ہفتہ، 27 مارچ، 2021

کنچوسی کا معنی اور کنجوس شوہر ‏کا ‏بیان

.

کنچوسی کا معنی اور کنجوس شوہر کا بیان

شریعت میں بخل کی تعریف

؛~~~~~~~~~~؛

سوال
شریعت اسلامیہ کے مطابق  مرد کس وقت اپنے بچوں اور بیوی کے بارے میں بخیل کہلائے گا؟ کیونکہ کچھ لوگ میرےبارے کہتے ہیں کہ میں اپنے ذمہ واجبات ادا کر رہا ہوں اور کچھ کہتے ہیں کہ میرے اندر کچھ بخل موجود ہے۔

جواب کا خلاصہ
جو شخص اپنی بیوی اور بچوں پر اپنی حیثیت کے مطابق کما حقہ خرچ نہیں کرتا  تو وہ بخیل ہے۔
جواب کا متن
الحمد للہ.

اول:

بخل مذموم صفت ہے،  بخیلی سے بڑی بھی کیا   بیماری ہو سکتی ہے؟ اس کی تعریف کے سلسلے میں علمائے کرام کی مختلف تعبیریں ہیں۔

جیسے کہ ابن مفلح رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بعض علمائے کرام نے بخیلی کی تعریف میں متعدد اقوال بھی ذکر کئے ہیں:

پہلا قول: زکاۃ نہ دینا؛ لہذا اگر کوئی شخص زکاۃ ادا کرتا ہے تو وہ بخیل کے اطلاق سے باہر ہو گیا۔۔۔

دوسرا قول: زکاۃ اور ذمیہ نان و نفقہ نہ دینا، اس تعریف کی روشنی میں اگر کوئی شخص زکاۃ تو ادا کرتا ہے، لیکن واجب نان و نفقہ  نہیں دیتا تو وہ بخیل شمار ہو گا، [اس تعریف کو ابن قیم وغیرہ نے پسند کیا ہے۔]

تیسرا قول : اپنے ذمہ واجبات  دینا اور تحفے ، تحائف دینا، اگر کوئی شخص تحفے تحائف دینے میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ بخیل شمار ہو گا۔ [اس تعریف کو غزالی اور دیگر نے پسند کیا ہے]" ابن مفلح کی کتاب آداب شرعیہ (3/303) سے مختصراً اقتباس مکمل ہوا۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بخیل اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے ذمہ واجب خرچے ادا نہ کرے، چنانچہ جو شخص اپنے ذمہ تمام واجب خرچےادا کر دے تو اسے بخیل نہیں کہا جائے گا، بخیل وہی ہے جو لازمی  اور ضروری خرچےادا نہ کرے" ختم شد
دیکھیں: جلاء الافہام، ص: (385) اسی طرح کی بات امام قرطبی : (5/193) نے بھی لکھی ہے۔

غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بخیل وہ شخص ہے جو جہاں پر خرچ کرنے کی ضرورت ہو وہاں پر خرچ نہ کرے، چاہے وہ ضرورت شریعت کی روشنی میں ہو یا مروّت کی روشنی میں، تو ایسے میں اس کی مقدار معین کرنا ممکن نہیں ہوتا" ختم شد
ماخوذ از: احیاء علوم الدین: (3/260)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی ان کے موقف کی تائید کی ہے، چنانچہ آپ کہتے ہیں کہ:
"بخل: یہ ہے کہ جو چیز خرچ کرنا آپ پر واجب ہو  اسے خرچ نہ کریں، یا جسے خرچ کرنا مناسب ہو اسے بھی خرچ نہ کریں" ختم شد
دیکھیں: شرح ریاض الصالحین: (3/410)

اس بارے میں مزید کے لیے دیکھیں: (111960)

دوم:

مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد پر عرف کے مطابق خرچ کرے۔ اہل و عیال کے نان و نفقے میں کھانا پینا، لباس، رہائش اور دیگر بیوی اور بچوں کی ضروریات شامل ہیں کہ جن کے بغیر گزارا ممکن نہیں جیسے کہ علاج معالجہ، تعلیم اور دیگر ضروری  اخراجات وغیرہ۔

نیز اہل و عیال پر خرچہ خاوند  کی مالی حیثیت کے مطابق ہو گا؛ کیونکہ فرمان باری تعالی ہے:
( لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا)
ترجمہ: صاحب حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے اور جس پر رزق محدود کر دیا گیا ہے تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ تعالی نے اسے عطا کیا ہے، اللہ تعالی کسی نفس کو اتنا ہی مکلف بناتا ہے جتنا اللہ نے اسے دیا ہے۔[ الطلاق:7]

اس لیے بیوی اور بچوں کا نفقہ مرد کی مالی حیثیت اور وسعت کے مطابق الگ الگ ہو گا، لہذا اگر کوئی صاحب ثروت ہے تو اپنی بیوی اور بچوں پر کھل کر خرچ کرے ، لیکن اگر وہ کنجوسی کرتا ہے تو اسے بخیل شمار کیا جائے گا؛ کیونکہ اس نے اپنے ذمہ واجبات ادا نہیں کئے۔

اور اگر کوئی تنگ دست ہے تو وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے گا، اسی طرح اگر کوئی متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرے گا، نیز یہ بھی واضح رہے کہ اللہ تعالی ہر نفس کو اسی چیز کا مکلف بناتا ہے جو اللہ تعالی نے اس نفس کو دی ہے۔

لہذا اس کی شرعی حد بندی نہیں ہے، تو نان و نفقہ کی مقدار کے حوالے سے  عرف معتبر ہو گا۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (3054) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم

https://islamqa.info/ur/answers/238938 

.

بانجھ عورت سے شادی ‏کرنا؟ ‏

.

بانجھ عورت سے شادی کا حکم؟ 

؛~~~~~~~~~~~~~؛

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسى عورت سے شادى كرنے كى رغبت دلائى ہے جو زيادہ محبت كرنے والى اور زيادہ بچے جننے والى ہو، انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمايا كرتے تھے:

" تم ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں روز قيامت انبياء كے ساتھ زيادہ ہونے پر فخر كرونگا "

مسند احمد حديث نمبر ( 12202 ) ابن حبان نے صحيح ابن حبان ( 3 / 338 ) اور الھيثمى نے مجمع الزوائد ( 4 / 474 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور شمس آبادى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" الودود " يعنى جو اپنے خاوند سے محبت كرتى ہو.

" الولود " يعنى جو كثرت سے اولاد جنتى ہو، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ دونوں قيديں اس ليے لگائيں كہ جب وہ محبت كرنے والى نہ ہو تو خاوند اس ميں رغبت نہيں كريگا، اور جب محبت كرنے عورت زيادہ بچے نہ جنے تو مطلوب حاصل نہيں ہوتا اور وہ مطلوب زيادہ بچے پيدا كر كے امت مسلمہ كو زيادہ كرنا ہے، اور كنوارى عورتوں ميں يہ دونوں وصف ان عورتوں كے رشتہ داروں سے معلوم ہو سكتے ہيں، كيونكہ غالبا رشتہ داروں ميں طبيعت ايك دوسرے ميں سرايت كرتى ہے " انتہى

ديكھيں: عون المعبود ( 6 / 33 - 34 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بانجھ عورت سے شادى كرنے سے منع فرمايا ہے.

معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك شخص آيا اور عرض كرنے لگا:

مجھے ايك حسب و نسب والى خوبصورت عورت كا رشتہ ملا ہے ليكن وہ بانجھ ہے بچے نہيں جن سكتى كيا ميں اس سے شادى كر لوں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہ كرو.

وہ پھر دوبارہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو آپ نے دوسرى بار بھى اسے روك ديا، اور پھر وہ تيسرى بار آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم شادى ايسى عورت سے كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارے ساتھ باقى امتوں سے زيادہ ہونے ميں فخر كرونگا "

سنن نسائى حديث نمبر ( 3227 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ).

اسے ابن حبان ( 9 / 363 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1921 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور يہ نہى تحريم كے ليے نہيں بلكہ صرف كراہت كى بنا پر ہے، علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ زيادہ بچے جننے والى عورت اختيار كرنا مستحب ہے واجب نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور مستحب يہ ہے كہ عورت ايسى ہو جو زيادہ بچے جننے ميں معروف ہو " انتہى

اور مناوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" زيادہ بچے نہ جننے والى عورت سے شادى كرنا مكروہ تنزيہى ہے " انتہى

ديكھيں: الفيض القدير ( 6 ) حديث نمبر ( 9775 ).

جس طرح عورت كے ليے بھى بانجھ مرد سے شادى كرنا جائز ہے، اسى طرح مرد كے ليے بانجھ عورت سے شادى كرنا جائز ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں لكھتے ہيں:

" اور وہ شخص جو نسل پيدا نہيں كر سكتا اور نہ ہى اسے عورتوں ميں كوئى رغبت اور خواہش ہے اور نہ ہى استمتاع اور فائدہ كى كوئى خواہش ہے تو اس كے حق ميں ( نكاح كرنا ) مباح ہے اگر عورت كو اس كا علم ہو جائے اور وہ اس پر راضى ہو " انتہى

ماخوذ  
https://islamqa.info/ur/answers/73416

.

بدھ، 24 مارچ، 2021

زیادہ مہر دینے سے عمر کا منع کر کے پھر رجوع کرنا روایات کی تحقیق رفیق طاہر


بسم الله الرحمن الرحيم 
:+:+:+:+:+:+:+:+:+:+:+:

زیادہ مہر دینے سے عمر رضی اللہ عنہ کا منع کر کے پھر رجوع کرنے کی روایت کی تحقیق 

شیخ الحدیث محمد رفیق طاہر   

`~`~`~`~`~`~`~`~`~`~`

کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زیادہ حق مہر دینے سے منع کیا تھا اور ایک عورت کے ٹوکنے پر انہوں نے اپنے فیصلہ سے رجوع کرلیا تھا ؟ 

الجواب بعون الوہاب 

 سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا زیادہ حق مہر دینے سے منع کرنا تو ثابت ہے۔ البتہ انہیں عورت کے ٹوکنے اور رجوع کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ 

 ابو العجفا السلمی کہتے ہیں: خَطَبَنَا عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ، فَقَالَ: «أَلَا لَا تُغَالُوا بِصُدُقِ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا، أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً»  

عمر رحمہ اللہ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: خبردار! عورتوں کے حق مہر میں غلو نہ کرو۔ اگر یہ کام دنیا میں عزت کا باعث یا اللہ کے ہاں تقوى کا باعث ہوتا تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم اسکے زیادہ حقدار تھے (کہ وہ یہ کام کرتے) رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کسی کو بھی بارہ اوقیہ (126 تولہ چاندی) سے زیادہ حق مہر نہیں دیا اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سے کسی کو بھی اس سے زیادہ نہیں دیا گیا۔  
سنن ابی داود: 2106  

اس صحیح روایت سے ثابت ہوتا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کے حق میں مبالغہ کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ انکے اس فیصلہ سے انکا رجوع ثابت نہیں ہے۔ 

اور جو قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک عورت نے اٹھ کر ٹوکا تو انہوں نے رجوع کر لیا وہ قصہ ثابت نہیں۔  

اسکی تفصیل درج ذیل ہے: 

امام عبد الرزاق الصنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عَنْ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنَ السُّلَمِيِّ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «لَا تُغَالُوا فِي مُهُورِ النِّسَاءِ»، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ: لَيْسَ ذَلِكَ لَكَ يَا عُمَرُ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: «وَإِنْ آتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا مِنْ ذَهَبٍ» قَالَ: وَكَذَلِكَ هِيَ فِي قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ «فَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا»، فَقَالَ عُمَرُ: «إِنَّ امْرَأَةً خَاصَمَتْ عُمَرَ فَخَصَمَتْهُ» 

عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا عورتوں کے حق مہر میں مبالغہ نہ کرو۔ تو ایک عورت نے کہا اے عمر! رضی اللہ عنہ آپ کے لیے یہ جائز نہیں, اللہ تعالى تو فرماتے ہیں : «وَإِنْ آتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا مِنْ ذَهَبٍ فَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا» ''اگرچہ تم نے انہیں سونے کا خزانہ بھی دیا ہو تو تمہارے لیے اس میں سے کچھ بھی لینا حلال نہیں ہے۔ - عبد اللہ کی قراءت میں ایسے ہی ہے (یعنی لفظ ''ذھبا'' کے اضافہ کے ساتھ) - تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایک عورت نے عمر سے جھگڑا کیا اور وہ جیت گئی۔ 
مصنف عبد الرزاق : 10420 

اس روایت کی سند میں قیس بن ربیع الاسدی سوء الحفظ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اور ابو عبد الرحمن السلمی عبد اللہ بن حبیب بن ربیعہ کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔ یعنی سند منقطع بھی ہے۔ 

یہی واقعہ ابن عبد البر نے بھی نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں:  
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ نا الْعَائِذِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ زَكَرِيَّا الْبَاذِنْجَانِيُّ، نا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ، نا الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ، نا عَمِّي، عَنْ جَدِّي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُصْعَبٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: " لا تَزِيدُوا فِي مُهُورِ النِّسَاءِ عَلَى أَرْبَعِينَ أُوقِيَّةً، وَلَوْ كَانَتْ بِنْتَ ذِي الْعَصَبَةِ يَعْنِي يَزِيدَ بْنِ الْحُصَيْنِ الْحَارِثِيَّ، فَمَنْ زَادَ أَلْقَيْتُ زِيَادَتَهُ فِي بَيْتِ الْمَالِ، فَقَامَتِ امْرَأَةٌ مِنْ صَفِّ النِّسَاءِ طَوِيلَةٌ فِيهَا فَطَسٌ، فَقَالَتْ: مَا ذَلِكَ لَكَ، قَالَ: وَلِمَ؟ قَالَتْ: لأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ: وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا فَقَالَ عُمَرُ: امْرَأَةٌ أَصَابَتْ وَرَجُلٌ أَخْطَأَ " 

عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم عورتوں کا حق مہر چالیس اوقیہ سے زیادہ نہ بڑھاؤ۔ خواہ قریبی مرد رشتہ دار یعنی زید بن حصین الحارثی کی بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔ جس نے بھی زیادہ دیا میں وہ اضافی مہر بیت المال میں جمع کر دوں گا۔ تو عورتوں کی صف میں سے ایک لمبے قد کی اونچی ناک والی عورت کھڑی ہوئی اور اس نے کہا یہ آپ کے لیے درست نہیں ہے۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگی کیونکہ اللہ تعالى نے فرمایا ہے: وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا اور تم نے ان میں سے کسی کو خزانہ بھی دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی نہ لو۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : عورت نے درست کہا اور آدمی (یعنی عمر رضی اللہ عنہ) سے غلطی ہوگئی۔ 
 جامع بيان العلم وفضله: 864 

لیکن یہ سند بھی ضعیف ہے۔ اس میں زبیر بن بکار کا داد عبد اللہ بن مصعب ضعیف الحدیث ہے۔ اور عبد اللہ بن مصعب نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ بھی نہیں پایا یعنی سند منقطع بھی ہے۔ 

 یہ واقعہ مجالد از شعبی کے طریق سے بھی مروی ہے , شعبی کہتے ہیں:  
خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: أَلَا لَا تُغَالُوا فِي صُدُقِ النِّسَاءِ فَإِنَّهُ لَا يَبْلُغُنِي عَنْ أَحَدٍ سَاقَ أَكْثَرَ مِنْ شَيْءٍ سَاقَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ سِيقَ إِلَيْهِ إِلَّا جَعَلْتُ فَضْلَ ذَلِكَ فِي بَيْتِ الْمَالِ، ثُمَّ نَزَلَ فَعَرَضَتْ لَهُ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ فَقَالَتْ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَوْ قَوْلُكَ؟ قَالَ: بَلْ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَمَا ذَلِكَ؟ قَالَتْ: نَهَيْتَ النَّاسَ آنِفًا أَنْ يُغَالُوا فِي صُدُقِ النِّسَاءِ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ {وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا} [النساء: 20] فَقَالَ عُمَرُ: كُلُّ أَحَدٍ أَفْقَهُ مِنْ عُمَرَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ لِلنَّاسِ: «إِنِّي نَهَيْتُكُمْ أَنْ تُغَالُوا فِي صُدُقِ النِّسَاءِ أَلَا فَلْيَفْعَلْ رَجُلٌ فِي مَالِهِ مَا بَدَا لَهُ» 

 عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا عورتوں کے حق مہر میں مبالغہ نہ کرو۔ مجھے کسی کے بارہ میں بھی پتہ چلا کہ اس نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے جو حق مہر دیا تھا اس سے زیادہ حق مہر دیا ہے تو میں زائد حصہ بیت المال میں جمع کر دوں گا۔ پھر وہ منبر سے اترے تو قریش کی ایک عورت انکے سامنے آئی اور کہنے لگی اے امیر المؤمنین اللہ کی کتاب زیادہ حقدار ہے یا آپکی بات کہ ہم اسکی پیروی کریں؟ فرمانے لگے اللہ کی کتاب, لیکن بات کیا ہے؟ تو اس نے کہا آپ نے ابھی ابھی لوگوں کو حق مہر میں مبالغہ کرنے سے روک دیا ہے جبکہ اللہ عز وجل اپنی کتاب میں فرماتا ہے: وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا اور تم نے ان میں سے کسی کو خزانہ بھی دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی نہ لو۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے دو یا تین مرتبہ فرمایا ہر کوئی عمر سے بڑھ کر سمجھدار ہے۔ پھر منبر پہ واپس گئے اور لوگوں سے کہا میں نے تمہیں عورتوں کے حق مہر میں مبالغہ کرنے سے منع کیا تھا۔ لیکن اب جو چاہے اپنے مال میں جیسا مرضی تصرف کر لے۔ 
سنن سعید بن منصور: 598, مشکل الآثار للطحاوی: 5059, سنن الکبرى للبیہقی: 14336 , علل الدارقطني: جـ2 صـ238  

لیکن یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ اسکی سند کا مرکزی راوی مجالد بن سعید ضعیف ہے۔ اور شعبی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا یعنی سند منقطع ہے۔  

اسے موصولا بھی بیان کیا گیا ہے بطریق ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ , عَنِ الْمُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ 
تاریخ ابن ابی خیثمۃ: 4064, الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی: جـ1 صـ370, أبو يعلى جیسا کہ مطالب العالیہ 1566 میں ہے۔ 

لیکن اسکی سند میں بھی مجالد ضعیف ہے۔ 

الغرض یہ واقعہ کسی طور بھی ثابت نہیں ہے۔ اس واقعہ کا ایک ضعیف شاہد بھی اس میں زیادہ حق مہر سے منع کرنے کا حکم بھی نہیں ہے اور عورت والا قصہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس میں یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے خود آیت پڑھی تو منع کرنے کا ارادہ ہی ترک کردیا۔ 

ابو عثمان سعید بن منصور فرماتے ہیں : حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: " خَرَجْتُ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَنْهَاكُمْ، عَنْ كَثْرَةِ الصَّدَاقِ، حَتَّى عُرِضَتْ لِي هَذِهِ الْآيَةُ {وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا} [النساء: 20]  

عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہیں زیادہ حق مہر سے منع کرنے کے لیے نکلا تھا حتى کہ میرے سامنے یہ آیت آئی: وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا اور تم نے ان میں سے کسی ایک کو خزانہ بھی دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی نہ لو۔  
سنن سعید بن منصور: 599 

بیہقی میں اسکے الفاظ یہ ہیں:  
حَتَّى قَرَأْتُ هَذِهِ الْآيَةَ: {وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا} حتى کہ میں نے یہ آیت پڑھی : وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا اور تم نے ان میں سے کسی ایک کو خزانہ بھی دے رکھا ہو۔ 
السنن الکبرى للبیہقی: 14335 

 لیکن اس کی سند بھی منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ بکر نے عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ 

الغرض یہ روایت اپنے تمام تر شواہد اور سندوں سمیت ضعیف ہے۔ اور اسکا متن بھی منکر ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زیادہ حق مہر لینے سے منع کرنا تو ثابت ہے۔ لیکن اس سے انکا رجوع کرنا یا کسی عورت کا انہیں ٹوکنا ثابت نہیں۔  

ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم 

https://www.rafiqtahir.com/ur/play-ahkam-o-msael-1532.html 

.

پیر، 22 مارچ، 2021

امام ‏اعظم ‏ابو ‏حنیفہ ‏اور ‏کثرت ‏مرویات ‏فاروق ‏عبد ‏اللہ ‏ناراین ‏پوری

.

بسم الله الرحمن الرحيم 
•√•√•√•√•√•√•√•√•√•

”الموسوعۃ الحدیثیہ لمرویات الامام ابی حنیفہ“ میں امام صاحب کی کثرت مرویات کی حقیقت 

✍️ فاروق عبد اللہ نراین پوری 
(پی ایچ ڈی ریسرچر، شعبہ فقہ السنہ، کلیۃ الحدیث الشریف، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ)

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی امامت اور جلالت شان متفق علیہ ہے۔ فقہ میں ان کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول ہی کافی ہے: ”الناس عيال على أبي حنيفة في الفقه“۔ ( لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے محتاج ہیں۔) [تاریخ بغداد: 15/474]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "الإمامة في الفقه ودقائقه مسلمة إلى هذا الإمام، وهذا أمر لا شك فيه". [سير اعلام النبلاء: 6/403]
(اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہ اور اس کی باریکیوں سے واقفیت کے معاملہ میں وہ مسلمہ امام ہیں۔)
ہم دوسرے ائمہ سلف کی طرح ان کا احترام سلامتِ منہج کی علامت سمجھتے ہیں۔ اور کتاب وسنت کو انھی سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھنا ضروری قرار دیتے ہیں۔ لیکن کسی ایک کی تقلید کو جائز نہیں سمجھتے، کیونکہ اسی میں ان کے منہج کا حقیقی اتباع ہے۔ خود انھوں نے ہمیں یہ راہ دکھلائی ہے۔

جہاں ائمہ سلف کا احترام ضروری ہے وہیں ان کی شان میں غلو کرنا، اور اس غلو میں تدلیس سے کام لینا نہایت ہی مذموم عمل ہے۔ در اصل انھیں اس کی ضرورت ہی نہیں کہ ہم ان کے لئے جھوٹی تعریف کے راستے ڈھونڈیں، اور ان کی شان میں جھوٹے قصیدے پڑھیں۔ ان کی شان اس سے کہیں اعلی وارفع ہے۔ جو لوگ بعض ائمہ کی جھوٹی محبت میں یہ راستہ اپناتے ہیں در اصل ان کا حال وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے: «المُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلاَبِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ» 
(جو چیز حاصل نہ ہو اس پر فخر کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جو فریب کا جوڑا پہنتا ہے۔) [صحیح بخاری: 5219، وصحیح مسلم: 2129]

افسوس کہ بعض حضرات وقتًا فوقتًا ایسی اوچھی حرکت کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال چند مہینے پہلے دیکھنے کو ملی جب شیخ لطیف الرحمن بہرائچی قاسمی صاحب کی کتاب ”الموسوعۃ الحدیثیہ لمرویات الامام ابی حنیفہ“ منظر عام پر آئی۔ اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے شیخ کے ہی ایک مرید محمد نعمان مکی نے قصیدہ خوانی شروع کر دی، اور پھر سوشل میڈیا میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق مبالغہ آمیزی کا ایک دور شروع ہو گیا۔

اس مرید نے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے یہ سبب تالیف ذکر کیا ہے کہ ”کچھ کم علم اور متعصب افراد نے امام صاحب پر ”قلیل الحدیث“ اور ”یتیم فی الحدیث“ وغیرہ ہونے کا الزام لگایا ہے، جو خالص حسد و عناد پر مبنی ہے۔“

در اصل یہ موسوعہ اسی مقصد سے مرتب کیا گیا ہے کہ امام صاحب پر لگے اس الزام سے ان کو بری کیا جائے۔ چنانچہ آگے اسی تعارفی تحریر میں فرماتے ہیں: ”آپ صرف محدث ہی نہیں بلکہ امامِ حدیث، حافظِ حدیث اور صاحبِ ”جرح و تعدیل“ ہونے کے ساتھ ساتھ، کثیر الحدیث ہونے میں بعد کے محدثین مثلاً امام بخاری و مسلم وغیرہ کے ہم پلہ ہیں؛ جس سے آپ کا علمِ حدیث میں بلند مقام ومرتبہ کا ہونا ظاہر ہے۔“

امام بخاری اور امام مسلم بلکہ اصحاب کتب ستہ اور دیگر اصحاب صِحاح کا مقام ومرتبہ بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ خود ان کی کتب اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ 
بلکہ خود صاحب موسوعہ شیخ بہرائچی کا یہ کلام یہ بیان کرنے کے لئے کافی ہے کہ علم حدیث میں ان مصنفین کا مقام ومرتبہ امام صاحب کے مقابلے کتنا بلند ہے۔ فرماتے ہیں: "بعض أصحاب الصحاح ذكروها في صحاحهم، وهي لا تزيد على واحد أو اثنين غير أن فيه إشعارًا بأن أحاديث الإمام أبي حنيفة غير متروكة في دواوين السنة المعروفة". [لموسوعۃ الحدیثیہ لمرویات الامام ابی حنیفہ: 1/33]
خود صاحبِ موسوعہ ان معروف کتب حدیث میں امام صاحب کی ایک دو حدیث مروی ہو جانے کو امام صاحب کے معتبر ہونے کی دلیل بنا رہے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ان محدثین کا علمِ حدیث میں کیا مقام ومرتبہ ہے۔

اس موسوعہ میں حد درجہ تدلیس کرنے (جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے) کے باوجود امام صاحب کی مرویات کی تعداد 10588 تک پہنچائی گئی ہے، جب کہ امام بخاری تین لاکھ حدیثوں کے حافظ تھے۔ (تاریخ بغداد: 2/346)
اور امام مسلم نے تین لاکھ احادیث سے منتخب کرکے اپنی صحیح کو لکھا تھا۔ (صیانۃ صحیح مسلم: ص67)

لہذا اگر ان کی بات مان بھی لی جائے پھر بھی امام صاحب کا امام بخاری اور امام مسلم کا کثرت روایت میں ہم پلہ ہونے کا دعوی کرنا مضحکہ خیز ہے۔

اب آئیں جائزہ لیتے ہیں کہ جس مقصد سے یہ موسوعہ مرتب کیا گیا ہے اس میں صاحب کتاب کس حد تک کامیاب ہیں۔ کیا حقیقت میں اس موسوعہ سے امام صاحب کے ”قلیل الحدیث“ ہونے کی نفی ہو جاتی ہے؟ 
کیا یہ موسوعہ امام صاحب کو ”کثیر الحدیث“ بلکہ امام بخاری وامام مسلم کا ہم پلہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے؟ 
شیخ کے خادم ومرید محمد نعمان مکی صاحب اس موسوعہ کے احادیث کی تعداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
”پھر پندرہ سال کی مسلسل جدو جہد سے پورے ذخیرہ احادیث کو کھنگال کرکے ان کی ترتیب، تبویب اور تہذیب کرکے امام صاحب کی ١٠٦١٣ (دس ہزار چھ سو تیرہ) مرویات جمع کیں۔ اور ان پر تحقیقی کام کیا، اور الحمدللہ اب یہ انسایکلوپیڈیا، الموسوعة الحديثية لمرويات الإمام أبي حنيفة کے نام سے عربی میں ۲۰ جلدوں میں شائع ہوکر منظر عام پر آ گئی ہے جس میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مکمل دفاع، علم حدیث میں آپ کا عظیم مقام اور آپ کی مرویات پر ہوئے کام کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔“

اسی طرح اس موسوعہ کی قصیدہ خوانی کرنے والوں میں ایک معروف نام ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحب کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: 
”مولانا کا انتہائی اہم اور قابلِ قدر کارنامہ یہ انسائیکلوپیڈیا ہے ، جس کی اشاعت ' الموسوعۃ الحدیثیۃ لمرویات الامام ابی حنیفۃ' کے نام سے بیس (20) جلدوں میں ہوئی ہے _ اس میں امام ابوحنیفہ ؒ کے مستدلات سے متعلق دس ہزار چھ سو تیرہ (10613) احادیث کو جمع کیا ہے _ ساتھ ہی احادیث کی تحقیق و تخریج کی ہے اور ان پر تعلیقات ثبت کی ہیں ۔ اس کتاب کی ترتیب میں فقہ اور حدیث کی دونوں ترتیبوں کا خیال رکھا گیا ہے ۔ ابتدائی تین جلدوں میں تمہیدی مباحث ہیں _ بارہ جلدوں میں احادیث کی جمع و تحقیق ہے _ تین جلدیں اعلام اور دو جلدیں فہارس پر ہیں _ یہ موسوعہ بیروت کے مشہور مکتبہ دارالکتب العلمیۃ سے شایع ہوا ہے ۔ یہ کتاب ان لوگوں کا مُسکت جواب ہے جو امام اعظم کے علم حدیث پر سوال اٹھاتے ہیں۔“

لگتا ہے دونوں صاحبان نے کتاب دیکھے بغیر ہی مذکورہ عدد لکھ دیا ہے۔ اگرکتاب دیکھنے کی زحمت گوارا کرتے تو قطعا یہ عدد نہ لکھتے۔ خود صاحب موسوعہ شیخ لطیف الرحمن بہرائچی اس موسوعہ کے مقدمہ (1/9) میں احادیث کی تعداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
"قد بلغت بفضل الله تعالى المرويات المرفوعة والموقوفة والآثار (10588) عشرة آلاف وخمس مئة وثمانية وثمانين حديثًا بحذف المكرر". 
یعنی خود مصنف کے بقول تمام مرفوع، موقوف اور آثار کو ملا کر ان کی کل تعداد دس ہزار پانچ سو اٹھاسی پہنچتی ہے۔ حالانکہ اس عدد میں بھی انھوں نے انتہائی تدلیس سے کام لیا ہے جس کا بیان آگے آ رہا ہے، ان شاء اللہ۔

محترم قارئین!
آپ غور کریں کہ امام صاحب کی مرویات کی تعداد کے متعلق اصل اشکال کیا ہے۔ کیا صحابہ وتابعین کے فتاوے نقل کرنے میں انھیں ”قلیل الحدیث“ کہا جاتا ہے؟ یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث روایت کرنے میں؟ 
قطعا جنھوں نے بھی انھیں قلیل الحدیث کہا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے متعلق کہا ہے، صحابہ وتابعین کے فتاوے کے متعلق نہیں۔ 
پھر صحابہ وتابعین کے فتاوے کو مستقل نمبر شمار کرنا تاکہ امام صاحب کی مرویات کی تعداد زیادہ سے زیادہ دکھائی جا سکے کیا یہ تدلیس نہیں؟ 
اس موسوعہ میں بے شمار مرویات ایسی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہیں ہی نہیں، صحابہ کرام یا تابعین عظام کے فتاوے ہیں۔ اور انھیں تسلسل نمبر میں شمار کیا گیا ہے۔

بلکہ اس سے بھی زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس میں خود امام صاحب کے بے شمار فتاوے ہیں جنھیں تسلسل نمبر میں ایک مستقل نمبر دیا گیا ہے۔

کیا آج تک کسی نے امام صاحب کے ذاتی فتاوے کی تعداد کی وجہ سے انھیں ”قلیل الحدیث“ کہا ہے؟ 
پھر ان کے ذاتی فتاوے کو شمار کرکے یہ ہمالیائی تعداد دکھا کر اسے ”الموسوعۃ الحدیثیہ لمرویات الامام ابی حنیفہ“ نام دینے کا کیا معنی؟ 
اگر ان فتاوے کو نکال دیا جائے تو ان کی مرویات کی اصل تعداد کیا بچےگی صاحب موسوعہ اور ان کے مریدین ہم سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہنا کہ ان کی احادیث کی تعداد ساڑھے دس ہزار سے زائد ہے کیا یہ سفید جھوٹ نہیں؟

کیا علمائے احناف دنیا کو اس قدر بُدّھو سمجھتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں اس طرح دھول جھونکنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟

یہ تو مرویات کی اقسام کی بات ہوئی۔ اب آتے ہیں اس سے بھی بڑی تدلیس کی طرف جو علمائے احناف اور ان کے مریدین نے کرنے کی کوشش کی ہے۔ 
کوئی بھی شخص اس تعداد کو سن کر یہی سوچےگا کہ امام صاحب کی احادیث کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔ انھوں نے دس ہزار سے زائد احادیث روایت کی ہیں۔ اور جب ان کے پاس اتنی زیادہ احادیث تھیں تو انھیں کسی صورت میں ”قلیل الحدیث“ کہنا مناسب نہیں۔

لیکن میرے بھائیو! حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بلکہ اس میں ایسی قبیح تدلیس سے کام لیا گیا ہے کہ شاید اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہ ملے۔

اس سے پہلے کہ اس تدلیس کا پردہ فاش کروں ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں:

صحیح بخاری کی پہلی حدیث ہے: ”إنما الأعمال بالنيات“۔
اس حدیث کو امام یحیی بن سعید الانصاری نے اپنے استاد محمد بن ابراہیم التیمی سے، انھوں نے اپنے استاد علقمہ بن وقاص اللیثی سے، علقمہ نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ 
اگر آپ امام یحیی بن سعید الانصاری کی مرویات کو شمار کریں تو یہ ایک حدیث شمار کریں گے یا تین چار سو؟ 
شاید آپ تین چار سو کا عدد سن کر چونک گئے ہوں گے۔ بات ہے ہی چانکانے والی۔ لیکن چونکئے مت۔ یہ یقینا امام یحیی بن سعید الانصاری کی ایک ہی حدیث ہے، لیکن ان کے بے شمار شاگردوں نے ان سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ حافظ ذہبی نے ”سیر اعلام النبلاء“ (5/476-481) میں ایک دو کرکے ان کے تین سو چالیس شاگردوں کا نام گنایا ہے جنھوں نے ان سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ بلکہ حافظ ابو اسماعیل الانصاری الہروی فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو امام یحیی بن سعید الانصاری کے سات سو شاگردوں سے لکھا ہے۔ [دیکھیں: فتح الباری: 1/11-12]
اب اگر کوئی یہ کہے کہ میں آپ کو امام یحیی بن سعید الانصاری کی تین سو چالیس حدیثیں سناتا ہوں اور بار بار ان کے ایک ایک شاگرد کے طریق سے اسی حدیث کو بیان کرے اور کہے کہ یہ ان کی تین سو چالیس حدیثیں ہو گئیں تو آپ ان کے اس فعل کو کیا نام دیں گے؟

یہی کام شیخ لطیف الرحمن بہرائچی قاسمی صاحب نے اس موسوعہ میں کیا ہے۔ ایک ہی حدیث اگر امام صاحب کے دس شاگردوں نے ان سے روایت کیا ہے تو انھیں الگ الگ دس نمبر دیا ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ یہ امام صاحب کی دس الگ الگ حدیثیں ہیں۔ حالانکہ اس حدیث کو امام صاحب نے ایک ہی سند سے روایت کیا ہے۔ امام صاحب کے اوپر کی سند ہر جگہ ایک ہی ہے۔ امام صاحب کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد بس الگ الگ ہیں۔ 
کوئی یہ نہ کہے کہ روایت کرنے والے الگ الگ ہوں تو محدثین اسے الگ الگ حدیث شمار کرتے ہیں، ایک نہیں۔ وہ دوسری صورت ہے۔ اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاد ایک ہی حدیث میں الگ الگ ہوتے، اور مختلف اسانید سے ایک ہی حدیث کو روایت کرتے تو اسے ایک سے زائد بار شمار کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ ان کے استاد ایک ہی ہیں، الگ الگ نہیں۔ لہذا اسے ایک سے زائد شمار کرنے کا کوئی وجہ جواز نہیں۔

شیخ بہرائچی کی کتاب اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں ان کی کتاب سے بس دو مثالیں پیش کرتا ہوں:

پہلی مثال:
چھٹی جلد، صفحہ تین، حدیث نمبر 1716 میں ہے: 
يوسف، عن أبيه، عن أبي حنيفة، عن عبد الملك بن عمير، عن قزعة، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا تسافر المرأة يومين إلا مع زوج، أو ذي محرم، قال: ونهى عن صلاتين: عن صلاة بعد الغداة حتى تطلع الشمس، وبعد العصر حتى تغيب الشمس، وعن صيام الأضحى والفطر، وقال: لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: مسجد الحرام، ومسجدي، ومسجد الأقصى».

اس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اوپر کی سند ملاحظہ فرمائیں، اس طرح ہے: ”عن عبد الملك بن عمير، عن قزعة، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم“۔

اگلے اٹھارہ صفحات تک اسی سند سے یہ حدیث مروی ہے۔ صرف امام صاحب کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد الگ ہیں۔ ان تمام احادیث میں بہرائچی صاحب نے الگ الگ نمبر بیٹھایا ہے۔ اس طرح ایک ہی حدیث پر انھوں نے پچاس سے زائد نمبرات ڈالے ہیں، جو کہ در حقیقت ایک ہی حدیث ہے، پچاس نہیں۔

اب دوسری مثال ملاحظہ فرمائیں: 
اس موسوعہ کی نویں جلد، صفحہ 58، حدیث نمبر 4699 دیکھیں، اس میں ہے: 
قال: حدثني أبي، قال: حدثني أبي، قال: وحدثني محمد بن أحمد بن حماد، قال: ثنا محمد بن شجاع الثلجي، قال: ثنا أبو أسامة، ثم قالا: ثنا أبو حنيفة، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أفضل الأعمال العج والثج، فأما العج: فالعجيج بالتلبية، وأما الثج: فنحر البدن».

اس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اوپر کی سند ملاحظہ فرمائیں، اس طرح ہے: ”عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم“۔

اگلے دس صفحات تک اسی سند سے یہ حدیث مروی ہے۔ صرف امام صاحب کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد الگ ہیں۔ بلکہ اکثر میں امام صاحب کے شاگرد ابو اسامہ ہیں۔ ان سے نیچے کی سند میں روات الگ الگ ہیں۔ ان تمام احادیث میں بہرائچی صاحب نے الگ الگ نمبر بیٹھایا ہے۔ اس طرح ایک ہی حدیث پر انھوں نے تیس سے زائد نمبرات ڈال دیے ہیں۔

اس طرح مختلف طرح کی تدلیسوں کے ذریعہ انھوں نے امام صاحب کی مرویات کی یہ تعداد پہنچائی ہے۔ اگرکوئی وقت نکال کر پورے موسوعہ کی ایک ایک حدیث کی جانچ پڑتال کرے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حقیقی تعداد کیا نکلےگی۔

آخری تنبیہ:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی اپنی کوئی ذاتی تصنیف نہیں تھی کہ ان مرویات کی ان کی طرف نسبت صد فیصد صحیح تسلیم کر لی جائے۔ بلکہ اس موسوعہ میں جن مصنفین کی مسانید سے احادیث کو جمع کیا گیا ہے ان کے اور امام صاحب کے مابین کئی ایک واسطے ہیں۔ اگر یہ واسطے محدثین کے اصول کے مطابق ثابت ہوں تو امام صاحب کی طرف ان کی نسبت صحیح ہوگی ورنہ انھیں امام صاحب کی مرویات میں شمار کرنا ہی محل نظر ہوگا۔

اوپر جو پہلی مثال ذکر کی گئی، «أفضل الأعمال العج والثج» والی، اسے نوح بن دراج اور حسن بن زیاد جیسے کذاب راویوں نے بھی امام صاحب سے روایت کیا ہے۔ [دیکھیں: موسوعہ میں حدیث نمبر: 4706، 4714، 4723، 4726، 4729]
نوح بن دراج کو امام ابن معین اور امام ابو داود نے کذاب کہا ہے۔ [میزان الاعتدال: 4/276 ، وتقریب التہذیب: ص567]
اور حسن بن زیاد کو ابن معین، ابو داود، ابو ثور، یعقوب بن سفیان اور عقیلی وغیرہ نے کذاب کہا ہے۔ [لسان المیزان: 3/48]

کیا ان کی مرویات کے بارے یہ کہنا جائز ہوگا کہ یہ امام صاحب نے روایت کیا ہے۔ جب ان سے روایت کرنے والا شخص کذاب ہے تو ان سے یہ روایتیں سرے سے ثابت ہی نہیں ہوتیں، لہذا ان کی مرویات میں انھیں شمار کرنا ہی صحیح نہیں۔

اس طرح تمام قسم کی تدلیسات کو نکال دیا جائے تو امام صاحب کی اصل مرویات کی صحیح تعداد کیا نکلےگی بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ اس موسوعہ میں مرویات کی جو تعداد (10588) بتائی گئی ہے اس میں حد درجہ تدلیس سے کام لیا گیا ہے۔ اس میں صحابہ کرام اور تابعین کے فتاوے کے ساتھ ساتھ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال کو بھی تسلسل نمبر میں شمار کر لیا گیا ہے۔ یہ تعداد مرفوع احادیث کی ہے ہی نہیں۔ اور ان کے اوپر کلام مرفوع احادیث کی روایت کے متعلق ہے۔ آثار یا ذاتی اقوال کے متعلق نہیں۔

دوسری تدلیس یہ کی گئی ہے کہ ایک ہی حدیث بسا اوقات چالیس پچاس بار شمار کی گئی ہے، یہ استدلال کرتے ہوئے کہ امام صاحب سے الگ الگ روات نے روایت کیا ہے۔ اگر یہ بات مان لی جائے تو یحیی بن سعید الانصاری کی حدیث ”إنما الأعمال بالنیات“ ایک نہیں تقریبا سات سو بار شمار کی جائےگی۔ بلکہ امام صاحب کو جن امام بخاری کے ہم پلہ ہونے کا دعوی کیا گیا ہے ان کی صحیح بخاری کی ہر حدیث کو نوے ہزار بار شمار کرنا پڑےگا، کیونکہ ان سے تقریبا نوے ہزار لوگوں نے اسے سنا ہے۔ [سیر اعلام النبلاء: 12/469]

اس طرح امام صاحب کی اصل مرویات کی تعداد بہت تھوڑی نکلےگی۔ اور ان میں بھی امام صاحب سے وہ ثابت ہیں یا نہیں جانچ پڑتال کرنی پڑےگی۔ اس طرح یہ تعداد گھٹ کر مزید کم ہو جائےگی۔

یہ امام صاحب کی کوئی تنقیص نہیں، بلکہ حقیقت کا اعتراف ہے بس۔ اس سے ان کی امامت اور جلالت شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ اس طرح کی تدلیسات سے ان کی شخصیت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ وہ اس سے کہیں اعلی وارفع ہیں کہ ان کی رفعت شان کے لئے جھوٹ اور تدلیس کا سہارا لیا جائے۔

اللہ تعالی ہمیں حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=3744002929050000&id=100003209891137 

https://thefreelancer.co.in/?p=9408 

.

ہفتہ، 20 مارچ، 2021

اسلام میں بیماریوں سےبچاؤکے لئے احتیاطی تدابیر عبدالعلیم عبد ‏سلفی ‏

.

بسم الله الرحمن الرحيم 
*%*%*%*%*%*%*%*

اسلام میں بیماریوں سےبچاؤکے لئے احتیاطی تدابیر 

عبدالعلیم عبد الحفیظ سلفی /سعودی عربیہ 

؛> صحت وتندرستی اللہ کی عظیم نعمت ہے جو انسان کی زندگی کے لئے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے اگر صحت تندرستی ہے تو دینی ودنیاوی ہر کام بحسن وخوبی انجام دیا جا سکتاہے ورنہ زندگی ضرر ونقصان اور پریشانی کی حالت میں گذرتی ہے، جس کا احساس ہر اس انسان کو ہے جو تندرستی اور صحت سے محروم ہے ۔ اسی لئے اسلام میں عبادات ومعاملات سے لیکر جہاد اور معاشرتی عمل ہر میدان میں صحت کا اعتبار کیا گیاہے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

الْمُؤْمِنُ الْقَوِىُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ " "مضبوط مومن کمزور مومن کے مقابلے اللہ کے نزدیک بہتر اورزیادہ محبوب ہے " (صحیح مسلم /2664 ) ۔

بعض اہل علم (جن میں امام نووی بھی ہیں ) نے اس سے دین ، تقوی ، عبادت ، عقیدہ وعمل وغیرہ میں قوت مرادلیاہے ۔ اور کچھ نے بدن وعمل حتی کہ دنیوی عمل میں قوت مراد لیاہے۔

لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت میں ہر اس عمل سے یا ہر اس چیز کے استعمال سے روکا گیاہے جو طبی اصول کے مطابق نقصان دہ اور ضرررساں ہو ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"لا ضررَ ولا ضِرارَ"( صحيح ابن ماجہ/ 1909) "نہ نقصان اٹھایا جائے گا اور نہ ہی دوسروں کو نقصان میں ڈالاجائےگا "(یہ روایت تجارت ، معاملات اور کھانے پینے سے متعلق ہر طرح کے نقصان کو شامل ہے ۔)

ایک مثل مشہورہے : (درهم وقاية خير من قنطار علاج) ( an ounce of prevention is worth a pound of cure ) یعنی ڈھیروں دولت خرچ کرکے علاج س کرانے سے درہم بھرکی احتیاط بہتر ہے ۔

آیئے ہم ایک نظر اسلام کے ان احکام وامور پرڈالتےہیں جن میں انسان کی صحت اور تندرستی کی مکمل رعایت کی گئی ہے ، اگر ان احکام پر مکمل طریقے سے عمل کیاجائے تو مختلف قسم کےخطرناک جراثیم جو چھوٹی بڑی بے شمار بیماریوں کا سبب بنتے ہیں سے آدمی بچ جائے ۔بلکہ ہم ان احکام کو تعبد اور اللہ کی خوشنودی اور اس کی قربت کے حصول کے ذرائع کےساتھ ساتھ بیماریوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدبیریں بھی کہہ سکتے ہیں ۔

آیئے ہم موضوع کے بعض نکات کو مختصر اندازمیں پیش کرتے ہیں ، اس امید کے ساتھ کہ کم ازکم مسلم افراد ان پر عمل کرکے اللہ کی قربت ومحبت اور بیماریوں سے بچنے کے لئے ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرکے اچھی صحت اور صالح ماحول ومعاشرہ پا سکے ۔

 وہ احکام جن میں نقصان اور ضررکے امکان کے پیش نظر چھوٹ دی گئی ہے : اسلامی عبادات سے متعلق احکام کے اندر اگر جسم وجان کو نقصان اور ضررکا خطرہ ہوتو جزوی یا کلی رعایت اورچھوٹ دی گئی ہے۔

حالت سفر اور حالت بیماری میں جان کا خطرہ ہو ، جسم کو نقصان پہنچتاہو تو روزہ چھوڑنے کا حکم ہے ۔(پھراگر خطرہ ٹل جا‎ئےتو اس کی قضاء کرنی ہوگی سوائے ایسی بیماری کے جس سے شفا وبرءت کی امید نہ ہو تواس کے لئے ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلانا ہوگا، اللہ تعالی فرماتاہے 
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ * أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ * 

اے ایمان والو!تم پرروزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگاراور تقوی شعاربنو۔ یہ گنتی کے چند دن ہیں۔لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرلے۔ اورجو اس کی طاقت رکھتے ہوں (یعنی بڑھاپے یا مرض جس سے برءت کی امیدنہ ہو کی وجہ سے روزہ میں مشقت محسوس کرتےہوں)تو ان پرروزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھاناکھلاناہے۔ پھر جو شوق سے کوئی نیکی کرے تویہ اس کے لیے بہتر ہے، اورروزہ رکھ لو تو یہ تمھار ے لیے اور بھی اچھا ہے،اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ (سورہ بقرہ/183-184)

انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ : " سافرنا مع رسولِ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ في رمضانَ فصامَ بعضنا وأفطرَ بعضنا فلم يعبِ الصَّائمُ علَى المفطرِ ولا المفطرُ علَى الصَّائمِ " (صحیح بخاری/1947 ، صحیح مسلم /1118) " ہم نے رمضان میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا ، ہم میں سے کچھ لوگ روزے سےتھے اور کچھ بنا روزے کے ، روزہ داروں نے روزہ نہ رکھنے والوں پر اور بنا روزے والوں نے روزہ داروں پر کوئی تنقید نہیں کی "۔

بلکہ ایک روایت میں مشقت کی حالت میں روزہ رکھنے والوں کو نافرمان کہاگیاہے، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع سے رمضان کے مہینے میں مکہ کے لئے نکلے پھر جب مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع کراع الغمیم نامی جگہ پر پہنچے تو آپ کو بتایا گیاکہ لوگوں پر روزہ مشقت کا باعث بن رہاہے اور وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ آپ کیاکرتے ہیں ، تو آپ نے عصرکے بعد پانی کا پیالہ منگایااور لوگوں کو دکھا کر نوش فرمایا ، اس کے بعدآپ کو خبردی گئی کہ کچھ لوگ اب بھی روزے سے ہیں تو آپ نے فرمایا " أُولَئِكَ الْعُصَاةُ ، أُولَئِكَ الْعُصَاةُ" " یہ لوگ نافرمان ہیں ، یہ لوگ نافرمان ہیں "۔(صحیح مسلم /1114)۔

اسی طرح ایک سفرمیں ایک جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی بھیڑدیکھی جس میں ایک آدمی پر سایہ کیاگیاتھا ، آپ کے استفسار پر بتایاگیاکہ یہ آدمی روزے سے ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا: " لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِي السَّفَرِ " " سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے "(صحیح بخاری / 1946 ، صحیح مسلم/1115)۔

؛> اسی طرح حمل والی اوربچوں کو دودھ پلانے والی عورتوں کو اگر ان کے روزہ رکھنے سے ان کی یا ان کے بچے کی صحت پر کوئی اثر پڑتاہوتو ان کے لئے اس حالت میں روزہ توڑنے کا اختیارہے ۔

؛> بیماری کا خطرہ ہوتو وضوء اور غسل میں تاخیر یا تیمم کا حکم ہے ۔

؛> حالت احرام میں اگر سرمیں کوئی بیماری لاحق ہو تو بیماری کو زائل کرنے کے لئے حالت احرام میں سرمنڈانے کی اجازت ہے ۔

؛> بارش اور دیگر ایسے حالات جب مسجد وغیرہ میں جانے سے مشقت وپریشانی اور بیماری وغیرہ کا خطرہ ہوتو شریعت نے امت کو مسجد میں نہ آکر گھر میں نمازکی ادائیگی کی اجازت دی ہے ، جیساکہ عبداللہ بن عمر ، عبدا اللہ بن عباس اور عمرو بن اوس رضی اللہ عنہ کی روایت کے اندر ہے کہ بارش اور کیچڑ کے وقت حی علی الصلاۃ کی جگہ ( ألا صلوا في الرحال) (صلوا في رحالكم ) ( صلوا في بيوتكم ) کہا گیا ۔ (بخاری مسلم نسائی اور احمد نے ان روایتوں کو ذکرکیاہے)۔

 ان چیزو ں سے پرہیز جوکلی یا جزوی بیماری ،مشقت یا نقصان کا سبب بنے :

؛> حالت حیض ماہواری میں بیوی سے جماع سے ممانعت ہے : اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے : ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ ﴾ (سورہ بقرہ/222) ( آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتےہیں ، کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے ، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو،اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ )۔اس آیت میں اس بات کی صراحت ہے کہ عورت کے ایام خاص کا خون گندگی ہے، اور ایسی حالت میں جماع ضررونقصان کا سبب ہے ، اطباء نے بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ایسی حالت میں جماع سے انسان کے تولیدی نظام میں انفیکشن پھیلنےکا زیادہ خطرہ ہوتاہے ،نیزسوزش کے اثرات کی وجہ سے بیکٹیریاکی زیادتی اور اس کو مضبوطی دینے کا سبب بنتاہے، اور کی وجہ سےہونے والی سوزش تولیدی نظام میں خلل ڈالتاہے ۔ اسی طرح عورت کے رحم کی رگیں نرم ونازک ہونے کی وجہ سے ایسی حالت میں ان رگوں کے پھٹنے، سوزش اور خون کی زیادتی کا سبب بن سکتاہے۔

؛> جہاں متعدی وباء یا بیماری پھیلی ہو وہاں جانے سے اور وہاں سے نکلنے سے منع ہے : اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (طاعون کے سلسلےمیں) فرمایا": إذَا سمِعْتُمْ الطَّاعُونَ بِأَرْضٍ، فَلاَ تَدْخُلُوهَا، وَإذَا وقَعَ بِأَرْضٍ، وَأَنْتُمْ فِيهَا، فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا " (صحیح بخاری /5728" صحیح مسلم /2218) "جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون ہے تووہاں مت جاؤ ، اور جہاں تم ہو وہاں یہ وباء پھیل جائے تو وہاں سے مت نکلو"۔

؛> ایسے کام سے بچنا جن سے لوگوں کو تکلیف ہو یا انہیں ان کے جراثیم کےپھیلنے کی وجہ سے بیماری وغیرہ لاحق ہونے کا خطرہ ہو،جیسے راستے میں جہاں لوگ بیٹھتے ہوں ،پانی میں اور عام گذرگاہوں پر قضائے حاجت سے حدیث میں منع کیاگیاہے ،جیساکہ روایت میں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" تین لعنت کا سبب والی چیزوں سے بچو : پانی میں ، عام گذرگاہوں پر اور سایے میں قضائے حاجت سے " ۔ (سنن ابی داوود/ سنن ابن ماجہ/ علامہ البانی نے اسے صحیح الجامع /112 کے اندر حسن قراردیاہے۔ اس معنی کی اور بھی بہت ساری روایتیں ہیں ۔)

؛> اسی طرح پانی میں پیشاب کرنے سے خطرناک جراثیم پھیلتے ہیں اسی وجہ سے اسلامی شریعت میں اس سے منع کیاگیاہے ،امام مسلم نے صحیح ( 281) کے اندر جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ اللہ کے رسول صلی نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایاہے ۔

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرکے اس میں غسل کرنے سے منع فرمایاہے۔ (صحیح بخاری/238 ، صحیح مسلم /282)

؛> کھانے پینے کے برتنوں کو کھلا رکھنےسے ممانعت: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((أطْفِئوا المصابيح بالليل إذا رقَدتم، وأغلِقوا الأبواب، وأوْكِئوا الأَسْقِية، وخمِّروا الطعام والشراب"(صحیح بخاری/5624 و صحیح مسلم/2012 عن جابر رضی اللہ عنہ) "رات میں جب تم سونے جاؤتو چراغوں کو بجھادو ، دروازوں کو بند کرلو ، پینے کے کے برتن کوبند کردو اور کھانے اور پینے کے سامان کو ڈھنک دو)۔

کیونکہ ان کو کھلا رکھنے سے ان کے اندر زہریلے کیڑے پڑنے یا قاتل جراثیم کے پڑنے کا خطرہ ہوتاہے جس سے آدمی کی صحت پہ برا اثر پڑسکتاہے۔

 وہ کام جن کے کرنے سے بیماریوں سے بچاؤ ہوتاہے :

؛> مسواک کی تاکید : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي - أو على الناس -،لَأَمَرْتُهُمْ بالسِّوَاكِ مع كُلِّ صَلَاةٍ" " اگر میری امت - یا لوگوں - کو پریشانی نہ ہوتی تو میں انہیں ہر نمازکے ساتھ مسواک کرنے کاحکم دیتا "۔(صحیح بخاری/847، صحیح مسلم/252، مسند احمد/7513 والنسائی (الکبری/3027)

اسی طرح عا‎‎‎ئشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی حکمت کے بارے میں ارشاد فرمایا :" السواك مَطهرةٌ للفمِ ، مَرضاةٌ للرَّبِّ " " مسواک صفائی اور پاکی کا ذریعہ اور رب کی رضاکا سبب ہے " ۔ ( سنن النسائی:1/50 ، مسند احمد:6/47 ، امام بخاری نے تعلیقا ذکرکیاہے:2/274 اور علامہ البانی نے ارواء الغلیل :1/105 کے اندر صحیح قراردیاہے۔(

مسواک کا طبی فائدہ یہ ہے کہ اس میں پنسلن نما اینٹی بیکٹیریل مادہ ہوتا ہے ، جو جراثیم کے خاتمے کے لئے نہایت ہی اثردار ہے، جوکہ کم ازکم منہ میں موجود پانچ طرح کے بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کو ختم کرتاہے۔

؛> سونے سے پہلے ہاتھ اور منھ میں گوشت یا چربی وغیرہ کا اثر یا مہک ہو تو اس کو دھو لینا چاہیے : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : " جس کے ہاتھ میں (گوشت یا چربی کی ) چکنائی مہک یا اس کااثر موجود ہواور اسے دھوئے بغیر سوگیا ، پھر اسے کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اپنے آپ کو ملامت کرے" ۔ (أبو داود /3852 ، وأحمد /7569 , ترمذي /1860 ، نسائي ((السنن الكبرى)) /6905 اور ابن ماجہ 3297 ۔ علامہ البانی نے اسے صحیح قراردیاہے۔)

؛> صبح اٹھ کر پہلے ہاتھ دھولنا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ ، فَلَا يَغْمِسْ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يَغْسِلَهَا ثَلَاثًا ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ " "جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدارہوتو اپنا ہاتھ اس وقت تک برتن میں نہ ڈالے جب تک اسے تین بارنہ دھل لے ، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ رات میں اس کے ہاتھ کہاں تھے "۔(صحیح بخاری/162 ، صحیح مسلم /278 )۔

کیونکہ انسان کی لاعلمی میں اس کا ہاتھ گندی جگہوں پر گیاہو یا کوئی کیڑہ وغیرہ گذرا ہو جس کی وجہ سے خطرناک جراثیم پیداہوتے ہیں لہذا اگر ایسے ہاتھ کو پانی میں ڈالتاہے تو اس سے بیمار ہونے کا خطرہ ہے ، اس لئے احتیاط یہ ہے کہ کسی برتن وغیرہ میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے خوب اچھی طرح سے دھل لیاجائے ۔

؛> چھینکتے وقت چہرے کر ڈھنکنا : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ کے نبی صلَّى اللَّهُ علیہ وسلَّمَ کے بارے میں فرماتےہی :" كانَ إذا عطسَ غطَّى وجهَهُ بيدِهِ أو بثوبِهِ وغضَّ بِها صوتَهُ" "آپ کو جب چھینک آتی تو آپ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھ سےیا کپڑے سے ڈھک لیاکرتے اور اپنی آواز کو پست کرتے "۔ ( ابو داوود /5029، ترمذی / 2745 واحمد/9662 ۔ علامہ البانی نے اسےحسن صحیح قراردیاہے)۔

موجودہ حالات میں جہاں کوویڈ - 19 اور اس جیسی بے شمار متعدی اور وبائی بیماریاں اپنا بھیانک روپ دکھارہی ہیں اور ان کے جراثیم کے پھیلنے کے جو اسباب اور راستے ہیں ، اسے دیکھتے ہوئے چھینکتے وقت سنت کے اس طریقہ کی اہمیت اور ضرورت کا پتا چلتاہے ۔ بلکہ ان بیماریوں کے پھیلنے میں سب سے زیادہ اثر چھینکتے وقت بے احتیاطی ہے۔ اسی لئے اطباء ہر وقت یہ نصیحت کرتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ چھینکتے وقت ناک پر رومال وغیرہ لازما رکھ لینا چاہئے ۔

اسی طرح چھینکتے وقت جسم کے اندر بہت ساری تبدیلیا پیدا ہوتی ہیں ، جو انسان کے بعض اعضاء کے تعطل کا سبب ہیں ، حالانکہ کے چھینک کا دورانیہ ایک سیکنڈیا اس سے کم کا ہوتاہے لیکن اس کی رفتار تقریبا سو کیلومیٹر ہوتی ہے اس لئے ایسے موقع سے سنت میں بتایا گیا عمل خاص طور سے آواز کو پست رکھنا ہی صحت کی حفاظت کے لئے ضروری اور مفید ہے ۔

؛> استنجاء کرنا ۔ جب انسان قضائے حاجت کرتاہے تو اس کے پیٹ سے فضلہ نکلتاہےاگر اسے صاف نہ کیاجائے تو مختلف جراتیم اوربیماریوں کا سبب بنتاہے ،اسی لئے شریعت اسلامیہ نے استنجاءکے آداب بیان کرکے اس سے پیدا ہونے والے مختلف بیماریوں سے بچاؤ کی طرف رہنمائی کی ہے ، جیسے : تین عدد ڈھیلا یا پتھر یا پھر پانی سے صفائی کرنا۔ عا‎ئشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " إذا ذهب أحدُكم إلى الغائط، فليذهب معه بثلاثة أحجارٍ يستطيب بهن.

" جب تم میں سے کوئی ‍ قضائے حاجت کے لئے جائے تو اپنے ساتھ تین پتھرلےکرجائے جن سے صفائی کرے "۔ (ابوداوو/40، نسائی /44 امام البانی نے اسے حسن کہاہے ۔ )

اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ : " اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں جاتے تو میں اور ایک غلام پانی کابرتن اور چھڑی لے کر جاتے "(صحیح بخاری /151 ، صحیح مسلم /270) ۔

؛> حدیث میں اللہ کی بعض مخلوق کی خوراک ہونے کی وجہ سے استنجاء کے لئے گوبر اور ہڈی وغیرہ کے استعمال سے منع فرمایا گیاہے ، لیکن صفائی کے لئے ان چیزوں کا استعمال ضرر ونقصان سے بھی خالی نہیں ہے ۔ (دیکھئے :صحیح البخاری/156، صحیح مسلم/262،263) ۔

؛> اسی طرح استنجاء کے لئے داہنے ہاتھ کے استعمال سے منع فرمایاگیاہے ، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا دفرمایا:" "إذا بال أحدُكم فلا يأخذن ذكَره بيمينه، ولا يستنجي بيمينه .." "جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو داہنے ہاتھ سے اپنے شرم گاہ کو نہ چھوئے اور نہ ہی داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے ۔۔۔"۔ (بخاری /153 ، مسلم/267)

کیونکہ کھانے پینے اور اس جیسے وہ کام جو شرف اور پاکی والے ہوتے ہیں آدمی داہنے ہاتھ سے ہی کرتاہے ، لہذا اگر استنجاء کے لئے اس کا استعمال کرتاہے تو اس ذریعہ سے خطرناک جراثیم منہ اور پیٹ تک پہنچ کربیماریوں کا سب بن سکتے ہیں ۔

؛> اسی طرح کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ کی صفائی مستحب ہے جو ہاتھ کے ذریعہ منہ اور پیٹ تک نقصان دہ مواد کو پہنچنے سے روکتاہے ۔ 
؛> جسم وجان کے لئے نقصان دہ اشیاء جیسے : شراب ، تمباکو ، حشیش ، گانجہ ، سگریٹ ، بیڑی یا ان جیسے اور اشیاء جو کہ حرام ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کے لئے نہایت ہی نقصان دہ ہیں ، شریعت نے مکمل طور سے حرام قراردیا ہے ۔

؛> اسی طرح ان اشیاء کا استعمال بھی جائز نہیں جن سے جسم وصحت پر برا اثر پڑتاہو گرچہ وہ حلال ہوں ، جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" نہ خود کو ضرر پہونچائے اور نہ دوسروں کو " ، لہذا اس ضمن میں اطباء کے مشورہ پر پوری طرح سے عمل اور ان چیزوں کے استعمال سے مکمل پرہیزی جن سے انہوں نے منع کیاہو نہایت ہی ضروری اور اسلام کے حفظان صحت اور بیماریوں سے بچاؤ کے تدابیر کے عین موافق ہے ۔

؛> کچھ پیتے وقت برتن میں سانس لینے سے منع کیاگیاہے ، کیونکہ اس کے ذریعہ سے بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ ہوتاہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " إذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء " "جب تم میں سےکوئی کچھ بیئے تو برتن میں سانس نہ لے " ۔ (بخاری/149 ،مسلم/3780)

؛> اسی طرح وضوء کے دوران اچھی طرح سے کلی کرنے ، ناک میں اچھی طرح سے پانی ڈالنے اورناک جھاڑنے کا بیان موجود ہے جو شرعی اہمیت کے ساتھ ساتھ صحت وبیماری سے بچاؤ کی حکمت سے پرہیں ۔(یہ روایتیں بخاری/192، مسلم /235، ابوداود،ترمذی /788، نسائی /114 ، ابن ماجہ /448 اور حدیث کی دیگر کتابوں میں موجودہیں )۔

؛> کتاکسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس وقت تک اس کا استعمال جا‏ئزنہیں ہے جب تک کہ شریعت کے متعین کردہ طریقے سے صاف کرکے اس کے جراثیم زائل نہ کردئے جائیں ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" إذا ولغ الكلب في إناء أحدكم، فليُرِقْه، ثم ليغسله سبع مِرَارٍ" جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اس کے پانی کو پھینک دے اور پھر اسے سات بار دھلے "(صحیح مسلم/279) بعض روایتوں میں صراحت ہے کہ پہلے مٹی سے دھلے پھرباقی مرتبہ پانی سے ۔

طبی عروج کے اس دور میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ کتے کے منہ میں جو خطرناک جراثیم ہوتے ہیں وہ ایک دوبار کے دھولنے سے زائل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے سات بار دھولنا ہی مفیدہے ، اور وہ بھی شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ پر ۔

؛> ہمارے اردگرد مکھیو ں کا وجود کائناتی حقیقت ہے ، جو وقتافوقتا ہمار ےکھانے پینے کی چیزوں میں گرتی بھی رہتی ہیں ، اور اللہ رب العزت نے مکھیوں کے پروں میں سے ایک میں بیماری اورایک میں شفاء اور علاج رکھاہے ،جسے اس دورکے جدید میڈیکل سائنس نے بھی ثابت کردیاہے ۔(جسے علوم حشرات کے معروف ڈاکٹرمصطفی ابراہیم حسن نے اپنی کتاب " الداء والدواء في جناحي الذباب " کے اند ر تفصیل سے ذکرکیاہے ۔)

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مکھی جب کسی چیز میں گرتی ہے تو اپنے اس پر کو ڈھال بناتی ہے جس میں بیماری ہے لہذا وہی پر پینے والی چیزوں میں پہلے پڑتا ہے ،اور دوسراجس میں علاج ہے وہ باہر رہ جاتاہے ۔ اس لئے حدیث میں یہ حکم دیاگیاہے ایسی صورت میں اس مکھی کو اس میں مکمل طریقے سے ڈبو دیاجائے تاکہ بیماری کا اثر زائل ہوجائے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" إذا وقع الذباب في شرابِ أحدِكم فليغمِسْه ثم لينزعه؛ فإن في أحد جناحَيْه داءً، وفي الآخر شفاءً" (صحیح بخاری / 3320 ) جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی پڑجائے تواسے اس میں ڈبو دوپھر اسے باہر پھینک دو ،کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفاء"۔

؛> معاشرتی فاصلہ (social distance) : بیماریو ں کے پھیلاؤکو روکنے کے لئے جہاں شریعت نے ڈھیروں تدابیربتائے ہیں وہی پر معاشرتی فاصلہ دوری کو بھی کافی اہمیت دی ہے، تاکہ انسان مختلف قسم کی وباء وبیماریوں کے ساتھ ساتھ عقیدہ میں خلل وخرابی سے محفوظ رہ سکے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"فِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كما تَفِرُّ مِنَ الأسَدِ" "جس طرح شیرسے دور بھاگتے ہو اسی طرح کوڑھ کی بیماری والے سے دور رہو"۔ (احمد، بخاری / 5707 تعلیقا )

اسی طرح ثقیف کے وفدکے ساتھ ایک جذام والا شخص آیاتھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ملے بغیر اس کے پاس خبر بھیجی کہ ہم نے تجھ سے بیعت کرلی تم واپس جاؤ" ۔ (صحيح مسلم /2231)۔

؛> اسی طرح امام طبری نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ انہوں نے معیقیب رضی اللہ عنہ جن کو بیماری تھی کہا " اجلس مني قيد رمح " "مجھ سے ایک کمان (جو تقریباایکم میٹریا کچھ زیادہ کا ہوتاہے) کے برابر بیٹھو"(تہذیب الآثار:3/32)۔

یہ روایت دو طرق سے مروی ہے اور دونوں منقطع ہے۔ لیکن پھربھی اتنا پتاچلتاہے کہ اسلام کے بعض ادوارمیں متعدی بیماریوں کی وجہ سے سوشل ڈسٹینسنگ کا اعتبار کیاجاتاتھا۔

؛> اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" لا يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ علَى مُصِحٍّ ""کسی بیمار اونٹ کو صحیح اونٹ سے نہ ملایاجائے" ۔(صحیح بخاری/5771 ، صحیح مسلم/2221)۔ یہ اس لئے کہ ایک تو اس سے تندرست اونٹوں میں بیماری پھیلنے کا خطرہ ہوتاہے ، اور دوسری اگراونٹوں کو بیماری لگ گئی تو عقیدے میں کمزوری اور خلل پیداہوتاہے، کہ اگر اس بیمار اونٹ کو نہ لاتے تو یہ بیماری دوسرے اونٹوں کو نہ لگتی ۔

 اس کے علاوہ شریعت میں صبح وشام اور نمازکے بعدکی دعائیں ، سونے سے قبل وبعد اور رات کے اذکار اور قرآن وحدیث کے بعض نصوص بھی آفت ، بلاء اور بیماریوں سے بچاؤ اورحفاظت کے لئے اہم ذرائع اور اسباب ہیں جن کا ذکر الگ سے ایک طویل موضوع کا متقاضی ہے ۔

اللہ رب العزت ہمیں صحت وعافیت کے ساتھ رکھے اور ایسی چیزوں کے استعمال سے بچائے جو ہمار ے دین ودنیا اور جسم وصحت کے لئےنقصان دہ ہوں ۔ وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔آمین۔

https://m.dailyhunt.in/news/india/urdu/baseerat+online-epaper-baonline/+-newsid-179624602?listname=topicsList&index=0&topicIndex=0&mode=pwa&action=swipe

.

جمعرات، 18 مارچ، 2021

کھانے کے بعد پانی نہیں پینا چاہئے؟ ‏مقالات ‏و ‏فتاوی

.

بسم الله الرحمن الرحيم 
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

کھانے کے بعد پانی نہیں پینا چاہئے؟

~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~

کھانے کے درمیان اور آخر میں پانی پینا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل 

ابو عکاشہ 

عن أبي هريرة قال خرج رسول الله صلی الله عليه وسلم ذات يوم أو ليلة فإذا هو بأبي بکر وعمر فقال ما أخرجکما من بيوتکما هذه الساعة قالا الجوع يا رسول الله قال وأنا والذي نفسي بيده لأخرجني الذي أخرجکما قوموا فقاموا معه فأتی رجلا من الأنصار فإذا هو ليس في بيته فلما رأته المرأة قالت مرحبا وأهلا فقال لها رسول الله صلی الله عليه وسلم أين فلان قالت ذهب يستعذب لنا من الما إذ جا الأنصاري فنظر إلی رسول الله صلی الله عليه وسلم وصاحبيه ثم قال الحمد لله ما أحد اليوم أکرم أضيافا مني قال فانطلق فجاهم بعذق فيه بسر وتمر ورطب فقال کلوا من هذه وأخذ المدية فقال له رسول الله صلی الله عليه وسلم إياک والحلوب فذبح لهم فأکلوا من الشاة ومن ذلک العذق وشربوا فلما أن شبعوا ورووا قال رسول الله صلی الله عليه وسلم لأبي بکر وعمر والذي نفسي بيده لتسألن عن هذا النعيم يوم القيامة أخرجکم من بيوتکم الجوع ثم لم ترجعوا حتی أصابکم هذا النعيم

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک دن یا ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے سیدنا ابوبکر اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ملاقات ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات سے فرمایا اس وقت تمہارا اپنے گھروں سے نکلنے کا سبب کیا ہے ان دونوں حضرات نے عرض کیا بھوک اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں بھی اسی وجہ سے نکلا ہوں جس وجہ سے تم دونوں نکلے ہوئے ہو اٹھو کھڑے ہوجاؤ دونوں حضرات کھڑے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے گھر تشریف لائے کہ وہ انصاری اپنے گھر میں نہیں ہے انصاری کی بیوی نے دیکھا تو مرحبا اور خوش آمدید کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری کی بیوی سے فرمایا فلاں کہاں ہے اس نے عرض کیا وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گیا ہے اسی دروان انصاری بھی آگئے تو اس انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج میرے مہمانوں سے زیادہ کسی کے مہمان معزز نہیں اور پھر چلے اور کھجوروں کا ایک خوشہ لے کر آئے جس میں کچی اور پکی اور خشک اور تازہ کھجوریں تھیں اور عرض کیا کہ ان میں سے کھائیں اور انہوں نے چھری پکڑی تو رسول اللہ نے ان سے فرمایا دودھ والی بکری ذبح نہ کرنا پھر انہوں نے ایک بکری ذبح کی ان سب نے اس بکری کا گوشت کھایا اور کھجوریں کھائیں اور پانی پیا اور جب کھا پی کر سیراب ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سے قیامت کے دن ان نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا تمہیں اپنے گھروں سے بھوک نکال کر لائی اور پھر تم واپس نہیں لوٹے یہاں تک کہ یہ نعمت تمہیں مل گئی۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 816

عن سهل بن سعد قال دعا أبو أسيد الساعدي رسول الله صلی الله عليه وسلم في عرسه فکانت امرأته يومئذ خادمهم وهي العروس قال سهل تدرون ما سقت رسول الله صلی الله عليه وسلم أنقعت له تمرات من الليل في تور فلما أکل سقته إياه
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدناابواسید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی شادی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی سیدنا ابواسید کی بیوی ہی اس دن کام کر رہی تھی اور دلہن بھی وہی تھی سیدنا سہل کہنے لگے کہ تم جانتے ہو کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پلایا تھا رات کو اس نے ایک بڑے پیالہ میں کچھ کھجور ریں بھگو دی تھیں تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے سے فارغ ہوئے تو اس نے وہی بھگوئی ہوئی کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پلا دیں۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 736

ما ملأَ آدميٌّ وعاءً شرًّا من بطنٍ حسْبُ الآدميِّ لقيماتٌ يُقِمنَ صلبَهُ فإن غلبتِ الآدميَّ نفسُهُ فثُلُثٌ للطَّعامِ وثلثٌ للشَّرابِ وثلثٌ للنَّفَسِ
الراوي: المقدام بن معد يكرب الكندي المحدث:الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 2720
خلاصة حكم المحدث: صحيح

( آدمی کا بھرا ہوا پیٹ اس کے مقابلہ میں بہت برا ہے جواپنی کمرسیدھی کرنے اورقوت کی بحالی کے لیے چند لقمے لیتا ہے ، اگر وہ ضرور ہی بھرنا چاہتا ہے توپھر وہ تین حصے کرے ایک توکھانے کے لیے اوردوسرا پینے کے لیے اورتیسرا سانس لینے کےلیے 
) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1381 ) سنن ابن ماحہ حدیث نمبر ( 3349 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 2265 ) اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کھانا کھانے کے بعد پانی پینا سنت ہے یا نہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پانی انسانی زندگی کا خلاصہ ہے،اللہ نے انسان کو ماء دافق سے پیدا کیا ہے، اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔

جب بھی ضرورت محسوس ہو آدمی پانی پی سکتا ہے۔ شرعی طور پراس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ کھانا کھانے کے بعد پانی پینا سنت ہے، اس حوالے سے کوئی روایت میرے علم میں نہیں آئی۔ یہ آپ کی ضرورت پر منحصر ہے،اگر آپ ضرورت محسوس کرتے ہیں تو پانی پی لیں اور اگر ضرورت محسوس نہیں کرتے تو نہ پیئیں۔اور کھانا کھانے کے فورا بعد پانی پینا طبی اعتبار سے نقصان دہ ہے۔ کیونکہ اس سے نظام انہضام میں خرابی پیدا ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/2/207

~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~

کیا کھانے کے بعد پانی پینا نقصان دہ ہوتا ہے؟

ہوسکتا ہے کہ آپ نے اکثر سنا ہو کہ کھانے کے بعد یا درمیان میں پانی نہیں پینا چاہئے کیونکہ اس سے ہاضمہ متاثر ہوتا ہے۔

یا اس کے نتیجے میں جسم غذا میں موجود اجزاءکو مناسب طریقے سے جذب نہیں کرپاتا یا پیٹ پھول جاتا ہے۔

تو اس میں کہاں تک صداقت ہے اور کیا کھانے کے بعد یا درمیان میں پانی واقعی نقصان دہ ہے؟ تو جانیں طبی ماہرین اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔

تو پہلی بات تو یہ ہے کہ کھانے کے درمیان یا بعد میں پانی پینے سے نقصانات کے بارے میں تمام باتیں درست نہیں۔

جسم کے لیے پانی نہ صرف فائدہ مند ہے بلکہ کھانے سے پہلے یا بعد میں پانی پینا نظام ہاضمہ کو بھی بہتر کرتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق کھانے سے پہلے، درمیان یا بعد میں پانی پینا نقصان دہ نہیں، تاہم اگر آپ نے بہت زیادہ مقدار میں کھانا کھایا ہو اور پھر پانی پینے کی کوشش کریں تو یہ ایک چیلنج ہوسکتا ہے، ایسا کرنے سے غذا ہضم اور اجزا جذب ہوئے بغیر گزر سکتے ہیں۔

ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ بھرپور کھانے کے بعد ٹھنڈے پانی پینے سے ضرور گریز کرنا چاہئے کیونکہ ٹھنڈا پانی یا مشروب جیسے سافٹ ڈرنکس، کھانے کے ہضم ہونے کے عمل کو تاخیر کا شکار کرسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کھانے کے بعد سادہ پانی پیا جاسکتا ہے مگر بہت زیادہ مقدار میں نہیں، کیونکہ اس سے بھی پیٹ پھول سکتا ہے، ایک یا آدھا گلاس ہی کافی ہوتا ہے۔

امریکا کے مایو کلینک کے مطابق پانی معدے میں موجود ایسڈ کو کم یا نظام ہاضمہ کو متاثر نہیں کرتا، درحقیقت کھانے کے دوران یا بعد میں پانی پینا ہاضمے کو بہتر کرتا ہے، پانی یا دیگر سیال جسم کے اندر کھانے کے ٹکڑے کرنے میں مدد دیتا ہے، جس سے جسم کو غذا میں موجود غذائیت جذب کرنے میں مدد ملتی ہے، اسی طرح پانی قبض سے بھی بچاتا ہے۔

یعنی پانی پینا نظام ہاضمہ کو فائدہ ہی پہنچاتا ہے تاہم زیادہ کھانے کی صورت میں کچھ مقدار میں پانی پینا چاہئے۔

تو کھانے کے دوران یا بعد میں پانی پینے سے ہچکچائیں مت، بس مقدار کو ذہن میں رکھیں۔

نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔

https://www.dawnnews.tv/news/1087471

~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~

کھانا کھاتے وقت یا بعد میں پانی پینا

مقبول احمد سلفی
اسلامی دعوہ سنٹر طائف


کتاب و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی جس میں کھاتے وقت یا کھانے کے فورا بعد پانی پینے کی کراہت ہو۔ اور نہ ہی یہ کہنا درست ہے کہ کھانا کھانے کے فورا بعد پانی پینا سنت ہے کیونکہ مجھے ایسی کوئی روایت نہیں ملی۔

یہاں یہ دھیان رہے کہ قدیم و جدید اطباء نے کھانا کھانے کے فورا بعد پانی پینے کو نظام انہضام میں خرابی پیدا ہونے کا سبب بتایا ہے ۔ بعض علماء کی طرف سے بھی اس طرح کی باتیں منقول کی جاتی ہیں۔

ہم مختصر طور پر یہ کہ سکتے ہیں کہ اگر آپ کھاتے وقت یا بعد میں پانی پینے کے عادی ہیں اور آپ کو ہاضمے کی دقت محسوس نہیں ہوتی تو یہ عمل جاری رکھنے میں آپ کے لئے کوئی حرج نہیں لیکن اگر اس کے عادی نہیں یا آپ کو ان اوقات میں پانی پینے سے دقت محسوس ہوتی ہے تو بعد میں پی لیں تاکہ آپ کا انہظام درست رہے۔

جدید اطباء کا کہنا ہےکہ کھانے کے بعد پانی پینا زہر کی طرح ہے. پانی فوری طور پینے سے اس کا اثر انہضام فعل پر پڑتا ہے. ہم جو کھانا کھاتے ہیں وہ ناف کے بايے حصہ میں واقع saucesمیں جا کر پچتا ہے. saucesایک گھنٹے تک کھانا کھانے کے بعد غالب رہتی ہے. معدہ میں گرمی کی وجہ سے ہی کھانا ہضم ہوتا ہے۔اگر ہم فوری طور پانی پی لیتے ہیں تو کھانا ہضم ہونے میں کافی دقت ہوتی ہے۔ اس لئے کھانے اور پانی پینے میں یہ فرق ہے.کھانا کھانے کے تقریبا پون گھنٹے یا ایک گھنٹے کے بعد پانی پینا مناسب ہوتا ہے.

https://maquboolahmad.blogspot.com/2015/01/blog-post_75.html?m=1

~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~

السؤال: هل هذان الحديثان: "لعن الله الشارب قبل الطالب"، "لا تجعلوا آخر طعامكم ماءاً"؟


الإجابة: كلاهما لا أصل له، وافتراء على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويحرم على أحد أن يقول قال صلى الله عليه وسلم كذا حتى يعلم أن أهل الصنعة الحديثية يصححوه أو يحسنوه. والثابت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من أذكار الطعام والشراب بعد الفراغ منه أنه يقول: "الحمد لله الذي أطعمنيه وسقانيه من غير حول مني ولا قوة"، فكان يشرب بعد الطعام، فدلالة اللازم من هذا الحديث أنه يجوز الشرب على إثر الطعام ولا حرج في ذلك، والله أعلم.

مشهور حسن سلمان - طريق الإسلام
رابط المادة: http://iswy.co/e429s

~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~

کھانے کے بعد پانی پیا جاسکتا ہے؟ 

سوال 
 کھانا کھانے کے بعد پانی پینے سے متعلق سنا ہے کہ ایسا کرنا شرعا اور از روئے حکمت درست نہیں ہے ۔ اور کچھ لوگ تو کھانے کے دوران پانی پینے کو بھی ممنوع قرار دیتے ہیں ۔ شریعت اسلامیہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ کھانے کے دوران یا بعد میں پانی پیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ 


الجواب بعون الوہاب کھانا کھانے کے دوران یا بعد میں پانی پینا درست ہے ۔ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے کھانے کے دوران پانی پینا بھی ثابت ہے اور کھانے کے بعد بھی ۔  

کھانے کے دوران پانی پینے کی دلیل یہ ہے : 

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ - أَوْ لَيْلَةٍ - فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَقَالَ: «مَا أَخْرَجَكُمَا مِنْ بُيُوتِكُمَا هَذِهِ السَّاعَةَ؟» قَالَا: الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللهِ،، قَالَ: «وَأَنَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَخْرَجَنِي الَّذِي أَخْرَجَكُمَا، قُومُوا»، فَقَامُوا مَعَهُ، فَأَتَى رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا هُوَ لَيْسَ فِي بَيْتِهِ، فَلَمَّا رَأَتْهُ الْمَرْأَةُ، قَالَتْ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيْنَ فُلَانٌ؟» قَالَتْ: ذَهَبَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا مِنَ الْمَاءِ، إِذْ جَاءَ الْأَنْصَارِيُّ، فَنَظَرَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَاحِبَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا أَحَدٌ الْيَوْمَ أَكْرَمَ أَضْيَافًا مِنِّي، قَالَ: فَانْطَلَقَ، فَجَاءَهُمْ بِعِذْقٍ فِيهِ بُسْرٌ وَتَمْرٌ وَرُطَبٌ، فَقَالَ: كُلُوا مِنْ هَذِهِ، وَأَخَذَ الْمُدْيَةَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِيَّاكَ، وَالْحَلُوبَ»، فَذَبَحَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا مِنَ الشَّاةِ وَمِنْ ذَلِكَ الْعِذْقِ وَشَرِبُوا، فَلَمَّا أَنْ شَبِعُوا وَرَوُوا، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هَذَا النَّعِيمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمُ الْجُوعُ، ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوا حَتَّى أَصَابَكُمْ هَذَا النَّعِيمُ " 

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک دن یا ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے سیدنا ابوبکر اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ملاقات ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات سے فرمایا اس وقت تمہارا اپنے گھروں سے نکلنے کا سبب کیا ہے ان دونوں حضرات نے عرض کیا بھوک اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں بھی اسی وجہ سے نکلا ہوں جس وجہ سے تم دونوں نکلے ہوئے ہو اٹھو کھڑے ہوجاؤ دونوں حضرات کھڑے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے گھر تشریف لائے کہ وہ انصاری اپنے گھر میں نہیں ہے انصاری کی بیوی نے دیکھا تو مرحبا اور خوش آمدید کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری کی بیوی سے فرمایا فلاں کہاں ہے اس نے عرض کیا وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گیا ہے اسی دروان انصاری بھی آگئے تو اس انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج میرے مہمانوں سے زیادہ کسی کے مہمان معزز نہیں اور پھر چلے اور کھجوروں کا ایک خوشہ لے کر آئے جس میں کچی اور پکی اور خشک اور تازہ کھجوریں تھیں اور عرض کیا کہ ان میں سے کھائیں اور انہوں نے چھری پکڑی تو رسول اللہ نے ان سے فرمایا دودھ والی بکری ذبح نہ کرنا پھر انہوں نے ایک بکری ذبح کی ان سب نے اس بکری کا گوشت کھایا اور کھجوریں کھائیں اور پانی پیا اور جب کھا پی کر سیراب ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سے قیامت کے دن ان نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا تمہیں اپنے گھروں سے بھوک نکال کر لائی اور پھر تم واپس نہیں لوٹے یہاں تک کہ یہ نعمت تمہیں مل گئی۔ 
صحيح مسلم : 2038  

کھانے کے بعد پانی پینے کی دلیل یہ ہے:

 عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: دَعَا أَبُو أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُرْسِهِ، فَكَانَتِ امْرَأَتُهُ يَوْمَئِذٍ خَادِمَهُمْ وَهِيَ الْعَرُوسُ، قَالَ سَهْلٌ: تَدْرُونَ مَا سَقَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ «أَنْقَعَتْ لَهُ تَمَرَاتٍ مِنَ اللَّيْلِ فِي تَوْرٍ، فَلَمَّا أَكَلَ سَقَتْهُ إِيَّاهُ» 

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدناابواسید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی شادی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی سیدنا ابواسید کی بیوی ہی اس دن کام کر رہی تھی اور دلہن بھی وہی تھی سیدنا سہل کہنے لگے کہ تم جانتے ہو کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پلایا تھا رات کو اس نے ایک بڑے پیالہ میں کچھ کھجور ریں بھگو دی تھیں تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے سے فارغ ہوئے تو اس نے وہی بھگوئی ہوئی کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پلا دیں۔  
صحيح مسلم : 2006 

 ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم 

کتبہ: أبو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ 

https://www.rafiqtahir.com/ur/play-swal-63.html

.

ہفتہ، 13 مارچ، 2021

سب سے پہلے سنت کو بدلنے والا بنی امیہ میں سے ہوگا؟

.

بسم الله الرحمن الرحيم 
-+-+-+-+-+-+-+-+-+-+-

تحقیق "سب سے پہلے سنت کو بدلنے والا بنی امیہ میں سے ہوگا" 

~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~

۱. 
کیا یزید بن معاویہ سنت کو بدلنے والے تھے؟ | محدث فورم [Mohaddis Forum]

~~~~ 

۲. 
رسول اللہ ﷺ کی سنت کو بدلنے والا : یزید، یہ روایت موضوع اورمن گھڑت ہے | محدث فورم [Mohaddis Forum]

~~~~

۳. 
حافظ عمر السلفی - أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية یقال لہ یزید... | Facebook
~~~~

۴. 
Saleh Hassan - أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية يقال له يزيد کیا... | Facebook

~~~~

۵. 
(میری سنت کو سب سے پہلے تبدیل کرنے والا شخص... - عبدالرزاق دل رحمانی | Facebook

~~~~

۶. 
Irfan Shaik - 🔍 𝑺𝒂𝒃𝒔𝒆 𝑷𝒆𝒉𝒍𝒆 𝑴𝒆𝒓𝒊 𝑼𝒎𝒎𝒂𝒕 𝒎𝒆𝒊𝒏 𝑴𝒆𝒓𝒊 𝑺𝒖𝒏𝒏𝒂𝒕 𝒌𝒐 𝑩𝒂𝒅𝒂𝒍𝒏𝒆... | Facebook

~~~~

۷. 
الموضوع: حديث "أول من يغيّر سنّتي رجل من بني أمية" 

المجلس العلمي


~~~~

۸. 
أول من يغير سنتي رجل من بني أمية [الأرشيف] - ملتقى أهل الحديث

~~~~

۹. 
مدونة الجزيرة العربية : جواب حديث ( أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية)

~~~~

۱۰. 
تعقّب الإمام الألباني في تحسينه لحديث " أول من يغيّر سنتي رجل من بني أمية "، والصواب أنه ضعيف لإرساله


~~~~

۱۱. 
إن أول من يغير سنتي رجل من بني أمية

من شبهات الرافضة .. - رد الشبهات وكشف الشخصيات

~~~~

۱۲. 
س/ السلام عليك شيخنا ماصحة حديث: [أَوَّلُ مَنْ يُبَدِّلُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ]. 
الصفحه الرسمية لفضيلة الشيخ المحدث أبي عبدالله الصادق بن عبدالله الهاشمي | 
Facebook

~~~~

۱۳. 
مہمان پوسٹ یزیدی کون؟ تحریر ذرا لمبی ہے... 


~~~~

Salafi Tehqiqi Library
سلفی تحقیقی لائبریری 

فیس بک گروپ: 

ٹیلی گرام چینل:
Telegram Channel:

~~~~

شئیر 

.