پیر، 31 اگست، 2020

یزید نام کے ۱۰۰ سے زائد مسلمان ‏

.

•❀• ▁▁▂▃★━╯ ﷽ ╰━★▃▂▁▁ •❀•

یزید نام کے ۱۰۰ سے زائد مسلمان 

یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ اگر یزید مسلمان تھا اور سچا تھا اور صحیح تھا تو پھر مسلمان اپنے بچوں کا نام یزید  کیوں نہیں رکھتے

ان کے لیے پیش خدمت ہے 

١٠٠ سے زائد یزید نام کے افراد 

درج ذیل نام تابعین ،تبع تابعین اور علمائے دین کے ہیں۔اور ان میں سے تقریبا سارے ہی یزید بن معاویہ (رح)کے بعد کے ہیں۔اور یہ افراد کتب حدیث کے رواۃ ہیں۔نیز ان ناموں میں سے ان کا اخراج کر دیا گیا ہے جو مجہول تھے۔ ان ناموں کی فہرست کم از کم یہ ضرور ثابت کرتی ہے کہ یزید رحمہ اللہ کے بارے اس دور میں اتنی نفرت نہیں تھی جتنی کہ آج ہے۔یہ سازش اور نفرت عباسی دور بالخصوص معزالدولہ اور اس جیسے کٹر شیعہ حکمرانوں کی وجہ سے رائج ہوئی جنہوں نے صحابہ کے نام سے مسجدوں میں لعنت لکھوائی(معاذ اللہ)۔نیز یہ افراد صرف شام میں ہی نہیں بلکہ کوفہ، مصر، مکہ اور مدینہ کے رہائشی تھے۔ فہرست ملاخطہ ہوں۔
1. يزيد بن أبى حبيب(متوفي:128)(مصر كے عالم)
2. يزيد بن أبى حكيم الكنانى(متوفي:220)
3. يزيد بن أبى زياد القرشى الهاشمى(وكان شيعه)(متوفي:136)
4. يزيد بن أبى سعيد المدنى
5. يزيد بن أبى سعيد النحوى(متوفي:131)
6. يزيد بن أبى سليمان الكوفى
7. يزيد بن أبى سمية
8. يزيد بن أبى عبيد(متوفي:140)
9. يزيد بن أبى كبشة
10. يزيد بن أبى مريم بن أبى عطاء(متوفي:140)
11. يزيد بن أبى منصور الأزدى
12. يزيد بن أبى يزيد(متوفي:130بصره)
13. يزيد بن إبراهيم التسترى(متوفي:163)
14. يزيد بن الأصم العامرى البكائى(متوفي:103)
15. يزيد بن أوس الكوفى
16. يزيد بن أيهم الشامى
17. يزيد بن بابنوس
18. يزيد بن البراء بن عازب كوفي
19. يزيد بن جارية الأنصارى المدنى
20. يزيد بن حازم بن زيد(متوفي:148)
21. يزيد بن حميد الضبعى(متوفي:128ھ)
22. يزيد بن الحوتكية التميمى ، الكوفى
23. يزيد بن حيان التيمى
24. يزيد بن حيان النبطى
25. يزيد بن خالد بن يزيد
26. يزيد بن خمير بن يزيد
27. يزيد بن خمير اليزنى الشامى
28. يزيد بن رباح القرشى السهمى
29. يزيد بن رومان الأسدى
30. يزيد بن زريع العيشى
31. يزيد بن زياد بن أبى الجعد
32. يزيد بن زياد
33. يزيد بن أبى زياد القرشى الهاشمى
34. يزيد بن أبى سعيد المدنى
35. يزيد بن أبى سعيد النحوى
36. يزيد بن أبى سليمان الكوفى
37. يزيد بن السمط الصنعانى
38. يزيد بن سنان بن يزيد
39. يزيد بن سنان بن يزيد التميمى الجزرى
40. يزيد بن شريح الحضرمى
41. يزيد بن شريك بن طارق التيمى
42. يزيد بن صالح
43. يزيد بن صبح الأصبحى ، المصرى
44. يزيد بن صهيب الفقير
45. يزيد بن طهمان الرقاشى
46. يزيد بن عبد الله بن أسامة
47. يزيد بن عبد الله بن خصيفة
48. يزيد بن عبد الله بن رزيق القرشى
49. يزيد بن عبد الله بن الشخير العامرى
50. يزيد بن عبد الله بن قسيط
51. يزيد بن عبد الله بن يزيد
52. يزيد بن عبد الله الشيبانى
53. يزيد بن عبد الله المكى
54. يزيد بن عبد ربه الزبيدى
55. يزيد بن عبد الرحمن بن الأسود
56. يزيد بن عبد الرحمن بن على
57. يزيد بن عبد الرحمن بن أبى مالك
58. يزيد بن عبد العزيز بن سياه
59. يزيد بن عبد العزيز الرعينى
60. يزيد بن عبد الملك بن المغيرة بن نوفل
61. يزيد بن عبد ، المزنى ، الحجازى
62. يزيد بن عبيد ، أبو وجزة السعدى ، المدنى
63. يزيد بن أبى عبيد ، أبو خالد الأسلمى
64. يزيد بن عبيدة بن أبى المهاجر السكونى ، الشامى الدمشقى
65. يزيد بن عطاء بن يزيد اليشكرى
66. يزيد بن عطاء السكسكى
67. يزيد بن عمرو المعافرى ، المصرى
68. يزيد بن عميرة الزبيدى
69. يزيد بن عوف الشامى
70. يزيد بن عياض بن جعدبة
71. يزيد بن فراس الحجازى
72. يزيد بن قبيس بن سليمان السيلحى
73. يزيد بن قطيب ، السكونى الحمصى
74. يزيد بن كعب العوذى ، البصرى
75. يزيد بن كيسان اليشكرى
76. يزيد بن كيسان ، أبو حفص الخلقانى
77. يزيد بن محمد بن خثيم المحاربى
78. يزيد بن محمد بن عبد الصمد
79. يزيد بن محمد بن فضيل
80. يزيد بن محمد بن قيس بن مخرمة
81. يزيد بن مرثد ، أبو عثمان الهمدانى
82. يزيد بن مردانبة القرشى الكوفى التاجر
83. يزيد بن أبى مريم بن أبى عطاء
84. يزيد بن معاوية النخعى
85. يزيد بن معاوية الكوفى ، أبو شيبة
86. يزيد بن مغلس بن عبد الله
87. يزيد بن المقدام بن شريح
88. يزيد بن مقسم الثقفى
89. يزيد بن أبى منصور الأزدى
90. يزيد بن مهران الأسدى
91. يزيد بن نعامة الضبى ، أبو مودود البصرى
92. يزيد بن نعيم بن هزال الأسلمى ، الحجازى
93. يزيد بن نمران بن يزيد بن عبد الله
94. يزيد بن هارون بن زاذى
95. يزيد بن هرمز المدنى
96. يزيد بن يزيد بن جابر
97. يزيد بن يزيد بن جابر الرقى
98. يزيد بن أبى يزيد الضبعى
99. يزيد بن يوسف الرحبى
100. يزيد الفارسى البصرى
101. يزيد ، أبو مرة الحجازى المدنى
102. يزيد مولى المنبعث ، المدنى
103. يزيد ذو مصر ، المقرائى الشامى
(حوالہ:تہذیب التہذیب،تقریب التہذیب)

.

عاشُوراء کا روزہ کب رکهیں؟ ‏فاروق ‏عبد ‏اللہ ‏ناراین ‏پوری

.

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ
  ❀ •┈┈• ❀ •┈┈• ❀ •┈┈• ❀

❞ عاشُوراء کا روزہ کب رکهیں؟ ❝

(فارُوق عَبدُاللّٰه بِن مُحَمَّد اَشرَفُ الْحَقّ نَراین پُوری)


احادیثِ مبارکہ میں عاشورہ کے روزے کی  بڑی فضیلت اور تاکیدآئی  ہوئی ہے۔ یہ روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔  آپ صلی اللہ علیہ  وسلم کا ارشاد  ہے:  صيام يوم عاشوراء، أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله۔ (صحيح مسلم  1162)۔ 
بالاجماع اس دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔علامہ ابن عبد البر، قاضی عیاض، امام  نووی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے یہ اجماع نقل کیا ہے۔ (دیکھیں:  التمهيد (7/203) ، اكمال المعلم (4/78)،   المنهاج (4/8/245) و فتح الباري (5/437)۔ 
اس  لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس دن کے روزے کا خصوصی اہتمام کرے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے چھوٹے بچوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھواتے تھے۔  جب و ہ بھوک وپیاس  سے روتے تو انہیں کھلونوں  سے بہلاتے پھسلاتے یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا۔  (متفق علیہ: صحیح بخاری 1960، صحیح مسلم  1136)۔ 
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں ماہ محرم کی  کن تاریخوں میں یہ روزہ رکھنا ہے۔ اس بارے میں علمائے کرام کے درج ذیل اقوال پائے جاتے  ہیں: 
1 –  صرف نویں تاریخ کو یہ روزہ رکھا جائے۔ 
2 - صرف دسویں تاریخ کو یہ روزہ رکھا جائے۔ 
3 - نویں  اور دسویں تاریخ کو یہ روزہ رکھا جائے ۔
4 - نویں  اور دسویں یا دسویں ا ورگیارہویں تاریخ کو یہ روزہ رکھا جائے۔ 
5 -  نویں،  دسویں اور گیارہویں تاریخ کو یہ روزہ رکھا جائے۔  علامہ ابن القیم رحمہ اللہ وغیرہ نے اس قول کو سب سے اکمل کہا ہے۔(دیکھیں: زاد المعاد 2/72)۔

 ان اقوال کی تفصیلات مع  دلائل اور مناقشے کے    حاضر ہے: 
 
پہلا قول عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔  اس کی دلیل  کے طور پر درج ذیل روایت  پیش کی جاتی ہے : 
عن الحكم بن الأعرج، قال: انتهيت إلى ابن عباس رضي الله عنهما، وهو متوسد رداءه في زمزم، فقلت له: أخبرني عن صوم عاشوراء، فقال: «إذا رأيت هلال المحرم فاعدد، وأصبح يوم التاسع صائما»، قلت: هكذا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه قال: «نعم»۔  (صحيح مسلم 1133)۔ 
(حکم بن اعرج فرماتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ، وہ زمزم کے پاس اپنی چادر سے ٹیک لگائے  ہوئے (آرام فرما رہے ) تھے۔  میں نے ان سے کہا : مجھے عاشورہ کے روزے کے متعلق بتائیں۔ تو انہوں نے فرمایا: جب تم محرم کا چاند دیکھ لو تو گنتی کرنا شروع کرو اور نویں تاریخ  کی صبح روزے  کی حالت میں کرو۔ میں نے کہا : کیا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایسے ہی روزہ رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔) 
اس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ جب ابن عباس رضی اللہ عنہ  کو عاشورہ کے  روزے کے متعلق سوال کیا گیا  تو  انہوں نے صرف نویں تاریخ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ 
حالانکہ یہ استدلال صحیح نہیں،  اور ان کی طرف اس قول کی نسبت بھی صحیح نہیں ہے۔ 
امام بیہقی رحمہ اللہ ان کے مذکورہ قول کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"وكأنه رضي الله عنه أراد صومه مع العاشر وأراد بقوله في الجواب نعم ما روي من عزمه صلى الله عليه وسلم على صومه والذي يبين هذا ما أخبرنا أبو محمد عبد الله بن يحيى بن عبد الجبار ببغداد, أنبأ إسماعيل بن محمد الصفار، ثنا أحمد بن منصور، ثنا عبد الرزاق، أنبأ ابن جريج، أخبرني عطاء، أنه سمع ابن عباس يقول: "صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود". (السنن الکبری 4/475)۔ 
(  شاید ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد دسویں کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ رکھنا تھا، اور سائل کے جواب میں انہوں نے جو  "نعم " کہا  ہے اس سے دسویں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نویں کے بھی روزہ رکھنے کا جو  عزم کیا تھا اسے بیان  کرنا چاہا ہے۔ اس کی دلیل خود ان کا ہی قول ہے: "صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود" (نویں اور دسویں کو روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو)۔  
جہاں تک صرف نویں تاریخ کو عاشورہ کا روزہ رکھنے کی بات ہے تو یہ صحیح نہیں ہے۔  کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے" عاشورہ "کا  روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے، اور شرعی اصطلاح میں عاشورہ محرم کی دسویں تاریخ کو کہتے ہیں ، نویں کو نہیں۔  امام نوووی،  ابن حجر ، عینی، صنعانی اور زرقانی وغیرہ نے اسے جمہور صحابہ وتابعین کا مذہب کہا ہے۔  (دیکھیں:  المنهاج (8/12), فتح الباري (5/435-436), عمدة القاري (11/165-166), سبل السلام (2/461),  شرح الزرقاني على الموطأ (2/104) وغیرہ.
الزین بن المنیر فرماتے ہیں:  هو مقتضى الاشتقاق والتسمية۔  دیکھیں: فتح الباري (5/436) وشرح الزرقاني على الموطأ (2/104)۔ 
بلکہ بعض احادیث  میں دسویں تاریخ کی صراحت موجود ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: 
إن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بصيام يوم عاشوراء يوم العاشر ۔ (مسند البزار 18/153)۔ 
(نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں تاریخ کو عاشورہ  کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔) 
اس کی سند  صحیح ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "اسنادہ صحیح"  کہا ہے۔ (مختصر زوائد البزار 1/406 حدیث نمبر 672)۔ 
 پتہ چلا کہ  دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا یہ اصل ہے۔ پوری زندگی  آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ نے  دسویں تاریخ کا ہی روزہ رکھا ہے۔ جب آپ کے سامنے یہود کی بات کی گئی کہ یہود اس دن کی تعظیم کرتے ہیں  تو آپ نے ان کی مخالفت میں آئندہ سال نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھنے کی خواہش ظاہر کی اور فرمایا: «لئن بقيت إلى قابل لأصومن التاسع» (اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھوں گا)۔   صحيح مسلم (2/798) حدیث نمبر (1134)۔ 
اس کا مطلب قطعی یہ نہیں تھا کہ آئندہ سال سے دسویں کا روزہ نہیں رکھوں گا،  صرف  نویں کا روزہ رکھوں گا۔  اس لئے بعض حضرات کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ دسویں تاریخ کا روزہ منسوخ ہوگیا ہے۔   جو لوگ ایسی بات کرتے ہیں ان کا فہم صحابہ کرام کے متفقہ فہم کے خلاف ہے۔ خود  ابن عباس رضی اللہ عنہ جنہوں نے  "لأصومن التاسع" والی حدیث روایت کی ہے ان سےبسند صحیح مروی ہے:  "خالفوا اليهود وصوموا التاسع والعاشر". (یہود کی مخالفت کرو اور نویں ودسویں تاریخ کو روزہ رکھو۔)  (اس کی تخریج آگے آرہی ہے۔)  
نیز کسی  بھی صحابی  سے نہیں ملا کہ انہوں نے  اسے منسوخ سمجھا ہو اور صرف  نویں تاریخ کا روزہ رکھا ہو۔ 
بلکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی درج ذیل  حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام دسویں تاریخ کے روزے کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے: 
عن حميد بن عبد الرحمن، أنه سمع معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنهما، يوم عاشوراء عام حج على المنبر يقول: يا أهل المدينة أين علماؤكم؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «هذا يوم عاشوراء ولم يكتب الله عليكم صيامه، وأنا صائم، فمن شاء، فليصم ومن شاء، فليفطر»۔صحیح بخاری (2003)۔
(حمید بن عبد الرحمن سے روایت ہے  کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو جس سال انہوں نے حج کیا عاشورہ کے دن  منبر پر کہتے ہوئے سنا: ائے مدینہ  والوکہاں ہیں تمہارے علمائے کرام؟  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی دن یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : یہ عاشورہ کا دن ہے، اس کا روزہ اللہ تعالی نے تمہارے اوپر فرض نہیں کیا ہے ، میں روزے سے ہوں ، جو چاہے روزہ رکھے  اور جو چاہے افطار کرے۔) 
معاویہ رضی اللہ عنہ  نے منبر پر صحابہ کرام کے سامنے دسویں تاریخ کے روزے کے متعلق عاشورہ کے دن ہی انہیں کہا اور کسی نے ان پر نکیر نہیں کی۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام اس دن کے روزے کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے۔ 
اس لئے صرف نویں تاریخ کو روزہ رکھنا اور دسویں کو نہ رکھنا یہ صحیح نہیں ہے۔ 
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  "وأما إفراد التاسع فمن نقص فهم الآثار، وعدم تتبع ألفاظها وطرقها، وهو بعيد من اللغة والشرع"۔  (زاد المعاد في هدي خير العباد  2/72)۔ 
(صرف نویں تاریخ کو روزہ رکھنا  یہ آثار کی کم فہمی اور اس کے الفاظ اور طرق کے عدم تتبع کی دلیل ہے، نیز  لغوی اور شرعی اعتبار سے بھی یہ بعید تر ہے۔ ) 

دوسرا قول: جہاں تک صرف دسویں تاریخ  کو روزہ رکھنے کی بات ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ جائز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور عمل اسی پر رہا ہے۔
بعض اہل علم نے اسے مکروہ کہا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ مکروہ نہیں ہے۔ البتہ افضل یہ ہے کہ نویں اور دسویں دونوں دن کا روزہ رکھا جائے۔ 
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  "وصيام يوم عاشوراء كفارة سنة ولا يكره إفراده بالصوم"۔  (الفتاوى الكبرى لابن تیمیہ 5/ 378)۔ 
(عاشورہ کے دن کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اور صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا مکروہ نہیں۔) 
یہی بات متعدد علماء کرام سے منقول ہے۔ (دیکھیں: مطالب أولي النهى في شرح غاية المنتهى (2/215)، تحفۃ المحتاج (3/455)،  اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء ( 11/401 (۔ 

تیسرا قول:  نویں ودسویں تاریخ کو یہ روزہ رکھا جائے ۔ تمام اقوال کے مابین  یہی عمل سب سے افضل  اور سنت سے قریب تر ہے۔ 
اس  کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں تاریخ کا خود روزہ رکھنے  اور رکھنے کا حکم  دینے کے ساتھ ساتھ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔ 
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:  "حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه, قالوا: "يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى, فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع", قال: "فلم يأت العام المقبل حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم".  (صحيح مسلم 1134). 
(جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  عاشورہ کا روزہ رکھا ، اور اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تو لوگوں نے کہا : ائے اللہ کے رسول یہود ونصاری اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  جب آئندہ سال ہوگا تو ہم نویں کا  (بھی) روزہ رکھیں گے۔  ابن عباس فرماتے ہیں: لیکن آئندہ سال آنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔) 
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  "قال الشافعي وأصحابه وأحمد وإسحاق وآخرون يستحب صوم التاسع والعاشر جميعا لأن النبي صلى الله عليه وسلم صام العاشر ونوى صيام التاسع"۔ شرح النووي على مسلم (8/12)۔ 
(امام شافعی اور ان کے اصحاب، احمد، اسحاق اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ نویں اور دسویں دونوں دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں  تاریخ کا روزہ رکھا اور  نویں تاریخ کا روزہ رکھنے کی آپ نے نیت کی تھی۔) 

جہاں تک چوتھے اور پانچویں قول کی بات ہے تو اس میں نویں و  دسویں کے ساتھ،   یا صرف دسویں کے ساتھ گیاہویں  تاریخ کے بھی روزہ رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔  
اس  کی دلیل کے طور پر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے: 
صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا"۔ 
وفي رواية عند البيهقي: "صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا وَبَعْدَهُ يَوْمًا"۔ 
(تم لوگ عاشورہ کے دن کا روزہ رکھو، اور اس میں  یہود کی مخالفت کرو،  اس سے ایک دن پہلے روزہ رکھو یا اس سے ایک دن بعد۔  اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے:  اس سے ایک دن پہلے روزہ رکھو اور ایک دن بعد۔)
لیکن اس  سے استدلال کرتے ہوئے مذکورہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت ثابت نہیں ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے: 
یہ حدیث  "داود بن علي بن عبد الله بن عباس عن أبيه عن جده عبد الله بن عباس رضي الله عنه" سے تین طریق سے مروی ہے:
پہلا طریق:  امام احمد ، بزار،  ابن خزیمہ،  طحاوی، ابن عدی اور بیہقی وغیرہ نے اسے  "ابن أبي لیلی  عن داود بن علي بن عبد الله بن عباس عن أبيه عن جده عبد الله بن عباس رضي الله عنه" کے طریق سے روایت کی ہے۔  (دیکھیں: مسند احمد (4/52)[2154]، مسند بزار [5238]، صحيح ابن خزيمة (3/290-291) [2095]،  شرح معاني الآثار (2/78) [3303]،  الكامل (3/89)،  السنن الكبرى (4/287)۔ 
ابن ابی لیلی یہ قاضی  محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی  ہیں۔ ائمہ جرح وتعدیل نے ان کے حافظہ پر سخت کلام کیا ہے۔ 
امام شعبہ بن حجاج فرماتے ہیں:  "ما رأيت أحدًا أسوأ حفظًا من ابن أبى ليلى" (میں نے ابن ابی لیلی سے بڑا حافظہ کا گڑبڑ کسی کو نہ پایا۔) (الجرح والتعديل 1/152)۔ 
اسی طرح امام احمد بن حنبل اور ابو حاتم رازی وغیرہ نے بھی ان کے حفظ وضبط پر کلام کیا ہے۔ 
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: "صدوق سیئ الحفظ جدا"۔  (تقریب التہذیب  6121)۔ 
دوسرا طریق: ابن عدی  اسے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حدثنا محمد بن أحمد بن هارون الدقاق، حدثنا عباس بن يزيد البحراني، حدثنا ابن عيينة، عن ابن حي عن داود بن علي بن عبد الله بن عباس، عن أبيه، عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال...الحديث. (الكامل في ضعفاء الرجال 3/ 554)۔
ابن عدی کی اس سند کے مطابق ابن حی نے  داود بن علی سے روایت کرنے میں ابن ابی لیلی کی متابعت کی ہے۔ 
لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ صحیح یہ ہے کہ سفیان بن عیینہ نے بھی دوسرے روات کی طرح اسے  "ابن ابی لیلی عن داود بن علي بن عبد الله بن عباس عن أبيه عن جده عبد الله بن عباس رضي الله عنه" کے طریق سے ہی روایت کی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امام حمیدی نے اپنی مسند (1/434) میں  سفیان بن عیینہ سے اسے روایت کی ہے اور اس میں ابن عیینہ نے ابن حی سے نہیں بلکہ ابن ابی لیلی سے ہی روایت کی ہے۔  اور امام حمیدی کو محدثین کرام أثبت الناس فی ابن عیینہ کہتے ہیں۔ تقریبا  انیس سال تک انہوں نے ان کی ملازمت اختیار کی ہے۔   (دیکھیں: الجرح والتعدیل 5/57، سیر اعلام النبلاء 10/617)۔  
بلکہ ابن عدی  اسے روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "قال العباس: "وغير سفيان يقول: ابن حي عن ابن أبي ليلى يعني عن داود". 
یعنی عباس بن یزید البحرانی فرماتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ نے  اسے "ابن حی عن داود..." کے طریق سے روایت کی ہے ۔ جب کہ سفیان  کے علاوہ دوسرے روات جب روایت کرتے ہیں تو  "ابن حي عن ابن أبي ليلى يعني عن داود"  کے طریق سے روایت کرتے ہیں۔ 
اس صورت میں یہ کوئی نئی سند نہیں ہوگی ، بلکہ پہلے طریق ہی کی طرف لوٹ  جائےگی۔  اور   ابن حی :  ابن ابی لیلی  کے متابع نہیں ہوں گے ۔ 
امام حمیدی کی روایت دیکھنے کے بعد لگتا ہے کہ عباس بن یزید البحرانی سے ہی سفیان کی طرف منسوب کرکے جو انہوں نے بات کہی ہے  اس میں ان سے غلطی ہوئی ہے۔  حافظ ابن حجر نے انہیں  "صدوق یخطئ" کہا ہے۔  (التقریب  3211)۔
لہذا  صحیح یہ ہے کہ یہ کوئی نئی سند نہیں بلکہ ابن  ابی لیلی کی ہی پہلی والی سند ہے۔ 
تیسرا طریق:  ابن عدی الکامل (3/554) میں   اسے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حدثنا ابن سعيد ثنا محمد بن أحمد بن العوام الرياحي حدثنا أبي ثنا الحارث بن النعمان بن سالم عن سفيان بالإسناد المذكور مختصرًا بلفظ : "صوموا عاشوراء". 
 ابن عدی نے اپنے شیخ  کا نام ابن سعید کہا ہے، اگر وہ  احمد بن محمد  بن سعید  ابو العباس  المعروف بابن عقدہ ہیں جیسا کہ غالب گمان ہے  تو یہ سند  ضعیف ہے۔ ابن عقدہ پر بہت سارے محدثین نے کلام کیا ہے۔  شیخ نایف المنصوری نے ارشاد القاصی والدانی   (ص160) میں ان اقوال کو جمع کیا ہے جسے وہاں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ 
لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ  یہ متن مختصر ہے اور اس میں محل شاہد "وخالفوا فيه اليهود وصوموا قبله يوما أو بعده يوما" والا ٹکڑا موجود نہیں ہے۔ 
لہذا  یہ سندیں داود بن علی تک صحیح سند سے ثابت ہی نہیں ہیں۔ 
اور داود بن علی خود معتمد علیہ راوی نہیں ہیں۔  ابن حبان نے الثقات (6/281)  میں انہیں ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ کہا ہے:  "یخطئ"۔  
امام  ابن معین فرماتے ہیں: "ارجو انہ لیس یکذب"۔ الکامل میں  فی ضعفاء الرجال (3/553)۔ 
امام بزار فرماتے ہیں: لم يكن بالقوي في الحديث (مسند البزار 11/394). 
حافظ ذہبی فرماتے ہیں: "لیس حدیثہ بحجۃ"۔ (المغنی فی الضعفاء 2013)۔ 
اور حافظ ابن حجر  نے انہیں التقریب (1812) میں  "مقبول" کہا ہے۔ اور ان کے مقبول کہنے مطلب یہ ہے کہ متابعت کے وقت مقبول ہیں ورنہ وہ لین الحدیث ہیں۔ اور ان کی کوئی متابعت نہیں مل سکی۔ 
امام بزار فرماتے ہیں:  "هذا الحديث قد روي عن ابن عباس من وجوه، ولا نعلم روي عن ابن عباس، ولا عن غير ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر أن يصام قبله يوما وبعده يوما إلا في حديث داود بن علي، عن أبيه، عن ابن عباس"۔  مسند البزار(11/399)۔ 
(یہ حدیث  - یعنی صوموا قبلہ یوما و بعدہ یوما - ابن عباس  رضی اللہ عنہ سے متعدد وجوہ سے مروی ہے،  اور ہمیں نہیں معلوم کہ داود بن علي، عن أبيه، عن ابن عباس  کی حدیث کے علاوہ کسی دوسرے سے یہ روایت کی گئی ہو کہ ابن عباس یا ان کے علاوہ کسی دوسرے  سے یہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے  یہ حکم دیا ہو کہ عاشورہ سے ایک دن پہلے  اور ایک دن بعد میں  روزہ رکھا جائے۔ )
یعنی  "صوموا قبلہ یوما وبعدہ یوما "  کا لفظ داود بن علی کے علاوہ ابن عباس سے یا کسی دوسرے سے کوئی روایت نہیں کرتا۔
 بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے   یہ حدیث موقوفا  اس  طرح وارد ہے: 
" خالفوا اليهود وصوموا التاسع والعاشر". (یہود کی مخالفت کرو اور نویں ودسویں تاریخ کو روزہ رکھو۔) 
اسے  امام عبد الرزاق    نے اس سند سے روایت کی ہے، فرماتے ہیں: 
أخبرنا ابن جريج قال: أخبرني عطاء، أنه سمع ابن عباس، يقول في يوم عاشوراء: «خالفوا اليهود وصوموا التاسع والعاشر»۔ مصنف عبد الرزاق الصنعاني (4/287) حدیث نمبر (7839)۔ 
اس کی سند صحیح ہے۔ 
اور ایک دوسری روایت میں ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: " صوموا التاسع والعاشر ولا تشبهوا باليهود". (نویں اور دسویں تاریخ کو روزہ رکھو اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو۔) 
امام شافعی رحمہ اللہ نے اسے  درج ذیل سند سے روایت کی ہے: 
أخبرنا سفيان أنه سمع عبيد الله بن أبي يزيد يقول: سمعت ابن عباس يقول: " صوموا التاسع والعاشر ولا تشبهوا باليهود"۔ (دیکھیں: معرفۃ السنن والآثار للبیہقی  6/350، حدیث نمبر 8966، والبدر المنیر 5/751)۔  
اور یہ سند بھی صحیح ہے۔ 
 یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفا  یہ حدیث دو صحیح سندوں سے مروی ہے ،  ان میں بھی یہود کی مخالفت کی بات آئی ہے لیکن ان  میں  صرف نویں اور دسویں تاریخ کے روزے کی بات ہے، گیارہویں تاریخ کے روزے کی نہیں۔  
 اور جہاں تک مرفوع حدیث کی بات ہے تو  وہ  داود بن علی تک اس کی سند ثابت نہ ہونے اور ان کے متکلم فیہ ہونے کی وجہ  سے ضعیف ہے۔ 
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ فرماتے ہیں:  "رواية أحمد هذه ضعيفة منكرة من طريق داود بن علي عن أبيه عن جده، رواها عنه ابن أبي ليلى"۔  (نيل الأوطار 4/289)۔ 
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ (تحقیق صحیح ابن خزیمہ 3/291)۔ 
شیخ شعیب ارنؤوط اور ان کی ٹیم نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے۔ (تحقیق مسند امام احمد 5/280)۔ 
اور جب یہ دلیل صحیح نہیں تو اس سے استدلال کرتے ہوئے عاشورہ کی نیت سے دسویں کے ساتھ گیارہویں،  یا نویں اور دسویں کے ساتھ گیارہویں تاریخ کے روزہ رکھنے بات کرنا بھی صحیح نہیں ہے، چہ جائیکہ اسے سب سے اکمل اور افضل  کہا جائے۔  واللہ اعلم ۔ 
بعض حضرات کہتے ہیں کہ اصل مقصود  یہود کی مخالفت ہے ، چاہے یہ مخالفت نویں تاریخ کا روزہ ضم کرکے کریں یا گیارہویں تاریخ کا   دونوں صحیح ہے۔ لیکن ان کا  یہ قول صحیح نہیں معلوم ہوتا، کیونکہ مخالفت کا طریقہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ نویں تاریخ کو دسویں کے ساتھ ضم کرکے روزہ رکھا جائے،  اگر گیارہویں تاریخ کا ضم کرنا بھی مخالفت کی صحیح صورت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اسے بیان کردیتے، لیکن آپ نے اسے بیان نہ  کیا۔ 
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے وضاحت  اور صراحت کے ساتھ   مخالفت  کا حکم دیا ہے اور یہود کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے لیکن انہوں نے بھی مخالفت کی صورت یہ  بیان کی کہ دسویں کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ اس لئے اپنی طرف سے اضافہ کرتے ہوئے گیارہویں تاریخ کو صوم عاشورہ میں شامل کرنا صحیح نہیں ہے۔  
بعض حضرات کہتے ہیں کہ احتیاط کے طور پر اگر کوئی گیارہویں  تاریخ کو عاشورہ کا روزہ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے۔ اس کے لئے وہ  ابن عباس رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث سے دلیل لیتے ہیں: 
ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:   حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّهُ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ فِي السَّفَرِ، وَيُوَالِي بَيْنَ الْيَوْمَيْنِ مَخَافَةَ أَنْ يَفُوتَهُ» مصنف ابن أبي شيبہ (2/313) حدیث نمبر (9388)۔ 
اس پر یہ کہنا ہے کہ اولا: یہ حدیث شعبہ مولی ابن عباس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  ان کے متعلق فرماتے ہیں: "صدوق سیئ الحفظ"۔  (التقریب  2792)۔ 
ثانیا: اس روایت میں گیارہویں تاریخ کی صراحت نہیں ہے،  اس میں نویں اور دسویں کا بھی احتمال ہے۔ 
ثالثا: احتیاط یا شک کی وجہ سے روزہ رکھنے کا حکم شریعت  میں نہیں آیا ہے۔ اگر احتیاط کی ہی بات کی جائے تو دوسرے روزوں کے تعلق سے بھی یہ بات کہنی  چاہئے صرف عاشورہ کے متعلق نہیں۔ 
ہاں اگر کوئی عاشورہ کی نیت سے نہیں بلکہ عام نفلی روزے کی نیت سے گیارہویں محرم کو روزہ رکھتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے،  کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت ماہ محرم کا روزہ رکھنا ثابت ہے۔

وَاللّٰهُ أَعلَمُ بِالصَّوَاب.

.

یومِ عاشورہ کی فضیلت میں غلط أحادیث ‏سعید ‏الرحمن ‏سلفی

.

••══༻◉﷽◉༺══••

یومِ عاشورہ کی فضیلت میں غلط أحادیث 

ایک بار پورا ضرور پڑھیں 

تحریر:---سعیدالرحمٰن عزیز سلفی 

لوگ یومِ عاشورہ کے تعلق سے بےبنیاد اور غیرثابت شدہ واقعات بیان کرکے اُس کی فضیلت ثابت کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگوں سے ایک سوال ہے کہ کیا ثابت شدہ باتیں جو قرآن وسنت سے آئی ہیں وہ ہمارے لئے کافی نہیں ہے؟ 
بےشک ہر مسلمان اِس کا جواب یہی دیگا کہ ہمارے لئے قرآن و حدیث کی ثابت شدہ باتیں ہی کافی ہیں۔
پھر یوم عاشورہ کی فضیلت ایسی جگہوں سے کیوں اخذ کی جاتی ہیں جن کا مصدر ضعیف اور موضوع روایتیں ہیں؟

بعض باتیں ایسی ہیں جن کا مصدر مجھے معلوم نہ ہوسکا البتہ کچھ باتیں ملاحظہ کریں۔ 

1:---یوم عاشورہ وہ ہے جس دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر جاکر لگی اور حضرت نوح علیہ السلام نے شُکرانے کے طور پر اُس دن روزہ رکھا۔

("مسند احمد ح8717"
یہ حدیث ضعیف ہے اِس کی سند میں دو راوی ہیں ایک راوی عبدالصمد بن حبیب ہے جو ضعیف ہے۔
اور دوسرا راوی شبیل بن عوف ہے جو مجہول ہے)

2:---یوم عاشورہ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی۔

3:---یومِ عاشورہ کو حضرت یونس علیہ السلام کی بستی پر اللہ تعالیٰ نے خصوصی توجہ فرمائی۔

4:---یومِ عاشورہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

نمبر 2 سے 4 تک کی حدیث طبرانی کی ہے جو "مجمع الزوائد ج3 ص188" سے ماخوذ ہے۔
اِس حدیث کی سند کے بارے میں علّامہ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اِس میں عبدالغفور نامی ایک راوی ہے جو متروک ہے۔
شعیب ارنؤوط رحمہ اللہ نے اِس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔

5:---یوم عاشورہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

علّامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اِس حدیث کو "میزال الاعتدال 48/3" میں کہا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے۔
علّامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله نے "تبیین العجب، 30" میں اِس حدیث کو باطل کہا ہے۔

6:---یوم عاشورہ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام پر توجہ فرمائی۔

اِس حدیث کو ابن العربی رحمہ الله نے "عارضة الاحوذي 204/2" میں ذکر فرمایا ہے اور اِسے موضوع (مَن گھڑت) بتایا ہے۔

7:---یوم عاشورہ کو کَشتیِ نوح کے نجات کے بعد جانوروں نے بھی روزہ رکھا.

اِس حدیث کو علّامہ ناصرالدین البانی رحمہ الله نے "السلسلة الضعيفة ح 5413" میں ذکر فرمایا ہے اور اِسے موضوع (مَن گھڑت) بتایا ہے۔

8:---یومِ عاشورہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے جلائی گئی آگ ٹھنڈی پڑ گئی۔

9:---یومِ عاشورہ کو حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری دور ہوگئی۔

10:---یومِ عاشورہ کو حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹ آئی۔

11:---یومِ عاشورہ کو حضرت یوسف علیہ السلام کنوئیں سے باہر نکالے گئے۔

نمبر 8 سے 11 تک ماخوذ از "موسوعہ احسن الکلام فی الفتاویٰ والاحکام ج4 ص666 لعطية صقر" فرماتے ہیں کہ „لَیسَ لَھا سَنَد صَحیح،، اِس روایت کی سند صحیح نہیں ہے۔

12:---یومِ عاشورہ کو حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اُٹھائے گئے۔

شیخ الاسلام علّامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ احادیثِ مکذوبہ (جھوٹی احادیث) میں سے ہے۔ ماخوذ از "اسلام ویب فتویٰ نمبر 145403  16محرم 1432ھ"

خلاصہ:---الحمدلله ہمارے لئے کتاب و سنت ہی کافی ہیں کسی مسئلے کے ثبوت و فضیلت کے لئے۔
لہٰذا ضعیف، مُرسل، موضوع اور شاذ احادیث کو لاکر کسی دینی مسئلے کو ثابت کرنے اور اُسے ماننے سے اجتناب کریں ہمارے اِس دین کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہے جس کی بنیاد بے انتہا مضبوط ہے اُس میں کمزور اور غیرثابت شدہ مسائل کی گنجائش نہیں ہے۔
واللہ أعلم بالصواب

تحریر:---سعیدالرحمٰن عزیز سلفی
واٹساپ:---9670752787

.

بدھ، 19 اگست، 2020

‎کیا نکاح کیلئے مال و دولت، رنگ و نسل اور خوبصورتی کا دیکھنا بھی ضروری ہے؟

.

┈┈┈•─╮﷽╭─•┈┈┈ 

حدیث (تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ) کا صحیح معنی و مفہوم 
( کیا نکاح کیلئے مال و دولت، رنگ و نسل اور خوبصورتی کا دیکھنا بھی ضروری ہے؟) 

⁦ فاروق عبد اللہ نراین پوری 

حدیث و علوم حدیث 

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا،فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ:
[متفق علیہ: صحیح بخاری، حدیث نمبر:5090/صحیح مسلم، حدیث نمبر:1466]
عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے، خاندانی شرف کی وجہ سے، خوبصورتی کی وجہ سے اور دینداری کی وجہ سے۔ تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں شادی بیاہ کے اندر کفائت کے مسئلہ میں یہ حدیث اصول کا درجہ رکھتی ہے۔ نکاح کے وقت کفائت میں کس چیز کا اعتبار کرنا چاہیے اور لوگ کن چیزوں کا اعتبار کرتے ہیں اس بارے میں یہ حدیث ہمیں بہترین رہنمائی کرتی ہے۔کفائت کے متعلق بہت ساری ایسی باتیں عوام کے مابین رائج ہیں جو شریعت کے عمومی مزاج سے ٹکراتی ہیں۔ مثلا زوجین کا مال ودولت، ذات برادری، حسب ونسب، رنگ ونسل اور صنعت وحرفت وغیرہ امور میں ایک دوسرے کا کفو ہونا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ فقہی کتابوں کے اندر بھی بعض ایسے مباحث ہمیں نظر آتے ہیں جن سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ شریعت نے ذات برادری، حسب ونسب، رنگ ونسل اور مال ودولت کے اندر تفوق وبرتری کو بڑھاوا دیا ہے۔ حالانکہ آپ ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے ذات برادری اور رنگ ونسل کی بنا پر تفوق وبرتری کی جاہلانہ ذہنیت کو اس اعلان کے ساتھ  کچل دیا تھا کہ:
”لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ  عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى“
[مسند أحمد:38/ 474 حدیث نمبر:23489]
کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر، سوائے تقوی کے شریعت کی یہ تعلیم زندگی کے ہر شعبہ کو محیط ہے اور اس میں شادی بیاہ بھی ہے۔زیر بحث حدیث میں آپ ﷺ نے لوگوں کی ذہنیت اور ان کی رغبت کا ذکر کیا ہے کہ عموما شادی بیاہ کے وقت لوگ مال ودولت، خوبصورتی، حسب ونسب اور دینداری کا اعتبار کرتے ہیں۔ ان میں سے انھیں دینداری کو مد نظر رکھنا چاہیے اور اسے ہی اختیار کا معیار بنانا چاہیے۔اس حدیث میں صرف دینداری کو کفائت کا معیار قرار دیاگیا ہے۔ اور باقی چیزوں کے بارے میں لوگوں کی رغبت کی خبردی گئی ہےکہ عموما لوگ ان چیزوں کا اعتبار کرتے ہیں۔ اس حدیث میں ان چیزوں کی طرف دیکھنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے اور نہ ترغیب دی گئی ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ زوجین کے مابین کفائت میں شریعت نے ان چیزوں کا بھی کوئی اعتبار کیا ہے۔اس حدیث کے صحیح معنی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
الصحيح في معنى هذا الحديث أن النبي صلى الله عليه وسلم أخبر بما يفعله الناس في العادة فإنهم يقصدون هذه الخصال الأربع، وآخرها عندهم ذات الدين، فاظفر أنت أيها المسترشد بذات الدين;[شرح مسلم للنووی:10/51-52)
(اس حدیث کا صحیح معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں  کی خبر دی ہے جن کا  لوگ عموما اعتبار کرتے ہیں۔ شادی کے وقت وہ انھی چار چیزوں کی طرف دیکھتے ہیں اور دینداری ان کے نزدیک سب سے آخر میں ہوتی ہے۔ لہذا اے رشد وہدایت کے طلبگار!دیندار خاتون کے ساتھ کامیاب ہوجا)
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:هذه الأربع الخصال هي المُرغِّبة في نكاح المرأة, وهي التي يقصدها الرِّجال من النساء, فهو خبرٌ عما في الوجود من ذلك، لا أنه أمرٌ بذلك;
[المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم:4/215]
(یہ چار خصلتیں کسی خاتون سے نکاح پر رغبت دلانے والی ہیں اور مرد یہی چیزیں عورتوں میں چاہتے ہیں۔ لہذا اس حدیث میں موجودہ صورتحال کی عکاسی کی گئی ہے، نہ کہ ان چیزوں کا حکم دیا گیا ہے)
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
الذي يقتضيه حكمه صلى الله عليه وسلم اعتبار الدين في الكفاءة أصلا وكمالا، فلا تزوج مسلمة بكافر، ولا عفيفة بفاجر، ولم يعتبر القرآن والسنة في الكفاءة أمرا وراء ذلك، فإنه حرم على المسلمة نكاح الزاني الخبيث، ولم يعتبر نسبا ولا صناعة ولا غنى ولا حرية، فجوز للعبد القن نكاح الحرة النسيبة الغنية، إذا كان عفيفا مسلما، وجوز لغير القرشيين نكاح القرشيات، ولغير الهاشميين نكاح الهاشميات، وللفقراء نكاح الموسرات;[زاد المعاد:5/145]
(آپ ﷺ کے حکم کا تقاضہ یہ ہے کفائت میں اصل وکمال دونوں لحاظ سے دینداری معتبر ہو۔ لہذا کسی مسلمان خاتون کی شادی کافر سے نہ کی جائے اور نہ پاکدامن کی فاسق وفاجر سے۔ قرآن وسنت میں اس کے علاوہ کفائت میں کسی چیز کا کوئی اعتبار نہیں کیا گیا ہے۔ پس مسلمان خاتون کا زناکار بدبخت سے نکاح حرام قرار دیا۔ اور حسب ونسب، پیشہ، مالداری وآزادی کا کوئی اعتبار نہیں کیا۔چنانچہ ایک غلام کے لیے مسلمان اور پاکدامن ہونے کی صورت میں آزاد ،عالی نسب، مالدار خاتون سے نکاح جائز قرار دیا اور غیر قریشیوں کے لیے قریشی خواتین سے ، غیر ہاشمیوں کے لیے ہاشمی خواتین سے اور فقراء کے لیے مالدار خواتین سے نکاح جائز قرار دیا)
یہ ہے اس حدیث کا صحیح معنی ومفہوم، یعنی کفائت میں دینداری کے علاوہ اور کسی چیز کا کوئی اعتبار نہیں۔  البتہ بعض دوسری حدیثوں سے بھی بعض حضرات نے دینداری کے علاوہ دوسری چیزوں کے اعتبار کرنے پر استدلال کیا ہے۔ ذیل میں مختصرا ان کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے:
1 – حسب ونسب اور صناعت وحرفت میں کفائت کا اعتبار کرنے والے بطور دلیل یہ حدیث پیش کرتے ہیں:
العرب أكفاء بعضها بعضا قبيل بقبيل و رجل برجل, والموالي أكفاء بعضها بعضا قبيل بقبيل و رجل برجل إلا حائك وحجام; [السنن الکبری للبیہقی:7/218 حدیث نمبر:13770]
(عرب ایک دوسرے کے کفو ہیں، ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کا اور ایک مرد دوسرے مرد کا۔ اور موالی –غلام- ایک دوسرے کے کفو ہیں، ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کا اور ایک مرد دوسرے مرد کا سوائے بنکر اور حجام کے)
لیکن اس حدیث  سے استدلال صحیح نہیں، کیونکہ یہ سخت ضعیف ہے۔ علامہ ابن عبد البر اور شیخ البانی نے اسے موضوع ومن گھڑت قرار دیا ہے۔ امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں: یہ ایک جھوٹی حدیث ہے، اس کی کوئی اصلیت نہیں۔ حافظ ابن حجر نے ”التلخیص الحبیر“ میں اس کے طرق کو جمع کیا ہے اور یہ تمام طرق سخت ضعیف ہیں۔ [دیکھیں: التمھید لابن عبد البر:19/164-165، ارواء الغلیل للالبانی، حدیث نمبر:1869، العلل لابن ابی حاتم:1/412، التلخیص الحبیر لابن حجر:3/336-337]
نیز یہ ان صحیح احادیث کے معارض بھی ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ کفائت میں نسب کا کوئی اعتبار نہیں۔ بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:أن أبا هند، حجم النبي صلى الله عليه وسلم في اليافوخ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «يا بني بياضة أنكحوا أبا هند»[سنن أبي داود:2/ 233 حدیث نمبر:2102]
(ابوہند نے نبی اکرم ﷺ کی چندیا میں پچھنا لگایا تو آپ نے فرمایا: بنی بیاضہ کے لوگو! ابوہند سے تم اپنی بچیوں کی شادی کرو)
ابو ہند یہ بنو بیاضہ کے غلام تھے،حجام تھے، لیکن اس کے باوجود نبیﷺ نےمعروف عربی قبیلہ بنو بیاضہ کو حکم دیا کہ انھیں اپنا داماد بنائیں۔
علامہ صنعانی ”سبل السلام“(3/356)  میں فرماتے ہیں:”یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کفائت میں انساب کا کوئی اعتبار نہیں“۔
اسی طرح عہد نبوی میں متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں کہ ایک عالی نسب کی شادی کسی غلام سے ہو ئی ہے۔ مثلا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا جو قریشی خاتون تھیں ان کی شادی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو کہ غلام زادہ تھے، قریشی نہ تھے۔ بلکہ نبی ﷺ کے مشورے سے انھوں نے اسامہ سے شادی کی تھی، حالانکہ پہلے ہی ابو جہم اور معاویہ رضی اللہ عنہما جیسے قریشیوں نے شادی کا پیغام دیا ہوا تھا، اس کے باوجود آپ ﷺ نے ان کے حسب ونسب کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک غلام سے شادی کا مشورہ دیا۔ امام نسائی رحمہ اللہ اس واقعہ پر یوں باب قائم کرتے ہیں;باب تزويج المولى العربية; (یعنی ایک غلام کا عربی خاتون سے شادی کرنے کا بیان)
اسی طرح زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ  جو کہ غلام تھے ان کی شادی زینب بنت جحش  رضی اللہ عنہا سے ہوئی۔ [صحیح بخاری، حدیث نمبر4787]
عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بہن کی شادی بلال رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ [السنن للدار قطنی:3/301-302 والسنن الكبرى للبیہقی: 7/137]
ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس نے سالم مولی حذیفہ کی شادی اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ کے ساتھ کی۔ [صحیح بخاری، حدیث نمبر:508]
ان تمام واقعات سے یہ آشکارا ہوجاتا ہے کہ کفائت میں حسب ونسب اور ذات برادری کا شریعت نے کوئی اعتبار نہیں کیا ہے۔
علامہ ابن عربی ”عارضۃ الاحوذی“(4/243) نے فرماتے ہیں:
”کفائت میں دین کا انتخاب کرنا چاہیے دنیا کا نہیں۔آپﷺ نے اپنے غلام زید کا اپنی پھپھیری بہن زینب سے شادی کرکے اور مقداد کا اپنی پھپھیری بہن ضباعہ سے شادی کرکے اسے بیان کردیا۔ اسی طرح ابوحذیفہ بن عتبہ نے ہند بنت ولید سے سالم کی شادی کرکے اسے ثابت کردیا“۔
ابو ہند کی حجامت والی حدیث ذات برادری اور حسب ونسب کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ صنعت وحرفت کا بھی کفائت میں کوئی اعتبار نہیں۔
2 – مال ودولت میں کفائت کا اعتبار کرنے والے بطور دلیل فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی سابقہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:أما معاوية فصعلوك لا مال له; [صحیح مسلم، حدیث نمبر:1480]
(جہاں تک معاویہ کی بات ہے تو وہ فقیر ہیں، ان کے پاس مال نہیں)
لیکن اس سے مال ودولت میں کفائت کے شرط ہونے پر استدلال صحیح نہیں۔ کیونکہ معاویہ کی جگہ آپ نے اسامہ بن زید سے نکاح کا مشورہ دیا، اور وہ کوئی مالدار نہیں تھے بلکہ ایک غلام تھے۔ زیادہ سے زیادہ اس سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ دینداری میں برابری کی صورت میں اس شوہر کے انتخاب کا مشورہ دیا جائےگا جو تنگ دست نہ ہو، خوشحال ہو۔ نہ یہ کہ شوہر کا مال ودولت میں بیوی کا برابر ہونا شرط ہے۔
اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا کا زبیر رضی اللہ عنہ سے نکاح بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ شادی کے ابتدائی ایام میں وہ مالدار نہ تھے بلکہ فقیر تھے۔ اسماء فرماتی ہیں:
تزوجني الزبير، وما له في الأرض من مال ولا مملوك، ولا شيء غير ناضح وغير فرسه[صحيح بخاري:7/35 حدیث نمبر:5224]
(زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور ان کے گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، کوئی چیز نہیں تھی)
اسی طرح عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا معاملہ ہے۔ ان کی اہلیہ مالدار تھیں اور وہ فقیر تھے۔ ایک دن وہ نبیﷺ کے پاس آئیں اور دریافت کیں: اے اللہ کے رسول! اگر میں اپنے صدقہ کا مال اپنے شوہر کو دوں تو کیا یہ کافی ہوگا؟ آپ نے فرمایا: تمھیں صدقہ اور صلہ رحمی کا دوہرا اجر ملےگا۔[صحیح مسلم، حدیث نمبر:1000]
بلکہ خود آپﷺ محتاج تھے اور ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا  مکہ کی معروف مالدار تاجرہ تھیں۔اس طرح کے واقعات بہت ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مال ودولت کو کفائت کی شرط قرار دینا صحیح نہیں۔ واللہ اعلم

3۔ حریت میں کفائت کا اعتبار کرنے والے بریرہ اور مغیث کے قصہ سے استدلال کرتے ہیں کہ جب بریرہ آزاد ہو گئیں تو مغیث کے ساتھ رشتہ ازدواج میں باقی رہنا گوارا نہ کیا۔ مغیث روتے اور ان کے آگے پیچھے گھومتے رہتے۔ جس پر آپﷺ نے بریرہ سےرجوع کی درخواست کی۔ کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے حکم دے رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں بس سفارش کر رہا ہوں۔ تو بولیں: مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ [صحیح بخاری، حدیث نمبر:5283]
کہتے ہیں: آزاد ہونے کے بعد چونکہ دونوں کے مابین کفائت باقی نہیں رہ گئی تھی اسی لیے آپ نے بریرہ کو الگ ہونے کا اختیار دیا اور رجوع کا حکم نہیں دیا۔
لیکن یہ استدلال محل نظر ہے، کیونکہ اگر کفائت شرط ہوتی تو آپ نے سفارش ہی نہ کی ہوتی۔ آپ کا سفارش  کرنا اس بات کی دلیل ہے حریت کفائت کی شرط نہیں ہے۔رہی بات رجوع کا حکم نہ دینا اور الگ ہونے کا اختیار دیناتو یہ اس لیے نہیں کہ ان کے شوہر غلام تھے اور وہ آزاد ہوگئی تھیں، بلکہ اگر ان کے شوہر آزاد بھی ہوتے تب بھی انھیں یہ اختیار حاصل تھا اور رجوع کے لیے ان پر زبردستی نہیں کی جا سکتی تھی۔
اس کی تائید ان تمام مذکورہ واقعات سے بھی ہوتی ہے جن میں ہے کہ آپ نے یا صحابہ کرام نےآزاد عورتوں کا غلام مردوں کے ساتھ نکاح کا حکم دیا یا نکاح کروایا۔
زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر مرد آزاد ہو تو کسی لونڈی سے شادی کی ترغیب نہیں دی جاسکتی، صرف بقدرضرورت اجازت دی جاسکتی ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ومن لم يستطع منكم طولا أن ينكح المحصنات المؤمنات فمما ملكت أيمانكم من فتياتكم المؤمنات [سورۃ النساء، آیت نمبر:25]
(اور تم میں سے جو مالی لحاظ سے طاقت نہ رکھے کہ آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرے تو  مومن لونڈیوں سے نکاح کرلے)
لہذا اس مسئلہ میں شرعی رہنمائی یہ ہے کہ دینداری کے علاوہ کسی چیز میں کفائت کا کوئی اعتبار نہیں۔ اور اسی کی آپ نے  ترغیب بھی دی ہے:
إذا أتاكم من ترضون دينه وخلقه فانكحوه إلا تفعلوه تكن فتنة في الأرض وفساد كبير;[سنن ترمذی، حدیث نمبر:1085، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1967،اسے شیخ البانی نے حسن کہا ہے۔ ارواء الغلیل، حدیث نمبر: 1868]
(جب تمھارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کی دینداری اور اخلاق سے تم راضی ہوتو اس سے نکاح کردو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہوگا)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں کتاب وسنت کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ہر طرح کی جاہلانہ عصبیت سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

.

اتوار، 9 اگست، 2020

مثبت اور منفی سوچ کا ہماری زندگی میں کیا اثر پڑتا ہے؟ ‏اشفاق ‏عالم ‏عالیاوی ‏

.

 ꧁ 🌴 ﷽ 🌴 ꧂ 

مثبت اور منفی سوچ کا ہماری زندگی میں کیا اثر پڑتا ہے؟ 

منفی سوچ 

         ہمارے سماج اور معاشرہ میں بہت سے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سُنا اور دیکھا جاتا ہے کہ "اس دنیا میں گناہوں سے بچ کر نکل جانا، سنن و فرائض پر کما حقہ عمل پیرا ہو جانا اور آخرت میں جنت پا لینا بہت مشکل ہے حتی کہ نا ممکن ہے" 
         
اس طرح کی منفی سوچ رکھنے والے افراد اپنے منفی افکار و خیالات کی وضاحت بھی بڑے بھولے بھالے انداز میں کرتے ہیں۔ 

       کہتے ہیں کہ یہ دنیا رنگینیوں سے پُر ہے، چہار جانب مارا ماری، چوری ڈکیتی پھیلی ہوئی ہے،  بازاروں میں لین دین، تجارت و کاروبار دھوکہ دھڑی اور دغابازی سے خالی نہیں ہے، بینکوں میں اور عام لین دینوں میں سودی کاروبار کا بازار گرم ہے،،،،، پھر اپنے آپ کو گناہوں سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ یا تو آخرت بیچ کر دنیا داری کرنا ہوگا یا پھر آخرت کے چکر میں دنیا کو برباد کرنا ہوگا۔ 

مثبت سوچ 

پہلے دنیا کی رنگینیوں اور غلاظتوں سے اپنے افکار و خیالات کو پاک کریں۔ پھر جگر تھام کر دراسہ کریں 
ایک صحابی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہتے ہیں 
 
يَا رَسُول اللَّهِ دُلَّني عَلَى عمَل إِذا عمِلْتُهُ، دخَلْتُ الجنَّةَ. قَالَ: تَعْبُدُ اللَّه وَلاَ تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكاَة المَفْرُوضَةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ قَالَ: وَالذي نَفْسِي بِيَدِهِ، لا أَزيدُ عَلى هَذَا. فَلَمَّا وَلَّى، قالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلى هَذَا مُتفقٌ عَلَيْهِ. 

ترجمہ: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایسا عمل بتائے جس پر عمل کر کے جنت میں داخل ہوجاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، فرض زکوٰۃ دو، اور رمضان کے مہینے کے روزے رکھو، وہ صحابی کہتے ہیں اللہ کی قسم میں اس سے کچھ بھی زیادہ نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو جنتی آدمی دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے وہ اسے دیکھ لے۔ 

مثبت سوچ اپنائیں اور فوائد تلاشیں 
حدیثِ مذکور میں ایک صحابی صرف چار اعمال (شرک سے پاک خالص عبادت، نماز، زکوٰۃ اور روزہ) انجام دے کر جنت کا مستحق ہو سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ لہٰذا ہمیں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ 
اس صحابی نے ان چار اعمال کے علاوہ کچھ بھی عمل نہیں کروں گا، کہتے ہوئے قسم کھالی پھر بھی جنت کا مستحق بنا تو ہم کیوں نہیں؟ لہٰذا ہمیں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ 

ہمارے ذہن و دماغ میں پھر ایک نئی سوچ پیدا ہوگی کہ پھر ہمارے گناہوں کا کیا ہوگا؟ 

جواب: (کل بنی آدم خطاء وخیر الخطائین التوابون) ہر انسان سے جانے انجانے میں گناہ سرزد ہونگے لیکن توبہ کرنے اور مستقبل میں نہ کرنے کا عہد کرنے سے سارے گناہ معاف کر دئے جائیں گے۔ 

(نوٹ) پہلی حدیث میں فقط چار اعمال کا ذکر ہے، حج کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ ممکن ہے کہ اس وقت حج فرض نہ ہوا ہو، یا وہ دیہاتی آدمی حج کی استطاعت نہیں رکھتا تھا اس لئے رسول اللہ نے حج کے لئے نہیں ابھارا۔ کیونکہ حج اسی پر فرض ہے جو مستطیع ہو۔ 

ایک اور سوچ کا دخل
جب چار اعمال انجام دے کر جنت حاصل کر سکتے ہیں؟ تو سنن و نوافل کا کیا ہوگا۔ جی سنن ونوافل مزید نیکیاں کمانے کے لئے ہے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے ہے۔ اسی طرح سے ہمارے گناہوں کا کفارہ بھی ہوتا ہے۔ (یاد رہے ہماری عبادتیں شرک سے پاک و صاف رہیں) ان شاء اللہ العزیر ہم سب جنت کے مستحق ہوں گے۔ 

لہٰذا اپنے افکار و خیالات کو پاک و صاف کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ جنت جانا بہت آسان ہے۔ 

بدلو سوچ بدلو زندگی 

اشفاق عالم عالیاوی 
دلکولہ، اتر دیناجپور 

.

جمعہ، 7 اگست، 2020

سید قطب کے عقدی و فکری انحرافات ‏۱

.

🌻 ꧁ ﷽ ꧂ 🌻

سید قطب کے عقدی و فکری انحرافات 

قسط اول 

بقلم 
مامون رشید ہارون رشید سلفی 

(اخوانی، منکر صفات باری تعالیٰ، وحدت الوجود کا قائل، حلولی، تكفیریوں کا سرغنہ، گستاخ رسول و گستاخ صحابہ) 

~~~~؛ 

قارئین کرام: سید قطب (جن کا اصل نام سید اور خاندانی نام قطب ہے) 9 اکتوبر 1906ء کو مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں بدعت و خرافات کا غلغلہ عام تھا سید قطب کے والد روزانہ عشا کے کھانے کے بعد اپنے بچوں کی موجودگی میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتے اور اسے اپنے والدین کی روح کو ہدیہ کرتے تھے,  اسی طرح ان کے والد ختم قرآن کی محفلیں منعقد کرتے بالخصوص رمضان کے مہینے میں اس کا زیادہ اہتمام کرتے, اور ان کا گاؤں بھی ایک صوفی بزرگ ولی اللہ عبد الفتاح کے نام (بلدة الشيخ عبد الفتاح) سے مشہور تھا کہا جاتا ہے جیسا کہ معروف اخوانی بدعتی دکتور عبد اللہ عزام نے اپنی کتاب "عملاق الفكر الإسلامي الشهيد سيد قطب ص:8" کے اندر لکھا ہے کہ سید قطب کے  آبا و اجداد اصلاً ہندوستانی تھے ان کا جد رابع حسین ارض حرمین کی طرف ہجرت کر گیے پھر وہاں سے ہجرت کرکے بالائی مصر کے علاقے میں آباد ہو گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی. 

ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد سنہ 1920ء کو قاہرہ کی جانب رخت سفر باندھا اور بقیہ تعلیم قاہرہ یونیورسٹی سے حاصل کی بعد میں یہیں پروفیسر ہو گئے۔ کچھ دنوں کے بعد وزارت تعلیم کے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز ہوئے پھر کچھ عرصہ بعد اخوان المسلمون سے جڑ گئے اور نہایت دلجمعی کے ساتھ نشر اخوانیت میں لگے رہے یہاں تک کہ حسن البنا کے بعد اخوانیت میں دوبارہ روح پھونکنے کا کام کیا اور بعد کے بہت سارے اخوانی بجائے اخوانی کے سید قطب کی طرف منسوب ہو کر اپنے آپ کو قطبی کہلوانے لگے.....

محققین اہل علم کا کہنا ہے کہ سید قطب نے کبھی بھی باقاعدہ اسلامی تعلیم حاصل نہیں کی چنانچہ سید قطب کی تعلیم پر گفتگو کرتے ہوئے شیخ اجمل منظور مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:"اخوانیوں کے سید قطب کب عالم دین ہوگئے؟! 

• سید قطب کی پیدائش 1906 میں ہوئی۔

• 1933 میں دار العلوم کالج سے Educational teacher certificate حاصل کیا۔ 

• یعنی 27/ سال کی عمر میں شرعی علوم حاصل نہیں کیا تھا بلکہ ادبی اور ثقافتی علوم میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ 

• 1934 میں 29/ سال کی عمر میں پہلی بار اپنے ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مقالہ (الشواطئ العارية= ننگی ساحل) کے نام سے لکھا۔  جس میں ننگے پن اور بے حیائی کی طرف دعوت دی۔ 

• 39/ سال کی عمر میں 1943 کے اندر ایک مضمون لکھا(لماذا صرت ماسونيا؟) کے نام سے ،، یعنی میں ماسونی کیوں بنا؟ یہ یہودیوں کی ایک شیطانی خفیہ جماعت ہے۔ 

• 42/ سال کی عمر میں 1948 میں امریکہ چلے گئے اپنی تعلیم کو مزید پختہ کرنے کیلئے۔۔ مگر وہاں امریکی سی آیی اے کے ساتھ ٹریننگ حاصل کی۔ 

• دو سال کے بعد 1950 میں مصر واپس آگئے۔۔ 

• 48/ سال کی عمر میں 1954 کے اندر اخوانی جماعت میں شمولیت اختیار کی۔

• 1956 کے اندر مختلف دہشت گردی سمیت کئی جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کئے گئے۔ 

• پھر آٹھ سال تک یعنی 1964 تک جیل ہی میں رہے۔۔ اس وقت انکی عمر اٹھاون تک پہونچ گئی تھی۔۔ 

• 1964 میں ایک سرکاری عام معافی کے تحت جیل سے رہا ہوگئے۔ پھر دوبارہ 1965 میں دیگر بھیانک دہشت گردی اور غداری کے جرائم میں گرفتار ہوئے۔ 

• پھر 1966 میں اعتراف جرم کی وجہ سے پھانسی دی گئی۔  اس وقت انکی عمر 59/ سال کی تھی۔ 

• سوال یہ ہیکہ سید قطب نے شرعی علوم کب اور کس سے حاصل کی؟ 

• پھر ایسے مجرم شخص کو دین کا پہاڑ بنا کر آخر کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ 

• اگر غور سے سید قطب کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ بندہ ہر میدان میں فیل ہوتا نظر آیا ہے...." 

سید قطب نے بہت ساری کتابیں بھی لکھی ہے جو اخوانیوں کے ہاں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی اور پڑھی جاتی ہیں جن میں:طفل من القریۃ، المدينۃ المسحورۃ، النقد الادبی، التصوير الفنی فی القرآن، مشاھد القيامۃ فی القرآن، معالم فی الطريق، المستقبل لھذا الدين، هذا الدین، فی ظلال القرآن (تفسیرِ قرآن)، كیف وقعت مراكش تحت الحماہۃ الفرنسیۃ؟، الصبح يتنفس، وظیفۃ الفن والصحافۃ، العدالۃ الاجتماعیۃ فی السلام وغیرہ قابل ذکر ہیں. 

آئیے ان کے انحرافات جاننے سے قبل ان کے بارے میں کبار علمائے اہل حدیث کی آراء ملاحظہ کرتے ہیں: 
 
 سید قطب کے بارے میں علما کے اقوال: 

(1) محدث العصر علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ: 
شیخ رحمہ اللہ ایک خط میں شیخ ربیع کو لکھتے ہیں "كل ما رددته على سيد قطب حقٌ صوابٌ، ومنه يتبين لكل قارئ على شيء من الثقافة الإسلامية أن سيد قطب لم يكن على معرفة بالإسلام بأصوله وفروعه.
فجزاك الله خير الجزاء أيها الأخ (الربيع) على قيامك بواجب البيان والكشف عن جهله وانحرافه عن الإسلام"

"جو کچھ بھی آپ نے سید قطب کے سلسلے میں بطور رد لکھا ہے سب مبنی بر حق و صواب ہے، اور اس سے ہر اس شخص کے لیے جو اسلامی ثقافت سے متعلق کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سید قطب کو اسلام کے اصول و فروع کے بارے میں کچھ بھی معرفت نہیں تھی، 
ائے برادر (ربیع المدخلي) اسلام کے تعلق سے اس (سید قطب) کی جہالت اور انحراف کی وضاحت و بیان کے واجب کو ادا کرنے پر اللہ آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے" (رسالة تأييد الشيخ الألباني لردود الشيخ ربيع على سيد قطب) 

(2) شیخ الاسلام عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ: 

سید قطب اپنی تصنیف “التصویر الفنی فی القرآن’ ص 200 میں لکھتے ہیں : “مثال کے طور پر ہم موسی علیہ الصلاۃ والسلام ( کے کردار ) کو لے لیتے ہیں، وہ پر جوش، متعصب مزاج لیڈر کی ایک مثال ہیں”۔ (نعوذباللہ) 

سماحتہ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمتہ اللہ اس کلام پر تعلیق لگاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: انبیاء کا مزاق اڑانا ایک مستقل ارتداد ہے (یعنی جان بوجھ کر ایسا کرنے والا شخص حجت تمام ہونے کے بعد دین سے خارج ہو کر کافر ہو جاتا ہے )”۔

(اقتباس از کیسٹ اقوال العلماء فی سید قطب، مکتبہ منہاج السنتہ کی آڈیو رکارڈنگز، ریاض) 

اسی طرح جب سید کی استواء کی تفسیر(هيمنة) قبضہ اور غلبہ کا ذکر کيا گیا جیسا کہ انہوں نے سورہ طہ میں آیت 5 (الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ) کی تفسیر (في ظلال القرآن جلد 4، ص 2328 ) میں‌لکھا ہے:(أما الاستواء على العرش فنملك أن نقول: إنه كناية عن الهيمنة على هذا الخلق) 
تو شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ نے  اس کی اس بات پر تعلیق کرتے ہوئے فرمایا:”(هذا كله كلام فاسدٌ، هذا معناه الهيمنة، ما أثبت الاستواء: معناه إنكار الاستواء المعروف، وهو العلو على العرش، وهذا باطلٌ يدل على أنه مسكين ضايع في التفسير) یہ فاسد کلام ہے اس کا معنی ہے (هيمنة)  اس نے صفت استواء کا اثبات نہیں کیا اس کا مطلب تو استواء جس کا صحیح معنی ہے عرش پر بلند ہونا کا انکار کرنا ہوا ، اور یہ باطل ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہےکہ یہ تفسیر میں مسکین اور گم گشتہ راہ انسان ہے”۔ 
(کیسٹ: اقوال العلماء فی سید قطب) 

اسی طرح ایک مرتبہ سید قطب کی کتابوں کے بارے میں فرمایا:" ينبغي ان تمزق" یعنی ان کتابوں کو پھاڑ دینا چاہیے..(شرح رياض الصالحين لسماحته بتاريخ يوم الأحد 18/7/1416)

(3) فقيه الأمۃ شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ : شیخ رحمہ اللہ علیہ (مجلّۃ الدعوۃ شمارہ: 1591، 1418/1/9ھ) میں تفسیر ظلال القرآن کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: “.....وإنما قرأتُ تفسيره لسورة الإخلاص وقد قال قولاً عظيماً فيها مخالفاً لما عليه أهل السنة والجماعة؛ حيث أن تفسيره لها يدل على أنه يقول بوحدة الوجود وكذلك تفسيره للاستواء بأنه الهيمنة والسيطرة" 
میں نے سید قطب کی سورہ اخلاص کی تفسیر پڑھی ہے، اس نے اس میں بہت بڑی بات کہی ہے، جو اہل سنت والجماعت کے منھج کے مخالف ہے کیونکہ اس کی تفسیر یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ وحدت الوجود کا قائل ہے۔ اسی طرح اس کی استواء کی تفسیر (گمراہ فرقے جیسے معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ وغیرہ جو اللہ تعالی کی صفات کی سلف صالحین کے مذہب کے بر خلاف تاویلات کرتے ہیں) استولی (قبضہ یا غلبہ ) ہے” 

(4) محدث يمن مقبل بن هادي الوادعي رحمہ اللہ:"من أئمة أهل البدع" (فضائح ونصائح ص:151)
وہ بدعتیوں کے اماموں میں سے ہے 
اسی طرح فرمایا:"هو يعتبر مبتدعا من المبتدعين" (شريط تحذير الحيران من تلبيسات السرورية والإخوان) 
 وہ بدعتیوں میں سے ایک بدعتی ہے. 

(5) علامہ صالح الفوزان حفظہ اللہ: 
آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا: کہ سید قطب کا کہنا ہے کہ اسلام (نظام آقا و غلام) غلامی کو برقرار نہیں رکھتا اس کو جو باقی رکھا ہے وہ لوگوں کے حملے اور انکار کے خوف سے باقی رکھا ہے کیونکہ غلامی کو لوگوں نے اپنے باپ دادا سے پایا ہے، اسلام نے من باب المجاملہ اس کو باقی رکھا ہے یعنی گویا اللہ رب العالمین لوگوں کے ساتھ مجاملت اور خوش معاملگی کر رہے ہیں، اور اللہ رب العالمین نے بتدریج رفع رق کی جانب اشارہ بھی کیا ہے حتی کہ وہ ختم ہو جائے" پھر اس نظریے پر رد کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: "
هذا كلام باطل وإلحاد - والعياذ بالله - هذا إلحاد واتهام للإسلام.ولولا العذر بالجهل، لأن هؤلاء نعذرهم بالجهل لا نقول إنهم كفارٌ ؛ لأنهم جهال أو مقلدون نقلوا هذا القول من غير تفكير فنعذرهم بالجهل، وإلا الكلام هذا خطير لو قاله إنسان متعمد ارتد عن دين الإسلام،

یہ کلام باطل اور الحاد ہے نعوذ باللہ یہ بے دینی ہے اور اسلام پر اتہام تراشی ہے، اگر جہالت کی وجہ سے عذر نہ ہوتا تو.... کیونکہ ہم انہیں جہالت کی وجہ سے معذور سمجھتے ہیں ہم انہیں کافر نہیں گردانتے، کیونکہ یہ جاہل ہیں یا پھر مقلد ہیں ان لوگوں نے یہ بات بغیر سوچے سمجھے نقل کر دی ہے لہٰذا ہم جہل کی وجہ سے انہیں معذور سمجھتے ہیں ورنہ یہ بات بہت خطرناک ہے اگر کوئی شخص جان بوجھ کر یہ بات کہے تو وہ دین اسلام سے مرتد ہو جائے گا (شریط:https://youtu.be/FmDTQ7Nf95g )

اسی طرح فرماتے ہیں:"و سيد قطب جاهل ما عنده علم ولا عنده معرفة ولا عنده أدلة على ما يقول" سید قطب جاہل ہے اس کے پاس علم نہیں ہے نہ ہی اس کے پاس معرفت ہے اور نہ ہی اپنی باتوں کی دلیل"( شریط:أقوال العلماء في إبطال قواعد ومقالات عدنان عرعور)

(6) علامہ صالح بن محمد اللحیدان: آپ سید قطب کی تفسیر "فی ظلال القرآن" کے بارے میں فرماتے ہیں:"بل هو مليء بما يخالف العقيدة، فالرجـل - رحمه الله نسأل الله أن يرحم جميع أموات المسلمين - ليس من أهل العلم"
بلکہ وہ کتاب (اہل سنت کے) عقیدے کے مخالف مواد سے بھری پڑی ہے اور سید قطب عالم دین نہیں تھا" 

(7) محدث مدینہ حماد بن محمد انصاری رحمہ اللہ:  سید قطب اپنی تصنیف “المعرکہ بين الإسلام والرأسمالية ” ص 61 میں‌کہتا ہے: “اسلام کے لئے واجب ہے کہ وہ حکومت کرے کیونکہ یہی وہ واحد مثبت و انشائی عقیدہ ہے جو عیسائیت اور کمیونزم دونوں سے ملکر کامل بنتا ہے ۔ ان دونوں کے اداف اپنے اندر رکھتا ہے، اور توازن، تنظیم اور اعتدال میں ان سے بڑھ کر ہے"
اس بات پر تعلیق لگاتے ہوئے شیخ فرماتے ہیں: إن كان قائل هذا الكلام حياً فيجب أن يستتاب، فإن تاب وإلا قتل مرتداً، وإن كان قد مـات فيجب أن يُبَيَّنَ أن هذا الكلام باطل ولا نكفره لإننا لم نقم عليه الحجة )
اگر اس بات کا کہنے والا (یعنی سید قطب) زندہ ہے تو وجوبا اس سے توبہ کروائی جائے گی اگر وہ توبہ کر لے تو ٹھیک ورنہ اس کو ارتداد کی حد میں قتل کر دیا جائے گا، اور اگر مر گیا ہے تو یہ بات بتانا لازمی ہے کہ یہ کلام باطل ہے اور ہم اس کی تکفیر نہیں کریں گے کیونکہ ہم نے  اس پر حجت قائم نہیں کیا ہے 
( كتاب "العواصم مما في كتب سيد قطب من القواصم" للشيخ المحدث ربيع المدخلي (ص24) .

(8) حامل لواء الجرح والتعديل في هذا الزمان علامہ ربيع بن هادي المدخلي حفظہ اللہ :
آپ نے اس کے رد میں کئی ساری کتابیں لکھی ہیں جن میں: أضواء إسلامية على عقيدة سيد قطب وفكره.
مطاعن سيد قطب في أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم .العواصم مما في كتب سيد قطب من القواصم .
" الحد الفاصل بين الحق والباطل " حوار مع بكر أبو زيد ، سيد قطب هو مصدر التكفير المجتمعات وغیرہ قابل ذکر ہیں.  آپ نے سید قطب کو "تکفیری، وحدت الوجود کا قائل، خلق قرآن کا قائل، حضرت موسیٰ کے سلسلے میں بد کلامی کرنے والا، حضرت عثمان اور معاویہ عمرو بن العاص وغیرہم کبار صحابہ کو گالی دینے والا، صفات باری تعالیٰ کا منکر، اشتراکیت کا داعی، قرآن کے علاوہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے تمام معجزات کا منکر قرار دیا ہے تفصیل کے لیے درج بالا کتابوں کا مطالعہ کریں. 

اسی طرح شیخ عبد المحسن العباد، شيخ محمد أمان جامي شيخ أحمد بن يحيى النجمي، شيخ عبيد بن عبد الله الجابري، شيخ عبد العزيز آل شیخ وغيرہم گویا اکثر کبار سلفی علما نے اس پر کلام کیا ہے..
 
 سید قطب کے انحرافات: 

 اول : سید قطب اللہ کے رسول موسی علیہ السلام کے سلسلے میں بد کلامی اور گستاخی کا مرتکب ہے:

سید قطب کہتا ہے: 

(1) "لنأخذ موسى؛ إنه نموذج للزعيم المندفع العصبي المزاج"( في ظلال القرآن ص:200)
“مثال کے طور پر ہم موسی علیہ الصلاۃ والسلام کو لے لیتے ہیں، وہ پر جوش، متعصب مزاج لیڈر کی ایک مثال ہیں”۔ 

(2) "وهنا يبدو التعصب القومي كما يبدو الانفعال العصبي)، على قول الله تعالى: {فَوَكَزَهُ مُوسَى} [القصص: 15] (ص200)   فوکزہ موسی کی تفسیر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہاں (موسی کی) قومی عصبیت ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ تعصب آمیز اشتعال کا بھی اظہار ہوتا ہے. 

(3) "وتلك سمة العصبيين" على قول الله تعالى: {فَأَصْبَحَ فِي الْمَدِينَةِ خَائِفاً يَتَرَقَّبُ} [القصص: 18] (ص201). 
آیت کریمہ فَأَصْبح فِي الْمَدِينَةِ خَائِفاً يَتَرَقّب کی تفسیر کرتے ہوئے سید قطب موسی علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے" یہ متعصب لوگوں کی علامت ہے" یعنی آیت میں جو کہا گیا ہے کہ آپ اندیشہ کی حالت میں خبر لینے کے لیے شہر میں گیے تو ایسا کرنا متعصب لوگوں کی علامت ہے 

(4) (ولكنه يهم بالرجل الآخر كما هم بالأمس وينسيه التعصب والاندفاع استغفاره وندمه)، على قول الله تعالى: {فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن يَبْطِشَ بِالَّذِي هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا} [القصص: 19]  (ص201).

اس آیت کریمہ پر تعلیق لگاتے ہوئے کہتا ہے: لیکن وہ دوسرے آدمی پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے جیسا کہ گزشتہ کل کیا تھا اور تعصب اور اشتعال انگیزی اسے اپنا استغفار اور ندامت بھلا دیتی ہے"

(5) ثم لندعه فترة أخرى لنرى ماذا يصنع الزمن في أعصابه ،  ولكن ها هو ذا يسأل ربه سؤالاً عجيباً): {قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ} [الأعراف: 143] (ص201-202). 
پھر ہم اسے(موسی کو) مزید تھوڑی مدت کے لیے چھوڑ کر دیکھتے ہیں کہ زمانہ اس کے اعصاب میں کیا کرتا ہے لیکن دیکھو اسے یہ رہا وہ اپنے رب سے کیسا عجیب مطالبہ کرتا ہے"

(6) (تقابل شخصية موسى شخصية إبراهيم؛ إنه نموذج الهدوء والتسامح والحكمة) على قول الله تعالى: {إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ} [هود: 75] (ص203).
موسی کی شخصیت کا ابراہیم کی شخصیت سے موازنہ کیجیے بیشک ابراہیم اطمینان تسامح اور حکمت کے مثال ہیں.....(مطلب موسی علیہ السلام ہدوء و سکون اور تسامح  و حکمت سے خالی ہیں..) 

سید قطب کی ان تمام باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ موسی علیہ السلام کے بارے میں وہ کیا سوچ رکھتا تھا اور اس کی نظر میں ان کا کیا مقام تھا... 

جبکہ اللہ رب العالمین نے انہیں منتخب کر کے بنو اسرائیل کا رسول بنایا تھا اور وہ الو العزم پیغمبروں میں سے تھے اس کے باوجود یہ مسکین آپ کو متعصب جوشیلا اور نہ جانے کیا کیا گالیاں دیتا ہے حالانکہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے {يَا مُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالاَتِي وَبِكَلامي} [الأعراف: 144] ، {وَأَنَا اخْتَرْتُكَ}  [طه: 13] ، {وَلِتصْنعَ على عيْني}  [طه:39]  {واصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي} [طه: 41}  {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهاً} [الأحزاب: 69] ، 
اور اللہ کے رسول محمد صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: « يرحم الله موسى، قد أوذي بأكثر من هذا فصبر » رواه البخاري. اللہ رب العالمین موسی علیہ السلام پر رحم فرمائے انہیں اس زیادہ تکلیفیں پہنچائی گئیں مگر انہوں نے صبر سے کام. 

 دوم: جلیل القدر صحابی رسول و خلیفہ ثالث ذوالنورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر طعن وتشنیع: 

سید قطب کہتا ہے :"ونحن نميل إلى اعتبار خلافة علي رضي الله عنه امتداداً طبيعيّاً لخلافة الشيخين قبله، وأن عهد عثمان [الذي تحكّم فيه مروان] كان فجوة بينهما ). (العدالة الاجتماعية ـ ص172- دار الشروق 1415).

  “اور ہم اس طرف مائل ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت اپنے سے ماقبل شیخین (ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم) کی خلافت کا ہی ایک طبعی تسلسل تھی، جہاں‌ تک عثمان رضی اللہ عنہ کے دور حکومت کا تعلق ہے (جس میں مراون نے حکومت پر قبضہ جما لیا تھا) تو وہ ان دونوں کے درمیان ایک دراڑ تھا”۔ (نعوذباللہ) 

 کہتا ہے: "وإنه لمن الصعب أن نتّهم روحَ الإسلام في نفسِ عثمان، ولكن من الصعب كذلك أن نعفيه من الخطأ ) (العدالة الاجتماعية ص:160)
"یہ مشکل امر ہے کہ ہم عثمان کی ذات میں روح اسلام کو متہم کریں لیکن یہ بھی مشکل ہے کہ ہم عثمان کو خطا سے بری کر دیں" 

مزید ایک جگہ کہتا ہے:"لقد أدركت الخلافةُ عثمان وهو شيخٌ كبيرٌ، ومن ورائه مروان بن الحكم يصرِّفُ الأمر بكثير من الانحراف عن الإسلام. (العدالة الاجتماعية ـ ص159ـ دار الشروق1415). 
عثمان کو خلافت اس وقت ملی جب وہ بوڑھے ہو چکے تھے، جب کہ ان کے پس پردہ اسلام سے بہت زیادہ منحرف ہو کر مروان حکومت کر رہا تھا" 
اسی طرح سید قطب نے حضرت عثمان پر یہ الزام لگایا ہے کہ آپ نے اپنے رشتہ داروں کو اعلی مناصب پر فائز کر رکھا تھا اور انہیں گراں قدر مال و اسباب سے بھی نواز رکھا تھا چنانچہ انہوں نے اپنے داماد کو شادی کے دن دو لاکھ درہم دیا تھا جب صبح ہوئی تو بیت المال کا خازن زید بن ارقم غمگین ہو کر روتے ہوئے آیا اور انہوں نے استعفی طلب کیا سبب پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آپ کے اپنے داماد کو مسلمانوں کے مال سے عطیہ دینے کی وجہ سے وہ مستعفی ہو رہے ہیں تو حضرت عثمان نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ائے ابن ارقم کیا تم میری صلہ رحمی پر رو رہے ہو؟.......(اپنے قرابت داروں پر) ان توسعات کی بہت ساری مثالیں عثمان کی سیرت میں مل جائے گی ان میں سے ان کا حضرت زبیر کو ایک روز چھ لاکھ دراہم دینا، طلحہ کو دو لاکھ دراہم دینا اور مروان بن حکم کو افریقہ کے خراج کا خمس دے دینا.... اس پر صحابہ کرام میں سے بہت سے لوگوں نے عثمان کی سرزنش بھی کی جن میں سرفہرست حضرت علی بن ابی طالب ہیں مگر انہوں نے کہا کہ یہ قرابت داری اور صلہ رحمی ہے ..... ان میں معاویہ بھی ہے جسے انہوں نے وسعت کے ساتھ ممالک عطا کیا اور ان کی حکومت میں  فلسطین اور حمص کو بھی شامل کر دیا ..... اور اس کے بعد حضرت علی کی خلافت میں ان سے حکومت طلب کرنے کا راستہ بھی  ہموار کیا..... (ملاحظہ فرمائیں: العدالة الاجتماعية ص:159)
وغیرہ وغیرہ طعون جنہیں شیخ ربیع بن ہادی المدخلي کی کتاب "نظرۃ سید قطب الی اصحاب رسول اللہ" میں بالتفصیل دیکھا جا سکتا ہے.. 

یہ ہے خلیفہ رسول کے بارے میں سید قطب کی رائے جن سے فرشتے حیا محسوس کرتے تھے خود اللہ کے رسول حیا کرتے تھے اور جنہیں اللہ رسول نے جنت و شہادت کی خوشخبری سنائی تھی... 

صحابہ پر طعن و تشنیع کرنا زندیقیت اور الحاد ہے  شیخ بکر ابو زید (قطبی) کہتے ہیں :"أطبق أهل الملة الإسلامية على أن الطعن في واحد من الصحابة رضي الله عنهم زندقة مكشوفة"( تصنيف الناس بين الظن واليقين ص:26) ملت اسلامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی ایک بھی صحابی پر طعن و تشنیع کھلی زندیقیت ہے"

 سوم: دیگر کبار صحابہ کرام پر طعن و تشنیع :

سید قطب کہتا ہے: ” معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کی علی رضی اللہ عنہ پر غالب آنے کی وجہ یہ نہیں‌تھی کہ وہ ان سے زیادہ لوگوں‌کی نفسیات سے واقف تھے، اور حالات کی مناسبت سے صحیح‌ قدم اٹھانے میں زیادہ سمجھ بوجھ رکھتے تھے، بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ دونوں ہر قسم کے حربے استعمال کرنے میں آزاد تھے جبکہ علی رضی اللہ عنہ کو اس جنگ کے وسائل چننے میں ان کو ان کے اعلی اخلاق و کردار نے پابند سلاسل کر رکھا تھا۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی جھوٹ، دھوکہ بازی، چالبازی، منافقت، رشوت اور لوگوں‌کو خریدنے میں تیزی دکھاتے، ایسے وقت میں علی رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو اتنا نیچے نہیں‌ گرا پاتے چناچہ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں‌ کہ وہ کامیاب ہوں‌ اور علی رضی اللہ عنہ ناکام ہو جائیں، اور یہ وہ ناکامی ہے جو تمام کامیابیوں‌ سے بڑھ کر ہے”(کتب و شخصیات ص: 242)

اسی طرح اثنا عشری شیعی معتزلی بدعتی مسعودی کی موضوع روایت پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی بات نقل کرتا ہے اور اس کا اثبات کرتے ہوئے جلیل القدر مبشرین بالجنۃ صحابہ کرام پر طعن کرتا ہے سید قطب کہتا ہے: یہ ایک مسلم ضمیر کی بیداری کی آواز تھی (ابو ذر رضی اللہ عنہ کے حضرت عثمان کو ڈانٹنے کے سلسلے میں ایک من گھڑت قصے کے بارے میں کہتا ہے) جسے بے تحاشا دولت وثروت کی کثرت کے سامنے حرص و طمع نے نشہ میں مبتلا(مخمور) نہیں کیا جو(دولت وثروت کی فراوانی) اسلامی جماعت کو طبقات میں بانٹتی تھی اور ان اقدار کو پامال کرتی تھی جنہیں لوگوں کے درمیان بحال کرنے کے لیے اسلام آیا تھا، یہاں  ہمارے لیے کافی ہے کہ ہم ان اموال کثیرہ کی مثال ذکر کریں جس کا ذکر مسعودی نے کیا ہے وہ کہتا ہے: عثمان کے زمانے میں صحابہ نے زمینیں اور اموال جمع کر لیا تھا، چنانچہ جس دن عثمان قتل کیے گیے اس دن ان کے خازن کے پاس ڈیرہ سو ہزاز ہزار (150,000,000) درہم تھا، اور وادی القریٰ اور حنین میں ان کی زمینوں کی قیمت ایک لاکھ دینار تھی نیز بہت سارے اونٹ اور گھوڑے چھوڑے تھے اور حضرت زبیر کی وفات کے بعد ان کے ترکہ کا ایک ثمن(آٹھواں حصہ) پچاس ہزار دینار تھا، انہوں نے اپنے پیجھے ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار غلام چھوڑا تھا، اسی طرح عراق سے روزانہ حضرت طلحہ کا ایک لاکھ قیمت کے بقدر غلہ آتا تھا، عبد الرحمن بن عوف کے اصطبل میں ایک ہزار گھوڑے تھے ان کے ایک ہزار اونٹ اور دس ہزار بکریاں تھیں، زید بن ثابت نے اتنا سونا چاندی چھوڑا تھا جو کلہاڑوں سے کاٹے جانے کے قابل تھا، سعد بن ابی وقاص نے عقیق سے ایک گھر بنایا تھا اس کے چھت کو اونچا اور فضاؤں کو وسیع کیا تھا، حضرت مقداد نے مدینے میں ایک گھر بنایا تھا اور اس کے ظاہر و باطن کو چونا گچ کر رکھا تھا، یعلی بن منبہ نے ترکے میں پچاس ہزار دینار اور اتنی چیزیں چھوڑی تھی جن کی قیمت تین لاکھ درہم تھی ). (العدالة الاجتماعية ـ ص175ـ دار الشروق1415).

 چہارم: صحابی رسول حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دینا:

سید قطب کہتا ہے:" ابو سفیان رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کو جو تکلیفیں اور اذیتیں پہنچیں‌ ان سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں اور انہوں نے اس وقت اسلام قبول کیا جب اسلام اپنی فیصلہ کن فتح کے جھنڈے گاڑچکا تھا، چنانچہ یہ محض ہونٹ اور زبان کا اسلام تھا، قلب (دل) ووجدان کا نہیں، اسلام اس شخص کے دل میں راسخ نہ ہوا”۔ (اخبار: المسلمون، شمارہ 3 سال 1371ھ )

صحابہ پر طعن و تشنیع کرنا کس قدر خطرناک امر ہے اس کا اندازہ امام اہل السنۃ ابو زرعہ رازی کی اس بات سے لگائیے اور فیصلہ کیجئے کہ سید قطب کی گستاخی کس درجہ عظیم ہے: قال أبي زرعة الرازي رحمه الله تعالى في (فتح المغيث) (4/94): ( إذا رأيت الرجل ينتقص أحداً من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعلم أنه زنديق، وذلك أن القرآن حق، والرسول حق، وما جاء به حق، وإنما أدى إلينا ذلك كله الصحابة فهؤلاء يريدون أن يجرحوا شهودنا؛ ليبطلوا الكتاب والسنة، والجرح بهم أولى، وهم زنادقة) (تصنيف الناس بين الظن واليقين ـ ص26 ـ دار العاصمة 1414).
امام ابو زرعہ فرماتے ہیں: جب تم کسی آدمی کو کسی صحابی کی تنقیص کرتے ہوئے دیکھو تو جان لو کہ وہ زندیق ہے اور یہ اس وجہ سے کہ قرآن حق ہے رسول برحق ہیں اور رسول جو کچھ لائیں ہیں وہ بھی برحق ہے اور یہ ساری چیزیں ہم تک پہچانے والے صحابہ ہیں چنانچہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے گواہوں کو مجروح کر دیں تاکہ کتاب و سنت کو باطل قرار دیں یہ خود جرح کے زیادہ مستحق ہیں یہ زنادقہ (ملحد بے دین) ہیں.

 پنجم: سید قطب وحدت الوجود کا عقیدہ رکھتا ہے. 

 سید قطب فی ظلال القرآن سورہ اخلاص کی تفسیر میں‌لکھتا ہے: ” یہ وجود کا ایک ہونا ہے۔ حقیقت صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اس(اللہ) کی حقیقت، اور حقیقت میں وجود بھی صرف اسی(اللہ ) کا ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی وجود ہے وہ اپنا وجود اس حقیق وجود سے لیتا ہے۔ اپنی حقیقت اس ذاتی حقیقت سے مستمد کرتا ہے۔ اس طرح یہ فعل انجام دینے کی احدیت (ایک ہونا) ہوئی، چناچہ اس وجود میں اس کے علاوہ کوئی فاعل نہیں ہے، اور نہ ہی کسی چیز میں کرنے والا ہے، اور یہ عقیدہ ضمیر مین‌ پہناں بھی ہے اور وجود کی تفسیر بھی”(في ضلال القرآن:6/4002)

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمتہ اللہ علیہ مجلة الدعوة شمارہ: (1591، 1418/1/9ھ) میں تفسیر ظلال القرآن کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: “میں نے سید قطب کی سورہ اخلاص کی تفسیر پڑھی ہے، اس نے اس میں بہت بڑی بات کہی ہے، جو اہل سنت و الجماعت کے منھج کے مخالف ہے کیونکہ اس کی تفسیر یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ وحدت الوجود کا قائل ہے۔ اسی طرح اس کی استواء کی تفسیر (گمراہ فرقے جیسے معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ وغیرہ جو اللہ تعالی کی صفات کی سلف صالحین کے مذہب کے بر خلاف تاویلات کرتے ہیں) استولی (قبضہ یا غلبہ ) ہے”
اسی طرح سید قطب کے دیگر اقوال سے بھی وحدت الوجود کا ثبوت ملتا ہے تفصیل کے لیے ان مراجع کا مراجعہ کریں: (في ظلال القرآن ـ ص:6/3479 ـ ص:6/3479-ج:6/ص:40003-) وغیرہ 

 ششم : سید قطب ان کے ہم منہج افراد کے علاوہ بالعموم تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتا ہے.

 سید قطب کہتا ہے: "لقد استدار الزمان كهيئته يوم جاء هذا الدين إلى البشرية بلا إله إلا الله ،ارتدت البشرية إلى عبادة العباد وإلى جور الأديان؛ ونكصت عن لا إله إلا الله، وإن ظل فريق منها يردد على المآذن: لا إله إلا الله ). (في ظلال القرآن ـ 4/2009- دار الشروق).ظلال القرآن”
“زمانہ بلکل اپنی اس شکل پر گھوم چکا ہے جس پر وہ اس وقت تھا جب یہ دین “لاالہ الاللہ” لے کر آیا، آج انسانیت بندوں کی عبادت اور ظالمانہ ادیان کی طرف مرتد ہو چکی ہے، اور "لاالہ الاللہ” سے پلٹ چکی ہے، اگر چہ بعض‌لوگ اب بھی میناروں پر”لاالہ الاللہ” دہرا رہے ہیں۔۔۔”

 لکھتا ہے: "إنه ليس على وجه الأرض اليوم دولة مسلمة ولا مجتمع مسلم؛ قاعدة التعامل فيه هي شريعة الله والفقه الإسلامي). (في ظلال القرآن ـ 4/4122- دار الشروق).

"آج روئے زمین پر کوئی ایسی مسلمان حکومت نہیں‌ہے اور نہ ہی کوئی ایسا مسلم معاشرہ ہے جس میں‌معاملات کی بنیاد شریعت الہیہ اور اسلامی فقہ پر رکھی گئی ہو”

لکھتا ہے: ونحن نعلم أن الحياة الإسلامية  ـ على هذا النحو ـ قد توقّفت منذ فترة طويلة في جميع أنحاء الأرض، وأن وجود الإسلام ذاته ـ مِنْ ثَمّ ـ قد توقّف كذلك). (العدالة الاجتماعية ـ ص185- دار الشروق 1415).

"اور ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے تمام انحا میں اسلامی زندگی اسی طرز پر ایک لمبی مدت سے ٹھہری ہوئی ہے، اسی طرح خود اسلام کا وجود بھی موقوف ہے"

  لکھتا ہے:"بلاشبہ آج مسلمان جہاد نہیں‌کر رہے ہیں، کیونکہ مسلمان آجکل موجود ہی نہیں‌ہیں! اسلام اور مسلمان کے وجود کا مسئلہ ہی آج حل کا محتاج ہے” (في ظلال القرآن:جلد 3، ص 1634)

 مزید لکھتا ہے: “یہ جاہلانہ معاشرہ جس میں‌ہم سانس لے رہے ہیں‌یہ اسلامی معاشرہ نہیں‌ہے”(ظلال القرآن جلد 4، ص 2009)

 ہفتم: جہمیہ معتزلہ کی طرح کلام اللہ قرآن کریم کو مخلوق قرار دیتا ہے.
قرآن کریم سے متعلق گفتگو کرتے ہوئےلکھتا ہے:"والشأن في هذا الإعجاز هو الشأن في خلق الله جميعاً، وهو مثل صنع الله في كل شيء، وصنع الناس ). (في ظلال القرآن ـ 1/38- دار الشروق).

“اس اعجاز میں وہی شان ہے جو اللہ تعالی کی تمام مخلوقات میں‌ہے، اور وہ ہر چیز میں اللہ کی اور لوگوں کی تخلیق کی طرح ہے"

 ایک جگہ اور حروف مقطعات پر کلام کرنے کے بعد لکھتا ہے: “ولكنهم لا يملكون أن يؤلّفوا من هذه [الحروف] مثل هذا الكتاب؛ لأنه من صنع الله لا من صنع الناس"(في ظلال القرآن - 5/2719).
لیکن وہ لوگ ان حروف سے اس کی جیسی کتاب تالیف نہیں‌ کر سکتے ہیں ، کیونکہ یہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ہے، انسان کی نہیں”

سورہ ص کی تفسیر میں‌کہتے ہین: “......وهذا الحرف [ص] من صنعة الله تعالى؛ فهو موجده صوتاً، وموجده حرفاً من حروف الهجاء ). (في ظلال القرآن ـ 5/3006)
اللہ تعالی اس حرف”ص” کی قسم اٹھا رہا ہے، بلکل اسی طرح جس طرح اس نے اس نصحیت و ذکر والے قرآن کی قسم اٹھائی ہے۔ اور یہ حرف اللہ تعالی کی بناوٹ میں‌ سے ہے، وہی بصورت آواز اس کا موجد(ایجاد کرنے والا) ہے،اور اسی نے اس کو حروف تہجی سے ایجاد فرمایا ہے”۔

 شیخ‌ عبد اللہ الدویش رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب “المورد الزلال التبیہ علی اخطاء تفسیر الظلال” ص 180 میں‌ اس کلام پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں‌: ” اور ان کا یہ کہنا کہ یہ حرف اللہ تعالی کا بنایا ہوا ہے اور وہی اس کا موجد ہے، یہ معتزلہ اور جہمیہ(جیسے گمرہ فرقوں‌) کا قول ہے جو قرآن کو مخلوق کہتے ہیں۔ جہاں‌ تک اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے تو وہ کہتے ہیں کہ: قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے، اس نے اسے نازل فرمایا ہے، (اللہ کا کلام اللہ تعالی کی صفت ہے) مخلوق نہیں‌ہے”۔

ایک جگہ لکھتا ہے: “بے شک قرآن ایک کائناتی مظہر ہے، جیسا کہ زمین اور آسمان ہے”(فی ظلال القرآن” (جلد 4، ص 2328)

خلق قرآن کا عقیدہ کس قدر مہلک ہے اس کا اندازہ امامان جلیلان ابو حاتم وابو زرعہ الرازیان کی اس بات سے لگائیے جو ان دنوں کے بقول ان سے ماقبل کے علمائے اہل سنت و الجماعت کا اجماعی عقیدہ تھا فرماتے ہیں: ومن زعم أن القرآن مخلوق فهو كافر بالله العظيم كفرا ينقل عن الملة،ومن شك في كفره ممن يفهم فهو كافر"(تكحيل العينين بشرح عقيدة الرازيين ص:215) 
جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ قرآن مخلوق ہے تو وہ اللہ ربّ العزت کے سلسلے میں کفر کا مرتک ہے ایسا کفر جو دین سے خارج کر دے، اور جو سمجھتے بوجھتے ہوئے ایسے شخص کے کفر میں شک کرے تو وہ بھی کافر ہے،(اللہ اکبر) 

قارئین کرام ان کے علاوہ بھی سید قطب کے بہت سارے  گمراہ کن عقائد ہیں جن کا تفصیلی ذکر ان شاء آئندہ قسط میں آپ حضرات کے سامنے ہوگا.. 

آخیر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان گمراہیوں سے بچاتے ہوئے راہ راست پر استقامت عطا فرمائے آمین. 

.

بھینس کی قربانی کا حکم؟ مقالات و فتاوی

.

🌺 ꧁ ﷽ ꧂ 🌺

بھینس کی قربانی کا حکم؟ 

مجموعہ مقالات و فتاوی 

جمع کردہ 
سید محمد عزیر ادونوی 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱ 

حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ لکھتے ہیں 

۔۔۔۔ یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے ام المومنین حضرت سودہ کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا لڑکا پید ا ہوا جو اپنی والدہ کے پاس پروش پاتا رہا زانی مر گیا اور اپنے سعد بن وقاص کو وصیت کر گیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ کرلینا فتح مکہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا اور کہا یہ میرا بھتیجہ ہے زمعہ کے بیٹے نے کہا کہ یہ میرے باپ کا بیٹا ہے لہذا میرا بھائی ہے اس کو میں لوں گا مقدمہ دربار نبوی میں پیش ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا الولد للفراش وللعاہر الحجر، اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے بچہ سودہ رضی اللہ عنھا کے بھائی کے حوالے کر دیا جو حضرت سودہ کا بھی بھائی بن گیا لیکن حضرت سودہ کو حکم فرمایا کہ وہ اس سے پردہ کرے کیونکہ اس کی شکل وصورت زانی سے ملتی تھی جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے 

دیکھئے اس مسئلہ میں شکل و صورت کے لحاظ سے تو پردے کا حکم ہوا اور جس کے گھر میں پیدا ہوا اس کے لحاط سے اس کا بیٹا بنا دیا گویا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا ایسا ہی معاملہ بھینس کا ہے اس میں دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہوگا، زکوۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے اس لئے بھینس کی قربانی جائز نہیں 

اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ الجاموس نوع من البقر یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی زکوۃ کے لحاظ سے ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے 

فتاوی اہل حدیث ج۲ ص۴۲۶ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲ 

سوال 
شیخ بھینس کی قربانی کے سلسلے میں راجح قول کیا ہے؟ 

جواب 
الجواب بعون الملك الوهاب 

بھینس کی قربانی کے سلسلے میں راجح قول یہ ہے کہ بھینس کی قربانی جائز نہیں ہے 

کیونکہ کتاب و سنت میں اسکے جواز کی کوئی دلیل نہیں ہے. اور (بقر/بقرة) یہ گائے اور بیل کو کہا جاتا ہے نہ کہ بھینس کو، اور اصل یہ ہے کہ لفظ کو اُس کے شرعى معنی پر محمول کیا جائے، پھر عرف عام پر پھر لغوی معنی پر، اور عرف عام میں (بقر) گائے اور بیل کو کہتے ہیں نہ کہ بھینس کو اور لغت سے استدلال کا مرحلہ شریعت اور عرف عام کے بعد آتا ہے اور لغت یہ شریعت اور عرف عام کے تابع ہے جس کی واضح مثال لفظ صلاة صوم اور حج وغيره ہے 

 الأستاذ المكرم فضيلة الشيخ الدكتور طارق صفي الرحمن المباکفوری (مبارکپوری) المدني 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۳ 

حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا فتوی 

اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری کی قربانی کتاب و سنت سے ثابت ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ
بھینس گائے کی ایک قسم ہے، اس پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے 

امام ابن المنذر فرماتے ہیں، 

و اجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر، 

اور اس بات پر اجماع ہےکہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے 

الاجماع کتاب الزکاۃ ص۴۳، حوالہ ۹۱ ک

ابنِ قدامہ لکھتے ہیں، 

 لا خلاف فی ھذا نعلمہ، 
 
 اس مسئلے میں ہمارے علم کے مطابق کوئی اختلاف نہیں 

المغنی ج۲، ص۲۴۰، مسئلہ ۱۷۱۱ ک

زکوۃ کے سلسلے میں، اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے، تا ہم چونکہ نبی کریمﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے صراحتا بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہذٰا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف گائے، اونٹ، بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے 

واللہ اعلم 

فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام، جلد دوم، ص181 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۴ 

 بھینس کی قربانی
تحریر : حافظ ابو یحییٰ نورپوری

قربانی کے جانور:
قرآنِ کریم نے قربانی کے لیے بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام کا انتخاب فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِگرامی ہے :
(وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِيْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُومٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃِ الْـاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوْا الْبَائِسَ الْفَقِیْرَ) (الحج 22:28)
”اور وہ معلوم ایام میں بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام پر اللہ کا نام ذکر (کر کے انہیں ذبح) کریں، پھر ان کا گوشت خود بھی کھائیں اور تنگ دستوں اور محتاجوں کو بھی کھلائیں۔”
خود قرآنِ کریم نے الْـأَنْعَام کی توضیح کرتے ہوئے ضَاْن(بھیڑ)، مَعْز(بکری)، اِبِل(اونٹ) اور بَقَر(گائے)، چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا۔اور ان کے مذکر و مؤنث کو ملا کر انہیں ثَمَانِیَۃ أَزْوَاج (جوڑوں کے لحاظ سے آٹھ)کہا۔(الأنعام 6:144-142)
انہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت ِمسلمہ کے نزدیک اجماعی و اتفاقی طور پر مشروع ہے۔ان جانوروں کی خواہ کوئی بھی نسل ہو اور اسے لوگ خواہ کوئی بھی نام دیتے ہوں، اس کی قربانی جائز ہے۔مثلاً بھیڑ کی نسل میں سے دنبہ ہے۔اس کی شکل اور نام اگرچہ بھیڑسے کچھ مختلف بھی ہے، لیکن چونکہ وہ بھیڑ کی نسل اور قسم میں شامل ہے، لہٰذا اس کی قربانی مشروع ہے۔اسی طرح مختلف ملکوں اور علاقوں میں بھیڑ کی اور بھی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیںجو دوسرے علاقوں والوں کے لیے اجنبی ہیں اور وہ انہیں مختلف نام بھی دیتے ہیں۔اس کے باوجود ان سب کی قربانی بھیڑ کی نسل و قسم ہونے کی بنا پر جائز اور مشروع ہے۔اسی طرح اونٹوں وغیرہ کا معاملہ ہے۔

گائے؛ قربانی کا ایک جانور :
قربانی کے جانوروں میں سے ایک ”بقر”(گائے)بھی ہے۔اس کی قربانی کے لیے کوئی نسل قرآن و سنت نے خاص نہیں فرمائی۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی زبانی ان کی قوم کو ”بقر” ذبح کرنے کا حکم دیا، لیکن قومِ موسیٰ نے اس کی ہیئت و کیفیت کے بارے میں سوال پر سوال شروع کر دیے جس کی بنا پر انہیں سختی کا سامنا کرنا پڑا۔سورہئ بقرہ کی کئی آیات اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔انہی آیات کی تفسیر میں امام المفسرین، علامہ ابوجعفر، محمد بن جریر بن یزید بن غالب، طبری رحمہ اللہ (310-224ھ)صحابہ و تابعین اور اہل علم کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
إِنَّھُمْ کَانُوا فِي مَسْأَلَتِھِمْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مُوسٰی، ذٰلِکَ مُخْطِئِینَ، وَأَنَّھُمْ لَو کَانُوا اسْتَعْرَضُوا أَدْنٰی بَقَرَۃٍ مِّنَ الْبَقَرِ، إِذْ أُمِرُوا بِذَبْحِھَا، ۔۔۔۔۔، فَذَبَحُوھَا، کَانُوا لِلْوَاجِبِ عَلَیْھِمْ، مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ فِي ذٰلِکَ، مُؤَدِّینَ، وَلِلْحَقِّ مُطِیعِینَ، إِذْ لَمْ یَکُنِ الْقَوْمُ حُصِرُوا عَلٰی نَوْعٍ مِّنَ الْبَقَرِ دُونَ نَوْعٍ، وَسِنٍّ دُونَ سِنٍّ، ۔۔۔۔۔، وَأَنَّ اللَّازِمَ کَانَ لَھُمْ، فِي الْحَالَۃِ الْـأُولٰی، اسْتِعْمَالُ ظَاھِرِ الْـأَمْرِ، وَذَبْحُ أَيِّ بَھِیمَۃٍ شَاءُ وا، مِمَّا وَقَعَ عَلَیْھَا اسْمُ بَقَرَۃٍ .
”قومِ موسیٰ، گائے کے بارے میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے سوالات کرنے میں غلطی پر تھی۔جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیاتھا، اس وقت وہ گائے کی کوئی ادنیٰ قسم بھی ذبح کر دیتے تو حکم الٰہی کی تعمیل ہو جاتی اور ان کا فرض ادا ہو جاتا، کیونکہ ان کے لیے گائے کی کسی خاص قسم یا کسی خاص عمرکا تعین نہیں کیا گیا تھا۔۔۔ ان کے لیے ضروری تھا کہ پہلی ہی دفعہ ظاہری حکم پر عمل کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا جانور ذبح کر دیتے، جس پر ‘بقر’ کا لفظ بولا جاتا تھا۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن [تفسیر الطبري] : 100/2)
معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ گائے ذبح کرنے کا حکم فرمائے تو گائے کی کوئی بھی قسم یا نسل ذبح کرنے سے حکم الٰہی پر عمل ہو جاتا ہے اور یہ بات لغت ِعرب میں اور اہل علم کے ہاں طَے ہے کہ جس طرح بختی، اِبِل(اونٹ)کی ایک نسل ہے، اسی طرح بھینس، بقر (گائے)کی ایک نسل و قسم ہے ۔اس میں متقدمین اہل علم کا بالکل کوئی اختلاف نہیں، جیسا کہ :

⚡اہل علم کا اتفاق :
امام اہل سنت، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (241-164ھ)سے پوچھا گیا کہ کیا بھینس کی قربانی میں سات حصے ہو سکتے ہیں؟تو انہوں نے فرمایا:
لَا أَعْرِفُ خِلَافُ ھٰذَا .
”مجھے اس میں کسی اختلاف کا علم نہیں۔”
(مسائل الإمام أحمد وإسحاق بروایۃ الکوسج، رقم المسئلۃ : 2865)
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے بھی اس بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے۔(أیضًا)
شیخ الحدیث، مولانا رفیق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
”یہ مسئلہ کہ قربانی میں بھینس ذبح کی جا سکتی ہے یا نہیں، سلف صالحین میں متنازعہ مسائل میں شمار نہیں ہوا۔چند سال سے یہ مسئلہ اہل حدیث عوام میں قابل بحث بنا ہوا ہے، جبکہ ایسے مسئلہ میں شدت پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔”
(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ از نعیم الحق ملتانی صاحب، ص : 19)
واقعی متقدمین اہل علم کا یہی خیال رہا ہے، جیسا کہ:

متقدمین اہل علم اور اہل لغت کی نظر میں :
1 لیث بن ابوسلیم(اختلط في آخر عمرہٖ)(م : 138/148ھ)کا قول ہے :
اَلْجَامُوسُ وَالْبُخْتِيُّ مِنَ الْـأَزْوَاجِ الثَّمَانِیَۃِ .
”بھینس(گائے کی ایک قسم) اور بختی(اونٹ کی ایک قسم)ان آٹھ جوڑوںمیں سے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔”(تفسیر ابن أبي حاتم : 1403/5، وسندہ، حسنٌ)
2 لغت و ادب ِعربی کے امام، ابومنصور، محمدبن احمد، ازہری، ہروی(370-282ھ) فرماتے ہیں : وَأَجْنَاسُ الْبَقَرِ، مِنْھَا الْجَوَامِیسُ، وَاحِدُھَا جَامُوسٌ، وَھِيَ مِنْ أَنْبَلِھَا، وَأَکْرَمِھَا، وَأَکْثَرِھَا أَلْبَانًا، وَأَعْظَمِھَا أَجْسَامًا .
”گائے کی نسلوں میں سے جوامیس(بھینسیں)ہیں۔اس کی واحد جاموس ہے۔یہ گائے کی بہترین اورعمدہ ترین قسم ہے۔یہ گائے کی سب اقسام میں سے زیادہ دودھ دینے والی اور جسمانی اعتبار سے بڑی ہوتی ہے۔”(الزاھر في غریب ألفاظ الشافعي، ص : 101)
3 امامِ لغت، علامہ، ابوالحسن، علی بن اسماعیل، المعروف بہ ابن سیدہٖ(458-398ھ) لکھتے ہیں : وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
”بھینس، گائے کی ایک نسل ہے۔”(المحکم والمحیط الأعظم : 283/7)
4 عربی زبان کے ادیب اور لغوی، ابوالفتح، ناصربن عبد السید، معتزلی، مطرزی (610-538ھ)لکھتے ہیں : وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
”بھینس، گائے ہی کی نسل سے ہے۔”(المغرب في ترتیب المعرب، ص : 89)
5 مشہور فقیہ ومحدث، علامہ عبد اللہ بن احمدبن محمد، المعروف بہ ابن قدامہ، مقدسی رحمہ اللہ (620-541ھ)فرماتے ہیں : وَالْجَوَامِیسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَالْبَخَاتِي نَوْعٌ مِّنَ الْإِبِلِ . ”بھینسیں، گائے کی نوع(نسل)سے ہیںاور بختی، اونٹوں کی نوع(نسل)سے۔”(الکافي في فقہ الإمام أحمد : 390/1)
6 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے جد امجد، محدث و مفسر، ابوالبرکات، عبد السلام بن عبد اللہ، حرانی رحمہ اللہ (652-590ھ)فرماتے ہیں:
وَالْجَوَامِسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ . ”بھینسیں، گائے کی ایک نوع (نسل) ہیں۔”
(المحرّر في الفقہ علٰی مذہب الإمام احمد بن حنبل : 215/1)
7 شارحِ صحیح مسلم، معروف لغوی، حافظ ابوزکریا، یحییٰ بن شرف، نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)، ابواسحاق شیرازی(474-393ھ)کی کتاب التنبیہ في الفقہ الشافعي کی تشریح و تعلیق میں فرماتے ہیں:
وَیُنْکَرُ عَلَی الْمُصَنِّفِ کَوْنُہ، قَالَ : وَالْجَوَامِسُ وَالْبَقَرُ، فَجَعَلَہُمَا نَوْعَیْنِ لِلبَقَرِ، وَکَیْفَ یَکُونُ الْبَقَرُ أَحَدَ نَوْعَيِ الْبَقَرِ ۔۔۔۔۔، قَالَ الْـأَزْھَرِيُّ : أَنْوَاعُ الْبَقَر، مِنْھَا الجَوَامِیسُ، وَھِيَ أَنْبَلُ الْبَقَرِ .
”مصنف کا [وَالْجَوَامِیسُ وَالْبَقَرُ] کہنا قابل اعتراض ہے، انہوں نے گائے اور بھینس کو گائے کی نسلیں قرار دیا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گائے ہی گائے کی دو نسلوں(بھینس اور گائے میں سے)ایک نسل ہو؟۔۔۔ازہری کہتے ہیں کہ بھینس، گائے کی ایک نوع ہے اور یہ گائے کی تمام نسلوں سے عمدہ ترین نسل ہے۔ ”
(تحریر ألفاظ التنبیہ، : 106)
8 لغت ِعرب میں امام وحجت کا درجہ رکھنے والے علامہ، ابوالفضل، محمدبن مکرم، انصاری، المعروف بہ ابن منظور افریقی(711-630ھ)فرماتے ہیں :
وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ . ”بھینس، گائے کی ایک نسل ہے۔”
(لسان العرب : 43/6)
9 معروف لغوی، علامہ ابوالعباس، احمدبن محمدبن علی، حموی(م:770ھ) لکھتے ہیں :
وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ . ”بھینس، گائے کی ایک نسل ہے۔”
(المصباح المنیر في غریب الشرح الکبیر : 108/1)
10 لغت ِعرب کی معروف و مشہور کتاب ”تاج العروس” میں مرقوم ہے :
اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ . ”بھینس، گائے کی نسل سے ہے۔”
(تاج العروس من جواھر القاموس لأبي الفیض الزبیدي : 513/15)
11 لغت ِعرب کی معروف کتاب ”المعجم الوسیط” میں ہے :
اَلْجَامُوسُ حَیَوَانٌ أَھْلِيٌّ، مِنْ جِنْسِ الْبَقَرِ .
”بھینس، گائے کی نسل سے ایک گھریلوجانور ہے۔”(المعجم الوسیط : 134/1)
نیز اسی کتاب میں لکھا ہے : اَلْبَقَرُ : جِنْسٌ مِّنْ فَصِیلَۃِ الْبَقَرِیَّاتِ، یَشْمَلُ الثَّوْرَ وَالْجَامُوسَ . ”بَقَر، گائے کے خاندان سے ایک جنس ہے جو کہ بَیل(گائے) اور بھینس پر مشتمل ہے۔”(المعجم الوسیط : 65/1)
اس سے معلوم ہوا کہ چودھویں صدی کے بعض انتہائی قابل احترام اہل علم کا یہ کہنا کہ ‘بھینس کاگائے کی نسل سے ہونا اہل علم سے واضح طور پر ثابت نہیں، بلکہ بھینس بعض احکام میں گائے کی طرح تھی اور اس کے لیے لفظکَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ(گائے جیسی)مستعمل تھا۔اور کسی لغوی کو غلطی لگنے کی وجہ سے اس نے کَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ(گائے جیسی)کے بجائے نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَر(گائے کی نسل) لکھ دیا۔۔۔’قطعاًدرست نہیں، کیونکہ غلطی کسی ایک اہل علم یا لغوی کو لگنی تھی یا سارے اہل علم اور لغویوں کو؟بہت سے معروف لغویوں اور اہل علم نے اپنی مشہور زمانہ کتب میں بھینس کے گائے کی نسل ہونے کی تصریح کی اور ہمارے علم کے مطابق تیرہویں صدی ہجری تک کسی ایک بھی لغوی نے اس کی تردید یا انکار نہیں کیا۔اگر یہ بات غلط ہوتی تو ماہرین لغت ِعرب ضرور اس کی وضاحت کرتے۔

بھینس کے نام میں گائے کا ذکر :
بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ گائے اور بھینس کے نام ہی میں فرق ہے۔اگر بھینس، گائے کی نسل سے ہوتی تو اس کا نام گائے ہوتا، نہ کہ کچھ اور۔جب عرف میں اسے کوئی گائے کہتا اور سمجھتا ہی نہیں تو یہ گائے ہے ہی نہیں۔ان کے لیے عرض ہے کہ بھینس کے لیے عربی میں لفظ ِ”جاموس”استعمال ہوتا ہے جو کہ فارسی سے منتقل ہو کر عربی میں گیاہے۔فارسی میں یہ نام ”گاؤمیش”تھا۔عربی زبان کی اپنی خاص ہیئت کی بنا پر اس کا تلفظ تھوڑا سا بدل گیا اور یہ ”جاموس” ہو گیا۔اس بات کی صراحت لغت ِعرب کی قریباً تمام امہات الکتب میں لفظ ”جاموس” کے تحت موجود ہے۔اس فارسی نام میں واضح طور پر لفظ ”گاؤ”(گائے) موجود ہے۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھینس اصل میں گائے ہی کی ایک نسل ہے۔چونکہ گائے کی یہ نسل(بھینس)عربی علاقوں میں موجود نہیں تھی، بلکہ عجمی علاقوں میں ہوتی تھی، عربوں کے ہاں معروف نہ تھی، اسی لیے اس کا نام فارسی سے عربی میں لانا پڑا۔
اس کی وضاحت کے لیے ہم معروف عرب عالم ومفتی، شیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ (1421-1347ھ) کا قول نقل کرتے ہیں۔ان سے بھینس کی قربانی کے بارے میں سوال ہوا اور پوچھا گیا کہ جب بھیڑ اور بکری دونوں کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا ہے (حالانکہ یہ ایک ہی نسل [غنم] سے ہیں)تو بھینس اور گائے دونوں کا ذکر کیوں نہیں کیا(اگر یہ بھی ایک ہی نسل ہیں)؟تو انہوں نے فرمایا : اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَاللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذَکَرَ، فِي الْقُرْآنِ، الْمَعْرُوفَ عِنْدَ الْعَرَبِ الَّذِینَ یُحَرِّمُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَیُبِیحُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَالْجَامُوسُ لَیْسَ مَعْرُوفًا عِنْدَ الْعَرَبِ .
”بھینس، گائے ہی کی نسل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں صرف ان جانوروں کا ذکر کیا ہے، جو عربوں کے ہاں معروف تھے۔(دور جاہلیت میں)عرب اپنے پسندیدہ جانوروں کو حلال اور اپنے ناپسندیدہ جانوروں کو حرام قرار دےتے تھے۔بھینس تو عربوں کے ہاں معروف ہی نہ تھی(اور مقصد حلت و حرمت بتانا تھا، نہ کہ نسلیں)۔”
(مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین : 34/25)

تنبیہ :
بعض اہل علم کا یہ کہنا درست نہیں کہ چونکہ نبی اکرمeاور صحابہ کرام نے بھینس کی قربانی نہیں کی، لہٰذا اس کی قربانی سے احتراز بہتر ہے اور یہ احوط واولیٰ ہے۔ہمارا ان اہل علم سے مؤدبانہ سوال ہے کہ ان کی یہ احتیاط صرف گائے کی ایک نسل ”بھینس”ہی کے بارے میں کیوں ہے؟ان کو چاہیے کہ گائے کی جو جو نسلیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے قربانی میں ذبح کیں، صرف انہی کی اجازت دیں۔کیا بھینس کے علاوہ موجودہ دور میں پائے جانے والی گائے کی تمام نسلیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے قربانی میں ذبح کی تھیں؟ اس طرح تو دیسی، ولائتی، فارسی، افریقی، تمام قسم کی گائے کی قربانی سے احتراز کرنا ہو گا اور اسی طرح بھیڑ و بکری اور اونٹ کا بھی معاملہ ہو گا۔پھر ہر شخص قربانی کے لیے عربی گائے، عربی اونٹ، عربی بھیڑ اور عربی بکرا کہاں سے لائے گا؟اگر کوئی عربی نسل سے کوئی جانور تلاش بھی کر لے تو اسے تحقیق کرنا پڑے گی کہ یہ بعینہ اسی نسل سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے قربانی کی تھی یا بعد میں پیدا ہونے والی کوئی نسل ہے!!!
پھر یہ احتیاط والی بات اس لیے بھی عجیب سی ہے کہ اگر بھینس، گائے نہیں تو اس کی قربانی سرے سے جائز ہی نہیںاور اگر یہ گائے ہے تو اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کوئی درمیانی راستہ تو ہے ہی نہیں۔

الحاصل :
بھینس، گائے کی ایک نسل ہے۔اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں۔ واللّٰہ أعلم بالصواب وعلمہ أبرم وأحکم.

http://mazameen.ahlesunnatpk.com/buffalobhains-ki-qurbani/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۵ 

بھینس کی قربانی 
جائز یا ناجائز ؟ 
 فقہ کی روشنی میں 
 
حمود دریابادی بن عبد السمیع المدنی 

‌استاد الاساتذہ، شیخ الحدیث، (جامعہ اسلامیہ دریاباد) فضیلۃالشیخ مولانا محمد جعفر انوارالحق الھندی حفظہ اللہ و تولاہ بھینس کی قربانی کے متعلق فرماتے ہیں کہ 
''بھینس کی قربانی درست نہیں ہے کیوں کہ اسکی قربانی کا ثبوت قرآن و سنت اور تعامل صحابہ میں موجود نہیں ہے اس لئیے اس کی قربانی کرنا غلط ہے، قربانی ایک عبادت ہے اور عبادت کے لئیے دلیل چاہئیے بغیر دلیل کے عبادت ثابت نہ ہوگی اور چونکہ بھینس کی قربانی کے لئیے کوئی دلیل نہیں ہے اس لئیے شریعت میں بھینس کی قربانی درست نہ ہوگی'' 
‌قاعدہ ہے اَلْأَصْلُ فِي الْعِبَادَاتِ اَلْبُطْلَانُ حَتَّى يَقُومَ دَلِيْلٌ عَلَى الْأَمْرِ 
‌ شرعی نقطئہ نظر سے جب تک کسی عبادت کے متعلق کوئی دلیل نہیں مل جاتی تب تک کسی بھی قسم کی عبادت کرنا بدعت، باطل اور فاسد ہے 

‌ قارئین:- سورۃ الانعام 142/143/144 میں جن جانوروں کی قربانی کرنے کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے اس میں بھینس شامل ہی نہیں ہے تو پھر ہمیں اسکی قربانی کرنے کا حق کہاں سے مل گیا؟ 
‌ اس کی مشروعیت کا ثبوت کہاں سے مل گیا؟ 
‌ ہمیں اس کی قربانی کرنے کی اجازت کس نے دی؟ 
‌ کیا ہمارا دین ساڑھے چودہ سو سال پہلے مکمل نہیں ہوا تھا؟ 
‌یا نعوذباللہ اب بھی مسئلوں کے ایاب و ذہاب کا سلسلہ جاری و ساری ہے؟ 

‌بعض حضرات لغویوں کے اس قول '' اَلْجَامُْوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ'' کے بناء پر کہتے ہیں کہ بھینس کی قربانی جائز ہے 
‌ شیخ الحدیث (جامعہ اسلامیہ دریاباد) اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں 
‌ کہ ایسے لوگوں کو'' اہل لغت کے ان اقوال پر بھی غور کرنا چاہئیے '' وَ یُقَالُ اَلثَّوْرُ الْوَحْشِیُّ '' شَاۃً'' (تہذیب اللغۃ 6/191 
‌ اور: وَ قِیْلَ اَلشَّاۃُ تَکُوْنُ مِنَ الْضَأْنِ وَالْمَعْزِ وَالظَّبَاءِ وَالْبَقَرِ وَالنِّعَامِ وَحِمْرِالْوَحْشِ (تہذیب اللغۃ4/402-403) 
‌ اور: وَالْشَّاۃُ اَلْوَاحِدَۃُ مِنَ الْغَنَمِ تَکُوْنُ لِلذَّکَرِ وَالْأُنْثىَ وَقِیْلَ اَلْشَّاۃُ تَکُوْنُ مِنَ الضَّأْنِ وَالْمَعْزِ وَالظَّبَاءِ وَالْبَقَرِ وَالِّنعَامِ وَ حِمْرِالْوَحْشِ (لسان العرب لابن منظور 13/509''
تو اب یہ بتائیے کیا لغت کے اعتبار سے یہ کہا جائے گا کہ ہرن، اور نیل گائے، بھیڑیا، اور جنگلی گدھے شاۃ کی قسم میں داخل ہونے کی وجہ سے ان کی قربانی جائز ہوگی؟ ان کی قربانی کرنا مشروع ہوگا؟ 

نیز 
کہتے ہیں:- کہ بھینس کی قربانی اس لئیے جائز ہے کیوں کہ وہ جگالی کرتی ہے 
 حضور جگالی تو Sheep (بھیڑیا)، (Deer ہرن)، 
Red Deer( لال ہرن ) 
Domestik Sheep ( گھریلو بھیڑ) 
Zingo 
Bongos
Info Dunia 
یہ سب بھی کرتے ہیں تو ان کی بھی قربانی کو مشروع قرار دے دیجئیے 
اسی لئیے قاعدہ بنایا گیا کہ '' لا قیاس مع النص'' قرآن و سنت کے ہوتے ہوئے عقل کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا، اگر عقل کا اعتبار کریں گے تو ایسی صورت میں اِن جانوروں کی قربانی کو بھی مشروع قرار دینا پڑے گا- 

اور رہ گئی بات بھینس کے گوشت اور دودھ کو کھانے پینے کے ناطے قربانئی بھینس کے جواز کی 
تو اس متعلق شیخ الحدیث (جامعہ اسلامیہ دریاباد) فرماتے ہیں کہ '' شریعت نے اس کو حرام قرار نہیں دیا ہے، اور ماکولات میں جسے شریعت نے حرام قرار نہیں کیا ہے وہ بالاتفاق حلال ہے کیوں کہ حدیث میں ہے 
........ اَلْحَلاَلُ مَا أَحَلَّ اللّهُ وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ (ابوداؤد:380) 
بھینس کا گوشت کھانا اور اس کا دودھ پینا عبادت نہیں ہے کہ اس کے لئیے دلیل کی ضرورت ہو بلکہ اس کا تعلق معاملات سے ہے جس میں اصل یہ ہے کہ ہر چیز حلال ہے سوائے اس کے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہو اس لئیے بلا شک و شبہ بھینس کا گوشت حلال و مباح ہے قاعدہ ہے وَالْأَصْلُ فِي الْعِبَادَاتِ اَلْمَنَعُ وَالتَّوْقِيْفُ وَ فِی الْعَادَاتِ اَلْإِبَاحَةُ وَالْإِذنُ وَفِی الْإِبْضَاعِ التَّحْرِيْمُ وَ فِي الْأَمْوَالِ اَلْمَنَعُ 

اب آئیے کتب احناف سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں 
قارئین عظام وکرام: 

احناف کے نزدیک بھینس کی قربانی جائز ہے اور ان کا یہ جواز کسی آیت و حدیث سے ماخوذ نہیں، بلکہ بھینس کی قربانی کے جواز کی دلیل '' ہدایہ'' کی یہ عبارت ہے:'' وَيَدْخُلُ في الْبَقَرِ الْجَامُوْسُ لِأَنَّهُ مِنْ جِنْسِهِ'' اور بھینس گائے کے حکم میں داخل ہے کیوں کہ بھینس گائے کی جنس ہے - 

لیکن یہ استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے 

1 صاحب ہدایہ کی عبارت ہی دلیل ہے کہ بھینس اور گائے کی اجناس مختلف ہیں. کیوں کہ جو چیز حکماً کسی اور جنس میں داخل ہو. اسکی جنس اس چیز سے یقیناً مختلف ہوتی ہے - 

2 احناف کی عبارات اس بات کی گواہ ہیں کہ بھینس گائے کی جنس نہیں بلکہ بھینس اور گائے کی جنس مختلف ہیں. اس کے دلائل حسب ذیل ہیں 

‌1 فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب در المختار میں مذکور ہے کہ '' وَلَا یَعُمُّ الْبَقَرُ الْجَامُوْسَ '' گائے بھینس کو عام نہیں (جنسِ گائے میں بھینس شامل نہیں) درالمختار:4/80 

‌ حاشیہ رد المختار کے مصنف اس عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں: '' وَلَا یَعُمُّ الْبَقَرُ الْجَامُوْسَ (گائے بھینس کو شامل نہیں) أَیْ فَلَوْ حَلَفَ لَا يَأْكُلُ لَحْمَ بَقَرٍ وَلَا يَحْنَثُ بِأَكْلِ الْجَامُوْسٍ كَعَكْسِهِ لِأَنَّ النَّاسَ يُفَرِّقُوْنَ بَيْنَهُمَا؛
‌قِيْلَ يَحْنَثُ لِأَنَّ الَبَقَرَ أعم 
‌ وَالصَّحِيْحُ الْاَوَّلُ كَمَا فِی النَّهْرِ التَّاتَرْخَانِيَةِ '' 

‌ یعنی اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ وہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا. تو بھینس کا گوشت کھانے سے اسکی قسم نہیں ٹوٹے گی. 
‌اسی طرح کوئی بھینس کا گوشت نہ کھانے کی قَسم کھائے تو گائے کا گوشت کھانے سے اسکی قَسم نہیں ٹوٹے گی. 
‌ ایک ضعیف قول ہے کہ اِس عمل سے اسکی قَسم ٹوٹ جائےگی. کیوں کہ گائے عام ہے جس میں بھینس شامل ہے. 
‌ لیکن پہلا قول راجح ہے 
‌ جیسا کہ '' النھر'' میں فتاویٰ '' تاتار خانیہ'' سے منقول ہے- ( دیکھیں حاشیہ رد المختار:4/80) 

‌ ''ہدایہ'' کی معروف شرح '' فتح القدیر'' میں منقول ہے: '' وَالْبَقَرُ لَا یَتَنَاوَلُ الْجَامُوْسَ لِلْعُرْفِ'' 

‌عرفِ عام میں بھینس گائے کی جنس میں شامل نہیں ہے- (دیکھیں فتح القدیر:11/267) 

‌جب خود احناف بھینس کو گائے کی جنس تسلیم نہیں کرتے تو اِس مختلفُ الجنس چوپائے کو قربانی کے اُن چوپاؤں میں کیسے شامل کیا جاسکتا ہے. جن کے بارے میں قرآن و سنت میں واضح نص بیان ہوئی ہے 

‌ میرے والد محترم شیخ الجامعہ (جامعہ اسلامیہ دریاباد) فضیلۃالشیخ حافظ مولانا عبد السمیع المدنی نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ '' اگر احناف اپنی کتابوں کا مطالعہ تعصب کے عینک کو اتار کر کریں تو انہیں اہل حدیثوں کا منہج اپنانے میں زرا دیر نہ لگے گی '' 

‌محترم قارئین:- جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ احناف کی کتابوں میں خود اس بات کا ذکر موجود ہے کہ بھینس گائی کی جنس سے نہیں ہے 
‌ پھر بھی علماء احناف بھینس کو جبرا گائے کی جنس میں شامل کرتے ہیں 
‌ اللہ رب العالمین سے دعاء ہے کہ رب العالمین سب کو دین اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے 
‌ آمین 
http://www.urdu.carekhabar.com/2018/08/1900/

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۶ 

بھینس کی قربانی کا حکم 

قربانی کے جانور کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ، وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ(الانعام:142-143)
ترجمہ : آٹھ اقسام، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو، کہہ دیجئے کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جس پر ددنوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو۔
اللہ تعالی نے نام لیکر آٹھ قسم کے قربانی کے جانور کی تعیین کردی جبکہ کھائے جانے والے جانور بے شمار ہیں۔ آٹھ قسم: دو قسم بکری نرومادہ، دوقسم بھیڑ نرومادہ، دوقسم اونٹ نرو مادہ اور دو قسم گائے نرومادہ۔ گویا ان آٹھ اقسام میں قربانی کے لئے نویں کسی جانور کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ ان اقسام میں بھینس کا ذکر نہیں ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ عرب میں اس وقت بھینس نہیں معروف تھی اور یہ گائے کی جنس سے ہے ۔ اس کا حکم وہی ہے جو گائے کا خواہ زکاۃ کے لئے ہو، قربانی کے لئے ہو یا گوشت کھانے اور دودھ پینے کے طور پر ہو۔ یہ بات صحیح ہے کہ بھینس عرب میں متعارف نہیں تھی مگر بھینس دنیا میں موجود تھی، اللہ اس کا خالق ہے وہ کوئی بات بھولتا نہیں ۔ اگر چاہتا توقربانی کے جانور کی فہرست میں اسے بھی ذکر کرسکتا تھا۔
خلاصہ کے طور پر میرا یہ کہنا ہے کہ بھینس حلال جانور ہے، اس کو قربانی کے تئیں وجہ نزاع نہ بنایا جائے، سیدھی سی بات ہے اگر ہمارے یہاں قرآن میں مذکور آٹھ اقسام میں سے کسی قسم کا جانور پایا جاتا ہے تو اس کی قربانی کریں جس میں کوئی شک نہیں اور نہ اختلاف ہے البتہ متعدد اہل علم نے بھینس کو گائے کی جنس سے مانا ہے اور اس بنیاد پہ اس کی قربانی کا جواز فراہم کیا ہے ۔ عرب کے علماء بھی جواز کے قائل ہیں ۔ لہذا کسی کا دل اس پہ مطئمن ہو تو اس پہ کسی قسم کا جبر نہیں کیا جائے ۔

مقبول احمد سلفی طائف 
https://m.dailyhunt.in/news/india/urdu/baseerat+online-epaper-baonline/-newsid-71427535

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۷ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بھینس یا بھینسا جو مشہور جانور ہے کیا ا س کی قربانی شریعت سے ثابت ہے ؟کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کیجئے۔آپ کی تحقیق مسائل سے میری تسلی ہوجاتی ہے۔؟ 
(السائل محمد حسین بن اسماعیل رئیس صدر شعبہ اسلامیات لارنس کالج مری پنجاب)
 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحمد للہ رب العالمین۔اما بعد فاقول و باللہ التوفیق۔واضح ہو کہ بھینس ۔بھینسا جو مشہور حیوان ہے اورپنجاب وغیرہ ملک عجم میں عام پایا جاتا ہے۔عہد نبو یﷺ صحابہ میں ملک عرب خصوصاً حجاز میں پایا نہیں گیا۔کتاب و سنت میں خصوصی طور پر اس کا کہیں زکر نہیں ملتا یہ ملک عجم کی پیداوار ہے۔ ا سلئے اس کانام معرب جاموس ہے۔حیواۃ الحیوان ج1 ص 232میں ہے۔علامہ دمیری ؒ یہ فرماتے ہیں۔الجاموس واحد الجوامیس 

فارسی معرب یعنی جاموس جوامیس صیغہ جمع کا واحد ہے۔یہ لفظ فارسی سے معرب ہے۔ جیسے بھیڑ دنبہ بکری کی جنس سے ہیں۔اس طرح جاموس بقر یعنی بھینس گائے کی جنس سے ہے۔چنانچہ حیواۃ الحیوان کے صفحہ میں لکھا "حکمہ و خواصہ کا بقر" یعنی بھینس کا حکم مثل گائے کے ہے۔یعنی اس کی جنس سے ہے۔ہدایہ فقہ کی مشہور درسی کتاب کی جلد 2 ص 229 میں یہ لکھا ہے۔

يدخل في البقر الجاموس لا نه من جنسه

یعنی قربانی کے بارہ میں بھینس گائے کا ھکم رکھتی ہے۔کیونکہ یہ اس کی جنس سے ہے۔امام ابو بکر ابن ابی شیبۃ نے کہا باب الزکوٰۃ میں زکواۃ کے احکام بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک جماعت باسناد یوں درج کیا ہے۔

یعنی امام بصری ؒ سے ر وایت ہے کہ بھینس گائے کے درجے میں ہے۔یعنی جیسے تیس گایوں پرزکواۃ ہے۔ویسے ہی تیس بھینسوں پر ہے۔امام حسن بصری نے بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے علم قرآن و حدیث کا حاصل کیا ہے۔انھوں نے بھینس کو گائے کی جنس ٹھرا کر اس پر وہی حکم لگایا ہے۔امام مالک نے اپنی کتاب موطا کے ص 213 مع شرح مصطفیٰ میں حیوانوں کی زکواۃ کا حکم بیان فرماتے ہوئے ایک مقام پر یہ لکھاہے۔

قال ما لك به العراب والبخت والبقر والجواميس نحو مالك

یعنی امام مالک نے فرمایا کہ جیسے گوسفند  بکر ی سے زکواۃ لینے کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ایسے ہی عربی اونٹوں اور بختی اونٹوں اور گایئوں اور بھینسوں سے زکواۃ لینی چاہیے۔امام مالک تبع تابعین سے ہیں۔جو جاموس کو گائے شمار کرتے ہیں۔پس تابعین او ر تبع تابعین کے عہد میں جاموس گائے کی جنس میں شمار ہوا۔کنوز الحقائق میں ایک روایت یوں درج ہے۔

الجاموس في الاضحية عن سبعة

یعنی بھینس قربانی میں سا ت کی طرف سے شمار ہے۔اس حدیث کی اسناد کا کچھ علم نہیں1ہے۔لیکن جاموس کوگائے کے ساتھ شمار کرنے میں اکابر محدثین کا مسلک ہے۔چنانچہ مرعاۃ المفاتیح جلد 2 ص 303 میں ہے۔

یعنی فقہا محدثین امام مالک امام حسن بصری امام عمربن عبدالعزیز قاضی ابو یوسف امام ابن مہدی وغیرہ جاموس کو گائے کی ایک قسم شمار کر تے ہیں۔اس لئے زکواۃ بھینس کے گئے کے حساب سے بیان کرتے ہیں۔نیز یہ ککھا ہے۔

یعنی یہ بات جان لینی چاہیے۔کہبهيمة الانعام کے بغیر کوئی جانورقربانی میں کفایت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اللہ کا فرمان قرآن میں یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا نام قربانی کے مویشیوں پر یاد کریں۔جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دیئے ہیں۔ او ر وہ اونٹ

1۔کنوز الحقائق میں فردوس ویلمی کا حوالہ ہے۔اورمعلوم ہے کہ فردوس کی روایات عموماً کمزور ہوتی ہیں۔کنز العمال کے مقدمہ میں بحوالہ حافظ سیوطی جن چار کتابوں کی روایتوں کو علی العموم کمزور کہا ہے ان میں اس کا بھی شمار ہے
واديلمي في مسند الفردوس فهوا ضعيف فيسقغتي بالشر اليها او الي بعضها عن بيان ضعفخ (ص 3 جلد اول ج۔ح)

گائے غنم ہیں۔غنم کی دو قسمیں ہیں۔ایک بکر ی دوسری بھیڑ ان جانوروں کے بغیر کسی جانور کی قربانی نبی کریمﷺ اورصحابہ کرام سے منقول نہیں۔پھرلکھتے ہیں۔

واما الجاموس فمذهب الحنفية وغير هم جواز التضحية به

یعنی مذہب حنفی وغیرہ میں بھینس کی قربانی جائز لکھتے ہیں۔پھر یہ لکھا ہے۔

یعنی فقہا حنفیہ وغیرہ یہ لکھتے ہیں۔کہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے۔ اور ان کی تایئد یہ بات کرتی ہے۔کہ بھینس زکواۃ کے بارے میں مثل گائے کے ہے۔تو قربانی میں بھی اس کی مثل ہے۔میں کہتا ہوں کہ اس بات پرسب کا اجماع ہے۔کہ بھینس حلال ہے ا س کی دلیل کہ سورہ مائدہ کی آیت

قرآن!

(تمہارے لئے چار پائے مویشی حلال کئے گئے ہیں۔)

تفصیل کاخاز ن وغیرہ میں سب چارپائے حیوانوں کو جو مویشی ہیں گھوڑے کی طرح سم در نہیں اور نہ شکار کرنے والے درندے ہیں سب کو بهيمة الانعام میں شمار ی کیا ہے تو بھینس بھی بهيمة الانعام میں داخل ہے۔اس لئے حلال ہے۔اور بهيمة الانعام کی قربانی نص قرآن سے ثابت ہے۔چنانچہ سورہ حج میں یہ آیت ہے۔

قرآن!

یعنی ہم نے ہر امت کیلئے طریقہ قربانی کا مقرر کیا ہے۔تاکہ اللہ کانام زبح کے وقت ان مویشیوں پرزکر کریں۔ جو اللہ نے ان کو دیئے ہیں۔اور انہوں نے پال رکھے ہیں۔موضع القرآن میں بهيمة الانعام پر لکھا ہے۔انعام وہ جانور ہیں جن کو لوگ پالتے ہیں۔کھانے کو جیسے گائے بکری بھیڑ جنگل کے ہرن اور نیل گائے وغیرہ اس میں داخل ہیں کہ جنس ایک ہے۔بنا بریں بھینس بھی بهيمة الانعام میں داخل ہے۔چنانچہ فتاویٰ ثنائیہ جلد 1 ص 520 میں سوال جواب یوں درج ہیں۔

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 13 ص 74-71
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/3372 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۸ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بھینس کی قربانی قرآن و سنت سے ثابت ہے؟ ا(ایک سائل لاہور)

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلنا مَنسَكًا لِيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ ...﴿٣٤﴾... سورةالحج
"اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی جگہ مقرر کی تھی تاکہ جو جانور اللہ تعالیٰ نے ان کو مویشی چوپایوں میں سے دئیے تھے ان پر اللہ کا نام ذکر کریں۔"

اس آیت کریمہ میں قربانی کے جانوروں کے لیے بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ کے الفاظ ذکر کیے ہیں اور انعام سے مراد یہاں پر اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہیں جن کی تشریح قرآن پاک کی دوسری آیت کریمہ سے ہو تی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَمِنَ الأَنعـٰمِ حَمولَةً وَفَرشًا كُلوا مِمّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلا تَتَّبِعوا خُطُو‌ٰتِ الشَّيطـٰنِ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ ﴿١٤٢﴾ثَمـٰنِيَةَ أَزو‌ٰجٍ مِنَ الضَّأنِ اثنَينِ وَمِنَ المَعزِ اثنَينِ قُل ءالذَّكَرَينِ حَرَّمَ أَمِ الأُنثَيَينِ أَمَّا اشتَمَلَت عَلَيهِ أَرحامُ الأُنثَيَينِ نَبِّـٔونى بِعِلمٍ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿١٤٣﴾... سورةالانعام
"اور مویشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے (پیدا کیے)، جو کچھ اللہ نے تم کو دیا ہے کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، بلاشک وه تمہارا صریح دشمن ہے (142) (پیدا کیے) آٹھ نر و ماده یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم آپ کہیے کہ کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ماده کو؟ یا اس کو جس کو دونوں ماده پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ تم مجھ کو کسی دلیل سے تو بتاؤ اگر سچے ہو "

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ انعام کا اطلاق اونٹ گائے اور بھیڑ بکری پر ہوتا ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ " بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ " کی تشریح میں رقم طراز ہیں۔

"انعام سے مراد یہاں اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہے اور" بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ سے مراد انعام ہی ہے یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہتے ہیں صلاۃ الاولیٰ اور مسجد الجامع ۔"

(تفسیر قرطبی:12/30)

نواب صدیق حسن خان رقم طراز ہیں۔

"انعام کی قید اس لیے لگائی گئی کہ قربانی انعام کے سوا اور کسی جانور کی درست نہیں اگرچہ اس کا کھانا حلال ہی ہو ۔"(ترجمان القرآن ص741)

مزید فرماتے ہیں۔

"بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ"سے اونٹ اور گائے اور بکری مراد ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں مفصل بیان فرمایا۔" (ترجمان القرآن ص727)

مذکورہ آیت کی تفسیر میں قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

"وفيه إشارة إلى أن القربان لا يكون إلا من الأنعام دون غيرها"
(فتح القدیر 3/452)

"اس میں اشارہ ہے کہ انعام کے علاوہ دوسرے جانوروں کی قربانی نہیں ہوتی۔"

انعام کی تشریح میں فرماتے ہیں۔

"وهي الإبل والبقر والغنم" (فتح القدیر 3/451)
"اور وہ اونٹ گائے اور بھیڑ بکری ہیں۔"

مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ" بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ" سے مراد اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہیں اور انہی کی قربانی کرنی چاہیے ۔ بھینس ان چار قسم کے چوپایوں میں نہیں۔ علامہ سید سابق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

"ولا تكون إلا من الإبل والبقر والغنم، ولا تجزئ من غير هذه الثلاثة يقول الله سبحانه((لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ))"
"قربانی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری کے علاوہ جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وہ یاد کریں اللہ تعالیٰ کا نام اس چیز پر جو اللہ نے انہیں مویشی چوپایوں میں سے عطا کیا۔"

یہی موقف حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ اہلحدیث 2/426 میں اختیار کیا ہے فرماتے ہیں بعض نے جو یہ لکھا ہے۔ الجَاموسُ : نَوعٌ من البَقَرِ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی اسی زکاۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ورنہ ظاہر کہ بھینس دوسری جنس ہے۔ احناف کے ہاں بھینس کی قربانی کی جا سکتی ہے اور یہ بقر میں داخل ہے ہدایہ کتاب الاضحیہ 4/359)بیروت میں ہے۔

"ويدخل في البقر الجاموس ; لأنه [ ص: 92 ] من جنسه"
 "گائے میں بھینس داخل ہے اس لیے کہ یہ گائے کی جنس سے ہے۔"

فتاویٰ ثانیہ1/810۔میں لکھا ہے۔ حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا پس اس کی قربانی نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے نہ تعامل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ہاں اگر اس کو جنس بقر سے مانا جائے جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے(کمافی الہدایہ ) یا عموم "بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ" پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے از مولانا ابو العلاء نظر احمد کسوانی ۔آئمہ اسلام کے ہاں جاموس (بھینس ) کا جنس بقر سے ہونا مختلف فیہ ہے مبنی براحتیاط اور راجح یہی موقف ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری سے کی جائے جب یہ جانور موجود ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب ہی کرنا چاہیے اور دیگربحث و مباحثے سے بچنا ہی اولیٰ و بہتر ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
آپ کے مسائل اور ان کا حل
جلد2۔كتاب الاضحیۃ۔صفحہ نمبر 334
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/20857

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۹ 

 بھینس کی قربانی
قرآن کریم میں ہےکہ ایسےجانوروں کی قربانی کی جائےجو بھیمۃ الأنعام میں سے ہیں یعنی مویشی قسم کے چوپائے ہوں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : { وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكاً لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ }(الحج 34) ( ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے طریقے مقرّر کردئے ہیں تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں ) قرآنی اصطلاح میں لفظ ” الأنعام “ میں چار قسم کےنراورمادہ جانور شامل ہیں : اونٹ نر و مادہ، گائےنر و مادہ، بھیڑ نر و مادہ، بکری نر و مادہ ۔ اس کی تفصیل بھی سورۃ الأنعام( آیت نمبر143 – 144) میں موجود ہے اس بناءپر ہمارا رجحان یہ ہے کہ قربانی کیلئے انہی جانوروں میں سے انتخاب کرنا چاہئےاور بھینس کی قربانی سے گریز کرنا چاہئے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بھینس کی قربانی کرنا ثابت نہیں ہے ۔ جو لوگ اس کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں اور بھینس کی قربانی کے قائل و فاعل ہیں ان کا موقف ہے کہ لغوی اعتبار سے بھینس لفظ بقر میں شامل ہے، اس لئے اس کی قربانی دی جا سکتی ہے ۔ جب کہ لغوی اعتبارسےبقر کےمسمی میں داخل ہونےکےباوجودبھینس طبیعت، رنگ، حجم اوروجودمیں گائےسے نہایت ہی مختلف ہے، نیزقربانی ایک توقیفی عبادت ہےجس میں کوئی بھی عمل بغیرثبوت کےکرنامحلّ نظرہے، جس طرح ہرن، گھوڑے، نیل گائے اور پرندے کی قربانی نہیں کی جاتی کیونکہ ان کی قربانی کاثبوت قرآن وسنّت سےنہیں ہے ٹھیک اسی طرح بھینس کوبھی اسی زمرےمیں رکھناچاہئے یہی احتیاط کاتقاضہ اورعمل کےلئےاحوط وانسب ہے ۔ واللہ اعلم باالصواب ۔ بعض حضرات نے تو اس حد تک غلو کیا ہے کہ بھینس کی قربانی گائے کی قربانی سے افضل ہے ۔ لیکن ہم اسے صحیح نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل اور تقریر سے گائے کی قربانی ثابت ہے لہٰذا قربانی کے طور پر بھینس کو اس میں شامل نہ کیا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے پیش نظر صرف اونٹ‘ گائے‘ بھیڑ اور بکری کی قربانی دی جائےاور بھینس کی قربانی سے اجتناب کیا جائے کیونکہ ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔ 

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی 
 المكتب التعاوني للدعوة والإرشاد وتوعية الجاليات محافظة يدمة منطقة نجران مملكت سعودي عرب 

http://abuzahraabdulaleemsalafi.blogspot.com/2014/09/blog-post_17.html 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۰ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بھینس کی قربانی جائز ہے۔؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جائز ہے کیونکہ بھینس اور گائے کا ایک ہی حکم ہے۔(فتاوی ستاریہ جلد 3 ص2)

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 13 ص 47
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/3350/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۱ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بھینس کی قربانی جائز ہے یا نہیں ؟ دونوں صورتوں میں کتاب وسنت کے دلائل سے وضاحت فرما دیں؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جو لوگ بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل ہیں ان کے ہاں دلیل بس یہی ہے کہ لفظ بقر اس کو بھی شامل ہے یا پھر اس کو بقر پر قیاس کرتے ہیں اور معلوم ہے کہ گائے کی قربانی رسول اللہﷺکے قول، عمل اور تقریر سے ثابت ہے لہٰذا گائے کی قربانی کی جائے جو رسول اللہﷺسے تینوں طریقوں سے ثابت ہے۔

وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
قربانی اور عقیقہ کے مسائل ج1ص 434
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/2048/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۲ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بھینس کی قربانی کا کیا حکام ہے؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید کے ظاہر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ، بکری، دنبہ اور گائے کی قربانی دینی چاہیے، جیسے کہ ارشاد ہے:

﴿لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ... ٣٤﴾...الحج

اور بظاہر بھینس، گائے سے الگ دوسری قسم کا جانور معلوم ہوتاہے۔ مگر لغت میں بھینس کو گائے کی قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ منجد میں ہے:

الجاموس جمعه جوامیس صنف من کبار البقریکون داجنا منذ اسناف وحشیه۔ (ص ۱۰۰)

کہ پالتو بھینس بڑی گائے کی ایک قسم ہے، اسی وجہ سے شوافع اور حنفیہ کے نزدیک بھینس کی قربانی جائز ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَجَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبَقَرِ مِنْ الْجَوَامِيسِ وَالْعِرَابِ والدربانية ۔ (شرح مھذب: ص۳۰۸ج۸)

کہ قربانی کے جانوروں میں گائے کی تمام اقسام جائز ہیں خواہ گائے عربی ہو یا فارسی یعنی بھینس۔

اور ہدایہ حنفیہ میں بھی اس کا جواز موجود ہے۔ ہر حال بھینس چونکہ حلال چوپایہ ہے اور من بھیمة الانعام کے عموم اور داخل نہیں، مگر اہل لغت کے مطابق یہ گائے کی ایک بڑی قسم ہے، اس لئے اس کی قربانی کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ تاہم یہ نہ تو سنت رسول اللہﷺ ہے نہ سنت صحابہ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ
ج1ص592
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/14334/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۳ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقہ میں بھینس کی قربانی بکثرت کی جاتی ہےحالانکہ دوسرے جانور دستیباب ہوتے ہیں، اس کے متعلق ہماری رہنمائی کریں۔

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم کے مطابق ایسے جانوروں کی قربانی دینی چاہیے جن پر"بہیمۃ الانعام" کا لفظ بولا جاتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلنا مَنسَكًا لِيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ...﴿٣٤﴾... سورةالحج
"ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ مویشی قسم کے چوپائیوں پر اللہ تعالیٰ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں دےرکھے ہیں۔"

اور الانعام میں چار قسم کے نر اور مادہ جانور شامل ہیں۔

1۔اونٹ۔2۔گائے۔3۔بھیڑ(دنبہ)۔4۔بکری۔

قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ یہ چوپائے آٹھ قسم کے ہیں یعنی دو، دوبھیڑوں میں سے اور دو، بکریوں میں سے(نر اور مادہ)۔۔۔اور دو، دو اونٹوں دو گائیوں میں سے(نر اور مادہ)[1]

ہمارے رجحان کے مطابق قربانی کے سلسلہ میں صرف انہی جانوروں پر اکتفاء کیا جائے جن پر بہیمۃ الانعام کا لفظ بولا جاسکتا ہے اور وہ صرف اونٹ، گائے، بھیڑ(دنبہ) اور بکری ہیں۔چونکہ بھینس ان جانوروں میں شامل نہیں ہے لہذا اس سے اجتناب بہتر ہے اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بھینس کی قربانی ثابت نہیں ہے اور جو اہل علم بھینس کی قربانی کے قائل اور فاعل ہیں وہ صرف یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ بھینس کو گائے کی جنس کہتے ہیں یاگائے پر اسے قیاس کرتے ہیں حالانکہ بھینس ایک الگ جنس ہے۔ ان کے دودھ اور گوشت کی تاثیر بھی الگ الگ ہے پھر قیاس کے لیے کوئی علت مشترک ہونی چاہیے جو ان میں نہیں پائی جاتی ۔ہم کہتے ہیں کہ گائے کی قربانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، عمل اور تقریر تینوں طریقوں سے ثابت ہے لہذا گائے، اونٹ اور بکری کی ہی قربانی دی جائے، حافظ عبداللہ روپڑی مرحوم نے اس سلسلہ میں بڑا اچھا موقف اختیار کیا ہے کہ قربانی کے سلسلہ میں احتیاط اورواضح موقف یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ دی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ، گائے، بھیڑ(دنبہ) اور بکری سے کی جائے۔ جب یہ جانور دستیاب ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب کرنا چاہیے: "دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ" (واللہ اعلم)

[1] ۔الانعام:144۔143۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب 
فتاویٰ اصحاب الحدیث 
جلد3۔صفحہ نمبر 404 
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/20130/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۴ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقہ میں بھینس کی قربانی کی جاتی ہے اور اس کے جواز میں دلائل بھی دئیے جاتے ہیں، کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مویشی قسم کے چار پائے جانور ذبح کئے جائیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔ (سورۃ الحج:34)

اس قسم کی وضاحت سورۃ الحج کی آیت نمبر 28 میں بھی ہے:

ایک دوسرے مقام پر قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ چوپایوں کے نر مادہ آٹھ جوڑے ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"کل آٹھ جوڑے (اقسام) ہیں: بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو۔" (سورۃ الانعام:143)

"اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو۔" (سورۃ الانعام:144)

ہمارے رجحان کے مطابق گائے، اونٹ، بھیڑ اور بکری کی قربانی کرنا چاہیے، بھینس کی قربانی سے اجتناب ہی بہتر ہے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھینس کی قربانی کرنا ثابت نہیں ہے جو حضرات بھینس کی قربانی کو جائز خیال کرتے ہیں وہ درج ذیل تین دلائل پیش کرتے ہیں:

(1) بھینس گائے کی ایک بڑی قسم ہے۔ (2) مسئلہ زکوۃ میں بھینس کو گائے کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ (3) ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ بھینس کی قربانی میں سات حصے دار ہو سکتے ہیں۔ لیکن علمی اعتبار سے ان دلائل کی کوئی حیثیت نہیں ہے جیسا کہ درج ذیل وضاحت سے معلوم ہوتا ہے:

٭ بھینس کو گائے کی قسم قرار دینا کئی ایک اعتبار سے محل نظر ہے کیونکہ بھینس کے دودھ سے برآمد ہونے والا مکھن سفید اور گائے کا مکھن پیلی رنگت میں ہوتا ہے۔ ٭ بھینس کے سینگ چوڑی دار اور خوبصورت ہوتے ہیں جبکہ گائے کے سینگ کبھی چوڑی دار نہیں ہوتے۔ ٭ بھینس گندے پانی اور کیچڑ میں بیٹھ جاتی ہے جبکہ گائے ایک صاف ستھرا جانور ہے جو کیچڑ میں نہیں بیٹھتا۔ ٭ سب سے نمایاں فرق اس کے بچے کی پیدائش کا ہے کہ گائے نو ماہ بعد بچہ جنم دیتی ہے جبکہ بھینس گیارہویں ماہ بچے کو جنتی ہے۔ ٭ گائے کھیتی باڑی میں استعمال ہوتی ہے جبکہ بھینس اس کام کے لئے استعمال نہیں ہوتی۔

درج بالا وجوہات کی بنا پر بھینس کو گائے کی قسم قرار دینا سینہ زوری ہے۔

٭ اس میں شک نہیں ہے کہ مسئلہ زکوۃ میں بھینس کا وہی حکم ہے جو گائے کا ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مسئلہ زکوۃ میں گائے اور بھینس کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ (موطا امام مالک، کتاب الزکوٰۃ باب ماجاءفی صدقۃ البقر)

لیکن امام مالک رحمہ اللہ نے قربانی کے باب میں گائے کے ساتھ بھینس کا ذکر نہیں ہے، دراصل کچھ مسائل احتیاط کے اعتبار سے دو پہلو رکھتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا ہوتا ہے، بھینس کا معاملہ بھی اسی طرح ہے اس کے دو پہلو ہیں: مسئلہ زکوۃ میں زکوۃ دینے میں احتیاط ہے اور مسئلہ قربانی نہ دینے میں احتیاط ہے کیونکہ اس کی قربانی کے متعلق علماء امت کا اتفاق نہیں، جن حضرات نے بھینس کو گائے کی قسم قرار دیا ہے وہ زکوۃ کے اعتبار سے صحیح ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر یہ دونوں الگ الگ اجناس ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے وضاحت کر دی ہے۔

اس سلسلہ میں مسند فردوس کے حوالے سے جو حدیث پیش کی جاتی ہے کہ بھینس کی قربانی میں سات حصے داروں کی شراکت جائز ہے، اس کی سند کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک جس حدیث کی کوئی سند نہ ہو، وہ مجہول اور ناقابل اعتبار ہے، جب تک حدیث کے راویوں کی عدالت و ثقاہت معلوم نہ ہو اسے بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا۔

بہرحال جن اہل علم کو مذکورہ بالا دلائل پر اطمینان ہے، اگر وہ بھینس کی قربانی کے قائل و فاعل ہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہے، البتہ بھینس کے بجائے گائے کی قربانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، عمل اور تقریر سے ثابت ہے۔ لہذا سنت کے مطابق اونٹ، گائے، بھیڑ (دنبہ) اور بکری کو بطور قربانی ذبح کیا جائے اور بھینس کی قربانی سے گریز کیا جائے۔ (واللہ اعلم)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب 
فتاویٰ اصحاب الحدیث 
جلد4۔ صفحہ نمبر 359
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/20670/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۵ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بھینس کی قربانی قرآن و سنت سے ثابت ہے؟ ا(ایک سائل لاہور)

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلنا مَنسَكًا لِيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ ...﴿٣٤﴾... سورةالحج
"اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی جگہ مقرر کی تھی تاکہ جو جانور اللہ تعالیٰ نے ان کو مویشی چوپایوں میں سے دئیے تھے ان پر اللہ کا نام ذکر کریں۔"

اس آیت کریمہ میں قربانی کے جانوروں کے لیے بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ کے الفاظ ذکر کیے ہیں اور انعام سے مراد یہاں پر اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہیں جن کی تشریح قرآن پاک کی دوسری آیت کریمہ سے ہو تی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَمِنَ الأَنعـٰمِ حَمولَةً وَفَرشًا كُلوا مِمّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلا تَتَّبِعوا خُطُو‌ٰتِ الشَّيطـٰنِ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ ﴿١٤٢﴾ثَمـٰنِيَةَ أَزو‌ٰجٍ مِنَ الضَّأنِ اثنَينِ وَمِنَ المَعزِ اثنَينِ قُل ءالذَّكَرَينِ حَرَّمَ أَمِ الأُنثَيَينِ أَمَّا اشتَمَلَت عَلَيهِ أَرحامُ الأُنثَيَينِ نَبِّـٔونى بِعِلمٍ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿١٤٣﴾... سورةالانعام
"اور مویشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے (پیدا کیے)، جو کچھ اللہ نے تم کو دیا ہے کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، بلاشک وه تمہارا صریح دشمن ہے (142) (پیدا کیے) آٹھ نر و ماده یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم آپ کہیے کہ کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ماده کو؟ یا اس کو جس کو دونوں ماده پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ تم مجھ کو کسی دلیل سے تو بتاؤ اگر سچے ہو "

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ انعام کا اطلاق اونٹ گائے اور بھیڑ بکری پر ہوتا ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ " بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ " کی تشریح میں رقم طراز ہیں۔

"انعام سے مراد یہاں اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہے اور" بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ سے مراد انعام ہی ہے یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہتے ہیں صلاۃ الاولیٰ اور مسجد الجامع ۔"

(تفسیر قرطبی:12/30)

نواب صدیق حسن خان رقم طراز ہیں۔

"انعام کی قید اس لیے لگائی گئی کہ قربانی انعام کے سوا اور کسی جانور کی درست نہیں اگرچہ اس کا کھانا حلال ہی ہو ۔"(ترجمان القرآن ص741)

مزید فرماتے ہیں۔

"بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ"سے اونٹ اور گائے اور بکری مراد ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں مفصل بیان فرمایا۔" (ترجمان القرآن ص727)

مذکورہ آیت کی تفسیر میں قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

"وفيه إشارة إلى أن القربان لا يكون إلا من الأنعام دون غيرها"
(فتح القدیر 3/452)

"اس میں اشارہ ہے کہ انعام کے علاوہ دوسرے جانوروں کی قربانی نہیں ہوتی۔"

انعام کی تشریح میں فرماتے ہیں۔

"وهي الإبل والبقر والغنم" (فتح القدیر 3/451)
"اور وہ اونٹ گائے اور بھیڑ بکری ہیں۔"

مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ" بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ" سے مراد اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہیں اور انہی کی قربانی کرنی چاہیے ۔ بھینس ان چار قسم کے چوپایوں میں نہیں۔ علامہ سید سابق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

"ولا تكون إلا من الإبل والبقر والغنم، ولا تجزئ من غير هذه الثلاثة يقول الله سبحانه((لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ))"
"قربانی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری کے علاوہ جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وہ یاد کریں اللہ تعالیٰ کا نام اس چیز پر جو اللہ نے انہیں مویشی چوپایوں میں سے عطا کیا۔"

یہی موقف حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ اہلحدیث 2/426 میں اختیار کیا ہے فرماتے ہیں بعض نے جو یہ لکھا ہے۔ الجَاموسُ : نَوعٌ من البَقَرِ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی اسی زکاۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ورنہ ظاہر کہ بھینس دوسری جنس ہے۔ احناف کے ہاں بھینس کی قربانی کی جا سکتی ہے اور یہ بقر میں داخل ہے ہدایہ کتاب الاضحیہ 4/359)بیروت میں ہے۔

"ويدخل في البقر الجاموس ; لأنه [ ص: 92 ] من جنسه"
 "گائے میں بھینس داخل ہے اس لیے کہ یہ گائے کی جنس سے ہے۔"

فتاویٰ ثانیہ1/810۔میں لکھا ہے۔ حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا پس اس کی قربانی نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے نہ تعامل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ہاں اگر اس کو جنس بقر سے مانا جائے جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے(کمافی الہدایہ ) یا عموم "بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ" پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے از مولانا ابو العلاء نظر احمد کسوانی ۔آئمہ اسلام کے ہاں جاموس (بھینس ) کا جنس بقر سے ہونا مختلف فیہ ہے مبنی براحتیاط اور راجح یہی موقف ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری سے کی جائے جب یہ جانور موجود ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب ہی کرنا چاہیے اور دیگربحث و مباحثے سے بچنا ہی اولیٰ و بہتر ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
آپ کے مسائل اور ان کا حل
جلد2۔كتاب الاضحیۃ۔صفحہ نمبر 334
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/20857/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۶ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اونٹ کی قربانی کے کل کتنے حصے ہیں؟ کیا بیل کی قربانی بھی جائز ہے، نیز کیا بھینس کی قربانی ہو سکتی ہے؟(ابوطاہر نذیر احمد، عبدالرشید۔کراچی) (۲۳ فروری ۲۰۰۱ئ)

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اونٹ کی قربانی میں دس حصے ہو سکتے ہیں۔ سنن الترمذی، بَابُ مَا جَاء َ فِی الاِشْتِرَاكِ فِی الأُضْحِیَّةِ، رقم:۱۵۰۱، صحیح ابن خزیمه:۲۹۰۸

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ (حواشی مشکوٰۃ:۱/۴۶۲) گائے یا بیل کی قربانی تو جائز اور مشروع ہے۔(مشکوٰۃ، باب فِی الاضحیۃ) البتہ بھینس کے متعلق زیادہ احتیاط والا مسلک یہ ہے کہ جن جانوروں کی قربانی بطورِ نص ثابت ہے صرف وہی کی جائے، بھینس ان میں شامل نہیں اور نہ صحابہ وتابعین سے اس کی قربانی کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔

ہمارے شیخ روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید پارہ ۸ رکوع، ۴ میں بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ کی چار قسمیں بیان کی گئی ہیں: دنبہ، بکری، اونٹ، گائے۔ ان میں بھینس کا ذکر نہیں جبکہ قربانی کے متعلق ہے کہ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ

سے ہو، اس بناء پر بھینس کی قربانی جائز نہیں۔ فتاویٰ اہل حدیث۲/۴۲۶

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3، کتاب الصوم:صفحہ:371
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/25605/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۷ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا جاموس( بھینسا) بھی قربانی کے لیے جائز ہے؟ (ایک متلاشی حق، فیصل آباد) (۲۴ اپریل۹۲ئ)

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید نے قربانی کے لیے بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ کومتعین کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ لِيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ ...﴿٣٤﴾... سورة الأنعام
’’تاکہ جو مویشی چار پائے اللہ نے ان کو دیے ہیں(اُن کے ذبح کرنے کے وقت) ان پر اللہ کا نام لیں۔‘‘

’’بَھِیْمَة الْاَنْعَامِ‘‘سے مراد اُونٹ، گائے، بکری، دنبہ، چھترہ وغیرہ ہیں ان میں بھینس شامل نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان جانوروں کے علاوہ کی قربانی منقول نہیں۔ البتہ حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ بھینس کی قربانی کرنا جائز ہے۔ ان لوگوں نے بھینس کو گائے پر قیاس کیا ہے۔ لیکن سب لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ بھینس اوصاف کے اعتبار سے گائے سے بالکل مختلف جنس ہے۔ اس بناء پر فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے۔ کہ اگر کسی نے قسم کھالی کہ وہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا لیکن اس نے بھینس کا گوشت کھا لیا تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ اور جن لغویوں نے اس کو گائے کی قسم قرار دیا ہے بظاہر تساہل معلوم ہوتا ہے۔(وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ ۔)

اور کوئی کہے جب بھینس کی قربانی دینی درست نہیں، پھر تو اس کی زکوٰۃ بھی واجب نہیں ہونی چاہیے ؟ اس اعتراض کا جواب شیخی المکرم محدث روپڑی رحمہ اللہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔

یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرناپڑتا ہے۔

ام المومنین سودۃ کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا۔ لڑکا پیدا ہوا۔جو اپنی والدہ کے پاس پرورش پاتا رہا۔ زانی مر گیا اور اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو وصیت کرگیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ میں کرلینا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا۔ اور کہا یہ میرا بھتیجا ہے۔ زمعہ کے بیٹے نے کہا یہ میرے باپ کا بیٹا ہے۔ لہٰذا میرا بھائی ہے اس کو میں لوں گا۔ مقدمہ دربارِ نبویﷺمیں پیش ہوا۔ تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

’ الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الحَجَرُ ۔‘ مشکوة باب اللعان، فصل اول، صحیح البخاری، بَابٌ: لِلْعَاهِرِ الحَجَرُ، رقم:۶۸۱۷
یعنی اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔‘‘

 یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے۔ بچہ سودہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے حوالہ کردیا۔ جو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا بھی بھائی بن گیا۔لیکن سودہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا کہ اس سے پردہ کرے، کیوں کہ اس کی شکل و صورت زانی سے ملتی جلتی تھی۔ جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے۔ اس مسئلہ میں شکل و صورت کے لحاظ سے تو پردہ کا حکم ہوا۔ اور جس کے گھر میں پیدا ہوا، اُس کے لحاظ سے اس کا بیٹا بنا دیا گویا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا۔ ایسا ہی بھینس کا معاملہ ہے ۔ اس میں بھی دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہو گا۔ زکوٰۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے۔ اس بناء پر بھینسے کی قربانی جائزنہیں اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِنَ الْبَقَرِ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے۔یہ بھی اسی زکوٰۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے۔ (فتاویٰ اہل حدیث، ج:۲، ص:۴۲۶۔۴۲۷)

یہ وہ عظیم مسئلہ ہے جس کی بنا پر محقق شہیر مولانا عبدالقادر حصاری رحمہ اللہ نے شیخی المکرم کو مجتہد کے لقب سے نوازا تھا۔ " الاعتصام: مولانا عبدالقادر عارف حصاری مرحوم نے ابتدائً بھینس کی قربانی کے عدمِ جواز کا فتویٰ دیا تھا لیکن بعد میں رجوع کرکے جواز کا فتویٰ دے دیا تھا۔ جو الاعتصام میں چھپا ہواموجود ہے۔ علاوہ ازیں صاحب ’’مرعاۃ‘‘ شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی نے بھی اس کے جواز سے انکار نہیں کیا ہے تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، ’’الاعتصام‘‘ ۲-اکتوبر، ۱۹۸۱ء (ص۔ی)"رحمھما اللہ رحمۃ واسعۃ

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں اس احتیاطی پہلو کو خوب واضح کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: باب تفسیر المشبہات کتاب البیوع)

یاد رہے گائے اور بھینس تیس رأس میں سے ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی، بچہ یا بچی زکوٰۃ میں واجب ہے بشرطیکہ وہ باہر چرتی ہوں۔ ان کا چارہ قیمتاًنہ ہو۔ مؤطا امام مالک باب ما جاء فی صدقۃ البقرۃ، رقم:۲۴

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3، کتاب الصوم:صفحہ:414
محدث فتویٰ

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۸ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بھینس کی قربانی جائز ہے یا ناجائز؟ علمائے بہاول پور کا موقف یہ ہے کہ بھینس کی قربانی کا چونکہ رسول اللہﷺ، صحابہ کرام سے کوئی ثبوت نہیں۔ اور قرآن پاک کی ’’سورہ الانعام‘‘ کی (آیت ـ۴۴) میں آٹھ نر و مادہ جانوروں کا ذکر ہے اور ان میں بھیس شامل نہیں۔ لہٰذا اس کی قربانی بھی نہیں۔ (یہاں سے قربانی کا استدلال جائز نہیں۔ کیونکہ یہ سورہ مکی ہے اور احکامِ قربانی مدینہ میں نازل ہوئے) جب کہ دوسرے شہروں سے یہاں آنے والے علمائے کرام کا موقف اس کے برعکس ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بھینس کی قربانی اگرچہ مسنون نہیں مگراس کا جواز ضرور ہے کیونکہ ’’سورۃ الحج‘‘ آیت نمبر:۳۴/۲۸ میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کے لیے بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ (چوپائے) کی شرط لگائی ہے۔ اور بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ کا لفظ عام ہے جس کو اجماع امت نے گھریلو پالتو جانوروں کے ساتھ خاص کیا ہے اور یہ بھی باجماع امت سب پر واضح ہے کہ بھینس بھی پالتو بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ میں سے ہے لہٰذا باقی جانوروں کی طرح یہ بھی قربانی کے جانوروں میں داخل ہے۔

اگر اس آیت یعنی ’’سورۃ الحج‘‘ والی مدنی آیت کو ’’سورۃ الانعام‘‘ والی مکی آیت سے بھی خاص مان لیں اور بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ سے ابل، بقر، اور غنم مراد لیں تب بھی مسئلہ واضح ہے کیونکہ اہل لغت اورفقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس بقر کی نوع ہے لہٰذا جس طرح بقر قربانی کے جانوروں میں شامل ہے کسی صریح اور صحیح دلیل کے بغیر اس کوبقرسے خارج کرنا ثابت نہیں۔ مزید برآں احکام قربانی پروری دنیا کے لیے ہیں ۔اس کو دنیا کے کسی خاص علاقے کے ساتھ محدود کرنا درست نہیں۔

یہاں پر یہ مسئلہ باعث ِ نزاع بنا ہوا ہے۔ لہٰذاآپ اس بارے میں اپنی تحقیق کی روشنی میں فتویٰ ارسال فرما کر عنداللہ ماجور ہوں تاکہ ضعیف موقف ہم پر واضح ہو جائے۔ (محمد حنیف وینس، گنج بازار، بہاولپور) (۱۹ جون۱۹۹۸ئ) 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بھینس کی قربانی درست نہیں۔ کیوں کہ یہ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ میں شامل نہیں جن کی قربانی کا قرآن میں حکم ہے، وہ ہیں دنبہ، بکری، اونٹ، گائے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ مرعاۃ المفاتیح(۲/۳۴۴۔۳۴۵) اور فتاویٰ اہل حدیث:۲/۴۲۶۔۴۲۷)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3، کتاب الصوم:صفحہ:415
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/25648/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۹ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بھینس کی قربانی سنت ہے یا بدعت؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بھینس اور بھینسے کی قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے اس لیے کہ یہ جانور ﴿بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ﴾ (دنبہ، بکری، اونٹ، گائے) کی تعریف میں داخل نہیں اگرچہ ملحق ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : فتاویٰ اہل حدیث، ج:۲، ص:۴۳۶۔۴۲۷۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3، کتاب الصوم:صفحہ:416
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/25649/

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲۰ 

کیا بھینس کی قربانی کرنا جائز ہے؟ 

الجواب بعون الوہاب 
قربانی صرف اور صرف ۱۔ اونٹ ۲۔ بھیڑ، دنبہ، چھترا ۳۔ بکری اور ۴۔ گائے کی ہی کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اللہ رب العالمین نے فرمایا ہے : [[وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكاً لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ (الحج، 34)]] اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی جگہ مقرر کی تاکہ جو مویشی جانور اللہ نے ان کو دیئے ہیں ان پر اللہ کا نام ذکر کریں۔ اس آیت میں قربانی کے جانور بھیمۃ الأنعام مقرر کیے گئے ہیں۔ اور بھیمۃ الأنعام کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے: [[وَمِنَ الأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً كُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ{142} ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الأُنثَيَيْنِ نَبِّؤُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ{143} وَمِنَ الإِبْلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ قُلْ ………الآیة، (الأنعام، 142-144)]] اور "انعام"(چوپایوں)میں سے بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمین سے لگے ہوئے ۔ کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمھیں رزق دیا اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو، یقیناً وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ آٹھ اقسام، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو، کہہ دیجئے کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جس پر دونوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو۔۔۔۔۔الخ ان آٹھ جانوروں (۱، ۲بکری نرومادہ، ۳، ۴بھیڑ نرومادہ، ۵، ۶اونٹ نرو مادہ، ۷، ۸گائے نرومادہ) کے علاوہ دیگر حلال جانور (پالتو ہوں یا غیر پالتو) کی قربانی کتاب وسنت سے ثابت نہیں ۔ لہٰذا بھینس یا بھینسے کی قربانی درست نہیں ۔ قربانی ان جانوروں کی دی جائے جن کی قربانی رسول اللہﷺ کے قول وعمل و تقریر سے ثابت ہے۔ ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم وکتبہ: أبو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ 

https://www.rafiqtahir.com/ur/play-swal-514.html 
 ~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲۱ 

سوال قربانی کے لئے کونسے جانور ذبح کرنے کا حکم ہے؟ اور کیا بھینس کی قربانی درست ہے؟ 

جواب۔!
الحمدللہ!!

• قرآن کریم نے قربانی کےلیے ” بهيمة الانعام” کا انتخاب کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔”

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَكًا لِّيَذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمۡ مِّنۡۢ بَهِيۡمَةِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسۡلِمُوۡا‌ ؕ وَبَشِّرِ الۡمُخۡبِتِيۡنَ
اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی ہے، تاکہ وہ ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں۔ سو تمہارا معبود ایک معبود ہے تو اسی کے فرمانبردار ہوجاؤ اور عاجزی کرنے والوں کو خوش خبری سنادے۔
(سورہ الحج، آیت نمبر، 34)

• اس کے بعد دوسری جگہ سورہ الانعام میں
اللہ پاک نے فرمایا!

ثَمٰنِيَةَ اَزۡوَاجٍ‌ ۚ
مِنَ الضَّاۡنِ اثۡنَيۡنِ وَمِنَ الۡمَعۡزِ اثۡنَيۡنِ‌ ؕ(143)
وَمِنَ الۡاِبِلِ اثۡنَيۡنِ وَمِنَ الۡبَقَرِ اثۡنَيۡنِ‌ ؕ (144)

( بهيمة الانعام کی) آٹھ قسمیں، 
بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو ۔
اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو، 
(سورہ الانعام، آیت نمبر، 142__143_144)

• بہیمۃ الانعام سے مراد اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری ہے ۔اس کی وضاحت قرآن مجید
میں بھی ہے اور امام قرطبی نے بھی یہی ذکر کیا ہے
(تفسیر قرطبی ج۱۲ص۳۰)

• امام شوکانی نے یہی چار جانور مراد لئے ہیں اور لکھا ہے کہ قربانی صرف انھیں چار جانوروں میں سے ہو گی
(فتح القدیر :ج۳ص۴۵۲، ۴۵۱)

• نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں :
الانعام کی قید اس لئے لگائی ہے کہ قربانی الانعام کے سوا اور کسی جانور کی درست نہیں اگرچہ اس کا کھانا درست ہی ہو
(ترجمان القرآن :۷۴۱)

• خود قرآن کریم نے ”بهيمة الانعام ” کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا، کہ الانعام سے مراد ضان، ( بھیڑ) معز، (بکری) ابل، (اونٹ) اور بقر، (گائے)
چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا ہے، کہ انکے نر اور مادہ ملا کر ٹوٹل آٹھ جانور شامل ہیں بهيمة الانعام میں، 

احادیث مبارکہ میں بھی بار بار انہی چار جانوروں کا ذکر ہے! چند ایک احادیث ملاحظہ کریں

• رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں (بھیڑ کا نر، دنبہ) کی قربانی کی، آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، بسم اللہ پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور ( ذبح کرتے وقت ) اپنا پاؤں ان کے پہلوؤں پر رکھا، 
(سنن ترمذی، حدیث نمبر-1494)

• ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ، 
ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ قربانی کا دن آ گیا، چنانچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں اور اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کو شریک کیا، 
(سنن ترمذی، حدیث نمبر-1501)

• عطاء بن یسار کہتے ہیں، 
میں نے ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا، 
(سنن ترمذی، حدیث نمبر-1505)

• کلیب کہتے ہیں، 
ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بنی سلیم کے مجاشع نامی ایک شخص کے ساتھ تھے، بکریوں کی قلت ہو گئی، تو انہوں نے ایک منادی کو حکم دیا، جس نے پکار کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ( قربانی کے لیے ) بھیڑ کا ایک سالہ بچہ دانتی بکری کی جگہ پر کافی ہے، 
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر-3140)

• انہی چار جانوروں کی قربانی وہ نر ہو یا مادہ پوری امت مسلمہ کے نزدیک اجماعی و اتفاقی طور پر مشروع ہے۔اور تمام احادیث کی کتب میں بھی انہیں چار جانوروں کا ذکر ہوا ہے، 

• بھینس کی قربانی نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ عمل صحابہ سے کیونکہ حجاز میں اسکا وجود ہی نہیں تھا، 

• • علماء عرب سمیت اہل لغت کے بہت سارے علماء بھینس کی قربانی کو جائز بھی کہتے ہیں، 
اور انکی دلیل صرف یہ ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے تو اسکی قربانی بھی جائز ہے، 
(مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین : 34/25)

• محترم علماء کا فتویٰ اپنی جگہ، 
پر حقیقت یہ ہے کہ گائے اور بھینس میں زمین آسمان کا فرق ہے، دونوں کی جسامت، شکل و صورت، جلد، دونوں کی خوراک، پانی میں نہانے یا نا نہانے، عادات و حرکات، افزائش نسل، گوشت، کھال اور دودھ تک ہر چیز میں فرق ہے، حالیہ ماہرین نے بھی بھینس کی الگ دو قسمیں ذکر کی ہیں، 
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/بھینس

جبکہ گائے ایک الگ جانور ہے بذات خود اس کی الگ سے بہت ساری نسلیں ہیں، 
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/گائے

اس لیے بھینس کو گائے کی نسل بنانا سمجھ سے باہر ہے

• بھینس کی زکوٰۃ کے نصاب کے بارے
امام ابن المنذر فرماتے ہیں:
’’ واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر‘‘ اور اس بات پر اجماع ہےکہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے۔
(الاجماع کتاب الزکاۃ ص۴۳حوالہ:۹۱)

اس بنا پر کچھ علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بھینس کی زکوٰۃ ہم گائے پر قیاس کر کے اسکے اعتبار سے دیتے ہیں تو بھینس کی قربانی گائے پر قیاس کر کے کیوں نہیں کر سکتے؟؟

• میں دین کا ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے ایک چھوٹی سی گزارش کرتا ہوں، 
کہ قیاس کا اصول یہ ہے جب اصل چیز موجود نہ ہو پھر قیاس سے کام چلایا جاتا ہے، 
مطلب جیسے اللہ پاک نے جانوروں کی زکوٰۃ فرض کی ہے، اب ہم نے بھینس کی زکوٰۃ نکالنی ہے، 
جب ہمیں حدیث میں بھینس کی زکوٰۃ نکالنے کا نصاب نہیں ملتا تو ہم مجبور ہیں کہ بھینس کو گائے پہ قیاس کر کے اسکے مطابق زکوٰۃ نکالیں، 
اور کوئی رستہ نہیں ہمارے پاس، تا کہ زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی وجہ سے ہم گناہ میں ملوث نہ ہو جائیں، 
اسی طرح اگر قربانی کے لئے بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ اصل جانور ہیں، 
اگر یہ جانور نہ ملیں تو پھر ہم مجبور ہیں کہ اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے ہم بھینس کو گائے پر قیاس کر کے اسکی قربانی کریں، اور یقیناً اس وقت یہ جائز بھی ہو گا، 
لیکن جب قربانی کے لئے اصل جانور بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ عام دستیاب ہیں تو پھر ہم آسانی یا چند پیسے بچانے کی خاطر قیاس کیوں کریں؟؟
اگر فرض کریں بھینس کی زکوٰۃ کا نصاب شریعت میں موجود ہوتا تو کیا اس بھینس کو گائے پر قیاس کیا جاتا؟
یقیناً نہیں کیا جاتا، تو یہ بات سمجھ آئی قیاس اس وقت ہوتا ہے جب اصل موجود نا ہو، 
جب اصل موجود ہو تو قیاس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی، 

• حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں، 
کہ نبی کریم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بغیر اونٹ، گائے اور بکر ی کے کسی قسم کے حیوان کی قربانی کرنا منقول نہیں ہے
(تلخیص الحبیر :ج۲ص۲۸۴)

• حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :۔۔۔۔یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے ام المومنین حضرت سودہ کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا لڑکا پید ا ہوا جو اپنی والدہ کے پاس پروش پاتا رہا زانی مر گیا اور اپنے سعد بن وقاص کو وصیت کر گیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ کرلینا فتح مکہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا اور کہا یہ میرا بھتیجہ ہے زمعہ کے بیٹے نے کہا کہ یہ میرے باپ کا بیٹا ہے لہذا میرا بھائی ہے اس کو میں لوں گا مقدمہ دربار نبوی میں پیش ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا الولد للفراش وللعاہر الحجر ۔اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے بچہ سودہ رضی اللہ عنھا کے بھائی حوالے کر دیا جو حضرت سودہ کا بھی بھائی بن گیا لیکن حضرت سودہ کو حکم فرمایا کہ وہ اس سے پردہ کرے کیونکہ اس کی شکل وصورت زانی سے ملتی تھی جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے۔
دیکھئے اس مسئلہ میں شکل و صورت کے لحاظ سے تو پردے کا حکم ہوا اور جس کے گھر میں پیدا ہوا اس کے لحاط سے اس کا بیٹا بنا دیا گویا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا ایسا ہی معاملہ بھینس کا ہے اس میں دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہوگا، زکوۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے اس لئے بھینس کی قربانی جائز نہیں ۔
اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ الجاموس نوع من البقر یعنی یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی زکوۃ کے لحاظ سے ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے
(فتاوی اہل حدیث_ ج۲ ص۴۲۶)

• اس فتوے پر تبصرہ کرتے محقق العصر عبدالقادر حصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کہ آپ (محدث روپڑی صاحب)کے مجتہد اور جامع المغموص ہونے کا بندہ پہلے ہی معترف ہے مگر گزشتہ پرچہ (تنظیم اہل حدیث جلد ۱۶شمارہ ۴۲، ۱۷ اپریل ۱۹۶۴ )میں بھینسا کی قربانی کے فتوی میں آ پ نے حدیث زمعہ سے اجتہاد فرما کر زکوۃ اور قربانی میں احتیاطی صورت کو جس طرح مدلل کیا ہے وہ آ پ کے مجتہد مطلق ہونے پر بین دلیل ہے، اور ہمیں فخر ہے کہ ہماری جماعت میں بفضلہ تعالی مجتھد موجود ہیں ۔۔۔آپ نے جو جواب دیا ہے اس سے حنفیہ کا اعتراض اور استدلال رفع ہو گیا ہے
(فتاوی حصاریہ ج ۵ ص ۴۴۲)

• مفتی مبشر ربانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
ائمہ اسلام کے ہاں جاموس یعنی بھینس کا جنس بقر سے ہونا مختلف فیہ ہے مبنی بر احتیاط اور راجح موقف یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ، گائے، بھیڑ بکری سے کی جائے جب یہ جانور موجود ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب ہی کرنا چاہئے اور دیگر بحث و مباحثے سے بچنا ہی اولی وبہتر ہے۔
(احکام ومسائل ص۵۱۱)

• شیخ الاسلام حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ، 
زکوۃ کے سلسلے میں، اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ تا ہم چونکہ نبی کریمﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے صراحتا بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہذٰا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف گائے، اونٹ، بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے۔واللہ اعلم
( فتاوی علمیہ، جلد/دوم_ص181)

• سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں، 
قربانی اونٹ، بکری، بھیڑ اور گائے کے علاوہ جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ یاد کریں اس پر اللہ کا نام جو اللہ نے انہیں مویشیوں اور چوپایوں میں سے دی ہے، 
(فقہ السنہ ج3/ص264)

• شیخ رفیق طاھر صاحب حفظہ اللہ، 
فرماتے ہیں، 
ان آٹھ جانوروں (۱، ۲بکری نرومادہ، ۳، ۴بھیڑ نرومادہ، ۵، ۶اونٹ نرو مادہ، ۷، ۸گائے نرومادہ) کے علاوہ دیگر حلال جانور (پالتو ہوں یا غیر پالتو) کی قربانی کتاب وسنت سے ثابت نہیں ۔ لہٰذا بھینس یا بھینسے کی قربانی درست نہیں ۔ قربانی ان جانوروں کی دی جائے جن کی قربانی رسول اللہﷺ کے قول وعمل و تقریر سے ثابت ہو، 

http://www.rafeeqtahir.com/ur/play.php?catsmktba=514#.V8pWOw_1Zb8.facebook

• ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا فتوی:
ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنھما کے گھر بچہ پیدا ہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو کسی نے کہا کہ عقیقہ کے لئے اونٹ ذبح کیا جائے تو آپ نے فرمایا معاذ اللہ ہم تو وہی کریں گے جو ہمیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ، ہم عمر دو بکریاں ذبح کی جائیں
(سنن الکبری للبیھقی :ج۹ ص۳۰۱)
اس واقعے سے دو باتیں ثابت ہوئیں، 
کہ امی عائشہ رضی اللہ عنھا نے اونٹ کو عقیقہ میں ذبح کرنا درست نہیں سمجھا حالانکہ اونٹ قربانی میں ذبح کیا جاتا ہے ۔
اور یہی سنت کی اتباع ہے، افسوس ہے ان لوگوں پر جو اپنے آپ کو سنت کا متبع بھی قرار دیتے ہیں پھر عقیقہ میں بھینس کو بھی ذبح کرتے ہیں اسی طرح بھینس کی قربانی میں جواز کا فتوی دینے والے عقیقہ میں بھی بھینس کو ذبح کرتے ہیں۔
امی عائشہ رضی اللہ عنھا کے فتوی کی روشنی میں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب عقیقہ میں اونٹ ذبح نہیں کیا جا سکتا تو عقیقہ میں بھینس بالاولی ذبح نہیں کی جا سکتی جب بھینس عقیقہ میں ذبح نہیں ہو سکتی تو اس کو قربانی میں ذبح کرنا تو بہت دور کی بات ہے
یہی اتباع سنت ہے..!
نبی کریم ﷺ کے دور میں اونٹ عام تھے جب ان کی موجودگی میں بھی آپ نے عقیقہ میں ذبح نہیں کیے، تو ان لوگوں کا اعتراض کہ آ پ کے زمانے میں بھینس نہیں تھی اس لئے آ پ نے قربانی نہیں کی تو یہ اعتراض بے جا ہے، 
بات یہ نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ مسنون قربانی وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی بس اسی میں نجات ہے، 

خلاصہ یہ ہے کہ

1 :قربانی کرنا عبادت ہے، اس کے لئے وہی جانور کرنا ہو گا جس کا قرآن وحدیث سے ثبوت ملے گا ۔ہر عبادت کا طریقہ الگ الگ ہے ۔
اور وہ جانور ہیں اونٹ، گائے، ، بھیڑ اور بکری۔

2 :رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام، تابعین، تبعہ تابعین، ائمہ دین اور متقدمین و متاخرین محدثین کرام میں سے کسی سے بھی بھینس کی قربانی کرنا ثابت نہیں ہے ۔حالانکہ تابعین وغیرہ نے جاموس(بھینس) کو الگ نام دیا ہے ۔

3 :ہر حلال جانور قربانی پر نہیں لگتا ہرن، گھوڑا وغیرہ حلال ہیں لیکن قربانی پر جائز نہیں ہیں ۔کیونکہ ثابت نہیں ہیں ۔

4 :تمام محدثین نے بھینس کا ذکر کیا ہے زکوۃ کے بیان میں لیکن کسی نے بھی محدث نے قربانی بیان میں بھینس کا ذکر تک نہیں کیا، کیونکہ زکوۃ ایک الگ عبادت ہے اور قربانی ایک الگ عبادت ہے ایک دوسری پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

5 :بھینس گائے کی جنس سے نہیں ہے اگر اسی جنس سے ہوتی تو بیل بھینس کو جفتی کرتا ۔اس طرح نہیں ہے کیونکہ ا ن دونوں کی جنس ایک نہیں ہے ۔

6 :زکوۃ کے بیان میں بعض اہل علم نے بھینس کو نوع من البقر کہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوۃ دینے میں بھینس کو گائے کی طرح ایک قسم قرار دیا جائے گایعنی بھینس کو زکوۃ میں گائے کے ساتھ ملایا جائے گا، 
“ملایا جائے گا ” اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ بھینس گائے کی جنس سے نہیں ہے، اگر جنس سے ہوتی تو بھینس کو نو ع کہنے کی ضرورت نہ پڑتی ۔

7 :تابعین وغیرہ نے بھینس کی زکوۃ کے بارے میں فتوے دیے لیکن کسی نے قربانی کے متعلق اس کا ذکر تک نہ کیا ۔اگر کوئی کہے کہ وہ بھینس کو گائے ہی سمجھتے تھے اس لئے ذکر نہیں کیا تو عرض ہے کہ انھیں زکوۃ کے بیان میں بھینس کا الگ ذکر کیوں کیا ۔بس وہ زکوۃ میں بھی گائے کا ہی ذکر کرتے ۔زکوۃ کے باب میں گائے اور بھینس کو الگ الگ ذکر کرنا اورقربانی کے بیان میں صرف گائے کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ محدثین بھینس کی قربانی نہیں کیا کرتے تھے اور نہ گائے کی جنس سے سمجھتے تھے، 

8:شک والی چیز کو چھوڑنا واجب ہوتا ہے اسی میں ایمان کی سلامتی ہوتی ہے ۔مجتھدین کی بھینس کی قربانی کے متعلق دو رائے ہی ہیں
چند متاخرین کہتے ہیں کہ جائز ہے حالانکہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام، تابعین، تبعہ تابعین، ائمہ دین اور متقدمین کرام میں سے کسی سے کرنا ثابت نہیں ہے ۔

9 : دین قرآن و حدیث کا نام ہے
افسوس کہ بھینس کی قربانی کے لئے دلیل قرآن و حدیث کو چھوڑ کر کسی اور سے دی جاتی ہے، 

• ایک محترم نے لمبی چوڑی بحث لکھی جس میں اہل لغت کے تمام دلائل اسی بات کے گرد گھومتے ہیں کہ بھینس گائے کی قسم سے ہے، اس لیے اسکی قربانی بھی جائز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!! آخر تک)

اس ساری بحث میں بھینس کی قربانی پر کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے ۔
صرف لفظ بقر کو جاموس یعنی بھینس پر صادق کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اور اسکے لیے بھی اہل عرب کے اقوال پیش کیے گئے ہیں ۔
جبکہ اہل عرب کا قول اس میدان میں حجت نہیں ہے ۔ کیونکہ عرب میں گائے ہی پائی جاتی تھی بھینس موجود نہ تھی ۔ بھینس بعد میں وہاں پہنچی تو انہوں نے اسے گائے کی ہی جنس سمجھ لیا ۔ جبکہ برصغیر پاک وہند میں گائے اور بھینس دونوں جانور مدتوں سے موجود ہیں اور یہ لوگ عرب کی نسبت ان دونوں جانوروں کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔ اور موجودہ ماہرین بھی دونوں کو الگ الگ جانور قرار دیتے ہیں نہ کہ ایک ہی جانور کی دو نسلیں ۔
دونوں جانوروں میں بہت سے بنیادی فرق ہیں ۔
اہل عرب کو بھینس کا تعارف کرایا گیا اور بآسانی انہیں سمجھانے کے لیے لفظ ” گائے کی قسم ” استعمال کیا گیا ۔جیسا کہ لومڑی کتا اور گیدڑ تینوں الگ الگ جانور ہیں ۔ لیکن ظاہری طور پر کافی حدتک ملتے جلتے ہیں , اور عام آدمی گیدڑ اور کتے کے درمیان فرق نہیں کر پاتا ۔اور جس شخص کو گیدڑ کے بارہ میں معلوم نہ ہو کہ وہ کیا ہوتا ہے اسے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ بھی ایک قسم کا کتا ہی ہے ۔ بس یہ فرق ہے ۔
یہی حال گائے اور بھینس کا ہے ۔
خوب سمجھ لیں، 

لہذا تمام دوست بلا وجہ بحث مباحثے کی بجائے مسنون جانوروں کی ہی قربانی کریں جو سنت سے ثابت ہیں، اور اسی میں خیر اور بھلائی ہے، 

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب) 

الفرقان اسلامک میسج سروس
+923036501765

https://alfurqan.info/problems/258 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

ختم شد 

.