتا بلکہ چاند کے حساب سے بدلتا رہتا ہے، چناں چہ کبھی عرفہ جمعہ کو ہوتا ہے تو کبھی سنیچر کو،  اور کبھی ہفتہ کے دیگر ایام میں۔
لہذا صحیح بات یہی ہے کہ عرفہ کا دن تارخ سے مرتبط ہے اور اس دن کا روزہ چاند کے حساب سے ہی رکھا جائے گا۔

دوسری بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حج زندگی کے آخری سال میں کیا ہے،  اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں نہیں رہے، اور جو حاجی ہو اس کیلئے مستحب یہ ہے کہ وہ عرفہ کا روزہ نہ رکھے،  کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حالتِ حج میں عرفہ کا روزہ نہیں رکھا تھا،  اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج سے قبل مدینہ میں عرفہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔
 تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حج سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ میں جو عرفہ کا روزہ رکھتے تھے وہ مکہ کے عرفہ کے حساب سے یا پھر چاند کے حساب سے؟ 
کیوں کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ عرفہ کے روزے کو فضیلت در اصل عرفہ کے دن کے سلسلے میں وارد فضائل کی وجہ سے حاصل ہے،  لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیوں کہ اگر ہم مسلمانوں کا پہلا حج ابو بکر وعلی رضی اللہ عنہما کی معیت میں سن 9ہجری میں بھی مان لیں تو بھی یہ بات محتاجِ تحقیق ہوگی کہ اس سے قبل تو عرفہ میں حاجیوں کا وقوف نہیں ہوتا تھا تو پھر  عرفہ کے روزہ کو یہ فضیلت کیسے حاصل ہو گئی؟؟ 
پتہ یہ چلا کہ عرفہ کے روزہ کا حجاج کرام کے وقوفِ عرفہ سے کوئی تعلق نہیں ہے،  بلکہ اس کا تعلق چاند دیکھنے سے ہے،  کیوں کہ اس روزہ کو وقوفِ عرفہ سے قبل ہی یہ فضیلت حاصل تھی کہ اس کے رکھنے سے دو سال کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔
قارئینِ کرام!  جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے روزہ کیلئے میدانِ عرفہ میں حاجیوں کے وقوف کا اعتبار نہیں کیا تو پھر پوری امتِ اسلامیہ کیلئے سعودی کے حساب سے روزہ رکھنا لازم قرار دینا بالکلیہ صحیح نہیں۔
لہذا راجح اور صحیح بات یہ ہے کہ کے اپنی اپنی رؤیت کے اعتبار سے عرفہ لا روزہ رکھا جائے۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے،  اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا پکا متبع وفرمانبردار بنائے،  اور عشرہ ذی الحجہ کے بقیہ ایام میں نیکیوں کی کثرت کی توفیق عطا فرمائے،  اور ہماری نیکیوں کو شرفِ قبولیت بخشے۔

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۵ 

کیا اختلاف کی وجہ سے یوم عرفہ کا دو روزہ رکھنا مسنوں ہے؟  

ڈاکٹر امان اللہ محمد اسماعیل مدنی 

 یوم عرفہ کا روزہ مسنون ہے۔ صحیح روایت کے مطابق یوم عرفہ کا محض ایک روزہ رکھنے سے دو سال کا گناہ معاف ہوتا۔
 اپنے گناہوں کی معافی و بخشش کیلیے اس سنہری موقع کو نہیں گوانا چاہیے۔
 یوم عرفہ کا روزہ کب رکھا جائے؟ اس سلسلے  میں کبار علما کے درمیان سخت اختلاف ہے، کچھ علما اس دن روزہ رکھنے کے قائل ہیں جس دن حجاج کرام میدان عرفات میں ہوتے ہیں۔ جبکہ کچھ علما اپنی رویت کے مطابق نو ذی الحجہ ہی کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کے قائل ہیں۔
 دونوں قول کے قائلین احادیث سے استدلال کرتے ہیں، اور اپنے موقف کو راجح قرار دیتے ہیں۔
 اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے مسائل میں اختلاف کی گنجائش ہے، اسی لیے تو اس مسئلے میں علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
 اگر اس مسئلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف کی گنجائش ہے تو دلائل کی روشنی میں اختلاف کرنا کوئی معیوب شے نہیں ہے ۔
 اگر اختلاف کرنا معیوب نہیں ہے تو پھر اختلاف کرتے ہوئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اور لعن طعن کرنا اہل علم کا شیوہ نہیں ہونا چاہیے۔
 لہذا اپنی حق بات پر دلائل کی روشنی میں خود عمل کریں، اور اچھے اسلوب کے ساتھ  بغیر لعن طعن کے حق کی نشر و اشاعت بھی کریں۔
 لیکن ایک عجیب چیز یہ دیکھنے اور سننے میں آتی ہیکہ بعض لوگ علما کے اختلاف کے سبب یوم عرفہ کے روزے کا مکمل ثواب کے حصول کے لیے دو روزے رکھتے ہیں تاکہ جو بھی قول صحیح ہو اس پر عمل ہو جائے۔
 لیکن میرے ناقص علم کے مطابق یوم عرفہ کا روزہ رکھنا مندرجہ ذیل اسباب کی وجہ سے مناسب نہیں ہے:
1۔اس عمل کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
2۔ اس پر سلف صالحین کا عمل نہیں رہا ہے۔
3۔ اس سے نصوص کی خلاف ورزی لازم آئیگی، کیونکہ نصوص میں صرف ایک روزہ رکھنے کا حکم ہے۔
 لہذا دلیل کی روشنی میں جو قول مناسب لگے اسی پر عمل کیا جائے، اور یوم عرفہ کے روزے کی نیت سے دو روزے ہر گز نہ رکھے جائے۔
 یہاں یہ بات واضح کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ چونکہ پورے عشرہ ذی الحجہ کا روزہ رکھنا درست ہے اس لیے اگر کوئی یوم عرفہ سے ایک دن پہلے یا بعد میں روزہ رکھتا ہے تو یہ عمل جائز ہے، البتہ عرفہ کے روزے کی نیت سے یہ زائد روزہ نہیں رکھا جانا چاہئے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔
 اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور بلا طعن و تشیع دلیل کی روشنی میں اس مسنون عمل پر عمل کی توفیق دے آمین ۔ 
 
 https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=3198645826838467&id=100000792430848&fs=0&focus_composer=0 

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۶ 

روزہ ؛ یومِ عرفہ یا نو ذو الحجہ!

تحریر : حافظ ابو یحیٰی نورپوری 

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ عرفہ کے روزے کی فضیلت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے دو سالوں کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔(صحیح مسلم : 1162)

⚡یومِ عرفہ کے روزے سے کیا مراد ہے؟
اس میں اختلاف ہے؛ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے مراد اس دن کا روزہ ہے، جس دن حاجی عرفات میں ہوتے ہیں، جب کہ دوسروں کے بقول یومِ عرفہ سے مراد نو ذوالحجہ ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یومِ عرفہ سے مراد نو ذو الحجہ ہے،انہی کی بات درست ہے، کیوں کہ اگر حاجیوں کا عرفات میں ٹھہرنے کا دورانیہ ہی روزے کا وقت قرار دیا جائے تو ان بے چارے مسلمانوں کا کیا بنے گا جو ان ملکوں کے باسی ہیں، جہاں حاجیوں کے وقوف ِ عرفات کے وقت رات ہوتی ہے؟ وہ تو محروم ہو گئے روزہ رکھنے اور دو سالوں کے گناہ معاف کرانے سے!حالانکہ اسلام کے احکامات ہمہ گیر بھی ہیں اور عالم گیر بھی۔ امریکہ جیسے ممالک جن میں حاجیوں کے وقوف ِ عرفات کے وقت رات ہوتی ہے، یومِ عرفہ کا روزہ تو ان کے لیے بھی مشروع ہے، یومِ عرفہ سے مراد حاجیوں کا وقوف ِ عرفات لینا اس لحاظ سے بالکل غیر منطقی ہے۔
دراصل نو ذو الحجہ کے روزے کو یومِ عرفہ کا روزہ اس ماحول کے مدنظر کہہ دیا گیا، جس میں یہ بات چیت ہوئی تھی، کیوں کہ مدینہ میں یومِ عرفہ نو ذو الحجہ ہی کو ہوتا ہے۔
اس کو اگر تطبیقی انداز سے سمجھنا چاہیں تو یہ فرمانِ رسول دیکھ لیں:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ قِبْلَةٌ.
''مشرق ومغرب کے درمیان تمہارا قبلہ ہے۔''(سنن الترمذی : 342، وسندہ حسن)
اگر کوئی پاکستانی یا ہندوستانی مسلمان اس حدیث کے ظاہری الفاظ کو مدنظر رکھ کر اپنے قبلے کا تعین کرنے لگے تو یقینا وہ غیرقبلہ کو قبلہ بنا بیٹھے گا، کیوں کہ پاکستانی وہندوستانی مسلمانوں کا قبلہ مشرق ومغرب نہیں، بل کہ شمال و جنوب کی درمیانی سمت میں ہے۔
اس حدیث میں دراصل یہ بات سمجھائی گئی کہ قبلہ رخ ہونے میں اگر تھوڑی بہت کجی ہو بھی جائے تو وہ مضر نہیں، کیوں کہ قبلے والی پوری سمت ہی قبلہ شمار ہو گی۔ اب یہ سمت اہل مدینہ کے حساب سے مشرق ومغرب کے درمیان بنتی تھی، اس لیے یہ الفاظ استعمال فرمائے گئے، لیکن ان ظاہری الفاظ کو دلیل بنا کر پوری دنیا میں ہر جگہ قبلے کی سمت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اگر یومِ عرفہ کے الفاظ کے محل ورود پر غور کیے بغیر محض ظاہری الفاظ کا تتبع کیا جائے تو یہ صراحتا خطا پر مبنی ہو گا۔ 

https://forum.mohaddis.com/threads/%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%B9%D8%B1%D9%81%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D9%88%D8%B2%DB%81-%DB%94%DB%94-%DB%8C%D8%A7-%DB%94%DB%94-%D9%86%D9%88-%D8%B0%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AC%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D9%88%D8%B2%DB%81.36543/ 
                       
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۷ 

عرفہ کا روزہ : ایک تحقیقی جائزہ​ 

مقبو ل احمد سلفی 

احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ایک طرف حجاج کے لئے وقوف عرفات کا دن ہےجس دن اللہ تعالی عرفات میں وقوف کرنے والوں پر فخر کرتاہے اور کثرت سے انہیں جہنم سے رستگاری دیتا ہے تود وسری طرف عام مسلمانوں کے لئے اس دن روزہ رکھنے کا حکم ملاہے جو ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
چنانچہ ابوقتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صیام عرفہ کےبارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
يُكفِّرُ السنةَ الماضيةَ والباقيةَ(صحيح مسلم:1162)
ترجمہ: یہ گذرے ہوئے اورآنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے ۔
اس روزے سے متعلق آج سے پہلے کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا مگر آج گلوبلائزیشن (میڈیاکی وجہ سے ایک گھرآنگن )کی وجہ سے لوگوں کے درمیان یہ اختلاف پیداہوگیا کہ عرفہ کا روزہ کب رکھاجائے؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ روزہ سعودی عرب کے حساب سے وقوف عرفات والے دن رکھنا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ ہرملک والا اپنے یہاں کی تاریخ سے 9/ذی الحجہ کا روزہ رکھے گا۔اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ روزہ کے سلسلہ اسلامی احکام کیا ہیں تب آپ خود بات واضح ہوجائے گی ۔
ایک بنیادی بات :
اس سے قبل کہ روزہ سے متعلق اسلامی ضابطہ کودیکھا جائے پہلے ایک بنیادی بات یہ جان لیں کہ یوم عرفہ دن کو کہتے ہیں اور وقوف عرفات حاجیوں کے میدان عرفات میں ٹھہرنے کو کہتے ہیں گویا یوم عرفہ اور وقوف عرفات دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ یوم عرفہ دن اور تاریخ کو کہتے ہیں جو قمری حساب سے نو ذوالحجہ کو کہتے ہیں جبکہ وقوف عرفات کا تعلق میدان عرفات سے ہے ۔ان دونوں باتوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ کچھ لوگ یوم عرفہ کو یوم عرفات کہتے ہیں جوکہ سراسر مبنی برغلط ہے۔
روزہ سے متعلق اسلام کے دو اہم قاعدے ہیں ۔
اسلام میں روزہ سے متعلق کئی قواعد وضوابط ہیں مگر ان میں دواہم ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
پہلا قاعدہ : رویت ہلال کا ہے یعنی روزہ رکھنے میں چاند دیکھنے کا اعتبار ہوگاجسے عربی میں قمری نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔
بخاری شریف میں آپ ﷺ کا حکم ہے ۔
صوموا لرؤيَتِهِ وأفطِروا لرؤيتِهِ ، فإنْ غبِّيَ عليكم فأكملوا عدةَ شعبانَ ثلاثينَ(صحيح البخاري:1909)
ترجمہ: چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے تیس دن پورے کر لو۔
یہ حدیث روزہ سے متعلق عام ہے خواہ کوئی بھی روزہ ہو اس میں یہی حکم لگے گا یعنی روزہ میں اپنے اپنے ملک کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ اسی وجہ سے دیکھتے ہیں کہ رمضان كا روزہ رکھنے کے لئے چاند دیکھا جاتا ہے نہ کہ سعودی عرب کواوراسی طرح جب افطارکیاجاتاہے تو اس وقت بھی سورج ہی ڈوبنے کا انتظار کیاجاتا ہے ۔
دوسرا قاعدہ : اختلاف مطالع کا ہے ۔
ایک شہر کی رویت قریبی ان تمام شہر والوں کے لئے کافی ہوگی جن کا مطلع ایک ہو۔ مطلع کے اختلاف سے ایک شہر کی رویت دوسرے شہر کے لئے نہیں مانی جائے گی ۔ دلیل :
أنَّ أمَّ الفضلِ بنتَ الحارثِ بعثَتْه إلى معاويةَ بالشامِ . قال : فقدمتُ الشامَ . فقضيتُ حاجتَها . واستهلَّ عليَّ رمضانُ وأنا بالشامِ . فرأيتُ الهلالَ ليلةَ الجمعةِ . ثم قدمتُ المدينةَ في آخرِ الشهرِ . فسألني عبدُ اللهِ بنُ عباسٍ رضي اللهُ عنهما . ثم ذكر الهلالَ فقال : متى رأيتُم الهلالَ فقلتُ : رأيناه ليلةَ الجمعةِ . فقال : أنت رأيتَه ؟ فقلتُ : نعم . ورأه الناسُ . وصاموا وصام معاويةُ . فقال : لكنا رأيناه ليلةَ السَّبتِ . فلا تزال نصومُ حتى نكمل ثلاثينَ . أو نراه . فقلتُ : أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ (صحيح مسلم:1087)
ترجمہ : حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا۔ حضرت کریب کو اپنے ایک کام کے لیے حضرت معاویہ کے پاس شام میں بھیجتی ہیں۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ وہاں ہم نے رمضان شریف کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا میں اپنا کام کر کے واپس لوٹا یہاںمیری باتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہو رہی تھیں۔
آپ نے مجھ سے ملک شام کے چاند کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا ہے، آپ نے فرمایا تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے بھی دیکھا۔ اور سب لوگوں نے دیکھا، سب نے بالاتفاق روزہ رکھا۔ خود جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، اور ہفتہ سے روزہ شروع کیا ہے، اب چاند ہو جانے تک ہم تو تیس روزے پورے کریں گے۔ یا یہ کہ چاند نظر آ جائے میں نے کہا سبحان اللہ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام نےچاند دیکھا۔ کیا آپ کو کافی نہیں؟ آپ نے فرمایا ہر گز نہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔
یہ حدیث مسلم، ترمذی، نسائی، ابو داؤد وغیرہ میں موجود ہے ، اس حدیث پہ محدثین کے ابواب سے بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔
صحیح مسلم کا باب : باب بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَ يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ
ترمذی کا باب : باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ
نسائی کا باب: باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ
ان دونوں اصولوں کی روشنی میں عرفہ کا روزہ بھی اپنے ملک کے حساب سے 9/ذی الحجہ کو رکھا جائے گا۔ یہی بات دلائل کی رو سے ثابت ہوتی ہے۔
اگر روزے سے متعلق رویت ہلال کا حکم نکال دیا جائے تو روزہ بے معنی ہوجائے گا ، ایک دن کا بھی کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا ہے ، نہ سحری کھاسکتا اور نہ ہی افطار کرسکتاہے ۔ ایسے ہی اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کرنے سے مسلمانوں کے روزے ،نماز،قربانی، عیدیں اور دیگر عبادات کی انجام دہی مشکل ہوجائے گی ۔

عرفہ کے روزہ سے متعلق اشکالات کا جواب
پہلا اشکال : جن لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں تاریخ کا ذکر نہیں ہے بلکہ عرفہ کا لفظ آیا ہے اور عرفہ کا تعلق عرفات میں وقوف کرنے سے ہے اس لئے حاجی کے وقوف عرفات کے دن ہی پوری دنیا کے مسلمان عرفہ کا روزہ رکھیں گے۔
یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے ۔
پہلی وجہ : قاعدے کی رو سے روزہ میں رویت ہلال اور اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا جس کا ذکر اوپرہوچکا ہے ، عرفہ کے روزہ کو اس قاعدے سے نکالنے کے لئے واضح نص چاہئے جوکہ موجود نہیں ۔
دوسری وجہ : مناسک حج میں حج کی نسبت سے بہت سارے نام رکھے گئے ہیں ان سب پر عمومی قاعدہ ہی لگے گا الا یہ کہ خاص وجہ ہو۔ مثلا "ایام تشریق "حج کی قربانی کی وجہ سے نام رکھا گیا ہے اور اسے حاجیوں کے لئے کھانے پینے اور قربانی کرنے کا دن بتلایا گیا ہے اور ہم سب کو معلوم ہے حاجیوں کے ایام تشریق اور دنیا کے دوسرے ملک والوں کے ایام تشریق الگ الگ ہیں۔ جب سعودی میں قربانی کا چوتھا دن ختم ہوجاتا ہے تو دیگر بہت سارے ممالک میں ایک دن ابھی باقی ہوتا ہے ۔ اسی "ایام تشریق" سے ہم استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قربانی چار دن ہے اور اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے ۔
قربانی کی نسبت بھی ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور آپ ﷺ نے اس نسبت سے یوم النحر /عیدالاضحی کو قربانی کرنے کا حکم دیاہے ۔ یہ قربانی ہرملک والا اپنے یہاں کے قمری مہینے کے حساب سے دس ذی الحجہ کو کرے گا۔ گویا عرفہ ایک نسبت ہے جہاں تک اس دن روزہ رکھنے کا معاملہ ہے تو روزے میں عمومی قاعدہ ہی لاگو ہوگا۔
تیسری وجہ: اگر عرفہ کے روزہ سے متعلق بعض حدیث میں تاریخ نہیں آئی تو کوئی حرج نہیں ، دوسری حدیث میں نبی ﷺ سے تاریخ کے ساتھ 9/ذی الحجہ تک روزہ رکھنا ثابت ہے ۔ بعض ازواج مطہرات کا بیان ہے :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن ذي الحجَّةِ ، ويومَ عاشوراءَ ، وثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ وخَميس(صحيح أبي داود:2437)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اس حدیث میں عرفہ کا روزہ بھی داخل ہے جوکہ تاریخ کے ساتھ ثابت ہے،اس سے عرفہ کے روزہ کی اس ناحیہ سے تائید ہوتی ہے کہ اسے نوذو الحجہ کو رکھاجائے گا ۔
چوتھی وجہ : اگر عرفات میں وقوف سے متعلق روزہ ہوتا تو عرفہ نہیں عرفات کا ذکر ہوتااور اوپر فرق واضح کیا گیا ہے کہ یوم عرفہ الگ ہے اور وقوف عرفات الگ ہے۔
پانچویں وجہ : اگر یہ وقوف عرفات کی وجہ سے ہوتا تو حاجیوں کے لئے بھی یہ روزہ مشروع ہوتا مگر یہ حاجیوں کے لئے مشروع نہیں ہے ۔
چھٹی وجہ : وقوف عرفات کا ایک وقت متعین ہے جو کہ تقریبا زوال کے بعد سے مغرب کے وقت تک ہے ۔یہ وقت روزہ کے واسطےسعودی والوں کے لئے بھی کافی نہیں ہے کیونکہ روزے میں صبح صادق کے وقت سحری اور نیت کرنا پھر غروب شمس پہ افطار کرنا ہے۔گویا روزے میں وقوف کا اعتبار ہوا ہی نہیں اس میں تو نظام شمسی وقمری کا اعتبار ہوا۔ اس بناپر بھی نسبت کا ہی اندازہ لگاسکتے ہیں وقوف کا نہیں۔
ساتویں وجہ : سعودی والوں کے لئے بھی عرفہ نو ذی الحجہ ہی ہے ، وہ روزہ رکھتے ہوئے عرفات کے وقوف کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ قمری تاریخ کے حساب سے نوذی الحجہ کو رکھتے ہیں ۔ اس کی دلیل حجاج کرام سے ہی ملتی ہے ، وہ لوگ قمری تاریخ کے حساب سے آٹھ ذی الحجہ (یوم الترویہ )سے حج شروع کرتے ہیں ، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے کہ ذی الحجہ کی سات تاریخ ہو اور حاجی منی جائے یا آٹھ تاریخ ہو اور حاجی عرفات چلاجائے ۔ مناسک حج میں بھی یوم الترویہ اور یوم عرفہ تاریخ کے طور پر ہی ہے کیونکہ اسلامی عبادات میں رویت ہلال کا بڑا دخل ہے ۔ اسی چیز کی طرف قرآن میں رہنمائی کی گئی ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ قُلْ هِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ." (سورة البقرة: 189)
ترجمہ: لوگ آپ سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہو یہ لوگوں کے لئے اوقات اور حج کی تعیین کا ذریعہ ہے۔

دوسرا اشکال :
قائلین وقوف عرفات کا ایک اشکال یہ ہے کہ احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت واردہے اور عرفہ وقوف عرفات پہ ہے اس لئے عرفات کے وقوف پہ ہی پوری دنیا میں یہ روزہ رکھا جائے گا۔
یہ بات صحیح ہے کہ یوم عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر عرفہ کے روزہ سے متعلق یہ کہنا کہ اس کی فضیلت کی وجہ سے وقوف عرفات پر ہی روزہ رکھنا ہے غلط استدلال ہے ۔ اللہ تعالی نے یوم عرفہ کو حجاج کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے باعث فضیلت بنایا ہے ۔ حاجیوں کو وقوف عرفات کا ثواب ملتا ہے جبکہ دنیاوالوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے ۔اور اس بات پہ حیران ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یوم عرفہ تو ایک دن ہے پھرسب کو اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے کیسے فضیلت ہوگی ؟تب تو کئی ایام ہوجائیں گے ۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ اللہ تعالی نے لیلۃ القدر ایک بنائی ہے مگرسارے مسلمانوں کے لئے اپنے اپنے حساب سے فضیلت ملتی ہے ۔ سعودی میں ایک دن پہلے شب قدر ، ہندوپاک میں ایک دن بعد شب قدر ، مراکش ولیبیا میں سعودی سے ایک دن پہلے،رات ایک ہی ہے اور ثواب کی امید ہرملک والے اپنے اپنے ملک کے حساب سے شب قدر میں بیدار ہوکر رکھتے ہیں۔

تیسرا اشکال : بعض لوگ ترمذی کی ایک روایت سے دلیل پکڑتے ہیں ۔
الصَّومُ يومَ تَصومونَ ، والفِطرُ يومَ تُفطِرونَ ، والأضحَى يومَ تُضحُّونَ(صحيح الترمذي:697)
ترجمہ: روزہ اس دن رکھا جائے جس دن لوگ روزہ رکھتے ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ بھی اسی دن منائی جائے جب لوگ مناتے ہیں۔
اس حدیث کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جس دن عرفہ کا روزہ سعودی عرب میں رکھا جاتا ہے اس دن سب لوگ رکھیں ۔ اس میں اتحاد ہے۔
اگر اس حدیث سے ایسا ہی مسئلہ استنباط کیاجائے جبکہ اس میں لفظ عرفہ ذکر ہی نہیں اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک ساتھ رمضان کا روزہ رکھیں بلکہ ایک ساتھ سحری کھائیں، ایک ہی ساتھ افطار کریں ، ایک ہی ساتھ اور ایک ہی وقت میں عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازیں پڑھیں ۔ ظاہر ہی بات ہے وقوف عرفات پہ روزہ رکھنے کے قائلین بھی اس بات کو نہیں مانیں گے تو پھر عرفہ کے روزہ پرہی پوری دنیا کا اتحاد کیوں ؟
اس حدیث کاصحیح مفہوم یہ ہے کہ روزہ اور عید ، جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ معتبرہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔

چوتھا اشکال : ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ پہلے کےلوگ نہیں جان پاتے تھے کہ وقوف عرفات کب ہے اس لئے اپنے ملک کے حساب سے نوذو الحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھےتو لاعلمی کی وجہ سےوہ معذور تھے اب زمانہ ترقی کرگیا ہےاور وقوف عرفات سب کو معلوم ہوجاتا ہے اس لئے وہ عذر ساقط ہوگیا۔
اولا: آج بھی پوری دنیا میں ہرکس وناکس کومیڈیا کی ساری خبروں کا علم نہیں ہوپاتا ، میڈیا سے جڑے لوگوں کو ہی پتہ چل پاتا ہے ۔مثلا کوئی مسلمان جیل میں قید ہے جہاں اسے موبائل،ٹی وی اور انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے وہ عرفہ کاروزہ رکھنا چاہتا ہے ،ترقیاتی دور میں ایسے بے سہولت قیدی مسلمان شخص کے لئے نو ذوالحجہ کے حساب سے ہی روزہ رکھنا ممکن ہے ۔
ثانیا : اسلام نے جو آقافی دین دیا ہے وہ انٹرنیٹ اور میڈیا کا محتاج نہیں ہے ۔ بطور مثال یہ کہوں کہ انٹرنیٹ اور میڈیا ختم ہوجائے تو تب آپ کیا کہیں گے کہ ابھی پھر سے لوگ معذور ہوگئے؟ ۔یا وہ گاؤں ودیہات والے جہاں میڈیا کی خبریں نہیں پہنچ پاتیں کیا وہ ابھی بھی معذور ہیں ؟ یہ تو مشینری چیز ہے چل بھی سکتی ہے اور کبھی اس کا نظام درہم برہم بھی ہوسکتا ہے ۔اس کا مشاہدہ کبھی کبھار بنکوں اور آفسوں میں ہوتاہے ۔ جب نٹ کنکشن غائب رہتا ہے تو لوگوں کی کیا درگت ہوتی ہے؟۔ لیکن اسلام کا نظام ہمیشہ بغیرمیڈیا اور انٹرنیٹ کے چلتا رہاہے اور قیامت تک چلتا رہے گا۔ دنیا والوں کو بغیر انٹرنیٹ کے نظام شمسی اور نظام قمری سے رمضان کا روزہ ، ایام بیض ، عاشواء اور عرفہ کا روزہ معلوم ہوتا رہے گا۔

پانچواں اشکال : اگرصوم یوم عرفہ کا مطلب ہر ملک والے کے لئے اپنےاپنے ملک کے حساب سے نو ذوالحجہ کا روزہ رکھنا مان لیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ صوم عرفہ ایک نہیں متعدد ہے ،اس وقت صوم یوم عرفہ نہیں بلکہ صوم ایام عرفہ ہوجائے گا جبکہ حدیث میں صوم یوم عرفہ آیا ہوا ہے۔
اس بات کا جواب اوپربھی گزرچکا ہے کہ شب قدر ایک ہے مگر ہرملک والے اپنے اپنے یہاں کے حساب سے اس ایک رات کوتلاش کرتے ہیں، یہ رات کہیں سعودی عرب سے پہلے آتی ہے تو کہیں اس کے بعد ، اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ شب قدر متعدد ہے جبکہ قرآن وحدیث میں لیلۃ القدر یعنی قدر کی ایک رات کا لفظ آیا ہے ۔

قائلین صیام عرفات کے ساتھ چند محاکمہ
(1)جب ایسے لوگوں سے کہا جائے کہ بعض ممالک لیبیا ، تیونس اور مراکش وغیرہ میں سعودی سے پہلے عید ہوجاتی ہے ، اس صورت میں وقوف عرفات ان کے یہاں عید کا دن ہوتا ہے وہ کیسے روزہ رکھیں ؟ عید کے دن روزہ منع ہے ۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:
نهى النبيُّ صلى الله عليه وسلم عن صومِ يومِ الفطرِ والنحرِ( صحيح البخاري:1991)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر اورعیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ۔
تو جواب دیتے ہیں ایسے لوگوں سے روزہ ساقط ہوجاتاہے ۔ روزہ سے متعلق اصول واحکام واضح ہیں انہیں بالائے طاق رکھ کر بغیر ثبوت کے روزہ ساقط کرواکر لوگوں کو بڑے اجر سے محروم کردینا بڑی ناانصافی اور فہم نصوص میں قصورکا باعث ہے۔

(2)جب ان سے کہاجائے کہ آج سے سوسال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ رکھتے تھے کہ نہیں ؟ اگر رکھتے تھے تو یقینا وہ اپنے ملک کے حساب سے رکھتے ہوں گے( اس کا انکار کرنے کی کسی کو ہمت نہیں)تو جواب دیتے ہیں کہ اس وقت پتہ نہیں چل پاتا تھا اس لئے وہ معذور تھے ۔
یہ جواب کچھ ہضم نہیں ہوپاتا۔اس جواب کو مان لینے سے یہ ماننا پڑے گا کہ قرون اولی سے لیکر آج تک کسی نے عرفہ کا روزہ صحیح نہیں رکھاسوائے عرب والوں کے جبکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ سب کے لئے یکساں دستور پیش کرتا ہے خواہ وہ سعودی عرب كا ہو یا دوسرے ملک کااور اسلام پر عمل کرنے کےلئے کسی میڈیا کی بھی ضرورت نہیں۔
صوم عرفہ کو سمجھنے میں معاون تین اہم نکتے :
پہلانکتہ: اس میں کسی کواختلاف نہیں ہے کہ ستر اسی سال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے نوذوالحجہ کوہی رکھتے تھے اور سلف کے یہاں صوم عرفہ نو ذوالحجہ کے روزہ کو ہی کہاجاتا ہے ،کوئی دوسری رائے نہیں ملتی ہے ۔ وقوف عرفات پہ پوری دنیاوالوں کو روزہ رکھنے والا موقف جدید ذہن کی اپج ہے ،سلف سے اس نظریہ کی تائیدنہیں ہوتی ۔ جب سلف کی فہم صوم عرفہ سے مراد نوذوالحجہ کا روزہ ہے اور ان کا تعامل بھی اس پہ رہا ہے تو اس موقف سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ اگر سلف کے یہاں صوم عرفہ حاجیوں کے میدان عرفات میں وقوف سے متعلق ہوتا تو یقینا وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے حاجیوں کے وقوف عرفات جاننے کی کوشش کرتے کیونکہ شریعت کا مسئلہ ہے ۔ ان کا صوم عرفہ کے لئے وقوف عرفات نہ تلاش کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صوم عرفہ سے مراد نو ذوالحجہ کا روز ہ ہے اور کتاب وسنت کے نصوص کوسمجھنے کے لئےسلف کی فہم مقدم ہے۔
دوسرانکتہ :بعض ممالک میں سعودی عرب کے حساب سے دن ورات کا فرق پایاجاتا ہے یعنی سعودی عرب میں دن ہوتا ہے تو وہاں رات ہوتی ہے ۔ مثلا کیلی فورنیا سے سعودی عرب دس گھنٹے آگے ہے ،اگر سعودی عرب میں رات ہوگی تو وہاں دن اور وہاں دن ہوگا تو سعودی عرب میں رات ہوگی ۔ اسی طرح نیوزی لینڈ سعودی عرب سے نو گھنٹے آگے ہے ،یہاں بھی دونوں ملکوںمیں دن ورات کا فرق ہے ۔ اس طرح بہت سے ممالک ہیں جنہیں ٹائیم زون کے ذریعہ دیکھاجاسکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جن ممالک میں وقوف عرفات رات میں پایا جاتا ہے وہ لوگ رات میں ہی روزہ رکھ لیں؟۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ روزہ دن میں رکھا جاتا ہے تب عرفات والے کہیں گے کہ رات گزارکرروزہ رکھ لیں ۔ پھر آپ کا دعوی وقوف عرفات کہاں چلا گیا؟جب وقوف عرفات نہیں تو پھر وہ روزہ نہیں ۔ اذا فات الشرط فات المشروط(جب شرط فوت ہوجائے تو مشروط بھی ختم ہوجائے گا)۔ نیز سعودی عرب سے دن ورات کے فرق کے ساتھ آگے چلنے والوں کے یہاں دن کو عید ہوگی اور عید کے دن روزہ ممنوع ہے ۔
تیسرا نکتہ: قائلین صوم عرفات جن ممالک والوں کے لئے عید کے دن روزہ ساقط ہونے کا حکم لگاتے ہیں ، اس پہلو پر قرآن وحدیث کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کے مسئلہ میں پورے ملک والوں سے کبھی بھی حکم ساقط نہیں ہوگاجیساکہ احادیث سے معلوم ہے کہ بیماری، ضعیفی ،سفر، حیض ونفاس ، حمل ورضاعت وغیرہ کی وجہ سے روزہ چھوڑا جاسکتا ہے ، یہ صرف چند قسم کے معذور لوگ ہیں مگر کبھی بھی کوئی روزہ پورے ملک والوں سے ساقط نہیں ہوگا ۔

صوم عرفہ کے نام پہ دوروزے رکھنا:
صوم عرفہ کے متعلق دو قسم کے نظرئے پائے جانے کی وجہ سے عام لوگوں میں کافی خلجان پیدا ہوگیا ہے،اس سبب بعض علماء لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ دو روزہ رکھ لیا جائے تاکہ کوئی تردد باقی نہ رہے ،ایک اپنے ملک کے حساب سے اور ایک سعودی کے حساب سے ۔ یہ نظریہ بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ عرفہ کا ایک ہی روزہ ہےاس کے نام پہ دو رکھنا کیسے درست ہوگا ۔ کوئی پہلا روزہ رکھے گا تو نیت صوم عرفہ کی کرے گا اور دوسرا روزہ رکھے تو بھی نیت صوم عرفہ کی کرے گا یہاں ایک شخص کی طرف سے ایک روزہ کے بدلے دو نیت اور دو الگ الگ روزہ رکھنا پایا جاتا ہے جوکہ سنت کی مخالفت ہے ۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ روزہ رکھنے والے کو اپنے روزہ میں شک ہے اس لئے احتیاطا دوسرا روزہ بھی رکھ رہا ہے ۔ روزہ میں شک کرنا یا شک والے دن روزہ رکھنا دونوں ایک ہی بات معلوم ہوتی ہے اور بخاری شریف میں شک والے دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ جب ہمارے پاس سلف کی فہم اور ان کا تعامل بغیر اختلاف کے موجود ہے تو پھر بلاشک عرفہ کا ایک روزہ اپنے ملک کے حساب سے نو ذوالحجہ کو رکھنا چاہئے ۔
اشکالات کا حل:عرفہ کا روزہ نہ کہ عرفات کا روزہ
وقوف عرفات پہ عرفہ کا روزہ ماننے سے بہت سے اشکالات پیدا ہوتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا مثلا
٭ یہ بات صحیح ہے کہ سوسال پہلے لوگ اپنےملک کے حساب سے نوذوالحجہ کا ہی روزہ رکھتے تھے مگر وقوف عرفات نہ جان سکنے کی وجہ سے معذور تھے ،اب وہ عذر باقی نہ رہا۔اس بات سے لازم آتا ہے کہ ان سب میں سے کسی نے صحیح روزہ نہیں رکھا سوائے وقوف عرفات کا علم رکھنے والے کے ۔ اس سے ان لوگوں بشمول سلف صالحین کی فہم حدیث اور عمل میں تنقیص کا پہلو نکلتا ہے۔
٭وقوف عرفات جس ملک میں عید کے دن ہوان لوگوں سے عرفہ کا روزہ ساقط ہے۔ یہ بغیر دلیل کے سقوط ہے جسے کبھی تسلیم نہیں کیاجاسکتاہے۔
٭ جہاں وقوف عرفات رات میں پڑجائے وہ لوگ رات گزارکر روزہ رکھ لیں ۔ جب عرفہ کے روزہ کی فضیلت میدان عرفات میں حاجیوں کے وقوف سے معلق ہے تو پھر رات گزارکر روزہ رکھنے والوں کو وہ فضیلت نصیب نہیں ہوگی یعنی روزہ رکھ کے بھی ثواب نہیں ملے گا۔
٭ وقوف عرفات پہ روزہ ماننا برقی روابط سے حجاج کرام کا عرفات میں وقوف معلوم کرنے پرمنحصر ہے اور آج بھی یہ برقی سہولت سب جگہ اورسب کو میسر نہیں مثلا جیل میں قیدوہ مسلمان جس کے پاس یہ سہولت نہیں وہ یہ روزہ نہیں سکتا ۔
وقوف عرفات پہ عرفہ کا روزہ ماننے سے اس قسم کے بہت سارے اشکالات پیدا ہوتے ہیں جن کا تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہیں ہے ،اور اس موقف سے بہت سارے ملک کے لوگ یہ روزہ اور اس کی فضیلت سے محروم ہورہے ہیں بلکہ یہ کہیں کہ جس ملک میں عید سعودی عرب سے ایک دن پہلے ہوتی ہے وہ ملک والے قیامت تک عرفہ کا روزہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ ان کے یہاں ہمیشہ وقوف عرفات عید کے دن ہوا کرے گا اور عید کے دن روزہ رکھنے سے نبی ﷺ نے منع فرمایاہے جبکہ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے نوذوالحجہ کا ماننے سے کوئی اشکال نہیں پیدا ہوتا ہے ،ہوبہو سلف کے عملی نمونہ کو اپنانا ہے۔ اس لئےاس تحقیقی مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہر ملک والااپنے اپنے ملک کے حساب سے عرفہ کا روزہ نوذوالحجہ کو رکھے گا۔

https://forum.mohaddis.com/threads/%D8%B9%D8%B1%D9%81%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D9%88%D8%B2%DB%81-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2%DB%81.33770/ 

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۸ 

عرفہ کا روزہ : ایک تحقیقی جائزہ​ 

مقبو ل احمد سلفی 

احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ایک طرف حجاج کے لئے وقوف عرفات کا دن ہےجس دن اللہ تعالی عرفات میں وقوف کرنے والوں پر فخر کرتاہے اور کثرت سے انہیں جہنم سے رستگاری دیتا ہے تود وسری طرف عام مسلمانوں کے لئے اس دن روزہ رکھنے کا حکم ملاہے جو ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
چنانچہ ابوقتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صیام عرفہ کےبارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
يُكفِّرُ السنةَ الماضيةَ والباقيةَ(صحيح مسلم:1162)
ترجمہ: یہ گذرے ہوئے اورآنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے ۔
اس روزے سے متعلق آج سے پہلے کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا مگر آج گلوبلائزیشن (میڈیاکی وجہ سے ایک گھرآنگن )کی وجہ سے لوگوں کے درمیان یہ اختلاف پیداہوگیا کہ عرفہ کا روزہ کب رکھاجائے؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ روزہ سعودی عرب کے حساب سے وقوف عرفات والے دن رکھنا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ ہرملک والا اپنے یہاں کی تاریخ سے 9/ذی الحجہ کا روزہ رکھے گا۔اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ روزہ کے سلسلہ اسلامی احکام کیا ہیں تب آپ خود بات واضح ہوجائے گی ۔
ایک بنیادی بات :
اس سے قبل کہ روزہ سے متعلق اسلامی ضابطہ کودیکھا جائے پہلے ایک بنیادی بات یہ جان لیں کہ یوم عرفہ دن کو کہتے ہیں اور وقوف عرفات حاجیوں کے میدان عرفات میں ٹھہرنے کو کہتے ہیں گویا یوم عرفہ اور وقوف عرفات دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ یوم عرفہ دن اور تاریخ کو کہتے ہیں جو قمری حساب سے نو ذوالحجہ کو کہتے ہیں جبکہ وقوف عرفات کا تعلق میدان عرفات سے ہے ۔ان دونوں باتوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ کچھ لوگ یوم عرفہ کو یوم عرفات کہتے ہیں جوکہ سراسر مبنی برغلط ہے۔
روزہ سے متعلق اسلام کے دو اہم قاعدے ہیں ۔
اسلام میں روزہ سے متعلق کئی قواعد وضوابط ہیں مگر ان میں دواہم ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
پہلا قاعدہ : رویت ہلال کا ہے یعنی روزہ رکھنے میں چاند دیکھنے کا اعتبار ہوگاجسے عربی میں قمری نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔
بخاری شریف میں آپ ﷺ کا حکم ہے ۔
صوموا لرؤيَتِهِ وأفطِروا لرؤيتِهِ ، فإنْ غبِّيَ عليكم فأكملوا عدةَ شعبانَ ثلاثينَ(صحيح البخاري:1909)
ترجمہ: چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے تیس دن پورے کر لو۔
یہ حدیث روزہ سے متعلق عام ہے خواہ کوئی بھی روزہ ہو اس میں یہی حکم لگے گا یعنی روزہ میں اپنے اپنے ملک کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ اسی وجہ سے دیکھتے ہیں کہ رمضان كا روزہ رکھنے کے لئے چاند دیکھا جاتا ہے نہ کہ سعودی عرب کواوراسی طرح جب افطارکیاجاتاہے تو اس وقت بھی سورج ہی ڈوبنے کا انتظار کیاجاتا ہے ۔
دوسرا قاعدہ : اختلاف مطالع کا ہے ۔
ایک شہر کی رویت قریبی ان تمام شہر والوں کے لئے کافی ہوگی جن کا مطلع ایک ہو۔ مطلع کے اختلاف سے ایک شہر کی رویت دوسرے شہر کے لئے نہیں مانی جائے گی ۔ دلیل :
أنَّ أمَّ الفضلِ بنتَ الحارثِ بعثَتْه إلى معاويةَ بالشامِ . قال : فقدمتُ الشامَ . فقضيتُ حاجتَها . واستهلَّ عليَّ رمضانُ وأنا بالشامِ . فرأيتُ الهلالَ ليلةَ الجمعةِ . ثم قدمتُ المدينةَ في آخرِ الشهرِ . فسألني عبدُ اللهِ بنُ عباسٍ رضي اللهُ عنهما . ثم ذكر الهلالَ فقال : متى رأيتُم الهلالَ فقلتُ : رأيناه ليلةَ الجمعةِ . فقال : أنت رأيتَه ؟ فقلتُ : نعم . ورأه الناسُ . وصاموا وصام معاويةُ . فقال : لكنا رأيناه ليلةَ السَّبتِ . فلا تزال نصومُ حتى نكمل ثلاثينَ . أو نراه . فقلتُ : أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ (صحيح مسلم:1087)
ترجمہ : حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا۔ حضرت کریب کو اپنے ایک کام کے لیے حضرت معاویہ کے پاس شام میں بھیجتی ہیں۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ وہاں ہم نے رمضان شریف کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا میں اپنا کام کر کے واپس لوٹا یہاںمیری باتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہو رہی تھیں۔
آپ نے مجھ سے ملک شام کے چاند کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا ہے، آپ نے فرمایا تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے بھی دیکھا۔ اور سب لوگوں نے دیکھا، سب نے بالاتفاق روزہ رکھا۔ خود جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، اور ہفتہ سے روزہ شروع کیا ہے، اب چاند ہو جانے تک ہم تو تیس روزے پورے کریں گے۔ یا یہ کہ چاند نظر آ جائے میں نے کہا سبحان اللہ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام نےچاند دیکھا۔ کیا آپ کو کافی نہیں؟ آپ نے فرمایا ہر گز نہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔
یہ حدیث مسلم، ترمذی، نسائی، ابو داؤد وغیرہ میں موجود ہے ، اس حدیث پہ محدثین کے ابواب سے بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔
صحیح مسلم کا باب : باب بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَ يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ
ترمذی کا باب : باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ
نسائی کا باب: باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ
ان دونوں اصولوں کی روشنی میں عرفہ کا روزہ بھی اپنے ملک کے حساب سے 9/ذی الحجہ کو رکھا جائے گا۔ یہی بات دلائل کی رو سے ثابت ہوتی ہے۔
اگر روزے سے متعلق رویت ہلال کا حکم نکال دیا جائے تو روزہ بے معنی ہوجائے گا ، ایک دن کا بھی کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا ہے ، نہ سحری کھاسکتا اور نہ ہی افطار کرسکتاہے ۔ ایسے ہی اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کرنے سے مسلمانوں کے روزے ،نماز،قربانی، عیدیں اور دیگر عبادات کی انجام دہی مشکل ہوجائے گی ۔

عرفہ کے روزہ سے متعلق اشکالات کا جواب
پہلا اشکال : جن لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں تاریخ کا ذکر نہیں ہے بلکہ عرفہ کا لفظ آیا ہے اور عرفہ کا تعلق عرفات میں وقوف کرنے سے ہے اس لئے حاجی کے وقوف عرفات کے دن ہی پوری دنیا کے مسلمان عرفہ کا روزہ رکھیں گے۔
یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے ۔
پہلی وجہ : قاعدے کی رو سے روزہ میں رویت ہلال اور اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا جس کا ذکر اوپرہوچکا ہے ، عرفہ کے روزہ کو اس قاعدے سے نکالنے کے لئے واضح نص چاہئے جوکہ موجود نہیں ۔
دوسری وجہ : مناسک حج میں حج کی نسبت سے بہت سارے نام رکھے گئے ہیں ان سب پر عمومی قاعدہ ہی لگے گا الا یہ کہ خاص وجہ ہو۔ مثلا "ایام تشریق "حج کی قربانی کی وجہ سے نام رکھا گیا ہے اور اسے حاجیوں کے لئے کھانے پینے اور قربانی کرنے کا دن بتلایا گیا ہے اور ہم سب کو معلوم ہے حاجیوں کے ایام تشریق اور دنیا کے دوسرے ملک والوں کے ایام تشریق الگ الگ ہیں۔ جب سعودی میں قربانی کا چوتھا دن ختم ہوجاتا ہے تو دیگر بہت سارے ممالک میں ایک دن ابھی باقی ہوتا ہے ۔ اسی "ایام تشریق" سے ہم استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قربانی چار دن ہے اور اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے ۔
قربانی کی نسبت بھی ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور آپ ﷺ نے اس نسبت سے یوم النحر /عیدالاضحی کو قربانی کرنے کا حکم دیاہے ۔ یہ قربانی ہرملک والا اپنے یہاں کے قمری مہینے کے حساب سے دس ذی الحجہ کو کرے گا۔ گویا عرفہ ایک نسبت ہے جہاں تک اس دن روزہ رکھنے کا معاملہ ہے تو روزے میں عمومی قاعدہ ہی لاگو ہوگا۔
تیسری وجہ: اگر عرفہ کے روزہ سے متعلق بعض حدیث میں تاریخ نہیں آئی تو کوئی حرج نہیں ، دوسری حدیث میں نبی ﷺ سے تاریخ کے ساتھ 9/ذی الحجہ تک روزہ رکھنا ثابت ہے ۔ بعض ازواج مطہرات کا بیان ہے :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن ذي الحجَّةِ ، ويومَ عاشوراءَ ، وثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ وخَميس(صحيح أبي داود:2437)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اس حدیث میں عرفہ کا روزہ بھی داخل ہے جوکہ تاریخ کے ساتھ ثابت ہے،اس سے عرفہ کے روزہ کی اس ناحیہ سے تائید ہوتی ہے کہ اسے نوذو الحجہ کو رکھاجائے گا ۔
چوتھی وجہ : اگر عرفات میں وقوف سے متعلق روزہ ہوتا تو عرفہ نہیں عرفات کا ذکر ہوتااور اوپر فرق واضح کیا گیا ہے کہ یوم عرفہ الگ ہے اور وقوف عرفات الگ ہے۔
پانچویں وجہ : اگر یہ وقوف عرفات کی وجہ سے ہوتا تو حاجیوں کے لئے بھی یہ روزہ مشروع ہوتا مگر یہ حاجیوں کے لئے مشروع نہیں ہے ۔
چھٹی وجہ : وقوف عرفات کا ایک وقت متعین ہے جو کہ تقریبا زوال کے بعد سے مغرب کے وقت تک ہے ۔یہ وقت روزہ کے واسطےسعودی والوں کے لئے بھی کافی نہیں ہے کیونکہ روزے میں صبح صادق کے وقت سحری اور نیت کرنا پھر غروب شمس پہ افطار کرنا ہے۔گویا روزے میں وقوف کا اعتبار ہوا ہی نہیں اس میں تو نظام شمسی وقمری کا اعتبار ہوا۔ اس بناپر بھی نسبت کا ہی اندازہ لگاسکتے ہیں وقوف کا نہیں۔
ساتویں وجہ : سعودی والوں کے لئے بھی عرفہ نو ذی الحجہ ہی ہے ، وہ روزہ رکھتے ہوئے عرفات کے وقوف کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ قمری تاریخ کے حساب سے نوذی الحجہ کو رکھتے ہیں ۔ اس کی دلیل حجاج کرام سے ہی ملتی ہے ، وہ لوگ قمری تاریخ کے حساب سے آٹھ ذی الحجہ (یوم الترویہ )سے حج شروع کرتے ہیں ، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے کہ ذی الحجہ کی سات تاریخ ہو اور حاجی منی جائے یا آٹھ تاریخ ہو اور حاجی عرفات چلاجائے ۔ مناسک حج میں بھی یوم الترویہ اور یوم عرفہ تاریخ کے طور پر ہی ہے کیونکہ اسلامی عبادات میں رویت ہلال کا بڑا دخل ہے ۔ اسی چیز کی طرف قرآن میں رہنمائی کی گئی ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ قُلْ هِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ." (سورة البقرة: 189)
ترجمہ: لوگ آپ سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہو یہ لوگوں کے لئے اوقات اور حج کی تعیین کا ذریعہ ہے۔

دوسرا اشکال :
قائلین وقوف عرفات کا ایک اشکال یہ ہے کہ احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت واردہے اور عرفہ وقوف عرفات پہ ہے اس لئے عرفات کے وقوف پہ ہی پوری دنیا میں یہ روزہ رکھا جائے گا۔
یہ بات صحیح ہے کہ یوم عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر عرفہ کے روزہ سے متعلق یہ کہنا کہ اس کی فضیلت کی وجہ سے وقوف عرفات پر ہی روزہ رکھنا ہے غلط استدلال ہے ۔ اللہ تعالی نے یوم عرفہ کو حجاج کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے باعث فضیلت بنایا ہے ۔ حاجیوں کو وقوف عرفات کا ثواب ملتا ہے جبکہ دنیاوالوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے ۔اور اس بات پہ حیران ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یوم عرفہ تو ایک دن ہے پھرسب کو اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے کیسے فضیلت ہوگی ؟تب تو کئی ایام ہوجائیں گے ۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ اللہ تعالی نے لیلۃ القدر ایک بنائی ہے مگرسارے مسلمانوں کے لئے اپنے اپنے حساب سے فضیلت ملتی ہے ۔ سعودی میں ایک دن پہلے شب قدر ، ہندوپاک میں ایک دن بعد شب قدر ، مراکش ولیبیا میں سعودی سے ایک دن پہلے،رات ایک ہی ہے اور ثواب کی امید ہرملک والے اپنے اپنے ملک کے حساب سے شب قدر میں بیدار ہوکر رکھتے ہیں۔

تیسرا اشکال : بعض لوگ ترمذی کی ایک روایت سے دلیل پکڑتے ہیں ۔
الصَّومُ يومَ تَصومونَ ، والفِطرُ يومَ تُفطِرونَ ، والأضحَى يومَ تُضحُّونَ(صحيح الترمذي:697)
ترجمہ: روزہ اس دن رکھا جائے جس دن لوگ روزہ رکھتے ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ بھی اسی دن منائی جائے جب لوگ مناتے ہیں۔
اس حدیث کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جس دن عرفہ کا روزہ سعودی عرب میں رکھا جاتا ہے اس دن سب لوگ رکھیں ۔ اس میں اتحاد ہے۔
اگر اس حدیث سے ایسا ہی مسئلہ استنباط کیاجائے جبکہ اس میں لفظ عرفہ ذکر ہی نہیں اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک ساتھ رمضان کا روزہ رکھیں بلکہ ایک ساتھ سحری کھائیں، ایک ہی ساتھ افطار کریں ، ایک ہی ساتھ اور ایک ہی وقت میں عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازیں پڑھیں ۔ ظاہر ہی بات ہے وقوف عرفات پہ روزہ رکھنے کے قائلین بھی اس بات کو نہیں مانیں گے تو پھر عرفہ کے روزہ پرہی پوری دنیا کا اتحاد کیوں ؟
اس حدیث کاصحیح مفہوم یہ ہے کہ روزہ اور عید ، جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ معتبرہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔

چوتھا اشکال : ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ پہلے کےلوگ نہیں جان پاتے تھے کہ وقوف عرفات کب ہے اس لئے اپنے ملک کے حساب سے نوذو الحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھےتو لاعلمی کی وجہ سےوہ معذور تھے اب زمانہ ترقی کرگیا ہےاور وقوف عرفات سب کو معلوم ہوجاتا ہے اس لئے وہ عذر ساقط ہوگیا۔
اولا: آج بھی پوری دنیا میں ہرکس وناکس کومیڈیا کی ساری خبروں کا علم نہیں ہوپاتا ، میڈیا سے جڑے لوگوں کو ہی پتہ چل پاتا ہے ۔مثلا کوئی مسلمان جیل میں قید ہے جہاں اسے موبائل،ٹی وی اور انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے وہ عرفہ کاروزہ رکھنا چاہتا ہے ،ترقیاتی دور میں ایسے بے سہولت قیدی مسلمان شخص کے لئے نو ذوالحجہ کے حساب سے ہی روزہ رکھنا ممکن ہے ۔
ثانیا : اسلام نے جو آقافی دین دیا ہے وہ انٹرنیٹ اور میڈیا کا محتاج نہیں ہے ۔ بطور مثال یہ کہوں کہ انٹرنیٹ اور میڈیا ختم ہوجائے تو تب آپ کیا کہیں گے کہ ابھی پھر سے لوگ معذور ہوگئے؟ ۔یا وہ گاؤں ودیہات والے جہاں میڈیا کی خبریں نہیں پہنچ پاتیں کیا وہ ابھی بھی معذور ہیں ؟ یہ تو مشینری چیز ہے چل بھی سکتی ہے اور کبھی اس کا نظام درہم برہم بھی ہوسکتا ہے ۔اس کا مشاہدہ کبھی کبھار بنکوں اور آفسوں میں ہوتاہے ۔ جب نٹ کنکشن غائب رہتا ہے تو لوگوں کی کیا درگت ہوتی ہے؟۔ لیکن اسلام کا نظام ہمیشہ بغیرمیڈیا اور انٹرنیٹ کے چلتا رہاہے اور قیامت تک چلتا رہے گا۔ دنیا والوں کو بغیر انٹرنیٹ کے نظام شمسی اور نظام قمری سے رمضان کا روزہ ، ایام بیض ، عاشواء اور عرفہ کا روزہ معلوم ہوتا رہے گا۔

پانچواں اشکال : اگرصوم یوم عرفہ کا مطلب ہر ملک والے کے لئے اپنےاپنے ملک کے حساب سے نو ذوالحجہ کا روزہ رکھنا مان لیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ صوم عرفہ ایک نہیں متعدد ہے ،اس وقت صوم یوم عرفہ نہیں بلکہ صوم ایام عرفہ ہوجائے گا جبکہ حدیث میں صوم یوم عرفہ آیا ہوا ہے۔
اس بات کا جواب اوپربھی گزرچکا ہے کہ شب قدر ایک ہے مگر ہرملک والے اپنے اپنے یہاں کے حساب سے اس ایک رات کوتلاش کرتے ہیں، یہ رات کہیں سعودی عرب سے پہلے آتی ہے تو کہیں اس کے بعد ، اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ شب قدر متعدد ہے جبکہ قرآن وحدیث میں لیلۃ القدر یعنی قدر کی ایک رات کا لفظ آیا ہے ۔

قائلین صیام عرفات کے ساتھ چند محاکمہ
(1)جب ایسے لوگوں سے کہا جائے کہ بعض ممالک لیبیا ، تیونس اور مراکش وغیرہ میں سعودی سے پہلے عید ہوجاتی ہے ، اس صورت میں وقوف عرفات ان کے یہاں عید کا دن ہوتا ہے وہ کیسے روزہ رکھیں ؟ عید کے دن روزہ منع ہے ۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:
نهى النبيُّ صلى الله عليه وسلم عن صومِ يومِ الفطرِ والنحرِ( صحيح البخاري:1991)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر اورعیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ۔
تو جواب دیتے ہیں ایسے لوگوں سے روزہ ساقط ہوجاتاہے ۔ روزہ سے متعلق اصول واحکام واضح ہیں انہیں بالائے طاق رکھ کر بغیر ثبوت کے روزہ ساقط کرواکر لوگوں کو بڑے اجر سے محروم کردینا بڑی ناانصافی اور فہم نصوص میں قصورکا باعث ہے۔

(2)جب ان سے کہاجائے کہ آج سے سوسال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ رکھتے تھے کہ نہیں ؟ اگر رکھتے تھے تو یقینا وہ اپنے ملک کے حساب سے رکھتے ہوں گے( اس کا انکار کرنے کی کسی کو ہمت نہیں)تو جواب دیتے ہیں کہ اس وقت پتہ نہیں چل پاتا تھا اس لئے وہ معذور تھے ۔
یہ جواب کچھ ہضم نہیں ہوپاتا۔اس جواب کو مان لینے سے یہ ماننا پڑے گا کہ قرون اولی سے لیکر آج تک کسی نے عرفہ کا روزہ صحیح نہیں رکھاسوائے عرب والوں کے جبکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ سب کے لئے یکساں دستور پیش کرتا ہے خواہ وہ سعودی عرب كا ہو یا دوسرے ملک کااور اسلام پر عمل کرنے کےلئے کسی میڈیا کی بھی ضرورت نہیں۔
صوم عرفہ کو سمجھنے میں معاون تین اہم نکتے :
پہلانکتہ: اس میں کسی کواختلاف نہیں ہے کہ ستر اسی سال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے نوذوالحجہ کوہی رکھتے تھے اور سلف کے یہاں صوم عرفہ نو ذوالحجہ کے روزہ کو ہی کہاجاتا ہے ،کوئی دوسری رائے نہیں ملتی ہے ۔ وقوف عرفات پہ پوری دنیاوالوں کو روزہ رکھنے والا موقف جدید ذہن کی اپج ہے ،سلف سے اس نظریہ کی تائیدنہیں ہوتی ۔ جب سلف کی فہم صوم عرفہ سے مراد نوذوالحجہ کا روزہ ہے اور ان کا تعامل بھی اس پہ رہا ہے تو اس موقف سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ اگر سلف کے یہاں صوم عرفہ حاجیوں کے میدان عرفات میں وقوف سے متعلق ہوتا تو یقینا وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے حاجیوں کے وقوف عرفات جاننے کی کوشش کرتے کیونکہ شریعت کا مسئلہ ہے ۔ ان کا صوم عرفہ کے لئے وقوف عرفات نہ تلاش کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صوم عرفہ سے مراد نو ذوالحجہ کا روز ہ ہے اور کتاب وسنت کے نصوص کوسمجھنے کے لئےسلف کی فہم مقدم ہے۔
دوسرانکتہ :بعض ممالک میں سعودی عرب کے حساب سے دن ورات کا فرق پایاجاتا ہے یعنی سعودی عرب میں دن ہوتا ہے تو وہاں رات ہوتی ہے ۔ مثلا کیلی فورنیا سے سعودی عرب دس گھنٹے آگے ہے ،اگر سعودی عرب میں رات ہوگی تو وہاں دن اور وہاں دن ہوگا تو سعودی عرب میں رات ہوگی ۔ اسی طرح نیوزی لینڈ سعودی عرب سے نو گھنٹے آگے ہے ،یہاں بھی دونوں ملکوںمیں دن ورات کا فرق ہے ۔ اس طرح بہت سے ممالک ہیں جنہیں ٹائیم زون کے ذریعہ دیکھاجاسکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جن ممالک میں وقوف عرفات رات میں پایا جاتا ہے وہ لوگ رات میں ہی روزہ رکھ لیں؟۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ روزہ دن میں رکھا جاتا ہے تب عرفات والے کہیں گے کہ رات گزارکرروزہ رکھ لیں ۔ پھر آپ کا دعوی وقوف عرفات کہاں چلا گیا؟جب وقوف عرفات نہیں تو پھر وہ روزہ نہیں ۔ اذا فات الشرط فات المشروط(جب شرط فوت ہوجائے تو مشروط بھی ختم ہوجائے گا)۔ نیز سعودی عرب سے دن ورات کے فرق کے ساتھ آگے چلنے والوں کے یہاں دن کو عید ہوگی اور عید کے دن روزہ ممنوع ہے ۔
تیسرا نکتہ: قائلین صوم عرفات جن ممالک والوں کے لئے عید کے دن روزہ ساقط ہونے کا حکم لگاتے ہیں ، اس پہلو پر قرآن وحدیث کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کے مسئلہ میں پورے ملک والوں سے کبھی بھی حکم ساقط نہیں ہوگاجیساکہ احادیث سے معلوم ہے کہ بیماری، ضعیفی ،سفر، حیض ونفاس ، حمل ورضاعت وغیرہ کی وجہ سے روزہ چھوڑا جاسکتا ہے ، یہ صرف چند قسم کے معذور لوگ ہیں مگر کبھی بھی کوئی روزہ پورے ملک والوں سے ساقط نہیں ہوگا ۔

صوم عرفہ کے نام پہ دوروزے رکھنا:
صوم عرفہ کے متعلق دو قسم کے نظرئے پائے جانے کی وجہ سے عام لوگوں میں کافی خلجان پیدا ہوگیا ہے،اس سبب بعض علماء لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ دو روزہ رکھ لیا جائے تاکہ کوئی تردد باقی نہ رہے ،ایک اپنے ملک کے حساب سے اور ایک سعودی کے حساب سے ۔ یہ نظریہ بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ عرفہ کا ایک ہی روزہ ہےاس کے نام پہ دو رکھنا کیسے درست ہوگا ۔ کوئی پہلا روزہ رکھے گا تو نیت صوم عرفہ کی کرے گا اور دوسرا روزہ رکھے تو بھی نیت صوم عرفہ کی کرے گا یہاں ایک شخص کی طرف سے ایک روزہ کے بدلے دو نیت اور دو الگ الگ روزہ رکھنا پایا جاتا ہے جوکہ سنت کی مخالفت ہے ۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ روزہ رکھنے والے کو اپنے روزہ میں شک ہے اس لئے احتیاطا دوسرا روزہ بھی رکھ رہا ہے ۔ روزہ میں شک کرنا یا شک والے دن روزہ رکھنا دونوں ایک ہی بات معلوم ہوتی ہے اور بخاری شریف میں شک والے دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ جب ہمارے پاس سلف کی فہم اور ان کا تعامل بغیر اختلاف کے موجود ہے تو پھر بلاشک عرفہ کا ایک روزہ اپنے ملک کے حساب سے نو ذوالحجہ کو رکھنا چاہئے ۔
اشکالات کا حل:عرفہ کا روزہ نہ کہ عرفات کا روزہ
وقوف عرفات پہ عرفہ کا روزہ ماننے سے بہت سے اشکالات پیدا ہوتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا مثلا
٭ یہ بات صحیح ہے کہ سوسال پہلے لوگ اپنےملک کے حساب سے نوذوالحجہ کا ہی روزہ رکھتے تھے مگر وقوف عرفات نہ جان سکنے کی وجہ سے معذور تھے ،اب وہ عذر باقی نہ رہا۔اس بات سے لازم آتا ہے کہ ان سب میں سے کسی نے صحیح روزہ نہیں رکھا سوائے وقوف عرفات کا علم رکھنے والے کے ۔ اس سے ان لوگوں بشمول سلف صالحین کی فہم حدیث اور عمل میں تنقیص کا پہلو نکلتا ہے۔
٭وقوف عرفات جس ملک میں عید کے دن ہوان لوگوں سے عرفہ کا روزہ ساقط ہے۔ یہ بغیر دلیل کے سقوط ہے جسے کبھی تسلیم نہیں کیاجاسکتاہے۔
٭ جہاں وقوف عرفات رات میں پڑجائے وہ لوگ رات گزارکر روزہ رکھ لیں ۔ جب عرفہ کے روزہ کی فضیلت میدان عرفات میں حاجیوں کے وقوف سے معلق ہے تو پھر رات گزارکر روزہ رکھنے والوں کو وہ فضیلت نصیب نہیں ہوگی یعنی روزہ رکھ کے بھی ثواب نہیں ملے گا۔
٭ وقوف عرفات پہ روزہ ماننا برقی روابط سے حجاج کرام کا عرفات میں وقوف معلوم کرنے پرمنحصر ہے اور آج بھی یہ برقی سہولت سب جگہ اورسب کو میسر نہیں مثلا جیل میں قیدوہ مسلمان جس کے پاس یہ سہولت نہیں وہ یہ روزہ نہیں سکتا ۔
وقوف عرفات پہ عرفہ کا روزہ ماننے سے اس قسم کے بہت سارے اشکالات پیدا ہوتے ہیں جن کا تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہیں ہے ،اور اس موقف سے بہت سارے ملک کے لوگ یہ روزہ اور اس کی فضیلت سے محروم ہورہے ہیں بلکہ یہ کہیں کہ جس ملک میں عید سعودی عرب سے ایک دن پہلے ہوتی ہے وہ ملک والے قیامت تک عرفہ کا روزہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ ان کے یہاں ہمیشہ وقوف عرفات عید کے دن ہوا کرے گا اور عید کے دن روزہ رکھنے سے نبی ﷺ نے منع فرمایاہے جبکہ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے نوذوالحجہ کا ماننے سے کوئی اشکال نہیں پیدا ہوتا ہے ،ہوبہو سلف کے عملی نمونہ کو اپنانا ہے۔ اس لئےاس تحقیقی مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہر ملک والااپنے اپنے ملک کے حساب سے عرفہ کا روزہ نوذوالحجہ کو رکھے گا۔

https://forum.mohaddis.com/threads/%D8%B9%D8%B1%D9%81%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D9%88%D8%B2%DB%81-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2%DB%81.33770/  

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۹ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یوم عرفہ کا روزہ پاکستان میں کب رکھا جائے گا، جبکہ سعودی عرب اور پاکستان کی قمری تاریخ میں عام طور پر ایک روز کا فرق ہوتا ہے۔ کیونکہ یومِ حج یوم عرفہ ۹ ذوالحج کو ہوتا ہے۔ اور اس دن کے روزے کے بارے میں آنحضرت  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس کی بڑی فضیلت ہے۔ پاکستان میں اس دن ۸ ذوالحج ہوتا ہے۔ اب کیا کرنا چاہیے۔ قرآن و سنت سے جواب دیں؟               (محمد بشیر الطیب ، کویت)

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ فرق لیلۃ القدر، رمضان اور عید کے مواقع پر بھی موجود ہے ، اس کے باوجود اہل پاکستان پاکستان کی تاریخ کا اعتبار کرتے ہیں۔                                             ۱۵ , ۱۱ , ۱۴۲۲ھ

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 ص 418
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/4853/ 

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۰

سوال
 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سیف الرحمن  صدیقی  بذریعہ  ای میل  سوال کر تے ہیں کہ عرفہ  کا روزہ  نو یں ذوالحجہ کو رکھنا  چا ہیے  یا جس  دن سعودیہ  میں عرفہ  کا  دن ہو تا ہے  خواہ ہما رے  ہا ں ذوالحجہ  کی سا ت  یا آ ٹھ  تا ریخ  ہو ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشا د گرا می  ہے :  کہ یو م عر فہ کا روزہ رکھنے  سے گزشتہ  اور آیندہ  سا ل کے گنا ہ معا ف  ہو جا تی ہیں ۔(صحیح مسلم)

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   رسول رحمت  ہیں  اور آسا ن  دین  لے کر آئے  ہیں  اس  رحمت  اور آسا نی  کا  تقا ضا  یہ ہے  کہ عرفہ  کا روزہ  نو یں  ذوا لحجہ  رکھا جا ئے  سعودیہ  میں یو م  عرفہ  کے سا تھ  اس کا مطا بق  ہو نا  ضروری  نہیں  اس کی درج  ذیل  وجو ہا ت  ہیں : میں نے علا مہ  البا نی  رحمۃ اللہ علیہ  کی تصا نیف میں خو د اس روایت کو دیکھا  ہے لیکن  اب  اس کا حوالہ  مستحضر نہیں اس روایت میں یوم  عر فہ کے بعد  الیو م  التا سع  کے الفا ظ  ہیں جس  کا معنی  یہ ہے  کہ نو یں  ذو الحجہ  کو روزہ  رکھا  جا ئے ۔تیسرا  اور رحمت  کا تقا ضا  اس طرح  ہے  کہ اس امت  کو عبا دت  کی بجا آوری  میں اپنے  احو ال  و ظروف سے  وابستہ  کیا گیا  ہے اگر چہ  آج  ہم سا ئنسی  دور سے گز ر رہے  ہیں  لیکن  آج  سے چند  سال قبل  معلو ما ت  کے یہ ذرائع  میسر  نہ تھے  جن  سے سعودیہ  میں یو م  عرفہ  کا پتہ لگا یا  جا سکتا ہے  اب بھی دیہا تو ں  اور  دودردراز  کے با شندوں کو کیسے  پتہ چلے گا کہ سعو دیہ  میں یو م  عرفہ  کب  ہے تا کہ  اس دن  روزے  کا  اہتمام  کر یں  لہذا  اپنے حا لا ت  کو سا منے  رکھتے  ہو ئے  نو یں  ذو الحجہ  کا تعین  کر کے  عر فی کا روزہ  رکھ لیا جا ئے ۔روئے زمین پر  ایسے  خطے مو جو د ہیں  کہ سعو دیہ  کے لحا ظ  سے  یو م  عرفہ کے وقت  وہا ں  رات  ہو تی  ہے ان  کے لیے  روزہ  رکھنے  کا کیا اصول  ہو گا ؟  اگر  انہیں  عر فہ  کے  وقت  روزہ  رکھنے  کا پا بند  کیا جا ئے  تو وہ را ت  کا روزہ  رکھیں  گے  حا لا نکہ  رات  کا روزہ  شر عاً ممنو ع  ہے اور اگر  وہ  اپنے  حساب  سے روزہ  رکھیں گے  تو عرفہ  کا وقت  ختم ہو  گا  اس لیے  آسا نی  اسی میں  ہے  کہ اپنے  حا لا ت  و ظرو  ف  کے  اعتبا ر  سے روزہ  رکھ  لیا جا ئے  ہما رے  ہا ں پا کستان  میں عرفہ  کو سات  یا آٹھ ذوالحجہ  ہو تی  ہے کچھ  مغربی  مما لک ایسے  بھی ہیں  کہ  وہا ں یو م  عرفہ  کو ذوالحجہ  کی دس تا ریخ  ہو تی ہے  اگر سعو دیہ  ے اعتبا ر سے  انہیں  عرفہ  کے دن  کا روزہ  رکھنے  کا مکلف  قرار  دیا  جا ئے  تو وہ  اپنے  لحا ظ  سے  دس  ذوالحجہ  کا  روزہ  رکھیں  گے  حا لا نکہ  رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس  دن  روزہ  رکھنے  سے منع  کیا ہے  لہذا  ضروری  ہے کہ  ہم  اپنے  حسا ب  سے  نو یں  ذوالحجہ  کا روزہ  رکھیں ۔ہما رے اور سعودیہ  کے طلو ع   و غروب  میں  دو گھنٹے  کا فرق  ہے اگر  عرفہ  سے وابستہ  کر دیا  جا ئے  تو  جب  ہم روزہ  رکھیں  گے تو  اس وقت  سعودیہ  میں یو م  عرفہ  کا آغا ز  نہیں ہو ا ہو گا  اسی طرح  جب  ہم  روزہ  افطار  کر یں  گے  تو سعودیہ  کے  لحا ظ  سے یو م عرفہ  ابھی  ب قی ہو گا  یہ الجھنیں  صرف  اس صورت  میں دور ہو سکتی  ہیں  کہ ہم  اپنے روزے  کو سعودیہ  سے  وابستہ  نہ کر یں  بلکہ  اپنے   حساب  سے نو یں  ذوالحجہ  کا تعین  ککر کے  روزہ  رکھ  لیں ۔

ان وجو با  ہا ت  کا تقا ضا  ہے کہ  عرفہ  کا روزہ  ہم اپنے  لحا ظ  سے نو یں  ذوالحجہ  کو رکھ  لیں  خو اہ  اس وقت  سعودیہ  میں یو م  عرفہ  ہو یا نا ہو ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
 
فتاوی اصحاب الحدیث
جلد:1 صفحہ:220

https://urdufatwa.com/view/1/11397/

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۱ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم جب یوم عرفہ کا روزہ رکھتے ہیں تو یوم عرفہ گزرچکاہوتا ہے کیا ہمیں اس دن کا روزہ رکھنا چاہیے جس دن حاجی لوگ میدان عرفات میں ہوتے ہیں یا ہمیں نویں ذوالحجہ کو روزہ رکھنا چاہیے،خواہ سعودیہ میں یوم عرفہ گزرچکا ہو؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یوم عرفہ نو ذوالحجہ کو ہوتا ہے حجاج کرام کو اس دن روزہ رکھنا منع ہے، رسول اللہﷺ نے حج کے موقع پر اس دن کا روزہ نہیں رکھا ہے ،چنانچہ حضرت ام فضل بنت حارث ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو میدان عرفات میں رسول اللہﷺ کے لئے دودھ  کا  ایک پیالہ بھیجا تو آپ نے اسے نوش فرمایا جبکہ آپ اونٹ پر بیٹھے تھے۔ (صحیح بخاری،الحج:۱۶۶۱)

البتہ جو لوگ میدان عرفات میں نہیں ہیں ان کےلئے اس کا روزہ رکھنے کی بہت فضیلت ہے لیکن وہ نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھیں گے کیونکہ رسول اللہﷺ نے بھی نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھاتھا۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نو ذوالحجہ ،یوم عاشورہ (دس محرم) اور ہر ماہ میں تین دن کے روزے رکھتے تھے۔ (ابو داؤد،الصیام:۲۴۳۴)

ہم نے اپنے حساب سے نوذوالحجہ کا روزہ رکھنا ہے ،اس  سلسلہ میں ہم سرزمین مقدس کا حساب نہیں رکھیں گے کیونکہ سعودیہ سے مشرق والے ایک یا دو دن پیچھے ہیں اگر وہاں ۱۵ ذوالحجہ ہے تو  ہمارے ہاں تیرہ یا چودہ ذوالحجہ ہوگی اور سعودیہ سے مغربی علاقے  ایک یا دو دن آگے ہیں اگر سعودیہ میں ۱۵ ذوالحجہ ہے تووہاں سولہ یا سترہ ذوالحجہ ہوگی ہے۔اگر ذوالحجہ کی نویں تاریخ کے روزے کو سعودیہ  کے حساب سے رکھا  جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو علاقے سعودیہ سے ایک دن یا دو دن آگے ہیں وہاں سعودیہ کی نویں تاریخ یا گیارہ ذوالحجہ ہوگی،یعنی وہاں عید ہوگی اور عید کا روزہ رکھنا شرعاً ممنوع ہے۔ اسی لئے ہم نے اپنے حساب سے نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھنا ہے۔ ہم اس سلسلہ میں قطعی طورپر سعودیہ کے پابند نہیں ہیں ؟(واللہ اعلم )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث
جلد:2 صفحہ:245
https://urdufatwa.com/view/1/12208/ 


~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۲ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

نو ۹ ذوالحجہ کے روزے کے فضائل تو حدیث میں ثابت ہیں۔ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ یومِ عرفہ (نو ۹ ذوالحجہ) کے روزہ کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ایک گزشتہ اور ایک آئندہ سال کے گناہ معاف فرمائیں گے اور یومِ عاشوراء کے روزہ کے بدلہ میں گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف فرمائیں گے۔‘‘ 2

ایک عالم دین جو کہ بخاری پڑھاتے ہیں ان کا موقف ہے کہ عرب کا ۹ ذوالحجہ کا روزہ ہمارے ہاں ۸ آٹھ ذوالحجہ کا روزہ بنتا ہے، لہٰذا ہمیں نو ۹ کی بجائے ۸ آٹھ ذوالحجہ کا روزہ رکھنا چاہیے ۔ نیز عرفہ کا روزہ، میدانِ عرفات میں حاجی صاحبان رکھیں یا نہ رکھیں؟               (محبوب الٰہی)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــ

2 مختصر صحیح مسلم ؍ للألبانی ؍ رقم الحدیث: ۶۲۰


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته 
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین قمری تاریخ کا فرق ہے ، کبھی ایک یوم اور کبھی دو یوم۔ معلوم ہے بڑی عید اور چھوٹی عید پاکستان کی تاریخ کے مطابق منائی جاتی ہیں۔ اسی طرح رمضان المبارک کا آغاز بھی ملکی تاریخ کے موافق ہوتا ہے ، ان تینوں امور میں اپنے ملک کی قمری تاریخ کو ہی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس کے جو دلائل ہیں وہ ۹ ذوالحجہ پر بھی صادق آتے ہیں، لہٰذا ۹ ذوالحجہ میں بھی اپنے ملک کی ہی قمری تاریخ معتبر ہوگی۔

[ کریب  رضی اللہ عنہ ابن عباس  رضی اللہ عنہ کے غلام سے مروی ہے کہ ام فضل  رضی الله عنہ عباس  رضی اللہ عنہ کی بیوی نے انہیں (کریب رضی اللہ عنہ کو ) معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا۔ کریب  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میںنے شام آکر ان کا کام کیا۔ میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا۔ میں نے بھی جمعہ کی رات چاند دیکھا ، پھر میں رمضان کے آخرمیں مدینہ (واپس) آگیا۔ عبداللہ بن عباس  رضی الله عنہ نے چاند کے بارے میں مجھ سے دریافت کیا تم نے (وہاں) چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے جواب دیا ہم نے تو جمعہ کی رات دیکھا تھا۔ عبداللہ بن عباس  رضی الله عنہ نے پھر پوچھا۔ کیا تم نے بھی دیکھا تھا؟ میں نے جواب دیا: ہاں۔ بہت سے دوسرے آدمیوں نے بھی دیکھا تھا اور سب لوگوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ (دوسرے دن یعنی ہفتہ کا) روزہ رکھا۔ عبداللہ بن عباس  رضی الله عنہ نے فرمایا ہم نے تو چاند ہفتہ کے دن ( یعنی ایک دن کے فرق سے ) دیکھا ہے ہم اسی حساب سے روزے رکھتے رہیں گے، یہاں تک کہ تیس دن پورے کرلیں ۔ کریب نے کہا کیا آپ معاویہ کی رؤیت اور ان کے روزے کو کافی نہیں سمجھتے۔ فرمایا نہیں ہمیں رسولِ اکرم  صلی الله علیہ وسلم نے اسی طرح حکم فرمایا ہے۔

نوٹ:… اس حدیث سے پتہ چلا کہ ہر علاقے کا علاقائی طور پر چاند کا نظر آنا اور دیکھنا معتبر ہوگا۔ روزہ میں … عیدین میں… یومِ عاشوراء میں… یومِ عرفہ میں اور دوسرے تمام شرعی احکامات میں ہر علاقہ کی اپنی رؤیت معتبر ہوگی۔ 1

میمونہ  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرفہ کے دن نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم کے روزہ میں شک کیا تو انہوں (میمونہ  رضی اللہ عنہما) نے آپ  صلی الله علیہ وسلم کے پاس دودھ بھیجا۔ آپ  صلی الله علیہ وسلم نے اس پیالہ سے دودھ پیا ۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم (میدانِ عرفات کے) موقف میں کھڑے تھے۔ اور لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے۔ (اس لیے حاجی صاحبان عرفات میں روزہ نہ رکھیں۔) 1                                                   ۱۰ ؍ ۳ ؍ ۱۴۲۳ھ

ـــــــــــــــــــــــ

1 مختصر صحیح مسلم للألبانی ؍ حدیث نمبر: ۵۷۸ ، ابو داؤد ، نسائی


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل 
جلد 02 ص 418 
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/4854/

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۳ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عرفہ کا روزہ کس دن کا رکھنا چاہیے؟ جب کہ نو ذوالحجہ کو سعودیہ میں دس ذی الحجہ کا دن ہوتا ہے۔(ابوطاہر نذیر احمد، عبدالرشید۔کراچی) (۲۳ فروری ۲۰۰۱ئ)

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روزہ عرفہ کے دن ہی رکھنا چاہیے جب سعودیہ میں یومِ عرفہ(یومِ حج) ہو، کیونکہ ساری اہمیت اُس دن کی ہے، تاریخ کی نہیں۔

    ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3، کتاب الصوم:صفحہ:245
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/25365/ 

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۴ 

سوال 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 
’’الاعتصام‘‘ کی جلد نمبر ۵۳ کے شمارہ نمبر ۷(۲۳ فروری تا یکم مارچ ۲۰۰۱ئ) کے ص:۱۱ پر قربانی کے ضروری مسائل : سوال ہے کہ عرفہ کا روزہ کس دن رکھنا چاہیے؟ تو آپ نے سعودیہ کے یوم حج کو معتبر قرار دیا ہے۔ اس پر گزارش ہے کہ:

یہ بات تب ممکن ہے کہ پوری امت مسلمہ کی رؤیت ہلال ایک ہی ہو۔ عام حالات میں ہمارا یکم رمضان المبارک ہمارا یوم النحر( عید قربان) رمضان المبارک کی طاق راتیں(شب قدر) آخری عشرہ( اعتکاف) عید الفطر، عید الاضحی طرح کی تمام تر عبادات جو تاریخ(مہینہ و دن) یا وقت کے اعتبار سے مقرر ہیں ہر صورت سعودیہ سے مختلف ہیں تو اس میں کیا حرج ہے ؟ کیا ان میں مطابقت ضروری نہیں ہے ؟ یوم عرفہ میں مطابقت کیونکر ضروری ہے ؟ اگر ضروری ہے تو دوسری عبادات میں مطابقت کو مقدم کیوں نہیں سمجھا جاتا؟ ( حافظ محمد اسحاق۔ خانقاہ ڈوگراں ، شیخوپورہ) (۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ئ)

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اصل بات یہ ہے کہ یوم عرفہ کے روزے کا تعلق وقت اور جگہ دونوں سے ہے۔ اس بناء پر اعتبار ان اوقات کا ہو گا جن میں حاجی عرفات میں وقوف کرتا ہے۔ اگرچہ حاجی کے لیے روزہ رکھنا غیر درست ہے ا ور جہاں تک سوال میں ذکر کردہ دیگر عبادات و معاملات کا تعلق ہے سو یہ صرف زمانے کے متعلق ہیں۔ لیل و نہار کی گردش سے ان کے اوقات بدلتے رہتے ہیں، مثلاً سورج کھڑا ہو تو کوئی نہیںکہتا مغرب کا وقت ہو گیا لیکن جس مقام پر بالفعل غروب ہو چکا ہے وہاں نماز کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس طرح کبھی کسی نے یہ نہیں کہا سعودی عرب میں حج گزشتہ روز ہو چکا مگر ہمارا حج کل ہے کیونکہ ہمارے ہاں ذوالحجہ کی نو تاریخ کل ہے سب یہی کہیں گے حج ہماری آٹھویں اور سعودیہ کی نویں تاریخ کو ہوچکا ہے۔ لہٰذا اعتبار سعودیہ کی نو تاریخ کا ہوا کیونکہ یہ واقعہ کے مطابق ہے جب کہ ہماری نویں تاریخ حقائق کے منافی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیگر امور کو حج پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔

    ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:246
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/25366/ 

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۵ 

عرفہ کا روزہ 

ڈاکٹر عبد الرافع عمری 

صفحات 17 

https://drive.google.com/file/d/1JSaZlssxEfE4YYle-94LkcURrrVYmauv/view?usp=drivesdk

~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۶ 

عرفہ کا روزہ 
احکام و مسائل اور بعض شبہات کا ازالہ 

عبد العلیم عبد الحفیظ سلفی 

مراجعہ 
احمد مجتبی سلفی مدنی 

صفحات 42 

https://drive.google.com/file/d/1-3MWLZXd2MOuRWexSOAflA4h5prKmyGS/view?usp=drivesdk

~~~~~~~~~~~~~~

ختم شد 

.