منگل، 27 اپریل، 2021

فی سبیل اللہ روزہ رکھنے سے مراد کیا ہے ؟ ‏

..

فی سبیل اللہ روزہ رکھنے سے مراد کیا ہے ؟ 

؛~~~~~~~~~~~~~؛

حدیث کا مفہوم یہ ہے //کہ جو کوئی اللہ کے راستے میں،،، یعنی فی سبیل اللہ،،، روزہ رکھتا ہے وہ جھنم سے ستر سال کی مسافت دور ہو جاتا ہے  وغیرہ!! یہاں فی سبیل اللہ سے مراد  صرف اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا خاص ہے، یعنی وہ جھنم سے اتنا دور ہو جائے گا، یا پھر کوئی بھی روزہ رکھتا ہے تو وہ بھی اس فضیلت میں شامل ہو جائے گا،،،، جس کو اللہ ستر سال کی مسافت برابر جھنم سے دور کر دیں گے،،، مختصر  یہ  ہے کہ اگر کوئی  بھی نفلی روزہ رکھتا ہے تو کیا وہ بھی جہنم سے اتنا دور ہو جائے گا،،، یا پھر یہ خاص مجاھد فی سبیل اللہ ہی ہیں،،،،، وضاحت فرما دیں،،، اللہ آپ کی دنیا آخرت میں حفاظت فرمائے(آمین) آپکا دینی بھائی،،،، 
مدثر، القصیم، سعودی عرب۔

؛~~~~~~~~~~~~؛

جواب: 
بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ، اما بعد؛

فی سبیل اللہ سے مراد:

فی سبیل اللہ سے مراد عام طور پر جہاد فی سبیل اللہ ہی لیا جاتا ہے، بعض احادیث میں سفر حج کو بھی سبیل اللہ قرار دیا گیا ہے۔ البتہ جہاں تک تعلق ہے حدیث: "من صام يوماً في سبيل الله باعد الله وجهه عن النار سبعين خريفاً" کا یعنی جو اللہ کے راستے میں ایک دن  کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے ستر سال کی مسافت تک دور کر دیتے ہیں. [مسلم]

تو عرض ہے کہ اس بارے میں علماء کرام نے دونوں احتمالات کو پیش نظر رکھا ہے، سب سے بہتر توجیہ امام ابن دقیق العید نے الاحکام شرح عمدۃ الأحکام (۔۔۔۔) میں پیش کی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس سے موافقت کی۔ ابن دقیق العید فرماتے ہیں: 

 '' قَوْلُهُ " فِي سَبِيلِ اللَّهِ " الْعُرْفُ الْأَكْثَرُ فِيهِ: اسْتِعْمَالُهُ فِي الْجِهَادِ، فَإِذَا حُمِلَ عَلَيْهِ: كَانَتْ الْفَضِيلَةُ لِاجْتِمَاعِ الْعِبَادَتَيْنِ - أَعْنِي عِبَادَةَ الصَّوْمِ وَالْجِهَادِ - وَيُحْتَمَلُ أَنْ يُرَادَ بِسَبِيلِ اللَّهِ: طَاعَتُهُ كَيْفَ كَانَتْ. وَيُعَبَّرُ بِذَلِكَ عَنْ صِحَّةِ الْقَصْدِ وَالنِّيَّةِ فِيهِ وَالْأَوَّلُ: أَقْرَبُ إلَى الْعُرْف''

 یعنی عرف میں عام طور پر فی سبیل اللہ  کا استعمال جہاد کے لیے ہوتا ہے، اگر یہاں (روزے کی حدیث میں) اسے جہاد پر ہی محمول کیا جائے تو اس طرح دو عبادات جمع ہو سکتی ہیں (یعنی روزہ اور جہاد)، اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو۔ اس کا اعتبار اس وقت کیا جائے گا جب نیت میں خلوص اور مقصد میں  درستگی ہو گی۔ لیکن پہلا معنیٰ عرف کے زیادہ قریب ہے .
[الاحکام  شرح عمدۃ الأحکام(۲؍۳۷)] 

علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی اسی تشریح کو ترجیح دی ہے۔

امام ابن الجوزی اور نووی وغیرہ نے اس سے مراد صرف جہاد فی سبیل اللہ ہی لیا ہے۔ 

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ سب سے زیادہ قریب المراد ہے، ما سوائے اس وقت جب قوی کمزور پڑ جائیں اور جہاد  و قتال میں رکاوٹ کا باعث ہو تب روزہ افطار کرنا زیادہ افضل ہے۔ البتہ اگر نیت میں خلوص ہو تو عام روزہ بھی اس نوید کا حقدار بن سکتا ہے.
  واللہ اعلم 

کتبہ: 
 ابو احمد السلفي عفی عنہ 

http://ircpk.com/fatwa/300-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%8A-%D9%83%D9%8A-%D8%A7%D9%BE%D9%86%DB%92%D8%A8%D9%86%D8%AF%D9%88%DA%BA-%D9%BE%D8%B1-%D8%B1%D8%AD%D9%85%D8%AA/6815-fi-sabilillah-sa-kia-murad-hai.html 

؛~~~~~~~~~~~؛
؛~~~~~~~~~~~؛

حدیث : اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھنے کا ثواب۔۔۔ کی شرح
مقبول احمد سلفی
اسلامی سنٹر،طائف، سعودی عرب 

؛~~~~~~~~~~~~؛

صحیحین کی روایت ہے نبی ﷺ کا فرمان ہے : 

من صام يوما في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريفا
( صحيح البخاري:2840 و صحيح مسلم : 1153)

ترجمہ : جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے۔

اس حدیث میں چند مسائل ہیں۔

(1) صوم سے مراد : اس صوم سے مراد نفلی روزہ ہے ۔

(2)فی سبیل اللہ سے مراد: 

سبیل اللہ سے کیا مراد ہے ؟ اس سے متعلق علماء میں دو رائیں ہیں ۔ 

پہلی رائے جہاد ہے اس کے قائلین میں شیخ ابن عثیمینؒ بھی ہیں۔ 

دوسری رائے اللہ کی خوشنودی ہے اس کے قائلین میں شیخ ابن بازؒ ہیں۔ 

ویسے سبیل اللہ کا عام طور سے اطلاق جہاد پر ہی ہوتا ہے ساتھ ہی بسا اوقات طاعت کے کاموں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اس وجہ سے یہاں عام معنی یعنی اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے طور پر مراد لینا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنا معنی ہوگا۔

(3) لفظ بعد بخاری کا لفظ ہے ، مسلم میں باعد کا لفظ ہے ۔ اس کا معنی ہے دور کرنے کے یعنی جہنم سے دور کرنا ۔

(4) سبعین خریف : خریف سے مراد سال ہے ، اس طرح اس کا معنی ہوگا ستر سال ۔

(5) الفاظ کا اختلاف: اس روایت میں سبعین خریف کا لفط ہے جبکہ اس کے برخلاف دوسری صحیح روایات میں سوسال اور اس سے زیادہ بھی آیا ہے ۔

سوسال والی روایت :
من صامَ يومًا في سبيلِ اللَّهِ عزَّ وجلَّ باعدَ اللَّهُ منهُ جَهَنَّمَ مَسيرةَ مائةِ عامٍ. 
(صحيح النسائي:2253)

ترجمہ : جو اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالی اسے جہنم سے سوسال کی مسافت کے قریب دور کردیتا ہے ۔ 

٭شیخ البانی نے اسے صحیح النسائی میں حسن قرار دیا ہے ۔ 

پانچ سو سال والی روایت :

من صامَ يومًا في سبيلِ اللَّهِ جعلَ اللَّهُ بينَهُ وبينَ النَّارِ خَندقًا كما بينَ السَّماءِ والأرضِ .
(صحيح الترمذي:1624)

ترجمہ : جو آدمی اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ سے رہے، اس کے لیے اللہ رب العزت اس کے اور جہنم کے درمیان خندق یعنی گڑھا کھود دیتا ہے، جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہوتی ہے۔

٭ شیخ البانی نے اسے صحیح الترمذی میں حسن صحیح قرار دیا ہے ۔

٭ یہاں پانچ سو سال کا معنی اس طرح بنتا ہے کہ زمیں سے لیکر آسمان تک کی دوری پانچ سو سال ہے ۔ 

ان مختلف مسافت کا علماء نے کئی ایک جواب دیا ہے۔ 

پہلا جواب : سبعین سے مراد کثرت ہے یعنی اللہ تعالی بندے کو جہنم سے بہت دور کردے گا ۔ یہ واضح رہے کہ عرب میں سبعین کا استعمال مبالغہ کے لئے ہوتا ہے۔ 

دوسرا جواب : روزے کی مشقت وشدت کے اعتبار سے درجے کا فرق ہے ۔ 

تیسرا جواب : ستر کا سو یا پانچ سو سےکوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ آسمان کی اکثر مسافت پانچ سو ہے جبکہ اقل سترسال ۔اس طرح ستر اور سو پانچ سو میں داخل ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب ​

 
.

افطار کی دعا ذهب الظمأ.... کب پڑھیں؟ عبد الغفار سلفی ‏

.

بسم الله الرحمن الرحيم 
،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"، 

افطار کی دعا ذهب الظمأ.... کب پڑھیں؟ 

عبد الغفار سلفی 

افطار کے سلسلے میں مستند احادیث سے جو دعا ثابت ہے وہ ہے:

ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ (ابوداؤد، کتاب الصوم: 2357)

دعا کا ترجمہ : پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہو گئیں اور اجر بھی ان شاء اللہ ثابت ہو گیا.

بعض اہل علم نے اس دعا کے سلسلے میں یہ اشکال ذکر کیا ہے کہ اگر ہم اس کا ترجمہ ماضی کی شکل میں کرتے ہیں (جیسا کہ اوپر کیا گیا ہے) تو یہ صحیح نہیں ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں یہ جملہ خبریہ ہو جائے گا ، جب کہ یہ دعا ہے اور دعا انشاء سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے اس دعا کا ترجمہ یوں کیا جانا چاہیے : پیاس بجھ جائے، رگیں تر ہو جائیں اور اجر ثابت ہو جائے ان شاء اللہ. اسی لیے بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اس دعا کو افطار کے وقت پڑھا جائے نہ کہ افطار کے بعد.

ہماری تحقیق کے مطابق اس دعا کا ترجمہ جملہ خبریہ کے طور پر کرنے میں کوئی حرج نہیں.. اس دعا کی مثال بعینہ اس دعا کی طرح ہے جو کسی کے یہاں کھانا کھانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے اور جس کے الفاظ یوں ہیں :

أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ (ابوداؤد، کتاب الاطعمۃ:3854)
ترجمہ : آپ لوگوں کے یہاں روزہ داروں نے افطار کیا، آپ کا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور فرشتوں نے آپ لوگوں کے لیے دعائے رحمت کی.

اب ظاہر ہے یہ دعا کھانا کھا چکنے کے بعد ہی ہڑھی جاتی ہے اس لیے اس کے ترجمہ میں وہ منطق بالکل لاگو نہیں ہو سکتی جو افطار والی دعا میں لگائی جاتی ہے. اسی لیے "ذهب الظمأ.." والی دعا کے سلسلے میں شارحین حدیث نے بھی یہ وضاحت کی ہے کہ یہ دعا افطار کے بعد پڑھی جائے گی، چنانچہ صاحب عون المعبود علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

(إذا أفطر) أي بعد الإفطار
یعنی یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد پڑھتے تھے.

لہذا صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ افطار بسم اللہ سے کیا جائے اور افطار کے بعد مذکورہ بالا دعا پڑھی جائے.

واللہ اعلم بالصواب

( عبدالغفار سلفی ،بنارس) 

.

افطار دعاء کب پڑھی جائے؟سید حسین عمری مدنی

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
،~،~،~،~،~،~،~،~،~،

افطار دعاء کب پڑھی جائے؟

سید حسین عمری مدنی 

.

منگل، 20 اپریل، 2021

دعائے قنوت میں جمع کا صیغہ استعمال کر سکتے ہیں؟ ‏اکبر ‏علی ‏سلفی



.

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

دعائے قنوت میں جمع کا صیغہ استعمال کر سکتے ہیں؟ 

حافظ اکبر علی سلفی 


~~~~~~~~~~~~~؛
~~~~~~~~~~~~~؛

Qunoot Me Jama Ya Wahid Ke Alfaz Perdhen?
Sh. Dr. Razaullah Abdul Kareem Madani 

قنوت میں جمع یا واحد کے الفاظ پڑہیں؟
شیخ دکتور رضاء اللہ عبد الکریم مدنی 

.
~~~~
.
Subscribe:
Salafi Library
.
~~~~
.
Join In Telegram Channel 
"Nurul Huda نور الھدیٰ" 
.
Link 4r Joining 👇
.
~~~~
.
To Create Telegram Account Install Telegram App. Via Below link👇
.
 "Telegram"
.
~~~~
.
Share
.
.

تراویح میں قرآن ختم کرنا واجب نہیں ‏محمد ‏نسیم ‏مدنی

.

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
؛"؛"؛"؛"؛"؛"؛"؛"؛"؛"؛"؛"؛"؛"؛"؛"؛

🔴 تراویح میں قرآن ختم کرنا واجب نہیں 🔴

دکتور محمد نسيم عبد الجليل المدنی

صلاۃ تراویح میں قرآن ختم کرنا واجب نہیں ہے، بلکہ اس کی سنیت اور استحباب کی بھی کوئی واضح اور صریح دلیل نہیں ہے، بعض علماء نے اس بات سے ضرور استدلال کیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن کا مدارسہ کرتے تھے، لیکن اس سے تراویح میں ختم قرآن پر استدلال کرنا بھی محل نظر ہے، اگر اس سنت پر عمل کرنا ہے تو چند لوگ بیٹھ کر قرآن کا مدارسہ و مذاکرہ کریں۔ 

عموما یہ دیکھا جاتا ہے کہ رمضان میں تراویح کے اندر ختم قرآن کی اس قدر پابندی کی جاتی ہے جیسے یہ کوئی سنت ہو، اگر اسے سنت سمجھ کر کیا جاتا ہے تو اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، ہاں اگر اسے سنت سمجھے بغیر قرآن کو ایک سے زائد بار بھی ختم کیا جائے تو کوئی حرج نہیں، کیوں کہ (فاقرؤوا ما تیسر من القرآن) کا یہی مفہوم ہے۔ 

یہاں ایک بات یہ قابل توجہ ہے کہ قرآن کو اس کے حروف اور کلمات کی صحیح ادائیگی کے ساتھ پڑھنا واجب ہے، لیکن اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ختم قرآن کے چکر میں اس کا بالکل بھی دھیان نہیں رکھا جاتا ہے، اور بمشکل یعلمون تعلمون اور خواتیم آیات ہی واضح ہو پاتی ہیں، یہ قرآن کے ساتھ بہت برا رویہ ہے، جسے ختم ہونا چاہئے، قرآن پڑھتے اور سنتے وقت اس میں تدبر وتفکر کی گنجائش ہونی چاہئے، لیکن تدبر تو دور کی بات ہے، ٹھیک سے حروف اور کلمات کی ادئیگی بھی نہیں ہو پاتی ہے، ایک غیر سنت عمل کے لیے واجب کو ترک کرنا کہاں تک درست ہے؟! 

اس کے علاوہ نماز میں اطمینان رکن ہے، اطمینان کی حد علماء نے یہ بتائی ہے کہ نماز کی کسی بھی حالت میں جانے کے بعد اعضاء کا حرکت بند ہو جانا، یا نماز کے اس حصے میں مشروع دعا کا ادا کرپانا ہے، اگر قرآن ختم کرنے کے لیے اس رکن میں خلل آرہا ہے تو ختم قرآن پر ایک بار غور کرنے کی ضرورت ہے۔

نماز کے اندر خشوع سنت مؤکدہ ہے، خشوع کی حد ہے: دل اور دماغ کا حاضر ہونا، اور اعضا کا ساتھ دینا، ختم قرآن کے لیے خشوع جیسی اہم سنت بھی متأثر ہوتی ہے۔

اس لیے اگر تراویح میں قرآن ختم کرنے کا جذبہ ہے تو بے شک کیجئے، مگر اسے سنت نہیں بنانا چاہئے، اور اس کی وجہ سے اگر کوئی واجب یا رکن چھوٹ رہا ہے، تب تو بالکل بھی ایسا نہیں کرنا چاہئے. 
تقبل اللہ صیامنا وقیامنا 

أخوکم في الله: محمد نسيم عبد الجليل المدنی


.

جمعہ، 16 اپریل، 2021

تحقیق ‏حلیم ‏

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`

پوسٹ نمبر ۱ 

*"تحقیقِ حلیم" :*

کہا جاتا ہے کہ رمضان میں جو خاص دش بنائی جاتی ہے اسکو *حلیم* کہنا غلط ہے، نہیں کہنا چاہئے .


13-06-2017 

~~~~~~~~~~

✖❎❌

*مذکورہ بات غلط ہے. جسے مشہور کیا گیا*

~~~~~~~~~~

*وضاحت :*

لفظ حلیم عام ہے جسکا معنیٰ "نرم ہونا" ہے.

یہ لفظ اللہ کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور مخلوق کیلئے بھی استعمال ہوتا، جاہلوں نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ یہ صرف اللہ کا نام ہے کسی دش (کھانے کی چیز) کیلئے استعمال نہیں کر سکتے اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے نام کی بے حرمتی ہے تو جان لیں کہ یہ سب جاہلوں کی باتیں ہیں جو عربی کے معمولی سے گرامر سے بھی واقف نہیں ہوتے ہیں 

جو دش رمضان میں خاص کر کے پکائی جاتی ہے اور عرفِ عام میں جس کو *حلیم* کہا جاتا ہے تو جان لیں کہ یہ کہنا درست ہے، کیونکہ حلیم کا معنیٰ ہے نرم ہونا اور اس رمضانی دِش کو سب جانتے ہیں کہ یہ نرم ہوتی ہے، البتہ کسی شئے و مخلوق کو *"الحلیم"* نہیں کہہ سکتے کیونکہ لفظ *الحلیم* صرف اللہ کیلئے خاص ہو جاتا ہے، جس کو عربی گرامر میں معرفہ، نکرہ کہا جاتا، جیسے انگریزی میں "A & The" کا فرق ہوتاہے

*خلاصہ کلام* یہ کہ رمضانی دش کو *حلیم* کہنا درست ہے البتہ *الحلیم* نہیں کہہ سکتے کیونکہ لفظ الحلیم صرف اللہ کی جانب منسوب و مستعمل ہے. 

🖌سید محمد عزیر 
+919059677668

Nurul Huda نور الھدیٰ

~~~~~~~~~~

شئیر 
جوائین ان ٹیلی گرام چینل 
"نور الھدی"

~~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲ 

کیا حلیم کو دلیم اور کریم کو کاریم کہنا اسماء الہی کے ادب میں سے ہے؟ 

جمع و ترتیب: طارق بن علی بروہی 

مصدر: کتاب و سنت سے مفہوم 

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام 

اس میں کوئی شک نہيں کہ ہمارے معاشروں میں اللہ تعالی کی توحید کے تعلق سے بہت سی گمراہیاں پائی جاتی ہيں جیسا کہ توحید الوہیت  وعبادت کے باب میں شرکیات کے بہت سے مظاہر عام ہیں اسی طرح سے اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے تعلق سے بھی گمراہ فرقے زمانۂ قدیم سے چلے آرہے ہيں جن میں سے بعض تو انکار کردیتے ہيں اور بعض حقیقی معانی سے ہٹ کر تاویلات کرتے ہيں، جبکہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بالکل کتاب و سنت اور سلف صالحین کے منہج کے مطابق ہے کہ اللہ تعالی کے جتنے پیارے نام اور اعلیٰ صفات کتاب و سنت میں بیان ہوئی ہيں انہیں بنا تحریف، تعطیل(انکار)، تمثیل(مثال کے بغیر)، تشبیہ، تکییف (کیفیت بیان کیے بغیر) و تاویل(حقیقی معنی سے ہٹ کر مجازی معنی مراد لینا) کے مانتے ہيں جیسا کہ اللہ تعالی کی شان کے لائق ہے۔

کہيں تو اس بارے میں یوں گمراہیاں ہیں جبکہ  دوسری طرف خودساختہ فہم و کم علمی کی بنیاد پر  بعض الفاظ کو اللہ تعالی کی جناب میں ادب و بے ادبی کا معیار بناکر  عام کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ ان کی نیت نصیحت و خیرخواہی اور اللہ کے ناموں و صفات کے ادب کی ہوتی ہے لیکن کم علمی اور اصول اہل سنت والجماعت سے ناواقفیت کی بناء پر ان سے اس قسم کی بات سرزد ہوتی ہے۔

ہماری طرح آپ نے بھی آجکل ا س بات کو کافی جگہ سنا ہوگا کہ برصغیر کے دال او رگوشت سے تیار کردہ مشہور  پکوان ”حلیم“ کو حلیم کہنا اللہ کی صفت اور نام حلیم کے حق میں بے ادبی ہے لہذا اسے ”دلیم“ کہا جائے، یا اصل لفظ ”دلیم“ ہے! پھر اسے سوشل میڈیا، ایس ایم ایس اور  پیغامات  میں خوب پھیلایا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض نے تو اپنی دکانوں  اور مینو کے نام بھی باقاعدہ حلیم سے دلیم کردیے ہيں۔ اور بہت سے لوگ جو ان کی اس خود ساختہ تشریح پر عمل پیرا نہ ہو ان سے ناراض  تک ہوجاتے ہیں۔

چناچہ اس بارے میں کچھ قواعد و وضاحت پیش خدمت ہے۔

اللہ تعالی کے اسماء وصفات میں بعض الفاظ اللہ تعالی اور مخلوق کے لیے مشترک استعمال ہوتے ہيں۔ لیکن دونوں کی حقیقت میں فرق ہوتا ہے۔  لیکن کچھ اسماء اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہیں جیسے اسم جلالہ ”اللہ“ اور ”الرحمن“ وغیرہ۔ بعض مثالیں:

اللہ تعالی کے لیے رؤف  و رحیم کے نام اس آیت میں ثابت ہيں:

﴿اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ﴾  (النحل: 7)

(بے شک تمہارا رب یقیناً رؤف (بہت نرمی کرنے والا) اور رحیم ( نہایت رحم کرنے والا ہے))

یہی نام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے لیے بھی اس آیت میں ثابت ہیں:

﴿لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ﴾

(التوبۃ: 128)

(بلاشہ یقیناً تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ، تمہارا مشقت میں پڑنا جس پر بہت شاق گزرتا ہے، تم پر بہت حرص رکھنے والا ہے، مومنوں پر رؤف (بہت شفقت کرنے والا)  اور رحیم ( نہایت مہربان ہے))

اللہ کے اسماء و صفات  کے باب میں جو آیت اصول کی حیثیت رکھتی ہے اس میں بہت ہی خوبی سے ان صفات کو بیان کیا گیا ہے جو نام کے اعتبار سے مخلوق کے لیے بھی ثابت ہے، البتہ دونوں کی حقیقتوں میں کوئی مماثلت نہيں،  جیسا کہ ذات میں مماثلت نہیں کہ اللہ کی ذات ہے اور انسان ذات ہے، اسی طرح صفات میں بھی وہی خالق و مخلوق کا فرق ہے۔اس مماثلت کا  تو خود اسی آیت میں انکار بھی کیا گیا ہے، کہ ہم اللہ تعالی کی صفا ت کو ثابت کرتے ہيں بغیر تشبیہ کے  اور تنزیہ (اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں) بغیر صفات کی تعطیل (انکار) کے۔ فرمان الہی:

﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ (الشوری: 11)

(اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی السمیع (سب کچھ سننے والا) اور البصیر( سب کچھ دیکھنے والا ہے))

انسان کے لیے بھی سورۃ الانسان میں یہ الفاظ استعمال ہوئے:

﴿اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ     ڰ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا﴾  (الانسان: 2)

(بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفے سے پیدا کیا، ہم اسے آزماتے ہیں، سو ہم نے اسے سمیع (خوب سننے والا)، بصیر ( خوب دیکھنے والا بنادیا))

بلکہ خود اسم ”حلیم“ مخلوق کے لیے بھی قرآن میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام  کے تعلق سے فرمان باری تعالی ہے:

﴿فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ﴾  (الصافات: 101)

(تو ہم نے انہیں ایک بہت حلیم (برد بار)  لڑکے کی بشارت دی)

البتہ معرفہ کے طور پر الحلیم اللہ تعالی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے دیگر اسماء ہيں۔

اور یہ دلیم بھی کسی لغت کی معتبر کتب و تاریخ سے ثابت نہیں۔ بلکہ وہاں بھی حلیم ہی لکھا ہوتا ہے اور اس کی تعریف ہوتی ہے کہ:

”ایک قسم کا کھانا جو گیہوں چنے کی دال گوشت اور مصالحہ  ڈال کر پکایا جاتا ہے“۔

اگر اسی طرح کم علمی کا مظاہرہ کیا جائے جس پر یہ اعتراض کرنے والے خود بھی روزمرہ کی زندگی میں نہيں چل سکتے تو کسی حکیم صاحب کو حکیم نہيں دکیم کہنا پڑے گا کیونکہ ”حکیم “بھی اللہ تعالی کا صفاتی نام ہے۔

اپنے کسی عزیز کو ”عزیز“ نہ کہيں گے اور نہ ان کا  بچہ کلاس میں ”اول“ آئے  گا، نہ  کوئی ”آخر“ آنے والا کہلائے گا۔ اسی طرح اور بھی سوچتے جائيں شہید، غنی، مالک اور مَلِک وغیرہ۔

یہی معاملہ کریم کا ہے جیسا کہ ایک آن لائن ٹیکسی سروس ایپ کا نام  ”کریم“ ہے تو بے جا تکلف کرکے لوگوں کو باور کروایا  جارہا ہوتا ہے  ”کار یم“ کہو کیونکہ  ”کریم“ تو اللہ ہے۔ حالانکہ مخلوق کے لیے کریم کا لفظ خود قرآن مجید میں مستعمل  ہے جیسے:

﴿لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ﴾  (الانفال: 4)

(انہی کے لیے ان کے رب کے پاس بہت سے درجے اور بڑی بخشش اور کریم (با عزت)  رزق ہے)

﴿رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ﴾ (المؤمنون: 116)

((وہ) عرش کریم (عزت والے عرش) کا رب ہے)

یا جیسے پیارے معزز بھائی کو ”اخی الکریم “کہا جاتا ہے۔

بلکہ ایک جگہ تو مذمت تک کے معنی میں استعمال ہوا ہے، چناچہ  جہنمی کو کہا جائے گا:

﴿ذُقْ ڌ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيْمُ﴾  (الدخان: 49)

(چکھ، بے شک تو ہی وہ شخص ہے جو بڑا عزیز (زبردست)، بہت  کریم (باعزت)  بنا پھرتا تھا)

مزید اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے تعلق سے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ جاننے کے لیے پڑھیں ہماری شائع کردہ کتاب ”توحید اسماء و صفات“۔

05-09-2019 


.

منگل، 6 اپریل، 2021

یزیدی ‏کون؟ ‏عطاء ‏المحسن ‏بخاری

.

یزیدی کون؟

تحریر ذرا لمبی ہے لیکن پوری پڑھ لیجیے، یہ در اصل امیر شریعت کے فرزند مولانا عطاء المحسن شاہ بخاری کا خطاب ہے۔ 

......................... 

------- یزیدی کون؟ ----

دلیل کے ساتھ اختلاف کریں گے؟ 

خطاب : 
ابن امیر شریعت سید عطاء المحسن شاہ بخاری.

... سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے حادثہ شہادت کے ضمن میں ہمارے موقف کے متعلق یہ مشہور کیا جاتا ہے کہ یہ تو یزیدی ہیں۔ حتی کہ پاکستان کے ایک بڑے گرانڈیل مولوی نے ہمیں یزیدی لکھ بھی دیا۔۔۔۔ کسی کے لکھنے سے کیا ہوتا ہے؟ بھائی! یزیدی تو دراصل وہ ہے جس نے یزید کی بیعت کی۔ اور بیعت کی سیدنا حسینؓ کے بھائی (محمد بن علی المعروف محمد بن حنفیہ) نے۔ یہ حوالہ مضبوط سند کے ساتھ تاریخ میں موجود ہے اور اس مولوی کو عمداً نظر نہیں آتا جو ہمیں بہ طور گالی یزیدی کہتا جاتا ہے۔ 

عہد یزید کے جن معروف صحابہؓ نے بغیر جبر و اکراہ یزید کی بیعت کی ان میں جناب سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ، جناب سیدنا عبداللہ بن عباسؓ اور سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ یزیدی یہ ہوئے کہ میں؟ ہم نے نہ تو یزید کی بیعت کی، نہ اس کا زمانہ پایا، نہ اس کے اعمال دیکھے، نہ اس کے احوال دیکھے، ہم نے تو تاریخ لکھی ہوئی ایک بات سنائی۔ اور جاہل مولویوں کے منہ کھل گئے کہ صاحب یہ یزیدی ہے۔ یہ یزیدی ہے۔ اب ہمیں بتائو کہ یزید کی بیعت ہم نے کی کہ عبداللہ ابن عمرؓ نے؟ عبداللہ بن عباسؓ نے ؟ سیدنا حسینؓ کے بھائیوں نے؟ حضرت عقیل ؓ کے بیٹوں نے؟ حضرت جعفر طیارؓ کے بیٹے نے؟ سیدنا حسینؓ کے بہنوئی نے؟ ہمارا کیا قصور ہے؟ یہ بتانا جرم ہے تو یہ جرم ہم کرتے رہیں گے۔ اور نہ ہی ایسا جرم ہے کہ اس کے بتانے سے ہم رک جائیں۔ رک نہیں سکتے۔ یہ قافلہ بڑھے گا۔ بہت دور تک جائے گا۔ اور یہ تمہارا دام تزویر اور یہ لکھنؤ، ملتان کے بدمعاشوں کی بدمعاشیاں ہم ختم کرکے دم لیں گے۔ ان شاء اللہ! 
---- 

ہمارے بزرگوں نے ہمیں اسی راستے پر چلایا ہے۔ صحیح راستے پر چلایا ہے۔ استقامت عطاء فرمائی ہے۔ تمہارے جبر و تشدد کا ہمیں کوئی ڈر ہے نہ تمہارے پیسوں کی کوئی لالچ ہے۔ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے اس سے۔۔۔۔ اس بات سے تعلق ہے کہ بات کب پہنچی ہے؟ کس کو پہنچی ہے؟ کس طرح پہنچی ہے؟ کون پہنچاتا ہے؟ کس طرح پہنچاتا ہے؟ تم ہمیں یزیدی کہو یہاں ہمارے سامنے آکے کہو۔ ہم تمہیں بتائیں گے یزیدی کون ہے؟ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے سفر کربلا میں سات مرتبہ کہا کہ میں یزید کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا ہوں۔ میرا راستہ خالی کرو میں جاتا ہوں۔ بتائو یزیدی کون ہوا؟ 

تم نے کہا پروپیگنڈا کیا گیا کہ ۔۔۔۔ اسلام ڈوبا جارہا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں مٹتی جارہی تھیں، دین مٹا جارہا تھا، لوگ بدمعاش ہوگئے تھے۔ حکمرانوں نے ایرانیوں جیسا کام شروع کررکھا تھا۔ کہاں ہے یہ اور کس معتبر روایت میں ہے؟
--- 

تمہاری اس گفتگو کے جواب میں سیدنا حسینؓ کے بھائی سیدنا محمد بن علیؓ کی بات وزنی ہے۔ اکیلا آدمی تمہاری امت خبیثہ کے مقابلے میں کافی ہے۔ تمہارے لئے تو آسان ہے سب کا انکار کرنا۔ سب کو یزیدی کہہ دینا ، ان کو بھی کہو وہ فرماتے ہیں: 

اقمت عندہ خمس سنوات 

میں یزید کے پاس پانچ برس رہا ہوں 

و جدتہ مواظبا علی الصلواۃ

میں نے اس کو نمازوں کا پابند پایا

قائما بالسنۃ

سنت کو قائم کرنے والا پایا۔

عالما بالفقہ

میں نے اس کو فقیہ پایا
--

یہ عبارت البدایہ والنہایہ میں موجود ہے۔ اس کو پڑھو۔ بار بار پڑھو۔ تاکہ تمہارا ایمان درست ہو۔ تمہارے مغازی درست ہوں۔ اور تمہاری زبان درست ہو جو بگڑ چکی ہے۔
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خیر لیجئے دھن بگڑا
--- 

اپنا قبلہ درست کرو اور محمد بن علیؓ کی بات پڑھو۔ یہ جتنے "مولوی" ہیں۔ چکوال کے۔ اچھرے کے، راولپنڈی کے، ملتان کے، کراچی کے، ادھر اُدھر کے یہ جتنے گھومنے والے لٹو ہیں ان کو رسی باندھو۔ پھر چلائو ان کو دیکھو صحیح چلیں۔ یہ بات تاریخ کی ہے عقیدہ کی نہیں۔ واقعہ ہوا ہے تاریخ کا، تم نے اس کو عقیدہ میں شامل کرلیا ہے۔ پھر اس کی حمایت میں دور از کار کہانیاں کہاں سے کھینچ لاتے ہو۔ ہم نہیں سننا چاہتے۔ نہ ماننا چاہتے ہیں، ایک لمحے کے لئے بھی نہیں۔ 
--- 

جناب محمد بن حنفیہ کے متعلق، جناب سیدنا علیؓ نے حسنؓ و حسینؓ کو وصیت کی تھی کہ ان کا دھیان رکھنا۔ یہ بھی اسی البدایہ والنہایہ میں ہے۔ اور یہ بھی البدایہ والنہایہ میں ہے کہ یزید نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا جنازہ پڑھایا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی اونٹنی کے متعلق: 
ھی ما مورۃ
یہ میری اونٹنی اللہ کی طرف سے مامور ہے۔
اس کو چھوڑ دو۔ جہاں اللہ کا حکم ہو گا وہاں یہ بیٹھے گی۔ اور یہ جناب سیدنا ابو ایوب انصاریؓ میزبانِ رسول رضی اللہ عنہ کے مکان پر بیٹھی۔ 
حضرت ابو ایوب انصاریؓ قسطنطنیہ پر حملے کے غزوے میں گئے۔ بیمار پڑ گئے۔ اور موت نے آن لیا۔ انہوں نے وصیت کی کہ یزید میرا جنازہ پڑھائے۔۔۔۔۔ یہ میں نے تو وصیت نہیں کی ۔ یہ "مولوی صاحبان" کو دکھائی نہیں دیتا اور یہ بھی اسی البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ جناب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ یزیدی فوج میں تھے۔ قسطنطنیہ پر حملے کے وقت۔۔۔۔۔ دیکھو پڑھو۔ ہم بھی پڑھتے ہیں تم بھی پڑھو۔۔۔۔ یا ہم سے پڑھو۔ ہم سے سیکھو۔۔۔ یہ عقل کا دور ہے، شعور کا دور ہے، شعور کو جگانا ہمارا کام ہے، ہم شعور کو زندہ کریں گے۔ ہم تمہیں بتائیں گے کہ تاریخ میں کیا لکھا ہے۔ تمہاری جھوٹی تدلیس پارہ پارہ کریں گے۔
--- 

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا میں 9 تاریخ کو آخری مرتبہ یہ بات کہی میں سیدھا شام جاتا ہوں، یزید سے گفتگو کرتا ہوں:
’’ان اضع یدی علی ید یزید فھو ابی عمی‘‘
میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ پر رکھتا ہوں وہ میرے چچا کا بیٹا ہے۔۔۔۔ 
یہ میں نے تو نہیں کہا۔ میں نے تو بتایا ہے، بتانے اور کہنے میں بڑا فرق ہے۔ تم چھپاتے ہو میں بتاتا ہوں۔ بس اتنا فرق ہے۔ شیعوں کے گرو ساجد نقوی کا چچا گلاب شاہ بیٹھا ہے۔ اس گلاب دیوی ہسپتال کے انچارج کے پاس جائو اس سے پوچھو کہ یہ تاریخ میں ہے یا نہیں تم اس کا انکار کرسکتے ہو۔۔۔۔ ؟ 

تم نام نہاد اہل حق بنتے ہو، حق الاٹ کرا چکے ہو اپنے نام؟
تمہیں ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں چھپ کے نہیں کہتا، تاریخ میں لکھا ہے اور شیعہ سنی سب کتابوں میں لکھا ہے قبروں کو جپھیاں ڈالنے والے اور گھوڑے کے نیچے سے گزرنے والے "مولوی" اور ان کے "حواری" سامنے آئیں اور جراءت سے بات کریں۔ وہ اپنے گلے کی گراریاں گھمائیں اور بتائیں کہ یہ واقعہ تاریخ میں ہے کہ نہیں۔ اور جناب دل پہ ہاتھ رکھ کر سنیئے۔ جناب سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے سیدنا عبداللہ ابن زبیرؓ کو اور حضرت حسینؓ کو فرمایا: 
قال اتقیا اللہ
دونوں اللہ سے ڈرو۔
ولا تفرقا بین جماعۃ المسلمین 
اور مسلمانوں کی جماعت میں پھوٹ مت ڈالو۔
"اتقیا" تثنیہ کے صیغہ کے ساتھ۔ "اتقیا اللہ" دونوں اللہ سے ڈرو۔ ولا تفرقا مت پھوٹ ڈالو۔ 
بین جماعۃ المسلمین
مسلمانوں کی جماعت میں۔

یہ کس نے کہا؟ عبداللہؓ ابن عمرؓ نے کس کو کہا؟ عبداللہ ابن الزبیرؓ کو اور حسینؓ بن علیؓ کو۔ یہ بات عمرؓ کا بیٹا ہی کہہ سکتا ہے یہ انہی کی جرات بسالت ہے۔ 
میں تو تینوں کا غلام ہوں میں تو ان کی بارگاہ کا کفش بردار ہوں۔ میری تو کوئی حیثیت نہیں۔ حیثیت تو ہے عبداللہ ابنِ عمرؓ کی جن کو شیخ الصحابہؓ اور فقیہ الصحابہؓ کہا گیا۔ 

جناب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو امت نے اعزازاً صحابیؓ مانا ہے صحابہؓ کے درجات میں آپ کا وہ مقام نہیں ہے جو سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ کا ہے۔ ہمت ہے تو سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ کو گالی دو۔ کیونکہ بڑے یزیدی تو وہی ہیں۔
اور بعد میں ہمیں بھی دے لو۔۔۔ منظور ہے۔
---- 

میرے ابا کو تو ان ملتانیوں نے 1933ء میں گالیاں دیں۔ 1933ء میں جھنگ والوں نے گالیوں کا مرقع شائع کیا۔ جرم کیا تھا۔۔۔۔ کہ ان واقعات کو طشت ازبام کیا۔ حقائق کھولے تمہاری رام لیلا کی داستانیں جو تم نے گھڑ رکھی ہیں ان کو ننگا کیا۔ ان کے تار و پود بکھیرے۔ ان کو بیخ دبن سے اکھاڑ پھینکا۔ ---- 

کربلا کے جھوٹ کا پول کھول دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب 1962ء میں ہم نے ملتان میں یوم معاویہؓ منایا تو ایک پرانا، پھٹا ہوا تعزیے کا غول جا رہا تھا کہنے لگے او۔۔۔ لعین کا لڑکا لعین جا رہا ہے۔ ہم نے سنا، اب بھی کہو سنیں گے لیکن یہ بتائیں گے کہ عبداللہ ابن عمرؓ نے یہ کہا، انہوں نے یزید کی بیعت کی، محمد بن علیؓ المعروف محمد بن حنفیہ نے بیعت کی، نعمان ابنِ بشیرؓ نے بیعت کی۔ بیعت کرنا اگر جرم نہیں ہے تو بتانا کیسے جرم ہے؟
تم میں اگر ہمت ہے تو سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ کو کچھ کہہ کر دیکھو۔ پھر دیکھو تمہارا حشر کیا ہوتا ہے۔ عبداللہؓ ابن عباسؓ کو جو سیدنا حسینؓ کے چچا جان ہیں۔ جناب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے چچا جان ہیں۔ جناب سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے چچا کے بیٹے ہیں۔ راس المفسرین ہیں۔ یہ مقام ہے ان کا، بہت بڑے آدمی ہیں صحابہؓ میں۔ انہیں بُرا کہو، تم نام نہاد دیوبندی، اسلافِ دیوبند کے تاجر خصوصاً میرے مخاطب ہو پھر دیکھو لعنت تم پر چھاجوں برستی ہے کہ نہیں؟
--- 

پھر کہتا ہوں جناب میں نے بیعت نہیں کی۔ میں نے یزید کا زمانہ نہیں پایا۔ میرا وہ دوست نہیں تھا۔ میں اس کے پاس نہیں رہا۔ نہ اس سے مجھے پیسے ملتے تھے۔ نہ زمینیں ملیں، زمین سیدنا زین العابدین کو ملی، سرمایہ انہیں ملا، چالیس دن یزید کے گھر میں وہ رہے اور کیا تم بتا سکتے ہو کہ جناب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال کہاں ہوا؟ 
بتا سکتے ہو۔۔۔۔۔؟ 
کیا مدینہ میں؟ 
(ایک آواز دمشق میں) کیوں؟ کیا کرنے گئیں تھیں وہاں۔۔۔۔؟ تم تو کہتے ہو جناب ایک خبیث اٹھا اور کہنے لگا یہ زینب مجھے دے دو۔۔ یہ مال غنیمت ہے۔ استغفر اللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔
---- 

تمہیں یہ کہتے ہوئے، بیان کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔۔۔۔؟؟ نہیں ہوا ایسے کسی نے کچھ نہیں کہا۔ کوئی دربار نہیں تھا۔ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔ اگر میں غلط کہتا ہوں تو دلیل کے ساتھ میری جہالت دور کرو۔ نقشے میں وہ جگہ بتاؤ جہاں امویوں کا دربار تھا۔ ورنہ میں بتاتا ہوں کہ وہ اسی مسجد میں بیٹھتے تھے۔ جناب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اور یہ بیچارا یزید بھی۔ 
ایک مقصورہ ابا جان نے بنوایا۔ ایک مقصورہ اس نے بنوایا اپنی حفاظت کے لئے دونوں مقصورے آج تک موجود ہیں۔ آج تک تمہاری تاریخ کا اور تمہارے قصے کہانیوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ اور تمہارے منہ پر تھپڑ مار رہے ہیں۔ جس واقعہ حرہ کو یہ جاہل مولوی اور تاریخ کے جانب دار اور نام نہاد طالب علم کہتے ہیں کہ جناب حرہ ہوا، تین دن تک مدینے کو حلال کیا گیا۔ یہ ہوا اور وہ ہوا، کہتے ہو نا! سنو!۔۔ انہی عبداللہ بن عمرؓ نے :

جمع بناہ

اپنے بیٹوں کو جمع کیا۔

و جماعات من اھل بیت النبوۃ 

اور اہل بیت نبوۃ میں سے جماعتوں کو جمع کیا،
ایک کو نہیں، دو کو نہیں، جماعات کو جمع کیا اور کہا۔ 

خبردار! تم میں سے کسی نے یزید کی بیعت توڑی تو میرا اس کے ساتھ یہ آخری دن ہوگا۔ 

جناب! میں سچ بولتا ہوں اور سچ بتاتا ہوں اس لئے کہ میں گھوڑے کے نیچے سے نہیں گزرا۔ اوپر بیٹھا ہوں۔ میں نے چالیس میل گھوڑے پر ایک دن میں سفر کیا ہے۔ 

الحمدللہ! میں گھوڑے کا سوار ہوں۔ محتاج نہیں ہوں۔ گھوڑا میرا محتاج ہے۔ میرے ہاتھوں میں تھامی ہوئی لگام کا محتاج ہے۔ میری رکاب کا محتاج ہے۔
---- 

یہ بھی ابن کثیر کی البدایہ میں موجود ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ دھوکہ ہوا۔ وہ دھوکہ کھا گئے۔ پینتیس صحابہؓ نے آپ سے کہا کہ مت جائیں اس سفر کو ملتوی کردیں۔ رافضیوں کی کتب میں موجود ہے کہ’’ عبداللہ ابن عمر بزمام ناقہ اش جسپید‘‘ کہ عبداللہ ابن عمر سیدنا حسینؓ کی اونٹنی کی لگام سے لپٹ گئے۔ (کربلا میں سیدنا حسینؓ گھوڑے پر نہیں اونٹنی پر سوار تھے) اور لپٹ کے کہا جانِ برادر! دیکھو تمارے باپ کے ساتھ ان کے شیعوں نے کیا کیا۔ تمہارے بھائی کے ساتھ کیا کیا۔ اور میں تمہیں خون میں لت پت دیکھ رہا ہوں۔ تم مت جاؤ۔ اگر جانا ہی ہے تو بچوں کو، بیوی کو، بہنوں کو مت لیجائو۔ اب آپ بتائیں کہ صحابہؓ غلط تھے؟؟ 

ہمت ہے تو کرو جراءت صحابہؓ کو غلط کہو تو! 
ذرا مجھے گالیاں دینے سے پہلے صحابہؓ کو دیکھ لو! 
میں نے کوئی نیا مسلک اور نظریہ ایجاد نہیں کیا۔
میں تو صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہوں۔ اور آپ کو اسی پر چلنے کی دعوت دیتا ہوں۔ خود ہی فیصلہ کرلو کہ سیدنا حسینؓ کی رائے سے اختلاف رکھنے والے صحابہؓ کو کیا کہو گے؟ 
میں ہرگز یہ نہیں کہتا, میرا موقف تو یہ ہے کہ صحابہؓ سب کے سب سچے اور راشد ہیں۔ ان کو غلط اور باطل کہنے والے خود غلط بلکہ حرفِ غلط ہیں۔
-- 

جناب سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ جو صف اول کے صحابہؓ میں سے ہیں وہ منع کرتے ہیں لیکن کوفیوں کا دھوکہ جو دعوت کی صورت میں تھا کہ جناب ’’ہم آپ کے غلام ہیں، زمین سرسبز ہے۔ پھل پک چکا ہے۔ آپ کے سوا ہمارا کوئی امام نہیں۔ 
انت الامام 
’’آئیے اپنی جگہ تشریف رکھئیے‘‘ 
--- 

مگر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بات نہ مانی جو عمر میں سیدنا علی ؓ کے مثل تھے ۔ صحابہؓ کہتے ہی کہ حسینؓ آپ کے شیعہ جھوٹے ہیں۔ پھر حسینؓ نے ان کی بات کو مان لیا؟
سیدنا حسین ؓ نے اجتہاد کیا اور امت نے ان کے اس اجتہاد کو تصویب کی۔
کسی کو جرات نہیں کہ ان کے اجتہاد پر انگلی رکھ سکے۔ اور اسے غلط کہے۔
اسی طرح (دیگر) صحابہؓ کے اجتہاد پر بھی انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ اگر کوفے کی طرف جانا اجتہاد تسلیم کیا جائے گا تو واپسی کی گفتگو بھی اجتہاد تسلیم کی جائے گی۔
جیسے ہم نے سیدنا حسینؓ کو مجتہد مانا اسی طرح باقی صحابہؓ کو مجتہد جانا۔۔۔۔۔ 

 سیدنا حسینؓ کے متعلق دو روایتیں ہیں ایک روایت یہ ہے کہ جن کوفیوں نے آپ کو خط لکھے تھے انہوں نے خط حاصل کرنے لئے خیمے جلا دیئے۔ لوٹ گھسوٹ کی کہ یہ کہیں عبیداللہ کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ وہ خطوط دعوت، عبیداللہ کے ہاتھ آجائے تو ان کی خیر نہیں تھی جو خطوط نویس تھے، داعی تھے ۔

ایک روایت ہے کہ عبیداللہ ابن زیاد نے فوج کا لشکر بھیجا اور آپ کو مجبور کیا کہ وہ عبیداللہ کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔ جناب سیدنا حسینؓ نے فرمایا تیرے ہاتھ پر یزید کی بیعت نہیں ہوسکتی۔ اور بات میں سے بات آگئی کہ یہ جمہوری سسٹم اگر صحیح ہے، یہ طریقہ درست ہے اور اسلام کے مطابق ہے تو پھر کربلا کا واقعہ جس انداز میں بیان کیا جاتا ہے وہ شیعہ کے نزدیک سچا کیوں؟ سنیوں کے نزدیک سچا کیوں؟ پھر جمہوریت تو ساری معاذ اللہ یزید بن معاویہؓ کے ساتھ تھی۔
---- 

سیدنا حسینؓ کے ساتھ تو جمہوریت نہیں تھی۔ ان کے سگے بھائی بھی ساتھ نہیں تھے۔ چیلنج ہے میرا ان کے متعلق فتویٰ دو وہ کیا ہیں؟ 

سیدنا حسینؓ کے چچے کا بیٹا ساتھ نہیں ہے۔ سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ، سیدنا حسینؓ کے ساتھ نہیں ہیں۔ عبداللہ ؓ ابن عباسؓ، نعمان بن بشیرؓ، ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی علیہم اجمعین سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں ہیں۔

نکالو کہیں سے چھپا ہوا فتویٰ، مارو خنجر اور فتویٰ دو اگر جمہوریت تمہیں پسند ہے تو پھر صحابہ کرام سیدنا حسینؓ کے ساتھ نہیں ہیں۔ سارے یزید کے ساتھ ہیں۔ میں تو کہتا ہوں ، ہاتھ بھی جوڑتا ہوں ایک صحابی سیدنا حسینؓ کے ساتھ دکھا دو منہ مانگا انعام دوں گا۔ تلاش کرو۔ جاؤ ان "مولوی صاحبان" کی خدمت میں اور درخواست کرو کہیں سے ڈھونڈو۔ تاریخ کے اوراق کھولو۔ تاریخ کی بات ہے نا۔۔۔۔۔ عقیدہ کی بات نہیں ہے۔ 

عقیدہ تو ہمارا بھی ہے کہ وہ صحابی رسول ہیں، ہمارے پیشوا ہیں۔ جیسے ابو سعید خدریؓ صحابی ہیں ویسے ہی سیدنا حسینؓ صحابی ہیں۔ انہوں نے اجتہاد کیا۔ انہوں نے بھی اجتہاد کیا۔ دونوں برحق ہیں، دونوں سچے ہیں۔ دونوں صحیح ہیں۔ جو نہیں گئے وہ بھی سچے ہیں۔ جو گئے وہ بھی سچے ہیں۔ ہر صحابی مجتہد مطلق ہے۔ اور کوئی غیر صحابی کسی صحابی پر تنقید کا حق نہیں رکھتا ہمارا تو یہ عقیدہ ہے اس سے آگے کی بات نہیں ہے۔
اس سے آگے تاریخ کی بات ہے کہ انہوں نے بڑے صحابہ کی نصیحت نہ مانی اور والد ماجدؓ کے دوستوں کی بھی ایک نہ مانی۔۔۔۔ جمہوریت جمہوریت۔۔۔ کہاں ہے اسلام میں جمہوریت۔
---- 

تم کہتے ہو یہ جہاد تھا۔ اسلام مٹ رہا تھا۔ اسلام کو جناب حسینؓ نے کربلا میں زندہ کیا۔ نہیں ہے یہ بات، نہ یہ جہاد تھا اور نہ ہی اسلام مٹ رہا تھا۔ یہ تمہاری گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں۔ تمہارے گھڑے ہوئے قصے ہیں۔ یہ بات وہی ہے جو سیدنا حسینؓ نے خود فرمائی۔ اور وہی قول فیصل ہے۔ آپ نے فرمایا ہے۔

’’ان لی بالعراق حکومۃ‘‘ 

کہ مجھے حکومت کی دعوت دی گئی، اور میں سمجھ رہا تھا کہ عراقی مجھے حکومت دیں گے۔ 
لیکن اب میرے دونوں بھائی قتل ہوگئے۔ مجھ پر عیاں ہوگیا کہ جو صحابہ کرام اور میرے ساتھی کہتے تھے وہی میرے ساتھ ہوا۔۔۔۔۔ 
اب تم۔۔۔۔۔ 
دائیں بائیں جہاں چاہے چلے جائو۔ کیوں فرمایا یہ۔۔۔۔۔؟ 
اور یہ فلسفہ جو تم نے گھڑ رکھا ہے کہ:
’’ابتداء اسماعیل ہے انتہاء حسین ‘‘ 
یہ کیسے؟ مجھے پوچھنے کا حق تو دو کہ یہ بھی چھیننا چاہتے ہو؟ 
سوال یہ ہے کہ اگر ابتداء اسماعیل اور انتہا حسینؓ ہے اور کربلا کا واقعہ ایسے ہی ہے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے جناب سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے لٹایا: 
’’فلما اسلما و تلہ للجبین‘‘
دونوں میں بات طے ہوگئی اور انہوں نے زمین پر لٹا دیا۔ 
پھر کیا ابراہیم علیہ السلام کو تم میں سے کوئی ظالم کہتا ہے؟ 
اور اسماعیل علیہ السلام کو کوئی مظلوم کہتا ہے؟ 
کیوں نہیں کہتے؟ کہو نا! 
مجھے سوال کا حق ہے اور میں ایسا سوال کروں گا جو تمہارے خرمن باطل کو جلا کے رکھ دے۔ 
گھوڑا برداران ’’آل الفرس‘‘ تمہارے لئے کوئی رعایت نہیں کرسکتا۔ کان کھول کر سن لو! 
اور تم سنیوں میں سے بھی جو آدمی روافض کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے اس کو معاف نہیں کرسکتا۔ یہ دوسرے درجے کا ایمان ہے۔ پہلے درجے کا نہیں۔ 

میں برائی کو مٹا نہیں سکتا لیکن برائی کے خلاف زبان چلاتا ہوں تم بھی چلائو۔ کرو مزاحمت مار کھائو جیسے ہم کھا رہے ہیں۔ آزما کے دیکھ لو۔ جب بھی تم دین پر عمل کرو گے سب سے پہلے گھر سے دشمنی پیدا ہوگی۔ پکے سچے سنی حنفی اپنے ہی گھر میں مخالفت کریں گے۔ بیوی مخالف ہو جائے گی۔ بچے کہیں گے ابا جی آپ نے یہ کیا شروع کر رکھا ہے۔ ’’گھر میں معاویہؓ کا نام لو، اور یزید کا نام لو، حسینؓ کا نام لو، اور جو بھائی سیدنا حسینؓ کے ساتھ نہیں گئے ان کا نام بھی لو۔ دیکھو گھر میں فساد پڑتا ہے یا نہیں؟
اس لئے کہ زنگار لگے ہوئے مدت ہوگئی ہے۔ اتارتے ہوئے بھی عرصہ لگے گا۔ 

شعیہ کی روایات اور محرم کی دسویں کی خرافات سے متاثر مت ہوں۔ میرا ایک دعویٰ ہے اور الحمدللہ! اپنے بزرگوں سے سینہ بسینہ منتقل ہوا وہ آپ کو سناتا ہوں۔ یہ جتنی روایتیں دسویں تاریخ کی بیان کی جاتی ہیں ایک بھی صحیح نہیں ہے۔ ہمت ہے تو آجائو دو گھنٹے روز کے نکالو ایک ہفتے میں نچوڑ نکال دیتا ہوں۔ بلکہ نچوڑ کے رکھ دیتا ہوں۔ ان شاء اللہ
--- 

’’جلاء العیون‘‘ 
پڑھ لو۔ ایک عباس قمی کو ہی پڑھ لو۔ اسی طرح البدایہ والنہایہ کو پڑھ لو اور ہماری جان چھوڑ دو۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ہمیں گالی مت دو۔ پہلے گالی اس کو دو جس نے یزید کی بیعت کی اور اس کے بعد ہمیں بھی دے لو چلو۔۔۔۔۔! 
قبول است گرچه از هست
--- 
اگر جراءت ہے تو پہلے علیؓ کے بیٹے حسینؓ کے بھائی کو گالی دو۔ عبداللہؓ بن جعفر طیارؓ کو گالی بکو۔ پھر مجھے بھی دے لو۔ بالکل درست ہے۔ اور یزید کی بیوی عبداللہ بن جعفر طیار کی بیٹی کو گالی بکو وہ ہماری ماں ہیں پھر ہمیں بھی بک لو۔ پہلے ماں کو گالی دو پھر بیٹے کو بھی دے لینا۔
جرأت؟----- ہمت؟ ----کھولو زبان۔۔۔۔۔ 
کیا افسانے سناتے ہو، کیا کہانیاں چھاپتے ہو، کیا ڈرامے اسٹیج کرتے ہو اور یہ سب شیعوں کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ فلاں کون؟ فلاں کون؟
---- 

مختصراً یزید کا ایک ہی جرم نکال سکتے ہو کہ اس نے قاتلان حسینؓ کو سزا نہیں دی۔ بس! اگر ایڈمنسٹریشن کا مسئلہ بنائیں تو یہ اس کی اپنی سلطنت کا مسئلہ تھا۔ دفاع کا پہلو نکلتا ہے۔ اس کے باوجود میرا دعویٰ ہے کہ اس نے ظالمانہ کاروائی کا کوئی حکم نہیں دیا۔ بے شک جناب سیدنا حسینؓ کے ساتھ ظلم ہوا اور یہ کوفیوں نے کیا۔ انہوں نے بلاوجہ اس بات پر مجبور کیا کہ ان خبیث لوگوں (عبیداللہ ابن زیاد) کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ یہ مشکل کام تھا۔ اور غیرت مند باپ کے غیرت مند بیٹے سے قطعی ناممکن تھا۔ چنانچہ سیدنا حسین ؓ رضی اللہ عنہ نے ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت سے انکار فرمایا اور یزید کے پاس جانے کے لئے راستہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ اسی کو بہانہ بنا کر کوفیوں نے انہیں شہید کردیا۔ اور کیمپ لوٹنے والے بھی یہی لوگ تھے۔ جنہوں نے خطوط لکھ کر انہیں بلایا اور حکومت سنبھالنے کی دعوت دی۔ 

سیدنا حسینؓ صحابی رسول ہیں۔ ان کی بہن صحابیہ رسول ہیں۔ اور باقی بزرگ خاندان کی نسبت عظیم خاندان کی نسبت ہے۔ احترام کی شان موجود ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ وہ ایسے ویسے تھے بالکل غلط ہے۔ تاریخی طور پر میں اس رائے پر قائم ہوں کہ یزید سیدنا حسینؓ کا مدمقابل نہیں تھا۔ ہاں عراقیوں کا مدِ مقابل تھا۔
وہ عراقی جو سلیمان ابن صرد خزاعی کے گھر سازش کرتے رہے۔ جناب سیدنا علیؓ کے زمانہ میں بھی، جناب سیدنا حسنؓ کے زمانہ میں بھی اور سیدنا حسینؓ کے زمانہ میں بھی۔ سلیمان ابن صرِد خزاعی بنو خزاعہ کا فرد تھا۔ بڑا سرمایہ دار تھا۔ اس کے گھر میں میٹنگیں ہوتی تھیں۔ اور سب سے پہلے اسی کے گھر سے خط گیا۔ خط لے جانے والا عبداللہ ابن وال تھا۔ اور اس خط میں کیا تھا؟ حیران ہوں گے آپ، تعجب ہوگا آپ کو خط میں لکھا ہے: 
’’حسینؓ تجھے معاویہؓ کے مرنے کی مبارک ہو۔ اب تو آجا، عراق تیرے لئے سجا ہوا ہے‘‘ 

یہی خط در اصل قتلِ حسینؓ کی سبائی سازش کا سر آغاز تھا۔ انہیں دھوکہ دے کر بلایا گیا اور پھر آلِ رسول کو قتل کرکے اُمت مسلمہ کو گروہوں میں تقسیم کرنے کی یہودی سازش کی تکمیل کی گئی۔
---- 

مجھ سے بعض احباب نے سوال کیا ہے کہ آپ اس زہریلے پراپیگنڈے کا جواب دیں۔ جو آپ کے بارے میں عموماً کیا جاتا ہے۔ آپ سیدنا حسینؓ کو نہیں مانتے۔ اگر تو سیدنا حسینؓ کو امام ماننے کا تعلق ہے جن معنوں میں رافضی مانتے ہیں کہ امام اور نبی برابر ہیں تو کان کھول کر سن لو میں نہیں مانتا۔ ہم نے اس معنی میں ابو بکر و عمر و عثمان و علی و معاویہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی امام نہیں جانا۔ حسینؓ کو کیسے مان لیں؟ قائد، پیشوا، بزرگ مانتے ہیں اور صحابی رسول مانتے ہیں اور نبوت کے بعد صحابیت کا درجہ تمام مراتب سے بڑا ہے۔ امامت سے، خلافت سے، ولایت سے، نجابت سے سب سے بلند ہے۔ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو امت صحابی مانتی ہے۔ ہم بھی صحابی مانتے ہیں۔ ہم اہل سنت والجماعت کے فرد ہیں۔ اور ان کو صحابی رسول ہی کے بلند درجہ پر فائز مانتے ہیں۔
-- 

ہمارے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جناب وہ تو یزیدی ہیں۔ یزید کو مانتے ہیں اچھا تو جناب یہ کتاب ہے میرے ہاتھ میں ’’انساب الاشراف‘‘ یہ جناب احمد بن یحییٰ بن جابر البلاذری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس کو لے جائو اور ان "مولویوں" کو دکھائو جنہوں نے اپنی جہالت کو چھپانے کے لئے میرے خلاف اتنی لمبی زبان کھول رکھی ہے۔ تم ان کی جہالت کو ننگا کرو۔
انساب الاشراف صفحہ نمبر 4 پر روایت ہے ذرا سنیئے:
(امام أحمد بن يحيى، البَلَاذُري (المتوفى 279) اپنے استاذ امام مدائنی سے نقل کرتے ہیں:)
--- 
الْمَدَائِنِيّ عَنْ عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة قَالَ، قَالَ عامر بْن مسعود الجمحي: إنا لبمكة إذ مر بنا بريد ينعى مُعَاوِيَة، فنهضنا إلى ابن عباس وهو بمكة وعنده جماعة وقد وضعت المائدة ولم يؤت بالطعام فقلنا له: يا أبا العباس، جاء البريد بموت معاوية فوجم طويلًا ثم قَالَ: اللَّهم أوسع لِمُعَاوِيَةَ، أما واللَّه ما كان مثل من قبله ولا يأتي بعده مثله وإن ابنه يزيد لمن صالحي أهله فالزموا مجالسكم وأعطوا طاعتكم وبيعتكم، --- 
(هات طعامك يا غلام، قَالَ: فبينا نحن كذلك إذ جاء رسول خالد بْن العاص وهو على مَكَّة يدعوه للبيعة فَقَالَ: قل له اقض حاجتك فيما بينك وبين من حضرك فإذا أمسينا جئتك، فرجع الرسول فَقَالَ: لا بدّ من حضورك فمضى فبايع.[أنساب الأشراف للبلاذري: 5/ 290 واسنادہ حسن لذاتہ]۔)
(الانساب الاشراف صفحہ نمبر3-4) 

’’مدائنی روایت کرتے ہیں عبدالرحمن بن معاویہ سے انہوں نے کہا کہ ’’عامر بن مسعود جمحی نے بتایا کہ میں مکہ میں تھا کہ حضرت معاویہؓ کی موت کی اطلاع پہنچی۔ پس میں حضرت ابنِ عباسؓ کے پاس گیا اور وہ مکہ میں تھے اور ان کے پاس لوگوں کی جماعت تھی۔ دستر خوان بچھا دیا گیا تھا اور ابھی تک کھانا نہیں لایا گیا تھا تو ہم نے انہیں کہا اے ابن عباس ! حضرت معاویہؓ کی وفات کی اطلاع آئی ہے۔ (یہ سن کر) انہوں نے کافی دیر تک سر جھکائے رکھا پھر اس کے بعد کہا اے اللہ معاویہؓ کے لئے وسعت پیدا فرما۔ بہرحال اللہ کی قسم نہ اس سے پہلے ان جیسا ہے اور نہ ان کے بعد ایسا آئے گا۔ اور بے شک ان کا بیٹا یزید ان کے گھر میں صالح آدمی ہے۔ پس تم اپنی مجلسوں کو قائم رکھو۔ اور تم اپنی اطاعت و بیعت اس کے سپرد کردو۔
---- 

یہ کس نے کہا؟ عبداللہ ابن عباسؓ نے۔ میں نے تو بتایا ہے اور بتائوں گا جب تک جی چاہے گا، چھپائوں گا نہیں، تم میری بے پناہ مخالفت کر لو۔ ان شاء اللہ میں بتانے سے گریز نہیں کروں گا۔ یزیدی ہی کہنا ہے تو پہلے ان صحابہ کو کہو، پھر ان کے صدقے مجھے کہہ لو۔ میں ان کے جوتوں پر قربان، ان کے قدموں کی دھول پر میرے ماں باپ قربان، ساری امت کے ولی، قطب قربان، یہ تم پیروں اور گدی نشینوں کے جتنے ’’خلفائے راشدین‘‘ ہیں ۔ خلیفہ راشد فلاں، خلیفہ راشد فلاں، خلیفہ راشد حضرت مدنیؒ ، قاضی مظہر چکوالی اور ابو الاعلی مودودی جیسے مولوی سب کے سب حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے جوتے پہ قربان۔
---- 

کٹ تو سکتا ہوں مگر ان صحابہ کو نہیں چھوڑ سکتا۔ عبداللہ ابن عباسؓ کو چھوڑ دوں تو میرا ایمان جاتا ہے۔ نبیؐ کے بعد قرآن کی تفسیر جاتی ہے۔ نبیؐ نے دعائیں دیں۔ ان کے سینے پر پھونک ماری، اور ہاں وہ صحابہ بدر کے ساتھ سیدنا عمر ابن الخطابؓ کی شوریٰ کے ممبر تھے۔ بدر والوں نے اعتراض کیا کہ تم نے ایک لڑکے کو میرے مقابلے میں بٹھا دیا ہے۔ عمر ابن الخطابؓ نے کہا میں اس لڑکے کو لے آتا ہوں جو جی میں آئے پوچھو اس سے ۔ یہ تم کو قرآن کے مسائل و معارف بتائے گا۔ یہ وہ عبداللہ ابن عباسؓ ہیں۔۔۔۔۔
--- 

میں عبداللہ ابن عباس کی مانوں گا۔ میں تم سب کو نہیں مانتا، تمہاری باتوں کا انکار بہتر سمجھتا ہوں، اس کی بجائے کہ ان کی بات کا انکار کیا جائے، اتنے بڑے آدمی ہیں وہ اور تم لے آئے ہو اس دور کے بزرگوں کو۔ ابوالکلام نے یہ لکھا ہے،  اچھا تو کیا ابوالکلام عبداللہ ابن عباسؓ سے بڑے ہیں؟ 

مفتی احمد یار نے لکھا ہے تو کیا مفتی احمد یار خان کا رتبہ سیدنا ابن عباسؓ سے بڑا ہے؟ 

سوچنے کی بات ہے اور جناب۔۔۔۔ یہ رسول اللہ کے چچا کے بیٹے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی ہیں۔ صحابی رسول ہیں۔ رئیس المفسرین ہیں۔ کس کی بات معتبر ہے؟ صحابی کی بات یا چودھویں صدی کے فاسق مسلمان کی بات۔ ایک جملہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ’’بزرگوں نے فرمایا ہے‘‘ بڑا زور لگا لگا کر کہا جاتا ہے، میں پوچھتا ہوں صحابی تمہارے بزرگوں کے بزرگ نہیں ہیں؟
--- 

مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مفتی کفایت اللہ، سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور جناب مفتی محمود رحمہم اللہ یہ بزرگ ہیں یا صحابہؓ ---------؟ 

فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
دل کہتا ہے صحابہؓ بزرگ ہیں، شکم کہتا ہے ہندوستانی علماء۔ جو ماننا ہے مان لو!
---- 

جناب ان کے بزرگ کون ہیں؟ 
میں بھی ان کو بزرگ سمجھتا ہوں۔ ان کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن صحابہؓ کا احترام تو اللہ نے مانگا ہے۔ تمہارا احترام نہیں مانگا۔ ساڑھے چار سو آیات صحابہؓ کے لئے اتری ہیں۔ صحابہؓ کی مدح و منقبت اور فضیلت کے لئے اتریں ہیں۔ ہم ان کا بھی احترام کرتے ہیں۔ لیکن صحابہؓ کی بات آئے گی تو تمام غیر صحابی بزرگوں کا احترام نمبر دو ہوجائے گا۔ اور صحابہؓ کا احترام نمبر ایک پر آجائے گا۔
---- 

یزیدی کہنا ہے تو عبداللہ ابن عباسؓ کو کہو۔ پھر مجھے کہہ لو!
کیا میں نے یزید کی تعریف کی ہے؟ میں نے اس کو اچھا کہا ہے؟
ہاں تم عبداللہ ابن عباسؓ کے مقابلے کا آدمی لائو۔ جو کہے کہ یزید شراب پیتا تھا، زنا کرتا تھا، لونڈیاں رکھتا تھا، کتے پالتا تھا، میں مان لوں گا۔
--- 

جناب سنئے! حضرت حسینؓ کے بھائی حضرت محمد بن حنفیہ کا جواب ان سے کسی نے کہا یزید شراب پیتا ہے، کہا: ’’اراءیت‘‘ تو نے دیکھا ہے؟ کہا نہیں۔ کہا تو نے سنا ہے؟ تجھے اطلاع دی ہے اس نے، کہا نہیں اطلاع بھی نہیں دی۔ فرمایا پھر تجھے خدا کا خوف نہیں آتا۔
یہ کس نے کہا؟ محمد بن حنفیہ نے، انہوں نے کہا اچھا تو نے دیکھا بھی نہیں، اطلاع بھی اس نے نہیں دی، تو پھر بھی کہتا ہے کہ وہ شراب پیتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں قرآن کہتا ہے ۔ 

’’الا من شھد بالحق و ھم یعلمون‘‘ 

گواہی تو اس کی معتبر ہے، جو علم رکھتا اور جو جانتا ہو، نہ تجھے علم ہے، نہ تو جانتا ہے، یہ سب کچھ محمد بن علیؓ نے کہا۔ وہ شخص کہنے لگا تیرا خیال شاید یہ ہو کہ ہم تجھے احترام سے نہیں دیکھتے، ہم تیری کمان میں لڑنا چاہتے ہیں، تو محمد بن علیؓ فرمانے لگے کہ سبحان اللہ میں کیوں لڑوں، میں تو نہیں لڑوں گا، وہ کہنے لگا تیرا باپ ؓ معاویہؓ سے لڑا ہے کہ نہیں، انہوں نے فرمایا میرے باپؓ جیسا لے آؤ آج لڑتا ہوں یزید کے ساتھ۔
---- 

بات سمجھئے جناب!
سیدنا علیؓ ابن ابی طالب جیسا بلند مرتبہ ہو تو یزید کے ساتھ جنگ جاری کی جاسکتی ہے۔ اس نے کہا لوگ تجھ سے نفرت کرنے لگ جائیں گے، جیسے لوگ آج مجھے ڈراتے ہیں کہ شاہ صاحب نہ بتاؤ ورنہ لوگ نفرت کریں گے۔ یہی کہا انہوں نے جناب محمد بن علیؓ کو ’’ان یتھموک‘‘ کہ لوگ مجھ پر تہمت لگائیں گے، اور تجھ سے نفرت کرنے لگیں گے، فرمانے لگے کریں، میں یہاں سے چلا جائوں گا، مکہ مکرمہ میں، اللہ کے گھر بیٹھ جائوں گا، انہوں نے کہا اچھا اپنے ابوالقاسم کو بھیج دے، کہنے لگے سبحان اللہ جو چیز میں اپنے لئے پسند نہیں کرتا اپنے بیٹے کے لئے کیسے پسند کروں؟ ایک بیٹا بھی ساتھ نہیں بھیجوں گا۔
----  

مجھے یزیدی کہنے والو! 
یزیدی کہنا ہے تو محمد بن علیؓ کو کہو، میں اپنے ماں باپ کو، اپنے آپ کو اور سارے مولویوں کو قربان کرتا ہوں ان کے جوتوں پر۔ وہ بڑے بلند مقام کے انسان ہیں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ جتنا مقام نہیں ان کا مگر کم بھی نہیں ہے۔ ایک ہی باپ کے بیٹے ہیں۔ پھر ان کو کہنے لگے کہ تو ڈر گیا ہوگا، انہں نے فرمایا بھلا میں کیوں ڈرتا؟ میں پانچ سال یزید کے پاس رہا ہوں۔ میں نے اس کو شراب پیتے نہیں دیکھا، نمازیں پڑھتا تھا، فقہ میں دلچسپی لیتا تھا، فقیہ تھا، عالم تھا، پڑھا لکھا تھا، بڑا اچھا آدمی تھا، امیر الحج بنتا تھا، یہ کس نے کہا؟ محمد بن علی رضی اللہ عنہما نے کہا۔ جناب حسین ؓکے بھائی نے۔ اب فتویٰ پہلے ان پر لگائو ، پھر مجھ پر لگائو۔ اگر ہمارا نسب صحیح ہے اور الحمدللہ صحیح ہے ثم الحمدللہ صحیح ہے تو پہلے ہمارے دادا سیدنا علیؓ کو گالی دو، پھر ہمیں گالی دو۔
بزدل وعظ فروشو! قلم کے تاجرو! تم ہمت تو کرو پھر دیکھو تمہارا حشر کیا ہوتا ہے؟ --- 

میرا ایک سوال ہے جواب آپ کے ذمہ ہے کہ جب یزید کی فوجیں مدینہ طیبہ میں آئیں تو حضرت زین العابدینؒ کہاں تھے؟ کیا کرتے رہے تھے؟ یہ میرا سوال ہے۔ 
جناب حضرت زین العابدینؒ جن کا نام علی ہے، جو حسینؓ کے بیٹے ہیں، جو کربلا کے واقعہ میں موجود تھے، اور چوبیس برس کے تھے، ان کا لڑکا محمد باقر تین برس کا تھا، جن کو تم امام باقر کہتے ہو، یہ امام باقر تین برس کے تھے اور ان کی والدہ ماجدہ کربلا میں تھیں، ان کے والد ماجد کربلا میں تھے، اس واقعہ میں موجود تھے، عینی شاہد ہیں۔ ان کی رائے ان کا کوئی ایک قول تاریخ کی صحیح روایت سے یزید کے خلاف لےآؤـ میں تمہارے ساتھ ہوں۔
سیدنا علی بن حسینؓ المعروف زین العابدین یزید کے ساتھ تھے۔---- 

یہ موضوع جتنا طویل ہے تاریخ میں اتنی ہی گرد اس پر جمی ہوئی ہے۔ اس گرد و غبار کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ اور لوگوں کو اصل صورت حال اور حقیقت حادثہ کربلا سے روشناس کرانا وقت کا تقاضا ہے، زندگی باقی رہے تو اس موضوع پر مزید گفتگو آئندہ مجلس میں۔ 
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ -- 

ناقل: مہدی معاویہ 
بحوالہ: ماہنامہ نقیب ختم نبوت ملتان 
محرم 1414ھ/جولائی 1993ء 


.