جمعہ، 7 اگست، 2020

سید قطب کے عقدی و فکری انحرافات ‏۱

.

🌻 ꧁ ﷽ ꧂ 🌻

سید قطب کے عقدی و فکری انحرافات 

قسط اول 

بقلم 
مامون رشید ہارون رشید سلفی 

(اخوانی، منکر صفات باری تعالیٰ، وحدت الوجود کا قائل، حلولی، تكفیریوں کا سرغنہ، گستاخ رسول و گستاخ صحابہ) 

~~~~؛ 

قارئین کرام: سید قطب (جن کا اصل نام سید اور خاندانی نام قطب ہے) 9 اکتوبر 1906ء کو مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں بدعت و خرافات کا غلغلہ عام تھا سید قطب کے والد روزانہ عشا کے کھانے کے بعد اپنے بچوں کی موجودگی میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتے اور اسے اپنے والدین کی روح کو ہدیہ کرتے تھے,  اسی طرح ان کے والد ختم قرآن کی محفلیں منعقد کرتے بالخصوص رمضان کے مہینے میں اس کا زیادہ اہتمام کرتے, اور ان کا گاؤں بھی ایک صوفی بزرگ ولی اللہ عبد الفتاح کے نام (بلدة الشيخ عبد الفتاح) سے مشہور تھا کہا جاتا ہے جیسا کہ معروف اخوانی بدعتی دکتور عبد اللہ عزام نے اپنی کتاب "عملاق الفكر الإسلامي الشهيد سيد قطب ص:8" کے اندر لکھا ہے کہ سید قطب کے  آبا و اجداد اصلاً ہندوستانی تھے ان کا جد رابع حسین ارض حرمین کی طرف ہجرت کر گیے پھر وہاں سے ہجرت کرکے بالائی مصر کے علاقے میں آباد ہو گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی. 

ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد سنہ 1920ء کو قاہرہ کی جانب رخت سفر باندھا اور بقیہ تعلیم قاہرہ یونیورسٹی سے حاصل کی بعد میں یہیں پروفیسر ہو گئے۔ کچھ دنوں کے بعد وزارت تعلیم کے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز ہوئے پھر کچھ عرصہ بعد اخوان المسلمون سے جڑ گئے اور نہایت دلجمعی کے ساتھ نشر اخوانیت میں لگے رہے یہاں تک کہ حسن البنا کے بعد اخوانیت میں دوبارہ روح پھونکنے کا کام کیا اور بعد کے بہت سارے اخوانی بجائے اخوانی کے سید قطب کی طرف منسوب ہو کر اپنے آپ کو قطبی کہلوانے لگے.....

محققین اہل علم کا کہنا ہے کہ سید قطب نے کبھی بھی باقاعدہ اسلامی تعلیم حاصل نہیں کی چنانچہ سید قطب کی تعلیم پر گفتگو کرتے ہوئے شیخ اجمل منظور مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:"اخوانیوں کے سید قطب کب عالم دین ہوگئے؟! 

• سید قطب کی پیدائش 1906 میں ہوئی۔

• 1933 میں دار العلوم کالج سے Educational teacher certificate حاصل کیا۔ 

• یعنی 27/ سال کی عمر میں شرعی علوم حاصل نہیں کیا تھا بلکہ ادبی اور ثقافتی علوم میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ 

• 1934 میں 29/ سال کی عمر میں پہلی بار اپنے ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مقالہ (الشواطئ العارية= ننگی ساحل) کے نام سے لکھا۔  جس میں ننگے پن اور بے حیائی کی طرف دعوت دی۔ 

• 39/ سال کی عمر میں 1943 کے اندر ایک مضمون لکھا(لماذا صرت ماسونيا؟) کے نام سے ،، یعنی میں ماسونی کیوں بنا؟ یہ یہودیوں کی ایک شیطانی خفیہ جماعت ہے۔ 

• 42/ سال کی عمر میں 1948 میں امریکہ چلے گئے اپنی تعلیم کو مزید پختہ کرنے کیلئے۔۔ مگر وہاں امریکی سی آیی اے کے ساتھ ٹریننگ حاصل کی۔ 

• دو سال کے بعد 1950 میں مصر واپس آگئے۔۔ 

• 48/ سال کی عمر میں 1954 کے اندر اخوانی جماعت میں شمولیت اختیار کی۔

• 1956 کے اندر مختلف دہشت گردی سمیت کئی جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کئے گئے۔ 

• پھر آٹھ سال تک یعنی 1964 تک جیل ہی میں رہے۔۔ اس وقت انکی عمر اٹھاون تک پہونچ گئی تھی۔۔ 

• 1964 میں ایک سرکاری عام معافی کے تحت جیل سے رہا ہوگئے۔ پھر دوبارہ 1965 میں دیگر بھیانک دہشت گردی اور غداری کے جرائم میں گرفتار ہوئے۔ 

• پھر 1966 میں اعتراف جرم کی وجہ سے پھانسی دی گئی۔  اس وقت انکی عمر 59/ سال کی تھی۔ 

• سوال یہ ہیکہ سید قطب نے شرعی علوم کب اور کس سے حاصل کی؟ 

• پھر ایسے مجرم شخص کو دین کا پہاڑ بنا کر آخر کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ 

• اگر غور سے سید قطب کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ بندہ ہر میدان میں فیل ہوتا نظر آیا ہے...." 

سید قطب نے بہت ساری کتابیں بھی لکھی ہے جو اخوانیوں کے ہاں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی اور پڑھی جاتی ہیں جن میں:طفل من القریۃ، المدينۃ المسحورۃ، النقد الادبی، التصوير الفنی فی القرآن، مشاھد القيامۃ فی القرآن، معالم فی الطريق، المستقبل لھذا الدين، هذا الدین، فی ظلال القرآن (تفسیرِ قرآن)، كیف وقعت مراكش تحت الحماہۃ الفرنسیۃ؟، الصبح يتنفس، وظیفۃ الفن والصحافۃ، العدالۃ الاجتماعیۃ فی السلام وغیرہ قابل ذکر ہیں. 

آئیے ان کے انحرافات جاننے سے قبل ان کے بارے میں کبار علمائے اہل حدیث کی آراء ملاحظہ کرتے ہیں: 
 
 سید قطب کے بارے میں علما کے اقوال: 

(1) محدث العصر علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ: 
شیخ رحمہ اللہ ایک خط میں شیخ ربیع کو لکھتے ہیں "كل ما رددته على سيد قطب حقٌ صوابٌ، ومنه يتبين لكل قارئ على شيء من الثقافة الإسلامية أن سيد قطب لم يكن على معرفة بالإسلام بأصوله وفروعه.
فجزاك الله خير الجزاء أيها الأخ (الربيع) على قيامك بواجب البيان والكشف عن جهله وانحرافه عن الإسلام"

"جو کچھ بھی آپ نے سید قطب کے سلسلے میں بطور رد لکھا ہے سب مبنی بر حق و صواب ہے، اور اس سے ہر اس شخص کے لیے جو اسلامی ثقافت سے متعلق کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سید قطب کو اسلام کے اصول و فروع کے بارے میں کچھ بھی معرفت نہیں تھی، 
ائے برادر (ربیع المدخلي) اسلام کے تعلق سے اس (سید قطب) کی جہالت اور انحراف کی وضاحت و بیان کے واجب کو ادا کرنے پر اللہ آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے" (رسالة تأييد الشيخ الألباني لردود الشيخ ربيع على سيد قطب) 

(2) شیخ الاسلام عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ: 

سید قطب اپنی تصنیف “التصویر الفنی فی القرآن’ ص 200 میں لکھتے ہیں : “مثال کے طور پر ہم موسی علیہ الصلاۃ والسلام ( کے کردار ) کو لے لیتے ہیں، وہ پر جوش، متعصب مزاج لیڈر کی ایک مثال ہیں”۔ (نعوذباللہ) 

سماحتہ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمتہ اللہ اس کلام پر تعلیق لگاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: انبیاء کا مزاق اڑانا ایک مستقل ارتداد ہے (یعنی جان بوجھ کر ایسا کرنے والا شخص حجت تمام ہونے کے بعد دین سے خارج ہو کر کافر ہو جاتا ہے )”۔

(اقتباس از کیسٹ اقوال العلماء فی سید قطب، مکتبہ منہاج السنتہ کی آڈیو رکارڈنگز، ریاض) 

اسی طرح جب سید کی استواء کی تفسیر(هيمنة) قبضہ اور غلبہ کا ذکر کيا گیا جیسا کہ انہوں نے سورہ طہ میں آیت 5 (الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ) کی تفسیر (في ظلال القرآن جلد 4، ص 2328 ) میں‌لکھا ہے:(أما الاستواء على العرش فنملك أن نقول: إنه كناية عن الهيمنة على هذا الخلق) 
تو شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ نے  اس کی اس بات پر تعلیق کرتے ہوئے فرمایا:”(هذا كله كلام فاسدٌ، هذا معناه الهيمنة، ما أثبت الاستواء: معناه إنكار الاستواء المعروف، وهو العلو على العرش، وهذا باطلٌ يدل على أنه مسكين ضايع في التفسير) یہ فاسد کلام ہے اس کا معنی ہے (هيمنة)  اس نے صفت استواء کا اثبات نہیں کیا اس کا مطلب تو استواء جس کا صحیح معنی ہے عرش پر بلند ہونا کا انکار کرنا ہوا ، اور یہ باطل ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہےکہ یہ تفسیر میں مسکین اور گم گشتہ راہ انسان ہے”۔ 
(کیسٹ: اقوال العلماء فی سید قطب) 

اسی طرح ایک مرتبہ سید قطب کی کتابوں کے بارے میں فرمایا:" ينبغي ان تمزق" یعنی ان کتابوں کو پھاڑ دینا چاہیے..(شرح رياض الصالحين لسماحته بتاريخ يوم الأحد 18/7/1416)

(3) فقيه الأمۃ شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ : شیخ رحمہ اللہ علیہ (مجلّۃ الدعوۃ شمارہ: 1591، 1418/1/9ھ) میں تفسیر ظلال القرآن کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: “.....وإنما قرأتُ تفسيره لسورة الإخلاص وقد قال قولاً عظيماً فيها مخالفاً لما عليه أهل السنة والجماعة؛ حيث أن تفسيره لها يدل على أنه يقول بوحدة الوجود وكذلك تفسيره للاستواء بأنه الهيمنة والسيطرة" 
میں نے سید قطب کی سورہ اخلاص کی تفسیر پڑھی ہے، اس نے اس میں بہت بڑی بات کہی ہے، جو اہل سنت والجماعت کے منھج کے مخالف ہے کیونکہ اس کی تفسیر یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ وحدت الوجود کا قائل ہے۔ اسی طرح اس کی استواء کی تفسیر (گمراہ فرقے جیسے معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ وغیرہ جو اللہ تعالی کی صفات کی سلف صالحین کے مذہب کے بر خلاف تاویلات کرتے ہیں) استولی (قبضہ یا غلبہ ) ہے” 

(4) محدث يمن مقبل بن هادي الوادعي رحمہ اللہ:"من أئمة أهل البدع" (فضائح ونصائح ص:151)
وہ بدعتیوں کے اماموں میں سے ہے 
اسی طرح فرمایا:"هو يعتبر مبتدعا من المبتدعين" (شريط تحذير الحيران من تلبيسات السرورية والإخوان) 
 وہ بدعتیوں میں سے ایک بدعتی ہے. 

(5) علامہ صالح الفوزان حفظہ اللہ: 
آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا: کہ سید قطب کا کہنا ہے کہ اسلام (نظام آقا و غلام) غلامی کو برقرار نہیں رکھتا اس کو جو باقی رکھا ہے وہ لوگوں کے حملے اور انکار کے خوف سے باقی رکھا ہے کیونکہ غلامی کو لوگوں نے اپنے باپ دادا سے پایا ہے، اسلام نے من باب المجاملہ اس کو باقی رکھا ہے یعنی گویا اللہ رب العالمین لوگوں کے ساتھ مجاملت اور خوش معاملگی کر رہے ہیں، اور اللہ رب العالمین نے بتدریج رفع رق کی جانب اشارہ بھی کیا ہے حتی کہ وہ ختم ہو جائے" پھر اس نظریے پر رد کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: "
هذا كلام باطل وإلحاد - والعياذ بالله - هذا إلحاد واتهام للإسلام.ولولا العذر بالجهل، لأن هؤلاء نعذرهم بالجهل لا نقول إنهم كفارٌ ؛ لأنهم جهال أو مقلدون نقلوا هذا القول من غير تفكير فنعذرهم بالجهل، وإلا الكلام هذا خطير لو قاله إنسان متعمد ارتد عن دين الإسلام،

یہ کلام باطل اور الحاد ہے نعوذ باللہ یہ بے دینی ہے اور اسلام پر اتہام تراشی ہے، اگر جہالت کی وجہ سے عذر نہ ہوتا تو.... کیونکہ ہم انہیں جہالت کی وجہ سے معذور سمجھتے ہیں ہم انہیں کافر نہیں گردانتے، کیونکہ یہ جاہل ہیں یا پھر مقلد ہیں ان لوگوں نے یہ بات بغیر سوچے سمجھے نقل کر دی ہے لہٰذا ہم جہل کی وجہ سے انہیں معذور سمجھتے ہیں ورنہ یہ بات بہت خطرناک ہے اگر کوئی شخص جان بوجھ کر یہ بات کہے تو وہ دین اسلام سے مرتد ہو جائے گا (شریط:https://youtu.be/FmDTQ7Nf95g )

اسی طرح فرماتے ہیں:"و سيد قطب جاهل ما عنده علم ولا عنده معرفة ولا عنده أدلة على ما يقول" سید قطب جاہل ہے اس کے پاس علم نہیں ہے نہ ہی اس کے پاس معرفت ہے اور نہ ہی اپنی باتوں کی دلیل"( شریط:أقوال العلماء في إبطال قواعد ومقالات عدنان عرعور)

(6) علامہ صالح بن محمد اللحیدان: آپ سید قطب کی تفسیر "فی ظلال القرآن" کے بارے میں فرماتے ہیں:"بل هو مليء بما يخالف العقيدة، فالرجـل - رحمه الله نسأل الله أن يرحم جميع أموات المسلمين - ليس من أهل العلم"
بلکہ وہ کتاب (اہل سنت کے) عقیدے کے مخالف مواد سے بھری پڑی ہے اور سید قطب عالم دین نہیں تھا" 

(7) محدث مدینہ حماد بن محمد انصاری رحمہ اللہ:  سید قطب اپنی تصنیف “المعرکہ بين الإسلام والرأسمالية ” ص 61 میں‌کہتا ہے: “اسلام کے لئے واجب ہے کہ وہ حکومت کرے کیونکہ یہی وہ واحد مثبت و انشائی عقیدہ ہے جو عیسائیت اور کمیونزم دونوں سے ملکر کامل بنتا ہے ۔ ان دونوں کے اداف اپنے اندر رکھتا ہے، اور توازن، تنظیم اور اعتدال میں ان سے بڑھ کر ہے"
اس بات پر تعلیق لگاتے ہوئے شیخ فرماتے ہیں: إن كان قائل هذا الكلام حياً فيجب أن يستتاب، فإن تاب وإلا قتل مرتداً، وإن كان قد مـات فيجب أن يُبَيَّنَ أن هذا الكلام باطل ولا نكفره لإننا لم نقم عليه الحجة )
اگر اس بات کا کہنے والا (یعنی سید قطب) زندہ ہے تو وجوبا اس سے توبہ کروائی جائے گی اگر وہ توبہ کر لے تو ٹھیک ورنہ اس کو ارتداد کی حد میں قتل کر دیا جائے گا، اور اگر مر گیا ہے تو یہ بات بتانا لازمی ہے کہ یہ کلام باطل ہے اور ہم اس کی تکفیر نہیں کریں گے کیونکہ ہم نے  اس پر حجت قائم نہیں کیا ہے 
( كتاب "العواصم مما في كتب سيد قطب من القواصم" للشيخ المحدث ربيع المدخلي (ص24) .

(8) حامل لواء الجرح والتعديل في هذا الزمان علامہ ربيع بن هادي المدخلي حفظہ اللہ :
آپ نے اس کے رد میں کئی ساری کتابیں لکھی ہیں جن میں: أضواء إسلامية على عقيدة سيد قطب وفكره.
مطاعن سيد قطب في أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم .العواصم مما في كتب سيد قطب من القواصم .
" الحد الفاصل بين الحق والباطل " حوار مع بكر أبو زيد ، سيد قطب هو مصدر التكفير المجتمعات وغیرہ قابل ذکر ہیں.  آپ نے سید قطب کو "تکفیری، وحدت الوجود کا قائل، خلق قرآن کا قائل، حضرت موسیٰ کے سلسلے میں بد کلامی کرنے والا، حضرت عثمان اور معاویہ عمرو بن العاص وغیرہم کبار صحابہ کو گالی دینے والا، صفات باری تعالیٰ کا منکر، اشتراکیت کا داعی، قرآن کے علاوہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے تمام معجزات کا منکر قرار دیا ہے تفصیل کے لیے درج بالا کتابوں کا مطالعہ کریں. 

اسی طرح شیخ عبد المحسن العباد، شيخ محمد أمان جامي شيخ أحمد بن يحيى النجمي، شيخ عبيد بن عبد الله الجابري، شيخ عبد العزيز آل شیخ وغيرہم گویا اکثر کبار سلفی علما نے اس پر کلام کیا ہے..
 
 سید قطب کے انحرافات: 

 اول : سید قطب اللہ کے رسول موسی علیہ السلام کے سلسلے میں بد کلامی اور گستاخی کا مرتکب ہے:

سید قطب کہتا ہے: 

(1) "لنأخذ موسى؛ إنه نموذج للزعيم المندفع العصبي المزاج"( في ظلال القرآن ص:200)
“مثال کے طور پر ہم موسی علیہ الصلاۃ والسلام کو لے لیتے ہیں، وہ پر جوش، متعصب مزاج لیڈر کی ایک مثال ہیں”۔ 

(2) "وهنا يبدو التعصب القومي كما يبدو الانفعال العصبي)، على قول الله تعالى: {فَوَكَزَهُ مُوسَى} [القصص: 15] (ص200)   فوکزہ موسی کی تفسیر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہاں (موسی کی) قومی عصبیت ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ تعصب آمیز اشتعال کا بھی اظہار ہوتا ہے. 

(3) "وتلك سمة العصبيين" على قول الله تعالى: {فَأَصْبَحَ فِي الْمَدِينَةِ خَائِفاً يَتَرَقَّبُ} [القصص: 18] (ص201). 
آیت کریمہ فَأَصْبح فِي الْمَدِينَةِ خَائِفاً يَتَرَقّب کی تفسیر کرتے ہوئے سید قطب موسی علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے" یہ متعصب لوگوں کی علامت ہے" یعنی آیت میں جو کہا گیا ہے کہ آپ اندیشہ کی حالت میں خبر لینے کے لیے شہر میں گیے تو ایسا کرنا متعصب لوگوں کی علامت ہے 

(4) (ولكنه يهم بالرجل الآخر كما هم بالأمس وينسيه التعصب والاندفاع استغفاره وندمه)، على قول الله تعالى: {فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن يَبْطِشَ بِالَّذِي هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا} [القصص: 19]  (ص201).

اس آیت کریمہ پر تعلیق لگاتے ہوئے کہتا ہے: لیکن وہ دوسرے آدمی پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے جیسا کہ گزشتہ کل کیا تھا اور تعصب اور اشتعال انگیزی اسے اپنا استغفار اور ندامت بھلا دیتی ہے"

(5) ثم لندعه فترة أخرى لنرى ماذا يصنع الزمن في أعصابه ،  ولكن ها هو ذا يسأل ربه سؤالاً عجيباً): {قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ} [الأعراف: 143] (ص201-202). 
پھر ہم اسے(موسی کو) مزید تھوڑی مدت کے لیے چھوڑ کر دیکھتے ہیں کہ زمانہ اس کے اعصاب میں کیا کرتا ہے لیکن دیکھو اسے یہ رہا وہ اپنے رب سے کیسا عجیب مطالبہ کرتا ہے"

(6) (تقابل شخصية موسى شخصية إبراهيم؛ إنه نموذج الهدوء والتسامح والحكمة) على قول الله تعالى: {إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ} [هود: 75] (ص203).
موسی کی شخصیت کا ابراہیم کی شخصیت سے موازنہ کیجیے بیشک ابراہیم اطمینان تسامح اور حکمت کے مثال ہیں.....(مطلب موسی علیہ السلام ہدوء و سکون اور تسامح  و حکمت سے خالی ہیں..) 

سید قطب کی ان تمام باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ موسی علیہ السلام کے بارے میں وہ کیا سوچ رکھتا تھا اور اس کی نظر میں ان کا کیا مقام تھا... 

جبکہ اللہ رب العالمین نے انہیں منتخب کر کے بنو اسرائیل کا رسول بنایا تھا اور وہ الو العزم پیغمبروں میں سے تھے اس کے باوجود یہ مسکین آپ کو متعصب جوشیلا اور نہ جانے کیا کیا گالیاں دیتا ہے حالانکہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے {يَا مُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالاَتِي وَبِكَلامي} [الأعراف: 144] ، {وَأَنَا اخْتَرْتُكَ}  [طه: 13] ، {وَلِتصْنعَ على عيْني}  [طه:39]  {واصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي} [طه: 41}  {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهاً} [الأحزاب: 69] ، 
اور اللہ کے رسول محمد صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: « يرحم الله موسى، قد أوذي بأكثر من هذا فصبر » رواه البخاري. اللہ رب العالمین موسی علیہ السلام پر رحم فرمائے انہیں اس زیادہ تکلیفیں پہنچائی گئیں مگر انہوں نے صبر سے کام. 

 دوم: جلیل القدر صحابی رسول و خلیفہ ثالث ذوالنورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر طعن وتشنیع: 

سید قطب کہتا ہے :"ونحن نميل إلى اعتبار خلافة علي رضي الله عنه امتداداً طبيعيّاً لخلافة الشيخين قبله، وأن عهد عثمان [الذي تحكّم فيه مروان] كان فجوة بينهما ). (العدالة الاجتماعية ـ ص172- دار الشروق 1415).

  “اور ہم اس طرف مائل ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت اپنے سے ماقبل شیخین (ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم) کی خلافت کا ہی ایک طبعی تسلسل تھی، جہاں‌ تک عثمان رضی اللہ عنہ کے دور حکومت کا تعلق ہے (جس میں مراون نے حکومت پر قبضہ جما لیا تھا) تو وہ ان دونوں کے درمیان ایک دراڑ تھا”۔ (نعوذباللہ) 

 کہتا ہے: "وإنه لمن الصعب أن نتّهم روحَ الإسلام في نفسِ عثمان، ولكن من الصعب كذلك أن نعفيه من الخطأ ) (العدالة الاجتماعية ص:160)
"یہ مشکل امر ہے کہ ہم عثمان کی ذات میں روح اسلام کو متہم کریں لیکن یہ بھی مشکل ہے کہ ہم عثمان کو خطا سے بری کر دیں" 

مزید ایک جگہ کہتا ہے:"لقد أدركت الخلافةُ عثمان وهو شيخٌ كبيرٌ، ومن ورائه مروان بن الحكم يصرِّفُ الأمر بكثير من الانحراف عن الإسلام. (العدالة الاجتماعية ـ ص159ـ دار الشروق1415). 
عثمان کو خلافت اس وقت ملی جب وہ بوڑھے ہو چکے تھے، جب کہ ان کے پس پردہ اسلام سے بہت زیادہ منحرف ہو کر مروان حکومت کر رہا تھا" 
اسی طرح سید قطب نے حضرت عثمان پر یہ الزام لگایا ہے کہ آپ نے اپنے رشتہ داروں کو اعلی مناصب پر فائز کر رکھا تھا اور انہیں گراں قدر مال و اسباب سے بھی نواز رکھا تھا چنانچہ انہوں نے اپنے داماد کو شادی کے دن دو لاکھ درہم دیا تھا جب صبح ہوئی تو بیت المال کا خازن زید بن ارقم غمگین ہو کر روتے ہوئے آیا اور انہوں نے استعفی طلب کیا سبب پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آپ کے اپنے داماد کو مسلمانوں کے مال سے عطیہ دینے کی وجہ سے وہ مستعفی ہو رہے ہیں تو حضرت عثمان نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ائے ابن ارقم کیا تم میری صلہ رحمی پر رو رہے ہو؟.......(اپنے قرابت داروں پر) ان توسعات کی بہت ساری مثالیں عثمان کی سیرت میں مل جائے گی ان میں سے ان کا حضرت زبیر کو ایک روز چھ لاکھ دراہم دینا، طلحہ کو دو لاکھ دراہم دینا اور مروان بن حکم کو افریقہ کے خراج کا خمس دے دینا.... اس پر صحابہ کرام میں سے بہت سے لوگوں نے عثمان کی سرزنش بھی کی جن میں سرفہرست حضرت علی بن ابی طالب ہیں مگر انہوں نے کہا کہ یہ قرابت داری اور صلہ رحمی ہے ..... ان میں معاویہ بھی ہے جسے انہوں نے وسعت کے ساتھ ممالک عطا کیا اور ان کی حکومت میں  فلسطین اور حمص کو بھی شامل کر دیا ..... اور اس کے بعد حضرت علی کی خلافت میں ان سے حکومت طلب کرنے کا راستہ بھی  ہموار کیا..... (ملاحظہ فرمائیں: العدالة الاجتماعية ص:159)
وغیرہ وغیرہ طعون جنہیں شیخ ربیع بن ہادی المدخلي کی کتاب "نظرۃ سید قطب الی اصحاب رسول اللہ" میں بالتفصیل دیکھا جا سکتا ہے.. 

یہ ہے خلیفہ رسول کے بارے میں سید قطب کی رائے جن سے فرشتے حیا محسوس کرتے تھے خود اللہ کے رسول حیا کرتے تھے اور جنہیں اللہ رسول نے جنت و شہادت کی خوشخبری سنائی تھی... 

صحابہ پر طعن و تشنیع کرنا زندیقیت اور الحاد ہے  شیخ بکر ابو زید (قطبی) کہتے ہیں :"أطبق أهل الملة الإسلامية على أن الطعن في واحد من الصحابة رضي الله عنهم زندقة مكشوفة"( تصنيف الناس بين الظن واليقين ص:26) ملت اسلامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی ایک بھی صحابی پر طعن و تشنیع کھلی زندیقیت ہے"

 سوم: دیگر کبار صحابہ کرام پر طعن و تشنیع :

سید قطب کہتا ہے: ” معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کی علی رضی اللہ عنہ پر غالب آنے کی وجہ یہ نہیں‌تھی کہ وہ ان سے زیادہ لوگوں‌کی نفسیات سے واقف تھے، اور حالات کی مناسبت سے صحیح‌ قدم اٹھانے میں زیادہ سمجھ بوجھ رکھتے تھے، بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ دونوں ہر قسم کے حربے استعمال کرنے میں آزاد تھے جبکہ علی رضی اللہ عنہ کو اس جنگ کے وسائل چننے میں ان کو ان کے اعلی اخلاق و کردار نے پابند سلاسل کر رکھا تھا۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی جھوٹ، دھوکہ بازی، چالبازی، منافقت، رشوت اور لوگوں‌کو خریدنے میں تیزی دکھاتے، ایسے وقت میں علی رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو اتنا نیچے نہیں‌ گرا پاتے چناچہ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں‌ کہ وہ کامیاب ہوں‌ اور علی رضی اللہ عنہ ناکام ہو جائیں، اور یہ وہ ناکامی ہے جو تمام کامیابیوں‌ سے بڑھ کر ہے”(کتب و شخصیات ص: 242)

اسی طرح اثنا عشری شیعی معتزلی بدعتی مسعودی کی موضوع روایت پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی بات نقل کرتا ہے اور اس کا اثبات کرتے ہوئے جلیل القدر مبشرین بالجنۃ صحابہ کرام پر طعن کرتا ہے سید قطب کہتا ہے: یہ ایک مسلم ضمیر کی بیداری کی آواز تھی (ابو ذر رضی اللہ عنہ کے حضرت عثمان کو ڈانٹنے کے سلسلے میں ایک من گھڑت قصے کے بارے میں کہتا ہے) جسے بے تحاشا دولت وثروت کی کثرت کے سامنے حرص و طمع نے نشہ میں مبتلا(مخمور) نہیں کیا جو(دولت وثروت کی فراوانی) اسلامی جماعت کو طبقات میں بانٹتی تھی اور ان اقدار کو پامال کرتی تھی جنہیں لوگوں کے درمیان بحال کرنے کے لیے اسلام آیا تھا، یہاں  ہمارے لیے کافی ہے کہ ہم ان اموال کثیرہ کی مثال ذکر کریں جس کا ذکر مسعودی نے کیا ہے وہ کہتا ہے: عثمان کے زمانے میں صحابہ نے زمینیں اور اموال جمع کر لیا تھا، چنانچہ جس دن عثمان قتل کیے گیے اس دن ان کے خازن کے پاس ڈیرہ سو ہزاز ہزار (150,000,000) درہم تھا، اور وادی القریٰ اور حنین میں ان کی زمینوں کی قیمت ایک لاکھ دینار تھی نیز بہت سارے اونٹ اور گھوڑے چھوڑے تھے اور حضرت زبیر کی وفات کے بعد ان کے ترکہ کا ایک ثمن(آٹھواں حصہ) پچاس ہزار دینار تھا، انہوں نے اپنے پیجھے ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار غلام چھوڑا تھا، اسی طرح عراق سے روزانہ حضرت طلحہ کا ایک لاکھ قیمت کے بقدر غلہ آتا تھا، عبد الرحمن بن عوف کے اصطبل میں ایک ہزار گھوڑے تھے ان کے ایک ہزار اونٹ اور دس ہزار بکریاں تھیں، زید بن ثابت نے اتنا سونا چاندی چھوڑا تھا جو کلہاڑوں سے کاٹے جانے کے قابل تھا، سعد بن ابی وقاص نے عقیق سے ایک گھر بنایا تھا اس کے چھت کو اونچا اور فضاؤں کو وسیع کیا تھا، حضرت مقداد نے مدینے میں ایک گھر بنایا تھا اور اس کے ظاہر و باطن کو چونا گچ کر رکھا تھا، یعلی بن منبہ نے ترکے میں پچاس ہزار دینار اور اتنی چیزیں چھوڑی تھی جن کی قیمت تین لاکھ درہم تھی ). (العدالة الاجتماعية ـ ص175ـ دار الشروق1415).

 چہارم: صحابی رسول حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دینا:

سید قطب کہتا ہے:" ابو سفیان رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کو جو تکلیفیں اور اذیتیں پہنچیں‌ ان سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں اور انہوں نے اس وقت اسلام قبول کیا جب اسلام اپنی فیصلہ کن فتح کے جھنڈے گاڑچکا تھا، چنانچہ یہ محض ہونٹ اور زبان کا اسلام تھا، قلب (دل) ووجدان کا نہیں، اسلام اس شخص کے دل میں راسخ نہ ہوا”۔ (اخبار: المسلمون، شمارہ 3 سال 1371ھ )

صحابہ پر طعن و تشنیع کرنا کس قدر خطرناک امر ہے اس کا اندازہ امام اہل السنۃ ابو زرعہ رازی کی اس بات سے لگائیے اور فیصلہ کیجئے کہ سید قطب کی گستاخی کس درجہ عظیم ہے: قال أبي زرعة الرازي رحمه الله تعالى في (فتح المغيث) (4/94): ( إذا رأيت الرجل ينتقص أحداً من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعلم أنه زنديق، وذلك أن القرآن حق، والرسول حق، وما جاء به حق، وإنما أدى إلينا ذلك كله الصحابة فهؤلاء يريدون أن يجرحوا شهودنا؛ ليبطلوا الكتاب والسنة، والجرح بهم أولى، وهم زنادقة) (تصنيف الناس بين الظن واليقين ـ ص26 ـ دار العاصمة 1414).
امام ابو زرعہ فرماتے ہیں: جب تم کسی آدمی کو کسی صحابی کی تنقیص کرتے ہوئے دیکھو تو جان لو کہ وہ زندیق ہے اور یہ اس وجہ سے کہ قرآن حق ہے رسول برحق ہیں اور رسول جو کچھ لائیں ہیں وہ بھی برحق ہے اور یہ ساری چیزیں ہم تک پہچانے والے صحابہ ہیں چنانچہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے گواہوں کو مجروح کر دیں تاکہ کتاب و سنت کو باطل قرار دیں یہ خود جرح کے زیادہ مستحق ہیں یہ زنادقہ (ملحد بے دین) ہیں.

 پنجم: سید قطب وحدت الوجود کا عقیدہ رکھتا ہے. 

 سید قطب فی ظلال القرآن سورہ اخلاص کی تفسیر میں‌لکھتا ہے: ” یہ وجود کا ایک ہونا ہے۔ حقیقت صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اس(اللہ) کی حقیقت، اور حقیقت میں وجود بھی صرف اسی(اللہ ) کا ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی وجود ہے وہ اپنا وجود اس حقیق وجود سے لیتا ہے۔ اپنی حقیقت اس ذاتی حقیقت سے مستمد کرتا ہے۔ اس طرح یہ فعل انجام دینے کی احدیت (ایک ہونا) ہوئی، چناچہ اس وجود میں اس کے علاوہ کوئی فاعل نہیں ہے، اور نہ ہی کسی چیز میں کرنے والا ہے، اور یہ عقیدہ ضمیر مین‌ پہناں بھی ہے اور وجود کی تفسیر بھی”(في ضلال القرآن:6/4002)

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمتہ اللہ علیہ مجلة الدعوة شمارہ: (1591، 1418/1/9ھ) میں تفسیر ظلال القرآن کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: “میں نے سید قطب کی سورہ اخلاص کی تفسیر پڑھی ہے، اس نے اس میں بہت بڑی بات کہی ہے، جو اہل سنت و الجماعت کے منھج کے مخالف ہے کیونکہ اس کی تفسیر یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ وحدت الوجود کا قائل ہے۔ اسی طرح اس کی استواء کی تفسیر (گمراہ فرقے جیسے معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ وغیرہ جو اللہ تعالی کی صفات کی سلف صالحین کے مذہب کے بر خلاف تاویلات کرتے ہیں) استولی (قبضہ یا غلبہ ) ہے”
اسی طرح سید قطب کے دیگر اقوال سے بھی وحدت الوجود کا ثبوت ملتا ہے تفصیل کے لیے ان مراجع کا مراجعہ کریں: (في ظلال القرآن ـ ص:6/3479 ـ ص:6/3479-ج:6/ص:40003-) وغیرہ 

 ششم : سید قطب ان کے ہم منہج افراد کے علاوہ بالعموم تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتا ہے.

 سید قطب کہتا ہے: "لقد استدار الزمان كهيئته يوم جاء هذا الدين إلى البشرية بلا إله إلا الله ،ارتدت البشرية إلى عبادة العباد وإلى جور الأديان؛ ونكصت عن لا إله إلا الله، وإن ظل فريق منها يردد على المآذن: لا إله إلا الله ). (في ظلال القرآن ـ 4/2009- دار الشروق).ظلال القرآن”
“زمانہ بلکل اپنی اس شکل پر گھوم چکا ہے جس پر وہ اس وقت تھا جب یہ دین “لاالہ الاللہ” لے کر آیا، آج انسانیت بندوں کی عبادت اور ظالمانہ ادیان کی طرف مرتد ہو چکی ہے، اور "لاالہ الاللہ” سے پلٹ چکی ہے، اگر چہ بعض‌لوگ اب بھی میناروں پر”لاالہ الاللہ” دہرا رہے ہیں۔۔۔”

 لکھتا ہے: "إنه ليس على وجه الأرض اليوم دولة مسلمة ولا مجتمع مسلم؛ قاعدة التعامل فيه هي شريعة الله والفقه الإسلامي). (في ظلال القرآن ـ 4/4122- دار الشروق).

"آج روئے زمین پر کوئی ایسی مسلمان حکومت نہیں‌ہے اور نہ ہی کوئی ایسا مسلم معاشرہ ہے جس میں‌معاملات کی بنیاد شریعت الہیہ اور اسلامی فقہ پر رکھی گئی ہو”

لکھتا ہے: ونحن نعلم أن الحياة الإسلامية  ـ على هذا النحو ـ قد توقّفت منذ فترة طويلة في جميع أنحاء الأرض، وأن وجود الإسلام ذاته ـ مِنْ ثَمّ ـ قد توقّف كذلك). (العدالة الاجتماعية ـ ص185- دار الشروق 1415).

"اور ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے تمام انحا میں اسلامی زندگی اسی طرز پر ایک لمبی مدت سے ٹھہری ہوئی ہے، اسی طرح خود اسلام کا وجود بھی موقوف ہے"

  لکھتا ہے:"بلاشبہ آج مسلمان جہاد نہیں‌کر رہے ہیں، کیونکہ مسلمان آجکل موجود ہی نہیں‌ہیں! اسلام اور مسلمان کے وجود کا مسئلہ ہی آج حل کا محتاج ہے” (في ظلال القرآن:جلد 3، ص 1634)

 مزید لکھتا ہے: “یہ جاہلانہ معاشرہ جس میں‌ہم سانس لے رہے ہیں‌یہ اسلامی معاشرہ نہیں‌ہے”(ظلال القرآن جلد 4، ص 2009)

 ہفتم: جہمیہ معتزلہ کی طرح کلام اللہ قرآن کریم کو مخلوق قرار دیتا ہے.
قرآن کریم سے متعلق گفتگو کرتے ہوئےلکھتا ہے:"والشأن في هذا الإعجاز هو الشأن في خلق الله جميعاً، وهو مثل صنع الله في كل شيء، وصنع الناس ). (في ظلال القرآن ـ 1/38- دار الشروق).

“اس اعجاز میں وہی شان ہے جو اللہ تعالی کی تمام مخلوقات میں‌ہے، اور وہ ہر چیز میں اللہ کی اور لوگوں کی تخلیق کی طرح ہے"

 ایک جگہ اور حروف مقطعات پر کلام کرنے کے بعد لکھتا ہے: “ولكنهم لا يملكون أن يؤلّفوا من هذه [الحروف] مثل هذا الكتاب؛ لأنه من صنع الله لا من صنع الناس"(في ظلال القرآن - 5/2719).
لیکن وہ لوگ ان حروف سے اس کی جیسی کتاب تالیف نہیں‌ کر سکتے ہیں ، کیونکہ یہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ہے، انسان کی نہیں”

سورہ ص کی تفسیر میں‌کہتے ہین: “......وهذا الحرف [ص] من صنعة الله تعالى؛ فهو موجده صوتاً، وموجده حرفاً من حروف الهجاء ). (في ظلال القرآن ـ 5/3006)
اللہ تعالی اس حرف”ص” کی قسم اٹھا رہا ہے، بلکل اسی طرح جس طرح اس نے اس نصحیت و ذکر والے قرآن کی قسم اٹھائی ہے۔ اور یہ حرف اللہ تعالی کی بناوٹ میں‌ سے ہے، وہی بصورت آواز اس کا موجد(ایجاد کرنے والا) ہے،اور اسی نے اس کو حروف تہجی سے ایجاد فرمایا ہے”۔

 شیخ‌ عبد اللہ الدویش رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب “المورد الزلال التبیہ علی اخطاء تفسیر الظلال” ص 180 میں‌ اس کلام پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں‌: ” اور ان کا یہ کہنا کہ یہ حرف اللہ تعالی کا بنایا ہوا ہے اور وہی اس کا موجد ہے، یہ معتزلہ اور جہمیہ(جیسے گمرہ فرقوں‌) کا قول ہے جو قرآن کو مخلوق کہتے ہیں۔ جہاں‌ تک اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے تو وہ کہتے ہیں کہ: قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے، اس نے اسے نازل فرمایا ہے، (اللہ کا کلام اللہ تعالی کی صفت ہے) مخلوق نہیں‌ہے”۔

ایک جگہ لکھتا ہے: “بے شک قرآن ایک کائناتی مظہر ہے، جیسا کہ زمین اور آسمان ہے”(فی ظلال القرآن” (جلد 4، ص 2328)

خلق قرآن کا عقیدہ کس قدر مہلک ہے اس کا اندازہ امامان جلیلان ابو حاتم وابو زرعہ الرازیان کی اس بات سے لگائیے جو ان دنوں کے بقول ان سے ماقبل کے علمائے اہل سنت و الجماعت کا اجماعی عقیدہ تھا فرماتے ہیں: ومن زعم أن القرآن مخلوق فهو كافر بالله العظيم كفرا ينقل عن الملة،ومن شك في كفره ممن يفهم فهو كافر"(تكحيل العينين بشرح عقيدة الرازيين ص:215) 
جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ قرآن مخلوق ہے تو وہ اللہ ربّ العزت کے سلسلے میں کفر کا مرتک ہے ایسا کفر جو دین سے خارج کر دے، اور جو سمجھتے بوجھتے ہوئے ایسے شخص کے کفر میں شک کرے تو وہ بھی کافر ہے،(اللہ اکبر) 

قارئین کرام ان کے علاوہ بھی سید قطب کے بہت سارے  گمراہ کن عقائد ہیں جن کا تفصیلی ذکر ان شاء آئندہ قسط میں آپ حضرات کے سامنے ہوگا.. 

آخیر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان گمراہیوں سے بچاتے ہوئے راہ راست پر استقامت عطا فرمائے آمین. 

.