منگل، 31 اکتوبر، 2023

گنبد صخرہ و مسجد اقصی المنجد

.

مسجد اقصی اور گنبد صخرۃ 

؛~~~~~~~~~~~~~~~؛ 


سوال 
کچھ دیر قبل مجھے ایک ای میل لیٹر ملا جس میں مسجد اقصی کی حالت اور مسجد اقصی اور قبہ صخرہ کے درمیان فرق کیا گيا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس کی وضاحت کریں کہ مسجد اقصی اور قبہ صخرہ کے درمیان فرق ہے ؟ 

ہم سب اسلامی جگہ پریہ کیوں دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ پر ہی یہ قبہ مسجد اقصی کی نشاندہی کرتا ہے ، میں اور بہت سارے مسلمان اس فرق کو جانتے تک نہیں ہیں ؟



جواب 

الحمد للہ.

مسجد اقصی قبلہ اول اور ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف سفر کر کے جانا جائز ہے ، کہا جاتا ہےکہ اسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ۔

جیسا کہ سنن نسائی ( 693 ) میں حدیث موجود ہے اور اسے علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح نسائی میں صحیح کہا ہے 

اور ایک قول یہ ہے کہ پہلے سے موجود تھی تو سلیمان علیہ السلام نے اس کی تجدید کی تھی 

اس کی دلیل صحیحین میں ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ 

زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئ ؟

تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 
مسجد حرام ( بیت اللہ ) 
تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟ 
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : 
مسجد اقصی ، تو میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟ 
تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ چالیس سال ، پھر جہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجاۓ نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ۔ 
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3366 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 520 ) ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کے ایک حصہ میں بیت المقدس کی سیر کرائی گئی اور اس مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسرے انبیاء علیہم السلام کو نماز پڑھائی ۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے معراج کا واقعہ ذکر کرتے ہوۓ فرمایا ہے : 

پاک ہے وہ اللہ تعالی، اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گيا، جس کے آس پا‎س ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے . 
 الاسراء ( 1 ) ۔ 



اور قبہ صخرہ تو خلیفہ عبدالملک بن مروان نے ( 72 ھ ) میں بنوایا تھا ۔

فلسطینی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ : 

مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدس پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبہ صخری جسے عبد الملک بن مروان نے 72 ھجری الموافق 691 میں بنوایا تھا جو کہ اسلامی آثار میں شامل ہوتا ہے ، اور آج یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد پر بولا جاتا ہے ۔ 
دیکھیں : الموسوعۃ الفلسطینیۃ ( 4 / 203 ) ۔

اور اسی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ :

مسجد اقصی کے صحن کے وسط اور قدس شہر کے جنوب مشرقی جانب یہ قبہ بنایا گیا ہے جو کہ ایک وسیع و عریض اور مستطیل شکل کا صحن جس کی مساحت شمال سے جنوب کی جانب تقریبا 480 میٹر اور مشرق سے مغرب 300 میٹر بنتی ہے ، اور یہ پرانے القدس شہر سے تقریبا پانچ گناہ زیادہ ہے ۔ ا ھـ یہ عبارت کچھ کمی بیشی کے ساتھ پیش کی گئی ہے . 
دیکھیں الموسوعۃ الفلسطینیۃ ( 3 / 23 ) ۔

تو وہ مسجد جو کہ نماز کی جگہ ہے وہ قبہ صخری نہیں ، لیکن آج کل قبہ کی تصاویر منتشر ہونے کی بنا پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصی خیال کرتے ہيں ، حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں ، مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں واقع ہے اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچي جگہ پر ۔

اور یہ بات تو اوپر بیان کی جا چکی ہے کہ زمانہ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پر ہوتا تھا ۔

اس کی تائيد شیخ الاسلام ابن تیمۃ رحمہ اللہ تعالی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ : 

مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں ، اس جگہ میں جسے عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔ 

اس لئے کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تو اس وقت اونچی جگہ ( قبہ صخرہ ) پر زیادہ گندگي تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ یہودی اس طرف نماز پڑھتے تھے تو اس کے مقابلہ میں عیسائی اس جگہ کی توہین کرتے ، تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس گندگی کو صاف کرنے کا حکم صادر فرمایا ، اور کعب رضي اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے : 

تیرے خیال میں ہم مسلمانوں کے لئے مسجد کہاں بنانی چاہیے ؟ ، تو کعب رضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ 
اس اونچی جگہ کے پیچھے ، 
تو عمر رضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے ، 
او یہودی ماں کے بیٹے ! تجھ میں یہودیت کی ملاوٹ ہے ، بلکہ میں تو اس کے آگے بناؤں گا اس لیے کہ ہماری مساجد آگے ہوتی ہیں ۔ 
دیکھیں : الرسائل الکبری لشیخ الاسلام ( 2 / 61 ) ۔

تو یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام جب بھی مسجد اقصی بیت المقدس میں داخل ہو کر نماز پڑھتے تو اسی جگہ پر پڑھتے تھے جسے عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا ، اور اس اونچی جگہ ( گنبد والی ) کے پاس نہ تو عمر اور نہ ہی کسی اور صحابی رضی اللہ تعالی عنہم میں سے کسی نے نماز پڑھی تھی اور نہ ہی خلفاء راشدہ کے دور میں اس پر قبہ ( گبند ) ہی بنا ہوا تھا بلکہ یہ جگہ عمر اور عثمان ، علی ، اور معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور یزید اور مروان کے دور حکومت میں یہ بالکل کھلی تھی ۔ 

اور نہ ہی صحابہ کرام اور تابعین عظام میں کسی نے اس قبہ کی تعظيم کی اس لیے کہ یہ قبلہ منسوخ ہو چکا ہے ، اس کی تعظیم تو صرف یہودی اور عیسائی کرتے ہیں 

اس کا معنی یہ نہیں کہ ہم مسلمان اس کی تعظیم نہیں کرتے بلکہ ہم اسے وہ تعظیم دیتے ہيں جو ہمارے دین میں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے جس طرح کہ ہر مسجد کو تعظیم دی ہے ۔ 

اور عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے جو کعب رضي اللہ تعالی عنہ کی بات کا انکار کیا اور انہیں اے یہودی ماں کے بیٹے کہا تو یہ اس لیے تھا کہ کعب رضي اللہ تعالی عنہ اسلام سے قبل یہودی علماء میں سے تھے جب انہوں نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس اونچی جگہ کے پیچھے مسجد بنانے کا مشورہ دیا تو اس میں اس چٹان کی تعظيم ہوتی کہ مسلمان نماز میں اس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں ، اور اس چٹان کی تعظیم تو یہودیوں کے دین میں ہے نہ کہ مسلمانوں کے دین اسلام میں ۔ 

مسلمانوں کا قبے کو ہی مسجد اقصی سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تصویروں میں اسے اچھی عمارت و ہئیت میں دیکھا ہے ، تو یہ اس غلطی کو ختم نہیں کر سکتا جو کہ مسجد اقصی اور قبہ کی تميز ميں پیدا ہو چکی ہے ۔ 

اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ یہودی سا‍‌زش کا نتیجہ ہو تاکہ ان کے اس قبہ کی تعظیم کی جانی لگے اور وہ اس کی جانب ہی متوجہ ہو جائيں ، یا پھر یہ کہ اس قبے کا اظہار اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ مسجد اقصی کو ختم کر کے ہیکل سلیمانی قائم ہو سکے ۔ 

اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ مسلمان یہ گمان کرنے لگیں کہ یہ قبہ ضخرہ ہی مسجد اقصی ہیں ، اور اگر یہودی اصلی مسجد اقصی کو منہدم کرنے لگيں تو مسلمانوں کے شور و غوغا کرنے پر انہیں یہ کہا جا سکے کہ یہ دیکھیں مسجد اقصی تو اپنی حالت پر قائم ہے اور اس کی دلیل میں وہ تصویریں پیش کریں تو اس طرح وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائيں گے اور مسلمانوں کے غیظ و غضب اور تنقید سے بھی بچ جائيں گے ۔ 

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ مسلمانوں کی عزت و بلندی کو واپس لاۓ ، خنزیروں اور بندروں کے بھائیوں سے مسجد اقصی کو پاک صاف کر دے ، اللہ تعالی اپنے امر پر غالب ہے لیکن یہ بات اکثر لوگوں کے علم میں نہیں ۔

واللہ تعالی اعلم .

محمد صالح المنجد 
الاسلام سوال و جواب 

.