جمعرات، 30 جولائی، 2020

صوم یوم عرفہ یا نو ذو الحجہ کا روزہ مقالات و فتاوی

 . 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
 
صوم عرفہ، یوم عرفہ یا نو ذو الحجہ کا روزہ 

مجموعہ مضامین، مقالات و فتاوی 

جمع و ترتیب 
سید محمد عزیر ادونوی 

~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۱ 

عرفہ کے دن کا روزہ یا نو ذی الحجہ کا ؟ 

فضیلۃ 
الشیخ عبد العلیم عبد الحفیظ سلفی 
داعیہ مکتب توعیۃ الجالیات یدمہ سعودی عرب 

الحمد لله و حده و الصلاة و السلام على من لا نبي بعده، و بعد 

عرفہ کے دن کے روزے کی احادیث میں بہت بڑی فضیلت وارد ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن کی اہمیت کئی اعتبار سے شریعت میں مسلم ہے، مثلا : 

1 - عرفہ کا دن اہل موقف کے لئے عید کا دن ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : 
 ( يوم عرفة ويوم النحر وأيام منى عيدنا أهل الإسلام ) 
رواه أبو داود و صححه الألباني . 

یعنی : ( عرفہ، نحر ( قربانی ) اور منی کے ایام ہم اہل اسلام کے لئے عید کے دن ہیں ) 

2 ـ اس روز دعاء کا خاص مقام ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : 
 ( خير الدعاء دعاء يوم عرفة ) 
صححه الألباني في كتابه السلسة الصحيحة . قال ابن عبد البر ـ رحمه الله - : وفي ذلك دليل على فضل يوم عرفة على غيره . 

یعنی : ( سب سے بہترین دعاء عرفہ کے دن کی دعاء ہے ) 

3 ـ عرفہ کے دن اللہ تعالی کثرت سے لوگوں کو جہنم سے رہا کرتا ہے اللہ کے رسول صلى الله عليہ و سلم کا ارشاد ہے : 
 ( ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبد ا من النار من يوم عرفة ) 
رواه مسلم في الصحيح . 

یعنی : ( عرفہ کے دن سے زیادہ اللہ تعالی کسی دن بندوں کو آزاد نہیں کرتا ) 

4 ـ اللہ تعالی عرفہ میں وقوف کرنے والوں پر اہل آسمان کے درمیان فخر کرتا ہے، اللہ کے رسول صلى الله عليہ و سلم کا ارشادہے : 
 ( إن الله يباهي بأهل عرفات أهل السماء ) 
رواه أحمد وصحح إسناده الألباني . 

اس کے علاوہ بھی اور بہت ساری خصوصیات ہیں جو اس دن کو دیگر ایام سے ممتاز کرتی ہیں ۔ 

عصر حاضرمیں اختلاف مطالع اور اس سے پیدہ شدہ بعض مسائل کی بنیاد پر عرفہ کے دن کے روزہ کی تاریخ کی تعیین میں کچھ علماء بعض شبہات کے شکار ہیں اور عرفہ کے دن کے روزہ کی تاریخ کی تعیین میں نو ذی الحجہ کے قا‏ئل و فاعل ہیں، اس سلسلے میں بنیادی چیز جو قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ عرفہ کے دن کے روزے کا سبب کیا ہے ؟ اور اس کا تعلق دن اور تاریخ سے ہے یا حاجیوں کے کسی مخصوص دن میں شریعت کے ذریعہ مخصوص عمل ( یعنی عرفات میں وقوف ) سے ؟ جب اس چیز کی تعیین ہو جائے گی تو مسئلہ میں کسی التباس کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جائے گی ۔ 

آیئے اس سلسلے میں چند نکتوں پہ غور کرتے ہیں : 

1 ـ کسی بھی مسئلہ کی وضاحت اور اس سے متعلق امور میں حکم کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے، تاکہ مکلف پر اس پر عمل کی حیثیت واضح اور مدون ہو سکے ۔ عرفہ کے دن کا روز ہ حکم کے اعتبار سے ( اپنی بے انتہا فضیلت کے باوجود ) مستحب یا سنت مؤکدہ کے زمرے میں آتا ہے، اس لئے ترک و عمل اور تعیین و تحدید میں اس کا اعتبار بھی اسی حیثیت سے ہوگا، نہ کہ بالکلیہ دوسرے سببی اور غیر سببی روزوں کے اعتبار سے ۔ 

2- بلا شبہ رمضان اور غیر رمضان کے روزوں میں رؤیت ہلال کا بہت بڑا دخل ہے جبکہ عرفہ کے دن کا روزہ رؤیت کے تخمینہ کے ساتھ ساتھ عرفہ میں حاجیوں کے وقوف سے متعلق ہے ۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اس روزہ کی فضیلت جن روایتوں میں بیان کی گئی ہے ان میں زیادہ تر میں " یوم عرفہ " کا ذکر ہے نہ کہ تاریخ ذی الحجہ کا یہ الگ بات ہے کہ یوم عرفہ نو ذی الحجہ ہی کو پڑتا ہے ۔ 

 یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر کسی اجتہادی غلطی کی وجہ سے حجاج آٹھ یا دس ذ ی الحجہ میں وقوف کرتے ہیں تو اسی دن کو یوم عرفہ شمار کیا جائے گا جیسا کہ فقہاء نے اپنی کتابوں میں اس کی صراحت کی ہے ۔ 

 ( دیکھئے : حاشية ابن القيم على سنن أبي داود 6 / 317، المحلى لابن حزم : 5 / 203 - 204، المغني لابن قدامة 3 / 456، المهذب مع شرحه المجموع 8 / 292، المجموع للإمام النووي 8 / 292، مجموع فتاوى الإمام ابن تيمية 25 / 107، بدائع الصنائع 2 / 304، شرح الخرشي على مختصر خليل 2 / 321 ) 

چنانچہ " صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَ أَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ - والی روایت کو مطلقا یوم عرفہ کے روزہ کے لئے تاریخ کی تحدید کے طور پر پیش کرنا محل نظر ہے، کیونکہ اس روزے کا تعلق یوم عرفہ ( حاجیوں کے مقام عرفات میں قیام ) سے ہے ۔ 

3- جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ عرفہ کے دن کا روزہ کوئی واجبی روزہ نہیں ہے کہ اس کا توڑنے والا گنہگار ہوگا البتہ اس کے لئے خیر کثیر سے محرومی کا باعث ضرور ہے ۔ 

4 ـ ( ساری عبادتوں میں تاریخ، دن اور اوقات کی تعیین میں اختلاف مطالع کا واقعی معتبر ہونے کے باوجود ) جب اس بات کی تعیین ہو جاتی ہے کہ اس روزہ کا تعلق عرفہ کے دن سے ہے تو اس میں اختلاف مطالع کا کوئی اعتبار نہیں رہ جاتا ہے، دنیا میں تاریخ کوئی بھی ہو عرفہ کا دن وہی ہوگا جس روز حاجی مقام عرفات میں قیام فرمائیں گے ۔ 

یہاں پر یہ اشکال پیش کرنا کہ : ( بعض ممالک مثلاً : لیبیا، تیونس اور مراکش ۔ ۔ ۔ ایسے ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آتا ہے ۔ یعنی ان ممالک میں جب 10 ۔ ذی الحج کا دن آتا ہے تو مکہ مکرمہ میں یومِ عرفہ کا دن ہوتا ہے ۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات والے دن روزہ رکھیں تو یہ گویا، ان کے ہاں عید کے دن کا روزہ ہوا اور یہ تو سب کو پتا ہے کہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے ۔ ) 
تو یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ ( جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ) کو ئی واجبی روزہ نہیں ہے جس کا نہ رکھنے والا گنہگار ہوگا ۔ خاص طورسے جب اسے چھوڑنے کے لئے کوئی مناسب اور مضبوط سبب موجود ہو، اس لئے جن ممالک میں قربانی کا دن حاجیوں کے عرفات میں وقوف کے دن پڑ جائے توان کے یہاں قربانی کے دن کو ترجیح حاصل ہوگی اور عرفہ کا روزہ ان سے ساقط ہوجائے گا ۔ 

 شریعت میں اس نوع کے بہت سارے اعمال ہیں جو کسی سبب مناسب کی بناء پر ساقط ہو جاتے ہیں، مثلا : 

- جمعہ کے روزے کی ممانعت عرفہ کے روزے کی عزیمت کی وجہ سے ساقط ہے ۔ 

- عرفہ کے دن وقوف عرفات کی وجہ سے حاجیوں سے اس روز روزہ ساقط ہے ۔ 

- مقیم امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی وجہ مسافر کے لئے قصر ساقط ہے ۔ 

- فجر اور ظہر وغیرہ کی سنتوں یا جماعت کھڑی ہونے کی وجہ سے تحیۃ المسجد ساقط ہے کیونکہ یہ سنتیں تحیۃ المسجد کے لئے کفایت کرتی ہیں ۔ 

- اسی طرح سببی نمازوں جیسے فرض نمازوں کی قضاء، طواف کی دو رکعتیں، تحیۃ المسجد اور سورج گرہن کی نماز وغیرہ کی وجہ سے ممنوعہ اوقات میں نماز کی ممانعت ساقط ہے ۔ 

ان کے علاوہ بھی اور بہت سارے مسائل ہیں جو اس نقطے کی وضاحت کے لئے کافی ہیں ۔ 
اس لئے جن ممالک میں یوم النحر عرفہ کے دن پڑ جائے وہاں کے رہنے والوں سے عرفہ کے دن کا روزہ ساقط مانا جائے یہ احوط ہے اس بات سے کہ شریعت کے متعین کردہ دن کو ہی بدل دیا جائے ۔ 

5 - ( واضح رہے کہ مختلف ممالک میں اختلاف مطالع کی وجہ سے نو ذی الحجہ الگ الگ ہوتا ہے، اور ان الگ الگ ایام کو عرفہ کا نام دینا مناسب نہیں ہے، جن میں حاجیوں کا عرفات میں قیام ہی نہیں ہوا، بلکہ دیگر ایام کو وہ نام دینا جو شریعت نے کسی خاص دن کو دے رکھا ہے شریعت پہ زیادتی کے قبیل سے ہے ۔ 
اگر اس چیزکی اجازت دے دی جائے کہ نو ذی الحجہ کو یوم عرفہ کہا جائے خواہ وہ دنیا کے کسی اور خطے میں کسی دوسرے دن ہی کیوں نہ پڑے تو پوری دنیا میں ایک سے زیادہ عرفہ کے ایام ہو جائیں گے اور نام " یوم عرفہ " کے بجائے " ایام عرفہ " رکھنا ہوگا ۔ ) 


~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۲ 

یوم عرفہ ذو الحجہ کی نو تاریخ ہے​ 

فضیلۃ الشیخ مقبول احمد سلفی طائف 

عرفہ کے روزہ سے متعلق پہلے کبھی اس قدر شدید اختلاف نہیں رہا جس قدر آج ٹکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں اس نئی ایجاد سے متاثر ہو کر بعض لوگوں نے اختلاف کرنا شروع کر دیا ہے ۔ یہ اختلاف بعض لوگوں میں اس قدر شدید ہے کہ ایک دوسرے پر لعن طعن، گالی گلوج اور زبان درازی تک کی جاتی ہے ۔ ایسا کرنے والے جہال نہیں اکثر علماء کہے جانے والے ہوتے ہیں ۔ اس ماحول کو دیکھ کر دل پر چوٹ لگتی ہے کہ لوگوں نے اختلاف کو طعن و تشنیع کا ذریعہ بنا لیا ۔ اسی ماحول سے چوٹ کھا کر میں نے یوم عرفہ کی حقیقت دلائل کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگوں کو اس دن اور اس دن کے روزہ کے متعلق غلط فہمی نہ ہو، اس التماس کے ساتھ کہ جسے اس موقف سے اختلاف کرنا ہے وہ ادب و احترام کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے، خالص علمی انداز میں مسئلہ کو واضح کرنے کی کوشش کرے، مقصد حق تک پہنچنا ہو نہ کہ کسی سے زبردستی اختلاف کرنا ۔ 

یوم عرفہ کے روزہ والی حدیث : 

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : 
صيامُ يومِ عرفةَ، أَحتسبُ على اللهِ أن يُكفِّرَ السنةَ التي قبلَه . والسنةَ التي بعده . و صيامُ يومِ عاشوراءَ، أَحتسبُ على اللهِ أن يُكفِّرَ السنةَ التي قبلَه . 
 ( صحيح مسلم : 1162 ) 

ترجمہ : 
عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی اور یوم عاشورہ کا روزہ، میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا ۔ 
یہ حدیث صحیح مسلم سمیت سنن اربعہ اور کئی کتب حدیث میں مروی ہے، 

اس حدیث میں " صیام یوم عرفہ " کا لفظ آیا ہے اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ اس دن ہے جب حجاج کرام میدان عرفات میں ہوتے ہیں جبکہ اکثر اہل علم کا ماننا ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ اپنے اپنے علاقے کے حساب سے رکھا جائے گا، یہی دوسرا موقف قوی ہے کہ لوگ اپنے اپنے علاقہ کے اعتبار سے نو ذو الحجہ کا روزہ رکھیں ۔ 


یوم عرفہ سے مرادصرف اور صرف ذو الحجہ کی نو تاریخ ہے : 

یوم عرفہ سے مراد ذو الحجہ کی نویں تاریخ ہے، اس بات کو مختلف طریقے سے استدلال کر کے بتلاؤں گا ۔ 
 
 ( 1 ) قرآن سے استدلال : 
اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَالْفَجْرِ . وَلَيَالٍ عَشْرٍ . وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ 
 ( الفجر : 1-3 ) 

ترجمہ : 
قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی، اور جفت اور طاق کی ۔ 

یہاں محل شاہد وتر کا لفظ ہے تفسیر ابن کثیر میں ہے وتر سے مراد عرفے کا دن ہے اور یہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو شفع سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقر عید کا دن ہے، وہ طاق ہے یہ جفت ہے ۔ 
 ( تفسیر ابن کثیر ) 

وتر سے مراد یوم عرفہ ہے اس بابت بہت سارے اقوال ہیں جو تفاسیر میں دیکھے جا سکتے ہیں، اس بابت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ وہ اس طرح ہے ۔ 

عن ابنِ عباسٍ أنه قالَ : 
الوترُ يومُ عرفةَ والشفعُ يومُ الذبحِ 
 ( فتح الباري لابن حجر : 421 / 6 ) 

ترجمہ : 
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ وتر سے مراد عرفہ کا دن اور شفع سے مراد قربانی کا دن ہے ۔ 

برصغیر ہند و پاک میں عرفہ کا دن اپنے حساب سے نو ذو الحجہ کا ہوگا تبھی قرآن کے لفظ وتر ( طاق ) کا صحیح اطلاق ہوگا ورنہ سعودی کے حساب سے عرفہ کا روزہ رکھنے پر ہند و پاک میں عموما آٹھ تاریخ ہوگی اور یہ جفت ہے طاق نہیں ہے اس لئے جن کا مطلع سعودی سے مختلف ہے انہیں لازمی طور پر یوم عرفہ کے لئے اپنے علاقے کی نویں تاریخ کا اعتبار کرنا ہوگا ۔ 

 ( 2 ) حدیث سے استدلال : 

مذکورہ بالاحدیث میں وارد الفاظ " صیام یوم عرفہ " سے ہی دلیل ملتی ہے کہ اس سے مراد ذو الحجہ کی نویں تاریخ ہے ۔ ذرا غور کریں، اس حدیث میں آگے کے الفاظ ہیں صیام یوم عاشوراء، یہاں یوم عاشوراء سے محرم کی دسویں تاریخ مراد ہے جیسا کہ دوسری حدیث میں بصراحت مذکور ہے ۔ 
عبد اللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں : 

أمرَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ و سلَّمَ بِصَومِ عاشوراءُ، يومُ العاشِرِ 
 ( صحيح الترمذي : 755 ) 

ترجمہ : 
رسول اللہ ﷺ نے دسویں تاریخ کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ 

جس طرح صیام یوم عاشوراء سے محرم کی دسویں تاریخ مراد ہے اسی طرح صیام یوم عرفہ سے ذو الحجہ کی نویں تاریخ مراد ہے ۔ اس بات کو اس حدیث سے تقویت ملتی ہے جس میں نبی ﷺ کے متعلق نویں ذو الحجہ کے روزہ کا احتمال ہے ۔ بعض ازواج مطہرات کا بیان ہے : 

أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ و سلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن ذي الحجَّةِ، و يومَ عاشوراءَ، و ثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ و خَميس 
 ( صحيح أبي داود : 2437 ) 

ترجمہ : 
رسول اللہ ﷺ ذو الحجہ کے ( پہلے ) نو دن، عاشورہ محرم، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔ 


 ( 3 ) لغوی استدلال : 
لغت کی کتابوں میں یوم عرفہ تلاش کریں تو عام طور سے ہر جگہ ذو الحجہ کی نویں تاریخ ملے گی یعنی یوم عرفہ سے مراد اہل لغت کے یہاں بھی ذو الحجہ کی نویں تاریخ ہے بطور مثال دیکھیں : 
القاموس الفقهي، معجم لغة الفقهاء وغیرہ 


 ( 4 ) عربی گرامر سے استدلال : 

یوم عرفہ میں یوم کا لفظ زمان پر اطلاق ہوتا ہے یعنی یہ زمانہ ہے اس لئے یوم عرفہ سے ہرگز ہرگز میدان عرفات مراد نہیں ہوگا بلکہ کوئی زمانہ ہی مراد ہوگا اور وہ ہے ذو الحجہ کی نویں تاریخ ۔ 


 ( 5 ) وجہ تسمیہ سے استدلال : 

یوم عرفہ کی وجہ تسمیہ کے متعلق کئی اقوال ملتے ہیں، ابن قدامہ صیام یوم عرفہ کی حدیث کے تحت یوم عرفہ کی وجہ تسمیہ سے متعلق لکھتے ہیں : 

فأما يوم عرفة : فهو اليوم التاسع من ذي الحجة، سمي بذلك، لأن الوقوف بعرفة فيه . و قيل : سمي يوم عرفة، لأن إبراهيم عليه السلام أري في المنام ليلة التروية أنه يؤمر بذبح ابنه، فأصبح يومه يتروى، هل هذا من الله أو حلم ؟ فسمي يوم التروية، فلما كانت الليلة الثانية رآه أيضا فأصبح يوم عرفة، فعرف أنه من الله، فسمي يوم عرفة 
 ( المغني : 4 / 442 ) 

ترجمہ : 
یوم عرفہ سے مراد ذو الحجہ کی نویں تاریخ ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس دن وقوف عرفہ ہوتا ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے یوم عرفہ اس لئے نام پڑا کہ ابراہیم علیہ السلام نے ترویہ کی رات خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دئے جا رہے ہیں پس پورے دن غور و فکر کرتے رہے کہ یہ واقعی اللہ کا حکم ہے یا پھر کوئی خواب ہے ؟ اس لئے اس دن کا نام ترویہ پڑا پھر دوسری رات بھی یہی خواب آپ کو دکھایا گیا اور جب عرفہ کی صبح ہوئی تو جان گئے کہ یہ اللہ کی طرف سے اس کا حکم ہی ہے پس اس وجہ سے یوم عرفہ پڑ گیا ۔ 

اس قول میں شروع میں ہی اصل اور اہم بات بتلا دی گئی کہ یوم عرفہ سے مراد ذو الحجہ کی نویں تاریخ ہے ۔ گویا یوم عرفہ، وقوف عرفہ یا خواب کی معرفت کی نسبت پہ اس کا نام پڑا تاہم مراد نویں تاریخ ہی ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے یوم النحر قربانی کی نسبت سے موسوم ہے اور مراد دسویں تاریخ ہے ۔ 


 ( 6 ) عقلی اور منطقی استدلال : 

اسلام ایک ہمہ گیر دین رحمت ہے، اس کے احکام آفاقی ہیں، اس دین رحمت کے زیر سایہ ہر کسی کو اپنے اپنے علاقہ میں رہ کر بہ آسانی دین پر عمل کرنے کی سہولت ابتداء سے ہی موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی کیونکہ یہ فطری نظام ہے، ہمارا خالق ہمارے حالات و کیفیات سے مکمل باخبر ہے اس کے عین مطابق ہمیں دینی تعلیمات کا مکلف بنایا ہے ۔ اسلام نے کسی کو روزہ اور نماز کی انجام دہی میں مکہ مکرمہ کی تاریخ اور وقت معلوم کرنے کی زحمت نہیں دی ہے ۔ آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے نبی ﷺ نے لوگوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، نبی ﷺ کو مسلمانوں کا دور دراز علاقوں میں رہنا بھی معلوم رہا ہوگا پھر بھی اس وقت عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے کی تعلیم دینا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ جو مسلمان جس طرح اپنے علاقے کے اعتبار سے رمضان، ایام بیض اور عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں اسی طرح اپنے علاقہ کے اعتبار سے یوم عرفہ کا یعنی نو ذو الحجہ کا بھی روزہ رکھیں ۔ وقوف عرفات پہ تمام دنیا والوں کو روزہ رکھنے کا حکم اسلام دیتا تو ساتھ ہی پوری دنیا کے مسلمانوں کو وقوف عرفات کی اطلاع کا نظام بھی دیا ہوتا جبکہ ٹکنالوجی کی آمد سے قبل کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس کی مدد سے دنیا کے کونے کونے میں پھیلے مسلمانوں کو وقوف عرفات کی اطلاع دی جا سکے ۔ آج بھی دنیا کے سارے کونے میں یہ خبر نہیں پہنچ پاتی ہوگی کیونکہ بہت سارے علاقوں میں رابطوں کی سہولت نہیں اور بہت سارے مقامات پر رہنے والوں کو دنیا کی کوئی خبر نہیں ہوتی مثلا قید خانہ ۔ 


 ( 7 ) مناسک حج سے استدلال : 

حج کے اعمال بھی تواریخ کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ یوم الترویہ یعنی آٹھ ذو الحجہ کو منی میں قیام، یوم عرفہ یعنی نو ذو الحجہ کو وقوف عرفات، یوم النحر یعنی دس ذو الحجہ کو رمی، حلق / تقصیر، قربانی، طواف افاٖضہ، سعی جیسے اعمال، ایام تشریق میں رمی جمرات اور منی میں قیام ۔ یہ سارے حج کے اعمال تاریخ کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ کوئی یوم الترویہ ( آٹھ ذو الحجہ ) کو عرفات میں وقوف کرے تو اس کا وقوف ہوگا ہی نہیں، کوئی یوم عرفہ ( نو ذو الحجہ ) کو حج کی قربانی کر دے یا طواف افاضہ کر لے، حج کی سعی کر لے تو یہ اعمال مقبول نہیں ہوں گے یعنی حج ہی نہیں ہوگا ۔ گویا مناسک حج بھی تاریخ سے مربوط ہونے کے سبب لامحالہ ماننا پڑے گا کہ یوم عرفہ ذو الحجہ کی نو تاریخ کو ہی کہا جاتا ہے ۔ 


یوم عرفہ اور عرفات میں فرق : 
لفظ عرفہ کا بسا اوقات استعمال وادی کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : 

عرفةُ كلُّها مَوقفٌ ووقفتُ ههنا 
 ( صحيح مسلم : 1218 ) 

ترجمہ : میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور سارا عرفہ جائے وقوف ہے ۔ 

لیکن عرفات کا اطلاق صرف وادی پر ہوتا ہے، قرآن میں عرفات کا لفظ آیا ہے ۔ 
اللہ کا فرمان ہے : 
فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ 
 ( البقرۃ : 198 ) 

ترجمہ : 
جب تم عرفات سے لوٹو تو مسجد حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو ۔ 

نبی ﷺ کا فرمان ہے : 
الحجُّ عَرفاتٌ، الحجُّ عَرفاتٌ، الحجُّ عَرفاتٌ 
 ( صحيح الترمذي : 2975 ) 

ترجمہ : 
حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے ۔ حج عرفات کی حاضری ہے ۔ 

حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں : 
رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ، بعَرفاتٍ واقِفًا 
 ( مسند أحمد ) 
اس کی سند کو مسند کے محقق احمد شاکر نے صحیح کہا ہے ( 4 / 173 ) 

ترجمہ : 
میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ عرفات کے میدان میں کھڑے ہیں ۔ 

غرض جہاں کہیں بھی عرفات کا لفظ آیا ہے ان جگہوں پر کہیں بھی یوم عرفات نہیں آیا ہے کیونکہ عرفات وادی کا نام ہے جبکہ عرفہ کبھی وادی پر بولا جاتا ہے تو کبھی دن پر اور جب عرفہ پر یوم کا لفظ داخل ہو جائے تو صرف اور صرف تاریخ پر اطلاق ہوگا یعنی نویں ذو الحجہ ۔ یوم عرفہ کہنے سے وقوف عرفہ یا میدان عرفات کبھی بھی مراد نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ یوم کا لفظ دن کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ وقوف عرفہ عمل اور میدان عرفات وادی ہے ۔ اور اگر عرفات پر یوم کا لفظ بھی لگا دیا جائے تو پھر بھی وہی دن مراد ہوگا جو یوم عرفہ سے مراد ہے یعنی نو ذو الحجہ ۔ جیسے منی کے ساتھ ایام منی کا لفظ ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد ایام تشریق کے تین دن ہیں ۔ 


خلاصہ کلام اور آخری بات : 
عرفہ کے دن کے روزے سے متعلق جو اشکالات اور اعتراضات ہیں ان سب کا جواب الگ مضمون میں " عرفہ کا روزہ، ایک تحقیقی جائزہ " کے عنوان سے دیا گیا ہے جو اسی نام سے میرے ذاتی بلاگ، محدث فورم اور اردو مجلس فورم وغیرہ پر تلاش کر سکتے ہیں ۔ یہاں اس مضمون میں صرف یہ بتلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یوم عرفہ سے مراد ذو الحجہ کی نو تاریخ ہے یعنی رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو ذو الحجہ کی نو تاریخ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے لہذا جس ملک میں جب ذو الحجہ کی نو تاریخ ہو اس دن یوم عرفہ کا روزہ رکھیں . 


~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۳ 

عرفہ کا روزہ احکام و فضائل اور بعض شبہات کاازالہ 

 عبد العلیم بن عبد الحفیظ سلفی 
 
مترجم : اسلامی دعوۃ سینٹر یدمہ، نجران، سعودی عرب 
سابق باحث : امام ابن باز اسلامك اسٹڈیز سینٹر انڈیا / و مدرس جامعۃ الإمام ابن تيمیہ 
 

 إنِ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَ نَسْتَعِينُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ وَ مَنْ يُضْلِلْ فَلا هَادِيَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ : 
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَ لا تَمُوتُنَّ إِلا و أَنْنمْ مُسْلِمُونَ} 
 ( آل عمران : 102 ) 
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَ نِسَاءً وَ اتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَ الأرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} 
 ( النساء : 1 ) 
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا} 
 ( الأحزاب : 70- 71 ) 

أما بعد : 
 
 فإن أحسن الحديث كلام الله و خير الهدي هدي محمد ـ ﷺ ـ و شر الأمور محدثاتها و كل محدثة بدعة و كل بدعة ضلالة و كل ضلالة في النار . 

أعوذبالله من الشيطان الرجيم : 
{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَ الرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَ أَحْسَنُ تَأْوِيلًا} 
 ( النساء : 59 ) ۔ 

 روزہ شریعت اسلامیہ کی نہایت ہی اہم اور اس کی پاکیزہ عبادتوں میں سے ایک ہے جو انسان کی دینی تربیت کے ساتھ ساتھ اس کے لئے ذہنی، فکری اور بدنی فوائد و ثمرات کی حامل ہے ۔ روزہ تقوی، طہارت، تزکیہ اور تربیت و صحت کا عظیم ذریعہ ہے، ایک طرف جہاں اسے ایک ماہ فرض کر کے اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو اپنے احکام کا مکلف کیا ہے، وہی دوسری طرف اس کے نوافل کے وسیلے اپنی قربت و رضا کا اظہار کیا ہے ۔ اس کے علاوہ عاشوراء اور عرفہ کے روزوں کو ایک مسلمان سے سرزد ہونے والے گناہوں کے لئے کفارہ قرار دیا ہے ۔ 
 اس کے علاوہ متشرد نفس کی بے جا خواہشات اور انتشار کو کنٹرول کرنے کا ایک بہترین اور کارگر آلہ قرار دیا گیا ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے افراد خصوصا نوجوانوں کے لئے جن کے پاس شادی کی استطاعت نہیں ہے فرمایا : 
 " ومن لم يستطع فعليه بالصوم فانه له وجاء " 
 ( صحیح البخاری / 1905 و صحیح مسلم / 1400 ) ۔ 

 " ایسے لوگ جو نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں روزہ رکھنا چاہئے کیونکہ روزہ اس کی شہوت کو کم کرتاہے " ۔ 

 اسی طرح بعض شرعی مخالفات میں روزہ کو اللہ تبارک و تعالی نے بطور کفارہ متعین کیا ہے جو اس کی اہمیت کو بیان کرتا ہے 
مثلا : حج میں کی جانے والی بعض غلطیوں پر، حرم میں کسی جانور کے شکار، کسی کو شبہ عمد یا خطا کی بنیاد پر قتل کر دینے، ظہار، قسم توڑنے اور رمضان میں دن میں بحالت روزہ بیوی سے جماع کرنے پر ۔ 
 
یہاں اس بات کی وضاحت مناسب ہے کہ مذکورہ ہر نوع کا روزہ بعض امور میں کچھ حد تک یکسانیت کے باوجود اپنی الگ حیثیت و فضیلت کا حامل ہے، انہیں میں عرفہ کے دن کا روزہ ہے جسے اللہ رب العزت نے اس دن کی اہمیت اور اس کی بے شمار فضیلت کے پیش نظر مشروع قرار دیا ہے ۔ 

 عصر حاضر میں اختلاف مطالع اور اس سے پیدا شدہ بعض مسائل کی بنیاد پر عرفہ کے دن کے روزہ کی تاریخ کی تعیین میں کچھ علماء بعض شبہات کے شکار ہیں اور عرفہ کے دن کے روزہ کے دن کی تعیین میں صرف نو ذی الحجہ کے قا‏ئل و فاعل ہیں، اس سلسلے میں بنیادی چیز جو قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ عرفہ کے دن کے روزے کا سبب کیا ہے ؟ اور اس کا تعلق دن اور تاریخ سے ہے یا حاجیوں کے کسی مخصوص دن میں شریعت کے ذریعہ مخصوص عمل ( یعنی عرفات میں وقوف ) سے ؟ جب اس چیز کی تعیین ہو جائے گی تو مسئلہ میں کسی التباس کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جائے گی ۔ 
 ابتدائے اسلام میں اس بات پر اتفاق تھا کہ یہ روزہ اسی دن مشروع ہے جس دن حج کے ایک مخصوص دن میں جب کہ حاجیوں کا قیام مکہ کے میدان عرفات میں ہوتا ہے ۔ لہذا اس روزہ کی مشروعیت کے لئے یہی اصل اور بنیاد ہے ۔ لیکن جب اسلام دنیا کے دور دراز علاقوں میں پھیل گیا اور متنوع مسائل امت کے سامنے در پیش ہوئے تو اس میں بعض وجوہات اور غیر متوفر وسائل کی بنیاد پر امت کے مجتہدین نے اپنے اپنے طور پر دلائل و نصوص اور اسباب و وسائل کے پیش نظر مسائل میں اجتہاد سے کام لے کر امت کی رہنمائی کی ۔ لیکن پھر بھی حالات کی تبدیلی اور دلائل و نصوص کی صحیح معرفت و ابلاغ کے وقت ان سے رجوع کا راستہ کھلا رکھا، بلکہ شریعت کا یہی مقصود اور مطلوب بھی ہے، مثال کے طور پر رمضان کے روزہ اور عید کے لئے حدیث میں ر‏ؤیت ہلال اصل ہے، لیکن دور دراز علاقوں میں ایک ساتھ رؤیت غیر ممکنات میں سے ہے اسی لئے روایات کے مطابق علم یقینی اور شہادت کا باب کھلا ہوا ہے، لہذا صحابہ کرام نے اسی کو اپنایا اور اسی کے مطابق فتوے دئے ۔ اب اس ضمن میں وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ وسائل اعلام نے اپنی ایک حیثیت بنالی جس کی وجہ سے اختلاف مطالع اور اتحاد مطالع نے نزاعی صورت اختیار کرلی اور رؤیت اور عدم ر‏ؤیت کے باوجود اختلاف و اتحاد مطالع نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ۔ 
 ایک وقت تھا جب وسائل کی قلت کی وجہ سے دو سو چار سو کیلو میٹر کی خبریں بر وقت نہیں مل پاتی تھیں اور لوگ اپنے علاقے اور شہر کی رؤیت اور عدم رؤیت پر اعتماد کر کے روزہ اور عید کرتے تھے ۔ لکھنؤ کے لوگوں کو الہ آباد کی رؤیت پہنچنا بھی عام طور پر محال تھا، لیکن اب یہ عذر قطعا باقی نہیں رہا کہ الہ آباد والے لکھنؤ کی رؤیت سے نا بلد ہوں، اس لئے مسائل کا اعتبار بھی بدلے ہوئے حالات کے مطابق ہونے لگا ۔ 
 مذکورہ وضاحت ضمنی طور پر صرف اس لئے کرنی پڑی کہ اس بات کو سمجھنے میں آسانی ہو کہ روزہ اور عید کے سلسلے میں رؤیت اور عدم رؤیت کے سلسلے میں امت کس راہ پہ چل رہی ہے ۔ 
 یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ رؤیت کے سلسلے میں اس اختلاف کے باوجود عرفہ کے دن کے روزے کو رؤیت اور عدم رؤیت کے اعتبار سے قرون مفضلہ میں کوئی جگہ نہیں ملی ہے، کیونکہ یہ روزہ ایک مخصوص دن کے ساتھ متعین و معروف رہا ہے ۔ تلاش بسیار کے بعد بھی کسی سے یہ مروی نہیں ہے کہ انہوں نے شام و مصر اور عراق و بخارا میں رہنے کے باجود عرفہ کا روزہ رکھنے میں کسی تاریخ کا اہتمام کیا ہو، کیونکہ جو چیز متعین و معروف ہو اس میں اختلاف اور اجتہاد غیر ضروری امر ہے ۔ 
 گیارہوں صدی ہجری میں امام خرشی مالکی نے عرفہ کا اطلاق مکان کے بجائے زمان سے لیا ہے، جو مختلف وجوہات کی بنا پرمرجوح قول ہے، جس کا بیان ان شاء اللہ اپنی جگہ پر آئے گا ۔ 

 گذشتہ چند سالوں سے اس مسئلہ نے خاصی اختلافی صورت اختیار کر لیا ہے، اس ضمن میں سوشل میڈیا وغیرہ پر مختلف زبانوں میں بہت سارے مضامین اور بیانات دیکھنے کو ملے ہیں جو دونوں طرح کے دلائل سے مزین ہیں جن کی وجہ سے عوام کا ایک بڑا طبقہ ذہنی انتشار کا شکار ہے ۔ 
 کچھ لوگوں نے تو اس مسئلہ کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے، کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہی حق و صواب ہے، جبکہ یہ مسئلہ اگر متعین نہیں مانتے ہیں تو اجتہادی بن جاتا ہے، لہذا اپنی بات کو اونچی رکھنے کے لئے اور اپنی تحقیق کو حرف آخر سمجھ کر ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنا شریعت اور بحث و تحقیق کے مزاج کے یکسر خلاف ہے ۔ جب کسی مسئلہ میں تحقیق کی جاتی ہے تو صاحب تحقیق کے اندر برداشت اور دوسروں کی تحقیق کی قدر کرنے کے لئے اپنے اندر وسعت ظرفی پیدا کرنی چاہئے ۔ دین کے معاملے میں اختلاف برائے اطلاع حق وصواب ہو تو کار خیر ہے ورنہ اگر محض تنقید اور تذلیل و تعلی ہو تو پھر : " و اللہ المستعان " ۔ 
 
وجہ اختلاف کی بات کریں تو یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی مسئلے میں کسی بھی وجہ سے اصل سے ہٹنا ہی اختلاف کا سبب ہے، جو عمل شریعت کی اصل پہ اور نصوص کے عین مطابق ہو پھر بھی اس کے اندر قیاس کو جگہ دینا اور حالات و ظروف کا حوالہ دے کر نامساعی اجتہاد کی راہ اختیار کرنا ہی مسئلے کو مختلف فیہ بنا دیتا ہے ۔ لہذا عرفہ کے دن کے روزے کو ہم اس کے اصل پہ رکھیں اور اس کے حکم اور حیثیت کے تعین کے بعد امکان اور عدم امکان کی راہ تلاش کریں تو مسئلہ واضح اور مبین ہے ۔ 

 میں نے اس مسئلہ کو اپنی اس مختصر کتاب کے اندر مختلف دلائل اور براہین کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کی تعیین میں پیش کردہ اشکالات و اشتباہات کا جائزہ لیا ہے تاکہ حق و صواب واضح ہو اور امت کے افراد کو کتاب و سنت کے مطابق عمل کی راہ ملے ۔ 
 اور میں مشکور ہوں اپنے مربی اور استاد شیخ احمد مجتبی سلفی مدنی حفظہ اللہ کا جنہوں نے اس موضوع پر میرے مختلف مقالات اور تحریروں کی حوصلہ افزائی اور تائید کی ہے، فجزاہ اللہ خیرا فی الدنیا والآخرۃ خیر الجزاء عنی و عن الاسلام و المسلمین و طلبۃ العلم و العلماء ۔ 
اس کتاب کو محدث لائبریری نے اپنی سائٹ پر اپلوڈ کیا ہے ۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء ۔ 


 اللہ تعالی اسے ہمارے لئے اور ہمارے اساتذہ و والدین کے لئے ذخیرۂ آخرت بنائے اور دین کے صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ و صلی اللہ علی خیر خلقہ و سلم ۔ 


عرفہ و عرفات سے مراد 

 عرفہ یا عرفات : 
معرفہ یا اعتراف یا العرف ( یعنی خوشبو ) سے مشتق ہے، جس کی پوری تفصیل فخرالرازی نے اپنی تفسیر کے اندر ذکر کی ہے ( جب گنہ گار مقام عرفات میں اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں تو گناہوں کی نجاست سے پاک ہو کر اللہ تعالی کے نزدیک بہترین خوشبو کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ ( دیکھئے : تفسیرالرازی : 5 / 189 ) ) ۔ 

 عام طور پر اہل لغت کے یہاں عرفہ کا اطلاق زمان اور عرفات کا مکان کے لئے ہوتا ہے، اور دونوں بحیثیت علم اور مترادف کے بھی استعمال ہوتے ہیں 
 ( دیکھئے : معجم المعانی وغیرہ ۔ ) ۔ 
بعض اہل لغت جیسے زمخشری اور ابن عطیہ وغیرہ نے دونوں کو " علم مرتجل " ( علم مرتجل کا مطلب ہے جو ابتداء سے ہی بطور علم کے مستعمل ہو، اور غیر علمیت میں کبھی استعمال نہ کیا گیا ہو ۔ ) قراردیاہے 
 ( دیکھئے : التحریر و التنویر لمحمد الطاھربن عاشور : 2 / 238 ۔ ) ۔ 

بعض اہل لغت لکھتے ہیں : " و عرفة اسم لموقف الحاج ذالك اليوم و هي إثنا عشر ميلا من مكة و سمي عرفات أيضا و هو المذكور في التنزيل . . . . . " اور عرفہ حاجی کے اس دن قیام کے مقام کا نام ہے جو مکہ سے بارہ میل کی دوری پر ہے، اس کا نام عرفات بھی ہے جس کا ذکر قرآن مجید کے اندر ہے " 
نیساپوری کے بقول : " عرفات جمع عرفة و كلاهما علم للموقف، كأن كل قطعة من تلك الأرض عرفة فسمي مجموع تلك القطعة بعرفات " 
 " عرفات عرفہ کی جمع ہے اور دونوں موقف کے لئے بطور علم استعمال ہوتا ہے، گویا اس کا ہر حصہ عرفہ ہے لہذا اس کے سارے حصوں کے مجموعے کا نام عرفات ہے " 
اسی طرح کی بات ابن الحاجب نے شرح المفصل کے اندر لکھی ہے ۔ اور طبرسی کے بقول : 
 " عرفات : إسم للبقعة المعروفة التي يجب الوقوف بها، و يوم عرفة يوم الوقوف بها " 
 " عرفات : اس معروف جگہ کا نام ہے جہاں ( حاجی کے لئے ) وقوف واجب ہے، اور وہاں وقوف کرنے کا دن عرفہ کا دن ہے " 
فیروزآبادی نے بھی ان کی تائید کی ہے ( مزید وضاحت کے لئے دیکھئے : الصحاح للجوھری : 4 / 1401 - 1402، معجم الفروق اللغویۃ للعسکری : ص 354، المغرب فی ترتیب المعرب للمطرزی : ص 312، شرح الرضی علی الکافیۃ لابن الحاجب : 3 / 259، المصباح المنیر للفیومی : 2 / 404، القاموس المحیط للفیروزآبادی : 1 / 836، اور تاج العروس للزبیدی : 24 / 137 ) ۔ 

چنانچہ مختصر الفاظ میں عرفہ یا عرفات دونوں کی اصطلاحی تعریف یوں ہے : 
 " وہ جگہ جہاں حجاج کرام حج کا ایک رکن ( یعنی وقوف ) ادا کرتے ہیں عرفہ یا عرفات کہلاتا ہے " ۔ 


عرفہ کی وجہ تسمیہ : 
 عرفہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں امام ابن قدامہ فرماتے ہیں : 
 " فأما يوم عرفة : فهو اليوم التاسع من ذي الحجة، سمي بذلك لأن الوقوف بعرفة فيه، و قيل : سمي يوم عرفة لأن إبراهيم عليه السلام أري في المنام ليلة التروية أنه يؤمر بذبح ابنه، فأصبح يومه يتروى، هل هذا من الله أوحلم ؟ فسمي يوم التروية، فلما كانت الليلة الثانية رآه أيضا فأصبح يوم عرفة، فعرف أنه من الله، فسمي يوم عرفة " 
 ( المغني : 4 / 442 ) 
 " عرفہ کا دن ذی الحجہ کی نویں تاریخ ہے یہ نام اس لئے پڑا کہ اسی دن وقوف عرفہ ہوتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ يوم عرفہ کا نام یوم عرفہ اس لئے پڑا کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کو یوم ترویہ کی رات میں خواب میں دکھایا گیا کہ انہیں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے، پھر وہ پورے دن اس غور و فکر میں رہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے یا پھر محض ایک خواب ؟ اسی وجہ سے اس دن کا نام یوم ترویہ پڑا، پھر دوسری رات بھی آپ کو یہ خواب دکھایا گیا پھر جب عرفہ کی صبح ہوئی تو آپ جان گئے کہ یہ اللہ کی جانب سے ( حکم ) ہے، اسی وجہ سے اس کا نام عرفہ کا دن پڑا " ۔ 

اس کے علاوہ بھی عرفہ یا عرفات کی وجہ تسمیہ سے متعلق بہت سارے اقوال مفسرین نے نقل کئے ہیں جن میں آدم علیہ السلام کا اس جگہ کو پہچاننا، آدم و حواء علیہما السلام کا اسی مقام میں ایک دوسرے کو پہچاننا، ابراہیم علیہ السلام کا جبریل علیہ السلام کے ذریعہ بتانے پر حج کے ارکان کا پہچاننا اور لوگوں کا اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا جس کے عوض میں گناہوں کی گندگی سے پاک ہو کر اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک بہترین خوشبو کا مستحق قرار پانا وغیرہ 
 ( ان سارے اقوال کے لئے دیکھئے : " تفسسير الطبري : 2 / 297، البحر المحيط : 2 / 275 ( فإذا أفضتم من عرفات . . . الآيۃ، کی تفسیر میں )، اور اسی طرح " لسان العرب لابن منظور : 4 / 2898 مادة : ( عرف ) نیزدیکھئے : تفسیر الرازی : 5 / 189 ) ۔ 


یوم عرفہ کے دیگر نام : 

 اس دن کو عرفہ کے علاوہ بھی کئی ناموں سے جانا جاتا ہے، 
مثلا : یوم التمام یا اتمام النعمۃ، یوم الحج الاکبر، المشھود، الوتر اور یوم الرضاء یا الرضوان، یوم ایاس الکفار، یوم اکمال الدین وغیرہ ۔ 


عرفہ کادن : 

 یوم عرفہ کو یوم عرفات بھی کہتے ہیں کیونکہ حج کے ایام میں نویں ذی الحجہ کو حاجی حج کے ایک اہم رکن کی ادائیگی کے لئے مقام عرفات میں اکٹھا ہوتے ہیں جو مکہ سے قریب بائیس کیلو میٹر کی مسافت پر ایک پہاڑی کا نام ہے 
 ( دیکھئے : معجم المعانی اور لغت کی ديگر کتب، مادہ : " عرف " ) ۔ 

اہل لغت کی تصریح کے مطابق عرفہ کے دن کی تعیین میں زمان و مکان دونوں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں ۔ 
 جب عرفہ یا عرفات کے ساتھ یوم کی اضافت ہوتی ہے تو اس دن کی تعیین کے لئے ہی ہوتی ہے جس دن مخصوص اعمال انجام دئے جاتے ہیں، نیز عرفہ کے دن کی تعیین کے سلسلے میں عام طور پر اہل لغت لکھتے ہیں کہ عرفہ ذی الحجہ کا نواں دن ہے 
 ( دیکھئے : " القاموس الفقهي " " معجم لغة الفقهاء " ، اسی طرح دیگر شروح كتب السنۃ ) ۔ 

 اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عرفہ کا دن ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو ہی پڑتا ہے اور ذی الحجہ کا اعتبار مکہ و نواحی کی رؤیت کے اعتبار سے ہوتا ہے کیونکہ عرفہ کا دن حج کے اعمال سے متعلق ہے جو بلاشبہ مکہ کی رؤیت کے اعتبار سے ہی ہوتا ہے ۔ 


عرفہ کے دن کی فضیلت : 

 عرفہ کے دن کی نصوص قرآن و سنت میں بہت بڑی فضیلت وارد ہے، مثلا : 

1- عرفہ کا دن اہل موقف کے لئے عید کا دن ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : 
 " يوم عرفة ويوم النحر وأيام منى عيدنا أهل الإسلام " 
 ( رواه أحمد / 16932، أبوداود : 7 / 63 رقم / 2419، الترمذي : 3 / 417 رقم / 768 و النسائي : 5 / 278 رقم 3006 و صححہ الألباني في صحيح سنن أبي داؤد رقم / 2090 الإرواء : 4 / 130 ) 

یعنی : " عرفہ، نحر ( قربانی ) اور منی کے ایام ہم اہل اسلام کے لئے عید کے دن ہیں " ۔ 

2- اس روز دعاء کا خاص مقام ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : 
 " خير الدعاء دعاء يوم عرفة " 
یعنی : " سب سے بہترین دعاء عرفہ کے دن کی دعاء ہے " 
 ( الترمذي : رقم / 3585 و حسنہ الألباني في صحيح الترمذي و تخريج مشكاة المصابيح : رقم / 2531 ) ۔ 

3- عرفہ کے دن اللہ تعالی کثرت سے لوگوں کو جہنم سے رہا کرتا ہے اللہ کے رسول صلى الله عليہ و سلم کا ارشاد ہے : 
 " ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا من النار من يوم عرفة " 
 ( صحيح مسلم / 1348 ) 
یعنی : " عرفہ کے دن سے زیادہ اللہ تعالی کسی دن بندوں کو آزاد نہیں کرتا " ۔ 

4- اللہ تعالی عرفہ میں وقوف کرنے والوں پر اہل آسمان کے درمیان فخر کرتا ہے، اللہ کے رسول صلى الله عليہ و سلم کا ارشاد ہے : 
 " إن الله يباهي بأهل عرفات أهل السماء، فيقول لهم : أنظروا إلى عبادي جاءوني شعثا غبرا " 
 ( رواه أحمد و الحاكم / 1751 و البيهقي و ابن خزيمۃ و ابن حبان و صحح إسناده الألباني في صحيح الترغيب / 1132 ) 
 " اللہ تعالی عرفات میں قیام کرنے والوں پہ آسمان والوں میں فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے : میرے بندوں کی طرف دیکھو جو میری خاطر پراگندہ بال گرد آلود ہو کر آئے ہیں " 
اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : 
 " وإنه ليدنو ثم يباهي بهم . . . . . . . " 
 " اللہ تعالی قریب ہوتا ہے پھر ان پر فخر کرتا ہے " 
 ( صحیح مسلم / 1348 ) ۔ 

5- اسی دن دین اسلام کی تکمیل ہو‏ئی اور نعمت کا اتمام ہوا 
 ( صحیح البخاری : 4606 ) ۔ 

6- اس دن کی اللہ تعالی نے مختلف آیتوں میں قسم کھائی ہے جو اس دن کی اہمیت و مرتبہ کو بیان کرتا ہے، جیسے سورۃ البروج میں " مشھود " 
 ( البيهقي فی السنن : " 3 / 170، الترمذی : رقم / 3339 و حسنہ الالبانی في الصحيحۃ رقم / 1502 ۔ ) اور بتفسیر عکرمہ و ضحاک سورۃ الفجر میں " الوتر " ( دیکھئے : تفسیر الطبری وغیرہ ) ۔ 

7- اسی دن اللہ تعالی نے بنی آدم سے توحید پر عہد و میثاق لیاتھا 
 ( رواہ احمد / 2455، و الحاكم / 75 و صححہ الالبانی ) ۔ 

اس کے علاوہ بھی اور بہت ساری خصوصیات ہیں جو اس دن کو دیگر ایام سے ممتاز کرتی ہیں ۔ 


عرفہ کے دن کے روز ہ کی فضیلت : 

 ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سے عرفہ کے دن کے روزہ سے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : 
 " إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله و السنة التي بعده . . . . . . " 
 ( صحیح مسلم / 1162 ) 
 " مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ ( اس روزے کے بدلے ) اس سے پہلے والے سال اور اس کے بعد والے سال کے گناہوں کو معاف فرما د‎ے گا ) " ۔ 


عرفہ کے روزے کا حکم : 

 کسی بھی مسئلہ کی وضاحت اور اس سے متعلق امور میں حکم کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے، تاکہ مکلف پر اس پر عمل کی حیثیت واضح اور مدون ہو سکے ۔ ارکان، فرائض، سنن و نوافل اور مستحبات و مندوبات ہر ایک پر عمل اس کی حیثیت و حکم کے اعتبار سے ہی مرتب ہوتا ہے اور عامل اسی کے مطابق عمل میں مخیر و مکلف ہوتا ہے ۔ اور یہ شریعت سمحہ کا اللہ رب العزت کی طرف سے امت پر اعمال و عبادات میں مزاج و کیف اور حالات و ظروف کی رعایت کرتے ہوئے تیسیر اور احسان ہے، تاکہ امت بدلتے حالات اور اسباب نازلہ کی بنیاد پر عمل کے اختیار اور عدم اختیار میں کسی حرج اور پریشانی میں مبتلا نہ ہو ۔ 

 عرفہ کے دن کا روزہ حکم کے اعتبار سے ( اپنی بے انتہا فضیلت کے باوجود ) مستحب یا سنت مؤکدہ کے زمرے میں آتاہے، اس لئے ترک و عمل اور تعیین و تحدید میں اس کا اعتبار بھی اسی حیثیت سے ہوگا، نہ کہ بالکلیہ دوسرے سببی اور غیر سببی روزوں کے اعتبار سے ۔ 

 چنانچہ عرفہ کے دن کا روزہ کوئی واجبی روزہ نہیں ہے کہ اس کا توڑنے والا گنہگار ہوگا البتہ اس کے لئے خیر کثیر سے محرومی کا باعث ضرور ہے ۔ 
 

کیا حاجی مقام عرفات میں روزہ رکھ سکتاہے ؟ 

حاجی مقام عرفات میں روزہ رکھنے کے سلسلے میں علماء کی مختلف رائیں ہیں : 

اول : 
مقام عرفات میں حاجی کے روزہ کے سلسلے میں روایت واضح ہے کہ آپ ﷺ سلم نے عرفات میں روزہ نہیں رکھا 
 ( دیکھئے : صحیح بخاری : 1658، صحیح مسلم / 1123 ) ۔ 

 یہ قول مالکیہ، شافعیہ کا معتمد قول، حنابلہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور اکثر علماء کا ہے ۔ 
 
عبد اللہ بن عمر فرمایا کرتے تھے کہ : 
 " نبی کریم ﷺ نے اس دن روزہ نہیں رکھا اور نہ ہی ابو بکر نے اور نہ ہی عمر نے اور نہ ہی عثمان نے، اور نہ میں رکھتا ہوں، اور نہ میں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ اس سے روکتا ہو ں " 
 ( اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے، دیکھئے : عارضۃ الاحوضي : 3 / 285 رقم / 752، امام البانی نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے، صحیح سنن الترمذی : رقم / 599 ) ۔ 

امام ابن باز ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : 
 " الحاج ليس عليه صيام عرفة و إن صام يخشى عليه الإثم ; لأن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن صوم عرفة بعرفة و لم يصم . و إن تعمد الصيام و هو يعلم النهي يخشى عليه من الإثم لأن الأصل في النهي التحريم " 
 " حاجی کے اوپر عرفہ کا روزہ نہیں ہے اور اگر وہ روزہ رکھ لیتا ہے تو اثم کا خطرہ ہے، اس لئے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عرفہ میں عرفہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے اور خود بھی نہیں رکھا ہے ۔ اور اگر ممانعت کو جانتے ہوئے بھی روزہ رکھتا ہو تو آثم ہونے کا خطرہ ہے، کیونکہ نہی میں اصل تحریم ہوتی ہے " 
 ( مجموع فتاوى و مقالات الشیخ ابن باز : 15 / 405 ) ۔ 

دوم : 
اگر حاجی اس روز روزہ رکھنے پہ قادر ہو اور اس سے اس کی عبادات اور ذکر و اذکار پر کوئی اثر نہ پڑتا ہو تو اس کے لئے روزہ رکھنا مستحب ہے، یہ قول حنفیہ کا ہے اور شافعیہ کا قدیم قول بھی یہی ہے، اور اس کے قائلین میں سے قتادہ اور عطاء بھی ہیں، 
صاحب عون المعبود لکھتے ہیں : 
 " امام خطابی کے بقول : یہ ممانعت استحبابی ہے نہ کہ ایجابی، اس روز حاجیوں کے لئے روزہ کی ممانعت اس لئے ہے کہ مبادہ اس مقام میں ذکر و دعاء میں حاجی کمزور پڑ جائےگا، لہذا جو قدرت رکھتا ہو اور روزے کے ساتھ کمزروی کا خوف نہ ہو تو اس کے لئے اس دن کا روزہ بمشئۃ اللہ افضل ہے، کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کا ( عمومی ) فرمان ہے : " عرفہ کے دن کاروزہ اس کے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد، دو سالوں کے گناہوں کے لئے کفارہ ہے " ۔ 


حاجی عرفہ کے دن روزہ رکھ سکتا ہے یا نہیں ؟ 

اس سلسلے میں لوگوں کی مختلف رائیں ہیں، عثمان بن ابی العاص اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ دونوں روزہ رکھا کرتے تھے، 
امام احمد بن حنبل کہتے ہیں : 
 " اگر روزہ رکھنے پہ قادر ہے تو رکھے گا اور اگر نہیں رکھتا ہے تو یہ ایسا دن ہے جس دن ( دعاء و عبادت کے لئے ) قوت کی ضرورت پڑتی ہے " 
اور امام اسحاق اس دن حاجی کے لئے روزہ کو مستحب سمجھتے تھے ۔ 
امام مالک، امام سفیان ثوری اور اسی طرح امام شافعی روزہ نہ رکھنے کے قائل تھے ۔ 
عطاء کہتے تھے کہ میں جاڑے کے موسم میں روزہ رکھتا ہوں اور گرمی میں نہیں رکھتاہوں 
 ( عون المعبود : 7 / 75- 76، نیز دیکھئے : دلائل الاحکام لابن شداد : 4299 - 4305، الحاوی الکبیر : 3 / 472 ) ۔ 


سوم : 
اس روز روزہ رکھنا حاجی کے لئے مطلقا مستحب ہے، یہ قول عائشہ و عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور اسحاق بن راہویہ اور ظاہریہ کا ہے 
 ( دیکھئے : مؤطاامام مالک : 1 / 375، شرح السنۃ للبغوی : 6 / 345 - 346، تحفۃالاحوذی : 3 / 378 ) ۔ 


حاجیوں کے لئے اس دن روزہ نہ رکھنے کی حکمت : 

حاجیوں کے اس دن روزہ نہ رکھنے کی مختلف حکمتیں بیان کی جاتی ہیں، مثلا : 

 - تاکہ اس دن حاجی بلا کسی تھکاوٹ و پریشانی کے ذکر و دعاء اور عبادت میں خود کو یکسوئی کے ساتھ مشغول کر سکے ۔ 

 - یہ دن اہل موقف کے لئے عید کا دن ہے ۔ 

- اس دن اللہ کے رسول ﷺ نے عرفات میں روزہ نہیں رکھا ۔ 
 

عرفہ کا روزہ اور اختلاف مطالع کا اثر : 

 بلا شبہ رمضان اور غیر رمضان کے روزوں میں رؤیت ہلال کا بہت بڑا دخل ہے جبکہ عرفہ کے دن کا روزہ رؤیت کے تخمینہ کے ساتھ ساتھ عرفہ میں حاجیوں کے وقوف سے متعلق ہے ۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اس روزہ کی فضیلت جن روایتوں میں بیان کی گئی ہے ان میں زیادہ تر میں " یوم عرفہ " کا ذکر ہے نہ کہ تاریخ ذی الحجہ کا یہ الگ بات ہے کہ یوم عرفہ مکہ اور نواحی مکہ کی قمری تاریخ کے اعتبار سے نو ذی الحجہ ہی کو پڑتا ہے ۔ 

 دائمی کمیٹی برائے فتاوی نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے : 

 " يوم عرفة هو اليوم الذي يقف الناس فيه بعرفة، و صومه مشروع لغير من تلبس بالحج، فإذا أردت أن تصوم فإنك تصوم هذا اليوم، و إن صمت يومًا قبله فلا بأس، و إن صمت الأيام التسعة من أول ذي الحجة فحسن؛ لأنها أيام شريفة يستحب صومها . . . . " 
 ( فتاوى اللجنۃ الائمۃ / 10 / 393 ) 

 " عرفہ کا دن وہی دن ہے جس دن لوگ ( مقام ) عرفہ میں وقوف کرتے ہیں، اور غیر حاجیوں کے لئے اس ( دن ) کا روزہ مشروع ہے، اگر آپ روزہ رکھنا چاہتے ہیں تو اسی دن رکھیں، اور اگر ایک دن قبل رکھا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر پہلی ذی الحجہ سے ہی نو دنوں تک رکھنا چاہیں تو اچھاہے، اس لئے کہ یہ مبارک دن ہیں جن کا روزہ مستحب ہے ۔ ۔ ۔ " ۔ 

شیخ عبد الرحمن السحیم ایک استفتاء کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : 
 " و العبرة بوقوف الناس في " عرفة " ، و لا عبرة بِمن خالف إجماع امة الإسلام، فأمّة الإسلام تحج و تقف و تُجمِع على أن يوم عرفة، و هو اليوم الذي يقف فيه الناس . و لا عبرة هنا باختلاف المطالع ؛ لأن الأمة تجتمع على أن يوم عرفة في ذلك اليوم الْمُحدَّد . " 
 ( منتديات شبكۃ السنۃ النبويۃ و علومها / فتاوی سنہ 1428 ھ ) 

 " لوگوں کے عرفہ میں وقوف کا اعتبار ہوگا نہ کہ جو امت اسلام کی مخالفت کرے اس کا، چنانچہ امت مسلمہ حج، وقوف اور اجتماع اس بنیاد پر کرتی ہے کہ عرفہ کا دن ہی ہے جس میں لوگ وقوف کرتے ہیں، اور یہاں پر اختلاف مطالع کا کوئی اعتبار نہیں ہے، کیونکہ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ عرفہ کا دن اسی متعین و محدد دن میں ہے " ۔ 

 اور ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : 
 " يوم عرفة يوم يقف الناس في عرفات، و ليس لأحد أن يُخالف أمة الإسلام، فإن امة الإسلام تجتمع و تُجمِع على أن يوم عرفة يوم يقف الناس، و هو اليوم التاسع من ذي الحجة . فمن قدّم أو أخّر في الصيام فاته أجر صيام يوم عرفة، و الله أعلم " 
 ( منتديات شبكۃ السنۃ النبويۃ و علومها ) ۔ 

عرفہ کادن وہی دن ہے جس دن لوگ عرفات میں وقوف کرتے ہیں اور کسی کے لئے جائز نہیں کہ امت اسلام کی مخالفت کرے، کیونکہ امت اس بنیاد پر اکٹھی ہوتی ہے اور اس کا اجماع ہے کہ عرفہ کا دن لوگوں کے وقوف کا دن ہے، جو ذی الحجہ کی نویں تاریخ ہے، لہذا جو روزے میں تقدیم و تاخیر کرتا ہے اس سے عرفہ کے دن کے روزے کا اجر فوت ہو جاتا ہے، اللہ اعلم " ۔ 

ہمارے استاد اور معروف محقق شیخ احمد مجتبی سلفی مدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں : 
 " یہ واضح رہے کہ یوم عرفہ سے مراد مکہ کے کیلنڈر کے حساب سے نو ذی الحجہ کی تاریخ ہے، کسی دیگر ملک میں اگر چاند مکہ سے ایک دن بعد دیکھا گیا ہو تو وہاں کے لوگ بھی مکہ کے کیلنڈر ہی سے نو ذی الحجہ کا روزہ رکھیں " 
 ( تقدیم و مراجعہ بکتاب " قربانی کے احکام و مسائل قرآن وسنت کی روشنی میں " / ص 23 ) ۔ 

شیخ محمد المغراوی اپنے ایک فتوی میں فرماتے ہیں : 
 " عرفات هو اسم للجبل الذي يقف عليه الحجاج في اليوم التاسع من شهر ذي الحجة، و هو يوم واحد لا يتعدد، فالصيام مع وقوف الحجاج هو الصيام الصحيح، و أما ما سواه فلا أعلم له أصلا لا في الكتاب و لا في السنة . اهـ " 

 " عرفات اس پہاڑی کا نام ہے جہاں نویں ذی الحجہ کو حجاح کرام وقوف فرماتے ہیں، اور وہ صرف ایک ہی دن ہے متعدد نہیں، اس لئے ( عرفہ کا ) روزہ حاجیوں کے وقوف کے ساتھ ہی صحیح ہے، اور جہاں تک اس کے علاوہ ( دن ) کی بات ہے تو میں قرآن و سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں جانتا " ۔ 

 چنانچہ ساری عبادتوں میں تاریخ، دن اور اوقات کی تعیین میں اختلاف مطالع کا واقعی معتبر ہونے کے باوجود جب اس بات کی تعیین ہوجاتی ہے کہ اس روزہ کا تعلق عرفہ کے دن سے ہے تو اس میں اختلاف مطالع کا کوئی اعتبار نہیں رہ جاتا ہے، دنیا میں تاریخ کوئی بھی ہو عرفہ کا دن وہی ہوگا جس روز حاجی مقام عرفات میں قیام فرمائیں گے ۔ 


عرفہ کے دن کا روزہ اور بعید ممالک 
 یہاں پر یہ اشکال پیش کرنا کہ : 
 " بعض ممالک مثلاً : لیبیا، تیونس اور مراکش ۔ ۔ ۔ ایسے ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آتا ہے ۔ یعنی ان ممالک میں جب 10 / ذی الحج کا دن آتا ہے تو مکہ مکرمہ میں عرفہ کا دن ہوتا ہے ۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات والے دن روزہ رکھیں تو یہ گویا، ان کے ہاں عید کے دن کا روزہ ہوا اور یہ تو سب کو پتا ہے کہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے ۔ " ۔ 

تو یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ ( جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ) کو ‏ئی واجبی روزہ نہیں ہے جس کا نہ رکھنے والا گنہگار ہوگا ۔ خاص طور سے جب اسے چھوڑنے کے لئے کوئی مناسب اور مضبوط سبب موجود ہو، اس لئے جن ممالک میں قربانی کا دن حاجیوں کے عرفات میں وقوف کے دن پڑ جائے تو ان کے یہاں قربانی کے دن کو ترجیح حاصل ہوگی، کیونکہ ایسے لوگوں کے لئے عدم قدرت کی وجہ سے یہ روزہ مشروع ہی نہیں ہے ۔ اور جو عبادت خاص طور سے نفلی عبادت کسی کے لئے مشروع نہ ہو اس کے اندر تا ویل کر کے زبردستی کسی دوسرے دن میں لے جانا اور اس کی خصوصیت کو تعمیم میں بدل دینا کیا یہ احداث فی الدین نہیں ہے ؟ ؟ ؟ ۔ 

 نیز یہ بھی واضح رہے کہ مختلف ممالک میں اختلاف مطالع کی وجہ سے نو ذی الحجہ الگ الگ ہوتا ہے، اور ان الگ الگ ایام کو عرفہ کا نام دینا مناسب نہیں ہے، جن میں حاجیوں کا عرفات میں قیام ہی نہیں ہوا، بلکہ دیگر ایام کو وہ نام دینا جو شریعت نے کسی خاص دن کو دے رکھا ہے شریعت پہ زیادتی کے قبیل سے ہے ۔ 

 اگر اس چیز کی اجازت دے دی جائے کہ نو ذی الحجہ کو یوم عرفہ کہا جائے خواہ وہ دنیا کے کسی اور خطے میں کسی دوسرے دن ہی کیوں نہ پڑے تو پوری دنیا میں ایک سے زیادہ عرفہ کے ایام ہو جائیں گے اور نام " یوم عرفہ " کے بجائے " ایام عرفہ " رکھنا ہوگا ۔ 

شریعت میں اس نوع کے بہت سارے اعمال ہیں جو کسی مناسب یا شرعی سبب کی بناء پریا تو بعض افراد کے لئے غیر مشروع یا ان سے ساقط ہوتے ہیں، مثلا : 

ـ ایک آدمی سفر کر کے کسی دوسرے ملک میں گیا اور وہاں کے لوگ عید منا رہے ہوں، جبکہ اس کا روزہ جس ملک میں شروع کیا ہے کے مطابق ایک کم ہو رہا ہے پھر بھی لوگوں کے ساتھ روزہ توڑ دیگا، یہ الگ بات ہے کہ یہ روزہ فرض ہونے کی وجہ سے اس کی قضاء واجب ہوگی ۔ 

ـ جمعہ کے روزے کی ممانعت عرفہ کے روزے کی عزیمت کی وجہ سے ساقط ہے ۔ 

ـ عرفہ کے دن وقوف عرفات کی وجہ سے حاجیوں سے اس روز روزہ ساقط ہے ۔ 

ـ مقیم امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی وجہ مسافر کے لئے قصر ساقط ہے ۔ 

ـ فجر اور ظہر وغیرہ کی سنتوں یا جماعت کھڑی ہونے کی وجہ سے مسجد میں داخل ہونے والے کے لئے تحیۃ المسجد مشروع نہیں ہے کیونکہ یہ سنتیں تحیۃ المسجد کے لئے کفایت کرتی ہیں ۔ 

ـ اسی طرح سببی نمازوں جیسے فرض نمازوں کی قضاء، طواف کی دو رکعتیں، تحیۃ المسجد اور سورج گرہن کی نماز وغیرہ کی وجہ سے ممنوعہ اوقات میں نماز کی ممانعت ساقط ہے ۔ 

ان کے علاوہ بھی اور بہت سارے مسائل ہیں جو اس نقطے کی وضاحت کے لئے کافی ہیں ۔ 

اس لئے جن ممالک میں یوم النحر عرفہ کے دن پڑ جائے وہاں کے رہنے والوں سے عرفہ کے دن کا روزہ ساقط مانا جائے یہ احوط ہے اس بات سے کہ شریعت کے متعین کردہ دن کو ہی بدل دیا جائے ۔ 

 بعض سلف سے اختلاف کی صورت میں اس روزہ کے ساقط ہونے کی روایت آتی ہے، ابن ابی شیبہ نے امام ابراہیم النخعی کا قول نقل کیا ہے کہ : جب ان سے حضر میں شک یا غیر معتمد شہادت کی بنا پر اختلاف کی صورت میں عرفہ کے روزہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا : 
 " إذا كان فيه اختلاف فلا تصومن " 
 ( مصنف ابن ابی شیبہ : 3 / 97، اس روایت کو امام ابن رجب حنبلی کی کتاب أحكام الاختلاف في رؤيۃ هلال ذي الحجۃ ( ص19-20 ) کی تحقیق میں ڈاکٹر عبد الله بن عبد العزيز الجبرين نے حسن قرار دیاہے ۔ ) 
 " اگر اس سلسلے میں اختلاف ہو جائے تو روزہ مت رکھنا " ۔ 
 
 ( نوٹ : جب میں نے کسی خاص سبب کی وجہ سے عرفہ کے روزہ کے سقوط والی بات لکھی تو بہت سارے احباب نے اس پر یہ کہہ کر تنقید کی کہ آپ کون ہوتے ہیں کسی عمل کو ساقط کرنے والے ؟ 

 اس طرح کی بات جب کسی ایسے آدمی کی زبان سے صادر ہو جو شریعت کے علوم سے نابلد ہو تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن یہی بات کسی عالم دین جو کتاب و سنت کے رموز و اسرار سے واقف ہو اور عبادتوں میں توقیف اور اسباب و مصالح کے دخل کا ادراک رکھتا ہو سے صادر ہو تو پھر کیا کہا جا سکتا ہے ؟، جبکہ اشارۃ کچھ مسائل کا ذکر بھی کر دیا گیا ہو ۔ ) 


عرفہ کا دن اور رؤيت والی روایت کا اعتبار : 
 " صوموا لرؤيته و أفطروا لرؤيته . . . . . . " 
والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء اس بات پرزور دیتے ہیں کہ اس روایت میں جو عمومیت وارد ہے وہ رمضان کے ساتھ ساتھ سال کے ہر ماہ کے لئے عام ہے جس میں عرفہ کا دن بھی شامل ہے، امام خرشی مالکی کے بقول : 
 " و المواسم جمع موسم الزمن المتعلق به الحكم الشرعي و لم يرد بعرفة موضع الوقوف بل أراد به زمنه و هو اليوم التاسع من ذي الحجة، و أراد بعاشوراء اليوم العاشر من المحرم " اهـ 
 ( شرح مختصر خليل : 2 / 234 ) 

 " مواسم موسم الزمن کی جمع ہے جس سےحکم شرعی متعلق ہوتا ہے لہذا عرفہ سے وقوف کی جگہ مراد نہ لے کر وقت و زمن مراد لیا گیا ہے جو نو ذی الحجہ کو پڑتا ہے اور اسی طرح عاشوراء بول کر دس محرم مراد لیا گیا ہے ۔ " ۔ 

امام خرشی کا مذکورہ استدلال کئی وجہوں سے قابل اعتبار نہیں ہے : 

 بلاشبہ بہت ساری عبادتیں موسم و زمان سے متعلق ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی نا قابل انکار حقیقت ہے کہ بہت ساری عبادتوں میں زمان و وقت کا قطعا اعتبار نہیں ہوتا، اور بسا اوقات اعتبار ہوتا بھی ہے تو اس کے بعض احکام و مسائل اور جز‌ئیات اس اعتبار سے نکل جاتے ہیں، انہیں میں عرفہ کا دن ہے، جو شروع تو ہوتا مکہ و نواحی کی رؤیت سے ہے لیکن اعتبار عرفات کے میدان میں حاجیوں کے اجتماع کا ہوتا ہے، مثلا : مکہ و نواحی کے غیر حجاج افراد جنہیں اس بات کا یقین بھی ہو کہ تعیین یوم عرفہ میں غلطی ہوئی ہے اور باعتبار طلوع قمر ایک دن بعد یا ایک دن قبل یوم عرفہ ہونا چاہئے پھر بھی ان کے روزے کا اعتبار اس دن کا ہوگا جس دن خطأ کے باوجود حاجی میدان عرفات میں ہوں ۔ 

 امام خرشی کا یہ کہنا کہ عرفہ سے جگہ نہ مراد لے کر نو ذی الحجہ کی تاریخ مراد لی گئی ہے، دعوی بدون دلیل ہے، جب کہ معاملہ اس کے بر خلاف ہے، روایت میں واضح طور پر یوم عرفہ سے وقوف عرفات کا دن ہی مراد لیا گیا ہے، لہذا جس روز مقام عرفات میں حاجیوں کا قیام ہی نہ ہوا ہو اس روز کو یوم عرفہ کہنے کے لئے دلیل صریح کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ فقہاء کے بیان کے مطابق یوم عرفہ اسی دن کو کہاجائے گا جس دن حاجی مقام عرفات میں ہونگے ۔ 

 امام خرشی رحمہ اللہ نے عاشوراء یعنی دس محرم کی مثال دی ہے کہ جس طرح عاشوراء بول کر دس محرم کی تاریخ مراد لی جاتی ہے اسی طرح عرفہ بول کر نو ذی الحجہ کی تاریخ مراد لی جائے گی ۔ یہاں یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ عاشوراء یا تاسوعاء معین تاریخ کا نام ہے، جس میں اعتبار گنتی و عدد کے مطابق محرم کے نویں اور دسویں دن کا ہوتا ہے اور یہ تاریخ دنیا کے ہر ملک میں بر وقت جاری شہری و قمری اعتبار کے مطابق ہوتا ہے، جبکہ عرفہ کے ساتھ ایسی کسی بھی عمومیت کے لئے دلیل چاہئے ہوتی ہے، خاص طور سے جب اس کے ساتھ کچھ خاص اعمال و احکام اور تعیین و تحدید مرتبط ہوں، نیز یہ واضح ہونا چاہئے کہ عرفہ کا بیان لفظ " یوم " سے خالی ہرگز نہیں ہے، جو یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہ دن اپنی عمومیت پہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ زمان کے ساتھ ساتھ اجتماع و مکان کی تخصیص موجود ہے جس کے بغیر نہ یہ دن مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی حاجی کا حج ۔ ۔ ۔ فافھم و تدبر ۔ 
 
لہذا یہ چیز واضح ہے کہ عرفہ ایک مخصوص دن کا نام ہے، جس روز مقام عرفات میں حاجیوں کا اجتماع ہوتا ہے، اس لئے اسے محض کسی تاریخ سے متعلق کر کے اس میں تعدد پیدا کرنا قطعا مناسب نہیں ہے، اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اس روزہ کی فضیلت جن روایتوں میں بیان کی گئی ہے ان میں زیادہ تر میں " یوم عرفہ " کا ذکر ہے نہ کہ تاریخ ذی الحجہ کا یہ الگ بات ہے کہ یوم عرفہ مکہ و نواحی کی رؤيت کے اعتبار سے نو ذی الحجہ ہی کو پڑتا ہے ۔ 
 یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر کسی اجتہادی غلطی کی وجہ سے حجاج آٹھ یا دس ذی الحجہ میں وقوف کرتے ہیں تو اسی دن کو یوم عرفہ شمار کیا جائے گا جیسا کہ فقہاء نے اپنی کتابوں میں اس کی صراحت کی ہے . 
 
 ( دیکھئے : حاشيۃ ابن القيم على سنن أبي داود : 6 / 317، المحلى لابن حزم : 5 / 203 - 204، المغني لابن قدامۃ : 3 / 456، المهذب مع شرحہ المجموع : 8 / 292، المجموع للإمام النووي : 8 / 292، مجموع فتاوى الإمام ابن تيميۃ : 25 / 107، بدائع الصنائع : 2 / 304، شرح الخرشي على مختصر خليل : 2 / 321، روضۃ الطالبين : 2 / 377 ) ۔ 

چنانچہ " صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَ أَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ ـ " والی روایت کو عمومیت کی بنیاد پر مطلقا یوم عرفہ کے روزہ کے لئے تاریخ کی تحدید کے طور پر پیش کرنا محل نظر ہے، کیونکہ اس روزے کا تعلق یوم عرفہ ( حاجیوں کے مقام عرفات میں قیام ) سے ہے نہ کہ تاریخ سے ۔ 

 یہاں یہ نکتہ کافی اہم ہے کہ مذکورہ روایت رمضان کے روزوں کے باب میں صریح ہے اور اس کا تعلق مطلقا تمام روزوں سے نہیں ہے کیونکہ کچھ روزے دن سے متعلق ہیں نہ کہ تاریخ سے، جیسے سوموار و جمعرات اور خود یوم عرفہ کا روزه ۔ 

 عرفہ کے روزے کے لئے دن کی تعیین کی وجہ سے جب رؤيت كا اعتبار کالعدم کے حکم میں ہے تو یہاں پر اختلاف مطالع کی بحث بے معنی ہے . 

 یہاں یہ اشکال پیش کرنا کہ : " اگر روزے سے متعلق ر‏ؤیت ہلال کا حکم نکال دیا جائے تو روزہ بے معنی ہو جائے گا، ایک دن کا بھی کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا ہے، نہ سحری کھا سکتا اور نہ ہی افطار کر سکتا ہے ۔ " ، شریعت سے کج فہمی کی دلیل ہے، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دین کے زیادہ تر مسائل میں ر‏ؤیت ہلال کے اعتبار و حکم کا کوئی بھی فرد انکار نہیں کرتا، جو لوگ توحید مطالع کے قائل ہیں ان کے یہاں بھی اعتبار رؤیت ہی ہے، نہ کہ فلکی حسابات اور اعداد تاریخ ۔ 
 قاعدے کی رو سے رؤیت کا اعتبار ان روزوں میں ہے جو رؤیت سے متعلق ہیں، نہ کہ ان روزوں میں جو سببی اور مخصوص دن اور مخصوص وجہ سے متعلق ہیں ۔ کیا عرفہ اور اس دن حاجی اور غیر حاجی کے لئے مشروع اعمال کا تعلق خاص نہیں ہے ؟ ۔ 
 واضح رہے کہ رؤيت كے اعتبار کو مطلق تمام روزوں کے لئے پیش کر کے ہی اشکال پیدا کیا جاتا ہے، قطع نظر اس کے کہ تمام روزوں کی حیثیت و ماہیت میں یکسانیت نہیں ہے . اور " یوم " اور " تاریخ " اور " تعیین " اور " تخمینہ " کے اس بے انتہا " فرق " کے باوجود کچھ حضرات " واضح نص " کے مطالبے پر مصر ہیں ؟ ؟ ؟ ؟ اور زبردستی ایک مخصوص و معمول عمل کو " نسبتی " عمل قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ اپنے تأويلى موقف کو زبردستی ثابت کرنے کے لئے غیر ضروری تأويلات و شبہا ت كا سہارا لیتے ہیں ۔ 


کیا روایات میں وارد نو ذی الحجہ کا لفظ دنیا کے تمام خطوں کے لئے ہے ؟ 

 جو حضرات عرفہ کے دن کے روزے کے تعدد کے قائل ہیں ان کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ عرفہ کے دن کے لئے روایات میں نو ذی الحجہ کا ذکر بصراحت موجود ہے ۔ 

 بلاشبہ عرفہ کے دن کے لئے نو ذی الحجہ کے دن کی تعیین باعتبار رؤیت مکہ اور حوالی مکہ وارد ہے، اور اہل لغت بھی جہاں عرفہ کی تعریف کرتے ہیں اس میں نو ذی الحجہ کی تحدید کرتے ہیں ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عرفہ مکہ اور حوالی مکہ کی ر‎ؤیت کے اعتبار سے عام طور سے نو ذی الحجہ کو ہی پڑتا ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس تحدید و تخصیص کو تعمیم میں بدل دیا جائے اور سارے عالم کےاختلاف رؤیت کو مخصوص و متعین عمل کے لئے سبب اختلاف بنا دیا جائے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حج ایک مستقل عبادت ہے، اس کے تمام ارکان و ایام متعین ہیں، دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی دن یا تاریخ ہو ایام حج اور ارکان و اعمال حج پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے ۔ 


ایام حج اور یوم النحر سے استدلال : 

 یہاں پر اس اشکال کی توجیہ بھی ضروری ہے کہ : " ایام حج میں جس دن قربانی کی جاتی ہے دنیا کے تمام ممالک میں اس کے علاوہ کے ایام میں وہاں کی رؤیت کے اعتبار سے کی جاتی ہے ؟ ؟ " ۔ 
 جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ حج ایک مستقل عمل ہے اس کا تعلق چند مخصوص ایام اور اعمال سے ہے، اس پر دوسرے ممالک میں ادا کئے جانے والے اعمال کو قیاس نہیں کیا جا سکتا، بلاشک دونوں قربانیوں کی ہیئت و ماہیت اور ارکان و ادائیگی میں یکسانیت ہے لیکن دونوں کی ادائیگی کے اوقات و استحقاق میں بے تحاشہ فرق ہے، مثلا : 

ـ قرآن و سنت کے مطابق دونوں حاجی و غیرحاجی کی طرف سے اللہ کے تقرب کے لئے ذبح ہے، لیکن ایک کے لئے ھدي اور دوسرے کے لئے اضحیہ کا لفظ وارد ہے، گرچہ اس کو مکہ اور بالخصوص منی میں ہی کیوں نہ ذبح کیا گیا ہو ۔ 

ـ تمتع، قران یا لزوم دم کے سبب ھدي کا حکم وجوب کا ہے بر خلاف اضحیہ کے، کیونکہ یہ جمہور فقہاء کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے . 
 ( المغنی لابن قدامہ : 9 / 435 ) ۔ 
حالانکہ بعض اہل علم وجوب کے قائل بھی ہیں ۔ 

ـ عام قربانی کے جانور اور حج کے ھدي کے جانور میں تبدیلی کے امکان کے بارے میں امام مالک کا فتوی ہے کہ قربانی کے جانور ک وکسی حادث عیب کی وجہ سے اس سے اچھے جانور سے تبدیل کیا جا سکتا ہے بر خلاف ھدي کے ـ 
 ( المدونہ : 1 / 549 ) ۔ 

ـ ھدي ایک خاص جگہ کے ساتھ مخصوص ہے برخلاف قربانی کے اسے منی، مکہ یا کسی دوسری جگہ کہیں بھی کیا جا سکتا ہے، امام شافعی فرماتے ہیں : " اضحیہ مسلمانوں میں سے ہر صاحب استطاعت کے لئے سفر، حضر، گا‏ؤں، شہر، مکہ، حج میں منی وغیرہ میں ہر جگہ سنت ہے اس کے ساتھ ھدي ہو یا نہ ہو " 
 ( المجموع للامام النووی : 8 / 383 ) ۔ 

ـ قربانی کے بدلے کوئی دوسرا عمل نہیں کر سکتے جبکہ متمتع اور قارن کو اگر ھدي میسر نہ ہو تو اس کے اوپر دس روزے واجب ہیں، تین حج کے ایام میں اور سات گھر واپسی کے بعد ۔ 

ـ قربانی کا ایک جانور یا حصہ اہل خانہ کے لئے کفایت کرتا ہے جبکہ ھدي صرف حاجی کے لئے ہوتا ہے ۔ 

ـ اضحیہ کے لئے عید کی نماز شرط ہے جبکہ ھدي کے روز نماز عید ہے ہی نہیں ۔ 

ـ قربانی کی نیت کرنے والے کے لئے اول ذی الحجہ سے بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم ہے، جب کہ حاجی کے لئے یہ حکم صرف حالت احرام تک ہی محدود ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ 

 یہاں دونوں قربانیوں میں فرق ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ حج کے ایام میں حرم، منی، مزدلفہ، یا عرفات سے متعلق اعمال و عبادت دیگر ایام و امکنہ میں کئے جانے والے اعمال سے حکم میں مختلف ہیں لہذا یہ کہنا کہ جس طرح یوم النحر یا رمضان و عیدین پوری دنیا میں اختلاف مطالع کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح یوم عرفہ بھی مختلف ہوگا قطعا درست نہیں ہے، کیونکہ یوم عرفہ ایک خاص دن ہے جو ایک خاص مقام میں قیام اور خاص اعمال و احکام سے متعلق ہے، جسے دوسرے ایام و اعمال پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے ۔ 


روایات میں وارد " تسع ذی الحجہ " کی حقیقت : 

 ابو داود اور نسائی وغیرہ کی روایت میں اللہ کے رسول ﷺ کی بعض بیویوں سے مروی ہے : 
 " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِويوم ‏عاشوراء، وثلاثة أيام من كل شهر " 
 ( سنن ابی داود : 2436، سنن النسائی / 2417 سنن الکبری للبیہقی / 8176، علامہ البانی نے صحیح سنن ابی داود / 2106 میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ) 

 " اللہ کے رسول ﷺ ذی الحجہ کے نو دنوں اور محرم کے دسویں دن اور ہر ماہ کے تین دن کا روزہ رکھا کرتے تھے " ۔ 
بعض روایات میں بطور تغلیب " عشر " ( یعنی ذی الحجہ کے دس دن ) کا لفظ وارد ہے، جس سے مراد ذی الحجہ کے شروع کے نو دن ہیں، کیونکہ دسواں دن قربانی کا دن ہے جس میں روزہ ممنوع ہے ۔ 

 کچھ لوگوں کو روایات میں وارد " تسع من ذی الحجہ " سے مغالطہ ہوا ہے کہ اس سے مراد نویں ذی الحجہ کا روزہ ہے، جبکہ اس روایت میں نویں ذی الحجہ کی تعیین کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ " تسع " سے مراد ذی الحجہ کے شروع کے نو دن ہیں نہ کہ نواں دن، دائمی کمیٹی برائے فتاوی نے اس غلط تاویل اور فہم کی تصحیح کرتے ہوئے لکھا ہے : 

 " وقول بعضهم : إن المراد بتسع ذي الحجة اليوم التاسع، تأويل مردود، و خطأ ظاهر للفرق بين التسع و التاسع " 

 " کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ تسع ذی الحجہ سے مراد نویں ذی الحجہ ہے، تاسع اور تسع کے فرق کی بنا پرمردود تاویل اور واضح غلطی ہے " 
 ( فتاوی اللجنۃ الدائمہ : رقم / 20247 ) ۔ 


بعض شبہات کا ازالہ : 

1 - بعض حضرات یوم عرفہ اور عرفات کا فرق واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 
 " یوم عرفہ اور وقوف عرفات دو الگ الگ چیزیں ہیں، یوم عرفہ دن اور تاریخ کو کہتے ہیں اور جو قمری حساب سے نو ذو الحجہ کو کہتے ہیں جبکہ وقوف عرفات کا تعلق میدان عرفات سے ہے ۔ " 

 میں نے شروع میں ہی عرفات و عرفہ کا فرق اہل لغت کے بیان کے مطابق واضح کر دیا ہے جس سے دونوں کی حیثیت واضح ہو جاتی ہے ۔ 
 یہاں اس وضاحت کی ضرورت تھی کہ " یوم عرفہ " کو دن اور تاریخ کی گنتی میں کس سبب سے لایا گیا ہے ؟ کیا دنیا کے کسی بھی خطے میں نو ذو الحجہ کو " یوم عرفہ " لکھا اور بولا جاتا ہے ؟ ۔ 

بلاشبہ وقوف عرفات کا تعلق میدان عرفات سے ہے، ٹھیک اسی طرح " یوم عرفہ " کا تعلق بھی وقوف عرفات سے ہے، دن اور تاریخ سے نہیں، گویا یہ دونوں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں، جیسا کہ مذکورہ سطور میں فقہاء کے اقوال کی روشنی میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ " یوم عرفہ " کا اطلاق اسی دن پر ہوگا جس دن حجاج وقوف عرفات کریں گے وہ دن بسبب اجتہاد و خطا آٹھ یا دس ذی الحجہ ہی کیوں نہ ہو ۔ 

2 - ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ : " اگر عرفات میں وقوف سے متعلق روزه ہوتا تو عرفہ نہیں عرفات کا ذکر ہوتا " اس اشکال میں دین میں ایک نئی اصطلاح گھڑنے کے ساتھ ساتھ لغت معانی کے ساتھ خرد برد کی کوشش کی گئی ہے، گویا مقام عرفات میں حاجیوں کے قیام کے دن کے علاوه بهی کئی دن ہیں جنہیں عرفہ کا دن کہا جائے گا . ( جب کہ نصوص اور اہل لغت کی صراحت کے مطابق " عرفہ " " عرفات " اور ان کی طرف " یوم " کی نسبت اور " اس دن " اور " اس دن اور اس مقام کا عمل " ایک دوسرے سے متعلق ہیں ! ! ! ) 
واضح رہے کہ " یوم عرفہ " " عرفہ کا دن " یعنی جس دن حاجی میدان عرفات میں جمع ہوں کا بصراحت ذکر ہے . لہذا میں نے پہلے ہی ذکر کیا ہے کہ فقہاء كى صراحت کے مطابق اگر کسی اجتہادی غلطی کی وجہ سے حجاج آٹھ یا دس ذی الحجہ میں وقوف کرتے ہیں تو اسی دن کو یوم عرفہ شمار کیا جائے گا . گویا تاریخ نہیں حجاج کے مقام عرفات میں اجتماع کا اعتبار ہوگا . 

3 - ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ : " اگر یہ وقوف عرفہ کی وجہ سے ہوتا تو حاجیوں کے لئے بهی یہ روزہ مشروع ہوتا " . کہنا یہ چاہتے ہیں حاجی اور غیر حاجی کے لئے احکام و مسائل میں کوئی فرق ہی نہیں ہے ؟ ؟ ؟ ؟ 
 یہ ملحوظ رہے کہ حجاج کرام کے لئے یہ روزہ ان کے مقام عرفات میں قیام کی وجہ سے ہی ممنوع ہے ( يا غير مسنون، كيونكہ بعض اسلاف کے یہاں حاجیوں کے لئے بهی عرفہ کا روزہ مشروع ہے، جس کابیان گذر چکا ہے ) جیسا کہ غیر حاجیوں کے لئے ایام عید کا روزہ، جیسا کہ روایت میں ہے کہ عرفہ ان کے لئے عید کا دن ہے ۔ 

4 - کچھ حضرات یہ اشکال پیش کرتے ہیں کہ : " اگر عرفہ کے دن کے روزہ کا مقصد حاجیوں کے مقام عرفات میں قیام سے مطابقت ہوتا تو ان لوگوں کے لئے کیا کہیں گے جن کا روزہ حاجیوں کے قیام سے کئی گھنٹے پہلے یا کئی گھنٹے بعد میں شروع یا ختم ہو جاتا ہے ؟ " 
 اس قسم کا اعتراض یا اشکال پیدا کرنا اسلامی عبادات کے اسرار و رموز، اسباب و مقاصد اور روح و معانی سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ بات ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ روزے رکھے تو قمری اعتبار سے جاتے ہیں لیکن امساک و افطار میں اعتبار شمسی ہوتا ہے، اور اعداد میں دن کا اطلاق صرف سورج کے آسمان پر باقی رہنے تک نہیں ہوتا بلکہ دن اور رات کو ملا کر ہوتا ہے ۔ 
 یہ بھی واضح رہنی چاہئے کہ عرفات میں قیام یوم النحر کی طلوع فجر سے قبل چند لمحات قیام یا مرور سے بھی حاصل ہو جاتا ہے جبکہ روزہ صرف طلوع فجر سے غروب شمس تک ہوتا ہے 
 ( روضۃ الطالبین : 2 / 377 ) ۔ 

5 - بعض علماء عرفہ کی وجہ تسمیہ کے ذکر میں اہل لغت کے اقوال کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : " ان لوگوں کا دعوی بلا دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ عرفہ کے دن کا نام فقط حاجیوں کے وہاں وقوف کی بنا پر ہے " ۔ 

 دراصل یہاں یہ اشکال پیش کیا جاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے جس دن ذریت آدم سے توحید پر عہد و پیمان لیا تھا وہ دن عرفہ کا تھا، اور یہ معلوم ہے کہ اس وقت مقام عرفات میں حاجیوں کا قیام نہیں ہوتا تھا، پھر بھی اسے عرفہ کا دن کہا گیا ۔ 

 اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل معرفت کے بیان کے مطابق عرفہ کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں ڈھیروں وجوہات مذکور ہیں، لیکن یہ بھی حق ہے کہ قیام عرفہ اور اس سے متعلق دیگر احکام و امور کا اعتبار قرآن و سنت پر ہے، ما قبل الاسلام کوئی بھی عمل، رواج یا مسمی جب تک انہیں اسلام میں باقی نہ رکھا گیا ہو قابل اعتبار ہرگز نہیں ہیں، یہاں مسئلہ وجہ تسمیہ کے ساتھ ساتھ اس دن کے لئے نصوص قرآن و سنت سے ثابت احکام و اعمال کا ہے، کیونکہ کسی چیز کا تعارف اس کی حیثیت و ماہیت کے بیان کے لئے ہوتا ہے نہ کہ قرآن و سنت میں وارد احکام کی تشریع یا ان کے رد کے لئے ۔ 

 اور عرفہ کی وجہ تسمیہ اور دن اور وقت کی تعیین جو کتب احادیث، فقہ اور لغات و معاجم میں بھرے پڑے ہیں اس دن کے نام کے لئے دلیل نہیں ہیں ؟ آخر انہیں کس الہامی دلیل کا انتظار ہے ؟ 

6 - نیز عرفہ کے دن کی تعیین کے انکار کے لئے ایام تشریق اور یوم ترویہ کو مثال بنا عرفہ کو ایک نسبتی نام کےطور پر پیش کیا جاتا ہے کہ : " مناسک حج میں حج کی نسبت سے بہت سارے نام رکھے گئے ہیں ان سب پر عمومی قاعدہ ہی لگے گا الا یہ کہ خاص وجہ ہو ۔ ۔ ۔ " ایک طرف بہت سارے ناموں کو حج سے نسبت کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف " عرفہ " کو جو حج کے ساتھ خاص ہے عموم کی فہرست میں ڈالا جا رہا ہے ۔ ایں چہ بوالعجبی است ۔ یوم الترویہ یا یوم عرفہ یہ ایسے نام ہیں جو حج کے بعض ایام کے ساتھ خاص ہیں جن کے خاص امور و احکام ہیں، اور رہی بات ایام تشریق کی تو یہ نام حاجیوں کی قربانی ( ھدي ) کے ایام اور غیر حاجیوں کی قربانی ( اضحیہ ) کے ایام کے ساتھ عام ( مشترک ) ہے ۔ ( بلکہ ھدي اور اضحیہ دونوں کے ایام کے لئے یوم النحر کا لفظ وارد ہے جس کی نسبت سے دونوں کے اگلے تین دنوں کے لئے ایام تشریق کا اطلاق ہوتا ہے ) ۔ 

 یہاں یہ بات بھی قابل اعتناء ہے کہ ایام تشریق کے اعمال بھی حاجی اور غیر حاجی کے اعتبار سے مختلف ہیں، مثلا : 
ایام تشریق میں روزہ رکھنا ممنوع ہے، سوائے متمتع اور قارن حاجی کے، کیونکہ ان کے لئے ان ایام میں اگر وہ ھدي نہ پائیں تو روزہ مشروع ہے ۔ 
 تعجب تو اس بات پر ہے کہ عرفہ کے دن کو حج کی طرف " نسبت " کر کے بھی اس دن کے روزے کو " عموم " کے زمرے میں رکھا جاتا ہے ۔ پتا نہیں یہ منطق کا کون سا کلیہ ہے ؟ 

7 - یہ کہنا کہ سلف کے یہاں عرفہ سے مراد مطلق نو ذی الحجہ کی تاریخ ہے، ان پہ اتہام باندھنا ہے، سلف سے یہ کہیں مروی نہیں ہے کہ وہ عرفہ کے قیام کے دن کے علم یقینی کے باوجود اس کے پہلے یا دوسرے دن کو یوم عرفہ مانتے ہوں، بلا شبہ عدم وسائل اور رؤیت و مطالع میں اجتہاد اور دیگر اسباب کا اس دن کے اعمال پر اثر پڑ سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ وہ پوری دنیا کے اختلاف مطالع کی وجہ سے عرفہ کے دن کو متعدد مانتے تھے دعوی بلا دلیل ہے، اور اگر کسی نے اختلاف مطالع کو بنیاد بنا کر کوئی بات کہی بھی ہے تو یہ ان کا محض اجتہاد ہے ۔ 
 بلکہ صحابہ کرام اور تابعین کے یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے جس میں مسروق نے عرفہ کے دن روزہ اس احتمال کی بنیاد پر نہیں رکھا کہ کہیں قربانی کا دن نہ ہو اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان اس کی تصحیح فرمائی جس کا مستفاد یہ ہے کہ آج عرفہ کا دن ہے اور عید اور قربانی وغیرہ میں اعتبار اسی دن کا ہوگا جس دن لوگ اسے انجام دے رہے ہوں گرچہ اس دن کے بارے میں شک ہی کیوں نہ ہو 
 ( بیھقی / 8301، شیخ البانی نے اس روایت کی سند کو جید قرار دیا ہے، دیکھئے : سلسلہ صحیحہ : 1 / 1 / 442 ) ۔ 
 اور بیہقی اور شافعی کے اندر عطاء کی ایک مرسل روایت میں ہے : " أضحاكم يوم تضحون " " قربانی کا وہی دن ہوتا ہے جس دن تم لوگ قربانی کرتے ہو " و أراه قال : " و عرفة يوم تعرفون " " عرفہ کا دن وہی ہے جس دن تم لوگ عرفہ میں قیام کرتے ہو " 
 ( البيهقي في " السنن الكبرى " ( 5 / 176 ) و الشافعي في " الأم " ( 1 / 264 ) عن عطاء مرسلاً، و صححہ الألباني في " صحيح الجامع " ( 4224 ) اور بیھقی کی روایت میں عبد العزيز بن عبد الله بن خالد بن أسيد سے مرسلا مروی ہے : " يوم عرفة الذي يعرف فيه الناس " " عرفہ کا دن وہی دن ہے جس دن لوگ عرفہ میں قیام کرتے ہیں " 
 ( السنن الكبرى للبيهقي : 5 / 176 امام بیھقی فرماتے ہیں : " هذا مرسل جيد أخرجه أبوداؤد في المراسيل " رقم / 149 " اور ابن حجر فرماتے ہیں : " و رواه الترمذي و استغربه و صححه، و الدارقطني من حديث عائشة مرفوعا، صوب الدارقطني وقفه في العلل . . . " " اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے " غریب اور صحیح " کہا ہے، اور دراقطنی نے اسے علل کے اندر موقوف قرار دیا ہے " 
دیکھئے : التلخیص الحبیر : 2 / 256 رقم / 1051 ) ۔ 

 اسی معنی کی روایت طبرانی نے اوسط کے اندر ذکر کیا ہے : " إنما عرفة يوم يعرف الإمام " ( ہیثمی لکھتے ہیں : " اس کو طبرانی نے اوسط کے اندر روایت کیا ہے اور اس کی سند میں دلہم بن صالح ہیں جنہیں ابن معین اور ابن حبان نے ضعیف قرار دیا ہے، اور اس کی سند حسن ہے " مجمع الزوائد : 3 / 190، دلہم بن صالح کو امام ابوداؤد نے " لاباس بہ " قرار دیا ہے، تھذیب التھذیب : رقم / 303، اور نسائی، ذہبی اور ابن حجر نے ضعیف قرار دیا ہے، دیکھئے : ضعفاء النسائی : ص 101، الجرح و التعدیل : 3 / 436، التقریب : 1 / 236 ) ۔ 

 اسی چیز کی تصریح فقہاء کے اس بیان میں بھی موجود ہے جس میں بسبب اجتہاد و خطا آٹھ یا نو ذی الحجہ کو حاجی کے مقام عرفات میں اجتماع کے دن کو ہی عرفہ کا دن قرار دیا گیا ہے ۔ مذکورہ روایات و توجیہات کو دیکھتے ہوئے کہ عرفہ کے دن کے روزے کا تعلق مقام عرفات میں حاجیوں کے قیام سے ہے یہ کہنا کہ : " اپنے اپنے ملک کےحساب سے نو ذی الحجہ کو عرفہ کا روزہ ماننا ہو بہو سلف کا عملی نمونہ ہے " ، کتنی مضحکہ خیز بات ہے ۔ نیز یہ کہنا کہ : " اگر سلف کے یہاں صوم عرفہ حاجیوں کے عرفات میں وقوف سے متعلق ہوتا یقینا وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے حاجیوں کے وقوف عرفات جاننے کی کوشش کرتے ۔ ۔ ۔ ۔ " سلف پر اتہام اور مغالطے میں ڈالنے والی بات ہے، جب سلف کے یہاں اس بات میں کوئی اختلاف ہی نہیں تھا کہ عرفہ کا دن عین وقوف عرفات ہے، تو پھر وہ آخر کس ذریعہ سے کس چیز کو تلاش کرتے ؟ کیا سلف میں کسی سے اس اختلاف کی بابت مروی ہے کہ یوم وقوف کے علاوہ بھی عرفہ ہوتا ہے ؟ ۔ بنا کسی دلیل کے بار بار سلف کے فہم کا حوالہ ذہنی انتشار کی دلیل اور لوگوں پر اپنے من کی تھوپنے کی ناروا کوشش ہے ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ عرفہ کو وقوف عرفات کے علاوہ پر اطلاق کے لئے کوئی ایسی دلیل لائی جاتی جو قرآن و سنت سے ثابت ہو اور صحابہ کرام نے اس پرعمل کیا ہو ! ! ! جبکہ وقوف عرفہ ہی اصل یوم عرفہ ہے جس دن کے احکام و اعمال حاجی اور غیر حاجی کے لئے متعین و معروف ہیں جس پر قرون اولی میں تعامل رہا ہے ۔ 

8 - وقوف عرفات سے عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق ماننے پر اشکال پیدا کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ : ( لوگوں کا یہ کہنا کہ ) : " سو سال پہلے لوگ اپنے ملک کے حساب سے نو ذی الحجہ کا ہی روزہ رکھتے تھے مگر وقوف عرفات نہ جان سکنے کی وجہ سے معذور تھے، اب وہ عذر باقی نہ رہا ۔ اس بات سے لازم آتا ہے کہ ان سب میں سے کسی نے صحیح روزہ نہیں رکھا سوائے وقوف عرفات کا علم رکھنے والے کے، اس سے ان لوگوں بشمول سلف صالحین کی فہم حدیث اور عمل میں تنقیص کا پہلو نکلتا ہے " ۔ 

 میں کہتا ہوں کہ سلف صالحین کے عمل میں تنقیص کا پہلو نکلتا ہے اور نہ ہی ان کی فہم حدیث میں، البتہ صاحب اشکال کی فہم کا قصور ضرور ہے، یہ کہاں ہے کہ اجتہاد و خطا کی بنیاد پر کسی کا عمل ناقص اور فہم کمزور ہو جاتا ہے، مذکورہ نا معقول بیان کے مطابق تو - نعوذ باللہ - ان سارے صحابہ کرام، ائمہ محدثین و فقہاء اور مجتہدین کا عمل جو بسبب اجتہاد و خطأ نص کے خلاف تھا ناقص ہوا اور ان کے فہم میں تقصیر تھا ۔ اللہ ہدایت دے ۔ 
 تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ لوگوں نے عیدین منائی اور حج کیا، اور پھر بعد میں پتا چلا کہ وہ دن صحیح نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے یا بعد والا دن صحیح تھا، کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کا عمل مردود و ناقص تھا یا مقبول و مصاب ؟ کیا ایسے لوگوں کو اپنے حج اور دیگر عبادات کا اعادہ کرنا چاہئے تھا ؟ ۔ بزعم خویش " تحقیقی " مضمون لکھنے کا دعوی کرنے والے کو اتنی سطحی بات لکھنے سے پہلے صحیح فہم اور اسلاف کے منہج و طریقہ کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ 

9 ـ بعض ہم عصر علماء کا یہ کہنا کہ : " ہر ملک کے لوگ اپنی رؤیت کے اعتبار سے عرفہ کا روزہ رکھیں اس پر ایک طرح سے امت کا عملی اجماع ہے " دعوی بلا دلیل ہے کیونکہ اجماع کے لئے اس کے شرائط کا پایا جانا ضروری ہے جو کہ یہاں مفقود ہے، اور علماء سلف سے کہیں بھی اس پر اجماع منقول نہیں ہے ۔ 
 اور دوسری بات یہ کہ جو امت سالوں سے رمضان اور عید کی رؤیت پر اجماع نہ کر سکی اس کے لئے عرفہ کے روزے کے لئے اختلاف رؤیت کے پائے جانے اور اختلاف شرط و ثبوت کی موجودگی میں اجماع کا دعوی کہاں تک صحیح ہو سکتا ہے ؟ 
 بلکہ میں کہتا ہوں کہ کچھ علماء نے اس کے خلاف اجماع کا دعوی کیا ہے، شیخ ڈاکٹر سلیمان الاشقر لکھتے ہیں : 
 " إن المسلمين في جميع أقطار العالم الإسلامي قد أجمعوا إجماعاً عملياً منذ عشرات السنين على متابعة الحجاج في عيد الأضحى و لا يجوز لأي جهة أو مجموعة من الناس مخالفة هذا الإجماع " 
 ( فتوى مؤرخۃ بتاريخ : 5 / 12 / 1422 ھ ) 
 " عالم اسلام کے تمام گوشوں کے مسلمان دسیوں سال سے اس بات پر عملا متفق ہیں کہ عید الاضحی میں حجاج کرام کی متابعت کی جائے گی، کسی جہت یا جماعت کے لئے اس اجماع کی مخالفت جائز نہیں ہے " ۔ 

 اس اجماع کی تائید امام سرخسی حنفی، امام ابن العربی مالکی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے کلام سے بھی ہوتی ہے 
 ( دیکھئے : أحكام القرآن لابن العربي : 1 / 199 - 200، مجموع الفتاوى : 24 / 227 ) ۔ 

10 ـ قرآن کریم کی آیت : { وَ الْفَجْرِ . وَ لَيَالٍ عَشْرٍ . وَ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِ } 
 ( الفجر : 1 - 3 ) 
میں وترسے مراد بعض مفسرین نے عرفہ کا دن لیا ہے، کیونکہ عرفہ کا دن طاق دن میں پڑتا ہے، اس کو بنیاد بنا کر یہ کہنا کہ ‎ : 
 " بر صغیر ہند و پاک میں عرفہ کا دن اپنے حساب سے نو ذو الحجہ کا ہوگا تبھی قرآن کے لفظ وتر ( طاق ) کا صحیح اطلاق ہوگا ورنہ سعودی کے حساب سے عرفہ کا روزہ رکھنے پر ہند و پاک میں عموما آٹھ تاریخ ہوگی اور یہ جفت ہے طاق نہیں ہے اس لئے جن کا مطلع سعودی سے مختلف ہے انہیں لازمی طور پر یوم عرفہ کے لئے اپنے علاقے کی نویں تاریخ کا اعتبار کرنا ہوگا " بےجا تاویل ہے، اگر وتر سے مراد عرفہ لیا جائے جو کہ مکہ کی رؤیت کے اعتبار سے واقعی ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو ہی پڑتا ہے، پھر بھی یوم عرفہ کے روزہ کے تعدد ایام کے لئے یہاں پر دلیل نہیں بنتی، کیونکہ اول تو وتر یعنی عرفہ کا تعلق ایام حج سے ہے جو قیام عرفات سے متعلق ہے، اور دوم کس بنیاد پر عرفہ کے روزے کے لئے آٹھ اور نو کی تقسیم کی جائے گی ؟ کیا شریعت نے اس کے لئے کہیں اجازت دی ہے ؟ کیا سلف نے اس سے ایسا ہی استدلال کیا ہے جیسا کہ کیا جا رہا ہے کہ رؤیت کے اختلاف کی بنیاد پر یوم وتر یعنی عرفہ کا دن متعدد ہوتا جائے گا ؟ ۔ 

 واضح رہے کہ اس مخصوص روزے کا تعلق صرف اور صرف یوم عرفہ سے ہے جو حاجیوں کے قیام عرفات سے متعلق ہے، جو زمان و مکان اور رؤیت و تاریخ میں معروف اور متعین ہے کسی مصنوعی اشکال اور ذہنی اختراعی دلیل سے نہیں ۔ جو اصل ہے وہ اپنی اصلیت پہ باقی رہے گا اگرچہ اس کے لئے آپ اور ہم جتنے اشکالات و اشتباہات پیش کریں ۔ 

 جب یوم عرفہ کا مسمی قیام عرفات سے ہے تو اسے سعودی اور برصغیر کی تاریخ بنانے کے لئے کسی مضبوط دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ ناپید ہے، لہذا اس قسم کی باتیں بے معنی ہیں جو کسی امر کو اس کی اصل سے بنا کسی دلیل کے پھیر دے ۔ 

11 ـ یوم عرفہ کو متعدد کرنے کے لئے لغت کا سہارا لیا جاتا ہے کہ : " اہل لغت نے جہاں جہاں عرفہ کی تعریف کی ہے ہر جگہ ذو الحجہ کی نو تاریخ ہی لکھی ہے " ۔ 

میں نے گذشتہ سطور میں اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ چونکہ حج کی نسبت اور مکہ کی ر‎ؤیت کے اعتبار سے ذو الحجہ کی نو تاریخ کو ہی عرفہ کا دن متعین ہے اس لئے اہل لغت کا نو تاریخ لکھنا بد یہی ہے، لہذا اس بنیاد پر کہ اہل لغت نے عرفہ کی تعریف میں نو ذی الحجہ لکھا ہے اس دن کو متعدد کر دینا غیر مناسب ہے جب کے عرفہ کا دن ایک خاص دن ہے جس سے غیر حاجی کا روزہ متعلق ہے ۔ 

 اگر اہل لغت کے بیان پر غور کیا جائے تو اس سے ان لوگوں کے موقف کا صریحا رد ہوتا ہے جو اس دن کو متعدد مانتے ہیں، کیونکہ اہل لغت کے بیان میں نو ذی الحجہ کی تصریح اس بات کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ عرفہ کا دن متعدد نہیں بلکہ متعین اور مخصوص ہے، کیونکہ عرفہ کا دن نو تاریخ کے ساتھ خاص ہے جو حج سے متعلق ہے، چنانچہ روزہ اسی دن کے ساتھ خاص ہے ۔ 
 یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اہل لغت نے عمومی عالمی قمری تاریخ کے اعتبار سے اس دن کی تاریخ کی تعمیم نہیں کی ہے، بلکہ حج کے لئے ثابت ر‎‌ؤیت کی بنا پر اس دن کی تعیین اور تخصیص کی ہے، جس کے اندر مکہ اور حوالی مکہ کا اعتبار ہوتا ہے، اور یہ تعیین ہر اس عمل کی تعیین و تخصیص کے بیان کے لئے کافی ہے جو اس دن سے متعلق ہے ۔ 

 لہذا یہ کہنا کہ اہل لغت نے عرفہ کے دن کو پوری دنیا میں متعدد اور مختلف رؤیت کے اعتبار سے عام اور متعدد مانا ہے بعید از عقل اور خلاف واقع ہے ۔ 

12 ـ نہایت ہی دیدہ دلیری کے ساتھ اور الفاظ و جمل کے مدلول سے عدم واقفیت کی بنا پر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ : " یوم عرفہ میں " یوم " کا لفظ زمان پر اطلاق ہوتا ہے یعنی یہ زمانہ ہے اس لئے " یوم عرفہ " سے ہرگز ہرگز میدان عرفات مراد نہیں ہوگا بلکہ کوئی زمانہ ہی مراد ہوگا اور وہ ہے ذو الحجہ کی نویں تاریخ " ۔ 

 کتنی کمزور بات ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ یوم عرفہ ایک خاص دن ہے جو حج اور مکہ سے متعلق ہے اس کو عمومی تعریف میں استعمال کر کے ایک متعین دن کو زمان و مکان کی گتھیوں میں الجھایا جا رہا ہے ۔ یہ سوچنے والی بات ہے کہ جب " یوم " کی نسبت یوم خاص کی طرف ہو گئی تو پھر اس کی عمومیت کیسے باقی رہ سکتی ہے ؟ ۔ 

 اور " یوم عرفہ سے ہرگز ہرگز میدان عرفات مراد نہیں ہوگا " کہہ کر آخر کیا ثابت کیا جا رہا ہے ؟ کیا کوئی شخص " یوم " سے مکان یا جگہ بھی مراد لیتاہے ؟ اس قسم کی باتیں کر کے عوام کے ذہن میں مسئلہ کو خلط مبحث کر کے ‏غلط مفہوم ڈالنے کی ناروا کوشش ہے ۔ یہاں کسی نے " یوم " سے جگہ ہرگز ہرگز مراد نہیں لیا ہے، بلکہ اس " یوم " کا تعلق ایک خاص رکن سے ہے جو ایک خاص وقت پر اور خاص جگہ پر انجام دیا جاتا ہے، جس سے کچھ خاص داخلی اور خارجی امور متعلق ہیں، جن میں سے ایک اس خاص دن کا روزہ بھی ہے ۔ لہذا یہ کہنا کہ کسی نے " یوم " سے خاص جگہ مراد لیا ہے محض اتہام ہے، ہاں اس وقت کا تعلق ضرور با ضرور کسی خاص عمل اور اس عمل کا تعلق کسی خاص مکان اور جگہ سے ہی ہے ۔ 

 اسکے علاوہ بهی غیر ضروری اشکالات و توجیہات اور محاکمات پیش کی جاتی ہیں جو نا قابل اعتناء اور عقل و ذہن کی پیداوار ہیں ۔ 
یاد رکهیں کہ کوئی بهی عمل توحید کے بعد اتباع سنت پر ہی منحصر ہے ۔ 
اللہ رب العزت ہمیں حق و صواب کی توفیق عطا فرمائے ۔ 

و صلى الله على خير خلقه و سلم . 

 ~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۴ 

عرفہ کا روزہ کب رکھا جائے ؟ ؟ 

ابو احمد کلیم 
جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ 

عرفہ کے روزہ کی تحدید میں علماء کے درمیان بڑا اختلاف پایا جاتا ہے، بعض علماء کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کے لوگ مکہ کے حساب سے عرفہ کا روزہ رکھیں گے، جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ سب اپنی اپنی رؤیت کے حساب سے روزہ رکھیں گے ۔ 

محترم قارئین ! اگر آپ نبی ﷺ کے قول و عمل اور امت کے تعامل پر غور و فکر کریں گے تو آپ پر حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی ان شاء اللہ ۔ 

سب سے پہلی بات یہ کہ دین اسلام میں بعض روزہ کا تعلق چاند دیکھنے سے ہے، یعنی چاند دیکھ کر روزہ رکھا جائے، جیسے ماہِ رمضان کا روزہ، محرم الحرام کی نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ، اور ایامِ بیض کا روزہ ۔ 

 اور بعض روزہ کا تعلق چاند دیکھنے سے نہیں ہے، بلکہ اس کی تخصیص بعض ایام سے کی گئی ہے، جیسے سموار اور جمعرات کا روزہ ۔ 

اب ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ یومِ عرفہ کے روزہ کو نبی ﷺ نے چاند کے ساتھ خاص کیا ہے یا پھر کسی دن کے ساتھ ۔ 

اگر چاند کے ساتھ خاص ہے تو پھر سب لوگ اپنی اپنی رؤیت کے حساب سے روزہ رکھیں گے جیسے ماہِ رمضان اور ایامِ بیض کا روزہ رکھا جاتا ہے، اور اگر کسی دن کے ساتھ خاص ہے تو پوری دنیا کے لوگ اسی دن روزہ رکھیں گے جیسے سموار جمعرات کا روزہ رکھا جاتا ہے ۔ 

اگر عرفہ کے روزہ کو ہم دن کے ساتھ خاص کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عرفہ کا دن تاریخ کے بدلنے سے نہیں بدلے گا بلکہ وہ اپنی جگہ قائم و دائم رہے گا، جیسے سموار اور جمعرات کا دن ہوتا ہے، لیکن عرفہ کے روزہ کو دن کے ساتھ مخصوص کرنا صحیح نہیں کیوں کہ عرفہ کا دن ہفتہ کے دنوں کی طرح ثابت نہیں رہتا بلکہ چاند کے حساب سے بدلتا رہتا ہے، چناں چہ کبھی عرفہ جمعہ کو ہوتا ہے تو کبھی سنیچر کو، اور کبھی ہفتہ کے دیگر ایام میں ۔ 

لہذا صحیح بات یہی ہے کہ عرفہ کا دن تارخ سے مرتبط ہے اور اس دن کا روزہ چاند کے حساب سے ہی رکھا جائے گا ۔ 

دوسری بات یہ کہ نبی ﷺ نے اپنا حج زندگی کے آخری سال میں کیا ہے، اس کے بعد نبی ﷺ اس دنیا میں نہیں رہے، اور جو حاجی ہو اس کیلئے مستحب یہ ہے کہ وہ عرفہ کا روزہ نہ رکھے، کیوں کہ نبی ﷺ نے بھی حالتِ حج میں عرفہ کا روزہ نہیں رکھا تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ حج سے قبل مدینہ میں عرفہ کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔ 

 تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حج سے قبل نبی ﷺ مدینہ میں جو عرفہ کا روزہ رکھتے تھے وہ مکہ کے عرفہ کے حساب سے یا پھر چاند کے حساب سے ؟ 

کیوں کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ عرفہ کے روزے کو فضیلت در اصل عرفہ کے دن کے سلسلے میں وارد فضائل کی وجہ سے حاصل ہے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیوں کہ اگر ہم مسلمانوں کا پہلا حج ابو بکر و علی رضی اللہ عنہما کی معیت میں سن 9 ہجری میں بھی مان لیں تو بھی یہ بات محتاجِ تحقیق ہوگی کہ اس سے قبل تو عرفہ میں حاجیوں کا وقوف نہیں ہوتا تھا تو پھر عرفہ کے روزہ کو یہ فضیلت کیسے حاصل ہو گئی ؟ ؟ 

پتہ یہ چلا کہ عرفہ کے روزہ کا حجاج کرام کے وقوفِ عرفہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق چاند دیکھنے سے ہے، کیوں کہ اس روزہ کو وقوفِ عرفہ سے قبل ہی یہ فضیلت حاصل تھی کہ اس کے رکھنے سے دو سال کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔ 

قارئینِ کرام ! جب خود نبی ﷺ نے عرفہ کے روزہ کیلئے میدانِ عرفہ میں حاجیوں کے وقوف کا اعتبار نہیں کیا تو پھر پوری امتِ اسلامیہ کیلئے سعودی کے حساب سے روزہ رکھنا لازم قرار دینا بالکلیہ صحیح نہیں ۔ 

لہذا راجح اور صحیح بات یہ ہے کہ کے اپنی اپنی رؤیت کے اعتبار سے عرفہ کا روزہ رکھا جائے ۔ 

اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور نبی ﷺ کا سچا پکا متبع و فرمان بردار بنائے، اور عشرہ ذی الحجہ کے بقیہ ایام میں نیکیوں کی کثرت کی توفیق عطا فرمائے، اور ہماری نیکیوں کو شرفِ قبولیت بخشے ۔ 

~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۵ 

کیا اختلاف کی وجہ سے یوم عرفہ کا دو روزہ رکھنا مسنون ہے ؟ 

ڈاکٹر امان اللہ محمد اسماعیل مدنی 


 یوم عرفہ کا روزہ مسنون ہے ۔ صحیح روایت کے مطابق یوم عرفہ کا محض ایک روزہ رکھنے سے دو سال کا گناہ معاف ہوتا ۔ 

 اپنے گناہوں کی معافی و بخشش کیلیے اس سنہری موقع کو نہیں گوانا چاہیے ۔ 


 یوم عرفہ کا روزہ کب رکھا جائے ؟ 

اس سلسلے میں کبار علماء کے درمیان سخت اختلاف ہے، کچھ علماء اس دن روزہ رکھنے کے قائل ہیں جس دن حجاج کرام میدان عرفات میں ہوتے ہیں ۔ جبکہ کچھ علما اپنی رویت کے مطابق نو ذی الحجہ ہی کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کے قائل ہیں ۔ 

 دونوں قول کے قائلین احادیث سے استدلال کرتے ہیں، اور اپنے موقف کو راجح قرار دیتے ہیں ۔ 

 اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے مسائل میں اختلاف کی گنجائش ہے، اسی لیے تو اس مسئلے میں علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ 

 اگر اس مسئلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف کی گنجائش ہے تو دلائل کی روشنی میں اختلاف کرنا کوئی معیوب شئے نہیں ہے ۔ 

 اگر اختلاف کرنا معیوب نہیں ہے تو پھر اختلاف کرتے ہوئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اور لعن طعن کرنا اہل علم کا شیوہ نہیں ہونا چاہیے ۔ 

 لہذا اپنی حق بات پر دلائل کی روشنی میں خود عمل کریں، اور اچھے اسلوب کے ساتھ بغیر لعن طعن کے حق کی نشر و اشاعت بھی کریں ۔ 

 لیکن ایک عجیب چیز یہ دیکھنے اور سننے میں آتی ہے کہ بعض لوگ علما کے اختلاف کے سبب یوم عرفہ کے روزے کا مکمل ثواب کے حصول کے لیے دو روزے رکھتے ہیں تاکہ جو بھی قول صحیح ہو اس پر عمل ہو جائے ۔ 

 لیکن میرے ناقص علم کے مطابق یوم عرفہ کا روزہ رکھنا مندرجہ ذیل اسباب کی وجہ سے مناسب نہیں ہے : 

1 ۔ اس عمل کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ 

2 ۔ اس پر سلف صالحین کا عمل نہیں رہا ہے ۔ 

3 ۔ اس سے نصوص کی خلاف ورزی لازم آئے گی، کیونکہ نصوص میں صرف ایک روزہ رکھنے کا حکم ہے ۔ 

 لہذا دلیل کی روشنی میں جو قول مناسب لگے اسی پر عمل کیا جائے، اور یوم عرفہ کے روزے کی نیت سے دو روزے ہر گز نہ رکھے جائے ۔ 

 یہاں یہ بات واضح کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ چونکہ پورے عشرہ ذی الحجہ کا روزہ رکھنا درست ہے اس لیے اگر کوئی یوم عرفہ سے ایک دن پہلے یا بعد میں روزہ رکھتا ہے تو یہ عمل جائز ہے، البتہ عرفہ کے روزے کی نیت سے یہ زائد روزہ نہیں رکھا جانا چاہئے ۔ و اللہ تعالی اعلم ۔ 

 اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور بلا طعن و تشیع دلیل کی روشنی میں اس مسنون عمل پر عمل کی توفیق دے . آمین ۔ 
 

~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۶ 

روزہ 
یومِ عرفہ یا نو ذو الحجہ ! 

تحریر : 
حافظ ابو یحیٰی نورپوری 

رسولِ اکرم ﷺ نے یومِ عرفہ کے روزے کی فضیلت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے دو سالوں کے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔ 
 ( صحیح مسلم : 1162 ) 


ـ یومِ عرفہ کے روزے سے کیا مراد ہے ؟ 

اس میں اختلاف ہے، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے مراد اس دن کا روزہ ہے، جس دن حاجی عرفات میں ہوتے ہیں، جب کہ دوسروں کے بقول یومِ عرفہ سے مراد نو ذو الحجہ ہے ۔ 

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یومِ عرفہ سے مراد نو ذو الحجہ ہے، انہی کی بات درست ہے، کیوں کہ اگر حاجیوں کا عرفات میں ٹھہرنے کا دورانیہ ہی روزے کا وقت قرار دیا جائے تو ان بے چارے مسلمانوں کا کیا بنے گا جو ان ملکوں کے باسی ہیں، جہاں حاجیوں کے وقوف ِ عرفات کے وقت رات ہوتی ہے ؟ وہ تو محروم ہو گئے روزہ رکھنے اور دو سالوں کے گناہ معاف کرانے سے ! حالانکہ اسلام کے احکامات ہمہ گیر بھی ہیں اور عالم گیر بھی ـ 

امریکہ جیسے ممالک جن میں حاجیوں کے وقوف ِ عرفات کے وقت رات ہوتی ہے، یومِ عرفہ کا روزہ تو ان کے لیے بھی مشروع ہے، یومِ عرفہ سے مراد حاجیوں کا وقوف ِ عرفات لینا اس لحاظ سے بالکل غیر منطقی ہے ۔ 

دراصل نو ذو الحجہ کے روزے کو یومِ عرفہ کا روزہ اس ماحول کے مد نظر کہہ دیا گیا، جس میں یہ بات چیت ہوئی تھی، کیوں کہ مدینہ میں یومِ عرفہ نو ذو الحجہ ہی کو ہوتا ہے ۔ 

اس کو اگر تطبیقی انداز سے سمجھنا چاہیں تو یہ فرمانِ رسول دیکھ لیں : 
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ قِبْلَةٌ . 
''مشرق و مغرب کے درمیان تمہارا قبلہ ہے ۔ '' 
 ( سنن الترمذی : 342، وسندہ حسن ) 

اگر کوئی پاکستانی یا ہندوستانی مسلمان اس حدیث کے ظاہری الفاظ کو مد نظر رکھ کر اپنے قبلے کا تعین کرنے لگے تو یقینا وہ غیر قبلہ کو قبلہ بنا بیٹھے گا، کیوں کہ پاکستانی و ہندوستانی مسلمانوں کا قبلہ مشرق و مغرب نہیں، بل کہ شمال و جنوب کی درمیانی سمت میں ہے ۔ 

اس حدیث میں دراصل یہ بات سمجھائی گئی کہ قبلہ رخ ہونے میں اگر تھوڑی بہت کجی ہو بھی جائے تو وہ مضر نہیں، کیوں کہ قبلے والی پوری سمت ہی قبلہ شمار ہوگی ۔ اب یہ سمت اہل مدینہ کے حساب سے مشرق و مغرب کے درمیان بنتی تھی، اس لیے یہ الفاظ استعمال فرمائے گئے، لیکن ان ظاہری الفاظ کو دلیل بنا کر پوری دنیا میں ہر جگہ قبلے کی سمت کا تعین نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح اگر یومِ عرفہ کے الفاظ کے محل ورود پر غور کئے بغیر محض ظاہری الفاظ کا تتبع کیا جائے تو یہ صراحتا خطا پر مبنی ہوگا ۔ 

https://forum.mohaddis.com/threads/%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%B9%D8%B1%D9%81%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D9%88%D8%B2%DB%81-%DB%94%DB%94-%DB%8C%D8%A7-%DB%94%DB%94-%D9%86%D9%88-%D8%B0%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%AC%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D9%88%D8%B2%DB%81.36543/ 
 
~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۷ 

عرفہ کا روزہ 
ایک تحقیقی جائزہ​ 

مقبول احمد سلفی 

احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ایک طرف حجاج کے لئے وقوف عرفات کا دن ہے جس دن اللہ تعالی عرفات میں وقوف کرنے والوں پر فخر کرتا ہے اور کثرت سے انہیں جہنم سے رستگاری دیتا ہے تو دوسری طرف عام مسلمانوں کے لئے اس دن روزہ رکھنے کا حکم ملا ہے جو ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ 

چنانچہ ابوقتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ سے صیام عرفہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : 

يُكفِّرُ السنةَ الماضيةَ والباقيةَ 
 ( صحيح مسلم : 1162 ) 

ترجمہ : 
یہ گذرے ہوئے اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ 

اس روزے سے متعلق آج سے پہلے کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا مگر آج گلوبلائزیشن ( میڈیا کی وجہ سے ایک گھر آنگن ) کی وجہ سے لوگوں کے درمیان یہ اختلاف پیدا ہو گیا کہ عرفہ کا روزہ کب رکھا جائے ؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ روزہ سعودی عرب کے حساب سے وقوف عرفات والے دن رکھنا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ ہر ملک والا اپنے یہاں کی تاریخ سے 9 / ذی الحجہ کا روزہ رکھے گا ۔ 

اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ روزہ کے سلسلہ اسلامی احکام کیا ہیں تب آپ خود بات واضح ہو جائے گی ۔ 

ایک بنیادی بات : 
اس سے قبل کہ روزہ سے متعلق اسلامی ضابطہ کو دیکھا جائے پہلے ایک بنیادی بات یہ جان لیں کہ یوم عرفہ دن کو کہتے ہیں اور وقوف عرفات حاجیوں کے میدان عرفات میں ٹھہرنے کو کہتے ہیں گویا یوم عرفہ اور وقوف عرفات دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ یوم عرفہ دن اور تاریخ کو کہتے ہیں جو قمری حساب سے نو ذو الحجہ کو کہتے ہیں جبکہ وقوف عرفات کا تعلق میدان عرفات سے ہے ۔ ان دونوں باتوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے ۔ کچھ لوگ یوم عرفہ کو یوم عرفات کہتے ہیں جو کہ سراسر مبنی برغلط ہے ۔ 

روزہ سے متعلق اسلام کے دو اہم قاعدے ہیں ۔ 
اسلام میں روزہ سے متعلق کئی قواعد و ضوابط ہیں مگر ان میں دو اہم ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔ 

پہلا قاعدہ : 
رویت ہلال کا ہے یعنی روزہ رکھنے میں چاند دیکھنے کا اعتبار ہوگا جسے عربی میں قمری نظام بھی کہہ سکتے ہیں ۔ 
بخاری شریف میں آپ ﷺ کا حکم ہے ۔ 

صوموا لرؤيَتِهِ و أفطِروا لرؤيتِهِ، فإنْ غبِّيَ عليكم فأكملوا عدةَ شعبانَ ثلاثينَ 
 ( صحيح البخاري : 1909 ) 

ترجمہ : 
چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے تیس دن پورے کر لو ۔ 

یہ حدیث روزہ سے متعلق عام ہے خواہ کوئی بھی روزہ ہو اس میں یہی حکم لگے گا یعنی روزہ میں اپنے اپنے ملک کی رویت کا اعتبار ہوگا ۔

 اسی وجہ سے دیکھتے ہیں کہ رمضان كا روزہ رکھنے کے لئے چاند دیکھا جاتا ہے نہ کہ سعودی عرب کو اور اسی طرح جب افطار کیا جاتا ہے تو اس وقت بھی سورج ہی ڈوبنے کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ 

دوسرا قاعدہ : 
اختلاف مطالع کا ہے ۔ 
ایک شہر کی رویت قریبی ان تمام شہر والوں کے لئے کافی ہوگی جن کا مطلع ایک ہو ۔ مطلع کے اختلاف سے ایک شہر کی رویت دوسرے شہر کے لئے نہیں مانی جائے گی ۔ 
دلیل : 

أنَّ أمَّ الفضلِ بنتَ الحارثِ بعثَتْه إلى معاويةَ بالشامِ . قال : فقدمتُ الشامَ . فقضيتُ حاجتَها . و استهلَّ عليَّ رمضانُ و أنا بالشامِ . فرأيتُ الهلالَ ليلةَ الجمعةِ . ثم قدمتُ المدينةَ في آخرِ الشهرِ . فسألني عبد ُ اللهِ بنُ عباسٍ رضي اللهُ عنهما . ثم ذكر الهلالَ فقال : متى رأيتُم الهلالَ فقلتُ : رأيناه ليلةَ الجمعةِ . فقال : أنت رأيتَه ؟ فقلتُ : نعم . و رأه الناسُ . و صاموا و صام معاويةُ . فقال : لكنا رأيناه ليلةَ السَّبتِ . فلا تزال نصومُ حتى نكمل ثلاثينَ . أو نراه . فقلتُ : أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ و صيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه و سلَّمَ 
 ( صحيح مسلم : 1087 ) 

ترجمہ : 
حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا ۔ حضرت کریب کو اپنے ایک کام کے لیے حضرت معاویہ کے پاس شام میں بھیجتی ہیں ۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ وہاں ہم نے رمضان شریف کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا میں اپنا کام کر کے واپس لوٹا یہاں میری باتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہو رہی تھیں ۔ 
آپ نے مجھ سے ملک شام کے چاند کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا ہے، آپ نے فرمایا تم نے خود دیکھا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے بھی دیکھا ۔ اور سب لوگوں نے دیکھا، سب نے بالاتفاق روزہ رکھا ۔ خود جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا ۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، اور ہفتہ سے روزہ شروع کیا ہے، اب چاند ہو جانے تک ہم تو تیس روزے پورے کریں گے ۔ یا یہ کہ چاند نظر آ جائے، میں نے کہا سبحان اللہ ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام نے چاند دیکھا ۔ کیا آپ کو کافی نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔ 

یہ حدیث مسلم، ترمذی، نسائی، ابو داؤد وغیرہ میں موجود ہے، اس حدیث پہ محدثین کے ابواب سے بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے ۔ 

صحیح مسلم کا باب : 
باب بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَ أَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَ يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ 

ترمذی کا باب : 
باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ

نسائی کا باب : 
باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ

ان دونوں اصولوں کی روشنی میں عرفہ کا روزہ بھی اپنے ملک کے حساب سے 9 / ذی الحجہ کو رکھا جائے گا ۔ یہی بات دلائل کی رو سے ثابت ہوتی ہے ۔ 

اگر روزے سے متعلق رویت ہلال کا حکم نکال دیا جائے تو روزہ بے معنی ہو جائے گا، ایک دن کا بھی کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا ہے، نہ سحری کھا سکتا اور نہ ہی افطار کر سکتا ہے ۔ 

ایسے ہی اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کرنے سے مسلمانوں کے روزے، نماز، قربانی، عیدیں اور دیگر عبادات کی انجام دہی مشکل ہو جائے گی ۔ 


عرفہ کے روزہ سے متعلق اشکالات کا جواب 

پہلا اشکال : 
جن لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں تاریخ کا ذکر نہیں ہے بلکہ عرفہ کا لفظ آیا ہے اور عرفہ کا تعلق عرفات میں وقوف کرنے سے ہے اس لئے حاجی کے وقوف عرفات کے دن ہی پوری دنیا کے مسلمان عرفہ کا روزہ رکھیں گے ۔ 
یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے ۔ 

پہلی وجہ : 
قاعدے کی رو سے روزہ میں رویت ہلال اور اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، عرفہ کے روزہ کو اس قاعدے سے نکالنے کے لئے واضح نص چاہئے جو کہ موجود نہیں ۔ 

دوسری وجہ : 
مناسک حج میں حج کی نسبت سے بہت سارے نام رکھے گئے ہیں ان سب پر عمومی قاعدہ ہی لگے گا الا یہ کہ خاص وجہ ہو ۔ مثلا 

 " ایام تشریق " حج کی قربانی کی وجہ سے نام رکھا گیا ہے اور اسے حاجیوں کے لئے کھانے پینے اور قربانی کرنے کا دن بتلایا گیا ہے اور ہم سب کو معلوم ہے حاجیوں کے ایام تشریق اور دنیا کے دوسرے ملک والوں کے ایام تشریق الگ الگ ہیں ۔ 

جب سعودی میں قربانی کا چوتھا دن ختم ہو جاتا ہے تو دیگر بہت سارے ممالک میں ایک دن ابھی باقی ہوتا ہے ۔ اسی " ایام تشریق " سے ہم استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قربانی چار دن ہے اور اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے ۔ 

قربانی کی نسبت بھی ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور آپ ﷺ نے اس نسبت سے یوم النحر / عید الاضحی کو قربانی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ یہ قربانی ہر ملک والا اپنے یہاں کے قمری مہینے کے حساب سے دس ذی الحجہ کو کرے گا ۔ گویا عرفہ ایک نسبت ہے جہاں تک اس دن روزہ رکھنے کا معاملہ ہے تو روزے میں عمومی قاعدہ ہی لاگو ہو گا ۔ 

تیسری وجہ : 
اگر عرفہ کے روزہ سے متعلق بعض حدیث میں تاریخ نہیں آئی تو کوئی حرج نہیں، دوسری حدیث میں نبی ﷺ سے تاریخ کے ساتھ 9 / ذی الحجہ تک روزہ رکھنا ثابت ہے ۔ بعض ازواج مطہرات کا بیان ہے : 

أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن ذي الحجَّةِ، و يومَ عاشوراءَ، و ثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ و خَميس 
 ( صحيح أبي داود : 2437 ) 

ترجمہ : 
رسول اللہ ﷺ ذو الحجہ کے ( پہلے ) نو دن، عاشورہ محرم، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔ 

اس حدیث میں عرفہ کا روزہ بھی داخل ہے جو کہ تاریخ کے ساتھ ثابت ہے، اس سے عرفہ کے روزہ کی اس ناحیہ سے تائید ہوتی ہے کہ اسے نو ذو الحجہ کو رکھا جائے گا ۔ 

چوتھی وجہ : 
اگر عرفات میں وقوف سے متعلق روزہ ہوتا تو عرفہ نہیں عرفات کا ذکر ہوتا اور اوپر فرق واضح کیا گیا ہے کہ یوم عرفہ الگ ہے اور وقوف عرفات الگ ہے ۔ 

پانچویں وجہ : 
اگر یہ وقوف عرفات کی وجہ سے ہوتا تو حاجیوں کے لئے بھی یہ روزہ مشروع ہوتا مگر یہ حاجیوں کے لئے مشروع نہیں ہے ۔ 

چھٹی وجہ : 
وقوف عرفات کا ایک وقت متعین ہے جو کہ تقریبا زوال کے بعد سے مغرب کے وقت تک ہے ۔ یہ وقت روزہ کے واسطے سعودی والوں کے لئے بھی کافی نہیں ہے کیونکہ روزے میں صبح صادق کے وقت سحری اور نیت کرنا پھر غروب شمس پہ افطار کرنا ہے ۔ گویا روزے میں وقوف کا اعتبار ہوا ہی نہیں اس میں تو نظام شمسی و قمری کا اعتبار ہوا ۔ اس بنا پر بھی نسبت کا ہی اندازہ لگا سکتے ہیں وقوف کا نہیں ۔ 

ساتویں وجہ : 
سعودی والوں کے لئے عرفہ نو ذی الحجہ ہی ہے، وہ روزہ رکھتے ہوئے عرفات کے وقوف کو مد نظر نہیں رکھتے بلکہ قمری تاریخ کے حساب سے نو ذی الحجہ کو رکھتے ہیں ۔ اس کی دلیل حجاج کرام سے ہی ملتی ہے، وہ لوگ قمری تاریخ کے حساب سے آٹھ ذی الحجہ ( یوم الترویہ ) سے حج شروع کرتے ہیں، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ہے کہ ذی الحجہ کی سات تاریخ ہو اور حاجی منی جائے یا آٹھ تاریخ ہو اور حاجی عرفات چلا جائے ۔ مناسک حج میں بھی یوم الترویہ اور یوم عرفہ تاریخ کے طور پر ہی ہے کیونکہ اسلامی عبادات میں رویت ہلال کا بڑا دخل ہے ۔ اسی چیز کی طرف قرآن میں رہنمائی کی گئی ہے ۔ 
اللہ کا فرمان ہے : 
يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ قُلْ هِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ . " 
 ( سورة البقرة : 189 ) 

ترجمہ : 
لوگ آپ سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہو یہ لوگوں کے لئے اوقات اور حج کی تعیین کا ذریعہ ہے ۔ 


دوسرا اشکال : 
قائلین وقوف عرفات کا ایک اشکال یہ ہے کہ احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت وارد ہے اور عرفہ وقوف عرفات پہ ہے اس لئے عرفات کے وقوف پہ ہی پوری دنیا میں یہ روزہ رکھا جائے گا ۔ 

یہ بات صحیح ہے کہ یوم عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر عرفہ کے روزہ سے متعلق یہ کہنا کہ اس کی فضیلت کی وجہ سے وقوف عرفات پر ہی روزہ رکھنا ہے غلط استدلال ہے ۔ 
اللہ تعالی نے یوم عرفہ کو حجاج کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے باعث فضیلت بنایا ہے ۔ حاجیوں کو وقوف عرفات کا ثواب ملتا ہے جبکہ دنیا والوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے ۔ اور اس بات پہ حیران ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یوم عرفہ تو ایک دن ہے پھر سب کو اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے کیسے فضیلت ہوگی ؟ تب تو کئی ایام ہو جائیں گے ۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ اللہ تعالی نے لیلۃ القدر ایک بنائی ہے مگر سارے مسلمانوں کے لئے اپنے اپنے حساب سے فضیلت ملتی ہے ۔ سعودی میں ایک دن پہلے شب قدر، ہند و پاک میں ایک دن بعد شب قدر، مراکش و لیبیا میں سعودی سے ایک دن پہلے، رات ایک ہی ہے اور ثواب کی امید ہر ملک والے اپنے اپنے ملک کے حساب سے شب قدر میں بیدار ہو کر رکھتے ہیں ۔ 


تیسرا اشکال : 
بعض لوگ ترمذی کی ایک روایت سے دلیل پکڑتے ہیں ۔ 

الصَّومُ يومَ تَصومونَ، و الفِطرُ يومَ تُفطِرونَ، و الأضحَى يومَ تُضحُّونَ 
 ( صحيح الترمذي : 697 ) 

ترجمہ : 
روزہ اس دن رکھا جائے جس دن لوگ روزہ رکھتے ہیں، عید الفطر اور عید الاضحیٰ بھی اسی دن منائی جائے جب لوگ مناتے ہیں ۔ 

اس حدیث کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جس دن عرفہ کا روزہ سعودی عرب میں رکھا جاتا ہے اس دن سب لوگ رکھیں ۔ اس میں اتحاد ہے ۔ 

اگر اس حدیث سے ایسا ہی مسئلہ استنباط کیا جائے جبکہ اس میں لفظ عرفہ ذکر ہی نہیں اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک ساتھ رمضان کا روزہ رکھیں بلکہ ایک ساتھ سحری کھائیں، ایک ہی ساتھ افطار کریں، ایک ہی ساتھ اور ایک ہی وقت میں عید الفطر اور عید الاضحی کی نمازیں پڑھیں ۔ ظاہر ہی بات ہے وقوف عرفات پہ روزہ رکھنے کے قائلین بھی اس بات کو نہیں مانیں گے تو پھر عرفہ کے روزہ پر ہی پوری دنیا کا اتحاد کیوں ؟ 

اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ روزہ اور عید، جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ معتبر ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔ 


چوتھا اشکال : 
ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ پہلے کے لوگ نہیں جان پاتے تھے کہ وقوف عرفات کب ہے اس لئے اپنے ملک کے حساب سے نو ذو الحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھے تو لاعلمی کی وجہ سے وہ معذور تھے اب زمانہ ترقی کر گیا ہے اور وقوف عرفات سب کو معلوم ہو جاتا ہے اس لئے وہ عذر ساقط ہو گیا ۔ 

اولا : 
آج بھی پوری دنیا میں ہرکس و ناکس کو میڈیا کی ساری خبروں کا علم نہیں ہو پاتا، میڈیا سے جڑے لوگوں کو ہی پتہ چل پاتا ہے ۔ مثلا کوئی مسلمان جیل میں قید ہے جہاں اسے موبائل، ٹی وی اور انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے وہ عرفہ کا روزہ رکھنا چاہتا ہے، ترقیاتی دور میں ایسے بے سہولت قیدی مسلمان شخص کے لئے نو ذو الحجہ کے حساب سے ہی روزہ رکھنا ممکن ہے ۔ 

ثانیا : 
اسلام نے جو آقافی دین دیا ہے وہ انٹرنیٹ اور میڈیا کا محتاج نہیں ہے ۔ بطور مثال یہ کہوں کہ انٹرنیٹ اور میڈیا ختم ہو جائے تو تب آپ کیا کہیں گے کہ ابھی پھر سے لوگ معذور ہو گئے ؟ ۔ یا وہ گاؤں و دیہات والے جہاں میڈیا کی خبریں نہیں پہنچ پاتیں کیا وہ ابھی بھی معذور ہیں ؟ 

یہ تو مشینری چیز ہے چل بھی سکتی ہے اور کبھی اس کا نظام درہم برہم بھی ہو سکتا ہے ۔ اس کا مشاہدہ کبھی کبھار بنکوں اور آفسوں میں ہوتا ہے ۔ جب نٹ کنکشن غائب رہتا ہے تو لوگوں کی کیا درگت ہوتی ہے ؟ ۔ 

لیکن اسلام کا نظام ہمیشہ بغیر میڈیا اور انٹرنیٹ کے چلتا رہا ہے اور قیامت تک چلتا رہے گا ۔ دنیا والوں کو بغیر انٹرنیٹ کے نظام شمسی اور نظام قمری سے رمضان کا روزہ، ایام بیض، عاشواء اور عرفہ کا روزہ معلوم ہوتا رہے گا ۔ 


پانچواں اشکال : 
اگر صوم یوم عرفہ کا مطلب ہر ملک والے کے لئے اپنے اپنے ملک کے حساب سے نو ذو الحجہ کا روزہ رکھنا مان لیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ صوم عرفہ ایک نہیں متعدد ہے، اس وقت صوم یوم عرفہ نہیں بلکہ صوم ایام عرفہ ہو جائے گا جبکہ حدیث میں صوم یوم عرفہ آیا ہوا ہے ۔ 

اس بات کا جواب اوپر ابھی گزر چکا ہے کہ شب قدر ایک ہے مگر ہر ملک والے اپنے اپنے یہاں کے حساب سے اس ایک رات کو تلاش کرتے ہیں، یہ رات کہیں سعودی عرب سے پہلے آتی ہے تو کہیں اس کے بعد، اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ شب قدر متعدد ہے جبکہ قرآن و حدیث میں لیلۃ القدر یعنی قدر کی ایک رات کا لفظ آیا ہے ۔ 


قائلین صیام عرفات کے ساتھ چند محاکمہ 

 ( 1 ) جب ایسے لوگوں سے کہا جائے کہ بعض ممالک لیبیا، تیونس اور مراکش وغیرہ میں سعودی سے پہلے عید ہو جاتی ہے، اس صورت میں وقوف عرفات ان کے یہاں عید کا دن ہوتا ہے وہ کیسے روزہ رکھیں ؟ عید کے دن روزہ منع ہے ۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : 

نهى النبيُّ صلى الله عليه و سلم عن صومِ يومِ الفطرِ و النحرِ 
 ( صحيح البخاري : 1991 ) 

ترجمہ : 
نبی ﷺ نے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ۔ 

تو جواب دیتے ہیں ایسے لوگوں سے روزہ ساقط ہو جاتا ہے ۔ روزہ سے متعلق اصول و احکام واضح ہیں انہیں بالائے طاق رکھ کر بغیر ثبوت کے روزہ ساقط کروا کر لوگوں کو بڑے اجر سے محروم کر دینا بڑی نا انصافی اور فہم نصوص میں قصور کا باعث ہے ۔ 

 ( 2 ) جب ان سے کہا جائے کہ آج سے سو سال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ رکھتے تھے کہ نہیں ؟ اگر رکھتے تھے تو یقینا وہ اپنے ملک کے حساب سے رکھتے ہوں گے ( اس کا انکار کرنے کی کسی کو ہمت نہیں ) تو جواب دیتے ہیں کہ اس وقت پتہ نہیں چل پاتا تھا اس لئے وہ معذور تھے ۔ 

یہ جواب کچھ ہضم نہیں ہو پاتا ۔ اس جواب کو مان لینے سے یہ ماننا پڑے گا کہ قرون اولی سے لیکر آج تک کسی نے عرفہ کا روزہ صحیح نہیں رکھا سوائے عرب والوں کے جبکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ سب کے لئے یکساں دستور پیش کرتا ہے خواہ وہ سعودی عرب كا ہو یا دوسرے ملک کا اور اسلام پر عمل کرنے کےلئے کسی میڈیا کی بھی ضرورت نہیں ۔ 


صوم عرفہ کو سمجھنے میں معاون تین اہم نکتے : 

پہلا نکتہ : 
اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ ستر اسی سال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے نو ذو الحجہ کو ہی رکھتے تھے اور سلف کے یہاں صوم عرفہ نو ذو الحجہ کے روزہ کو ہی کہا جاتا ہے، کوئی دوسری رائے نہیں ملتی ہے ۔ وقوف عرفات پہ پوری دنیا والوں کو روزہ رکھنے والا موقف جدید ذہن کی اپج ہے، سلف سے اس نظریہ کی تائید نہیں ہوتی ۔ جب سلف کی فہم صوم عرفہ سے مراد نو ذو الحجہ کا روزہ ہے اور ان کا تعامل بھی اس پہ رہا ہے تو اس موقف سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ اگر سلف کے یہاں صوم عرفہ حاجیوں کے میدان عرفات میں وقوف سے متعلق ہوتا تو یقینا وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے حاجیوں کے وقوف عرفات جاننے کی کوشش کرتے کیونکہ شریعت کا مسئلہ ہے ۔ ان کا صوم عرفہ کے لئے وقوف عرفات نہ تلاش کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صوم عرفہ سے مراد نو ذو الحجہ کا روزہ ہے اور کتاب و سنت کے نصوص کو سمجھنے کے لئے سلف کی فہم مقدم ہے ۔ 

دوسرا نکتہ : 
بعض ممالک میں سعودی عرب کے حساب سے دن و رات کا فرق پایا جاتا ہے یعنی سعودی عرب میں دن ہوتا ہے تو وہاں رات ہوتی ہے ۔ مثلا کیلی فورنیا سے سعودی عرب دس گھنٹے آگے ہے، اگر سعودی عرب میں رات ہوگی تو وہاں دن اور وہاں دن ہوگا تو سعودی عرب میں رات ہوگی ۔ اسی طرح نیوزی لینڈ سعودی عرب سے نو گھنٹے آگے ہے، یہاں بھی دونوں ملکوں میں دن و رات کا فرق ہے ۔ اس طرح بہت سے ممالک ہیں جنہیں ٹائیم زون کے ذریعہ دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جن ممالک میں وقوف عرفات رات میں پایا جاتا ہے وہ لوگ رات میں ہی روزہ رکھ لیں ؟ ۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ روزہ دن میں رکھا جاتا ہے تب عرفات والے کہیں گے کہ رات گزار کر روزہ رکھ لیں ۔ پھر آپ کا دعوی وقوف عرفات کہاں چلا گیا ؟ جب وقوف عرفات نہیں تو پھر وہ روزہ نہیں ۔ اذا فببںات الشرط فات المشروط ( جب شرط فوت ہو جائے تو مشروط بھی ختم ہو جائے گا ) ۔ نیز سعودی عرب سے دن و رات کے فرق کے ساتھ آگے چلنے والوں کے یہاں دن کو عید ہوگی اور عید کے دن روزہ ممنوع ہے ۔
 
تیسرا نکتہ : 
قائلین صوم عرفات جن ممالک والوں کے لئے عید کے دن روزہ ساقط ہونے کا حکم لگاتے ہیں، اس پہلو پر قرآن و حدیث کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کے مسئلہ میں پورے ملک والوں سے کبھی بھی حکم ساقط نہیں ہوگا جیسا کہ احادیث سے معلوم ہے کہ بیماری، ضعیفی، سفر، حیض و نفاس، حمل و رضاعت وغیرہ کی وجہ سے روزہ چھوڑا جا سکتا ہے، یہ صرف چند قسم کے معذور لوگ ہیں مگر کبھی بھی کوئی روزہ پورے ملک والوں سے ساقط نہیں ہوگا ۔ 


صوم عرفہ کے نام پہ دو روزے رکھنا : 

صوم عرفہ کے متعلق دو قسم کے نظرئے پائے جانے کی وجہ سے عام لوگوں میں کافی خلجان پیدا ہو گیا ہے، اس سبب بعض علماء لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ دو روزہ رکھ لیا جائے تاکہ کوئی تردد باقی نہ رہے، ایک اپنے ملک کے حساب سے اور ایک سعودی کے حساب سے ۔ یہ نظریہ بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ عرفہ کا ایک ہی روزہ ہے اس کے نام پہ دو رکھنا کیسے درست ہوگا ۔ کوئی پہلا روزہ رکھے گا تو نیت صوم عرفہ کی کرے گا اور دوسرا روزہ رکھے تو بھی نیت صوم عرفہ کی کرے گا یہاں ایک شخص کی طرف سے ایک روزہ کے بدلے دو نیت اور دو الگ الگ روزہ رکھنا پایا جاتا ہے جو کہ سنت کی مخالفت ہے ۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ روزہ رکھنے والے کو اپنے روزہ میں شک ہے اس لئے احتیاطا دوسرا روزہ بھی رکھ رہا ہے ۔ روزہ میں شک کرنا یا شک والے دن روزہ رکھنا دونوں ایک ہی بات معلوم ہوتی ہے اور بخاری شریف میں شک والے دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے ۔ جب ہمارے پاس سلف کی فہم اور ان کا تعامل بغیر اختلاف کے موجود ہے تو پھر بلاشک عرفہ کا ایک روزہ اپنے ملک کے حساب سے نو ذو الحجہ کو رکھنا چاہئے ۔ 


اشکالات کا حل : 

عرفہ کا روزہ نہ کہ عرفات کا روزہ
وقوف عرفات پہ عرفہ کا روزہ ماننے سے بہت سے اشکالات پیدا ہوتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا مثلا

٭ یہ بات صحیح ہے کہ سو سال پہلے لوگ اپنے ملک کے حساب سے نو ذو الحجہ کا ہی روزہ رکھتے تھے مگر وقوف عرفات نہ جان سکنے کی وجہ سے معذور تھے، اب وہ عذر باقی نہ رہا ۔ اس بات سے لازم آتا ہے کہ ان سب میں سے کسی نے صحیح روزہ نہیں رکھا سوائے وقوف عرفات کا علم رکھنے والے کے ۔ اس سے ان لوگوں بشمول سلف صالحین کی فہم حدیث اور عمل میں تنقیص کا پہلو نکلتا ہے ۔ 

٭ وقوف عرفات جس ملک میں عید کے دن ہو ان لوگوں سے عرفہ کا روزہ ساقط ہے ۔ یہ بغیر دلیل کے سقوط ہے جسے کبھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ 

٭ جہاں وقوف عرفات رات میں پڑ جائے وہ لوگ رات گزار کر روزہ رکھ لیں ۔ جب عرفہ کے روزہ کی فضیلت میدان عرفات میں حاجیوں کے وقوف سے معلق ہے تو پھر رات گزار کر روزہ رکھنے والوں کو وہ فضیلت نصیب نہیں ہوگی یعنی روزہ رکھ کے بھی ثواب نہیں ملے گا ۔ 

٭ وقوف عرفات پہ روزہ ماننا برقی روابط سے حجاج کرام کا عرفات میں وقوف معلوم کرنے پر منحصر ہے اور آج بھی یہ برقی سہولت سب جگہ اور سب کو میسر نہیں مثلا جیل میں قید وہ مسلمان جس کے پاس یہ سہولت نہیں وہ یہ روزہ نہیں سکتا ۔ 
وقوف عرفات پہ عرفہ کا روزہ ماننے سے اس قسم کے بہت سارے اشکالات پیدا ہوتے ہیں جن کا تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہیں ہے، اور اس موقف سے بہت سارے ملک کے لوگ یہ روزہ اور اس کی فضیلت سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ یہ کہیں کہ جس ملک میں عید سعودی عرب سے ایک دن پہلے ہوتی ہے وہ ملک والے قیامت تک عرفہ کا روزہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ ان کے یہاں ہمیشہ وقوف عرفات عید کے دن ہوا کرے گا اور عید کے دن روزہ رکھنے سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے جبکہ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے نو ذو الحجہ کا ماننے سے کوئی اشکال نہیں پیدا ہوتا ہے، ہو بہو سلف کے عملی نمونہ کو اپنانا ہے ۔ اس لئے اس تحقیقی مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہر ملک والا اپنے اپنے ملک کے حساب سے عرفہ کا روزہ نو ذو الحجہ کو رکھے گا ۔ 


~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۸ 

کیا عرفہ کا روزہ مکہ مکرمہ کی تاریخ کے مطابق رکھا جائے ؟ 

عرفہ کا روزہ سعودی تاریخ کے مطابق رکھا جائے یا ہر علاقے کے لوگ قمری تاریخ کے اعتبار سے نو ذو الحجہ کا روزہ رکھیں ۔ موجودہ دور میں یہ ایک اشکال پیدا کر کے یومِ عرفہ کی تعیین میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یومِ عرفہ کی آڑ میں اس مقدس روزہ کو ایک پیچیدہ مسئلہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ 

حالانکہ اس موقف کے قائل علماء رمضان کے روزوں، دیگر نفلی روزوں اور شبِ قدر کی تعیین میں تو قمری تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یومِ عرفہ سے دھوکا کھا کر اس کو سعودی تاریخ سے نتھی کرنے کی فضول کوشش کی جاتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس موقف کو تسلیم کر لیا جائے تو تمام اسلامی دنیا سعودی یومِ عرفہ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتی ۔ کیونکہ مشرقی ممالک میں سحری سعودی وقت سے دو یا تین گھنٹے قبل شروع ہوتی ہے اور افطاری بھی ان سے پہلے ہوتی ہے ۔ اسی مناسبت سے تو مشرقی لوگ سعودی تاریخ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور بعض مغربی ممالک میں قمری تاریخ سعودی تاریخ سے آگے ہے ۔ چنانچہ مکہ مکرمہ میں جب یومِ عرفہ ہوتا ہے تو وہاں عید الاضحی منائی جا رہی ہوتی ہے تو اس غیر منصفانہ تقسیم سے تو مغربی ممالک کے مسلمان یوم عرفہ کے روزہ کی فضیلت سے محروم رہیں گے کیونکہ عید الاضحی کے دن روزہ رکھنا ممنوع ہے ۔ اس اعتراض کا مزید تشفی بخش جواب آئندہ فتاوی میں ملاحظہ کریں : 


حافظ عبد الستار حماد کا فتوی 

سوال : 
سیف الرحمن صدیقی سوال کرتے ہیں کہ عرفہ کا روزہ نویں ذو الحجہ کو رکھنا چاہئے یا جس دن مکہ میں عرفہ کا دن ہوتا ہے ؟ خواہ ہمارے ہاں ذو الحجہ کی سات یا آٹھ تاریخ ہو ۔ 

جواب : 
رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ یومِ عرفہ کا روزہ رکھنے سے گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ 
 ( صحیح مسلم : 11562 سنن ابی داؤد : 2420 جامع ترمذی : 749 سنن ابن ماجہ : 1713 ) 

رسول اللہ ﷺ رسول رحمت ہیں اور آسان دین لے کر آئے ہیں ۔ اس رحمت اور آسانی کا تقاضا یہ ہے کہ عرفہ کا روزہ نویں ذو الحجہ کو رکھا جائے ۔ سعودیہ میں یومِ عرفہ کے ساتھ اس کا مطابق ہونا ضروری نہیں ۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں : 

 ( 1 ) میں نے علامہ البانی کی تصانیف میں خود اس روایت کو دیکھا ہے لیکن اب اس کا حوالہ مستحضر نہیں ۔ اس روایت میں یومِ عرفہ کے الیوم التاسع کےالفاظ ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ نویں ذو الحجہ کا روزہ رکھا جائے ۔ 
 
 ( 2 ) تیسیر اور رحمت کا تقاضا اس طرح ہے کہ اس امت کو عبادت کی بجا آوری میں اپنے احوال و ظروف سے وابستہ کیا گیا ہے ۔ اگرچہ آج ہم سائنسی دور سے گزر رہے ہیں لیکن آج سے چند سال قبل معلومات کے یہ ذرائع میسر نہ تھے جن سے سعودیہ میں یومِِ عرفہ کا پتا لگایا جا سکتا اب بھی دیہاتوں اور دراز کے باشندوں کو کیسے پتا چلے گا کہ سعودی میں یومِ عرفہ کب ہے تاکہ وہ اس دن روزے کا اہتمام کریں ۔ لہذا اپنے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے نویں ذو الحجہ کا تعین کر کے عرفہ کا روزہ رکھ لیا جائے ۔ 
 
 ( 3 ) روئے زمین پر ایسے خطے موجود ہیں کہ سعودیہ کے لحاظ سے یومِ عرفہ کے وقت وہاں رات ہوتی ہے ان کے لئے روزہ رکھنے کا کیا اصول ہوگا ؟ اگر انہیں عرفہ کے وقت روزہ رکھنے کا پابند کیا جائے تو وہ رات کا روزہ رکھیں گے حالانکہ رات کا روزہ شرعاً ممنوع ہے اور اگر وہ اپنے حساب سے روزہ رکھیں گے تو عرفہ کا روزہ ختم ہو چکا ہوگا اس لئے آسانی اسی میں ہے کہ اپنے حالات و ظروف کے اعتبار سے روزہ رکھا جائے ۔ 
 
 ( 4 ) ہمارے ہاں پاکستان میں یومِ عرفہ کو سات یا آٹھ ذو الحجہ ہوتی ہے ۔ کچھ مغربی ممالک ایسے بھی ہیں کہ وہاں یومِ عرفہ کو ذو الحجہ کی دس تاریخ ہوتی ہے ۔ اگر سعودیہ کے اعتبار سے انہیں عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے کا مکلف قرار دیا جائے تو وہ اپنے لحاظ سے دس ذو الحجہ کو روزہ رکھیں گے ۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے اس دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے ۔ لہذا ضروری ہے کہ اپنے حساب سے نویں ذو الحجہ کا روزہ رکھیں ۔ 
 
 ( 5 ) ہمارے اور سعودیہ کے طلوع و غروب میں دو گھنٹے کا فرق ہے ۔ اگر عرفہ کے روزہ کو سعودیہ میں یومِ عرفہ سے وابستہ کر دیا جائے تو جب ہم روزہ رکھیں گے تو اس وقت سعودیہ میں یومِ عرفہ کا آغاز نہیں ہوا ہو گا ۔ اسی طرح جب ہم روزہ افطار کریں گے تو سعودیہ کے لحاظ سے یومِ عرفہ ابھی باقی ہوگا ۔ یہ الجھنیں صرف اس صورت میں دور ہو سکتی ہیں کہ ہم اپنے روزے کو سعودیہ سے وابستہ نہ کریں بلکہ اپنے حساب سے نویں ذو الحجہ کا تعین کر لیں ۔ ان وجوہات کا تقاضا ہے کہ عرفہ کا روزہ ہم اپنے لحاظ سے نویں ذو الحجہ کو ہی رکھیں خواہ یومِ عرفہ ہو یا نہ ہو ۔ 
 ( فتاوی اصحاب الحدیث 1، 221، 220 ) 


حافظ عبد المنان نورپوری کا فتوی 

سوال : 
نو ذو الحجہ کے روزے کے فضائل تو حدیث میں ثابت ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ یومِ عرفہ نو ذو الحجہ کے روزہ کے بدلے میں اللہ تعالی ایک گزشتہ اور ایک آئندہ سال کے گناہ معاف فرمائیں گے اور یومِ عاشورا کے روزہ کے بدلے میں گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف فرمائیں گے ۔ 
 ( مختصر صحیح مسلم : 620 ) 

ایک عالمِ دین جو بخاری پڑھاتے ہیں ان کا موقف ہے کہ عرب کا نو ذو الحجہ کا روزہ ہمارے ہاں آٹھ ذو الحجہ کا روزہ بنتا ہے لہذا ہمیں نو کے بجائے آٹھ ذو الحجہ کا روزہ رکھنا چاہئے ۔ نیز عرفہ کا روزہ میدانِ عرفات میں حاجی صاحبان رکھیں یا نہ رکھیں ؟ 

جواب : 
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین قمری تاریخ کا فرق ہے ۔ کبھی ایک یوم اور کبھی دو یوم، معلوم ہے بڑی عید اور چھوٹی عید پاکستان کی تاریخ کے مطابق منائی جاتی ہے اسی طرح رمضان المبارک کا آغاز بھی ملکی تاریخ کے موافق ہوتا ہے ۔ ان تینوں امور میں اپنے ملک کی قمری تاریخ کو رکھا جاتا ہے ۔ لہذا نو ذو الحجہ میں بھی اپنے ملک ہی کی قمری تاریخ معتبر ہوگی ۔ 

حضرت کریبؓ جو ابن عباسؓ کے غلام ہیں سے مروی ہے کہ عباسؓ کی زوجہ ام فضلؓ نے انہیں ( کریبؓ کو ) معاویہؓ کے پاس شام بھیجا ۔ کریبؓ کہتے ہیں کہ میں نے شام آ کر ان کا کام کیا ۔ میں ابھی شام میں ہی تھا کہ رمضان کا چاند نظر آ گیا ۔ میں نے بھی جمعہ کی رات چاند دیکھا پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ واپس آ گیا ۔ عبد اللہ بن عباسؓ نے چاند کے بارے میں مجھ سے دریافت کیا کہ تم نے وہاں چاند کب دیکھا تھا ؟ میں نے جواب دیا ہم نے تو جمعہ کی رات کو دیکھا تھا ۔ عبد اللہ بن عباسؓ نے پھر پوچھا کیا تم نے بھی دیکھا تھا ؟ میں نے جواب دیا ہاں، بہت سے آدمیوں نے بھی دیکھا تھا اور سب لوگوں نے معاویہؓ کے ساتھ ( دوسرے دن بھی یعنی ہفتہ کا ) روزہ رکھا تھا ۔ عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا ہم نے تو چاند ہفتہ کے دن ( یعنی ایک دن کے فرق سے ) دیکھا ہے ۔ ہم اسی حساب سے روزے رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ تیس دن پورے کر لیں ۔ کریبؓ نے کہا کیا آپ معاویہؓ کی رؤیت اور ان کے روزے کو کافی نہیں سمجھتے ؟ فرمایا : نہیں ! ہمیں رسول اللہؐ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔ 
 ( مختصرصحیح مسلم : 578 ) 

اس حدیث سے پتا چلا کہ ہر علاقے کا علاقائی طور پر چاند کا نظر آنا اور دیکھنا معتبر ہوگا ۔ 
 اور روزہ عیدین، یوم عاشوراء، یوم عرفہ اور دوسرے تمام شرعی احکامات میں ہر علاقہ کی اپنی رؤیت ہی معتبر ہوگی ۔ 
 ( احکام و مسائل از حافظ عبد المنان نور پوری : 2، 419، 418 ) 

بحوالہ 
محدث لاہور اکتوبر 2011ء 
عشرہ ذو الحجہ کے فضائل و مسائل 
محقق شیخ الحدیث مولانا فاروق رفیع 
جامعہ اسلامیہ لاہور 

~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۹ 

سوال
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

یوم عرفہ کا روزہ پاکستان میں کب رکھا جائے گا، جبکہ سعودی عرب اور پاکستان کی قمری تاریخ میں عام طور پر ایک روز کا فرق ہوتا ہے ۔ کیونکہ یومِ حج یوم عرفہ ۹ ذو الحج کو ہوتا ہے ۔ اور اس دن کے روزے کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے اس کی بڑی فضیلت ہے ۔ پاکستان میں اس دن ۸ ذو الحج ہوتا ہے ۔ اب کیا کرنا چاہیے ۔ قرآن و سنت سے جواب دیں ؟ 
 ( محمد بشیر الطیب، کویت ) 

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

و علیکم السلام و رحمة اللہ و برکاته

الحمد لله، و الصلاة و السلام علىٰ رسول الله، أما بعد ! 

یہ فرق لیلۃ القدر، رمضان اور عید کے مواقع پر بھی موجود ہے، اس کے باوجود اہل پاکستان پاکستان کی تاریخ کا اعتبار کرتے ہیں ۔ 
۱۵، ۱۱، ۱۴۲۲ھ

قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل
جلد 02 ص 418
محدث فتویٰ


~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۱۰

سوال
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته 

ہم جب یوم عرفہ کا روزہ رکھتے ہیں تو یوم عرفہ گزر چکا ہوتا ہے کیا ہمیں اس دن کا روزہ رکھنا چاہیے جس دن حاجی لوگ میدان عرفات میں ہوتے ہیں یا ہمیں نویں ذو الحجہ کو روزہ رکھنا چاہیے، خواہ سعودیہ میں یوم عرفہ گزر چکا ہو ؟ 

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
و علیکم السلام و رحمة اللہ و برکاته ! 

الحمد لله، و الصلاة و السلام علىٰ رسول الله، أما بعد ! 

یوم عرفہ نو ذو الحجہ کو ہوتا ہے حجاج کرام کو اس دن روزہ رکھنا منع ہے، رسول اللہ ﷺ نے حج کے موقع پر اس دن کا روزہ نہیں رکھا ہے، 

چنانچہ حضرت ام فضل بنت حارث ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ذو الحجہ کی نویں تاریخ کو میدان عرفات میں رسول اللہ ﷺ کے لئے دودھ کا ایک پیالہ بھیجا تو آپ نے اسے نوش فرمایا جبکہ آپ اونٹ پر بیٹھے تھے ۔ 
 ( صحیح بخاری، الحج : ۱۶۶۱ ) 

البتہ جو لوگ میدان عرفات میں نہیں ہیں ان کے لئے اس کا روزہ رکھنے کی بہت فضیلت ہے لیکن وہ نویں ذو الحجہ کا روزہ رکھیں گے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بھی نویں ذو الحجہ کا روزہ رکھا تھا ۔ 

حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نو ذو الحجہ، یوم عاشورہ ( دس محرم ) اور ہر ماہ میں تین دن کے روزے رکھتے تھے ۔ 
 ( ابو داؤد، الصیام : ۲۴۳۴ ) 

ہم نے اپنے حساب سے نو ذو الحجہ کا روزہ رکھنا ہے، اس سلسلہ میں ہم سر زمین مقدس کا حساب نہیں رکھیں گے کیونکہ سعودیہ سے مشرق والے ایک یا دو دن پیچھے ہیں اگر وہاں ۱۵ ذو الحجہ ہے تو ہمارے ہاں تیرہ یا چودہ ذو الحجہ ہوگی اور سعودیہ سے مغربی علاقے ایک یا دو دن آگے ہیں اگر سعودیہ میں ۱۵ ذو الحجہ ہے تو وہاں سولہ یا سترہ ذو الحجہ ہوگی ہے ۔ اگر ذو الحجہ کی نویں تاریخ کے روزے کو سعودیہ کے حساب سے رکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو علاقے سعودیہ سے ایک دن یا دو دن آگے ہیں وہاں سعودیہ کی نویں تاریخ یا گیارہ ذو الحجہ ہوگی، یعنی وہاں عید ہوگی اور عید کا روزہ رکھنا شرعاً ممنوع ہے ۔ اسی لئے ہم نے اپنے حساب سے نویں ذو الحجہ کا روزہ رکھنا ہے ۔ ہم اس سلسلہ میں قطعی طور پر سعودیہ کے پابند نہیں ہیں ؟ 
 ( و اللہ اعلم ) 

ھذا ما عندی و اللہ اعلم بالصواب 

فتاوی اصحاب الحدیث
جلد : 2 صفحہ : 245



~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۱۱ 

::: یوم عرفات کا روزہ کِس دِن رکھا جانا چاہیے ؟ :::

عادل سہیل ظفر 

أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ 

بِسمِ اللَّہ، و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ و عَلیَ آلہِ و سلَّمَ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقد وَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔ 

شروع اللہ کے نام سے، اور سلامتی ہو اُس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی، اور ہدایت لانے والے نبی محمد ﷺ کی راہ پر چلا، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور ( لیکن اُس شخص نے ) اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔ 

السلامُ علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ، 

نو 9 ذِی الحج وہ دِن ہے جس دِن سب حاجی میدان عرفات میں جمع ہو کر اللہ جلّ جلالہُ کی عبادت کرتے ہیں، لحظہ بہ لحظہ کی خبر ہونے کے باوجود جغرافیائی اِختلاف کی بِناء پر چاند کی تاریخوں میں اِختلاف کی بِناء پر مُسلمانوں کی عیدیں تو ایک نہیں ہو پاتیں، لیکن " یوم عرفات " " ایسا دِن ہے جس کو کِسی دُوسری جگہ دُوسری تاریخ میں نہیں مانا جا سکتا ہے، 

کیونکہ دِنیا میں ایک ہی مُقام ایسا ہے جِسے ہم مُسلمان عرفات کے نام سے جانتے اور مانتے ہیں، اور صِرف اُسی مُقام پر، اُسی جگہ میں، اور وہیں کی مُقامی تاریخ کے مُطابق ہی، نو 9 ذِی الحج کو سارے حاجی وہاں یعنی میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں، قیام کرتے ہیں، حج کا ایک منسک ادا کرتے ہیں، 
پس کِسی منطق و فلسفے میں گھسے بغیر صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ وہ دِن جِس دِن حاجی صاحبان میدان عرفات میں قیام کرتے ہیں وہ ہی دِن ساری دِنیا کے مُسلمانوں کے لیے " یوم عرفات " ہے، اور یہ ہی وہ دِن ہے کہ جِس دِن کا روزہ رکھنے والا غیر حاجی مُسلمان کے لیے بہت بڑے اجر و ثواب کی خُوشخبری عطاء فرمائی گئی ہے، ملاحظہ فرمایے، 
اِس با برکت دِن میں عرفات میں قیام کرنے والوں کو اللہ کی طرف سے مغفرت کی خوشخبری دی گئی، اور جو وہاں نہیں ہوتے لیکن اُس دِن اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیّت سے روزہ رکھیں تو اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی زبانِ مُبارک سے یہ خوشخبری سُنائی گئی 

 ( صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِى قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِى بَعْدَهُ 

عرفات کے دِن کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ سے یقین ہے کہ اُس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک گذرے ہوئے سال اور ایک " یوم عرفات " کے بعد والے سال کے گناہ معاف فرما دیتا ہے ) 

صحیح مُسلم / کتاب الصیام / باب 36، 

اور دُوسری روایت کے الفاظ ہیں 

 ( یُکَفِّرُ السَّنَۃَ المَاضِیَۃَ وَالبَاقِیَۃَ 
پچھلے ایک سال اور اگلے ایک سال کے گُناہ معاف کرواتا ہے ) 

صحیح مُسلم / کتاب الصیام / باب 36، 


::::::: ایک بہت ہی أہم بات ::::::: 

دو سال کے صغیرہ ( چھوٹے ) گُناہ معاف ہونا، عرفات کے دِن کے روزے کے نتیجے میں ہے، یعنی وہ دِن جِس دِن حاجی میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں، نہ کہ اپنے اپنے مُلکوں، عِلاقوں میں اپنے اپنے مذاہب و مسالک کی پابند تاریخوں کے مُطابق آنے والے نو ذِی الحج کے دِن کے روزے کے نتیجے میں، 

پس اِس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ روزہ قیام عرفات والے دِن کا رکھنا ہے ۔ 

اِس سلسلے کو واضح کرنے کے لیے کوئی لمبی چوڑی بات یا بحث کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن کچھ مُسلمان بھائیوں کی طرف سے ہر مُقام کی الگ الگ رویت ھلال کے مُطابق وہاں کے نو ذِی الحج کو " یوم عرفات " کا روزہ رکھے جانے کو ہی دُرُست ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کے کلام کا اظہار ہوتا ہے، 

اِس لیے چند باتیں مختصر طور پر عرض کرتا ہوں، 

لیکن اُس سے پہلے یہ گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ " منطقی اور فلسفیانہ محاکمہ آرائی، اور قیاسات و خیالات پر مبنی مناقاشات کا سلسلہ عموماً لا متناہی ہوتا ہے، اور عموماً حق بات کو دُھندلانے کا، اور سیدھی صاف بات کو الجھانے کا سبب ہوتا ہے " ، 

 لہذا خود ساختہ سوال و جواب، امکانیات اور قیاسات کہ یُوں ہے تو یُوں بھی ہو سکتا ہے، یُوں ہوتا تو کیا ہوتا، وغیرہ سے صرف نظر کرتے ہوئے میں نصوص کی روشنی میں بات کروں گا، اِن شاء اللہ، 

عنوان میں مذکور، سوال، یا مسئلے کو سمجھنے کے لیے پچھلے کچھ سالوں سے کئی بھائی بہنوں سے مراسلات ہوتی رہی، اور اس سال ( 1437 ہجری ) کے ذِی الحج میں، اُن مراسلات میں کچھ کمی بیشی کر کے ایک مضمون کی صُورت میں ارسال کیا، 

مضمون کے نشر ہونے کے بعد کئی محترم عالِم بھائیو کی طرف سے کچھ مُلاحظات، اعتراضات اور سوالات موصول ہوئے، جن میں ایک محترم بھائی کے ایک مضمون کی نشاندہی کی گئی، جس میں انہوں نے میرے مضمون میں بیان کردہ موقف کے نا دُرُست ہونے کے بارے میں کافی معلومات جمع فرمائِیں، 
مُلاحظات، اعتراضات اور سوالات کرنے والے بھائیوں نے چونکہ اُس مضمون کو ہی دُوسرے موقف کی عُمدہ ترین بات سمجھا، اِس لیے میں نے اُس مضمون کو خوب اچھی طرح سے پڑھا، اور کئی دفعہ پڑھا، اُس کے بعد اپنے مضمون کو بارہا پڑھا، اور مجھے یہ احساس ہوا کہ میں نے جو بات کو مختصر رکھنے اور صرف نصوص تک رکنے کی کوشش کی تھی وہ کچھ خاص فائدہ مند نہیں ہوئی، کیونکہ قارئین کرام عموماً نصوص کو سمجھنے کی بجائے مختلف منطقی اور فلسفیانہ باتوں کا اثر جلد قُبول کر لیتے ہیں، 

لہذا اُس مضمون میں کچھ اضافے کرنے کے بعد اُسے پھر سے تیار کر رہا ہوں، 

آگے چلنے سے پہلے یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں اِس مضمون میں جو کچھ پیش کر رہا ہوں وہ کِسی سے کِسی بھی شخصی ضِد یا تعصب کی وجہ سے نہیں، اور نہ ہی اپنی کِسی ذاتی رائے کو ہی دُرُست دِکھانے کے لیے ہے، 

بلکہ مقصد یہ کہ اِس مسئلے کو جِس طرح میں نے سمجھا ہے وہ کچھ دُوسروں کے سامنے پیش کر دِیا جائے، اُس کے بعد قارئین کا دِل جِس بات پر مطمئن ہو وہ اُس کو اپنا لیں، 

ہر کِسی کو اُس کے فعل کا بدلہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے مل کر ہی رہنا ہے، 
اللہ عزّ و جلّ مجھے، اور ہم سب کو ہی ہر ناحق ضِد، تعصب اور انا پرستی سے محفوظ رکھے . 
 

اِس مسئلے کے بارے میں، اِس سوال کے جواب میں، دو رائے سامنے آتی ہیں، 

؛ ::: ( 1 ) ::: ؛
::::: پہلی رائے، جو دُرُست ہے :::::

کِسی بھی جگہ پر مُسلمان اُسی دِن یوم عرفات کا روزہ رکھیں گے، جو دِن حقیقی طور پر یوم عرفات ہوگا، یعنی، جِس دِن حاجی عرفات کے میدان میں جمع ہوں گے، میں اِس پہلی رائے کو دُرُست سمجھتا ہوں، 
کیونکہ، احادیث شریفہ میں، جِس دِن کا روزہ رکھنے کی فضیلت، اور جس دِن دُعاء کی قبولیت ہونے کی خبر، اور جِس دِن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے زمین کے قریب تشریف لانے کی خبر، اور جِس دِن میں کِسی بھی اور دِن کی نسبت سب سے زیادہ بندوں کی بخشش کرنے کی خبر ملتی ہے، وہ سب کی سب احادیث " یوم عرفات " کا ذِکر لئے ہوئے ہیں، نہ کہ " نو ذِی الحج " کی تاریخ والے دِن کا، 
اور یہ سب کی سب فضلیتیں حجاج ( حاجیوں ) کے عرفات کے میدان میں جمع ہونے کی نِسبت سے ہیں، اُن کے وہاں آنے کے سبب سے اللہ کی یہ رحمتیں اُس دِن میں عطاء ہوتی ہیں، نہ کہ نو ذِی الحج کی تاریخ کی نِسبت سے ( تفصیلی ذِکر اِن شاء اللہ، آگے کروں گا )، لہذا، ساری دُنیا کے مُسلمانوں کے لئے یوم عرفات اُسی دِن کو سمجھا جانا دُرُست ہے جِس دِن حاجی صاحبان میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں، نہ کہ اپنی اپنی جگہوں پر دیکھے گئے چاند کے مُطابق شروع کردہ ذِی الحج کی نو تاریخ کو، 

جیسا کہ اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء کا فتوی ہے کہ
 
السؤال الأول من الفتوى رقم ( 4052 ) 

س 1 : هل نستطيع أن نصوم هنا يومين لأجل صوم يوم عرفة، لأننا هنا نسمع في الراديو أن يوم عرفة غدًا يوافق ذلك عندنا الثامن من شهر ذي الحجة ؟ 

ج 1 : يوم عرفة هو اليوم الذي يقف الناس فيه بعرفة، و صومه مشروع لغير من تلبس بالحج، فإذا أردت أن تصوم فإنك تصوم هذا اليوم، و إن صمت يومًا قبله فلا بأس، و إن صمت الأيام التسعة من أول ذي الحجة فحسن، لأنها أيام شريفة يستحب صومها، لقول النبي صلى الله عليه و سلم 
 ( مَا الْعَمَلُ فِى أَيَّامِ الْعَشْرِ أَفْضَلَ مِنَ الْعَمَلِ فِى هَذِهِ، قَالُوا وَ لاَ الْجِهَادُ قَالَ، وَ لاَ الْجِهَادُ، إِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَ مَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَىْءٍ )، 

فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمية و الإفتاء، الجزء رقم : 10، الصفحة رقم : 394 


ترجمہ : 
سوال : کیا ہم یہاں ( سعودیہ سے باہر ) یوم عرفات کے روزے کے لئے دو دِن کا روزہ رکھ سکتے ہیں، کیونکہ ہم نے یہاں کے ریڈیو میں سُنا ہے کہ یہاں ہماری ذِی الحج کی تاریخ کے مُطابق کل آٹھ ذِی الحج ہے، لیکن کل ہی ( سعودیہ میں ) یوم عرفات بھی ہے ؟ 

جواب : 
یوم عرفات وہی دِن ہے جِس دِن میں لوگ میدان عرفات میں کھڑے ہوتے ہیں، اور اِس دِن روزہ رکھنا اُس شخص کے لیے جائز ہے ( مشروع ہے )، جِس شخص نے حج کا احرام نہ کیا ہو، اگر آپ نے روزہ رکھنے کا اِرداہ کیا ہو تو پھر آپ اُسی دِن کا روزہ رکھیے ( جِس دِن حاجی میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں ) اور اگر آپ نے اُس دِن سے پہلے والے دِن بھی روزہ رکھا، تو کوئی حرج نہیں، اور اگر آپ نے ذِی الحج کے پہلے نو دِنوں کے روزے رکھے تو بھی یہ بہتر ہے، کیونکہ نبی اللہ ﷺ کے درج ذیل فرمان کے مُطابق یہ بزرگی والے دِن ہیں اور اِن دِنوں میں روزہ رکھنا مُستحب ہے 

عبداللہ ابنِ عبَّاس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا 

مَا الْعَمَلُ فِى أَيَّامِ الْعَشْرِ أَفْضَلَ مِنَ الْعَمَلِ فِى هَذِهِ 
اِن دس دِنوں میں کیے جانے والے کاموں ( یعنی نیک کاموں ) سے زیادہ بہتر کام اور کوئی نہیں 

صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا " کیا جِہاد بھی نہیں ؟ " ، 
تو رسول اللہ ﷺ نے اِرشاد فرمایا 

وَلاَ الْجِهَادُ، إِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَىْءٍ 

جِہاد بھی نہیں، سوائے اِس کے کہ کوئی اپنا مال اور جان لے کر نکلے اور اُس میں سے کوئی چیز بھی واپس نہ آئے 
 ( یعنی، صِرف وہ جِہاد اِن دس دِنوں کے عمل سے زیادہ بہتر ہے جِس میں مُجاہد کی جان اور مال دونوں ہی اللہ کی راہ میں کام آ جائیں ) 
صحیح البُخاری /حدیث 929 /کتاب العیدین / باب 11 ۔

لہذا، ساری دُنیا کے مُسلمانوں کے لیے یوم عرفات اُسی دِن کو سمجھا جانا دُرُست ہے جِس دِن حاجی صاحبان میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں، نہ کہ اپنی اپنی جگہوں پر دیکھے گئے چاند کے مُطابق شروع کردہ ذِی الحج کی نو تاریخ کو ۔ 

لجنہ دائمہ کا فتویٰ مکہ کے عِلاوہ کِسی اور مُقام کی تاریخ ایک دِن پیچھے ہونے کی صُورت میں دو دِن کا روزہ رکھنے کی تجویز بھی لیے ہوئے ہے، 

لہذا، یہ مسئلہ بھی حل ہوا کہ اگر کِسی مُقام کی رویت ھلال کے مُطابق حقیقی یوم عرفات آٹھ ذِی الحج کو آئے تو وہاں کے مُسلمان کیا کریں ؟ 

اِس کے عِلاوہ یہ مسئلہ رہ جاتا ہے کہ، اگر کِسی مُقام کی رویت ھلال کے مُطابق حقیقی یوم عرفات، دس ذِی الحج، یعنی، عید والے دِن آ جائے تو کیا کیا جائے ؟ 

اور کچھ دیگر سوالات بھی ہیں، اِن کے جوابات اِن شاء اللہ آگے آئیں گے، 
فی الحال ہم دُوسری رائے، دُوسرے جواب کی طرف چلتے ہیں، 
اور پھر اِن شاء اللہ دُوسری رائے کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں 


؛ ::: ( 2 ) ::: ؛
::::: دُوسری رائے، دُوسرا جواب :::::

ہر جگہ کے لوگ اپنی اپنی رویت ھلال، یعنی، چاند دیکھنے کے مُطابق، اپنے ہاں آنے والی نو ذِی الحج کو ہی یوم عرفات کا روزہ رکھیں گے، اور اپنی اِس بات کے دلائل کے طور پر وہ " رویت ھلال، یعنی، چاند دیکھنے کا مسئلہ " ، اور " اِختلاف مطالع، یعنی چاند دیکھنے میں مختلف جگہوں میں ہونے والا اختلاف " ، اور ام المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا، اور ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا، کی روایات ذِکر کرتے ہیں، جِن روایات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ذِی الحج کے پہلے نو دِنوں کے روزے رکھا کرتے تھے۔

اِس کے جواب میں مختصراً گذارش یہ ہے کہ، مجھے " رویت ھلال، یعنی، چاند دیکھنے " کے مسئلے میں اِس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ، ہمارے قمری نظام تاریخ کے مُطابق، کِسی نئے مہینے کا آغاز کرنے کے لیے کِسی آلے کی مدد کے بغیر، صحیح صحت مند بصارت والے دو مُسلمانوں کا چاند کو دیکھنا لازمی ہے، اور اُن کی گواہی پر دیگر مُسلمان اپنے نئے مہینے کا آغاز کر لیں گے، 
اور اگر کِسی وجہ سے چاند نہ دکھائی دے تو پھر رواں مہینے کے تیس دِن پورے کیے جائیں گے، 

اس کے بعد، رؤیت ھلال میں سے اگلا مرحلہ، " اِختلاف مطالع، یعنی چاند دیکھنے میں مختلف جگہوں میں ہونے والا اختلاف " کے بارے میں، میری گذارش یہ ہے کہ 
قدیم سے ہی ہمارے عُلماء کرام رحمہم اللہ کے ہاں، " اِختلاف مطالع " کے معتبر ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے، میں یہاں، اِس مُقام پر، اِس اختلاف کی تفصیل اور پھر اِس میں راجع اور مرجوح کی بحث کو شامل نہیں کروں گا، لیکن اِن شاء اللہ تفصیل والے حصے میں اِس کا کچھ ضروری ذِکر کروں گا، 

لہذا، " اِختلاف مطالع " کے معتبر ہونے یا نہ ہونے کی بحث میں داخل ہوئے بغیر، ہمارے زیر تفہیم مسئلے تک محدود رہنے کے لئے، مذکورہ بالا دُوسری رائے والے محترمین کے ساتھ ہی شامل ہوتا ہوں کہ ہمارے قمری نظام تاریخ میں نئے مہینے کا آغاز کرنے لئے " اِختلاف مطالع " معتبر ہے، 

لہذا، ہر جگہ کے مُسلمان اپنی اپنی جگہ سے ہی چاند دیکھنے کے مُطابق اپنا نیا مہینہ شروع کریں گے، اور اُسی تاریخ کے مُطابق اپنی عِبادات کے دِن اور رات مقرر کریں گے، جو تاریخ اُن کی رویت ھلال کے مُطابق ہو گی، 

تو، اِس کے بعد، اِختلاف صِرف اور صِرف اُنہی چند معاملات کو سمجھنے میں رہ جاتا ہے، جِن کا ذِکر میں نے ابتداء میں کیا کہ " احادیث شریفہ میں، جِس دِن کا روزہ رکھنے کی فضیلت، اور جس دِن دُعاء کی قبولیت ہونے کی خبر، اور جِس دِن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے زمین کے قریب تشریف لانے کی خبر، اور جِس دِن میں کِسی بھی اور دِن کی نسبت سب سے زیادہ بندوں کی بخشش کرنے کی خبر ملتی ہے، وہ سب کی سب احادیث " یوم عرفات " کا ذِکر لئے ہوئے ہیں، نہ کہ " نو ذِی الحج " کی تاریخ والے دِن کا " ، 

یہاں تک معاملہ بالکل واضح ہے، یا یُوں کہہ لیتے ہیں کہ میرے لئے تو بالکل واضح ہے کہ " یوم عرفات کا روزہ مخصوص سبب سے فضیلت والا ہوا، اور یوم عرفات کی دیگر فضیلتیوں کا بھی مخصوص سبب ہے، پس جِس دِن یہ سبب موجود ہوگا وہی دِن یوم عرفات ہوگا، اور جِس دِن یہ سبب غائب ہوگا، مفقود ہوگا وہ دِن مکۃ المکرمہ میں رویت ھلال کے خِلاف کِسی بھی اور جگہ کی رویت ھلال کے مُطابق، وہاں کے لیے تاریخ کے اعتبار سے نو ذِی الحج تو ہو سکتا ہے، یوم عرفات نہیں " 

لہذا، دُنیا بھر میں جہاں کہیں بھی، جِس کِسی بھی مُسلمان کو حقیقی یوم عرفات، یعنی، جِس دِن حاجی میدان عرفات میں قیام کرتے ہیں، اُس دِن کی خبر مُیسر ہو جاتی ہے وہ اُسی دِن کے مُطابق یوم عرفات کا روزہ رکھے، اِن شاء اللہ یہ زیادہ دُرُست ہے، 

یہاں تک تو مسئلے کو مختصر طور پر بیان کیا ہے، اب اِس کے بعد آتا ہوں اِن شاء اللہ، کچھ تفصیلات کی طرف، یہ تفصیلات مجھ جیسے طالب عِلموں کے لئے ہیں، اور اُن بھائی بہنوں کے لیے جو مسئلے کو دونوں طرف کے دلائل کی روشنی میں سمجھنا چاہتے ہیں، صِرف آراء اور خیالات کے مُطابق نہیں ۔


::::: دُوسری رائے، جواب، دلائل، اور اُن کا جائزہ ::::: 

::::::: ( 1 ) ؛
::::::: رویت ھلال کے مسئلے کو دلیل بنانا، اور اِس کا جائزہ ::::::: 

میرے کچھ بھائی، رویت ھلال، یعنی، چاند دیکھنے کے اعلان کے ایک جگہ سے دُوسری جگہ پہنچانے کے لیے جدید وسائل کے استعمال کے بارے میں چیں بہ جبیں ہوتے ہیں، کہ نہیں صاحب ( صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ، وَ أَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، چاند دیکھ کر روزے رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار رہو ) کے مُطابق ہر ایک جگہ سے چاند دیکھا جانا چاہیے اور اُسی کے مُطابق وہاں کے لوگوں کو یہ یوم عرفات کا روزہ، اُن کی رویت ھلال کے مُطابق، اُن کے نو ذِی الحج کو رکھنا ہوگا، 
اِدھر اُدھر کی رویت کی خبر کا نفاذ نہیں ہو سکتا، کیونکہ ایسا کرنا اِس مذکورہ حدیث شریف کے خِلاف ہے، 
اور اِس حدیث شریف میں بیان کردہ حکم پر عمل کرنے کی اُسی صُورت کی تائید میں میرے جو بھائی کچھ یُوں فرماتے ہیں کہ " ہر ایک جگہ سے چاند دیکھا جانا چاہیے اور اُسی کے مُطابق وہاں کے لوگوں کو یہ یوم عرفات کا روزہ، اُن کی مُقامی رویت ھلال کے مُطابق، اُن کے نو ذِی الحج کو رکھنا ہوگا " 


::::::: ( 2 ) ؛ 
::::::: رویت ھلال کے مسئلے کی تائید میں کریب رحمہُ اللہ اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا واقعہ، اور اِس کا جائزہ ::::::: 

رویت ھلال والی مذکورہ بالا حدیث شریف کی تائید میں، میرے دُوسری رائے والے بھائی، اپنی بات، اپنے فہم کی تائید کے طور پر، کریب رحمہُ اللہ، اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے درمیان پیش آنے والے درج ذیل واقعہ بھی پیش کرتے ہیں 

عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ قَالَ فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَىَّ رَمَضَانُ وَ أَنَا بِالشَّامِ فَرَأَيْتُ الْهِلاَلَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِى آخِرِ الشَّهْرِ فَسَأَلَنِى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ - رضى الله عنهما - ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلاَلَ فَقَالَ مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلاَلَ فَقُلْتُ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ. فَقَالَ أَنْتَ رَأَيْتَهُ فَقُلْتُ نَعَمْ وَ رَآهُ النَّاسُ وَ صَامُوا وَ صَامَ مُعَاوِيَةُ. فَقَالَ لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلاَ نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلاَثِينَ أَوْ نَرَاهُ. فَقُلْتُ أَوَلاَ تَكْتَفِى بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَ صِيَامِهِ فَقَالَ لاَ هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه و سلم - 

ترجمہ 
کریب ( بن ابی مسلم، ابو رشدین ) رحمہُ اللہ سے روایت ہے کہ اُم الفضل ( لُبابہ ) بنت الحارث ( رضی اللہ عنہا ) نے مجھے معاویہ ( رضی اللہ عنہ ُ ) کی طرف شام بھیجا، میں شام پہنچا، ام الفضل کا کام مکمل کیا، میں شام میں ہی تھا کہ مجھ پر رمضان کا مہینہ شروع ہو گیا، میں نے ( وہاں شام میں، رمضان کا ) چاند جمعہ کی رات میں دیکھا، 
اور پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ پہنچا، تو عبداللہ ابن عباس ( رضی اللہ عنہ ُ ) نے مجھ سے ( وہاں کے احوال کے بارے میں ) دریافت کیا، اور پھر چاند کے بارے میں پوچھا، کہ، تُم لوگوں نے وہاں چاند کب دیکھا تھا ؟ 
تو میں نے کہا، کہ، ہم نے جمعہ کی رات میں چاند دیکھا تھا، 
عبداللہ ابن عباس ( رضی اللہ عنہ ُ ) نے مجھ سے ( پھر ) کہا، کیا تم نے دیکھا تھا ؟ 
میں نے کہا، جی ہاں، میں نے دیکھا تھا اور لوگوں نے بھی دیکھا تھا، اور سب نے روزہ رکھا اور معاویہ ( رضی اللہ عنہ ُ ) نے بھی روزہ رکھا، 
تو عبداللہ ابن عباس ( رضی اللہ عنہ ُ ) نے کہا، لیکن ہم نے تو ہفتے کی رات میں دیکھا تھا، اور ہم اُس وقت تک روزہ رکھیں گے جب تک تیس روزے مکمل نہیں ہو جاتے، یا، ہم ( شوال کا ) چاند نہیں دیکھ لیتے، 
تو میں نے کہا کہ، کیا آپ کے لیے معاویہ ( رضی اللہ عنہ ُ ) کا چاند دیکھنا اور اُن ( رضی اللہ عنہ ُ ) کا روزہ رکھنا ( مہینے کے آغاز کا تعین کرنے کے لئے ) کافی نہیں، 
تو عبد اللہ ابن عباس ( رضی اللہ عنہ ُ ) نے کہا، نہیں، ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اِسی طرح کرنے کا حکم دِیا ہے ۔ ( صحیح مُسلم / حدیث / 2580 کتاب الصیام / باب 5 بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَ يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ )، 

::::::: اور اِس واقعہ کو نقل کرنے والے محدثین کرام رحمہم اللہ کے بنائے ہوئے ابواب کے عناوین کو بھی بطور دلیل ذِکر کیا جاتا ہے، 

قارئین کرام، اب اِن شاء اللہ ہم مذکورہ بالا دونوں روایات کو، دیگر روایات کی روشنی میں سمجھتے ہیں، 

لیکن اُس سے پہلے بہت اچھی طرح سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ، " یوم عرفات " کے روزے پر، اپنے اپنے علاقوں میں رویت ھلال، یعنی، چاند دیکھنے کے مُطابق مُقامی تاریخوں والا معاملہ لاگو نہیں ہوتا، 

اپنے اُن بھائیوں کی اِس مذکورہ بالا بات کے بہت سے جوابات دیے جا سکتے ہیں، لیکن جیسا کہ ابھی کہہ گذرا ہوں کہ " منطقی اور فلسفیانہ محاکمہ آرائی، اور قیاسات و خیالات پر مبنی مناقاشات کا سلسلہ عموماً لا متناہی ہوتا ہے، اور عموماً حق بات کو دُھندلانے کا، اور سیدھی صاف بات کو الجھانے کا سبب ہوتا ہے " ، 


::::: دُوسری رائے، کا جواب :::::

:::رویت ھلال، چاند دیکھ کر تاریخ ماننے کا مُعاملہ، اور کِسی خاص سبب سے کِسی دِن کی فضیلت :::

جیسا کہ ( صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ـ چاند دیکھ کر روزے رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار رہو ) کے بارے میں ابھی ابھی ذِکر کیا گیا کہ 

 " رمضان شریف کے عِلاوہ ہر قمری مہینے کے آغاز و اختتام کے بارے میں ایک قاعدہ قانون مانا جائے، تو بھی، اِس میں، اِس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ چاند دیکھے بغیر نئے مہینے کا آغاز نہیں کیا جائے گا، 

ایسا تو نہیں ہے کہ ہر ایک جگہ، ہر ایک شخص یا گروہ کے لئے یہ لازم قرار دِیا گیا ہے کہ وہ صِرف اپنی ہی دیکھے ہوئے چاند کے مُطابق ہی قمری مہینے کا آغاز و اختتام کرنا ہے، 
اور نہ ہی یہ ہے کہ صِرف اپنی اپنی جگہ، یا صِرف اپنی ہی بستی، گاؤں یا شہر میں چاند دیکھنے کی صُورت میں ہی نئے مہینے کا آغاز کیا جا سکتا ہے " ، 

اور اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ " یہ حدیث شریف، اِس میں بیان کردہ رویت ھلال کے مُطابق کِسی قمری مہینے کا آغاز یا اختتام کرنا، اور، کِسی خاص مخصوص سبب کی وجہ سے رکھے جانے والے روزے کو، محض قمری تاریخ کی بِنا ء پر، بغیر اُس سبب والے دِن میں لے آنے کی دلیل نہیں ہے " ، 

کیونکہ، " یوم عرفات " کا روزہ رکھنے کی فضیلت " یوم عرفات " میں ادا کئے جانے والے حج کے ایک منسک کی نسبت سے ہے، 

ایک مخصوص مُقام پر ادا کی جانے والی ایک مخصوص عِبادت کے سبب سے ہے، نہ کہ محض نو ذِی الحج کی تاریخ ہونے کی وجہ سے، لہذا " یوم عرفات " کا روزہ اپنی اپنی جگہوں میں دیکھے جانے والے چاند کے مُطابق نو ذِی الحج کو رکھے جانے کا مُعاملہ ہے ہی نہیں، 
بلکہ بڑی وضاحت سے اُس دِن روزہ رکھنے کی فضیلت ہے جِس دِن حاجی عرفات میں قیام کرتے ہیں، اور اُسی دِن کو یوم عرفات کہا جاتا ہے، 

اور حاجیوں کے اُسی قیام کی وجہ سے اُس قیام والے دِن کو فضیلت عطاء ہوئی، اور اُسی قیام کی وجہ سے وہ قیام والا دِن اللہ پاک کی طرف سے خصوصی بخشش عطاء کیے جانے والا ہوا، 

جی ہاں، یہ یوم عرفہ ( یوم عرفات ) مکہ مکرمہ اور اُس کی متابعت میں تاریخ اختیار کرنے والوں کے لئے تو نو ذِی الحج ہی " یوم عرفات " ہوتا ہے، اِسی دِن میں حاجی عرفات کے میدان میں جمع ہوتے ہیں، قیام کرتے ہیں، 
کِسی اور مُقام کی رویت ھلال کے مُطابق، جو مکہ کی رویت ھلال کے موافق نہ ہو، نو ذِی الحج " یوم عرفات " نہیں ہوتا، کیونکہ اُس دِن کوئی حاجی میدان عرفات میں قیام نہیں کرتا 

قارئین کرام، توجہ فرمائیے، اور تحمل سے تدبر فرمائیے کہ، اُوپر ذِکر کردہ دونوں احادیث مُبارکہ میں " یوم عرفات " کا ہی ذِکر ہے، نو ذِی الحج کا نہیں 

فقہا کرام، اور شارحین حدیث کے کلام میں بھی تقریباً سارا ہی کلام " یوم عرفات " کے نام و نِسبت سے ملتا ہے، 
اِس مذکورہ بالا حدیث مُبارک کے علاوہ کئی دیگر صحیح احادیث مُبارکہ میں " یوم عرفات " کی ہی فضیلت مذکور ہے، اُن میں بھی اِس دِن کو عرفات کی نسبت سے ذِکر کیا گیا ہے، نہ نو ذِی الحج کی نسبت سے، 

اور عرفات میں حاجیوں کے اجتماع اور قیام کو ہی اُن کی مغفرت کا سبب بتایا گیا ہے، نہ کہ نو ذِی الحج کی تاریخ ہونے کو، 
 
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خبر فرمائی ہے کہ 
مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ وَ إِنَّهُ لَيَدِنو ثُمَّ يُبَاهِى بِهِمُ الْمَلاَئِكَةَ فَيَقُولُ مَا أَرَادَ هَؤُلاَءِ ؟ 
اللہ، عرفات والے دِن کِسی بھی اور دِن کی نسبت، سب سے زیادہ بندوں کو جہنم سے نجات دیتا ہے، اور اُس دِن اللہ قریب تشریف لاتا ہے، پھر عرفات میں موجود حاجیوں کے بارے میں فرشتوں کے سامنے فخر کا اظہار فرماتے ہوئے اِرشاد فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاھتے ہیں ؟ 
صحیح مُسلم / کتاب الحج / باب 79، 

اور اِرشاد فرمایا : 
إِنَّ اللَّهَ يُبَاهِي بِأَهْلِ عَرَفَاتٍ مَلَائِكَةَ أَهْلِ السَّمَاءِ فَيَقُولُ : انْظُرُوا إلى عبادي هؤلاء جاءوني شُعثاً غُبراً 

اللہ عرفات ( میں جمع ہونے ) والوں کے بارے میں آسمان والے فرشتوں کے سامنے فخر کا اظہار فرماتا ہے اور اِرشاد فرماتا ہے کہ، دیکھو میرے اِن بندوں کی طرف، یہ اِس حال میں میری طرف آئے ہیں کہ اِن کے بال اور چہرے مٹی سے بھر چکے ہیں . 
تعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان / کتاب الحج / باب 11، 

واضح نصوص کے صریح مفہوم کے مُطابق یہ ہی دُرُست ہے کہ، 
پس کِسی شک کی گنجائش نہیں کہ، فضیلت اُسی دِن کی ہی ہے جِس دِن حاجی اپنے اللہ کی رحمت، برکت اور مغفرت کے طالب ہو کر عرفات میں جمع ہوتے ہیں، تاریخ کے اعتبار سے نو ذِی الحج نہیں، 

اب یہ دِن مکہ مکرمہ کے عِلاوہ کِسی اور مُقام پر رویت ھلال کے مُطابق آٹھ ذِی الحج بنے یا دس ذِی الحج، ہوگا یہ ہی " یوم عرفات " ، وہ دِن جِس دِن حاجی میدان عرفات میں قیام کرتے ہیں، 
حج کے تمام مناسک مکہ مکرمہ کی رویت ھلال کے مُطابق ادا کئے جاتے ہیں، قیام عرفات بھی اُن میں سے ایک ہے، 

کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر حج مکہ کے علاوہ کسی اور شہر یا ملک میں ہوتا، تو پھر بھی تو " یوم عرفات " وہاں کی رویت ھلال کے مُطابق نو ذِی الحج کے مُطابق ہوتا، 

جی ہاں، ایسا ہی ہوتا، لیکن پھر بھی بات وہیں کی وہیں رہتی، کہ باقی تمام جگہوں پر موجود مُسلمان اُسی قیام کی نِسبت سے، اُسی قیام والے دِن روزہ رکھتے، کیونکہ اُس روزے کی فضیلت، اجر و ثواب کا سبب حاجیوں کے اس قیام کو بنایا گیا ہے، نہ کہ اپنی اپنی رویت ھلال کے مُطابق نو ذِی الحج کے دِن کو، 
اِس فلسفے کو یہ کہہ کر بھی رد کیا جا سکتا ہے کہ اگر قیام عرفات نو ذِی الحج کے عِلاوہ کِسی اور دِن ہوتا، تو اِن مذکورہ بالا احادیث شریفہ کی روشنی میں روزہ کِس دِن رکھا جاتا، اور رکھا جانا چاہیے ؟؟؟ 
ظاہر ہے، اُسی دِن جِس دِن حاجی قیام عرفات کرتے، کیونکہ اِس روزے کی فضیلت، اجر و ثواب کا سبب حاجیوں کا قیام ہے، نہ کہ ایک مخصوص تاریخ ۔ 


::: رویت ہلال، چاند دیکھ کر اُس کے مُطابق یوم عرفات کا روزہ نو 9 ذِی الحج کو ہی رکھنے کی بات کی دلیل، اور جواب :::

منصوص دلائل کے مُطابق کِسی بھی جگہ کی رؤیت ہلال کے مُطابق وہاں آنے والی تاریخ نو ذِی الحج کو وہاں کے لوگوں کے لئے " یوم عرفات " سمجھنے کے لئے، اور اُس دِن " یوم عرفات " کا روزہ رکھنے کا کہنے والے میرے بھائی صاحبان کو صِرف ایک حدیث ملتی ہے، جِس کا سہارا لے کر وہ اپنی بات پر اصرار کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ وہ سہارا بہت کمزور اور اُس روایت کو دلیل بنانا بعید از حقیقت ہے، 

وہ حدیث درج ذِیل ہے :
اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ 
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ وَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ذِی الحج میں سے نو دِن روزہ رکھتے تھے، اور یوم عاشوراء ( دس محرم ) کا روزہ رکھتے تھے، اور ہر مہینے میں سے تین دِن کے روزے رکھتے تھے. 
سُنن الترمذِی / حدیث / 2439 کتاب الصوم / باب 62، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا، 

اب ہم اِسی حدیث کی دیگر صحیح روایات کو دیکھتے ہیں، جو اِسی سند سے منقول ہیں : 
اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ 
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه و سلم 
كَانَ يَصُومُ تِسْعًا مِنْ ذِى الْحِجَّةِ وَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَ خَمِيسَيْنِ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذِی الحج میں سے نو دِن روزہ رکھتے تھے، اور یوم عاشوراء ( دس محرم ) کا روزہ رکھتے تھے، اور ہر مہینے میں سے تین دِن کے روزے رکھتے تھے، ( اور وہ تین تھے ) ہر مہینے کا پہلا سوموار ( پیر کا دِن ) اور دو جمعرات کے دِن . 
سُنن الترمذِی / حدیث / 2417، کتاب الصیام / باب 83، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا، 

قارئین کرام، توجہ فرمایے، میں نے مذکورہ بالا دونوں روایات میں سے بالترتیب، حدیث شریف کے ترجمے میں " تِسْع ذِى الْحِجَّةِ " اور " تِسْعًا مِنْ ذِى الْحِجَّةِ " کا ترجمہ " ذِی الحج میں سے نو دِن روزہ " لکھا ہے، " نو ذِی الحج کا روزہ " نہیں لکھا، 
اور ایسا اِس لئے کہ اِن دونوں روایات میں " تِسْع ذِى الْحِجَّةِ " اور " تِسْعًا مِنْ ذِى الْحِجَّةِ " کا دُرُست مفہوم " ذِی الحج میں سے نو دِن روزہ " ہی بنتا ہے، نہ کہ " نو ذِی الحج کا روزہ " ، 
کیونکہ، " تِسع، و، تِسْعًا " عدد نہیں، بلکہ جُزء ہے، اگر عدد کا ذِکر ہو تا تو " تاسْع " کہا جاتا، 
اور اِس کی تائید بھی اِسی سُنن الترمذِی میں، اِسی مذکورہ بالا حدیث شریف کے بعد اِنہی اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بھی مذکور ہے کہ 
كَانَ النَّبِىُّ صلى الله عليه و سلم 
يَصُومُ الْعَشْرَ وَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ الاِثْنَيْنِ وَ الْخَمِيسَ 
نبی صلی اللہ علیہ و سلم، ( ذِی الحج کے پہلے ) دس دِن روزہ رکھتے تھے، اور ہر مہینے میں سے تین دِن کے روزے رکھتے تھے، ( اور وہ تین تھے ہر مہینے کا پہلا ) سوموار ( پیر کا دِن ) اور ( دو ) جمعرات ( کے دِن ) ۔

یہ دونوں روایات ایک دُوسرے کی تفصیل بیان کرنے والی ہیں، پس واضح ہوتا ہے کہ " تِسْعًا مِنْ ذِى الْحِجَّةِ " کا دُرُست مفہوم " ذِی الحج میں سے نو دِن روزہ " ہی بنتا ہے، نہ کہ " نو ذِی الحج کا روزہ " ، 
کیونکہ دسواں دِن تو عید کا ہوتا ہے، اور عید سے روزہ رکھنے کی مُمانعت فرمائی گئی ہے، اور کہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ رسول اللہ ﷺ نے اِس دِن روزہ رکھا ہو، لہذا، " الْعَشْرَ " کی تشریح، اور تفصیل " تِسْعًا مِنْ ذِى الْحِجَّةِ " یعنی " ذِی الحج میں سے نو دِن روزہ " ہے، 
یہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے، وہ میری ذاتی سوچ یا خود فہمی نہیں ہے، 

علامہ محمد عبدالرحمن مُبارک پوری رحمہُ اللہ نے " تحفۃ الاحوذی بشرح جامع الترمذی / ابواب الصوم / باب مَا جَاءَ فِي صِيَامِ الْعَشْرِ " میں، اور، علامہ عبید اللہ مبارک پوری رحمہُ اللہ نے " مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح " میں، اور علامہ عبدالمحسن العباد حفظہُ اللہ نے " شرح سُنن ابی داؤد " میں تقریبا ً یہی کچھ بیان فرمایا ہے، تفصیل کے متمنی اِن کتب کا مطالعہ فرما سکتے ہیں، 

تو مُعاملہ صاف ہوا کہ، اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ اِس حدیث شریف میں " نو ذِی الحج کا روزہ " رکھنے کا ذِکر نہیں، بلکہ " ذِی الحج کے پہلے نو دِن کے سارے روزے " رکھنے کا ذِکر ہے، 
لہذا یہ روایت کِسی بھی مُقام کی رویت ھلال کے مُطابق " نو ذِی الحج " کو " یوم عرفات " مان کر، اُس دِن روزہ رکھنے کی کوئی دلیل نہیں بنتی، 


::::: کچھ سوال و جواب ::::: 
 
سوال 
100 یا 200 سال پہلے لوگ کس دِن یوم عرفہ کا روزہ رکھتے تھے جب باہمی روابط اور خبر رسانی کا کوئی آج جیسا نظام اور وسیلہ نہ تھا، ایک مُقام کی خبر دُوسرے مقام تک دِنوں، ہفتوں یا مہینوں بعد پہنچتی تھی ؟

جواب 
 لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا 
اللہ کِسی جان کو اُس کی اِستطاعت سے زیادہ کا پابند نہیں کرتا 

پس مُعاملہ بہت سادہ اور واضح ہے کہ جِن کی اِستطاعت میں یوم عرفات کی خبر پانا نہ تھا، اُنہوں نے اپنی رویت ھلال کے مُطابق ہی نو ذی الحج کو یوم عرفات مان کر روزہ رکھا، اِن شاء اللہ قبول ہوگا، 

لیکن اب جب کہ بے خبری کی عِلت رفع ہو چکی، ساری دُنیا کے مُسلمان یوم عرفات کو نو دِن پہلے ہی جان جاتے ہیں، تو پھر عذر کیسا ؟ ؟ ؟


سوال 
جن ممالک کا سعودی عرب سے وقت میں زیادہ فرق نہیں ہے وہ تو یوم عرفات کا روزہ یوم عرفات کے مُطابق رکھ سکتے ہیں مگر جہاں وقت میں کافی فرق ہے جیسے امریکہ یا دُوسرے مغربی ممالک وہ تو پھر اِس روزے سے محروم رہ جائیں گے کیونکہ جب عرفات کا دِن ہوگا تو وہاں رات اور جب وہاں دِن ہوگا تو مکہ میں رات، اِس طرح تو اُن لوگوں کے لئے حقیقی یوم عرفات کے مُطابق روزہ رکھنا ممکن ہی نہ رہا، اور یوم عرفات کے مُطابق روزہ صرف اُن ممالک کے لئے مفید ہوا جہاں کم از کم دِن کے اوقات میں زیادہ فرق نہیں، جیسے پاکستان یا انڈیا وغیرہ چاہے وہاں تاریخ میں فرق ہو؟

جواب 
دُنیا کے جِن ممالک میں دِن اور رات کا فرق آ جاتا ہے، اُن کے لیے مُناسب ترین مُعاملہ یہ ہے کہ وہ قیام عرفات والے دِن کے بعد اُن کے ہاں آنے والے دِن روزہ رکھ لیں، خواہ وہ دِن اُن کے ہاں اُن کی رویت ھلال کے مُطابق آٹھ ذِی الحج ہو یا سات ذِی الحج، دس ذِی الحج کو عید ہوتی ہے اور اُس دِن روزہ رکھنا ممنوع ہے، اِس کے بارے میں بات ہو چکی ہے، 

اگر معاملہ نو ذِی الحج پر منحصر ہوتا تو احادیث شریفہ میں نو ذِی الحج کا ذِکر فرمایا جاتا، نہ کہ یوم عرفات کا، رویت ھلال، اور مطالع ھلال کا فرق رسول اللہ ﷺ کے عِلم میں بھی تو تھا، اور اللہ عزّ و جلّ جو ھلال و قمر کا خالق ہے جِس نے اُس کا مدار مقرر فرما رکھا ہے، وہ بھی تو جانتا تھا کہ مختلف مُقامات سے چاند دیکھنے کا فرق رہے گا، اور تاریخیں مختلف ہو جائیں گی، تاریخیں ہی کیا دِن اور رات کا فرق بھی رہے گا، لہذا تاریخ کے مُطابق فضیلت عطاء فرما کر اُسی کا اعلان کروایا جاتا، لیکن رب العزت نے ایسا نہیں کیا، نو ذی الحج کو سبب فضیلت نہیں بنایا، بلکہ اپنے حج کرنے والے بندوں کے عرفات میں جمع ہونے کو بنایا، 

اب یہ اُس کی مشئیت ہے کہ اُس نے حاجیوں کے عرفات میں جمع ہونے کا دِن مکۃ المکرمہ کی قمری تاریخوں کے مُطابق نو ذِی الحج کروایا، اگر وہ اِسے آٹھ، دس پندرہ کوئی اور دِن مقرر فرماتا تو وہی دِن تو یوم عرفات ہوتا،، 

جب اللہ عزّ و جلّ نے اپنے خلیل محمد ﷺ کی زبان مُبارک سے حاجیوں کے قیام عرفات کے مُقابل غیر حاجیوں کے لئے اُسی قیام والے دِن روزے کے اجر و ثواب کا اعلان کروایا تھا، تو بلا شک و شبہ اللہ پاک کے علم میں تھا کہ میرے مُسلمان بندوں میں کئی ایک ایسے ہوں گے جو اُس قیام والے دِن رات میں ہوں گے، 
اور یہ ایک ایسا مُعاملہ ہے جِس میں تبدیلی اللہ تبارک و تعالیٰ کے عِلاوہ کِسی کے اختیار میں نہیں، اور 
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا 
اللہ کِسی جان کو اُس کی استطاعت سے زیادہ کا پابند نہیں کرتا. 
اور 
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا 
اللہ کِسی جان کو اُس سے زیادہ کا پابند نہیں کرتا جتنا اللہ نے اُسے دِیا ہے. 
یہ مُعاملہ تو فرائض و واجبات کا ہے، نفلی عِبادات میں تو کوئی پابندی ہے ہی نہیں، 
پس یہ اللہ پاک کی مشئیت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ایسے بندوں کا قیام عرفات کے بعد، اُن بندوں کے ہاں آنے والے دِن کا روزہ قیام عرفات والے دِن کے روزے کے طور پر قُبول فرما لے، کیونکہ اللہ پاک کے ہی بنائے ہوئے نظام کے مُطابق وہ دِن تو اُن کے ہاں رات ہوتا ہے، 

رہا مُعاملہ اِس سوچ کا کہ دِن اور رات کے اِس فرق کی بِناء پر اپنی اپنی رویت ھلال کے مُطابق نو ذِی الحج کو یوم عرفات مان لیا جائے تو یہ حقیقت کے منافی ہے، کیونکہ یوم عرفات صِرف وہی ہوتا ہے جِس دِن حاجی میدان عرفات میں قیام کرتے ہیں، اور وہ قیام غیر حاجیوں کے اُس دِن روزہ رکھنے کے اُس اجر و ثواب کا سبب ہے جِس کا ذِکر احادیث شریفہ میں آیا ہے ۔ 


سوال 
اگر کہیں کی رؤیت ھلال کے مُطابق دس ذی الحج مکہ میں یوم عرفات ہو تو دس ذی الحج والے دِن مُسلمانوں کو یوم عرفات کے روزے کے بارے میں کیا کرنا چاہیے ؟ 

جواب 
آپ کے سوال کے جواب میں، اپنی ایک زیر تیاری کتاب " ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے کا حکم " میں سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں، جو آپ کے اِس سوال کا جواب ہے، اِن شاء اللہ 

 " اب ہم اِس موضوع کی طرف آتے ہیں کہ اگر کِسی کام کے بارے میں جواز اور مُمانعت دونوں ہی حُکم صحیح سندوں کے ساتھ ملتے ہوں تو اِس صورت میں جواز اور مُمانعت میں سے کِس کو أختیار کیا جائے گا اور اُس پر عمل کیا جائے گا، 
 فقہ کے قواعد و أصول میں یہ مقرر ہے کہ 
 " اِذا تعارض الحاظرُ المبیح فلیؤخذ الحاظر و یُترَک المبیح " 
یعنی 
 " اگر مُمانعت کا حُکم اور جواز کا حُکم ایک دُوسرے سے ٹکراتے ہوں تو مُمانعت والے حُکم پر عمل کیا جائے گا اور جواز والے کو ترک کر دیا جائے گا " ، 
اِس أصول کی دلیل رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث مبارک ہے، جِس کا ذِکر ابھی چند سطر کے بعد کِیا جائے گا . اِن شاء اللہ ۔ 
 
چونکہ ( اُم المؤمنین ) جویریہ بنت الحارث ( رضی اللہ عنہا ) اور أبو ہُریرہ ( رضی اللہ عنہ ُ ) والی دونوں أحادیث میں زیادہ سے زیادہ ہفتے کو نفلی روزہ رکھنے کا جواز ہی ملتا ہے، تو ایسی صورت میں جواز پر عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ مُمانعت پر عمل کیا جائے گیا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حُکم دِیا ہے کہ 
إِذا أمرتُکُم بِأمرٍ فأتوا مِنہ ُ ما أستطعتُم، و إِذا نھیتُکُم عَن أمر ٍ فأنتھوا 
جب میں تمہیں کوئی کام کرنے کا حُکم دوں تو اپنی طاقت و قدرت کے مُطابق اُس پر عمل کرو اور جب میں تمہیں کِسی کام کے کرنے سے منع کروں تو اُسے کرنے سے باز آ جاؤ 

عن أبی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ، صحیح البخاری، حدیث 7288، صحیح مُسلم، حدیث 1377 

اِس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے ألفاظ ہمیں صاف صاف سمجھا رہے ہیں کہ مُمانعت کے حُکم ( نہی ) میں کوئی أختیار نہیں، اُس پر عمل کرنا ہی کرنا ہے اور منع شدہ کام سے باز آنا ہی ہے اِس میں اپنی اِستطاعت ( طاقت و قدرت ) کے مُطابق عمل کرنے کی بھی گنجائش نہیں جیسا کہ کِسی کام کو کرنے کے حُکم ( أمر ) پر عمل کرنے میں اپنی اِستطاعت کے مُطابق کرنے کی نرمی دی گئی ہے، 
تو کیا صاف صریح مُمانعت مشروط جواز اور أختیار کے خلاف ہوتی ہے ؟ ہرگِز نہیں، اِختلاف أحادیث میں نہیں بلکہ اپنے فہم میں ہے یا یہ کہئے کہ اپنے محدود فہم میں ہے، اور جب کوئی اِختلاف نہیں تو پھر ناسخ اور منسوخ کی طرف دوڑ لگانے کی قطعا ً کوئی ضرورت نہیں جیسا کہ علم الاصول میں مقرر ہے ۔ 

مُمانعت کے حُکم ( نہی ) کو کام کرنے کے حُکم ( أمر ) پر فوقیت دِینا صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے، إمام الطیالسی اپنی مُسنَد میں روایت کرتے ہیں کہ 

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے کِسی نے پوچھا کہ اگر کوئی جمعہ کو روزہ رکھنے کی منّت ( نذر ) مان لے تو اُسکا کیا حُکم ہے ؟ 
 تو عبد اللہ رضی اللہ عنہ ُ نے جواب دِیا : 
ہمیں منّت ( نذر ) پوری کرنے کا حُکم دِیا گیا ہے اور جمعہ کا روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے، 
 
ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اِس جواب سے صاف ظاہر ہے کہ وہ مُمانعت کے حُکم ( نہی ) کو کام کرنے کے حُکم ( أمر ) پر فوقیت دے رہے ہیں کیونکہ نہی میں کوئی أختیار نہیں " ۔ اقتباس ختم ہوا ۔ 

مذکورہ بالا معلومات کی روشنی میں اِن شاء اللہ آپ پر واضح ہو چکا ہوگا کہ مُمانعت والے کام سے باز ہی رہنا ہے، 
اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ، عید والے دِن روزہ نہ رکھنا، نہی ہے، یعنی مُمانعت والا حکم ہے، کام نہ کرنے کا حکم ہے، 

اب اگر اِس کے مُقابلے میں کہیں کی رویت ھلال کے مُطابق یہ عید والا دِن حقیقی فعلی یوم عرفات ہو، تو اُس دِن غیر حاجیوں کا روزہ رکھنے کا مُعاملہ، جو کہ ایک ترغیبی مُعاملہ ہے، یعنی اُس کا تو کوئی حکم بھی نہیں دِیا گیا، صِرف ترغیب دلائی گئی ہے، ایسا ترغیبی معاملہ ایک صریح حکم کی خِلاف ورزی کے بغیر مکمل نہ ہو رہا ہو تو، بلا شک و بلا تردد حکم پر عمل کیا جائے گا، اور روزہ نہیں رکھا جائے گا، 

اور اگر ایسی صُورت میں روزہ نہ رکھنے والے اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد ﷺ کی اطاعت کی نیت سے روزہ نہ رکھیں گے تو اِن شاء اللہ، اُنہیں اُس روزے کے اجر سے زیادہ اجر ملے گا کیونکہ 

إِنَّكَ لَنْ تَدَعَ شَيْئاً لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلاَّ بَدَّلَكَ اللَّهُ بِهِ مَا هُوَ خَيْرٌ لَكَ مِنْهُ 

تُم جب بھی کوئی چیز اللہ عزّ و جلّ کی خاطر چھوڑو گے تو وہ یقیناً تمہیں اس کے بدلے میں وہ کچھ عطاء کرے گا جو تمہارے لئے اُس چھوڑے جانے والی چیز سے زیادہ خیر والا ہو گا. 
مُسند احمد / حدیث / 23124 احاديث رجال من اصحاب النبي صلى الله عليه و سلم میں سے حدیث رقم 13، شیخ شعیب الارنؤوط رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا، 

اور کچھ دیگر اسناد کے حوالے سے اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا، سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ / حدیث رقم 5 کے ضمن میں، 


:::::::: کچھ لوگ اس بحث کو بھی، اِس مسئلے میں شامل کر لیتے ہیں کہ عرفات کا نام عرفۃ، عرفات کیوں ہے؟ جمعے کا دِن جمعہ کیوں رکھا گیا ؟
جبکہ اِن سوالات کا، اِس موضوع کا، ہمارے زیر مطالعہ و زیر تفہیم مسئلے سے کچھ تعلق نہیں بنتا، بلکہ دِین کے کِسی بھی مُعاملے کا اِس سے کوئی تعلق نہیں بنتا، 
 ہمارے لیے اتنا جاننا کافی ہے کہ کِس جگہ، کِس مُقام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اور اُس کے رسول کریم محمد ﷺ نے عرفات فرمایا ہے، اور اُس مقام سے متعلق کون کون سے عمل ذِکر فرمائے ہیں، اور اُن اعمال میں سے کِس کِس کا کیا نتیجہ بتایا ہے، لہذا ہمیں اللہ عزّوجلّ اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ ﷺ کے احکام اور فرامین کے مُطابق عقائد و اعمال اپنانے اور مکمل کرنا ہیں. 

اللہ تقدس أسماوہُ، ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ ہم اُس کے دِین کو اُس کی مُراد، اور رضا کے مُطابق سمجھیں، اپنائیں، اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اللہ کے سامنے حاضر ہو سکیں، 

و السلام علیکم، 

طلب گار دُعاء، 
عادِل سُہیل ظفر ۔ 

تاریخ کتابت : 
21 / 11 / 1437 ہجری، 
بمطابق، 24 / 08 / 2016 عیسوئی، 

تاریخ تجدید : 
 02/12/ 1438 ہجری، 
بمطابق، 24/08/2017 عیسوئی۔


:::::: ایک اور أہم بات ::::::: 

اگر عرفات کا دِن، یا کوئی بھی اور ایسا دِن جِس دِن میں نفلی روزہ رکھنے کی فضیلت اور اضافی اجر و ثواب کی خبر دی گئی ہو، ہفتے کے دِن میں آن پڑے تو وہ روزہ نہیں رکھا جائے گا، 
 کیونکہ ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے سے رسول اللہ ﷺ نے بہت سختی سے منع فرمایا ہے، 
ارشاد فرمایا ہے کہ 
 لاتصوموا یومَ السبت اِلَّا فیمَا افتُرض َ علیکُم، فاِن لم یَجِدَ أحدکُم اِلَّا عُودَ عِنَبٍ أو لَحَاءَ شجرۃٍ، فَلیَمُصّہُ 

ہفتے کے دِن کا روزہ مت رکھو، سوائے فرض روزے کے اگر تُم سے کِسی کو انگور کی لکڑی یا درخت کی جڑ کے عِلاوہ اور کُچھ نہ ملے تو اِسی کو چُوس لو . 
نہ ہی اس حکم سے کسی استثناء کی گنجإئش ہے، جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہفتے کے ساتھ کسی اور دِن کا روزہ ملا لیا جإئے تو پھر ہفتے کا نفلی روزہ رکھا جا سکتا ہے 

اس موضوع پر جنوری 2004 میں‌ میں نے ایک تحقیقی کتاب لکھی تھی، ان شاء اللہ جلد ہی اسے ری فارمیٹ کر کے قارٕئین کے لیے پیش کروں گا، اِن شاء اللہ اُس کا مطالعہ تمام اشکال رفع کرنے کا سبب ہوگا، فی الحال یہ سمجھ لیجیے کہ ہفتے کا نفلی روزہ نہیں رکھا جانا چاہیے، 
اور اِسی طرح صِرف جمعے کے دِن کوئی نفلی روزہ نہیں رکھا جانا چاہیے، یہ بھی ممنوع ہے، لہذا اگر کوئی جمعے کے دِن کا نفلی روزہ رکھنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے لازم ہے کہ وہ جمعے سے پہلے جمعرات کا روزہ بھی رکھے، اِس مسئلے کی ساری تفصیل بھی میری اُس کتاب میں میسر ہے، جس میں سے کچھ حصے درج ذیل ربط پر کچھ شبہات کے جواب کے طور پر بھی میسر ہیں :

عادل سہیل ظفر 

~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۱۲ 

سوال 
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته 

عرفہ کا روزہ کس دن کا رکھنا چاہیے ؟ جب کہ نو ذو الحجہ کو سعودیہ میں دس ذی الحجہ کا دن ہوتا ہے ۔ 
 ( ابو طاہر نذیر احمد، عبد الرشید ۔ کراچی ) 
 ( ۲۳ فروری ۲۰۰۱ء ) 

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

و علیکم السلام و رحمة الله و برکاته ! 

الحمد لله، و الصلاة و السلام علىٰ رسول الله، أما بعد ! 

روزہ عرفہ کے دن ہی رکھنا چاہیے جب سعودیہ میں یومِ عرفہ ( یومِ حج ) ہو، کیونکہ ساری اہمیت اُس دن کی ہے، تاریخ کی نہیں ۔ 

 ھذا ما عندی و الله اعلم بالصواب 
 
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی 
جلد : 3، کتاب الصوم، صفحہ : 245 
محدث فتویٰ 


~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۱۳

سوال 
السلام عليكم و رحمة الله و برکاته 

’’ الاعتصام ‘‘ کی جلد نمبر ۵۳ کے شمارہ نمبر ۷ ( ۲۳ فروری تا یکم مارچ ۲۰۰۱ء ) کے ص : ۱۱ پر قربانی کے ضروری مسائل : سوال ہے کہ عرفہ کا روزہ کس دن رکھنا چاہیے ؟ تو آپ نے سعودیہ کے یوم حج کو معتبر قرار دیا ہے ۔ اس پر گزارش ہے کہ : 

یہ بات تب ممکن ہے کہ پوری امت مسلمہ کی رؤیت ہلال ایک ہی ہو ۔ عام حالات میں ہمارا یکم رمضان المبارک ہمارا یوم النحر ( عید قربان ) رمضان المبارک کی طاق راتیں ( شب قدر ) آخری عشرہ ( اعتکاف ) عید الفطر، عید الاضحی طرح کی تمام تر عبادات جو تاریخ ( مہینہ و دن ) یا وقت کے اعتبار سے مقرر ہیں ہر صورت سعودیہ سے مختلف ہیں تو اس میں کیا حرج ہے ؟ کیا ان میں مطابقت ضروری نہیں ہے ؟ یوم عرفہ میں مطابقت کیونکر ضروری ہے ؟ اگر ضروری ہے تو دوسری عبادات میں مطابقت کو مقدم کیوں نہیں سمجھا جاتا ؟ 
 ( حافظ محمد اسحاق ۔ خانقاہ ڈوگراں، شیخوپورہ ) 
 ( ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء ) 

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

و علیکم السلام و رحمة الله و برکاته ! 

الحمد لله، و الصلاة و السلام علىٰ رسول الله، أما بعد ! 

اصل بات یہ ہے کہ یوم عرفہ کے روزے کا تعلق وقت اور جگہ دونوں سے ہے ۔ اس بناء پر اعتبار ان اوقات کا ہوگا جن میں حاجی عرفات میں وقوف کرتا ہے ۔ اگرچہ حاجی کے لیے روزہ رکھنا غیر درست ہے اور جہاں تک سوال میں ذکر کردہ دیگر عبادات و معاملات کا تعلق ہے سو یہ صرف زمانے کے متعلق ہیں ۔ لیل و نہار کی گردش سے ان کے اوقات بدلتے رہتے ہیں، مثلاً سورج کھڑا ہو تو کوئی نہیں کہتا مغرب کا وقت ہو گیا لیکن جس مقام پر بالفعل غروب ہو چکا ہے وہاں نماز کی ادائیگی ضروری ہے ۔ اس طرح کبھی کسی نے یہ نہیں کہا سعودی عرب میں حج گزشتہ روز ہو چکا مگر ہمارا حج کل ہے کیونکہ ہمارے ہاں ذو الحجہ کی نو تاریخ کل ہے سب یہی کہیں گے حج ہماری آٹھویں اور سعودیہ کی نویں تاریخ کو ہو چکا ہے ۔ لہٰذا اعتبار سعودیہ کی نو تاریخ کا ہوا کیونکہ یہ واقعہ کے مطابق ہے جب کہ ہماری نویں تاریخ حقائق کے منافی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیگر امور کو حج پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے ۔ 

 ھذا ما عندی و الله اعلم بالصواب 
 
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی 
جلد : 3، کتاب الصوم : صفحہ : 246 
محدث فتویٰ 


~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۱۴ 

عرفہ کا روزہ 

ڈاکٹر عبد الرافع عمری 

صفحات 17 


~~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر ۱۵ 

عرفہ کا روزہ 
احکام و مسائل اور بعض شبہات کا ازالہ 

 عبد العلیم عبد الحفیظ سلفی 

مراجعہ 
احمد مجتبی سلفی مدنی 

صفحات 42 


~~~~~~~~~~~~~~؛

ختم شد 

 ~~~~

کتاب و سنت اور فہم سلف پر مبنی تحقیق و تخریج کردہ دینی کتب کی لنکس حاصل کر سکتے ہیں کبھی بھی کسی بھی وقت، ٹیلگرام چینل

*"سلفی تحقیقی لائبریری"*

میں جوائین ہوکر، سرچ کرکے

بذریعہ ٹیلیگرام اس چینل میں جوائین کرنے کیلئے لنک 👇🏻

https://telegram.me/salafitehqiqikutub/2747

~~~~

ٹیلی گرام اکاؤنٹ اوپن کرنے کیلئے حاصل کریں ٹیلی گرام کی ایپ نیچے کی لنک سے 👇🏻

"Telegram"
https://play.google.com/store/apps/details?id=org.telegram.messenger

~~~~

ثواب جاریہ کیلئے شئیر کریں.

.