منگل، 29 ستمبر، 2020

ماہِ صفر اور سوشل میڈیا کی ایک روایت کی حقیقیت ‏اکبر ‏علی ‏سلفی

.

بسم الله الرحمن الرحيم 
𖣔═══════════════════════𖣔 ⁩

ماہِ صفر میں آفتوں کا نزول اور ایک من گھڑت روایت 

حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفی اللہ عنہ
صدر البلاغ اسلامک سینٹر 

~~~~؛

الحمد للہ وحدہ ،والصلاۃ و السلام علی من لا نبی بعدہ، اما بعد :

محترم قارئین ! آج (3/اکتوبر/2019) صبح نمازِ فجر کے بعد ایک گروپ میں ایک حدیث دیکھی، جس کے الفاظ یہ تھے :

”صفر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ صفر کے مہینے میں ساری آفتیں اور مصیبتیں زمین پر اترتی ہے ، اس لئے ان سب سے حفاظت کے لئے ہر نماز کے بعد گیارہ (11) مرتبہ :”یا باسط ، یا حافظ“ کا وِرد کرے“۔

جس بھائی نے یہ روایت بھیجی تھی، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ روایت آپ کو کہاں سے ملی ؟ لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر میں نے ان کے پرسنل میں بھی یہی سوال کیا لیکن وہاں بھی انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔

پھر میں نے خود اس روایت کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور خوب تلاش کیا لیکن پوری روایت تو دور ، روایت کا کوئی ایک حصہ بھی نہیں مل سکا ۔

نیز روایت کے یہ الفاظ :” صفر کے مہینے میں ساری آفتیں اور مصیبتیں زمین پر اترتی ہے“ بھی اللہ کے نبی ﷺ کے شایانِ شان نہیں ہیں۔
اسی وجہ سے راقم بلا تردد یہ بات کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک ” من گھڑت روایت“ ہے ، اللہ کے نبی ﷺ پر جھوٹ بولا گیا ہے۔

جو لوگ اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں ، میں ان سے با ادب گزارش کرتا ہوں کہ اللہ کے واسطے نبی کریم ﷺ کی جانب کوئی ایسی بات منسوب مت کرو جو آپ نے نہ کہی ہو کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ درج ذیل حدیث کے مصداق ہو گے :
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :

”مَنْ يَّقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ“ 

”جس نے مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔ 
(صحیح البخاری :109)

ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ“

”جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔ 
(صحیح البخاری :110)

اور اگر کوئی کہتا ہے کہ نہیں، مذکورہ بات اللہ کے نبی ﷺ نے کہی ہے تو ایسے شخص سے باادب عرض ہے کہ نبی کریم ﷺ کے مذکورہ فرمان کی صحیح یا حسن سند دنیا کی کس کتاب میں موجود ہے ؟ حوالہ پیش کردیں، بس ۔

اور اگر کوئی ضعیف یا موضوع سند ہی موجود ہو تو کم از کم اسی کی طرف رہنمائی کر دیں ۔

موجودہ دور کے وضاعینِ حدیث :

موجودہ دور میں جو لوگ حدیثیں گھڑتے ہیں ، ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ :

(1) وہ صرف حدیث گھڑتے ہیں ، بس!!! اور اس کے ساتھ کوئی حوالہ نہیں لگاتے ۔

(2) اور کبھی کبھار حدیث بھی گھڑتے ہیں اور ساتھ میں صحیح بخاری، صحیح مسلم وغیرہ کا حوالہ بھی لگا دیتے ہیں۔

ایسے لوگوں سے باادب عرض کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈریں اور اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائیں اور لوگوں کو گمراہ نہ کریں۔

اب دو (2) باتیں بطور فائدہ پیش خدمت ہیں:

[پہلی بات]  
ماہِ صفر میں آفتیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ،یہ بات : 

(1) اللہ تعالی نے نہیں کہی ہے۔

(2) نا اُس کے آخری نبی محمد ﷺ نے کہی ہےاور نا ہی اس کی تعلیم دی ہے۔

(3) اور نا ہی کسی صحابی رسول نے کہی ہے۔

بلکہ یہ بعض لوگوں کی گھڑی ہوئی باتوں میں سے ایک بات ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

[دوسری بات]  
اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے تھے اور اُسی وقت اللہ کے نبی ﷺ نے اُن کے اِس عقیدے کی تردید بھی کر دی تھی۔

آپ ﷺ نے فرمایا تھا : ”وَلَا طِیرَۃَ وَ لَا صَفَرَ“ ”کوئی بد شگونی نہیں ہے اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے “۔ 
(صحیح البخاری:5757 و سنن ابی داؤد بتحقیق الالبانی:3911 واللفظ لہ)
محدث محمد بن راشد الدمشقی رحمہ اللہ (المتوفی ، بعد :160ھ) فرماتے ہیں :
”أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ يَسْتَشْئِمُونَ بِصَفَرٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا صَفَرَ“
”اہل جاہلیت ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ماہ صفر منحوس نہیں ہے“۔
(سنن ابی داود بتحقیق الالبانی :3915، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے)

لیکن افسوس ! جس عقیدے کی تردید اللہ کے نبی ﷺ نے چودہ سو سال پہلے کی تھی ، آج اسی عقیدے کو بعض جاہل مسلمانوں نے اپنا لیا ہے، اللہ ایسے لوگوں پر رحم فرمائے اور ہدایت دے۔ آمین۔
اور امام عبد الرحمن بن احمد ، المعروف بابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ (المتوفی:795ھ) نے اپنے زمانے میں ہی کہا تھا :
”وكثير من الجهال يتشاءم بصفر وربما ينهى عن السفر فيه والتشاؤم بصفر هو من جنس الطيرة المنهى عنها“
”بہت سے جاہل ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور بسا اوقات وہ اس مہینے میں سفرکرنے سے رکے رہتے ہیں اور ماہ صفر کو مسحوس سمجھنا ، یہ بد شگونی کی جنس سے ہے جس سے منع کیا گیا ہے“۔ (لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف ، ص:74)

[خلاصۃ التحقیق] 
زیر بحث روایت بے سند اور من گھڑت ہے اور ماہ صفر کو منحوس سمجھنا، مسلمان کا کام نہیں ہے۔ والعلم عند اللہ تعالی.
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین .

15-صفر -1441ھ
15-OCT-2019
 
~~~~؛
 
 پی ڈی یف کیلئے 
ماہِ صفر اور سوشل میڈیا کی ایک روایت کی حقیقیت  

حافظ اکبر علی سلفی 

صفحات 3 


~~~~

مزید تحقیقی کتب و مقالات کیلئے 
"سلفی تحقیقی لائبریری"  ٹیلیگرام چینل میں جوائین ہو جائیں 

داخلہ لنک: 

ٹلیگرام ایپ کی لنک: 

شئیر 

.

ہفتہ، 26 ستمبر، 2020

مصافحہ ‏کی ‏دعاء ‏یغفر ‏اللہ ‏لنا ‏ولکم ‏کا ‏حکم؟ ‏فاروق ‏عبد ‏اللہ

.

        بسم الله الرحمن الرحيم 
     ┄┅════❁ ❁════┅┄

مصافحہ کے بعد ”یغفر الله لنا ولکم“ کہنے کی شرعی حیثیت 

فاروق عبداللہ نراین پوری 

اسلام ایک ایسا مکمل دین ہے جس نے زندگی کے ہر شعبہ میں انسان کی مکمل رہنمائی کی اور روز مرہ پیش آنے والے زندگی کے مختلف امور کو عبادت و بندگی سے جوڑ دیا تاکہ انسان کسی وقت اللہ تعالی کے ذکر سے غافل نہ رہے اور وہ آخرت میں اس کی بلندی درجات کا سبب بنے۔ 

ان میں سے ایک بہت ہی مبارک عمل ملاقات کے وقت تحفۂ سلام پیش کرنا ہے، جس میں ایک شخص اپنے بھائی کے لیے سلامتی اور رحمت و برکت کی دعا کرتا ہے ۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے وقت مصافحہ کرنے کی تعلیم بھی دی ہے اور اس کی فضیلت بیان کی ہے، آپ کا ارشاد ہے: 

«مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ، إِلَّا غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَتَفَرَّقَا» 

(جب دو مسلمان ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ہی ان کو بخش دیا جاتا ہے) 

[سنن ابی داود،حدیث نمبر۵۲۱۲/ جامع ترمذى، حدیث نمبر۲۷۲۷/ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر۳۷۰۳۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ (۲/۵۶) حدیث نمبر (۵۲۵) میں اس کی تخریج کرتے ہوئے کہا ہے : ”یہ حدیث تمام طرق اور شاہد کی بنا پر صحیح یا کم از کم حسن درجے کی ہے“۔]

اور ایک دوسری حدیث میں ہے، براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 

دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَحَّبَ بِي وَأَخَذَ بِيَدِي، ثُمَّ قَالَ: يَا بَرَاءُ تَدْرِي لِأَيِّ شَيْءٍ أَخَذْتُ بِيَدِكَ؟ ، قَالَ: قُلْتُ: لَا يَا نَبِيَّ اللهِ، قَالَ: لَا يَلْقَى مُسْلِمٌ مُسْلِمًا فَيَبَشُّ بِهِ، وَيُرَحِّبُ بِهِ، وَيَأْخُذُ بِيَدِهِ إِلَّا تَنَاثَرَتِ الذُّنُوبُ بَيْنَهُمَا كَمَا يَتَنَاثَرُ وَرَقُ الشَّجَرِ 

[شعب الایمان:۱۱/۲۸۹، حدیث نمبر۸۵۵۵، اس کی سند حسن ہے]

(میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے مرحبا کہا اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: اے براء تم جانتے ہو کہ میں نے کس وجہ سے تمھارا ہاتھ پکڑا ہے؟ میں نے کہا: نہیں اے اللہ کے نبی۔ آپ نے فرمایا: جب کوئی مسلمان کسی مسلمان سے ملاقات کرتا ہے اور اس سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتا ہے، اس کو مرحبا کہتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑتا ہے تو دونوں کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں)

تو اتنی عظیم فضیلت ہے سلام کے ساتھ مصافحہ کرنے کی کہ اللہ رب العزت ان کے جدا ہونے سے پہلے ہی ان کی مغفرت فرما دیتا ہے اور ان کے گناہوں کو درختوں کے پتوں کی طرح جھاڑ دیتا ہے۔

اس موقع پر بہت سارے حضرات کو ایک خاص ذکر کا وِرد کرتے ہوئے سنا جاتا ہے۔ وہ مصافحہ کے بعد کہتے ہیں : ”یغفر اللہ لنا ولکم“ جس میں وہ اپنےاور سامنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ 

حدیث مذکور میں خندہ پیشانی کے ساتھ ملنے، مرحبا کہنے اورمصافحہ کرنے کا ذکر ہے۔ اور انھی امور کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالی سے طلب مغفرت کی کوئی دعا نہیں سکھلائی گئی ہے۔ 
البتہ ”یغفر اللہ لنا ولکم“ کہنےکے لیے ایک حدیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہے جو درج ذیل ہے: 

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: 

«إذا التقَى المُسْلِمان، فتصافحا، وحَمِدا الله عزَّ وجلَّ واستَغْفَرَاه، غُفر لهما» 

(جب دو مسلمان آپس میں ملاقات ہونے پر مصافحہ کرتے ہیں اور اللہ تعالی کی حمد وثنا اور اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں تو ان دونوں کو بخش دیا جاتا ہے) 

اس حدیث کو امام بخاری نے ”تاریخ کبیر“(۳/۳۹۶) میں، ابو داود نے ”سنن“(۷/۵۰۲، حدیث نمبر۵۲۱۱) میں، دولابی نے ”کنی“(۲/۴۷۸) میں، ابو یعلی نے ”مسند“(۳/۲۳۴، حدیث نمبر ۱۶۷۳) میں اور بیہقی نے ”شعب الایمان“(۱۱/۲۸۸، حدیث نمبر۸۵۵۴) و”سنن کبری“ (۷/۱۶۰) میں ”هشيم عن أبي بلج عن زيد بن أبي الشعثاء عن البراء بن عازب رضي الله عنه“ کے طریق سے مرفوعًا روایت کیا ہے۔ 

اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس میں مصافحہ کے بعد استغفار کی رہنمائی کی گئی ہے اس لیے مصافحہ کے بعد اس پر عمل کرتے ہوئے ”یغفر اللہ لنا ولکم“ کہنا چاہیے ۔ 

لیکن یہ حدیث درج ذیل اسباب کی بنا پر ضعیف ہے: 

پہلی علت: 
 براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے زید بن ابو الشعثاء مجہول ہیں، ابن حبان کے علاوہ کسی دوسرے سے ان کی توثیق نہیں ملتی۔ ابن حبان نے انھیں اپنی کتاب ”الثقات“ میں ذکر کیا ہے۔ جب کہ حافظ ذہبی نے کہا ہے کہ ان سے صرف ابو بلج نے روایت کیا ہے اور وہ غیر معروف ہیں۔ اور حافظ ابن حجر نے انھیں ”مقبول“ کہا ہے۔ ان کے مقبول کہنے کا مطلب ہوتا ہے کہ متابعت کی صورت میں مقبول ہیں ورنہ ”لین الحدیث“ ہیں ۔[الثقات لابن حبان (۴/۲۴۸)، ميزان الاعتدال (۲/۱۰۴)، تقريب التہذيب، ترجمہ نمبر(۲۱۴۱)]
اور یہاں کسی کی جانب سے ان کی متابعت نہ مل سکی۔ 

دوسری علت: 
اس کے اسناد میں اضطراب ہے۔ 
ابو بلج سے اس حدیث کو تین لوگوں نے روایت کیا ہے: (۱) ہشیم بن بشیر (۲) ابو عوانہ (۳) زہیر بن معاویہ
ان تینوں نے اس حدیث کو ابو بلج سے روایت کرتے وقت ابو بلج کے شیخ کے نام میں اختلاف کیا ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: 
۱۔ بعض روایتوں میں انھیں زید ابو الحکم یا ابو الحکم زید کہا گیا ہے۔ 
[السنن لابی داود، حدیث نمبر ۵۲۱۱، التاریخ الکبیر للبخاری۳/۳۹۶، الکنی للدولابی۲/۴۸۷، شعب الایمان للبیہقی۱۱/۲۸۹، حدیث نمبر ۸۵۵۴] 

۲۔ بعض روایتوں میں زید بن ابو الشعثاء ہے۔ 
[المسند لابی یعلی۳/۲۳۴، حدیث نمبر۱۶۷۳، شعب الایمان للبیہقی۱۱/۲۸۹، حدیث نمبر۸۵۵۴، السنن الکبری للبیہقی۷/۱۶۰]
۳۔بعض میں جابر بن زید ابو الشعثاء ہے۔ [عمل الیوم واللیلہ لابن السنی ص۱۲۷-۱۲۸، حدیث نمبر ۱۹۳] 

۴۔ بعض میں بغیر کسی نسبت کے فقط زید ہے۔ 
[التاریخ الکبیر للبخاری:۳/۳۹۶]
یہ تمام روایات ہشیم بن بشیر کی ہیں۔ 

۵۔ بعض میں ابو الحکم ہے۔ 
[مصدر سابق]

۶۔ بعض میں زیاد ابو الحکم البجلی ہے۔ 
 [مسند الطیالسی، حدیث نمبر۷۸۷] 
 
۷۔ بعض میں علی ابو الحکم البصری ہے۔ 
[مصدر سابق، مسند احمد۳۰/۵۵۸، حدیث نمبر۱۸۵۹۴] 

۸۔ بعض میں صرف الحکم ہے، مگر یہ مردود ہے، کیونکہ اس سے روایت کرنے والا مجہول شخص ہے۔ چنانچہ ابن وہب کی الجامع (ص۲۷۷، حدیث نمبر۱۸۵) میں ہے: 
”أخبرني أشهل بن حاتم، عن رجل، حدثه عن الحكم، عن البراء بن عازب“۔
امام بخاری نے ”التاریخ الکبیر“(۳/۳۹۶، ترجمہ نمبر۱۳۲۴) میں اس اضطراب کی طرف اشارہ کیا ہے، اور حافظ منذری نے ”الترغیب والترہیب“(۳/۲۹۰، حدیث نمبر۴۱۱۱) میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے: “وإسناد هذا الحديث فيه اضطرا ب”۔ 
 (اور اس حدیث کے اسناد میں اضطراب ہے)
 
تیسری علت: 
 اس حدیث کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی ”مسند‘‘(۳۰/۵۵۷-۵۵۸، حدیث نمبر۱۸۵۹۴) میں ایک دوسرے طریق سے روایت کیا ہے۔ اس میں زید بن ابو الشعثاء کی جگہ ”ابو الحکم علی البصری“ ہے۔ اور اس کے اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے درمیان ”ابو بحر“ نامی ایک راوی کا واسطہ ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں: 
 
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَلْجٍ يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْحَكَمِ عَلِيٌّ الْبَصْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَحْرٍ، عَنِ الْبَرَاءِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَيُّمَا مُسْلِمَيْنِ الْتَقَيَا، فَأَخَذَ أَحَدُهُمَا بِيَدِ صَاحِبِهِ، ثُمَّ حَمِدَا اللهَ، تَفَرَّقَا لَيْسَ بَيْنَهُمَا خَطِيئَةٌ 

امام ابن ابی حاتم نے اس طریق سے اس حدیث کے متعلق اپنے والد امام ابو حاتم رازی سے سوال کیاتو انھوں نے جواب دیا: 

قَدْ جَوَّد زهيرٌ هَذَا الحديثَ، وَلا أَعْلَمُ أَحَدًا جَوَّد كَتَجْوِيدِ زُهَيْرٍ هَذَا الْحَدِيثَ. قلتُ لأَبِي: هو محفوظٌ؟ قَالَ: زهيرٌ ثقة 
[علل الحديث لابن ابى حاتم۶/۶۴، سوال نمبر۲۳۱۸]
حافظ ذہبی نے ”میزان الاعتدال“(۲/۱۰۴، ترجمہ نمبر ۳۰۱۱) میں اس طریق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:قيل: بينه وبين البراء رجل۔ 
حافظ ابن حجر ”تعجیل المنفعہ“(۲/۲۸-۲۹) میں فرماتے ہیں: 

وَخَالفهُم زُهَيْر بن مُعَاوِيَة، فَرَوَاهُ عَن أبي بلج، قَالَ: حَدثنِي عَليّ أَبُو الحكم، فَسَماهُ عليًّا، وَانْفَرَدَ بذلك، وَمن طَرِيقه أخرجه أَحْمد، وَخَالف زُهَيْر أَيْضًا فِي السَّنَد، فَأدْخل بَين أبي الحكم والبراء بن عَازِب رَاوِيًا وَهُوَ أَبُو بَحر  

(اور زہیر بن معاویہ نے ان کی مخالفت کی ہے اور اسے یوں روایت کیا ہے: ”عَن أبي بلج، قَالَ: حَدثنِي عَليّ أَبُو الحكم“۔ تو اس کا نام علی ذکر کیا ہے اور وہ اس میں منفرد ہیں۔ انھی کے طریق سے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ زہیر نے اس کی سند میں یہ مخالفت بھی کی ہے کہ ابو الحکم اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک راوی کو داخل کیا ہے اور وہ ابو بحر ہیں) 

ابو بحر کو امام ابو حاتم رازی، حافظ ذہبی، علامہ حسینی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے مجہول کہا ہے۔ 
[تعجیل المنفعہ (۲/۴۱۴)، المغني في الضعفاء (۲/۷۷۱) ترجمہ نمبر (۷۳۰۹)، الاكمال في ذكر من لہ روایۃ في مسند الامام احمد من الرجال سوى من ذكر في تهذيب الكمال للحسيني (۱/۴۸۹) ترجمہ نمبر (۱۰۳۵)، لسان الميزان (۹/۲۰) ترجمہ نمبر (۸۷۶۰)] 

چوتھی علت: 
اس حدیث کو براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے زید بن ابو الشعثاء کے علاوہ کئی راویوں نے روایت کیا ہے مگر انھوں نے استغفار کا ذکر نہیں کیا ہے۔ وہ ہیں: 

(الف) 
 ابو بحر: 
مسند احمد کے حوالے سے اوپر ان کی حدیث گزر چکی ہے۔ اس میں استغفار کا ذکر نہیں ہے۔ 

(ب) 
ابو اسحاق السبیعی: 
امام ابو داود نے ان کی حدیث روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں: 

حدَّثنا أبو بكر بنُ أبي شيبةَ، حدَّثنا أبو خالدٍ وابنُ نُمير، عن الأجلحِ، عن أبي إسحاق عن البراء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما مِن مُسلِمَينِ يلتقيانِ، فيتصافحان، إلا غُفِر لهُما قبلَ أن يَفْتَرِقا۔ 
[سنن ابی داود:۷/۵۰۲، حدیث نمبر۵۲۱۲]
اس میں ابو اسحاق السبیعی مدلس ہیں اور انھوں نے عنعنہ سے روایت کیا ہے۔ 
[طبقات المدلسین: ص۴۲] 

نیز وہ اختلاط کے بھی شکار ہو گئے تھے اور یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اجلح بن عبد اللہ الکندی نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا ہے یا بعد میں۔ 
[الكواكب النیرات، ص۳۴۱] 

اس حدیث کے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: 

"یہ حدیث تمام طرق اور شاہد کی بنا پر صحیح یا کم از کم حسن درجے کی ہے“۔ 
[سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ:۲/۵۹، حدیث نمبر۵۲۵]

(ج) 
ابو العلاء بن الشخیر: 
امام طبرانی نے ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں: 

حدثنا موسى بن زكريا، حدثنا الصلت بن مسعود الجحدري، حدثنا عمرو بن حمزة، حدثنا المنذر بن ثعلبة، حدثنا أبو العلاء بن الشخير، عن البراء بن عازب قال: لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذ بيدي، فصافحني، فقلت: يا رسول الله، إن كنت أحسب المصافحة إلا في العجم. قال: «نحن أحق بالمصافحة منهم، ما من مسلمين يلتقيان فيأخذ أحدهما بيد صاحبه بمودة ونصيحة إلا ألقى الله ذنوبهما بينهما»
[المعجم الاوسط:۸/۱۸۲] 

اس کی سندمیں عمرو بن حمزہ قیسی بصری ضعیف یا مجہول ہیں۔ 
 [میزان الاعتدال، لسان المیزان۴/۳۶۱، تعجیل المنفعہ۷۸۸] 
 
(د) 
یزید بن براء بن عازب: 
امام بیہقی نے ”شعب الایمان‘‘ (۱۱/۲۸۹، حدیث نمبر۸۵۵۵) میں ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں: 

أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ يُوسُفَ، حدثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: حدثنا حُسْنُ بْنُ عَطِيَّةَ، قَالَ: حدثنا قَطَرِيٌّ الْخَشَّابُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَحَّبَ بِي وَأَخَذَ بِيَدِي، ثُمَّ قَالَ: يَا بَرَاءُ تَدْرِي لِأَيِّ شَيْءٍ أَخَذْتُ بِيَدِكَ؟ ، قَالَ: قُلْتُ: لَا يَا نَبِيَّ اللهِ، قَالَ: لَا يَلْقَى مُسْلِمٌ مُسْلِمًا فَيَبَشُّ بِهِ، وَيُرَحِّبُ بِهِ، وَيَأْخُذُ بِيَدِهِ إِلَّا تَنَاثَرَتِ الذُّنُوبُ بَيْنَهُمَا كَمَا يَتَنَاثَرُ وَرَقُ الشَّجَرِ 

اس کی سند حسن ہے۔ محقق کتاب ڈاکٹر عبد العلی عبد الحمید حامد نے بھی اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ 

ان تمام روایتوں میں، خصوصا یزید بن براء بن عازب کی روایت میں استغفار کا ذکر نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے یہ لفظ ثابت نہیں ہے۔ 

خلاصۂ کلام یہ کہ مذکورہ چاروں علتوں کی بنا پر حدیث براء بن عازب استغفار کے سیاق کے ساتھ ضعیف ہے، قابل عمل نہیں۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ”سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ“ (حدیث نمبر۲۳۴۴) میں استغفار کے سیاق کے ساتھ اسے ضعیف کہا ہے۔ 

اور چونکہ دعائیں اور ذکر و اذکار توقیفی ہیں، یعنی کسی کو ان میں کمی یا زیادتی کا کوئی اختیار نہیں، اس لیے مصافحہ کے بعد ”یغفر اللہ لنا ولکم“ کا اضافہ ایک غیر مشروع عمل ہے۔ کیونکہ بلا شبہ یہ ایک ذکر ہے جسے ہم نے ایک خاص وقت کے ساتھ متعین کر لیا ہےـ جس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ملتی ۔ 

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما اتخاذ ورد غير شرعي واستنان ذكر غير شرعي فهذا مما ينهى عنه 
(کسی غیر شرعی ورد اورغیر شرعی ذکر کو سنت بنانے سے منع کیا گیا ہے) ۔ 
[مجموع الفتاوى،۲۲/۵۱۰-۵۱۱]

اور علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
الضابط في الأذكار أو في غيرها من العبادات ما جاءت به السنة, فما جاءت به السنة فهو حق, وما لم تأت به السنة فهو بدعة، لأن الأصل في العبادات الحظر والمنع حتى يقوم الدليل على أنها مشروع مة 
[لقاءات الباب المفتوح:۱/۲۷۶] 

(اذکار اور دوسرے عبادات کا ضابطہ یہ ہے کہ جس پر سنت سے دلیل موجود ہو وہ سنت ہے اور جس پر سنت سے دلیل موجود نہ ہو وہ بدعت ہےـ اس لیے کہ عبادات میں اصل منع ہے یہاں تک کہ اس کی مشروعیت پر دلیل قائم ہو جائے) 

اس لیے ملاقات کے وقت سنت پر عمل کرتے ہوئے مصافحہ کے ساتھ فقط ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ“ پر ہی اکتفا کرنا چاہیے اور اس کے بعد ”یغفر اللہ لنا ولکم“ کا اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔ 

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اس کے احکام و فرامین پر کما حقہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔  آمین 

.

جمعہ، 18 ستمبر، 2020

علی حسن الحلبی البانی کے شاگرد؟ مامون سلفی ‏

.

❁════┅┄ ﷽ ┄┅════❁ 

علی حسن الحلبی البانی کے شاگرد؟ مامون سلفی 

مرجئ بدعتی علی حسن بن عبد الحمید الحلبی الاثری محدث العصر علامہ البانی کے شاگرد نہ تھے 

از قلم 
مامون رشید ہارون رشید سلفی 

بڑے بڑے افاضل کرام اور مشائخ عظام کی زبانی بارہا یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ "علی الحلبی" محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے جس کے ذریعے ایک طرح سے ان کی توثیق وتعدیل اور تزکیہ وتبحر علمی کا اثبات مقصود ہوتا ہے حالانکہ حقیقتاً معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے...

ان چند سطور میں میں علمائے کرام اور خود امام البانی رحمہ اللہ کی تصریحات کی بنیاد پر یہ ثابت کروں گا کہ یہ علی الحلبی صاحب آپ کے شاگرد نہیں تھے انہوں نے آپ سے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی ہے نہ تو فن حدیث میں نی ہی عقیدہ میں اور نہ ہی تفسیر فقہ منہج اور اخلاقیات وسلوک میں...یہ مختصر سا مضمون خاص اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے ہے ورنہ عالی جناب کے انحرافات کی وضاحت کے لیے عن قریب ایک مفصل مضمون لکھنے کا ارادہ ہے... 

اس سے قبل کے میں شیخ البانی کا کلام ذکر کروں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لفظ تلمیذ کے بارے میں چند باتیں ذکر کر دوں... دیکھئے لغوی وعرفی وعلمی اصطلاحات کوئی منزل من اللہ شئی نہیں ہے کہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی واقع ہونا اور معانی میں اضافہ ہونا ممکن ہی نہ ہو... یہ لوگوں کی بنائی ہوئی اصطلاح ہے جس میں تبدیلی کی گنجائش بر حال موجود ہے جیسا کہ اصول ہے "لا مشاحۃ فی الاصطلاح" لیکن ایسا نہیں ہے کہ آپ اصطلاحات وضع کرنے کے سلسلے میں شتر بے مہار کی طرح بالکل آزاد ہیں لہذا من مرضی کے اصطلاحات گھڑتے رہیں بلکہ یہ بھی چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے...لفظ تلمیذ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ابتدا میں ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا تھا جس نے بالمشافہ یعنی ڈائریکٹ کسی عالم سے باضابطہ کوئی کتاب پڑھی ہو یا کوئی علم یا فن سیکھا ہو.... پھر بعد میں تلمیذ عام معنی کے اعتبار سے ایسے شخص کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا جس نے کسی عالم کی کوئی کتاب پڑھی ہو اور اس سے متاثر ہو گیا ہو یا اس کے دروس اور خطبات سنا ہو یا سوالات و جوابات کے ذریعے ان سے کچھ سیکھا ہو لیکن ایسا نادر ہی ہوا اور جہاں کسی نے ایسی چیز کا اعتبار کیا تو ساتھ ساتھ وضاحت بھی کر دی کہ ہم اس طور پر اپنے آپ کو فلاں کا شاگرد کہہ رہے ہیں....لیکن یہاں بھی ایک شرط عائد کر دی گئی کہ اگر کسی کے ایسا کرنے سے لوگوں کو شک اور التباس ہوتا ہو اور لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ واقعی یہ فلاں کا حقیقی شاگرد ہے تو ایسی صورت میں اس سے بچنا لازمی ہے ورنہ اسے تدلیس اور جھوٹ شمار کیا جائے گا...... یاد رہے یہ محض ایک اعتباری چیز ہے یا محض عقیدت مندی میں لوگ ایسا کرتے ہیں جیسا کہ میں خود فقیہ الدنیا شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کو اپنا شیخ اور استاد مانتا ہوں حالانکہ میں نے بجز وڈیوز اور تصاویر کے بالمشافہ انہیں کبھی نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی کبھی ان سے بات چیت کی ہے....ورنہ اگر واقعی کسی کی تقریر سننے سے یا خطبات ومحاضرات میں شامل رہنے سے یا کسی سے سوالات کے ذریعے کچھ معلوم کرنے سے انسان اس کا شاگرد بن جاتا تو تمام ہندوستانی ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اور تمام سعودی اور دنیا جہان کے ڈھیر سارے مسلمان امام ابن باز کے شاگرد شمار ہوتے حالانکہ ایسا کچھ نہیں شمار کیا جاتا..... 

علی الحلبی بھی شیخ البانی کے دوسری قسم والے شاگردوں میں سے ہیں یعنی جس طرح ایک عام آدمی کسی مقرر کی تقریر سن کر یا کسی مفتی سے سوالات کر کے اس عالم اور مفتی کا شاگرد ہو جاتا ہے (حالانکہ ایسا کوئی نہیں کہتا اور سمجھتا) عین اسی طرح سے یہ صاحب شیخ البانی کے شاگرد ہیں... 


شیخ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ:آپ کا سب سے نیک اور قابل شاگرد کون ہیں جن کی کتابیں پڑھنے کی آپ ہمیں نصیحت کرنا چاہیں گے؟ 
تو آپ نے جواب دیا کہ حقیقت میں لفظ تلمیذ کے بمعنی میرے تلامذ نہیں ہیں (یعنی میرا کوئی بھی شاگرد نہیں ہے) لیکن ہاں یہاں عمان میں بعض افراد ایسے ہیں جو بارہا میرے پاس آتے ہیں اور جن مشکل بحوث اور تحقیقات کا انہیں سامنا ہوتا ہے ان کے تعلق سے مجھ سے مشورہ کرتے ہیں ان میں سے برادرم علی عبد الحمید الحلبی اور سلیم الہلالی ہیں.
 https://youtu.be/w7Nrr6lPtQ0 


ملاحظہ فرمائیں کس طرح سے شیخ نے بذات خود ان حضرات کے شاگرد ہونے کا انکار کیا اور انہیں محض مستفیدین کی فہرست میں شامل کیا..... کیا اس کے بعد بھی انہیں شیخ البانی کے شاگردوں میں شامل کیا جا سکتا ہے..؟
شیخ البانی کے مذکورہ کلام پر تعلیق لگاتے ہوئے دکتور محمد بن ہادی المدخلی کہتے ہیں(ان کی یہ تعلیق ان کے گمراہ ہونے سے پہلے کی ہے):اللہ اکبر گویا اللہ رب العالمین نے اس امام کو توفیق عطا فرمائی تھی کہ وہ یہ بات کہیں کیونکہ اللہ رب العالمین جانتے تھے کہ مستقبل میں اس آدمی کے ذریعے کیا کچھ انجام پانے والا ہے.. (کہ آپ نے اسے شاگرد نہیں بلکہ محض مستفید قرار دیا تاکہ وہ لوگوں کو فریب میں مبتلا نہ کر سکے کہ میں امام البانی کا شاگرد ہوں) 
 

https://youtu.be/w7Nrr6lPtQ0 

اسی طرح شیخ البانی رحمہ اللہ نے جب شاگردوں کی دوسری قسم کے بارے میں تفصیلات ذکر کیا کہ اگر کسی نے کسی کی کتاب پڑھی ہو اور انہی سے یا ان کی کتاب سے تفقہ حاصل کیا ہو تو تلمیذ کے عام معنی کے اعتبار سے اسے اس عالم کا شاگرد شمار کیا جا سکتا ہے  تو آپ سے سوال کیا گیا کہ:کیا آپ کے تلامذہ ہیں ؟ تو آپ نے جواب دیا ہاں اس قسم کے میرے تلامذہ ہیں(جس قسم کا ابھی ذکر ہوا) ....سائل نے سوال کیا: کیا دوسرے قسم کے یعنی مباشرۃ پڑھنے والے حقیقی شاگرد ہیں ؟ تو آپ نے کہا نہیں میرے شاگرد نہیں ہیں ...سائل نے کہا: سرے سے یہاں کوئی بھی نہیں ہے ؟ تو شیخ نے کہا نہیں اردن میں کوئی نہیں ہے البتہ شام میں تھے... سائل نے کہا کہ کیا ایسے(دوسرے قسم کے اعتباری )تلامذہ کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے آپ کے بارے میں کہے کہ میں فلاں کا شاگرد ہوں.... تو شیخ نے کہا کہ: اگر لوگ اس کی اس بات سے یہ سمجھتے ہوں کہ یہ فلاں شیخ کا حقیقی شاگرد ہے تو یہ تدلیس ہے، لیکن اگر لوگ ایسا نہ سمجتے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے..

 https://youtu.be/w7Nrr6lPtQ0 

اسی طرح شیخ عبید بن عبد اللہ الجابری حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ: ہم لوگ شیخ البانی کی کتابیں پڑھتے ہیں اور بسا اوقات بعض چیزوں کے سلسلے میں ہمارے ہاں اشکال پیدا ہو جاتا ہے تو کیا ہم اس کے تعلق سے شیخ علی الحلبی کی طرف رجوع کریں کیونکہ وہ شیخ البانی کے شاگرد ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ:نہیں نہیں اس کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں ہے....یہ شیخ البانی کا شاگرد نہیں ہے.... شیخ ناصر الدین البانی جب شام سیریا میں تھے تب ان کے تلامذہ تھے لیکن جب وہ اردن آ گئے وہاں ان کے تلامذہ نہ تھے کیونکہ وہ درس نہیں دیتے تھے ان کے ساتھ کچھ لوگ رہا کرتے تھے..سائل نے کہا کہ: ہم نے سنا ہے انہوں نے پچیس سال شیخ کے ساتھ گزارے ہیں ؟ تو شیخ نے جواب دیا:نہیں وہ شیخ کے ساتھ نہیں تھا وہ جھوٹ بولتا ہے یہ صحیح نہیں ہے.. دوسروں کی طرح وہ بھی آ جایا کرتا تھا.. 


https://www.tasfiatarbia.org/vb/showthread.php?t=12099

اسی طرح جب شیخ ابو الھمام البرقاوی سے شیخ البانی کے شاگردوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ: شیخ البانی رحمہ کے تلامذہ کو تین طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
طبقہ اولی:وہ شاگردان جنہوں نے آپ کی دعوت کے ابتدائی مرحلے میں آپ کے ساتھ رہا آپ سے ڈائریکٹ پڑھ کر علم حاصل کیا اور آپ کے منہج کو لازم پکڑا. ان میں جن سے علم حاصل کیا جا سکتا ہے ان کی تعداد دس سے زائد نہیں ہے جن میں شیخ محمد عید العباسی، نسیب الرفاعی، محمود مہدی استنبولی، نافع شامیہ، علی خشان، خیر الدین وانلی، اور احمد سلام، وغیرہم مشائخ ہیں.....
............
طبقہ ثانیہ:یہ وہ لوگ ہیں جو اولا شیخ کی کتابوں سے متاثر ہوئے، اور بہت ساری یا کم مجلسوں میں آپ کے ساتھ بھی رہے لیکن آپ سے کچھ پڑھا نہیں.... بالعموم یہ اردن کے لوگ ہیں دوسرے ان میں بہت کم ہیں ان مشائخ میں سب سے مشہور: عزمي الجوابرة، دكتور باسم الجوابرة، دكتور عاصم القريوتي، مشهور حسن آل سلمان ، حسين العوايشة، علي الحلبي، وغيرہم ہیں.
طبقہ ثالثہ:یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بہت تھوڑے وقت کے لیے آپ کے ساتھ مجالست کا شرف حاصل ہوا اور آپ سے بہت ہی معمولی پڑھا مگر وہ آپ کے منہج سے متاثر ہو گئے خاص کر جب آپ جامعہ اسلامیہ میں تھے...ان مشائخ میں سے عبد الرحمن عبد الصمد یہ عالم و فاضل انسان تھے مگر یہ کہ وہ فریب خوردہ تھے یہود کے ہاتھوں قتل کر دئے گئے...اور شيخ عبد الرحمن عبد الخالق وغیرہم ہیں، 
 اور  اسی طبقے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے آپ سے ایک یا دو بار ملاقات کی، یا آپ کی طرف سفر کر کے گئے اور آپ سے حد درجہ متاثر ہو گئے... ان مشائخ میں سے مشہور ترین مقبل الوادعی اور ابو اسحاق الحوینی وغیرہم ہیں.
 ان دونوں طبقوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ بالتفصیل انہی کے یعنی شیخ البانی کے منہج پر ہیں حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے.

(یہ شیخ زیادہ معروف نہیں ہیں مگر ان کی باتیں نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انہوں نے اس تفصیل کو شیخ البانی کے حقیقی شاگرد محمد عید العباسی کے سامنے پیش کیا تھا جو ان کے استاد ہیں تو انہوں نے اس پر نکیر نہیں کی اور اسے برقرار رکھا (ملتقی أهل الحديث. 
 https://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=187228.  ) 

ان علما کی تصریحات کے بعد یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ علی حسن الحلبی شیخ البانی کے شاگرد نہیں تھے انہوں نے ان سے محض استفادہ کیا تھا جیسا کہ انجینئر علی مرزا اور ابو محمد خرم شہزاد نے حافظ زبیر علی زئی سے سوالات و جوابات کے ذریعے صرف استفادہ کیا تھا.....عین اسی طرح مشہور حسن آل سلمان، ابو اسحاق الحوینی، سلیم بن عید الہلالی، عصام بن موسی ہادی، حسین العوایشۃ، عمرو عبد المنعم سلیم، احمد بن ابراہیم ابو العینین، سمیر بن امین الزہیری وغیرہم میں سے کوئی بھی شیخ کے حقیقی اصطلاحی شاگرد نہیں ہیں مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ حضرات بلا کسی تصریح اور وضاحت کے بڑے فخریہ انداز میں اپنے آپ کو محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے شاگرد گردانتے ہیں تاکہ شیخ کے توسط سے اہل سنت و جماعت سلفیوں میں انہیں پذیرائی حاصل ہو سکے اور لوگ ان پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرنے لگے.. ..اور ہوا بھی ایسا ہی عوام تو درکنار اخص الخواص بھی انہیں محدث العصر کے تلامذہ شمار کرنے لگے.....

اخیر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر معاملے میں تحقیق وتدقیق کی توفیق عطا فرمائے آمین 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی کے شاگردوں کے تعلق سے ایک ضروری وضاحت 

از قلم 
مامون رشید ہارون رشید سلفی 

میں نے اپنی پچھلی تحریر میں ذکر کیا تھا کہ محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ میرا کوئی حقیقی شاگرد نہیں ہے حالانکہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر اور ڈاکٹر لقمان سلفی وغیرہما رحمہما اللہ نے آپ سے باضابطہ کتابیں پڑھی تھی...اب اعتراض یہ ہے کہ باتوں میں دونوں میں توافق کیسے پیدا کیا جائے؟

تو عرض ہے کہ اصول ہے"الباب اذا لم تجمع طرقہ لم یتبین خطؤه" گر چہ یہ اصول تحقیق علل حدیث سے تعلق رکھتا ہے لیکن مناسبت پائے جانے کی صورت میں کہیں بھی فٹ کیا جا سکتا ہے.... لہذا اس اصول پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی عالم کی بات کو سمجھنے کے لیے اس ضمن میں ان کی کہی گئی تمام باتوں کا احاطہ کرنا ضروری ہے ورنہ غلط فہمی اور خلط مبحث کا شکار ہونا ممکن ہے.... 


غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام البانی کی زندگی کئی مراحل سے ہو کر گزری اور آپ کئی مقامات پر اقامت پذیر رہے انہی مراحل کے حساب سے کبھی کچھ لوگ آپ کے شاگرد ہوئے اور کبھی نہیں... 

پہلا مرحلہ: البانیہ میں.... یہ آپ کی زندگی کا ابتدائی دور تھا جس میں آپ خود طالب علم تھے لہذا یہاں تلامذہ ہونے نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.. 

دوسرا مرحلہ: دمشق میں یہ آپکی زندگی کا دوسرا اور اہم مرحلہ تھا جس میں آپ نے علم حدیث میں تبحر اور مہارت حاصل کیا ....اور لوگوں کو باضابطہ پڑھائے بھی آپ دمشق میں جو کتابیں اپنے تلامذہ کو پڑھاتے تھے ان میں زاد المعاد (لابن القيم رحمه الله) نخبة الفكر (للحافط ابن حجر

 العسقلانی رحمه الله ) الروضة الندية شرح الدرر البهية (لصديق حسن

 خان رحمه اللہ) فتح المجيد شرح كتاب التوحيد (للشيخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوهاب رحمهم اللہ) الباعث الحثيث شرح

 اختصار علوم الحديث (للعلامة المحدث أحمد محمد شاكر رحمه الله) طبقات فحول الشعراء (لابن سلأم الجمحي رحمه الله) اصول الففه (لعبد الوهاب خلاف رحمه اللہ) تطهير الاعتقاد من أدران الإلحاد (للصنعاني رحمه اللّه) الترغيب والترهيب (للمنذري رحمه الله) الأدب

 المفرد(للبخاري رحمه الله) منهج الإسلام في الحكم ....مصطلح التاریخ (لأسد رستم) فقه السنة (لسيد سابق رحمه الله) رياض الصالحين (للنووي رحمه الله) الإلمام في احاديث الأحكام (

 لابن دقیق العید رحمه اللہ۔وغیرہ کتابیں شامل تھیں... (محمد ناصر الدين الألباني محدث العصر وناصر السنة.. محمد إبراهيم العلي ص:29) 

آپ کے حقیقی شاگردوں کی اکثریت نے اسی مرحلے میں آپ سے اکتساب فیض کیا... 

تیسرا مرحلہ: جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں بحیثیت مدرس.... 1381ھ سے 1383ھ تک تین سال کی مدت .... اس دورانیے میں بھی بہت سارے لوگوں نے آپ سے حصول علم کا شرف حاصل کیا جن میں علامہ احسان الٰہی ظہیر... ڈاکٹر لقمان سلفی وغیرہم ہیں.. یہ بھی آپ کے حقیقی شاگرد ہیں... 


چوتھا اور آخری مرحلہ:اردن ے دار الحکومت عمان میں.....یہاں آپ نے تقریباً بیس سال یا اس سے زائد عرصہ گزار آپ کے زیادہ تر خطبات ودروس اور تصنیفات و تالیفات یہیں سے لوگوں میں عام ہوئیں.... اس مرحلے میں آپ سوائے وقتا فوقتاً تھوڑے بہت خطبات و محاضرات اور آن لائن سوالات کے جوابات دینے کے محض تحقیق وتخریج اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہتے تھے اس لیے آپ نے یہاں کوئی مدرسہ قائم نہیں کیا اور نہ ہی طلبہ کو کوئی کتاب پڑھائی....آپ کے زیادہ تر اعتباری شاگرد یہیں آپ سے آ کر ملے جیسے علی الحلبی, ابو اسحاق الحوینی, مشہور حس آل سلمان وغیرہم... 


مذکورہ تفصیل ذکر کرنے کے بعد اب اصول کی طرف لوٹتے ہیں... ملاحظہ فرمائیں ایک طرف شیخ نے دمشق اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ڈھیر سارے طلبہ کو کئی ساری کتابیں پڑھائیں اور دوسری طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ میرا کوئی حقیقی شاگرد نہیں ہے... تیسری طرف ایک بار آپ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ عمان اردن میں میرا کوئی شاگرد نہیں ہے... ہاں دمشق میں تھے.... ان تمام باتوں کو جمع کرنے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ شیخ البانی نے جو اپنے شاگرد نہ ہونے کی بات کہی ہے وہ صرف اردن عمان کے ساتھ خاص ہے یعنی یہاں میرا کوئی شاگرد نہیں ہے ورنہ نفس امر میں غور کیا جائے تو دمشق اور جامعہ اسلامیہ کے تین سالہ دور میں بہت سارے لوگوں نے آپ سے اپنی اپنی علمی پیاس بجھائی اور محدث العصر کی شاگردیت کے شرف سے مشرف ہوئے......لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جو لوگ ہمیشہ اپنے نام کے پیچھے شاگرد محدث العصر کا ٹیگ لگاتے ہیں جن کے نام میں نے پچھلی تحریر میں ذکر بھی کیا تھا وہ لوگ کسی طور پر شیخ البانی کے حقیقی شاگرد نہیں ہیں...

اللہ سے دعا ہے کہ وہ لوگوں کو طلب شہرت اور ناموری کے فتنہ سے محفوظ رکھے آمین. 

.

پیر، 14 ستمبر، 2020

ماہ صفر اور نحوست و بد شگونی کی حقیقت ‏اکبر ‏علی ‏سلفی

.

❀•┈┈•❀•▪¤   بسم اللہ الرحمن الرحیم  ¤▪•❀•┈┈•❀ 

ماہ صفر اور نحوست و بد شگونی کی حقیقت

حافظ اکبر علی اختر علی سلفی 

الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعد ہ، اما بعد :
ماہِ صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے ، اس ماہ کی فضیلت کی بابت میرے علم کے مطابق کوئی حدیث مروی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات مروی ہے جس کی وجہ سے اس مہینے کو بے برکت اور برا سمجھا جائے اور کوئی حلال و پر مسرت کام کو انجام دینے سے رکا جائےیا روکا جائے۔ واللہ اعلم.

وجہِ تسمیہ :
امام علی بن محمد علم الدین السخا وی رحمہ اللہ (المتوفی :643ھ) فرماتے ہیں:
”سُمِّيَ بِذَلِكَ لِخُلُوِّ بُيُوتِهِمْ مِنْهُ حِينَ يَخْرُجُونَ لِلْقِتَالِ وَالْأَسْفَارِ، يُقَالُ : ”صَفِرَ الْمَكَانُ“: إِذَا خَلَا“ ”اہل عرب (اس ماہ میں) اپنے گھروں سے جنگ و جدال اور سفروں کے لئے نکل جاتے تھے اور ان کے گھر خالی ہوجاتے تھے ، اسی لئے اس ماہ کو صفر کے نام سے موسوم کیا گیا۔ جب کوئی جگہ خالی ہوجائے تو کہا جاتا ہے :”صَفِرَ الْمَكَانُ“۔(تفسير ابن کثیر بتحقیق عبد الرزاق المہدی :3/347)

ماہ صفر سے متعلق عرب جاہلیت کا عقیدہ :
اس ماہ کے تعلق سے عرب جاہلیت کے یہاں دو غلط باتیں پائی جاتی تھیں۔
(1) اس ماہ کو وہ آگے پیچھے کر دیا کرتے تھے اور اعلان کروایا کرتے تھے کہ اس سال صفر کا مہینہ پہلے اور محرم کا مہینہ اس کے بعد ہوگا ۔ ان کے اس عمل کی تردید کرتے ہوئے اور اسے کفر قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا :
” إِنَّمَا النَّسِیءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ“
”مہینوں کو آگے پیچھے کردینا ،کفر میں زیادتی ہے “۔(سورۃ التوبۃ : 37)
(2) اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے۔
جس کی تردید کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
”وَلَا طِیرَۃَ وَ لَا صَفَرَ“ ”کوئی بد شگونی نہیں ہے اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے “۔ (صحیح البخاری:5757 و سنن ابی داؤد بتحقیق الالبانی:3911)
معلوم ہوا کہ ماہ صفر کو منحوس سمجھنا دور ِجاہلیت کے عرب کا عقیدہ تھا۔ نیز دیکھیں : (سنن ابی داؤد :3915و لطائف المعارف لابن رجب،ص:74)

کیا کسی مسلمان کا ماہِ صفر وغیرہ کو منحوس سمجھنا اور اس سے بد شگونی لیناجائزہے ؟
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ موجودہ دورکے بہت سے مسلمان ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس سے بد شگونی لیتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ مہینہ رحمتوں اور برکتوں سے خالی ہوتا ہے ۔
راقم کہتا کہ یہ قول فاسد ہے کیونکہ ماہ صفر ہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازوں کو کھول کر اللہ کے رسول ﷺ اور تمام مسلمانوں کو” فتحِ خیبر“ سے نوازا تھا۔ دیکھیں : ( تجلیات نبوت : ص: 363-379ودیگر کتب سیر)

اس پر مزید یہ کہ ان کے دامن میں اپنے قول کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ” صحیح“ اور ” معقول“ دلیل نہیں ہے ۔
دوسری وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس ماہ کے اخیر میں رحمت کائنات ﷺ بیمار ہوئے تھے۔ تو اس کی بابت عرض ہے کہ یہ ماہ صفر کے منحوس ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ آپﷺ کا مزاج ماہ صفر کی وجہ سے نہیں بگڑا تھا بلکہ وہ اللہ کی مرضی تھی اور آپ اگر اس ماہ میں بیمار نہ ہوتے تو کسی اور ماہ میں بیمار ہوتے اور وہ آپ کی وفات کا سبب بنتا اور اگر ماہ صفر میں آپ کا بیمار ہونا ما ہ صفر کی نحوست کی دلیل ہوسکتی ہے تو ماہ ربیع الاول بھی بدرجۂ اولیٰ منحوس قرار پائے گا کیونکہ آپ ﷺ کی وفات اسی ماہ میں واقع ہوئی اور یہ کسی مسلمان کا بھی عقیدہ نہیں ہے کہ ماہ ربیع الاول منحوس مہینہ ہے اور جب ماہ ربیع الاول رسول اللہ ﷺ کی وفات کی وجہ سے منحوس نہیں تو پھر ماہ صفر رسول اللہ ﷺ کے بیمار ہونے کی وجہ سے کیونکر منحوس قرار پائے گا ؟

بعض حضرات اس ماہ میں شادی یا کوئی خوشی کا کام نہیں کرتے ہیں اور وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ اس ماہ میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا انتقال ہوا تھا ۔
اس کی بابت عرض ہے کہ یہ فکر بھی باطل ہے اور اسلام میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے ماہ صفر ۷ ؁ھ میں شادی کی تھی اور یہ وہی مہینہ ہے جس میں 15یا 16یا 18 صحابہ کرام شہید ہوئے تھے۔
دیکھیں : ( تجلیات نبوت :ص: 374-379ودیگر کتب سیر)

اوربہت سارے مسلمان ماہ صفر سے نہیں بلکہ انسان یا بلی وغیرہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس سے بد شگونی لیتے ہیںمثلاً: ایک انسان، جب اُس کاکوئی کام خراب ہوجاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اِس کام کو ہاتھ میں لینے سے پہلے میں نے فلاں کا چہرہ دیکھا تھا ، وہ منحوس ہے ، یہ اُسی کی وجہ سے ہوا ہے۔
اِسی طرح اگر بلی کسی بدشگونی لینے والے کے سامنے سے گزر جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ بس! جس کام کے لئے جارہا تھا اب وہ کام نہیں ہوگا کیونکہ بلی نے راستہ کاٹ دیا ہے ،اس وجہ سے وہ اپنے کام کو انجام دینے سے رک جاتا ہے ۔
محترم قارئین !کوئی مصیبت آنے پر کسی دوسرے کو منحوس قرار دینا، یہ مسلمان کا کام نہیں ہے بلکہ کافروں کا کام ہے جیساکہ فرعون کی قوم کی بابت اللہ تعالی فرماتا ہے :
”وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوا بِمُوسَى وَمَنْ مَعَهُ“ ”جب ان کو کوئی برائی پہنچتی تو وہ موسی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو منحوس قرار دیتے“۔ (سورۃ الاعراف :131)
اور کسی چیز سے بد شگونی لیتے ہوئے اپنے کام کو انجام نہ دینا ، شرک ہے جیساکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے ۔ دیکھیں :(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی بتحقیق الہلالی :1/344، ح:293، شیخ سلیم حفظہ اللہ نے اِس کی سند کو حسن کہا ہے)

اور یہ بات بھی جان لیں کہ کسی چیز سے بدشگونی لینا ،گویا اس چیز کو نافع وضار تصور کرنا ہے جبکہ نافع اور ضار فقط اللہ تعالیٰ ہےجیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ یَنْفَعُوکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ لَکَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَی أَنْ یَضُرُّوکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ عَلَیْکَ“ ”جان لو ! اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے اور اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں کچھ نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے“۔(سنن الترمذی بتحقیق الالبانی :2516 ، اس حدیث کو امام ترمذی اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے صحیح کہا ہے)
اور اللہ کے اِس فرمان کو بھی یا د رکھیں : ”مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللہِ“ ”کوئی بھی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی ہے“۔(سورۃ التغابن : 11)
بدشگونی لینے کا انجام:
ایک مسلمان کے شایان شان یہ ہے کہ وہ اچھا شگون لے کیونکہ رسول اللہ ﷺ اچھا شگون لیتے تھے اور اسے پسند فرماتے تھے۔ (صحیح البخاری :5756و 2731)

لیکن اگر کوئی بدشگونی لیتا ہے تو وہ شرک کا مرتکب ہوگاجیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اَلطِّیَرۃُ شِرْکٌ“ ” بدشگونی شرک ہے “۔ (ابوداؤد بتحقیق الالبانی : 3910 ، اس حدیث کو امام ترمذی اور علامہ البانی وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے)

بدشگونی نہ لینے کا عظیم فائدہ:
ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے کہا :
” مجھ سے کہا گیا :دیکھو! میں نے ایک بہت بڑی جماعت دیکھی جس نے آسمانوں کا کنارہ ڈھانپ لیا تھا۔ پھر مجھ سے کہا گیا : ادھر دیکھو، ادھر دیکھو، میں نے دیکھا کہ بہت سی جماعتیں ہیں جو تمام افق کو گھیرے ہوئے تھیں۔ کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل کئے جائیں گے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ یہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے۔ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپس میں اس کے متعلق کچھ باتیں کیں۔ جب نبی کریم ﷺ کو یہ باتیں پہنچیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ”هُمُ الَّذِينَ لاَ يَتَطَيَّرُونَ، وَلاَ يَسْتَرْقُونَ، وَلاَ يَكْتَوُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ“ ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ بدشگونی لیتے ہیں،نہ دم کرواتے ہیں اور نہ ہی داغ کر علاج کرتے ہیںبلکہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں“۔(صحیح البخاری : 5752 وغیرہ)
اس حدیث سے بدشگونی نہ لینے کا ایک عظیم فائدہ معلوم ہوتا ہے لیکن افسوس! اپنے معاشرے میں تھوڑی تھوڑی بات پر بد شگونی لینے والے بہت لوگ ہیں، بطور خاص جب بیماری لگ جانے کا معاملہ ہو۔ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین۔

اگر کسی چیز کی وجہ سے دل میں بدشگونی پیدا ہو تو۔۔..:
ایک انسان بدشگونی نہیں لینا چاہتاہے لیکن کسی چیز کی وجہ سے اس کے دل میں بدشگونی پیدا ہوجاتی ہے تو ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ اس بدشگونی کی طرف دھیان نہ دے اور اس کی وجہ سے اپنے کام کو عملی جامہ پہنانے سے نہ رکے جیسا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ” ذَاکَ شَیْءٌ یَجِدُہُ أَحَدُکُمْ فِی نَفْسِہِ، فَلَا یَصُدَّنَّکُمْ “ ”بد شگونی ایک ایسی چیز ہے جس کو تم میں سے بعض لوگ اپنے نفس میں محسوس کرتے ہیں لیکن بد شگونی تم کو (کسی کام کو انجام دینے سے ) نہ روکے“۔(صحیح مسلم :537)
بلکہ بلا جھجھک اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے کام کو کر گزرئے اور جو کچھ اس کے دل میں ہوگا وہ اللہ پر توکل کی وجہ سے اللہ اس کو ختم کردے گا ۔
رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ” وَمَا مِنَّا إِلَّا، وَلَكِنَّ اللہَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ“ ” اور ہم میں سے ہر کسی کو کوئی نہ کوئی وہم ہو ہی جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی وجہ سے اسے ختم کردیتا ہے“۔ (سنن ابی بوداؤد بتحقیق الالبانی :3910، اس حدیث کو امام ترمذی اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے صحیح قرار دیا ہے)
لیکن یاد رہے کہ اگر کوئی بدشگونی کی وجہ سے اپنے کام کو انجام نہ دے ،تو ” شرک “ کا مرتکب ہوگا اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ یہ دعاپڑھے۔
”اللَّہُمَّ لَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ، وَلَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ“

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”مَنْ أَرْجَعَتْہُ الطِّیَرَۃُ عَنْ حَاجَتِہِ، فَقَدْ أَشْرَکَ ، قَالُوا : وَمَا کَفَّارَۃُ ذَلِکَ یَا رَسُولَ اللہ؟ قَالَ یَقُولُ أَحَدُہُمُ : اللَّہُمَّ لَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ، وَلَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ “ ” ترجمہ : :
جس شخص کو بد شگونی اس کی حاجت ( کو پورا کرنے ) سے روک دے تو اس نے شرک کیا ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اس کا کفارہ کیاہے ؟ تو آپ نے فرمایا : وہ یہ دعا پڑھ لے :” اے اللہ ! تیری بدشگونی (جو کہ تیرے ہی حکم سے ہوتی ہے ،اس)کے علاوہ کوئی بدشگونی نہیں ہے اور تیری بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں ہے اور تیرے علاوہ کوئی (سچا) معبود نہیں ہے“۔
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی بتحقیق سلیم الہلالی :1/344،ح :293 والصحیحۃ للالبانی :3/53،ح: 1065و مسند احمد بتحقیق شعیب ورفقائہ : 11/623 ، ح:7045 ،
مذکورہ محققین نے اِس کی سند کو حسن قرار دیا ہے)
اخیر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہم سب کو نحوست اور بد شگونی سے بچائے اور اچھے فال کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین۔

.

جمعرات، 10 ستمبر، 2020

ماہ صفر نحوست و بدعات کے گھیرے میں شفیق المدنی ‏

.

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ 
🍃 ●┄─═✧•═✧═•✧═•✧═─┄● 🍃 

ماہ صفر نحوست و بدعات کے گھیرے میں 

شفیق الرحمن ضیاء اللہ المدنی 

~~~~~~~~~~~~~~

الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلا م علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین وبعد:

محترم قارئین!

اسلام کی آمد سے قبل زمانہ جاہلیت میں لوگ مختلف قسم کے شرک وبدعات،باطل خیالات، رسم و رواج، نحوست وبدشگونی اور توہم پرستی وغیرہ میں مبتلا تھے،چنانچہ پرندوں کواڑاکرسفرکے جاری اورمنقطع کرنے کا فیصلہ کرتے تھے ۔اگرپرندہ دائیں سمت کی طرف جاتا تو اس کام یاسفرکو اچھا فال تصورکرکے جاری رکھتے اور اگر بائیں کو جاتا تو اس کا م یا سفرسے نحوست اور بدشگونی سمجھ کر ترک کردیتے ۔اسی طرح بعض ایا م اور مہینوں کو بھی نحوست وبد شگونی کی نظرسے دیکھتے تھے۔

رب العالمین نے اپنی رحمت سے محمد عربیﷺ کو مبعوث کرکے جاہلیت کے تما م شرکیہ اعتقادات،فاسد خیالات اورتوھمّات وخرافات وغیرہ کو ختم کرکے صحیح عقیدہ اوردرست منہج عطا کیا،اورآپ کے ذریعہ دین کی تکمیل کردی گئی اور یہ اعلان کردیا گیا کہ اب دین اسلام سارے غلط عقائد وأفکار اورتوہمات وخرافات اورباطل پکڈنڈیوں سے پاک ا ورصاف ہوگیا ہے،کسی مہینے اور دن کے سلسلے میں کوئی بدشگونی اورنحوست لینا درست نہیں،اوراس دین میں قیامت تک کسی تبدیلی وزیادتی کی گنجائش باقی نہ رہی اورآپ نے صحابہ کرام سے فرمادیا کہ ’’لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انھیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب اللہ،دوسری میری سنت’’اور دوسری جگہ فرمایا کہ’’میں تمہیں ایسی روشن شاہراہ پرچھوڑے جارہا ہوں جسکی راتیں بھی دن کے مانند ہیں۔اس سے وہی شخص انحراف وروگردانی کریگا جس کی مقدر میں ہلاکت وتباہی لکھ دی گئی ہو۔"

آپ کے انتقا ل کے بعد لوگ کچھ صدیوں تک دین اسلام پر صحیح طریقے سے قائم رہے یہان تک کہ خیر القرون کا زمانہ گزرگیا، پھر مختلف قسم کے باطل فرقے جنم لینا شروع ہوگئے۔اعداء اسلام خاص کریہود ونصاری نے اپنی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ تیز کردیا،عہدرسالت سے دوری ہوتی گئی،دین سے بے توجہی اورجہالت عام ہوتی گئی،اور لوگوں میں شرک وبدعات،باطل اعتقادات، غیردینی رسم ورواج اور مختلف قسم کے اوہام وخرافات پیدا ہونے لگے اور وہ دین اسلام جسکو محمدعربی نے ہرطرح کی گند گیوں ا ور خرافات سے پاک وصاف کردیا تھا وہ مکدر اورگدلا ہوتا نظرآنے لگا چنانچہ انہی باطل اعتقادات، اوہام و خرافات اوربدعات میں سے ماہ صفر کی نحوست وبدعات ہیں جو موجودہ دورمیں بعض نام نہاد مسلمانوں میں دین سے جہالت اور اندھی تقلید کی وجہ سے در آئیںجبکہ اسلام نے دور جاہلیت کے اس عقیدہ کوباطل قراردیا تھا اوریہ فرمایا تھا کہ اسلام میں کوئی مہینہ نحوست وبدشگونی کانہیں،اورزمانے اورمہینے یہ اپنے اندرکوئی تاثیرنہیں رکھتے،نہ ہی تقدیرالہی میں انکا کچھ دخل ہے جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے :(لا عدوی ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولاصفر)اخرجاہ وزاد مسلم (ولانوء ولاغول (بخاری کتاب الطب 10/265مسلم باب لاعدوۃ007/471)

"سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول نے فرمایا کہ ایک کی بیماری د وسری کو نہیں لگتی،نہ بدفالی ونحوست کوئی چیز ہے،نہ ألّو کا بولنا کوئی أثر رکھتا ہے،نہ صفر کوئی چیز ہے، یہ بخاری ومسلم کی روایت ہے اورصحیح مسلم میںیہ بھی ہے کہ" نچھتر نہ بھوت کوئی چیز نہیں "۔

اس حدیث کے ذریعے نبی کریم نے اہل جا ہلیت کے اس فاسد عقیدے کی تردید کی ہے جو وہ ان مذکورہ بالا چیزوں میں بذات خود تاثیر کا اعتقاد رکھتے تھے اور یہ ثابت کیا کہ مؤثر حقیقی تو صرف اللہ کی ذات ہے اوراسلام میں کسی دن اورمہینہ کو منحوس نہیں قراردیا گیا ہے اورنہ ہی کسی دن اورمہینے کا تقدیر الہی میں کوئی تاثیر ہے ۔

صفرکی وجہ تسمیہ اور مفہوم :

صفر کی وجہ تسمیہ میں مختلف أقوال ذکرکئے گئے ہیں ان میں سے چند مشہور یہ ہیں :

۱۔صفر ایک بیماری ہے جس میں آدمی کھا تا چلا جاتا ہے مگراسکی بھوک ختم نہیں ہوتی جسے جوع البقرکہا جاتا ہے

۲۔بعض لوگوں کا عقیدہ تھا کہ صفرپیٹ میں ایک کیڑہ یا سانپ ہوتا ہے،یا ایک خطرناک بیماری ہوتی ہے اور جس کو یہ بیماری لا حق ہوجاتی ہے وہ ہلاک ہوجاتا ہے،اوریہ بیماری خارش سے بھی زیادہ متعدی ہوتی ہے.

اس عقیدہ کی آپ ﷺنے تردید کی اور فرمایا ’’ولاصفر‘‘ صفر کی کوئی حقیقت نہیں اوریہ بیماری بھی اللہ کے حکم کے بغیر متعدی نہیں ہوتی۔

۳۔کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں عموما عربوں کے گھرخالی رہتے تھے مسلسل تین حرمت والے مہینوں کے بعد یہ مہینہ آتا تو جنگ وجدال کے یہ عادی عرب،لڑائی اور لوٹ مارکے لئے نکل پڑتے،اور اس طرح انکے مکان خالی ہوجاتے،اورجب مکان خالی ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ "صفر المکان"مکان خالی ہوگیا .

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں : (وصفر سمّی بذالک لخلوّ بیوتہم منہم حین یخرجون للقتال والأسفاریقال صفر المکان إذا خلا ویجمع علی اصفارکجمل وأجمال(تفسیر ابن کثیر2/345)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ صفر کے معنی خالی ہونا (اور چونکہ یہ مہینہ رحمتوں اوربرکتوں سے خالی ہوتا ہے،اس واسطے اسے صفر کہتے ہیں حالانکہ یہ ان کے غلط اعتقاد پرمبنی توجیہ ہے جو درست نہیں ۔

۴۔"ولاصفر"کا ایک معنی تو یہ ہے کہ عرب کبھی ماہ صفر کو ماہ محرم سے بدل لیتے تھے،یعنی ماہ محرم کے بجائے ماہ صفر کو حرمت والا مہینہ ما ن لیتے تھے،اوراسکے بدلے محرم میں لڑائی اورلوٹ مار،قتل وغارتگری وخوں ریزی کو حلال کرلیتے،اورکبھی ایسا نہ کرتے،بلکہ محرم ہی کو حرمت والا مہینہ مانتے۔ رسول اللہﷺنے اس عمل کو باطل قرار دیا اور"ولا صفر"سے اسکی تردید کی .

۵۔"اورایک قول یہ بھی ہے کہ :"اس ماہ میں قبائل کے خلاف چڑھائی کی جاتی تھی اورجو بھی انھیںملتا اسے مال سے خالی کردیتے ( یعنی اسکا سارا سامان چھین لیتے تو وہ بغیر کسی سامان کے رہ جاتا )( لسان العرب 4/462))

۶۔ عرب دور جاہلیت میں ما ہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے،کیونکہ ذی الحجہ اور محرم حرمت والے مہینے تھے جس میں وہ جھگڑا اور لڑائی حرام سمجھتے تھے،لیکن صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا رسول اکرم ﷺنے اس کی تردید فرمائی،اوربتایا کہ ماہ صفر بذات خود منحوس نہیں ہے،اس میں جو کچھ بھی لوگوں کے لئے مصیبت اور پریشانی ہے وہ ان کے اعمال،قتل وخونریزی اورلوٹ مار کی وجہ سے ہے (فتح المجید ص؍308)

شیخ محمدبن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے اسی قول کوراجح قرار دیا ہے(مجموع فتاوی الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ113)

ب) ماہ صفر کے بارے میں اہل جا ہلیت کا اعتقاد

1۔تقدیم وتاخیر(نسیء) 2۔ نحوست وبد شگونی  

أ۔ ماہ صفر کو آگے پیچھے کرنا (نسیء)

ابتدائے آفرینش سے ہی اللہ تعالی نے سال کے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں جن میں چارحرمت والے ہیں جن کی حرمت وپاس اورشان وعظمت کی وجہ سے جنگ وجدال کی بالخصوص ممانعت ہے جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے{إِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُورِ عِنْدَ اللَّہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِی کِتَابِ اللَّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْھَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِیْھِنَّ أَنْفُسَکُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِینَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَافَّۃً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ مَعَ الْمُتَّقِینَ} (التوبۃ:۳۶)

"بے شک مہینوں کی تعداداللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہیں،اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں،یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو،اورتم تما م مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں،اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے "۔

اسی بات کو نبی کریمﷺ نے اس طرح فرمایا ہے کہ "زمانہ گھوم گھما کرپھر اسی حالت پے آگیا ہے جس حالت پر اسوقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی سال بارہ مہینوں کا ہے،جن میں چار حرمت والے ہیں،تین پے درپے ذوالقعدہ،ذوالحجہ،محرم اور چوتھا رجب مرجب،جو جمادی الأخری اورشعبان کے درمیان ہے "(بخاری کتاب التفسیرباب سورۃ توبہ، ومسلم کتاب القسامۃ باب ؍تغلیظ تحریم الدماء )

اور"زمانہ اسی حالت پر آگیا ہے" اس سے مراد یہ ہے کہ "مشرکین عرب مہینوں میں جو تقدیم وتأخیر کرتے تھے جسے (نسیء) کہا جاتا ہے اللہ نے اسے باطل قراردے دیاہے اورمہینوں کی وہی صحیح ترتیب ہے جوکہ اللہ نے ابتدائے آفرینش سے رکھی ہے جیساکہ اللہ نے فرمایا کہ{إِنَّمَا النَّسِیء ُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِینَ کَفَرُوا یُحِلُّونَہُ عَامًا وَیُحَرِّمُونَہُ عَامًا لِیُوَاطِئُوا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللَّہُ فَیُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّہُ زُیِّنَ لَھُمْ سُوء ُ أَعْمَالِھِمْ وَاللَّہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ}(التوبۃ:۳۷)

"مہینوں کا آگے پیچھے کر دینا کفرمیں زیادتی ہے اس سے وہ لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کا فر ہیں،ایک سال تو اسے حلال کرلیتے ہیں اورایک سال اسی کو حرمت والا کرلیتے ہیں،کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں تو موافقت کرلیں،پھر اسے حلال بنا لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے،انہیں ان کے برے کام بھلے دکھا دئیے گئے ہیں اور قوم کفارکی اللہ رہنمائی نہیں فرماتا۔ "

"نسیء "کے معنی پیچھے کرنے کے ہیں ۔عربوں میں بھی حرمت والے مہینوں میں قتال وجدال اورلوٹ مار کو سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا،لیکن مسلسل تین مہینے ا ن کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے،قتل وغارتگری سے اجتناب کرنا،ان کے لئے بہت مشکل تھا- اس لئے اس کا حل انہوں نے یہ نکا ل رکھا تھا کہ جس حرمت والے مہینے میں وہ قتل وغارتگری کرنا چاہتے،اس میں وہ کرلیتے اوراعلان کردیتے کہ اسکی جگہ فلاں مہینہ حرمت والا ہوگا مثلا محرم کے مہینے کی حرمت توڑکر اس کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ قرار دے دیتے،اس طرح حرمت والے مہینوں میں وہ تقدیم وتاخیر اور اُدَل بدَل کرتے رہتے تھے،اور انکا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اللہ تعالی نے جو چار مہینے حرمت والے رکھے ہیں ان کی گنتی پوری رہے،یعنی گنتی پوری کرنے میں اللہ کی موافقت کرتے تھے لیکن اللہ نے جوقتال و جدال اور غارتگری سے منع کیا تھا، اس کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی،بلکہ انہیں ظالمانہ کارروائیوں کے لئے ہی وہ تقدیم وتاخیر اور أُدَل بد ل کرتے تھے، یعنی مشرکین ان چاروں مہینوں کی حرمت کو جانتے ہوئے اپنی من مانی خواہشات سے"نسیء "کا عمل کرتے تھے، اور ان کا یہ اعتقاد تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا سب سے بڑا فجورکا کا م ہے جیساکہ بخاری ومسلم میں ہے:(عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال:کانوا یرون أن العمرۃ فی أشہر الحج من أفجر الفجور فی الأرض، ویجعلون المحرّم صفراً،ویقولون : إذا برأ الدَّبر،وعفا الأثر، وإذا انسلخ صفر :حلّت العمرۃ لمن اعتمر (بخاری1489 و مسلم 1240)

"ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ (کفار) یہ سمجھتے تھے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین میں بہت بڑا فجور کا کا م ہے اوروہ محرم کو صفر بنا لیتے اوریہ کہتے :جب اونٹوں کی پشت صحیح ہوجائے اوراسکے اثرات مٹ جائیں،اور صفر کا مہینہ ختم ہو جائے،تو عمرہ کرنے والے کیلئے عمرہ حلال ہوگیا "

اسی کو"نسیئی"کہا جاتا ہے . اللہ تعالی نے اس کی بابت فرمایا کہ:یہ کفر میں زیادتی ہے کیونکہ اس اُدَل بدل سے مقصود لڑائی اور دنیاوی مفادات کے حصول کے سوا کچھ نہیں -اورنبی کریم ﷺنے بھی اس کے خاتمے کا اعلان یہ کہ کر فرمادیا کہ"زمانہ گھوم گھما کر اپنی اصلی حالت پے آگیا ہے "یعنی اب آئندہ مہینوں کی یہ ترتیب اسی طرح رہے گی جسطرح ابتدائے کائنات سے چلی آرہی ہے۔

اہل جاہلیت کے نزدیک ’’نسیء‘‘ کی کیفیت (تأخیر) ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جنادہ بن عوف بن امیہ کنانی ہر سال موسم (حج) میں آتا اوریہ اعلان کرتا کہ:"خبردار! أبوثمامہ کو نہ تو کوئی عیب لگایا جائیگا اورنہ ہی اسکی بات مانی جائیگی،خبردار! سال کے شروع میں صفر حلال ہے، توہم اسے ایک سال حرام قراردیتے ہیں،ا ورایک سال حلال،اور وہ (ان دنوں) ہوازن وعطفان اوربنوسلیم کے ساتھ تھے ۔

اورایک اثر میں اس طرح ہے کہ ’’ہم نے محرم کو پہلے اور صفر کو بعد میں کردیا ہے،پھر دوسرے سال آتا اورکہتا کہ ہم نے صفر کو حرام قراردیا ہے اورمحرم کو موخر کردیا ہے تووہ یہی تاخیر اور"نسیئی" ہے ۔

۲۔زیادتی:قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :’’گمراہ لوگوں میں سے ایک قوم نے صفر کو اشہر الحرام یعنی حرمت والے مہینوں میں شامل کردیا،ان لوگوں کا سردارموسم (حج) میں کھڑا ہو کریہ کہتا :خبردار!تمہارے معبودوں نے اس سال محرم کو حرام کردیا ہے،تو وہ اس سال محرم کو حرمت والا قراردیتے، پھر وہی شخص اگلے سال یہ اعلان کرتا کہ :تمہارے معبودوں نے صفر کو حرام کیا ہے تو وہ اس سال صفرکو حرمت والا قرار دیتے،اور یہ کہتے "صفران" یعنی دوصفر ".

اورابن وہب اور ابن القاسم نے امام مالک رحمہ اللہ سے ایسے ہی روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ "اہل جاہلیت دو صفر بنا لیتے تھے اسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا "لا صفر " اوراسی طرح اشہب نے بھی امام مالک سے ایسا ہی بیان کیا ہے ۔

۳۔حج کی تبدیلی : ایک دوسری سند کے ساتھ مجاہد رحمہ اللہ، اللہ کے اس قول ( إنما النسیء زیادۃ فی الکفر) "کہ نسیء تو کفرمیں زیادتی ہے " کی تفسیرمیں فرماتے ہیں :’’یعنی دوبرس وہ ذوالحجہ میں حج کرتے، پھر دوسال محرم میں حج کرتے،پھر دو سال صفر میں حج کرتے،تواسطرح وہ ہرسال ہر ما ہ میں دوسال حج کرتے تھے،حتی کہ ابو بکررضی اللہ عنہ کا حج ذوالقعدہ کے مہینہ کے موافق آیا، اور پھر نبی کریم نے ذوالحجہ میں حج کیا،تویہی نبی ﷺکا فرمان ہے جسکو اپنے خطبہ میں بیان کیا تھا "بے شک زمانہ گھوم گھما کراسی حالت پے آگیا جس پر وہ زمین وآسمان کی خلقت کے وقت تھا " جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے صحیح سند سے روایت کیاہے .کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’لوگو !میری بات غورسے سنو، ہوسکتا ہے آئندہ آپ لوگوں سے ملاقات نہ کرسکوں، لوگو! بلاشبہ تمہارے خون اورمال تم پر قیامت تک حرام کردئے گئے ہیں جیسے اس دن،اس مہینے اوراس شہر کی حرمت ہے۔ بے شک تم سب عنقریب اپنے رب سے ملاقات کروگے تو وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سؤال کرے گا،بے شک میں نے رب کے پیغام کو پہنچا دیا،لہذا جس کسی کے پاس بھی کسی کی کوئی امانت ہووہ اسے لوٹا دے، اور بلا شبہ ہر قسم کے سود کو ختم کردیا گیا اورتمہارے اصل مال کو باقی رکھا گیا ہے،نہ تو تم کسی پر ظلم کرو نہ ہی تم پر کوئی ظلم کیا جائیگا، اللہ تعالی کا فیصلہ ہے کہ سود (جائز)نہیں اور ابن عباس بن عبد المطلب کا سارا سود ساقط اورختم کردیا گیا ہے اورجاہلیت کا ہرخون ختم کردیا گیا ہے۔

اور تمہارا سب سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ ابن ابی ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا ہے جو بنو لیث میں دودھ پیتا تھا تواسے بنو ہذیل قبیلہ نے قتل کردیا تھا، اوریہ جاہلیت کے خون میں سے پہلا خون ہے جسے میں ختم کرتا ہوں ۔

أما بعد:اے لوگو!بلاشبہ شیطان اس بات سے ناامید ہوچکا ہے کہ تمہاری سرزمین میں اسکی اب پوجا کی جائیگی،لیکن اسکے علاوہ جن کاموں کو تم حقیر سمجھتے ہو اگر اس میں اس کی اطاعت کی جائے تو وہ اس پر راضی ہوگا، لہٰذا تم اپنے دین کے سلسلے میں شیطان سے بچ کر رھو، اوریہ ’’نسیء‘‘ کفرمیں زیادتی ہے اس سے وہ لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کا فر ہیں،ایک سال تو اسے حلال کرلیتے ہیں اور ایک سال اسی کو حرمت والا قراردیتے ہیں کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں تو موافقت کرلیں،پھر اسے حلال بنا لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے ’’اورزمانہ اسی حالت پر لوٹ گیا جس پر وہ زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت تھا اوربے شک مہینے اللہ کے نزدیک بارہ ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں،تین پے درپے اوررجب المرجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے اسکے بعد ساری حدیث ذکرکی۔ (أحکام القرآن لابن العربی 2/503-504)

ب) ماہ صفرسے نحوست وبدشگونی :

عرب د ور جاہلیت میں ما ہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے کیونکہ ذی الحجہ اور محرم حرمت والے مہینے تھے جس میں وہ جھگڑا اور لڑائی حرام سمجھتے تھے،لیکن صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی لوٹ ماراور قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا رسول ﷺنے اپنے اس قول(ولاصفر) کے ذریعے اس کی تردید فرمائی،اور بتایا کہ ماہ صفر بذات خود منحوس نہیں ہے اس میں جو کچھ بھی لوگوں کے لئے مصیبت اور پریشانی ہے وہ ان کے اعمال قتل وخونریزی اورلوٹ مار کی وجہ سے ہے (فتح ص؍308))

اوردنوں اور مہینوں کو گالی یا برا بھلا کہنے کو اللہ کو سب وشتم کرنے کے مترادف قراردیا جیسا کہ حدیث قدسی ہے :(یقول اللہ عزوجل یؤذینی ابن آدم یسب الدھر وأنا الدھر بیدی الأمر أقلب اللیل والنھار ) (بخاری کتاب التفسیر8/738)

’’یعنی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہی ہوں میرے ہی ہاتھ میں سارے امورہیں میں ہی رات اوردن کوپھیرتا ہوں ۔‘‘

شیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ رسول اللہ ﷺ کے قول ’’ولاصفر‘‘کی توجیہ میں فرماتے ہیں ۔

"اوروقت اورزمانے کواللہ تعالی کی تقدیر پر کوئی تاثیر نہیں،لہذا یہ بھی باقی اوقات اورزمانوں کی طرح ہے جن میں خیر وشر مقدرکیا جاتا ہے اوراس میں "صفر" کے وجودکی نفی نہیں ہے بلکہ اسکی تاثیرکی نفی مراد ہے اسلئے کہ موثرحقیقی توصرف اللہ تعالی ہے، لہذا جوسبب معلوم ہو وہ سبب صحیح ہے اور جو سبب صرف وہم پر ہو وہ سبب باطل ہے اور بنفسہ اس کی سببیت اورتاثیر کی نفی ہو گئی۔ (مجموع فتاوی الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ/113-11 )

ماہ صفر کی نحوست و بدعات اورموجودہ مسلمان:

قائین کرام!کتا ب وسنت کی روشنی میں کچھ مہینے ایام اور راتیں ایسی ہیں جنکو دوسرے مہینوں،ایام اور راتوں کے مقابلے میں زیادہ فضیلت حاصل ہیں،جیسے یوم عرفہ، شب قدراور یوم عاشوراء وغیرہ،مگرکسی ماہ یا دن یارات کے بارے میں صحیح أحادیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ منحوس ہے اور اس سے بدشگونی لینی جائزہے ۔

لیکن أفسوس کہ موجودہ دورکے بہت سے مسلمان ماہ صفر کے بارے میں بڑی بد عقیدگی کا شکار ہیں اوراہل جاہلیت کی روش پر ابھی بھی قائم ہیں، وہ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ:

۱۔اس ماہ میں مصائب وآلام کی ہوائیں پوری تیزی کے ساتھ چلنے لگتی ہیںاور غم وتکلیف کے دریا تندی وروانی کے ساتھ بہنے لگتے ہیں یعنی سال میں دس لاکھ اسّی ہزار بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ان میں صرف ایک مہینہ (صفر) میں نولاکھ بیس ہزاربلائیں نازل ہوتی ہیں۔

۲۔بعض بد عقیدہ مسلم خواتین اس مہینے کو(طیرۃ طیری) یا(تیرۃ تیری)کے نام سے موسوم کرتی ہیں چنانچہ وہ اس مہینہ کو منحوس خیال کرتی ہوئیں چنے ابال کر اس مہینہ میں صدقہ کرتی ہیں تاکہ اس نحوست سے محفوظ رہیں ۔

۳۔ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ مہینہ رحمتوں اوربرکتوں سے خالی رہتا ہے اسی لئے اس سے نحوست پکڑتے ہیں ۔

۴۔بعض لوگ جب صفرکی پچیس تاریخ کو اپنے کسی کام سے فارغ ہوتے ہیں تو اسکی تاریخ لکھتے ہوئے کہتے ہیں :"خیر کے مہینہ پچیس تاریخ کو یہ کا م ختم ہوا،(یہ بدعت کا علاج بدعت کیذریعے ہے،یہ مہینہ نہ تو خیرکا ہے اور نہ ہی شر کا) ۔

۵۔بعض لوگوں کے یہاں نئے شادی شدہ جوڑوں کو اس ماہ کے ابتدائی تیرہ دنوں میں ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے، انھیں ایک دوسرے کی صورت تک نہیں دیکھنے دی جاتی ،حتی کہ عام شوہر اور بیوی کو بھی تین دن تک ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے، تاکہ وہ نحوست کا شکار نہ ہوجائیں ۔

۶۔بعض مسلمان ماہ محرم میں اورصفر میں اس بنا پر شادی اورکوئی خوشی کا کا م نہیں کرتے کہ محرم میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے اورصفر میں سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ ان دونوں واقعات کی بنا پر دونوں مہینوں کو شادی اورخوشی کیلئے غیر مناسب اورمنحوس سمجھتے ہیں، حالانکہ کسی کی وفات اور شہادت کا دنوں اور مہینوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا، ورنہ ما ہ ربیع الأول اس بنا پر منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں رسول کی وفات ہوئی جمادی الأول کو اس لئے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ اول، یار غاررسول ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور ذی الحجہ اس لئے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق اور خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی شہادت ہوئی،اورماہ رمضان اس واسطے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ رابع سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اس طرح تما م انبیاء علیہم السلام،صحابہ کرام اورائمہ اسلام کی وفات اور شہادت کے ایام ومہینوں کو منحوس قراردیں، تو کوئی مہینہ، بلکہ کوئی دن نحوست سے خالی نہ رہے، اس واسطے حضرت حسین کی شہادت کی وجہ سے محرم کو اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے انتقال کی وجہ سے صفر کو منحوس سمجھنا اور ان میں شادی بیاہ نہ کرنا سراسر باطل اورغلط ہے۔

کوئی مہینہ اور دن منحوس نہیں ہوتا منحوس آدمی کا اپنا نا جائز عمل اور غلط عقیدہ ہوتا ہے ۔

۷۔ ماہ صفر کی بدعات میں سے ایک بدعت یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اس ماہ کے آخر میں مغرب وعشاء کے درمیان مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں، اور ایک ایسے کاتب کے پاس حلقہ بناکر بیٹھتے ہیں جو انھیں کاغذ پرانبیاء علیہم السلام کے اوپر سلام والی آیتوں کو لکھ کر دیتا ہے وہ آیات یہ ہیں :

1۔سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِیمٍ (یس58)

2۔سَلَامٌ عَلَی نُوحٍ فِی الْعَالَمِینَ (الصافات79)

3۔ سَلَامٌ عَلَی إِبْرَاھِیمَ (الصافات109)

4۔ سَلَامٌ عَلَی مُوسَی وَھَارُونَ (الصافات120)

5۔سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوھَا خَالِدِینَ (الزمر 73)

6۔سَلَامٌ ھِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر:5)

اسکے بعد یہ اسے پانی کے برتن میں ڈالتے ہیں اورپھراسے اس اعتقاد کے ساتھ پیتے ہیں کہ اس سے انکی تمام مصیبتیں دورہوجاتی ہیں،اسی طرح وہ اس پانی کو ایک دوسرے کو ہدیہ کے طور پر بھی بھیجتے ہیں۔

بدھ کے دن سے نحوست اورماہ صفر کے آخری بدھ کی تاریخی حیثیت

الف) بدھ کے دن سے عمومی نحوست:

دمشق میں بعض لوگ بدھ کے روز مریض کی عیادت کو منحوس اور بد فال سمجھتے ہیں،چنانچہ بدھ کے دن عوام اور خواص اوررشتہ داروں کے لئے عیادت مریض ممکن نہیں بظاہر ان لوگوں کی دلیل یہ حدیث ہے کہ :

(یوم الأربعاء یوم نحس مستمر ) "بدھ کا دن مسلسل نحوست کا دن ہوتاہے "اس روایت کے بارے میں امام صاغانی اور امام ابن جوزی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے۔امام سخاوی فرماتے ہیں کہ "بدھ کے دن کی فضیلت میں متعدد احادیث مروی ہیں مگر سب کی سب ضعیف اور ساقط الإعتبار ہیں (المقاصد الحسنۃ للسخاوی 1/574)

اسی طرح لوگوں میں رائج خرافات میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جس نے بدھ کے روزکسی مریض کی عیادت کی تو جمعرات کو وہ اس مریض کی عیادت کرے گا انکا مطلب یہ ہے کہ بدھ کے روز اگر مریض کی عیادت کی جائے گی تو وہ مریض اس کے بعد دوسرے دن جمعرات کو مرجائے گا جس کی زیارت جمعرات کو قبرستان میں ہوگی "

شیخ الإسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا بدھ جمعرات یا سنیچر کے روزسفر کرنا مکروہ ہے ؟ یا ان ایام میں کپڑوں کی کانٹ چھانٹ اور کپڑوں کی سلائی سوت کی کتائی یا اس قسم کے کاموں کا کرنا مکروہ ہے یافلاں فلاں تاریخوں کی راتوں میں وطی اور جماع کرنا مکروہ ہے، کیونکہ ایساکرنے سے پیدا ہونے والے بچوں کے لئے خوف وخطرہ لگا رہتا ہے اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا:’’ کہ سؤال میں مذکورہ عقائدو خیالات باطل اوربے اصل ہیں اورآدمی جب استخارہ کرکے کوئی مباح عمل کرے جس وقت بھی کرنا آسان ہو قطعی طورپر وہ کام کرسکتا ہے کسی دن بھی کپڑے کی کاٹ چھانٹ یا سلائی یا سوت کی کتائی مکروہ نہیں ہے رسولﷺنے بدفالی سے منع فرمایا ہے :(عن معاویۃبن الحکم السلمی قال قلت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان منا قوما یأتون الکہان ؟ فلاتأتوہم قال منا قوم یتطیرون ؟ قال وذالک شئی یجدہ احدکم من نفسہ فلا یصدنکم ) (بخاری کتاب الإستسقاء 2/522،ومسلم کتاب السلام 7/481،حدیث(121)

" حضرت معاویہ بن حکم سلمی سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ؟ ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس آتے ہیں آپ نے فرمایا تم لوگ کاہنوں کے پاس مت جاؤ انہوں نے عرض کیا ہم میں سے کچھ لوگ بدفالی لیتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جس کو تم میں سے بعض لوگ اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں مگراسکی وجہ سے کوئی کام کرنے سے تمہیں باز نہیں رہنا چاہئیے "-

آگے چل کر شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں "جب رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے کہ جس کام کا آدمی نے عزم کیا اس کا م کو بدفالی کے سبب کرنے سے بازنہیں آنا چاہئے تو،رات اوردن میں سے کسی کو منحوس سمجھنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ بلکہ جمعرات اورسنیچر اوردوشنبہ کو سفر کرنا مستحب ہے اورتما م ایام میں کسی دن سفر کرنے یا کسی کام سے روکا نہیں گیاہے البتہ جمعہ کے بارے میں اختلاف ہے اگرسفر کے سبب نماز جمعہ فوت ہوجانے کا خطرہ ہو تو اس دن جمعہ سے پہلے سفر کرنے سے بعض علماء منع کرتے ہیں، اور بعض علماء کرام جائز بتاتے ہیں لیکن کاروباراورجماع ووطی تو کبھی اورکسی دن مکروہ وممنوع نہیں۔واللہ أعلم (دیکھئیے خانہ ساز شریعت ص؍174))

ب) ماہ صفر کے آخری بدھ کی تاریخی حیثیت:

ماہ صفرکے آخری بدھ کے بارے میں عام تصور یہ پایا جاتا ہے کہ اس روز رسول اکرم ﷺنے بیماری سے شفا پائی اور آپ نے غسل صحت فرمایا اسی لئے بعض لوگ ما ہ صفر کے آخری بدھ کو کاروبار بند کرکے عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں،اورسیروتفریح کے لئے شہر سے باہر نکلتے ہیں اور آپ کی صحت یابی کی خوشی میں جلوس نکالتے ہیں حالانکہ اس کا ثبوت نہ احادیث کی کتابوں سے اور نہ تاریخ وسیر کی کتابوں سے ملتا ہے بلکہ تاریخ وسیر کی کتابوں سے اس کے خلاف ثبوت ملتا ہے چنانچہ اسد الغابہ( 1/41) میں ہے (بدأ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرضہ الذی مات منہ یوم الأربعاء لیلتین بقیتا من صفر سنۃ احدی عشرۃ فی بیت میمونۃ ثم انتقل حین اشتد مرضہ الی بیت عائشۃ وقبض یوم الأثنین ضحی فی الوقت الذی دخل فیہ المدینۃ لاثنتی عشرۃ من ربیع الأول ‘‘

رسول اللہ ﷺ کی اس بیماری کا آغاز جس میں آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے سن11ھ میں صفرکے مہینے کی جب دوراتیں باقی رہ گئی تھیں بدھ کے روز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں ہوا پھر جب آپ کی بیماری شدت اختیارکر گئی تو آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر منتقل ہوگئے اور 12ربیع الأول سوموار کے دن چاشت کے وقت جس وقت آپ مدینہ میں داخل ہوئے تھے آپ کی روح اقدس کو قبض کرلیا گیا ۔

یہی عبارت الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب 1/20 میں بھی ہے اور تاریخ خمیس 2/161 میں ہے "ابتدأبہ صداع فی اواخر صفر لیلتین بقیتا منہ یوم الأربعاء فی بیت میمونۃ یعنی رسول کی بیماری کی ابتدا بدھ کے روز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں صفرکے آخرمیں ہوئی۔

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری (8/164)ترجمۃ الباب "با ب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ کی شرح میں لکھا ہے کہ " بیماری کا آغازصفر کے آخر میں ہوا "

اورطبقات ابن سعد (2/377) میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 29 صفر سن 11ھ یو م چہار شنبہ کو بیمار ہوئے اور 12ربیع الأول سن 11ھ بروزدوشنبہ آپ نے وفات پائی اور( البدایہ والنہایۃ (5/224)میں ہے : ابتدأرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشکواہ الذی قبضہ اللہ فیہ ارادہ اللہ من رحمتہ وکرامتہ فی لیال بقین من صفر وفی أول شہر ربیع الأول " رسول کی اس بیماری کا آغاز جس میں اللہ نے ان کی روح مبارک کو قبض فرمایا تاکہ ان کو اپنی رحمت وکرامت سے نوازے صفر کی چند راتیں باقی رہ گئی تھیں یا ربیع الأول کی ابتدا میں ہوا"

تاریخ الکامل (2/215)میں ہے "ابتدأ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرضہ اواخرصفر"رسول ﷺکی اس بیماری کا آغاز صفر کے اواخر میں ہوا"

سیرت ابن ہشام (5/224) میں ہے "ابتدأ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشکواہ الذی قبضہ اللہ فیہ ارادہ اللہ من رحمتہ وکرامتہ فی لیال بقین من صفر او فی شہر ربیع الأول " رسول ﷺ کی اس بیماری کا آغاز جس میں اللہ تعالی نے ان کی روح مبارک کو قبض فرمایا تاکہ ان کو اپنی رحمت وکرامت سے نوازے صفر کی چند راتیں باقی رہ گئیں یار بیع الأول کی ابتداء ہو چکی تھی اسوقت ہوا "

تاریخ ابن خلدون (2/61) میں ہے کہ "بدأہ الوجع لیلتین بقیتا من صفر وتحاوی بہ وجعہ " "صفرکی دو راتیں باقی رہ گئیں تھیں آپ کی بیماری شروع ہوئی پھر آپ بیمار ہی رہے "

تاریخ طبری (2/161) بدأ رسول ﷺ وجعہ لیلتین بقیتا من صفر "رسول مکرم ﷺ کی بیماری کا آغاز اس وقت ہوا جب صفر کی دوراتیں باقی رہ گئی تھیں "

علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ(سیرت النبی 2/172) لکھتے ہیں کہ "زیادہ تر روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کل تیرہ دن بیمار رہے اس بنا پر اگریہ تحقیقی طورپر متعین ہوجائے کہ آپ نے کس تاریخ کو وفات پائی تو تاریخ آغاز مرض بھی متعین کی جاسکتی ہے۔ سیدہ عائشہr کے گھربروایت صحیح آٹھ روز (دوشنبہ تک) بیمار رہے، وہیں وفات ہوئی، اس لئے ایام علالت کی مدت آٹھ روزیقینی ہے عام روایت کے رو سے پانچ دن اور چاہئیں،اوریہ قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے اس لئے مدت علالت 13دن صحیح ہے۔ علالت کے پانچ دن آپ نے ازواج مطہرات کے حجروں میں بسر فرمائے اس حساب سے علالت کا آغاز چہارشنبہ سے ہوتا ہے ۔

بہرحال محققین کے نزدیک آپ کی بیماری کا آغاز صفر میں آخری بدھ کو ہوا کچھ لوگوں نے دن اورتاریخ میں تھوڑا اختلاف کیا ہے مگر یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے کہ آپ کی مرض الموت کی ابتدا صفر کی آخری تاریخوں میں ہوئی پھر بتائیے کہ مسلمانوں کو یہ کہاں زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے نبی فداہ ابی وامی کی بیماری کے دن خوشیاں منائیں زیب وزینت کرکے باغوں پارکوں اور سیر گاہوں میں تفریح کے لئے جائیں،قسم قسم کے کھانے مٹھائیاں اورمیوے وغیرہ کھائیں اور کھلائیں، خصوصاً عورتیں عیدین سے بڑھ کر خوشیاں منائیں، اورخوب بن سنور کر سیر کے لئے نکلیں ذرا غور کیجئے کیا آپ میں کوئی اپنے ماں باپ، بھائی بہن، رشتہ دار،یا عزیز دوست کے مرض میں مبتلا ہونے کی تاریخ کو خوشی منائے گا ؟ اچھے اچھے اورلذیذ کھانوں کا اہتمام کرے گأ؟ گھر میں آپ کا کوئی عزیز جاں کنی کی حالت میں ہوتو آپ سیروتفریح کو جائیں گے ؟ جب آپ اپنے ایک عزیز دوست اوررشتہ دار کی بیماری کے دن ایسا نہیں کرسکتے، تو حضرت محمد عربی ﷺکی علالت کے آغاز کے دن کیسے کرسکتے ہیں جن کے بارے میں فرمان نبوی ہے :لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب الیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین) فتح الباری کتاب ؍الإیمان باب حب الرسول ﷺ من الإیمان 1/80)

"تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جبکہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ سے بیٹے سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں"

مستقل فتوی کمیٹی کا اس ماہ کے بدعات کے سلسلے میں جواب:

سوال :ہمارے ملک میں بعض علماء کا خیال ہے کہ اسلام میں ایک ایسی نفل نماز ہے جو ماہ صفر کے آخری بدھ کو چاشت کے وقت ایک ہی سلام کے ذریعہ چاررکعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔جس میں ہررکعت کے اندر 17بار سورہ فاتحہ و کوثر،50بارسورہ اخلاص اور ایک ایک بارمعوذتین (قل أعوذبرب الفلق وقل أعوذ برب الناس) پڑھی جاتی ہے اوریہ عمل ہررکعت میں کیا جاتا ہے اور سلام پھیر دیا جاتا ہے، پھر سلام کے فورابعد (اللہ غالب علی أمرہ ولکن أکثر الناس لا یعلمون) کو 360بار پڑھا جاتا ہے ،اسکے بعد "جوہرالکمال" کو3بار پڑھا جاتا ہے اورپھر (سبحان ربک رب العزۃعما یصفون،وسلام علی المرسلین،والحمد للہ رب العالمین ) کے ذریعہ نماز ختم کردی جاتی ہے . پھر فقراء ومسکین میں روٹی وغیرہ کا صدقہ کیا جاتا ہے، خاص کرکے اس مذکورہ آیت کا صدقہ،یہ سب ماہ صفرکے آخری بدھ میںنازل ہونے والی مصیبت وپریشانی کو دورکرنے کے اعتقادسے کیاجاتا ہے ۔

اوران کا کہنا کہ ہرسال 3لاکھ بیس ہزار آفتیں نازل ہوتی ہیں اورسب کے سب ماہ صفرکے آخری بدھ کو ہوتی ہیں تو اس اعتبارسے یہ دن سال کا سب سے مشکل دن ہوتا ہے توجوشخص مذکورہ نماز کو اس کی بیان کردہ کیفیت کے ساتھ پڑھے گا تواللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اس نمازکے ذریعہ اس دن کی تما م نازل ہونے والی پریشانیوں سے محفوظ رکھے گا اور اس سال اس کے گرد کوئی بھی مصیبت وآفت چکّرنہیں لگائے گی ۔ الخ

جواب: اللہ ورسولﷺ اورانکے آل وأصحاب پر درودوسلام کے بعد کمیٹی نے کہا کہ" سؤال میں مذکورنفل نماز کے بارے میں کتاب وسنت سے ہم کوئی أصل نہیں جانتے،اورنہ ہی سلف صالحین اورخلف میں سے کسی سے یہ فعل ثابت ہے بلکہ یہ ناپسندیدہ اوربدعت ہے ۔

اورنبی ﷺنے فرمایا ہے (من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو ردّ) وقال( من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردّ)"جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں سے نہیںہے تو وہ مردود ہے " اوردوسری روایت میں یوں فرمایا کہ" جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے "

اورجس نے اس نمازاوراسکے ساتھ جو کچھ ذکرکیا گیا ہے اسکی نسبت نبی یا کسی صحابہ کی طرف کی تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا،اوراللہ کی طرف سے جھوٹے لوگوں کی سزا کا مستحق ہوگا۔ (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ 2/354)

اورشیخ محمد عبد السلام شقیری فرماتے ہیں کہ’’جاہلوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ وہ سلام کی آیتوں جیسے "سلام علی نوح فی العالمین ۔الخ"کوصفرکے آخری بدھ کو لکھ کرپانی کے برتن میں ڈا لتے ہیں پھراس پانی کو پیتے، اوراس سے تبرک حاصل کرتے ہیں۔اسی طرح ایک دوسرے کو ہدیہ بھی دیتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس سے شراورمصیبتیں دورہوجاتی ہیں۔جبکہ یہ فاسد اعتقاد اوربری نحوست ہے اور قبیح بدعت ہے جو شخص بھی کسی کویہ عمل کرتا دیکھے اسکے لئے اس سے روکنا ضروری ہے۔ (السنن والمبتدعات ص؍111-112)

ما ہ صفر میں واقع ہونے والے غزوات وسرایا

اس ماہ میں غزوات وسرایا کی تعداد بہت زیادہ ہے جیساکہ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد ج3 میں اسکی جانب اشارہ کیا ہے جیسے غزوۃ ابواء، بئرمعونۃ، اورخیبر کا قلعہ صفرہی میں فتح ہونا، اسی طرح قبیلہ خثعم کی جانب صفر 9ھجری میں قطبہ بن عامر کی قیادت میں سریہ کا بھیجنا وغیرہ۔

ماہ صفرسے متعلق کچھ ضعیف وموضوع حدیثیں:

۱۔ اس ماہ سے متعلق یہ حدیث مشہور ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ "جوکوئی صفر کے مہینہ کے گزرنے کی خوشخبری دے،میں اسکو جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری سناتا ہوں" لیکن حدیث صحیح سند سے ثابت نہیں ہے بلکہ اس ماہ یا آخری بدھ کے نحوست کے سلسلے میں جتنی بھی حدیثیں ہیں سب ضعیف اورموضوع ہیں - (دیکھئے :الموضوعات لابن الجوزی 3/73-74 )

۲۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ضعیف وموضوع روایت کی معرفت کے اصول وقواعد کے ضمن میں لکھتے ہیں ۔

فصل :ان احادیث کے بارے میں جو آنے والی تاریخ سے متعلق ہیں :

اسی میں سے یہ کہ حدیث میں فلاں فلاں تاریخ کا ذکرہو جیسے انکا قول :جب فلاں فلاں سال ہوگا توایسا ایسا ہوگا اورفلاں مہینہ ہوگا تو یہ حادثہ واقع ہوگا ۔

اور اسی طرح سخت جھوٹے کا قول :جب محرّم میں چاند گرہن لگے گا تومہنگائی،قتل وغارتگری اوربادشاہ وحکمران کی مشغولیت بڑھ جائیگی اورجب صفر میں چاند گرہن لگے گا توایسا ایساہوگا،اس طرح اس کذاب نے سال کے ہرماہ کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی حدیث گڑھی۔ اور اس باب میں جتنی بھی حدیثیں بیا ن کی جاتی ہیں سب کے سب موضوع اور جھوٹی ہیں(دیکھئے المنارالمنیف ص؍64)

مذکورہ بالاکتاب وسنت اورعلمائے کرام کے اقوال وفتاوی کی روشنی میں یہ بات واضح اورواشگاف ہوگئی کہ دین اسلام میں کوئی دن اورمہینہ منحوس نہیں،نہ ہی ان ایام اور مہینوں کا تقدیر الہی میں کوئی تاثیرہے اورنہ ہی انکا کسی کی وفات سے کوئی تعلق ہے ۔

لہٰذا ہم تما م راہ راست سے بھٹکے مسلمانوں سے التماس کرتے ہیں کہ وہ ماہ صفر سے متعلق بدعات اور نحوست وبدشگونی سے توبہ کریں اورصحیح عقیدہ کو اپنا کررب کریم اوررسول رحمت ﷺ کی رضا وخوشنودی کا مستحق بنیں ۔

اللہ سے ہماری یہی دعا ہے کہ ہم سب کو ہر طرح کی بدعت ونحوست سے محفوظ رکھے اورسچا مومن بنائے۔ آمین

وصلی اللہ علی نبینا محمد وبارک وسلم 

http://usvah.org/archives/2011/item/392-%D9%85%D8%A7%DB%81-%D8%B5%D9%81%D8%B1-%D9%86%D8%AD%D9%88%D8%B3%D8%AA-%D9%88-%D8%A8%D8%AF%D8%B9%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%DA%AF%DA%BE%DB%8C%D8%B1%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA 

~~~~~~~~~~~~~~

.

اتوار، 6 ستمبر، 2020

کیا یزید بن نے حسین کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا؟ ‏

.

*​​​​​​​​​​​​​​​​​​​🌹​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​•‍━━•••◆◉ ﷽ ◉◆•••‍━━•​​🌹​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​* 

کیا یزید بن معاویہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا؟ 

~~~~~؛

سوال: زینب بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما نے سانحہ کربلا کے بعد شام میں یزید کے سامنے خطاب کرتے ہوئے کیا کہا تھا؟ اور یزید نے حسین رضی اللہ عنہ کے خاندان کا راستہ چھوڑنے سے کیوں انکار کیا؟ اور اگر یزید نے خود یہ کام نہیں کیا تھا تو جو کچھ بھی آل بیت کے ساتھ ہوا وہ سب کچھ یزید کے حکم سے نہیں ہوا تھا؟ 

جواب 
الحمد للہ.

اول:

مسلمانوں کو ہمیشہ سے تاریخی کتب کے جھوٹے قصوں اور واقعات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے، اگر کوئی عقل مند اس فرمانِ باری تعالی پر غور کرے:
( تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ )
ترجمہ: یہ امت ہے جو گزر گئی جو اس نے کمایا اس کیلیے وہی ہےاور تمہارے  لئے وہ ہےجو تم نے کمایا، اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔[ البقرة:134]
اور پھر اس آیت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زبان کو لگام دے، اور فتنوں سے متعلقہ گفتگو میں مت پڑے، تاکہ اللہ کے سامنے جب جائے تو اس نے کسی پر ظلم نہ کیا ہو، نبوی خانوادے سے محبت کرے اور ان کے دشمنوں سے دشمنی روا رکھے تو وہ اپنے رب کے ہاں متقی شخص ہو گا اور اس کا دین بھی صحیح سلامت ہوگا۔

مسلمانوں کے ما بین ہونے والے اختلافات اور جھگڑوں کو بیان کرنے والے عام طور پر راوی  جھوٹے ، نا معلوم  اور کذاب ہوتے ہیں، اس لیے ان راویوں کی جانب سے بیان کردہ روایات پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ عادل راوی نہیں ہیں، جبکہ کسی کی بات پر اعتماد کرنے کیلیے اللہ تعالی نے اصول بیان فرمایا کہ:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ )
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تاکید کر لو [مبادا] تم کسی قوم کو لا علمی کی بنا پر کوئی گزند پہنچاؤ اور پھر تمھیں اپنے کیے پر ندامت اٹھانی پڑے۔[ الحجرات:6]

انہی جھوٹے قصوں میں سے وہ ہے جو طبرانی نے اپنی کتاب "تاریخ":  (5/461) میں اور ابن عساکر نے "تاریخ دمشق" (69/176) میں ابو مخنف  کی سند سے بیان کیا ہے کہ وہ حارث بن کعب سے وہ فاطمہ بنت علی سے بیان کرتے ہیں کہ: "جس وقت ہمیں یزید بن معاویہ کے سامنے بٹھایا گیا تو اس نے ہمارے ساتھ نرم لہجہ اپنایا اور ہمیں کچھ دینے کا حکم دیا، اور اچھا برتاؤ کیا، وہ مزید کہتی ہیں کہ: اہل شام میں سے سرخ رنگ کا آدمی یزید کے پاس گیا اور اس سے کہا: "امیر المؤمنین! یہ لڑکی -یعنی میں فاطمہ بنت علی-مجھے ہبہ کردیں" اور میں خوبرو لڑکی تھی، تو میں یہ سن کر کانپ گئی اور سہم گئی، اور سمجھنے لگی کہ ان کیلیے ایسا کرنا جائز ہے، تو میں نے اپنی بہن زینب کے کپڑے پکڑ لیے ، زینب مجھ سے بڑی اور سمجھدار تھیں ، نیز انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، تو انہوں نے کہا:
"اللہ کی قسم! تم غلط کہتے ہو، تم کمینے ہو! یہ بات نہ تیرے لیے جائز ہے اور نہ ہی اس [یزید] کیلیے۔
تو یزید نے کہ: تم غلط کہتی ہو! یہ بات میں کر سکتا ہوں، اور اگر میں چاہوں تو اسے پورا بھی کر سکتا ہوں۔
تو زینب نے کہا: تم ہر گز ایسا نہیں کر سکتے! اللہ تعالی نے تمہارے لیے ایسا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی، الا کہ تم ہمارے دین سے خارج ہو جاؤ، اور کسی دوسرے دین کے پیرو کار بن جاؤ۔

فاطمہ کہتی ہیں: یہ سن کر یزید غصہ سے لال پیلا ہو گیا ۔
اور کہنے لگا: کیا تم مجھے اس انداز سے مخاطب کرتی ہو! دین سے تو تمہارا باپ اور بھائی خارج ہو چکا ہے۔
تو زینب نے کہا: اللہ کے دین ، میرے والد، بھائی اور نانا کے دین  پر ہی تو تیرا باپ، اور دادا ہدایت یافتہ ہوئے تھے۔

یزید نے کہا: اللہ کی دشمن! تم غلط کہتی ہو!
زینب نے کہا: تو ہم پر مسلط کیا گیا حکمران ہے، ظلم کرتے ہوئے گالیاں دیتے ہو! اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر مسلط ہو۔

زینب کہتی ہیں کہ : پھر ایسا محسوس ہوا کہ یزید کو کچھ شرم آئی اور خاموش ہو گیا، اس پر اُس شامی شخص نے دوبارہ مطالبہ کیا کہ: "امیر المؤمنین! یہ لڑکی مجھے ہبہ کر دیں"
تو یزید نے کہا: اللہ تجھے نیست و نابود کرے !تو بن بیاہے ہی رہے گا"
ابن کثیر نے اسے ابو مخنف کی سند کیساتھ البداية والنهاية (11/562) میں اسی طرح بیان کیا ہے ۔

جبکہ ابو مخنف کا نام : لوط بن یحیی ہے ، اس کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" أخباري تالف، لا يوثق به. تركه أبو حاتم وغيره "پرلے درجے کا قصہ گو ہے، اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، اسے ابو حاتم وغیرہ نے ترک کر دیا تھا۔
دارقطنی کہتے ہیں: ضعیف ہے۔
ابن معین کہتے ہیں: " ليس بثقة "یعنی: یہ ثقہ نہیں ہے، اور ایک بار یہ بھی کہا ہے کہ: " ليس بشيء "یعنی: اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
ابن عدی کہتے ہیں کہ: " شيعي محترق، صاحب أخبارهم "کٹر شیعہ تھا اور انہی کے قصے بیان کرتا تھا"
دیکھیں: ميزان الاعتدال (3 /419)

لہذا یہ روایت ہی صحیح نہیں ہے بلکہ جھوٹ ہے۔

اسی طرح کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ  یزید بن معاویہ چھڑی سے حسین رضی اللہ عنہ کے دانتوں کو چھیڑ رہا تھا تو اس پر زینب نے کہا:
" یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دئیے ہیں اور ہمیں ایسے ہانکا گیا جیسے لونڈیوں کو ہانکا جاتا ہے، اس طرح تو اللہ کی بارگاہ میں سرفراز ہو گیا اور ہم رسوا ہو گئے ہیں؟ کیا تیرے خیال میں یہ سب کچھ اللہ کی بارگاہ میں تیرے شان و مقام کی وجہ سے ہے؟ آج تو اپنی ناک اٹھائے پھر رہا ہے ، مسرت و شاد مانی سے سرشار ہو کر مغرور ہے۔ آزاد کردہ غلاموں کی اولاد! کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کیا ہوا ہے جبکہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی بیٹیوں در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے ان کی بے پردگی کی اور ان کے چہرے سب کیلیے عیاں کیے ،  تیرے حکم پر دشمنوں نے انہیں شہر شہر پھرایا ۔۔۔"

یہ قصہ بے بنیاد ہے اہل علم کی کتابوں میں اس کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، اس قصہ کو بیان کرنے کیلیے صرف رافضیوں کی کتابیں ہیں جو کہ جھوٹ بولنے میں مشہور ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح بخاری میں جو بات ثابت ہے کہ: حسین رضی اللہ عنہ کا سر عبید اللہ بن زیاد کے سامنے لایا گیا اور وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے حسین رضی اللہ عنہ کے اگلے دانتوں  کو چھڑی سے کریدنے لگا"

جبکہ مسند میں ہے کہ: "یہ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ہوا"

لیکن کچھ لوگ منقطع سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ یہ  یزید بن معاویہ  کے موجودگی میں ہوا تھا، لیکن یہ بات بالکل باطل ہے" انتہی
مجموع الفتاوى (27/ 469)

اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"یزید بن معاویہ شام میں تھا، حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت وہ عراق میں نہیں تھا، چنانچہ جو یہ بات نقل کرتا ہے کہ  یزید بن معاویہ  کی موجودگی میں عبید اللہ بن زیاد نے انس بن مالک اور ابو برزہ رضی اللہ عنہ کے سامنے حسین رضی اللہ عنہ کے دانتوں پر چھڑی سے کریدا یہ بالکل واضح جھوٹ ہے اور متواتر روایات سے اس کا جھوٹ ہونا معلوم ہوتا ہے" انتہی
مجموع الفتاوى (27/ 470)

دوم:

مشہور و معروف یہ بات ہے کہ یزید بن معاویہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور نہ ہی اسے پسند جانا بلکہ ابن زیاد کو حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر برا بھلا بھی کہا ، نیز حسین رضی اللہ عنہ کے جو اہل خانہ ان کے ساتھ تھے ان کی تکریم بھی  کی اور انہیں شایان شان طریقے سے مدینہ واپس بھیج دیا، اپنے پاس نہیں رکھا۔

اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یزید بن معاویہ  کی پیدائش عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ہوئی ، یزید دینداری اور خیر میں مشہور نہیں تھا، نوجوان مسلمان تھا،  اس نے اپنے والد کے بعد حکمرانی کی باگ دوڑ سنبھالی ، اگرچہ کچھ مسلمانوں نے اسے اس لائق نہیں سمجھا ، اور کچھ اس پر راضی تھے ، تاہم اس میں بہادری اور سخاوت کے اوصاف پائے جاتے تھے، اعلانیہ طور پر گناہوں کا رسیا نہیں تھا جیسے کہ  اس کے بارے میں ان کے مخالفین کہتے ہیں۔

نیز اس نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا، اور نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر اظہارِ خوشی کیا ، نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کے دندان کو چھڑی سے کریدا، نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کا سر شام اس کے پاس لے جایا گیا، تاہم اس نے حسین رضی اللہ عنہ کو روکنے کا حکم دیا تھا، نیز سیاسی معاملات سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی چاہے اس کیلیے مسلح راستہ اپنانا پڑے۔

لیکن یزید کے مشیر اس کے حکم سے بھی آگے بڑھ گئے اور شمر بن ذی الجوشن نے عبید اللہ بن زیاد کو قتل کرنے کی ترغیب دلائی ، چنانچہ عبید اللہ بن زیاد نے حسین رضی اللہ عنہ پر تشدد کیا ، تو حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے مطالبہ کیا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دیں، یا میں اسلامی سرحدوں پر پہرے دار بن جاتا ہوں یا مکہ واپس چلا جاتا ہوں۔

لیکن انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کی کوئی بات نہ مانی اور انہیں گرفتاری دینے کا کہا اور عمر بن سعد کو حسین رضی اللہ عنہ سے لڑنے کا کہا انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے ان کے اہل خانہ کے ساتھ قتل کر دیا، اللہ تعالی حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ سے راضی ہو۔

آپ رضی اللہ عنہ کا قتل بہت بڑا سانحہ تھا، کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان سے پہلے عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل  اس میں امت میں بڑے بڑے فتنوں کا باعث بنا، نیز ان کے قاتلین اللہ تعالی کے ہاں بد ترین مخلوق ہیں۔

اس کے بعد جب حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ یزید بن معاویہ  کے پاس آئے تو یزید نے ان کا احترام کیا اور انہیں مدینہ روانہ کر دیا، یزید کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے ابن زیاد پر حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے کی وجہ سے لعنت بھی کی ، یزید نے یہ بھی کہا کہ میں اہل عراق سے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے بغیر ہی راضی تھا۔

لیکن ان باتوں کے با وجود یزید نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کیلیے کوئی اقدامات کیے اور قصاص بھی نہیں لیا ، حالانکہ قصاص لینا یزید پر واجب تھا، چنانچہ اسی وجہ سے اہل حق یزید کو اس واجب کے ترک کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر امور کی وجہ سے  ملامت کرنے لگے ۔

لیکن یزید کے مخالفین یزید کے خلاف باتیں کرتے ہوئے بہت سی جھوٹی چیزیں بھی شامل کر دیتے ہیں۔" انتہی
مجموع الفتاوى (3/ 410)

کتب میں یہ بھی موجود ہے کہ یزید کو حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر ندامت ہوئی ، وہ کہا کرتا تھا: "مجھے کیا ہوتا اگر میں اس تکلیف کو برداشت کر لیتا، اور ان[حسین رضی اللہ عنہ] کو  اپنے گھر میں ٹھہراتا، اور پھر انہیں ان کے بارے میں مکمل خود مختاری دے دیتا، اگرچہ اس کی وجہ سے مجھے اپنی سلطنت میں کمی اٹھانی پڑتی؛ تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے خانوادے کے حقوق کی پامالی نہ ہو"
پھر کہا کرتا تھا: "اللہ تعالی مرجانہ کے بیٹے [عبید اللہ بن زیاد]پر لعنت فرمائے کہ اس نے حسین رضی اللہ عنہ کو باہر نکال کر مجبور کیا ، حالانکہ حسین رضی اللہ عنہ نے اس سے تین مطالبے کیے تھے: کہ اس کا راستہ چھوڑ دیا جائے، یا وہ میرے [یزید بن معاویہ کے]پاس آ جائیں، یا پھر مسلمانوں کی سرحدوں پر  پہرے دار کی حیثیت بقیہ زندگی گزاریں یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں موت دے دے، لیکن عبید اللہ نے ایسا نہ کیا اور انہیں قتل کر دیا، اس طرح سے عبید اللہ نے مسلمانوں میں میرے بارے میں نفرت پھیلا دی، اور ان کے دلوں میں میرے بارے میں دشمنی کا بیج بو دیا، پھر نیک و بد ہر شخص مجھ سے نفرت کرنے لگا؛ کیونکہ لوگوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کو بہت ہی زیادہ اہمیت دی حالانکہ میرا اس میں کوئی دخل نہیں تھا یہ کارستانی صرف ابن مرجانہ کی تھی، اللہ تعالی اس پر لعنت فرمائے اور اپنا غضب نازل کرے۔"
البداية والنهاية (11/ 651)، سير أعلام النبلاء (4/370)

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یزید بن معاویہ  کے بارے میں سب سے سنگین الزام جو لگایا جاتا ہے وہ شراب نوشی سمیت دیگر کچھ اور غلط کام ہیں لیکن حسین رضی اللہ عنہ کا قتل  نہ تو اس کے حکم سے ہوا اور نہ ہی اسے برا لگا، جیسے کہ یزید کے دادا  ابو سفیان نے احد کے دن کہا تھا۔

اور ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یزید نے کہا تھا: "اگر میں حسین کے پاس ہوتا تو ایسا نہ کرتا جیسا ابن مرجانہ یعنی عبید اللہ بن زیاد نے کیا "
اس نے حسین رضی اللہ عنہ کا سر لیکر آنے والوں کو کہا کہ: تمھیں اس سے کم اطاعت بھی کافی تھی! اور انہیں اس کارستانی پر کچھ نہیں دیا، جبکہ حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کا احترام کیا اور ان سے چھینا گیا سب مال سمیت بہت کچھ انہیں دیا اور انہیں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ مکمل شایانِ شان انداز میں مدینہ واپس بھیج دیا ، اور جس دوران حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ یزید کے اہل خانہ کے گھر میں تھے تو یزید کے گھر والوں نے ان کے ساتھ تین دن تک سوگ بھی کیا" انتہی
البداية والنهاية (11/ 650)

یہ سب کچھ یزید  کا دفاع یا یزید کی جانب میلان رکھنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یزید کے بارے میں معتدل  رائے ہی یہ ہے کہ: یزید کا حکم دیگر ظالم حکمرانوں جیسا ہے کہ نہ تو اس سے بنائی جائے اور نہ ہی بگاڑی جائے ، اس سے محبت بھی نہ کی جائے اور اسے گالی بھی نہ دی جائے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہی وجہ ہے کہ اہل سنت اور امت اسلامیہ کے ائمہ کرام کا موقف یہ ہے کہ: یزید کو گالی دی جائے اور نہ ہی اس سے محبت کی جائے، چنانچہ صالح بن احمد بن حنبل کہتے ہیں : میں نے اپنے والد سے کہا: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ: وہ یزید سے محبت کرتے ہیں، تو میرے والد [امام احمد بن حنبل]نے کہا: "بیٹا! کوئی اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والا بھی یزید سے محبت کر سکتا ہے؟
تو اس پر میں نے کہا: اباجی! پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟
تو انہوں نے کہا: بیٹا! آپ نے اپنے والد کو کبھی کسی پر لعنت کرتے ہوئے دیکھا ہے؟" انتہی
مجموع الفتاوى (3/ 412)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ:

" ابو محمد المقدسی کہتے ہیں: جس وقت ان سے یزید کے بارے میں پوچھا گیا-تو جیسے مجھے بات پہنچی ہے - انہوں نے کہا تھا: اسے گالی دی جائے نہ محبت کی جائے۔
اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہمارے دادا ابو عبد اللہ ابن تیمیہ سے جب یزید کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: "بے عزتی نہ کرو اور نہ ہی احترام کرو"
اور یہ یزید اور اس جیسے دیگر لوگوں کے بارے میں معتدل ترین اور بہترین موقف ہے" انتہی
مجموع الفتاوى (4/ 483)

یزید کے بارے میں مزید صحیح موقف جاننے کیلیے آپ فتوی نمبر: (23116) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم. 

https://islamqa.info/amp/ur/answers/241102 

.