اتوار، 28 جون، 2020

فرقہ حدادیہ ایک مختصر تعارف ‏

.

فرقہ حدادیہ 
ایک مختصر تعارف 

بقلم 
 مامون رشید ہارون رشید سلفی 
 
 ~~~~

قارئین کرام ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ عظیم فتنوں کا دور ہے نئے نئے فرقے جنم لے رہے ہیں قسم قسم کے افکار وخیالات اور نو ایجاد اقوال و افعال کی بہتات ہے اعتقادات بدعیہ کی مانو ایک سیل رواں ہے مذہبی سیاسی اعتقادی قومی لسانی احزاب وتنظیمات اور وجہاتِ نظر کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے ہر شخص جو معمولی فکری صلاحیتوں کا مالک ہے وہ کوئی نہ کوئی عجوبہ لے کر نکلتا ہے اور ایک امت کو اپنے پیچھے لگا کر گمراہی کے دلدل میں پھنساتا ہے اور شاید ان خرافات کا سب سے بڑا مخزن جزیرہ عرب ہے جہاں آئے دن کوئی جدید تحریک کوئی جدید فتنہ سر اٹھاتا ہے یا پھر ایسا ہے کہ عرب علما ان فتنوں کو بروقت بھانپ لیتے ہیں اور ان کے سد باب کی کوشش کرتے اور عوام الناس کو کتابوں تقریروں اور خطبات و محاضرات کے ذریعے ان سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ہندوستان پاکستان وغیرہ میں بھی فتنوں کی کمی نہیں ہے جدیدیت کا فتنہ، لبرلزم کا فتنہ، برادرس کا فتنہ، تحریکیت اور اخوان و ترک پسندی کا فتنہ، بلا علم کے تصدر و ظہور کا فتنہ وغیرہ وغیرہ یہاں بھی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے مگر علما کرام کی بے توجہی کے باعث یہ فتنے دن بدن مضبوط اور تناور ہو رہے ہیں ...

دور حاضر کے تباہ کن فرقوں میں سے ایک فرقہ حدادیہ ہے جس نے سلفیت کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا ہے ذیل کے سطور میں میں اسی فرقے کے تعلق سے کچھ باتیں آپ قارئین کی نذر کروں گا ملاحظہ فرمائیں!!

~~~~

تعارف: 
یہ ایک جدید فرقہ ہے جو ایک مصری عالم محمود حداد کی طرف منسوب ہو کر حدادیہ کہلاتا ہے. 
محمود حداد مصری کے بارے میں کافی تلاش وبسیار کے بعد صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ یہ ایک مصری آدمی ہیں جن کی پیدائش 1374 ہجری میں ہوئی ہے انہوں نے اپنے ملک ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے کلیۃ الزراعة (faculty of Agriculture) میں سند فراغت حاصل کی پھر ریاض چلے گیے اور جامعہ محمد بن سعود میں بطور محاسب ( Accountant ) کے کام کیا پھر وہاں سے مدینہ منورہ چلے گئے اور بعض کتابوں کی اشاعت کا کام کیا ساتھ ساتھ ان کتابوں کے صفحات میں اپنی جانب سے زہر بھرنے کی بھی کوشش کی جس کے نتیجے میں اسے مملکہ عربیہ سعودیہ سے نکال باہر کیا گیا.. 
(النقولات السلفية في الرد على الطائفة الحدادية حاشية صفحة :19) 

محمود حداد کے بارے میں اس مختصر تعارف سے معلوم ہوا کہ ان کی تعلیم کتاب و سنت پر قائم منہجی تعلیم نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے شرعی تعلیمات حاصل کی ہے بلکہ وہ تو کھیتی باڑی کے سسلسلے میں علم رکھنے والا ایک  معمولی انسان ہے جنہیں علوم شرعیہ سے کوئی واسطہ ہی نہیں  اسی وجہ سے جامعہ محمد بن سعود میں بھی انہیں تدریس کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی بلکہ انہیں وہاں بطور محاسب رکھا گیا اور ساتھ ہی جب انہوں نے کتابوں کی اشاعت کا کام کیا اور ان میں اپنے باطل افکار داخل کرنے کی کوشش کی تو انہیں وہاں سے بھگا دیا گیا... 

~~~~

محمود حداد مصري کے بارے میں علما کے اقوال: 

چونکہ اس فرقے کی بنیاد اسی فتنہ پرور گمراہ کی کاوشوں سے پڑی ہے اس لیے اس کی حقیقت سے آگہی اس فرقے کی حقیقت واضح کر دے گی..  

(1) محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی : 

جب ایک سائل نے علامہ البانی کے سامنے حداد کی بعض گمراہیوں کا ذکر کیا اور ان کے سلسلے میں شیخ کا موقف جاننا چاہا تو آپ نے فرمایا: هنا يظهر لكم أهمية التمسك بمنهج السلف ، هذا الرجل الآن طلق هذا ، وتمسك بفهمه للكتاب والسنة ، فَضَلَّ ضلالًا بعيدًا ، وأمثاله كثر في كل عصر ؛ في كل مكان" 
(سلسلة الهدى والنور، الشريط رقم: 782)

یہاں پر تمہارے لیے منہج سلف اختیار کرنے کی اہمیت آشکارہ ہو جائے گی، اس آدمی نے اس وقت منہج سلف کو چھوڑ دیا ہے اور کتاب و سنت کے سلسلے میں اپنے فہم پر اعتماد کیا ہے لہذا وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا اس کے ہم منہج ہر دور میں ہر جگہ بہت زیادہ ہیں. 

(2) محدث یمن علامہ مقبل بن ہادی الوادعی: 

" أما الحداد فهو محمود الحداد وكان على استقامة لا بأس بذلك الله أعلم أكان يتكتم ، وكان بينه وبين الشيخ ربيع تعاون وصداقة ثم بعد ذلك أظهر ما عنده من الضلال وهو أن < فتح الباري > كتاب من كتب الضلال لأنه أخطأ في بعض العقيدة فينبغي أن يُحرق وأنا أقول : لولا أن النبي - صلى الله عليه وعلى آله وسلم - يقول : " لا يحرق بالنار إلا رب النار " لقلنا : أنت يا حداد أولى بأن تُحَّرق ، < فتح الباري > الذي يعتبر خزانة علم وليس له نظير في كتب السنة جزى الله مؤلفه خيراً كونه أخطأ في بعض المسائل تُغمر فيما له من الحسنات ، وهكذا أيضاً < شرح النووي > ، فهذه من طاماته أعظم ما عنده وهو قوله : أن < فتح الباري > ، و < شرح صحيح مسلم > يحرقان والله المستعان 
 (شريط : أسئلة الشباب السلفي في حي الدائري )
للإستماع للصوتية

http://muqbel.net/files/fatwa/muqbel-fatwa699.mp3

حداد یہ محمود الحداد ہے شروع شروع میں یہ شخص ٹھیک ٹھاک تھا اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا وہ اپنا معاملہ چھپا رہا تھا ؟ اس کے اور شیخ ربیع المدخلي کے مابین تعاون اور دوستی کا رشتہ تھا پھر اس نے اپنی گمراہیوں کا اظہار کیا اور وہ یہ کہ فتح الباری گمراہ کن کتابوں میں سے ہے کیونکہ امام ابن حجر نے عقیدے کے بعض مسائل میں غلطی کی ہے لہذا اس کو جلا دینا چاہیے میں کہتا ہوں کہ اگر اللہ کے رسول نے یہ نہ کہا ہوتا کہ آگ کا عذاب صرف آگ کا رب ہی دیگا تو ہم کہتے کہ آئے حداد تم جلائے جانے کے زیادہ مستحق ہو .. فتح الباری علم کا خزینہ ہے حدیث کی کتابوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں اللہ تعالٰی اس کے مؤلف کو بہتر بدلہ عطا فرمائے... آپ کی بعض غلطیاں آپ کے حسنات میں دفن کر دی جائیں گی اسی طرح "شرح نووی علی صحیح مسلم " کا بھی معاملہ ہے، یہ اس کی گمراہیوں میں سے اس کی سب سے بڑی گمراہی اس کا یہ کہنا ہے کہ "فتح الباری اور امام نووی کی شرح صحیح مسلم جلائے جانے کے مستحق ہیں... 

(3) شیخ العقیدہ محمد امان جامی : 

شیخ فرماتے ہیں: جیسا کہ کہا گیا ہے محمود الحداد کا تعلق تکفیریوں سے تھا پھر وہ اس ملک ( سعودیہ عربیہ) میں آیا تاکہ توحید اور سنت کا جھنڈا بلند کرے اور اندر ہی اندر اس جھنڈے کی آڑ میں اسلام سے دشمنی نبھائے،  یا وہ جاہل تھا چنانچہ اس نے مرتکب کبیرہ اور مسلسل فسق و فجور میں مبتلا شخص کا حکم بیان کرنا چاہا لیکن اپنی جہالت کی وجہ سے بیان نہ کر سکا..لہٰذا اس کے بارے میں دو ہی باتیں کہی جا سکتی ہیں: یا تو جیسا کہ کہا گیا ہے وہ تکفیریوں کے ساتھ تھا اور اس نے یہ کام جان بوجھ کر کیا تاکہ سنت اور عقیدے کا علم بلند کرنے کے بعد اندر سے اس کی مخالفت کرے، یہ احتمال قوی ہے جیسا کہ ہمیں ثقہ لوگوں کے ذریعے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ تکفیریوں میں سے تھا .. 

دوسرا احتمال یہ ہے کہ وہ تکفیریوں میں سے نہ تھا بلکہ وہ جاہل تھا وہ ایسی چیز میں داخل ہو گیا جس میں لکھنے کی اس کے پاس قابلیت نہ تھی چنانچہ بے شعوری میں معتزلہ کے عقیدے میں ملوث ہو گیا.. 

(4) محدث مدینہ علامہ حماد انصاری رحمہ اللہ: 

شیخ فرماتے ہیں: وهذا الحداد قد سيطر على بعض طلبة العلم ، ولا أدري كيف سيطر عليهم ، أهو ساحر أمَّاذا ؟"(المجموع في ترجمة العلامة المحدث الشيخ حماد بن محمد الأنصاري - رحمه الله تعالى -" ( 632/2).

 اس حداد نے بعض طلبہ علم پر تسلط جما لیا ہے میں نہیں جانتا اس نے ایسا کیسے کیا، کیا وہ جادو گر ہے یا  کیا ہے وہ ؟

شیخ حماد کے فرزند عبد الأول بن حماد انصاری فرماتے ہیں کہ: 
والد محترم رحمہ اللہ طلبہ علم کو حداد سے دور رہنے کی تلقین فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ نوجوان طبقے کے بعض افراد ہر ایرے غیرے کے پیچھے دوڑنے کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں. 
(المجموع في ترجمة العلامة المحدث الشيخ حماد بن محمد الأنصاري - رحمه الله تعالى -" ( 632/2).

اسی طرح فرمایا: 
"لو كان لي سلطان على الذي يقول بعدم القراءة في فتح الباري وشرح النووي على صحيح مسلم ؛ لأخذته وسجنته حتى يتوب ، وهذا القول لا يقوله إلا سفيه ، _يعني : عدم قراءة الفتح وشرح مسلم" 
(المجموع في ترجمة العلامة المحدث الشيخ حماد بن محمد الأنصاري - رحمه الله تعالى -" 2/ 582)

اگر مجھے ایسے آدمی پر دسترس حاصل ہوتا جو فتح الباری اور امام نووی کی شرح صحیح مسلم کو نہ پڑھنے کی بات کرتا ہے تو میں اسے پکڑتا اور قید کر لیتا یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے، یہ بات یعنی فتح الباری اور امام نووی کی شرح صحیح مسلم کو نہ پڑھنے کی بات صرف کم عقل پاگل ہی کر سکتا ہے. 

(5) حامل لواء الحرح و التعدیل فی هذا الزمان علامہ ربیع بن ہادی عمیر المدخلي:  
قال حفظه الله:" الحدادية جماعة غلوا في الحداد ورفعوه ، وهو رجل جاهل متخبط ظال"(مجموع كتب ورسائل وفتاوى الشيخ ربيع" (14/549) 

"حدادیہ ایک ایسی جماعت ہے جس نے حداد کے سلسلے میں مبالغہ آرائی کی اور اسے بہت اونچا مقام دے دیا ہے جبکہ وہ ایک جاہل متخبط اور ظالم انسان ہے" 

 وقال: " أنا كتبت فيه "مجازفات الحداد" وبينت خبثه وشره وكذبه "
(مجموع كتب ورسائل وفتاوى الشيخ ربيع" 14/549) 

"میں نے حداد کے بارے میں "مجازفات الحداد" کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس کے اندر اس کی خباثت  شرارت اور  دروغ گوئی کو واضح کیا ہے" 

اور فرمایا: "فللحداد حزب لئيم، قام على الفجور والكذب، وعلى أردأ الأخلاق - التي تفوق في الشراسة والخسة شراسة الوحوش وخستها.... 
( مجموع كتب ورسائل وفتاوى الشيخ ربيع" 9/520)

حداد کی ایک گھٹیا کمینی جماعت ہے جس کی بنیاد کذب و فجور اور اخلاق رذیلہ پر ہے جو جماعت کمینگی اور اوچھا پن میں جانوروں سے بھی بدتر ہے "

شیخ حدادیہ کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ لوگ اہل بدعت کے ہاتھوں میں زہریلے نیزے ہیں جو سلفیوں کی پیٹھوں میں مارے جاتے ہیں جب جب یہ سلفی حضرات  سنت کی تائید اور اس کے دفاع میں کھڑے ہوتے ہیں. 
(خطورة الحدادية الجديدة " للشيخ ربيع بن هادي المدخلي ص: 23)


ان کے علاوہ دیگر کبار علماء عصر نے بھی حداد اور حدادیہ کی مذمت بیان فرمائی ہے اور ان سے دور رہنے کی شدید تلقین کی ہے جن میں علامہ عبید بن عبد اللہ الجابری, علامہ احمد بن یحیی النجمی، علامہ صالح بن فوزان الفوزان، علامہ ثناء اللہ زاہد پاکستانی، دکتور عبد اللہ بن عبد الرحیم بخاری، شیخ محمد بن سعید رسلان، شیخ محمد بن زمزان الھاجری، شیخ احمد بن عمر بازمول شیخ خالد بن ضحوی الظفیری، شیخ فواز بن علی المدخلی وغیرہم ہیں.. 

~~~~

حدادیہ کی تاریخ: 

حدادیہ کا ظہور خلیجی بحران (سقوط کویت 1990-1991) کے دوران ہوا جیسا کہ شیخ ربیع المدخلي نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے: یہ تاریخ یعنی خلیجی بحران ہی حدادیہ کی دعوت کے ظہور کی ابتدا ہے  جس کی بنیاد تقیہ اور چالباز حزبیت پر ہے 
( مجموع كتب ورسائل وفتاوى الشيخ ربيع" (4/86)

~~~~

حدادیہ کے مشہور شخصیات: 

حدادیہ تکفیریہ کے ہاں معتمد علیہم اور جلیل القدر ائمہ جن کے بارے میں وہ حد سے زیادہ غلو کرتے ہوئے انہیں امام علامہ محدث فقیہ وغیرہ وغیرہ القاب سے نوازتے ہیں  محمود الحداد المصري، عبد اللطيف باشميل، فالح بن نافع الحربي، فوزي البحريني، عبد الحميد الجهني، عبد الله صوان الغامدی، يحيى بن علي الحجوري" وغیرہم ہیں. 

~~~~

حدادیہ اپنے افکار کو وسعت دیتے اور ان میں تنوع پیدا کرتے ہوئے کئی مراحل سے ہو کر گزرا: 

پہلا مرحلہ: 
اس فرقے کی ابتدا امام نووی، امام  ابن حجر، امام شوکانی اور علامہ البانی پر طعن و تشنیع اور ان کبار محدثین کی شان میں گستاخی کے ذریعے ہوئی.. 

دوسرا مرحلہ: 
اس مرحلے میں ان لوگوں نے طعن و تشنیع کے دائرے کو تھوڑا وسیع کیا اور امام نووی و ابن حجر رحمہما اللہ کے ساتھ ساتھ ابن تیمیہ و ابن القیم رحمہما اللہ کو بھی بدعتی قرار دیا اور معاصرین میں علمائے مدینہ اور امام ابن باز، امام ابن عثیمین اور شیخ ربیع بن ہادی المدخلي وغیرہم پر بھی نقد وجرح کرنے لگے ... 

 تیسرا مرحلہ: 
  ان لوگوں نے اس مرحلے میں اپنے دائرہ طعن کو اتنا وسیع تر کر دیا کہ ہر اس عالم دین کو مرجئ قرار دینے لگے جو تارک صلاۃ کو کافر نہیں سمجھتے حتی کہ ان لوگوں نے جمہور اہل سنت کو مرجیہ قرار دیا اور بعض پر تو جہمیت کا الزام بھی عائد کر دیا...  نعوذ باللہ من الخذلان. 

چوتھا مرحلہ: 
  اس مرحلے میں ان حضرات نے نصوص کتاب و سنت پر بھی دست درازی شروع کر دی اور ان نصوص کو کتوں کے بھونکنے سے تشبیہ دی ہے. 

اس طرح یہ لوگ بڑی محنت سے دنیا و آخرت کے خسارے میں مبتلا ہوئے اور اپنے آپ کو ہلاک و برباد کر ڈالے. 

~~~~

حدادیہ کے اوصاف: 
(انحرافات اور گمراہیاں): 

(1) یہ لوگ سلفی منہج کے حامل معاصر کبار علما سے حد درجہ بغض رکھتے ہیں، ان کو جاہل اور گمراہ قرار دیتے اور ان پر افترا پردازی کرتے ہیں جیسے البانی ابن باز ابن عثیمین ربیع بن ہادی المدخلي اور بالخصوص علمائے مدینہ منورہ عبد المحسن العباد، حماد انصاری وغیرہم پر...  اس سے بھی اگے بڑھتے ہوئے یہ لوگ امام ابن تیمیہ امام ابن القیم اور ابن ابی العز حنفی پر حملہ کرتے ہیں تاکہ انہیں غیر معتبر قرار دے کر ان کے اقوال کو ساقط الاعتبار قرار دے.. 

(2) یہ لوگ ہر اس شخص کو بدعتی قرار دیتے ہیں جو کسی ایک بھی بدعت کا مرتکب ہو جائے اور امام ابن حجر ان کے نزدیک سید قطب سے بھی بدتر ہیں ( نعوذ باللہ) 

(3) یہ لوگ ہر اس شخص کو بدعتی قرار دیتے ہیں جو کسی ایک  بدعت کے مرتکب شخص کو بدعتی نہ قرار دے بلکہ اس سے عداوت اور دشمنی شروع کر دیتے ہیں..  اگر کوئی کہے کہ فلاں کے عقیدے میں اشعریت ہے یا فلاں اشعری ہے تو یہ کافی نہیں ہے بلکہ فلاں شخص بدعتی ہے کہنا ضروری ہے ورنہ پھر وہی بدعتی قرار پائے گا.. 

(4) ان کے نزدیک اہل بدعت کے حق میں "رحمہ اللہ" کہنا حرام ہے اور اس سلسلے میں رافضی جہمی قدری اور کسی ایسے عالم کے مابین جو کسی ایک بدعت کا مرتکب ہو جائے کوئی فرق نہیں... 

(5) جو لوگ ابوحنیفہ، ابن الجوزی، نووی، ابن حجر، ابن ابی العز اور امام شوکانی وغیرہم کے حق میں "رحمہ اللہ" کہتے ہیں یہ لوگ انہیں بھی بدعتی قرار دیتے ہیں ... بلکہ امام ابو حنیفہ کو ابو حنیفہ کے بجائے ابو جیفۃ کہتے ہیں.. اللہ اکبر.. 

(6) ان کی ایک امتیازی صفت یہ ہے کہ یہ لوگ سلفیوں سے سخت دشمنی اور بغض رکھتے ہیں بالخصوص علمائے مدینہ اور شیخ البانی شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین سے ان لوگوں نے ان علما کی تنقیص میں مستقل کتابیں لکھی ہے.. 

شیخ ربیع فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ البانی کی تنقیص اور ان پر طعن و تشنیع سے بھری حداد کی "الخميس" نامی ایک کتاب دیکھی ہے جو ہاتھ سے لکھے چار سو صفحات پر مشتمل ہے اگر طبع کی جائے تو ایک ہزار صفحات تک پہنچ جائے گی .. اس نے اس کتاب کا نام "الخميس" Armstrong Army رکھا ہے یعنی ایسا لشکر جس کا مقدمہ مؤخرہ(ساقہ)  قلب میمنہ اور میسرہ ہو.. 
(خطورة الحدادية الجديدة ص: 51) 

(7) یہ لوگ معین اشخاص پر لعنت بھیجتے ہیں اور لعن طعن میں حد سے زیادہ مبالغہ آرائی کرتے ہیں فلاں کذاب فلاں ملعون ہے فلاں جاہل ہے وغیرہ وغیرہ حتی کہ ان میں سے بعض لوگ امام ابوحنیفہ پر بھی لعنت بھیجتے ہیں بلکہ بعض تو انہیں کافر تک قرار دیتے ہیں. 

(8) یہ لوگ تکبر اور سرکشی میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بے پروا ہو کر حق کا انکار کرتے ہیں اور اپنی خباثتوں کی تائید کے لیے بعض ائمہ کے شاذ اقوال کو پیش کرتے ہیں یہ لوگ امام احمد کے نام کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اپنے کبر و عناد ہی کی وجہ سے ان لوگوں نے محمود حداد کے بارے میں کبار سلفی علما کی تصریحات اور ردود کو خاطر میں نہ لایا اور اس کو جلیل القدر امام مانتے رہے. 

(9) یہ لوگ شدید تقیہ سے کام لیتے ہیں اور مجہول ناموں سے کتابیں اور مضامین لکھ کر چھپ چھپ کر سلفیت پر وار کرتے ہیں اور جب ان میں سے کوئی مر جاتا ہے تو اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا اس طرح یہ لوگ اخفائے ذوات و امور میں روافض سے بھی آگے جا چکے ہیں. 

(10) یہ لوگوں جرح و تعدیل کے سلسلے میں اہل سنت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہیں اور ائمہ جرح و تعدیل کی اور جرح و تعدیل کے سلسلے میں ان کے اصولوں کی تنقیص واستخفاف کرتے ہیں .

(11) ان لوگوں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم تک کو بدعتی قرار دیا ہے... حتی کہ یہ لوگ فتح الباری، شرح نووی علی صحیح مسلم، فتح القدیر اور نیل الاوطار وغیرہ کتب جلیلہ کو جلا ڈالنے کی بات کرتے ہیں.. 
وغیرہ وغیرہ  

~~~~

ان صغار العلم متشددین تکفیریین کے انحرافات جن کا ذکر سلفی کبار علمائے عرب نے تفصیلی طور پر اپنی کتابوں میں کر رکھا ہے ان میں سے چند کے اسما درج ذیل ہیں: 

(1) النقولات السلفية في الرد على الطائفة الحدادية للشيخ عبد اللہ بن محمد عامر الاحمری، تقدیم:  فضليۃ الشیخ احمد بن یحییٰ النجمی، فضيلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان، فضیلۃ الشیخ حافظ ثناء اللہ زاہد پاکستانی. 

(2) خطورة الحدادية الجديدة وأجه الشبه بينها وبين الرافضة، للشيخ ربيع بن هادي عمير المدخلي.. شیخ نے اس کتاب کے اندر حدادیہ اور روافض کے مابین تشابہ کے بارہ امور ذکر کیے ہیں. 

(3) طعن الحدادية في علماء السنة للشيخ ربيع بن هادي المدخلي 

(4) صفات الحدادية للشيخ ربيع بن هادي المدخلي 

(5) المقالات الأثرية في الرد على شبهات وتشغيبات الحدادية للشيخ ربيع المدخلي 

(6) الصواعق السلفية على أوكار الطائفة الحدادية التكفيرية، للشيخ أحمد بن عمر بازمول 

لہذا جو اس فرقے کے بارے میں مزید تفصیلات کا خواہاں ہو وہ ان کتابوں کا مراجعہ کرے.. 

اللہ ہمیں فہم سلیم اور فکر مستقیم سے نوازے آمین.

.

ہفتہ، 27 جون، 2020

مشہور ‏شش ‏کلموں ‏کی ‏حقیقت ‏

.

مشہور چھ کلموں کی حقیقت 

~~~~

سوال 
برصغیر میں مشہور چھ کلموں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ان کلموں کا وجود قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟

~~~~

جواب 
ہمارے ہاں برصغیر یعنی پاک و ہند میں شش کلمے یعنی چھ کلموں کےنام سےچند دعائیہ کلمات اور تسبیحات بہت پابندی سےبچوں کو یاد کروائےجاتےہیں، اور نا صرف یاد کروائے جاتے ہیں بلکہ ان چھ کلموں کو یاد رکھنے والے کو حقیقی مسلمان سمجھا جاتا ہے، جب بھی کسی کا امتحان لینا ہو کہ وہ پکا مسلمان ہے یا نہیں تو اس سے چھ کلمے سنے جاتے ہیں، جیسے نکاح کے وقت دلہے سے، اگر کسی کو کلمے یاد ہوں اور بھلے وہ نماز ،قرآن نا بھی پڑھتا ہو، جتنے مرضی عیب ہوں اس میں اسکو نیک پاک ہونے کا پرمٹ دے دیا جاتا ہے، اور جس کو چھ کلمے یاد نا ہوں تو اسکو طعنے دے دے کر کافر بنا دیا جاتا ہے، اسکے ایمان پر شک کیا جاتا ہے،حالانکہ شریعت میں ان چھ کلموں کی اہمیت و فرضیت تو دور کی بات ہے انکی یہ ترتیب اور ان چھ کلموں کے مکمل الفاظ ہی ثابت نہیں، کسی ضعیف حدیث میں بھی ان چھ کلموں کی موجودہ ترتیب یا فرضیت یا فضیلت ثابت نہیں،آج کے سلسلہ میں ہم آپکے سامنے ان چھ کلموں کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کریں گے ان شاءاللہ،

چھ کلموں کے موجودہ ناموں کی حقیقت 

چھ کلمے جو درج ذیل ناموں سے مشہور ہیں 

1  پہلا کلمہ طیب 
2  دوسرا کلمہ شہادت 
3  تیسرا کلمہ تمجید 
4  چوتھا کلمہ توحید 
5  پانچواں کلمہ استغفار 
6  چھٹا کلمہ رد کفر 

ان چھ میں سے کسی ایک کلمے کا نام بھی قرآن و حدیث میں موجود نہیں، یہ غیر معروف ہیں اور بہت بعد میں کسی نے ان ناموں کو ترتیب دیا ہے. 

~~~~ 

ان چھ کلموں کی ترتیب اور الفاظ کی شرعی حیثیت 

۱. 
پہلا کلمہ طیب

لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ•

ترجمہ!!!
“اللہ کےسوا کوئی عبادت کےلائق نہیں، 
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کےرسول ہیں ”

یہ کلمات کئی احادیث مبارکہ سے آدھے یا مکمل ثابت ہیں، مگر ان کلمات کو حدیث میں کلمہ طیب کی بجائے “كلمة التقوى” کے نام سے ذکر کیا گیا ہے، اور کئی روایات میں ان کلمات کو پڑھنے کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے 

چند ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں 

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا 
” اللہ تعالیٰ نےاپنی کتاب میں تکبر کرنےوالی ایک قوم کا ذکر کیا ہے 
یقیناجب انہیں
لاالہ الااللہ کہاجاتا ہے  تو تکبر کرتےہیں 
اور اللہ تعالیٰ نےفرمایا  
“جب کفر کرنےوالوں نےاپنےدلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی  تو اللہ نےاپنا سکون و اطمینان اپنےرسول اور مومنوں پر اتارا  اور انکےلئے کلمة التقوی کو لازم قرار دیا  اور اسکےزیادہ مستحق اور اہل تھے ” 
اور وہ (کلمة التقوی) ہے 
” لّا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ”
حدیبیہ والےدن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمدت (مقرر کرنے) والےفیصلےمیں مشرکین سےمعاہدہ کیاتھا  تو مشرکین نےاس کلمہ سےتکبر کیا تھا،
( صحيح ابن حبان حدیث نمبر  218 • أخرجه في صحيحه)
(الألباني صحيح الترمذي 3265 •صحيح)
(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی جلد نمبر 1صفحہ نمبر 263حدیث نمبر 195۔ ناشر مکتبة السوادی، جدة ،الطبعة الأولی)
یہ حدیث بالکل صحیح ہے  اسکی سندکے سارےراوی سچےاورقابل اعتماد ہیں،

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 
(افضل ترین ذکر “لا الہ ا لا اللہ”
اور افضل ترین دعا “الحمد للہ” ہے،
(سنن ترمذی حدیث نمبر 3383)

 اس روایت کو ابن حبان نے “صحیح ابن حبان” (3/126) میں روایت کرتے ہوئے عنوان قائم کیا 
“باب ہے اس بیان میں کہ الحمد للہ [یعنی  اللہ تعالی کی حمد ]افضل ترین دعا ہے، اور لا الہ الا اللہ افضل ترین ذکر ہے”،
اس حدیث کو ابن حجر رحمہ اللہ نے ” (نتائج الأفكار 1ج/ص63) میں اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے “صحیح ترمذی” میں حسن قرار دیا ہے،

~~~~

۲. 
دوسرا کلمہ جسے شہادت کہاجاتا ہے

جو کہ ایمان کا لفظی اقرار ہے، 
” اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ، وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ•”

یہ کلمات الفاظ کی کمی بیشی کےساتھ کچھ احادیث سےثابت ہیں، مگر احادیث میں انکو کلمہ شہادت کی بجائے وضو کے بعد پڑھی جانے والی دعا اور عام اذکار سے منسوب کیا گیا ہے اور اسکے پڑھنےکی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے،

چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں،
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  تم میں سے جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر وضو سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھے 

«أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ 

میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں،

تو اس شخص کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے، وہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو .

(صحیح مسلم حدیث نمبر 243)
(سنن ترمذی حدیث نمبر 55)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر 169)

اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا 
 
“جو شخص دن بھر میں سو مرتبہ یہ دعا پڑھےگا ”
” لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ ، لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ •”

“نہیں ہےکوئی معبود، سوا اللہ تعالیٰ کے، اسکا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے  اور تمام تعریف اسی کےلیےہے  اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ” 

تو پڑھنےوالےکو دس غلام آزاد کرنےکےبرابر ثواب ملےگا  سو نیکیاں اسکےنامہ اعمال میں لکھی جائیں گی  اور سو برائیاں اس سےمٹا دی جائیں گی  اس روز دن بھر یہ دعا شیطان سےاسکی حفاظت کرتی رہےگی  تاوقتکہ شام ہوجائے 
اور کوئی شخص اس سےبہتر عمل لےکر نہ آئےگا  مگر جو اس سےبھی زیادہ یہ کلمہ پڑھ لے 
(صحیح بخاری حدیث نمبر 3293)

~~~~

۳. 
تیسرا کلمہ 
 تمجید درج ذیل ہے 

سُبْحَانَ ﷲِ، وَالْحَمْد ﷲِ، وَلَآ اِلٰهَ اِلَّااللہُ، وَﷲُ اَکْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِ الْعَظِيْمِ 

یہ کلمات اسی ترتیب کے ساتھ، سوم کلمہ تمجید کے نام سے کسی حدیث میں موجود نہیں، ہاں البتہ یہ کلمات رات کو آنکھ کھلنے پر پڑھی جانے والی دعا کا ایک ٹکڑا ہیں، اسی طرح نماز تسبیح میں پڑھے جانے والے کچھ کلمات بھی اس میں سے ہیں اور اسی طرح دو الگ الگ مقام پر دو مختلف احادیث میں بھی یہ کلمات آئے ہیں،

احادیث ملاحظہ فرمائیں،
 عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  جو رات میں بیدار ہو اور آنکھ کھلتے ہی یہ دعا پڑھے 

«لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ،‏‏‏‏ لَهُ الْمُلْكُ،‏‏‏‏ وَلَهُ الْحَمْدُ،‏‏‏‏ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ،‏‏‏‏ سُبْحَانَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ،‏‏‏‏ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ وَاللَّهُ أَكْبَرُ،‏‏‏‏ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ» 

اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اور اسی کے لیے حمد و ثنا ہے، وہی ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اللہ ہی سب سے بڑا ہے، طاقت و قوت اللہ بلند و برتر کی توفیق ہی سے ہے ،

پھر یہ دعا پڑھے  «رَبِّ اغْفِرْ لِي،‏‏‏»
اے رب مجھ کو بخش دے  
تو وہ بخش دیا جائے گا 

ولید کہتے ہیں  یا یوں کہا 
اگر وہ دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہو گی، اور اگر اٹھ کر وضو کرے، پھر نماز پڑھے تو اس کی نماز قبول ہو گی 

(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 3878)
(صحیح بخاری حدیث نمبر 1154)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر 5060)
(سنن ترمذی حدیث نمبر 3414)

 عبيدالله بن أبي أوفى کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہنے لگا کہ میں قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو آپ مجھے کچھ ایسا سکھا دیں جو مجھے قرآن کی جگہ کفایت کر جائے، 
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہو،

سُبحانَ اللهِ، والحَمدُ للهِ، ولا إلهَ إلّا اللهُ، واللهُ أكبرُ، ولا حَولَ ولا قوَّةَ إلّا باللهِ 

تو اس نے کہا یہ تو میرے اللہ کے لیے ہے، (یعنی اللہ کی تعریف ہے)
میرے لیے کیا ہے؟ ( یعنی میں اپنے لیے کیا دعا مانگوں) فرمایا تم کہو،
اللَّهُمَّ اغفِرْ لي، وارحَمْني، واهدِني، وارزُقْني، وعافِني۔۔۔۔

(شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج سنن الدارقطني 1195 • حسن بطرقه)
(مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث نمبر 29419)
 
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا میں یہ کلمات کہوں 
سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ،
تو یہ میرے نزدیک ان سب اشیا سے زیادہ محبوب ہیں، جن پر سورج طلوع ہوتا ہے 
(یعنی ساری دنیا سےزیادہ محبوب)

(صحیح مسلم حدیث نمبر 2695)
(سنن ترمذی حدیث نمبر 3597)

 سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا 
اے عبداللہ بن قیس،
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ 
کہا کرو کیونکہ یہ جنت کےخزانوں میں سےایک خزانہ ہے 

(صحیح مسلم حدیث نمبر 2704)

~~~~

۴. 
چوتھا کلمہ 
 جس کو توحید کہاجاتا ہے 

لَآ اِلٰهَ اِلاَّ ﷲُ وَحْدَهُ لَاشَرِيْکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْی وَيُمِيْتُ، وَهُوَ حَيٌّ لَّا يَمُوْتُ اَبَدًا اَبَدًا، ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَعَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْر 

ان میں سےبعض الفاظ احادیث میں موجود کچھ دعاؤں میں مذکور ہیں مگر یہ تمام کلمات اس ترتیب کے ساتھ اور اس نام کے ساتھ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہیں 

چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  ”جو شخص نماز فجر کے بعد جب کہ وہ پیر موڑے ( دو زانوں ) بیٹھا ہوا ہو اور کوئی بات بھی نہ کی ہو 
 
«لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ  

دس مرتبہ پڑھے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اس کی دس برائیاں مٹا دی جائیں گی، اس کے لیے دس درجے بلند کئے جائیں گے اور وہ اس دن پورے دن بھر ہر طرح کی مکروہ و ناپسندیدہ چیز سے محفوظ رہے گا اور شیطان کے زیر اثر نہ آ پانے کے لیے اس کی نگہبانی کی جائے گی، اور کوئی گناہ اسے اس دن سوائے شرک باللہ کے ہلاکت سے دوچار نہ کر سکے گا. 

امام ترمذی کہتے ہیں  یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے 
(سنن ترمذی حدیث نمبر 3474)
(و تراجع الشيخ الالباني عن تضعيفه، انظر   ” صحيح الترغيب ” رقم   474)
( السلسلة الصحيحة ” رقم   114 )

اسی طرح بازار میں داخل ہونے والی ایک دعا کے کلمات بھی کچھ اس طرح سے ہیں 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  ”جس نے بازار میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھی 
 
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 

نہیں کوئی معبود برحق ہے مگر اللہ اکیلا، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کے لیے ملک ( بادشاہت ) ہے اور اسی کے لیے حمد و ثناء ہے وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے، وہ زندہ ہے کبھی مرے گا نہیں، اسی کے ہاتھ میں ساری بھلائیاں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے 

تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور اس کی دس لاکھ برائیاں مٹا دیتا ہے اور اس کے دس لاکھ درجے بلند فرماتا ہے. 

امام ترمذی کہتے ہیں  یہ حدیث غریب ہے 
(سنن ترمذی حدیث نمبر 3428)
علامہ البانی نے اس روایت کو حسن کہا ہے جبکہ دیگر کئی محدثین اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے. 
(مجموع فتاوى ابن باز ٢٦/٢٤٧ • ضعيف من الطريقين جميعاً)

~~~~

۵. 
پانچواں کلمہ 
 اِستغفار 

اَسْتَغْفِرُ ﷲَ رَبِّيْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُهُ عَمَدًا اَوْ خَطَاً سِرًّا اَوْ عَلَانِيَةً وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَآ اَعْلَمُ، اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُيُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ،

یہ الفاظ اس ترتیب کےساتھ قرآن و حدیث میں کہیں بھی مذکور نہیں ہیں، خود سے بنائے گئی دعائے استغفار ہے 

~~~~

۶. 
چھٹا کلمہ 
 ردِِّ کفر 

اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَيْئًا وَّاَنَا اَعْلَمُ بِهِ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَآ اَعْلَمُ بِهِ تُبْتُ عَنْهُ وَتَبَرَّاْتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِيْبَةِ وَالْبِدْعَةِ وَالنَّمِيْمَةِ وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُهْتَانِ وَالْمَعَاصِيْ کُلِّهَا وَاَسْلَمْتُ وَاَقُوْلُ، لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ 

یہ تمام دعائیہ کلمات ہیں، لیکن انکی یہ ترتیب اور کئی الفاظ قرآن و حدیث سےثابت نہیں، اپنی مرضی سے مختلف الفاظ جوڑے ہوئے ہیں، 
اِن کا مصدر بھی نامعلوم ہے .

~~~~

خلاصہ 
اس ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان چھ کلموں کو برصغیر کے چند علماء نے مشہور کیا ہے، بجائے اسکے کہ لوگوں کو اصل دعائیں، انکی فضیلت اور صحیح احادیث بتائی جاتیں، بلکہ عوام میں اپنی مرضی سے دعاؤں اور احادیث کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے کلمے بنا دیے اور پھر ان کلموں پر اس قدر سختی سے عمل کروایا کہ جہاں لوگوں میں ان غیر مسنون کلموں کی فرضیت مشہور ہو گئی وہیں ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ لوگ اصل دعاؤں، اذکار اور انکی فضیلت و اہمیت سے نا واقف رہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح سورہ یٰس کی فضیلت میں اس قدر غلو سےکام لیا گیا، اور ضعیف اور من گھڑت احادیث مشہور کر دی گئیں سورہ یسین کی فضیلت میں کہ نتیجۃً سورة البقرۃ اور سورة الکہف جیسی افضل سورۃ کو لوگوں نے نظر انداز کیا، جسکی وجہ سے لوگ صحیح احادیث سے ثابت شدہ فضائل سے بھی محروم ہو گئے. 

بلکل اسی طرح یہ مجوزہ چھ کلمے یاد کروانے میں شدت اور فضیلت میں غلو سے کام لیا گیا کہ ہمارے بچوں کی اکثریت سید الاستغفار اور صبح شام کے مسنون اذکار سے محروم ہو گئی ان میں سے زیادہ تر صرف عربی میں بعض قرانی الفاظ پر مشتمل الله کی تعریف پر منبی کلمات ہیں جن کا کوئی شرعی ثبوت مذکورہ ترتیب اور مذکورہ اسماء کےساتھ نہیں ملتا، انکو جو یاد نہ کرے اس پر کوئی عیب نہیں، اور ان کلمات میں جو الفاظ و دعائیں ہیں، ان میں سےجو حدیث میں موجود ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہیں، انکو یاد کر سکتےہیں. 

لیکن لوگوں میں یہ جو چیز باور کرائی جاتی ہے کہ نعوذ باللہ جس کو یہ چھہ کلمے یاد نہیں، اسکا ایمان کمزور ہے، یاد رکھیں کلمے یاد ہونا یا نہ ہونا ایمان کا پیمانہ نہیں، نہ ہی اسکی کوئی اضافی فضیلت ہے، بلکہ سرے سے ان کلموں کا کوئی وجود ہی نہیں، لہذا انکو فرض بنا کر عوام پر تھوپ دینا جہالت کےعلاوہ کچھ نہیں. 

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین یا رب العالمین 

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

https //alfurqan.info/problems/1247 

.

بدھ، 24 جون، 2020

کھڑے ہو کر پینے کی شرعی حیثیت

.

*کھڑے ہو کر پینے کی شرعی حیثیت*

*محدث العصر علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری*
(شاگرد محدث العصر علامہ زبیر علی زئی)

~~~~؛

کھڑے ہو کر پانی پینے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جواز اور منع دونوں طرح کی احادیث ثابت ہیں۔ آئیے دونوں طرح کی احادیث کا فہمِ سلف کی روشنی میں مطالعہ کرتے ہیں تاکہ ان سے کھڑے ہو کر پانی وغیرہ پینے کا صحیح حکم معلوم ہو سکے۔

*جواز کی احادیث :*

1 ؛
(ا) نزال بن سبرہ ہلالی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
أَتٰی عَلِيٌّ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی بَابِ الرَّحَبَۃِ، فَشَرِبَ قَائِمًا، فَقَالَ : إِنَّ نَاسًا یَّکْرَہُ أَحَدُہُمْ أَنْ یَّشْرَبَ وَہُوَ قَائِمٌ، وَإِنِّي رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ، کَمَا رَأَیْتُمُونِي فَعَلْتُ ۔

’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ باب الرحبہ پر آئے، وہاں کھڑے ہو کر پانی پیا اور فرمایا: کچھ لوگ کھڑے ہو کر پینے کو ناپسند کرتے ہیں، لیکن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، جیسے آپ لوگوں نے مجھے کرتے دیکھا ہے۔‘‘
(صحیح البخاري : 5615)

(ب) زاذان رحمہ اللہ کا بیان ہے:
إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ شَرِبَ قَائِمًا، فَنَظَرَ إِلَیْہِ النَّاسُ کَأَنَّہُمْ أَنْکَرُوہُ، فَقَالَ : مَا تَنْظُرُونَ؟ إِنْ أَشْرَبْ قَائِمًا؛ فَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْرَبُ قَائِمًا، وَإِنْ أَشْرَبْ قَاعِدًا، فَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْرَبُ قَاعِدًا ۔

’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا، تو لوگوں نے ان کی طرف عجیب نظروں سے دیکھا، گویا اس عمل کو غلط سمجھ رہے ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیا دیکھ رہے ہو، اگر میں کھڑے ہو کر پیتا ہوں، تو اس لیے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا ہے اور اگر میں بیٹھ کر پیتا ہوں، تو اس لیے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر پیتے دیکھا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 101/1، ح : 795، وسندہٗ حسنٌ)

2 ؛
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
سَقَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ زَمْزَمَ، فَشَرِبَ وَہُوَ قَائِمٌ ۔

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آبِ زمزم پیش کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نوش فرمایا۔‘‘
(صحیح البخاري : 5617، صحیح مسلم : 2027، واللفظ لہٗ)

3 ؛
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْرَبُ قَائِمًا وَّقَاعِدًا ۔

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر، دونوں طرح پیتے ہوئے دیکھا۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 178/2، 179، 206، سنن الترمذي : 1883، و سندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

4 ؛
یزید بن عطارد تابعی بیان کرتے ہیں :
سَأَلْتُ ابْنَ عُمَر عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا، فَقَالَ : قَدْ کُنَّا عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَشْرَبُ قِیَامًا، وَنَأْکُلُ وَنَحْنُ نَسْعٰی ۔

’’میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کھڑے ہو کر پینے کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا: یقینا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں کھڑے ہو کر پی لیتے اور چلتے ہوئے کھا لیتے تھے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 12/2، 24، 29، مسند الطیالسي : 1904، شرح معاني الآثار للطحاوي : 273/4، 274، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (5243) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

5 ؛
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں:
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْرَبُ قَائِمًا وَّقَاعِدًا ۔

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے اور بیٹھے دونوں حالتوں میں پیتے ہوئے دیکھا۔‘‘
(سنن النسائي : 1362، وسندہٗ حسنٌ)

6 ؛
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلٰی أُمِّ سُلَیْمٍ، وَفِي الْبَیْتِ قِرْبَۃٌ مُّعَلَّقَۃٌ، فَشَرِبَ مِنْ فِیہَا وَہُوَ قَائِمٌ، قَالَ : فَقَطَعَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ فَمَ الْقِرْبَۃِ، فَہُوَ عِنْدَنَا ۔

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام سلیم کے گھر آئے۔ گھر میں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر مشکیزے کے منہ سے پانی پیا۔ سیدہ ام سلیم نے (بطور ِتبرک) مشکیزے کا منہ کاٹ لیا، وہ ابھی تک ہمارے پاس محفوظ ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 431/6، شمائل الترمذي : 215، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن جارود رحمہ اللہ (868) نے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔

7 ؛
سیدہ عائشہ سے روایت ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَی امْرَأَۃٍ مِّنَ الْـأَنْصَارِ، وَفِي الْبَیْتِ قِرْبَۃٌ مُّعَلَّقَۃٌ، فَاخْتَنَثَہَا، وَشَرَبَ وَہُوَ قَائِمٌ ۔

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری صحابیہ کے گھر تشریف لے گئے۔ وہاں ایک مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا منہ کھولا اور کھڑے ہو کر پانی نوش فرمایا۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 161/6، وسندہٗ حسنٌ)

8 ؛
سیدہ کبشہ بیان کرتی ہیں :
دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَشَرِبَ مِنْ فِي قِرْبَۃٍ مُّعَلَّقَۃٍ قَائِمًا، فَقُمْتُ إِلٰی فِیہَا، فَقَطَعْتُہٗ ۔

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور لٹکے ہوئے مشکیزے سے کھڑے ہو کر پانی پیا۔میں نے مشکیزے کے منہ کو کاٹ کر محفوظ کر لیا۔‘‘
(مسند الحمیدي : 353، سنن الترمذي : 1892، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح غریب‘‘، جبکہ امام ابن جارود (867)، امام ابن حبان (5318) نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

9 ؛
ابو جعفر قاری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ یَشْرَبُ قَائِمًا ۔

’’میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کھڑے ہو کر پیتے ہوئے دیکھا۔‘‘
(المؤطّأ للإمام مالک : 926/2، وسندہٗ صحیحٌ)

عامر بن عبد اللہ تابعی رحمہ اللہ ،سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
إِنَّہٗ کَانَ یَشْرَبُ قَائِمًا ۔

’’آپ کھڑے ہو کر پی لیتے تھے۔‘‘
(المؤطّأ للإمام مالک : 926/2، وسندہٗ صحیحٌ)

مسلم بن ابو بکرہ تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
شَرِبَ أَبُو بَکْرَۃَ قَائِمًا ۔

’’سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا۔‘‘
(التاریخ الکبیر للبخاري : 354/2، وسندہٗ حسنٌ)

بشر بن غالب کا بیان ہے :
رَأَیْتُ الْحَسَنَ (بْنَ عَلِيٍّ) یَشْرَبُ، وَہُوَ قَائِمٌ ۔

’’میں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو کھڑے ہو کر پیتے ہوئے دیکھا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 205/8، وسندہٗ حسنٌ)

عباد بن منصور بیان کرتے ہیں :
لَقَدْ رَأَیْتُ سَالِمًا یَّشْرَبُ وَہُوَ قَائِمٌ ۔

’’میں نے سالم تابعی رحمہ اللہ کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 203/8، وسندہٗ حسنٌ)

عبد الملک بن میسرہ کا بیان ہے :
سَأَلْتُ طَاوٗسًا وَسَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا، فَلَمْ یَرَیَا بِہٖ بَأْسًا ۔

’’میں نے امام طاؤس اور سعید بن جبیر سے کھڑے ہو کر پینے کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے اس میں کوئی حرج خیال نہیں کیا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 204/8، وسندہٗ صحیحٌ)

عبد الرحمن بن عجلان کہتے ہیں :
سَأَلْتُ إِبْرَاہِیمَ عَنْہُ، فَقَالَ : لَا بَأْسَ بِہٖ، إِنْ شِئْتَ قَائِمًا، وَإِنْ شَئْتَ قَاعِدًا ۔

’’میں نے امام ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ سے اس بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ چاہو تو کھڑے ہو کر پیو اور چاہو تو بیٹھ کر۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 203/8، وسندہٗ حسنٌ)

ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر دونوں طرح پینا ثابت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسی عمل مبارک کی روشنی میں صحابہ کرام بھی دونوں طرح پینا جائز سمجھتے تھے۔ تابعین ائمہ دین بھی کھڑے ہو کر پینے کو جائز ہی سمجھتے تھے۔

*منع کی احادیث :*
آئیے اب وہ احادیث ملاحظہ فرمائیے جن میں کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت ہے؛

1 ؛
(ا) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
إِنَّہٗ نَہٰی أَنْ یَّشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا ۔

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا۔‘‘
(صحیح مسلم : 2024)

(ب) سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَجَر عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا ۔

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے ڈانٹاہے۔‘‘
(صحیح مسلم : 112/2024)

2 ؛
(ا) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی أَنْ یَشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا ۔

’’بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی کھڑا ہو کر پیے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 327/2، وسندہٗ صحیحٌ)

(ب) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’لَا یَشْرَبَنَّ أَحَدُکُمْ قَائِمًا، فَمَنْ نَّسِيَ؛ فَلْیَسْتَقِیْٔ‘ ۔

’’تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر نہ پیے۔ جو بھول کر ایسا کر بیٹھے، وہ قَے کرے۔‘‘
(صحیح مسلم : 2026)

3 ؛
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمََ زَجَر عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا ۔

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے ڈانٹا ہے۔‘‘
(صحیح مسلم : 2025)

4 ؛
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :
إِنَّہٗ رَاٰی رَجُلًا یَّشْرَبُ قَائِمًا، فَقَالَ لَہٗ : قِہٖ، قَالَ : لِمَہْ ؟ قَالَ : أَیَسُرُّکَ أَنْ یَّشْرَبَ مَعَکَ الْہِرُّ ؟ قَالَ : لَا، قَالَ : ’فِإِنَّہٗ قَدْ شَرِبَ مَنْ ہُوَ شَرٌّ مِّنْہُ، الشَّیْطَانُ‘ ۔

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا، تو اسے فرمایا: قَے کر دیجیے۔ اس نے عرض کیا: کیوں؟ فرمایا: کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ بِلّا پیے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: اس کی نسبت بہت بُرے نے آپ کے ساتھ پیا ہے۔ وہ شیطان ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 301/2، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کا راوی ابو زیاد طحان ’’موثق، حسن الحدیث‘‘ ہے۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اسے ’’ثقہ‘‘ اور امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے ’’شیخ صالح الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔
امام شعبہ رحمہ اللہ جو غالباً ’’ثقہ‘‘ ہی سے روایت لیتے ہیں، وہ اس حدیث کو ابو زیاد سے بیان کر رہے ہیں۔

فائدہ 1:
ایک روایت میں ہے :
’لَو یَعْلَمُ الَّذِي یَشْرَبُ وَہُوَ قَائِمٌ؛ لَاسْتَقَائَ‘ ۔

’’اگر کھڑا ہو کر پانی پینے والا جان لے (کہ اس میں کتنا نقصان ہے)، تو ضرور قَے کر ڈالے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 283/2، صحیح ابن حبّان : 5324)
لیکن اس کی سند امام زہری رحمہ اللہ کی ’’تدلیس‘‘ کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے۔

فائدہ 2:
علامہ ابو عبد اللہ، محمد بن علی بن عمر، مازری (م : 536ھ) لکھتے ہیں :
وَلَا خِلَافَ فِي جَوَازِ الْـأَکْلِ قَائِمًا ۔

’’کھڑے ہو کر کھانے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
(فتح الباري لابن حجر : 23/10)

*ممانعت والی احادیث منسوخ یا تنزیہ پر محمول ہیں:*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھڑے ہو کر پینا، صحابہ کرام کا کھڑے ہو کر پینے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتانا اور خود کھڑے ہو کر پینا بھی، نیز تابعین و ائمہ دین کا اسے جائز بتانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جن احادیث میں کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا گیا ہے، وہ یا تو منسوخ ہیں یا ان سے مراد نہی تنزیہی ہے، یعنی کھڑے ہو کر پانی پینا بہتر نہیں، البتہ کوئی پی لے، تو گناہ گار نہیں ہو گا، جیسا کہ:

امام احمد بن حسین، بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ) احادیث میں کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کے بارے میں فرماتے ہیں:
إِمَّا أَنْ یَّکُونَ نَہْيَ تَنْزِیہٍ، أَوْ نَہْيَ تَحْرِیمٍ، ثُمَّ صَارَ مَنْسُوخًا ۔

’’یا تو یہ ممانعت تنزیہی ہے یا پھر تحریمی ہے جو بعد میں منسوخ ہو گئی۔‘‘
(السنن الکبرٰی : 282/7)

علامہ، ابو عبد اللہ، محمد بن علی بن عمر، مازری (م : 536ھ) لکھتے ہیں:
فَإِنَّ الْـأَمْرَ فِي حَدِیثِ أَبِي ہُرَیْرَۃَ بِالِاسْتِقَائِ؛ لَا خِلَافَ بَیْنَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي أَنَّہٗ لَیْسَ عَلٰی أَحَدٍ أَنْ یَّسْتَقِيئَ ۔

’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے والے کو قَے کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے، اس کے بارے میں اہل علم کا اتفاق ہے کہ ایسا کرنا کسی پر فرض نہیں۔‘‘
(فتح الباري لابن حجر : 82/10، 83)

محمد بن حسن شیبانی کہتے ہیں :
لَا نَرٰی بِالشُّرْبِ قَائِمًا بَأْسًا، وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِیفَۃَ وَالْعَامَّۃِ مِنْ فُقَہَائِنَا ۔

’’ہم کھڑے ہو کر پینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔ امام ابو حنیفہ اور ہمارے اکثر فقہا کا یہی قول ہے۔‘‘
(المؤطّأ لمحمّد بن حسن، ص : 375)

علامہ عبد الحئی لکھنوی حنفی (1304-1264ھ) لکھتے ہیں:
وَالْحَقُّ فِي ہٰذَا الْبَابِ عَلٰی مَا ذَکَرَہُ الْبَیْہَقِيُّ والنَّوَوِيُّ وَالْقَارِيُّ وَالسُّیُوطِيُّ وَغَیْرُہُمْ؛ أَنَّ النَّہْيَ لِلتَّنْزِیہِ، وَالْفِعْلُ لِبَیَانِ الْجَوَازِ ۔

’’اس مسئلے میں حق بات وہی ہے جو امام بیہقی، نووی، (ملا علی) قاری، سیوطی وغیرہ نے ذکر کی ہے کہ یہ ممانعت تنزیہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کھڑے ہو کر پینا بیانِ جواز کے لیے تھا۔‘‘
(التعلیق الممجّد علی مؤطّأ محمّد، ص : 375)

معلوم ہوا کہ بیٹھ کر پینا اولیٰ اور بہتر ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اصحاب ِ صفہ کو پلانے کے لیے دودھ کا پیالہ دیا، جب پلا چکے، تو فرمایا :
اُقْعَدْ، فَاشْرَبْ ۔

’’بیٹھیے اور نوش کیجیے۔‘‘

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:  فَقَعَدْتُّ، فَشَرِبْتُ ۔

’’چنانچہ میں نے بیٹھ کر دودھ پیا۔‘‘
(صحیح البخاري : 6452)

لیکن کھڑے ہو کر پینا حرام نہیں، بلکہ جائز ہے۔ اسے گناہ سمجھنا یا اسے آبِ زمزم کے ساتھ خاص کرنا نصوصِ شرعیہ اور صحابہ و تابعین و ائمہ دین کے فہم کے سراسر خلاف ہے۔ 


http://mazameen.ahlesunnatpk.com/%DA%A9%DA%BE%DA%91%DB%92-%DB%81%D9%88-%DA%A9%D8%B1-%D9%BE%DB%8C%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%B1%D8%B9%DB%8C-%D8%AD%DB%8C%D8%AB%DB%8C%D8%AA%D8%8C-%D8%BA%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%B5%D8%B7%D9%81/

.

اتوار، 21 جون، 2020

آنلائین ‏مقالات ‏غلام ‏مصطفی ‏ظہیر ‏

.

آنلائین مقالات علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

~~~~

۱. 
دست بوسی کی شرعی حیثیت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری 

http://mazameen.ahlesunnatpk.com/%D8%AF%D8%B3%D8%AA-%D8%A8%D9%88%D8%B3%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%B1%D8%B9%DB%8C-%D8%AD%DB%8C%D8%AB%DB%8C%D8%AA%D8%8C-%D8%BA%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%B5%D8%B7%D9%81%DB%8C-%D8%B8%DB%81%DB%8C%D8%B1/ 

~~~~

۲. 
قدم بوسی کی شرعی حیثیت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری 

http://mazameen.ahlesunnatpk.com/qadam-bosi-ki-shrai-haisiat-1/

~~~~

۳. 
رفع سبّابہ کیا ہے؟ 
(مسلسل حرکت راجح ہے اور حرکت نہ دینا بھی جائز ہے) 

https://m.facebook.com/permalink.php?story_fbid=443564786226232&id=233557773893602 

~~~~

۴. 
نماز تسبیح کا ثبوت 

محدث العصر علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ 

http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%B2-%D8%AA%D8%B3%D8%A8%DB%8C%D8%AD.37983/ 

~~~~

۵. 
حاملہ اور دودھ پلانے والی کا روزہ 

https://forum.mohaddis.com/threads/%D8%AD%D8%A7%D9%85%D9%84%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AF%D9%88%D8%AF%DA%BE-%D9%BE%D9%84%D8%A7%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D9%88%D8%B2%DB%81.36000/ 

~~~~

۶. 
عقیقہ صرف ساتویں دن 

https://www.tohed.com/%D8%B9%D9%82%DB%8C%D9%82%DB%81-%D8%B5%D8%B1%D9%81-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%AF%D9%86/?_e_pi_=7%2CPAGE_ID10%2C9239045311 

~~~~

۷. 
قربانی کے احکام و مسائل 

http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%82%D8%B1%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AD%DA%A9%D8%A7%D9%85-%D9%88-%D9%85%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%84-%D8%A7%D8%B2-%D8%BA%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%B5%D8%B7%D9%81%DB%8C-%D8%B8%DB%81%DB%8C%D8%B1-%D8%AD%D9%81%D8%B8%DB%81-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81.36545/ -- 

~~~~

۸. 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیقہ؟ 

https://shaikhamanpuri.blogspot.com/2019/07/blog-post_90.html?m=1 

~~~~

۹. 
قسطوں پر بیچنا 

https://www.linkabdwap.com/mp3/mp3/%D9%85%D8%AD%D8%AF%D8%AB-%D8%BA%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%B5%D8%B7%D9%81%DB%8C-%D8%B8%DB%81%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D9%85%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D9%84%D9%81%DB%8C-%D9%82%D8%B3%D8%B7%D9%88%DA%BA-%D9%BE%D8%B1-%D8%A8%DB%8C%DA%86%D9%86%D8%A7.html 

~~~~

۱۰.
نماز کی دوسری جماعت کی شرعی حیثیت 

https://m.facebook.com/permalink.php?story_fbid=611417209440988&id=233557773893602 

~~~~

۱۱.
خلیفہ بلا فصل

 علمی وتحقیقی مضامین کا مرکز

http://mazameen.ahlesunnatpk.com/khaleefa-bila-fasal/ 

~~~~

۱۲. 
قبر نبوی سے تبرک

http://mazameen.ahlesunnatpk.com/qabar-e-nabwi-sae-tabarrak/ 

~~~~

۱۳. 
گم پایا 

http://mazameen.ahlesunnatpk.com/gum-paya/ 

~~~~

۱۴. 
جنازہ کے بعد دعاء 

https://m.facebook.com/photo.php?fbid=1519891844828008&id=100004216200678&set=a.182256581924881 

~~~~

۱۵. 
سند دین ہے 

http://mazameen.ahlesunnatpk.com/sanad-deen-hai-ghulaam-mustafa/ 

~~~~

۱۶. 
عورت کے ایام مخصوصہ کا تعیین

https://ishaatulhadith.com/ishaatul-hadith/pdf/37/#55-6 

~~~~

۱۷. 
ایس ایم ایس اور تبلیغ دین 

http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/17230/

~~~~

۱۸. 
داڑھی کی شرعی حیثیت

http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/26109/ 

~~~~

۱۹. 
دیگر آنلائین مقالات

https://www.tohed.com/?s=%D8%BA%D9%84%D8%A7%D9%85+%D9%85%D8%B5%D8%B7%D9%81%DB%92%D9%B0+%D8%B8%DB%81%DB%8C%D8%B1+%D8%A7%D9%85%D9%86+%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%8C 

~~~~

.

جمعہ، 19 جون، 2020

حدادیہ اور مُمَیِّعہ ‏کون ‏ہیں ‏؟

حدادیہ اور مُمَیِّعہ کا صرف ایک شکار ہے، اور وہ ہے، سلفی

سلفی سے مراد خاص کر کم عمر،  دین کی طرف مائل، جذباتی سلفی نوجوان ہے۔
سلفيت اعتدال کا راستہ ہے جو حدادیوں کے غلو اور مُمَیِّعوں کی جفا کے بیچ ہے‌۔ 

١. حدادیہ اور مُمَیِّعہ میں فرق
حدادیہ کسی کی جرح میں حد سے زیادہ تجاوز کرتے ہیں اسی لئے وہ تکفیر اور تبدیع میں  شروط اور موانع کا لحاظ نہیں کرتے۔ اس کے برعکس ممیعہ اہل بدعت اور ضلالت یا غلطی کرنے والوں کا رد نہیں کرتے اور رد کرنے والوں کو تفرقہ پیدا کرنے والوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور سلفیوں کو جو جق بیان کریں تو انہیں یہ متشدد اور انتہی پسند کہتے ہیں۔

٢. ان صفات میں حدادیہ اور مُمَیِّعہ مشترک ہیں 

دونوں سلفی ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں اور بظاھر سلفیوں کے ساتھ ہوتے ہیں جس سے عام سلفی دھوکا کھا جاتا ہے۔

دونوں کا اصل نشانہ سلفی ہے۔

حدادیہ اور مُمَیِّعہ دونوں اہل سنت اور اہل بدعت کے معاملے میں فرق نہیں کرتے
حدادیہ جس طرح اگر کسی اہل سنت (سلفی) سے  غلطی ہو جائے تو اس کے رد میں غلو سے کام لیتے ہیں اور اس کا معاملہ اہل بدعت جیسا کرتے ہیں یہاں تک کہ انہیں سلفیت سے خارج کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف ممیعہ اہل بدعت کا معاملہ اہل سنت جیسا کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، ان کی مجلسوں میں شریک ہونا، دعوتی مصلحت کہہ کر بدعتوں کا ارتکاب کرنا ، ان کی بدعتوں پر انہیں معذور سمجھنا جیسا کہ اہل سنت کے علماء کو ان کی اجتہادی غلطی پر معذور سمجھا جاتا ہے اور ان کا رد کرنے سے روکنا  یہ تمام  صفات ممیعہ کی ہیں۔
اہل سنت سے متنفر کرنے کے لئے یہ انہیں مختلف القاب دیتے ہیں 
پہلے وہابی  کہتے تھے اب۔۔۔جامی اور مدخلی کہتے ہیں۔

شیخ محمد امان الجامی رحمہ اللہ نے جب مسلم ملکوں میں حکمرانوں کی بات ماننے کی شرعی حیثیت بتائی اور خروج سے منع کیا (خاص کر پہلی خلیجی جنگ کے وقت) تو حدادی خوارج نے ایسی باتیں کہنے والوں کو جامی کہنا شروع کر دیا۔
ادھر جب شیخ ربیع بن ھادی المدخلی حفظہ اللہ نے سید قطب کی اور اخوانیوں کی پول کھولی اور ان کا رد کیا تو اہل بدعت اور گمراہوں کا رد کرنے والوں کو  لوگ مدخلی کہہ کر طعن کرنے لگے جبکہ شیخ محمد امان الجامی رحمہ اللہ اور شیخ ربیع بن ھادی المدخلی حفظہ اللہ دونوں بڑے علماء میں سے ہیں۔
 
یہ صفتیں مختلف درجوں میں کسی شخص میں ہو سکتی ہیں اور کبھی ایک ہی شخص میں جمع بھی ہو سکتی ہیں۔ 

حدادیہ کی مثال :  داعش ۔ 
ممیعہ کی مثال : عام طور پر صوفیہ
حدادیہ اور ممیعہ کا امتزاج  : اخوان المسلمین (جس کے مؤسس حسن البنا‌، اور پھر سید قطب  اور جن سے یہ متاثر ہوئے جیسے ابو الاعلیٰ مودودی  کے مقالات سے ظاہر ہے )۔‌اسی طرح جماعت اسلامی اور ان سے رضاعت پائے ہوئے لوگ جیسے ڈاکٹر اسرار احمد جنہوں نے سلفیوں کی صفوں میں گھس کر یا باہر سے انہیں فاسد کرنے کی کوشش کی ہے۔

خالص ممیعہ : مفتی منک جو اپنے آپ کو چوکلٹ مَین کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نے کبھی مجھے کسی کے خلاف کہتے نہیں سنا ہوگا ( چاہے وہ بریلوی ہو ، دیوبندی ہو یا اہل حدیث ہو).
عام اہل حدیثوں کو خاص کر اہل حدیث طلاب علم ان سے آگاہ رہیں کیونکہ ان کا اگلا ہدف آپ ہو سکتے ہیں۔ علم معروف اہل علم سے حاصل کریں مجاھیل (غیر معروف) سےنہیں کیونکہ یہ لوگ شبہات سے لیس ہوتے ہیں اور زیادہ تر ٹی وی / انٹرنیٹ پر مختلف چینلوں پر ظاہر ہو رہے ہیں۔

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوبَنَا بَعۡدَ إِذۡ هَدَیۡتَنَا وَهَبۡ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحۡمَةًۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡوَهَّاب 

اللهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه 

کتبہ : ابو مریم اعجاز احمد
٢٤شوال ١٤٤١

کیا توبہ سے سب گناہ معاف ہو سکتے ہیں؟ ‏

.

کیا توبہ سے سب گناہ معاف ہو سکتے ہیں؟ 

؛~~~~

 * حج کرنے سے کہتے ہیں سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں، کبیرہ، صغیرہ، حقوق اللہ حقوق العباد..؟ 

 * والدین کے ساتھ کی گئ کوتاہیوں کی انکی وفات کے بعد کیسے بخشش حاصل کی جائے؟

 * کیا حقوق العباد میں کوتاہی کی صرف توبہ استغفار سے بخشش ہو سکتی ہے؟ 

؛~~~~

 سوال 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

 (۱) اگر کسی آدمی نے اپنی زندگی میں اپنے والدین کو پایا اور اُن کی خدمت پوری طرح سے نہ کر سکا یعنی کمی بیشی ہو گئی ہو تو اُن کے فوت ہونے پر پریشان ہوا کہ کاش! میں کوئی گستاخی نہ کرتا ، والدین کے فوت ہونے کے بعد وہ کون سا عمل کرے جس سے اُس کے والدین کو بھی فائدہ ہو اور اس آدمی کی غلطیوں کو معاف کر دیا جائے اور بخشش کا سبب بن سکے۔ 

 (۲) حج کرنے سے کہتے ہیں سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں کبیرہ گناہ یا صغیرہ گناہ ، توبہ کرنے سے یا نہ کرنے سے ، حقوق اللہ یا حقوق العباد بھی۔ اس کی وضاحت کریں۔ 

 (۳) سورۃ النساء کی آیت:۱۱۰ ترجمہ:’’ جس نے برائی کی یا اپنی جان پر ظلم کیا اور پھر بخشش یعنی استغفار کیا وہ اللہ تعالیٰ کو بخشنے والا پائے گا۔‘‘ حقوق العباد استغفار اور توبہ کرنے سے معاف ہو جائیں گے یا اس شخص کو بدلہ دیا جائے گا؟ 

 (۴) بنی اسرائیل کے شخص کا واقعہ ۱۰۰ آدمیوں کو قتل کرنے والا حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے لیکن توبہ سے اس کی بخشش ہو گئی ، اس کی وضاحت کریں؟             (ڈاکٹر منظور احمد) 

؛~~~~ 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

 (۱) اپنے لیے اور والدین کے لیے استغفارو دعاء ، والدین کے دوست ، احباب اور رشتہ داروں کے ساتھ احسان و حسن سلوک سے پیش آنا ، صلہ رحمی سے کا م لینا ، والدین کی طرف سے صدقہ ، حج اور عمرہ کرنا اور والدین کے مواعید ، معاہدات اور جائز وصایا کو پورا کرنا۔ 

ایک آدمی نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کوئی ایسی نیکی باقی ہے جو میں والدین کی وفات کے بعد ان کے ساتھ کروں ؟آپ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ان کے حق میں دعائے خیر کرنا اور ان کے لیے مغفرت مانگنا ان کے بعد ان کے ( کیے گئے) عہد کو پورا کرنا اور ان کے ان رشتوں کو جوڑنا جو انہی کی وجہ سے جوڑے جاتے ہیں اور ان کے دوستوں کی عزت کرنا ۔1 

معلوم ہوا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے لیے ان کی زندگی کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اگر ان کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ کوئی نیکی کرنا چاہے تو حدیث میں مذکور طریقے اختیار کیے جائیں ان طریقوں میں قرآن خوانی ، تیجہ ، ساتواں ، دسواں اور چہلم وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ، اس لیے ایصالِ ثواب کے یہ سارے طریقے غیر شرعی ہیں ان سے مُردوں یا زندوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے کیونکہ یہ کام حدیث میں والدین کے ساتھ نیکی شمارکیے گئے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان کاموں سے اولاد کو والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا صلہ ملے گا اور والدین کے لیے بھی مغفرت اور رفع درجات کا باعث ہوں گے ، وفات کے بعد والدین کے حق میں دعائے خیر کی مقبولیت اس حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے مرنے کے ساتھ ہی عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے البتہ تین چیزوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے: صدقہ جاریہ کا ، ایسے علم کا جس سے لوگ فیض یاب ہو رہے ہوں ، نیک اولاد کی دعاؤں کا۔2 

 (۲) حج مبرور سے جس میں رفث و فسوق نہ ہو تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ حج مبرور کرنے والا مؤمن ہو کافر یا مشرک نہ ہو ، حقوق اللہ اور حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے کیونکہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا: ((مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہٗ )) 3  [’’جو شخص اللہ کے لیے حج کرے پھر نہ کوئی گناہ کا کام اور فحش بات کرے تو وہ ایسا بے گناہ واپس ہو گا جیسے اسے آج ہی اس کی ماں نے جنم دیا ہو۔‘‘] (متفق علیہ) 

 (۳) توبہ و استغفار کے ساتھ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھنے والے ہوں خواہ حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے حتی کہ اکبر الکبائر کفر اور شرک بھی توبہ و استغفار کے ساتھ معاف ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًاoیُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْفِیْہٖ مُھَانًاo إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّئٰاتِھِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرً رَّحِیْمًا o}[الفرقان:۷۵] [’’اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پا کر رہے گا ۔ قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لیے پڑا رہے گا۔ ہاں جو شخص توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے۔ تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘] نیزاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْآ إِنْ یَّنْتَھُوْا یُغْفَرْ لَھُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ} [الانفال:۳۸]  [’’ان کافروں سے کہیے کہ اگر وہ اب بھی باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘] بشرطیکہ توبہ واستغفار عند اللہ قبول ہو جائیں ، ہاں توبہ و استغفار کو حقوق العباد کے غصب کرنے کا حیلہ اور ذریعہ بنانا درست نہیں ، پوری کوشش کرے کہ دنیا میں حقوق العباد اد اکرکے اس دنیا سے رخصت ہو ، کسی بندے کا کوئی حق حتی الوسع اس کے ذمہ نہ رہے۔

 (۴) ٹھیک ہے، حقوق العباد کے زمرہ میں آتا ہے اور توبہ کرنے سے اس کا یہ جرم بھی معاف ہو گیا تھا۔ 
واللہ اعلم 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

>1  سنن ابی داؤد؍ کتاب الأدب باب براء الوالدین اسے ابن حبان حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ 

>2 صحیح مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ۔ 

>3 صحیح بخاری,کتاب الحج/باب فضل الحج المبرور۔ صحیح مسلم /کتاب الحج/باب فضل الحج والعمرۃ۔ 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام و مسائل 
جلد 02 ص 744 
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/5119 

؛~~~~؛~~~~؛~~~~~
؛~~~~؛~~~~؛~~~~~

 حج اور توبہ کرنے سے حقوق اللہ، حقوق العباد اور مقتول کے حقوق بھی ساقط ہو جاتے ہیں؟ 

؛~~~~

سوال 
 فریضہِ حج ادا کرنے کے بعد ہم یہ جانتے ہیں کہ اس سے غلطیاں اور کبیرہ گناہ مٹ جاتے ہیں، یعنی اللہ تعالی اپنے حقوق معاف کر دیتا ہے، اور جہاں تک مجھے علم ہے کہ حج کرنے سے حقوق العباد ساقط نہیں ہوتے، میرا سوال یہ ہے کہ  آپ نے پہلے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ  جو شخص کسی بھی گناہ سے توبہ کرے چاہے وہ گناہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو تو سچی توبہ کے باعث اللہ تعالی اسے معاف فرما دے گا، اس بارے میں آپ نے اس آیت کو دلیل بنایا ہے  (قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ)ترجمہ  آپ لوگوں سے کہہ دیجئے   اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں [٧١] پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقینا سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے[الزمر 53] اسی اللہ تعالی نے کبیرہ ترین گناہوں کی بخشش کے بارے میں فرمایا  (وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَاماً [68] يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَاناً [69] إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً) اور اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پاکے رہے گا[68] قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا کردیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا[69] ہاں جو شخص توبہ کرلے اور ایمان [٨٧] لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ [الفرقان 68-70] اور بخاری و مسلم (2766) میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  (تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص نے 99 قتل کیے تھے۔۔۔ الخ) الحدیث، لیکن سوال یہ ہے کہ حقوق العباد کہاں جائیں گے؟ کیونکہ کیا قاتل توبہ کر لے تو اسے بھی بخش دیا جائے گا؟ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جان بوجھ کر قتل کرنے والا شخص جہنم میں جائے گا، اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ مذکورہ آخری حدیث جس میں نناوے قتل کا ذکر ہے کہ قاتل نے 100 کا عدد جان بوجھ کر مکمل کیا لیکن پھر بھی وہ جنت میں داخل ہو گیا، یہاں ان مقتولین کے حقوق کا کیا بنے گا؟ اللہ تعالی آپ کو برکتوں سے نوازے۔

؛~~~~ 

جواب 

الحمد للہ 

آپ نے جو پڑھا ہے کہ حج کی وجہ سے کبیرہ گناہ  بھی مٹ جاتے ہیں اس کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، تاہم ہمیں امید ہے کہ حج مبرور کے بدلے میں اللہ تعالی  صغیرہ و کبیرہ تمام گناہ معاف فرما دے گا، کیونکہ اللہ تعالی کا فضل بہت وسیع ہے۔

جن گناہوں کیلیے حج کفارہ بن جاتا ہے وہ حقوق اللہ سے متعلق گناہ ہیں، لیکن جو گناہ حقوق العباد سے متعلق ہیں  وہ حج ، جہاد، ہجرت یا کسی بھی دوسری عبادت سے ساقط نہیں ہوتے، بلکہ کچھ حقوق اللہ ایسے ہیں جو  حج کی وجہ سے بھی ختم نہیں ہوتے، مثال کے طور پر  روزوں کی قضا، نذر، کفارہ وغیرہ حج سمیت کسی بھی نیکی سے ساقط نہیں ہوں گے، یہ دونوں باتیں  علمائے کرام کے ہاں متفقہ طور پر مسلّمہ ہیں، نیز ان کا تفصیلی بیان سوال نمبر  (https://islamqa.info/amp/ur/answers/138630) میں گزر چکاہے، اس کا عنوان ہے  "حج کی وجہ سے کفارہ اور قرضہ کی شکل میں واجب حقوق ساقط نہیں ہوتے" اس میں یہ ہے کہ 
" حج کی فضیلت میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، جن میں یہ بات ہے کہ حج کی وجہ سے گناہ دُھل جاتے ہیں، اور انسان ایسے واپس لوٹتا ہے جیسے اسکی ماں نے آج ہی اسے جنم دیا ہو، لیکن اس فضیلت اور ثواب کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے واجب حقوق بھی ساقط ہوجائیں گے، چاہے حقوق اللہ ہوں، مثال کے طور پر  کفارہ، نذر، اور غیر ادا شدہ زکاۃ،فوت شدہ روزوں کی قضا وغیرہ، یا حقوق العباد ہوں  مثال کے طور پر قرضہ وغیرہ، چنانچہ حج کی وجہ سے گناہ مٹ جاتے ہیں، لیکن علمائے کرام کے اتفاق کے مطابق  مذکورہ حقوق ساقط نہیں ہوتے۔۔۔"

بلکہ توبہ کرنے سے بھی گناہ تو دھل جاتے ہیں لیکن حقوق ساقط نہیں ہوتے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں 
"جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے، اسی طرح زکاۃ واجب ہونے کے باوجود زکاۃ ادا نہ کرے، اپنے والدین  کا نافرمان ہو، قتل خطا کا مرتکب ہو، اور پھر وہ حج کرنے چلا جائے تو  کیا اس  کے اس عمل سے یہ تمام گناہ معاف ہو جائیں گے اور حقوق العباد ساقط ہو جائیں گے؟"
اس پر انہوں نے جواب دیا 
"مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ  قرضے وغیرہ کی شکل میں حقوق العباد ساقط نہیں ہوتے، اسی طرح واجب شدہ  نماز، روزہ، زکاۃ، مقتول کے حقوق بھی ساقط نہیں ہوں گے چاہے وہ حج ہی کیوں نہ کر لے، چنانچہ جس شخص کے ذمہ قضا واجب ہے اسے اس نماز کی قضا دینا ہو گی چاہے وہ حج کیوں نہ کر لے، اس پر علمائے کرام کا اتفاق ہے۔" انتہی
"جامع المسائل" (4/123)

لہذا اگر قاتل شخص حج کر بھی لے تو اس سے مقتول کا حق حج کی وجہ سے ساقط نہیں ہو گا، تاہم اگر کوئی شخص سچی توبہ کر لے تو ممکن ہے کہ اللہ تعالی  اس پر اپنا فضلِ خاص کرتے ہوئے مقتول کو اپنی طرف سے راضی فرما دے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں 
"اگر قاتل کی نیکیاں زیادہ ہوئیں تو قاتل کی اتنی مقدار میں نیکیاں مقتول کو دی جائیں گی جن سے مقتول راضی ہو جائے، یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل کے سچی توبہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی مقتول کو اپنی طرف سے بدلہ دے دے۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (34/138)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں 
"اس مسئلے میں تحقیقی بات یہ ہے کہ  قتل سے تین قسم کے حقوق منسلک ہوتے ہیں  اللہ تعالی کا حق، مقتول  کا حق اور حکمران [آج کل قانون نافذ کرنے والے ادارے]کا حق۔

چنانچہ اگر قاتل اللہ کے خوف  سے سچی توبہ کرتے ہوئے پشیمانی کے ساتھ اپنے آپ کو حکمران کے حوالے کر دے  توایسی صورت میں توبہ  کے باعث اللہ تعالی کا حق  ساقط ہو جائے گا اور حکمران کا حق  تمام حقوق وصول کرنے یا صلح یا معافی  سے ساقط ہو جائے گا۔

جبکہ مقتول کا حق باقی رہ جائے گا، جسے اللہ تعالی توبہ تائب ہونے والے بندے کی طرف سے مقتول کو راضی کر کے ادا کرے گا اور دونوں میں صلح فرمائے گا، چنانچہ مقتول کا حق ختم نہیں ہو تا اور نہ ہی توبہ کی وجہ سے ساقط ہوتا ہے۔" انتہی
" الجواب الكافی" ( ص 102 )

اسی سے ملتا جلتا جواب شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے " الشرح الممتع على زاد المستقنع " ( 14 / 7 ) میں بھی دیا ہے۔ 

واللہ اعلم

https://islamqa.info/amp/ur/answers/145537

.

ماہ رمضان کی اکیس(21) خصوصیات ‏



.

 ماہ رمضان کی اکیس(21) خصوصیات 

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی 
         بینی پٹی۔مدھوبنی۔بہار

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

(1) رحمت الٰہی کا دروازہ کھول دیاجاتاہے:

(2) آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں:

(3) جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں:

(4) جہنم کے دروازے بندکردئے جاتے ہیں:

(5) سرکش شیطانوں کو جکڑ دیاجاتاہے:

(أ) عن ابی ھریرۃؓ مرفوعا:’’ إِذَا كَانَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتْ الشَّيَاطِينُ‘‘جب رمضان کا مہینہ آتاہے تو رحمت کا دروازہ کھول دیاجاتاہے اور جہنم کا دروازہ بندکردیاجاتاہے اور شیاطین کو جکڑدیاجاتاہے۔

(ب) عن ابی ھریرۃ مرفوعا:’’ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتْ الشَّيَاطِينُ‘‘جب رمضان کا مہینہ آتاہے تو آسمان کا دروازہ کھول دیاجاتاہے اور جہنم کا دروازہ بندکردیاجاتاہے اور شیاطین کو جکڑدیاجاتاہے۔

(ج) عن ابی ھریرۃ مرفوعا:’’ إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتْ الشَّيَاطِينُ‘‘جب رمضان کا مہینہ آتاہے تو جنت کا دروازہ کھول دیاجاتاہے اور جہنم کا دروازہ بندکردیاجاتا ہے اور شیاطین کو جکڑدیاجاتاہے۔(بخاری:1899،3277مسلم:1079،2495،2496)

(6) رمضان کا مہینہ گناہوں کے مٹ جانے کا سبب ہے:

عن ابی ھریرۃ مرفوعا:’’ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ‘‘
پانچوں نمازیں ،ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک اپنے اپنے درمیان ہونے والے گناہوں کو مٹادیتاہے جب کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیاجائے۔(مسلم:233)

(7) رمضان کے مہینے میں اعلان کرنے کے لئے فرشتے کی تقرری کی جاتی ہے:

(8) رمضان کے مہینے میں ہررات اللہ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتاہے :

عن ابی ھریرۃ مرفوعا:’’۔۔۔۔۔۔وَنَادَى مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنْ النَّارِ وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ‘‘اوررمضان کے مہینے میں ہردن آوازلگانے والاآوازلگاتاہے،خیرطلب کرنے والو!نیک کام کے لئے آگے بڑھواوربرے کام کی طلب رکھنے والو! برے کاموں سے رک جاؤ،اورہررات اللہ تعالی لوگوں کو جہنم سے آزادکرتاہے۔(صحیح ابن ماجہ للألبانی:1642)وفی روایۃ عن جابر مرفوعا:’’ إِنَّ لِلَّهِ عِنْدَ كُلِّ فِطْرٍ عُتَقَاءَ وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ‘‘بے شک اللہ تعالی ہرروز افطاری کے وقت لوگوں کو جہنم سے آزادکرتاہے اورایساہررات کو ہوتاہے۔(صحیح ابن ماجۃ للألبانی:1332)

(9)  رمضان کے مہینے میں ہردن ورات میں دعاقبول کی جاتی ہے:

عن ابی سعیدالخدری مرفوعا:’’ إن لله تبارك وتعالى عتقاء في كل يوم وليلة - يعني في رمضان - وإن لكل مسلم في كل يوم وليلة دعوة مستجابة‘‘بے شک اللہ تعالی رمضان کے ہردن اوررات میں لوگوں کو جہنم سے آزادکرتاہے اور ماہ رمضان کے ہردن ورات میں ہرمسلمان کے لئے ایک ایسی دعا کا وقت ہے جسے قبولیت سے نوازاجاتاہے۔(صحیح الترغیب للألبانی:1002)

(10) ہزارمہینوں سے بہتررات ماہ رمضان میں ہی ہے:

عن انس مرفوعا:’’ إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ قَدْ حَضَرَكُمْ وَفِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ كُلَّهُ وَلَا يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلَّا مَحْرُومٌ‘‘ رمضان میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے جو شخص اس رات کی خیروبرکت سے محروم رہاوہ ہرطرح کی خیربرکت سے محروم رہا اور اس کی خیروبرکت سے صرف وہی محروم رہتاہے جو بدنصیب ہو۔(صحیح ابن ماجہ للألبانی:1333)

(11) قرآن کریم میں 12 مہینوں میں صرف رمضان ہی کا نام آیاہے:

(12) رمضان ہی کے مہینے میں قرآن کو نازل کیا گیا:

فرمان باری تعالی ہے:’’شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ‘‘ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کو اتاراگیاجولوگوں کو ہدایت کرنے والاہے اور جس میں ہدایت کی اورحق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔(البقرۃ:185)

(13) تمام مقدس کتابیں رمضان ہی کے مہینے میں نازل کی گئیں:

عن واثلۃ مرفوعا:’’ أُنْزِلَتْ صُحُفُ إِبْرَاهِيمَ أَوَّلَ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَأُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ لِسِتٍّ مَضَيْنَ مِنْ رَمَضَانَ، وَأُنْزِلَ الْإِنْجِيلُ لِثَلَاث عَشْرَةَ مَضَتْ مِنْ رَمَضَانَ، وَأُنْزِلَ الزَّبُورُ لِثَمَانِ عَشْرَةَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ، وَأُنْزِلَ الْقُرْآنُ لِأَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ‘‘ صحیفۂ ابراہیم کو رمضان کی پہلی رات میں نازل کیاگیا،تورات اس وقت نازل کی گئی جب رمضان کے چھ ایام گذرگئے تھے،انجیل تب نازل کی گئی جب رمضان کے تیرہ ایام گذرچکے تھے،زبوراس وقت نازل کی گئی جب رمضان کے اٹھارہ ایام گذرچکے تھے،اور قرآن اس وقت نازل کیاگیاجب رمضان کے چوبیس ایام گزرچکے تھے۔(الصحیحہ للألبانی:1575)

(14) رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ثواب ہے:

عن ابن عباس مرفوعا:’’ فَإِنَّ عُمْرَةً فِيهِ تَعْدِلُ حَجَّةً‘‘رمضان میں عمرہ کرنے کا اجروثواب حج کے برابرہے۔(1256)

(15) رمضان میں عمرہ کرنا آپ ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابرثواب ہے:

عن ابن عباس مرفوعا:’’ فَإِنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ تَقْضِي حَجَّةً أَوْ حَجَّةً مَعِي‘‘رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابرہے۔(بخاری:1863)

(16)  رمضان ہی کے مہینے میں سال بھر کے موت وحیات اورتمام وسائل زندگی کے فیصلے کئے جاتے ہیں:

فرمان باری تعالی ہے:’’فِيها يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ‘‘اسی رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کیاجاتاہے۔ (الدخان:4)

(17)  رمضان کے مہینے میں روزے رکھنا دس مہینوں کے برابر روزہ رکھنا ہے:

عن ابی ایوب الانصاری مرفوعا:’’مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ‘‘ جس نے رمضان کے روزے رکھے اورپھراس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویاکہ اس نے ساراسال ہی روزہ رکھا۔مسلم:1164) وفی روایۃ مسند احمد: جس نے رمضان کے روزے رکھے تو ایک ماہ دس ماہ کے برابرہے۔۔۔۔۔(21906)

(18) رمضان میں روزہ رکھنا پورے گناہوں کے مٹ جانے کا سبب ہے:

عن ابی ھریرۃ مرفوعا:’’ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ‘‘جس نے بھی رمضان میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے روزے رکھے اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔(بخاری:2014،مسلم:760)

(19) رمضان میں قیام کرنا پورے گناہوں کے مٹ جانے کا سبب ہے:

عن ابی ھریرۃ مرفوعا:’’ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ‘‘
جس نے رمضان کے مہینے میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں(صحیح ابوداؤد للألبانی:1241)

(20) رمضان ایک نعمت ہے:

رمضان کے بیان میں رب العالمین نے فرمایا :’’ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ‘‘اوراللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پراس کی بڑائیاں بیان کرواوراس کا شکرکرو۔ (البقرۃ:185)
يعني تم الله كي بڑائی وکبریائی ،عظمت وشان بیان کرو کیونکہ اس نے تمہیں رمضان جیسی دولت سے نوازا تا کہ تم اپنے رب کو راضی کرسکو۔

(21) رمضان جیسا عظیم اوربابرکت مہینہ اللہ نے صرف امت محمدیہ کو عطا کیا۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

🔴طالب دعا
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
امام وخطیب مسجداہل حدیث فتح دروازہ ۔آدونی
ناظم جامعہ ام القری للبنین والبنات۔آدونی ۔

.

رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہونے کا مطلب

.

رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہونے کا مطلب

https://islamqa.info/ur/answers/104926

~~~~؛ 

سوال: "رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے " اس میں برابر ہونے سے کیا مقصود ہے ؟تفصیلی طور پر سمجھائیں۔ 

~~~~؛ 

جواب کا متن

الحمد للہ:
اول:
بخاری (1782) اور مسلم (1256) میں ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ: " اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک انصاری عورت سے پوچھا: (تمہارے لیے ہمارے ساتھ حج کرنے پر کیا رکاوٹ ہے؟)  اس نے جواب دیا :"ہمارے پاس صرف دو اونٹ ہیں ، ایک پر میرا بیٹا اور اس کا  والد  حج کرنے چلے گئے اور دوسرا ہمارے لئے چھوڑ دیا تاکہ  ہم اس سے کھیتی کو سیراب کرنے کا کام لیں" آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (جب ماہ رمضان آئے تو اس میں عمرہ کر لینا ،کیونکہ رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے )
اور مسلم کی روایت میں ہے کہ (میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے)

دوم:
حدیث میں مذکور فضیلت کے حاملین کون ہیں ؟ اس میں اہل علم کے تین اقوال ہیں :

1- یہ حدیث اسی عورت کے ساتھ خاص ہے جس سے نبی صلے اللہ علیہ وسلم مخاطب تھے، یہ موقف سعید بن جبیر رحمہ اللہ  تابعی کا ہے اور اسے ابن حجر نے  "فتح الباری" (3/605) میں نقل کیا ہے۔

اس موقف کیلئے ام معقل رضی اللہ عنہا کی حدیث سے بھی دلیل لی جا سکتی ہے کہ انکا کہنا ہے کہ: "(حج حج ہے اور عمرہ عمرہ ہے)  یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمائی تھی ، اب مجھے  معلوم نہیں یہ   میرے لئے خاص تھا -یا کہ تمام لوگوں کے لئے عام ہے -
(اسے ابو داود (1989) نے روایت کیا ہے ، لیکن یہ اضافی الفاظ ضعیف ہیں، البانی رحمہ اللہ نے  "ضعیف ابو داود " میں اسے ضعیف کہا ہے ۔

2- یہ  فضیلت اسے حاصل ہوگی جس نے حج کی نیت کی لیکن حج ادا کرنے سے عاجز ہو گیا، پھر اس کے عوض رمضان میں عمرہ کیا ، چنانچہ حج کی نیت اور عمرے کی ادائیگی  دونوں کاموں کے ملنے سے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تام کرنے کا اجر حاصل ہو گیا ۔

ابن رجب  " لطائف المعارف " صفحہ: (249) میں کہتے ہیں :
"واضح رہے کہ جو شخص نیکی کا کام نہ کر سکے، اس پر اسے حسرت بھی ہو اور اسے کرنے کی تمنا بھی کرے تو وہ نیکی کا کام کرنے والے کے ساتھ اجر میں شریک ہوگا ،۔۔۔  پھر انہوں نے اس کی بہت سی مثالیں ذکر کیں ان میں ایک یہ ہے :کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج نہ کر سکی ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو اس عورت نے آپ سے سوال کیا کہ کون سا عمل اس حج کا متبادل بن سکتا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(رمضان میں عمرہ کر لو ؛ کیونکہ رمضان میں عمرہ  حج کے برابر ہے  -دوسری روایت میں ہے - میرے ساتھ حج کے برابر ہے )"ا نتہی
یہی بات ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں کہی ہے ، دیکھیں: تفسیر ابن کثیر :( 1/531)

اس قول کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے  "مجموع الفتاوی" (26/293- 294) میں اسے ایک احتمال کے طور پر ذکر کیا ہے۔

3- یہ قول مذاہب اربعہ کے بعض  علما اور دیگر اہل علم  کا ہے کہ اس حدیث میں مذکور فضیلت  عام ہے اور ہر اس شخص کو یہ حاصل ہو سکتی ہے جو رمضان کے مہینے میں عمرہ کرے ، چنانچہ رمضان میں عمرہ تمام لوگوں کے لئے حج کے برابر ، ۔  چند اشخاص یا مخصوص  احوال کے ساتھ خاص  نہیں ہے ۔
دیکھیں :رد المحتار(2/473) ، مواھب الجلیل (3/29) ، المجموع (7/138) ،المغنی(/91) ،  الموسوعۃ الفقھیہ(2/144)

ان اقوال میں سے آخری قول راجح معلوم ہوتا ہے کہ یہ فضیلت ہر اس شخص کے لئے ہے جو رمضان میں عمرہ کرتا ہے ، اس کے چند دلائل یہ ہیں :

1-  یہ حدیث بہت سے صحابہ سے مروی ہے ،چنانچہ امام ترمذی کہتے ہیں :
"یہ حدیث ابن عباس ،جابر ،ابو ہریرہ ،انس اور وہب بن خنبش سے بھی مروی ہے ،اور ان میں سے اکثر روایات میں سوال کرنے والی عورت کا قصہ موجود نہیں ہے "

2-  ہر زمانے میں صحابہ ،تابعین ،علما اور صالحین کا اس پر عمل رہا ہے چنانچہ وہ اس اجر کو حاصل کرنے کے لئے رمضان میں عمرہ کرنے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے ۔

اور یہ کہنا کہ یہ فضیلت اس شخص کے ساتھ خاص ہے جو کسی رکاوٹ کی وجہ سے حج کرنے سے عاجز آ جائے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس کی نیت سچی ہو اور وہ کام کرنے کے لئے پر عزم ہو اور اس نے اسباب بھی اختیار کر رکھے ہوں پھر بھی وہ کسی سبب کے آڑے آنے سے   عمل نہ کر سکے تو اللہ تعالی اس کی نیت کی وجہ سے ہی اسے اجر سے نواز دیتے ہیں ، آپ اجر کے حصول کے لئے اس فضیلت کو کسی زائد عمل یعنی رمضان میں عمرہ کی ادائیگی کے ساتھ کیسے منسلک کر سکتے ہیں جبکہ اجر کے حصول کے لئے سچی نیت ہی کافی تھی !

سوم:
جہاں تک رمضان میں عمرے کا  حج کے برابر ہو نے کا سوال ہے ؟ اس  کی تفصیل  حسب ذیل ہے ۔

اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ رمضان میں عمرہ کرنا ، فریضۂِ حج کا متبادل نہیں بن سکتا ، یعنی جو رمضان میں عمرہ کر لیتا ہے اس سے واجب حج ساقط نہیں ہوگا جو کہ اللہ تعالی کا حق ہے ۔

چنانچہ حدیث  میں رمضان کے اندر کیے گئے عمرے کو حج کیساتھ اجر و ثواب میں مشابہت  دی گئی ہے، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ رمضان میں عمرہ فرض کا متبادل ہے۔

 لہذا رمضان میں عمرہ اور حج کے ثواب میں برابر ی اور مساوات کا مطلب اجر کی مقدار ہے نہ کہ اجر کی جنس اور قسم ، چنانچہ  اس میں کوئی شک  و شبہ نہیں کہ حج  ،جنس عمل کے اعتبار سے عمرہ سے افضل ہے ۔

چنانچہ جو رمضان میں عمرہ کرتا ہے اسے حج کے اجر کی مقدار کے برابر اجر تو حاصل ہو جائے گا لیکن عمل حج کی کچھ ایسی خوبیاں ،فضائل اور امتیازی چیزیں ہیں جو عمرہ میں نہیں ہیں، جیسا کہ حج میں عرفہ کی دعا ،جمرات  کو کنکریاں مارنا ،اور جانور قربان کرنا وغیرہ  اعمال ہیں ، چنانچہ حج اور رمضان میں ادا کیا ہوا عمرہ دونوں ثواب کی مقدار میں تو برابر ہیں لیکن نوع اور کیفیت میں برابر نہیں ہیں ۔ 

یہی توجیہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کی بیان کی ہے جس میں ہے کہ ایک مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے ، ان کی گفتگو  دیکھنے کے لئے سوال نمبر (https://islamqa.info/ur/answers/10022) کے جواب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے ۔

اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں:
"یہ  حدیث -رمضان میں عمرہ کے حج کے برابر  والی حدیث- ایسے ہی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے "قُلْ هُوَ اللَّہُ أَحَدٌ" کو پڑھا تو اس نے ایک تہائی قرآن پڑھ لیا) "ترمذی" (2/268)

"مسائل الإمام أحمد بن حنبل روایۃ أبی یعقوب الکوسج " (1/ 553) میں ہے کہ:
" میں نے  امام احمد سے پوچھا: "جو کہتا ہے کہ رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے ، کیا یہ ثابت ہے؟ انہوں نے کہا: "کیوں نہیں ، بالکل ثابت ہے "

 اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں  کہ : "یہ بالکل ثابت ہے جیسا کہ امام حمد نے کہا ،اور اس کا مطلب یہ کہ اس کے لئے حج کا اجر لکھا جاتا ہے ،لیکن  وہ حاجی   کے مقام و مرتبہ کو  کبھی نہیں پہنچ سکتا " انتہی

ابن تیمیہ کہتے ہیں:
"یہ تو  معلوم  ہے کہ آپ کے اس فرمان کا مطلب کہ    تیرا رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے مساوی ہے ، اس وجہ سے ہے  کہ وہ آپ کے ساتھ حج کا ارادہ کر چکی تھیں لیکن حج کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی تو آپ نے صحابیہ کو اس چیز کی خبر دی جو حج کے قائم مقام ہو، اسی طرح صحابہ میں سے جس کی یہ حالت تھی وہ بھی اس میں شامل ہوگا، کو ئی بھی عقل مند ایسا نہیں کہتا جیسا کہ بعض جاہلوں کا گمان ہے کہ میقات یا مکہ سے  ہم میں سے کسی کا  عمرہ  کر لینا حج کے برابر ہے ؛ کیونکہ یہ بات تو لازما معلوم ہے کہ حج تام رمضان میں عمرہ سے افضل ہے، اور ہم میں سے اگر کوئی فرض حج کرے تو وہ آپ کے ساتھ حج کے برابر نہیں ہو سکتا ،تو عمرہ اس کے برابر کیسے ہو سکتا ہے !! حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ہم میں سے کسی کا رمضان میں میقات سے کیا ہوا عمرہ حج کے برابر ہے" انتہی
" مجموع الفتاوی " (26/ 293- 294)

مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر : (https://islamqa.info/ur/answers/13480) کا جواب ملاحظہ کریں۔ 

.

قبر ‏والی ‏مسجد ‏میں ‏نماز ‏نہیں ‏ہوتی؟ ‏

قبر کو مسجد میں داخل کرو گے تو اس وعید کے مستحق بنو گے، اور نہی تحریم کے لیے ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں ’’اور جس سے روکے رک جاؤ" (حشر:7) کیا اس فعل شنیع میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی مشابہت کرنی کسی کے لیے حلال ہے؟ نبی ﷺ نے یہ بات امت کو ڈرانے کے لیے کہی جیسے عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، "ان کے کرتوت سے بچاتے تھے‘‘ مسلمان جو اپنے نبی ﷺ پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے یہ احادیث کفایت کرتی ہیں 
لیکن ہم علماء کے فتوے بھی بصیرت میں اضافے کے لیے لکھتے ہیں 

(1).؛ 
حنفیہ کہتے ہیں قبور کے پاس مکروہ تحریمی ہے 

امام محمد نے اپنی کتاب الاثار (45) میں صراحتا کہا ہے 

’’قبرکے علاوہ اس پر مزید اضافہ ہم درست نہیں سمجھتے اور قبر پکی بنانا اس کی لیپاپوتی اور اس کے پاس مسجد بنانا ہم مکروہ سمجھتے ہیں" 

حنفیوں میں علامہ ابن مالک کہتے ہیں 

؛’’اس پر مسجد بنانا حرام ہے کیونکہ اس میں نماز پڑھنا یہودیوں کی سنت پر عمل کرنا ہے"؛ 

علی القاری نے مرقاۃ (1، 470) میں نقل کرکے اسے ثابت رکھا ہے،؛

کتب حنفیہ میں سے شرعۃ الاسلام (ص 569) میں ہے ’’قبر پر مسجد تعمیر کرنا مکروہ ہے جس میں نماز پڑھی جائے"؛ 

الکوکب الدری (1، 153) میں ہے ’’قبروں پر بنی ہوئی مسجدوں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے خواہ قبر سامنے ہو یا پیچھے ہو یا ایک جانب ہو لیکن قبر کی طرف منہ کرنے میں کراھت اشد ہے‘‘ تلخیص کے ساتھ ۔

اور اسی طرح الطحاوی علی مراقی الفلاح، (ص 208) میں ہے ’’اور کہا گیا ہے کہ بتوں کی عبادت کی بنیاد نیک لوگوں کی قبروں پر مسجد بنانا ہے ..... الخ 

اسی طرح فتاویٰ دیوبند (1، 254) میں ہے مراجعہ کریں عینی شرح البخاری (4، 149) ردالمختار المعروف بالشامی، (1، 254) میں ہے ’’اور کہا گیا ہے کہ بتوں کی عبادت کی بنیاد نیک لوگوں کی قبروں پر مسجدیں بنانا ہے .....الخ، اسی طرح فتاویٰ دیو بند (1، 92) تفسیرآلوسی (15، 231)؛ 

(2).؛ 
شافعیہ کہتے ہیں قبروں پر مسجدیں بنانی اور اس میں نماز پڑھنی کبیرہ گناہوں میں سے ہیں 

ابن حجر الھیثمی نے الزواجر عن اقتراف الکبائر (1، 120) جو بڑی مفید کتاب ہے میں صراحتاً کہا ہے ’’ قبروں پر مسجدیں بنانا کبیرہ گناہ ہے اور شرک کا سبب ہے یہ مکروہ نہیں حرام ہے‘‘ (تلخیص کے ساتھ)؛ 

امام شافعی نے خود کتاب الأم (1، 246) میں فرمایا ہے کہ ’’میں قبر پر مسجد بنانے کو مکروہ سمجھتا ہوں اور اسی طرح اس پر نماز پڑھنا یا نیت کرنا یا اس کی طرف نماز پڑھنا بھی، کیونکہ اس میں فتنہ اور گمراہی ہے ‘‘ (تلخیص کے ساتھ )؛ 

حافظ عراقی کہتے ہیں "اگر کوئی مسجد تعمیر کرے اور اس کے حصے میں دفن ہونے کا قصد کرے تو وہ لعنت میں داخل ہے بلکہ مسجد میں دفن ہونا حرام ہے، اگر دفن ہونے کی شرط لگائی ہے تو وہ شرط صحیح نہیں مسجد کے وقف کی مخالفت کی وجہ سے‘‘،؛

یہ نقل کیا ہے مناوی نے فیض القدیر (5، 274) میں 

(3).؛
مالکیہ کہتے ہیں یہ حرام ہے 

امام قرطبی نے اپنی تفسیر (1، 38) میں صراحتاً کہا ہے کہ ہمارے علماء نے کہا ہے کہ یہ حرام ہے مسلمانوں پر کہ وہ انبیاء اور علماء کی قبروں پر مساجد تعمیر کریں  

(4).؛
حنابلہ کہتے ہیں ایسی مساجد میں نمازیں پڑھنا حرام بلکہ باطل ہے 

امام ابن قیم نے زادالمعاد (۳، 22) میں تصریح کی ہے 
اور ان میں سے معصیت والی جگہوں کو جلانا اور منہدم کرنا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہوتی ہو جیسے رسول اللہ ﷺ نے مسجد ضرار جلائی اور اسے منہدم کرنے کا حکم دیا، وہ مسجد جس میں نماز پڑھی جاتی ہے اور اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن اس کی تعمیر مومنوں کو نقصان پہنچانے، ان میں تفرقہ بازی ڈالنے کے لیے تھی اور وہ منافقین کا ٹھکانا تھا اور وہ جگہ جو اس قسم کی ہو تو حاکم کو چاہیے کہ اسے معطل کرے اسے جلائے یا منہدم کرے یا اس کی صورت بدل دے تا کہ جس کام کے لیے بنائی گئی ہے اس کام کی نہ رہے، مسجد ضرار کی یہ حالت تھی تو شرک کے اڈے جس کے مجاور اس میں مدفون لوگوں کا شریک بنانے کی دعوت دیتے ہیں جلانے اور منہدم کرنے کے زیادہ حقدار ہیں، پھر کہا اس بنا پر وہ مسجدجو قبر پر بنائی گئی ہے منہدم کردی جائے، اسی طرح اگر مسجد میں کسی میت کو دفن کر دیا جائے تو اسے نکال دیا جائے، امام احمد وغیرہ نے اس پر نص کی ہے 

دین اسلام میں مسجد اور قبر جمع نہیں ہو  سکتے اور ان میں جو بھی دوسرے پر بنائی جائے تو اس کو روکا جائے گا، اور حکم پہلے سے جو موجود ہو اسی کا ہوگا، اگر دونوں اکٹھی بیک وقت بنائی جا رہی ہوں تو جائز نہیں اور یہ وقف صحیح نہیں اور ایسی مسجد میں جائز اور درست نہیں، رسول  اللہ ﷺکی نہی کی وجہ سے اور جو یہ کام کرے اس پر لعنت کرنے کی وجہ سے، یہ دین اسلام ہے جس کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنے نبی اور رسول کو مبعوث فرمایا اور لوگوں میں اس کا انوکھا پن آپ دیکھ رہے ہیں" انتھیٰ

شیخ الا سلام امام ابن تیمیہ  اس مسئلے کے بابت اپنے فتوے (1، 107)، (2، 196) میں عجیب باتیں ذکر کرتے ہیں اور مجمو عۃ الفتاویٰ (27، 140 - 141) میں کہا ہے  
’’ایسی مساجد میں نماز پڑھنا بلا شک حرام ہے اور باطل ہیں ان میں قرض یا نفل کچھ بھی جائز نہیں‘‘  مراجعہ کریں ابن عروہ حنبلی کی الکوکب الدری (2، 244)، امام ابن تیمیہ کی الا ختیارات العلمیہ (ص 52)، شرح المنتھی (1، 353)؛

ہماری ذکر کردہ نقول صحیحہ سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ قبروں پر مسجدیں بنانا اور قبروں کو مسجدوں میں داخل کرنا جائز نہیں ایسی مسجدوں میں نمازیں پڑھنی جائز نہیں کیونکہ یہ مشرکوں کی مشابہت ہے،  جیسے نبی ﷺ نے سورج کے طلوع و غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس میں مشرکین کی مشابہت تھی ہم اس فتوے میں نقول اور احادیث کے ذکر کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے کیونکہ انصاف پسند مسلمان کے لیے اسی قدر کافی ہے اور بھائیوں کو مذکورہ کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں خصوصا شیخ البانی کی "تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد"؛

اور شیخ عثیمین نے مجموعہ (2، 119) میں قبر رسول ﷺ کے چار جواب دئیے ہیں 

اول 
مسجد نبوی، قبر پر تعمیر نہیں ہوئی بلکہ نبی ﷺ کی زندگی میں تعمیر ہو چکی تھی 

دوم 
بنی ﷺ مسجد میں دفن نہیں ہوئے کہ کوئی کہے یہ صالحین کا مسجد میں دفن ہونا ہے بلکہ آپ اپنے گھر میں دفن ہوئے تھے 

سوم 
رسول اللہ ﷺ کے گھروں کا سمیت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے مسجد سے شامل کیا حانا، صحابہ کے اتفاق سے نہیں تھا بلکہ 94ھ میں اکثر ان میں سے بکھر گے تھے تو یہ کام صحابہ کی اجازت سے نہیں ہوا، بلکہ بعض نے مخالفت بھی کی جن میں سعید بن مسیب بھی ہیں 

چہارم 
داخل کئے جانے کے بعد بھی قبر مسجد میں نہیں کیونکہ قبر مسجد سے مستقل حجرے میں ہے تو مسجد قبر پر نہیں بنی، اسی لیے اس جگہ کو محفوظ کر دیا گیا ہے اور اسے تین دیواروں کی مثلث سے اس طرح گھیر دیا گیا ہے کہ دیوار قبلے سے منحرف ہے اور شمالی کونہ کچھ اس طرح ہے کہ نماز پڑھنے والے کا منہ اس طرف نہیں ہوتا ،کیونکہ وہ قبلہ سے منحرف ہے اس لحاظ سے قبوریوں کا اس شبہ سے حجت پکڑنا باطل ہے الخ  

وباللہ التوفیق 

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1، ص160 

محدث فتویٰ 

https://urdufatwa.com/view/1/11422 

،

جائز وسیلے کے چھ (۶) اقسام ‏

.

جائز وسیلے کے چھ (۶) اقسام 

~~~~؛

سوال 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

وسیلے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ 

 ~~~~؛
 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

یہ بہت اہم سوال ہے، اس بناء پر ہم چاہتے ہیں کہ قدرے تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دیں ’’تَوَسُّل‘‘ فعل تَوَسَّل یَتَوسَّلُ  کا مصدر ہے، جس کے معنی ایسا وسیلہ اختیار کرنے کے ہیں جو مقصود تک پہنچا دے۔ گویا کہ اس کا اصل معنی منزل مقصود تک پہنچنے کو طلب کرنا ہے۔ توسل کی دو قسمیں ہیں:

 ا       صحیح وسیلہ: ایسا صحیح وسیلہ اختیار کرنا جو مطلوب تک پہنچا دے، اس کی کئی صورتیں ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:

۱۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ وسیلہ پکڑنا: اس کی دو صورتیں ہیں:

٭           عمومی طور پر جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث میں غم و فکر کے دور کرنے کی یہ دعا ء  میں واردہواہے:

«اَللّٰهُمَّ إِنِّی عَبْدُك ،َابْنُ عَبْدِك ،َابْنُ أَمَتِك،َ نَاصِيَتِی بِيَدِك مَاضٍ فِیَّ حُکْمُك عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُك أَسْأَلُك اللهمَ بِکُلِّ اسْمٍ هُوَ لَك سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَك،أو أنزلته فی کتابك،َ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِتك أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِی عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَك أن تجعل القرآن ربيع قلبی َََ۔۔۔۔۔۔َ»الخ مسند احمد: ۱/۳۹۱۔

’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری باندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، مجھ پر تیرا ہی حکم چلتا ہے، میرے بارے میں تیرا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے، میں تیرے ہر اس نام کے وسیلے سے تجھ سے دعا کرتا ہوں جو تو نے اپنی ذات پاک کا نام رکھا ہے یا جو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی سکھایا ہے یا جسے تو نے علم غیب میں اپنے ہی پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے کہ تو قرآن کریم کو میرے لئے بہاردل بنادے۔‘‘

اس دعا میں عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کو بطور وسیلہ اختیار کیا گیا ہے: (اَسْئَلُك بِکُلِّ اسْمٍ هُوَ لَك سَمَّيْتَ بِه نَفْسَك) ’’میں تجھ سے تیرے ہر اس اسم پاک کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں جو تیرا نام ہے اور جس سے تو نے اپنی ذات گرامی کو موسوم کیا ہے۔‘‘

٭           خصوصی طور پر وہ بھی اس طرح کہ انسان اپنی کسی خاص حاجت کے لیے اللہ تعالیٰ کے کسی ایسے خاص اسم پاک کے وسیلے کو اختیار کرے جو اس حاجت کے مناسب حال ہو جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث میں ہے کہ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیں جسے میں نماز میں مانگا کروں تو آپ نے فرمایا یہ دعا مانگا کرو:

«اَللّٰهُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِيرًا وَّلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِك وَارْحَمْنِی إِنَّك أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيمُ»صحیح البخاری، الاذان، باب الدعاء قبل السلام، ح: ۸۳۴ وصحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب الدعوات والتعوذ، ح: ۲۷۰۵)

’’اے اللہ! بے شک میں نے اپنی جان پر حدسے زیادہ ظلم کیا ہے اور تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا، پس تو اپنی خاص مغفرت سے میرے سارے گناہ معاف فرما دے اور مجھ پررحم فرما، بے شک تو ہی(غفور) یعنی حدسے زیادہ مغفرت کرنے والا اور نہایت رحم وکرم کا معاملہ فرمانے والا ہے۔‘‘

اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے دو ایسے پاک ناموں کے وسیلے کے ساتھ مغفرت و رحمت کو طلب کیا گیا ہے جو اس مطلوب کے مناسب حال ہیں اور وہ ہیں ’’غفور‘‘ اور ’’رحیم‘‘۔

وسیلہ کی یہ قسم حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں داخل ہے:

﴿وَلِلَّهِ الأَسماءُ الحُسنى فَادعوهُ بِها...﴿١٨٠﴾... سورة الأعراف

’’اور اللہ کے لئے (أسماء حسنی) ہیں، سو تم اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو۔‘‘

یہاں پکارنے کا لفظ دعا کرنے اور عبادت وریاضت کرنے میں سے دونوں معنوں کو شامل ہے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ وسیلہ: اسماء کے ساتھ وسیلے کی طرح اس کی بھی دو قسمیں ہیں:

٭           عمومی طور پر، مثلاً: آپ یہ کہیں کہ ’’اے اللہ! میں تیرے اسمائے حسنیٰ اور صفات أعلیٰ کے وسیلے سے تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں‘‘ اور پھر اس کے بعد اپنے مطلوب کو ذکر کریں۔

٭           خصوصی طور پر، یہ کہ اپنے خاص مطلوب کے لیے کسی مخصوص اور معین صفت کے وسیلے سے دعا کریں، جیسا کہ حدیث میں یہ دعا آتی ہے:

«اَللّٰهُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَيْبِ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ أَحْيِنِی مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِی وَتَوَفَّنِی إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِی»سنن النسائی، السهو، باب نوع آخر من الدعاء ح:۱۳۰۶۔

’’اے اللہ! میں تیرے علم غیب اور مخلوق پر قدرت کے وسیلے سے تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ جب تک تیرے علم کے مطابق میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے، مجھے زندہ رکھ اور جب تیرے علم کے مطابق میرے لیے مرنا بہتر ہو تو تومجھے وفات عطاء فرمادے۔‘‘

اس دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفت علم وقدرت کے وسیلے سے دعا کی گئی ہے اور یہ دونوں صفات مطلوب کے مناسب حال ہیں۔

اسی قبیل سے یہ بھی ہے کہ کسی صفت فعل کا وسیلہ اختیار کیا جائے مثلاً: (اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاهِيْمَ) ’’اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی تھی۔‘‘

۳۔ اللہ عزوجل کی ذات گرامی پر ایمان اور اس کے رسول پر ایمان کا وسیلہ: مثلاً: یوں کہے کہ ’’اے اللہ! میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لایا ہوں، تو مجھے بخش دے یا مجھے اس کام کی توفیق عطا فرما دے۔‘‘ یا یہ کہے کہ ’’اے اللہ! میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لانے کے وسیلے سے تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں۔‘‘ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں بھی وسیلے کی یہی صورت مذکور ہے:

﴿إِنَّ فى خَلقِ السَّمـوتِ وَالأَرضِ وَاختِلـفِ الَّيلِ وَالنَّهارِ لَءايـتٍ لِأُولِى الأَلبـبِ ﴿١٩٠﴾ الَّذينَ يَذكُرونَ اللَّهَ قِيـمًا وَقُعودًا وَعَلى جُنوبِهِم وَيَتَفَكَّرونَ فى خَلقِ السَّمـوتِ وَالأَرضِ رَبَّنا ما خَلَقتَ هـذا بـطِلًا سُبحـنَكَ فَقِنا عَذابَ النّارِ ﴿١٩١﴾ رَبَّنا إِنَّكَ مَن تُدخِلِ النّارَ فَقَد أَخزَيتَهُ وَما لِلظّـلِمينَ مِن أَنصارٍ ﴿١٩٢﴾ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعنا مُنادِيًا يُنادى لِلإيمـنِ أَن ءامِنوا بِرَبِّكُم فَـٔامَنّا رَبَّنا فَاغفِر لَنا ذُنوبَنا وَكَفِّر عَنّا سَيِّـٔاتِنا وَتَوَفَّنا مَعَ الأَبرارِ ﴿١٩٣﴾... سورة آل عمران

بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں، جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار (تدبر وتفکر)کرتے ہیں (وہ کہتے ہیں:) اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ بے فائدہ پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے، پس تو ہمیں آگ(جہنم) کے عذاب سے بچا۔ اے ہمارے پروردگار! ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا جو ایمان کے لیے پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ، تو ہم ایمان لے آئے، اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ معاف فرمادے اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو کر دے اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا۔‘‘

اس آیت میں عقل والوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر اپنے ایمان کے وسیلے سے یہ دعا کی کہ وہ ان کے گناہوں کو معاف فرما دے، ان کی خطاؤں سے درگذر کا معاملہ فرما ئے اور انہیں اپنے نیک بندوں کے ساتھ دنیا سے اٹھائے۔

۴۔ عمل صالح کا وسیلہ: جیسا کہ ان تین لوگوں کا واقعہ ہے جو رات بسر کرنے کے لیے ایک غار میں آگئے تھے اور غار کے منہ پر ایک بھاری پتھر گر گیا تھا جسے وہ دور ہٹانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، پھر ان میں سے ہر ایک نے اپنے عمل صالح کا وسیلہ پیش کیا تھا، ان میں سے ایک نے اپنے والدین کے ساتھ نیکی کے عمل صالح کا، دوسرے نے اپنی عفت وپاک دامنی کا اور تیسرے نے اپنے مزدور کو پوری پوری مزدوری دینے کا وسیلہ پیش کیا تھا۔ بہرحال ان میں سے ہر ایک نے اپنے عمل صالح کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اے اللہ! اگر یہ کام میں نے تیری رضا کے لیے کیا ہے تو تو ہماری اس مشکل کو دور فرما دے جس میں ہم مبتلا ہیں۔ اس سے وہ بھاری پتھر غار کے منہ سے ہٹ گیا تھا۔صحیح البخاری، البیوع، باب اذا اشتری شیئا لغیرہ بغیر اذنه فرضی حدیث: ۲۲۱۵۔

 چنانچہ یہ ہے عمل صالح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ اختیار کرنے کی مثال۔

۵۔ اپنی عاجزی اور حالت زار کا وسیلہ پکڑنا: اپنے حال کو ذکر کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرے، یعنی اپنی حاجت وضرورت کو بیان کرے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے اپنی حالت کو ذکر کرتے ہوئے یہ دعا کی تھی:

﴿رَبِّ إِنّى لِما أَنزَلتَ إِلَىَّ مِن خَيرٍ فَقيرٌ ﴿٢٤﴾... سورة القصص

’’اے میرے پروردگار! بے شک تو میری طرف جو بھی خیر نازل کرے، میں اس کا محتاج ہوں۔‘‘

اپنے حال کا ذکر کر کے انہوں نے وسیلہ پیش کیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی نعمت کو نازل فرما دے۔ حضرت زکریا علیہ السلام  کی یہ دعا بھی اسی اسلوب میں ہے:

﴿قالَ رَبِّ إِنّى وَهَنَ العَظمُ مِنّى وَاشتَعَلَ الرَّأسُ شَيبًا وَلَم أَكُن بِدُعائِكَ رَبِّ شَقِيًّا ﴿٤﴾ ... سورة مريم

’’انہوں نے کہا: اے میرے پروردگار! میری ہڈیاں (بڑھاپے کے سبب) کمزور ہوگئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے (کی سفیدی) سے شعلہ مارنے لگا ہے اور اے میرے پروردگار! میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔‘‘

وسیلے کی یہ تمام قسمیں جائز ہیں کیونکہ حصول مقصود کے لیے ان میں جن اسباب کو اختیار کیا گیا ہے وہ درست ہیں۔

۶۔ نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ: اللہ تعالیٰ کی طرف کسی ایسے نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ اختیار کیا جائے جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عام اور خاص ہر قسم کی دعا کے لیے درخواست کیا کرتے تھے، جیسا کہ صحیحین میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث ہے: ’’ایک شخص جمعے کے دن اس وقت مسجد نبوی میں داخل ہوا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مال ہلاک ہوگئے اور رستے منقطع ہوگئے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش نازل فرمائے۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دئیے اور یہ دعا کی: (اَللّٰهُمَّ اَغِثْنَا) ’’اے اللہ! ہمیں بارش سے نوازدے۔‘‘ آپ نے یہ دعا تین بار فرمائی اور جب آپ خطبہ مکمل فرمانے کے بعد منبر سے اترے تو آپ کی ڈاڑھی مبارک سے بارش کے قطرے گر رہے تھے پھر پورا ایک ہفتہ بارش ہوتی رہی اسی طرح دوسرے جمعے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو اس شخص نے یا کسی اور نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! پانی سے مال ومویشی غرق ہوگئے اور گھر منہدم ہوگئے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب وہ ہم سے بارش کو روک دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی: (اَللّٰهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا) ’’اے اللہ! (بارش کو) ہمارے گرد وپیش لے جا اور اب ہم پر نہ برسا۔‘‘ آپ یہ دعا فرماتے ہوئے آسمان کی جس طرف بھی اشارہ کرتے بادل چھٹ جاتا حتیٰ کہ لوگ مسجد سے نکل کر دھوپ میں چلنے لگے۔‘‘صحیح البخاری، الاستسقاء باب الاستسقاء فی المسجد الجامع، حدیث: ۱۰۱۴ وصحیح مسلم، صلاۃ الاستسقاء باب الدعا ء فی الاستسقاء، حدیث: ۸۹۷۔

اسی طرح بہت سے واقعات سے یہ ثابت ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ درخواست کی کہ آپ ان کے لیے بطور خاص دعا فرمائیں، مثلاً: نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ذکر فرمایا کہ آپ کی امت کے ستر ہزار افراد جنت میں کسی حساب وعذاب کے بغیر داخل ہوں گے  یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ دم کرواتے ہیں، نہ داغ لگواتے ہیں۔

اسی طرح بہت سے واقعات سے یہ ثابت ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلمکی خدمت میں یہ درخواست کی کہ آپ ان کے لیے بطور خاص دعا فرمائیں، مثلاً: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ذکر فرمایا کہ آپ کی امت کے ستر ہزار افراد جنت میں کسی حساب وکتاب ا ورعذاب وعقاب کے بغیر داخل ہوں گے  یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ دم کرواتے ہیں، نہ داغ لگواتے ہیں، نہ بدشگونی سے کام لیتے ہیں اور اپنے رب کریم ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں، تو عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ  نے کھڑے ہو کر عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے بھی انہی لوگوں میں سے بنا دے۔‘‘ آپ نے فرمایا: (اَنْتَ مِنْہُمْ) ’’تم انہی میں سے ہو۔‘‘صحیح البخاری، الطب، باب من اکتوی او کوی غیرہ… حدیث: ۵۷۰۵ وصحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنة بغیر حساب، حدیث: ۲۲۰ واللفظ له۔

تو یہ بھی جائز وسیلے کی ایک صورت ہے کہ انسان اس شخص سے دعا کی درخواست کرے جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو اور سائل کو چاہیے کہ اس عمل سے اس کا ارادہ اپنے آپ کو اور اپنے اس بھائی کو نفع پہنچانا ہو، جس سے اس نے دعا کا مطالبہ کیا ہے، یعنی وہ صرف اپنے ہی لیے دعا کا خواستگار نہ ہو کیونکہ جب آپ کا ارادہ یہ ہوگا کہ آپ کے بھائی کو فائدہ پہنچے اور آپ کو بھی تو یہ آپ کی طرف سے بھائی کے ساتھ احسان ہو جائے گا۔ اس لیے جب کوئی انسان غائبانہ طور پر اپنے بھائی کے لیے دعا کرتاہے تو فرشتہ کہتا ہے: (آمِيْنَ وَلَك بِمِثْلٍ)’’اللہ تعالیٰ آپ کی دعا کو قبول فرمائے اور آپ کو بھی اسی طرح عطا فرمائے۔‘‘سنن ابی داود، الوتر، باب الدعا بظهر الغیب، حدیث: ۱۵۳۴۔

ب:          غیر صحیح وسیلہ: اس کی صورت یہ ہے کہ انسان تعالیٰ کی طرف کسی ایسی چیز کا وسیلہ پیش کرے جو سرے سے وسیلہ ہے ہی نہ ہو، یعنی جس کا وسیلہ ہونا شریعت میں ثابت ہی نہ ہو کیونکہ اس طرح کا وسیلہ لغو، باطل ہے اور معقول ومنقول کے خلاف ہواکرتا ہے، مثلاً: کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی طرف کسی میت کی دعا کا وسیلہ پیش کرے، یعنی وہ اس میت سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو یہ صحیح اور شرعی وسیلہ نہیں بلکہ یہ تووسیلہ اختیارکرنے والے انسان کی بے وقوفی اور حماقت کی دلیل ہے کہ وہ میت سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے  کیونکہ جب کوئی انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، لہٰذا کسی انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی وفات کے بعد کسی کے لیے دعا کرے حتیٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ آپ اپنی وفات کے بعد کسی کے لیے دعا فرمائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی دعا کے وسیلے کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش نہیں کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے دور میں جب قحط سالی پیدا ہوئی تو انہوں نے اس طرح دعا کی:

«اَللّٰهُمَّ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِيْنَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْکَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا»صحیح البخاری، الاستسقاء، باب سدوال الناس الامام اذا قحطوا، ح:۱۰۱۰۔

’’اے اللہ! پہلے ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کروایا کرتے تھے (جب وہ زندہ ہم میں موجود تھے) تو تو ہمیں بارش سے نوازدیاکرتا تھا۔ اب (جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود نہیں ہیں) تیرے نبی کے چچا کو ہم (دعا کے لیے) بطور وسیلہ پیش کر کے دعا کر رہے ہیں، اب تو ہمیں بارش عطا فرما دے۔‘‘

اس کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے دعا فرمائی۔ اگر میت سے دعا کا مطالبہ کرنا صحیح ہوتا اور یہ بنفسہ صحیح وسیلہ ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ  اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی آپ ہی سے دعا کا مطالبہ کرتے کیونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ   کی دعا کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی قبولیت کی بہرحال زیادہ امید تھی۔ خلاصہ کلام یہ کہ کسی میت کی دعا کے وسیلے کو اللہ تعالیٰ کی طرف پیش کرنا ایک باطل وسیلہ ہے جو قطعاً حلال اور جائز نہیں۔

اس طرح غیر صحیح وسیلے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کوئی انسان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ (مرتبہ) کے وسیلے کو پیش کرے کیونکہ دعا کرنے والے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ مفید نہیں ہے۔ جاہ کا فائدہ تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو ہے لہٰذا دعا کرنے والے کو اس کا فائدہ نہیں مل سکتا کہ وہ جاہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلے کے طور پر پیش کرے اور یہ قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے کہ توسل صحیح اور فائدہ مند وسیلہ اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت عظیم الشان جاہ (مرتبہ) حاصل ہے تو آپ کو اس سے کیا فائدہ؟

اگر آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صحیح وسیلہ پیش کرنا چاہتے ہیں تو یوں کہیں کہ اے اللہ! میں آپ پر اور آپ کے رسول پر ایمان کے وسیلے سے یہ دعا کرتا ہوں یا یوں کہیے کہ اے اللہ! مجھے آپ کے رسول سے جو محبت ہے، میں اس کے واسطہ سے تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں، تو اس طرح کا وسیلہ اختیار کرنا صحیح اور سودمند ہے۔

وباللہ التوفیق

 
فتاویٰ ارکان اسلام
عقائدکےمسائل:صفحہ166

.