پیر، 8 جنوری، 2024

بڑوں کی یا اسلام کی مخالفت؟ المنجد

.

معصیت کے کاموں میں بڑوں، والدین اور لوگوں کی اطاعت کریں 


؛~~~~~~~~~~~~~~؛
؛~~~~~~~~~~~~~~؛


*بڑے لوگ، والدین اسلامى طريقہ سے خوشى كرنے سے انكار كریں تو کیا ان کی مخالفت کا حق حاصل ہے؟ یا اطاعت ہی کریں؟* 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛

سوال 
اگر والدين اسلامى طريقہ سے شادى كى تقريب منانے سے انكار كريں تو كيا مجھے ان كى مخالفت كرنے كا حق حاصل ہے يا كہ مجھے ان كے كہنے پر راضى ہو كر اپنا موقف ختم كر دينا چاہيے ؟

https://www.askislampedia.com/ur/wiki/-/wiki/Urdu_wiki/%D9%84%DA%91%D9%83%D9%89+%D9%83%DB%92+%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AF%D9%8A%D9%86+%D9%83%D8%A7+%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%D9%89+%D8%B7%D8%B1%D9%8A%D9%82%DB%81+%D8%B3%DB%92+%D8%AE%D9%88%D8%B4%D9%89+%D9%83%D8%B1%D9%86%DB%92+%D8%B3%DB%92+%D8%A7%D9%86%D9%83%D8%A7%D8%B1+%D9%83%D8%B1%D9%86%D8%A7/pop_up;jsessionid=8ED4EC6FA76C2571B2D491A27F7BB7F7 



جواب کا متن

الحمد للہ 

اول 

اسلامى تقريب اور خوشى سے مراد يہ ہے كہ ايسى تقريب منعقد كى جائے جو شرعى احكام كے ساتھ منضبط ہو، وہ اس طرح كہ اس ميں كسى بھى قسم كى شرعى مخالفت نہ ہو نہ تو مرد و عورت كا اختلاط اور نہ ہى مردوں كے سامنے بے پردگى اور نہ آلات موسيقى اور گانا بجانا استعمال كئے جائيں، جو بھى اللہ نے حرام كيا ہے اس سے اجتناب ہو ـ 

افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ ـ يہ حرام كام اس وقت اكثر مسلمانوں ميں عام ہيں مگر جس پر اللہ رحم كرے وہ اس سے بچا ہوا ہے. 

چنانچہ شادى ميں مشروع يہ ہے كہ  دولہا اور دلہن اور ان كے گھر والوں اور انہيں مباركباد دينے والوں ميں ايسى اشياء اور امور سے خوشى و فرحت ڈالى جائے جو اللہ كے غضب اور ناراضگى كا باعث نہ ہو مثلا عورتوں كے درميان دف بجائى جائے اور وہ آپس ميں اشعار اور نفع مند كلام پڑ سكتى ہيں جو گناہ سے خالى ہو. 

امام بخارى رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ:

ايك عورت كى ايك انصارى آدمى سے شادى ہوئى اور اس كى رخصتى ہوئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے عائشہ تمہارے پاس كھيل والى كيا چيز ہے ؟ كيونكہ انصار كو يہ پسند ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5163 ).

اور ابو داود رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:

" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى ايك رشتہ دار كا نكاح ايك انصارى مرد سے ہوا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم آئے اور كہنے لگے: 

" كيا تم نے لڑكى كو كوئى ہديہ ديا ہے ؟ انہوں نے عرض كيا جى ہاں.

آپ نے فرمايا: كيا تم نے اس كے ساتھ كسى گانے والى كو بھيجا ہے ؟ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے عرض كيا: نہيں.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: انصار ايك ايسى قوم ہے جن ميں غزل ہے، لہذا اگر تم اس كے ساتھ كسى ايسى لڑكى كو بھيج ديتے جو يہ كہتى:

ہم تمہارے پاس آئے، ہم تمہارے پاس آئے، چنانچہ تمہيں بھى اور ہميں بھى مبارك ہو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1900 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1995 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور نسائى اور ابن ماجہ نے محمد بن حاطب سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" حلال نكاح اور حرام ميں فرق كرنے والى چيز دف اور آواز ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 3369 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1896 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اس ليے اسلام ميں شادى كى تقريبات ميں وہاں حاضر ہونے والے افراد ميں خوشى و سرور اور فرحت داخل كى جائے، اور عفت و پاكى حاصل ہو اور حرام كردہ اشياء سے دور رہا جائے. 

چنانچہ عورتيں شادى كى تقريب ميں مردوں سے بالكل الگ تھلك رہ كر خوشى منائيں، اور جو بھى خوشى و سرور والا عمل ہے اسے كريں جو دلہن اور اس كے پاس عورتوں كو خوش كرے، ليكن حرام سے اجتناب كيا جائے، چاہے وہ كھيل كود ہو يا دف بجا كر گانا، اور كھانا پينا يا دوسرى اشياء جو عادات اور عرف كے مطابق ہوں ليكن اس ميں شرط يہى ہے كہ مباح كے دائرہ كے اندر رہتے ہوئے كيا جائے.

اور اسى طرح مرد بھى عورتوں سے الگ تھلگ جگہ جمع ہو كر آپس ميں مباركباد كا تبادلہ كريں، اور دولہا دلہن كے ليے بركت كى دعا كريں، اور دولہا كے ليے مسنون ہے كہ وہ وليمہ كى دعوت كرے جس ميں حاضر ہونے والے بغير كسى اسراف و فضول خرچى كے كھانا تناول كريں.

چنانچہ شادى كى تقريب كى غرض اور مقصد يہ ہوتا ہے كہ نكاح كا اعلان اور اظہار كيا جائے، اور حرام بدكارى سے نكاح كى تميز ہو سكے، اور دولہا اور دلہن اور ان كے خاندان والوں ميں خوشى و سرور داخل كيا جائے، اور اس سب ميں اللہ سبحانہ و تعالى كى عبوديت ہو.



دوم:

اگر والدين شادى كى تقريب ميں شرعى احكام كى پابندى كرنے سے انكار كر ديں اور برائى اور غلط كام كرنے پر اصرار كريں مثلا مرد و عورت ميں اختلاط، يا پھر رقاصہ اور اور فنكار اور گلوكار بلائے جائيں جو مردوں كے سامنے گانا گائيں، تو آپ انہيں نصيحت كريں، اور ان كے سامنے اس برائى كے بارہ ميں شرعى حكم واضح كريں، اور انہيں ياد دلائيں كہ شادى اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے ايك نعمت ہے، جس كا شكر ادا كرنا چاہيے، اور كسى بھى نعمت كا شكر اس طرح ادا ہو سكتا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى جائے نہ كہ اس كى معصيت و نافرمانى.

اور جس شادى كى ابتدا ہى معصيت و نافرمانى كے ساتھ ہو وہ شادى كبھى كامياب نہيں ہو سكتى، اور اگر وہ اللہ كے حكم كى پابندى كرتے ہوئے اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كريں تو اور اگر اپنے موقف پر اصرار كريں اور ڈٹے رہيں تو آپ برائى اور غلط كام ميں شريك مت ہوں اور آپ اس كى ناپسنديدگى اور اس سے براءت كا اظہار كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اللہ تعالى تمہارے پاس اپنى كتاب ميں يہ حكم اتار چكا ہے كہ تم جب كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ كفر كرتے ہوئے اور مذاق كرتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ( ورنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى تمام كافروں اور سب منافقوں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے. 
 النساء ( 140 ). 

امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ آيت اس بات كى دليل ہے كہ معصيت و نافرمانى كرنے والوں سے اگر برائى اور معصيت ظاہر ہو تو ان لوگوں سے عليحدہ رہنا اور اجتناب كرنا واجب ہے؛ كيونكہ جو ان سے اجتناب نہيں كريگا اور عليحدہ نہيں ہوتا وہ ان كے فعل پر راضى ہے.

اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

ورنہ تم بھى انہى جيسے ہو.

چنانچہ جو كوئى بھى كسى معصيت و نافرمانى والى مجلس ميں بيٹھے اور اس برائى كو روكے نہيں تو وہ بھى ان كے ساتھ گناہ ميں برابر كا شريك ہے.

چاہيے تو يہ كہ جب وہ برائى كى بات كريں اور غلط كام كريں تو انہيں روكا جائے، اور اگر وہ انہيں روكنے كى طاقت نہيں ركھتا تو وہ ان كے پاس سے اٹھ كر چلا جائے تا كہ وہ اس آيت كے تحت ہو كر ان ميں شامل نہ ہو " انتہى مختصرا.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے جو كوئى بھى كسى برائى كو ديكھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے، اگر اس كى طاقت نہ ہو تو وہ اسے اپنى زبان سے منع كرے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہيں تو وہ اسے دل سے برا جانے اور يہ كمزور ترين ايمان ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 49 ).

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 7577 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

آپ كے ليے جائز نہيں كہ آپ كسى برائى پر راضى ہوں اور نہ ہى آپ كے ليے شادى وغيرہ ميں شرعى احكام كى پابندى كرنے كے موقف سے پيچھے ہٹنا جائز ہے، كيونكہ آپ كے ليے دنيا و آخرت ميں سعادت و كاميابى اسى ميں ہے كہ اپنے موقف پر قائم رہيں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو توفيق نصيب فرمائے اور آپ كى صحيح راہنمائى كرے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب


؛~~~~~~~~~~~~~~؛
؛~~~~~~~~~~~~~~؛

لڑكى والے رخصتى كى تقريب ميں غلط كام كرنے پر مصر ہيں؟ 


سوال
ميرى عنقريب شادى ہے، ليكن لڑكى اور اس كے گھر والے رخصتى كى تقريب ميں پر وقار طور پركرنے كے ليے بہت زيادہ رقم خرچ كرنے پر مصر ہيں جس ميں غير شرعى امور بھى كيے جائيں گے مثلا موسيقى اور گانا بجانا، اور مرد و عورت كا اختلاط، اس معاملہ ميں كس طرح نپٹاؤں ؟
كيا ميں اس رشتہ كو ختم كر دوں اور كسى دوسرى لڑكى سے شادى كر لوں ؟



جواب کا متن 

الحمد للہ. 

لڑكى والے جو كچھ كرنا چاہتے ہيں بلاشك يقينى طور پر وہ حرام ہے، اور اسے قبول كرنا ممكن نہيں، اور نہ ہى اللہ كو ناراض كر كے لوگوں كو راضى كرنا جائز ہے، اور ہم آپ كو يہ نصيحت نہيں كرتے كہ آپ اپنى ازدواجى زندگى كى ابتدا حرام طريقہ سے كريں، مسلمان شخص كو خود بھى اور اس كے گھر والوں كو بھى ايسا نہيں كرنا چاہيے كہ اس كى بيوى ايك سستا مال بن جائے كہ ہر كوئى نتھو خيرا اسے پورى زينت و زيبائش ميں ديكھے اور نظريں جماتا پھرے.

آپ کو اس موقف كا مقابلہ كرنے كے ليے درج ذيل امور كى نصيحت كرتے ہيں:

1 ـ آپ لڑكى كے گھر والوں كو بہتر اور اچھے طريقہ سے نصيحت كريں، اور جو كچھ وہ كرنے كى نيت كر چكے ہيں اس كے متعلق انہيں شرعى حكم بتائيں، اور انہيں اللہ كى ناراضگى سے اجتناب كرنے كا كہيں، اور ان كے سامنے موسيقى اور گانے بجانے اور مرد و عورت كے اختلاط كى حرمت واضح كريں، اور انہيں بتائيں كہ وہ ان سب حرام كاموں كے بغير بھى ايك كامياب اور اچھى تقريب منعقد كر سكتے.

اور يہ واضح كريں كہ ان كے ليے اس ميں نہ تو كوئى دنياوى اور نہ ہى آخروى مصلحت پائى جاتى ہے كہ آپ لوگ اللہ كى عطا كردہ نعمت كا اپنى بيٹى كى شادى ميں اللہ كى نافرمانى سے مقابلہ كريں، اور اس كى مخالفت كرتے ہوئے ايسے امور كا ارتكاب كريں جس سے اللہ تعالى ناراض ہوتا ہے.

2 ـ اگر يہ فائدہ نہ دے تو آپ ان كے خاندان اور اہل اقارب ميں كوئى ايسے عقلمند تلاش كريں اور اپنے خاندان ميں سے بھى جن كے بارہ ميں آپ كو حسن ظن ہے اور ان سے خير و بھلائى كى توقع ركھتے ہيں، اميد ہے اللہ تعالى نے ان كے ہاتھ آپ كے ليے اس مشكل سے نكلنے كى راہ لكھ ركھى ہو، اور اس طرح كى برائياں ترك كروائيں چاہے ان پر دباؤ ڈال كر اور انہيں تنگ كر كے ہى.

3 ـ اور اگر يہ بھى فائدہ نہ دے تو پھر آپ كسى اہل علم اور عقل و دانش ركھنے والے سے رابطہ كريں جس كى وہ بھى قدر و احترام كرتے ہوں، ہو سكتا ہے وہ اس كى شرم و حياء كرتے ہوئے باز آ جائيں، يا پھر وہ انہيں اس پر مطمئن كرلے كہ جو كچھ وہ كرنا چاہتے ہيں وہ برائى ہے اور اس طرح وہ اسے ترك كر ديں.

4  ـ اگر يہ بھى كوئى نتيجہ خيز ثابت نہ ہو تو پھر آپ كو حق حاصل ہے كہ آپ انہيں طلاق اور عليحدگى كى دھمكى دے ديں ہو سكتا ہے وہ اس سے ہى متنبہ ہو جائيں كہ اس طرح لوگوں ميں ان كى بےعزتى ہو گى اور اللہ كے حرام كردہ امور كا ارتكاب چھوڑ ديں، اميد ہے عقد نكاح اور رخصتى ميں طويل عرصہ پيدا كرنے كا نتيجہ انہيں اس پر مطمئن كرنے كا باعث بن جائے اور وہ حرام امور ترك كر ديں.

5 ـ اگر وہ بالكل نہ مانيں تو پھر ہم آپ كو متنبہ كرتے ہيں كہ آپ ان لوگوں سے بچ كر رہيں، الا يہ كہ اگر وہ لڑكى بذات خود دين والى ہو اور اچھے اخلاق كى مالك ہے اور اس كے گھر والے جو كچھ كرنا چاہتے ہيں وہ اس پر راضى نہيں اور نہ ہى اس ميں شريك ہونا چاہتى ہے، اور آپ اور وہ لڑكى دونوں اس تقريب ميں شريك نہ ہونے كى استطاعت ركھتے ہيں تو پھر تقريب كى ابتدا ہوتے ہى وہاں سے كھسك جائيں ليكن جانے سے قبل اس سب كچھ سے جو اللہ كے غضب كا باعث ہے سے انكار كريں اور انہيں روكيں اور جو وہ برائى كرنے والے ہيں اس سے لوگوں كے سامنے برات كا اظہار كر كے وہاں سے نكل جائيں اور اس جگہ سے نكل جائيں اور لوگوں کو يہ ياد دلائيں كہ اللہ كا فرمان ہے:

تو پھر تم ان كے ساتھ مت بيٹھو كيونكہ تم بھى ان جيسے ہو گے .

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے جو كوئى بھى كسى برائى كو ديكھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے اگر اس كى استطاعت نہ ركھتا ہو تو اسے اپنى زبان سے روكے اور اگر اس كى بھى استطاعت نہ ركھتا ہو تو اسے اپنے دل سے روكے اور يہ كمزور ترين ايمان ہے "

اللہ تعالى ہى مدد كرنے والا ہے، اور اس كى طرف شكوہ ہے اور اسى پر بھروسہ ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد 


؛~~~~~~~~~~~~~~؛ 

 
.

قبول دعوت اور شرائط

.
.

*دعوت کے شرائط پوری نہ ہوں تو دعوت قبول کرنا نہ واجب ہے اور نہ ہی مستحب ہے، بلکہ ممکن ہے کہ ایسی مجلس اور دعوت میں حاضر ہونا حرام ہو.* 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛ 

دعوت قبول کرنے کا حکم اور اس کی شرائط 
 
    
 سوال 
مجھے کبھی کسی چھوٹی تو کبھی بڑی پارٹی کی دعوت ملتی ہے ۔۔۔ لیکن اگر ان پارٹیوں میں اکثر غیبت، طنز، کپڑوں اور لباس پر فخر، میرے جیسی سادہ لباس پہننے والی خاتون پر طعنہ زنی ، اور بسا اوقات چغلیاں بھی ہوتی ہیں۔ پھر میں نے گھر میں کام بھی کرنے ہوتے ہیں، میں گھر میں ملازمہ رکھنے کے حق میں نہیں ہوں، جبکہ ان پارٹیوں میں آنیوالی تمام خواتین نے گھروں میں خادمائیں رکھی ہوئی ہیں اس لیے ان کے پاس پارٹیاں بھگتانے کے لیے وقت بھی ہوتا ہے۔
میرے گھر اور خاوند کو میری ضرورت ہوتی ہے، میں اپنے گھر میں ایک منٹ بھی گزاروں تو اس کا ان شاء اللہ میرے گھر پر مثبت اثر پڑتا ہے، میرا گھرانہ میرا سب سے پہلا ہدف ہے، پھر اضافی مطالعہ، تلاوت قرآن اور دیگر مفید سرگرمیوں کے لیے مجھے وقت بھی چاہیے ہوتا ہے۔ میں ایسی مجلس میں شرکت نہیں کرنا چاہتی جس کے فوائد نقصانات کے نیچے دبے ہوئے ہوں، اور اگر ان مجلسوں کے فوائد بھی ہیں تو مجھے اس کے لیے مناسب لائحہ عمل بتلائیں، اور اگر مجھے ان پارٹیوں میں شرکت نہ کرنے کا حق حاصل ہو تو میں کون سا مناسب سا عذر پیش کروں ؟ اور پارٹی کی دعوت مجھے کسی ایسی خاتون سے ملے جس کی مجھ سے بنتی نہیں ہے، وہ مجھے کسی تنگی میں دیکھے تو خوش ہوتی ہے، اور میرے خلاف زبان درازی بھی کرتی ہے، تو کیا میرے لیے اس کی طرف سے دی گئی دعوت قبول کرنا لازم ہے؟



جواب کا متن

الحمد للہ.

صحیح بخاری: (1164) اور مسلم: (4022) میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا، اور چھینک لینے والے کے الحمدللہ کہنے پر اسے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دینا۔)

مسلمان کو جو دعوت قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کی اہل علم نے دو قسمیں بیان کی ہیں:

پہلی قسم: شادی کے ولیمے کی دعوت، تو جمہور اہل علم اس دعوت کو قبول کرنے کو واجب کہتے ہیں، ہاں اگر کوئی شرعی عذر ہو تو گنجائش ہے، جیسے کہ آئندہ ان میں سے کچھ عذروں کا ان شاء اللہ ذکر کیا جائے گاولیمے کی دعوت قبول کرنا واجب ہے اس کی دلیل صحیح بخاری: (4779) اور مسلم: (2585) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بد ترین کھانا ولیمے کا کھانا ہے، اسے کھانے کے لیے آنے والے کو تو روکا جاتا ہے، اور جو نہ آنا چاہے اسے بلایا جاتا ہے، اور اگر کوئی ولیمے کی دعوت قبول نہ کرے تو اس نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کی۔)

دوسری قسم: ولیمے کے علاوہ کوئی بھی چھوٹی بڑی دعوت، تو ان کے بارے میں جمہور اہل علم یہ کہتے ہیں کہ ان میں حاضر ہونا اور ان کی دعوت قبول کرنا مستحب عمل ہے، ان کے مقابلے میں صرف کچھ شافعی اور ظاہری اہل علم ہیں جنہوں نے ایسی دعوت قبول کرنا بھی واجب قرار دیا ہے، تاہم اگر یہ کہا جاتا کہ: ایسی دعوت قبول کرنا تاکیدی طور پر مستحب ہے تو یہ بات زیادہ اقرب الی الصواب تھی۔ واللہ اعلم

اہل علم نے قبولِ دعوت کے وجوب کی چند شرائط بھی ذکر کی ہیں، لہذا اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو دعوت قبول کرنا نہ واجب ہے اور نہ ہی مستحب ہے، بلکہ ممکن ہے کہ ایسی مجلس اور دعوت میں حاضر ہونا حرام ہو، ان تمام شرائط کو علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ نے مختصراً بیان کیا ہے ، آپ کہتے ہیں:

1-دعوت کی جگہ پر کوئی برائی نہ ہو، اور اگر وہاں کوئی برائی ہو اور اس برائی کو وہ شخص ختم بھی کر سکتا ہو تو ایسی صورت میں دو وجوہات کی بنا پر حاضر ہونا واجب ہو گا، ایک تو دعوت قبول کرنے کے لیے اور دوسرا برائی ختم کرنے کے لیے۔ لیکن اگر برائی کو مٹانا اس کے لیے ممکن نہ ہو تو اس پر حاضر ہونا حرام ہے۔

2-دعوت دینے والا ایسا شخص ہو جس سے لا تعلقی مستحب یا واجب نہ ہو، مثلاً: اعلانیہ گناہ کرنے والا ہو اور اس سے لا تعلقی کرنے پر ممکن ہے کہ گناہ سے توبہ تائب ہو جائے۔

3-دعوت دینے والا مسلمان ہو، اگر دعوت دینے والا مسلمان نہیں ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا واجب نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا ہے کہ: (مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں ۔۔۔) انہی میں سے ایک دعوت قبول کرنا ہے۔

4- دعوت کا کھانا حلال ہو کہ جسے کھانا جائز ہو۔

5- دعوت قبول کرنے کی وجہ سے اس سے بھی بڑا واجب کام فوت نہ ہوتا ہو، اگر ایسا ہو تو دعوت قبول کرنا حرام ہو گا۔

6-دعوت قبول کرنے سے دعوت قبول کرنے والے کا کوئی نقصان نہ ہو، مثلاً: 

 اس نے کہیں سفر پر جانا ہے، یا اس کے گھر والے اکیلے رہ جائیں گے اور گھر والوں کو اس کی بہت ضرورت ہے، یا اسی طرح کی کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے۔
مختصراً ماخوذ از ، القول المفید: ( 3 / 111)

کچھ اہل علم نے ایک اور شرط بھی شامل کی ہے کہ:

7- داعی کسی خاص شخص کو دعوت پر مدعو کرے تو اس پر حاضر ہونا واجب ہے۔ لیکن اگر مجلس کے حاضرین کو عمومی دعوت دے تو پھر اکثر اہل علم کے ہاں ہر ایک شخص پر دعوت میں حاضر ہونا لازم نہیں ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایسی دعوت میں حاضر ہونا آپ پر لازم نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ حرام ہو؛ چنانچہ اگر آپ وہاں پر موجود برائی کو روک نہیں سکتیں، یا آپ کے دعوت میں جانے سے خاوند کے حقوق کی تلفی ہوتی ہے، یا آپ کے ذمہ بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت آپ نہیں کر پاتیں تو دعوت میں حاضر ہونا آپ پر لازم نہیں ہے۔ پھر یہاں یہ بات بھی ہے کہ آپ خود بھی ان کے شر اور طنز سے محفوظ نہیں رہتیں تو قبولِ دعوت کا وجوب ختم کرنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی تھا، لیکن یہاں تو معاملہ اس سے بڑھ چکا ہے اس لیے آپ پر دعوت میں حاضر ہونا لازم نہیں رہتا۔

یہاں ایک اور چیز بھی خاتون کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی دعوت پر جانے کے لیے اپنے خاوند سے اجازت ضرور لے، اور آپ دعوت میں آنے والی تمام خواتین کو مشورہ بھی دیں کہ جب اکٹھے ہوں تو اپنی مجلس کو دینی یا دنیاوی طور پر مفید بنائیں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ایسی مجالس کے نقصان سے خبردار کیا ہے جس میں اللہ تعالی کا ذکر نہ کیا جائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اس میں اللہ کا ذکر نہ کریں، نہ ہی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجیں تو یہ مجلس ان کے لیے باعث حسرت و ندامت ہو گی، اللہ تعالی انہیں چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (3302)نے روایت کر کے حسن صحیح قرار دیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی: (3 / 140) میں صحیح کہا ہے۔

اسی طرح سنن ابو داود: (4214) وغیرہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو لوگ کسی مجلس سے اٹھیں اور انہوں نے اس میں اللہ کا ذکر نہ کیا ہو ، تو وہ ایسے ہیں گویا کسی مردار گدھے پر سے اٹھے ہوں اور ( آخرت میں ) یہ مجلس ان کے لیے حسرت کا باعث ہو گی) اس حدیث کو علامہ نووی رحمہ اللہ نے ریاض الصالحین: (321) میں صحیح قرار دیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے بھی انہی کے حکم کی تائید کی ہے۔

تو آپ یہ نصیحت ان بہنوں تک بالمشافہ پہنچائیں یا لکھ کر بھیج دیں، اور اگر ایک قدم آگے بڑھ کر آپ ان سب کو اپنے گھر میں دعوت دیں، اور اسی مجلس کو وعظ و نصیحت کے لیے بھی غنیمت سمجھیں، تاہم ساتھ کچھ ایسی سرگرمیاں بھی شامل کر لیں جن میں وہ دلچسپی رکھتی ہیں ، تو امید ہے کہ آپ کے اس اقدام سے ان کے لیے ایسی دعوتوں کو بار آور اور مفید بنانے کے لیے بہترین عملی نمونہ سامنے آ جائے اور اس کا سبب اللہ تعالی آپ کو بنا دے۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔ 

اسلام سوال و جواب ویب 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛ 


..... (5) اوپر حدیث گزری ہے کہ جس نے دعوت قبول نہیں کی، اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺکی نافرمانی کی ، اس سے معلوم ہوا کہ دعوت قبول کرنا، چاہے وہ ولیمے کی ہو یا عام دعوت ، ضروری ہے۔ حتی کہ اگر کسی نے نفلی روزہ رکھا ہوا ہے تو اس کو بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ نفلی روزہ توڑ لے اور دعوت میں شریک ہوجائے ، بالخصوص جب دعوت کرنے والا اصرار کرے اگر اصرار نہ کرے تو روزے دار کی مرضی ہے کہ روزہ توڑے یا نہ توڑے ، روزہ نہ توڑے تو دعوت کرنے والے کے حق میں دعائے خیر کر دے ۔ [9]

(6) اگر نفلی روزہ توڑ کر دعوت کھائی جائے تو اس نفلی روزے کی قضا ضرور ی نہیں۔ نبیﷺایک  دعوت میں تشریف فرما تھے، صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ تھی ، جب کھانا شروع ہوا تو ایک شخص الگ ہوکر ایک طرف بیٹھ گیا ، نبیﷺکے پوچھنے پر اس نے بتا یا کہ وہ نفلی روزے سے ہے ، آپﷺنے فرمایا :

أَفْطِرْ وَصُمْ يَوْمًا مَكَانَهُ إِنْ شَئْتَ

 ’’ تم دعوت کھا لو، اگرچاہو تو بعد میں اس کی جگہ روزہ رکھ لینا۔‘‘[10]

حافظ ابن حجر اور شیخ البانی رحمہما اللہ نے اس کو حسن کہا ہے ۔ [11]

معصیت والی دعوت میں شریک ہونے کی اجازت نہیں

دعوت قبول کرنے کی اتنی تاکید کے باوجود شرعی دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس دعوت میں یا دعوت والے گھر میں اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب ہو یا وہاں معصیت والی چیز ہو تو اس دعوت میں اس شخص کا شریک ہونا تو جائز ہے جو اصحابِ دعوت کے ہاں اتنے اثر ورسوخ کا حامل ہو کہ وہ معصیت کاری رکواسکتا ہو ، تو اس کو شریک ہوکر اس کو رکوانے کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے اور جو شخص ایسی پوزیشن کاحامل نہ ہو اگر اس کے علم میں پہلے سے یہ بات ہوکہ وہاں فلاں فلاں معصیت کا ارتکاب ضرور ہوگا جیسے آج کل میوزک،ویڈیو،بے پردگی جیسی معصیتیں عام ہوگئی ہیں تو اس کا اس دعوت میں جانے کے بجائے اس کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے اور اگر پہلے اس کے علم میں نہیں تھا ، وہاں جاکر دیکھا کہ وہاں ان شیطانی کاموں کا اہتمام ہے تو اس میں شرکت نہ کرے اور واپس آجائے۔ اگر ان معصیت کاریوں کے باوجود وہ شریک ہوگا تو وہ بھی گناہ گار ہوگا۔ بالخصوص اصحابِ علم وفضل کی اس قسم کے اجتماعات میں شرکت بہت بڑا جرم ہے ان کی شرکت ان معصیت کاریوں کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔

رسول اللہﷺتو تصویر والا پردہ دیکھ کر بھی دعوت کھائے بغیر واپس آجاتے تھے ،سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں ’’ میں نے ایک روز کھانا تیار کیا اور رسول اللہﷺکو دعوت دی، آپ تشریف لائے تو گھر میں تصاویر دیکھ کر واپس چلے گئے ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ، آپ کو کس چیز نے واپس ہونے پر مجبور کردیا؟ آپﷺنے فرمایا ’’ گھر میں ایک تصویروں والا پردہ ہے اور جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔‘‘ [12]

رسول اللہﷺنے تو ایک مرتبہ خود اپنے گھر یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں دروازے پر ایک تصویر والا پردہ لٹکا ہوا دیکھا تو آپ نے اندر داخل ہونا پسند نہیں فرمایا ، جس پرسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے معذرت کی۔[13]

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل بھی یہی تھا۔

سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  اپنے دور خلافت میں جب شام تشریف لے گئے تو شام کے ایک نہایت معزز عیسائی نے آپ کی اور آپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان کی دعوت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

إِنَّا لَا نَدْخُلُ كَنَائِسَكُمْ مِنْ أَجْلِ الصُّوَرِ الَّتِي فِيهَا

ترجمہ: ’’ تمہارے گرجوں میں تصویریں ہوتی ہیں اس لیے ہم وہاں نہیں آسکتے۔‘‘[14]

سیدناابو مسعود رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے ، ان کی ایک شخص نے دعوت کی ، انہوں نے اس سے پوچھا : گھر میں کوئی تصویر ہے؟ اس نے کہا : ہاں ۔ آپ نے تصویر کو توڑنے تک گھر میں داخل ہونے سے انکار کر دیا جب تصویر کو توڑ دیا گیا تو پھر آپ داخل ہوئے۔[15]

امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

لا ندخل وليمة فيها طبل ولا معزاف

’’ہم اس ولیمے میں شریک نہیں ہوتے جس میں ڈھول تماشے یا گانے بجانے کے کوئی اور آلات ہوں۔‘‘[16]

علامہ حافظ محدث صلاح الدین یوسف 
ماخوذ 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛

[9] صحیح مسلم: حدیث : 1431  

[10] السنن الکبریٰ للبیھقی: باب الشیخ الکبیر لایطیق الصوم …  

[11] ارواء الغلیل: 7/11۔12، حدیث : 1952 

[12] سنن ابن ماجہ، مسند ابی یعلی ، بحوالہ ’’آداب الزفاف‘‘ للالبانی ، ص: 77       
[13] سنن ابن ماجہ،مسند ابی یعلی ، بحوالہ ’’آداب الزفاف‘‘ للالبانی ، ص: 77 

[14] سنن بیہقی 7/268 بسند صحیح ، بحوالہ : آداب الزفاف ، ص : 80  

[15] سنن بیہقی بسند صحیح ، آداب الزفاف ، ص:81  

[16]  آداب الزفاف ، للالبانی رحمہ اللہ ، ص: 81 

 
.