پیر، 14 ستمبر، 2020

ماہ صفر اور نحوست و بد شگونی کی حقیقت ‏اکبر ‏علی ‏سلفی

.

❀•┈┈•❀•▪¤   بسم اللہ الرحمن الرحیم  ¤▪•❀•┈┈•❀ 

ماہ صفر اور نحوست و بد شگونی کی حقیقت

حافظ اکبر علی اختر علی سلفی 

الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعد ہ، اما بعد :
ماہِ صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے ، اس ماہ کی فضیلت کی بابت میرے علم کے مطابق کوئی حدیث مروی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات مروی ہے جس کی وجہ سے اس مہینے کو بے برکت اور برا سمجھا جائے اور کوئی حلال و پر مسرت کام کو انجام دینے سے رکا جائےیا روکا جائے۔ واللہ اعلم.

وجہِ تسمیہ :
امام علی بن محمد علم الدین السخا وی رحمہ اللہ (المتوفی :643ھ) فرماتے ہیں:
”سُمِّيَ بِذَلِكَ لِخُلُوِّ بُيُوتِهِمْ مِنْهُ حِينَ يَخْرُجُونَ لِلْقِتَالِ وَالْأَسْفَارِ، يُقَالُ : ”صَفِرَ الْمَكَانُ“: إِذَا خَلَا“ ”اہل عرب (اس ماہ میں) اپنے گھروں سے جنگ و جدال اور سفروں کے لئے نکل جاتے تھے اور ان کے گھر خالی ہوجاتے تھے ، اسی لئے اس ماہ کو صفر کے نام سے موسوم کیا گیا۔ جب کوئی جگہ خالی ہوجائے تو کہا جاتا ہے :”صَفِرَ الْمَكَانُ“۔(تفسير ابن کثیر بتحقیق عبد الرزاق المہدی :3/347)

ماہ صفر سے متعلق عرب جاہلیت کا عقیدہ :
اس ماہ کے تعلق سے عرب جاہلیت کے یہاں دو غلط باتیں پائی جاتی تھیں۔
(1) اس ماہ کو وہ آگے پیچھے کر دیا کرتے تھے اور اعلان کروایا کرتے تھے کہ اس سال صفر کا مہینہ پہلے اور محرم کا مہینہ اس کے بعد ہوگا ۔ ان کے اس عمل کی تردید کرتے ہوئے اور اسے کفر قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا :
” إِنَّمَا النَّسِیءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ“
”مہینوں کو آگے پیچھے کردینا ،کفر میں زیادتی ہے “۔(سورۃ التوبۃ : 37)
(2) اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے۔
جس کی تردید کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
”وَلَا طِیرَۃَ وَ لَا صَفَرَ“ ”کوئی بد شگونی نہیں ہے اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے “۔ (صحیح البخاری:5757 و سنن ابی داؤد بتحقیق الالبانی:3911)
معلوم ہوا کہ ماہ صفر کو منحوس سمجھنا دور ِجاہلیت کے عرب کا عقیدہ تھا۔ نیز دیکھیں : (سنن ابی داؤد :3915و لطائف المعارف لابن رجب،ص:74)

کیا کسی مسلمان کا ماہِ صفر وغیرہ کو منحوس سمجھنا اور اس سے بد شگونی لیناجائزہے ؟
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ موجودہ دورکے بہت سے مسلمان ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس سے بد شگونی لیتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ مہینہ رحمتوں اور برکتوں سے خالی ہوتا ہے ۔
راقم کہتا کہ یہ قول فاسد ہے کیونکہ ماہ صفر ہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازوں کو کھول کر اللہ کے رسول ﷺ اور تمام مسلمانوں کو” فتحِ خیبر“ سے نوازا تھا۔ دیکھیں : ( تجلیات نبوت : ص: 363-379ودیگر کتب سیر)

اس پر مزید یہ کہ ان کے دامن میں اپنے قول کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ” صحیح“ اور ” معقول“ دلیل نہیں ہے ۔
دوسری وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس ماہ کے اخیر میں رحمت کائنات ﷺ بیمار ہوئے تھے۔ تو اس کی بابت عرض ہے کہ یہ ماہ صفر کے منحوس ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ آپﷺ کا مزاج ماہ صفر کی وجہ سے نہیں بگڑا تھا بلکہ وہ اللہ کی مرضی تھی اور آپ اگر اس ماہ میں بیمار نہ ہوتے تو کسی اور ماہ میں بیمار ہوتے اور وہ آپ کی وفات کا سبب بنتا اور اگر ماہ صفر میں آپ کا بیمار ہونا ما ہ صفر کی نحوست کی دلیل ہوسکتی ہے تو ماہ ربیع الاول بھی بدرجۂ اولیٰ منحوس قرار پائے گا کیونکہ آپ ﷺ کی وفات اسی ماہ میں واقع ہوئی اور یہ کسی مسلمان کا بھی عقیدہ نہیں ہے کہ ماہ ربیع الاول منحوس مہینہ ہے اور جب ماہ ربیع الاول رسول اللہ ﷺ کی وفات کی وجہ سے منحوس نہیں تو پھر ماہ صفر رسول اللہ ﷺ کے بیمار ہونے کی وجہ سے کیونکر منحوس قرار پائے گا ؟

بعض حضرات اس ماہ میں شادی یا کوئی خوشی کا کام نہیں کرتے ہیں اور وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ اس ماہ میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا انتقال ہوا تھا ۔
اس کی بابت عرض ہے کہ یہ فکر بھی باطل ہے اور اسلام میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے ماہ صفر ۷ ؁ھ میں شادی کی تھی اور یہ وہی مہینہ ہے جس میں 15یا 16یا 18 صحابہ کرام شہید ہوئے تھے۔
دیکھیں : ( تجلیات نبوت :ص: 374-379ودیگر کتب سیر)

اوربہت سارے مسلمان ماہ صفر سے نہیں بلکہ انسان یا بلی وغیرہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس سے بد شگونی لیتے ہیںمثلاً: ایک انسان، جب اُس کاکوئی کام خراب ہوجاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اِس کام کو ہاتھ میں لینے سے پہلے میں نے فلاں کا چہرہ دیکھا تھا ، وہ منحوس ہے ، یہ اُسی کی وجہ سے ہوا ہے۔
اِسی طرح اگر بلی کسی بدشگونی لینے والے کے سامنے سے گزر جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ بس! جس کام کے لئے جارہا تھا اب وہ کام نہیں ہوگا کیونکہ بلی نے راستہ کاٹ دیا ہے ،اس وجہ سے وہ اپنے کام کو انجام دینے سے رک جاتا ہے ۔
محترم قارئین !کوئی مصیبت آنے پر کسی دوسرے کو منحوس قرار دینا، یہ مسلمان کا کام نہیں ہے بلکہ کافروں کا کام ہے جیساکہ فرعون کی قوم کی بابت اللہ تعالی فرماتا ہے :
”وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوا بِمُوسَى وَمَنْ مَعَهُ“ ”جب ان کو کوئی برائی پہنچتی تو وہ موسی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو منحوس قرار دیتے“۔ (سورۃ الاعراف :131)
اور کسی چیز سے بد شگونی لیتے ہوئے اپنے کام کو انجام نہ دینا ، شرک ہے جیساکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے ۔ دیکھیں :(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی بتحقیق الہلالی :1/344، ح:293، شیخ سلیم حفظہ اللہ نے اِس کی سند کو حسن کہا ہے)

اور یہ بات بھی جان لیں کہ کسی چیز سے بدشگونی لینا ،گویا اس چیز کو نافع وضار تصور کرنا ہے جبکہ نافع اور ضار فقط اللہ تعالیٰ ہےجیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ یَنْفَعُوکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ لَکَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَی أَنْ یَضُرُّوکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ عَلَیْکَ“ ”جان لو ! اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے اور اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں کچھ نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے“۔(سنن الترمذی بتحقیق الالبانی :2516 ، اس حدیث کو امام ترمذی اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے صحیح کہا ہے)
اور اللہ کے اِس فرمان کو بھی یا د رکھیں : ”مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللہِ“ ”کوئی بھی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی ہے“۔(سورۃ التغابن : 11)
بدشگونی لینے کا انجام:
ایک مسلمان کے شایان شان یہ ہے کہ وہ اچھا شگون لے کیونکہ رسول اللہ ﷺ اچھا شگون لیتے تھے اور اسے پسند فرماتے تھے۔ (صحیح البخاری :5756و 2731)

لیکن اگر کوئی بدشگونی لیتا ہے تو وہ شرک کا مرتکب ہوگاجیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اَلطِّیَرۃُ شِرْکٌ“ ” بدشگونی شرک ہے “۔ (ابوداؤد بتحقیق الالبانی : 3910 ، اس حدیث کو امام ترمذی اور علامہ البانی وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے)

بدشگونی نہ لینے کا عظیم فائدہ:
ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے کہا :
” مجھ سے کہا گیا :دیکھو! میں نے ایک بہت بڑی جماعت دیکھی جس نے آسمانوں کا کنارہ ڈھانپ لیا تھا۔ پھر مجھ سے کہا گیا : ادھر دیکھو، ادھر دیکھو، میں نے دیکھا کہ بہت سی جماعتیں ہیں جو تمام افق کو گھیرے ہوئے تھیں۔ کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل کئے جائیں گے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ یہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے۔ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپس میں اس کے متعلق کچھ باتیں کیں۔ جب نبی کریم ﷺ کو یہ باتیں پہنچیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ”هُمُ الَّذِينَ لاَ يَتَطَيَّرُونَ، وَلاَ يَسْتَرْقُونَ، وَلاَ يَكْتَوُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ“ ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ بدشگونی لیتے ہیں،نہ دم کرواتے ہیں اور نہ ہی داغ کر علاج کرتے ہیںبلکہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں“۔(صحیح البخاری : 5752 وغیرہ)
اس حدیث سے بدشگونی نہ لینے کا ایک عظیم فائدہ معلوم ہوتا ہے لیکن افسوس! اپنے معاشرے میں تھوڑی تھوڑی بات پر بد شگونی لینے والے بہت لوگ ہیں، بطور خاص جب بیماری لگ جانے کا معاملہ ہو۔ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین۔

اگر کسی چیز کی وجہ سے دل میں بدشگونی پیدا ہو تو۔۔..:
ایک انسان بدشگونی نہیں لینا چاہتاہے لیکن کسی چیز کی وجہ سے اس کے دل میں بدشگونی پیدا ہوجاتی ہے تو ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ اس بدشگونی کی طرف دھیان نہ دے اور اس کی وجہ سے اپنے کام کو عملی جامہ پہنانے سے نہ رکے جیسا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ” ذَاکَ شَیْءٌ یَجِدُہُ أَحَدُکُمْ فِی نَفْسِہِ، فَلَا یَصُدَّنَّکُمْ “ ”بد شگونی ایک ایسی چیز ہے جس کو تم میں سے بعض لوگ اپنے نفس میں محسوس کرتے ہیں لیکن بد شگونی تم کو (کسی کام کو انجام دینے سے ) نہ روکے“۔(صحیح مسلم :537)
بلکہ بلا جھجھک اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے کام کو کر گزرئے اور جو کچھ اس کے دل میں ہوگا وہ اللہ پر توکل کی وجہ سے اللہ اس کو ختم کردے گا ۔
رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ” وَمَا مِنَّا إِلَّا، وَلَكِنَّ اللہَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ“ ” اور ہم میں سے ہر کسی کو کوئی نہ کوئی وہم ہو ہی جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی وجہ سے اسے ختم کردیتا ہے“۔ (سنن ابی بوداؤد بتحقیق الالبانی :3910، اس حدیث کو امام ترمذی اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے صحیح قرار دیا ہے)
لیکن یاد رہے کہ اگر کوئی بدشگونی کی وجہ سے اپنے کام کو انجام نہ دے ،تو ” شرک “ کا مرتکب ہوگا اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ یہ دعاپڑھے۔
”اللَّہُمَّ لَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ، وَلَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ“

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”مَنْ أَرْجَعَتْہُ الطِّیَرَۃُ عَنْ حَاجَتِہِ، فَقَدْ أَشْرَکَ ، قَالُوا : وَمَا کَفَّارَۃُ ذَلِکَ یَا رَسُولَ اللہ؟ قَالَ یَقُولُ أَحَدُہُمُ : اللَّہُمَّ لَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ، وَلَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ “ ” ترجمہ : :
جس شخص کو بد شگونی اس کی حاجت ( کو پورا کرنے ) سے روک دے تو اس نے شرک کیا ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اس کا کفارہ کیاہے ؟ تو آپ نے فرمایا : وہ یہ دعا پڑھ لے :” اے اللہ ! تیری بدشگونی (جو کہ تیرے ہی حکم سے ہوتی ہے ،اس)کے علاوہ کوئی بدشگونی نہیں ہے اور تیری بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں ہے اور تیرے علاوہ کوئی (سچا) معبود نہیں ہے“۔
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی بتحقیق سلیم الہلالی :1/344،ح :293 والصحیحۃ للالبانی :3/53،ح: 1065و مسند احمد بتحقیق شعیب ورفقائہ : 11/623 ، ح:7045 ،
مذکورہ محققین نے اِس کی سند کو حسن قرار دیا ہے)
اخیر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہم سب کو نحوست اور بد شگونی سے بچائے اور اچھے فال کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین۔

.