پیر، 3 جولائی، 2023

فتاوی قربانی کا گوشت مختلف علماء

 . 

 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
❀؛⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰؛❀ 

 
فتاوی برائے قربانی گوشت 
 
قربانی کے گوشت کے احکام و مسائل 
 
مختلف علماء 
 
مجموعہ مضامین و فتاوی 
 
جمع و ترتیب 
سید محمد عزیر ادونوی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~~~؛ 
 ؛~~~~~~~~~~~~؛ 
 
۱ . ؛ 
کیا قربانی کا گوشت کھانا بھی عبادت ہے؟ 
 
علامہ ابن عثیمین اپنے ایک فتوی میں فرماتے ہیں 
قربانی کا گوشت کھانا ایک عبادت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے . 
ابن عثیمین 
مجموع الفتاویٰ ( 25 / 69 ) 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۲. ؛ 
کیا قربانی کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے؟ 
 
قربانی سے اللہ تعالیٰ کو کیا مطلوب ہے؟ 
 
اگر دیکھا جائے تو قربانی کے جانور کا گوشت پوست ہمارے کام آتا ہے بلکہ اس کے کھالوں اور بالوں وغیرہ سے ہم ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کو قربانی سے کیا مطلوب ہے؟ وہ اس سے کیا چاہتا ہے؟ تو جواب میں یہ آیت ِمبارکہ سامنے آ جاتی ہے کہ 
 
لَن يَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ ... ﴿٣٧﴾ ... سورہ الحج 
 
'' اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت و خون نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تو تقویٰ پہنچتا ہے ۔ '' 
 
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو تو صرف اور صرف اخلاص و تقویٰ مطلوب ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ قربانی جیسے عظیم عمل میں ہر قسم کے دکھاوے سے بچنا چاہئے اور صرف رضائے الٰہی کے لئے قربانی ہونی چاہئے کیونکہ وہ تو سینوں کے بھیدوں کو بھی جاننے والا ہے ۔ 
شیخ فیض اللہ بھٹی 
محدث، جنوری 2007 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۳. ؛ 
سوال 
قربانی كا گوشت كيا كرنا چاہئیے ؟ 
 
 جواب 
قربانی کرنے والے کے لیے قربانی کا گوشت کھانا اور اسے ھدیہ دینا اور صدقہ کرنا مشروع ہے اس کی دلیل مندرجہ ذیل آیت ہے . اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے 
 
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ 
الحج – 36 
 
لہذا تم اس میں سے خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ ۔ 
 
اور ایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا 
تم اس میں سے خود بھی کھاؤ اور مسکین سوال کرنے اور سوال نہ کرنے والے کو بھی کھلاؤ، اسی طرح ہم نے چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر دیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو ۔ 
 
القانع وہ محتاج ہے جو سوال کرے، اور المعتر وہ ہے جسے بغیر سوال کے عطیہ دیا جائے ۔ 
 
سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا 
 ( کھاؤ اورکھلاؤ اور ذخیرہ بھی کرو ) 
صحیح بخاری ۔ 
 
اطعام یعنی کھلانے میں غنی لوگوں کو ھدیہ دینا اور فقراء مساکین پر صدقہ کرنا شامل ہے ۔ 
 
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا 
 ( کھاؤ اور ذخیرہ کرو اور صدقہ بھی کرو ) صحیح مسلم ۔ 
شیخ اکرم الہی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۴. ؛ 
کیا عید الاضحی کے دن اپنی قربانی کے گوشت سے ہی کھانے کی شروعات کرنا چاہئے . ؟ 
 
 
سوال 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 
 
کیا سنت نبویﷺ سے ثابت ہے کہ عید الاضحی کے دن اپنی قربانی کے گوشت سے ہی کھانا کھانا چاہیے؟ 
 
 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

و علیکم السلام و رحمة الله و برکاته ! 
 
الحمد لله، و الصلاة و السلام علىٰ رسول الله 

 أما بعد! 
 
عقبہ بن عبد اللہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ واپس آ کر اپنی قربانی کا گوشت کھاتے . 
ابن قطان نے اس اضافے کو صحیح قرار دیا ہے ۔ 
 ( نصب الرایہ ۲۰۹ / ۲، دارمی، ابن عدی ) 
 
’ زاد احمد والدارقطنی والبیهقی، فیاکل من اضحیته ‘ 
 
" امام احمد، دارقطنی اور بیہقی میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ 
 " آپ اپنی قربانی کا گوشت کھاتے ۔ ‘‘ 
جب کہ " آپ ( عید گاہ سے ) واپس آکر اپنی قربانی کی کلیجی کھاتے‘‘ 
 
اور "بیہقی‘‘ میں ہے 
’ وَ کَانَ اِذَا رَجَعَ اَکَلَ مِنْ کبِدًا اُضْحِیَتِهٖ ‘ ( السنن الکبریٰ للبیهقی، بَابٌیَتْرُكُ الْأَکْلَ یَوْمَ النَّحْرِ حَتَّی یَرْجِعَ، رقم ۶۱۶۱ ) 
 
 لیکن یہ صرف مستحب ہے واجب نہیں، حدیث البراء میں ہے 
’ اِنَّ الْیَوْمَ یَوْمُ اَکْلٍ وَّ شَرْبٍ‘ 
 ( صحیح البخاری، بَابُ الأَکْلِ یَوْمَ النَّحْرِ، رقم ۹۵۵ ) 
 
اس روایت میں آپﷺ نے یہ تو وضاحت فرمائی ہے کہ وقت سے پہلے قربانی نا کافی ہے لیکن اس کے کھانے سے روکا نہیں یہ جواز کی دلیل ہے ۔ 
 
 ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی 
جلد 3، کتاب الصوم، صفحہ 370 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۵. ؛ 
کیا ہر شخص کو اپنی قربانی کا گوشت کھانا اور تقسیم بھی کرنا واجب ہے؟ 
 
 
سوال 
 ہمارے ہاں ایک خیراتی ادارہ ہے جو کہ گائے یا بیل کی اجتماعی قربانی کا اہتمام کرتے ہیں اور ایک جانور میں سات حصے رکھے جاتے ہیں، یہ ادارہ خود ذبح کرنے کا اہتمام کرتا ہے اور پھر دور دراز علاقوں میں اسے تقسیم بھی کرتا ہے، گوشت تقسیم ہونے کے بعد ہر حصے دار اپنی قربانی کا حصہ لیکر چلا جاتا ہے، واضح رہے کہ ایک حصے کی قیمت 950 مصری روپیہ ہوتی ہے، اب اگر ہم یہ فرض کریں کہ 7 قربانی کے جانور جمع ہو گئے تو ہمارے پاس 49 حصے دار ہوں گے اب یہ بہت ہی مشکل ہوگا کہ ان سب قربانیوں کو بیک وقت ذبح کر کے تھوڑے سے وقت میں ہر شخص کو اس کا حصہ دے دیا جائے، اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ تین قربانیوں میں سے تمام حصے نکال کر لوگوں میں تقسیم کر دیے جائیں اور باقی قربانیاں فقراء میں تقسیم کرنے کیلیے چھوڑ دی جائیں؟ یا پھر ہر شخص کو اسی کی قربانی میں سے حصہ دینا لازمی ہے؟ 
 
 
 جواب کا متن 
 
الحمد للہ . 
 
اول 
گائے یا اونٹ کی قربانی میں ایک سے زائد حصے دار شریک ہو سکتے ہیں ۔ 
 
چنانچہ گائے یا اونٹ میں سات حصہ دار شریک ہونے کی شرعی گنجائش  موجود ہے ۔ 
 
صحابہ کرام سے ہدی [ حج یا عمرے کی قربانی ] میں شریک ہونا ثابت ہے، اونٹ یا گائے کی قربانی میں سات حصے دار شریک ہوتے تھے ۔ 
 
مسلم ( 1318 ) میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ " ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حدیبیہ والے سال اونٹ اور گائے سات سات افراد کی طرف سے ذبح کیے " 
 
اور ایک روایت میں ہے کہ 
 " ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  اونٹ اور گائے میں سات سات حصے داروں کو شریک کرنے کا حکم دیا " 
 
مزید کیلیے آپ سوال نمبر ( 45757 ) کا جواب ملاحظہ کریں ۔ 
 
دوم 
جمہور فقہائے کرام کے مطابق قربانی کا گوشت کھانا مسنون ہے واجب نہیں ہے ۔ 
 
زاد المستقنع میں ہے کہ 
 " ایک تہائی خود کھائے اور ایک تہائی تحفہ میں دے اور ایک تہائی صدقہ کرے تو یہ سنت ہے " 
 
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس کی شرح میں کہتے ہیں 
 " یہ سنت ہے کا مطلب یہ ہے کہیہ بھی شرعی عمل ہے، تاہم واجب نہیں ہے، لیکن مستحب ہے، چنانچہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک تہائی کھانے کیلیے دوسری تہائی تحفے میں دینے کیلیے اور تیسری تہائی صدقہ کر دے ۔ 
 
تحفہ دینے اور صدقہ کرنے میں فرق یہ ہے کہاگر کسی کو دیتے ہوئے محبت اور الفت مقصود ہو تو وہ تحفہ ہوتا ہے جیسے کہ حدیث میں ہے کہ 
 " تحائف دو محبت پیدا ہو گی " 
اور جسے دیتے ہوئے اللہ تعالی سے ثواب کی امید ہو تو وہ صدقہ ہے، چنانچہ غریبوں کیلیے وہ صدقہ ہو گا اور مالدار حضرات کیلیے تحفہ ۔ 
 
مؤلف کا یہ کہنا کہ تین حصوں میں تقسیم کرے کا مطلب یہ ہے کہ ایک تہائی کھانے کیلیے، ایک تہائی تحفے میں دینے کیلیے اور ایک تہائی صدقہ کرنے کیلیے، تاکہ تمام طبقات کے لوگوں تک قربانی کا گوشت پہنچ جائے، 
 
لیکن خود کھانے کو قدرے ترجیح دے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں خود کھانے کو پہلے بیان فرمایا ہے 
 ( فَكُلُوْا مِنْهَا وَأَطْعَمُوْا البَائِسَ الْفَقِيْر ) 
ترجمہخود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقراء کو بھی کھلاؤ ۔ . الحج / 28 ] 
 
مصنف کا یہ کہنا کہ 
قربانی کا گوشت کھانا مسنون ہے ۔ 
اس کا ظاہری مفہوم یہی بنتا ہے کہ اگر کوئی شخص مکمل گوشت صدقہ کر دے تو اس پر کچھ نہیں ہے، کیونکہ قربانی کا گوشت کھانا سنت ہے جیسے کہ یہی موقف جمہور علمائے کرام کا ہے ۔ 
 
تاہم کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ قربانی کا گوشت کھانا واجب ہے، لہذا جو شخص اپنی قربانی کا گوشت نہ کھائے تو اسے گناہ ہو گا، کیونکہ اللہ تعالی نے قربانی کا گوشت کھانے کا حکم دیا ہے اور صدقہ کرنے سے پہلے خود کھانے کا حکم دیاہے، نیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر حکم دیا تھا کہ 
 " ہر اونٹ کے گوشت میں سے ایک بوٹی لی جائے اور ایک ہانڈی میں ڈال کر پکایا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں سے گوشت کھایا اور اس کا شوربہ نوش فرمایا " 
 
اس حدیث کی بنا پر ان کا کہنا ہے کہ 100 اونٹوں کے گوشت میں سے ایک ایک بوٹی لیکر تکلف کرنا اور پھر اسے پکانا پھر اسے کھانا اس بات کی دلیل ہے کہ سورہ حج کی مذکورہ آیت کریمہ میں گوشت کھانے کا حکم وجوب کیلیے ہے، نیز اپنی قربانی کا گوشت کھانا اللہ تعالی کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے زمرے میں آتا ہے اور اسی استفادے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے 
 ( ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر الہی کے دن ہیں ) 
 
بہر حال انسان کو اپنی قربانی کا گوشت کھانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے " انتہی 
 " الشرح الممتع " ( 7 / 481 ) 
 
اگر معاملہ ایسا ہی ہے کہ عید کے دن 7 گائے بیک وقت ذبح کرنا مشکل ہے اور سب کے سب افراد کی چاہت ہے کہ وہ قربانی کا گوشت لے جائیں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ جہاں تک ممکن ہو گائیں ذبح کر لیں اور سب لوگ ان کا گوشت اپنے اپنے گھروں میں لے جائیں، اور جس کی قربانی پہلے دن ذبح نہ ہو تو وہ بھی جب دوسرے دن اس کی قربانی ذبح کی جائے تو اس میں سے چاہے معمولی سا گوشت لے جائے، لیکن دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے 
 
اول 
پہلے دن یا بعد میں قربانی کے کسی بھی دن میں ذبح کی جانے والی ہر گائے کے گوشت میں سے صدقہ کیلیے گوشت مختص کرنا واجب ہے، سارے کا سارا گوشت حصہ داروں میں تقسیم نہ کیا جائے ۔ 
 
دوم 
ذبح کرتے وقت جن لوگوں کی قربانیاں ہیں ان کی تعیین کی جائے، چنانچہ ذبح کرنے والا ان تمام لوگوں کی طرف سے نام ذہن میں لا کر نیت کرے، چنانچہ سارے جانور تمام حصہ داروں کی طرف سے نیت کر کے ذبح کرنا درست نہیں ہو گا، لہذا کوئی بھی گائے ذبح کرتے ہوئے حصہ داروں کا تعین لازمی ہے ۔ 
 
واللہ اعلم . 
محمد صالح المنجد 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۶. ؛ 
قربانی کا گوشت کتنا کھانا اور دوسروں کو کھلانا چاہئے؟ 

 
قربانی کے گوشت میں سے از روئے قرآن و حدیث خود کھائے اور فقیروں، محتاجوں کو کھلائے، کوئی پابندی نہیں کہ کس قدر خود کھائے اور کتنا فقیروں کو دے ۔ 
 
فرمانِ الٰہی ہے 
﴿فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ﴾ ۔ ۔ ۔ الآية ( سورۃ الحج36 ) ۔ ۔ ۔ 
 
اسے ( خود بھی ) کھاؤ اور مسکین سوال نہ کرنے والوں اور سوال کرنے والوں کی بھی کھلاؤ ۔ 
 
اور حنفی مذہب میں مستحب ہے کہ ایک تہائی فقیروں، محتاجوں کو دے، جیسا کہ ہدایۃ میں ہے 
 
 ( ياكل من لحم الاضحية و يطعم الاغنياء و يستحب ان لا ينقص الصدقة عن الثلث ( انتهى ملخصا )) ( ھدایه 4 / 433 ) 
 
 " قربانی کا گوشت ( خود ) کھائے، اغنیاء و فقراء کو کھلائے، ذخیرہ کر لے اور بہتر ہو گا کہ ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے ۔ " 
 
فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن خان 
صفحہ 99 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۷. ؛ 
قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے ہیں؟ 
 
 
سوال 
کیا قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہئے؟ 
 
 
جواب 
قربانی کا گوشت خود بھی کھانا چاہئے اور دوسروں کو بھی ( بالخصوص غرباء و مساکین کو ) کھلانا چاہئے لیکن اس کی حد کہ کتنا خود کھایا جائے اور کتنا تقسیم کر دیا جائے کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں 
 
البتہ اہل علم کا کہنا ہے کہ گوشت کے تین حصے کر لیے جائیں ۔ ایک اپنے لیے، دوسرا احباب و متعلقین کے لیے اور تیسرا فقراء و مساکین کے لیے . 
 ( تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورۃ الحج، آیت ﴿فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ﴾ 
الحج 22 / 36 ) 
 
 ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ افکارِ اسلامی 
قربانی کے احکام و مسائل، صفحہ 504 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۸. ؛ 
قربانی گوشت کے تین حصوں کی حکمت؟ 
 
سوال 
قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کیا حکمت ہے؟ 
 
 
جواب 
 ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں 
تاکہ تین جائز شرعی امور قربانی میں جمع ہو سکیں 
 
نمبر1 
قربانی کا گوشت کھا کر اللہ کی نعمت سے استفادہ ۔ 
 
نمبر2 
اس میں سے کچھ صدقہ کر کے اللہ سے ثواب کی امید ۔ 
 
نمبر3 
اس میں سے کچھ ہدیہ کر کے اللہ کے بندوں سے محبت کا اظہار ۔ 
مجموع الفتاویٰ ( 25-14 ) 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۹. ؛ 
سوال 
كيا قربانی كا گوشت تين حصوں ميں تقسيم كرنا ضروری ہے؟ 

 
جواب 
 قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ مستحسن ضرور ہے . 
 
قربانی کی اصل کھانا اور کھلاناہے، قربانی کا گوشت خود بھی کھائیں، ذخیرہ و جمع کریں، عزیز واقارب، دوست و احباب کو ہدیہ بھی دیں اور غربا، مساکین و مستحقین میں صدقہ بھی کریں ۔ 
 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا 
فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ‌ 
الحج – 36 
 
پس ان ( کے گوشت ) سے کھاؤ اور نہ مانگنے اور مانگنے والے ( دونوں ) کو کھلاؤ‘‘ ۔ 
شیخ اکرم الہی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۱۰. ؛ 
کیا قربانی کے گوشت کے " برابر تین " حصے تقسیم کرنا ہے؟ 
 
 
قربانی کے گوشت سے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے 
 { فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ } ( الحج 28 ) 
 ( اس میں سے کھاؤ اور بھوکے فقیر کو بھی کھلاؤ ) 
 
دوسری جگہ ارشاد فرمایا 
 { فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ } ( الحج 36 ) 
 ( اسےخود بھی کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ) 
 
 رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا " 
 " كلوا و ادخروپا و تصدقوا " 
 ( مسلم الأضاحي / 5 ( رقم 33 / 1973 )) 
 
 " کھاؤ، ذخیرہ کرو اورصدقہ کرو " 
 
اور ایک روایت میں ہے 
 " كلوا وأطعموا و ادخروا " 
 ( بخاري الأضاحي / 16 ( 5569 )) 
 " کھاؤ، کھلاؤ اور ذخیرہ کرو " 
 
علمائے کرام نے ان نصوص کی بنیاد پر قربانی کے گوست کے تین حصّے کرنے کے استحباب پر استدلال کیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان نصوص میں یہ تعیین نہیں ہے کہ تین ہی حصوں میں برابر برابر تقسیم کرنا ضروری ہے بلکہ اس معاملے میں وسعت ہے، خود کھانا ہے، دوست و احباب کو کھلانا ہے، فقراء و مساکین کو کھلانا ہے اور بچ جائے تو اسے ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہے اس لئے اس اطلاق کو اپنی جگہ پر برقرار رکھنا چاہئے کسی تقسیم کا پابند نہیں بنانا چاہئے ۔ 
 
بحوالہ 
قربانی کے احکام و مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں 
شیخ عبدالعیم بن عبد الحفیظ سلفی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۱۱. ؛ 
قربانی کے گوشت کے دو حصے .. ؟ 
 
 
قرآن مجید یا احادیث صحیحہ میں قربانی کے گوشت کے دو حصے مقرر کرنے کا حکم موجود نہیں ہے بلکہ مطلق طور پر قربانی گوشت کھانے اور کھلانے کا حکم ہے 
 
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ 
﴿وَالبُدنَ جَعَلنـٰها لَكُم مِن شَعـٰئِرِ اللَّهِ لَكُم فيها خَيرٌ فَاذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلَيها صَوافَّ فَإِذا وَجَبَت جُنوبُها فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ ... ﴿٣٦﴾ ... سورةالحج 
 
 " اور قربانی کے اونٹ ہم نے تمھارے لیے اللہ تعالیٰ کے نشانات مقرر کر دئیے ہیں ۔ تمھارے لیے ان میں نفع ہے پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو اور جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور ان کو بھی کھلاؤ جو قناعت کئے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں ۔ " 
 
ایک اور مقام پر فرمایا 
﴿وَيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا البائِسَ الفَقيرَ ﴿٢٨﴾ ... سورةالحج 
 
 " اور چند مقرر کردہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں عطا کیے ہیں پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست و محتاج کو بھی دو ۔ " 
 
سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا 
 " حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، قَالَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ«مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلاَ يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ» فَلَمَّا كَانَ العَامُ المُقْبِلُ، قَالُوايَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ المَاضِي؟ قَالَ«كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا، فَإِنَّ ذَلِكَ العَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا " . 
 ( بخاری کتاب الاضاحی باب ما یؤکل من لحوم الاضاحی و ما یتزود منہا ( 5569 ) 
 
 " جو تم میں سے قربانی کرے تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں اس میں سے کوئی چیز باقی نہ ہو اگلے سال صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا اے اللہ کے رسول جس طرح ہم نے گزشتہ برس قربانی کے بارے میں کیا تھا کیا اس سال بھی اسی طرح کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا 
کھاؤ اور کھلاؤ اور ذخیرہ کروہ بلا شبہ اس سال لوگ مشقت میں تھے میں نے چاہا کہ تم ان کی اعانت کرو ۔ 
 
مندرجہ بالا آیات اور حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں اور اس کا ذخیرہ بھی کر سکتے ہو ۔ اس کی تقسیم کی کوئی حد بندی نہیں ہے کہ اس کے اتنے حصےکرو اور اتنا خود رکھو ۔ اتنا مساکین کو دو اور اتنا قریبی رشتہ داروں کو دو ۔ 
 
حافظ عبدالستار حماد حفظہ اللہ نے بھی یہ تحریر کیا ہے کہ 
 " قربانی کا گوشت خود کتنا کھائے اور کتنا تقسیم کرے؟ اس کی حد بندی کے متعلق کوئی نص صریح نہیں ہے ۔ البتہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ گوشت کے تین حصے کر لئے جائیں ۔ ایک اپنے لیے دوسرا احباب و متعلقین کے لیے اور تیسرا فقراء و محتاجین کے لیے انھوں نے اس تقسیم کو استنباط کیا ہے جو قربانی کے گوشت کے متعلق ہے ۔ 
 
 " فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ " 
 ( احکام صیام و مسائل عیدین و آداب قربانی، ص 126 ) 
 
 " قربانی کے گوشت خود بھی کھاؤ اور خود دار محتاج اور سوال ی کو بھی کھلاؤ ۔ " 
 
حالانکہ اس آیت کریمہ میں مطلق طور پر خود کھانے اور فقراء و مساکین کو کھلانے کا امر ہے ۔ گوشت کی حد بندی نہیں ہے کہ اتنا خود کھائے اور اتنا فقراء کو دے بہر کیف قربانی کا گوشت کھانا باعث برکت ہے البتہ اس کی حد بندی پر کوئی نص صریح موجود نہیں ۔ 
 
ھذا ما عندی و الله اعلم بالصواب 
 
آپ کے مسائل اور ان کا حل 
جلد 2، كتاب الاضحیۃ، صفحہ نمبر 329 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۱۲. ؛ 
گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا ثابت نہیں؟ 
 
 
قربانی کے گوشت کے سلسلہ میں حدیث کے اندر یہ ہدایت ہے کہ آدمی خود کھائے، بچا کر رکھ لے اور صدقہ کرے 
 
جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا 
 
«كلوا و ادخروا وتصدقوا» [ صحيح مسلم ] 
 
یعنی قربانی کا گوشت خود کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو ۔ 
 
سورۃ الحج کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے قربانی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا 
«فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ» [ 22-الحج 28 ] 
 
”پھر تم خود بھی اس کا گوشت کھاؤ اور بھوکے فقیر کو بھی کھلاؤ“ ۔ 
 
پھر سورۃ الحج میں آگے ارشاد ہوا 
«فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ» [ 22-الحج 36 ] 
 
”اسے خود بھی کھاؤ، اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ “ 
 
مفسر قرآن مولانا حافظ صلاح الدین یوسف فرماتے ہیں کہ بعض نے ”قانع“ کے معنی سائل اور ”معتر“ کے معنی زائر یعنی ملاقاتی کے کئے ہیں، 
 
بہر حال اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں، ایک اپنے لئے، دوسرا ملاقاتیوں اور رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا سائلین اور معاشرہ کے ضرورت مند افراد کے لئے، جس کی تائید میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا 
 
 " میں نے تمہیں پہلے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کر کے رکھنے سے منع کیا تھا لیکن اب تمہیں اجازت ہے کہ کھاؤ اور جو مناسب سمجھو ذخیرہ کرو ۔ “ 
 
دوسری روایت کے الفاظ ہیں 
 " پس کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو ۔ “ 
 
ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں 
 " پس کھاؤ، کھلاؤ اور صدقہ کرو . “ 
 [ صحيح بخاري و صحيح مسلم و سنن ] 
 
پھر اس سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے موصوف نے آگے تحریر فرمایا کہ 
”درحقیقت کسی بھی آیت یا حدیث سے اس طرح کے دو یا تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم نہیں نکلتا، بلکہ ان میں کھانے کھلانے کا حکم ہے، اس لئے اس اطلاق کو اپنی جگہ برقرار رہنا چاہئے اور کسی تقسیم کا پابند نہیں بنانا چاہئے . 
شیخ عبد المنان عبد الحنان سلفی رحمہ اللہ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۱۳. ؛ 
قربانی کا پورا گوشت تقسیم کر دینا غلط ہے؟ 
 
 
سوال 
قربانی کا گوشت کتنے دنوں تک استعمال کیا جا سکتا ہے، نیز کتاب و سنت کے مطابق اس کا صحیح مصرف کیا ہے، تفصیل سے آگاہ کریں؟ 
 
 
 جواب 
قربانی کا گوشت شروع میں ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر تین دن تک استعمال کرنے کی اجازت تھی، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پابندی کو ختم کر دیا ۔ 
 
چنانچہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا 
" تم میں سے جو کوئی قربانی کرے، تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں اس سے کوئی چیز باقی نہ ہو، آئندہ سال صحابہ کرام نے عرض کیا 
یا رسول اللہ! کیا اس سال بھی ہم اسی طرح کریں جس طرح ہم نے گزشتہ سال کیا تھا تو آپ نے فرمایا 
 " کھاؤ اور کھلاؤ نیز ذخیرہ کرو ۔ گزشتہ سال لوگ مشقت میں تھے تو میں نے ارادہ کیا کہ تم ان کی مدد کرو ۔ ‘‘ [ 1 ] 
 
ایک دوسری حدیث میں اس ہنگامی ضرورت کی وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں کچھ دیہاتی لوگ مدینہ میں آباد ہو گئے تھے، ان کے تعاون کے لئے یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ قربانی کا گوشت انہیں دیا جائے ۔ [ 2 ] 
 
جب یہ ہنگامی ضرورت ختم ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین دن تک قربانی کا گوشت استعمال کرنے کی پابندی بھی ختم کر دی ۔ اب انسان قربانی کا گوشت اپنی صوابدید کے مطابق جتنے دنوں تک چاہے استعمال کر سکتا ہے ۔ 
 
اس کے مصرف کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے" قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ، اس کے علاوہ سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ ‘‘ [ 3 ] 
 
اس آیت سے کچھ اہل علم نے استدلال کیا ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جائے، ایک اپنے لئے، دوسرا ملاقاتیوں اور رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا سائلین کے لئے ۔ جبکہ بعض علماء اس آیت سے پہلے والی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گوشت کے دو حصے کئے جائیں، نصف اپنے لئے اور نصف صدقہ کے لئے ۔ [ 4 ] 
 
لیکن در حقیقت ان آیات سے اس طرح قربانی کے گوشت کو دو یا تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم نہیں نکلتا بلکہ ان میں مطلقاً کھانے کا حکم ہے، اس لئے اس اطلاق کو اپنی جگہ پر برقرار رہنا چاہیے اور کسی تقسیم کا پابند نہیں بنانا چاہیے بلکہ قربانی کا گوشت سارا بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا ۔ [ 5 ] 
 
اور جتنا چاہے خود بھی کھا سکتا ہے اور اسے ذخیرہ بھی کر سکتا ہے ۔ ( واللہ اعلم ) 
 
 [ 1 ] صحیح البخاري، الاضاحی ۵۵۶۹ ۔ 
 
 [ 2 ] صحیح مسلم، الاضاحی ۱۹۷۱ ۔ 
 
 [ 3 ] الحج۳۶ ۔ 
 
 [ 4 ] الحج۲۸ ۔ 
 
 [ 5 ] صحیح البخاري، الحج۱۷۱۷ ۔ 
 
ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ اصحاب الحدیث 
جلد4 ۔ صفحہ نمبر 365 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۱۴. ؛ 
قربانی کا مکمل گوشت خود کھا لینا یا سارا صدقہ کر دینے کا حکم؟ 
 
 
سوال 
اگر کوئی شخص دو عقیقے کرے یا دو قربانیاں کرے تو کیا ایک جانور مکمل خود کھا سکتا ہے، اور دوسرے سالم جانور کو صدقہ کر دے؟ پہلے میں سے تھوڑا سا بھی گوشت صدقہ نہیں کیا اور دوسرے میں سے تھوڑا سا بھی گوشت خود نہیں کھایا، تو کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ یا پھر دونوں میں سے صدقہ کرنا لازمی ہے؟ 
 
 
جواب کا متن 
 
الحمد للہ . 
 
اول 
شرعی نصوص کی روشنی میں حج یا عید کی قربانی میں سے صدقہ کرنا واجب ہے، چاہے تھوڑی سی مقدار میں ہی کیوں نہ ہو، 
 
فرمانِ باری تعالی ہے 
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ 
 
تم قربانی کے گوشت میں سے خود کھاؤ، سفید پوش اور مانگنے والوں کو بھی کھلاؤ، ہم نے اس جانور کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے، تا کہ تم شکر گزار بنو ۔ [ الحج 36 ] 
 
آیت میں مذکور " اَلْقَانِعَ " سے مراد ایسا تنگ دست آدمی ہے جو قناعت اور عفت پسندی کی وجہ سے لوگوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا ۔ 
 
اور " اَلْمُعْتَرَّ " سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے ۔ 
 
چنانچہ ان فقراء کا حج کی قربانی میں حق ہے، یہ آیت اگرچہ حج کی قربانی کیلئے ہے، لیکن عید کی قربانی کا بھی یہی حکم ہے " انتہی 
 " الموسوعة الفقهية " ( 6 / 115 ) 
 
اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عید کی قربانی سے متعلق فرمان ہے کہ 
 ( اس میں سے کھاؤ، ذخیرہ کرو، اور صدقہ دو ) 
مسلم ( 1971 ) 
 
شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کے ہاں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہ کچھ صدقہ کرنا واجب ہے، اور یہی موقف شرعی نصوص کی روشنی میں صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ 
 
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں 
 " کم از کم اتنی مقدار میں صدقہ کرنا واجب ہے جس پر " صدقہ " کا لفظ صادق آ سکے، کیونکہ قربانی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مساکین کیساتھ رفق و نرمی کا اظہار ہو، چنانچہ اس بنا پر اگر کوئی شخص مکمل قربانی کا جانور خود ہی کھا جاتا ہے تو اسے کم از کم اتنی مقدار میں صدقہ کرنا لازمی ہوگا جس پر صدقہ کا لفظ صادق آ سکے " انتہی 
 " روضة الطالبين وعمدة المفتين " ( 3 / 223 ) 
 
مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں 
 " اگر قربانی کا مکمل جانور خود ہی کھا لے تو کم از کم اتنا صدقہ ضرور کرے جس سے اس کا صدقہ ادا ہو جائے " انتہی 
 " الإنصاف " ( 6 / 491 ) 
 
نیز بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں 
 " اگر قربانی کے تازہ گوشت میں سے کچھ بھی صدقہ نہ کرے تو کم از کم اتنا صدقہ ضرور کرے جس پر صدقہ کا لفظ بولا جا سکے، 
 
مثلاً 
ایک اوقیہ [ تقریباً 200 گرام ] صدقہ کرے " 
 " كشاف القناع " ( 7 / 444 ) 
 
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو قربانی کا مکمل گوشت پکا کر رشتہ داروں کو کھلا دیتا ہے، اس میں سے کچھ بھی صدقہ نہیں کرتا تو کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟ 
تو انہوں نے جواب دیا 
 " ان کا یہ عمل غلط ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے 
لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ 
 
ترجمہ 
تاکہ فوائد حاصل کریں جو ان کے لئے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر ایّام میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دئے ہیں، اس میں سے خود بھی کھائیں اور تنگ دست لوگوں کو بھی کھلائیں ۔ [ الحج 28 ] 
 
اس بنا پر ان کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ قربانی کے ہر جانور میں سے کچھ نہ کچھ گوشت کے ضامن ہونگے، اس کیلئے گوشت خرید کر صدقہ لازمی کریں " انتہی 
 " مجموع فتاوى ابن عثیمین " ( 25 / 132 ) 
 
دوم 
قربانی کے گوشت میں سے کھانا واجب ہے یا نہیں؟ 
 
اہل علم کے ہاں دو موقف ہیں 
 
جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اس میں سے کھانا واجب نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، اور یہی موقف ائمہ اربعہ کا ہے ۔ 
 
جبکہ کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ قربانی کے گوشت میں سے کھانا واجب ہے، چاہے تھوڑا سا ہی کھایا جائے، کیونکہ شرعی نصوص میں قربانی کے گوشت کو کھانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ 
 
چنانچہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں 
 " قربانی کے گوشت میں سے کھانا مستحب ہے، واجب نہیں ہے، ہمارا اور دیگر تمام علمائے کرام کا یہی موقف ہے، تاہم چند سلف صالحین سے یہ منقول ہے کہ قربانی کا گوشت کھانا بھی واجب ہے ۔ ۔ ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں قربانی کا گوشت کھانے کا حکم دیا گیا ہے، اور فرمانِ باری تعالی میں بھی کھانے کا حکم ہے ۔ ( فَكُلُوا مِنْهَا ) اس میں سے کھاؤ ۔ [ الحج 28 ] 
 
لیکن جمہور اہل علم نے اس حکم کو مندوب اور مباح کے حکم میں شمار کیا ہے کیونکہ یہ حکم قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے کی ممانعت کے بعد دیا گیا ہے " انتہی 
 " شرح صحيح مسلم " ( 13 / 131 ) 
 
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں 
 " اگر قربانی کا سارا گوشت ہی صدقہ کر دے، یا نصف سے زیادہ صدقہ کر دے تو جائز ہے " انتہی 
 " المغنی " ( 13 / 380 ) 
 
مزید کیلئے سوال نمبر ( 146159 ) دیکھیں ۔ 
 
سوم 
عقیقے کے گوشت کے بارے میں تقسیم کرنے کی کیفیت شریعت میں بیان نہیں ہوئی، اور نہ ہی اس میں سے کھانے اور صدقہ کرنے کے متعلق کوئی حکم ہے ۔ 
 
اس لئے انسان کسی بھی انداز کو عقیقہ کے گوشت کیلئے اپنا سکتا ہے، چاہے تو مکمل صدقہ کردے، اور چاہے تو مکمل ہی کھا لے، تاہم افضل یہی ہے کہ عقیقہ کے گوشت کے بارے میں بھی وہی طریقہ کار اپنائے جو قربانی کے گوشت کے ساتھ اپنایا جاتا ہے ۔ 
 
چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ اسے کیسے تقسیم کرے؟ 
تو انہوں نے جواب دیا 
 " جیسے چاہو تقسیم کرو " اور ابن سیرین رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ " اپنی مرضی سے جیسے چاہو کرو " انتہی 
 " تحفة المودود بأحكام المولود " ( ص 55 ) 
 
مزید کیلئے سوال نمبر ( 8423 ) کا مطالعہ کریں ۔ 
 
چہارم 
مذکورہ بالا حکم کہ قربانی کے جانور میں سے کچھ نہ کچھ صدقہ کرنا واجب ہے، یا قربانی کا گوشت کھانا واجب ہے یا مستحب ہے، یہ حکم ہر جانور کیلئے الگ الگ ہے ۔ 
 
چنانچہ اگر کسی نے دس بکریں ذبح کی ہیں تو اسے ہر بکری میں سے کچھ نہ کچھ صدقہ کرنا لازم ہوگا، اور کچھ نہ کچھ حصہ تناول کرنا مستحب ہوگا ۔ 
 
لہذا ان تمام بکریوں میں سے ایک مکمل بکری بقیہ 9 بکریوں کی طرف سے صدقہ کرنا درست نہیں ہوگا، کیونکہ ہر بکری الگ سے مستقل قربانی ہے ۔ 
 
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جب اپنی حج کی قربانیاں نحر کی تو سب کی ایک ایک بوٹی ہنڈیاں میں جمع کر کے پکانے کا حکم دیا ۔ 
 
چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ 
 " آپ صلی اللہ علیہ و سلم قربان گاہ کی طرف گئے اور وہاں آپ نے 63 اونٹ اپنے ہاتھوں سے نحر کیے، اور پھر بقیہ اونٹ علی رضی اللہ عنہ کو نحر کرنے کیلئے دے دیے، اس کے بعد آپ نے ہر اونٹ کے گوشت میں سے تھوڑا سا حصہ ایک ہنڈیاں میں ڈالنے کا حکم دیا، پھر اسے پکایا گیا اور دونوں نے ان کا گوشت کھایا اور شوربہ نوش کیا ۔ ۔ ۔ " 
 ( مسلم 1218 ) 
 
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک قربانی کا الگ سے حکم ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام قربانی کے اونٹوں کا گوشت ایک ہانڈی میں جمع کرنے کا حکم دیا ۔ 
 
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں 
 " [ حدیث کے عربی الفاظ میں مذکور ] " اَلْبَضْعَة " سے مراد گوشت کا ٹکڑا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج اور عید کی قربانی کا گوشت کھانا مستحب ہے ۔ 
 
اس بارے میں اہل علم کا کہنا ہے کہجب قربانی کے ہر جانور کے گوشت کو کھانا سنت ہے اور ایک سو جانوروں کے گوشت کو کھانے میں مشقت بھی تھی تو اس کے حل کیلئے تمام جانوروں کے تھوڑے تھوڑے گوشت کو ہانڈی میں ڈال دیا گیا، تاکہ ان کے شوربہ کو نوش کر کے سب کا کچھ نہ کچھ حصہ تناول کرنا آسان ہو جائے " انتہی 
 ( شرح صحيح مسلم 8 / 192 ) 
 
امام نووی رحمہ اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ 
 " ہر اونٹ کے گوشت میں سے ایک بوٹی لی، اور ان کا شوربہ نوش فرمایا، اس میں حکمت یہ تھی کہ آپ سب کے گوشت میں سے کچھ نہ کچھ تناول فرما لیں " انتہی 
 " المجموع شرح المهذب " ( 8 / 414 ) 
 
خلاصہ 
یہ ہوا کہ جس قربانی کے مکمل گوشت کو آپ تناول کر چکے ہیں اس میں سے کچھ بھی صدقہ نہیں کیا تو اس کے بدلے میں آپ تھوڑا سا گوشت چاہے ایک اوقیہ [ تقریباً 200 گرام ] ہی لے لیں اور اسے فقراء میں تقسیم کر دیں ۔ 
 
تاہم جس قربانی کو آپ نے مکمل طور پر صدقہ میں دے دیا تو یہ قربانی سب علمائے کرام کے ہاں درست ہے ۔ 
 
جبکہ عقیقہ کے بارے میں آپ نے جو بھی کیا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ 
 
واللہ اعلم . 
محمد صالح المنجد 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۱۵. ؛ 
قربانی کے گوشت کی تقسیم میں اولیٰ کیا ہے؟ 
 
کیا قربانی کرنے والا اس جانور کا گوشت کھا سکتا ہے؟ 

 
جی ہاں، قربانی کرنے کے بعد اسکا گوشت خود کھائے، کسی مقدار کی کوئی قید نہیں ہے، چاہے تو تھوڑا کھائے اور اگر چاہے تو زیادہ کھائے، اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلائے، اور سنت یہ ہے کہ خود کھائیں اور صدقہ بھی کریں، اور ہدیہ بھی دیں، 
 
جبکہ افضل یہ ہیکہ اس کا تین حصہ بنا لیں، 
ایک حصہ خود کھائیں، 
دوسرا دوستوں اور رشتہ داروں کو ہدیہ کریں اور 
تیسرا حصہ صدقہ کردیں، 
 
لیکن اگر زیادہ خود کھا لیں اور تھوڑا صدقہ کریں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے، ہر ایک کی گنجائش ہے، بہر حال اللہ کے رسول نے اور خود اللہ تعالی نے یہی حکم دیا ہے کہ خود کھائیں اور صدقہ بھی کریں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے 
 
 ( فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ) 
ترجمہسو ان میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ ۔ ( الحج۲۸ ) ۔ 
 
اسلئے بہتر یہی ہے کہ فقراء کا بھی خیال رکھے اور ممکن ہو تو قربانی کا ایک تہائی انہیں پر صدقہ کر دے، یہی افضل ہے، 
 
اور اگر پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو ایک تہائی ہدیہ کر دیتا ہے تو یہ بھی افضل ہے، 
 
لیکن اگر تھوڑا تھوڑا ہدیہ اور صدقہ کرتا ہے اور باقی خود کھاتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے 
 
اور پوری قربانی صدقہ کر دیتا ہے تو بھی جائز ہے، 
 
لیکن علماء نے کہا ہے کہ تھوڑا بہت خود کھانے کیلئے نکال لے پھر صدقہ کرے تاکہ اللہ کے اس قول پر عمل ہو جائے 
 
ارشاد باری تعالی ہے 
 ( فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ) 
 ترجمہسو ان میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ ۔ ( الحج۲۸ ) ۔ 
 
اور جیسا کہ اس حدیث کے اندر وارد ہوا ہے 
 
عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، قَالَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلَا يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ، وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ " ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، قَالُوايَا رَسُولَ اللَّهِ نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ الْمَاضِي، قَالَ " كُلُوا، وَأَطْعِمُوا، وَادَّخِرُوا، فَإِنَّ ذَلِكَ الْعَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا " . 
 
ترجمہسیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو ۔ 
دوسرے سال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیایا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا ۔ ( کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں ) ۔ 
 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو ۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو ۔ 
 ( صحیح بخاری۵۵۶۹ ) ۔ 
 
اسلئے سنت یہی ہے کہ اس کا دل جتنا کہے کھائے اور جتنا دل کہے ذخیرہ کر کے رکھے، اور جتنا میسر ہو صدقہ کرے، یہی مشروع ہے، چنانچہ اگر نہ صدقہ کرے اور نہ ہی ہدیہ کرے بلکہ خود ہی پورا کھا لے تو بھی جائز ہے، مگر یہ خلاف اولی ہے، نیز سنت کی مخالفت ہے، احوط اور افضل یہی ہے کہ خلاف اولی سے نکلتے ہوئے وہ کچھ نہ کچھ صدقہ ضرور کرے، اور تاکہ واجب کہنے والوں کے اختلاف سے بھی بچ جائیں، 
 
جیسا ارشاد باری تعالی ہے 
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ) 
ترجمہسو ان میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ ۔ ( الحج۲۸ ) ۔ 
 
یہ کہتے ہیں کہ امر حکم دینا وجوب پر دلالت کرتا ہے، مگر اکثر علماء سنت کے قائل ہیں، کیونکہ اللہ نے کھانے کا بھی حکم دیا ہے جبکہ کھانا واجب نہیں ہے، چنانچہ کھلانا بھی واجب نہیں ہوگا، بلکہ سنت ہوگا، اس لئے قربانی کرنے والا خود کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے، یہی سنت ہے نہ کہ واجب . 
واللہ المستعان ۔ 
 
مصدر 
فتاری نور علی الدرب ۱۸ / ۱۶۶ برائے شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ 
 
جمع و ترتیب 
دکتور محمد بن سعد الشویعر 
 
مترجم 
دکتور اجمل منظور مدنی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۱۶. ؛ 
امیر و خوشحال رہتے ہوئے بھی قربانی کا گوشت لیتا ہے . . ؟ 
 
 
سوال 
اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو دس ذوالحجہ کو کسی سے قربانی کا گوشت لے لے جبکہ وہ خود بھی خوش حال ہو اور اسے گوشت کی ضرروت نہ ہو؟ 
 
 
 جواب 
جائز ہے کیونکہ ہدی، قربانی اور ہدی تمتع و قِران کا گوشت تمام حاجیوں کے لیے خواہ وہ امیر ہوں یا فقیر جائز ہے خصوصا جب کہ گوشت کے خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہو جیسا کہ آج کل قربانی کے بہت سے جانوروں کے گوشت کو پھینک دیا، جلا دیا یا دفن کر دیا جاتا ہے اور ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاتا اور پھر ارشاد باری تعالیٰ بھی ہے 
 
﴿فَإِذا وَجَبَت جُنوبُها فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ‌ ... ٣٦﴾ ... سورة الحج 
 " ان میں سے تم ( خود ) بھی کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والے کو بھی کھلاؤ ۔ " 
 
قانع سے مراد قناعت سے بیٹھ رہنے والا اور سوال نہ کرنے والا جبکہ معتر سے مراد وہ ہے جو سوال کرنے والا ہو ۔ 
 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب 
محدث فتوی 
فتوی کمیٹی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۱۷. ؛ 
قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو دینا جائز نہیں؟ 
 
 
سوال 
قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو دینا جائز ہے یا نہیں؟ 
 
 
 جواب 
قربانی کے گوشت میں کچھ صدقہ ہوتا ہے صدقہ والے حصے سے غیر مسلم کو نہیں دے سکتے ۔ 
 
 ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
احکام و مسائل 
قربانی اور عقیقہ کے مسائل ج1ص 440 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۱۸. ؛ 
غیر مسلم کوجو اسلام دچمن نہ ہو اسے قربانی کا گوشت دینا؟ 
 
 
سوال 
قربانی کا گوشت غیر مسلم لوگوں کو دیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ 
 

 جواب 
قربانی کے گوشت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے 
 
﴿فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا البائِسَ الفَقيرَ ﴿٢٨﴾ ... سورةالحج 
 " پس اس سے کھاؤ اور فاقہ کش فقیر کو کھلاؤ ۔ ( الحج28 ) 
 
اور فرمایا 
﴿فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ ... ﴿٣٦﴾ ... سورة الحج 
 
 " پس اس میں سے کھاؤ اور امیر و غریب کو کھلاؤ ۔ ( الحج 36 ) 
 
ان آیات سے ثابت ہوا کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا، خود کھانا، امیروں مثلاً رشتہ داروں اور دوستوں کو کھلانا اور غریبوں کو کھلانا بالکل صحیح ہے اور چونکہ قربانی تقرب الٰہی و عبادت ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ قربانی کا گوشت صرف مسلمانوں کو کھلا یا جائے ۔ 
 
اگر تالیف قلب کا معاملہ ہو تو پھر سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 60 کی رو سے ان کافروں کو یہ گوشت کھلانا جائز ہے جو اسلام کے معاند دشمن نہیں بلکہ نرمی والا سلوک رکھتے ہیں ۔ 
 
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی پھر وہ جب آئے تو کہا 
کیا تم نے ( اس میں سے ) ہمارے یہودی پڑوسی کو بھی بھیجا ہے؟ آپ نے یہ بات دو دفعہ فرمائی اور کہا 
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا 
 " مازال جبريل يوصيني بالجار، حتى ظننت أنه سيورثه " 
 
جبرئیل علیہ السلام مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں کہتے رہے حتی کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے وارث بنادیں گے ۔ 
 ( سنن ترمذی 1943، مسند حمیدی 593 و سندہ صحیح ) 
 
معلوم ہوا کہ تالیف قلب اور پڑوسی وغیرہ ہونے کی وجہ سے غیر مسلم کو بھی قربانی کا گوشت دیا جا سکتا ہے ۔ 
 
ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاوی علمیہ 
جلد 3، متفرق مسائل، صفحہ 281 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۱۹. ؛ 
كيا كسی غير مسلم كو قربانی كا گوشت دے سكتے ہيں؟ 
 
 
غیر مسلم کو عید قربان کی قربانی کا گوشت دینا جائز ہے، اور اگر غیر مسلم آپ کا رشتہ دار، یا پڑوسی ہو، یا پھر غریب ہو تو خصوصی طور پر انہیں دینا جائز ہے ۔ 
 
اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے 
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ . 
الممتحنة – 8 
 
 اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے جنگ نہیں لڑتے، اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کرتے، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ 
 
اور عید قربان پر کی جانے والی قربانی کا گوشت انہیں دینا بھی اسی احسان میں شامل ہے جس کی اللہ تعالی نے ہمیں اجازت دی ہے ۔ 
 
مجاہد سے مروی ہے کہ 
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے گھر ان کے لئے ایک بکری ذبح کی گئی، چنانچہ جب وہ تشریف لائے تو انہوں نے پوچھا 
کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو اس میں سے تحفہ دیا ہے؟ کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو اس میں سے تحفہ دیا ہے؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا 
جبریل مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے، حتی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ اب اسے وارث ہی بنا دے گا ۔ 
 ( ترمذی، 1943 اسے البانی سے صحیح کہا ہے ۔ ) 
 
اور اس لئے کہ نبی ﷺ نے اسماء بنت ابو بکر رضی الله عنہا کو حکم فرمایا تھا کہ وہ اپنی والدہ کا مالی تعاون کر کے انکے ساتھ صلہ رحمی کریں، حالانکہ وہ مصالحت [ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ کے درمیان کا عرصہ ] کے وقت مشرکہ تھیں” انتہی 
 
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ 
“ایسا کافر جس کے ساتھ ہماری لڑائی نہیں ہے، مثلاجس نے ہمارے پاس پناہ لے رکھی ہو یا اس کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو تو اسے عید قربان کی قربانی اور صدقہ سے دیا جائے گا” ۔ ( مجموع فتاوى ابن باز” ( 18 / 48 ) 
شیخ اکرم الہی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۲۰. ؛ 
قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو دیکر سیاسی مفاد لینا؟ 

 
حدیث میں وارد لفظ «تصدقوا» کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے اور قربانی کو صدقہ پر قیاس کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل، امام ثور، امام حسن اور اصحاب الرای کا خیال ہے کہ قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو بھی دیا جا سکتا ہے ۔ [ المغني 633 / 8 ] 
 
اس رخصت کا فائدہ اٹھا کر بعض لوگ قربانی کے گوشت کا زیادہ تر حصہ غیر مسلم سیاسی قائدین، حکام اور افسران کو ہدیہ کر دیتے ہیں یا پر تکلف دعوت کا اہتمام کر کے انہیں کھلا دیتے ہیں، تاکہ ان کے اثر و رسوخ سے وہ فائدہ اٹھا سکیں، یعنی یہ چیز بیع کے مشابہ ہو گئی اور قربانی کے گوشت کا بیچنا درست نہیں ہے، اسی طرح بعض غیر مسلموں کے بارے میں شبہ بلکہ یقین ہوتا ہے کہ قربانی کا گوشت وہ شراب جیسی گندی چیز کے ساتھ استعمال کریں گے، جہاں ایسا اندیشہ ہو ان کو دینے سے احتراز ہی اولیٰ ہے، البتہ اپنے غیر مسلم پڑوسیوں اور دوسرے برادران وطن متعلقین کو جن کے بارے میں اس قسم کا شبہ اور اندیشہ نہیں انھیں قربانی کا گوشت دینے میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں ۔ 
شیخ عبد المنان عبد الحنان سلفی رحمہ اللہ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۲۱. ؛ 
قربانی کا گوشت غیر مسلم یا مسلمان بے نمازی کو دیا جا سکتا ہے؟ 
 
 
سوال 
قربانی فرض ہے یا سنت؟ نیز قربانی کا گوشت غیر مسلم یا مسلمان بے نمازی کو دیا جا سکتا ہے؟ 
 
 
 جواب 
قربانی سنت ہے یا واجب اس کے متعلق گو علماء میں اختلاف ہے لیکن دلائل کے لحاظ سے صحیح بات یہی ہے کہ قربانی فرض یا واجب نہیں ہے، البتہ اسے سنت مؤکدہ کہا جا سکتا ہے اور باوجود استطاعت کے ترک کرنا مناسب نہیں اس کےدلائل درج ذیل ہیں ۔ 
 
 ( 1 ) ... ... امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول تعلیقا نقل کیا ہے کہ 
 (( قال ابن عمر رضى الله عنه هى ( أى الضحية ) سنة و معروف . )) 
 ( صحيح بخارى كتاب الأضاحى ) 
 
اس اثر کو مشہور محدث حماد بن سلمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مصنف میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ تک موصول سند کے ساتھ لایا ہے اور امام جبلہ بن  لحیم کے طریق سے روایت کرتے ہیں کہ 
 
 (( أن رجلا سأل ابن عمر عن الأضحية أ هى واجبة فقال ضحى رسول الله صلى الله عليه و سلم و المسلمون بعده . )) 
سنن ترمذى، كتاب الأضاحى، باب الدليل على أن الأضحية سنة، رقم الحديث ۱۵۰۶ ۔ 
 
‘‘یعنی ایک سائل نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا اضحی ( قربانی ) واجب ہے تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپﷺ نے قربانی کی ہے اور آپ کے بعد مسلمان بھی کرتے آئے ہیں ۔ " 
 
اس حدیث کی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے تحسین کر رکھی ہے اور فرماتے ہیں کہ 
 
 (( والعمل على هذا عند أهل العلم أن الأضحية ليست واجبة . )) 
 
‘‘یعنی اس حدیث پر اہل علم عمل کر کے قربانی کو واجب نہیں سمجھتے ۔ " 
 
امام ترمذی کی اس عبارت پر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں لکھتے ہیں 
 (( و كأنه فهم من كون ابن عمر لم يقل فى الجواب نعم أنه لا يقول بالوجوب فإن الفعل المجرد لا يدل على ذالك و كأنه إشار بقوله والمسلمون إلى أنها ليست منا لخصائص و كان ابن عمر حريصا على إتباع أفعال للنبى صلى الله عليه و سلم فذالك لم يصر بعدم الواجب . )) 
 
‘‘یعنی گویا امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے سوال   کے جواب میں ہاں نہ کہنے سے یہ سمجھتے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اس کے وجوب کے قائل نہیں ( کیونکہ اگر وجوب کے قائل ہوتے تو جب سائل نے پوچا کہ قربانی واجب ہے تو آپ رض فرماتے کہ ہاں ( واجب ہے ) اور صرف آپﷺ کا فعل نقل نہ کرتے ) اور مجرد فعل ( جس کے ساتھ امر قولا شامل نہ ہو ) وجوب پر دلالت نہیں کرتا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ والمسلمون ( یعنی آپﷺ کے بعد مسلمان بھی قربانی کرتے تھے ) کا لفظ اس لیے بڑھایا کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص قربانی کو آپﷺ کا ہی خاصہ نہ سمجھ بیٹھے ) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ آپﷺ کےافعال اور اسوہ حسنہ کی اتباع کے حریص تھے اس لیے عدم وجوب کے صریح الفاظ بھی ذکر نہ کئے صرف آپ کا فعل ذکر کر کے اشارہ  کر دیا کہ یہ واجب نہیں کیونکہ آپ کا فعل مبارک اگرچہ قابل اتباع ہے اور اس کی  پیروی کرنا اجر و ثواب کا باعث ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک یہ بات بہت پسندیدہ اور محبوب ترین ہے، تاہم اگر وہ فعل امر کے ساتھ نہیں ہے یعنی اس فعل کے متعلق آپ نے امر نہیں فرمایا تو وہ فعل واجب نہیں ہوگا ۔ تقریبا تمام مکاتب فکر کے علماء کا یہی مسلک ہے کہ محض فعل وجوب پردلالت نہیں کرتا ۔ 
 
 ( 2 ) ... ... سیدہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے ابوداود میں روایت مروی ہے کہ 
 (( قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من كان له ذبح يذبحه فإذأهل هلال ذى الحجة فلا ياخذن من شعره و لا من اظفاره شيئاحتى يضحى . )) 
سنن ابى داود، كتاب الضحايا، باب الرجل ياخذ من شعره فى العشر و هو يريد أن يضحى، رقم الحديث ٢٧٩١ . 
 
‘‘یعنی جس کے پاس قربانی کا جانور ہو اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو پھر ذوالحج کےچاند دیکھنے کے بعد اپنے بال نہ کتروائے اور ناخن نہ تراشے یہاں تک کہ قربانی کر لے اس کے بعد حجامت بنوا سکتا ہے ۔ " 
 
اس سے بھی واضح سنن نسائی کے الفاظ ہیں کہ 
 (( من رأى هلال ذى الحجة فأراد أن يضحى فلا يأخذ من شعره و لا من أظفاره حتى يضحى . )) 
سنن نسائى، كتاب الضحايا، باب من أراد أن يضحى فلا يأخذ من شعره، رقم الحديث ٤٣٦٦ . 
 
اس حدیث میں ہے کہ  ذوالحج کا چاند دیکھنے کے بعد اگر کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو وہ حجامت نہ بنوائے ۔ مطلب کہ یہ الفاظ (( فأرادأن يضحى )) اس حقیقت پر واضح دلیل ہیں کہ قربانی کرنے والے کے ارادہ پر مبنی ہے اور جس کام کا یہ حال ہو ( یعنی وہ مسلم کے ارادہ پر منحصر ہو ) وہ فرض یا واجب نہیں ہو سکتا، کیونکہ فرض یا واجب میں اس کام کا کرنے والے کے ارادہ پر منحصر نہیں ہوتا کہ اس کی مرضی کرے یا نہ کرے بلکہ وہ کام ہر حال کرنے کا لازم ہوتا ہے چاہے وہ اسے پسند کرے یا نہ کرے ۔ 
 
باقی قربانی کرنے والے کو حکم ہے کہ وہ قربانی سے پہلے حجامت نہ بنوائے سو یہ تعجب کی بات نہیں مثلا نفلی نماز فرض یا واجب نہیں ہے مگر اگر کوئی پڑھتا ہے تو اسےکچھ باتوں کا ضرور خیال رکھنا ہے اور ان پر لازمی طور پر عمل کرنا ہے ۔ 
 
مثلا وضو، قراۃ، رکوع، سجود وغیرہ یعنی نفلی نماز فی نفسہ فرض یا واجب نہیں مگر جو پڑھتا ہے تو اس پر یہ تمام کام کرنے ہیں ورنہ ان میں سے کوئی کام ترک کرے گا تو اس کی نماز نہیں ہوگی . 
 
اسی طرح نفلی روزے کے متعلق بھی کہا جا سکتا ہے کہ نفلی روزہ واجب نہیں مگر جو رکھے گا اس پر تمام پابندیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جو فرضی روزہ میں ہوتی ہیں ۔ 
 
علی ہذا القیاس بعینہ قربانی کا معاملہ بھی ہے یعنی گو قربانی فی نفسہ نہیں مگر جو شخص کرے گا تو اس پر یہ پابندی ضرور لاگو ہو گی کہ وہ ذو الحج کے چاند دیکھنے کے بعد قربانی کا جانور ذبح کرنے تک حجامت نہ بنوائے زیادہ سے زیادہ قربانی کے وجوب و فرضیت پر جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ حدیث ہے جوسنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحي باب الا‎ضحاحي واجبة هي ام لا، رقم الحديث ’١٣٢٣ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا 
 (( من كان له سعة و لم يضح فلا يقربن مصلانا . )) 
 
‘‘یعنی جسے وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔ " 
 
لیکن اول تو اس حدیث کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے اور صحیح بات یہ ہےکہ یہ حدیث موقوف ہے نہ کہ مرفوع جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے اور حجت مرفوع حدیث میں ہے نہ کہ موقوف میں دوسرا یہ کہ اگر اسے مرفوع تسلیم ہی کر لیا جائے تو بھی یہ حدیث وجوب پر صراحتا دلالت نہیں کرتی بلکہ اس سے صرف اس کی تاکید معلوم ہوتی ہے ۔ 
 
جیسا کہ پیاز وغیرہ کے متعلق آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ پیاز ( کچا ) کھا کر مسجد میں نہ آئیں بلکہ صحیح حدیث میں ہے کہ آپﷺ جو پیاز وغیرہ بدبو دار شئے کھا کر مسجد میں آتا تھا آپﷺ اسے بقیع ( مقام ) تک دور مسجد سے نکلوا دیتے تھے محض تنبیہ کی خاطر . 
 
حالانکہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس سے پیاز کی حرمت ثابت نہیں ہوتی یعنی پیاز کھانا حرام نہیں کیونکہ دیگر دلائل سے اس کی حلت معلوم ہوتی ہے اور حکم محض تنبیہ و تاکید کے لیے تھا اس طرح حدیث سے بھی ( اگر اس کا مرفوع ہونا ثابت ہو تو ) صرف قربانی کا مؤکد ہونا ثابت ہوتا ہے لاغیر ۔ 
 
اسی طرح مشہور محدث حافظ ابن حزم ظاہری فرماتے ہیں  کہ 
 
 (( لا يصح عن أحد من الصحابة إنها واجبة و صح إنها ليست واجبة عن الجمهور . )) 
المحلى، جلد٦، صفحہ ١٠، كتاب الاضاحى، مسئله٩٩٣ . 
 
یعنی کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں اور یہ بات جمہور علماء سے منقول ہے ۔ 
 
باقی جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کر دی تھی اور آپﷺ نے اسے دوبارہ  قربانی کرنے کا حکم فرمایا، اس سے بھی قربانی کے وجوب پر استدلال نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ اس بات  میں کوئی عجب و نکارت نہیں کہ دین میں کوئی ایسا کام ہو جو فی نفسہ نہ ہو لیکن اس کا بدل یا عوض اور ضروری ہو، کیونکہ جو قربانی کے وجوب کے قائل ہیں ۔ ( مثلا علماء احناف ) وہ اس بات پر متفق ہیں کہ مثلا کسی شخص نے کسی ایسے دن نفلی روزہ رکھا جس دن کا روزہ اس پر نہ تھا مگر اس نے عمدا ( جان بوجھ کر ) روزہ توڑ ڈالا تو یہی علماء کہتے ہیں کہ اب اس پر دوسرے دن کا روزہ اس پر واجب ہے حالانکہ پہلا روزہ جو اس نے رکھا تھا وہ اس پر نہ تھا بلکہ نفلی تھا اور کہتے ہیں کہ کسی نے نفلی حج کا احرام باندھا پھر اسے فاسد کر دیا تو اس پر حج کی قضاء ہے ۔ حالانکہ وہ حج اس پر نہیں تھا بلکہ نفلی تھا ۔ اس طرح قربانی بھی اگرچہ ابتدا نہیں مگر صحیح طور پر ادا نہ کرنے کے سبب ( مثلا نماز سے پہلے قربانی کر دے ) شارع علیہ السلام نے اس پر اس کا اعادہ لازمی قرار دیا ہے مسلمان کا کام ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کے حکم کے سامنے سر اطاعت و تسلیم خم کرے پھر جہاں حکم ہوگا وہاں چوں چراں بھی نہ کی جائے گی . 
 
وہ حکم لازمی مانا جائے گا اور جہاں حکم نہیں ہوگا اور محض فعل مبارک ہوگا تو وہاں سنتا و استحبابا پیروی اتباع کی جائے گی لیکن واجب تصور نہ کیا جائے گا ۔ باقی رہی ام بلال الاسلمیہ والی حدیث جو ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے کہ 
 (( قالت رسول الله صلى الله عليه و سلم ضحوأ بالجذع من الظأن فإنه جائز . )) 
 
‘‘یعنی رسول اکرمﷺنےفرمایاکہ دنبے میں سےجذعہ کی قربانی کرو بلاشبہ یہ جائزہے ۔ " 
 
یہ امرحقیقت میں فرضی نہیں بلکہ یہ آپ کی طرف سے رخصت ہے جس پر دلیل دوسری صحیح حدیث ہے جس کے الفاظ اس طرح ہیں 
 (( لا تذبحوا اإلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن . )) 
صحيح مسلم، كتاب الاضاحى، باب من الأضحية، رقم الحديث، ٥٠٨٢ . 
 
‘‘یعنی قربانی کے جانوروں میں سے مسنہ ( دو دانتوں والے جانور ) کے علاوہ دوسرے جانور کی قربانی مت کرو مگر جب مسنہ نہ ملے تو پھر ایک دنبہ ذبح کر دو جوجذعہ ہو یعنی دوندہ نہ بلکہ آٹھ نو ماہ کا ہو ۔ " 
 
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ ام بلال رضی اللہ عنہا والی حدیث میں بھی امر محض رخصت کے لئے ہے نہ کہ وجوب کے لئے ورنہ اگر اس وجوب پر عمل کرو گے تو اس کا مفہوم یہ بنے گا کہ قربانی کے لیے صرف دنبوں کا جذعہ ہی ذبح کیا جائے دوسرا نہیں حالانکہ یہ قطعا غلط ہے ۔ 
 
ان کے علاوہ بھی کچھ احادیث مروی ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی سندا صحیح نہیں مگر صرف ایک حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ 
 (( أنه صلى الله عليه و سلم قال من وجد سعة فليضح . )) 
‘‘یعنی آپﷺ نےفرمایا جسے گنجائش ہو وہ قربانی کرے ۔ " 
 
یہ حدیث اگرچہ مذکورہ بالا بیان کی گئی احادیث کے ہم پلہ نہیں، تاہم اس کے روات ثقہ ہیں مگر اس میں بھی امر استحبابی ہے کیونکہ اس طرح ہی دیگر دلائل کے ساتھ جن میں کچھ ذکر کئے گئے ہیں اس روایت کو جمع کیا جا سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں جمع نہیں ہو سکتا، اس کے بعد ترجیح کی طرف رجوع کیا جائے گا تو لامحالہ یہی احادیث جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی واجب نہیں اس حدیث پر راجح ہوں گی کیونکہ یہ واضح ہیں اور اپنے مطلب پر واضح ہیں اور حدیث مرجوح ہو گی . 
 
باقی رہی یہ بات کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دیا جا سکتا ہے یا نہیں تو اس کے لئے گزارش ہے کہ اس گوشت سے بے شک کافروں کو دیا جا سکتا ہے اس کی دلیل درج ذیل ہے . 
 
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح، ( كتاب الاضحى، باب مايوكل من لحوم الاضاحى ومايتزود منها، رقم الحديث ٥٥٦٩ ) میں سیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ 
 (( قال النبى َََصلى الله عليه و سلم من ضحى منكم فلا يصبحن بعد ثالثة و بقى فى بته منه شى فلما كان العام المقبل قالوا يارسول الله صلى الله عليه و سلم نفعل كما فعلنا العام الماضى قال كلوا و اطعموا و أدخرو فإن ذالك العام كان بالناس جهد فأردت أن تعينوا فيها . )) 
 
‘‘یعنی آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سےجو بھی قربانی کرے تو تین دنوں کے بعد اس قربانی کے گوشت میں سے کچھ اس کے گھر میں باقی نہیں رہنا چاہئے پھر جب دوسرا سال آیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا اس سال بھی ویسے ہی کریں ( جس طرح گزشتہ سال کیا تھا ) آپﷺ نے فرمایا کہ کھائیں اور کھلائیں ( مطلق عام انسانوں کو ) اور ذخیرہ کر کے رکھو ( گزشتہ سال جو میں نے منع کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ) اس سال لوگوں کو بہت تکلیف تھی یعنی قحط سالی تھی اور جوچبھوک کی وجہ سے بڑی پریشانی درپیش تھی اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ تم ان کی مدد کرو اس لئے جس نے منع کیا تھا ۔ " 
 
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ 
 
 (( إنهم قالوا يارسول الله صلى الله عليه و سلم أن الناس يتخذون الأ سقية من ضحاياهم و يجمعون فيها الودك قال رسول الله صلى الله عليه و سلم وما ذالك قالوا نهيت أن توكل لحوم الضحايا بعد ثلاث قال عليه الصلاة والسلام نهيتكم من أجل الدافة التى دفت فكلوا و ادخروأ و تصدقوا . )) 
صحيح مسلم، كتاب الأضاحى، رقم الحديث، نمبر مٹا ہوا ہے . 
 
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ آپﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو قربانی کے گوشت سے دوسرے لوگوں کو کھلانے کا حکم فرمایا اس لئے جائز ہے کہ ہر کوئی کھانے والا اس سے کھا سکتا ہے کیونکہ اگر اس سے کسی کے لئے کھانا حرام ہوتا تو وہ آپ ذکر کرتے ۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث میں بھی ( تصدقوا ) کالفظ وارد ہوا ہے یعنی اس سے صدقہ و خیرات کرو اور مطلق خیرات ( یعنی فرضی صدقایپت کے علاوہ ) کسی کو بھی دی جا سکتی ہے خواہ وہ مسلم ہو یاچکافر چونکہ یہان بھی آپﷺ نے اس گوشت سے مطلق خیرات کا امر فرمایا ہے، لہذاچکسی کوچبھی خیرات کے طور پر دیا جا سکتا ہے خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم کیونکہ یہ بیان کا موقعہ تھا اگر یہ طعام مسلمانوں کے ساتھ مخصوص تھا توآپ خود اس کی وضاحت فرما دیتے، مطلق اور عام حکم نہ فرماتے . 
 
 (( و ما کان ربك نسيا . )) اور قربانی بھی نہیں جیسا کہ اوپر ثابت کر آئے ہیں اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے 
﴿فَكُلُوا۟ مِنْهَا وَ أَطْعِمُوا۟ ٱلْقَانِعَ وَ ٱلْمُعْتَرَّ‌﴾ ( الحج ٣٦ ) 
اس آیت میں بھی قربانی اور ہدی کا گوشت میں سے خود کھانا اور حاجت مند کو کھلانے کا حکم ہے اورحاجت مند اور سوال ی کو مخصوص نہیں کیا گیا کہ وہ صرف مسلم ہی ہو مذکورہ بالا احادیث سے حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مسلم اور غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینے کے جواز پر استدلال کیا ہے . واللہ اعلم ۔ 
اور مزید پہلی حدیث میں جو آپ نے فرمایا ہے کہ 
 (( من ضحى منكم . )) کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ حکم اس کے ساتھ لاگو نہیں ہے جو قربانی نہ کرے ۔ مطلب یہ ہوا کہ قربانی واجب نہیں جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے ۔ 
 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب 
فتاویٰ راشدیہ 
صفحہ نمبر 499 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۲۲. ؛ 
کیا قربانی کا گوشت ہندؤوں کو دینا جائز ہے؟ 
 
 
 سوال 
کیا قربانی کا گوشت ہندؤوں کو دینا جائز ہے؟ 
 
 
 جواب 
سوال کی صورت میں قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دیا جا سکتا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے 
 
﴿وَأَمَّا السّائِلَ فَلا تَنهَر ﴿١٠﴾ ... سورة الضحىٰ . 
 
بلا سوال دینا اچھا نہیں ۔ حدیث میں ہے 
 
 " وَ لَا یَاْکُلُ طَعَامَكَ اِلَّا تَقِیٌّ " 
 ( سنن أبی داؤد، بَابُ مَنْ یُؤْمَرُ أَنْ یُجَالِسَ، رقم ۴۸۳۲ ) 
 
یعنی "تیرا کھانا پرہیز گار ہی کھائے ۔ ‘‘ 
 
 ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی 
جلد 3، کتاب الصوم، صفحہ 370 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۲۳. ؛ 
کیا حربی یا کافر پڑوسی کو قربانی کے گوشت کا تحفہ دیا جا سکتا ہے ۔ ؟ 
 
 
سوال 
کیا قربانی کے گوشت میں کافر پڑوسی کا بھی حصہ ہے یا نہیں؟ 
 
 
 جواب 
مسلمان کے لئے جائز ہے ۔ کہ وہ اپنے کافر پڑوسی کی دل جوئی اور اس کی تالیف قلب کے لئے اسے قربانی کے گوشت کا تحفہ دے حق پڑوسی کا بھی یہ تقاضا ہے ۔ اور شرعاً اس کی ممانعت کی کوئی دلیل بھی نہیں اس ارشاد باری تعالیٰ کے عموم کےمطابق بھی یہ جائز قرار پاتا ہے کہ 
﴿ لا يَنهىكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقـتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِ‌جوكُم مِن دِيـرِ‌كُم أَن تَبَرّ‌وهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿٨﴾ ... سورة الممتحنة 
 
''جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا 'اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ '' 
 
فتویٰ کمیٹی کی طرف سے اس مسئلہ میں پہلے بھی حسب ذیل فتویٰ جاری ہو چکا ہے کہ 
 
''ہمارے لئے یہ جائز ہے کہ ہم کسی کافر زمی اور قیدی کو قربانی کا گوشت کھلایئں فقر قرابت پڑوس یا تالیف قلب کے لئے کسی بھی کافر کو قربانی کا گوشت دینا جائز ہے ۔ کیونکہ قربانی کے جانور کو ذبح یا نحر کرنا تو اللہ تعالیٰ ٰ کی عبادت اور اس کے تقرب کے حصول کے لئے ہے ۔ اور اس کے گوشت کے بارے میں افضل یہ ہے کہ ایک ثلث خود کھائے ایک ثلث رشتہ داروں پڑوسیوں اور دوستوں کو تحفہ دے اور ایک ثلث فقیروں میں صدقہ کردے ۔ اس میں آ کر کمی بیشی ہو جائے یا کسی ایک قسم میں ہی سارا گوشت صرف کردے تو پھر بھی کوئی حرج نہیں اس میں کافی گنجائش ہے ۔ البتہ کسی حربی کافر کو قربانی کا گوشت نہیں دینا چاہیے ۔ کیونکہ اس کی دل جوئی اور حوصلہ افزائی کی بجائے اس کی کمزوری اور ذلت اور رسوائی مقصود ہے ۔ '' 
 
حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ ٰ کے عموم کے پیش نظر دیگر نفل صدقات کے لئے بھی یہی حکم ہے 
﴿ لا يَنهىكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقـتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِ‌جوكُم مِن دِيـرِ‌كُم أَن تَبَرّ‌وهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿٨﴾ إِنَّما يَنهىكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ قـتَلوكُم فِى الدّينِ وَأَخرَ‌جوكُم مِن دِيـرِ‌كُم وَظـهَر‌وا عَلى إِخر‌اجِكُم أَن تَوَلَّوهُم وَمَن يَتَوَلَّهُم فَأُولـئِكَ هُمُ الظّـلِمونَ ﴿٩﴾ ... سورة الممتحنة 
 
''جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمھارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ اللہ انہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی رکھنے سے منع کرتا ہے ۔ جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی تو جو لوگ ان ( لوگوں ) سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں ۔ '' 
 
نبی اکرمﷺ نے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنی مشرک ماں کے ساتھ مالی طور پر صلہ رحمی کر سکتی ہیں ۔ 
 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب 
فتاویٰ اسلامیہ 
ج 1، ص 38 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۲۴. ؛ 
قربانی کا گوشت مسلم، غیر مسلم، مؤمن، غیر مؤمن سب کو دینا جائز ہے؟ 
 
 
سوال 
قربانی یا عقیقے کا گوشت سوائے مسلمان کے سب یعنی غیر اسلام ماننے والے یعنی کافر کو کھلا سکتا ہے یا نہیں ۔ یا کچا دے سکتا ہے یا نہیں اس کا جواب قرآن مجید یا حدیث شریف سے دیجئے؟ 
 
 
 جواب 
سب کو کھلا سکتا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔ 
وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ ﴿٣٦﴾ سورة الحج 
 
یعنی مانگنے اور نہ مانگنے والا سب کو کھلائو ۔ اس میں کوئی قید مومن غیر مومن کی نہیں ہے ۔ 
 
 ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ ثنائیہ امرتسری 
جلد 01، ص 801 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۲۵. ؛ 
میت کی طرف سے قربانی کا گوشت سارا مکمل غرباء و مساکین میں تقسیم کرنا چاہئے؟ 
قربانی کا سارا مکمل گوشت خود کھانا جائز ہے؟ 
 
 
سوال 
برمنگھم سے محمد ایوب دریافت کرتےہیں کہ کیا قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو بھی دیا جا سکتا ہے؟ نیز یہ بھی وضاحت کریں کہ اگر میت کی طرف سے قربانی دی جائے تو اس کا گوشت سارے کا سارا غریبوں کو دینا چاہئے یا خود بھی کھا سکتے ہیں؟ 
 
 
 جواب 
قربانی اور عقیقہ کا گوشت ہر شخص کو دیا جا سکتاہے ۔ یہ صدقے یا خیرات کی طرح نہیں کہ صرف غرباء مساکین کو دیا جائے ۔ اسی طرح شریعت میں کوئی ایسی واضح نص بھی نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو نہیں دیا جا سکتا ۔ اس کے برعکس قرآن حکیم سےتو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قربانی کا گوشت ہر شخص چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر اسے دیا جا سکتا ہے ۔ 
 
فرمایا 
﴿وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ‌ ... ﴿٣٦﴾ ... سورة الحج 
 
"جو مانگے اسے بھی دو اور جو نہ مانگے اسے بھی کھلاؤ ۔ ‘‘ 
 
اب اس آیت میں مسلم یا کافر کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ 
 
جہاں تک میت کی طرف سے قربانی دینے کا تعلق ہے تو اس میں بھی ایسی کوئی شرط قرآن و سنت سے ثابت نہیں کہ میت کی طرف سے دی جانے والی قربانی کا گوشت صرف غرباء و مساکین کو دینا چاہئے ۔ ا س لئے قربانی جس کی طرف سے بھی ہو اس کا گوشت پر شخص کھا سکتا ہے ۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جہاں غریب لوگ رہتے ہوں وہاں یہ کوشش ضرور ہونی چاہئے کہ قربانی کے گوشت میں ان کا حصہ رکھا جائے اور جہاں غرباء و مساکین یا عزیز و اقارب نہ ہوں وہاں سارا گوشت خود بھی رکھ سکتے ہیں ۔ 
 
 ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ صراط مستقیم 
ص313 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۲۶. ؛ 
میت کی جانب سے قربانی صدقہ ہے اور اس کا گوشت بھی صدقہ کرنا ہوگا؟ 

 
 میت کی جانب سے قربانی کی مشروعیت مختلف فیہ ہے ۔ بعض علماء اس کے جواز کے قائل ہیں اور بعض اسے درست نہیں کہتے، تاہم کسی بھی صحیح حدیث میں میت کی جانب سے قربانی کا ذکر نہیں، جن علماء نے اجازت دی ہے انہوں نے اسے صدقہ پر محمول کیا ہے، اس لئے انہوں نے یہ بھی صراحت فرما دی کہ اگر صرف میت کی جانب سے کوئی قربانی کرے تو اسے پورا گوشت صدقہ کر دینا چاہئے اس میں سے خود کچھ نہ کھانا چاہئے ۔ 
 
میت کی جانب سے قربانی جائز قرار دینے والوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے جس میں یہ ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں وصیت فرمائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے وہ ہر سال ایک قربانی کرتے رہیں ۔ “ یہ جامع ترمذی کی روایت ہے، 
 
اولاً تو یہ حدیث ضعیف ہے، 
 
ثانیاً اگر اس کو صحیح تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس سے مطلقاً میت کی جانب سے قربانی کے جواز کا ثبوت نہیں ملتا، زیادہ سے زیادہ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی خیر کی وصیت کر کے فوت ہو تو ورثا کو اس کی وصیت نافذ کرنا چاہئے ۔ 
 
شیخ الحدیث علامہ عبد اللہ رحمانی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں بحث کرنے کے بعد اپنے استاد صاحب تحفہ علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ 
 
 «لم أجد فى التضحية عن الميت منفردا حديثا مرفوعا صحيحا، و أما حديث على هذا فضعيف، فإذا ضحى الرجل عن الميت منفردا فالإحتياط أن يتصدق بها كلها» 
 [ مرعاة المفاتيح 359 / 2 ] 
 
تنہا میت کی جانب سے قربانی کے سلسلہ میں مجھے کوئی صحیح، مرفوع ایک حدیث بھی نہ ملی، رہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث تو یہ ضعیف ہے، اس لئے اگر کوئی شخص تنہا صرف میت کی جانب سے قربانی کرے تو احتیاط اسی میں ہے کہ پورا گوشت صدقہ کر دے ۔ 
 
میت کی جانب سے قربانی ظاہر ہے اس کو ثواب پہنچانے کے مقصد ہی سے کی جاتی ہے، اس لئے اگر یہ مقصد عام مالی صدقہ کے ذریعہ حاصل کیا جائے جس کے بارے میں علماء متفق ہیں تو زیادہ بہتر ہے ۔ 
 
اگر کوئی شخص اپنی قربانی میں اپنے زندہ اہل خانہ کے ساتھ اپنے مردوں کو بھی شامل کر لے تو یہ زیادہ بہتر ہے ۔ قربانی کے اجر و ثواب میں ان شاء اللہ مردے بھی شریک رہیں گے اور اسی قربانی کا گوشت سب کھا بھی سکتے ہیں ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ کریں [ مرعاة المفاتيح 359 / 2 ] 
 شیخ عبد المنان عبد الحنان سلفی رحمہ اللہ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۲۷. ؛ 
میت کی طرف سے قربانی کا گوشت صرف فقراء و مساکین ہی کو دیں؟ 
 
 
سوال 
قربانی میت کی طر ف سے جو کی جائے ۔ اس کا گوشت اغنیاء فقراء دونوں کھا سکتے ہیں یا صرف مساکین ہی کو دیا جائے؟ 
 
 
 جواب 
قربانی جو میت کی طرف سے ہے ۔ اسی طرح ہے جیسے زندہ کی طرف سے جس طرح اس کو سب کھا سکتے ہیں اس کو بھی کھا سکتے ہیں . 
 
تشریح 
میرے نزدیک میت کی طرف سے جو قربانی کی جائے ۔ اس کا گوشت صاحب نصاب کو اور قربانی کرنے والے کو کھانا درست ہے ۔ نا درست ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی طرف سے اور اپنی آل کی طرف سے اور اپنی امت کی طرف سے قربانی کرتے تھے ۔ اور آپ ﷺ کی امت میں سے کچھ لوگ مر بھی گئے تھے ۔ لیکن یہ ہرگز ثابت نہیں کہ یہ گوشت آپﷺ نے خود نہیں کھایا اور کل گوشت یا بقدر حصہ اموت کے صدقے کر دیا ۔ حضرت علی رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایک قربانی کرتے تھے ۔ لیکن حضرت علی کا اس قربانی کے گوشت کو خود نہ کھانا اور کل گوشت کو صدقہ کر دینا ہرگز ثابت نہیں رہا ۔ فتویٰ عبد اللہ بن مبارک کا سو یہ ان کی رائے ہے ۔ اور ان کی اس رائے پر کوئی دلیل صحیح قائم نہیں ہے ۔ عون المعبود شرح سنن ابی دائود جلد ثالث صفحہ 50 میں اس کی بحث تفصیل کے ساتھ لکھی گئی ہے . 
 
ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ ثنائیہ امرتسری 
جلد 01، ص 801 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۲۸. ؛ 
میت کی جانب سے قربانی کا گوشت وارثین کھا سکتے ہیں؟ 
 
 
سوال 
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ میت کی طرف سے جو وارث لوگ قربانی بقر عید میں دیتے ہیں ۔ اس کا گوشت صاحب نصاب کو اور میت کے وارثوں کو کھانا بموجب شرع شریف کے درست ہے یا نہیں؟ 
 
 
 جواب 
جامع ترمذی میں عبد اللہ بن مبارک کا فتویٰ لکھا ہے کہ اگر میت کی طرف سے قربا نی کی جاوے تو قربانی کرنے والا اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ کل گوشت کو صدقہ کر دے ۔ 
واللہ اعلم 
 
بالصواب المجیب سید عبد الوہاب عفی عنہ ۔ میرے نزدیک میت کی طرف جو قربانی کی جائے اس کا گوشت صاحب نصاب کو اور قربانی والے کو کھانا درست ہے ۔ نہ درست ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ 
 
صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی طرف سے اور اپنی آل کی طرف سے اور اپنی امت کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے ۔ اور آپ ﷺ کی امت میں سے بعض لوگ مر بھی گئے تھے ۔ لیکن یہ ہر گز ثابت نہیں کہ رسول اللہﷺ نے اس قربانی کا گوشت خود نہیں کھایا ۔ اور کل گوشت یا بقدر حصہ اموات کے صدقہ کر دیا ۔ حضرت علی آپ ﷺ کی طرف سے ایک قربانی کرتے تھے ۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس گوشت کو نہ کھانا اور کل گوشت کو صدقہ کر دینا ہرگز ثابت نہیں رہا ۔ فتویٰ عبد اللہ ابن مبارک ؒ کا سو یہ ان کی رائے ہے ۔ اور ان کی اس رائے پر کوئی صحیح دلیل نہیں ہے ۔ 
عوب المعبود شرح سنن ابی دائود، جلد 3، ص 50 میں اس کی بحث تفصیل کے ساتھ لکھی گئی ہے ۔ 
 
 ( عبد الرحمٰن المبارک پوری ۔ فتاویٰ نذیریہ، جلد 2، ص 444 ۔ 445 ) 
 
ھٰذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ علمائے حدیث 
جلد 13، ص 154 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۲۹. ؛ 
قربانی کی کھال اور گوشت قصائی کی اجرت بن سکتی ہے؟ 
 
 
سوال 
کیا قربانى كا گوشت يا كھال قصائى كو بطور اُجرت دى جا سكتى ہے؟ 
 
 
جواب 
ايسا كرنا جائز نہيں كيونكہ نبى ﷺ نے اس سے منع فرمايا ہے جيسا كہ 
 
”حضرت على رضی اللہ عنہ كہتے ہيں كہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حكم ديا كہ ميں ان قربانى كے جانوروں كے جهول اور ان كے چمڑے صدقہ كردوں جن كى قربانى ميں نے كر دى تھی -“ 
 ( بخارى 1707، كتاب الحج، باب الجلال للبدن ) 
 
اور صحيح مسلم ميں ہے كہ 
“حضرت على رضی اللہ عنہ سے روايت ہے كہ 
رسول اللہ ﷺ نے مجھےحكم ديا كہ ميں آپ ﷺ كى قربانيوں كى نگرانى كروں اور ميں ان قربانيوں كا گوشت اور ان كے چمڑے اور ان كى جلديں صدقہ كر دوں اور ان سے ( كچھ بھی ) قصائى كو نہ دوں . “ 
 
اور حضرت على رضی اللہ عنہ كہتے ہيں كہ 
 
“ہم اسے ( قصائى كو ) اپنے پاس سے ( معاوضہ ) ديا كرتے تھے . ” 
 ( مسلم 3180، كتاب الحج ) 
 
ان احاديث سے معلوم ہوا كہ قربانى كے جانوروں كى ہر چيز حتى كہ جلد تک بھی صدقہ كر دى جائے اور قصائى كو ان ميں سے اُجرت ميں كچھ نہ ديا جائے بلكہ اُجرت عليحدہ دينى چاہيے . 
شیخ اکرم الہی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۳۰. ؛ 
قربانی کا گوشت قصاب کو بطور اجرت دینا 
 
 
سوال 
عام طور پر دیہاتوں میں یہ بات رائج ہے کہ قربانی کا گوشت، سری پائے یا کھال قصاب کو قربانی کا جانور ذبح کرنے اور گوشت بنانے کی اُجرت کے طور پر دے دی جاتی ہے، کیا ان کا ایسا کرنا جائز ہے؟ 
 
 
 جواب 
ایسا کرنا درست نہیں کیونکہ قربانی میں سے کوئی بھی چیز کسی کو بطور اجرت دینا درست نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع کیا ہے ( گوشت بنانے کی مزدوری اپنی جیب سے دینی چاہئے، نہ کہ قربانی کے گوشت سے ) سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں 
ان النبى صلى الله عليه و سلم امره ان يقوم على بدنه وان يقسم بدنه كلها، لحومها وجلودها وجلالها ولا يعطى فى جزارتها شيئا . 
 ( بخاري، الحج، ما یتصدق بجلود الھدی ) 
 
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ آپ کی قربانی کے اونٹوں اور ان کے گوشت تقسیم کرنے کی نگرانی کریں، ان کے گوشت، کھالیں، اور جھولیں سب تقسیم کر دیں، ان کے ذبح کرنے کے عوض ( ان میں سے قصاب کو ) کچھ نہ دیں ۔ ‘‘ 
 
 ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ افکارِ اسلامی 
قربانی کے احکام و مسائل، 
صفحہ 503 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۳۱. ؛ 
قصائی کی اجرت الگ اپنی جیب سے دے کر، قربانی کا گوشت بطور ھبہ دے تو جائز ہے؟ 
 
 
قصائی کی اجرت قربانی کے گوشت یا اس کے کسی حصےّ سے دینا جائز نہیں ہے، جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ایک اونٹ کی قربانی کر کے اس کے گوشت وغیرہ کو صدقہ کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی حکم دیا کہ اس میں سے قصائی کو بطور اجرت کچھ نہ دیا جائے . 
 ( بخاري، حج / 120، 121 ( 1716- 1717 ) مسلم، حج / 61 ( 1317 )) 
 
 علی فرماتےہیں کہ " ہم لوگ قصائی کو اپنی جیب سے دیا کرتے تھے " 
 
حافظ ابن حجر بعض اہل علم سے نقل کرتے ہیں کہ 
 " إعطاء الجزار على سبيل الأجرة ممنوع لكونه معاوضة " 
 ( فتح البارى ( 3 / 650 )) 
 
 " قصائی کو معاوضہ ہونے کے سبب قربانی کے گوشت میں سے بطور اجرت دینا ممنوع ہے " 
 
امام نووی نے بھی یہی بات کہی ہے . 
 ( دیکھئے شرح مسلم للنووي ( 9 / 65 )) 
 
ابن قدامہ فرماتے ہیں 
 " اگر قصائی کو قربانی کے گوشت میں سے بطور صدقہ یا ھبہ دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ ایسی صورت میں وہ دوسروں کی طرح ایک عام آدمی ہے، اس لئے کہ اس جانور سے اس کا تعلق رہا ہے اور اس کی طبیعت اس کی خواہش کرتی ہے " 
 ( الشرح الكبير ( 5 / 209 )) ۔ 
 
بحوالہ 
قربانی کے احکام ومسائل قرآن و سنت کی روشنی میں 
شیخ عبدالعیم بن عبد الحفیظ سلفی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۳۲. ؛ 
اجرت الگ سے دے کر قربانی کا گوشت و پوست قصاب کو دینا جائز ہے اگر وہ مستحق ہے؟ 

 
”قربانی کا گو شت یا اس کی کھال قصاب کو بطور اجرت دینی درست نہیں ہے، اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ 
 
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے قربانی کی نگرانی پر مامور کرتے ہوئے حکم دیا کہ اس کے گوشت و پوست کو تقسیم کر دوں اور ان میں سے قصاب کو کچھ نہ دوں ۔ “ [ بخاري و مسلم ] 
 
لیکن اگر قصاب محتاج ہو تو بطور اجرت نہیں بلکہ بطور استحقاق اس کو بھی دیا جا سکتا ہے ۔ [ المغني 633 / 8 ] 
 
قربانی کے جانور کی کھال آدمی خود اپنی استعمال میں لا سکتا ہے، یعنی اس کا جوتا، مشکیزہ، جیکٹ وغیرہ بنا کر اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، اور اگر خود فائدہ نہ اٹھانا چاہے تو اسے صدقہ کر دے . [ مسند أحمد ] 
 
البتہ کھال فروخت کر کے اس کی قیمت سے خود انتفاع درست نہیں ہے ۔ 
شیخ عبد المنان عبد الحنان سلفی رحمہ اللہ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۳۳. ؛ 
کیا قربانی کی کھال کسی مالدار کو دی جا سکتی ہے؟ 
کیا قربانی کی کھال اور گوشت کا حکم ایک جیسا ہے؟ 
 
 
سوال 
قربانی کی کھال کسی مال دار دوست کو بطورِ ہدیہ دی جا سکتی ہے جیسے گوشت ہدیۃً دیا جاتا ہے؟ 
 
 
 جواب 
ہاں قربانی کی کھال کسی مال دار کو بطورِ ہدیہ دی جا سکتی ہے ۔ قربانی کے گوشت اور چمڑے کا حکم ایک جیسا ہے ۔ ابتداء میں جب رسول اللہﷺ نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرمایا تھا، تو صحابہ نے چمڑوں کی مشکیں بنانی بھی ترک کر دی تھیں ۔ اگر قربانی کا چمڑہ گوشت کا حکم نہ رکھتا تو صحابہ رضی اللہ عنہم مشکیں بنانا ترک نہ کرتے ۔ ( منتقی الاخبار ) 
 
ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی 
جلد 3، کتاب الصوم، صفحہ 419 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۳۴. ؛ 
سوال 
كيا قربانى كا گوشت يا کھال فروخت كى جا سكتى ہے؟ 
 
 
جواب 
نہ تو قربانى كا گوشت فروخت كيا جا سكتا ہے اور نہ ہى اس كى فروخت كى جا سكتى ہے كيونكہ شریعت نے انہيں استعمال كرنے كا جو طریقہ بتلايا ہے فروخت كرنا اس ميں شامل نہيں . 
 
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ كا فتوى 
”من جملہ قربانى كى كسى چيز كو بھی فروخت كرنا جائز نہيں نہ تو اس كا گوشت اور نہ ہى اس كا چمڑا خواہ قربانى واجب ہو يا نفلى ہو كيونكہ وہ ذبح كے ساتھ متعين ہو چكى ہے-” 
 ( المغنى، ج 13، ص 382 ) 
 
امام احمد رحمہ اللہ كا فتوى 
 " وہ اسے ( يعنى قربانى كے جانور كو ) فروخت نہيں كر سكتا ہے اور نہ ہى اس كى كوئى چيز ( گوشت يا كھال وغيرہ ) فروخت كر سكتا ہے . 
 
اور ( امام احمد ) مزيد فرماتے ہيں كہ 
 
’سبحان اللہ’ وہ اسے كيسے فروخت كر سكتا ہے جبكہ وہ اسے اللہ تبارك و تعالىٰ كے ليے مقرر كر چكا ہے-” ( ايضاً ) 
شیخ اکرم الہی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۳۵. ؛ 
دوسرے کی ملکیت کا جانور ذبح کرنے اور اس کا گوشت تقسیم کرنے کا حکم؟ 
 
 
اگر ذبح کرنے والا یہ جانتے ہوئے کہ یہ دوسرے کی ملکیت ہے اسے اپنی طرف سے ذبح کر دیتا ہے تو دونوں کی طرف سے قربانی نہیں ہوگی اور ذبج کرنے والے کے اوپر تاوان ہوگا جو اسی طرح کا جانور اسے دے گا تاکہ وہ قربانی کر سکے، الاّ یہ کہ وہ اسے معاف کر کے اسی طرح کے کسی دوسرے جانور کی قربانی کر لے، 
 
اور ایک قول کے مطابق صاحب جانور کی جانب سے قربانی ہو جائے گی، اور ذبح کرنے والے نے اگر گوشت کو تقسیم کر دیا ہے تو اس کے اوپر اس گوشت کا تاوان واجب ہوگا، 
 
اور گر ذبح کرنے والے کو یہ پتا نہ ہو کہ یہ دوسرے کا جانور ہے تو صاحبِ جانور کی طرف سے قربانی ہو جائے گی اور ذبح کرنے والے نے اگر گوشت کو تقسیم کر دیا ہے تو اس کے اوپر اس گوشت کا تاوان واجب ہوگا، الاّ یہ کہ صاحب جانور اس کی تقسیم سے راضی ہو جائے ۔ 
 
اگرکسی کی طرف سے نیّت نہیں کی ہے تو عدمِ نیّت کی وجہ سے کسی کی طرف سے قربانی نہیں ہوگی ۔ 
 
اور ایک قول کے مطابق صاحب جانور کی جانب سے قربانی ہو جائے گی اور ذبح کرنے والے نے اگر گوشت کو تقسیم کر دیا ہے تو اس کے اوپر اس گوشت کا تاوان واجب ہوگا، الاّ یہ کہ صاحب جانور اس کی تقسیم سے راضی ہو جا‏ئے . 
 
بحوالہ 
قربانی کے احکام ومسائل قرآن وسنت کی روشنی میں 
شیخ عبدالعیم بن عبد الحفیظ سلفی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۳۶. ؛ 
عورت ذبح کرے تو اس قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے؟ 

 
علامہ ابن باز رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں 
 " مرد کی طرح عورت بھی قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے ۔ 
عورت اگر مسلمان یا کتابیہ ہے اور اس نے شرعی طریقہ پر جانور ذبح کیا ہے تو اس کا گوشت کھانا جائز ہے ۔ 
 مرد کی موجودگی میں بھی عورت ذبح کر سکتی ہے، اس کے لئے مرد کا ہونا شرط نہیں ہے " 
 
بحوالہ 
قربانی کے احکام ومسائل قرآن وسنت کی روشنی میں 
شیخ عبدالعیم بن عبد الحفیظ سلفی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۳۷. ؛ 
کیا قربانی اور عقیقہ کے گوشت سے شادی دعوت کھلانا صحیح ہے؟ 
 
قربانی کا گوشت غیر مسلم حکام افسران اور امراء یا فاسق و فاجر مسلمانوں کو دیا جا سکتا ہے؟ 
 
 
سوال 
 ( 1 ) کیا قربانی اور عقیقہ کے گوشت سے شادی میں مہمانوں کی ضیافت کی جا سکتی ہے؟ 
 
 ( 2 ) قربانی کاگوشت غیرمسلم حکام افسران اورامراءیافاسق وفاجر مسلمانوں کودیا جاسکتا ہے؟ 
 
 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! 
 
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 
 
قربانی شرعا ایک مالی قربت اور طاعت و عبادت ہے اور یہ قربت و عبادت اس وقت ہوگی جبکہ قربانی کرنے والے کی نیت اور اس کا مقصد اصلی اور بالذات محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے معینہ دنوں میں بے عیب قربانی کےجانور کا خون بہانا ہے گوشت کھانا اور کھلانا اصلی نہ ہو ورنہ وہ گوشت کھانے کا جانور ہو کر رہ جائے گا قربانی کا جانور نہیں ہوگا ۔ 
 
عقیقہ کا اصل اور صحیح وقت بچہ کی بیدائش کا ساتواں دن ہے اور ایک کمزور روایت کے مطابق اس کے بعد چودھواں اور اکیسواں دن ہے بغیر عذر معقول اور مجبوری کے عقیقہ ساتویں دن سے اٹھا کر شادی کے موقع پر کرنا غلط کام ہے ۔ اسی طرح قربانی کو پہلے دن سے جو بہرحال افضل ہے محض شادی کی دعوت کے ارادے سے موخر کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ ایسا کرنا علامت ہے اس امر کی کہ قربانی کرنے والے کی نیت قربانی خالص طلب رضا الہی نہیں ہے بلکہ تبعا ایسا کر لیا جائے تو چنداں مضائقہ نہیں یعنی کبھی قربانی کے معینہ دنوں میں سے کسی دن شادی رکھ لی جائے اور قربانی کے گوشت سے دعوت کا فائدہ اٹھا لیا جائے تو مضائقہ نہیں ہوگا ۔ 
 
قربانی کے گوشت کے بارے میں بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے کئے جائیں ایک حصہ گھر والوں کے لئے دوسرا حصہ دوست و احباب و قرابت داروں کے لئے اور تیسرا فقرا و مساکین اور سائلین کے لئے ۔ 
 
قربانی کا گوشت غیر مسلم، بے عمل ضرورت مند بلکہ بد عمل مسلمان کو دیا جا سکتا ہے . 
واللہ اعلم 
 
مکتوب 
٭عقیقہ بلاشبہ سنت مؤکدہ ہے، قدرت اور وسعت ہوتے ہوئے چھوڑنا نہیں چاہیے ۔ اگر کسی واقعی مجبوری اور عذر کی وجہ سے وقت مقرر پر نہ کیا جائے تو اس کے بعد جب کبھی موقع ملے کر دینا چاہیے ۔ رہ گئی بات کہ کرنے اور نہ کرنے پر کیا حکم مرتب ہوتا ہے؟تو کرنے پر کسی خاص ثواب اور اجر وغیرہ کا ذکر نہیں آیا اور نہ کرنے پر یہ جملہ کچھ روشنی ڈالتا ہے 
لا احب العقوق اور عقیقہ کی حکمت و فلسفہ کرنے کے لئے امام ابن القیم کی کتاب تحفة المودود کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔ 
 
ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، 
جلد نمبر 2، كتاب الأضاحى والذبائح، 
صفحہ نمبر 407 
محدث فتوی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۳۸. ؛ 
 قربانی کے گوشت کو ولیمہ میں استعمال کرنا؟ 
 
 
سوال 
تاریخ 8 ذی الحجہ کو نکاح ہوا چوتھے دن قربانی کا گوشت دعوت ولیمہ میں خرچ کیا گیا کیا قربانی ادا ہو گئی؟ 
 
 
 جواب 
ایک شخص نذر مانے کہ میں جنوری کی پہلی تاریخ کو روزہ رکھوں گا، مگر اس روز رمضان کا چاند ہونے سے غرہ رمضان بھی ہے ۔ تو صاحب نظر روزہ رکھے ۔ دونوں ادا ہو جائیں گے ۔ ان شاء اللہ اسی طرح صورت مذکورہ میں مگر نیت نیک ہو ۔ 
 
شرفیہ 
امید جواز کی ہے ۔ مگر بشرط ادائے حق مساکین وغیرہ ( ابوسعید شرف الدین دہلوی ) 
 
ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
فتاویٰ ثنائیہ امرتسری 
 
جلد 2، ص 296 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۳۹. ؛ 
قربانی گوشت تین دن کے بعد بھی ذخیرہ کرنا کیا صحیح ہے؟ 
 
سوال 
كيا قربانی كا گوشت تين دن سے زياده ركھنا درست ہے؟ 
 
 
جواب 
 قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ محفوظ ( سٹور ) و ذخیرہ کیا جا سکتا ہے ۔ 
 
فرمانِ رسولﷺ ہے 
میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے سے منع کیا تھا لیکن اب جتنا ذخیرہ کرنا چاہو کر سکتے ہو‘‘ ۔ 
 ( صحیح مسلم 5077، سنن ابن ماجہ 3160 ) 
 
اور قربانی کی کھال کا مصرف بھی گوشت کی طرح ہی ہے ۔ 
شیخ اکرم الہی 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۴۰. ؛ 
دوران سفر قربانی کے ایام میں قربانی کر کے اس کا گوشت کھایا جا سکتا ہے؟ 
 
 
مسافر حالت سفر میں قربانی دے سکتا ہے، نبی ﷺ نے سفر میں قربانی دی ہے چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے 
 
ذبح رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ضحيتَه ثم قال ( يا ثوبانُ ! أصلِحْ لحمَ هذه ) فلم أزلْ أُطْعِمُه منها حتى قدمَ المدينةَ . 
 ( صحيح مسلم 1975 ) 
 
ترجمہ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کا ایک جانور ذبح کر کے فرمایا ثوبان! اس کے گوشت کو درست کر لو یعنی ساتھ لے جانے کے لیے تیار کر لو ۔ پھر میں وہ گوشت آپ کو کھلاتا رہا یہاں تک کہ آپ مدینہ تشریف لے آئے ۔ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۴۱. ؛ 
کیا قربانی کا گوشت ماہ محرم سے پہلے پہلے ختم کرنا ضروری ہے؟ 
 
 
سوال 
بعض لوگ کہتے ہیں کہ قربانی کا گوشت ماہِ محرم سے پہلے پہلے ختم کر دینا چاہئے، اس کے بارے میں وضاحت کر دیں؟ 
 
 
 جواب 
اس تحدید پر شریعت میں کوئی صراحت نہیں ملتی لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ محرم سے پہلے پہلے قربانی کا گوشت ختم کرنا ضروری ہے ۔ غرباء و مساکین کو کھلا دینے اور اُن کا حق ادا کر دینے کے بعد اگر گوشت تا دیر بھی رکھ لیا جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا 
 
كلوا و اطعموا و ادخروا 
 ( بخاري، الاضاحی، ما یوکل من لحوم الاضاحی و یتزود منھا، ح 5569 ) 
 
"خود کھاؤ، دوسروں کو کھلاؤ اور ذخیرہ بھی کر سکتے ہو ۔ ‘‘ 
 
 ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ افکارِ اسلامی 
قربانی کے احکام و مسائل، 
صفحہ 506 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۴۲. ؛ 
قربانی کا گوشت تقسیم نہ کر کے فریزر میں رکھ لینا کیا جائز ہے؟ 
 
 
سوال 
بعض لوگ گوشت تقسیم کرنے کی بجائے فریزر میں رکھ لیتے ہیں اور پھر ہفتوں خود ہی کھاتے ہیں . ؟ 
 
 
 جواب 
شروع شروع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے اور اسے کھانے سے منع کیا تھا ۔ بعد میں، جب تقریبا ہر شخص قربانی کرنے لگا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گوشت پس انداز کرنے کی اجازت دے دی 
 
لیکن غرباء اور مساکین کو فراموش کر دینا مزاجِ اسلام کے منافی ہے ۔ 
 
سورۃ الحج کی آیت 28 اور 36 میں خود کھانے اور دوسروں ( محتاجوں ) کو کھلانے کی تلقین موجود ہے ۔ 
 
جن احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے ان میں بھی قربانی کا گوشت دوسروں کو کھلانے کی تلقین ساتھ ساتھ موجود ہے ۔ مثلا صحیح بخاری میں ہے 
 
 ( كلوا و اطعموا و ادخروا ) 
 ( الاضاحی، ما یوکل من لحوم الاضاحی وما یتزود منھا، ح 5569 ) 
 
"خود کھاؤ، دوسروں کو کھلاؤ اور ذخیرہ کر لو ۔ ( اب اجازت ہے ۔ ) ‘‘ 
 
 ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ افکارِ اسلامی 
قربانی کے احکام و مسائل، 
صفحہ 505 
محدث فتویٰ 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۴۳. ؛ 
کیا قربانی کا گوشت قیامت کے دن لایا جائے گا؟ 
 
 
علی ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فاطمہ ؓ سے فرمایا 
 
تم اپنی قربانی کو دیکھو جس کے خون کے پہلے قطرے کے ساتھ ہر گناہ کی بخشش ہو جاتی ہے، قیامت کے دن اسے گوشت اور خون سمیت ستر ( ۷۰ ) گنا زیادہ کر کے لایا جائے گا پھر تمہارے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا . ( بہیقی ) 
 
یہ موضوع حدیث ہے ۔ 
 ( علامہ البانی ؒ نے اس روایت کو منکر کہا ہے ۔ الضعیفہ۵۲۸ ) 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۴۴. ؛ 
بانجھ بکری کی قربانی کا گوشت جائز ہے؟ 
 
 
سوال 
بانجھ بکری کی قربانی شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟ 
 
 
 جواب 
قربانی کے عیوب کی جو تفصیل کتب ِ حدیث میں بیان کی گئی ہے ۔ ان میں عقیم یعنی با نجھ پن کو بطورِ عیب بیان نہیں کیا گیا ۔ لہٰذا اس جانور کی قربانی کے جواز میں کوئی شبہ نہ ہونا چاہیے اور اہل علم اس کی قربانی کے جواز کے قائل ہیں ۔ چنانچہ مفتی عزیز الرحمن دیوبندی فرماتے ہیں کہ بانجھ جانور کی قربانی درست ہے ۔   ( فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج ۱، ص ۷۴ ) 
 
علاوہ ازیں ہمارے نزدیک جس طرح خصی جانور کی قربانی کا گوشت غیر خصی گوشت سے زیادہ لذیذ اور مرغوب ہوتا ہے ۔ اسی طرح بانجھ بکری کا گوشت مطفلہ بکری کے گوشت سے بہتر ہوتاہے ۔ لہٰذا اس کی قربانی میں شبہ کی ضرورت نہیں ۔ 
 
    ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب 
 
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی 
جلد 3، کتاب الصوم، صفحہ 408 
 
 
 ؛~~~~~~~~~~؛ 
 
۴۵. ؛ 
کیا گابھن ( حاملہ ) کی قربانی کرنا اور اس کا گوشت کھانا جائز ہے؟ 
 
 
سوال 
کیا حاملہ جانور کی قربانی کرنا جائز ہے؟ اور اگر جائز ہے تو جانور کے پیٹ میں موجود بچے کا کیا کیا جائے گا؟ 

 
جواب کا متن 
الحمد للہ 
 
اول 
عید کی قربانی اسلامی شعائر کا حصہ ہے، جوکہ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اجماع سے ثابت شدہ ہے، اس کا تفصیلی بیان فتوی نمبر ( 36432 ) میں گزر چکا ہے ۔ 
 
مزید عید کی قربانی سے متعلقہ شرائط فتوی نمبر ( 36755 ) میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ 
 
دوم 
علمائے کرام کے گھریلو جانوروں میں سے حاملہ جانور کی قربانی کرنے کے بارے میں مختلف اقول ہیں؛ چنانچہ جمہور علمائے کرام جواز کے قائل ہیں، اسی لئے انہوں نے قربانی کیلئے عدم اِجزاء [ یعنی قربانی نہ ہونے ] کا سبب بننے والے عیوب بیان کرتے ہوئے حمل کا ذکر نہیں کیا ۔ 
 
جبکہ شافعی فقہائے کرام نے حاملہ جانور کی قربانی کرنے سے منع کیا ہے ۔ 
 
الموسوعة الفقهية الكويتية ( 16 / 281 ) میں ہے کہ 
 
 " جمہور فقہائے کرام نے حمل کو عید کی قربانی کیلئے عیب قرار نہیں دیا، جبکہ شافعی فقہائے کرام نے حاملہ جانور کی قربانی نہ ہونے کی صراحت کی ہے؛ اسکی وجہ یہ ہے کہ حمل کی وجہ سے پیٹ خراب ہوجاتا ہے، اور گوشت اچھا نہیں رہتا " انتہی 
 
اور شافعی فقہ کی کتاب " حاشيۃ البجيرمی على الخطيب " ( 4 / 335 ) میں ہے کہ 
 
 " حاملہ جانور کی قربانی ناکافی ہوگی، یہی موقف [ فقہ شافعی میں ] معتمد ہے؛ کیونکہ حمل کی وجہ سے جانور میں گوشت کم ہوجاتا ہے، جبکہ زکاۃ کے ضمن میں حاملہ جانور کو کافی شمار کیا گیا ہے؛ کیونکہ زکاۃ میں اصل مقصد افزائش نسل ہوتا ہے، گوشت کی عمدگی کو نہیں دیکھا جاتا " کچھ تبدیلی کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا 
 
چنانچہ راجح یہی ہے کہ گھریلو جانوروں میں سے حاملہ جانور عید کی قربانی میں کفایت کریگا، بشرطیکہ اس جانور میں کوئی اور عیب موجود نہ ہو ۔ 
 
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں 
 " حاملہ بکری کی قربانی بھی ایسے ہی صحیح ہے، جیسے غیر حاملہ کی صحیح ہوتی ہے، بشرطیکہ قربانی سے متعلقہ بیان شدہ عیوب سے پاک ہو " انتہی 
 " فتاوى ورسائل شيخ محمد بن ابراہیم " ( 6 / 146 ) 
 
سوم 
مادہ جانور کے پیٹ سے بچہ اگر زندہ نکلے تو اسے بھی ذبح کرکے کھایا جاسکتا ہے ۔ 
 
ابن قدامہ " مغنی " ( 9 / 321 ) میں کہتے ہیں 
 " اگر بچہ ٹھیک ٹھاک زندہ حالت میں باہر آئے، اور اسکو ذبح کرنا بھی ممکن ہو، لیکن اسے ذبح نہ کیا جائے اور وہ مر جائے تو وہ کھانے کے قابل نہیں ہوگا، امام احمد کہتے ہیں " اگر بچہ زندہ باہر آئے تو اسے ذبح کرنا لازمی ہے، کیونکہ یہ ایک الگ جان ہے " " انتہی 
 
اور اگر بچہ مردہ حالت میں باہر آئے تو جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اسے کھایا جاسکتا ہے؛ کیونکہ وہ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے خود بھی ذبح ہوچکا ہے ۔ 
 
ابو داود ( 2828 )، ابن ماجہ ( 3199 )، احمد ( 10950 ) اور ترمذی ( 1476 ) نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور ترمذی نے صحیح بھی کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ( پیٹ میں بچے کو ذبح کرنے کیلئے اسکی ماں کو ذبح کرنا کافی ہے ) اس راویت کو البانی رحمہ اللہ نے بھی " صحيح الجامع " ( 3431 ) میں صحیح قرار دیا ہے ۔ 
 
جیسے کہ ہم پہلے بھی ذکر کر آئے ہیں کہ یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے، لیکن احناف اسکے مخالف ہیں ۔ 
 
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ " مجموع الفتاوى " ( 26 / 307 ) میں کہتے ہیں 
 " حاملہ جانور کی قربانی کرنا جائز ہے، اور اگر اسکا بچہ مردہ حالت میں باہر ہو تو شافعی، اور احمد وغیرہ کے ہاں اسکی ماں کو ذبح کرنا ہی کافی ہے، چاہے اسکے بال آئے ہوں یا نہ اور اگر زندہ حالت میں نکلے تو اسے بھی ذبح کیا جائے گا ۔ 
 
امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ اگر بال آگئے ہوں تو حلال ہوگا، اور اگر بال نہیں آئے تو حلال نہیں ہوگا ۔ 
 
اور ابو حنیفہ کے ہاں بچے کے باہر نکلنے کے بعد اس وقت تک حلال نہیں ہوگا جب تک اسے ذبح نہ کر دیا جائے " انتہی 
 
اس بارے میں پہلے تفصیل گزر چکی ہے کہ کچھ اہل علم نے طبی نقطہ نظر سے جنین [ پیٹ میں موجود بچہ ] کو کھانے سے کراہت کا اظہار کیا ہے، اس کیلئے فتوی نمبر ( 182410 ) دیکھیں . 
 
واللہ اعلم 
محمد صالح المنجد 

 
❀؛⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰؛❀ 

 
کتاب و سنت اور فہم سلف پر مبنی تحقیق و تخریج شدہ اور محققین کی دینی کتب و مقالات کی لنکس حاصل کر سکتے ہیں کبھی بھی کسی بھی وقت، ٹیلگرام چینل 
 
* " سلفی تحقیقی لائبریری " * 
 
میں جوائین ہوکر، سرچ کر کے 
 
بذریعہ ٹیلیگرام اس چینل میں جوائین کرنے کیلئے لنک 👇🏻 
 
 
~~~~ 
 
ٹیلی گرام اکاؤنٹ اوپن کرنے کیلئے حاصل کریں ٹیلی گرام کی ایپ نیچے کی لنک سے 👇🏻 
 
 " Telegram " 
 
~~~~ 
 
ثواب جاریہ کیلئے شئیر کریں . 
 
❀؛⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰؛❀ 
 
ختم شد 
 
 .