جمعہ، 18 ستمبر، 2020

علی حسن الحلبی البانی کے شاگرد؟ مامون سلفی ‏

.

❁════┅┄ ﷽ ┄┅════❁ 

علی حسن الحلبی البانی کے شاگرد؟ مامون سلفی 

مرجئ بدعتی علی حسن بن عبد الحمید الحلبی الاثری محدث العصر علامہ البانی کے شاگرد نہ تھے 

از قلم 
مامون رشید ہارون رشید سلفی 

بڑے بڑے افاضل کرام اور مشائخ عظام کی زبانی بارہا یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ "علی الحلبی" محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے جس کے ذریعے ایک طرح سے ان کی توثیق وتعدیل اور تزکیہ وتبحر علمی کا اثبات مقصود ہوتا ہے حالانکہ حقیقتاً معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے...

ان چند سطور میں میں علمائے کرام اور خود امام البانی رحمہ اللہ کی تصریحات کی بنیاد پر یہ ثابت کروں گا کہ یہ علی الحلبی صاحب آپ کے شاگرد نہیں تھے انہوں نے آپ سے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی ہے نہ تو فن حدیث میں نی ہی عقیدہ میں اور نہ ہی تفسیر فقہ منہج اور اخلاقیات وسلوک میں...یہ مختصر سا مضمون خاص اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے ہے ورنہ عالی جناب کے انحرافات کی وضاحت کے لیے عن قریب ایک مفصل مضمون لکھنے کا ارادہ ہے... 

اس سے قبل کے میں شیخ البانی کا کلام ذکر کروں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لفظ تلمیذ کے بارے میں چند باتیں ذکر کر دوں... دیکھئے لغوی وعرفی وعلمی اصطلاحات کوئی منزل من اللہ شئی نہیں ہے کہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی واقع ہونا اور معانی میں اضافہ ہونا ممکن ہی نہ ہو... یہ لوگوں کی بنائی ہوئی اصطلاح ہے جس میں تبدیلی کی گنجائش بر حال موجود ہے جیسا کہ اصول ہے "لا مشاحۃ فی الاصطلاح" لیکن ایسا نہیں ہے کہ آپ اصطلاحات وضع کرنے کے سلسلے میں شتر بے مہار کی طرح بالکل آزاد ہیں لہذا من مرضی کے اصطلاحات گھڑتے رہیں بلکہ یہ بھی چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے...لفظ تلمیذ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ابتدا میں ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا تھا جس نے بالمشافہ یعنی ڈائریکٹ کسی عالم سے باضابطہ کوئی کتاب پڑھی ہو یا کوئی علم یا فن سیکھا ہو.... پھر بعد میں تلمیذ عام معنی کے اعتبار سے ایسے شخص کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا جس نے کسی عالم کی کوئی کتاب پڑھی ہو اور اس سے متاثر ہو گیا ہو یا اس کے دروس اور خطبات سنا ہو یا سوالات و جوابات کے ذریعے ان سے کچھ سیکھا ہو لیکن ایسا نادر ہی ہوا اور جہاں کسی نے ایسی چیز کا اعتبار کیا تو ساتھ ساتھ وضاحت بھی کر دی کہ ہم اس طور پر اپنے آپ کو فلاں کا شاگرد کہہ رہے ہیں....لیکن یہاں بھی ایک شرط عائد کر دی گئی کہ اگر کسی کے ایسا کرنے سے لوگوں کو شک اور التباس ہوتا ہو اور لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ واقعی یہ فلاں کا حقیقی شاگرد ہے تو ایسی صورت میں اس سے بچنا لازمی ہے ورنہ اسے تدلیس اور جھوٹ شمار کیا جائے گا...... یاد رہے یہ محض ایک اعتباری چیز ہے یا محض عقیدت مندی میں لوگ ایسا کرتے ہیں جیسا کہ میں خود فقیہ الدنیا شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کو اپنا شیخ اور استاد مانتا ہوں حالانکہ میں نے بجز وڈیوز اور تصاویر کے بالمشافہ انہیں کبھی نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی کبھی ان سے بات چیت کی ہے....ورنہ اگر واقعی کسی کی تقریر سننے سے یا خطبات ومحاضرات میں شامل رہنے سے یا کسی سے سوالات کے ذریعے کچھ معلوم کرنے سے انسان اس کا شاگرد بن جاتا تو تمام ہندوستانی ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اور تمام سعودی اور دنیا جہان کے ڈھیر سارے مسلمان امام ابن باز کے شاگرد شمار ہوتے حالانکہ ایسا کچھ نہیں شمار کیا جاتا..... 

علی الحلبی بھی شیخ البانی کے دوسری قسم والے شاگردوں میں سے ہیں یعنی جس طرح ایک عام آدمی کسی مقرر کی تقریر سن کر یا کسی مفتی سے سوالات کر کے اس عالم اور مفتی کا شاگرد ہو جاتا ہے (حالانکہ ایسا کوئی نہیں کہتا اور سمجھتا) عین اسی طرح سے یہ صاحب شیخ البانی کے شاگرد ہیں... 


شیخ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ:آپ کا سب سے نیک اور قابل شاگرد کون ہیں جن کی کتابیں پڑھنے کی آپ ہمیں نصیحت کرنا چاہیں گے؟ 
تو آپ نے جواب دیا کہ حقیقت میں لفظ تلمیذ کے بمعنی میرے تلامذ نہیں ہیں (یعنی میرا کوئی بھی شاگرد نہیں ہے) لیکن ہاں یہاں عمان میں بعض افراد ایسے ہیں جو بارہا میرے پاس آتے ہیں اور جن مشکل بحوث اور تحقیقات کا انہیں سامنا ہوتا ہے ان کے تعلق سے مجھ سے مشورہ کرتے ہیں ان میں سے برادرم علی عبد الحمید الحلبی اور سلیم الہلالی ہیں.
 https://youtu.be/w7Nrr6lPtQ0 


ملاحظہ فرمائیں کس طرح سے شیخ نے بذات خود ان حضرات کے شاگرد ہونے کا انکار کیا اور انہیں محض مستفیدین کی فہرست میں شامل کیا..... کیا اس کے بعد بھی انہیں شیخ البانی کے شاگردوں میں شامل کیا جا سکتا ہے..؟
شیخ البانی کے مذکورہ کلام پر تعلیق لگاتے ہوئے دکتور محمد بن ہادی المدخلی کہتے ہیں(ان کی یہ تعلیق ان کے گمراہ ہونے سے پہلے کی ہے):اللہ اکبر گویا اللہ رب العالمین نے اس امام کو توفیق عطا فرمائی تھی کہ وہ یہ بات کہیں کیونکہ اللہ رب العالمین جانتے تھے کہ مستقبل میں اس آدمی کے ذریعے کیا کچھ انجام پانے والا ہے.. (کہ آپ نے اسے شاگرد نہیں بلکہ محض مستفید قرار دیا تاکہ وہ لوگوں کو فریب میں مبتلا نہ کر سکے کہ میں امام البانی کا شاگرد ہوں) 
 

https://youtu.be/w7Nrr6lPtQ0 

اسی طرح شیخ البانی رحمہ اللہ نے جب شاگردوں کی دوسری قسم کے بارے میں تفصیلات ذکر کیا کہ اگر کسی نے کسی کی کتاب پڑھی ہو اور انہی سے یا ان کی کتاب سے تفقہ حاصل کیا ہو تو تلمیذ کے عام معنی کے اعتبار سے اسے اس عالم کا شاگرد شمار کیا جا سکتا ہے  تو آپ سے سوال کیا گیا کہ:کیا آپ کے تلامذہ ہیں ؟ تو آپ نے جواب دیا ہاں اس قسم کے میرے تلامذہ ہیں(جس قسم کا ابھی ذکر ہوا) ....سائل نے سوال کیا: کیا دوسرے قسم کے یعنی مباشرۃ پڑھنے والے حقیقی شاگرد ہیں ؟ تو آپ نے کہا نہیں میرے شاگرد نہیں ہیں ...سائل نے کہا: سرے سے یہاں کوئی بھی نہیں ہے ؟ تو شیخ نے کہا نہیں اردن میں کوئی نہیں ہے البتہ شام میں تھے... سائل نے کہا کہ کیا ایسے(دوسرے قسم کے اعتباری )تلامذہ کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے آپ کے بارے میں کہے کہ میں فلاں کا شاگرد ہوں.... تو شیخ نے کہا کہ: اگر لوگ اس کی اس بات سے یہ سمجھتے ہوں کہ یہ فلاں شیخ کا حقیقی شاگرد ہے تو یہ تدلیس ہے، لیکن اگر لوگ ایسا نہ سمجتے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے..

 https://youtu.be/w7Nrr6lPtQ0 

اسی طرح شیخ عبید بن عبد اللہ الجابری حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ: ہم لوگ شیخ البانی کی کتابیں پڑھتے ہیں اور بسا اوقات بعض چیزوں کے سلسلے میں ہمارے ہاں اشکال پیدا ہو جاتا ہے تو کیا ہم اس کے تعلق سے شیخ علی الحلبی کی طرف رجوع کریں کیونکہ وہ شیخ البانی کے شاگرد ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ:نہیں نہیں اس کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں ہے....یہ شیخ البانی کا شاگرد نہیں ہے.... شیخ ناصر الدین البانی جب شام سیریا میں تھے تب ان کے تلامذہ تھے لیکن جب وہ اردن آ گئے وہاں ان کے تلامذہ نہ تھے کیونکہ وہ درس نہیں دیتے تھے ان کے ساتھ کچھ لوگ رہا کرتے تھے..سائل نے کہا کہ: ہم نے سنا ہے انہوں نے پچیس سال شیخ کے ساتھ گزارے ہیں ؟ تو شیخ نے جواب دیا:نہیں وہ شیخ کے ساتھ نہیں تھا وہ جھوٹ بولتا ہے یہ صحیح نہیں ہے.. دوسروں کی طرح وہ بھی آ جایا کرتا تھا.. 


https://www.tasfiatarbia.org/vb/showthread.php?t=12099

اسی طرح جب شیخ ابو الھمام البرقاوی سے شیخ البانی کے شاگردوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ: شیخ البانی رحمہ کے تلامذہ کو تین طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
طبقہ اولی:وہ شاگردان جنہوں نے آپ کی دعوت کے ابتدائی مرحلے میں آپ کے ساتھ رہا آپ سے ڈائریکٹ پڑھ کر علم حاصل کیا اور آپ کے منہج کو لازم پکڑا. ان میں جن سے علم حاصل کیا جا سکتا ہے ان کی تعداد دس سے زائد نہیں ہے جن میں شیخ محمد عید العباسی، نسیب الرفاعی، محمود مہدی استنبولی، نافع شامیہ، علی خشان، خیر الدین وانلی، اور احمد سلام، وغیرہم مشائخ ہیں.....
............
طبقہ ثانیہ:یہ وہ لوگ ہیں جو اولا شیخ کی کتابوں سے متاثر ہوئے، اور بہت ساری یا کم مجلسوں میں آپ کے ساتھ بھی رہے لیکن آپ سے کچھ پڑھا نہیں.... بالعموم یہ اردن کے لوگ ہیں دوسرے ان میں بہت کم ہیں ان مشائخ میں سب سے مشہور: عزمي الجوابرة، دكتور باسم الجوابرة، دكتور عاصم القريوتي، مشهور حسن آل سلمان ، حسين العوايشة، علي الحلبي، وغيرہم ہیں.
طبقہ ثالثہ:یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بہت تھوڑے وقت کے لیے آپ کے ساتھ مجالست کا شرف حاصل ہوا اور آپ سے بہت ہی معمولی پڑھا مگر وہ آپ کے منہج سے متاثر ہو گئے خاص کر جب آپ جامعہ اسلامیہ میں تھے...ان مشائخ میں سے عبد الرحمن عبد الصمد یہ عالم و فاضل انسان تھے مگر یہ کہ وہ فریب خوردہ تھے یہود کے ہاتھوں قتل کر دئے گئے...اور شيخ عبد الرحمن عبد الخالق وغیرہم ہیں، 
 اور  اسی طبقے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے آپ سے ایک یا دو بار ملاقات کی، یا آپ کی طرف سفر کر کے گئے اور آپ سے حد درجہ متاثر ہو گئے... ان مشائخ میں سے مشہور ترین مقبل الوادعی اور ابو اسحاق الحوینی وغیرہم ہیں.
 ان دونوں طبقوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ بالتفصیل انہی کے یعنی شیخ البانی کے منہج پر ہیں حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے.

(یہ شیخ زیادہ معروف نہیں ہیں مگر ان کی باتیں نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انہوں نے اس تفصیل کو شیخ البانی کے حقیقی شاگرد محمد عید العباسی کے سامنے پیش کیا تھا جو ان کے استاد ہیں تو انہوں نے اس پر نکیر نہیں کی اور اسے برقرار رکھا (ملتقی أهل الحديث. 
 https://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=187228.  ) 

ان علما کی تصریحات کے بعد یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ علی حسن الحلبی شیخ البانی کے شاگرد نہیں تھے انہوں نے ان سے محض استفادہ کیا تھا جیسا کہ انجینئر علی مرزا اور ابو محمد خرم شہزاد نے حافظ زبیر علی زئی سے سوالات و جوابات کے ذریعے صرف استفادہ کیا تھا.....عین اسی طرح مشہور حسن آل سلمان، ابو اسحاق الحوینی، سلیم بن عید الہلالی، عصام بن موسی ہادی، حسین العوایشۃ، عمرو عبد المنعم سلیم، احمد بن ابراہیم ابو العینین، سمیر بن امین الزہیری وغیرہم میں سے کوئی بھی شیخ کے حقیقی اصطلاحی شاگرد نہیں ہیں مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ حضرات بلا کسی تصریح اور وضاحت کے بڑے فخریہ انداز میں اپنے آپ کو محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے شاگرد گردانتے ہیں تاکہ شیخ کے توسط سے اہل سنت و جماعت سلفیوں میں انہیں پذیرائی حاصل ہو سکے اور لوگ ان پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرنے لگے.. ..اور ہوا بھی ایسا ہی عوام تو درکنار اخص الخواص بھی انہیں محدث العصر کے تلامذہ شمار کرنے لگے.....

اخیر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر معاملے میں تحقیق وتدقیق کی توفیق عطا فرمائے آمین 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی کے شاگردوں کے تعلق سے ایک ضروری وضاحت 

از قلم 
مامون رشید ہارون رشید سلفی 

میں نے اپنی پچھلی تحریر میں ذکر کیا تھا کہ محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ میرا کوئی حقیقی شاگرد نہیں ہے حالانکہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر اور ڈاکٹر لقمان سلفی وغیرہما رحمہما اللہ نے آپ سے باضابطہ کتابیں پڑھی تھی...اب اعتراض یہ ہے کہ باتوں میں دونوں میں توافق کیسے پیدا کیا جائے؟

تو عرض ہے کہ اصول ہے"الباب اذا لم تجمع طرقہ لم یتبین خطؤه" گر چہ یہ اصول تحقیق علل حدیث سے تعلق رکھتا ہے لیکن مناسبت پائے جانے کی صورت میں کہیں بھی فٹ کیا جا سکتا ہے.... لہذا اس اصول پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی عالم کی بات کو سمجھنے کے لیے اس ضمن میں ان کی کہی گئی تمام باتوں کا احاطہ کرنا ضروری ہے ورنہ غلط فہمی اور خلط مبحث کا شکار ہونا ممکن ہے.... 


غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام البانی کی زندگی کئی مراحل سے ہو کر گزری اور آپ کئی مقامات پر اقامت پذیر رہے انہی مراحل کے حساب سے کبھی کچھ لوگ آپ کے شاگرد ہوئے اور کبھی نہیں... 

پہلا مرحلہ: البانیہ میں.... یہ آپ کی زندگی کا ابتدائی دور تھا جس میں آپ خود طالب علم تھے لہذا یہاں تلامذہ ہونے نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.. 

دوسرا مرحلہ: دمشق میں یہ آپکی زندگی کا دوسرا اور اہم مرحلہ تھا جس میں آپ نے علم حدیث میں تبحر اور مہارت حاصل کیا ....اور لوگوں کو باضابطہ پڑھائے بھی آپ دمشق میں جو کتابیں اپنے تلامذہ کو پڑھاتے تھے ان میں زاد المعاد (لابن القيم رحمه الله) نخبة الفكر (للحافط ابن حجر

 العسقلانی رحمه الله ) الروضة الندية شرح الدرر البهية (لصديق حسن

 خان رحمه اللہ) فتح المجيد شرح كتاب التوحيد (للشيخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوهاب رحمهم اللہ) الباعث الحثيث شرح

 اختصار علوم الحديث (للعلامة المحدث أحمد محمد شاكر رحمه الله) طبقات فحول الشعراء (لابن سلأم الجمحي رحمه الله) اصول الففه (لعبد الوهاب خلاف رحمه اللہ) تطهير الاعتقاد من أدران الإلحاد (للصنعاني رحمه اللّه) الترغيب والترهيب (للمنذري رحمه الله) الأدب

 المفرد(للبخاري رحمه الله) منهج الإسلام في الحكم ....مصطلح التاریخ (لأسد رستم) فقه السنة (لسيد سابق رحمه الله) رياض الصالحين (للنووي رحمه الله) الإلمام في احاديث الأحكام (

 لابن دقیق العید رحمه اللہ۔وغیرہ کتابیں شامل تھیں... (محمد ناصر الدين الألباني محدث العصر وناصر السنة.. محمد إبراهيم العلي ص:29) 

آپ کے حقیقی شاگردوں کی اکثریت نے اسی مرحلے میں آپ سے اکتساب فیض کیا... 

تیسرا مرحلہ: جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں بحیثیت مدرس.... 1381ھ سے 1383ھ تک تین سال کی مدت .... اس دورانیے میں بھی بہت سارے لوگوں نے آپ سے حصول علم کا شرف حاصل کیا جن میں علامہ احسان الٰہی ظہیر... ڈاکٹر لقمان سلفی وغیرہم ہیں.. یہ بھی آپ کے حقیقی شاگرد ہیں... 


چوتھا اور آخری مرحلہ:اردن ے دار الحکومت عمان میں.....یہاں آپ نے تقریباً بیس سال یا اس سے زائد عرصہ گزار آپ کے زیادہ تر خطبات ودروس اور تصنیفات و تالیفات یہیں سے لوگوں میں عام ہوئیں.... اس مرحلے میں آپ سوائے وقتا فوقتاً تھوڑے بہت خطبات و محاضرات اور آن لائن سوالات کے جوابات دینے کے محض تحقیق وتخریج اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہتے تھے اس لیے آپ نے یہاں کوئی مدرسہ قائم نہیں کیا اور نہ ہی طلبہ کو کوئی کتاب پڑھائی....آپ کے زیادہ تر اعتباری شاگرد یہیں آپ سے آ کر ملے جیسے علی الحلبی, ابو اسحاق الحوینی, مشہور حس آل سلمان وغیرہم... 


مذکورہ تفصیل ذکر کرنے کے بعد اب اصول کی طرف لوٹتے ہیں... ملاحظہ فرمائیں ایک طرف شیخ نے دمشق اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ڈھیر سارے طلبہ کو کئی ساری کتابیں پڑھائیں اور دوسری طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ میرا کوئی حقیقی شاگرد نہیں ہے... تیسری طرف ایک بار آپ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ عمان اردن میں میرا کوئی شاگرد نہیں ہے... ہاں دمشق میں تھے.... ان تمام باتوں کو جمع کرنے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ شیخ البانی نے جو اپنے شاگرد نہ ہونے کی بات کہی ہے وہ صرف اردن عمان کے ساتھ خاص ہے یعنی یہاں میرا کوئی شاگرد نہیں ہے ورنہ نفس امر میں غور کیا جائے تو دمشق اور جامعہ اسلامیہ کے تین سالہ دور میں بہت سارے لوگوں نے آپ سے اپنی اپنی علمی پیاس بجھائی اور محدث العصر کی شاگردیت کے شرف سے مشرف ہوئے......لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جو لوگ ہمیشہ اپنے نام کے پیچھے شاگرد محدث العصر کا ٹیگ لگاتے ہیں جن کے نام میں نے پچھلی تحریر میں ذکر بھی کیا تھا وہ لوگ کسی طور پر شیخ البانی کے حقیقی شاگرد نہیں ہیں...

اللہ سے دعا ہے کہ وہ لوگوں کو طلب شہرت اور ناموری کے فتنہ سے محفوظ رکھے آمین. 

.