جمعہ، 7 اگست، 2020

بھینس کی قربانی کا حکم؟ مقالات و فتاوی

.

🌺 ꧁ ﷽ ꧂ 🌺

بھینس کی قربانی کا حکم؟ 

مجموعہ مقالات و فتاوی 

جمع کردہ 
سید محمد عزیر ادونوی 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱ 

حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ لکھتے ہیں 

۔۔۔۔ یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے ام المومنین حضرت سودہ کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا لڑکا پید ا ہوا جو اپنی والدہ کے پاس پروش پاتا رہا زانی مر گیا اور اپنے سعد بن وقاص کو وصیت کر گیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ کرلینا فتح مکہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا اور کہا یہ میرا بھتیجہ ہے زمعہ کے بیٹے نے کہا کہ یہ میرے باپ کا بیٹا ہے لہذا میرا بھائی ہے اس کو میں لوں گا مقدمہ دربار نبوی میں پیش ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا الولد للفراش وللعاہر الحجر، اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے بچہ سودہ رضی اللہ عنھا کے بھائی کے حوالے کر دیا جو حضرت سودہ کا بھی بھائی بن گیا لیکن حضرت سودہ کو حکم فرمایا کہ وہ اس سے پردہ کرے کیونکہ اس کی شکل وصورت زانی سے ملتی تھی جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے 

دیکھئے اس مسئلہ میں شکل و صورت کے لحاظ سے تو پردے کا حکم ہوا اور جس کے گھر میں پیدا ہوا اس کے لحاط سے اس کا بیٹا بنا دیا گویا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا ایسا ہی معاملہ بھینس کا ہے اس میں دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہوگا، زکوۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے اس لئے بھینس کی قربانی جائز نہیں 

اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ الجاموس نوع من البقر یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی زکوۃ کے لحاظ سے ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے 

فتاوی اہل حدیث ج۲ ص۴۲۶ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲ 

سوال 
شیخ بھینس کی قربانی کے سلسلے میں راجح قول کیا ہے؟ 

جواب 
الجواب بعون الملك الوهاب 

بھینس کی قربانی کے سلسلے میں راجح قول یہ ہے کہ بھینس کی قربانی جائز نہیں ہے 

کیونکہ کتاب و سنت میں اسکے جواز کی کوئی دلیل نہیں ہے. اور (بقر/بقرة) یہ گائے اور بیل کو کہا جاتا ہے نہ کہ بھینس کو، اور اصل یہ ہے کہ لفظ کو اُس کے شرعى معنی پر محمول کیا جائے، پھر عرف عام پر پھر لغوی معنی پر، اور عرف عام میں (بقر) گائے اور بیل کو کہتے ہیں نہ کہ بھینس کو اور لغت سے استدلال کا مرحلہ شریعت اور عرف عام کے بعد آتا ہے اور لغت یہ شریعت اور عرف عام کے تابع ہے جس کی واضح مثال لفظ صلاة صوم اور حج وغيره ہے 

 الأستاذ المكرم فضيلة الشيخ الدكتور طارق صفي الرحمن المباکفوری (مبارکپوری) المدني 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۳ 

حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا فتوی 

اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری کی قربانی کتاب و سنت سے ثابت ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ
بھینس گائے کی ایک قسم ہے، اس پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے 

امام ابن المنذر فرماتے ہیں، 

و اجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر، 

اور اس بات پر اجماع ہےکہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے 

الاجماع کتاب الزکاۃ ص۴۳، حوالہ ۹۱ ک

ابنِ قدامہ لکھتے ہیں، 

 لا خلاف فی ھذا نعلمہ، 
 
 اس مسئلے میں ہمارے علم کے مطابق کوئی اختلاف نہیں 

المغنی ج۲، ص۲۴۰، مسئلہ ۱۷۱۱ ک

زکوۃ کے سلسلے میں، اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے، تا ہم چونکہ نبی کریمﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے صراحتا بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہذٰا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف گائے، اونٹ، بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے 

واللہ اعلم 

فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام، جلد دوم، ص181 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۴ 

 بھینس کی قربانی
تحریر : حافظ ابو یحییٰ نورپوری

قربانی کے جانور:
قرآنِ کریم نے قربانی کے لیے بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام کا انتخاب فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِگرامی ہے :
(وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِيْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُومٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃِ الْـاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوْا الْبَائِسَ الْفَقِیْرَ) (الحج 22:28)
”اور وہ معلوم ایام میں بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام پر اللہ کا نام ذکر (کر کے انہیں ذبح) کریں، پھر ان کا گوشت خود بھی کھائیں اور تنگ دستوں اور محتاجوں کو بھی کھلائیں۔”
خود قرآنِ کریم نے الْـأَنْعَام کی توضیح کرتے ہوئے ضَاْن(بھیڑ)، مَعْز(بکری)، اِبِل(اونٹ) اور بَقَر(گائے)، چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا۔اور ان کے مذکر و مؤنث کو ملا کر انہیں ثَمَانِیَۃ أَزْوَاج (جوڑوں کے لحاظ سے آٹھ)کہا۔(الأنعام 6:144-142)
انہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت ِمسلمہ کے نزدیک اجماعی و اتفاقی طور پر مشروع ہے۔ان جانوروں کی خواہ کوئی بھی نسل ہو اور اسے لوگ خواہ کوئی بھی نام دیتے ہوں، اس کی قربانی جائز ہے۔مثلاً بھیڑ کی نسل میں سے دنبہ ہے۔اس کی شکل اور نام اگرچہ بھیڑسے کچھ مختلف بھی ہے، لیکن چونکہ وہ بھیڑ کی نسل اور قسم میں شامل ہے، لہٰذا اس کی قربانی مشروع ہے۔اسی طرح مختلف ملکوں اور علاقوں میں بھیڑ کی اور بھی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیںجو دوسرے علاقوں والوں کے لیے اجنبی ہیں اور وہ انہیں مختلف نام بھی دیتے ہیں۔اس کے باوجود ان سب کی قربانی بھیڑ کی نسل و قسم ہونے کی بنا پر جائز اور مشروع ہے۔اسی طرح اونٹوں وغیرہ کا معاملہ ہے۔

گائے؛ قربانی کا ایک جانور :
قربانی کے جانوروں میں سے ایک ”بقر”(گائے)بھی ہے۔اس کی قربانی کے لیے کوئی نسل قرآن و سنت نے خاص نہیں فرمائی۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی زبانی ان کی قوم کو ”بقر” ذبح کرنے کا حکم دیا، لیکن قومِ موسیٰ نے اس کی ہیئت و کیفیت کے بارے میں سوال پر سوال شروع کر دیے جس کی بنا پر انہیں سختی کا سامنا کرنا پڑا۔سورہئ بقرہ کی کئی آیات اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔انہی آیات کی تفسیر میں امام المفسرین، علامہ ابوجعفر، محمد بن جریر بن یزید بن غالب، طبری رحمہ اللہ (310-224ھ)صحابہ و تابعین اور اہل علم کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
إِنَّھُمْ کَانُوا فِي مَسْأَلَتِھِمْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مُوسٰی، ذٰلِکَ مُخْطِئِینَ، وَأَنَّھُمْ لَو کَانُوا اسْتَعْرَضُوا أَدْنٰی بَقَرَۃٍ مِّنَ الْبَقَرِ، إِذْ أُمِرُوا بِذَبْحِھَا، ۔۔۔۔۔، فَذَبَحُوھَا، کَانُوا لِلْوَاجِبِ عَلَیْھِمْ، مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ فِي ذٰلِکَ، مُؤَدِّینَ، وَلِلْحَقِّ مُطِیعِینَ، إِذْ لَمْ یَکُنِ الْقَوْمُ حُصِرُوا عَلٰی نَوْعٍ مِّنَ الْبَقَرِ دُونَ نَوْعٍ، وَسِنٍّ دُونَ سِنٍّ، ۔۔۔۔۔، وَأَنَّ اللَّازِمَ کَانَ لَھُمْ، فِي الْحَالَۃِ الْـأُولٰی، اسْتِعْمَالُ ظَاھِرِ الْـأَمْرِ، وَذَبْحُ أَيِّ بَھِیمَۃٍ شَاءُ وا، مِمَّا وَقَعَ عَلَیْھَا اسْمُ بَقَرَۃٍ .
”قومِ موسیٰ، گائے کے بارے میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے سوالات کرنے میں غلطی پر تھی۔جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیاتھا، اس وقت وہ گائے کی کوئی ادنیٰ قسم بھی ذبح کر دیتے تو حکم الٰہی کی تعمیل ہو جاتی اور ان کا فرض ادا ہو جاتا، کیونکہ ان کے لیے گائے کی کسی خاص قسم یا کسی خاص عمرکا تعین نہیں کیا گیا تھا۔۔۔ ان کے لیے ضروری تھا کہ پہلی ہی دفعہ ظاہری حکم پر عمل کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا جانور ذبح کر دیتے، جس پر ‘بقر’ کا لفظ بولا جاتا تھا۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن [تفسیر الطبري] : 100/2)
معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ گائے ذبح کرنے کا حکم فرمائے تو گائے کی کوئی بھی قسم یا نسل ذبح کرنے سے حکم الٰہی پر عمل ہو جاتا ہے اور یہ بات لغت ِعرب میں اور اہل علم کے ہاں طَے ہے کہ جس طرح بختی، اِبِل(اونٹ)کی ایک نسل ہے، اسی طرح بھینس، بقر (گائے)کی ایک نسل و قسم ہے ۔اس میں متقدمین اہل علم کا بالکل کوئی اختلاف نہیں، جیسا کہ :

⚡اہل علم کا اتفاق :
امام اہل سنت، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (241-164ھ)سے پوچھا گیا کہ کیا بھینس کی قربانی میں سات حصے ہو سکتے ہیں؟تو انہوں نے فرمایا:
لَا أَعْرِفُ خِلَافُ ھٰذَا .
”مجھے اس میں کسی اختلاف کا علم نہیں۔”
(مسائل الإمام أحمد وإسحاق بروایۃ الکوسج، رقم المسئلۃ : 2865)
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے بھی اس بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے۔(أیضًا)
شیخ الحدیث، مولانا رفیق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
”یہ مسئلہ کہ قربانی میں بھینس ذبح کی جا سکتی ہے یا نہیں، سلف صالحین میں متنازعہ مسائل میں شمار نہیں ہوا۔چند سال سے یہ مسئلہ اہل حدیث عوام میں قابل بحث بنا ہوا ہے، جبکہ ایسے مسئلہ میں شدت پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔”
(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ از نعیم الحق ملتانی صاحب، ص : 19)
واقعی متقدمین اہل علم کا یہی خیال رہا ہے، جیسا کہ:

متقدمین اہل علم اور اہل لغت کی نظر میں :
1 لیث بن ابوسلیم(اختلط في آخر عمرہٖ)(م : 138/148ھ)کا قول ہے :
اَلْجَامُوسُ وَالْبُخْتِيُّ مِنَ الْـأَزْوَاجِ الثَّمَانِیَۃِ .
”بھینس(گائے کی ایک قسم) اور بختی(اونٹ کی ایک قسم)ان آٹھ جوڑوںمیں سے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔”(تفسیر ابن أبي حاتم : 1403/5، وسندہ، حسنٌ)
2 لغت و ادب ِعربی کے امام، ابومنصور، محمدبن احمد، ازہری، ہروی(370-282ھ) فرماتے ہیں : وَأَجْنَاسُ الْبَقَرِ، مِنْھَا الْجَوَامِیسُ، وَاحِدُھَا جَامُوسٌ، وَھِيَ مِنْ أَنْبَلِھَا، وَأَکْرَمِھَا، وَأَکْثَرِھَا أَلْبَانًا، وَأَعْظَمِھَا أَجْسَامًا .
”گائے کی نسلوں میں سے جوامیس(بھینسیں)ہیں۔اس کی واحد جاموس ہے۔یہ گائے کی بہترین اورعمدہ ترین قسم ہے۔یہ گائے کی سب اقسام میں سے زیادہ دودھ دینے والی اور جسمانی اعتبار سے بڑی ہوتی ہے۔”(الزاھر في غریب ألفاظ الشافعي، ص : 101)
3 امامِ لغت، علامہ، ابوالحسن، علی بن اسماعیل، المعروف بہ ابن سیدہٖ(458-398ھ) لکھتے ہیں : وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
”بھینس، گائے کی ایک نسل ہے۔”(المحکم والمحیط الأعظم : 283/7)
4 عربی زبان کے ادیب اور لغوی، ابوالفتح، ناصربن عبد السید، معتزلی، مطرزی (610-538ھ)لکھتے ہیں : وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
”بھینس، گائے ہی کی نسل سے ہے۔”(المغرب في ترتیب المعرب، ص : 89)
5 مشہور فقیہ ومحدث، علامہ عبد اللہ بن احمدبن محمد، المعروف بہ ابن قدامہ، مقدسی رحمہ اللہ (620-541ھ)فرماتے ہیں : وَالْجَوَامِیسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَالْبَخَاتِي نَوْعٌ مِّنَ الْإِبِلِ . ”بھینسیں، گائے کی نوع(نسل)سے ہیںاور بختی، اونٹوں کی نوع(نسل)سے۔”(الکافي في فقہ الإمام أحمد : 390/1)
6 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے جد امجد، محدث و مفسر، ابوالبرکات، عبد السلام بن عبد اللہ، حرانی رحمہ اللہ (652-590ھ)فرماتے ہیں:
وَالْجَوَامِسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ . ”بھینسیں، گائے کی ایک نوع (نسل) ہیں۔”
(المحرّر في الفقہ علٰی مذہب الإمام احمد بن حنبل : 215/1)
7 شارحِ صحیح مسلم، معروف لغوی، حافظ ابوزکریا، یحییٰ بن شرف، نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)، ابواسحاق شیرازی(474-393ھ)کی کتاب التنبیہ في الفقہ الشافعي کی تشریح و تعلیق میں فرماتے ہیں:
وَیُنْکَرُ عَلَی الْمُصَنِّفِ کَوْنُہ، قَالَ : وَالْجَوَامِسُ وَالْبَقَرُ، فَجَعَلَہُمَا نَوْعَیْنِ لِلبَقَرِ، وَکَیْفَ یَکُونُ الْبَقَرُ أَحَدَ نَوْعَيِ الْبَقَرِ ۔۔۔۔۔، قَالَ الْـأَزْھَرِيُّ : أَنْوَاعُ الْبَقَر، مِنْھَا الجَوَامِیسُ، وَھِيَ أَنْبَلُ الْبَقَرِ .
”مصنف کا [وَالْجَوَامِیسُ وَالْبَقَرُ] کہنا قابل اعتراض ہے، انہوں نے گائے اور بھینس کو گائے کی نسلیں قرار دیا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گائے ہی گائے کی دو نسلوں(بھینس اور گائے میں سے)ایک نسل ہو؟۔۔۔ازہری کہتے ہیں کہ بھینس، گائے کی ایک نوع ہے اور یہ گائے کی تمام نسلوں سے عمدہ ترین نسل ہے۔ ”
(تحریر ألفاظ التنبیہ، : 106)
8 لغت ِعرب میں امام وحجت کا درجہ رکھنے والے علامہ، ابوالفضل، محمدبن مکرم، انصاری، المعروف بہ ابن منظور افریقی(711-630ھ)فرماتے ہیں :
وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ . ”بھینس، گائے کی ایک نسل ہے۔”
(لسان العرب : 43/6)
9 معروف لغوی، علامہ ابوالعباس، احمدبن محمدبن علی، حموی(م:770ھ) لکھتے ہیں :
وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ . ”بھینس، گائے کی ایک نسل ہے۔”
(المصباح المنیر في غریب الشرح الکبیر : 108/1)
10 لغت ِعرب کی معروف و مشہور کتاب ”تاج العروس” میں مرقوم ہے :
اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ . ”بھینس، گائے کی نسل سے ہے۔”
(تاج العروس من جواھر القاموس لأبي الفیض الزبیدي : 513/15)
11 لغت ِعرب کی معروف کتاب ”المعجم الوسیط” میں ہے :
اَلْجَامُوسُ حَیَوَانٌ أَھْلِيٌّ، مِنْ جِنْسِ الْبَقَرِ .
”بھینس، گائے کی نسل سے ایک گھریلوجانور ہے۔”(المعجم الوسیط : 134/1)
نیز اسی کتاب میں لکھا ہے : اَلْبَقَرُ : جِنْسٌ مِّنْ فَصِیلَۃِ الْبَقَرِیَّاتِ، یَشْمَلُ الثَّوْرَ وَالْجَامُوسَ . ”بَقَر، گائے کے خاندان سے ایک جنس ہے جو کہ بَیل(گائے) اور بھینس پر مشتمل ہے۔”(المعجم الوسیط : 65/1)
اس سے معلوم ہوا کہ چودھویں صدی کے بعض انتہائی قابل احترام اہل علم کا یہ کہنا کہ ‘بھینس کاگائے کی نسل سے ہونا اہل علم سے واضح طور پر ثابت نہیں، بلکہ بھینس بعض احکام میں گائے کی طرح تھی اور اس کے لیے لفظکَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ(گائے جیسی)مستعمل تھا۔اور کسی لغوی کو غلطی لگنے کی وجہ سے اس نے کَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ(گائے جیسی)کے بجائے نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَر(گائے کی نسل) لکھ دیا۔۔۔’قطعاًدرست نہیں، کیونکہ غلطی کسی ایک اہل علم یا لغوی کو لگنی تھی یا سارے اہل علم اور لغویوں کو؟بہت سے معروف لغویوں اور اہل علم نے اپنی مشہور زمانہ کتب میں بھینس کے گائے کی نسل ہونے کی تصریح کی اور ہمارے علم کے مطابق تیرہویں صدی ہجری تک کسی ایک بھی لغوی نے اس کی تردید یا انکار نہیں کیا۔اگر یہ بات غلط ہوتی تو ماہرین لغت ِعرب ضرور اس کی وضاحت کرتے۔

بھینس کے نام میں گائے کا ذکر :
بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ گائے اور بھینس کے نام ہی میں فرق ہے۔اگر بھینس، گائے کی نسل سے ہوتی تو اس کا نام گائے ہوتا، نہ کہ کچھ اور۔جب عرف میں اسے کوئی گائے کہتا اور سمجھتا ہی نہیں تو یہ گائے ہے ہی نہیں۔ان کے لیے عرض ہے کہ بھینس کے لیے عربی میں لفظ ِ”جاموس”استعمال ہوتا ہے جو کہ فارسی سے منتقل ہو کر عربی میں گیاہے۔فارسی میں یہ نام ”گاؤمیش”تھا۔عربی زبان کی اپنی خاص ہیئت کی بنا پر اس کا تلفظ تھوڑا سا بدل گیا اور یہ ”جاموس” ہو گیا۔اس بات کی صراحت لغت ِعرب کی قریباً تمام امہات الکتب میں لفظ ”جاموس” کے تحت موجود ہے۔اس فارسی نام میں واضح طور پر لفظ ”گاؤ”(گائے) موجود ہے۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھینس اصل میں گائے ہی کی ایک نسل ہے۔چونکہ گائے کی یہ نسل(بھینس)عربی علاقوں میں موجود نہیں تھی، بلکہ عجمی علاقوں میں ہوتی تھی، عربوں کے ہاں معروف نہ تھی، اسی لیے اس کا نام فارسی سے عربی میں لانا پڑا۔
اس کی وضاحت کے لیے ہم معروف عرب عالم ومفتی، شیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ (1421-1347ھ) کا قول نقل کرتے ہیں۔ان سے بھینس کی قربانی کے بارے میں سوال ہوا اور پوچھا گیا کہ جب بھیڑ اور بکری دونوں کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا ہے (حالانکہ یہ ایک ہی نسل [غنم] سے ہیں)تو بھینس اور گائے دونوں کا ذکر کیوں نہیں کیا(اگر یہ بھی ایک ہی نسل ہیں)؟تو انہوں نے فرمایا : اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَاللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذَکَرَ، فِي الْقُرْآنِ، الْمَعْرُوفَ عِنْدَ الْعَرَبِ الَّذِینَ یُحَرِّمُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَیُبِیحُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَالْجَامُوسُ لَیْسَ مَعْرُوفًا عِنْدَ الْعَرَبِ .
”بھینس، گائے ہی کی نسل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں صرف ان جانوروں کا ذکر کیا ہے، جو عربوں کے ہاں معروف تھے۔(دور جاہلیت میں)عرب اپنے پسندیدہ جانوروں کو حلال اور اپنے ناپسندیدہ جانوروں کو حرام قرار دےتے تھے۔بھینس تو عربوں کے ہاں معروف ہی نہ تھی(اور مقصد حلت و حرمت بتانا تھا، نہ کہ نسلیں)۔”
(مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین : 34/25)

تنبیہ :
بعض اہل علم کا یہ کہنا درست نہیں کہ چونکہ نبی اکرمeاور صحابہ کرام نے بھینس کی قربانی نہیں کی، لہٰذا اس کی قربانی سے احتراز بہتر ہے اور یہ احوط واولیٰ ہے۔ہمارا ان اہل علم سے مؤدبانہ سوال ہے کہ ان کی یہ احتیاط صرف گائے کی ایک نسل ”بھینس”ہی کے بارے میں کیوں ہے؟ان کو چاہیے کہ گائے کی جو جو نسلیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے قربانی میں ذبح کیں، صرف انہی کی اجازت دیں۔کیا بھینس کے علاوہ موجودہ دور میں پائے جانے والی گائے کی تمام نسلیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے قربانی میں ذبح کی تھیں؟ اس طرح تو دیسی، ولائتی، فارسی، افریقی، تمام قسم کی گائے کی قربانی سے احتراز کرنا ہو گا اور اسی طرح بھیڑ و بکری اور اونٹ کا بھی معاملہ ہو گا۔پھر ہر شخص قربانی کے لیے عربی گائے، عربی اونٹ، عربی بھیڑ اور عربی بکرا کہاں سے لائے گا؟اگر کوئی عربی نسل سے کوئی جانور تلاش بھی کر لے تو اسے تحقیق کرنا پڑے گی کہ یہ بعینہ اسی نسل سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے قربانی کی تھی یا بعد میں پیدا ہونے والی کوئی نسل ہے!!!
پھر یہ احتیاط والی بات اس لیے بھی عجیب سی ہے کہ اگر بھینس، گائے نہیں تو اس کی قربانی سرے سے جائز ہی نہیںاور اگر یہ گائے ہے تو اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کوئی درمیانی راستہ تو ہے ہی نہیں۔

الحاصل :
بھینس، گائے کی ایک نسل ہے۔اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں۔ واللّٰہ أعلم بالصواب وعلمہ أبرم وأحکم.

http://mazameen.ahlesunnatpk.com/buffalobhains-ki-qurbani/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۵ 

بھینس کی قربانی 
جائز یا ناجائز ؟ 
 فقہ کی روشنی میں 
 
حمود دریابادی بن عبد السمیع المدنی 

‌استاد الاساتذہ، شیخ الحدیث، (جامعہ اسلامیہ دریاباد) فضیلۃالشیخ مولانا محمد جعفر انوارالحق الھندی حفظہ اللہ و تولاہ بھینس کی قربانی کے متعلق فرماتے ہیں کہ 
''بھینس کی قربانی درست نہیں ہے کیوں کہ اسکی قربانی کا ثبوت قرآن و سنت اور تعامل صحابہ میں موجود نہیں ہے اس لئیے اس کی قربانی کرنا غلط ہے، قربانی ایک عبادت ہے اور عبادت کے لئیے دلیل چاہئیے بغیر دلیل کے عبادت ثابت نہ ہوگی اور چونکہ بھینس کی قربانی کے لئیے کوئی دلیل نہیں ہے اس لئیے شریعت میں بھینس کی قربانی درست نہ ہوگی'' 
‌قاعدہ ہے اَلْأَصْلُ فِي الْعِبَادَاتِ اَلْبُطْلَانُ حَتَّى يَقُومَ دَلِيْلٌ عَلَى الْأَمْرِ 
‌ شرعی نقطئہ نظر سے جب تک کسی عبادت کے متعلق کوئی دلیل نہیں مل جاتی تب تک کسی بھی قسم کی عبادت کرنا بدعت، باطل اور فاسد ہے 

‌ قارئین:- سورۃ الانعام 142/143/144 میں جن جانوروں کی قربانی کرنے کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے اس میں بھینس شامل ہی نہیں ہے تو پھر ہمیں اسکی قربانی کرنے کا حق کہاں سے مل گیا؟ 
‌ اس کی مشروعیت کا ثبوت کہاں سے مل گیا؟ 
‌ ہمیں اس کی قربانی کرنے کی اجازت کس نے دی؟ 
‌ کیا ہمارا دین ساڑھے چودہ سو سال پہلے مکمل نہیں ہوا تھا؟ 
‌یا نعوذباللہ اب بھی مسئلوں کے ایاب و ذہاب کا سلسلہ جاری و ساری ہے؟ 

‌بعض حضرات لغویوں کے اس قول '' اَلْجَامُْوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ'' کے بناء پر کہتے ہیں کہ بھینس کی قربانی جائز ہے 
‌ شیخ الحدیث (جامعہ اسلامیہ دریاباد) اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں 
‌ کہ ایسے لوگوں کو'' اہل لغت کے ان اقوال پر بھی غور کرنا چاہئیے '' وَ یُقَالُ اَلثَّوْرُ الْوَحْشِیُّ '' شَاۃً'' (تہذیب اللغۃ 6/191 
‌ اور: وَ قِیْلَ اَلشَّاۃُ تَکُوْنُ مِنَ الْضَأْنِ وَالْمَعْزِ وَالظَّبَاءِ وَالْبَقَرِ وَالنِّعَامِ وَحِمْرِالْوَحْشِ (تہذیب اللغۃ4/402-403) 
‌ اور: وَالْشَّاۃُ اَلْوَاحِدَۃُ مِنَ الْغَنَمِ تَکُوْنُ لِلذَّکَرِ وَالْأُنْثىَ وَقِیْلَ اَلْشَّاۃُ تَکُوْنُ مِنَ الضَّأْنِ وَالْمَعْزِ وَالظَّبَاءِ وَالْبَقَرِ وَالِّنعَامِ وَ حِمْرِالْوَحْشِ (لسان العرب لابن منظور 13/509''
تو اب یہ بتائیے کیا لغت کے اعتبار سے یہ کہا جائے گا کہ ہرن، اور نیل گائے، بھیڑیا، اور جنگلی گدھے شاۃ کی قسم میں داخل ہونے کی وجہ سے ان کی قربانی جائز ہوگی؟ ان کی قربانی کرنا مشروع ہوگا؟ 

نیز 
کہتے ہیں:- کہ بھینس کی قربانی اس لئیے جائز ہے کیوں کہ وہ جگالی کرتی ہے 
 حضور جگالی تو Sheep (بھیڑیا)، (Deer ہرن)، 
Red Deer( لال ہرن ) 
Domestik Sheep ( گھریلو بھیڑ) 
Zingo 
Bongos
Info Dunia 
یہ سب بھی کرتے ہیں تو ان کی بھی قربانی کو مشروع قرار دے دیجئیے 
اسی لئیے قاعدہ بنایا گیا کہ '' لا قیاس مع النص'' قرآن و سنت کے ہوتے ہوئے عقل کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا، اگر عقل کا اعتبار کریں گے تو ایسی صورت میں اِن جانوروں کی قربانی کو بھی مشروع قرار دینا پڑے گا- 

اور رہ گئی بات بھینس کے گوشت اور دودھ کو کھانے پینے کے ناطے قربانئی بھینس کے جواز کی 
تو اس متعلق شیخ الحدیث (جامعہ اسلامیہ دریاباد) فرماتے ہیں کہ '' شریعت نے اس کو حرام قرار نہیں دیا ہے، اور ماکولات میں جسے شریعت نے حرام قرار نہیں کیا ہے وہ بالاتفاق حلال ہے کیوں کہ حدیث میں ہے 
........ اَلْحَلاَلُ مَا أَحَلَّ اللّهُ وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ (ابوداؤد:380) 
بھینس کا گوشت کھانا اور اس کا دودھ پینا عبادت نہیں ہے کہ اس کے لئیے دلیل کی ضرورت ہو بلکہ اس کا تعلق معاملات سے ہے جس میں اصل یہ ہے کہ ہر چیز حلال ہے سوائے اس کے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہو اس لئیے بلا شک و شبہ بھینس کا گوشت حلال و مباح ہے قاعدہ ہے وَالْأَصْلُ فِي الْعِبَادَاتِ اَلْمَنَعُ وَالتَّوْقِيْفُ وَ فِی الْعَادَاتِ اَلْإِبَاحَةُ وَالْإِذنُ وَفِی الْإِبْضَاعِ التَّحْرِيْمُ وَ فِي الْأَمْوَالِ اَلْمَنَعُ 

اب آئیے کتب احناف سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں 
قارئین عظام وکرام: 

احناف کے نزدیک بھینس کی قربانی جائز ہے اور ان کا یہ جواز کسی آیت و حدیث سے ماخوذ نہیں، بلکہ بھینس کی قربانی کے جواز کی دلیل '' ہدایہ'' کی یہ عبارت ہے:'' وَيَدْخُلُ في الْبَقَرِ الْجَامُوْسُ لِأَنَّهُ مِنْ جِنْسِهِ'' اور بھینس گائے کے حکم میں داخل ہے کیوں کہ بھینس گائے کی جنس ہے - 

لیکن یہ استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے 

1 صاحب ہدایہ کی عبارت ہی دلیل ہے کہ بھینس اور گائے کی اجناس مختلف ہیں. کیوں کہ جو چیز حکماً کسی اور جنس میں داخل ہو. اسکی جنس اس چیز سے یقیناً مختلف ہوتی ہے - 

2 احناف کی عبارات اس بات کی گواہ ہیں کہ بھینس گائے کی جنس نہیں بلکہ بھینس اور گائے کی جنس مختلف ہیں. اس کے دلائل حسب ذیل ہیں 

‌1 فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب در المختار میں مذکور ہے کہ '' وَلَا یَعُمُّ الْبَقَرُ الْجَامُوْسَ '' گائے بھینس کو عام نہیں (جنسِ گائے میں بھینس شامل نہیں) درالمختار:4/80 

‌ حاشیہ رد المختار کے مصنف اس عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں: '' وَلَا یَعُمُّ الْبَقَرُ الْجَامُوْسَ (گائے بھینس کو شامل نہیں) أَیْ فَلَوْ حَلَفَ لَا يَأْكُلُ لَحْمَ بَقَرٍ وَلَا يَحْنَثُ بِأَكْلِ الْجَامُوْسٍ كَعَكْسِهِ لِأَنَّ النَّاسَ يُفَرِّقُوْنَ بَيْنَهُمَا؛
‌قِيْلَ يَحْنَثُ لِأَنَّ الَبَقَرَ أعم 
‌ وَالصَّحِيْحُ الْاَوَّلُ كَمَا فِی النَّهْرِ التَّاتَرْخَانِيَةِ '' 

‌ یعنی اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ وہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا. تو بھینس کا گوشت کھانے سے اسکی قسم نہیں ٹوٹے گی. 
‌اسی طرح کوئی بھینس کا گوشت نہ کھانے کی قَسم کھائے تو گائے کا گوشت کھانے سے اسکی قَسم نہیں ٹوٹے گی. 
‌ ایک ضعیف قول ہے کہ اِس عمل سے اسکی قَسم ٹوٹ جائےگی. کیوں کہ گائے عام ہے جس میں بھینس شامل ہے. 
‌ لیکن پہلا قول راجح ہے 
‌ جیسا کہ '' النھر'' میں فتاویٰ '' تاتار خانیہ'' سے منقول ہے- ( دیکھیں حاشیہ رد المختار:4/80) 

‌ ''ہدایہ'' کی معروف شرح '' فتح القدیر'' میں منقول ہے: '' وَالْبَقَرُ لَا یَتَنَاوَلُ الْجَامُوْسَ لِلْعُرْفِ'' 

‌عرفِ عام میں بھینس گائے کی جنس میں شامل نہیں ہے- (دیکھیں فتح القدیر:11/267) 

‌جب خود احناف بھینس کو گائے کی جنس تسلیم نہیں کرتے تو اِس مختلفُ الجنس چوپائے کو قربانی کے اُن چوپاؤں میں کیسے شامل کیا جاسکتا ہے. جن کے بارے میں قرآن و سنت میں واضح نص بیان ہوئی ہے 

‌ میرے والد محترم شیخ الجامعہ (جامعہ اسلامیہ دریاباد) فضیلۃالشیخ حافظ مولانا عبد السمیع المدنی نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ '' اگر احناف اپنی کتابوں کا مطالعہ تعصب کے عینک کو اتار کر کریں تو انہیں اہل حدیثوں کا منہج اپنانے میں زرا دیر نہ لگے گی '' 

‌محترم قارئین:- جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ احناف کی کتابوں میں خود اس بات کا ذکر موجود ہے کہ بھینس گائی کی جنس سے نہیں ہے 
‌ پھر بھی علماء احناف بھینس کو جبرا گائے کی جنس میں شامل کرتے ہیں 
‌ اللہ رب العالمین سے دعاء ہے کہ رب العالمین سب کو دین اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے 
‌ آمین 
http://www.urdu.carekhabar.com/2018/08/1900/

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۶ 

بھینس کی قربانی کا حکم 

قربانی کے جانور کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ، وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ(الانعام:142-143)
ترجمہ : آٹھ اقسام، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو، کہہ دیجئے کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جس پر ددنوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو۔
اللہ تعالی نے نام لیکر آٹھ قسم کے قربانی کے جانور کی تعیین کردی جبکہ کھائے جانے والے جانور بے شمار ہیں۔ آٹھ قسم: دو قسم بکری نرومادہ، دوقسم بھیڑ نرومادہ، دوقسم اونٹ نرو مادہ اور دو قسم گائے نرومادہ۔ گویا ان آٹھ اقسام میں قربانی کے لئے نویں کسی جانور کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ ان اقسام میں بھینس کا ذکر نہیں ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ عرب میں اس وقت بھینس نہیں معروف تھی اور یہ گائے کی جنس سے ہے ۔ اس کا حکم وہی ہے جو گائے کا خواہ زکاۃ کے لئے ہو، قربانی کے لئے ہو یا گوشت کھانے اور دودھ پینے کے طور پر ہو۔ یہ بات صحیح ہے کہ بھینس عرب میں متعارف نہیں تھی مگر بھینس دنیا میں موجود تھی، اللہ اس کا خالق ہے وہ کوئی بات بھولتا نہیں ۔ اگر چاہتا توقربانی کے جانور کی فہرست میں اسے بھی ذکر کرسکتا تھا۔
خلاصہ کے طور پر میرا یہ کہنا ہے کہ بھینس حلال جانور ہے، اس کو قربانی کے تئیں وجہ نزاع نہ بنایا جائے، سیدھی سی بات ہے اگر ہمارے یہاں قرآن میں مذکور آٹھ اقسام میں سے کسی قسم کا جانور پایا جاتا ہے تو اس کی قربانی کریں جس میں کوئی شک نہیں اور نہ اختلاف ہے البتہ متعدد اہل علم نے بھینس کو گائے کی جنس سے مانا ہے اور اس بنیاد پہ اس کی قربانی کا جواز فراہم کیا ہے ۔ عرب کے علماء بھی جواز کے قائل ہیں ۔ لہذا کسی کا دل اس پہ مطئمن ہو تو اس پہ کسی قسم کا جبر نہیں کیا جائے ۔

مقبول احمد سلفی طائف 
https://m.dailyhunt.in/news/india/urdu/baseerat+online-epaper-baonline/-newsid-71427535

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۷ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بھینس یا بھینسا جو مشہور جانور ہے کیا ا س کی قربانی شریعت سے ثابت ہے ؟کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کیجئے۔آپ کی تحقیق مسائل سے میری تسلی ہوجاتی ہے۔؟ 
(السائل محمد حسین بن اسماعیل رئیس صدر شعبہ اسلامیات لارنس کالج مری پنجاب)
 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحمد للہ رب العالمین۔اما بعد فاقول و باللہ التوفیق۔واضح ہو کہ بھینس ۔بھینسا جو مشہور حیوان ہے اورپنجاب وغیرہ ملک عجم میں عام پایا جاتا ہے۔عہد نبو یﷺ صحابہ میں ملک عرب خصوصاً حجاز میں پایا نہیں گیا۔کتاب و سنت میں خصوصی طور پر اس کا کہیں زکر نہیں ملتا یہ ملک عجم کی پیداوار ہے۔ ا سلئے اس کانام معرب جاموس ہے۔حیواۃ الحیوان ج1 ص 232میں ہے۔علامہ دمیری ؒ یہ فرماتے ہیں۔الجاموس واحد الجوامیس 

فارسی معرب یعنی جاموس جوامیس صیغہ جمع کا واحد ہے۔یہ لفظ فارسی سے معرب ہے۔ جیسے بھیڑ دنبہ بکری کی جنس سے ہیں۔اس طرح جاموس بقر یعنی بھینس گائے کی جنس سے ہے۔چنانچہ حیواۃ الحیوان کے صفحہ میں لکھا "حکمہ و خواصہ کا بقر" یعنی بھینس کا حکم مثل گائے کے ہے۔یعنی اس کی جنس سے ہے۔ہدایہ فقہ کی مشہور درسی کتاب کی جلد 2 ص 229 میں یہ لکھا ہے۔

يدخل في البقر الجاموس لا نه من جنسه

یعنی قربانی کے بارہ میں بھینس گائے کا ھکم رکھتی ہے۔کیونکہ یہ اس کی جنس سے ہے۔امام ابو بکر ابن ابی شیبۃ نے کہا باب الزکوٰۃ میں زکواۃ کے احکام بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک جماعت باسناد یوں درج کیا ہے۔

یعنی امام بصری ؒ سے ر وایت ہے کہ بھینس گائے کے درجے میں ہے۔یعنی جیسے تیس گایوں پرزکواۃ ہے۔ویسے ہی تیس بھینسوں پر ہے۔امام حسن بصری نے بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے علم قرآن و حدیث کا حاصل کیا ہے۔انھوں نے بھینس کو گائے کی جنس ٹھرا کر اس پر وہی حکم لگایا ہے۔امام مالک نے اپنی کتاب موطا کے ص 213 مع شرح مصطفیٰ میں حیوانوں کی زکواۃ کا حکم بیان فرماتے ہوئے ایک مقام پر یہ لکھاہے۔

قال ما لك به العراب والبخت والبقر والجواميس نحو مالك

یعنی امام مالک نے فرمایا کہ جیسے گوسفند  بکر ی سے زکواۃ لینے کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ایسے ہی عربی اونٹوں اور بختی اونٹوں اور گایئوں اور بھینسوں سے زکواۃ لینی چاہیے۔امام مالک تبع تابعین سے ہیں۔جو جاموس کو گائے شمار کرتے ہیں۔پس تابعین او ر تبع تابعین کے عہد میں جاموس گائے کی جنس میں شمار ہوا۔کنوز الحقائق میں ایک روایت یوں درج ہے۔

الجاموس في الاضحية عن سبعة

یعنی بھینس قربانی میں سا ت کی طرف سے شمار ہے۔اس حدیث کی اسناد کا کچھ علم نہیں1ہے۔لیکن جاموس کوگائے کے ساتھ شمار کرنے میں اکابر محدثین کا مسلک ہے۔چنانچہ مرعاۃ المفاتیح جلد 2 ص 303 میں ہے۔

یعنی فقہا محدثین امام مالک امام حسن بصری امام عمربن عبدالعزیز قاضی ابو یوسف امام ابن مہدی وغیرہ جاموس کو گائے کی ایک قسم شمار کر تے ہیں۔اس لئے زکواۃ بھینس کے گئے کے حساب سے بیان کرتے ہیں۔نیز یہ ککھا ہے۔

یعنی یہ بات جان لینی چاہیے۔کہبهيمة الانعام کے بغیر کوئی جانورقربانی میں کفایت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اللہ کا فرمان قرآن میں یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا نام قربانی کے مویشیوں پر یاد کریں۔جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دیئے ہیں۔ او ر وہ اونٹ

1۔کنوز الحقائق میں فردوس ویلمی کا حوالہ ہے۔اورمعلوم ہے کہ فردوس کی روایات عموماً کمزور ہوتی ہیں۔کنز العمال کے مقدمہ میں بحوالہ حافظ سیوطی جن چار کتابوں کی روایتوں کو علی العموم کمزور کہا ہے ان میں اس کا بھی شمار ہے
واديلمي في مسند الفردوس فهوا ضعيف فيسقغتي بالشر اليها او الي بعضها عن بيان ضعفخ (ص 3 جلد اول ج۔ح)

گائے غنم ہیں۔غنم کی دو قسمیں ہیں۔ایک بکر ی دوسری بھیڑ ان جانوروں کے بغیر کسی جانور کی قربانی نبی کریمﷺ اورصحابہ کرام سے منقول نہیں۔پھرلکھتے ہیں۔

واما الجاموس فمذهب الحنفية وغير هم جواز التضحية به

یعنی مذہب حنفی وغیرہ میں بھینس کی قربانی جائز لکھتے ہیں۔پھر یہ لکھا ہے۔

یعنی فقہا حنفیہ وغیرہ یہ لکھتے ہیں۔کہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے۔ اور ان کی تایئد یہ بات کرتی ہے۔کہ بھینس زکواۃ کے بارے میں مثل گائے کے ہے۔تو قربانی میں بھی اس کی مثل ہے۔میں کہتا ہوں کہ اس بات پرسب کا اجماع ہے۔کہ بھینس حلال ہے ا س کی دلیل کہ سورہ مائدہ کی آیت

قرآن!

(تمہارے لئے چار پائے مویشی حلال کئے گئے ہیں۔)

تفصیل کاخاز ن وغیرہ میں سب چارپائے حیوانوں کو جو مویشی ہیں گھوڑے کی طرح سم در نہیں اور نہ شکار کرنے والے درندے ہیں سب کو بهيمة الانعام میں شمار ی کیا ہے تو بھینس بھی بهيمة الانعام میں داخل ہے۔اس لئے حلال ہے۔اور بهيمة الانعام کی قربانی نص قرآن سے ثابت ہے۔چنانچہ سورہ حج میں یہ آیت ہے۔

قرآن!

یعنی ہم نے ہر امت کیلئے طریقہ قربانی کا مقرر کیا ہے۔تاکہ اللہ کانام زبح کے وقت ان مویشیوں پرزکر کریں۔ جو اللہ نے ان کو دیئے ہیں۔اور انہوں نے پال رکھے ہیں۔موضع القرآن میں بهيمة الانعام پر لکھا ہے۔انعام وہ جانور ہیں جن کو لوگ پالتے ہیں۔کھانے کو جیسے گائے بکری بھیڑ جنگل کے ہرن اور نیل گائے وغیرہ اس میں داخل ہیں کہ جنس ایک ہے۔بنا بریں بھینس بھی بهيمة الانعام میں داخل ہے۔چنانچہ فتاویٰ ثنائیہ جلد 1 ص 520 میں سوال جواب یوں درج ہیں۔

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 13 ص 74-71
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/3372 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۸ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بھینس کی قربانی قرآن و سنت سے ثابت ہے؟ ا(ایک سائل لاہور)

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلنا مَنسَكًا لِيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ ...﴿٣٤﴾... سورةالحج
"اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی جگہ مقرر کی تھی تاکہ جو جانور اللہ تعالیٰ نے ان کو مویشی چوپایوں میں سے دئیے تھے ان پر اللہ کا نام ذکر کریں۔"

اس آیت کریمہ میں قربانی کے جانوروں کے لیے بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ کے الفاظ ذکر کیے ہیں اور انعام سے مراد یہاں پر اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہیں جن کی تشریح قرآن پاک کی دوسری آیت کریمہ سے ہو تی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَمِنَ الأَنعـٰمِ حَمولَةً وَفَرشًا كُلوا مِمّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلا تَتَّبِعوا خُطُو‌ٰتِ الشَّيطـٰنِ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ ﴿١٤٢﴾ثَمـٰنِيَةَ أَزو‌ٰجٍ مِنَ الضَّأنِ اثنَينِ وَمِنَ المَعزِ اثنَينِ قُل ءالذَّكَرَينِ حَرَّمَ أَمِ الأُنثَيَينِ أَمَّا اشتَمَلَت عَلَيهِ أَرحامُ الأُنثَيَينِ نَبِّـٔونى بِعِلمٍ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿١٤٣﴾... سورةالانعام
"اور مویشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے (پیدا کیے)، جو کچھ اللہ نے تم کو دیا ہے کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، بلاشک وه تمہارا صریح دشمن ہے (142) (پیدا کیے) آٹھ نر و ماده یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم آپ کہیے کہ کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ماده کو؟ یا اس کو جس کو دونوں ماده پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ تم مجھ کو کسی دلیل سے تو بتاؤ اگر سچے ہو "

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ انعام کا اطلاق اونٹ گائے اور بھیڑ بکری پر ہوتا ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ " بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ " کی تشریح میں رقم طراز ہیں۔

"انعام سے مراد یہاں اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہے اور" بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ سے مراد انعام ہی ہے یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہتے ہیں صلاۃ الاولیٰ اور مسجد الجامع ۔"

(تفسیر قرطبی:12/30)

نواب صدیق حسن خان رقم طراز ہیں۔

"انعام کی قید اس لیے لگائی گئی کہ قربانی انعام کے سوا اور کسی جانور کی درست نہیں اگرچہ اس کا کھانا حلال ہی ہو ۔"(ترجمان القرآن ص741)

مزید فرماتے ہیں۔

"بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ"سے اونٹ اور گائے اور بکری مراد ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں مفصل بیان فرمایا۔" (ترجمان القرآن ص727)

مذکورہ آیت کی تفسیر میں قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

"وفيه إشارة إلى أن القربان لا يكون إلا من الأنعام دون غيرها"
(فتح القدیر 3/452)

"اس میں اشارہ ہے کہ انعام کے علاوہ دوسرے جانوروں کی قربانی نہیں ہوتی۔"

انعام کی تشریح میں فرماتے ہیں۔

"وهي الإبل والبقر والغنم" (فتح القدیر 3/451)
"اور وہ اونٹ گائے اور بھیڑ بکری ہیں۔"

مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ" بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ" سے مراد اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہیں اور انہی کی قربانی کرنی چاہیے ۔ بھینس ان چار قسم کے چوپایوں میں نہیں۔ علامہ سید سابق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

"ولا تكون إلا من الإبل والبقر والغنم، ولا تجزئ من غير هذه الثلاثة يقول الله سبحانه((لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ))"
"قربانی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری کے علاوہ جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وہ یاد کریں اللہ تعالیٰ کا نام اس چیز پر جو اللہ نے انہیں مویشی چوپایوں میں سے عطا کیا۔"

یہی موقف حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ اہلحدیث 2/426 میں اختیار کیا ہے فرماتے ہیں بعض نے جو یہ لکھا ہے۔ الجَاموسُ : نَوعٌ من البَقَرِ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی اسی زکاۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ورنہ ظاہر کہ بھینس دوسری جنس ہے۔ احناف کے ہاں بھینس کی قربانی کی جا سکتی ہے اور یہ بقر میں داخل ہے ہدایہ کتاب الاضحیہ 4/359)بیروت میں ہے۔

"ويدخل في البقر الجاموس ; لأنه [ ص: 92 ] من جنسه"
 "گائے میں بھینس داخل ہے اس لیے کہ یہ گائے کی جنس سے ہے۔"

فتاویٰ ثانیہ1/810۔میں لکھا ہے۔ حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا پس اس کی قربانی نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے نہ تعامل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ہاں اگر اس کو جنس بقر سے مانا جائے جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے(کمافی الہدایہ ) یا عموم "بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ" پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے از مولانا ابو العلاء نظر احمد کسوانی ۔آئمہ اسلام کے ہاں جاموس (بھینس ) کا جنس بقر سے ہونا مختلف فیہ ہے مبنی براحتیاط اور راجح یہی موقف ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری سے کی جائے جب یہ جانور موجود ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب ہی کرنا چاہیے اور دیگربحث و مباحثے سے بچنا ہی اولیٰ و بہتر ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
آپ کے مسائل اور ان کا حل
جلد2۔كتاب الاضحیۃ۔صفحہ نمبر 334
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/20857

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۹ 

 بھینس کی قربانی
قرآن کریم میں ہےکہ ایسےجانوروں کی قربانی کی جائےجو بھیمۃ الأنعام میں سے ہیں یعنی مویشی قسم کے چوپائے ہوں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : { وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكاً لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ }(الحج 34) ( ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے طریقے مقرّر کردئے ہیں تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں ) قرآنی اصطلاح میں لفظ ” الأنعام “ میں چار قسم کےنراورمادہ جانور شامل ہیں : اونٹ نر و مادہ، گائےنر و مادہ، بھیڑ نر و مادہ، بکری نر و مادہ ۔ اس کی تفصیل بھی سورۃ الأنعام( آیت نمبر143 – 144) میں موجود ہے اس بناءپر ہمارا رجحان یہ ہے کہ قربانی کیلئے انہی جانوروں میں سے انتخاب کرنا چاہئےاور بھینس کی قربانی سے گریز کرنا چاہئے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بھینس کی قربانی کرنا ثابت نہیں ہے ۔ جو لوگ اس کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں اور بھینس کی قربانی کے قائل و فاعل ہیں ان کا موقف ہے کہ لغوی اعتبار سے بھینس لفظ بقر میں شامل ہے، اس لئے اس کی قربانی دی جا سکتی ہے ۔ جب کہ لغوی اعتبارسےبقر کےمسمی میں داخل ہونےکےباوجودبھینس طبیعت، رنگ، حجم اوروجودمیں گائےسے نہایت ہی مختلف ہے، نیزقربانی ایک توقیفی عبادت ہےجس میں کوئی بھی عمل بغیرثبوت کےکرنامحلّ نظرہے، جس طرح ہرن، گھوڑے، نیل گائے اور پرندے کی قربانی نہیں کی جاتی کیونکہ ان کی قربانی کاثبوت قرآن وسنّت سےنہیں ہے ٹھیک اسی طرح بھینس کوبھی اسی زمرےمیں رکھناچاہئے یہی احتیاط کاتقاضہ اورعمل کےلئےاحوط وانسب ہے ۔ واللہ اعلم باالصواب ۔ بعض حضرات نے تو اس حد تک غلو کیا ہے کہ بھینس کی قربانی گائے کی قربانی سے افضل ہے ۔ لیکن ہم اسے صحیح نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل اور تقریر سے گائے کی قربانی ثابت ہے لہٰذا قربانی کے طور پر بھینس کو اس میں شامل نہ کیا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے پیش نظر صرف اونٹ‘ گائے‘ بھیڑ اور بکری کی قربانی دی جائےاور بھینس کی قربانی سے اجتناب کیا جائے کیونکہ ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔ 

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی 
 المكتب التعاوني للدعوة والإرشاد وتوعية الجاليات محافظة يدمة منطقة نجران مملكت سعودي عرب 

http://abuzahraabdulaleemsalafi.blogspot.com/2014/09/blog-post_17.html 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۰ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بھینس کی قربانی جائز ہے۔؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جائز ہے کیونکہ بھینس اور گائے کا ایک ہی حکم ہے۔(فتاوی ستاریہ جلد 3 ص2)

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 13 ص 47
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/3350/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۱ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بھینس کی قربانی جائز ہے یا نہیں ؟ دونوں صورتوں میں کتاب وسنت کے دلائل سے وضاحت فرما دیں؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جو لوگ بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل ہیں ان کے ہاں دلیل بس یہی ہے کہ لفظ بقر اس کو بھی شامل ہے یا پھر اس کو بقر پر قیاس کرتے ہیں اور معلوم ہے کہ گائے کی قربانی رسول اللہﷺکے قول، عمل اور تقریر سے ثابت ہے لہٰذا گائے کی قربانی کی جائے جو رسول اللہﷺسے تینوں طریقوں سے ثابت ہے۔

وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
قربانی اور عقیقہ کے مسائل ج1ص 434
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/2048/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۲ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بھینس کی قربانی کا کیا حکام ہے؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید کے ظاہر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ، بکری، دنبہ اور گائے کی قربانی دینی چاہیے، جیسے کہ ارشاد ہے:

﴿لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ... ٣٤﴾...الحج

اور بظاہر بھینس، گائے سے الگ دوسری قسم کا جانور معلوم ہوتاہے۔ مگر لغت میں بھینس کو گائے کی قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ منجد میں ہے:

الجاموس جمعه جوامیس صنف من کبار البقریکون داجنا منذ اسناف وحشیه۔ (ص ۱۰۰)

کہ پالتو بھینس بڑی گائے کی ایک قسم ہے، اسی وجہ سے شوافع اور حنفیہ کے نزدیک بھینس کی قربانی جائز ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَجَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبَقَرِ مِنْ الْجَوَامِيسِ وَالْعِرَابِ والدربانية ۔ (شرح مھذب: ص۳۰۸ج۸)

کہ قربانی کے جانوروں میں گائے کی تمام اقسام جائز ہیں خواہ گائے عربی ہو یا فارسی یعنی بھینس۔

اور ہدایہ حنفیہ میں بھی اس کا جواز موجود ہے۔ ہر حال بھینس چونکہ حلال چوپایہ ہے اور من بھیمة الانعام کے عموم اور داخل نہیں، مگر اہل لغت کے مطابق یہ گائے کی ایک بڑی قسم ہے، اس لئے اس کی قربانی کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ تاہم یہ نہ تو سنت رسول اللہﷺ ہے نہ سنت صحابہ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ
ج1ص592
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/14334/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۳ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقہ میں بھینس کی قربانی بکثرت کی جاتی ہےحالانکہ دوسرے جانور دستیباب ہوتے ہیں، اس کے متعلق ہماری رہنمائی کریں۔

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم کے مطابق ایسے جانوروں کی قربانی دینی چاہیے جن پر"بہیمۃ الانعام" کا لفظ بولا جاتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلنا مَنسَكًا لِيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ...﴿٣٤﴾... سورةالحج
"ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ مویشی قسم کے چوپائیوں پر اللہ تعالیٰ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں دےرکھے ہیں۔"

اور الانعام میں چار قسم کے نر اور مادہ جانور شامل ہیں۔

1۔اونٹ۔2۔گائے۔3۔بھیڑ(دنبہ)۔4۔بکری۔

قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ یہ چوپائے آٹھ قسم کے ہیں یعنی دو، دوبھیڑوں میں سے اور دو، بکریوں میں سے(نر اور مادہ)۔۔۔اور دو، دو اونٹوں دو گائیوں میں سے(نر اور مادہ)[1]

ہمارے رجحان کے مطابق قربانی کے سلسلہ میں صرف انہی جانوروں پر اکتفاء کیا جائے جن پر بہیمۃ الانعام کا لفظ بولا جاسکتا ہے اور وہ صرف اونٹ، گائے، بھیڑ(دنبہ) اور بکری ہیں۔چونکہ بھینس ان جانوروں میں شامل نہیں ہے لہذا اس سے اجتناب بہتر ہے اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بھینس کی قربانی ثابت نہیں ہے اور جو اہل علم بھینس کی قربانی کے قائل اور فاعل ہیں وہ صرف یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ بھینس کو گائے کی جنس کہتے ہیں یاگائے پر اسے قیاس کرتے ہیں حالانکہ بھینس ایک الگ جنس ہے۔ ان کے دودھ اور گوشت کی تاثیر بھی الگ الگ ہے پھر قیاس کے لیے کوئی علت مشترک ہونی چاہیے جو ان میں نہیں پائی جاتی ۔ہم کہتے ہیں کہ گائے کی قربانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، عمل اور تقریر تینوں طریقوں سے ثابت ہے لہذا گائے، اونٹ اور بکری کی ہی قربانی دی جائے، حافظ عبداللہ روپڑی مرحوم نے اس سلسلہ میں بڑا اچھا موقف اختیار کیا ہے کہ قربانی کے سلسلہ میں احتیاط اورواضح موقف یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ دی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ، گائے، بھیڑ(دنبہ) اور بکری سے کی جائے۔ جب یہ جانور دستیاب ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب کرنا چاہیے: "دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ" (واللہ اعلم)

[1] ۔الانعام:144۔143۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب 
فتاویٰ اصحاب الحدیث 
جلد3۔صفحہ نمبر 404 
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/20130/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۴ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقہ میں بھینس کی قربانی کی جاتی ہے اور اس کے جواز میں دلائل بھی دئیے جاتے ہیں، کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مویشی قسم کے چار پائے جانور ذبح کئے جائیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔ (سورۃ الحج:34)

اس قسم کی وضاحت سورۃ الحج کی آیت نمبر 28 میں بھی ہے:

ایک دوسرے مقام پر قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ چوپایوں کے نر مادہ آٹھ جوڑے ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"کل آٹھ جوڑے (اقسام) ہیں: بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو۔" (سورۃ الانعام:143)

"اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو۔" (سورۃ الانعام:144)

ہمارے رجحان کے مطابق گائے، اونٹ، بھیڑ اور بکری کی قربانی کرنا چاہیے، بھینس کی قربانی سے اجتناب ہی بہتر ہے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھینس کی قربانی کرنا ثابت نہیں ہے جو حضرات بھینس کی قربانی کو جائز خیال کرتے ہیں وہ درج ذیل تین دلائل پیش کرتے ہیں:

(1) بھینس گائے کی ایک بڑی قسم ہے۔ (2) مسئلہ زکوۃ میں بھینس کو گائے کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ (3) ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ بھینس کی قربانی میں سات حصے دار ہو سکتے ہیں۔ لیکن علمی اعتبار سے ان دلائل کی کوئی حیثیت نہیں ہے جیسا کہ درج ذیل وضاحت سے معلوم ہوتا ہے:

٭ بھینس کو گائے کی قسم قرار دینا کئی ایک اعتبار سے محل نظر ہے کیونکہ بھینس کے دودھ سے برآمد ہونے والا مکھن سفید اور گائے کا مکھن پیلی رنگت میں ہوتا ہے۔ ٭ بھینس کے سینگ چوڑی دار اور خوبصورت ہوتے ہیں جبکہ گائے کے سینگ کبھی چوڑی دار نہیں ہوتے۔ ٭ بھینس گندے پانی اور کیچڑ میں بیٹھ جاتی ہے جبکہ گائے ایک صاف ستھرا جانور ہے جو کیچڑ میں نہیں بیٹھتا۔ ٭ سب سے نمایاں فرق اس کے بچے کی پیدائش کا ہے کہ گائے نو ماہ بعد بچہ جنم دیتی ہے جبکہ بھینس گیارہویں ماہ بچے کو جنتی ہے۔ ٭ گائے کھیتی باڑی میں استعمال ہوتی ہے جبکہ بھینس اس کام کے لئے استعمال نہیں ہوتی۔

درج بالا وجوہات کی بنا پر بھینس کو گائے کی قسم قرار دینا سینہ زوری ہے۔

٭ اس میں شک نہیں ہے کہ مسئلہ زکوۃ میں بھینس کا وہی حکم ہے جو گائے کا ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مسئلہ زکوۃ میں گائے اور بھینس کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ (موطا امام مالک، کتاب الزکوٰۃ باب ماجاءفی صدقۃ البقر)

لیکن امام مالک رحمہ اللہ نے قربانی کے باب میں گائے کے ساتھ بھینس کا ذکر نہیں ہے، دراصل کچھ مسائل احتیاط کے اعتبار سے دو پہلو رکھتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا ہوتا ہے، بھینس کا معاملہ بھی اسی طرح ہے اس کے دو پہلو ہیں: مسئلہ زکوۃ میں زکوۃ دینے میں احتیاط ہے اور مسئلہ قربانی نہ دینے میں احتیاط ہے کیونکہ اس کی قربانی کے متعلق علماء امت کا اتفاق نہیں، جن حضرات نے بھینس کو گائے کی قسم قرار دیا ہے وہ زکوۃ کے اعتبار سے صحیح ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر یہ دونوں الگ الگ اجناس ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے وضاحت کر دی ہے۔

اس سلسلہ میں مسند فردوس کے حوالے سے جو حدیث پیش کی جاتی ہے کہ بھینس کی قربانی میں سات حصے داروں کی شراکت جائز ہے، اس کی سند کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک جس حدیث کی کوئی سند نہ ہو، وہ مجہول اور ناقابل اعتبار ہے، جب تک حدیث کے راویوں کی عدالت و ثقاہت معلوم نہ ہو اسے بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا۔

بہرحال جن اہل علم کو مذکورہ بالا دلائل پر اطمینان ہے، اگر وہ بھینس کی قربانی کے قائل و فاعل ہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہے، البتہ بھینس کے بجائے گائے کی قربانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، عمل اور تقریر سے ثابت ہے۔ لہذا سنت کے مطابق اونٹ، گائے، بھیڑ (دنبہ) اور بکری کو بطور قربانی ذبح کیا جائے اور بھینس کی قربانی سے گریز کیا جائے۔ (واللہ اعلم)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب 
فتاویٰ اصحاب الحدیث 
جلد4۔ صفحہ نمبر 359
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/20670/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۵ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بھینس کی قربانی قرآن و سنت سے ثابت ہے؟ ا(ایک سائل لاہور)

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلنا مَنسَكًا لِيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ ...﴿٣٤﴾... سورةالحج
"اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی جگہ مقرر کی تھی تاکہ جو جانور اللہ تعالیٰ نے ان کو مویشی چوپایوں میں سے دئیے تھے ان پر اللہ کا نام ذکر کریں۔"

اس آیت کریمہ میں قربانی کے جانوروں کے لیے بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ کے الفاظ ذکر کیے ہیں اور انعام سے مراد یہاں پر اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہیں جن کی تشریح قرآن پاک کی دوسری آیت کریمہ سے ہو تی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَمِنَ الأَنعـٰمِ حَمولَةً وَفَرشًا كُلوا مِمّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلا تَتَّبِعوا خُطُو‌ٰتِ الشَّيطـٰنِ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ ﴿١٤٢﴾ثَمـٰنِيَةَ أَزو‌ٰجٍ مِنَ الضَّأنِ اثنَينِ وَمِنَ المَعزِ اثنَينِ قُل ءالذَّكَرَينِ حَرَّمَ أَمِ الأُنثَيَينِ أَمَّا اشتَمَلَت عَلَيهِ أَرحامُ الأُنثَيَينِ نَبِّـٔونى بِعِلمٍ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿١٤٣﴾... سورةالانعام
"اور مویشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے (پیدا کیے)، جو کچھ اللہ نے تم کو دیا ہے کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، بلاشک وه تمہارا صریح دشمن ہے (142) (پیدا کیے) آٹھ نر و ماده یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم آپ کہیے کہ کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ماده کو؟ یا اس کو جس کو دونوں ماده پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ تم مجھ کو کسی دلیل سے تو بتاؤ اگر سچے ہو "

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ انعام کا اطلاق اونٹ گائے اور بھیڑ بکری پر ہوتا ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ " بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ " کی تشریح میں رقم طراز ہیں۔

"انعام سے مراد یہاں اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہے اور" بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ سے مراد انعام ہی ہے یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہتے ہیں صلاۃ الاولیٰ اور مسجد الجامع ۔"

(تفسیر قرطبی:12/30)

نواب صدیق حسن خان رقم طراز ہیں۔

"انعام کی قید اس لیے لگائی گئی کہ قربانی انعام کے سوا اور کسی جانور کی درست نہیں اگرچہ اس کا کھانا حلال ہی ہو ۔"(ترجمان القرآن ص741)

مزید فرماتے ہیں۔

"بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ"سے اونٹ اور گائے اور بکری مراد ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں مفصل بیان فرمایا۔" (ترجمان القرآن ص727)

مذکورہ آیت کی تفسیر میں قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

"وفيه إشارة إلى أن القربان لا يكون إلا من الأنعام دون غيرها"
(فتح القدیر 3/452)

"اس میں اشارہ ہے کہ انعام کے علاوہ دوسرے جانوروں کی قربانی نہیں ہوتی۔"

انعام کی تشریح میں فرماتے ہیں۔

"وهي الإبل والبقر والغنم" (فتح القدیر 3/451)
"اور وہ اونٹ گائے اور بھیڑ بکری ہیں۔"

مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ" بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ" سے مراد اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہیں اور انہی کی قربانی کرنی چاہیے ۔ بھینس ان چار قسم کے چوپایوں میں نہیں۔ علامہ سید سابق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

"ولا تكون إلا من الإبل والبقر والغنم، ولا تجزئ من غير هذه الثلاثة يقول الله سبحانه((لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ))"
"قربانی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری کے علاوہ جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وہ یاد کریں اللہ تعالیٰ کا نام اس چیز پر جو اللہ نے انہیں مویشی چوپایوں میں سے عطا کیا۔"

یہی موقف حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ اہلحدیث 2/426 میں اختیار کیا ہے فرماتے ہیں بعض نے جو یہ لکھا ہے۔ الجَاموسُ : نَوعٌ من البَقَرِ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی اسی زکاۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ورنہ ظاہر کہ بھینس دوسری جنس ہے۔ احناف کے ہاں بھینس کی قربانی کی جا سکتی ہے اور یہ بقر میں داخل ہے ہدایہ کتاب الاضحیہ 4/359)بیروت میں ہے۔

"ويدخل في البقر الجاموس ; لأنه [ ص: 92 ] من جنسه"
 "گائے میں بھینس داخل ہے اس لیے کہ یہ گائے کی جنس سے ہے۔"

فتاویٰ ثانیہ1/810۔میں لکھا ہے۔ حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا پس اس کی قربانی نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے نہ تعامل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ہاں اگر اس کو جنس بقر سے مانا جائے جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے(کمافی الہدایہ ) یا عموم "بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ" پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے از مولانا ابو العلاء نظر احمد کسوانی ۔آئمہ اسلام کے ہاں جاموس (بھینس ) کا جنس بقر سے ہونا مختلف فیہ ہے مبنی براحتیاط اور راجح یہی موقف ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری سے کی جائے جب یہ جانور موجود ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب ہی کرنا چاہیے اور دیگربحث و مباحثے سے بچنا ہی اولیٰ و بہتر ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
آپ کے مسائل اور ان کا حل
جلد2۔كتاب الاضحیۃ۔صفحہ نمبر 334
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/20857/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۶ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اونٹ کی قربانی کے کل کتنے حصے ہیں؟ کیا بیل کی قربانی بھی جائز ہے، نیز کیا بھینس کی قربانی ہو سکتی ہے؟(ابوطاہر نذیر احمد، عبدالرشید۔کراچی) (۲۳ فروری ۲۰۰۱ئ)

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اونٹ کی قربانی میں دس حصے ہو سکتے ہیں۔ سنن الترمذی، بَابُ مَا جَاء َ فِی الاِشْتِرَاكِ فِی الأُضْحِیَّةِ، رقم:۱۵۰۱، صحیح ابن خزیمه:۲۹۰۸

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ (حواشی مشکوٰۃ:۱/۴۶۲) گائے یا بیل کی قربانی تو جائز اور مشروع ہے۔(مشکوٰۃ، باب فِی الاضحیۃ) البتہ بھینس کے متعلق زیادہ احتیاط والا مسلک یہ ہے کہ جن جانوروں کی قربانی بطورِ نص ثابت ہے صرف وہی کی جائے، بھینس ان میں شامل نہیں اور نہ صحابہ وتابعین سے اس کی قربانی کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔

ہمارے شیخ روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید پارہ ۸ رکوع، ۴ میں بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ کی چار قسمیں بیان کی گئی ہیں: دنبہ، بکری، اونٹ، گائے۔ ان میں بھینس کا ذکر نہیں جبکہ قربانی کے متعلق ہے کہ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ

سے ہو، اس بناء پر بھینس کی قربانی جائز نہیں۔ فتاویٰ اہل حدیث۲/۴۲۶

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3، کتاب الصوم:صفحہ:371
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/25605/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۷ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا جاموس( بھینسا) بھی قربانی کے لیے جائز ہے؟ (ایک متلاشی حق، فیصل آباد) (۲۴ اپریل۹۲ئ)

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید نے قربانی کے لیے بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ کومتعین کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ لِيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ ...﴿٣٤﴾... سورة الأنعام
’’تاکہ جو مویشی چار پائے اللہ نے ان کو دیے ہیں(اُن کے ذبح کرنے کے وقت) ان پر اللہ کا نام لیں۔‘‘

’’بَھِیْمَة الْاَنْعَامِ‘‘سے مراد اُونٹ، گائے، بکری، دنبہ، چھترہ وغیرہ ہیں ان میں بھینس شامل نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان جانوروں کے علاوہ کی قربانی منقول نہیں۔ البتہ حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ بھینس کی قربانی کرنا جائز ہے۔ ان لوگوں نے بھینس کو گائے پر قیاس کیا ہے۔ لیکن سب لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ بھینس اوصاف کے اعتبار سے گائے سے بالکل مختلف جنس ہے۔ اس بناء پر فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے۔ کہ اگر کسی نے قسم کھالی کہ وہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا لیکن اس نے بھینس کا گوشت کھا لیا تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ اور جن لغویوں نے اس کو گائے کی قسم قرار دیا ہے بظاہر تساہل معلوم ہوتا ہے۔(وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ ۔)

اور کوئی کہے جب بھینس کی قربانی دینی درست نہیں، پھر تو اس کی زکوٰۃ بھی واجب نہیں ہونی چاہیے ؟ اس اعتراض کا جواب شیخی المکرم محدث روپڑی رحمہ اللہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔

یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرناپڑتا ہے۔

ام المومنین سودۃ کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا۔ لڑکا پیدا ہوا۔جو اپنی والدہ کے پاس پرورش پاتا رہا۔ زانی مر گیا اور اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو وصیت کرگیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ میں کرلینا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا۔ اور کہا یہ میرا بھتیجا ہے۔ زمعہ کے بیٹے نے کہا یہ میرے باپ کا بیٹا ہے۔ لہٰذا میرا بھائی ہے اس کو میں لوں گا۔ مقدمہ دربارِ نبویﷺمیں پیش ہوا۔ تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

’ الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الحَجَرُ ۔‘ مشکوة باب اللعان، فصل اول، صحیح البخاری، بَابٌ: لِلْعَاهِرِ الحَجَرُ، رقم:۶۸۱۷
یعنی اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔‘‘

 یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے۔ بچہ سودہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے حوالہ کردیا۔ جو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا بھی بھائی بن گیا۔لیکن سودہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا کہ اس سے پردہ کرے، کیوں کہ اس کی شکل و صورت زانی سے ملتی جلتی تھی۔ جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے۔ اس مسئلہ میں شکل و صورت کے لحاظ سے تو پردہ کا حکم ہوا۔ اور جس کے گھر میں پیدا ہوا، اُس کے لحاظ سے اس کا بیٹا بنا دیا گویا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا۔ ایسا ہی بھینس کا معاملہ ہے ۔ اس میں بھی دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہو گا۔ زکوٰۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے۔ اس بناء پر بھینسے کی قربانی جائزنہیں اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِنَ الْبَقَرِ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے۔یہ بھی اسی زکوٰۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے۔ (فتاویٰ اہل حدیث، ج:۲، ص:۴۲۶۔۴۲۷)

یہ وہ عظیم مسئلہ ہے جس کی بنا پر محقق شہیر مولانا عبدالقادر حصاری رحمہ اللہ نے شیخی المکرم کو مجتہد کے لقب سے نوازا تھا۔ " الاعتصام: مولانا عبدالقادر عارف حصاری مرحوم نے ابتدائً بھینس کی قربانی کے عدمِ جواز کا فتویٰ دیا تھا لیکن بعد میں رجوع کرکے جواز کا فتویٰ دے دیا تھا۔ جو الاعتصام میں چھپا ہواموجود ہے۔ علاوہ ازیں صاحب ’’مرعاۃ‘‘ شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی نے بھی اس کے جواز سے انکار نہیں کیا ہے تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، ’’الاعتصام‘‘ ۲-اکتوبر، ۱۹۸۱ء (ص۔ی)"رحمھما اللہ رحمۃ واسعۃ

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں اس احتیاطی پہلو کو خوب واضح کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: باب تفسیر المشبہات کتاب البیوع)

یاد رہے گائے اور بھینس تیس رأس میں سے ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی، بچہ یا بچی زکوٰۃ میں واجب ہے بشرطیکہ وہ باہر چرتی ہوں۔ ان کا چارہ قیمتاًنہ ہو۔ مؤطا امام مالک باب ما جاء فی صدقۃ البقرۃ، رقم:۲۴

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3، کتاب الصوم:صفحہ:414
محدث فتویٰ

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۸ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بھینس کی قربانی جائز ہے یا ناجائز؟ علمائے بہاول پور کا موقف یہ ہے کہ بھینس کی قربانی کا چونکہ رسول اللہﷺ، صحابہ کرام سے کوئی ثبوت نہیں۔ اور قرآن پاک کی ’’سورہ الانعام‘‘ کی (آیت ـ۴۴) میں آٹھ نر و مادہ جانوروں کا ذکر ہے اور ان میں بھیس شامل نہیں۔ لہٰذا اس کی قربانی بھی نہیں۔ (یہاں سے قربانی کا استدلال جائز نہیں۔ کیونکہ یہ سورہ مکی ہے اور احکامِ قربانی مدینہ میں نازل ہوئے) جب کہ دوسرے شہروں سے یہاں آنے والے علمائے کرام کا موقف اس کے برعکس ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بھینس کی قربانی اگرچہ مسنون نہیں مگراس کا جواز ضرور ہے کیونکہ ’’سورۃ الحج‘‘ آیت نمبر:۳۴/۲۸ میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کے لیے بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ (چوپائے) کی شرط لگائی ہے۔ اور بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ کا لفظ عام ہے جس کو اجماع امت نے گھریلو پالتو جانوروں کے ساتھ خاص کیا ہے اور یہ بھی باجماع امت سب پر واضح ہے کہ بھینس بھی پالتو بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ میں سے ہے لہٰذا باقی جانوروں کی طرح یہ بھی قربانی کے جانوروں میں داخل ہے۔

اگر اس آیت یعنی ’’سورۃ الحج‘‘ والی مدنی آیت کو ’’سورۃ الانعام‘‘ والی مکی آیت سے بھی خاص مان لیں اور بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ سے ابل، بقر، اور غنم مراد لیں تب بھی مسئلہ واضح ہے کیونکہ اہل لغت اورفقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس بقر کی نوع ہے لہٰذا جس طرح بقر قربانی کے جانوروں میں شامل ہے کسی صریح اور صحیح دلیل کے بغیر اس کوبقرسے خارج کرنا ثابت نہیں۔ مزید برآں احکام قربانی پروری دنیا کے لیے ہیں ۔اس کو دنیا کے کسی خاص علاقے کے ساتھ محدود کرنا درست نہیں۔

یہاں پر یہ مسئلہ باعث ِ نزاع بنا ہوا ہے۔ لہٰذاآپ اس بارے میں اپنی تحقیق کی روشنی میں فتویٰ ارسال فرما کر عنداللہ ماجور ہوں تاکہ ضعیف موقف ہم پر واضح ہو جائے۔ (محمد حنیف وینس، گنج بازار، بہاولپور) (۱۹ جون۱۹۹۸ئ) 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بھینس کی قربانی درست نہیں۔ کیوں کہ یہ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ میں شامل نہیں جن کی قربانی کا قرآن میں حکم ہے، وہ ہیں دنبہ، بکری، اونٹ، گائے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ مرعاۃ المفاتیح(۲/۳۴۴۔۳۴۵) اور فتاویٰ اہل حدیث:۲/۴۲۶۔۴۲۷)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3، کتاب الصوم:صفحہ:415
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/25648/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۹ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بھینس کی قربانی سنت ہے یا بدعت؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بھینس اور بھینسے کی قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے اس لیے کہ یہ جانور ﴿بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ﴾ (دنبہ، بکری، اونٹ، گائے) کی تعریف میں داخل نہیں اگرچہ ملحق ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : فتاویٰ اہل حدیث، ج:۲، ص:۴۳۶۔۴۲۷۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3، کتاب الصوم:صفحہ:416
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/25649/

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲۰ 

کیا بھینس کی قربانی کرنا جائز ہے؟ 

الجواب بعون الوہاب 
قربانی صرف اور صرف ۱۔ اونٹ ۲۔ بھیڑ، دنبہ، چھترا ۳۔ بکری اور ۴۔ گائے کی ہی کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اللہ رب العالمین نے فرمایا ہے : [[وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكاً لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ (الحج، 34)]] اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی جگہ مقرر کی تاکہ جو مویشی جانور اللہ نے ان کو دیئے ہیں ان پر اللہ کا نام ذکر کریں۔ اس آیت میں قربانی کے جانور بھیمۃ الأنعام مقرر کیے گئے ہیں۔ اور بھیمۃ الأنعام کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے: [[وَمِنَ الأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً كُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ{142} ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الأُنثَيَيْنِ نَبِّؤُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ{143} وَمِنَ الإِبْلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ قُلْ ………الآیة، (الأنعام، 142-144)]] اور "انعام"(چوپایوں)میں سے بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمین سے لگے ہوئے ۔ کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمھیں رزق دیا اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو، یقیناً وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ آٹھ اقسام، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو، کہہ دیجئے کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جس پر دونوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو۔۔۔۔۔الخ ان آٹھ جانوروں (۱، ۲بکری نرومادہ، ۳، ۴بھیڑ نرومادہ، ۵، ۶اونٹ نرو مادہ، ۷، ۸گائے نرومادہ) کے علاوہ دیگر حلال جانور (پالتو ہوں یا غیر پالتو) کی قربانی کتاب وسنت سے ثابت نہیں ۔ لہٰذا بھینس یا بھینسے کی قربانی درست نہیں ۔ قربانی ان جانوروں کی دی جائے جن کی قربانی رسول اللہﷺ کے قول وعمل و تقریر سے ثابت ہے۔ ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم وکتبہ: أبو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ 

https://www.rafiqtahir.com/ur/play-swal-514.html 
 ~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲۱ 

سوال قربانی کے لئے کونسے جانور ذبح کرنے کا حکم ہے؟ اور کیا بھینس کی قربانی درست ہے؟ 

جواب۔!
الحمدللہ!!

• قرآن کریم نے قربانی کےلیے ” بهيمة الانعام” کا انتخاب کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔”

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَكًا لِّيَذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمۡ مِّنۡۢ بَهِيۡمَةِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسۡلِمُوۡا‌ ؕ وَبَشِّرِ الۡمُخۡبِتِيۡنَ
اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی ہے، تاکہ وہ ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں۔ سو تمہارا معبود ایک معبود ہے تو اسی کے فرمانبردار ہوجاؤ اور عاجزی کرنے والوں کو خوش خبری سنادے۔
(سورہ الحج، آیت نمبر، 34)

• اس کے بعد دوسری جگہ سورہ الانعام میں
اللہ پاک نے فرمایا!

ثَمٰنِيَةَ اَزۡوَاجٍ‌ ۚ
مِنَ الضَّاۡنِ اثۡنَيۡنِ وَمِنَ الۡمَعۡزِ اثۡنَيۡنِ‌ ؕ(143)
وَمِنَ الۡاِبِلِ اثۡنَيۡنِ وَمِنَ الۡبَقَرِ اثۡنَيۡنِ‌ ؕ (144)

( بهيمة الانعام کی) آٹھ قسمیں، 
بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو ۔
اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو، 
(سورہ الانعام، آیت نمبر، 142__143_144)

• بہیمۃ الانعام سے مراد اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری ہے ۔اس کی وضاحت قرآن مجید
میں بھی ہے اور امام قرطبی نے بھی یہی ذکر کیا ہے
(تفسیر قرطبی ج۱۲ص۳۰)

• امام شوکانی نے یہی چار جانور مراد لئے ہیں اور لکھا ہے کہ قربانی صرف انھیں چار جانوروں میں سے ہو گی
(فتح القدیر :ج۳ص۴۵۲، ۴۵۱)

• نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں :
الانعام کی قید اس لئے لگائی ہے کہ قربانی الانعام کے سوا اور کسی جانور کی درست نہیں اگرچہ اس کا کھانا درست ہی ہو
(ترجمان القرآن :۷۴۱)

• خود قرآن کریم نے ”بهيمة الانعام ” کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا، کہ الانعام سے مراد ضان، ( بھیڑ) معز، (بکری) ابل، (اونٹ) اور بقر، (گائے)
چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا ہے، کہ انکے نر اور مادہ ملا کر ٹوٹل آٹھ جانور شامل ہیں بهيمة الانعام میں، 

احادیث مبارکہ میں بھی بار بار انہی چار جانوروں کا ذکر ہے! چند ایک احادیث ملاحظہ کریں

• رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں (بھیڑ کا نر، دنبہ) کی قربانی کی، آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، بسم اللہ پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور ( ذبح کرتے وقت ) اپنا پاؤں ان کے پہلوؤں پر رکھا، 
(سنن ترمذی، حدیث نمبر-1494)

• ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ، 
ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ قربانی کا دن آ گیا، چنانچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں اور اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کو شریک کیا، 
(سنن ترمذی، حدیث نمبر-1501)

• عطاء بن یسار کہتے ہیں، 
میں نے ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا، 
(سنن ترمذی، حدیث نمبر-1505)

• کلیب کہتے ہیں، 
ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بنی سلیم کے مجاشع نامی ایک شخص کے ساتھ تھے، بکریوں کی قلت ہو گئی، تو انہوں نے ایک منادی کو حکم دیا، جس نے پکار کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ( قربانی کے لیے ) بھیڑ کا ایک سالہ بچہ دانتی بکری کی جگہ پر کافی ہے، 
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر-3140)

• انہی چار جانوروں کی قربانی وہ نر ہو یا مادہ پوری امت مسلمہ کے نزدیک اجماعی و اتفاقی طور پر مشروع ہے۔اور تمام احادیث کی کتب میں بھی انہیں چار جانوروں کا ذکر ہوا ہے، 

• بھینس کی قربانی نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ عمل صحابہ سے کیونکہ حجاز میں اسکا وجود ہی نہیں تھا، 

• • علماء عرب سمیت اہل لغت کے بہت سارے علماء بھینس کی قربانی کو جائز بھی کہتے ہیں، 
اور انکی دلیل صرف یہ ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے تو اسکی قربانی بھی جائز ہے، 
(مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین : 34/25)

• محترم علماء کا فتویٰ اپنی جگہ، 
پر حقیقت یہ ہے کہ گائے اور بھینس میں زمین آسمان کا فرق ہے، دونوں کی جسامت، شکل و صورت، جلد، دونوں کی خوراک، پانی میں نہانے یا نا نہانے، عادات و حرکات، افزائش نسل، گوشت، کھال اور دودھ تک ہر چیز میں فرق ہے، حالیہ ماہرین نے بھی بھینس کی الگ دو قسمیں ذکر کی ہیں، 
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/بھینس

جبکہ گائے ایک الگ جانور ہے بذات خود اس کی الگ سے بہت ساری نسلیں ہیں، 
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/گائے

اس لیے بھینس کو گائے کی نسل بنانا سمجھ سے باہر ہے

• بھینس کی زکوٰۃ کے نصاب کے بارے
امام ابن المنذر فرماتے ہیں:
’’ واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر‘‘ اور اس بات پر اجماع ہےکہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے۔
(الاجماع کتاب الزکاۃ ص۴۳حوالہ:۹۱)

اس بنا پر کچھ علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بھینس کی زکوٰۃ ہم گائے پر قیاس کر کے اسکے اعتبار سے دیتے ہیں تو بھینس کی قربانی گائے پر قیاس کر کے کیوں نہیں کر سکتے؟؟

• میں دین کا ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے ایک چھوٹی سی گزارش کرتا ہوں، 
کہ قیاس کا اصول یہ ہے جب اصل چیز موجود نہ ہو پھر قیاس سے کام چلایا جاتا ہے، 
مطلب جیسے اللہ پاک نے جانوروں کی زکوٰۃ فرض کی ہے، اب ہم نے بھینس کی زکوٰۃ نکالنی ہے، 
جب ہمیں حدیث میں بھینس کی زکوٰۃ نکالنے کا نصاب نہیں ملتا تو ہم مجبور ہیں کہ بھینس کو گائے پہ قیاس کر کے اسکے مطابق زکوٰۃ نکالیں، 
اور کوئی رستہ نہیں ہمارے پاس، تا کہ زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی وجہ سے ہم گناہ میں ملوث نہ ہو جائیں، 
اسی طرح اگر قربانی کے لئے بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ اصل جانور ہیں، 
اگر یہ جانور نہ ملیں تو پھر ہم مجبور ہیں کہ اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے ہم بھینس کو گائے پر قیاس کر کے اسکی قربانی کریں، اور یقیناً اس وقت یہ جائز بھی ہو گا، 
لیکن جب قربانی کے لئے اصل جانور بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ عام دستیاب ہیں تو پھر ہم آسانی یا چند پیسے بچانے کی خاطر قیاس کیوں کریں؟؟
اگر فرض کریں بھینس کی زکوٰۃ کا نصاب شریعت میں موجود ہوتا تو کیا اس بھینس کو گائے پر قیاس کیا جاتا؟
یقیناً نہیں کیا جاتا، تو یہ بات سمجھ آئی قیاس اس وقت ہوتا ہے جب اصل موجود نا ہو، 
جب اصل موجود ہو تو قیاس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی، 

• حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں، 
کہ نبی کریم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بغیر اونٹ، گائے اور بکر ی کے کسی قسم کے حیوان کی قربانی کرنا منقول نہیں ہے
(تلخیص الحبیر :ج۲ص۲۸۴)

• حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :۔۔۔۔یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے ام المومنین حضرت سودہ کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا لڑکا پید ا ہوا جو اپنی والدہ کے پاس پروش پاتا رہا زانی مر گیا اور اپنے سعد بن وقاص کو وصیت کر گیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ کرلینا فتح مکہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا اور کہا یہ میرا بھتیجہ ہے زمعہ کے بیٹے نے کہا کہ یہ میرے باپ کا بیٹا ہے لہذا میرا بھائی ہے اس کو میں لوں گا مقدمہ دربار نبوی میں پیش ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا الولد للفراش وللعاہر الحجر ۔اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے بچہ سودہ رضی اللہ عنھا کے بھائی حوالے کر دیا جو حضرت سودہ کا بھی بھائی بن گیا لیکن حضرت سودہ کو حکم فرمایا کہ وہ اس سے پردہ کرے کیونکہ اس کی شکل وصورت زانی سے ملتی تھی جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے۔
دیکھئے اس مسئلہ میں شکل و صورت کے لحاظ سے تو پردے کا حکم ہوا اور جس کے گھر میں پیدا ہوا اس کے لحاط سے اس کا بیٹا بنا دیا گویا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا ایسا ہی معاملہ بھینس کا ہے اس میں دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہوگا، زکوۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے اس لئے بھینس کی قربانی جائز نہیں ۔
اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ الجاموس نوع من البقر یعنی یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی زکوۃ کے لحاظ سے ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے
(فتاوی اہل حدیث_ ج۲ ص۴۲۶)

• اس فتوے پر تبصرہ کرتے محقق العصر عبدالقادر حصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کہ آپ (محدث روپڑی صاحب)کے مجتہد اور جامع المغموص ہونے کا بندہ پہلے ہی معترف ہے مگر گزشتہ پرچہ (تنظیم اہل حدیث جلد ۱۶شمارہ ۴۲، ۱۷ اپریل ۱۹۶۴ )میں بھینسا کی قربانی کے فتوی میں آ پ نے حدیث زمعہ سے اجتہاد فرما کر زکوۃ اور قربانی میں احتیاطی صورت کو جس طرح مدلل کیا ہے وہ آ پ کے مجتہد مطلق ہونے پر بین دلیل ہے، اور ہمیں فخر ہے کہ ہماری جماعت میں بفضلہ تعالی مجتھد موجود ہیں ۔۔۔آپ نے جو جواب دیا ہے اس سے حنفیہ کا اعتراض اور استدلال رفع ہو گیا ہے
(فتاوی حصاریہ ج ۵ ص ۴۴۲)

• مفتی مبشر ربانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
ائمہ اسلام کے ہاں جاموس یعنی بھینس کا جنس بقر سے ہونا مختلف فیہ ہے مبنی بر احتیاط اور راجح موقف یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ، گائے، بھیڑ بکری سے کی جائے جب یہ جانور موجود ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب ہی کرنا چاہئے اور دیگر بحث و مباحثے سے بچنا ہی اولی وبہتر ہے۔
(احکام ومسائل ص۵۱۱)

• شیخ الاسلام حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ، 
زکوۃ کے سلسلے میں، اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ تا ہم چونکہ نبی کریمﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے صراحتا بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہذٰا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف گائے، اونٹ، بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے۔واللہ اعلم
( فتاوی علمیہ، جلد/دوم_ص181)

• سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں، 
قربانی اونٹ، بکری، بھیڑ اور گائے کے علاوہ جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ یاد کریں اس پر اللہ کا نام جو اللہ نے انہیں مویشیوں اور چوپایوں میں سے دی ہے، 
(فقہ السنہ ج3/ص264)

• شیخ رفیق طاھر صاحب حفظہ اللہ، 
فرماتے ہیں، 
ان آٹھ جانوروں (۱، ۲بکری نرومادہ، ۳، ۴بھیڑ نرومادہ، ۵، ۶اونٹ نرو مادہ، ۷، ۸گائے نرومادہ) کے علاوہ دیگر حلال جانور (پالتو ہوں یا غیر پالتو) کی قربانی کتاب وسنت سے ثابت نہیں ۔ لہٰذا بھینس یا بھینسے کی قربانی درست نہیں ۔ قربانی ان جانوروں کی دی جائے جن کی قربانی رسول اللہﷺ کے قول وعمل و تقریر سے ثابت ہو، 

http://www.rafeeqtahir.com/ur/play.php?catsmktba=514#.V8pWOw_1Zb8.facebook

• ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا فتوی:
ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنھما کے گھر بچہ پیدا ہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو کسی نے کہا کہ عقیقہ کے لئے اونٹ ذبح کیا جائے تو آپ نے فرمایا معاذ اللہ ہم تو وہی کریں گے جو ہمیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ، ہم عمر دو بکریاں ذبح کی جائیں
(سنن الکبری للبیھقی :ج۹ ص۳۰۱)
اس واقعے سے دو باتیں ثابت ہوئیں، 
کہ امی عائشہ رضی اللہ عنھا نے اونٹ کو عقیقہ میں ذبح کرنا درست نہیں سمجھا حالانکہ اونٹ قربانی میں ذبح کیا جاتا ہے ۔
اور یہی سنت کی اتباع ہے، افسوس ہے ان لوگوں پر جو اپنے آپ کو سنت کا متبع بھی قرار دیتے ہیں پھر عقیقہ میں بھینس کو بھی ذبح کرتے ہیں اسی طرح بھینس کی قربانی میں جواز کا فتوی دینے والے عقیقہ میں بھی بھینس کو ذبح کرتے ہیں۔
امی عائشہ رضی اللہ عنھا کے فتوی کی روشنی میں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب عقیقہ میں اونٹ ذبح نہیں کیا جا سکتا تو عقیقہ میں بھینس بالاولی ذبح نہیں کی جا سکتی جب بھینس عقیقہ میں ذبح نہیں ہو سکتی تو اس کو قربانی میں ذبح کرنا تو بہت دور کی بات ہے
یہی اتباع سنت ہے..!
نبی کریم ﷺ کے دور میں اونٹ عام تھے جب ان کی موجودگی میں بھی آپ نے عقیقہ میں ذبح نہیں کیے، تو ان لوگوں کا اعتراض کہ آ پ کے زمانے میں بھینس نہیں تھی اس لئے آ پ نے قربانی نہیں کی تو یہ اعتراض بے جا ہے، 
بات یہ نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ مسنون قربانی وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی بس اسی میں نجات ہے، 

خلاصہ یہ ہے کہ

1 :قربانی کرنا عبادت ہے، اس کے لئے وہی جانور کرنا ہو گا جس کا قرآن وحدیث سے ثبوت ملے گا ۔ہر عبادت کا طریقہ الگ الگ ہے ۔
اور وہ جانور ہیں اونٹ، گائے، ، بھیڑ اور بکری۔

2 :رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام، تابعین، تبعہ تابعین، ائمہ دین اور متقدمین و متاخرین محدثین کرام میں سے کسی سے بھی بھینس کی قربانی کرنا ثابت نہیں ہے ۔حالانکہ تابعین وغیرہ نے جاموس(بھینس) کو الگ نام دیا ہے ۔

3 :ہر حلال جانور قربانی پر نہیں لگتا ہرن، گھوڑا وغیرہ حلال ہیں لیکن قربانی پر جائز نہیں ہیں ۔کیونکہ ثابت نہیں ہیں ۔

4 :تمام محدثین نے بھینس کا ذکر کیا ہے زکوۃ کے بیان میں لیکن کسی نے بھی محدث نے قربانی بیان میں بھینس کا ذکر تک نہیں کیا، کیونکہ زکوۃ ایک الگ عبادت ہے اور قربانی ایک الگ عبادت ہے ایک دوسری پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

5 :بھینس گائے کی جنس سے نہیں ہے اگر اسی جنس سے ہوتی تو بیل بھینس کو جفتی کرتا ۔اس طرح نہیں ہے کیونکہ ا ن دونوں کی جنس ایک نہیں ہے ۔

6 :زکوۃ کے بیان میں بعض اہل علم نے بھینس کو نوع من البقر کہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوۃ دینے میں بھینس کو گائے کی طرح ایک قسم قرار دیا جائے گایعنی بھینس کو زکوۃ میں گائے کے ساتھ ملایا جائے گا، 
“ملایا جائے گا ” اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ بھینس گائے کی جنس سے نہیں ہے، اگر جنس سے ہوتی تو بھینس کو نو ع کہنے کی ضرورت نہ پڑتی ۔

7 :تابعین وغیرہ نے بھینس کی زکوۃ کے بارے میں فتوے دیے لیکن کسی نے قربانی کے متعلق اس کا ذکر تک نہ کیا ۔اگر کوئی کہے کہ وہ بھینس کو گائے ہی سمجھتے تھے اس لئے ذکر نہیں کیا تو عرض ہے کہ انھیں زکوۃ کے بیان میں بھینس کا الگ ذکر کیوں کیا ۔بس وہ زکوۃ میں بھی گائے کا ہی ذکر کرتے ۔زکوۃ کے باب میں گائے اور بھینس کو الگ الگ ذکر کرنا اورقربانی کے بیان میں صرف گائے کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ محدثین بھینس کی قربانی نہیں کیا کرتے تھے اور نہ گائے کی جنس سے سمجھتے تھے، 

8:شک والی چیز کو چھوڑنا واجب ہوتا ہے اسی میں ایمان کی سلامتی ہوتی ہے ۔مجتھدین کی بھینس کی قربانی کے متعلق دو رائے ہی ہیں
چند متاخرین کہتے ہیں کہ جائز ہے حالانکہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام، تابعین، تبعہ تابعین، ائمہ دین اور متقدمین کرام میں سے کسی سے کرنا ثابت نہیں ہے ۔

9 : دین قرآن و حدیث کا نام ہے
افسوس کہ بھینس کی قربانی کے لئے دلیل قرآن و حدیث کو چھوڑ کر کسی اور سے دی جاتی ہے، 

• ایک محترم نے لمبی چوڑی بحث لکھی جس میں اہل لغت کے تمام دلائل اسی بات کے گرد گھومتے ہیں کہ بھینس گائے کی قسم سے ہے، اس لیے اسکی قربانی بھی جائز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!! آخر تک)

اس ساری بحث میں بھینس کی قربانی پر کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے ۔
صرف لفظ بقر کو جاموس یعنی بھینس پر صادق کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اور اسکے لیے بھی اہل عرب کے اقوال پیش کیے گئے ہیں ۔
جبکہ اہل عرب کا قول اس میدان میں حجت نہیں ہے ۔ کیونکہ عرب میں گائے ہی پائی جاتی تھی بھینس موجود نہ تھی ۔ بھینس بعد میں وہاں پہنچی تو انہوں نے اسے گائے کی ہی جنس سمجھ لیا ۔ جبکہ برصغیر پاک وہند میں گائے اور بھینس دونوں جانور مدتوں سے موجود ہیں اور یہ لوگ عرب کی نسبت ان دونوں جانوروں کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔ اور موجودہ ماہرین بھی دونوں کو الگ الگ جانور قرار دیتے ہیں نہ کہ ایک ہی جانور کی دو نسلیں ۔
دونوں جانوروں میں بہت سے بنیادی فرق ہیں ۔
اہل عرب کو بھینس کا تعارف کرایا گیا اور بآسانی انہیں سمجھانے کے لیے لفظ ” گائے کی قسم ” استعمال کیا گیا ۔جیسا کہ لومڑی کتا اور گیدڑ تینوں الگ الگ جانور ہیں ۔ لیکن ظاہری طور پر کافی حدتک ملتے جلتے ہیں , اور عام آدمی گیدڑ اور کتے کے درمیان فرق نہیں کر پاتا ۔اور جس شخص کو گیدڑ کے بارہ میں معلوم نہ ہو کہ وہ کیا ہوتا ہے اسے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ بھی ایک قسم کا کتا ہی ہے ۔ بس یہ فرق ہے ۔
یہی حال گائے اور بھینس کا ہے ۔
خوب سمجھ لیں، 

لہذا تمام دوست بلا وجہ بحث مباحثے کی بجائے مسنون جانوروں کی ہی قربانی کریں جو سنت سے ثابت ہیں، اور اسی میں خیر اور بھلائی ہے، 

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب) 

الفرقان اسلامک میسج سروس
+923036501765

https://alfurqan.info/problems/258 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

ختم شد 

.