ہفتہ، 27 مارچ، 2021

بانجھ عورت سے شادی ‏کرنا؟ ‏

.

بانجھ عورت سے شادی کا حکم؟ 

؛~~~~~~~~~~~~~؛

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسى عورت سے شادى كرنے كى رغبت دلائى ہے جو زيادہ محبت كرنے والى اور زيادہ بچے جننے والى ہو، انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمايا كرتے تھے:

" تم ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں روز قيامت انبياء كے ساتھ زيادہ ہونے پر فخر كرونگا "

مسند احمد حديث نمبر ( 12202 ) ابن حبان نے صحيح ابن حبان ( 3 / 338 ) اور الھيثمى نے مجمع الزوائد ( 4 / 474 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور شمس آبادى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" الودود " يعنى جو اپنے خاوند سے محبت كرتى ہو.

" الولود " يعنى جو كثرت سے اولاد جنتى ہو، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ دونوں قيديں اس ليے لگائيں كہ جب وہ محبت كرنے والى نہ ہو تو خاوند اس ميں رغبت نہيں كريگا، اور جب محبت كرنے عورت زيادہ بچے نہ جنے تو مطلوب حاصل نہيں ہوتا اور وہ مطلوب زيادہ بچے پيدا كر كے امت مسلمہ كو زيادہ كرنا ہے، اور كنوارى عورتوں ميں يہ دونوں وصف ان عورتوں كے رشتہ داروں سے معلوم ہو سكتے ہيں، كيونكہ غالبا رشتہ داروں ميں طبيعت ايك دوسرے ميں سرايت كرتى ہے " انتہى

ديكھيں: عون المعبود ( 6 / 33 - 34 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بانجھ عورت سے شادى كرنے سے منع فرمايا ہے.

معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك شخص آيا اور عرض كرنے لگا:

مجھے ايك حسب و نسب والى خوبصورت عورت كا رشتہ ملا ہے ليكن وہ بانجھ ہے بچے نہيں جن سكتى كيا ميں اس سے شادى كر لوں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہ كرو.

وہ پھر دوبارہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو آپ نے دوسرى بار بھى اسے روك ديا، اور پھر وہ تيسرى بار آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم شادى ايسى عورت سے كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارے ساتھ باقى امتوں سے زيادہ ہونے ميں فخر كرونگا "

سنن نسائى حديث نمبر ( 3227 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ).

اسے ابن حبان ( 9 / 363 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1921 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور يہ نہى تحريم كے ليے نہيں بلكہ صرف كراہت كى بنا پر ہے، علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ زيادہ بچے جننے والى عورت اختيار كرنا مستحب ہے واجب نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور مستحب يہ ہے كہ عورت ايسى ہو جو زيادہ بچے جننے ميں معروف ہو " انتہى

اور مناوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" زيادہ بچے نہ جننے والى عورت سے شادى كرنا مكروہ تنزيہى ہے " انتہى

ديكھيں: الفيض القدير ( 6 ) حديث نمبر ( 9775 ).

جس طرح عورت كے ليے بھى بانجھ مرد سے شادى كرنا جائز ہے، اسى طرح مرد كے ليے بانجھ عورت سے شادى كرنا جائز ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں لكھتے ہيں:

" اور وہ شخص جو نسل پيدا نہيں كر سكتا اور نہ ہى اسے عورتوں ميں كوئى رغبت اور خواہش ہے اور نہ ہى استمتاع اور فائدہ كى كوئى خواہش ہے تو اس كے حق ميں ( نكاح كرنا ) مباح ہے اگر عورت كو اس كا علم ہو جائے اور وہ اس پر راضى ہو " انتہى

ماخوذ  
https://islamqa.info/ur/answers/73416

.