اتوار، 9 اگست، 2020

مثبت اور منفی سوچ کا ہماری زندگی میں کیا اثر پڑتا ہے؟ ‏اشفاق ‏عالم ‏عالیاوی ‏

.

 ꧁ 🌴 ﷽ 🌴 ꧂ 

مثبت اور منفی سوچ کا ہماری زندگی میں کیا اثر پڑتا ہے؟ 

منفی سوچ 

         ہمارے سماج اور معاشرہ میں بہت سے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سُنا اور دیکھا جاتا ہے کہ "اس دنیا میں گناہوں سے بچ کر نکل جانا، سنن و فرائض پر کما حقہ عمل پیرا ہو جانا اور آخرت میں جنت پا لینا بہت مشکل ہے حتی کہ نا ممکن ہے" 
         
اس طرح کی منفی سوچ رکھنے والے افراد اپنے منفی افکار و خیالات کی وضاحت بھی بڑے بھولے بھالے انداز میں کرتے ہیں۔ 

       کہتے ہیں کہ یہ دنیا رنگینیوں سے پُر ہے، چہار جانب مارا ماری، چوری ڈکیتی پھیلی ہوئی ہے،  بازاروں میں لین دین، تجارت و کاروبار دھوکہ دھڑی اور دغابازی سے خالی نہیں ہے، بینکوں میں اور عام لین دینوں میں سودی کاروبار کا بازار گرم ہے،،،،، پھر اپنے آپ کو گناہوں سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ یا تو آخرت بیچ کر دنیا داری کرنا ہوگا یا پھر آخرت کے چکر میں دنیا کو برباد کرنا ہوگا۔ 

مثبت سوچ 

پہلے دنیا کی رنگینیوں اور غلاظتوں سے اپنے افکار و خیالات کو پاک کریں۔ پھر جگر تھام کر دراسہ کریں 
ایک صحابی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہتے ہیں 
 
يَا رَسُول اللَّهِ دُلَّني عَلَى عمَل إِذا عمِلْتُهُ، دخَلْتُ الجنَّةَ. قَالَ: تَعْبُدُ اللَّه وَلاَ تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكاَة المَفْرُوضَةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ قَالَ: وَالذي نَفْسِي بِيَدِهِ، لا أَزيدُ عَلى هَذَا. فَلَمَّا وَلَّى، قالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلى هَذَا مُتفقٌ عَلَيْهِ. 

ترجمہ: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایسا عمل بتائے جس پر عمل کر کے جنت میں داخل ہوجاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، فرض زکوٰۃ دو، اور رمضان کے مہینے کے روزے رکھو، وہ صحابی کہتے ہیں اللہ کی قسم میں اس سے کچھ بھی زیادہ نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو جنتی آدمی دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے وہ اسے دیکھ لے۔ 

مثبت سوچ اپنائیں اور فوائد تلاشیں 
حدیثِ مذکور میں ایک صحابی صرف چار اعمال (شرک سے پاک خالص عبادت، نماز، زکوٰۃ اور روزہ) انجام دے کر جنت کا مستحق ہو سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ لہٰذا ہمیں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ 
اس صحابی نے ان چار اعمال کے علاوہ کچھ بھی عمل نہیں کروں گا، کہتے ہوئے قسم کھالی پھر بھی جنت کا مستحق بنا تو ہم کیوں نہیں؟ لہٰذا ہمیں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ 

ہمارے ذہن و دماغ میں پھر ایک نئی سوچ پیدا ہوگی کہ پھر ہمارے گناہوں کا کیا ہوگا؟ 

جواب: (کل بنی آدم خطاء وخیر الخطائین التوابون) ہر انسان سے جانے انجانے میں گناہ سرزد ہونگے لیکن توبہ کرنے اور مستقبل میں نہ کرنے کا عہد کرنے سے سارے گناہ معاف کر دئے جائیں گے۔ 

(نوٹ) پہلی حدیث میں فقط چار اعمال کا ذکر ہے، حج کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ ممکن ہے کہ اس وقت حج فرض نہ ہوا ہو، یا وہ دیہاتی آدمی حج کی استطاعت نہیں رکھتا تھا اس لئے رسول اللہ نے حج کے لئے نہیں ابھارا۔ کیونکہ حج اسی پر فرض ہے جو مستطیع ہو۔ 

ایک اور سوچ کا دخل
جب چار اعمال انجام دے کر جنت حاصل کر سکتے ہیں؟ تو سنن و نوافل کا کیا ہوگا۔ جی سنن ونوافل مزید نیکیاں کمانے کے لئے ہے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے ہے۔ اسی طرح سے ہمارے گناہوں کا کفارہ بھی ہوتا ہے۔ (یاد رہے ہماری عبادتیں شرک سے پاک و صاف رہیں) ان شاء اللہ العزیر ہم سب جنت کے مستحق ہوں گے۔ 

لہٰذا اپنے افکار و خیالات کو پاک و صاف کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ جنت جانا بہت آسان ہے۔ 

بدلو سوچ بدلو زندگی 

اشفاق عالم عالیاوی 
دلکولہ، اتر دیناجپور 

.