منگل، 31 اکتوبر، 2023

گنبد صخرہ و مسجد اقصی المنجد

.

مسجد اقصی اور گنبد صخرۃ 

؛~~~~~~~~~~~~~~~؛ 


سوال 
کچھ دیر قبل مجھے ایک ای میل لیٹر ملا جس میں مسجد اقصی کی حالت اور مسجد اقصی اور قبہ صخرہ کے درمیان فرق کیا گيا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس کی وضاحت کریں کہ مسجد اقصی اور قبہ صخرہ کے درمیان فرق ہے ؟ 

ہم سب اسلامی جگہ پریہ کیوں دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ پر ہی یہ قبہ مسجد اقصی کی نشاندہی کرتا ہے ، میں اور بہت سارے مسلمان اس فرق کو جانتے تک نہیں ہیں ؟



جواب 

الحمد للہ.

مسجد اقصی قبلہ اول اور ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف سفر کر کے جانا جائز ہے ، کہا جاتا ہےکہ اسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ۔

جیسا کہ سنن نسائی ( 693 ) میں حدیث موجود ہے اور اسے علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح نسائی میں صحیح کہا ہے 

اور ایک قول یہ ہے کہ پہلے سے موجود تھی تو سلیمان علیہ السلام نے اس کی تجدید کی تھی 

اس کی دلیل صحیحین میں ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ 

زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئ ؟

تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 
مسجد حرام ( بیت اللہ ) 
تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟ 
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : 
مسجد اقصی ، تو میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟ 
تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ چالیس سال ، پھر جہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجاۓ نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ۔ 
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3366 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 520 ) ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کے ایک حصہ میں بیت المقدس کی سیر کرائی گئی اور اس مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسرے انبیاء علیہم السلام کو نماز پڑھائی ۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے معراج کا واقعہ ذکر کرتے ہوۓ فرمایا ہے : 

پاک ہے وہ اللہ تعالی، اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گيا، جس کے آس پا‎س ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے . 
 الاسراء ( 1 ) ۔ 



اور قبہ صخرہ تو خلیفہ عبدالملک بن مروان نے ( 72 ھ ) میں بنوایا تھا ۔

فلسطینی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ : 

مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدس پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبہ صخری جسے عبد الملک بن مروان نے 72 ھجری الموافق 691 میں بنوایا تھا جو کہ اسلامی آثار میں شامل ہوتا ہے ، اور آج یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد پر بولا جاتا ہے ۔ 
دیکھیں : الموسوعۃ الفلسطینیۃ ( 4 / 203 ) ۔

اور اسی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ :

مسجد اقصی کے صحن کے وسط اور قدس شہر کے جنوب مشرقی جانب یہ قبہ بنایا گیا ہے جو کہ ایک وسیع و عریض اور مستطیل شکل کا صحن جس کی مساحت شمال سے جنوب کی جانب تقریبا 480 میٹر اور مشرق سے مغرب 300 میٹر بنتی ہے ، اور یہ پرانے القدس شہر سے تقریبا پانچ گناہ زیادہ ہے ۔ ا ھـ یہ عبارت کچھ کمی بیشی کے ساتھ پیش کی گئی ہے . 
دیکھیں الموسوعۃ الفلسطینیۃ ( 3 / 23 ) ۔

تو وہ مسجد جو کہ نماز کی جگہ ہے وہ قبہ صخری نہیں ، لیکن آج کل قبہ کی تصاویر منتشر ہونے کی بنا پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصی خیال کرتے ہيں ، حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں ، مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں واقع ہے اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچي جگہ پر ۔

اور یہ بات تو اوپر بیان کی جا چکی ہے کہ زمانہ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پر ہوتا تھا ۔

اس کی تائيد شیخ الاسلام ابن تیمۃ رحمہ اللہ تعالی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ : 

مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں ، اس جگہ میں جسے عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔ 

اس لئے کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تو اس وقت اونچی جگہ ( قبہ صخرہ ) پر زیادہ گندگي تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ یہودی اس طرف نماز پڑھتے تھے تو اس کے مقابلہ میں عیسائی اس جگہ کی توہین کرتے ، تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس گندگی کو صاف کرنے کا حکم صادر فرمایا ، اور کعب رضي اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے : 

تیرے خیال میں ہم مسلمانوں کے لئے مسجد کہاں بنانی چاہیے ؟ ، تو کعب رضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ 
اس اونچی جگہ کے پیچھے ، 
تو عمر رضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے ، 
او یہودی ماں کے بیٹے ! تجھ میں یہودیت کی ملاوٹ ہے ، بلکہ میں تو اس کے آگے بناؤں گا اس لیے کہ ہماری مساجد آگے ہوتی ہیں ۔ 
دیکھیں : الرسائل الکبری لشیخ الاسلام ( 2 / 61 ) ۔

تو یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام جب بھی مسجد اقصی بیت المقدس میں داخل ہو کر نماز پڑھتے تو اسی جگہ پر پڑھتے تھے جسے عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا ، اور اس اونچی جگہ ( گنبد والی ) کے پاس نہ تو عمر اور نہ ہی کسی اور صحابی رضی اللہ تعالی عنہم میں سے کسی نے نماز پڑھی تھی اور نہ ہی خلفاء راشدہ کے دور میں اس پر قبہ ( گبند ) ہی بنا ہوا تھا بلکہ یہ جگہ عمر اور عثمان ، علی ، اور معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور یزید اور مروان کے دور حکومت میں یہ بالکل کھلی تھی ۔ 

اور نہ ہی صحابہ کرام اور تابعین عظام میں کسی نے اس قبہ کی تعظيم کی اس لیے کہ یہ قبلہ منسوخ ہو چکا ہے ، اس کی تعظیم تو صرف یہودی اور عیسائی کرتے ہیں 

اس کا معنی یہ نہیں کہ ہم مسلمان اس کی تعظیم نہیں کرتے بلکہ ہم اسے وہ تعظیم دیتے ہيں جو ہمارے دین میں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے جس طرح کہ ہر مسجد کو تعظیم دی ہے ۔ 

اور عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے جو کعب رضي اللہ تعالی عنہ کی بات کا انکار کیا اور انہیں اے یہودی ماں کے بیٹے کہا تو یہ اس لیے تھا کہ کعب رضي اللہ تعالی عنہ اسلام سے قبل یہودی علماء میں سے تھے جب انہوں نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس اونچی جگہ کے پیچھے مسجد بنانے کا مشورہ دیا تو اس میں اس چٹان کی تعظيم ہوتی کہ مسلمان نماز میں اس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں ، اور اس چٹان کی تعظیم تو یہودیوں کے دین میں ہے نہ کہ مسلمانوں کے دین اسلام میں ۔ 

مسلمانوں کا قبے کو ہی مسجد اقصی سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تصویروں میں اسے اچھی عمارت و ہئیت میں دیکھا ہے ، تو یہ اس غلطی کو ختم نہیں کر سکتا جو کہ مسجد اقصی اور قبہ کی تميز ميں پیدا ہو چکی ہے ۔ 

اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ یہودی سا‍‌زش کا نتیجہ ہو تاکہ ان کے اس قبہ کی تعظیم کی جانی لگے اور وہ اس کی جانب ہی متوجہ ہو جائيں ، یا پھر یہ کہ اس قبے کا اظہار اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ مسجد اقصی کو ختم کر کے ہیکل سلیمانی قائم ہو سکے ۔ 

اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ مسلمان یہ گمان کرنے لگیں کہ یہ قبہ ضخرہ ہی مسجد اقصی ہیں ، اور اگر یہودی اصلی مسجد اقصی کو منہدم کرنے لگيں تو مسلمانوں کے شور و غوغا کرنے پر انہیں یہ کہا جا سکے کہ یہ دیکھیں مسجد اقصی تو اپنی حالت پر قائم ہے اور اس کی دلیل میں وہ تصویریں پیش کریں تو اس طرح وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائيں گے اور مسلمانوں کے غیظ و غضب اور تنقید سے بھی بچ جائيں گے ۔ 

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ مسلمانوں کی عزت و بلندی کو واپس لاۓ ، خنزیروں اور بندروں کے بھائیوں سے مسجد اقصی کو پاک صاف کر دے ، اللہ تعالی اپنے امر پر غالب ہے لیکن یہ بات اکثر لوگوں کے علم میں نہیں ۔

واللہ تعالی اعلم .

محمد صالح المنجد 
الاسلام سوال و جواب 

.

اتوار، 29 اکتوبر، 2023

قضیہ فلسطین چند وضاحتیں مقبول احمد سلفی

 . 

قضیہ فلسطین سے متعلق بعض دینی امور کی وضاحت 
 
تحریر : مقبول احمد سلفی - جدہ، سعودی عرب 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛

ان دنوں حماس اور اسرئیل کے درمیان شدید جنگی کاروائیوں کے اثرات نہ صرف فلسطینوں پر مرتب ہوئے بلکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہو رہی ہے ۔ 

خصوصا دنیا بھر کے مسلمان اسرائیلی ظلم و تشدد کے شکار مظلوم فلسطینیوں کی آہ و بکا سے بے حد پریشان ہیں ۔ 

فلسطین کے مسلمان آج سے نہیں 75 سالوں سے یہودیوں کے ظلم و ستم سہتے آ رہے ہیں ۔ ایسی صورت حال میں دنیا بھر کے مسلمانوں کا بے چین ہونا فطری امر ہے ۔ 

فلسطین سے ہمارا تعلق خالص دینی اور اسلامی ہے ۔ ایک طرف فلسطین کے مسلمان ہمارے دینی بھائی ہیں تو دوسری طرف اس سر زمین پر مسجد اقصی موجود ہےجو ہمارا قبلہ رہا ہے، جہاں اللہ نے محمد ﷺ کی سیر کرائی اور آپ ﷺ نے انبیاء کی وہاں پر امامت فرمائی اور آپ ﷺ وہاں سے اللہ کے پاس گئے یعنی آپ ﷺ کا سفر معراج ہوا ۔ اس جگہ کو اللہ نے با برکت قرار دیا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے اس مسجد کی زیارت کا حکم دیا ہے ۔ اس نسبت و تعلق کی وجہ سے ارض فلسطین اور اہل فسلطین ہمارے لئے دل و جان سے عزیز ہیں اور اس مبارک سر زمین پر اسرائیلی وجود اور وہاں کے باشندوں پر اسرائیلی تشدد امت مسلمہ کی آنکھوں میں کاٹوں کی طرح چبھ رہا ہے ۔ بظاہر مسلمان اسرائیلی قوت کے سامنے کمتر ہیں مگر اللہ کی طرف سے یہودی کو ذلت و پسپائی مقدر ہے ۔ 

حالات حاضرہ کے تناظر میں کچھ مسائل عوامی سطح پر قابل توضیح ہیں اور اہل علم سے پوچھے جا رہے ہیں، میں نے مناسب سمجھا کہ ان امور کی وضاحت کردوں تاکہ لوگوں کو صحیح رہنمائی مل سکے ۔ 


شام سے کون سا ملک مراد ہے؟  
؛…………………………………………؛

اس جگہ سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ احادیث میں جو ملک شام کا ذکر ہوا ہے وہ موجودہ زمانہ میں کئی ممالک کو محیط ہے ۔ پہلی عالمی جنگ عظیم سے قبل شام ایک ہی ملک تھا مگر اب سیریا، لبنان، فلسطین اور اردن میں بٹ گیا ہے گو یا حدیث میں مذکور شام اس وقت کے چار ممالک کو شامل ہے ۔ 


 ( 1 ) دو الگ گنبد والی تصویر میں مسجد اقصی کون سی ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

آپ نے انٹرنیٹ پہ دو قسم کے گنبدوں والی مسجد دیکھی ہوگی ۔ ایک گنبد جو پہاڑ پر بنا ہوا ہے، گولڈن کلر کا ہے، اسے قبۃ الصخراء کہتے ہیں اور دوسرا گنبد جو کالے رنک کا نظر آتا ہے وہ دراصل مسجد اقصی ہے ۔ یہودی مسجد اقصی کو منہدم کر کے وہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے وہ مختلف جہات سے کوشش کر رہے ہیں، فلسطین سے مسلمانوں کو مٹا رہے ہیں، زمین ہڑپ رہے ہیں اور مسجد اقصی کی صورت و پہچان عام مسلمانوں کے ذہن سے مٹا رہے ہیں تاکہ اسے مسمار کرنا آسان ہو اس لئے قبۃ الصخراء کی تصاویر زیادہ سے زیادہ وائرل کرتے ہیں ۔ 


 ( 2 ) مسجد اقصی کی کیا فضیلت ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں مسجد حرا م کے ساتھ مسجد اقصی ذکر کر کے اسے با برکت بتایا ہے، یہیں سے محمد ﷺ کا سفر معراج ہوا تھا ۔ اس مسجد کی فضیلت سے متعلق چند دلائل ذکر کرتا ہوں ۔ 

اللہ تعالی کا فرمان ہے : 

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ . 
﴿الاسرا : 1﴾

ترجمہ : 
پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻہے ۔ 

مسجد حرام کے بعد روئے زمین کی دوسری مسجد ہے جس کی تعمیر عمل میں آئی اور اسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ۔ 

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : 

قُلتُ : يا رَسولَ اللَّهِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلَ ؟ قالَ : المَسْجِدُ الحَرَامُ . قُلتُ : ثُمَّ أَيٌّ ؟ قالَ : ثُمَّ المَسْجِدُ الأقْصَى . قُلتُ : كَمْ كانَ بيْنَهُمَا ؟ قالَ : أَرْبَعُونَ، ثُمَّ قالَ : حَيْثُما أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ، والأرْضُ لكَ مَسْجِدٌ . 
( صحیح البخاری : 3425 ) 

ترجمہ : 
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا : 
یا رسول اللہ ﷺ ! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی تھی ؟ فرمایا کہ مسجد الحرام! میں نے سوال کیا، اس کے بعد کون سی ؟ فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ ۔ میں نے سوال کیا اور ان دونوں کی تعمیر کا درمیانی فاصلہ کتنا تھا ؟ فرمایا کہ چالیس سال ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس جگہ بھی نماز کا وقت ہو جائے فوراً نماز پڑھ لو ۔ تمہارے لیے تمام روئے زمین مسجد ہے ۔ 

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

إنَّ سليمانَ بنَ داودَ لمَّا بنى بيتَ المقدسِ سألَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ خلالًا ثلاثةً سألَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ حُكمًا يصادِفُ حُكمَهُ فأوتيَهُ وسألَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ مُلكًا لا ينبغي لأحدٍ من بعدِهِ فأوتيَهُ وسألَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ حينَ فرغَ من بناءِ المسجدِ أن لا يأتيَهُ أحدٌ لا ينهزُهُ إلَّا الصَّلاةُ فيهِ أن يخرجَهُ من خطيئتِهِ كيومِ ولدتهُ أمُّهُ . 
( صحیح النسائی : 692 ) 

ترجمہ : 
سلیمان بن داود علیہما السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، اللہ عزوجل سے مانگا کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کریں جو اس کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی، اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کے لیے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا ۔ 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إلَّا إلى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : المَسْجِدِ الحَرَامِ، ومَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، ومَسْجِدِ الأقْصَى 
( صحيح البخاري : 1189 ) 

ترجمہ : 
تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں ۔ ( یعنی سفر نہ کیا جائے ) ایک مسجد الحرام، دوسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد ( مسجد نبوی ) اور تیسری مسجد الاقصیٰ یعنی بیت المقدس ۔ 

مسجد اقصی میں ایک نماز کا ثواب پانچ سو نماز کے برابر ہے، یہ لوگوں میں مشہور ہے مگر یہ حدیث ضعیف ہے، 
( دیکھیں : تمام المنۃ : 292 ) 

اور ابن ماجہ میں پچاس ہزار کا اجر مذکور ہے، یہ حدیث بھی ضعیف ہے 
( دیکھیں، ضعیف ابن ماجہ : 265 ) ۔ 

صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے اس میں ایک نماز کا اجر ڈھائی سو کے برابر ہے ۔ 

ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ عیلہ و سلم کے پاس آپس میں یہ بحث کر رہے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد افضل ہے یا کہ مسجد اقصی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرمانے لگے : 

صَلاةٌ في مَسجدي هذا أفضَلُ مِن أربَعِ صَلواتٍ فيه، ولَنِعْمَ المُصلَّى، ولَيُوشِكَنَّ ألَّا يكونَ للرَّجلِ مِثلُ بَسْطِ فَرشِه مِنَ الأرضِ حيثَ يَرى منه بيْتَ المقدِسِ خيْرٌ له مِنَ الدُّنيا جميعًا ۔ 

ترجمہ : 
میری مسجد میں ایک نماز اس میں چار نمازیں ادا کرنے سے بہتر ہے، اور نماز ادا کرنے کے لیے وہ اچھی جگہ ہے، اور عنقریب ایک وقت ایسا آئے گا کہ آدمی کے گھوڑے کی رسی جتنی زمین کا ٹکڑا جہاں سے بیت المقدس دیکھا جائے ساری دنیا سے بہتر ہوگی ۔ 
شیخ البانی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے، 
( دیکھیں : صحیح الترغیب : 1179 ) 

یہاں یہ بھی معلوم رہے کہ مسجد اقصی سے عمرہ کا احرام باندھنے کی فضیلت آئی ہے، وہ حدیث ضعیف ہے، 
( دیکھیں ضعیف ابن ماجہ : 590، 591 ) 


 ( 3 ) کیا مسجد اقصی ہمارا قبلہ اول ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

عمومی طور پر مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد حرام ہی ہے کیونکہ روئے زمین پر یہی سب سے پہلی مسجد ہے لیکن جب امت محمد ﷺ کی بات کریں گے تو اس اعتبار سے ہمارا قبلہ اول بیت المقدس قرار پاتا ہے کیونکہ نبی ﷺ مکہ میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے ( مشرکوں کا قبلہ اس وقت بھی کعبہ ہی تھا ) یہاں تک کہ آپ کی ہجرت ہوئی تو مدینہ میں بھی سولہ ماہ تک یہی مسلمانوں کا قبلہ رہا پھر اللہ نے مسجد حرام کو ہمارا قبلہ بنا دیا ۔ 

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے : 

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ 
( البقرۃ؛143 ) 

ترجمہ : 
اور ہم نے آپ کے لیے پہلا قبلہ ( بیت المقدس ) صرف اس لیے بنایا تھا کہ ہمیں معلوم ہو کہ کون ہے جو رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے ۔ 

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں : 

كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يُصلِّي وهو بمكةَ نَحْوَ بيتِ المقدسِ والكعبةُ بينَ يدَيهِ وبعدما هَاجَرَ إلى المدينةِ سِتَّةَ عَشَرَ شهرًا ثم صُرِفَ إلى الكعبةِ ۔ 

ترجمہ : 
رسول اللہ ﷺ مکہ میں بیت القدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اس حال میں کہ کعبہ بھی سامنے ہوتا اور جب آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی سولہ ماہ تک یہی ( بیت المقدس ) قبلہ رہا پھر کعبہ کی طرف پھیردیا گیا ۔ 

اسے احمد، طبرانی اور بزار وغیرہ نے روایت کیا ہے، اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کے رجال کو رجال الصحیح کہا ہے اور شعیب ارناؤط نے اس کی سند کو شیخیں کی شرط پر قرار دیاہے ۔ 

بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قبلہ اول ( بیت المقدس ) سے کعبہ کی طرف متوجہ ہونے پر پہلی نمازوں کے بارے میں صحابہ بے چین ہوئے ۔ 

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : 

لمَّا وُجِّهَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إلى الكَعبةِ قالوا : يا رسولَ اللَّهِ كيفَ بإخوانِنا الَّذينَ ما توا وَهُم يُصلُّونَ إلى بيتِ المقدسِ ؟ فأنزلَ اللَّهُ تعالى وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ الآيةَ 
( صحيح الترمذي : 2664 ) 

ترجمہ : 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو جب کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول! ہمارے ان بھائیوں کا کیا بنے گا جو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اور وہ گزر گئے تو ( اسی موقع پر ) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : 
«وما كان الله ليضيع إيمانكم» 
”اللہ تعالیٰ تمہارا ایمان یعنی نماز ضائع نہ کرے گا“ 
( البقرہ : 143 ) ۔ 


( 4 ) مسجد اقصی کا دائرہ کیا ہے یعنی لوگ پوچھتے ہیں کہ مسجد اقصی کتنے حصے پر بولا جاتا ہے اور کیا اس پورے خطے میں نماز پڑھنا جائز ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

آپ نے بیت المقدس کا نقشہ دیکھا ہوگا، چاروں طرف سے ایک دیوار قائم کی گئی ہے اس احاطہ میں موجود ساری زمین مسجد اقصی کا حصہ ہے جس میں قبۃ الصخراء بھی داخل ہے تاہم موجودہ زمانہ میں کالے گنبد والی مسجد کو مسجد اقصی کے نام سے جانتے ہیں ۔ 

شیخ محمد بن صالح المنجد نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کا یہ قول ذکر کرنے کے بعد کہا ہے ( ( مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سیلمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا، اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں، اس جگہ میں جسے عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ) ) ۔ 

یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام جب بھی مسجد اقصی بیت المقدس میں داخل ہو کر نماز پڑھتے تو اسی جگہ پر پڑھتے تھے جسے عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا، اور اس اونچی جگہ ( گنبد والی ) کے پاس نہ تو عمر اور نہ ہی کسی اور صحابی رضی اللہ تعالی عنہم میں سے کسی نے نماز پڑھی تھی اور نہ ہی خلفاء راشدہ کے دور میں اس پر قبہ ( گبند ) ہی بنا ہوا تھا بلکہ یہ جگہ عمر اور عثمان، علی، اور معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور یزید اور مروان کے دور حکومت میں یہ جگہ بالکل کھلی تھی ۔ 


 ( 5 ) کیا مسجد اقصی ہی بیت المقدس ہے ؟ 
؛…………………………………………؛ 

ہاں بیت المقدس کو ہی مسجد اقصی کہتے ہیں جیسے مسجد حرام کو بیت العتیق بھی کہتے ہیں ۔ 

صحیح بخاری میں ہے، نبی ﷺ فرماتے ہیں : 

لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ . 
( صحيح البخاري : 3886 ) 

ترجمہ : 
جب قریش نے ( معراج کے واقعہ کے سلسلے میں ) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دیئے ۔ 

اس حدیث میں بیت المقدس کا لفظ ہے جس سے مسجد اقصی مراد ہے ۔ 

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : 
اللہ کے رسول! میں نے اللہ سے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو مکہ پر فتح نصیب کیا تو : 
أَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ رَكْعَتَيْنِ . 
( صحيح أبي داود : 3305 ) 

ترجمہ : 
میں بیت المقدس میں دو رکعت ادا کروں گا ۔ 
یہاں بھی بیت المقدس سے مسجد اقصی مراد ہے ۔ 


 ( 6 ) کیا مسجد اقصی حرم شمار کیا جائے گااور وہ تیسرا حرم ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

مسجد حرام اور مسجد نبوی کا حرم ہونا دلائل سے ثابت ہے لیکن مسجد اقصی سے متعلق ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ بھی حرم شمار کیا جائے گا ۔ تین مقدس مساجد میں سے ایک ہے جس کی طرف زیارت کرنا مشروع ہے اور اس جگہ نماز پڑھنے کی فضیلت آئی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے ۔ 


 ( 7 ) کیا قرآن کی آیت کی روشنی میں فلسطین کی زمین پر بنی اسرائیل کا حق نہیں ہونا چاہئے ؟ 
؛…………………………………………؛

جب بنی اسرائیل ایمان کی حالت میں تھے تو اللہ نے بطور انعام فلسطین کی حصہ داری عطا فرمائی مگر جب انہوں نے کفر کیا تو اس انعام سے بھی محروم کئے گئے اور ذلت و خواری کے بھی مستحق ہوئے ۔ جو اللہ کا انکار کرے اور نبیوں کا انکار کرے اللہ اسے زمین کا وارث نہیں بناتا بلکہ جو اللہ کے نیک بندے ہیں انہیں اپنی زمین کا وارث بناتا ہے 
جیساکہ اللہ کا فرمان ہے : 

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ . 
( الأنبياء : 105 ) 

ترجمہ : 
ہم زبور میں پند و نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ( ہی ) ہوں گے ۔ 

اس لئے فلسطین پر صرف مسلمانوں کا حق ہے ۔ 


 ( 8 ) طائفہ منصورہ شام میں ہونے سے متعلق حدیث کیا صحیح ہےجو مسند احمد میں ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

میری امت کا ایک گروہ قیامت تک دین پر ثابت قدم اور دشمن سے برسرے پیکار رہے گا، ان سے اختلاف کرنے والے ان کا کچھ نہ بکاڑ سکیں گے سوائے اس کے کہ انہیں کچھ معاشی تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑے گا یہاں تک کہ اللہ تعالی کا حکم آجائے گا اور وہ اسی حالت پر ہوں گے ۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! وہ کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : وہ بیت المقدس اور اس کے ارد گرد اطراف میں ہوں گے ۔ 
مسنداحمد 12494 

شیخ البانی نے اسے منکر کہا ہے 
( دیکھیں، السلسلة الضعيفة : 5849 ) 

تاہم اس معنی کی دوسری روایات بھی ہیں اس لئے ایک دوسری روایت سے متعلق شیخ البانی ضعف کا اظہار کرتے ہوئے اس کے شاہد ہونے کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں 
( السلسلة الصحيحة : 4 / 599 ) 

لیکن کیا طائفہ منصورہ شام میں ہی ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جماعت کبھی شام میں ہوگی تو کبھی دنیا کے دوسرے خطوں میں ہوگی ۔ 
 

( 9 ) کیا انفرادی طور پر گھروں میں مرد یا عورت قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں ؟ 
؛…………………………………………؛

اہل فلسطین کی نصرت و حمایت اور یہودیوں کی تباہی کے لئے مسلم ممالک میں قنوت نازلہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے، ایسے میں بعض مرد و خواتین کی طرف سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ عورت اپنے گھر میں یا اکیلا مرد قنوت نازلہ پڑھ سکتا ہے ؟ 

اس کا جواب یہ ہے کہ قنوت نازلہ ہماشما کے کہنے سے نہیں ادا کی جائے گی، یہ ولی الامر یا جید علماء کے فتوی کی بنیاد پر قنوت نازلہ پڑھنا چاہئے ۔ 

نبی ﷺ نے قنوت نازلہ پنج وقتہ نمازوں میں پڑھا ہے لہذا ہمیں بھی صرف فرائض میں ہی اس کا اہتمام کرنا چاہئے، نہ کہ سنت، نفل یا جمعہ کی نماز میں ۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ منفرد کے لئے قنوت نازلہ کی دلیل نہیں ملتی ہے تاہم بعض اہل علم نے کہا ہے کہ منفرد بھی فرض نماز میں قنوت نازلہ کا اہتمام کر سکتا ہے، ان کے بقول عورت بھی اپنے گھر میں قنوت نازلہ کرسکتی ہے ۔ 
 

( 10 ) اہل فلسطین کی نصرت کے لئے بدعی وظائف کا حکم 
؛…………………………………………؛

پہلے سوشل میڈیا پر یہ پیغام دستیاب ہوا کہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے قرآن کی فلاں فلاں آیت پڑھنے کا حکم دیا ہے تاکہ اسرائیل تباہ ہو جائے، پھر کچھ دنوں کے بعد دیوبندی عالم مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب کا وظیفہ گردش کرنے لگا، وہ کہتے ہیں مسلمان فجر کی نماز کے بعد سورہ مزمل کی تین بار تلاوت کریں، اسی مولانا کا خود کے ذاتی لیٹر پیڈ پہ دوسرا وظیفہ بھی لکھا ہوا نظر آیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہر نماز کے بعد اس کا معمول بنا لینا چاہئے ۔ 

حسبنا اللہ ونعم الوکیل نعم المولی و نعم النصیر ( 7بار ) 

اللھم انا نجعلک فی نحورھم و نعوذبک من شرورھم ( 7بار ) 

ان تمام وظائف کے جواب میں ہم آپ کی صحیح رہنمائی کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بلاشبہ فلسطین کے مسلمانوں کو دعا دیں مگر کسی کے کہنے سے من مانی طریقے سے کوئی وظیفہ یا مخصوص عمل نہ کریں جس کی دلیل دین نہیں ہے ۔ 

نبی ﷺ کا فرمان ہے : 

من أَحْدَثَ في أَمْرِنَا هذا ما ليسَ فِيهِ، فَهو رَدٌّ . 
( صحيح البخاري : 2697، صحيح مسلم : 1718 ) 

ترجمہ : 
جس نے ہمارے دین میں اپنی طرف سے کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو دین میں نہیں تو وہ مردود ہے ۔ 

آپ مشروع طریقہ پر دعا کریں، فرض نماز کے بعد اپنی دعاؤں میں اہل فلسطین کو یاد رکھیں، دعا کے افضل اوقات میں مظلوم کے لئے دعا کریں ۔ 

مسنون اذکار میں جو مظلوم کے حق میں دعائیں وارد ہیں وہ پڑھیں ۔ 

یاد رکھیں دین میں اپنی طرف سے کوئی وظیفہ خاص کرنا، وظیفہ کی تعداد مقرر کرنا یا اس کے لئے کوئی وقت متعین کرنا بدعت ہے، ہمیں بدعت سے دور رہنا ہے ۔ 
 

( 11 ) یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا کیسا ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

سوشل میڈیا پر اسرائیلی اور یہودی مصنوعات بائیکاٹ کا ٹرینڈ چل رہا ہے ایسے میں کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا ہمیں ایسا کرنا چاہئے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی مصلحت کے تئیں دشمنان اسلام کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے ۔ 

میکڈونل کا ایک ٹویٹ دیکھا گیا ہے جس میں یہ لکھا تھا کہ ہم اسرائیلی فوجی کو فری فوڈ مہیا کریں گے ۔ اب ایسے میں میکڈونل اور اس جیسے تمام ادارے و مصنوعات کا جن سے اسرائیل کو تقویت پہنچتی ہے بائیکاٹ ہونا چاہئے تاکہ معاشی اعتبار سے اسرائیل کو نقصان پہنچے ۔ 

دنیا میں ہر ایک سامان کا متعدد متبادل موجود ہے ہم غیر یہودی متبادل مصنوعات کا استعمال کریں ۔ 
 

( 12 ) امام مہدی اور دجال کے ظہور کا وقت ہو گیا ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

اسرائیلی اقدام کے پس منظر میں کچھ صوفیت پسند لوگ امام مہدی کے ظہور کی تاریخ بھی بتلا رہے ہیں ۔ 

کسی نا معلوم بندہ نے حنفی صوفی مفتی ابولبابہ شاہ منصور کے حوالہ سے لکھا ہے کہ 2024 میں امام مہدی کا ظہور ہوگا ۔ 

ایک اور حنفی صوفی پیر ذوالفقار نقشبندی نے حرم میں قسم کھا کرکہا کہ 2025 میں امام مہدی کا ظہور ہوگا ۔ 

اسی طرح حنفی صوفی مولانا سجاد نعمانی نے سورہ کہف سے مطلب نکالا ہے کہ سورۂ کہف پندرھویں پارے کے نصف سے شروع ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ دجال کا خروج پندرھویں صدی کے نصف پر ہوگا ۔ 

یہ سب فضول قیاس آرائیاں ہیں، علمائے امت کو چاہئے کہ مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کریں اور دین میں عقل لگانے سے پرہیز کریں ۔ 

جو تاریخ ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے نہیں بتائی ہے اس میں اٹکل نہ لگائیں ۔ 


( 13 ) فلسطینی مسلمانوں کو زکوۃ سے امداد کرنا کیسا ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

آج کل مختلف ممالک میں امدادی تنظیم فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے لئے خوراک کا انتظام کرکے فلسطین بھیج رہی ہے، ایسے میں بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا اس مد میں زکوۃ کا مال لگا سکتے ہیں؟

تو اس کا جواب ہے کہ ہاں فلسطینیوں کی امداد میں زکوۃ کا مال لگا سکتے ہیں ۔ 

زکوۃ کے علاوہ بھی صدقات و خیرات اور عطیات سے خوب خوب مدد کی جائے کیونکہ اس وقت وہ بہت زیادہ محتاج و مستحق ہیں ۔ 


آخری کلام 
؛…………………………………………؛

فلسطین کے مسلمان ہمارے بھائی ہیں، ان کی تکلیف ہماری تکلیف ہے اور ان کے غم میں ہم برابر کے شریک ہیں 

تاہم یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قرآن نے ایک معصوم کا قتل ساری انسانیت کا قتل ٹھہرایا ہے ایسے میں ہم حماس کے اقدام کو غلط سمجھتے ہیں ۔ 

آج فلسطین میں جتنے مسلمان شہید ہو رہے ہیں ان سب کا ذمہ دار حماس ہے اس لئے ہمیں جذبات سے اوپر اٹھ کر اسلام کے آئینہ میں دیکھنا چاہئے کہ اسلام میں جنگ کے کیا اصول ہیں ؟ اسلام امن پسند مذہب ہے، یہ حالت جنگ میں بھی عورت، بوڑھے، بچے، مریض اور امن پسندوں کا قتل جائز نہیں ٹھہراتا ۔ 

بہر کیف! اس وقت اہل فلسطین کو ہماری ضرورت ہے، ہم ان کو اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھیں، جہاں تک ہوسکے امداد فراہم کریں اور مسلم حکمرانوں کی اصل ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی کا کردار نبھائے اور امن مذاکرات کے ذریعہ قضیہ فلسطین کا مستقل حل نکالے ۔ 



 . 

ہفتہ، 28 اکتوبر، 2023

قبلہ اول مسجد اقصی عبد السلام مدنی

 . 

قبلۂ اول مسجدِ اقصی 

عبد السلام بن صلاح الدین مدنی 

 ____________________________________________

الحمد للہ رب العالمین، و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد

اپنی آغوش میں پالے ہیں پیمبر اس نے 
باعث ِ فخر ہے، اقصی سے محبت کرنا​ 

مسجد ِ اقصی اس عظیم مسجد کا نام ہے، جسے حضرت سلیمان ۔ علیہ السلام نے تعمیر فرمایا تھا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے : 

 ( أنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَنَى بَيْتَ الْمَقْدِسِ سَأَلَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خِلَالًا ثَلَاثَةً : سَأَلَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ فَأُوتِيَهُ، وَسَأَلَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ فَأُوتِيَهُ، وَسَأَلَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حِينَ فَرَغَ مِنْ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ أَنْ لَا يَأْتِيَهُ أَحَدٌ لَا يَنْهَزُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ فِيهِ أَنْ يُخْرِجَهُ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ) ( [1] ) 

ترجمہ ٔ حدیث : 
سلیمان بن داود علیہما السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے انہوں نے تین چیزیں مانگیں، اللہ عزوجل سے مانگا کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کرے جو اس کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی، اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کے لیے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا ہو ) . 


اس مسجدِ عظیم کو ( المسجد الأقصی ) ( بیت المقدس ) کے نام سے موسوم کیا جاتاہے، یہ مسجد ( یروشلم ) یا فلسطین میں واقع ہے، اور حضرت عمر نے ۱۶ھ میں فاتحانہ طور پر اس کی چابی حاصل کی تھی اور سر زمین قدس میں داخل ہوئے ۔ اس وقت قدس کے بطریق سیفرنیوس نے مدینہ قدس کی کلید آپ کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں دینے سے عدم رغبت کا اظہار کیا اور اس وقت کی مسلح قیادت کو چابی حوالہ کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں چاہتاہوں کہ خلیفۃ المسلمین بنفس نفیس تشریف لائیں اور مدینہ قدس کی زمام کار اپنے ہاتھوں میں سنبھالیں چنانچہ اس موقع پر حضرت عمر ۔ رضی اللہ عنہ ۔ اپنا تاریخی سفر طے کرکے قدس پہنچے جس کا قصہ تاریخی کتابوں میں انتہائی معروف و مشہور ہے اور تعجب خیز بھی ہے اور سبق آموز بھی ( [2] ) ۔ 


بہرحال آپ قدس پہنچے اور مسجد اقصی کی چابی وصول کی ۔ اس کے بعد آپ نے ایک معاہدہ تحریر فرمایا جس کو’’ معاہدہ ٔ عمریہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ اس معاہدہ میں تحریری طور آپ نے فرمان جاری کیا کہ ان لوگوں کو جو اس سر زمین پر ہیں جانی و مالی تحفظ عطا کیا جاتا ہے نیز ان کی ذریت اور اہل و عیال محفوظ و مامون ہوں گے ۔ ان کی عبادت گاہوں اور ان کے شعائرِ دینیہ اور رسم و رواج سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا اور ہر اس چیز کا ان کو حق حاصل ہے جس کے حصول کی لوگ کوششیں کرتے ہیں اور ہاتھ پاؤں مارتے ہیں، اس معاہدہ میں ایک بند یہ بھی تحریر تھا کہ اس مقدس سر زمین پر یہودیوں میں سے کسی فرد کو آباد ہونے کے لئے جگہ نہ دی جائے ۔ ) ( [3] ) 


اسلامی عقیدہ کے اعتبار سے اسے ایک اہم مقام حاصل ہے، جبکہ یہودی اسے حضرت سلیمان ۔ علیہ السلام ۔ کی تعمیر کردہ ہیکل ِ سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں، اور اسے منہدم کر کے دو بارہ ہیکل ِ سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ آج تلک وہ بد باطن دلائل و براہین سے اس کو ثابت نہ کر سکے، اور صبح ِ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتے کہ ہیکل ِ سلیمانی یہیں تعمیر کیا گیا تھا، حالانکہ مسجد اقصی دنیا کی وہ دوسری مسجد ہے، جو اس زمین پر بنائی گئی ہے، وہ ایک تاریخی ہی نہیں اسلامی اور مکمل اسلامی مسجد ہے، جسے قبلہ ٔ اول ہونے کا شرف حاصل ہے، دوسری طرف شیعہ حضرات زمین پر موجود مسجد ِ اقصی کو مانتے ہی نہیں، ان کے عقیدۂ فاسدہ کی بنیاد پر اقصی آسمان پر ہے، تیسری طرف مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ مل جائیں گے جو بیت المقدس کے اسلامی حقائق سے نہ صرف یہ کہ نا آشنا ہیں، بلکہ معاذ اللہ وہ مسجد ِ اقصی کو یہودیوں کا جائز حق مانتے ہیں ( تف ہے ایسی بیہودہ عقلوں پر، اور افسوس ہے ایسے ناہنجاروں کی سوچ و فکر پر )، اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ قبلہ ٔ اول مسجد ِ اقصی ( [4] ) کے حقائق و وقائع پر چند وضاحتیں احاطہ ٔ تحریر میں لائی جائیں، مبادا گم گشتہ ٔ راہ کو کچھ سامانِ ہدایت میسر ہو جائے، فأقول و باللہ التوفیق


 ( ۱ ) مسجد ِ حرام کے قبلہ قرار دئے جانے سے پہلے مسلمان مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے، یعنی بیت المقدس قبلہ ٔ اول تھا، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : 

{وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ} ( البقرۃ : ۱۴۳ ) 

 ( جس قبلہ پر تم پہلے سے تھے، اسے ہم نے صرف اسی لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابع دار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے، گو یہ کام مشکل ہے، مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ( ان پر کوئی مشکل نہیں ) اللہ تعالی تمہارے ایمان ( نماز ) ضائع نہ کرے گا، اللہ تعالی تو لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے ) یہ کوئی ۱۶، ۱۷ماہ کی مدت پر محیط تھی، پھر بیت الحرام کی طرف قبلہ کا رخ موڑ دیا گیا، جیسا کہ حضرت براء بن عازب ۔ رضی اللہ عنہما ۔ کی روایت میں موجود ہے، فرماتے ہیں : 

 ( كان أولُ ما قَدِمَ المدينةَ نزل على أجدادِه، أو قال أخوالِه من الأنصارِ، وأنه صلى قِبَلَ بيتِ المقدسِ ستةَ عَشَرَ شهرًا، أو سبعةَ عَشَرَ شهرًا، وكان يُعجِبُه أن تكونَ قبلتُه قِبَلَ البيتِ، وأنه صلى أول صلاةٍ صلاَّها صلاةُ العصرِ، وصلى معَه قومٌ، فخرج رجلٌ ممن صلى معه، فمر على أهلِ مسجدٍ وهم راكعون فقال : أشهدُ باللهِ لقد صلَّيْتُ مع رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم قِبَلَ مكةَ، فداروا كما هم قِبَلَ البيتِ، وكانت اليهودُ قد أعجبَهم إذ كان يُصلي قِبَلَ بيتِ المقدسِ، وأهلُ الكتابِ، فلما ولَّى وجهَه قِبَلَ البيتِ، أنكروا ذلك ) ( [5] ) 

 ( ترجمہ : رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے نانیہال کے یہاں اترے، جو انصار تھے ۔ اور وہاں آپ نے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور آپ کی خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ کی طرف ہو ( جب بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہو گیا ) تو سب سے پہلی نماز جو آپ ﷺ نے بیت اللہ کی طرف پڑھی عصر کی نماز تھی ۔ وہاں آپ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک آدمی نکلا اور اس کا مسجد ( بنی حارثہ ) کی طرف گزر ہوا تو وہ لوگ رکوع میں تھے ۔ وہ بولا کہ میں اللہ کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے ۔ ( یہ سن کر ) وہ لوگ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے اور جب رسول اللہ ﷺ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے تو یہود اور عیسائی خوش ہوتے تھے مگر جب آپ ﷺ نے بیت اللہ کی طرف منہ پھیر لیا تو انھیں یہ امر ناگوار محسوس ہوا ( اچھا نہیں لگا ) ) نیز فرمایا : 

 ( أن النبي صلى الله عليه وسلم لما قدم إلى المدينة صلَّى قِبَلَ بيت المقدس ستة عشر شهراً، أو سبعة عشر شهراً، وكان يعجبه أن تكون قِبلتهُ قِبَلَ البيت، وأن أول صلاة صلاها صلاة العصر وصلى معه قومٌ، فخرج رجلٌ ممن صلى معه، فمرَّ على أهل مسجد وهم راكعون، فقال : أشهد بالله لقد صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قِبَلَ مكة، فداروا كما هم قِبَلَ البيت ) ( [6] ) 

 ( ترجمہ ٔ حدیث : نبیٔ کریم ﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی ؛ جب کہ آپ ﷺ یہ چاہتے تھے کہ آپ ﷺ کا قبلہ بیت اللہ ( کعبہ شریفہ ) کی طرف ہو، تو سب سے پہلی نماز جو آپ ﷺ نے بیت اللہ کی طرف پڑھی عصر کی نماز تھی ۔ وہاں آپ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی، تو ایک آدمی جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی، نکلا اور مسجد والوں کے پاس سے گزرا، حالانکہ وہ لوگ رکوع میں تھے، چنانچہ عرض گزار ہوا : میں اللہ کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے، ( یہ سن کر ) وہ لوگ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے ) 


اس درمیان نبی ٔ کریم ﷺ کی خواہش تھی کہ قبلہ کا رخ بدل دیا جائے، اور قبلہ مسجد ِ حرام کی طرف پھیر دیا جائے، اللہ تعالی نے اس کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے، ارشاد ِ ربانی ہے : 

 ( قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ) ( البقرۃ : ۱۴۴ ) 

 ( ترجمہ ٔ آیت : ہم آپ کے چہرے کو باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب متوجہ کریں گے، جس سے آپ خوش ہو جائیں، آپ اپنا منہ مسجد ِ حرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں ) ​


 ( ۲ ) مسجد ِ اقصی دنیا کی ان عظیم ترین مساجد میں سے دوسری مسجد ہے، جسے دوسرے نمبر پر بنائی گئی جیسا کہ نبی ٔ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : 

جب آپ سے پوچھا گیا، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ۔ فرماتے ہیں : 

 ( ( قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ : أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلَ؟ قَالَ : الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ، قُلْتُ : ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ : ثُمَّ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى . قُلْتُ : كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ : أَرْبَعُونَ، ثُمَّ قَالَ : حَيْثُمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ وَالْأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ ) ( [7] ) ( ترجمہ ٔ حدیث : میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! زمین میں سب سے پہلی کونسی مسجد بنائی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مسجد حرام، میں نے عرض کیا! پھر اس کے بعد کونسی؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسجد اقصی، میں نے عرض کیا : ان دونوں مسجدوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا چالیس سال، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : جہاں نماز کا وقت ہوجائے وہیں نماز پڑھ لو وہی مسجد ہے ) 


 ( ۳ ) مسجد اقصی ان تین مساجد میں سے ایک ہے جس کی طرف بغرض عبادت سفر کر کے جانا جائز ہے، ورنہ ( ان تین مساجد کے علاوہ ) دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے، جس کے لئے سفر کیا جا سکتا ہے ( بغرض عبادت )، جیسا کہ نبی ٔ کریم ﷺ نے فرمایا : 

 ( لا تُشَدُّ الرِّحالُ إِلَّا إلىَ ثَلاثَةِ مَساجِدَ : المَسْجِدِ الحَرامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَىَ ) ( [8] ) 

 ( ترجمہ ٔ حدیث : کجاوے صرف تین مساجد کے لئے کسے جائیں گے ( یعنی سفر کیا جائے گا )، مسجد ِ حرام، مسجد ِ نبوی اور مسجد ِ اقصی ) ( [9] ) 


 ( ۴ ) مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کا ثواب پانچ سو نماز کے برابر ہے، جیسا کہ نبی ٔ کریم ﷺ نے فرمایا : 

 ( الصلاةُ في المسجد الحرام بمائة ألف صلاةٍ، والصلاةُ في مسجدي بألف صلاةٍ، والصلاةُ في بيت المقدس بخمسمائة صلاة ) ( [10] ) 

 ( ترجمہ : مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ کے برابر، مسجد نبوی میں ایک ہزار کے مساوی جبکہ بیت المقدس میں پانچ سو کے برابر ثواب ہے ) 

نیز حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : 

 ( تَذَاكَرْنَا وَنَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّهُمَا أَفْضَلُ : مَسْجِدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أو مَسْجدُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : صَلاةٌ فِي مَسْجِدِي هذا أَفْضَلُ مِنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ فِيه، ِ وَلَنِعْمَ الْمُصَلَّى هو، وَلَيُوشِكَنَّ أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ مِثْلُ شَطَنِ فَرَسِهِ مِنَ الأَرْضِ حَيْثُ يَرَى مِنْهُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الدُّنْيَا جَمِيعاً ) ( [11] ) 

 ( ترجمہ ٔ حدیث : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے یہ گفتگو کر رہے تھے کہ مسجد نبوی افضل ہے یا مسجد بیت المقدس؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : میری اس مسجد میں ایک نماز بیت المقدس میں پڑھی گئی چار نمازوں کے برابر ہے، ہاں وہ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے اور وہ وقت قریب ہے کہ ایک مؤمن کے لئے اتنی جگہ بھی ملنا مشکل ہوگا کہ وہ وہاں سے بیت المقدس کو دیکھ لے، اگر صرف اتنی جگہ بھی مل گئی تو وہ اسکے نزدیک دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگا )، اس حدیث کی روشنی میں مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کا ثواب ڈھائی سو بنتا ہے ۔ 


 ( ۵ ) مسجد اقصی کو اللہ رب العالمین نے مبارک، متبرک اور قابل تقدیس قرار دیا ہے، درج ذیل امور پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ تامل فرمائیں، بہت سارے حقائق سامنے آئیں گے، اور بہیترے گنجلک امور واشگاف ہوں گے​

 ( ألف ) اللہ تعالی نے فرمایا : 

 ( سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ) ( سورہ ٔ الإسراء : ۱ ) 

 ( ترجمہ ٔ آیت : پاک ہے وہ اللہ تعالی جو اپنے بندے کو رات ہی رات مسجد حرام سے مسجد ِ اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا دیکھنے والا ہے​


اللہ تعالی نے اس کے ارگرد برکتیں ڈالیں ہیں، اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہاں باشندگان، ان کے معاش و معیشت، رہن سہن، ان کے کھیتی باڑی، اور ان کے روزی رزق میں برکتیں دی ہیں ( [12] ) 

دوسرا مفہوم یہ ہے کہ وہاں انبیاء ‘بزرگان ِ دین اور صلحاء کا مسکن رہا ہے ( [13] )، حضرت معاذ نبی ٔ اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے : 

 ( يا شام أنت صفوتي من بلادي وأنا سائق إليك صفوتي من عبادي ) ( [14] ) 

 ( ترجمہ : اے شام! تو میری چنندہ شہروں میں سے ہے اور میں تمہاری طرف اپنے چنندہ اور نیک بندوں کو لے کر آؤں گا ) اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ ٔ کرام کی ایک جمّ غفیر نے وہاں اقامت اختیار فرمائی جن میں حضرات أبو عبيدة بن جرَّاح، صفيَّة بنت حُيَي زوجۃ النبی ﷺ -، معاذ بن جبَل، بلال بن رباح ( مؤذِّن الرسول – جنہوں نے مسجد نبوی میں اس وقت تک اذان دینے سے انکار کر دیا تھا، جب تک بیت المقدس فتح نہ ہو جائے-، عياض بن غُنم، عبدالله بن عمر، خالد بن الوليد، أبو ذر غفاري، أبو الدَّرداء عوَيمر، عُبادة بن صامت، و سلمان فارسي، و أبو مسعود الأنصاري، و تميم داري، و عمرو بن عاص، و عبدالله بن سلام، و سعيد بن زيد، و شدَّاد بن أوس، و أبو هريرة، و عبدالله بن عمرو بن العاص، و معاوية بن أبي سفيان، و عوف بن مالِك، و أبو جمعة الأنصاري ) رضی اللہ عن الجمیع ( [15] ) 

نیز حضرات ( عبادة بن الصامت، أبو ريحانة الأزدي، فيروز ديلمي، شداد بن أوس، مسعود أنصاري، سلام بن قيس الحضري رضي الله عنهم جميعًا ) نے وہاں مدفون ہونے کی وصیت فرمائی تھی، 

اور حضرات ( عمر بن خطاب، أبو عبيدة بن جراح، عمرو بن عاص، خالد بن الوليد، معاوية بن أبي سفيان، عبد الرحمن بن عوف، بلال بن أبي رباح، و أم المؤمنين صفية رضي الله عنهم جميعًا ) جیسے اجلہ صحابہ وہاں تشریف لے گئے، تاکہ نبی ٔ کریم ﷺ کی طرف سے بیان کردہ فضائل کو حاصل کر سکیں ( [16] ) 

اور تابعین اور فقہائے اسلام میں سے : 
 ( مالك بن دينار، أويْس القرني، و كعْب أحْبار، امام أوزاعي، و سفْيان ثوری، و إبراهيم بن أدهم، و مقاتل بن سفيان، لیث بن سعد، و وكيع بن جرَّاح، امام شافعي، و أبو جعفر جرشي، و بشر الحافي، وث وبان بن يمرد ) جیسے تابعین ِ جلیل القدر کے نام نامی شامل ہیں، ( [17] ) 

نیز ذو النون مصري، و سُليم بن عامر، سري سقطي، و بَكْر بن سهل دمياطي، و أبو العوَّام ( مؤذِّن بيت المقدس )، و سلامة المقدس الضرير، و أبو الفرج عبد الواحد الحنبلي، و امام غزالي، امام أبو بكر الطرطوشي، امام أبو بكر العربي، و أبو بكر جرجاني ( ( [18] ) قابل ذکر ہیں ۔ 


 ( ب ) ارض فلسطین کو عمومی طور پر اور اقصی کو خصوصی طور پر اللہ تعالی نے مبارک قرار دیا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا : ( وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ ) ( الانبیاء : ۷۱ ) ( اور ہم نے ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے، اس میں ہم نے تمام جہاں والوں کے لئے برکت رکھی تھی ) اس سے بھی مراد اکثر مفسرین کے نزدیک ملک ِ شام ہے، جسے شادابی، اور پھلوں اور نہروں کی کثرت نیز انبیائے کرام ۔ علیہم السلام ۔ کا مسکن ہونے کے لحاظ سے بابرکت کہا گیا ہے ( [19] )، 

نیز فرمایا : 
 ( وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آَمِنِينَ ) سورہ ٔ سبا : ۱۸ ) 

 ( ترجمہ ٔ آیت : اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دے رکھی تھی چند بستیاں اور ( آباد ) رکھی تھیں جو بر سر راہ ظاہر تھیں اور ان میں چلنے کی منزلیں مقرر کر دی تھیں ان میں راتوں اور دنوں کو بہ امن و امان چلتے پھرتے رہو ) یہاں بھی برکتوں والی بستیوں سے مراد شام اور بیت المقدس کی بستیاں ہیں ( [20] ) 

نیز فرمایا : 
 ( وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ) ( سورہ ٔ الانبیاء : ۸۱ ) 

 ( ترجمہ ٔ آیت : ہم نے تند و تیز ہوا کو سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا جو اس کے فرمان کے مطابق اس زمین کی طرف چلتی تھی، جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی، یہاں بھی جہاں برکت دی ہے، اس سے مراد شام کا علاقہ ہے، 

نیز فرمایا : 
 ( يَٰقَوْمِ ٱدْخُلُواْ ٱلْأَرْضَ ٱلْمُقَدَّسَةَ ٱلَّتِى كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّواْ عَلَىٰٓ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُواْ خَٰسِرِينَ ) ( المائدۃ : ۲۱ ) 

 ( ترجمۂ آیت : اے میری قوم والو! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالی نے تمہارے نام لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل رو گردانی نہ کرو کہ پھر نقصان میں جاپڑو )، غور فرمائیں، اللہ تعالی نے اپنے کلام مقدس میں اور حضرت موسی علیہ السلام نے ارض ِ فلسطین کو نہ صرف مقدس قرار دیا بلکہ اس مقدس جگہ میں داخل ہونے اور موت کے وقت اس سے قریب ہونے کی خواہش و تمنا ظاہر فرمائی، جیسا کہ ایک لمبی حدیث میں آتا ہے : 

 ( أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ، فَفَقَأَ عَيْنَهُ، فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ : أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ، فَرَدَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ عَيْنَهُ، وَقَالَ : ارْجِعْ إِلَيْهِ، فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ، فَلَهُ بِكُلِّ مَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ، قَالَ : أَيْ رَبِّ، ثُمَّ مَهْ؟ قَالَ : الْمَوْتُ، قَالَ : فَالْآنَ، فَسَأَلَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «فَلَوْ كُنْتُ ثَمَّ، لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ تَحْتَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ ) ( [21] ) 

 ( ترجمہ ٔ حدیث : موت کے فرشتے کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف ( انسانی صورت میں ) بھیجا گیا ۔ جب وہ فرشتہ آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اسے تھپڑ مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دی ۔ وہ اپنے رب تعالیٰ کے پاس واپس گیا اور عرض کیا : اے اللہ! تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ درست فرما دی اور فرمایا : ان کے پاس دوبارہ جاؤ اور انہیں کہو کہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پشت پر رکھیں، انہیں ہر بال کے عوض، جو ان کے ہاتھ کے نیچے آئے گا، ایک سال زندگی ملے گی ۔ ( اس ساری کار روائی کے بعد ) موسیٰ علیہ السلام نے کہا : اے میرے رب! پھر کیا ہو گا؟ فرمایا : ( پھر ) موت! انہوں نے کہا : پھر ابھی ٹھیک ہے، لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ مجھے ایک پتھر پھینکنے کے فاصلے تک مقدس سر زمین کے قریب کر دیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں راستے کی ایک جانب سرخ رنگ کے ٹیلے کے نیچے ان کی قبر دکھاتا ) امام نووی فرماتے ہیں کہ حضرت موسی نے ارض مقدس سے بوقت موت قریب ہونے کی خواہش اس کے شرف ِ منزلت کی وجہ سے فرمائی ( [22] ) 


 ( ۶ ) مسجد ِ اقصی وہ مقدس سر زمین ہے، جہاں سے نبی ٔ کریم ﷺ کی معراج شروع ہوئی اور آپ ﷺ نے جملہ انبیاء کرام ﷺ کی امامت فرمائی، ملاحظہ فرمائیں، آپ ﷺ نے خود فرمایا : 

 ( «لقد رأيتني في الحِجْر وقريش تسألني عن مسراي، فسألتني عن أشياء في بيت المقدس لم أثبتها، فكربت كربة ما كربت مثله قط»، قال : «فرفعه الله لي أنظر إليه، ما يسألوني عن شيء إلا أنبأتهم به، ولقد رأيتني في جماعة من الأنبياء، فإذا موسى قائم يصلي، فإذا رَجُلٌ ضَرْبٌ -وسط- جعد -من جعودة الشعر-، كأنه من رجال شَنُوءَة -قبيلة مشهورة-، وإذا عيسى ابن مريم قائم يصلي، أقرب الناس به شبهًا عروة بن مسعود الثقفي، وإذا إبراهيم عليه السلام قائم يصلي، أشبه الناس به صاحبكم -يعني : نفسه-، فحانت الصلاة، فأممتهم ) ( [23] ) 

 ( ترجمہ ٔ حدیث : میں نے اپنے آپ کو حطیم میں دیکھا اور قریش مجھ سے واقعۂ سفرِ معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے ۔ انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جنہیں میں نے محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس سے پہلے اتنا کبھی پریشان نہیں ہوا تھا ۔ تب اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا ۔ وہ مجھ سے بیت المقدس کے متعلق جو بھی چیز پوچھتے میں ( دیکھ دیکھ کر ) ان کو بتا دیتا ۔ اور میں نے خود کو گروہ انبیائے کرام علیہم السلام میں پایا ۔ میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے صلاۃ پڑھ رہے تھے، اور وہ قبیلہ شنوءہ ( ایک مشہور قبیلہ ) کے لوگوں کی طرح گھنگریالے بالوں والے تھے اور پھر حضرت عیسیٰ بن مریم علیھما السلام کھڑے ہوئے صلاۃ پڑھ رہے تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور تمہارے دوست ( یعنی خود نبی ٔ کریم ﷺ ) ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔ پھر نماز کا وقت ہوا، اور میں نے ان سب انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کروائی ) 

علامہ ابن القیم فرماتے ہیں : 
 ( "‏أُسْرِىَ برسول الله صلى الله عليه وسلم بجسده على الصحيح من المسجد الحرام إلى بيت المقدس، راكبًا على البُرَاق، صحبة جبريل عليهما الصلاة والسلام، فنزل هناك، وصلى بالأنبياء إمامًا، وربط البراق بحلقة باب المسجد‏، ثم عرج به تلك الليلة من بيت المقدس إلى السماء الدنيا" ) ( [24] ) 

 ( ترجمہ : صحیح یہی ہے کہ نبی ٔ کریم ﷺ کو جسم سمیت مسجد ِ حرام سے بیت المقدس تک سیر کرایا گیا، براق پر سوار ہو کر، حضرت جبریل علیہ السلام کی صحبت میں، چنانچہ آپ وہاں اترے، انبیاء کی امامت کرائی، براق کو مسجد کے دوروازے سے باندھا، پھر اسی رات بیت المقدس سے آسمانِ دنیا کی طرف معراج کرایا گیا ) 


آپ ﷺ کا تمام انبیاء کا اس سفرِ معراج کے موقعہ پر امامت کرانا چند امور کی طرف غماز تھا : ​

 ( أولا ) 
بیت المقدس کی سر زمین سے نور کی کرنیں، توحید کی شمعیں، شریعت کی بہاریں کھلیں گی، وہیں سے توحید کا غلغلہ پورے عالم میں پہنچے گا، حضرات انبیاء : جیسے حضرت ابراہیم، حضرت داؤد، اور حضرت سلیمان، حضرت زکریا، حضرت یحیی اور حضرت عیسی ۔ علیہم السلام ۔ کی دعوتی کاوشیں دیکھ جائیے، پتہ چل جائے گا کہ یہ سر زمین توحید و سنت کا آماجگاہ رہی ہے ۔ ​


ثانیا : 
اس بات کی طرف بھی اشارہ تھا کہ نبی ٔ کریم ﷺ کی امامت سب کے لئے واجب الإتباع ہوگی، اور آپ ﷺ کی بات قابل ِ تسلیم اور لائق ِ پیروی اور اس کے بغیر کوئی چارہ ٔ کار نہ ہوگا، حتی کہ انبیاء بھی آپ ہی کی اتباع کریں گے، چنانچہ نبی ٔکریم ﷺ نے فرمایا : 
 ( وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ مُوسَى [صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ]كَانَ حَيًّا مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي ) ( [25] )، 

ترجمہ : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر موسی ﷺ بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے بغیر چارہ نہ تھا، اور جب آخر زمانہ میں حضرت عیسی ۔ علیہ السلام ۔ اتریں گے تو آپ ﷺ کی شریعت کے مطابق ہی فیصلہ فرمائیں گے ( [26] ) 


ثالثا : 
مسجد ِ اقصی میں آپ ﷺ کی امامت اس بات پر بھی غماز تھی کہ اس سر زمین والے سنی ہوں گے، اور کتاب و سنت پر عمل پیرا ہوں گے​


رابعا : 
یہی وہ مقام ہوگا جہاں طائفہ منصورہ کا قیام ہوگا، فرمایا : ( لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين على من ناوأهم وهم كالإناء بين الأكلة، حتى يأتي أمر الله وهم كذلك"، قلنا : يا رسول الله، وأين هم؟ قال : "بأكناف بيت المقدس ) ( [27] ) 

 ( ترجمہ : میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے غالب رہیگا اوراپنے دشمنوں کو مقہور کرتا رہے گا، دشمن کی شیرازہ بندی اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گی الا یہ کہ بطور آزمائش اسے تھوڑی بہت گزند پہنچ جائے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال پر قائم و دائم ہوں گے ۔ ‘‘صحابہ کرام نے عرض کیا : ’’ یارسول اللہ یہ لوگ کہاں کے ہوں گے ۔ ‘‘تو نبی کریم نے جواب دیا : ’’ یہ لوگ بیت المقدس کے باشندے ہوں گے یا بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہوں گے ) اور اسی لئے نبی ٔ کریم ﷺ نے وہاں کی صالحیت کو معیار قرار دیا، فرمایا : 

 ( إذا فسد أهل الشام فلا خير فيكم، لا تزال طائفة من أمتي منصورين لا يضرهم من خذلهم حتى تقوم الساعة ) ( [28] ) 

 ( ترجمہ ٔحدیث : جب اہل شام میں بگاڑ پیدا ہو جائے، تو تم میں کوئی خیر باقی نہیں ہوگا، میری امت کے لوگ ہمیشہ کامیاب رہیں گے، اور جو انہیں چھوڑ دے، کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے یہاں تک قیامت قائم ہو جائے ) 


 ( ۷ ) بیت المقدس وہ عظیم جگہ ہے جہاں کی اللہ نے قسم کھائی ہے، اور بلاشبہ رب عظیم عظیم ہے اور عظیم چیزوں کی ہی قسم کھاتا ہے؛فرمایا : ( والتين والزيتون وطور سينين وهذا البلد الأمين ) 

بعض مفسرین فرماتے ہیں : التين بلاد الشام والزيتون بلاد فلسطين وطور سينين الجبل الذي كلم الله عليه موسى عليه السلام . والبلد الأمين مكة، ( [29] )، 

یہ واضح ہونا چاہئے کہ انجیر شام کے علاقے کی پیداوار ہے، اور زیتون فلسطین اور اس کے نواحی کی پیداوار ہے، طورِ سینا وہ پہاڑ ہے، جس پر اللہ تعالی نے حضرت موسی ۔ علیہ السلام ۔ سے کلام فرمایا، اور بلد امین سے مراد مکہ مکرمہ ہے، گویا اللہ تعالی نے ان مقامات کی قسم کھائی ہے، جس سے ارض ِ فلسطین کی عظمت و رفعت اور بلندی ٔ رتبہ کا اندازہ ہوتا ہے ۔ 


 ( ۸ ) مسجد ِ اقصی ان چار جگہوں میں سے ایک ہے، جہاں مسیح الدجال پر نہیں مار سکے گا، مکہ، مدینہ، مسجد اقصی اور مسجد طور ( [30] )، 

وہ چار مسجدیں جہاں دجال داخل نہیں ہوسکتا ہے، یہ ہیں ( مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ اور کوہ طور ) جیسا کہ حضرت جنادہ بن امیہ دوسی کی حدیث سے واضح ہے، وہ فرماتے ہیں : 

 ( دَخَلْت أَنَا وَصَاحِبٌ لِي عَلَى رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم، قَالَ‏ : فَقُلْنَا‏ : حَدِّثْنَا مَا سَمِعْت مِنْرَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم وَلاَ تُحَدِّثْنَا عَنْ غَيْرِهِ، وَإِنْ كَانَ عِنْدَكَ مُصَدَّقًا، قَالَ‏ : نَعَمْ، قَامَ فِينَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم ذَاتَ يَوْمٍ، فَقَالَ‏ : " أُنْذِرُكُمُ الدَّجَّالَ، أُنْذِرُكُمُ الدَّجَّالَ، أُنْذِرُكُمُ الدَّجَّالَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ إِلاَّ وَقَدْ أَنْذَرَهُ أُمَّتَهُ، وَإِنَّهُ فِيكُمْ أَيَّتُهَا الأُمَّةُ، وَإِنَّهُ جَعْدٌ آدَم مَمْسُوحُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى، وَإِنَّ مَعَهُ جَنَّةً وَنَارًا، فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ، وَإِنَّ مَعَهُ نَهْرَ مَاءٍ وَجَبَلَ خُبْزٍ، وَإِنَّهُ يُسَلَّطُ عَلَى نَفْسٍ فَيَقْتُلُهَا، ثُمَّ يُحْيِيهَا، لاَ يُسَلَّطُ عَلَى غَيْرِهَا، وَإِنَّهُ يُمْطِرُ السَّمَاءَ وَلاَ تُنْبِتُ الأَرْضُ، وَإِنَّهُ يَلْبَثُ فِي الأَرْضِ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا حَتَّى يَبْلُغَ مِنْهَا كُلَّ مَنْهَلٍ، وَإِنَّهُ لاَ يَقْرَبُ أَرْبَعَةَ مَسَاجِدَ‏ : مَسْجِدَ الْحَرَامِ وَمَسْجِدَ الرَّسُولِ وَمَسْجِدَ الْمَقْدِسِ وَالطُّورِ، وَمَا شُبِّهَ عَلَيْكُمْ مِنَ الأَشْيَاءِ فَإِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ مَرَّتَيْنِ‏ ) ( [31] ) 

 ( ترجمہ : میں اور میرا دوست ایک صحابی رسول کے پاس گئے اور کہا : ہمیں ایسی حدیث سنائیے، جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنی ہو، کسی اور سے نہیں، گو کہ وہ آپ کے یہاں درست ہی ہو ۔ انہوں نے کہا : جی ہاں، رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے : " میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں، تین بار ایسا ہی فرمایا، ہر نبی نے اپنی امت کو اس سے آگاہ فرمایا ہے ( لہذا میں بھی آگاہ کئے دیتا ہوں ) ۔ میری امت کے لوگو! وہ تم میں نکلے گا ۔ وہ گھنگھریالے بالوں والا اور گندمی رنگ کا ہو گا، اس کی بایاں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی، ( نہیں ہوگی ) اس کے پاس جنت اور جہنم ہوگی ۔ ( ‏‏‏‏درحقیقت ) اس کی جہنم، جنت ہوگی اور اس کی جنت، جہنم ہوگی ۔ اس کے پاس پانی کی نہر اور روٹیوں کا پہاڑ ہو گا ۔ ( ‏‏‏‏اسے اتنی طاقت و قوت دے دی جائے گی کہ ) ایک جان کو قتل کر کے اسے زندہ بھی کر سکے گا، مزید اسے اس قسم کا تسلط نہیں دیا جائے گا ۔ وہ آسمان سے بارش برسائے گا، لیکن زمین سے کوئی چیز نہیں اگے گی ۔ وہ زمین میں چالیس دن ٹھہرے گا، یہاں تک کہ ہر جگہ پہنچ جائے گا ۔ وہ چار مسجدوں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکے گا : مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد مقدس اور کوہ طور ۔ اگر کچھ اختیارات کی وجہ سے تم پر ( ‏‏‏‏اس کے اللہ تعالیٰ سے ) مشابہت ظاہر ہونے لگے، تو ذہن میں رکھنا ( اور اچھی طرح سے جان لینا ) کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے ۔ “ یہ بات دو مرتبہ آپ ﷺ ارشاد فرمائی ۔ 


 ( ۹ ) مسجد اقصی وہ جگہ ہے، جس کے بارے میں خصوصی طور پر یہ حکم نازل فرمایا ہے کہ وہ سب سے بڑا ظالم ہے جو اللہ کے گھروں سے دوسروں کو روکے، جیسا کہ فرمایا گیا : ( وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ( سورہ ٔ البقرہ : ۱۱۴ ) 

 ( ترجمہ ٔ آیت : اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالی کی مسجدوں میں اللہ تعالی کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے، ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوے ہی اس میں جانا چاہئے، ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے ۔ 

یہ آیت در حقیقت بخت نصر اور اس کے ساتھیوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جو نصرانیوں کی مدد کرتے تھے اور لوگوں کو مسجد ِ اقصی سے روکتے تھے، مسجد میں تباہی مچاتے تھے، گندگیاں پھینکتے تھے، یہی قول ابن جریر کا ہے، 

دوسرا قول ابن کثیر کا ہے، جو فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مشرکین ہیں، جنہوں نے نبی ٔ کریم ﷺ اور صحابہ کو مکہ سے نکل جانے پر مجبور کیا، اور یوں خانہ ٔ کعبہ میں مسلمانوں کو نماز سے روکا . ( [32] ) 


 ( ۱۰ ) ارض فلسطین وہ مبارک مقام ہے، جس کو ارض حشر و نشر قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کہ سوال کرنے پر کہ بیت القدس کے بارے میں کچھ بتائیے، 
نبی ٔ کریم ﷺ نے فرمایا : 
 ( أرض المحشر والمنشر"، ( [33] 

 ( وہ تو حشر و نشر کی زمین ہے ) 

ابو داؤد کی ایک روایت میں کچھ یوں آتا ہے، : 
"ائتوه فصلوا فيه -وكانت البلاد إذ ذاك حربًا– فإن لم تأتوه وتصلوا فيه، فابعثوا بزيت يُسرج في قناديله ) ( [34] ) 

 ( ترجمہ : وہاں جاؤ، نماز ادا کرو، ( اس وقت وہاں جنگ ہوگی ) اگر وہاں نہیں جا سکے، اور نماز نہ پڑھ سکے تو ( کم از کم ) تو تیل بھیج دو جس سے چراغ جلایا جا سکے ) 


 ( ۱۱ ) یہیں پر حضرت عیسی علیہ السلام نزول فرمائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے، جیسا کہ اس کی خبر دی گئی ‘ 

فرمایا : ( فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ، إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ، فَلاَ يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ . . . "، واللد مدينة معروفة في فلسطين، قال النووي : [بِضَمِّ اللاَّم وَتَشْدِيد الدَّال مَصْرُوف، وَهُوَ بَلْدَة قَرِيبَة مِنْ بَيْت الْمَقْدِس ) ( [35] ) 

 ( ترجمہ ٔ حدیث : ابھی یہ اسی ( قسم کے ) حال میں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام کو بھیج دے گا، ( جن کی تفصیل یہ ہے کہ ) وہ دمشق کے مشرقی جانب سفید مینار کے پاس آسمان سے اتریں گے ۔ اس وقت وہ ہلکے زرد رنگ کی دو چادروں میں ملبوس ہوں گے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے ۔ جب سر جھکائیں گے تو اس سے ( پانی کے ) قطرات ٹپکیں گے اور جب سر اٹھائیں گے تو اس سے ایسے قطرے گریں گے جو موتیوں کی طرح ( چمک دار اور سفید ) ہوں گے ۔ آپ کے سانس کی خوشبو جو کافر بھی پائے گا اُسی وقت مر جائے گا، اور آپ کے سانس کی خوشبو منتہاے نظر تک پہنچے گی ۔ پس عیسیٰ علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے، حتیٰ کہ اسے لُدّ کے دروازے پر پا لیں گے اور اُسے قتل کر ڈالیں گے ) 


 ( ۱۲ ) بیت المقدس سے ہی صور پھونکا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : 

 ( وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ ) ( ق : ۴۱ ) 

 ( ترجمۂ آیت : اور سن رکھیں کہ جس دن ایک پکارنے والا قریب ہی کی جگہ سے پکارے گا ) 

جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں متعدد مفسرین نے یہ بات کہی ہے ( [36] ) 


ایک آہ !
مسجد اقصی ! تیری وہ سجدہ گاہیں جہاں کبھی مقدس ترین ہستیاں، نبوت کے پیکر پیغمبرانِ الٰہی سجدہ ریز ہوتے تھے

آہ ! اب وہاں مجرم، فاسق، ظالم، غاصب یہودیوں کے ناپاک بوٹوں کی دھمک سنائی دیتی ہے …

آہ میرے اقصی ! 
آہ !جہاں کبھی تکبیر و تہلیل اور تسبیح و تحمید کے زمزمے گونجتے تھے مغضوب علیہم اور راندہ ٔ درگاہ یہودی قوم کے منحوس فوجیوں کے غلیظ اور بدبودار نعرے وہاں تعفن پھیلاتے ہیں، 

میرے اقصی ! تجھے ان سے کتنی گِھن آتی ہو گی ؟

آہ ! کچھ نہیں کر سکتے، صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ اپنے گناہ گار ہاتھوں کو اپنے پاک پروردگار کی طرف بلند کرکے دعائیں کر سکتے ہیں، آہیں بھر سکتے ہیں، تضرع و ابتہال کر سکتے ہیں، گریہ و زاری کر سکتے ہیں، بس اور بس

ہاں ! ان دلخراش حالات سے ہمارے سینے زخمی ضرور ہیں، اہلِ دل اس پر بہت تڑپتے اور بے تاب ہوتے ہیں، تجھ سے محبت رکھنے والے تجھ یہ حالت دیکھ کر روتے اور آہیں بھرتے ہیں، کوئی تجھ پر قربان ہونا چاہتا ہے مگر رکاوٹوں کے اتنے پہاڑ ہیں کہ اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے، کوئی تجھے ستانے والے یہودیوں پر آگ بن کر برسنا چاہتا ہے مگر وہ تجھ سے بہت دور بیٹھ کر تیرے غم میں تیرا شریک ہو کر بے چین رہتا ہے، قلق و اضطراب میں مبتلا رہتا ہے … تو سعادتوں کا مرکز مگر آج تجھے شقاوت کے مارے یہودیوں نے اپنا ظالمانہ چنگل مسلط کر رکھا ہے، تو برکتوں کا گھر مگر آج تجھے غضب کی ماری قوم نے اجاڑ رکھا ہے … 

لیکن یاد رکھنا ! بہت جلد تیرے چاہنے والے، تیری عزت اور تقدس کو پہچاننے والے تجھے ان ظالموں کے چنگل سے آزاد کرائیں گے، عن قریب پھر وہ دن آئیں گے جب تکبیر کے پاکیزہ نعرے تجھ میں گونجیں گے، تکبیر و تہلیل سے فضا معطر ہوگی، عن قریب سعادت مند لوگوں کی جبین نیاز تیری زمین کے بوسے لے گی ۔ بہت جلد ۔ ان شاء اللہ ۔ 

اے رب کریم! 
فلسطین کو یہودیوں کے ناجائز قبضے سے آزاد فرما، ظالموں کو ہلاک فرما، انہیں نشان ِ عبرت بنا، انہیں کیفر ِ کردار تک پہنچا، اور ہمیں موت سے پہلے بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرما . 
آمین یا رب العالمین

طالب دعا : 
أبو أسامہ عبد السلام بن صلاح الدین مدنی​

میسان ۔ طائف ۔ سعودی عرب​


 ( [1] ) ابن خزیمہ رقم : ۹۳۹، ابن حبان رقم : ۱۶۳۳، سنن کبری رقم : ۷۷۴، ۵۱۵۴، سنن نسائی رقم : ۶۹۳، مسند أحمد : ۶۶۴۴و سندہ صحیح ) 

 ( [2] ) دیکھئے : تاریخ طبری ۲ / ۴۵، المنتظم : ۴ / ۱۹۳، البدایہ و النہایہ ۷ / ۴۵، تاریخ الإسلام للذہبی : ۳ / ۱۶۲، فتوح البلدان للبلاذری : ص ۱۴۴ وغیرہ کتب تاریخ، حضرت عمر ۔ رضی اللہ عنہ ۔ کی اس سفر میں سادگی اور تواضع و خاکساری کے واقعہ کو پڑھ کر واقعی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں، لمبے چوڑے رقبے پر حکومت کرنے والا انسان اور اتنی سادگی، قربان جائیں ہم اور آپ پر ۔ رضی اللہ عنہ و عن الصحابہ اجمعین ۔ 

 ( [3] ) دیکھئے : تاریخ الیعقوبی : ۲ / ۴۶، شذرات الذہب : ۱ / ۲۸، تہذیب تاریخ دمشق : ۱ / ۱۷۹ ) 

 ( [4] ) در حقیقت یہ خاکسار کی ایک تقریر کا عنوان تھا، جسے فیس بک پر لائیو نشر کیا گیا تھا، بعض احباب کی شدید خواہش و فرمائش پر حوالہ ٔ قرطاس کیا جا رہا ہے، اللہ شرف ِ قبولیت سے نوازے ۔ آمین

 ( [5] ) بخاری رقم : ۴۰، مسلم رقم : ۲۵۲

 ( [6] ) بخاری برقم : ۴۴۸۶، مسلم رقم : ۵۲۵

 ( [7] ) بخاری برقم : ۳۴۳۵، مسلم برقم : ۵۲۰

 ( [8] ) بخاری رقم : ۱۱۸۹، مسلم رقم : ۱۳۹۷، من حدیث ابی ہریرہ ۔ رضی اللہ عنہ

 ( [9] ) اس موضوع پر شیخ الإسلام ابن تیمیہ، ابن القیم، شیخ البانی، شیخ بن باز، اور شیخ ابن عثیمین ۔ رحمہم اللہ ۔ نے بڑی نفیس بحثیں کی ہیں، دیکھئے : الرسائل الکبری : ۲ / ۳۸۸ ۔ ۳۸۹، ابن تیمیہ کی تفسیر سورہ ٔ الإخلاص : ۱۷۹، سلسلہ ضعیفہ : ۱ / ۵۹، فتاوی ابن باز : ۱۶ / ۱۱۳ ۔ 

 ( [10] ) رواه الطبراني في الكبير ورجاله ثقات، وفي بعضهم كلام وهو حديث حسن كما قال الهيثمي في مجمع الزوائد 4 / 7، ورواه البزار وقال إسناده حسن . الترغيب والترهيب 2 / 175، نیز دیکھئے : بزار : ۴۱۴۲، شرح مشکل الآثار : ۶۰۹

 ( [11] ) دیکھئے : معجم أوسط رقم : ۶۹۸۳، مستدرک حاکم رقم : ۸۵۵۳، وقال الحاكم هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه وأقره الذهبي، وقال الهيثمي : رواه الطبراني في الأوسط ورجاله رجال الصحيح، مجمع الزوائد 4 / 7، وصححه العلامة الألباني، بل قال عنه إنه أصح ما جاء في فضل الصلاة في المسجد الأقصى، السلسلة الصحيحة حديث رقم 2902، تمام المنة في التعليق على فقه السنة ص 294، امام طحاوی نے مشکل الآثار ( ۶۰۸ ) میں بھی اسے ذکر فرمایاہے

 ( [12] ) تفسیر طبری : ۸ / ۱۳ ۔ ۱۴

 ( [13] ) تفسیر قرطبی : ۱۳۹

 ( [14] ) دیکھئے : فضائل الشام لابن رجب : ۳ / ۲۰۰، ہیثمی نے مجمع الزوائد ( ۱۰ / ۶۱ ) میں اسے صحیح کہا ہے، امام منذری ( الترغیب والترہیب : ۴ / ۱۰۲ ) نے دو طرق میں سے ایک طریق کو، جید، کہا ہے

 ( [15] ) دیکھئے : طبقات ابن سعد ۷ / ۴۲۴ ) 

 ( [16] ) دیکھئے : مکانۃ القدس فی الإسلام از : شیخ عبد الحمید السایح ص ۷ ) 

 ( [17] ) دیکھئے : طبقات ابن سعد ( الطبقات الکبری ) : ۷ / ۴۶۴

 ( [18] ) دیکھئے : الأنس الجلیل ۵۷۵ ) 

 ( [19] ) دیکھئے : تفسیر الواحدی، تفسیر بغوی وغیرہ

 ( [20] ) دیکھئے : تفسیر ابن کثیر، تفسیر طبری، تفسیر قرطبی وغیرہ

 ( [21] ) بخاری رقم : ۱۳۳۹، مسلم رقم : ۲۳۷۲

 ( [22] ) شرح نووی لمسلم : ۸ / ۱۰۳ ۔ 

 ( [23] ) مسلم برقم : ۱۷۲

 ( [24] ) زاد المعاد : ۳ / ۳۰

 ( [25] ) مسند احمد برقم : ۱۵۳۸۸، مسند دارمی : ۴۴۹، سنن بیہقی رقم : ۲۲۷۵، مسند ابو یعلی رقم : ۲۱۳۵، علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے، دیکھئے : إرواء الغلیل رقم : ۱۵۸۹ ۔ 

 ( [26] ) دیکھئے : طرح التثریب للعراقی : ۸ / ۱۱۷، فتاوی اللجنۃ الدائمۃ : ۳ / ۳۰۱ ۔ ۳۰۲، رسائل فی الأدیان للشیخ الحمد ص ۱۳۷ ۔ ۱۳۹، امام نووی کی شرح مسلم : ۲ / ۳۶۶ ۔ 

 ( [27] ) طبرانی کبیر رقم : ۷۵۴، مسند أحمد : ۲۱۲۸۶، علامہ البانی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، دیکھئے : سلسلہ ضعیفہ رقم الحدیث : ۶۳۹۰

 ( [28] ) ترمذی رقم : ۲۱۹۲، فضائل الشام و دمشق : ص ۵، و سندہ صحیح، دیکھئےَ : سلسلہ صحیحہ رقم الحدیث : ۴۰۳، مسند احمد رقم : ۱۵۵۹۷

 ( [29] ) دیکھئے : تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر بغوی وغیرہ

 ( [30] ) دیکھئے : تفسیر آلوسی ۱۴ / ۱۱، رواہ أحمد فی مسندہ برقم : ۲۳۷۳۳

 ( [31] ) سلسلہ الأحادیث الصحیحۃ رقم : ۲۹۳۴، مسند أحمد رقم : ۲۳۶۸۳، شرح مشکل الآثار رقم : ۵۶۹۲

 ( [32] ) دیکھئے : تفسیر ابن کثیر آیت مذکورہ کی تفسیر

 ( [33] ) تخریج الإحیاء : ۱ ۷۵، و قال إسنادہ جید، شیخ وادعی نے الصحیح المسند ( ۱۶۶۲ ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے

 ( [34] ) ابو داؤد رقم : ۴۵۷، البتہ علامہ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے، تاہم امام نوی نے مجموع ( ۸ / ۲۷۸ ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے

 ( [35] ) مسلم رقم : ۲۹۳۷

 ( [36] ) دیکھئے : تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر فتح القدیر وغیرہ




جمعہ، 27 اکتوبر، 2023

مسجد اقصی تاریخ و فضیلت محمد مصطفی کعبی ازہری

 . 

تاریخ مسجد اقصٰی اور اس کے فضائل 

 (تحریر : - محمد مصطفیٰ کعبی ازہریؔ / فاضل الازہر اسلامک یونیورسٹی مصر عربیہ ) 

=================؛ 

مسئلہ فلسطین ایسا سلگتا ہوا سانحہ ہے جس نے عالم اسلام کو ایک رستا ہوا زخم دیا ہے جو دن بدن گہرا ہوتا جا رہا ہے ۔ امت کی ہر کوشش وہاں پر دم توڑ دیتی ہے جس نے سبھی کے ہاتھ پاؤں اقوام متحدہ کی زنجیروں میں باندھ رکھے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائيل کی شیطنت کا جواز اور سربہ مہر تصدیق نامہ وہ فراہم کرتا ہے جس کا بغل بچہ خود اقوام متحدہ ہے اور یہ آقا امریکہ ہے جو اپنے ویٹو اختیار کے ذریعہ اس قضیہ کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھائے ہوئے رہتا ہے ۔ 
اور اقوام متحدہ نے 1947ء میں فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے ، مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد تھی وہاں یہودی اسرائیل کی ریاست قائم کریں اور مشرقی علاقہ میں فلسطینی عرب مسلمانوں کی ریاست قائم ہو جائے ۔ جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے ۔ یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کر لیا جبکہ فلسطینی مسلمانوں اور عرب ممالک نے اپنے درمیان میں ایک یہودی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کر دیا ۔ 
 اور مسجد اقصیٰ یہ تاریخی مسجد ، فلسطین کے شہر یروشلم (القدس ) میں واقع ہے ، جو ان دنوں غاصب صہیونی اور ناجائز ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہے اور جس ریاست کی بنیاد 14 مئی 1948ء میں رکھی گئی تھی ۔ 
اور 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا ۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہو گیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب گیا تھا ۔ صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں ۔ 

فلسطین اسرائیل کی موجودہ جنگ جو 7 اکتوبر 2023 سے چل رہی ہے امت کی اس بےحسی کو چیلنج کرتی ہے جس نے اب تک کی بڑی کامیابی کو منظرعام پر دیکھنے کے باوجود کوئی اقدامی فیصلے نہیں کر پا رہی ہے ۔ ظاہراََ اس جنگ کا سہرا مختلف انتفاضہ گروپوں کو جاتا ہے تاہم غور کی بات یہ ہے کہ اس تحریک کے لئے عوامی جذبہ سب سے زیادہ مقدم ہے جو کسی زید و بکر کی پرواہ کیے بغیر اپنے ہدف کو حاصل کرتا ہے ۔ یہ جنگ اگرچہ ایک بڑی طاقت امریکہ کی بالواستہ کمان میں ہو رہی ہے مگر اس کے نتائج ایک کمزور اور نہتھے قوم کی کامیابی پر جب ختم ہوں گی تب ہی دنیا کی آنکھیں کھلیں گی کہ ایمان کی طاقت کیا ہے اور اسلحہ کی پسپائی کیا ہوتی ہے ۔ ان شاء اللہ 

مسجد اقصی حقیقت میں مسلمانوں کی میراث ہے جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے مگر یہ جس جگہ پر تعمیر کی گئی ، یہود کے موقف کے مطابق اِس جگہ پر پہلے سُلیمانی ہیکل تھی ۔ مُسلمانوں کے یروشلیم شہر پر قبضہ کرنے کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی ۔ حالانکہ کہ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں مذکور ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سفر معراج کیا تو اس باب میں اس مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے ۔ گویا یہ مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعثت سے بھی پہلے موجود تھی ۔ متعدد صحیح روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے روئے زمین پر سب سے پہلے تعمیر کی جانے والی مسجد حرام ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے روئے زمین پر دوسری مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی تھی ۔ 
اور بیت المقدس سر زمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جہاں متعدد انبیاء کرام مبعوث ہوئے نیز دیگر کئی علاقوں سے انبیاء کرام نے ہجرت فرما کر اس علاقے کو اپنا مسکن بنایا اور جس کی طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت کی ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے لئے فلسطین کو وطن بنایا (سورہ الانبیاء : 70 و71 ) اور اسی طرح حضرت اسحاق علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت یوشع علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام (سورہ الانبیاء : 81 ، وسورہ الاعراف : 137 ) ، حضرت زکریا علیہ السلام ، حضرت لوط علیہ السلام (سورہ الانبیاء : 71 ) ، حضرت یحیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ( سورہ المؤمنون : 50 ) نے بھی ہجرت کی اور جس میں دفن ہونے کے لئے حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے دعا کی ، اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر زمین محشر قرار دیا اور وادی نمل بھی ارض فلسطین میں واقع ہیں ۔ 

❀ یہ تاریخی مسجد ، فلسطین کے شہر یروشلم؛ (القدس ) میں واقع ہے ۔ 

❀ پہلی صلیبی جنگ کے بعد ، جب 15/جولائی 1099ء کو عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوا؛ تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا ۔ پھرصلاح الدین ایوبی نے 583ھ/1187ء میں بیت المقدس کو فتح کیا؛ تو مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے خرافات سے پاک کیا ۔ 88 سالوں کے علاوہ ، عہد فاروقی سے بیت المقدس اور مسجد اقصی مسلمانوں کے قبضے میں رہے ہیں ۔ افسوس ہے کہ ادھر چند سالوں سے پھر قدس اور مسجد اقصی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہیں ۔ 

❶ مسجد اقصیٰ با برکت زمین میں واقع ہے ۔ 
 ( الاعراف : 137 ، والانبیاء : 71 و 81 ، وسبا : 18 ) 

❷ مسجد أقصی کے ارد گرد کی سر زمین بھی با برکت ہے ۔ 
 (الاسراء : 1 ) 

❸ مسجد الاقصیٰ ارض مقدسہ میں ہے ۔ 
 (سورہ المائدة : 21 ) 

❹ مسجد الاقصیٰ پر سکون ، اطمینان اور چشمے والی جگہ ہے ۔ 
 (المؤمنون : 50 ) 

❺ مسجد الاقصیٰ وہ عظیم جگہ ہے جہاں کی اللہ نے قسم کھائی ہے ۔ 
 (سورہ التین : 1 و 2 و 3 ) 

❻ مسجد اقصیٰ سر زمین اسراء و معراج ہے ۔ 
 ( سورة الإسراء : 1 ، والبخاری : 3887 ، و مسلم : 162 ) 

❼ مسجد اقصیٰ کو انبیاء نے تعمیر کیا ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه النسائی في سننه : 693 ) 

❽ مسجد اقصی وہ مسجد ہے جس کی بنیاد روئے زمین پر مسجد حرام کے تقریبا چالیس سال بعد رکھی گئی ۔ 
 (صحيح : رواه البخاري : 3366 و 3425 ، و مسلم : 520 ) 

❾ مسجد اقصیٰ عبادت کی غرض سے بنائی گئی اس روئے زمین پر دوسری مسجد ہے ۔ ( صحيح : رواه البخاری : 1189 ، ومسلم : 520 ) 

⓿❶ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔ 
 ( صحيح : رواه البخاری : 40 و388و4486 و4492 و7252 ، و مسلم : 524 ، و الترمذی : 540 و2962 ) 

❶❶ مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تقریبا سولہ یا سترہ مہینے تک نمازیں ادا کی ۔ 
 (صحيح : رواه البخارى : 40 ، ومسلم : 525 ) 

❷❶ جب مسجد الاقصی سے تحویل قبلہ بیت اللہ کا معاملہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب عصر کی نماز میں تھے ۔ 
 ( صحیح : رواه البخاری : 4486 ) 

❸❶ مسجد اقصیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام انبیاء کرام کی امامت کی ۔ 
 (صحيح : رواه البخاری : 3394 و 3437 ، ومسلم : 172 ، والترمذی : 3130 ) 

❹❶ مسجد اقصٰی نماز پڑھنے کی بہترین جگھوں میں سے ایک ہے ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه الحاكم في المستدک علی الصحیحین : 8553 ، و المعجم الاوسط للطبرانی : 6983 ، والہیثمی فی مجمع الزوائد : 4 / 10 ، والالبانی فی الثمر المستطاب : 1 / 548 ، والصحیحة : 6 / 954 رقم : 2902 ، و تمام المنة : 294 ، وصححه الحاكم ووافقه الذهبي ) 

❺❶ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنا تمام گناہوں کا کفارہ ہے ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه النسائی في سننه : 693 ) 

❻❶ دجال مسجد الحرام ، مسجد نبوی ، مسجد اقصیٰ ، مسجد طور میں داخل نہیں ہوسکتا - 
 ( اسنادہ صحیح : رواه ابن أبي شيبة في مصنفه : 38661 ) 

❼❶ مسجد الحرام ، مسجد نبویؐ ، مسجد اقصیٰ کی جانب عبادت کی غرض سے سفر کرنا جائز ہے ۔ 
 (صحيح : رواه البخاری : 1189 ، ومسلم : 1397 ) 

❽❶ بیت المقدس کی آبادی یثرب (مدینے ) کی آبادی کا پیش خیمہ ہو گی ۔ 
 (اسنادہ حسن : رواه أبو داود في سننه : 4294 ) 

❾❶ مسجد الاقصیٰ وہ جگہ ہے جہاں طائفہ منصورہ کا قیام ہوگا ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه الترمذی : 2192 ، وابن ماجہ : 6 ، واحمد : 15596 و 15597 و 20361 و 20367 ) 

⓿❷ مسجد الاقصیٰ میں اعتکاف کرنا جائز ہے ۔ 
 (اسنادہ صحیح : المعجم للاسماعیلی : 4 / 729 ، و مشکل الآثار للطحاوي : 4 / 20 ، و المحلی لابن حزم : 5 / 194 ، وصححه الألباني في الصحيحة : 2786 ) 

❶❷ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم براق دابہ جانور پر سوار ہو کر مکہ سے مسجد اقصیٰ تک گئے ۔ 
 ( صحیح : رواه البخاری : 3887 ، و مسلم : 162 ) 

❷❷ مسجد الاقصیٰ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دودھ کو پسند کیا ۔ 
 ( صحیح : رواه البخاری : 3394 ، ومسلم : 168 ، والترمذی : 3130 ) 

❸❷ بیت المقدس سر زمین محشر و منشر ہے ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه الترمذی : 3918 ، والبزار في مسنده : 3965 ، و فضائل الشام للربعی : 13 ، و صحیح الجامع للالبانی : 2726 ، و فضائل الشام ودمشق للالبانی : 4 ) 

❹❷ بیت المقدس کے قریب باب " لد " کے پاس دجال کو قتل کیا جائے گا ۔ 
 (صحيح : رواه ، مسلم : 2997 ) 

❺❷ مسجد الاقصیٰ کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے روبر و ظاہر کر دیا جب قریش نے واقعہ معراج کو جھٹلایا ۔ 
 (صحيح : رواه البخاري : 3886 ، ومسلم : 170 ) 

❻❷ مسجد الاقصیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ نصاریٰ کے لئے دعا کی کہ وہ اسلام قبول کر لے ۔ 
 ( صحیح : رواه البخاری : 2978 ) 

❼❷ موسى علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ میری روح قبض ہو بیت المقدس کے قریب ۔ 
 ( صحیح : رواه البخاری : 1339 و 3407 ، ومسلم : 1842 ) 

❽❷ مسجد الاقصی منبر الانبیاء ہے ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه الترمذی : 2863 ، و السنن الکبریٰ للنسائی : 8815 و 11287 ، واحمد : 17302 ، وابن خزيمة : 1895 ، و صحيح الجامع : 1724 ) 

❾❷ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر ماننا جائز ہے ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه أبو داود في سننه : 3305 و 3306 ) 

⓿❸ بیت المقدس کے قریب والا پہاڑ یاجوج ماجوج کا قتل گاہ ہے ۔ 
 (صحيح : رواه مسلم : 2937 ) 

❶❸ بیت المقدس حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں 15 ہجری کو فتح ہوا ۔ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے خلافت کے دوران چار دفعہ ملک شام تشریف لائے ۔ 

❷❸ بیت المقدس زمانہ خلافت کے بعد گیارہویں صدی کے آخر سے تیرہویں صدی کے آخر میں مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں ، تاریخ عالم میں صلیبی جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسی جنگ میں عیسائی بیت المقدس کو فتح کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ 

❸❸ بیت المقدس 583 ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر فتح کیا ۔ 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ - : 
اللہ تعالی قدس اور مسجد اقصی کو ان ظالم و جابر اور غاصب لوگوں کے قبضے سے اسے آزاد کر دے اور فلسطینیوں کی قربانی بار آور ثابت ہو ! آمین ! 

 . 

ہفتہ، 21 اکتوبر، 2023

زمانے کو برا بھلا کہنے کی صورتیں، اقسام، حکم


 . 

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ 

انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں 
زمانے کو برا بھلا کہنے کی صورتیں، اقسام، حکم 

فتاوی، مضامین، شروحات حدیث 

مختلف علماء 

جمع و ترتیب 
سید محمد عزیر ادونوی 

پی ڈی یف لنک 

~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر 1 
____________

سوال 

السلام عليكم و رحمة الله و بركاته 

کیا یہ حدیث ہے کہ

 ( لَا تَسُبُّوا الدَّھْرَ فَأَنَا الدَّھْرُ أُقَلَّبُ… الخ ) 

’’زمانے کو گالی نہ دو ۔ میں ہی زمانہ ہوں… ’’ 
اگر یہ حدیث ہے تو کیا یہ صحیح حدیث ہے؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

و علیکم السلام و رحمة الله و برکاته! 

الحمد لله، و الصلاة و السلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : 

 ( قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی یُوْذِینِیْ ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّھْرَ وَأَنَا الدَّھْرُ أَقْلِّبُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ ) 

’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ابن آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے، وہ زمانے کو گالی دیتا ہے اور میں ہی زمانہ ہوں، رات اور دن کو بدلتا ہوں‘‘ 

 ( لَا تَسُبُّو الدَّھْرَ فَأِنَّ اللّٰہَ ھُوَالدَّھْرُ ) 
 
’’زمانے کو گالی نہ دو کیونکہ اللہ ہی زمانہ ہے ۔ ‘‘

اس حدیث کی تشریح میں امام بغوی فرماتے ہیں :  

’’عربوں کی یہ عادت تھی کہ وہ مصیبت کے وقت زمانے کو برا بھلا کہتے اور گالی دیتے تھے ۔ کیونکہ وہ مصیبتوں اور تکلیفوں کو زمانے کی طرف منسوب کرتے تھے ۔ 

وہ کہتے تھے ’’فلاں شخص کو زمانے کی چوٹیں پڑیں اور فلاں قبیلے کو زمانے نے تباہ کردیا ۔ ‘‘ 

چونکہ وہ مصائب کو زمانے کی طرف منسوب کرتے تھے، لہٰذا وہ ان حوادث کے فاعل کو برا بھلا کہتے تھے ۔ اس طرح وہ گالی اصل میں اللہ تعالیٰ کو دی جاتی تھی، کیونکہ ان واقعات کا فاعل حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہے ( نہ کہ زمانہ جسے وہ اپنے خیال میں مصیبت کا سبب قرار دے رہے تھے ) ۔ اس لئے انہیں زمانے کو گالی دینے سے منع کر دیا گیا ۔ 

وَ بِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَ آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَ سَلَّمَ 

اللجنۃ الدائمۃ ۔ 
رکن : 
عبداللہ بن قعود، 
عبداللہ بن غدیان، 
نائب صدر : 
عبدالرزاق عفیفی، 
صدر : 
عبدالعزیز بن باز 
فتویٰ ( ۸۴۸۷ ) 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب 

فتاویٰ ابن باز رحمہ اللہ
جلد دوم - صفحہ 25

~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر 2 
____________

صحيح البخاري 6181، 
كِتَاب الْأَدَبِ 

کتاب : اخلاق کے بیان میں

101 . بَابُ لاَ تَسُبُّوا الدَّهْرَ : 

101 . باب : زمانہ کو برا کہنا منع ہے ۔ 

 ( مرفوع ) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، اخبرني ابو سلمة، قال : قال ابو هريرة رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " الله يسب بنو آدم الدهر وانا الدهر بيدي الليل والنهار " . 

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں ابو سلمہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں رات اور دن ہیں ۔ “ 

تخریج 
 ● صحيح البخاري 7491عبد الرحمن بن صخر يؤذيني ابن آدم يسب الدهر أنا الدهر بيدي الأمر أقلب الليل والنهار
 
 ● صحيح البخاري 6181عبد الرحمن بن صخر يسب بنو آدم الدهر أنا الدهر بيدي الليل والنهار

● صحيح البخاري 4826عبد الرحمن بن صخر يؤذيني ابن آدم يسب الدهر أنا الدهر بيدي الأمر أقلب الليل والنهار
 
● صحيح مسلم 5867عبد الرحمن بن صخر لا يسب أحدكم الدهر فإن الله هو الدهر لا يقولن أحدكم للعنب الكرم فإن الكرم الرجل المسلم
 
● صحيح مسلم 5863عبد الرحمن بن صخر يؤذيني ابن آدم يسب الدهر أنا الدهر أقلب الليل والنهار
 
● صحيح مسلم 5865عبد الرحمن بن صخر لا يقولن أحدكم يا خيبة الدهر فإن الله هو الدهر
 
● صحيح مسلم 5864عبد الرحمن بن صخر يؤذيني ابن آدم يقول يا خيبة الدهر فلا يقولن أحدكم يا خيبة الدهر أنا الدهر أقلب ليله ونهاره فإذا شئت قبضتهما
 
● صحيح مسلم 5862عبد الرحمن بن صخر يسب ابن آدم الدهر أنا الدهر بيدي الليل والنهار
 
● صحيح مسلم 5866عبد الرحمن بن صخر لا تسبوا الدهر فإن الله هو الدهر
 
● سنن أبي داود 5274عبد الرحمن بن صخر يؤذيني ابن آدم يسب الدهر أنا الدهر بيدي الأمر أقلب الليل والنهار
 
● صحيفة همام بن منبه 118عبد الرحمن بن صخر لا يقل ابن آدم يا خيبة الدهر أنا الدهر أرسل الليل والنهار فإذا شئت قبضتهما
 
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم 13عبد الرحمن بن صخر لا يقولن احدكم : يا خيبة الدهر، فإن الله هو الدهر
 
● مشكوة المصابيح 22عبد الرحمن بن صخر قال الله تعالى : يؤذيني ابن آدم يسب الدهر وانا الدهر بيدي الامر اقلب الليل والنهار


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ


 الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4826 
 
´زمانے کو برا نہ کہو`

 « . . . قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : 
يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ، وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ . . . » 

” . . . اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے ۔ میں رات اور دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہوں ۔ “ 
[صحيح البخاري / كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ : 4826]

فوائد و مسائل
زمانہ جاہلیت میں جب مشرکین عرب کو کوئی دکھ، غم، شدت و بلا پہنچتی تو وہ کہتے :  
« يا خيبة الدهر »  
یعنی ہائے زمانے کی بربادی! 
 وہ ان افعال کو زمانے کی طرف منسوب کرتے اور زمانے کو برا بھلا کہتے اور گالیاں دیتے حالانکہ ان افعال کا خالق اللہ جل جلالہ ہے تو گویا انہوں نے اللہ تعالیٰ کو گالی دی ۔ 

◈ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے سورہ جاثیہ کی تفسیر میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

 « كان اهل الجاهليه يقولون انما يهلكنا الليل والنهار وهو الذي يهلكنا يميتنا ويحيينا فقال الله في كتابه وقالوا ما هي الا حياتنا الدنيا نموت ونحيا وما يهلكنا الا الدهر » 
[تفسیر ابن کثیر : 4 / 109] 

” اہل جاہلیت کہتے تھے کہ ہمیں رات اور دن ہلاک کرتا ہے، وہی ہمیں مارتا اور زندہ کرتا ہے ۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا : ” انہوں نے کہا ہماری زندگی صرف اور صرف دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے ۔ 
دراصل انہیں اس کی خبر نہیں یہ تو صرف اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں ۔ 

 اس آیت کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ زمانے کو برا بھلا کہنا اور اپنی مشکلات اور دکھوں کو زمانے کی طرف منسوب کر کے اسے برا بھلا کہنا مشرکین عرب اور دھریہ کا کام ہے ۔ دراصل زمانے کو برا بھلا کہنا اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہنا ہے ۔ 

❀ صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

 « قال الله عز وجل : ‏‏‏‏ يؤذيني ابن آدم يسب الدهر، ‏‏‏‏‏‏وانا الدهر بيدي الامر اقلب الليل والنهار » 

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : 
" ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے، وہ زمانے کو گالیاں دیتا ہے اور میں ( صاحب ) زمانہ ہوں ۔ میرے ہاتھ میں معاملات ہیں ۔ میں رات اور دن کو بدلتا ہوں ۔ “ 
[بخاري، كتاب التفسير : باب تفسير سوره جاثيه : 4826، مسلم : 2246، حميدي : 2 / 468، مسند احمد : 2 / 238، ابوداؤد : 5274] 

❀ اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

 « لا تسبوا الدهر فان الله هو الدهر » 
 
” زمانے کو برا نہ کہو یقیناً اللہ ہی زمانہ ہے ( یعنی زمانے والا ہے ) ۔ “ 
 [مسند ابي يعلي : 10 / 452]

❀ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں : 

 « لا يقولن احدكم يا ضيعة الدهر! فان الله هو الدهر » 

ہرگز کوئی یہ نہ کہے : 
"ہائے زمانے کی بربادی!“ بے شک اللہ ہی زمانے والا ہے ۔  
[حلية الاولياء : 8 / 258] 

◈ امام خطابی رحمہ اللہ « انا الدهر » کا معنی بیان کرتے ہیں : 

 « أنا صاحب الدهر، ومدبر الأمور التي ينسبونها إلى الدهر، فمن سب الدهر عن أجل أنه فاعل هذه الأمور؛ عاد سبه إلى ربه الذي هو فاعلها » 

” میں زمانے والا اور کاموں کی تدبیر کرنے والا ہوں، جن کاموں کو یہ زمانے کی طرف منسوب کرتے ہیں ( یعنی دن رات کا نظام وغیرہ ابدی ہے خود بخود چل رہا ہے ۔ یہ زمانہ ہی مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے ) جس نے زمانے کو اس بنا پر برا بھلا کہا کہ وہ ان امور کا بنانے والا ہے تو اس کی گالی اس رب کی طرف لوٹنے والی ہے جو ان امور کا بنانے والا ہے ۔ “ 
[فتح الباري : 575 / 16] 

 لہٰذا زمانے کو برا بھلا کہنا کہ عوام الناس میں رائج ہے کہ زمانہ برا آ گیا ہے، گیا گزرا زمانہ ہے، وقت کا ستیاناس وغیرہ، دراصل اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہنا ہے، کیونکہ سارا نظام عالم اللہ وحدہ لا شریک لہ کے قبضہ قدرت میں ہے، وہی پیدا کرنے والا اور وہی مارنے والا ہے ۔ وہی مدبر الامور ہے، منتظم اور سب کی بگڑی بنانے والا گنج بخش، غوث اعظم، داتا، فیض بخش اور دست گیر ہے ۔ اس لیے ان امور اور زمانے کو برا کہنا اللہ تعالیٰ کو برا کہنا ہے جو ان کا خالق ہے ۔ لہٰذا ایسے کلمات سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ 

 احکام و مسائل، حدیث \ صفحہ نمبر : 26 


 حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 13 
 
´زمانے کو برا نہیں کہنا چاہئیے`

 « . . . 364 - وبه : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : 
 ”لا يقولن أحدكم : يا خيبة الدهر، فإن الله هو الدهر“ . . . . » 

” . . . اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

"تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ ہائے زمانے کی رسوائی! کیونکہ اللہ ہی زمانہ ( بدلنے والا ) ہے ۔ “ . . . “ 
[موطا امام مالك رواية ابن القاسم / 0 / 0 : 13] 

تخریج الحدیث : 
[وأخرجه البخاري فى الادب المفرد 729، من حديث ما لك به بلفظ : ”لا يقولن أحدكم“ إلخ ورواه مسلم فواد 2246، من حديث ابي الزناد به] 

تفقه : 
➊ زمانے کو برا کہنا گویا الله تعالیٰ پر اعتراض کرنا ہے کیونکہ وہی زمانے کا خالق اور وہی زمانے کا مدبر ہے لہٰذا زمانے کو برا نہیں کہتا چاہئے ۔ 

➋ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

 « قال الله عز وجل : يؤذيني ابن آدم، يسب الدهر وأنا الدهر، بيدي الأمر، أقلب الليل والنهار ۔ »  

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مجھے ابن آدم ایذا ( تکلیف ) دیتا ہے، وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور میں زمانہ بدلنے والا ہوں ۔ میرے ہی ہاتھ میں اختیار ہے، رات اور دن کو میں ہی تبدیل کر رہا ہوں ۔ 
[صحيح بخاري : 4826، صحيح مسلم : 2246]

◄ اس حدیث سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں پانچ مزید فوائد پیش خدمت ہیں : 

① الله کوتکلیف دینے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی اس حرکت پر الله تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے ۔ 

② مطلقاً زمانے کو برا کہنا یعنی گالیاں وغیرہ دینا ممنوع ہے کیونکہ زمانے کا خالق الله تعالیٰ ہے، اس سے یہ مفہوم بھی نکل سکتا ہے کہ اعتراض کرنے والا زمانے کے خالق یعنی الله تعالیٰ پر اعتراض کر رہا ہے ۔ معاذ اللہ

③ دہریہ عقائد والے کفار زمانے کو برا کہتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں ان کا قول منقول ہے :  

« وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ » یعنی ہمیں صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے ـ 
 [45 - الجاثيه : 24] 

● انھی کی پیروی کرتے ہوئے بعض جاہل عوام زمانے کو برا کہہ بیٹھتے ہیں حالانکہ ہر انسان پر فرض ہے کہ وہ ان تمام کاموں سے بچے جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے ۔ 

④ صرف اللہ ہی مدبر اور متصرف ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ جو لوگ اس کے شریک بنا لیتے ہیں، ان کے شرک اور شریکوں سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ پاک اور بلند ہے ۔ 

⑤ بعض روایتوں میں زمانے کی مذمت بھی آئی ہے مثلا ایک حدیث میں آیا ہے کہ

 « لايأتي عليكم زمان إلا والذي بعده أشرمنه ۔ »  
تم پر جو زمانہ بھی آئے گا اس کے بعد والا زمانہ اس کی بہ نسبت زیادہ شر والا ( خراب ) ہوگا ۔  
[البخاري : 1068] 

● تو ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ اچھا زمانہ ہو یا بظاہر برا زمانہ، سب الله کی طرف سے ہے ۔ اس میں زمانے کو برا نہیں کہا گیا اور نہ گالیاں دی گئی ہیں ۔ 

 موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث \ صفحہ نمبر : 364 
 

 حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 22 
 
´ابن آدم کا اللہ تعالیٰ کو جھٹلانا؟ `

 « . . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم : " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِيَ الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ " . . . » 

” . . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

”اللہ تعالیٰ نے فرمایا : 
 انسان مجھے تکلیف دیتا ہے وہ زمانہ کو برا کہتا ہے اور اس کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں خود ہی زمانہ ہوں میرے ہاتھ میں حکم ہے رات کو دن میں بدلتا ہوں ۔ “ . . . “ 
[مشكوة المصابيح / كِتَاب الْإِيمَانِ : 22]

تخریج الحدیث : 
[صحیح بخاری 4826]، 
[صحیح مسلم 5863] 

فقہ الحدیث 
➊ اللہ کو تکلیف دینے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی اس حرکت پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے ۔ 

➋ مطلقاً زمانے کو برا کہنا، یعنی گالیاں وغیرہ دینا ممنوع ہے، کیونکہ زمانے کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، اس سے یہ مفہوم بھی نکل سکتا ہے کہ اعتراض کرنے والا زمانے کے خالق یعنی اللہ تعالیٰ پر اعتراض کر رہا ہے ۔ « معاذ الله » 

➌ دہریہ عقائد والے کفار زمانے کو برا کہتے تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ان کا قول منقول ہے : 

 « وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ » 

یعنی ہمیں صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے ۔ 
[سورة الجاثيه : 24] 

انہی کی پیروی کرتے ہوۓ بعض جاہل عوام زمانے کو برا کہہ بیٹھتے ہیں ۔ 
حالانکہ ایسی حرکتوں سے کلی اجتناب کرنا چاہئے ۔ ہر انسان پر فرض ہے کہ وہ ان تمام کاموں سے بچے جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے ۔ 

➍ صرف ایک اللہ ہی مدبر اور متصرف ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ جو لوگ اس کے شریک بنا لیتے ہیں، ان شریکوں سے اللہ پاک ہے ۔ 

➎ بعض روایتوں میں زمانے کی مذمت بھی آئی ہے، مثلاً ایک حدیث میں آیا ہے کہ : 

 « لا ياتي عليكم زمان إلا الذى بعده أشر منه » 

”تم پر جو زمانہ بھی آئے گا اس کے بعد والا زمانہ اس کی بہ نسبت زیادہ شر والا ( خراب ) ہو گا ۔ “ 
 [صحيح البخاري : 7068] 

ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ اچھا زمانہ ہو یا بظاہر برا زمانہ، سب اللہ کی طرف سے ہے ۔ اس میں زمانے کو برا نہیں کہا گیا اور نہ گالیاں دی گئی ہیں ۔ 

 اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث \ صفحہ نمبر : 22 
 

 الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود، تحت الحديث 5274 
 
´زمانے کو برا بھلا کہنے کی ممانعت کا بیان ۔ `

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

”اللہ عزوجل فرماتا ہے : 
 ابن آدم ( انسان ) مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، وہ زمانے کو گالی دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہی ہوں، تمام امور میرے ہاتھ میں ہیں، میں ہی رات اور دن کو الٹتا پلٹتا ہوں ۔ ‏‏‏‏“ 
[سنن ابي داود / أبواب السلام / حدیث : 5274] 

فوائد و مسائل : 

1 ۔ دور یا زمانے کو برا بھلا کہنا ناجائز ہے دور یا زمانہ تو ہمیشہ سے ایک ہی ہے، البتہ لوگ اپنی بد اعمالیوں کو بھول کر زمانے کی طرف نسبت کرنے لگتے ہیں ۔ 

2 ـ چونکہ اللہ عزوجل زمانے کا خالق اور اس میں تغیر و تبدل کرنے والا ہے، اس نسبت سے اس نے اپنے آپ کو دھر سے تعبیر فرمایا ہے، اس سبب کے باوجود یہ کلمہ اللہ کے اسماء یا صفات میں سے نہیں ہے ۔ 

 سنن ابی داود، شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث \ صفحہ نمبر : 5274 

~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر 3 
____________

غاية المريد فی شرح کتاب التوحید 

زمانے کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کے مترادف ہے 

باب : 44 - - زمانے کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کے مترادف ہے ( 1 ) ​

اللہ تعالی کا ارشاد ہے : 
 ( ( وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ 
 ( سورة الجاثية45 : 24 ) ) 

“اور وہ کہتے ہیں ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی ہے ۔ ہم یہاں مرتے اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں مار دیتا ہے ۔ انہیں حقیقت کا کچھ علم نہیں ۔ اور وہ محض گمان سے کام لیتے ہیں ۔ ” ( 2 ) 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا : 

 ( ( يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ) 

 ( صحیح البخاری، التفسیر، سورۃ حم الجاثیۃ، باب وما یھلکنا الا الدھر، ح : 4826 وصحیح مسلم، الالفاظ من الادب و غیرھا، باب النھی عن سب الدھر، ح : 2246 ) ) 

“اللہ تعالی فرماتے ہیں ابن آدم زمانے کو گالیاں دے کر ( برا بھلا کہہ کر ) مجھے ایذا پہنچاتا ہے کیونکہ ( در حقیقت ) میں ہی زمانہ ( کا خالق اور مالک ) ہوں ۔ دن اور رات کو میں ہی تبدیل کرتا ہوں ۔ ” 

اور ایک روایت میں ہے : 

 ( ( لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ، فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ ) 
 ( صحیح مسلم، الالفاظ من الادب، باب النھی عن سب الدھر، ح : 2246 ) ) 

“زمانہ کو گالی مت دو ( برا بھلا مت کہو ) کیونکہ در حقیقت اللہ تعالی ہی زمانہ ہے ۔ ” ( 3 ) 

مسائل : 
1 ) ان احادیث میں زمانے کو گالی دینے اور برا بھلا کہنے کی ممانعت ہے ۔ 

2 ) رسول اللہ ﷺ نے زمانے کو برا بھلا کہنا، اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کے مترادف قرار دیا ہے ۔ 

3 ) “فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ " 
 ( در حقیقت اللہ ہی زمانہ ہے ) 
یہ جملہ ازحد قابل توجہ ہے ۔ 

4 ) انسان کو سب و شتم سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ بسا اوقات لا شعوری طور پر انسان سب و شتم کا مرتکب ہو جاتا ہے اگرچہ وہ اس کا ارادہ نہ بھی کرے ۔ 

نوٹ : - 

 ( 1 ) زمانے کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا ہرگز جائز نہیں ۔ یہ بات توحید کے منافی ہے ۔ اس لیے اس سے احتراز ضروری ہے ۔ 

جہلاء کی عادت ہے کہ جب کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف ہو تو زمانے کو برا بھلا کہنے یا گالیاں دینے لگتے ہیں اور اس دن، ماہ یا سال کو لعنتی قرار دے کر شر یا برائی کی نسبت زمانہ کی طرف کرتے ہیں کہ زمانہ بڑا خراب ہے، بڑا خراب زمانہ آگیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زمانہ تو کوئی کام ہی نہیں کرتا ۔ زمانے میں حقیقی متصرف اللہ تعالی ہے ۔ اور اس کا خالق بھی وہی ہے . 

لہذا زمانے کو برا بھلا کہنا اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کے مترادف ہے ۔ 

البتہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ سال بڑے سخت ہیں، یہ دن بڑے سیاہ ہیں، یہ مہینے بڑے منحوس ہیں تو اس قسم کے الفاظ پہ کوئی مواخذہ نہیں کیونکہ ان سے متکلم کی مراد یہ ہوتی ہے کہ میرے لیے یہ سال بڑے سخت، یہ مہینے بڑے منحوس ( نا مبارک ) یا یہ دن بڑے سیاہ ہیں ۔ اس سے وہ زمانے کو برا نہیں کہتا بلکہ اپنے حالات بیان کر رہا ہوتا ہے ۔ اس لیے یہ الفاظ مذموم نہیں ۔ 

 ( 2 ) حالات و واقعات کی نسبت زمانہ کی طرف کرنا مشرکین کا طریقہ ہے ۔ جبکہ اہل توحید تمام امور کی نسبت اللہ تعالی ہی کی طرف کرتے ہیں ۔ 

 ( 3 ) اس کا مطلب یہ نہیں کہ “الدهر” ( زمانہ ) اللہ تعالی کا نام ہے بلکہ اس سے بتلانا یہ مقصود ہے کہ زمانہ از خود نہ تو کسی چیز کا مالک ہے اور نہ کچھ کرتا یا کر سکتا ہے بلکہ زمانے میں حقیقی متصرف اللہ تعالی ہے لہذا زمانے کو برا بھلا کہنا، اس میں تصرف کرنے والے اللہ تعالی کو برا بھلا کہنے کے مترادف ہے ۔ 


~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر 4 
____________

کچھ لوگ کہتے ہیں : " زمانہ غدار ہے " اس کا کیا حکم ہے؟ 

 نمبر 145615 
 
 سوال 
کیا یہ کہنا جائز ہے کہ زمانہ غدار ہے؟ کیونکہ زمانہ بھی " دَھَر " کا ایک حصہ ہے، اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ " دھر " یعنی زمانے کو برا بھلا نہ کہو، کیونکہ اللہ تعالی " الدَھَر " ہے ۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے ۔ 


جواب کا متن 

الحمد للہ . 

یہ کہنا کہ : " زمانہ غدار ہے " جائز نہیں ہے، کیونکہ زمانہ کسی کے معاملے میں کچھ بھی تصرف نہیں کر سکتا، در حقیقت اس کائنات کے تمام معاملات اور امور میں تصرف اور ان کی منصوبہ بندی صرف اللہ تعالی ہی فرماتا ہے کہ جو یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے " الدَھَر " کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے، کیونکہ " الدَھَر " کو گالی دینے والے کی گالی در حقیقت اللہ تعالی تک پہنچتی ہے، اور اللہ تعالی ہر قسم کی برائی سے بلند و بالا ہے ۔ 
اس حوالے سے تفصیلات پہلے سوال نمبر : ( 9571 ) کے جواب میں گزر چکی ہیں ۔ 

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے کچھ جملوں کی بابت استفسار کیا گیا کہ : " زمانہ بہت خراب ہو گیا ہے " یا " زمانہ غدار ہے " یا " وہ گھڑی بڑی منحوس تھی جس میں میں نے تمہیں دیکھا " کہنا صحیح ہے؟ 

تو انہوں نے جواب دیا : 
 " سوال میں مذکور جملوں کا مفہوم دو طرح کا ہو سکتا ہے : 
 
پہلا مفہوم :  
یہ جملے زمانے کو گالی اور دشنام دینے کے لیے ہوں، تو پھر یہ جملے حرام ہیں جائز نہیں ہیں، کیونکہ زمانے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے، اس لیے اگر کوئی زمانے کو گالی دیتا ہے تو وہ اللہ تعالی کو گالی دے رہا ہے، اسی لیے تو اللہ تعالی نے حدیث قدسی میں فرمایا : 

( مجھے ابن آدم تکلیف دیتا ہے، کہ وہ الدھر کو گالی دیتا ہے اور میں الدھر ہوں، یعنی زمانے کے سارے معاملات میرے ہاتھ میں ہیں میں ہی دن اور رات لاتا اور لے جاتا ہوں ۔ ) 

دوسرا مفہوم :  
انسان یہ جملے محض خبر دینے کے لیے کہے، تو پھر اس صورت میں یہ جملے بولنے میں کوئی حرج نہیں ہے. 

قران کریم میں سیدنا لوط علیہ السلام کا قول اللہ تعالی نے نقل فرمایا کہ : 

وَقَالَ هَذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ 

ترجمہ :  
اور لوط نے کہا کہ : یہ دن بہت شدید ہے ۔ [ھود : 77] 

یعنی سخت دن ہے، اب یہ جملہ تقریباً سب لوگ ہی بولتے ہیں کہ یہ دن سخت ہے، فلاں دن میں ایسے ایسے معاملات ہوئے تھے ۔ تو اس مفہوم میں یہ جملے کہے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔  

جبکہ یہ کہنا کہ : " زمانہ غدار ہے " تو یہ زمانے کو گالی دینے کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ غداری مذموم صفت ہے، کسی کو اس صفت سے موصوف کرنا جائز نہیں ہے ۔ 

اور تیسرا جملہ کہ :  
" وہ گھڑی بڑی منحوس تھی جس میں میں نے تمہیں دیکھا " اگر اس سے مراد یہ لے کہ اس وقت میں میں  منحوس تھا، تو اس میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ یہ زمانے کو گالی نہیں ہے، لیکن اگر اس سے مراد زمانہ لے، یا دن لے تو پھر یہ زمانے کو گالی ہو گی جو کہ جائز نہیں ہے ۔ " ختم شد
 " مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین " ( 1 / 198 ) 

واللہ اعلم 

محمد صالح المنجد 
اسلام سوال و جواب 

~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر 5 
____________

انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں 

مضمون نگار 
ساجد تاج 


انسان کے ساتھ جب بھی کچھ بُرا ہوتا ہے تو وہ اُس کا الزام زمانے کو دینے لگتا ہے کہ زمانہ ہی خراب ہے ۔ اسی طرح جب بُرے حالات کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ آج کا زمانہ کتنا بُرا ہے پچھلا زمانہ ایسا نہ تھا یا پچھلا زمانہ بُرا نہ تھا ۔ 

حقیقت بات یہ ہے کہ انسان کو آج تک زمانے کا مطلب سمجھ میں‌ ہی نہیں‌ آیا ہے کہ زمانہ ہے کیا اور زمانہ کہتے کس کو ہیں ۔ بس ایک عادت بن چکی ہے کہ کچھ بھی غلط ہو جائے تو بِنا سوچے سمجھے الزام زمانے کو دے دو ۔ ہمیں‌ تو سب سے پہلے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ زمانہ ہے کیا؟ 

زمانہ کوئی اچھے بُرے لوگوں کا گروپ نہیں جو آج کچھ ہے تو کل کچھ اور ہوگا ۔ زمانہ انسان سے نہیں‌ ہے بلکہ انسان زمانے سے ہے ۔ انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان خراب ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان ظالم ہوتا ہے زمانہ نہیں، بے وفائی اور دھوکہ انسان کرتا ہے زمانہ نہیں ۔ 

زمانہ تو اللہ تعالی سے ہے، یہ سورج، چاند و ستارے، زمین و آسمان، درخت، پہاڑ، ہوا، پانی، سمندر، دریا، دن و رات وغیرہ یہ سب زمانے کا حصہ ہیں ۔ 

زمانہ انسان کے کہنے پر نہیں چلتا بلکہ یہ تو اللہ تعالی کے تابع ہیں جو اُس کے حکم سے اپنے اپنے کام سر انجام دے رہیں ہیں ۔ 

زمانہ انسان کا محتاج نہیں بلکہ انسان زمانے کا محتاج ہے ۔ 

زمانے کو بُرا کہنے کا مطلب نعوذ باللہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ اللہ تعالی کو بُرا کہنے کے برابر ہے ۔ جو اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے ۔ 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : 

قال النبی صلی اللہ علیه و سلم قال اللہ تعالی : 

یوذینی ابن آدم، یسب الدھر بیدی الامر اقلب اللیل والنھار ۔ 

ترجمہ : 
“ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ 

ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانے کو بُرا بھلا کہتا ہے ۔ حالانکہ میں ہی زمانہ کا پیدا کرنے والا ہوں ۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، میں جس طرح چاہتا ہوں رات اور دن کو پھیرتا رہتا ہوں ۔ “

 ( صحیح بخاری ( مترجم )، جلد 8، صفحہ 596، کتاب التوحید جلد نمبر 6، کتاب التفسیر، باب وما یھلکنا الا الدھر ۔ صفحہ نمبر 386 ) 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیھ و سلم نے فرمایا : 

یقول اللہ استقرضت عبدی فلم یقرضنی وشتمنی عبدی وھو لایدری مایقول وادھراہ وادھراہ وانالدھر 

ترجمہ : 
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں‌ نے اپنے بندے سے قرض مانگا اس نے مجھے قرض نہ دیا اور میرے بندے نے لاعلمی میں مجھے گالی دی، وہ کہتا ہے ہائے زمانہ ہائے زمانہ ۔ حالانکہ زمانہ درحقیقت میں ہوں ۔ 

 ( مستدرک الحاکم کتاب الزکاتہ، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 418، صحیح الترغیب و الترھیب، کتاب الادب، باب الترھیب من السباب، جلد نمبر 3، صفھہ نمبر 66، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ، جلد نمبر 7، جز نمبر 3، صفحہ نمبر 1395، حدیث نمبر 3477، ) 

ہم زمانے کو جھوٹا، مکار، دھوکہ دینے والا، فریبی، بُرا، خراب، ذلیل کہتے رہتے ہیں لیکن درحقیقت ان تمام چیزوں کی جڑ واحد انسان ہی ہے ۔ جو جھوٹ بھی بولتا ہے، دھوکا بھی دیتا ہے، ظلم بھی کرتا ہے، بے وفائی بھی کرتا ہے، خرابیاں بھی پیدا کرتا ہے، جبکہ اللہ تعالی نہ جھوٹ بولتا ہے، نہ وعدہ خلافی کرتا ہے، نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ہی بے وفائی کرتا ہے ۔ 

زمین میں فساد کون کرتا ہے؟ “ انسان “

قتل و غارت کون کرتا ہے؟ “ انسان “

جھوٹ کون بولتا ہے؟ “ انسان “

ظلم کون کرتا ہے؟ “ انسان “

چوریاں کون کرتا ہے؟ “ انسان “

غیبت کون کرتا ہے؟ “ انسان “

زانی کون ہے؟ “ انسان “

بے وفائی کون کرتا ہے؟ “ انسان “

شراب کون پیتا ہے؟ “ انسان “

ناپ تول میں کمی کون کرتا ہے؟ “ انسان “

جب یہ سارے کام انسان کرتا ہے تو زمانہ کیسے بُرا ہو گیا؟ زمانہ کیسے خراب ہو گیا؟ زمانہ کیسے جھوٹا ہو گیا؟ زمانہ کیسے ظالم ہو گیا؟ انسان اپنے لیے بُرے حالات خود پیدا کرتا اور الزام زمانے کو دے دیتا ہے ۔ کیونکہ جب انسان سے کچھ نہیں ہوتا یا وہ بے بس ہو جاتا ہے تو الزام تراشی دوسروں پر کرنے لگتا ہے ۔ انسان جب پریشان یا بیمار ہوتا ہے تو یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ وقت بُرا آ گیا ہے اب وہ زمانہ نہیں رہا بُرا زمانہ آ گیا ہے تو یہ سراسر اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے ۔ 

لوگوں کے بُرے حالات، پریشانیاں یا بیماریوں کی وجہ زمانہ نہیں بلکہ انسان خود ہے ۔ 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : 

لاتسبوا الدھر قال اللہ عزوجل انا لدھر، الایام واللیالی ( 1 ) جددھا وابلیھا، وآتی بملوک بعد ملوک ( 2 ) 

ترجمہ : 
زمانے کو گالی مت دو، اللہ عزوجل فرماتے ہیں : 
زمانہ میں ہوں، دن اور رات کو نیا اور پرانا میں کرتا ہوں اور ایک بادشاہ کے بعد دوسرے بادشاہ کو بادشاہی دیتا ہوں ۔ 

1 ۔ کتاب الدعر، اللطبرانی صفحہ نمبر 568، مجمع الزوائد 8 / 71 

2 ۔ صحیح الترغیب و الترھیب جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 66، کتاب الادب، باب الترھیب من السیاب

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

عن النبی صلی اللہ علیه و سلم قال لا تسموا العنب الکرم، ولا تقولوا : خیبتھ الدھر فان اللہ ھو الدھر . 

ترجمہ : 
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا “انگور“ عنب کو “کرم“ نہ کہو اور یہ نہ کہو کہ ہائے زمانہ کی نامرادی، کیونکہ زمانہ تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔ 

صحیح بخاری ( مترجم ) جلد، 7، صفحہ 536، کتاب الادب، باب لاتسبوا الدھر 



بات ہے سمجھنے کی پر سمجھے کون؟ 

زمانے کو بُرا کہنے والے ذرا اپنا گریبان جھانک کر تو دیکھ 

اللہ سے گلہ کرتا ہے اپنی غلطیوں پہ نظر ڈال کر تو دیکھ 

کہتا ہے کہ زمانے کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے ساجد 

سچے دل سے اپنی اس بات کو مان کر تو دیکھ 



سمجھےجو اگر انسان تو بات ہے سیدھی سی 

یہ دنیا ہے فانی یہ دنیا ہے عام سی 

کھو رہے ہیں ہم جہالت کی اندھیر نگری میں ساجد 

سوچتا ہوں کہ رکھتے ہیں خواہشیں ہم کتنی عجیب سی
تحریر : ساجد تاج 

~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر 6 
____________

زمانے کو برا کہنے کی صورتیں 
زمانے کو برا بھلا کہنے کی تین صورتیں ہیں : 

 ( ۱ ) ؛ 
بطورِ خبر زمانے کا شدت و حدت اور مشکل کا تذکرہ کیا جائے، اس سے مراد ملامت یا اعتراض نہ ہو ۔ جیسے کوئی کہے آج کی سخت گرمی یا سردی نے تو مجھے تھکا مارا ہے ۔ یہ جائز ہے، کیونکہ اعمال کا دار و مدار نیّت پر ہے، اس کی نیت ملامت نہیں، بلکہ موسم کی شدت کی خبر دینا ہے ۔ 

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا لوط کے حوالے سے فرمایا ہے : 

﴿وَلَمَّا جَاءَتْ رُ‌سُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْ‌عًا وَقَالَ هَ ـ ٰذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ ٧٧ ﴾ ۔ ۔ ۔ 
سورة هود 

کہ جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وه ان کی وجہ سے بہت غمگین ہو گئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے ( 77 ) 

مصیبت و آزمائش آنے پر زمانے کو اس نیت کے ساتھ برا بھلا کہا جائے کہ جیسے زمانہ ہی اس کا باعث ہے، تو یہ *شرکِ اکبر* ہے ۔ کیونکہ یہ شخص اس کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی اور کو بھی مدبّر اور تصرف کرنے والا سمجھ رہا ہے ۔ 

 ( ۲ ) ؛ 
اگر وہ آزمائش و مصیبت کی وجہ سے زمانے کو برا کہتا ہے، لیکن اس کا اعتقاد یہ ہے کہ یہ نعمتیں اور آزمائشیں اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، تو یہ فعل منافی صبر ہونے کی وجہ سے حرام اور ناجائز تو ہے لیکن کفر نہیں، کیونکہ اس نے براہِ راست اللہ تعالیٰ کو برا نہیں کہا ۔ 

تفصیل کیلئے دیکھئے : 
موقع الإسلام سؤال وجواب - ما معنى لا تسبوا الدهر فإن الله هو الدهر 
http://www.islamqa.com/ar/ref/9571 

 ( ۳ ) ؛ 
اسی طرح کسی شخص یا قوم کے برے اعمال کے نتیجے میں کسی مخصوص دن ان پر آنے والے عذاب پر اس دن کو بطورِ خبر اس مخصوص قوم کیلئے برا یا منحوس کہا جا سکتا ہے ۔ 
یہ بھی درج بالا تین صورتوں میں سے پہلی صورت ہوگی ۔ گویا اس میں مطلقاً اس دن کو منحوس نہیں کہا جاتا بلکہ مخصوص قوم کیلئے اس مخصوص دن کو منحوس کہا گیا ہے، جیسے فرمانِ باری ہے : 

﴿ فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّ اللَّ ـ هَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ ١٥ فَأَرْ‌سَلْنَا عَلَيْهِمْ رِ‌يحًا صَرْ‌صَرً‌ا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَ‌ةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنصَرُ‌ونَ ١٦ ﴾ ۔ ۔ ۔ 
سورة فصّلت 

اب عاد نے تو بے وجہ زمین میں سرکشی شروع کر دی اور کہنے لگے کہ ہم سے زور آور کون ہے؟ کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وه ان سے ( بہت ہی ) زیاده زور آور ہے، وه ( آخر تک ) ہماری آیتوں کا انکار ہی کرتے رہے ( 15 ) بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز و تند آندھی منحوس دنوں میں بھیج دی کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کامزه چکھا دیں، اور ( یقین مانو ) کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیاده رسوائی والا ہے اور وه مدد نہیں کیے جائیں گے ( 16 ) 

نیز فرمایا : 
﴿ كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ‌ ١٨ إِنَّا أَرْ‌سَلْنَا عَلَيْهِمْ رِ‌يحًا صَرْ‌صَرً‌ا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ‌ ١٩ ﴾ ۔ ۔ ۔ 
سورة القمر 

قوم عاد نے بھی جھٹلایا پس کیسا ہوا میرا عذاب اور میری ڈرانے والی باتیں ( 18 ) ہم نے ان پر تیز و تند مسلسل چلنے والی ہوا، ایک پیہم منحوس دن میں بھیج دی ( 19 ) 

اب یہی ایام ( آٹھ دن اور سات راتیں ) جو قومِ عاد کیلئے تو منحوس ثابت ہوئے، سیدنا ہود اور ان پر ایمان والوں کیلئے خوش بختی اور سعادت کے ایام ثابت ہوئے ۔ 

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
کوئی شک نہیں کہ جن ایام میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسولوں کے دشمنوں پر عذاب بھیجے وہ ایام ان کیلئے منحوس تھے، کیونکہ انہیں ایام میں ان پر نحوست ( عذاب کی صورت ) پہنچی تھی ۔ اگرچہ یہ دن اللہ کے ولیوں کیلئے خوشگوار تھے ۔ تو یہ ایام مکذبین کیلئے منحوس تھے، مؤمنین کیلئے خوش بختی کے تھے ۔ یہی معاملہ قیامت کا ہے کہ یہ کافروں کیلئے تو مشکل اور منحوس ثابت ہوگا جبکہ مؤمنوں کیلئے آسان اور سعادت والا ہوگا ۔ امام مجاہد نے أيام نحسات سے مراد منحوس دن لیے ہیں ۔ تو دنوں کی خوش بختی اور نحوست کا تعلّق، خوش بخت اعمال اور منحوس اعمال سے ہے، اللہ کو راضی کرنے والے اور ناراض کرنے والے اعمال سے ہے ۔ ایک ہی دن ایک قوم کیلئے سعاوت والا اور دوسری قوم کیلئے منحوس ہو سکتا ہے، جیسے یوم بدر مؤمنوں کیلئے سعاوت والا اور کافروں کیلئے منحوس تھا ۔ 
مفتاح دار السعادة 2 / 194 . 

تفصیل کیلئے دیکھئے : 
موقع الإسلام سؤال وجواب - هل الدعاء ب ـ " اللهم أرنا فيهم يومًا أسوداً " من سب الدهر؟ 
http://www.islamqa.com/ar/ref/143212/%D9%86%D8%AD%D8%B3%D8%A7%D8%AA 

واللہ تعالیٰ اعلم! 

تحریر : انس نضر 

~~~~~~~~~~~~~؛

کیا اللہ کو کوئی ایذا دینے پر قادر ہے؟ 

 اللہ کو ایذا دینے کا مطلب ان کے افعال کا ارتکاب ہے جو وہ ناپسند فرماتا ہے ورنہ اللہ پر ایذا پہنچانے پر کون قادر ہے؟ جیسے مشرکین، یہود اور نصاریٰ وغیرہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں ۔ یا جس طرح حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ' ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں اس کے رات دن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے ( صحیح بخاری ) یعنی یہ کہنا کہ زمانے نے یا فلک کج رفتار نے ایسا کر دیا یہ صحیح نہیں اس لیے کہ افعال اللہ کے ہیں زمانے یا فلک کے نہیں . 

تفسیر احسن البیان 
مفسر حافظ صلاح الدین یوسف، 
سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 57 

~~~~~~~~~~~~~؛

ختم شد 

 .