اتوار، 29 اگست، 2021

پی ‏ڈی ‏یف ‏کتب ‏کی ‏افادیت ‏عزیر ‏ادونوی ‏

.

پی ڈی یف کتب کی افادیت 
سید محمد عزیر ادونوی ایم. اے. 

بہت سارے لوگ پی ڈی یف کتب کے مطالعہ کے بجائے کتب خرید کر مطالعہ کرنے پر زیادہ زور و ترجیح  دیتے ہیں، 
مجھے لگتا ہے کہ ایسے افراد پی ڈی یف کتب کی افادیت سے ناواقف ہیں اگر وہ ان کی افادیت سے واقف ہو جائیں تو وہ بھی پی ڈی یف ہی کو ترجیح دینے لگیں گے.

علماء کا اکثر طبقہ ایسا ہے کہ وہ اگر کتب خریدے تو اپنی تنخواہ میں ضروری اخراجات پورے نہیں کر سکتا اور اگر اخراجات پورے کرے تو کتب خرید نہیں سکتا ان کے لئے تو پی ڈی یف بڑی نعمت ہے، مگر عادت ہونے تک پی ڈی یف کا مطالعہ دشوار معلوم ہوتا ہے، کتب خرید کر رکھنے میں جگہ کی دشواری ہو جاتی ہے جب کہ پی ڈی یف کے لئے بس ایک سمارٹ فون یا لیپ ٹیب رکھ لیا جائے تو کافی ہے، بلڈنگ بھر کتب چھوٹے سے موبائل یا لیپ ٹاپ میں سما جاتے ہیں، بہت سارے کتب ہوں تو انسان کو نقل مکانی میں دشواری پیش آتی ہے جب کہ ڈھیر ساری پی ڈی یف کتب انسان اپنے موبائل میں رکھ کر کہیں بھی لے جا سکتا ہے کہیں بھی کسی بھی جگہ بیٹھ کر مطالعہ کر سکتا ہے، گھروں اور لائبریریوں میں موجود کتابین اگر جل جائیں یا سیلاب کا شکار ہو کر ضائع ہو جائیں تو خون کے آنسو رونا پڑتا ہے اور دوبارہ سے انتظام کرنا مشکل ہو جاتا ہے جب کہ پی ڈی میں یہ سہولت ہے کہ وہ اگر ضائع ہو جائیں، ڈلیٹ ہو جائیں یا موبائل و لیپ ٹیب ہی خراب ہو جائے تو دوبارہ سے بآسانی پی ڈی یف کتب کو ویبسائٹ سے ڈاؤنلوڈ کیا جا سکتا، کتابوں کی پرنٹنگ میں کافی وقت، مال اور محنت صرف ہوتی ہے جب کہ پی ڈی یف تیار کرنے میں اتنا مال وقت اور محنت صرف نہیں ہوتی، بعض پی ڈی یف سے متن کو بآسانی کاپی کر کے دین کی نشر و اشاعت، دعوت و تبلیغ میں سرعت لائی جا سکتی ہے، مطلوبہ اوراق کے اسکرین شاٹ نکال کر حسب ضرورت استعمال میں لایا جا سکتا ہے، بعض پی ڈی یف میں سرچ آپشن کی سہولت بھی ہوتی ہے جس کے ذریعہ اپنا مطلوبہ متن کم وقت میں بآسانی دھونڈا جا سکتا ہے، پی ڈی یف میں حسب ضرورت متن کی سائز بڑھا کر کے بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے ان کے علاوہ مزید کئی سہولیات و آپشنس ہوتے ہیں، تمام تفصیلات کو احاطۂ تحریر میں لائیں تو ایک کتابچہ نہیں بلکہ ایک کتاب بن سکتی ہے. 


.

اتوار، 22 اگست، 2021

کیا عام مسلمان غیر مسلموں میں دعوتی کام کر سکتے ہیں؟؟ ‏ضیاء ‏عمری

.
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
.،.،.،.،.،.،.،.،.،.،.،.،.،.،.،.،.،.،.

کیا عام مسلمان غیر مسلموں میں دعوتی کام کر سکتے ہیں؟؟ 

✍🏻 ڈی۔ ضیاء الرحمن عمری کڑموری 

~~~~~~~~~~~~؛

غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینا (فرضِ عین یا فرضِ کفایہ سے قطعِ نظر) مسلمانوں ہی کا کام ہے۔ وہ اپنی حیثیت اور علم کی روشنی میں اس فریضے کو انجام دیں گے۔ 

سبھی مسلمانوں کا علم یکساں نہیں ہوتاہے۔ حصولِ علم میں بعض افراد ایک متعین مدت لگانے کے باوجود بھی علم میں برابر نہیں ہوتے، بلکہ علمی اعتبار سے ان میں تفاوت ضرور ہوتا ہے۔ 

🌀 اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ ضروری قرار دیا ہے کہ وہ اپنی دعوت علم کی روشنی میں پیش کریں، کیوں کہ جہالت سے صرف نقصان ہوتاہے۔ علم، صرف صحیح العقیدہ علماء سے ہی لیا جائے تاکہ لوگوں کی ملاوٹوں سے پاک عقیدہ اپنایا جائے۔ جو بھی مسلمان دعوت کا جذبہ رکھتا ہو وہ اہلِ علم سے، علم حاصل کرے اور اسی کی روشنی میں اپنی کوشش جاری رکھے۔ 

🌀 یہ بات کسی بڑے فتنے سے کم نہیں کہ انسان علم کے بغیر ہی میدان میں آ جائے اور فتوے دینے لگے۔ جدید مسائل، اجتھادی مسائل اور فقھی مسائل پر گفتگو کرنے لگے۔ ایسے شخص کو نہ دعوت دینے کا حق ہے اور نہ ہی ایسے افراد کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے بلکہ نصیحت ہونی چاہیے کہ محض جذبات سے دعوت کا فریضہ انجام نہیں پاتا اس کے لیے علم ضروری ہے۔ ویسے بھی دین کے نام پر فتنے کا آغاز علماء سے بے نیازی سے ہوتاہے۔


⬅️ عوام الناس میں سے جو بھی دعوت کے میدان میں مصروف ہیں ہمیشہ شیطان ان کے پیچھے لگے رہتا ہے کہ ان کا رشتہ علماء سے کاٹ دیا جائے۔ اس کے لیے وہ ان کے کام کو ایک مثالی کارنامے کی شکل میں دکھاتا ہے پھر یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ علماء کام ہی نہیں کر رہے ہیں۔ جب یہ سوچ پلنے لگتی ہے تو ان کے اندر کبر کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ شیطان اس حد تک کامیاب ہو جاتا ہے کہ ان کی نگاہ میں علماء حقیر لگنے لگتے ہیں۔ پھر کیا! اہلِ علم سے بے نیاز ہونے کے بعد شیطان مطلوبہ کھیل کھیلتا ہے اور ان کو منہج سلف سے آزاد کر کے من مانی باتیں ان سے کہلواتا ہے۔ 


⬅️ پھر اسٹیج پر پہنچنے کے بعد ان کی غلطیاں انھیں غلطیاں نظر آنے کے بجائے علمی نکات دکھائی دیتی ہیں مزید یہ کہ وہ ان نکات کو پوری دلیری کے ساتھ عوام کے سامنے اسٹیج پر پیش کرتے ہیں، بیچاری عوام ان پر رشک کرنے لگتی ہے کہ ایسی باتیں علماء نہیں بتا سکتے۔ پھر وہ مفتی بن جاتے ہیں۔ جن مسائل میں ائمہ اربعہ جواب دینے سے رہ گئے ان مسائل میں بے باک ہو کر زبان کھولتے ہیں۔ جن سوالات کے جوابات دینے میں علماء وقت لیتے ہیں وہ فوری ان کے جوابات دے کر امت پر احسان کرتے ہیں۔ حتی کہ وہ اپنے آپ کو دعوتی میدان کا متخصص سمجھنے لگتے ہیں. ان کا تعارف متخصص فی الدعوۃ سے ہونے لگتا ہے۔ اور وہ خود سے دعوت کا مفہوم طئے کر لیتے ہیں اور فتوے تھوپتے ہیں کہ ہم داعی ہیں لیکن علماء میں کوئی داعی نہیں. اب ان کی نگاہ میں کوئی عالم مستند نہیں ہو سکتا اور نہ ہی انھیں اس بات کی توفیق ہوتی ہے کہ وہ علماء سے کچھ سوالات کریں۔ یہ سب جہالت کے نقصانات ہیں۔ جہالت سے کبھی امت کو فائدہ نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ نقصان ہی ہواہے۔ 


⬅️ عوام الناس کو علماء سے
جوڑنا، ان کے ایمان وعقائد کے تحفظ کے لیے ضروری ہے. لیکن جب ان کی نگاہ میں علماء کی کوئی قدر نہیں تو پھر لوگوں کو علماء سے جوڑنے کے بجائے ان سے کاٹنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ اس کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ 

1️⃣ من مانی استدلالات کرنا اور کہنا کہ علماء ایسی باتیں نہیں بتا سکتے، 

2️⃣ جن مسائل میں علماء مصلحتاً سکوت اخیتار کرتے ہوں انھیں بیان کرنا اور یہ باور کرانا کہ علماء یہ باتیں آپ لوگوں سے چھپاتے ہیں، 

3️⃣ جہالت بھرے انداز میں دعوے کرنا اور علماء سے چیلنج کرنا، علماء کی ذاتی کمزوریوں کو اچھالنا وغیرہ۔ 


⬅️ جب ایسی بات ہے تو پھر کیا عوام الناس کو دعوتی میدان میں حصہ لینے کا حق نہیں ہے؟؟  جواب یہ ہے کہ چند شرائط کے ساتھ دعوتی میدان میں حصہ دار بننا عوام کا حق ہی نہیں بلکہ ان کی ذمہ داری ہے۔ 

1.   ؛ 
توحید، رسالت، آخرت اور ان جیسے بنیادی موضوعات پر بنیادی باتوں کا علم، علماء سے حاصل کریں۔ 

2.    ؛ 
اپنے آپ کو ہمیشہ اہلِ علم سے جوڑے رکھیں۔ 

3.    ؛ 
فقہی مسائل میں جواب دینے سے مکمل پرہیز کریں. 

4.    ؛ 
اسٹیج پروگرام سے کلی طور پر اجتناب کریں چہ جائے کہ سوال و جواب کا سیشن رکھیں. 

5.    ؛ 
میدان میں کوئی سوال آجائے تو علماء سے رجوع کرنے کے بعد جواب دیں اگرچہ کہ کچھ وقت لگے. 

6.    ؛ 
صرف اپنے معیار کے مدعو سے گفتگو کریں، دیگر مدعوئین کو دعوت دینے سے گریز کریں۔ 


ایک اشکال اور اس کا جواب: 
~~~~~~~~~~~~؛

بعض اہل علم ایمان و عقیدے کے تحفظ کے لیے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ عوام الناس دعوتی میدان میں بالکل ہی کام نہ کریں تاکہ جہالت کی وجہ سے وہ خود مدعو کی باتیں یا اسلام پر اعتراضات سن کر گمراہ نہ ہو جائیں. یہ ایمانی جذبہ اور ان کی ذمہ دارانہ سوچ کی علامت ہے جس کا انکار ناممکن ہے کیوں کہ دوسرے کی ہدایت خود کی ہدایت پر کبھی مقدم نہیں ہو سکتی. اپنے ایمان و عقیدے کو خطرے میں ڈال کر دوسروں کی ہدایت کی فکر کرنا صحیح نہیں ہے. لیکن ایک بات پیشِ نظر ہونی چاہیے کہ سب مدعو ایک جیسے نہیں ہوتے. یہاں ہمیں مدعو کی اقسام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 


🏵️ مدعو کی اقسام: 🏵️   

(1)    ؛ 
جہاں تک ہندوستان کی بات ہے یہاں غیر مسلموں کی اکثریت کا تعلق عوام سے ہے خواص سے نہیں۔ ان عوام تک پیغامِ اسلام پہنچانے کے لیے دین کی موٹی موٹی باتیں جاننا کافی ہوجائے گا۔ ان مدعوئین کی مشترکہ صفت یہ ہے کہ یہ کچھ بھی سوال نہیں کرتے. آپ اسلام سے متعلق جو بھی کہیں وہ سنتے جائیں گے اور متاثر بھی ہوں گے اور بعض اسلام بھی قبول کریں گے۔ ایسے مدعوئین سے دعاۃ کے ایمان یا ان کے عقیدے کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ مدعوئین اسی کیٹگری کے ہیں جس کیٹگری کے عام مسلمان ہوتے ہیں جو دین کی موٹی موٹی باتیں جانتے ہیں۔ 

(2)    ؛ 
دوسری قسم کے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سنجیدہ ہوتے ہیں اور پیغام سننے کے بعد سوالات کرتے ہیں. ان کے سوالات میں اتنی گہرائی نہیں ہوتی. بلکہ ان کے سوالات سے حق جاننے کا جذبہ جھلکتا ہے. ایسے مدعوئین کو دعوت دینے کے لیے وہ افراد کافی ہو جائیں گے جو علماء سے گہرے تعلقات رکھتے ہوں اور ان سے مسلسل استفادہ کرتے ہوں. 

(3)    ؛ 
تیسری قسم کے لوگ ایسے ہیں جو اسلام کی بنیادوں پر اعتراضات کرتے ہیں. اس قسم کے لوگ کم ہی ہوتے ہیں. انھیں دعوت دینے کے لیے ایک داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ باقاعدہ کسی مدرسے سے علم حاصل کیاہو. اوپر کی دو قسم کے لوگ ایسے مدعوئین کو دعوت دینے کے اہل نہیں ہیں. ورنہ یہ خود ان مدعوئین کے اعتراضات سے متاثر ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں ان کے عقائد میں بگاڑ آ سکتاہے. 

(4)   ؛  
مدعویین میں سے چوتھی قسم کے لوگ ایسے ہیں جو باضابطہ قرآن پڑھ کر اس میں کیڑے نکالتے ہیں۔ ان کا مقصد تحقیق یا تلاشِ حق نہیں بلکہ اسلام کی بنیادوں کو ڈھانا ہوتا ہے. ایسے افراد ہزار میں ایک ہوتے ہیں، جو دین کی ہر تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں اور پوری تیاری کے ساتھ اسلامی تعلیمات میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں. ایک عالم فاضل کو بھی ایسے لوگوں کو دعوت دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیوں کہ عقائد کی باریکیوں پر اگر نظر نہ ہو تو کوئی بعید نہیں کہ شیطان ایک عالم فاضل کو بھی شکوک و شبہات میں مبتلا کردے. الا یہ کہ وہ ان کے سوالات نوٹ کرلے اور کسی اصولی اور منہجی شخصیت سے اس کے جوابات کے تعلق سے استفادہ کرے۔ مدعو کی یہ چار اقسام ہی نہیں بلکہ ہر دو قسموں کے درمیان مزید قسم کے مدعو ملیں گے۔ 


📌 غلط فہمی کہاں ہوتی ہے ؟ 📌 
~~~~~~~~~~~~؛

جو اہل علم، عوام الناس کے دعوتی میدان میں آنے پر نکیر کرتے ہیں ان کی نگاہ تیسری اور چوتھی قسم کے مدعوئین پر ہوتی ہے۔ اور سبھی مدعوئین کو اسی قسم میں شمار کرتے ہیں. اور چو پہلی اور دوسری قسم کے مدعو ان اہلِ علم کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں. جب کہ قریوں کا دورہ اور میدان کا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ مدعوئین کی اکثریت پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہے اور انھیں خود ان کی مذہبی کتاب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ بعض تو اپنی کتاب کا نام بھی نہیں جانتے، اور بعض تو بالکل لا مذہب ہوتے ہیں انھیں کسی مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے. 
داعی کے گمراہ ہونے کا امکان اس وقت رہتا ہے جب کہ وہ داعی پہلی قسم کا ہو اور دعوت تیسری یا چوتھی قسم کے مدعو کو دینا چاہتا ہو.  یہ سراسر نا انصافی ہے کہ چوتھی قسم کے مدعو کے مقابلے میں پہلی قسم کے داعی کو رکھا جائے اور بالعموم سبھی کو دعوتی میدان میں جانے سے منع کیا جائے. 

جو اپنے معیار سے اٹھ کر دعوت دیتاہے اور سوالات کے جوابات دیتا ہے، یا اسلاف کے منہج سے ہٹ کر من مانی جوابات دیتاہے وہ غلطی پر ہے. اپنی حد پار کرنے کی وجہ سے لوگوں کو گمراہ کرنا تو بعد کا مسئلہ ہے، خود پہلے گمراہ ہو سکتا ہے۔ 

جو لوگ حصولِ علم کے بغیر ہی اسٹیج کی زینت بنتے ہیں ان کی منہجی خامیوں پر رد ہوناچاہیے اور لوگوں کو ان کے اغلاط سے آگاہ کرنا چاہیے۔ یہ دینی فریضہ ہے جو تحفظ منہج کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اور یہ کام بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں. ایسے افراد لوگوں کے عقائد و منہج کے تحفظ کے لیے شکوک و شبہات اور اعتراضات کے سامنے مضبوط ڈھال بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں جو لوگوں کی رضامندی کو بالائے طاق رکھ کر امتِ مسلمہ کی خیر خواہی کے لیے کام کرتے ہیں. 


☘️ دو مختلف سمتیں: ☘️ 
~~~~~~~~~~~~؛ 

عوام کا دعوتی میدان میں آنے کے سلسلے میں دو مختلف رخ پائے جاتے ہیں. 

1️⃣ بعض لوگ وہ ہیں جو شدت سے رد کرتے ہیں کہ عوام الناس کو دعوتی میدان میں آنے کا بالکل بھی حق نہیں ہے. اس طرح کا موقف رکھنے والے بہت قلیل ہیں. 

2️⃣ دوسری طرف بعض ایسے لوگ ہیں جو کلی طور پر انھیں میدان میں لانا چاہتے ہیں. اور بنیادی باتین جاننا بھی ان کے لیے ضروری قرار نہیں دیتے. ایسے لوگ جذباتیت سے لبریز ہوتے ہیں. ایسی باتیں کرنے والے اہلِ علم تو نہیں ہوتے. علمی طور پر یہ دونوں بھی موقف محل نظر ہیں. 

3️⃣ ان دو مخلتف نظریوں کے درمیان ایک تیسرا موقف ہے جو علم کی روشنی میں مفید اور عین مناسب ہے۔ اکثر علماء بلکہ ہر سنجیدہ عالم اس بات کا قائل ہے کہ ہر مسلمان اپنے علم کی روشنی میں دعوت دے سکتا ہے. اور اہلِ علم اس بات کو ضروری قرار دیتے ہیں کہ کوئی بھی بات خود سے کہنے کے بجائے علماء سے رجوع کیا جائے اور اہل ِ علم کی نگرانی میں اپنی ساری کاوشیں انجام دی جائیں. 

شیخ عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
"الدعوۃ و الی النشاط فیھا فھی فرض کفایۃ اذا قام بھا من یکفی سقط عن الباقین ذلک الواجب، و صارت الدعوۃ فی حق الباقین سنۃ مؤکدۃ، و عملا صالحا جلیلا. و اذا لم یقم اھل الا قلیم او اھل القطر المعین بالدعوۃ علی التمام صار الاثم عاما و صار الواجب علی الجمیع و علی کل انسان ان یقوم بالدعوۃ حسب طاقتہ و امکانہ ،اما بالنظر الی عموم البلاد فالواجب: ان یوجد طائفۃ منتصبۃ تقوم بالدعوۃ الی اللہ جل و علا فی ارجاء المعمورۃ، تبلغ رسالات اللہ، وتبین امر اللہ عزوجل بالطرق الممکنۃ فان الرسول ﷺ قد بعث الدعاۃ و ارسل الکتب الی الناس و الی الملوک و الرؤساء و دعاھم الی اللہ عزوجل". 

"دعوت میں سرگرمِ عمل ہونا فرضِ کفایہ ہے، جب اس فریضے کو بعض لوگ انجام دیں گے تو بقیہ لوگوں سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا پھر بقیہ لوگوں کے حق میں دعوت سنتِ مؤکدہ اور ایک بڑا عمل صالح ہوجائے گی. جب کسی ملک یا کسی مخصوص جگہ کے لوگ کلی طور پر اس سے دور رہیں گے تو پھر سب گنہگار ہوں گے اور تمام پر یہ دعوت واجب ہو جائے گی. ہر انسان پر ضروری ہے کہ وہ اپنی حیثیت اور امکانات کے بقدر اس فریضے کو انجام دے۔ عام شہروں کے اعتبار سے اگر غور کیا جائے تو وہاں ایک مخصوص جماعت ضرور ہونی چاہیے جو دعوت الی اللہ کو انجام دے اور ممکن ذرائع سے اللہ کا پیغام دنیا کے چپے چپے میں پہنچائے. اس لیے کہ رسول ﷺ نے دعاۃ کو مختلف جگہوں پر بھیجا، بادشاہوں اور رؤساء قوم کی طرف خطوط کا سلسلہ بھی جاری کیا اور انہیں اللہ کی طرف بلایا". 
(الدعوۃ الی اللہ و اخلاق الدعاۃ)۔ 


📌 قابلِ توجہ ملاحظہ: 📌
~~~~~~~~~~~~؛ 

ایک غیر مسلم کو دعوت دینا نازک کام ہے اس سے بھی زیادہ نازک کام ان مسلمانوں میں کام کرنا ہے جن کے عقائد میں بگاڑ ہے. کیوں کہ داعی کو یہ احساس رہتاہے کہ غیر مسلم غلط عقیدے پر ہے جب کہ مسلمان کے تعلق سے یہ احساس رکھنے کے لیے بھی علم چاہیے.  بآسانی وہ غلط عقیدے والا انسان اسے گھما پھرا کر کنفیوز کر سکتا ہے. اس لیے دونوں میادین کو خلط ملط نہ کیاجائے. 

کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ مسلمانوں کو ان کے مسائل میں رہنمائی کرنا، یا فتوے دینا ہلکا اور آسان کام ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کام پہلے کام سے بھی زیادہ نازک ہے۔ 


📚 اہلِ علم سے استفادہ: 📚 
~~~~~~~~~~~~؛ 

چند دن بعض اہلِ علم سے استفادہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی اس بنیاد پر مکمل داعی بن گیا۔ بلکہ یہ استفادہ حصولِ علم کا آغاز ہے، اس کو جاری رکھا جائے اور ہمیشہ کے لیے اہل علم سے اپنا رشتہ استوار رکھا جائے. ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دس سال پہلے ہمارے پاس جو معلومات تھیں آج بھی وہی ہیں، بلکہ دن بدن ہماری معلومات میں اضافہ ہوتے رہنا چاہیے. 

رہا مسئلہ غیر علماء سے تربیت حاصل کرنے یا پھر ان سے علم لینے کا تو یہ کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے کیوں کہ جس کے پاس علم ہی نہ ہو وہ علم کیسے دے سکتاہے. 


🍀 افسوس ناک پہلو: 🍀 
~~~~~~~~~~~~؛

یہ نہایت ہی افسوس ناک پہلو ہے کہ صرف اپنے مطالعے کی بنیاد پر دعوت کا کام کرنے کا جذبہ پایا جائے اور علماء سے علم لینے کو ضروری نہ سمجھا جائے. ایسا کرنے والے احساسِ ذمہ داری سے عاری ہوتے ہیں اور جہالت سے ہونے والے نقصانات سے بے خبر ہوتے ہیں. محض جذبات کی بنیاد پر دین کی خدمت کو تولتے ہیں. اور ایسے لوگوں سے امت کو دور رکھنے کی شدید ضرورت ہے. کیوں کہ اللہ کی ناراضگی لوگوں کی ناراضگی سے بھی زیادہ سخت ہے. 

ہو سکتا ہے کہ وہ اچھی نیت لیکر ہی یہ کام کرنا چاہتے ہوں لیکن حسنِ نیت کافی نہیں بلکہ اپنے جذبات کو علم کے تابع کرنا بھی ضروری ہے۔ 


📘 ایک عظیم حقیقت: 📘
~~~~~~~~~~~~؛

شاید بہت سے لوگوں سے یہ بات مخفی ہے کہ (اسٹیج پروگرام کرنے والے، مسائل میں لب کشائی کرنے والے، من مانی استدلالات کرنے والے) اُن دعاۃ کے بالمقابل آٹے میں نمک کے برابر ہیں جو علماء کی نگرانی میں کام کرتے ہیں اور اپنے معیار سے آگے کبھی نہیں بڑھتے۔ یہی وہ نوجوان ہیں جو قریہ قریہ، گلی گلی اور شہر کے مختلف علاقوں جیسے بس اسٹانڈ، ریلوے اسٹیشن، پارک، ہسپتال وغیرہ میں جا کر لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کے سامنے سادے انداز میں اسلام کا پیغام پیش کرتے ہیں. 

ان کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں: 

(1)    ؛ 
علماء سے اپنے آپ کو کبھی بے نیاز نہیں سمجھتے. بلکہ علماء کی نگرانی کے لیے تڑپتے ہیں اور ہمیشہ ان سے سیکھتے رہتے ہیں۔ 

(2)    ؛ 
علم سے زیادہ دعوت نہیں دیتے، بلکہ جو باتیں معلوم ہوں انہی کی دعوت دیتے ہیں. 

(3)    ؛ 
مسائل میں زبان کھولنے سے اجتناب کرتے ہیں. 

(4)    ؛ 
دورانِ دعوت من مانی استدلال نہیں کرتے. 

(5)    ؛ 
کوئی نیا سوال آ جائے تو جواب نہیں دیتے بلکہ علماء سے رجوع کر کے اسے بعد میں بتاتے ہیں. 

(6)    ؛ 
اپنے معیار سے اونچا مدعو مل جائے تو اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ 

(7)    ؛ 
اگرکوئی عالمِ دین ان کی کسی خامی کی طرف اشارہ کرے تو اسے بخوشی قبول کر لیتے ہیں بلکہ اس عالم کا شکریہ ادا کرتے ہیں. اور اس عالم سے ناراض کبھی نہیں ہوتے. 

(8)    ؛ 
قرآن کی آیات (مدعو کو سنانے کے لیے) حفط کرنے کے لیے وقت نکالتے ہیں. اور علاقائی زبانوں میں ان کا ترجمہ بھی یاد کرتے ہیں۔ 

دوسرے الفاظ میں، اگر کوئی دعوتی میدان میں آنا چاہے تو یہ تمام خصوصیات بطورِ نصیحت پیش کی جا سکتی ہیں. ان خصوصیات کے حامل افراد پر نکیر کرنا انصاف نہیں ہے. ایسے افراد پر نکیر کرنے سے پہلے ایک بار ضرور نظرِ ثانی کر لی جائے۔ 


🍀 بعض سنجیدہ اور مظلوم دعاۃ ۔۔۔ : 🍀 
~~~~~~~~~~~~؛ 

بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو علماء سے علم حاصل کرنے کے بجائے خود سے مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اسٹیج کا اہل سمجھتے ہیں اور سلف کے منہج سے بالکل بالاتر ہو کر گفتگو کرتے ہیں. اگر ایسے افراد کو تلاش کیا جائے تو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں. لیکن شوشل میڈیا کی وجہ سے وہ معاشرے میں چھائے ہوے ہوتے ہیں۔ صرف ان لوگوں کو ذہن میں رکھ کر سب پر رد کرنا صحیح نہیں ہے۔ 

• ایسے لوگوں پر جب کوئی رد آتا ہے تو بعض لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اس سے مراد وہ عوام بھی ہے جو اہلِ علم کی نگرانی میں کام کرتے ہیں. حالاں کہ یہ رد ان لوگوں پر نہیں ہے جو اہلِ علم کی نگرانی میں کام کرتے ہیں اور ان سے مسلسل رابطے میں رہ کر سیکھتے رہتے ہیں. لیکن جب کسی چیز کے تعلق سے غلط فہمی پیدا ہو جائے تو اس کا ازالہ بھی تو ہونا چاہیے۔ رد لکھتے ہوے قوسین میں ایک دو جملے بھی تو لکھے جا سکتے ہیں کہ ان سے وہ لوگ مستثنی ہیں جو علماء کی نگرانی میں اپنی حد میں رہ کر اپنے معیار کے مدعو کو دعوت دیتے ہیں. ورنہ اس کا نقصان یہ ہوگا کہ صحیح نہج پر کام کرنے والے بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔ 


🍀 دعوت کی اہلیت: ☘️ 
~~~~~~~~~~~~؛ 

جہاں تک علم کی بات ہے دین کی بنیادی باتیں جاننا ایک مسلمان اور داعی کے لیے ضروری ہے۔ کسی کو دعوت دینے کے لیے اہلیت کا طے کرنا ذرا مشکل ہے جب تک کہ داعی اور مدعو کے معیار سے واقفیت نہ ہو جائے۔ اگر چوتھے نمبر کے داعی کے بالمقابل پہلے نمبر کے مدعو کو رکھ کر رد کیا جائے اور اسے دعوت سے روکا جائے تو یہ حقیقت سے عدمِ واقفیت کی دلیل ہے. 

بعض مدعو (فلاسفی اور منطقی) ایسے ہوتے ہیں جنہیں دعوت دینا ایک عالم فاضل کے لیے بھی مشکل ہے.  کیا ایسا کہا جائے گا کہ مدارس کے فارغین غیر مسلموں کو دعوت دینے کے اہل نہیں ہیں۔ بلکہ اس میں تفصیل اختیار کی جائے گی کہ فارغینِ مدارس اس قسم کے مدعوئین کو چھوڑ کر بقیہ نچلے معیار کے سبھی مدعو کو دعوت دے سکتے ہیں. 

معاملہ پوری طرح اس وقت بگڑتا ہے جب ایک داعی اور مدعو کے اقسام سے واقفیت کے بغیر ہی زبان کھولی جائے یا قلم کو حرکت دی جائے۔ اس سلسلے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے معیار کے داعی کو لیکر اس کے مد مقابل اونچے معیار والے مدعو کو رکھ کر سوچیں تو پھر بات سمجھنے میں دشواری ہوگی۔ 

جملہ دعاۃ کے لیے اصولِ تفسیر، اصولِ حدیث، اصولِ فقہ اور جرح و تعدیل سے واقفیت کو شرط قرار دینا، در اصل یہ داعی اور مدعو کی اقسام سے عدمِ واقفیت کی دلیل ہوگی. میدان کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایسے موقف سے رجوع کرنا بہت آسان ہو جائے گا کیوں کہ اکثر غیر مسلم،  عام ذہنیت کے ہوتے ہیں. البتہ بعض بعض مدعو ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں دعوت دینے کے لیے واقعی مندرجہ بالا موضوعات پر نظر ہونی چاہئے لیکن یہ عام اصول نہیں ہو سکتا۔ گویا بعض کی ضرورت سب کے لیے اصول نہیں بن سکتا۔ 


🏵️ قابلِ غور پہلو: 🏵️ 
~~~~~~~~~~~~؛ 

ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلی قسم کے مدعو حضرات کا مستوی کیا ہوتا ہے انھیں کیا کیا باتیں بتانی پڑتی ہیں. اگر دلائل دئے جائیں تو وہ دلائل کو بھی سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں.انہیں صرف اتنا بتانا کافی ہوتاہے کہ: 

"اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق، مالک، تمام مخلوقات کا رازق ہے. ساری کائنات اسی کے حکم سے چلتی ہے. اسی کے حکم سے بارش ہوتی ہے. اس لیے وہی عبادت کا مستحق بھی ہے. اس نے ہر زمانے میں لوگوں کو حق کی دعوت دینے کے لیے انبیاء و رسل بھیجے. آخری نبی، محمد ﷺ ہیں جو قرآن مجید لیکر آئے. یہ قرآن سب کی کتاب ہے، رسول بھی سب کے لیے آئے۔ اگر اس پر ایمان لائیں تو آخرت میں ہمیشہ کی جنت ملے گی ورنہ ہمیشہ کی جہنم میں جلنا پڑے گا جہاں کی آگ دنیوی آگ سے انسٹھ درجے زیادہ ہے"۔ 

ہر ہر جملے کے پیچھے دو چار آیتیں ہیں جن پر اگر نظر ہو تو پندرہ بیس منٹ بآسانی گفتگو ہو سکتی ہے. 
ان باتوں کو پھیلا کر پیش کیا جائے تو وہ لوگ متاثر ہو جاتے ہیں اور چند ملاقاتوں سے اسلام بھی قبول کرتے ہیں اور داعی کی بہتر طور پر مہمان نوازی بھی کرتے ہیں. 


⭕ حصولِ علم سے متعلق ایک غلط فہمی: ⭕ 
~~~~~~~~~~~~؛ 

بعض جگہوں پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ باضابطہ مدارس اور جامعات جا کر علم حاصل کرنا ہی واحد طریقہ ہے۔  جب کہ حصولِ علم کے لئے مدارس کو محدود کرنا اہلں علم کا شیوہ نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مدارس ہی حصولِ علم کا اعلیٰ اور افضل ذریعہ ہے۔ اسلاف کے یہاں حصولِ علم کا دوسرا ذریعہ اہلِ علم کی مجالس میں شرکت کرنا بھی ہے جو قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ مفید اور مستند طریقہ ہے۔ 

بہر کیف حصولِ علم کے لیے استاذ کا ہونا لازمی جزء ہے ورنہ پھر فائدہ سے زیادہ نقصان ہوگا۔ بعض اسلاف کے بقول "من کان معلمہ الکتاب کان خطاہ اکثر من الصواب" جس کا استاذ، کتاب ہو اس کی غلطیاں، درست چیزوں سے زیادہ ہوتی ہیں. 

حصولِ علم کا یہ طریقہ آج بھی رائج ہے، البتہ اس کی شکل میں بہت حد تک جدت آئی ہے. وہ تمام مجالس، حصولِ علم کے معروف طریقے میں داخل ہیں جہاں اسلامک موضوعات پڑھائے جاتے ہیں. اہلِ علم کی مجالس میں شرکت کرنے اور ان سے مسلسل روابط رکھنے سے طلبہ کے معلومات اور ان کی صلاحیت میں اضافہ ہوتاہے. اس طرح وہ اور اہلِ علم کی نگرانی میں اپنی حیثیت اور اپنے معلومات کی روشنی میں اپنے لیول کے مدعوئین میں دعوت کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں. 


⭕ غلط ردود کے پیچھے کار فرما عوامل: ⭕ 
~~~~~~~~~~~~؛

جب کسی کام پر غلط رد ہوتا ہے یا پھر رد کرنے والا اپنی دانست میں صحیح ہو مگر رد کر نے میں غلطی کا شکار ہو جائے تو اس کے پیچھے مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں: 

(1)     ؛ 
اصل مسئلے سے عدمِ واقفیت: 
رد کرنے والوں میں بعض اصحاب ایسے ہوتے ہیں جو صورتِ مسئلہ کی حقیقت سے نا واقف ہوتے ہیں. لہذا ان کا رد (ان کی حسنِ نیت کے باوجود) مردود ہے۔

(2)    ؛ 
غلط فہمی: 
بعض احباب جب دیکھتے ہیں کہ دین کے نام پر بہت ساری چیزیں غلط ہوتی ہیں یہ پھر منہجی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں تو اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ سبھی دعوتی کام کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں. جب کہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے. 

صحیح طریقہ پر دعوتی کام کرنے والے ان کی نگاہوں سے مخفی رہ جانے کی وجہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے. اس صورت میں رد کرنے والا معذور سمجھا جائے گا مگر رد لکھنے سے پہلے اس بات کا ضرور خیال کیاجائے کہ میرا رد کس کے اوپر ہے. اور کبھی رد کرنے والا مخصوص افراد پر ہی رد کرتا ہے لیکن مضمون پڑھنے والا اس مضمون کو ایسے لوگوں پر بھی چسپاں کر بیٹھتا ہے جو اس رد میں داخل نہیں ہیں. 

جب صاحب مضمون کو اس بات کا علم ہو جائے تو فوری اس غلط فہمی کا ازالہ کر دینا چاہیے کہ میری مراد وہ لوگ نہیں ہیں. یہ علمی ذمہ داری ہے اور مثالی طالبِ علم یا مثالی عالم کی نشانی ہے. 


⛔ دعوتی میدان اور اہلِ علم سے سوءِ ظن: ⛔ 
~~~~~~~~~~~~؛ 

دعوت کا میدان چونکہ بہت وسیع ہے، مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح، ان کے منہج کا تحفظ، بدعات و خرافات کا مقابلہ، باہر سے آنے والے شبہات کا مقابلہ، شکوک و شبہات کا شکار لوگوں پر توجہ، مسندِ افتاء، خطباتِ جمعہ، تالیف و نصنیف کی ذمہ داری، اور امامت و تدریس۔ یہ سب ایسی ذمہ داریاں ہیں جو صرف اہلِ علم سے ہی ممکن ہیں. گویا راس المال کا تحفظ کوئی معمولی کام نہیں ہے. 

ان خدمات کو سمجھنے کے لیے سنجیدہ طبیعت کا مالک ہونا ضروری ہے، ورنہ غیر سنجیدگی ایک عام انسان کو اس بات پر مجبور کرے گی کہ یہ سب خدمات دعوتی کام میں شامل ہی نہیں ہیں۔ 

مسئلہ یہ ہے کہ جو نوجوان غیر مسلموں میں دعوتی کام سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ دعوت کا معنی مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے صرف غیر مسلموں میں کام کرنے ہی کو دعوت سمجھتے ہیں اور علماء کی دیگر اہم خدمات ان کی نگاہ میں چھوٹی ہو جاتی ہیں. جب کہ ان کا جذبہء دعوت سے سرشار ہونا خود اہلِ علم کا احسان ہے۔ 

اس لیے دعوت سے دلچسپی رکھنے والوں کو ہشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ وہ دعوت کے جذبے کو اپنے اوپر اللہ کا احسان سمجھتے ہوئے اس کی قدر کریں اور اپنا رشتہ علماء سے استوار رکھیں. ورنہ کوئی بعید نہیں کہ شیطان انہیں علماء سے بد ظن کر دے نتیجہ میں وہ دعوتی جذبہ سے تو ہاتھ دھو بیٹھیں گے ہی جو کہ چھوٹا نقصان ہے. اس سے بھی بڑا نقصان یہ ہو سکتاہے کہ وہ علماء سے کٹنے کی وجہ سے لوگوں میں غلط نظریات پھیلانے میں مصروف ہو جائیں گے۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایک مسلمان کا اہلِ علم سے بد ظن ہونا اس کے ایمان و عقیدے کے لیے خطرہ ہے۔ اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ دین کی نشر و اشاعت اور صحیح عقائد کی ترویج کے لیے راس المال بنیادی حیثیت رکھتاہے. 

جب دعوت دینے والے خود غلط افکار یا غلط عقائد کے شکار ہو جائیں تو ان کی دعوت کیوں کر اغلاط سے پاک ہو سکتی ہے۔ 


🌀 خدمتِ دین کا ہر میدان اہلِ علم کا محتاج ہے: 🌀 
~~~~~~~~~~~~؛ 

خدمتِ دین کا کوئی بھی میدان چاہے چھوٹا ہو کہ بڑا، علماء سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ خدمتِ دین کا جو بھی شعبہ علماء کی نگرانی سے بے لگام ہو جائے وہاں قدم بقدم نئے نئے فتنے جنم لیں گے۔ اس لیے خدمتِ دین کے ہر شعبہ میں علماء کی سر پرستی ضروری ہے اور انہی کی نگرانی اور رہنمائی میں کام کیاجائے۔ 

حقیقت یہ ہے دین کے نام پر فتنہ پھیلانے والے یا پھر اپنے ذاتی افکار کی ترویج کرنے والے سب سے پہلے یہی باور کراتے ہیں کہ ہمیں اب علماء کی کوئی ضرورت نہیں. ہم خود سمجھدار ہیں، خود سے کتابیں پڑھ کر دین کی خدمت انجام دے سکتے ہیں. 

کوئی بھی نوجوان کتنے سال کا تجربہ کیوں نہ رکھتا ہو اگر اس پر کسی عالم کی سر پرستی نہیں ہے تو پھر کہیں نہ کہیں وہ ٹھوکر کھائے گا اتنا ہی نہیں بلکہ اسے اس ٹھوکر کا پتہ بھی نہیں چلے گا جو دعوتِ دین کی راہ میں نقصان کا باعث ہوگا۔  الغرض علماء سے دوری خود ایک عظیم فتنہ ہے۔ 


🍀 اہمیت پر نظر ہے مگر نزاکت پر نہیں: 🍀 
~~~~~~~~~~~~؛ 

دعوت کا کام جتنا اہم ہے اتنا ہی نازک بھی ہے. صرف اہمیت سے واقفیت، منہج کی سلامتی کے لیے نا کافی ہے۔ خود کے مطالعہ سے ہو سکتا ہے کہ اہمیت واضح ہو جائے بلکہ کبھی کبھار زندگی میں پیش آنے والا کوئی واقعہ یا کوئی چھوٹے سے درس سے بھی دعوت کی اہمیت سمجھ میں آجاتی ہے مگر لوگ اس کی نزاکت کو سمجھنے سے اکثر قاصر رہتے ہیں۔  نزاکت کو سمجھنا وقت طلب کام ہے جس کے لیے مسلسل علماء کی مجلسوں میں شریک ہونا اور ان سے استفادہ کرنا ضروری ہے۔  


🏵️ زیادہ کام یا صحیح کام: 🏵️ 
~~~~~~~~~~~~؛

جب جذبہ دعوت لوگوں کے دلوں میں امنڈ آتا ہے  تو یہی خیال ذہن میں رہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کام کام کیا جائے تاکہ اللہ کے یہاں اجر زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکیں. زیادہ کام کرنے کے چکر میں یہ بات ذہن سے نکل جاتی ہے کہ کام صحیح ہونا چاہیے۔ کام کی کثرت سے بھی زیادہ اہم، کام کی صحت ہے جو قبولیت کے لیے شرط ہے۔ 

پہلا موضوع یہ نہیں کہ کام زیادہ کیا جائے یا کم یہ تو ثانوی چیز ہے. بلکہ پہلا موضوع یہ ہے کہ کام صحیح منہج پر کیا جائے تاکہ صحیح طریقے پر انجام پائے. قبولیت عمل کے شرائط کو نظر انداز کرتے ہوئے زیادہ کام کرنے سے بہتر ہے صحیح طریقے پر کم کام کیا جائے، گویا صحتِ عمل کو کثرتِ عمل پر اولیت حاصل ہے. جب طریقہ کار صحیح ہو جائے تو پھر کام جتنا چاہے زیادہ کیا جا سکتا ہے. 


📌 نام کا استعمال یا کام کا استحصال: 📌 
~~~~~~~~~~~~؛ 

جب دعوتی میدان کے حوالے سے علماء کی نگرانی اور سرپرستی کی بات کی جاتی ہے تو بعض کو یہ غلط فہمی ہونے لگتی ہے کہ کسی جید عالم کو ایک آد مجلس میں بلا لیا جائے تو پھر ہمیشہ انہی کا نام لیکر دعوتی کام کیا جا سکتا ہے. جب کہ یہ سراسر خیانت ہے اور وہ عالمِ دین ایسے افراد کی سرگرمیوں سے بری ہے. 

اہلِ علم کی نگرانی کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ علماء سے جڑے رہیں اور جس جس موضوع پر دعوتی میدان میں بات کرنی ہو، ان تمام موضوعات کو علماء سے سمجھنا ضروری ہے، ورنہ علماء کا بس نام رہ جائے گا کام اپنے طرز پر کر کے علماء کا نام استعمال کرنا سراسر خیانت ہے اس سے علماء پر اعتماد کرنے والوں کا نقصان ہوگا، کیوں کہ وہ علماء کا نام دیکھ کر ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے کام کو صحیح سمجھیں گے. 


☘️ کیا نتائج داعی کی کامیابی ہے؟: ☘️ 
~~~~~~~~~~~~؛ 

بعض احباب جو جذبہ دعوت سے مالامال ہوتے ہیں وہ کم علمی کی وجہ سے کامیابی کی بنیاد نتائج پر رکھتے ہیں مگر یہ ذہنیت صحیح نہیں ہے۔ یہ ذہن علماء سے دوری کا نتیجہ ہے۔ یہی نتائج کا ٹینشن انسان کو منہج سے آزاد کرتاہے.  کیوں کہ نتائج دیکھا ہوا شخص اس میں کمی کو برداشت نہیں کرتا. یہیں سے منہج سے بیزاری اور علماء سے دوری کا مرض بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ جب کہ ہدایت دینا اللہ کے اختیار میں ہے۔ جب انسان نتائج کو اصل سمجھ لیتا ہے تو پھر نتائج کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لیتا ہے جس کی وجہ سے اسے منہج ایک بوجھ بلکہ راہِ دعوت میں ایک رکاوٹ نظر آنے لگتا ہے۔ نتیجہ میں وہ سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہے چاہے صحیح ہو کہ غلط، بہر صورت وہ نتیجہ چاہتا ہے۔ نتائج پر کامیابی کی بنیاد رکھنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس راہ میں ہونے والی خامیوں کی جو نشاندہی کرتا ہے اسے حاسد سمجھا جاتا ہے۔ جو کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہے۔
کسی بھی داعی سے شرعا محنت اور خلوص مطلوب ہے اور نتائج کا وہ ذمہ دار اور مسؤل نہیں ہے جیسا کہ انبیاء کی سیرتیں اس بات پر واضح ثبوت ہیں. الغرض داعی کی کامیابی کا دار و مدار ان کی محنت اور خلوص پر ہے نہ کہ نتائج پر. 


📌 خامیوں کی نشاندہی عظیم احسان ہے: 📌 
~~~~~~~~~~~~؛

جب کسی بھی میدان میں کسی شخصیت سے منہجی اور اصولی خامیان سرزد ہو جاتی ہیں تو اس کی طرف توجہ دلانے والےکی اسے قدر کرنی چاہیے۔ اور یہ ہر دور میں اہلِ علم کا شیوہ رہاہے. اس کے برخلاف اسے متشدد سمجھنا، حاسد سمجھنا اور دشمن سمجھنا انتہائی افسوسناک بات ہے۔ اپنے موقف پر رد کرنے کو ناپسند کرنا قلتِ اخلاص کی دلیل ہے ورنہ تو مخلص کی پہچان یہ ہے کہ وہ خامیوں کی اصلاح کی فکر میں لگا رہتا ہے اور دلائل کی روشنی میں اگر کوئی اس کے موقف کو چھوڑ کر دوسرا موقف اپناتاہے تو وہ اپنے دل ہی دل میں خوشی محسوس کرتا ہے کیوں کہ اس کا مقصد صحیح منہج کی وضاحت ہے جو کسی سے بھی ملے اپنا قیمتی سرمایہ سمجھ کر اسے قبول کرتاہے۔ 

ایک مخلص انسان کی تڑپ ہی یہی ہوتی ہے کہ اگر اس کی بات شرعی اصولوں کے برخلاف نکلے تو اس کی بات چھوڑ دی جائے اور دین کی بات لوگوں میں عام ہو جائے۔ 

رہی بات یہ سمجھنا کہ کسی شخصیت کے اغلاط پر رد کرنے والے اس شخصیت سے عوام کو دور کرنا چاہتے ہیں، بالکل غلط ہے۔ کیوں کہ ایسے موقع پر شخصیت نہیں بلکہ شخصیت کا غلط موقف ٹارگیٹ ہوتا ہے. ویسے بھی اس غلط موقف کی حد تک اس شخصیت سے لوگوں کو دور کرنا شرعی تقاضا ہے اور عند اللہ اجر کا باعث ہے۔ 

منجی اور عقدی خامیوں پر جب نشاندہی کی جائے تو اس کی خدمات شمار کر کے خامیوں پر پردہ پوشی کرنا مناسب نہیں ہے۔ 


🍀 حوصلہ افزائی ایک اہم ذمہ داری: 🍀 
~~~~~~~~~~~~؛ 

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ غیر مسلموں سے تعلقات زیادہ تر عوام الناس کے ہوتے ہیں اور وہ ان کی زبان سے بھی بہتر طور پر واقف ہوتے ہیں. جب ایسے افراد میں دعوت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اہلِ علم کو اپنا علمی سرپرست مانتے ہیں تو پھر انھیں علمی فائدہ پہنچانے اور مفید مشوروں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کرنا بھی ایک اہم ذمہ داری ہے. 

حوصلہ افزائی کے دو بول، تین بڑے فوائد کا ضامن ہیں: 

ایک یہ کہ وہ علماء سے لگے رہیں گے 

دوسرا یہ کہ دعوتی میدان میں استقامت انھیں نصیب ہوگی، انقطاع کے بغیر یہ کام چل سکتاہے۔ 

تیسرا یہ کہ جب کسی خامی کی طرف نشاندہی کی جائے تو بخوشی اسے قبول کریں گے اور اپنی اصلاح بھی کر لیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کی دعوت اغلاط سے پاک ہوگی۔ 


📚 اہلِ علم سے مؤدبانہ گذارش: 📚  
~~~~~~~~~~~~؛

دعوتی میدان میں کام کرنے کے لیے امت کے افراد بے چین ہیں اور وہ اچھی خاصی تڑپ بھی رکھتے ہیں لیکن انھیں علماء کی گرانی حاصل نہ ہوئی تو پھر یہ اپنے جذبے کو چھوڑنے والے نہیں بلکہ غلط منہجِ دعوت ان کا استقبال کرنے کو تیار ہے. خود ساختہ اصولوں پر علم کے بغیر دعوت کا فریضہ انجام دینے والے انھیں بآسانی اچک لیں گے۔ بس اہل علم اس جانب بھی اپنی خصوصی توجہ دیں کہ عقیدہ، منہج اور طریقہ دعوت جیسے موضوعات کی انھیں تعلیم دیں. 

حصولِ علم کے لیے ان نوجوانوں کا سات دن، دس دن، بیس دن یا ایک مہینہ وقت نکالنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے دلوں میں اہلِ علم سے علم لینے اور علماء کی نگرانی میں کام کرنے کا مخلصانہ جذبہ ہے. اس جذبے کی قدر کی جائے. 

اہلِ علم مقامی زبانیں نہ جاننے یا پھر دیگر علمی مصروفیات کی وجہ سے (چاہت کے باوجود) غیر مسلموں تک نہیں پہنچ سکتے ہیں، یہ کام احسن طریقے سے یہ نوجوان انجام دیتے ہیں اور ان کے تعلقات بھی غیر مسلموں سے اچھے ہیں، جو راہِ دعوت میں بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں. 

بہت سارے جید علماء اور فارغینِ مدارس اس ناحیے سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اپنا قیمتی وقت نکال کر طلبہ کی تربیت کرتے ہیں اور مختلف بنیادی موضوعات سے متعلق انھیں مستفید کرتے ہیں، میدان میں آنے والے غیر مسلموں کے سوالات اور شکوک و شبہات کا مدلل جواب دیتے ہیں تاکہ یہ طلبہ علم کی روشنی میں دعوتِ اسلام پہنچائیں۔ دیگر فارغینِ مدارس اور اہلِ علم کو بھی چاہیے کہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ان نوجوانوں کی جانب متوجہ ہوں۔ 


⭕ نوجوانوں کی تربیت میں قابلِ توجہ موضوعات: ⭕ 
~~~~~~~~~~~~؛ 

جب، دعوتی کام سے دلچسپی رکھنے والوں کی تربیت کی جاتی ہے تو انھیں علماء سے جوڑے رکھنے اور صحیح منہج پر باقی رکھنے کے لیے چند موضوعات پر بات کرنا بے حد ضروری ہے بلکہ بنیاد ہے۔ 

مثلا: 
محدثین کی خدمات، طلبِ علم کی راہ میں اسلاف کی قربانیاں، دعوت کا صحیح معنی و مفہوم، مسلمانوں میں پائے جانے والے عقائد کا بگاڑ اور ان کی اصلاح، جذبہ اتباع سنت وغیرہ وغیرہ۔ 

ان موضوعات پر اگر روشنی ڈالی جائے تو یہ نوجوان خدمتِ دین کا اصل معنی و مفہوم سمجھیں گے اور کبھی انہیں اپنے کام پر غرور پیدا نہیں ہوگا اور نہ ہی علماء کی تحقیر ان کے دل میں جگہ بنا سکتی ہے اور نہ ہی وہ اہلِ علم کی خدمات کا انکار کر سکتے ہیں. 

ایسے موضوعات پر دروس ہونے سے ان کے جذبات قابو میں رہیں گے مزید یہ کہ کسی بھی غیر عالم کےخود ساختہ منہج سے متاثر نہیں ہوں گے۔ 

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دعوتِ دین کے حوالے سے جو بھی باتیں بیان کی جائیں وہ علم کی روشنی میں ہوں. علم کے بغیر لب کشائی نہ کی جائے. 

امام ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
"و اما اضلال الناس فلانہ قد یدعوھم الی محرم و ھو لایدری انہ محرم فقد یبیح لھم ماحرم اللہ. و قد یوجب علیھم مالم یوجبہ اللہ۔ فلا بد لکل داعیۃ الی اللہ عزوجل من ان یکون عالما بما یدعو الیہ". 

"رہا لوگوں کو گمراہ کرنے کا معاملہ کبھی داعی لوگوں کو حرام کی طرف بلا رہا ہوتا ہے اور اسے پتہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ چیز حرام ہے. اور کبھی وہ اللہ کی حرام کردہ چیز کو جائز بتاتا ہے۔ اور کبھی اس چیز کو واجب قرار دیتاہے جسے اللہ نے واجب نہیں قرار دیا۔ ہر داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس چیز کا عالم ہو جس چیز کی لوگوں کو دعوت دے رہاہے". 
(فتاوی محمد بن صالح العثیمین) 

امام ابن عثیمین کی اس نصیحت سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں: 

پہلی بات یہ کہ دعوت کی ذمہ داری کس قدر نازک ہے کہ علم کے بغیر زبان نہیں کھولی جا سکتی. 

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو بات بھی مدعو کے سامنے پیش کی جائے اس بات کے تعلق سے داعی کے پاس یقینی علم ہونا چاہے کہ میں جو بات بتا رہا ہوں وہ ایسی ہی ہے۔ 

اخیر میں دوبارہ یہ بات کہہ دوں کہ علم کے بغیر دعوت کا فریضہ انجام دینا نقصان دہ ہے، یہ نقصان مدعو کو بھی ہو سکتا ہے اور داعی بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سنجیدگی کے ساتھ دعوتِ دین کو سمجھنے اور امت کی صحیح رہنمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ڈی. ضیاء الرحمن کڑموری 
(فاضل جامعہ دارالسلام عمرآباد) 
15/ اگست 2021ء 

.