منگل، 27 اپریل، 2021

افطار کی دعا ذهب الظمأ.... کب پڑھیں؟ عبد الغفار سلفی ‏

.

بسم الله الرحمن الرحيم 
،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"،"، 

افطار کی دعا ذهب الظمأ.... کب پڑھیں؟ 

عبد الغفار سلفی 

افطار کے سلسلے میں مستند احادیث سے جو دعا ثابت ہے وہ ہے:

ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ (ابوداؤد، کتاب الصوم: 2357)

دعا کا ترجمہ : پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہو گئیں اور اجر بھی ان شاء اللہ ثابت ہو گیا.

بعض اہل علم نے اس دعا کے سلسلے میں یہ اشکال ذکر کیا ہے کہ اگر ہم اس کا ترجمہ ماضی کی شکل میں کرتے ہیں (جیسا کہ اوپر کیا گیا ہے) تو یہ صحیح نہیں ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں یہ جملہ خبریہ ہو جائے گا ، جب کہ یہ دعا ہے اور دعا انشاء سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے اس دعا کا ترجمہ یوں کیا جانا چاہیے : پیاس بجھ جائے، رگیں تر ہو جائیں اور اجر ثابت ہو جائے ان شاء اللہ. اسی لیے بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اس دعا کو افطار کے وقت پڑھا جائے نہ کہ افطار کے بعد.

ہماری تحقیق کے مطابق اس دعا کا ترجمہ جملہ خبریہ کے طور پر کرنے میں کوئی حرج نہیں.. اس دعا کی مثال بعینہ اس دعا کی طرح ہے جو کسی کے یہاں کھانا کھانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے اور جس کے الفاظ یوں ہیں :

أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ (ابوداؤد، کتاب الاطعمۃ:3854)
ترجمہ : آپ لوگوں کے یہاں روزہ داروں نے افطار کیا، آپ کا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور فرشتوں نے آپ لوگوں کے لیے دعائے رحمت کی.

اب ظاہر ہے یہ دعا کھانا کھا چکنے کے بعد ہی ہڑھی جاتی ہے اس لیے اس کے ترجمہ میں وہ منطق بالکل لاگو نہیں ہو سکتی جو افطار والی دعا میں لگائی جاتی ہے. اسی لیے "ذهب الظمأ.." والی دعا کے سلسلے میں شارحین حدیث نے بھی یہ وضاحت کی ہے کہ یہ دعا افطار کے بعد پڑھی جائے گی، چنانچہ صاحب عون المعبود علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

(إذا أفطر) أي بعد الإفطار
یعنی یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد پڑھتے تھے.

لہذا صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ افطار بسم اللہ سے کیا جائے اور افطار کے بعد مذکورہ بالا دعا پڑھی جائے.

واللہ اعلم بالصواب

( عبدالغفار سلفی ،بنارس) 

.