اتوار، 14 اپریل، 2024

حمزہ کا کلیجہ چبایا گیا ؟ مختلف علماء

.

کیا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چپایا گیا؟ 

مختلف علماء 

جمع کردہ 
سید محمد عزیر ادونوی 

~~~~~~~~~~~~~~؛ 
~~~~~~~~~~~~~~؛ 

ہندؓ بنت ِعتبہ کے متعلق مبالغہ آمیز قصہ! 

عبد الجبار سلفی 


عالم اسلام کے عام مؤرخین اور خصوصاً حاقدینِ بنی اُمیہ نے اپنی مؤلفات میں مرویاتِ محمد بن اسحق اور مسندامام احمد کی ایک روایت کی بنیادپرحضرت ہندؓ بنت ِعتبہ قرشیہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ اس نے جنگ ِاُحد میں حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کا پیٹ چاک کرکے اُن کا جگر چبا ڈالا تھا بلکہ اسے نگلنے کی کوشش بھی کی تھی اور سچی بات یہ ہے کہ ہم خود بھی ان لوگوں میں شامل رہے ہیں جو منبر و محراب پر ہند ِبنت عتبہ کی سنگدلی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور ہم آج تک اس قصے کو متفق علیہ سمجھتے رہے، تاآنکہ ہمیں فضیلة الشیخ ربیع بن ہادی عمیر مدخلی سابق پروفیسر مدینہ یونیورسٹی کی کتاب مطاعن سید قطب علی أصحاب رسول اﷲ ﷺ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب میں علامہ محمود شاکر مصری کا مقالہ بھی شامل ہے جو انہوں نے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں لکھا تھا۔
اس مقالے میں اُنہوں نے ایمان قبول کرکے اسلام کی خاطر زندگیاں وقف کردینے والے صحابہ کرامؓ کے تذکرے کے بعد ہند بنت ِعتبہ قرشیہ کے متعلق لکھا تھا کہ اگر ہند بنت عتبہ کے متعلق حضرت حمزہؓکے پیٹ چاک کرنے اور ان کے جگر کو چبانے کا قصہ صحیح ثابت ہوجائے تو پھربھی بہت کم ایسے مرد اور عورتیں نظر آئیں گی جن سے جاہلیت میں ایسے افعال سرزد نہ ہوئے ہوں ۔
جب ہم نے یہ الفاظ پڑھے تو ہمیں حد درجہ حیرانی ہوئی اور پھر ٹھنڈے دل سے سوچا کہ اصل حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ جتنا کسی کا گناہ یا قصور ہو، حکایتاً اسے اتنا ہی بیان کیا جائے اور مبالغہ آمیزی سے بچا جائے۔ ہم اسی فکرمیں تھے کہ ہمیں کویت سے شائع ہونے والا مجلہ 'اُمتی' مل گیا،ا س میں فضیلة الشیخ حای الحای کے مضمون پر نظر پڑی اور ہم نے اسے بالاستیعاب پڑھا۔ زیر نظر مضمون میں ہم اسے تمہید بناکر اس پر اپنی گذارشات پیش کریں گے۔اللہ کریم ہمیں اِفراط وتفریط سے بچائے اور حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سیدنا حمزہؓ بن عبدالمطلب ہاشمی کے بعد از شہادت پیٹ چاک کرنے اور ان کے جگر چبانے کے قصے کا دارومدار مسنداحمد کی اس مرسل اور منکر المتن روایت پر ہے جو بمع سند اس طرح ہے :

''حدثنا عفان حدثنا حماد حدثنا عطاء بن السائب عن الشعبي عن ابن مسعود أن النساء کنَّ یوم أحد خلف المسلمین یُجھزن علی جرحیٰ المشرکین،فلو حلفت یومئذ رجوت أن أبرَّ: أنه لیس أحد منا یرید الدنیا حتی أنزل اﷲ عزوجل {مِنكُم مَّن يُرِ‌يدُ ٱلدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِ‌يدُ ٱلْءَاخِرَ‌ةَ ۚ ثُمَّ صَرَ‌فَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ...﴿١٥٢﴾...سورة آل عمران فلمَّا خالف أصحاب النبي ! وعصوا ما أمروا به أفرد رسول اﷲ ! في تسعة، سبعة من الأنصار ورجلین من قریش وھو عاشرھم، فلما رھِقوہ قال: (رحم اﷲ رجلا ردَّھم عنا) قال: فقام رجل من الأنصار فقاتل ساعة حتی قُتل فلمَّا رھقوہ أیضًا قال: (یرحم اﷲ رجلا ردّھم عنا) فلم یزل یقول ذا حتی قتل السبعة فقال النبي ! لصاحبه(ما أَنْصَفْنَا أصحابَنا)۔ فجاء أبوسفیان، فقال: اُعلُ ھبل! فقال رسول اﷲ !: (قولوا: ''اﷲ أعلیٰ وأجلّ'') فقالوا: اﷲ أعلی وأجل فقال أبوسفیان لنا عزّٰی ولاعزّٰی لکم۔ فقال رسول اﷲ ! قولوا: (اﷲ مولـٰنا والکافرون لا مولیٰ لھم)،ثم قال أبوسفیان: یومٌ بیومِ بدر، یوم لنا ویوم علینا، ویوم نُسَاء ویومٌ نُسَرُّ،حنظلة بحنظلة، وفلان بفلان،وفلان بفلان فقال رسول اﷲ ! : (لا سواء أما قتلانا فأحیَاء یُرزقون، وقتلاکم في النار یُعذَّبون) قال أبوسفیان: قد کانت في القوم مثلة، وإن کانت لَعَنْ غیر ملإ منا ما أمرت ولا نھیت، ولا أحببتُ ولا کرھتُ، ولاسَائَنِـيْ وَلاَ سَرَّنِيْ قال: فنظروا،فإذا حمزة قد بُقِرَ بطنه، وأخذت ھند کبدہ فَلاَکتْھا، فلم تستطع أن تأکلھا، فقال رسول اﷲ !: (أ أکلت منه شیئًا؟) قالوا:لا، قال: (ما کان اﷲ لیُدخل شیئًا من حمزة النار)، فوضع رسول اﷲ ! حمزة فصلي علیه، وجيء برجل من الأنصار فوضع إلی جنبه فصلي علیه فَرُفع الأنصاري وتُرِك حمزة ثم جيء بآخر فوضعه إلی جنب حمزة فصلي علیه ثم رُفع وتُرك حمزة حتی صلي علیه یومئذ سبعین صلاة1

''امام احمد رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں عفان نے حماد کے حوالے سے اور حماد نے ان کو عطا بن سائب کے حوالے سے بیان کیا کہ شعبی کے ذریعے حضرت ابن مسعودؓ سے روایت منقول ہے کہ جنگ ِاُحد کے دن مسلمان عورتیں مسلمانوں کے پیچھے تھیں اور وہ مشرکین کے زخمیوں پرحملہ آور ہوکر ان کا کام تمام کردیتی تھیں ، اور اگر میں اس دن حلف اُٹھا کرکہتا کہ ہم میں سے کوئی بھی دولت دنیا کا ارادہ نہیں رکھتا تھا تو میں پُرامید تھا کہ میں سچا ثابت ہوں گا یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمادی مِنكُم مَّن يُرِ‌يدُ ٱلدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِ‌يدُ ٱلْءَاخِرَ‌ةَ ۚ ثُمَّ صَرَ‌فَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ...﴿١٥٢﴾...سورة آل عمران جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپؐ کے حکم کی خلاف ورزی کی تو آپؐ ۹ صحابہ کے ساتھ ایک طرف ہوگئے، ان میں سات انصاری تھے اور دو قریشی اور ان میں دسویں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے۔ جب کفار قریش نے آپؐ کو نرغے میں لے لیا تو آپؐ نے فرمایا: اللہ اس آدمی پر رحم فرمائے جو اُنہیں ہم سے دور ہٹا دے، راوی کہتا ہے کہ انصار میں ایک صحابیؓ آگے بڑھا اور گھڑی بھر لڑتا ہوا شہید ہوگیا، جب اُنہوں نے پھر گھیرا تنگ کیا تو آپؐ نے فرمایا: اللہ اس آدمی پر رحم فرمائے جو اُنہیں ہم سے دور ہٹا دے۔ آپؐ اسی طرح فرماتے رہے یہاں تک ساتوں انصاری یکے بعد دیگرے لڑتے شہید ہوگئے، تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔ چنانچہ ابوسفیان آیا اور کہنے لگا ۔ اُعل ھبل (ہبل کا اقبال بلند ہو)۔ آپؐ نے فرمایا: تم کہو : اﷲ أعلیٰ وأجل(اللہ تعالیٰ اعلیٰ اور بزرگ تر ہے)۔ ابوسفیان نے کہا: لنا عزیٰ وعزیٰ لکم (ہمارا عزیٰ ہے تمہارا عزیٰ کوئی نہیں )۔ آپؐ نے فرمایا: تم جواب دو: اﷲ مولانا ولا مولیٰ لکم (ہمارا مولیٰ اللہ ہے اور تمہارامولیٰ کوئی نہیں ) پھر ابوسفیان نے کہا: آج کا دن یومِ بدر کے بدلہ کا ہے۔ کوئی دن ہمارے لئے اور کوئی دن ہمارے برخلاف، کسی دن ہم بے وقعت اور کسی دن ہم خوش بخت، حنظلہ کے بدلے حنظلہ کے، فلان کے بدلے فلان کے ، اور فلان کے بدلے فلان کے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کسی طرح سے برابری نہیں ، ہمارے مقتول تو زندہ ہیں اور رزق دیئے جاتے ہیں جبکہ تمہارے مقتول دوزخ میں عذاب دیئے جارہے ہیں ۔ ابوسفیان نے کہا: قوم میں کچھ افراد کے ناک، کان کاٹے گئے ہیں اور یہ ہمارے سرکردہ جنگجوؤں کاکام نہیں ہے، نہ میں نے اس طرح کرنے کا حکم دیا ، نہ اس طرح کرنے سے روکا اور نہ میں نے اسے پسند کیا اور نہ ہی بُرا سمجھا اور نہ تو یہ منظر مجھے بُرا لگا اور نہ ہی اچھا ۔ راوی کہتا ہے کہ جب اُنہوں نے دیکھا تو حضرت حمزہؓ کا پیٹ پھاڑا گیاتھا اور ہند نے ان کاجگر چبایا، لیکن اسے نگل نہ سکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس نے اس سے کچھ کھایا ہے؟ صحابہؓ نے جواب دیا: نہیں ۔آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ وہ حمزہؓ کے بدن کے کسی جز کو آگ میں داخل کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حمزہؓ کو سامنے رکھ کر ان کی نمازِ جنازہ پڑھی، اسی دوران ایک انصاری شہید لایا گیا اور اسے سیدنا حمزہ کے پہلو میں رکھ دیا گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی نمازِ جنازہ پڑھی، پھر انصاری کو اُٹھالیاگیا اورسیدنا حمزہؓ کو چھوڑ دیاگیاپھر دوسرے شہیدانصاری کولایا گیا اور اسے حمزہؓ کے پہلومیں رکھ دیا گیا اور ان پر نمازِ جنازہ پڑھی گئی پھر اسے اًٹھا لیاگیا اور حمزہؓ کو چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ اس روزسیدنا حمزہؓ پر ستر مرتبہ نمازِ جنازہ پڑھی گئی۔ ''
یہ طویل حدیث جسے محدثِ مصر علامہ احمد شاکر نے سہواً صحیح قرار دیا ہے ، یہ دو اعتبار سے ضعیف بھی ہے اور شاذ بھی اور منکربھی ہے۔ضعیف تو اس اعتبار سے کہ اس روایت کے راوی امام شعبی کا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ جیسا کہ امام ابو محمد عبدالرحمن بن حاتم رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ ابوحاتم رازی سے سنا ، وہ فرماتے تھے کہ شعبی نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے سماع نہیں کیا اور شعبی رحمة اللہ علیہ حضرت عائشہؓ کے حوالے سے جو کچھ بیان کریں گے، وہ مرسلا ًہی ہوگا۔ البتہ حضرت مسروق حضرت عائشہؓ سے روایت کیا کرتے تھے۔ 2
اس بنا پر یہ روایت منقطع ثابت ہوئی۔ مزید برآں اس حدیث میں عطا بن سائب کی وجہ سے بھی ضعف ہے۔ چنانچہ امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اپنی تاریخ میں اس روایت کوذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : تفردبه أحمد وھذا إسناد فیه ضعف أیضا من جھة عطاء بن السائب ۔3
'' اس روایت کو بیان کرنے میں امام احمد منفرد ہیں اور اس میں عطاء بن سائب کی وجہ سے ضعف بھی ہے۔''
امام ہیثمی رحمة اللہ علیہ مجمع الزوائد میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وفیه عطاء بن سائب وقد اختلط 4

اگرچہ علامہ احمد شاکر رحمة اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ روایت اختلاط سے قبل کی ہے، لیکن ان کااختلاط روایت ِ مذکورہ میں اظہر من الشمس ہے اور وہ اس طرح کہ صحیح بخاری ودیگر کتب ِصحاح میں مسلمان عورتوں کے مشرکین زخمیوں پرحملہ آور ہونے کا ذکرنہیں ہے جبکہ یہاں اس بات کا ذکر ہے کہ مسلمان عورتیں زخمی مشرکوں پرحملہ آور ہو رہی تھیں ۔
صحیح احادیث میں : یوم لنا ویوم علینا، ویوم نُسَاء ویوم نُسَرُّ، حنظلة بحنظلة وفلان بفلان کا ذکر بھی نہیں ہے جبکہ اس روایت میں مسجع ومقفیٰ عبارت موجود ہے جو خود ساختہ معلوم ہوتی ہے۔
اس روایت میں ذکر ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان نے جواب میں خود فرمایا: لا سواء أما قتلانا فأحیاء یُرزقون وقتلاکم في النار یُعذَّبون جبکہ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ حضرت عمربن خطابؓ نے اس مفہوم کا جواب دیا تھا۔
اس روایت میں اس بات کا ذکر ہے کہ ابوسفیان نے پہلےأعلُ ھُبل کانعرہ لگایا تھا جبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ اس نے دامنِ اُحد میں کھڑا ہوکر پوچھا تھا کہ تم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے؟ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہے؟ کیا تم میں ابن خطاب ہے، پھر اس کے بعد اس نے أعلُ ھبل کہا تھا۔
اس روایت میں ہے کہ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداے اُحد کی فرداً فرداً نمازِ جنازہ پڑھی اور حضرت حمزہؓ کی ستر مرتبہ نمازِ جنازہ پڑھی جبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ آپؐ نے شہداے اُحد کو نہ توغسل دیا تھااور نہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی تھی بلکہ اُنہیں خود شہادت سمیت دفن کردیا تھا۔ علاوہ ازیں اس میں کئی ایسی باتیں اوربھی ہیں جو اس روایت کے شاذ ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔
اس روایت کامتن بھی منکر ہے اور وہ اس طرح کہ اس روایت میں ذکر ہے کہ آپ نے پوچھا: (أ أکلت منھا شیئا؟) قالوا: لا، (قال ما کان اﷲ لیدخل شیئًا من حمزة النار) اس روایت کامدعا ہے کہ ہندبن عتبہ اسلام قبول نہیں کرے گی اور جہنم میں داخل ہوگی کیونکہ اللہ نے حمزہؓ بن عبدالمطلب کے بدن کے کسی جز کو ایسے بدن میں داخل نہیں ہونے دیا جو آگ میں جلنا ہے۔ جبکہ صحیح بخاری جیسی کتب ِصحاح میں صحیح الاسناد روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندؓ نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا اور ساری زندگی اسلام و ایمان پرقائم رہی بلکہ فتح الباری میں امام ابن حجرعسقلانی رحمة اللہ علیہ نے یہ بھی بیان کیا ہے: کہ وکانت من عقلاء النساء اور پھر حضرت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دیتے وقت اس کی گفتگو سے اس کی دانش مندی پرکئی پہلوؤں سے استدلال کیا۔ 5

اگرچہ مذکورہ بالا روایت کے بعض مندرجات کی دیگر شواہد احادیث میں تائید موجود ہے لیکن ہند کے حضرت حمزہؓ کے پیٹ چاک اور ان کا جگر چبانے کی بات کسی طرح بھی صحیح طور سے ثابت نہیں ہوتی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا حمزہؓ بن عبدالمطلب جیسے اسد اللہ واسد رسولہ کی شہادت نہایت الم ناک ہے، لیکن اس میں مرکزی کردار حضرت جبیر بن مُطعم کا ہے جس نے اپنے چچا طعیمہ بن عدی کا بدلہ لینے کے لئے وحشی بن حرب کو خصوصی طور پر مشن سونپا تھا اور اس نے محض اپنی آزادی کی خاطر بزدلانہ حملہ کرکے آپ کو شہید کردیا تھا۔

باقی رہی یہ بات کہ شہداے اُحد کامثلہ تو ہواتھا تو ہم بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ یقینا ان کامثلہ ہواتھا، لیکن یہ سارا کام صرف ہند بنت ِعتبہ قرشیہ نے سرانجام نہ دیاتھا بلکہ اس کے ساتھ دیگر خواتین یا مشرکین بھی شریک تھے جواس گھناؤنے جرم کاارتکاب کرتے رہے، لیکن جہاں تک پیٹ چاک کرکے کلیجہ یا جگر چبانے یاشہداے کرام کے ناک، کان کاٹ کر ہار بنانے اور اسے گلے میں لٹکانے اور پھر اس وحشی بن حرب کو ہدیہ دینے جیسی روایات منقول ہیں تو ایک طرف تو وہ سنداً صحیح نہیں ، دوسری طرف فطرتِ انسانی بھی اِنہیں قبول کرنے سے اِبا کرتی ہے اور عقل سلیم بھی اسے تسلیم نہیں کرتی، کیونکہ وحشی بن حرب کی حضرت حمزہؓ سے دشمنی نہ تھی۔ وہ توجبیر بن مطعم کا غلام تھا اور حضرت حمزہؓ نے جبیر بن مطعم کے چچا طعیمہ بن عدی کو جنگ ِبدر میں قتل کیاتھا، اس لئے جبیر نے اپنے چچا کاانتقام لینے کے لئے وحشی کو آزادی کا لالچ دے کر حضرت حمزہؓ کے قتل پرآمادہ کیا تھا۔ اوراس نے محض اپنی آزادی کی خاطر یہ بزدلانہ اور گھناؤنا جرم کیا تھا، لہٰذا اسے کٹے ہوئے اعضاے انسانی اپنے گلے میں پہننے کی ضرورت ہی نہ تھی، اسے تو آزادی کی ضرورت تھی جو اسے مل گئی۔ نہ وہ ہند بنت ِعتبہ کا غلام تھا اور نہ ہی ہند نے اسے حضرت حمزہؓ کے قتل پر آمادہ کیاتھا، اسے تو جبیر بن مطعم کا منصوبہ کام دے گیا۔

بعدازاں حضرت جبیرؓ بن مطعم اور ہندؓ بنت عتبہ اور وحشی ؓبن حرب نے اسلام قبول کرلیا اور اسلام کی خاطر شاندار خدمات سرانجام دیں ۔ فتح الباري اور الاصابہ وغیرہ میں شرح و بسط سے ان کے قبولِ اسلام کا قصہ مرقوم ہے۔اگر ہندؓ بنت عتبہ نے حضرت حمزہؓ کے جسد ِ اطہر سے ایسا سلوک کیاہوتا تو حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبولِ اسلام کے وقت ایسا تو کہہ دینا تھا کہ ہند تیرا اِسلام تو قبول ہے، لیکن اُٹھ کرچلی جا اور آئندہ میرے سامنے نہ آنا، کیونکہ مجھے شہید چچا کی المناک شہادت یاد آجایاکرے گی، لیکن آپؐ نے ایسا نہیں فرمایا بلکہ اس کے بجائے طبقاتِ ابن سعد :8؍171میں منقول ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: یا رسول اﷲ! الحمد ﷲ الذي أظھر الدین الذي اختار لنفسه لتنفعني رحمك یا محمد! إني إمرأة مؤمنة باﷲ مصدقة برسوله''
''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! تمام طرح کی حمدوثنا اللہ کے لئے جس نے اس دین کو غالب کردکھایا جسے اس نے اپنے لئے پسند کیا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے (عفو و درگزر) کی صورت میں آپؐ سے قرابت داری کا نفع ملنا چاہئے۔ میں اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والی عورت ہوں ۔''
بعد ازاں اس نے کہا:
'' میں ہند بنت ِعتبہ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرحبًا بکِ '' (خوش آمدید)
پھر وہ یوں گویاہوئی: ''واﷲ ما کان علی الأرض أھل خباء أحب إلي من أن یذلوا من خبائك۔ ولقد أصبحتُ: وما علی الأرض أھل خباء أحب من أن یعزوا من خبائك''
''اللہ کی قسم! روے زمین پر مجھے آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کا ذلیل ہونا محبوب نہ تھا اور آج میری کیفیت یہ ہے کہ روے زمین پر مجھے آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کا عزت دار ہونا محبوب نہیں ۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وزیادة اور بخاری کی روایت میں وأیضًا والذي نفسي بیدہ
پھر اس نے جہادِ یرموک مںل جو بے مثال خدمات سرانجام دیں ، وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں ۔

حوالہ جات
1. (1؍463)
2. دیکھئے 'کتاب المراسیل': 6 ؍ 591
3. التاریخ از حافظ ابن کثیر :4؍40،41
4. (6؍110)
5. (7؍141)

محدث لاہور  ، اکتوبر ۲۰۰۸ 

~~~~~~~~~~~~~~؛ 

ہند بنت عتبہ کا حمزہ بن عبدالمطلب کے کلیجہ چبانے کا جھوٹا قصہ 


روایت :: أخبرنا عبد الله بن الحسن الحراني قال: نا النفيلي قال: نا محمد بن سلمة عن محمد بن اسحق قال: قد وقفت هند بنت عتبة كما حدثني صالح بن كيسان والنسوة الآتون معها يمثلن بالقتلى من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يجدعن الآذان والآناف حتى اتخذت هند من آذان الرجال وأنافهم خذماً وقلائداً، وأعطت خذمها وقلائدها وقرطيها وحشياً غلام جبير بن مطعم، وبقرت عن كبد حمزة فلاكتها فلم تستطيع أن تسيغها، ثم علت على صخرة مشرفة فصرخت بأعلى صوتها وقالت، من الشعر حين ظفروا بما أصابوا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم:نحن جزيناكم بيوم بدرفأجابتها هند بنت أثاثة بن عباد بن المطلب بن عبد مناف فقالت:والحرب بعد الحرب ذات سعر ما كان لي عن عتبة من صبر ولا أخي وعمه وبكر شفيت نفسي وقضيت نذري * شفيت وحشي غليل صدري فشكر وحشي علي عمري * حتى ترم أعظمي في قبري ««سيرة ابن إسحاق (كتاب السير والمغازي)»»


ابن اسحاق سے مروی ہے کہ مجھ سے صالح بن کیسان نے بیان کیا کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھ شریک خواتین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہدا ساتھیوں کا مثلہ کرنے لگیں ، وہ ان کے ناک اور کان کاٹ رہی تھیں‌، یہاں‌تک کہ ہند رضی اللہ عنہا نے جو اپنے ہار ، پازیب اور بالیاں وغیرہ وحشی کو دے چکی تھیں ، ان شہدا کے کٹے ہوئے ناکوں اور کانوں کے پازیب بنائے ہوئی تھیں اور انہوں نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہا کا کلیجہ چیر کر نکالا اور چبانے لگیں‌، لیکن اسے بآسانی حلق میں اتار نہ سکیں تو تھوک دیا ۔ پھر ایک اونچی چٹان پر چڑھ گئیں اور بلند آواز سے چیختے ہوئے کہا :

'' ہم نے تمہیں یومِ بدر کا بدلہ دے دیا ، جنگ کے بعد جنگ جنون والی ہوتی ہے ، عتبہ کے معاملے میں مجھ میں صبر کی سکت نہ تھی ، اور نہ ہی اپنے بھائی اور اس کے چچا ابوبکر پر میں نے اپنی جان کو شفا دی اور انتقام کو پور کیا ، وحشی تو نے میرے غصہ کی آگ بجھا دی ، پس وحشی کا مجھ پر عمربھراحسان رہے گا ، یہاں‌تک کہ قبر میں میری ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں‌''

تخریج : ابن اسحاق نے اسے السیرتہ(ج 3 ص36) میں روایت کیا ہے ۔ اس کی سند ضعیف ہے ، مرسل ہے (انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے )

یہ قصہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ (ج 4 ص37)میں نقل کیا ،
پھر فرمایا :


وذكر موسى بن عقبة: أن الذي بقر عن كبد حمزة وحشي فحملها إلى هند فلاكتها فلم تستطع أن تسيغها فالله أعلم.


'' موسی بن عقبہ نے ذکر کیا کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ وحشی نکال کر ہند بنت عتبہ کے پاس لائے تھے ، انہوں نے اس کو چپایا ، لیکن نگل نہ سکیں‌۔

(ترجمہ:: محمد صدیق رضا / تخریج حدیث :: حافظ زبیر علی زئی )

ابن کثیررحمہ اللہ تعالی نے اپنی تاریخ میں ابن اسحاق سےبھی نقل کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ھند نے عورتوں کے ساتھ ملکر مثلہ کیا ، جبکہ ابن کثیر والی روایت میں‌ہے کہ وحشی نے کلیجہ نکال کر ہند کو دیا تھا ۔ جبکہ دونوں روایتیں ہی انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہیں

شیخ عدیل سلفی 

~~~~~~~~~~~~~~؛ 

سوال 
کیا سیدہ ہند رضی اللہ عنہا نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا؟ 

الجواب 
بعض لوگ مسند احمد (٤٤١٤) اور مصننف ابن ابی شیبہ (١٠٠٧٢) کی روایت پیش کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ اور سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ، سیدہ ہند رضی اللہ عنہا نے ان کا کلیجہ چبایا تھا۔

حالانکہ اس روایت کی سند منقطع ہے، عامر بن شراحیل شعبی جو اس روایت کو سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کبھی سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کوئی روایت سنی ہی نہیں۔

بعض لوگوں نے اپنی نادانی کی بنا پر مسند احمد کے محققین سے اس روایت کی صحت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ محققین نے صاف لکھا ہے کہ اس کی سند منقطع ہے، البتہ یہ لمبی حدیث ہے، جس میں کئی ایک باتیں دیگر صحیح وحسن احادیث سے ثابت ہیں، اس لیے انہوں نے اس روایت کو مجموعی اعتبار سے حسن لغیرہ کہا ہے۔

علم تخریج وتحقیق حدیث سے ادنی تمسک رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ مجموعی اعتبار سے کسی روایت کو حسن یا صحیح قرار دینے سے اس کے ہر ہر لفظ کی تحسین یا تصحیح کشید نہیں کی جا سکتی۔

لہذا مسند احمد کے محققین کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے سیدہ ہند رضی اللہ عنہا پر سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبانے کے الزام کی تصدیق کی ہے، انتہائی غلط بات ہے۔

دکتور حافظ ابو یحیٰی نورپوری 

.

ہفتہ، 24 فروری، 2024

ماہ شعبان اور من گھڑت رسوم و بدعات افروز سلفی

 . 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

ماہ شعبان اور من گھڑت رسوم و بدعات 

از قلم : 
افروز عالم بن ذکراللہ سلفی ، گلری 


~~~~~~~~~~~~~~؛ 


ماہ شعبان بڑی عظمت والا مہینہ ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اس لیے مسلم ہے کہ یہ ماہ رمضان کے مقدس و متبرک مہینہ کے لیے گویا بطور تمہید ہے ـ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ماہ شعبان میں رمضان کو چھوڑ کر بقیہ مہینوں کی بنسبت زیادہ روزے رکھتے تھے ـ 
 
ماہ شعبان کو چار حرمت والے مہینوں میں شمار کرنا درست نہیں ، اس پورے مہینے میں آپ صلّی اللہ علیہ و سلم نے جس عبادت کا خاص طور پر اہتمام کیا وہ " روزہ " ہے ـ کسی ایک دن کے ساتھ اس کو خاص نہیں کیا اور نہ ہی اس مہینے کے کسی ایک دن کے روزے کی کوئی فضیلت بیان کی ـ 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ـ 

 " كانَ أحبَّ الشُّهورِ إلى رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أن يصومَهُ شَعبانُ ، بل كانَ يصلُهُ برَمضانَ " 

 ( أخرجه أبو داود ( 2431 ) ، والنسائي ( 2350 ) واللفظ له ، وأحمد ( 25548 ) وصححه الألباني رحمه الله فى صحيح ابى داود 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو روزوں کے لئے سب سے محبوب مہینہ شعبان تھا پھر آپ شعبان کے روزوں کو رمضان المبارک کے روزوں سے جوڑ دیتے تھے ـ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ماہ شعبان کے اکثر ایام روزے سے ہوتے تھے ـ 
لھذا امت مسلمہ کو بھی ماہ شعبان کے اکثر روزے رکھنے چاہیے نیز کچھ ایسی بھی روایات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن اپنے گزشتہ رمضان کے چھوڑے ہوئے قضا شدہ روزے ماہ شعبان میں رکھتی تھیں ، پس جو خواتین رمضان کی قضا شدہ روزے ماہ شعبان سے قبل ادا نہ کر سکیں تو وہ لازماً ماہ شعبان میں ادا کریں تاکہ نئے رمضان سے قبل وہ اس فریضے کو انجام دے سکیں ـ 



شعبان کے پندرہویں رات کی شرعی حیثیت : ـ 

~~~~~~~~~~~~~~؛

شعبان کے پندرہویں رات کے تعلق سے کیا صحیح ہے اور کیا غلط ؟؟ 

اس سلسلے میں وارد احادیث ضعف اور وضع سے خالی نہیں ، صرف ایک حدیث جو گرچہ طعن سے خالی نہیں ہے مگر علامہ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک اس کے سارے طرق ملانے کے بعد درجہ استناد کو پہنچتی ہے ـ 

حدیث : ـ 
 " ( إنَّ اللَّهَ ليطَّلعُ ليلةِ النِّصفِ من شعبانَ فيغفرُ لجميعِ خلقِه إلَّا لمشرِك أو مشاحِنٍ " ) 

 ( سلسلہ الاحادیث الصحیحہ 136 / 03 حدیث نمبر : 1144 ) 

اس کے علاوہ جتنی احادیث ماہ شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت میں بیان کی جاتی ہیں اور انھیں اخبارات اور محفلوں کی زینت بنایا جاتا ہے وہ سب انتہائی کمزور بلکہ من گھڑت ہیں ـ 

مذکورہ بالا حدیث میں پندرہویں شعبان کی فضیلت دوسری راتوں کے مقابلے میں بالکل ثابت نہیں ہے اس لئے کہ صحیحین کی حدیث کے مطابق ایسا بلکہ اس سے زیادہ فضیلت ہر رات کی توبہ و استغفار کو حاصل ہے ـ 

چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے : ـ 

 " يَنْزِلُ رَبُّنا تَبارَكَ وتَعالَى كُلَّ لَيْلةٍ إلى السَّماءِ الدُّنْيا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ ، يقولُ : مَن يَدْعُونِي ، فأسْتَجِيبَ له؟ مَن يَسْأَلُنِي فأُعْطِيَهُ؟ مَن يَستَغْفِرُني فأغْفِرَ له؟ " 

أخرجه البخاري ( 1145 ) ، ومسلم ( 758 ) ، وأبو داود ( 1315 ) ، والترمذي ( 446 ) واللفظ له ، والنسائي في ( ( السنن الكبرى ) ) ( 10310 ) ، وابن ماجه ( 1366 ) ، وأحمد ( 7792 ) . 

وفی روایۃ لمسلم : ـ 
 ( " فلا يزالُ كذلِكَ حتَّى يضيءَ الفجرُ " ) 

ہمارا رب جو بابرکت اور بلندی والا ہے ہر رات کا جب تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو وہ آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے پھر کہتا ہے : 

کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا قبول کروں ؟؟ 

اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟؟ 

اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اس کو معاف کردوں ؟؟

صحیح مسلم کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ : 

 " پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجر روشن ہو جاۓ ـ " 

اس صحیح حدیث کی روشنی میں یہ فضیلت ہر رات کو نصیب ہو سکتی ہے ـ 

لہذا اسے شعبان کی پندرہویں رات کے ساتھ خاص کرنا یقیناً غلط اور حدیث نبوی کے مفہوم سے عدم واقفیت کی دلیل ہے ـ 



ایک غلط فہمی کا ازالہ : ـ 

~~~~~~~~~~~~~~؛

جو لوگ اس رات کی خصوصی فضیلت کے قائل ہو کر اس میں قیام نماز کا اہتمام کرتے ہیں وہ سورہ " الدخان " کی آیت کریمہ
 " انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ " 
میں " لیلۃ مبارکۃ " سے پندرہویں شعبان کی رات مراد لیتے ہیں جب کہ اس سے مراد " شب قدر " ہے ، اور اس کی تائید سورۃ القدر کی آیت 
 " انا انزلناہ فی لیلۃ القدر " 
سے ہورہی ہے ـ 

جمہور علماء کی یہی راۓ ہے کہ اس سے مراد شب قدر ہے نہ کہ شعبان کی پندرہویں رات
کیونکہ قرآنی توضیح کے مطابق نزول قرآن رمضان میں ہوا تھا نہ کہ شعبان میں لہذا لیلۃ مبارکۃ سے " شب قدر " ہی مراد لی جاسکتی ہے ـ 
 ( تفسیر ابن کثیر 245 / 06, فتح القدیر 298 / 04 ) ـ 



ماہ شعبان رسوم و بدعات : ـ 

~~~~~~~~~~~~~~؛


 ( 1 ) شب برات کا اہتمام : ـ 
…………………………………؛

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ 
اس رات گناہ بخشے جاتے ہیں ، اسی کو بنیاد مان کر بعض غلو پسند حضرات رات گزار کر بلند آواز سے دعائیں کرتے ہیں ان دعاؤں کو لوگوں نے از خود گڑھ لیا ہے ، قبروں کی زیارت کرتے ہیں جب کہ اس رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی مخصوص عمل ثابت نہیں ہے ـ 
 ( لطائف المعارف 139 / 01 ) 


 ( 2 ) حلوہ بنانا : ـ 
…………………………………؛

پندرہویں شعبان کو حلوہ بنانا اس مناسبت سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دندان مبارک شہید ہوگیا ، اس لئے آپ کو حلوہ کھلایا گیا ، اس لیے ہم بھی اسی کی یاد میں ایسا کرتے ہیں ـ 

اولا تو یہ حدیث موضوع و من گھڑت ہے لیکن اگر یہ بات تسلیم کرلیں کہ آپ صلّی اللہ علیہ و سلم کے دندان مبارک شہید ہونے کی وجہ سے حلوہ پکایا جاتا ہے تو آپ صلّی اللہ علیہ و سلم کے دندان مبارک جنگ احد شوال المکرم سن ٣ / ہجری میں شہید ہوے تھے نہ کہ پندرہ شعبان کو ـ 
اور ماہ شوال میں کوئی حلوہ نہیں پکاتا ، لہذا شب برات کو مخصوص عمل سمجھ کر حلوہ پکانے کا اہتمام کرنا درست نہیں ہے ـ 
بہرحال حلوہ صحت بخش اور مقوی غذا ہے ، انسان کو میسر ہو تو اسے روزانہ کھانا چاہیے ، حلوہ کھانے پکانے کے لئے کوئی دن خاص کرنا اور اسے کار ثواب سمجھنا صحیح نہیں ہے ـ 
یہ کون سی محبت اور کون سی اتباع نبی ہے ـ کسی نے سچ کہا : ـ 

کسی کو زخم لگے کھاۓ دوسرا حلوہ
یہودیوں کی طرح یہ ہے من و سلوی

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین وبزرگان دین کے عمل میں کہیں حلوہ خوری کا تذکرہ نہیں ہے لہذا ہر بندہ مومن کو اس عمل سے احتراز کرنا چاہئے ـ 


 ( 3 ) چراغاں و آتش بازی : ـ 
…………………………………؛

اسی طرح پندرہویں شعبان کے موقع پر روشنی و چراغاں کرتے ہیں یہ مجوسیوں کا طریقہ ہے ـ مساجد کے لئے اہتمام کے ساتھ ضرورت سے زائد روشنی کا انتظام کیا جاتا ہے جب کہ شریعت اسلامیہ میں کوئی بھی ایسی دینی مناسبت نہیں ہے جس میں کبھی رسول یا صحابہ کرام یا خلفاء راشدین نے معمول سے زائد روشنی کی ہو ـ 

اسی طرح اس رات کو مساجد میں آوازیں بلند کی جاتی ہیں جو ناقوس نصاریٰ کے مانند ہوتی ہیں اور مساجد میں حلقہ بناکر " لا الہٰ الا اللہ " کے بجائے " لایلاہ یلله " کا ورد کرتے ہیں اور دین کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں ـ 
 ( المنکرات ص : 76, الابداع فی مضار الابتداع ص : 289 ) 


 ( 4 ) ہزاری نماز : ـ 
…………………………………؛

پندرہویں شعبان کی رات میں جو نماز پڑھی جاتی ہے " صلاۃ الفیہ " سے معروف ہے جس کے معنیٰ ہزار رکعت والی نماز ہے ، اس ماہ کی پندرہویں شب کو ہزاروں مرد و عورتیں " صلاۃ الفیہ " پڑھتے ہیں ـ سو رکعت نماز پڑھتے ہیں جس کی ہر رکعت میں " سورۃ الاخلاص " دس دفعہ پڑھنا ہوتا ہے ، تو اسی طرح سورۃ الاخلاص سو رکعت میں ایک ہزار دفعہ پڑھا جاتا ہے اس لیے اس نماز کو " صلاۃ الفیہ " کہتے ہیں ـ 
 ( البدع الحولیۃ ، ص : 299, المجموعہ للنووی 56 / 04 ) 

دور نبوی صلی اللہ علیہ و سلم اور عہد خلافت راشدہ میں اس کا ثبوت نہیں ملتا ، بلکہ قرون مشھود لھا بالخیر ( صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ) کے دور میں بھی اس کا وجود نہیں تھا ـ اس بدعت کو ابن أبی الحمراء جونابلس فلسطین کا تھا سن 448 / ہجری میں ایجاد کیا ـ 

ہزاری نماز کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں پڑھی اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وہ نماز ادا کی اور نہ بعد کے ادوار میں ائمہ سلف صالحین نے ادا کی ـ 
 ( فتاویٰ لابن تیمیہ 131 / 23, و اقتضاء الصراط المستقیم 628 / 02 ) 


 ( 5 ) زیارت قبور : ـ 
…………………………………؛

قبرستان جانا اور مردوں کے لئے مغفرت کی دعا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ رہی ہے وہ کسی بھی دن کسی وقت قبرستان جایا کرتے اور دعا کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے امتیوں کے لئے بھی قبرستان کی زیارت کرنے کے لئے کہا ، مقصد یہ تھا کہ زیارت قبور موت کو یاد دلاۓ اور دنیا سے بے رغبتی کا جذبہ پروان چڑھاۓ ـ 

لیکن پندرہویں شعبان کی رات میں قبرستانوں کو سجا سنوار کر رکھنا اور قافلہ کی شکل میں ان کی زیارت کے لئے جانا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ـ آدمی جب چاہے قبرستان جاۓ اور دعاء مغفرت کرے ـ 

ہاں صحیح حدیث میں آخر شب میں جانا نبوی طریقہ ہے اس لیے رات کے آخری حصے میں جانا ہی مسنون ہے ، اس کے لئے کوئی خاص رات اور ہر خاص شکل و ہییت ثابت نہیں ہے ـ 

جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں پندرہویں شعبان کی رات میں مردے اپنے اپنے قبروں میں اپنے رشتے داروں ، اعزہ و اقارب کا انتظار کرتے ہیں ، جن کے رشتے دار وہاں پہونچ جاتے ہیں وہ خوش ہو جاتے ہیں اور جن کا عزیز یا رشتے دار نہیں پہونچتا تو وہ بہت دکھی ہوتے ہیں بلکہ دوسرے مردوں کے سامنے بہت شرمندہ ہوتے ہیں ، اس طرح کا عقیدہ باطل اور لغو ہے ، شریعت مطہرہ میں ثابت نہیں ہے ، احادیث صحیحہ کے ذخیرے میں اس کا ادنیٰ ثبوت بھی نہیں ہے ـ 
 ( تلبیس ابلیس لابن الجوزی ص : 429 ، احکام الجنائز ص : 358 ) 

اگر پندرہویں شعبان کی رات میں زیارت قبور کی اس قدر اہمیت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم چپکے سے قبرستان نہیں جاتے بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو مطلع کر دیتے اور اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ترغیب دلاتے کہ اس رات میں وہ بھی قبرستانوں کی زیارت کیا کریں ، لیکن احادیث میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ملتی ـ 

اس رات میں تمام سنن کو چھوڑ کر قبروں کی زیارت کرنا بھی مسنون نہیں ہے ـ صحیح یا ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے ـ 


 ( 6 ) روحوں کی آمد کا یقین : ـ 
…………………………………؛

اس رات میں مردے کی روحوں کی آمد و حاضری کا عقیدہ رکھنا ، ان کے لیے گھروں کو صاف کرنا ، دیواروں کو ان کی تکریم کے لئے لیپ کرنا اور ان کی ضرورت کے لئے اس میں چراغاں کرنا یہ تمام امور بدعت وگمراہی میں سے ہیں ـ 
 ( مرعاۃ المفاتیح 342 / 04 ) 


 ( 7 ) روح ملانے کا ختم : ـ 
…………………………………؛

بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جو شخص شب برات سے پہلے مر جاتا ہے اس کی روح روحوں میں نہیں ملتی بلکہ آوارہ بھٹکتی رہتی ہے اس لیے روح کو روحوں میں ملانے کے لیے امام مسجد کے ذریعے ختم دلایا جاتا ہے ، عمدہ قسم کے کھانے ، میوے ، پھل فروٹ ، قیمتی کپڑے مجلس میں رکھ کر امام مسجد ختم پڑھتے ہیں اور امام صاحب سب کچھ سمیٹ کر گھر لے جاتے ہیں ، میت کے گھر والے شکرانہ ادا کرتے ہیں کہ میت کی روح روحوں میں شامل ہو گئی ، اگر یہ سب نہ ہوتا تو اس کی بد دعا سے گھر والوں پر تباہی آتی ـ 
اس غلط نظریہ کا کتاب و سنت میں ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملتا ہے ـ یہ ایک جاہلانہ عقیدہ ہے ـ 


 ( 8 ) شعبان کے میلے کی خرافات : ـ 
…………………………………؛

پندرہویں شعبان کے موقع پر میلے اور اس پر اٹھنے والے بے شمار خرافات اور فضول خرچیاں دین کے نام پر انجام دی جاتی ہیں حالانکہ اسلام ان چیزوں سے بری ہے ـ 
 ( السنن والمبتدعات ص : 17 ) 

یہ اور اس طرح کے بے شمار بدعات و خرافات اور بے حیائی و بےشرمی کی بے شمار داستانیں اس طرح کی راتوں میں رقم کی جاتی ہیں ، جس کی وجہ سے پندرہویں شعبان کی رات قباحتوں ، برائیوں کا باعث بن جاتی ہے ـ 
لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان رسومات بد سے توبہ کر کے توحید و سنت کے گلستان میں واپس آئیں تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر کا جام اور آپ کی شفاعت نصیب ہو سکے ـ 

اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب بے اصل اور غیر شرعی دینی امور سے کلی طور پر اجتناب کی توفیق دے اور مکمل طور پر ہمیں کتاب و سنت کا پابند بناۓ . 
آمین تقبل یا رب العالمین 

Afroz Gulri 
https://wa.me/+917379499848

21 / 02 / 2024 
10 / 08 / 1445 ( Hizri ) 


pdf download link 

 . 

پیر، 8 جنوری، 2024

بڑوں کی یا اسلام کی مخالفت؟ المنجد

.

معصیت کے کاموں میں بڑوں، والدین اور لوگوں کی اطاعت کریں 


؛~~~~~~~~~~~~~~؛
؛~~~~~~~~~~~~~~؛


*بڑے لوگ، والدین اسلامى طريقہ سے خوشى كرنے سے انكار كریں تو کیا ان کی مخالفت کا حق حاصل ہے؟ یا اطاعت ہی کریں؟* 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛

سوال 
اگر والدين اسلامى طريقہ سے شادى كى تقريب منانے سے انكار كريں تو كيا مجھے ان كى مخالفت كرنے كا حق حاصل ہے يا كہ مجھے ان كے كہنے پر راضى ہو كر اپنا موقف ختم كر دينا چاہيے ؟

https://www.askislampedia.com/ur/wiki/-/wiki/Urdu_wiki/%D9%84%DA%91%D9%83%D9%89+%D9%83%DB%92+%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AF%D9%8A%D9%86+%D9%83%D8%A7+%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%D9%89+%D8%B7%D8%B1%D9%8A%D9%82%DB%81+%D8%B3%DB%92+%D8%AE%D9%88%D8%B4%D9%89+%D9%83%D8%B1%D9%86%DB%92+%D8%B3%DB%92+%D8%A7%D9%86%D9%83%D8%A7%D8%B1+%D9%83%D8%B1%D9%86%D8%A7/pop_up;jsessionid=8ED4EC6FA76C2571B2D491A27F7BB7F7 



جواب کا متن

الحمد للہ 

اول 

اسلامى تقريب اور خوشى سے مراد يہ ہے كہ ايسى تقريب منعقد كى جائے جو شرعى احكام كے ساتھ منضبط ہو، وہ اس طرح كہ اس ميں كسى بھى قسم كى شرعى مخالفت نہ ہو نہ تو مرد و عورت كا اختلاط اور نہ ہى مردوں كے سامنے بے پردگى اور نہ آلات موسيقى اور گانا بجانا استعمال كئے جائيں، جو بھى اللہ نے حرام كيا ہے اس سے اجتناب ہو ـ 

افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ ـ يہ حرام كام اس وقت اكثر مسلمانوں ميں عام ہيں مگر جس پر اللہ رحم كرے وہ اس سے بچا ہوا ہے. 

چنانچہ شادى ميں مشروع يہ ہے كہ  دولہا اور دلہن اور ان كے گھر والوں اور انہيں مباركباد دينے والوں ميں ايسى اشياء اور امور سے خوشى و فرحت ڈالى جائے جو اللہ كے غضب اور ناراضگى كا باعث نہ ہو مثلا عورتوں كے درميان دف بجائى جائے اور وہ آپس ميں اشعار اور نفع مند كلام پڑ سكتى ہيں جو گناہ سے خالى ہو. 

امام بخارى رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ:

ايك عورت كى ايك انصارى آدمى سے شادى ہوئى اور اس كى رخصتى ہوئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے عائشہ تمہارے پاس كھيل والى كيا چيز ہے ؟ كيونكہ انصار كو يہ پسند ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5163 ).

اور ابو داود رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:

" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى ايك رشتہ دار كا نكاح ايك انصارى مرد سے ہوا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم آئے اور كہنے لگے: 

" كيا تم نے لڑكى كو كوئى ہديہ ديا ہے ؟ انہوں نے عرض كيا جى ہاں.

آپ نے فرمايا: كيا تم نے اس كے ساتھ كسى گانے والى كو بھيجا ہے ؟ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے عرض كيا: نہيں.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: انصار ايك ايسى قوم ہے جن ميں غزل ہے، لہذا اگر تم اس كے ساتھ كسى ايسى لڑكى كو بھيج ديتے جو يہ كہتى:

ہم تمہارے پاس آئے، ہم تمہارے پاس آئے، چنانچہ تمہيں بھى اور ہميں بھى مبارك ہو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1900 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1995 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور نسائى اور ابن ماجہ نے محمد بن حاطب سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" حلال نكاح اور حرام ميں فرق كرنے والى چيز دف اور آواز ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 3369 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1896 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اس ليے اسلام ميں شادى كى تقريبات ميں وہاں حاضر ہونے والے افراد ميں خوشى و سرور اور فرحت داخل كى جائے، اور عفت و پاكى حاصل ہو اور حرام كردہ اشياء سے دور رہا جائے. 

چنانچہ عورتيں شادى كى تقريب ميں مردوں سے بالكل الگ تھلك رہ كر خوشى منائيں، اور جو بھى خوشى و سرور والا عمل ہے اسے كريں جو دلہن اور اس كے پاس عورتوں كو خوش كرے، ليكن حرام سے اجتناب كيا جائے، چاہے وہ كھيل كود ہو يا دف بجا كر گانا، اور كھانا پينا يا دوسرى اشياء جو عادات اور عرف كے مطابق ہوں ليكن اس ميں شرط يہى ہے كہ مباح كے دائرہ كے اندر رہتے ہوئے كيا جائے.

اور اسى طرح مرد بھى عورتوں سے الگ تھلگ جگہ جمع ہو كر آپس ميں مباركباد كا تبادلہ كريں، اور دولہا دلہن كے ليے بركت كى دعا كريں، اور دولہا كے ليے مسنون ہے كہ وہ وليمہ كى دعوت كرے جس ميں حاضر ہونے والے بغير كسى اسراف و فضول خرچى كے كھانا تناول كريں.

چنانچہ شادى كى تقريب كى غرض اور مقصد يہ ہوتا ہے كہ نكاح كا اعلان اور اظہار كيا جائے، اور حرام بدكارى سے نكاح كى تميز ہو سكے، اور دولہا اور دلہن اور ان كے خاندان والوں ميں خوشى و سرور داخل كيا جائے، اور اس سب ميں اللہ سبحانہ و تعالى كى عبوديت ہو.



دوم:

اگر والدين شادى كى تقريب ميں شرعى احكام كى پابندى كرنے سے انكار كر ديں اور برائى اور غلط كام كرنے پر اصرار كريں مثلا مرد و عورت ميں اختلاط، يا پھر رقاصہ اور اور فنكار اور گلوكار بلائے جائيں جو مردوں كے سامنے گانا گائيں، تو آپ انہيں نصيحت كريں، اور ان كے سامنے اس برائى كے بارہ ميں شرعى حكم واضح كريں، اور انہيں ياد دلائيں كہ شادى اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے ايك نعمت ہے، جس كا شكر ادا كرنا چاہيے، اور كسى بھى نعمت كا شكر اس طرح ادا ہو سكتا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى جائے نہ كہ اس كى معصيت و نافرمانى.

اور جس شادى كى ابتدا ہى معصيت و نافرمانى كے ساتھ ہو وہ شادى كبھى كامياب نہيں ہو سكتى، اور اگر وہ اللہ كے حكم كى پابندى كرتے ہوئے اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كريں تو اور اگر اپنے موقف پر اصرار كريں اور ڈٹے رہيں تو آپ برائى اور غلط كام ميں شريك مت ہوں اور آپ اس كى ناپسنديدگى اور اس سے براءت كا اظہار كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اللہ تعالى تمہارے پاس اپنى كتاب ميں يہ حكم اتار چكا ہے كہ تم جب كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ كفر كرتے ہوئے اور مذاق كرتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ( ورنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى تمام كافروں اور سب منافقوں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے. 
 النساء ( 140 ). 

امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ آيت اس بات كى دليل ہے كہ معصيت و نافرمانى كرنے والوں سے اگر برائى اور معصيت ظاہر ہو تو ان لوگوں سے عليحدہ رہنا اور اجتناب كرنا واجب ہے؛ كيونكہ جو ان سے اجتناب نہيں كريگا اور عليحدہ نہيں ہوتا وہ ان كے فعل پر راضى ہے.

اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

ورنہ تم بھى انہى جيسے ہو.

چنانچہ جو كوئى بھى كسى معصيت و نافرمانى والى مجلس ميں بيٹھے اور اس برائى كو روكے نہيں تو وہ بھى ان كے ساتھ گناہ ميں برابر كا شريك ہے.

چاہيے تو يہ كہ جب وہ برائى كى بات كريں اور غلط كام كريں تو انہيں روكا جائے، اور اگر وہ انہيں روكنے كى طاقت نہيں ركھتا تو وہ ان كے پاس سے اٹھ كر چلا جائے تا كہ وہ اس آيت كے تحت ہو كر ان ميں شامل نہ ہو " انتہى مختصرا.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے جو كوئى بھى كسى برائى كو ديكھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے، اگر اس كى طاقت نہ ہو تو وہ اسے اپنى زبان سے منع كرے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہيں تو وہ اسے دل سے برا جانے اور يہ كمزور ترين ايمان ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 49 ).

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 7577 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

آپ كے ليے جائز نہيں كہ آپ كسى برائى پر راضى ہوں اور نہ ہى آپ كے ليے شادى وغيرہ ميں شرعى احكام كى پابندى كرنے كے موقف سے پيچھے ہٹنا جائز ہے، كيونكہ آپ كے ليے دنيا و آخرت ميں سعادت و كاميابى اسى ميں ہے كہ اپنے موقف پر قائم رہيں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو توفيق نصيب فرمائے اور آپ كى صحيح راہنمائى كرے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب


؛~~~~~~~~~~~~~~؛
؛~~~~~~~~~~~~~~؛

لڑكى والے رخصتى كى تقريب ميں غلط كام كرنے پر مصر ہيں؟ 


سوال
ميرى عنقريب شادى ہے، ليكن لڑكى اور اس كے گھر والے رخصتى كى تقريب ميں پر وقار طور پركرنے كے ليے بہت زيادہ رقم خرچ كرنے پر مصر ہيں جس ميں غير شرعى امور بھى كيے جائيں گے مثلا موسيقى اور گانا بجانا، اور مرد و عورت كا اختلاط، اس معاملہ ميں كس طرح نپٹاؤں ؟
كيا ميں اس رشتہ كو ختم كر دوں اور كسى دوسرى لڑكى سے شادى كر لوں ؟



جواب کا متن 

الحمد للہ. 

لڑكى والے جو كچھ كرنا چاہتے ہيں بلاشك يقينى طور پر وہ حرام ہے، اور اسے قبول كرنا ممكن نہيں، اور نہ ہى اللہ كو ناراض كر كے لوگوں كو راضى كرنا جائز ہے، اور ہم آپ كو يہ نصيحت نہيں كرتے كہ آپ اپنى ازدواجى زندگى كى ابتدا حرام طريقہ سے كريں، مسلمان شخص كو خود بھى اور اس كے گھر والوں كو بھى ايسا نہيں كرنا چاہيے كہ اس كى بيوى ايك سستا مال بن جائے كہ ہر كوئى نتھو خيرا اسے پورى زينت و زيبائش ميں ديكھے اور نظريں جماتا پھرے.

آپ کو اس موقف كا مقابلہ كرنے كے ليے درج ذيل امور كى نصيحت كرتے ہيں:

1 ـ آپ لڑكى كے گھر والوں كو بہتر اور اچھے طريقہ سے نصيحت كريں، اور جو كچھ وہ كرنے كى نيت كر چكے ہيں اس كے متعلق انہيں شرعى حكم بتائيں، اور انہيں اللہ كى ناراضگى سے اجتناب كرنے كا كہيں، اور ان كے سامنے موسيقى اور گانے بجانے اور مرد و عورت كے اختلاط كى حرمت واضح كريں، اور انہيں بتائيں كہ وہ ان سب حرام كاموں كے بغير بھى ايك كامياب اور اچھى تقريب منعقد كر سكتے.

اور يہ واضح كريں كہ ان كے ليے اس ميں نہ تو كوئى دنياوى اور نہ ہى آخروى مصلحت پائى جاتى ہے كہ آپ لوگ اللہ كى عطا كردہ نعمت كا اپنى بيٹى كى شادى ميں اللہ كى نافرمانى سے مقابلہ كريں، اور اس كى مخالفت كرتے ہوئے ايسے امور كا ارتكاب كريں جس سے اللہ تعالى ناراض ہوتا ہے.

2 ـ اگر يہ فائدہ نہ دے تو آپ ان كے خاندان اور اہل اقارب ميں كوئى ايسے عقلمند تلاش كريں اور اپنے خاندان ميں سے بھى جن كے بارہ ميں آپ كو حسن ظن ہے اور ان سے خير و بھلائى كى توقع ركھتے ہيں، اميد ہے اللہ تعالى نے ان كے ہاتھ آپ كے ليے اس مشكل سے نكلنے كى راہ لكھ ركھى ہو، اور اس طرح كى برائياں ترك كروائيں چاہے ان پر دباؤ ڈال كر اور انہيں تنگ كر كے ہى.

3 ـ اور اگر يہ بھى فائدہ نہ دے تو پھر آپ كسى اہل علم اور عقل و دانش ركھنے والے سے رابطہ كريں جس كى وہ بھى قدر و احترام كرتے ہوں، ہو سكتا ہے وہ اس كى شرم و حياء كرتے ہوئے باز آ جائيں، يا پھر وہ انہيں اس پر مطمئن كرلے كہ جو كچھ وہ كرنا چاہتے ہيں وہ برائى ہے اور اس طرح وہ اسے ترك كر ديں.

4  ـ اگر يہ بھى كوئى نتيجہ خيز ثابت نہ ہو تو پھر آپ كو حق حاصل ہے كہ آپ انہيں طلاق اور عليحدگى كى دھمكى دے ديں ہو سكتا ہے وہ اس سے ہى متنبہ ہو جائيں كہ اس طرح لوگوں ميں ان كى بےعزتى ہو گى اور اللہ كے حرام كردہ امور كا ارتكاب چھوڑ ديں، اميد ہے عقد نكاح اور رخصتى ميں طويل عرصہ پيدا كرنے كا نتيجہ انہيں اس پر مطمئن كرنے كا باعث بن جائے اور وہ حرام امور ترك كر ديں.

5 ـ اگر وہ بالكل نہ مانيں تو پھر ہم آپ كو متنبہ كرتے ہيں كہ آپ ان لوگوں سے بچ كر رہيں، الا يہ كہ اگر وہ لڑكى بذات خود دين والى ہو اور اچھے اخلاق كى مالك ہے اور اس كے گھر والے جو كچھ كرنا چاہتے ہيں وہ اس پر راضى نہيں اور نہ ہى اس ميں شريك ہونا چاہتى ہے، اور آپ اور وہ لڑكى دونوں اس تقريب ميں شريك نہ ہونے كى استطاعت ركھتے ہيں تو پھر تقريب كى ابتدا ہوتے ہى وہاں سے كھسك جائيں ليكن جانے سے قبل اس سب كچھ سے جو اللہ كے غضب كا باعث ہے سے انكار كريں اور انہيں روكيں اور جو وہ برائى كرنے والے ہيں اس سے لوگوں كے سامنے برات كا اظہار كر كے وہاں سے نكل جائيں اور اس جگہ سے نكل جائيں اور لوگوں کو يہ ياد دلائيں كہ اللہ كا فرمان ہے:

تو پھر تم ان كے ساتھ مت بيٹھو كيونكہ تم بھى ان جيسے ہو گے .

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے جو كوئى بھى كسى برائى كو ديكھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے اگر اس كى استطاعت نہ ركھتا ہو تو اسے اپنى زبان سے روكے اور اگر اس كى بھى استطاعت نہ ركھتا ہو تو اسے اپنے دل سے روكے اور يہ كمزور ترين ايمان ہے "

اللہ تعالى ہى مدد كرنے والا ہے، اور اس كى طرف شكوہ ہے اور اسى پر بھروسہ ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد 


؛~~~~~~~~~~~~~~؛ 

 
.

قبول دعوت اور شرائط

.
.

*دعوت کے شرائط پوری نہ ہوں تو دعوت قبول کرنا نہ واجب ہے اور نہ ہی مستحب ہے، بلکہ ممکن ہے کہ ایسی مجلس اور دعوت میں حاضر ہونا حرام ہو.* 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛ 

دعوت قبول کرنے کا حکم اور اس کی شرائط 
 
    
 سوال 
مجھے کبھی کسی چھوٹی تو کبھی بڑی پارٹی کی دعوت ملتی ہے ۔۔۔ لیکن اگر ان پارٹیوں میں اکثر غیبت، طنز، کپڑوں اور لباس پر فخر، میرے جیسی سادہ لباس پہننے والی خاتون پر طعنہ زنی ، اور بسا اوقات چغلیاں بھی ہوتی ہیں۔ پھر میں نے گھر میں کام بھی کرنے ہوتے ہیں، میں گھر میں ملازمہ رکھنے کے حق میں نہیں ہوں، جبکہ ان پارٹیوں میں آنیوالی تمام خواتین نے گھروں میں خادمائیں رکھی ہوئی ہیں اس لیے ان کے پاس پارٹیاں بھگتانے کے لیے وقت بھی ہوتا ہے۔
میرے گھر اور خاوند کو میری ضرورت ہوتی ہے، میں اپنے گھر میں ایک منٹ بھی گزاروں تو اس کا ان شاء اللہ میرے گھر پر مثبت اثر پڑتا ہے، میرا گھرانہ میرا سب سے پہلا ہدف ہے، پھر اضافی مطالعہ، تلاوت قرآن اور دیگر مفید سرگرمیوں کے لیے مجھے وقت بھی چاہیے ہوتا ہے۔ میں ایسی مجلس میں شرکت نہیں کرنا چاہتی جس کے فوائد نقصانات کے نیچے دبے ہوئے ہوں، اور اگر ان مجلسوں کے فوائد بھی ہیں تو مجھے اس کے لیے مناسب لائحہ عمل بتلائیں، اور اگر مجھے ان پارٹیوں میں شرکت نہ کرنے کا حق حاصل ہو تو میں کون سا مناسب سا عذر پیش کروں ؟ اور پارٹی کی دعوت مجھے کسی ایسی خاتون سے ملے جس کی مجھ سے بنتی نہیں ہے، وہ مجھے کسی تنگی میں دیکھے تو خوش ہوتی ہے، اور میرے خلاف زبان درازی بھی کرتی ہے، تو کیا میرے لیے اس کی طرف سے دی گئی دعوت قبول کرنا لازم ہے؟



جواب کا متن

الحمد للہ.

صحیح بخاری: (1164) اور مسلم: (4022) میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا، اور چھینک لینے والے کے الحمدللہ کہنے پر اسے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دینا۔)

مسلمان کو جو دعوت قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کی اہل علم نے دو قسمیں بیان کی ہیں:

پہلی قسم: شادی کے ولیمے کی دعوت، تو جمہور اہل علم اس دعوت کو قبول کرنے کو واجب کہتے ہیں، ہاں اگر کوئی شرعی عذر ہو تو گنجائش ہے، جیسے کہ آئندہ ان میں سے کچھ عذروں کا ان شاء اللہ ذکر کیا جائے گاولیمے کی دعوت قبول کرنا واجب ہے اس کی دلیل صحیح بخاری: (4779) اور مسلم: (2585) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بد ترین کھانا ولیمے کا کھانا ہے، اسے کھانے کے لیے آنے والے کو تو روکا جاتا ہے، اور جو نہ آنا چاہے اسے بلایا جاتا ہے، اور اگر کوئی ولیمے کی دعوت قبول نہ کرے تو اس نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کی۔)

دوسری قسم: ولیمے کے علاوہ کوئی بھی چھوٹی بڑی دعوت، تو ان کے بارے میں جمہور اہل علم یہ کہتے ہیں کہ ان میں حاضر ہونا اور ان کی دعوت قبول کرنا مستحب عمل ہے، ان کے مقابلے میں صرف کچھ شافعی اور ظاہری اہل علم ہیں جنہوں نے ایسی دعوت قبول کرنا بھی واجب قرار دیا ہے، تاہم اگر یہ کہا جاتا کہ: ایسی دعوت قبول کرنا تاکیدی طور پر مستحب ہے تو یہ بات زیادہ اقرب الی الصواب تھی۔ واللہ اعلم

اہل علم نے قبولِ دعوت کے وجوب کی چند شرائط بھی ذکر کی ہیں، لہذا اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو دعوت قبول کرنا نہ واجب ہے اور نہ ہی مستحب ہے، بلکہ ممکن ہے کہ ایسی مجلس اور دعوت میں حاضر ہونا حرام ہو، ان تمام شرائط کو علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ نے مختصراً بیان کیا ہے ، آپ کہتے ہیں:

1-دعوت کی جگہ پر کوئی برائی نہ ہو، اور اگر وہاں کوئی برائی ہو اور اس برائی کو وہ شخص ختم بھی کر سکتا ہو تو ایسی صورت میں دو وجوہات کی بنا پر حاضر ہونا واجب ہو گا، ایک تو دعوت قبول کرنے کے لیے اور دوسرا برائی ختم کرنے کے لیے۔ لیکن اگر برائی کو مٹانا اس کے لیے ممکن نہ ہو تو اس پر حاضر ہونا حرام ہے۔

2-دعوت دینے والا ایسا شخص ہو جس سے لا تعلقی مستحب یا واجب نہ ہو، مثلاً: اعلانیہ گناہ کرنے والا ہو اور اس سے لا تعلقی کرنے پر ممکن ہے کہ گناہ سے توبہ تائب ہو جائے۔

3-دعوت دینے والا مسلمان ہو، اگر دعوت دینے والا مسلمان نہیں ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا واجب نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا ہے کہ: (مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں ۔۔۔) انہی میں سے ایک دعوت قبول کرنا ہے۔

4- دعوت کا کھانا حلال ہو کہ جسے کھانا جائز ہو۔

5- دعوت قبول کرنے کی وجہ سے اس سے بھی بڑا واجب کام فوت نہ ہوتا ہو، اگر ایسا ہو تو دعوت قبول کرنا حرام ہو گا۔

6-دعوت قبول کرنے سے دعوت قبول کرنے والے کا کوئی نقصان نہ ہو، مثلاً: 

 اس نے کہیں سفر پر جانا ہے، یا اس کے گھر والے اکیلے رہ جائیں گے اور گھر والوں کو اس کی بہت ضرورت ہے، یا اسی طرح کی کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے۔
مختصراً ماخوذ از ، القول المفید: ( 3 / 111)

کچھ اہل علم نے ایک اور شرط بھی شامل کی ہے کہ:

7- داعی کسی خاص شخص کو دعوت پر مدعو کرے تو اس پر حاضر ہونا واجب ہے۔ لیکن اگر مجلس کے حاضرین کو عمومی دعوت دے تو پھر اکثر اہل علم کے ہاں ہر ایک شخص پر دعوت میں حاضر ہونا لازم نہیں ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایسی دعوت میں حاضر ہونا آپ پر لازم نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ حرام ہو؛ چنانچہ اگر آپ وہاں پر موجود برائی کو روک نہیں سکتیں، یا آپ کے دعوت میں جانے سے خاوند کے حقوق کی تلفی ہوتی ہے، یا آپ کے ذمہ بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت آپ نہیں کر پاتیں تو دعوت میں حاضر ہونا آپ پر لازم نہیں ہے۔ پھر یہاں یہ بات بھی ہے کہ آپ خود بھی ان کے شر اور طنز سے محفوظ نہیں رہتیں تو قبولِ دعوت کا وجوب ختم کرنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی تھا، لیکن یہاں تو معاملہ اس سے بڑھ چکا ہے اس لیے آپ پر دعوت میں حاضر ہونا لازم نہیں رہتا۔

یہاں ایک اور چیز بھی خاتون کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی دعوت پر جانے کے لیے اپنے خاوند سے اجازت ضرور لے، اور آپ دعوت میں آنے والی تمام خواتین کو مشورہ بھی دیں کہ جب اکٹھے ہوں تو اپنی مجلس کو دینی یا دنیاوی طور پر مفید بنائیں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ایسی مجالس کے نقصان سے خبردار کیا ہے جس میں اللہ تعالی کا ذکر نہ کیا جائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اس میں اللہ کا ذکر نہ کریں، نہ ہی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجیں تو یہ مجلس ان کے لیے باعث حسرت و ندامت ہو گی، اللہ تعالی انہیں چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (3302)نے روایت کر کے حسن صحیح قرار دیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی: (3 / 140) میں صحیح کہا ہے۔

اسی طرح سنن ابو داود: (4214) وغیرہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو لوگ کسی مجلس سے اٹھیں اور انہوں نے اس میں اللہ کا ذکر نہ کیا ہو ، تو وہ ایسے ہیں گویا کسی مردار گدھے پر سے اٹھے ہوں اور ( آخرت میں ) یہ مجلس ان کے لیے حسرت کا باعث ہو گی) اس حدیث کو علامہ نووی رحمہ اللہ نے ریاض الصالحین: (321) میں صحیح قرار دیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے بھی انہی کے حکم کی تائید کی ہے۔

تو آپ یہ نصیحت ان بہنوں تک بالمشافہ پہنچائیں یا لکھ کر بھیج دیں، اور اگر ایک قدم آگے بڑھ کر آپ ان سب کو اپنے گھر میں دعوت دیں، اور اسی مجلس کو وعظ و نصیحت کے لیے بھی غنیمت سمجھیں، تاہم ساتھ کچھ ایسی سرگرمیاں بھی شامل کر لیں جن میں وہ دلچسپی رکھتی ہیں ، تو امید ہے کہ آپ کے اس اقدام سے ان کے لیے ایسی دعوتوں کو بار آور اور مفید بنانے کے لیے بہترین عملی نمونہ سامنے آ جائے اور اس کا سبب اللہ تعالی آپ کو بنا دے۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔ 

اسلام سوال و جواب ویب 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛ 


..... (5) اوپر حدیث گزری ہے کہ جس نے دعوت قبول نہیں کی، اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺکی نافرمانی کی ، اس سے معلوم ہوا کہ دعوت قبول کرنا، چاہے وہ ولیمے کی ہو یا عام دعوت ، ضروری ہے۔ حتی کہ اگر کسی نے نفلی روزہ رکھا ہوا ہے تو اس کو بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ نفلی روزہ توڑ لے اور دعوت میں شریک ہوجائے ، بالخصوص جب دعوت کرنے والا اصرار کرے اگر اصرار نہ کرے تو روزے دار کی مرضی ہے کہ روزہ توڑے یا نہ توڑے ، روزہ نہ توڑے تو دعوت کرنے والے کے حق میں دعائے خیر کر دے ۔ [9]

(6) اگر نفلی روزہ توڑ کر دعوت کھائی جائے تو اس نفلی روزے کی قضا ضرور ی نہیں۔ نبیﷺایک  دعوت میں تشریف فرما تھے، صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ تھی ، جب کھانا شروع ہوا تو ایک شخص الگ ہوکر ایک طرف بیٹھ گیا ، نبیﷺکے پوچھنے پر اس نے بتا یا کہ وہ نفلی روزے سے ہے ، آپﷺنے فرمایا :

أَفْطِرْ وَصُمْ يَوْمًا مَكَانَهُ إِنْ شَئْتَ

 ’’ تم دعوت کھا لو، اگرچاہو تو بعد میں اس کی جگہ روزہ رکھ لینا۔‘‘[10]

حافظ ابن حجر اور شیخ البانی رحمہما اللہ نے اس کو حسن کہا ہے ۔ [11]

معصیت والی دعوت میں شریک ہونے کی اجازت نہیں

دعوت قبول کرنے کی اتنی تاکید کے باوجود شرعی دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس دعوت میں یا دعوت والے گھر میں اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب ہو یا وہاں معصیت والی چیز ہو تو اس دعوت میں اس شخص کا شریک ہونا تو جائز ہے جو اصحابِ دعوت کے ہاں اتنے اثر ورسوخ کا حامل ہو کہ وہ معصیت کاری رکواسکتا ہو ، تو اس کو شریک ہوکر اس کو رکوانے کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے اور جو شخص ایسی پوزیشن کاحامل نہ ہو اگر اس کے علم میں پہلے سے یہ بات ہوکہ وہاں فلاں فلاں معصیت کا ارتکاب ضرور ہوگا جیسے آج کل میوزک،ویڈیو،بے پردگی جیسی معصیتیں عام ہوگئی ہیں تو اس کا اس دعوت میں جانے کے بجائے اس کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے اور اگر پہلے اس کے علم میں نہیں تھا ، وہاں جاکر دیکھا کہ وہاں ان شیطانی کاموں کا اہتمام ہے تو اس میں شرکت نہ کرے اور واپس آجائے۔ اگر ان معصیت کاریوں کے باوجود وہ شریک ہوگا تو وہ بھی گناہ گار ہوگا۔ بالخصوص اصحابِ علم وفضل کی اس قسم کے اجتماعات میں شرکت بہت بڑا جرم ہے ان کی شرکت ان معصیت کاریوں کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔

رسول اللہﷺتو تصویر والا پردہ دیکھ کر بھی دعوت کھائے بغیر واپس آجاتے تھے ،سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں ’’ میں نے ایک روز کھانا تیار کیا اور رسول اللہﷺکو دعوت دی، آپ تشریف لائے تو گھر میں تصاویر دیکھ کر واپس چلے گئے ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ، آپ کو کس چیز نے واپس ہونے پر مجبور کردیا؟ آپﷺنے فرمایا ’’ گھر میں ایک تصویروں والا پردہ ہے اور جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔‘‘ [12]

رسول اللہﷺنے تو ایک مرتبہ خود اپنے گھر یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں دروازے پر ایک تصویر والا پردہ لٹکا ہوا دیکھا تو آپ نے اندر داخل ہونا پسند نہیں فرمایا ، جس پرسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے معذرت کی۔[13]

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل بھی یہی تھا۔

سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  اپنے دور خلافت میں جب شام تشریف لے گئے تو شام کے ایک نہایت معزز عیسائی نے آپ کی اور آپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان کی دعوت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

إِنَّا لَا نَدْخُلُ كَنَائِسَكُمْ مِنْ أَجْلِ الصُّوَرِ الَّتِي فِيهَا

ترجمہ: ’’ تمہارے گرجوں میں تصویریں ہوتی ہیں اس لیے ہم وہاں نہیں آسکتے۔‘‘[14]

سیدناابو مسعود رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے ، ان کی ایک شخص نے دعوت کی ، انہوں نے اس سے پوچھا : گھر میں کوئی تصویر ہے؟ اس نے کہا : ہاں ۔ آپ نے تصویر کو توڑنے تک گھر میں داخل ہونے سے انکار کر دیا جب تصویر کو توڑ دیا گیا تو پھر آپ داخل ہوئے۔[15]

امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

لا ندخل وليمة فيها طبل ولا معزاف

’’ہم اس ولیمے میں شریک نہیں ہوتے جس میں ڈھول تماشے یا گانے بجانے کے کوئی اور آلات ہوں۔‘‘[16]

علامہ حافظ محدث صلاح الدین یوسف 
ماخوذ 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛

[9] صحیح مسلم: حدیث : 1431  

[10] السنن الکبریٰ للبیھقی: باب الشیخ الکبیر لایطیق الصوم …  

[11] ارواء الغلیل: 7/11۔12، حدیث : 1952 

[12] سنن ابن ماجہ، مسند ابی یعلی ، بحوالہ ’’آداب الزفاف‘‘ للالبانی ، ص: 77       
[13] سنن ابن ماجہ،مسند ابی یعلی ، بحوالہ ’’آداب الزفاف‘‘ للالبانی ، ص: 77 

[14] سنن بیہقی 7/268 بسند صحیح ، بحوالہ : آداب الزفاف ، ص : 80  

[15] سنن بیہقی بسند صحیح ، آداب الزفاف ، ص:81  

[16]  آداب الزفاف ، للالبانی رحمہ اللہ ، ص: 81 

 
.


جمعہ، 22 دسمبر، 2023

حقیقت کرسمس اور مبارکبادی کا حکم عبد السلام مدنی


.

کرسمس ڈے کی حقیقت اور مبارکباد پیش کرنے کا حکم

تراوش ِ قلم 
عبد السلام بن صلاح الدین مدنی 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛ 

الحمد للہ رب العالمین ، 
و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین ، 
أما بعد 

حضرت عیسی علیہ و علی نبینا علیہ الصلاۃ و السلام انبیاء کرام میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں ، اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا شاہکار بنا کر اور معجزانہ انداز میں آپ کو دنیا میں بھیجا ، آپ کی زندگی شروع ہی سے غیر معمولی رہی ، اللہ تبارک و تعالی نے معجزانہ طور پر بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور پھر زندہ ہی آسمان پر اٹھا لیا ، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے 

( وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ، بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا )  
( النساء : ۱۵۷ ) 

 ( ترجمہ ٔ آیت : اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی بن مریم کو قتل کر دیا ، حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا ، نہ سولی پر چڑھایا ، بلکہ ان کے لئے ان ( عیسی ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا ، یقین جانو کہ حضرت عیسی  ( علیہ السلام ) کے بارے میں اختلاف کرنے والے  ان کے بارے میں  شک میں ہیں ، انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بہ جز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے ، اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا ہے ، بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا ہےاور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے ) 

اور دوبارہ قرب ِ قیامت میں آپ دنیا میں تشریف لائیں گے ، جیسا کہ قرآن کریم اور فرمان ِ نبوی سے ثابت ہے ، جیسا کہ ارشاد ہے 

(  (  وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا ، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ ، وَيَقْتُلَ الخِنْزِيرَ ، وَيَضَعَ الجِزْيَةَ ، وَيَفِيضَ المَالُ حَتَّى لاَ يَقْبَلَهُ أَحَدٌ ، حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا . ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ  :  وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ  :   (  وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ، وَيَوْمَ القِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا )   )  )  
( بخاری رقم : ۳۴۴۸ ، مسلم رقم : ۱۵۵ ) 

ترجمہ  :  قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، قریب ہے کہ حضرت عیسی تم میں عادل و منصف بن کر اتریں گے ، چنانچہ صلیب توڑ دیں گے ، خنزیر کو مار ڈالیں گے ، ٹیکس ختم کر دیں گے ، مال کی اس قدر بہتات کر دیں گے کہ کوئی لینے والا نہیں ہوگا ، یہاں تک کہ ایک سجدہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہوگا ، پھر حضرت ابو ہریرہ ( رضی اللہ عنہ )  فرماتے ہیں کہ تم اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو (  (  (  وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ، وَيَوْمَ القِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدً )  )  ۔ 

حضرت عیسی ؑ کی زندگی نہایت سبق آموز اور عبرت انگیز ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر الگ الگ اسلوب و انداز میں آپ کی شخصیت کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ عجیب تماشا یہ ہے کہ آپ کے ماننے والوں نے آپ کی اتباع کے نام پر آپ کے ساتھ بہت ہی ناروا سلوک کیا ہے اور آپ کی جانب اور آپ کی ماں حضرت مریم کی جانب بہت سی غیر ضروری اور لایعنی و مشرکانہ باتوں کو منسوب کر دیا ہے اور ایسے عقائد و نظریات کو ان کے ناموں کے ساتھ چسپاں کر دیا ہے کہ جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اور نہ ہی یہ عیسائیت کی تعلیمات سے میل کھاتے ہیں 


کرسمس ڈے کی حقیقت : 
؛…………………………………؛

در حقیقت کرسمس ( Christmas )  دو الفاظ Christ اور Mass کا مرکب ہے۔ Christ مسیح کو کہتے ہیں اور Mass سےاجتماع ، اکٹھا ہونا اور عبادت کرنا مراد ہے ، مسیح کے لئے اکٹھا ہونا ، مسیحی اجتماع یا میلاد مسیح یا میلاد ِ مسیح کے موقعے پر عبادت بجا لانا۔ 

’’بڑا دن ،  بھی کرسمس کا مروجہ نام ہے۔ یہ دن ولادت مسیح علیہ السلام  کے سلسلہ میں منایا جاتا ہے۔ چونکہ عیسائیوں  کے لیے یہ ایک اہم اور مقدس دن مانا جاتا ہے ، اس لیے اسے بڑا دن بھی کہا جاتا ہے۔ 

رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسائی اسے 25 دسمبر کو ، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسائی 6 جنوری کو اور ارمینیا کلیسائی 19 جنوری کو مناتے ہیں۔ 

کرسمس کا بطور تہوار 25 دسمبر کو منانے کا ذکر پہلی مرتبہ 325ء کو شاہِ قسطنطین کے عہد میں ملتا ہے ، اس سے پہلے اس عید کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی یہ منائی جاتی تھی ، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ صحیح طور پر معلوم نہیں کہ اولین کلیسائیں بڑا دن مناتی تھیں یا نہیں۔ 

4 صدیوں تک 25 دسمبر تاریخ ولادت عیسی  نہیں سمجھی جاتی تھی۔ 530ء میں سیتھیا کا ایک ڈایونیس اکسیگز نامی راہب جو منجّم ( ستاروں کا علم رکھنے والا )  بھی تھا ، تاریخ ولادت عیسی  کی تحقیق اور تعین کے لیے مقرر ہوا۔ اور اُس نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت 25 دسمبر مقرر کی کیونکہ مسیح علیہ السلام  سے پانچ صدی قبل 25 دسمبر مقدس تاریخ تھی۔ بہت سے سورج دیوتا اُسی تاریخ پر یا اُس سے ایک دو دن بعد پیدا ہونا تسلیم کئے جا چکے تھے۔ چنانچہ راہب نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو مقبول بنانے کے لئے حضرت عیسیٰ ؑکی تاریخ ولادت 25 دسمبر مقرر کر دی۔

قرآن مجید کی سورت مریم کا مطالعہ کیجئے ، آپ کو پتہ چلے گا  کہ جب حضرت مریم کو دردزہ  محسوس ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کی کہ کھجوروں کے تنے کو ہلائیں ، تاکہ ان پر تازہ پکی کھجوریں گریں اور وہ اس کو کھائیں ، 
اللہ تعالی نے فرمایا  :  

وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا 
( مریم : ۲۵ )  

( ترجمہ : اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا ، یہ تیرے سامنے تر و تازہ پکی کھجوریں گرا دے گا ) 

اور ہوا یہ کہ اللہ تعالی نے حضرت مریم کے پاؤں تلے ، پینے کے لئے پانی کا اور کھانے کے لئے ایک سوکھے ہوئے درخت میں پکی ہوئی تازہ کھجوروں کا انتظام کردیا ۔

آج بھی  آپ  ان ممالک کا جائزہ لے لیں جہاں  کھجوریں پیدا ہوتی ہیں ، آپ کو معلوم ہوگا کہ موسم ِ گرما میں ہی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں ، موسم ِ سرما میں نہیں ، خود فلسطین میں موسم گرما کے وسط یعنی جولائی ، اگست میں ہی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں ، اور یہ بھی واضح ہے کہ ۲۵ دسمبر تمام ممالک میں موسم ِ سرما ہوا کرتا ہے ، فلسطین جو حضرت عیسی علیہ السلام  کی جائے پیدائش ہے ، وہاں بھی دسمبر میں سخت کڑاکے کی سردی پڑتی ہے۔ اس سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسی کی ولادت جولائی یا اگست کی کسی تاریخ  میں ہوئی ہوگی ، اور 25 دسمبر کی تاریخ  یکسر غلط  اور افسانہ ہی قرار پائے گا۔ 
( دیکھئے مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ  از  چودھری غلام رسول چیمہ ص ۴۳۷ ) 

جبکہ استاذ عزت علی طہطاوی نے حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کو ماہ ِ اگست یا ستمبر کی کسی تاریخ میں ہی ہونا قرین ِ قیاس قرار دیا ہے  
( دیکھئے النصرانیۃ و الإسلام ص ۲۴۱۔۲۴۴ ) 

مذکورہ بالا حوالہ سے یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ 25 دسمبر عیسی علیہ السلام  کی تاریخ ِ ولادت نہیں قرار دی جا سکتی ہے 

اب اگر کوئی ۲۵ دسمبر ہی کو یوم ِ پیدائش ہونے کی ضد کرے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں ۔ 


کرسمس کی مبارکباد کا حکم؟
؛…………………………………؛ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کرسمس ڈے کی مناسبت سے ہم عیسائیوں کو مبارکباد دے سکتے ہیں ، تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ  : 

 ( ۱ ) چاپلوسی سے ہی سہی ان کی عید پر انہیں مبارکباد نہیں دی جا سکتی ہے ، کیوں کہ اللہ کے احکامات میں تبادلہ نہیں ہوا کرتا ہے ( کہ آپ ہمیں مبارکبادی دیجئے اور ہم آپ کو ) اور نہ ہی مجاملت و مداہنت اختیار کی جا سکتی ہے ، کیوں کہ بتوں کی تعظیم قطعی کسی بھی صورت میں جائز و روا نہیں ، 

اللہ تعالی نے فرمایا :  
( ودوا لو تدهن فيدهنون)  
( سورہ ٔ ن : ۹ )

( ترجمہ ٔ آیت : وہ تو چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں ) 

اس لئے حق کے باب میں مداہنت ، مجاملت ، چاپلوسی ، حکمت تبلیغ اور کار ِ نبوت کے لئے سخت نقصان دہ ہے .

 ( ۲ ) انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس امر پر غور فرمائیں کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کی تعیین ہی درست نہیں ہے ، تو مبارکبادی کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے ، جب خود عیسائی از آں دم تا ایں دم حضرت عیسی علیہ السلام  پر اتاری گئی انجیل کی حفاظت نہیں کر سکے تو  تاریخ پیدائش کا تعین کیوں کر کر سکتے ہیں؟ اور جب تاریخ ہی محفوظ نہیں کر سکے تو انہیں عید منانے کا جواز کیوں کر حاصل ہو سکتا ہے؟ 

ذرا سوچنے کی بات ہے کہ حضرت عیسی کی تاریخ ولادت پر شدید اختلاف ہے ، لہذا کسی ایک تاریخ کو بالجزم آپ کی تاریخِ ولادت قرار نہیں دی جا سکتی ہے ، اور نہ ہی مسلمانوں کے یہاں اور نہ ہی عیسائیوں کے یہاں کسی ایک تاریخ پر اتفاق ہو سکا ہے . 

 ( ۳ ) ذرا اس امر پر بھی غور فرمائیں کہ جب جب میلاد مسیح کا تذکرہ ہوا کرتا ہے ، آپ کے اللہ کا بیٹا ہونے کا تذکرہ ضرور کیا جاتا ہے ، اور اللہ تعالی نے انتہائی شدید لہجے اور کرخت انداز میں اس کی نکیر فرمائی ہے 

فرمایا :   
( وقالوا اتخذ الرحمن ولدا ، لقد جئتم شيئا إدّا ، تكاد السماوات يتفطرن منه وتنشق اﻷرض وتخر الجبال هدّا ) 
 ( مریم : ۸۸۔۹۰ ) 

ترجمہ : ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمن نے بھی اولاد اختیار کی ہے ، یقینا تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو ، قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں . 

ذرا تصور کیجئے اور ایک لحظہ کے لئے تامل کیجئے کہ کیا انہیں مبارکبادی پیش کر کے ان کے کفر و شرک میں ہم شریک نہیں ہوں گے ؟ کیا انہیں مبارکباد دے کر ہم ان کے اس باطل عقیدے کے اقرار و اعتراف کا جرمِ عظیم نہیں کریں گے ؟ ( اگر ہم انہیں مبارکباد پیش کریں گے ) ذرا اندازہ کیجئے کہ جو صلیب بنا کر زندگی بھر یہ شرک کرتے رہے ، خود حضرت عیسی علیہ السلام اسے توڑیں گے اور اس غلط عقیدے کی تردید فرمائیں گے . 

 ( ۴ ) کرسمس ڈے کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرنا باتفاق تمام صحابہ اور جمیع أئمہ  مسالک ِ اربعہ حرام اور ناجائز ہے 

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے 

(  ( اجتنبوا أعداء الله في عيدهم )  

( ترجمہ :  الله كے دشمنوں سے انکے تہوار میں اجتناب کرو. 
( سنن بيهقی حدیث نمبر ( 18862 ) 

حضرت عبد اللہ بن عمرو ( رضی اللہ عنہ  )  فرمایا کرتے تھے :   

( من مر ببلاد الأعاجم فصنع نيروزهم ومهرجانهم وتشبه بهم حتى يموت وهو كذلك حشر معهم يوم القيامة :  )  
( دیکھئے  : اقتضاء۱ الصراط المستقیم  : ۱ ۲۰۰ ، سنن بیہقی :  حدیث نمبر (  18863 ) اسنادہ صحیح  ) 

ترجمہ : غیر مسلموں کی سر زمین میں رہنے والا مسلمان ان کے نوروز ( New Year )  اور ان کی عید کو ان کی طرح منائے اور اسی رویّے پر اس کی موت ہو تو قیامت کے دن وہ ان غیر مسلموں کے ساتھ ہی اُٹھایا جائے گا . 

اللہ اکبر ! کس قدر صریح الفاظ ہیں کہ جس میں شک کی ایک رتی کے برابر بھی گنجائش نہیں پائی جاتی ہے کہ ان کے اعیاد و مہرجانات میں شرکت کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے . 

ابو القاسم ہبۃ اللہ طبری مسلک شافعی کے معتبر فقیہ مانے جاتے ہیں ، آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 

مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ یہود و نصاریٰ کی عیدوں میں شرکت کریں کیونکہ وہ برائی اور جھوٹ پر مبنی ہیں ۔ اور جب اہلِ ایمان اہلِ کفر کے ایسے تہوار میں شرکت کرتے ہیں تو کفر کے اس تہوار کو پسند کرنے والے اور اس سے متاثر ہونے والے کی طرح ہی ہیں ۔ اور ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ان اہل ایمان پر الله کا عذاب نہ نازل ہو جائے کیونکہ جب الله کا عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔" 
(  احکام اہل الذمۃ : 3 ؍ 1249 ) 

امام مالک کے شاگردِ رشید مشہور مالکی فقیہ عبدالرحمٰن بن القاسم رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ : 

کیا ان کشتیوں میں سوار ہونا جائز ہے جن میں عیسائی اپنی عیدوں کے دن سوار ہوتے ہیں تو آپ رحمه اللہ نے اس وجہ سے اسے مکروہ جانا کہ کہیں ان پر الله کا عذاب نہ اُتر آئے کیونکہ ایسے مواقع پر وہ مل کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں .  
(  المدخل لابن الحاج : 2 ؍ 47 ) 

مشہور  حنفی فقیہ ابو حفص کبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 

اگر کوئی شخص پچاس سال الله کی عبادت کرے پھر مشرکین کی عید آئے تو وہ اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے کسی مشرک کو ایک انڈہ ہی تحفہ دے دے تو اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال ضائع ہو گئے۔ 
( البحر الرقائق شرح کنز الدقائق :  8 ؍ 555؛الدر المختار :  6 ؍ 754 ) 

امام اہل سنت ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  جب سے پوچھا گیا : 

جس شخص کی بیوی عیسائی ہو تو کیا اپنی بیوی کو عیسائیوں کی عید یا چرچ میں جانے کی اجازت دے سکتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : وہ اسے اجازت نہ دے کیونکہ الله نے گناہ کے کاموں میں تعاون نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔" 
(  المغنی لابن قدامہ : 9 ؍ 364 ؛الشرح الکبیر علیٰ متن المقنع : 10 ؍ 625 ) 

شیخ الإسلام علامہ ابنِ تیمیہ نے اس مسئلہ میں یوں رقم طراز ہیں : 

موسم سرما میں دسمبر کی 24 تاریخ کو لوگ بہت سے کام کرتے ہیں عیسائیوں کے خیال میں یہ دن حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا دن ہے اس میں جتنے بھی کام کئے جاتے ہیں مثلاً آگ روشن کرنا ، خاص قسم کے کھانے تیار کرنا اور موم بتیاں وغیرہ جلانا سب کے سب مکروہ کام ہیں اس دن کو عید سمجھنا عیسائیوں کا عقیدہ ہے  اسلام میں اس کی کوئی اصلیت نہیں اور عیسائیوں کی اس عید میں شامل ہونا جائز نہیں ـ
( اقتضاء الصراط المستقیم  :  1 ؍ 478 ) 

شیخ الإسلام کے شاگرد ِ رشید علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :  

کفار کو انکے کسی تہوار پر وہی شخص مبارکباد دیتا ہے جسکے ہاں دین إسلام کی کوئی قدر و قیمت نہیں اور نہ ہی اسے اپنے کئے کی قباحت کا اندازہ ہے_ 
[ أحكام أهل الذمة   ۱ ؍ ۱۶۱ ] 

مختلف شافعی فقہاء رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ :  
جو کفار کی عید میں شامل ہو ، اسے سزا دی جائے. 
( دیکھئے : الاقناع : 2 ؍ 526؛مغنی المحتاج : 5 ؍ 526 ) 

مذکورہ تمام نقولات سے یہ بات مترشح ہو جاتی ہے اور دو دو چار کی طرح واضح کہ  اجلہ صحابہ ٔ کرام اور مسالک ِ اربعہ ، اور معتبر علمائے اسلام  کے یہاں بھی کرسمس ڈے کی شناعت و قباحت طشت از بام ہے

 ( ۵ ) کسی بھی مسلمان کے لئے قطعی جائز نہیں ہے کہ مشرکوں کی عیدوں میں شرکت کرے ، 

اللہ تعالی کے قول  (  ( والذين لايشهدون الزور )  ( الفرقان : ۷۲ ) سے ابو العالیہ ، طاؤس ، امام ربیع بن أنس ، ضحاک  اور ابن سیرین جیسے معتبر علمائے سلف نے مشرکوں کی عید مراد لیا ہے  
( دیکھئے : تفسیر ابن کثیر : ۳ ؍ ۲۰۹۷ ) 

آج مجھے بڑا تعجب ہوا ، جب ایک صاحب کو دیکھا کہ وہ مبارکبادی پیش کر رہے ہیں اہل کلیسا کو ، گو کہ کوئی شخص از راہ ِ مذاق ہی مبارکباد پیش کرے ، قطعی جائز نہیں ہے ، لہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے امور سے اجتناب کریں. 


مصدر 
کرسمس ڈے کی حقیقت اور مبارکباد پیش کرنے کا حکم 

عبد السلام بن صلاح الدین مدنی 

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1833697926799400&id=100004776314257 

.

منگل، 31 اکتوبر، 2023

گنبد صخرہ و مسجد اقصی المنجد

.

مسجد اقصی اور گنبد صخرۃ 

؛~~~~~~~~~~~~~~~؛ 


سوال 
کچھ دیر قبل مجھے ایک ای میل لیٹر ملا جس میں مسجد اقصی کی حالت اور مسجد اقصی اور قبہ صخرہ کے درمیان فرق کیا گيا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس کی وضاحت کریں کہ مسجد اقصی اور قبہ صخرہ کے درمیان فرق ہے ؟ 

ہم سب اسلامی جگہ پریہ کیوں دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ پر ہی یہ قبہ مسجد اقصی کی نشاندہی کرتا ہے ، میں اور بہت سارے مسلمان اس فرق کو جانتے تک نہیں ہیں ؟



جواب 

الحمد للہ.

مسجد اقصی قبلہ اول اور ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف سفر کر کے جانا جائز ہے ، کہا جاتا ہےکہ اسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ۔

جیسا کہ سنن نسائی ( 693 ) میں حدیث موجود ہے اور اسے علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح نسائی میں صحیح کہا ہے 

اور ایک قول یہ ہے کہ پہلے سے موجود تھی تو سلیمان علیہ السلام نے اس کی تجدید کی تھی 

اس کی دلیل صحیحین میں ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ 

زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئ ؟

تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 
مسجد حرام ( بیت اللہ ) 
تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟ 
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : 
مسجد اقصی ، تو میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟ 
تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ چالیس سال ، پھر جہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجاۓ نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ۔ 
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3366 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 520 ) ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کے ایک حصہ میں بیت المقدس کی سیر کرائی گئی اور اس مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسرے انبیاء علیہم السلام کو نماز پڑھائی ۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے معراج کا واقعہ ذکر کرتے ہوۓ فرمایا ہے : 

پاک ہے وہ اللہ تعالی، اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گيا، جس کے آس پا‎س ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے . 
 الاسراء ( 1 ) ۔ 



اور قبہ صخرہ تو خلیفہ عبدالملک بن مروان نے ( 72 ھ ) میں بنوایا تھا ۔

فلسطینی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ : 

مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدس پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبہ صخری جسے عبد الملک بن مروان نے 72 ھجری الموافق 691 میں بنوایا تھا جو کہ اسلامی آثار میں شامل ہوتا ہے ، اور آج یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد پر بولا جاتا ہے ۔ 
دیکھیں : الموسوعۃ الفلسطینیۃ ( 4 / 203 ) ۔

اور اسی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ :

مسجد اقصی کے صحن کے وسط اور قدس شہر کے جنوب مشرقی جانب یہ قبہ بنایا گیا ہے جو کہ ایک وسیع و عریض اور مستطیل شکل کا صحن جس کی مساحت شمال سے جنوب کی جانب تقریبا 480 میٹر اور مشرق سے مغرب 300 میٹر بنتی ہے ، اور یہ پرانے القدس شہر سے تقریبا پانچ گناہ زیادہ ہے ۔ ا ھـ یہ عبارت کچھ کمی بیشی کے ساتھ پیش کی گئی ہے . 
دیکھیں الموسوعۃ الفلسطینیۃ ( 3 / 23 ) ۔

تو وہ مسجد جو کہ نماز کی جگہ ہے وہ قبہ صخری نہیں ، لیکن آج کل قبہ کی تصاویر منتشر ہونے کی بنا پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصی خیال کرتے ہيں ، حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں ، مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں واقع ہے اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچي جگہ پر ۔

اور یہ بات تو اوپر بیان کی جا چکی ہے کہ زمانہ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پر ہوتا تھا ۔

اس کی تائيد شیخ الاسلام ابن تیمۃ رحمہ اللہ تعالی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ : 

مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں ، اس جگہ میں جسے عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔ 

اس لئے کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تو اس وقت اونچی جگہ ( قبہ صخرہ ) پر زیادہ گندگي تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ یہودی اس طرف نماز پڑھتے تھے تو اس کے مقابلہ میں عیسائی اس جگہ کی توہین کرتے ، تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس گندگی کو صاف کرنے کا حکم صادر فرمایا ، اور کعب رضي اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے : 

تیرے خیال میں ہم مسلمانوں کے لئے مسجد کہاں بنانی چاہیے ؟ ، تو کعب رضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ 
اس اونچی جگہ کے پیچھے ، 
تو عمر رضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے ، 
او یہودی ماں کے بیٹے ! تجھ میں یہودیت کی ملاوٹ ہے ، بلکہ میں تو اس کے آگے بناؤں گا اس لیے کہ ہماری مساجد آگے ہوتی ہیں ۔ 
دیکھیں : الرسائل الکبری لشیخ الاسلام ( 2 / 61 ) ۔

تو یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام جب بھی مسجد اقصی بیت المقدس میں داخل ہو کر نماز پڑھتے تو اسی جگہ پر پڑھتے تھے جسے عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا ، اور اس اونچی جگہ ( گنبد والی ) کے پاس نہ تو عمر اور نہ ہی کسی اور صحابی رضی اللہ تعالی عنہم میں سے کسی نے نماز پڑھی تھی اور نہ ہی خلفاء راشدہ کے دور میں اس پر قبہ ( گبند ) ہی بنا ہوا تھا بلکہ یہ جگہ عمر اور عثمان ، علی ، اور معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور یزید اور مروان کے دور حکومت میں یہ بالکل کھلی تھی ۔ 

اور نہ ہی صحابہ کرام اور تابعین عظام میں کسی نے اس قبہ کی تعظيم کی اس لیے کہ یہ قبلہ منسوخ ہو چکا ہے ، اس کی تعظیم تو صرف یہودی اور عیسائی کرتے ہیں 

اس کا معنی یہ نہیں کہ ہم مسلمان اس کی تعظیم نہیں کرتے بلکہ ہم اسے وہ تعظیم دیتے ہيں جو ہمارے دین میں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے جس طرح کہ ہر مسجد کو تعظیم دی ہے ۔ 

اور عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے جو کعب رضي اللہ تعالی عنہ کی بات کا انکار کیا اور انہیں اے یہودی ماں کے بیٹے کہا تو یہ اس لیے تھا کہ کعب رضي اللہ تعالی عنہ اسلام سے قبل یہودی علماء میں سے تھے جب انہوں نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس اونچی جگہ کے پیچھے مسجد بنانے کا مشورہ دیا تو اس میں اس چٹان کی تعظيم ہوتی کہ مسلمان نماز میں اس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں ، اور اس چٹان کی تعظیم تو یہودیوں کے دین میں ہے نہ کہ مسلمانوں کے دین اسلام میں ۔ 

مسلمانوں کا قبے کو ہی مسجد اقصی سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تصویروں میں اسے اچھی عمارت و ہئیت میں دیکھا ہے ، تو یہ اس غلطی کو ختم نہیں کر سکتا جو کہ مسجد اقصی اور قبہ کی تميز ميں پیدا ہو چکی ہے ۔ 

اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ یہودی سا‍‌زش کا نتیجہ ہو تاکہ ان کے اس قبہ کی تعظیم کی جانی لگے اور وہ اس کی جانب ہی متوجہ ہو جائيں ، یا پھر یہ کہ اس قبے کا اظہار اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ مسجد اقصی کو ختم کر کے ہیکل سلیمانی قائم ہو سکے ۔ 

اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ مسلمان یہ گمان کرنے لگیں کہ یہ قبہ ضخرہ ہی مسجد اقصی ہیں ، اور اگر یہودی اصلی مسجد اقصی کو منہدم کرنے لگيں تو مسلمانوں کے شور و غوغا کرنے پر انہیں یہ کہا جا سکے کہ یہ دیکھیں مسجد اقصی تو اپنی حالت پر قائم ہے اور اس کی دلیل میں وہ تصویریں پیش کریں تو اس طرح وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائيں گے اور مسلمانوں کے غیظ و غضب اور تنقید سے بھی بچ جائيں گے ۔ 

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ مسلمانوں کی عزت و بلندی کو واپس لاۓ ، خنزیروں اور بندروں کے بھائیوں سے مسجد اقصی کو پاک صاف کر دے ، اللہ تعالی اپنے امر پر غالب ہے لیکن یہ بات اکثر لوگوں کے علم میں نہیں ۔

واللہ تعالی اعلم .

محمد صالح المنجد 
الاسلام سوال و جواب 

.

اتوار، 29 اکتوبر، 2023

قضیہ فلسطین چند وضاحتیں مقبول احمد سلفی

 . 

قضیہ فلسطین سے متعلق بعض دینی امور کی وضاحت 
 
تحریر : مقبول احمد سلفی - جدہ، سعودی عرب 

؛~~~~~~~~~~~~~~؛

ان دنوں حماس اور اسرئیل کے درمیان شدید جنگی کاروائیوں کے اثرات نہ صرف فلسطینوں پر مرتب ہوئے بلکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہو رہی ہے ۔ 

خصوصا دنیا بھر کے مسلمان اسرائیلی ظلم و تشدد کے شکار مظلوم فلسطینیوں کی آہ و بکا سے بے حد پریشان ہیں ۔ 

فلسطین کے مسلمان آج سے نہیں 75 سالوں سے یہودیوں کے ظلم و ستم سہتے آ رہے ہیں ۔ ایسی صورت حال میں دنیا بھر کے مسلمانوں کا بے چین ہونا فطری امر ہے ۔ 

فلسطین سے ہمارا تعلق خالص دینی اور اسلامی ہے ۔ ایک طرف فلسطین کے مسلمان ہمارے دینی بھائی ہیں تو دوسری طرف اس سر زمین پر مسجد اقصی موجود ہےجو ہمارا قبلہ رہا ہے، جہاں اللہ نے محمد ﷺ کی سیر کرائی اور آپ ﷺ نے انبیاء کی وہاں پر امامت فرمائی اور آپ ﷺ وہاں سے اللہ کے پاس گئے یعنی آپ ﷺ کا سفر معراج ہوا ۔ اس جگہ کو اللہ نے با برکت قرار دیا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے اس مسجد کی زیارت کا حکم دیا ہے ۔ اس نسبت و تعلق کی وجہ سے ارض فلسطین اور اہل فسلطین ہمارے لئے دل و جان سے عزیز ہیں اور اس مبارک سر زمین پر اسرائیلی وجود اور وہاں کے باشندوں پر اسرائیلی تشدد امت مسلمہ کی آنکھوں میں کاٹوں کی طرح چبھ رہا ہے ۔ بظاہر مسلمان اسرائیلی قوت کے سامنے کمتر ہیں مگر اللہ کی طرف سے یہودی کو ذلت و پسپائی مقدر ہے ۔ 

حالات حاضرہ کے تناظر میں کچھ مسائل عوامی سطح پر قابل توضیح ہیں اور اہل علم سے پوچھے جا رہے ہیں، میں نے مناسب سمجھا کہ ان امور کی وضاحت کردوں تاکہ لوگوں کو صحیح رہنمائی مل سکے ۔ 


شام سے کون سا ملک مراد ہے؟  
؛…………………………………………؛

اس جگہ سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ احادیث میں جو ملک شام کا ذکر ہوا ہے وہ موجودہ زمانہ میں کئی ممالک کو محیط ہے ۔ پہلی عالمی جنگ عظیم سے قبل شام ایک ہی ملک تھا مگر اب سیریا، لبنان، فلسطین اور اردن میں بٹ گیا ہے گو یا حدیث میں مذکور شام اس وقت کے چار ممالک کو شامل ہے ۔ 


 ( 1 ) دو الگ گنبد والی تصویر میں مسجد اقصی کون سی ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

آپ نے انٹرنیٹ پہ دو قسم کے گنبدوں والی مسجد دیکھی ہوگی ۔ ایک گنبد جو پہاڑ پر بنا ہوا ہے، گولڈن کلر کا ہے، اسے قبۃ الصخراء کہتے ہیں اور دوسرا گنبد جو کالے رنک کا نظر آتا ہے وہ دراصل مسجد اقصی ہے ۔ یہودی مسجد اقصی کو منہدم کر کے وہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے وہ مختلف جہات سے کوشش کر رہے ہیں، فلسطین سے مسلمانوں کو مٹا رہے ہیں، زمین ہڑپ رہے ہیں اور مسجد اقصی کی صورت و پہچان عام مسلمانوں کے ذہن سے مٹا رہے ہیں تاکہ اسے مسمار کرنا آسان ہو اس لئے قبۃ الصخراء کی تصاویر زیادہ سے زیادہ وائرل کرتے ہیں ۔ 


 ( 2 ) مسجد اقصی کی کیا فضیلت ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں مسجد حرا م کے ساتھ مسجد اقصی ذکر کر کے اسے با برکت بتایا ہے، یہیں سے محمد ﷺ کا سفر معراج ہوا تھا ۔ اس مسجد کی فضیلت سے متعلق چند دلائل ذکر کرتا ہوں ۔ 

اللہ تعالی کا فرمان ہے : 

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ . 
﴿الاسرا : 1﴾

ترجمہ : 
پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻہے ۔ 

مسجد حرام کے بعد روئے زمین کی دوسری مسجد ہے جس کی تعمیر عمل میں آئی اور اسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ۔ 

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : 

قُلتُ : يا رَسولَ اللَّهِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلَ ؟ قالَ : المَسْجِدُ الحَرَامُ . قُلتُ : ثُمَّ أَيٌّ ؟ قالَ : ثُمَّ المَسْجِدُ الأقْصَى . قُلتُ : كَمْ كانَ بيْنَهُمَا ؟ قالَ : أَرْبَعُونَ، ثُمَّ قالَ : حَيْثُما أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ، والأرْضُ لكَ مَسْجِدٌ . 
( صحیح البخاری : 3425 ) 

ترجمہ : 
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا : 
یا رسول اللہ ﷺ ! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی تھی ؟ فرمایا کہ مسجد الحرام! میں نے سوال کیا، اس کے بعد کون سی ؟ فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ ۔ میں نے سوال کیا اور ان دونوں کی تعمیر کا درمیانی فاصلہ کتنا تھا ؟ فرمایا کہ چالیس سال ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس جگہ بھی نماز کا وقت ہو جائے فوراً نماز پڑھ لو ۔ تمہارے لیے تمام روئے زمین مسجد ہے ۔ 

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

إنَّ سليمانَ بنَ داودَ لمَّا بنى بيتَ المقدسِ سألَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ خلالًا ثلاثةً سألَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ حُكمًا يصادِفُ حُكمَهُ فأوتيَهُ وسألَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ مُلكًا لا ينبغي لأحدٍ من بعدِهِ فأوتيَهُ وسألَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ حينَ فرغَ من بناءِ المسجدِ أن لا يأتيَهُ أحدٌ لا ينهزُهُ إلَّا الصَّلاةُ فيهِ أن يخرجَهُ من خطيئتِهِ كيومِ ولدتهُ أمُّهُ . 
( صحیح النسائی : 692 ) 

ترجمہ : 
سلیمان بن داود علیہما السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، اللہ عزوجل سے مانگا کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کریں جو اس کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی، اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کے لیے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا ۔ 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إلَّا إلى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : المَسْجِدِ الحَرَامِ، ومَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، ومَسْجِدِ الأقْصَى 
( صحيح البخاري : 1189 ) 

ترجمہ : 
تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں ۔ ( یعنی سفر نہ کیا جائے ) ایک مسجد الحرام، دوسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد ( مسجد نبوی ) اور تیسری مسجد الاقصیٰ یعنی بیت المقدس ۔ 

مسجد اقصی میں ایک نماز کا ثواب پانچ سو نماز کے برابر ہے، یہ لوگوں میں مشہور ہے مگر یہ حدیث ضعیف ہے، 
( دیکھیں : تمام المنۃ : 292 ) 

اور ابن ماجہ میں پچاس ہزار کا اجر مذکور ہے، یہ حدیث بھی ضعیف ہے 
( دیکھیں، ضعیف ابن ماجہ : 265 ) ۔ 

صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے اس میں ایک نماز کا اجر ڈھائی سو کے برابر ہے ۔ 

ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ عیلہ و سلم کے پاس آپس میں یہ بحث کر رہے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد افضل ہے یا کہ مسجد اقصی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرمانے لگے : 

صَلاةٌ في مَسجدي هذا أفضَلُ مِن أربَعِ صَلواتٍ فيه، ولَنِعْمَ المُصلَّى، ولَيُوشِكَنَّ ألَّا يكونَ للرَّجلِ مِثلُ بَسْطِ فَرشِه مِنَ الأرضِ حيثَ يَرى منه بيْتَ المقدِسِ خيْرٌ له مِنَ الدُّنيا جميعًا ۔ 

ترجمہ : 
میری مسجد میں ایک نماز اس میں چار نمازیں ادا کرنے سے بہتر ہے، اور نماز ادا کرنے کے لیے وہ اچھی جگہ ہے، اور عنقریب ایک وقت ایسا آئے گا کہ آدمی کے گھوڑے کی رسی جتنی زمین کا ٹکڑا جہاں سے بیت المقدس دیکھا جائے ساری دنیا سے بہتر ہوگی ۔ 
شیخ البانی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے، 
( دیکھیں : صحیح الترغیب : 1179 ) 

یہاں یہ بھی معلوم رہے کہ مسجد اقصی سے عمرہ کا احرام باندھنے کی فضیلت آئی ہے، وہ حدیث ضعیف ہے، 
( دیکھیں ضعیف ابن ماجہ : 590، 591 ) 


 ( 3 ) کیا مسجد اقصی ہمارا قبلہ اول ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

عمومی طور پر مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد حرام ہی ہے کیونکہ روئے زمین پر یہی سب سے پہلی مسجد ہے لیکن جب امت محمد ﷺ کی بات کریں گے تو اس اعتبار سے ہمارا قبلہ اول بیت المقدس قرار پاتا ہے کیونکہ نبی ﷺ مکہ میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے ( مشرکوں کا قبلہ اس وقت بھی کعبہ ہی تھا ) یہاں تک کہ آپ کی ہجرت ہوئی تو مدینہ میں بھی سولہ ماہ تک یہی مسلمانوں کا قبلہ رہا پھر اللہ نے مسجد حرام کو ہمارا قبلہ بنا دیا ۔ 

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے : 

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ 
( البقرۃ؛143 ) 

ترجمہ : 
اور ہم نے آپ کے لیے پہلا قبلہ ( بیت المقدس ) صرف اس لیے بنایا تھا کہ ہمیں معلوم ہو کہ کون ہے جو رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے ۔ 

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں : 

كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يُصلِّي وهو بمكةَ نَحْوَ بيتِ المقدسِ والكعبةُ بينَ يدَيهِ وبعدما هَاجَرَ إلى المدينةِ سِتَّةَ عَشَرَ شهرًا ثم صُرِفَ إلى الكعبةِ ۔ 

ترجمہ : 
رسول اللہ ﷺ مکہ میں بیت القدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اس حال میں کہ کعبہ بھی سامنے ہوتا اور جب آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی سولہ ماہ تک یہی ( بیت المقدس ) قبلہ رہا پھر کعبہ کی طرف پھیردیا گیا ۔ 

اسے احمد، طبرانی اور بزار وغیرہ نے روایت کیا ہے، اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کے رجال کو رجال الصحیح کہا ہے اور شعیب ارناؤط نے اس کی سند کو شیخیں کی شرط پر قرار دیاہے ۔ 

بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قبلہ اول ( بیت المقدس ) سے کعبہ کی طرف متوجہ ہونے پر پہلی نمازوں کے بارے میں صحابہ بے چین ہوئے ۔ 

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : 

لمَّا وُجِّهَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إلى الكَعبةِ قالوا : يا رسولَ اللَّهِ كيفَ بإخوانِنا الَّذينَ ما توا وَهُم يُصلُّونَ إلى بيتِ المقدسِ ؟ فأنزلَ اللَّهُ تعالى وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ الآيةَ 
( صحيح الترمذي : 2664 ) 

ترجمہ : 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو جب کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول! ہمارے ان بھائیوں کا کیا بنے گا جو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اور وہ گزر گئے تو ( اسی موقع پر ) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : 
«وما كان الله ليضيع إيمانكم» 
”اللہ تعالیٰ تمہارا ایمان یعنی نماز ضائع نہ کرے گا“ 
( البقرہ : 143 ) ۔ 


( 4 ) مسجد اقصی کا دائرہ کیا ہے یعنی لوگ پوچھتے ہیں کہ مسجد اقصی کتنے حصے پر بولا جاتا ہے اور کیا اس پورے خطے میں نماز پڑھنا جائز ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

آپ نے بیت المقدس کا نقشہ دیکھا ہوگا، چاروں طرف سے ایک دیوار قائم کی گئی ہے اس احاطہ میں موجود ساری زمین مسجد اقصی کا حصہ ہے جس میں قبۃ الصخراء بھی داخل ہے تاہم موجودہ زمانہ میں کالے گنبد والی مسجد کو مسجد اقصی کے نام سے جانتے ہیں ۔ 

شیخ محمد بن صالح المنجد نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کا یہ قول ذکر کرنے کے بعد کہا ہے ( ( مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سیلمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا، اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں، اس جگہ میں جسے عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ) ) ۔ 

یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام جب بھی مسجد اقصی بیت المقدس میں داخل ہو کر نماز پڑھتے تو اسی جگہ پر پڑھتے تھے جسے عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا، اور اس اونچی جگہ ( گنبد والی ) کے پاس نہ تو عمر اور نہ ہی کسی اور صحابی رضی اللہ تعالی عنہم میں سے کسی نے نماز پڑھی تھی اور نہ ہی خلفاء راشدہ کے دور میں اس پر قبہ ( گبند ) ہی بنا ہوا تھا بلکہ یہ جگہ عمر اور عثمان، علی، اور معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور یزید اور مروان کے دور حکومت میں یہ جگہ بالکل کھلی تھی ۔ 


 ( 5 ) کیا مسجد اقصی ہی بیت المقدس ہے ؟ 
؛…………………………………………؛ 

ہاں بیت المقدس کو ہی مسجد اقصی کہتے ہیں جیسے مسجد حرام کو بیت العتیق بھی کہتے ہیں ۔ 

صحیح بخاری میں ہے، نبی ﷺ فرماتے ہیں : 

لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ . 
( صحيح البخاري : 3886 ) 

ترجمہ : 
جب قریش نے ( معراج کے واقعہ کے سلسلے میں ) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دیئے ۔ 

اس حدیث میں بیت المقدس کا لفظ ہے جس سے مسجد اقصی مراد ہے ۔ 

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : 
اللہ کے رسول! میں نے اللہ سے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو مکہ پر فتح نصیب کیا تو : 
أَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ رَكْعَتَيْنِ . 
( صحيح أبي داود : 3305 ) 

ترجمہ : 
میں بیت المقدس میں دو رکعت ادا کروں گا ۔ 
یہاں بھی بیت المقدس سے مسجد اقصی مراد ہے ۔ 


 ( 6 ) کیا مسجد اقصی حرم شمار کیا جائے گااور وہ تیسرا حرم ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

مسجد حرام اور مسجد نبوی کا حرم ہونا دلائل سے ثابت ہے لیکن مسجد اقصی سے متعلق ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ بھی حرم شمار کیا جائے گا ۔ تین مقدس مساجد میں سے ایک ہے جس کی طرف زیارت کرنا مشروع ہے اور اس جگہ نماز پڑھنے کی فضیلت آئی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے ۔ 


 ( 7 ) کیا قرآن کی آیت کی روشنی میں فلسطین کی زمین پر بنی اسرائیل کا حق نہیں ہونا چاہئے ؟ 
؛…………………………………………؛

جب بنی اسرائیل ایمان کی حالت میں تھے تو اللہ نے بطور انعام فلسطین کی حصہ داری عطا فرمائی مگر جب انہوں نے کفر کیا تو اس انعام سے بھی محروم کئے گئے اور ذلت و خواری کے بھی مستحق ہوئے ۔ جو اللہ کا انکار کرے اور نبیوں کا انکار کرے اللہ اسے زمین کا وارث نہیں بناتا بلکہ جو اللہ کے نیک بندے ہیں انہیں اپنی زمین کا وارث بناتا ہے 
جیساکہ اللہ کا فرمان ہے : 

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ . 
( الأنبياء : 105 ) 

ترجمہ : 
ہم زبور میں پند و نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ( ہی ) ہوں گے ۔ 

اس لئے فلسطین پر صرف مسلمانوں کا حق ہے ۔ 


 ( 8 ) طائفہ منصورہ شام میں ہونے سے متعلق حدیث کیا صحیح ہےجو مسند احمد میں ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

میری امت کا ایک گروہ قیامت تک دین پر ثابت قدم اور دشمن سے برسرے پیکار رہے گا، ان سے اختلاف کرنے والے ان کا کچھ نہ بکاڑ سکیں گے سوائے اس کے کہ انہیں کچھ معاشی تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑے گا یہاں تک کہ اللہ تعالی کا حکم آجائے گا اور وہ اسی حالت پر ہوں گے ۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! وہ کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : وہ بیت المقدس اور اس کے ارد گرد اطراف میں ہوں گے ۔ 
مسنداحمد 12494 

شیخ البانی نے اسے منکر کہا ہے 
( دیکھیں، السلسلة الضعيفة : 5849 ) 

تاہم اس معنی کی دوسری روایات بھی ہیں اس لئے ایک دوسری روایت سے متعلق شیخ البانی ضعف کا اظہار کرتے ہوئے اس کے شاہد ہونے کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں 
( السلسلة الصحيحة : 4 / 599 ) 

لیکن کیا طائفہ منصورہ شام میں ہی ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جماعت کبھی شام میں ہوگی تو کبھی دنیا کے دوسرے خطوں میں ہوگی ۔ 
 

( 9 ) کیا انفرادی طور پر گھروں میں مرد یا عورت قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں ؟ 
؛…………………………………………؛

اہل فلسطین کی نصرت و حمایت اور یہودیوں کی تباہی کے لئے مسلم ممالک میں قنوت نازلہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے، ایسے میں بعض مرد و خواتین کی طرف سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ عورت اپنے گھر میں یا اکیلا مرد قنوت نازلہ پڑھ سکتا ہے ؟ 

اس کا جواب یہ ہے کہ قنوت نازلہ ہماشما کے کہنے سے نہیں ادا کی جائے گی، یہ ولی الامر یا جید علماء کے فتوی کی بنیاد پر قنوت نازلہ پڑھنا چاہئے ۔ 

نبی ﷺ نے قنوت نازلہ پنج وقتہ نمازوں میں پڑھا ہے لہذا ہمیں بھی صرف فرائض میں ہی اس کا اہتمام کرنا چاہئے، نہ کہ سنت، نفل یا جمعہ کی نماز میں ۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ منفرد کے لئے قنوت نازلہ کی دلیل نہیں ملتی ہے تاہم بعض اہل علم نے کہا ہے کہ منفرد بھی فرض نماز میں قنوت نازلہ کا اہتمام کر سکتا ہے، ان کے بقول عورت بھی اپنے گھر میں قنوت نازلہ کرسکتی ہے ۔ 
 

( 10 ) اہل فلسطین کی نصرت کے لئے بدعی وظائف کا حکم 
؛…………………………………………؛

پہلے سوشل میڈیا پر یہ پیغام دستیاب ہوا کہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے قرآن کی فلاں فلاں آیت پڑھنے کا حکم دیا ہے تاکہ اسرائیل تباہ ہو جائے، پھر کچھ دنوں کے بعد دیوبندی عالم مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب کا وظیفہ گردش کرنے لگا، وہ کہتے ہیں مسلمان فجر کی نماز کے بعد سورہ مزمل کی تین بار تلاوت کریں، اسی مولانا کا خود کے ذاتی لیٹر پیڈ پہ دوسرا وظیفہ بھی لکھا ہوا نظر آیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہر نماز کے بعد اس کا معمول بنا لینا چاہئے ۔ 

حسبنا اللہ ونعم الوکیل نعم المولی و نعم النصیر ( 7بار ) 

اللھم انا نجعلک فی نحورھم و نعوذبک من شرورھم ( 7بار ) 

ان تمام وظائف کے جواب میں ہم آپ کی صحیح رہنمائی کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بلاشبہ فلسطین کے مسلمانوں کو دعا دیں مگر کسی کے کہنے سے من مانی طریقے سے کوئی وظیفہ یا مخصوص عمل نہ کریں جس کی دلیل دین نہیں ہے ۔ 

نبی ﷺ کا فرمان ہے : 

من أَحْدَثَ في أَمْرِنَا هذا ما ليسَ فِيهِ، فَهو رَدٌّ . 
( صحيح البخاري : 2697، صحيح مسلم : 1718 ) 

ترجمہ : 
جس نے ہمارے دین میں اپنی طرف سے کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو دین میں نہیں تو وہ مردود ہے ۔ 

آپ مشروع طریقہ پر دعا کریں، فرض نماز کے بعد اپنی دعاؤں میں اہل فلسطین کو یاد رکھیں، دعا کے افضل اوقات میں مظلوم کے لئے دعا کریں ۔ 

مسنون اذکار میں جو مظلوم کے حق میں دعائیں وارد ہیں وہ پڑھیں ۔ 

یاد رکھیں دین میں اپنی طرف سے کوئی وظیفہ خاص کرنا، وظیفہ کی تعداد مقرر کرنا یا اس کے لئے کوئی وقت متعین کرنا بدعت ہے، ہمیں بدعت سے دور رہنا ہے ۔ 
 

( 11 ) یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا کیسا ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

سوشل میڈیا پر اسرائیلی اور یہودی مصنوعات بائیکاٹ کا ٹرینڈ چل رہا ہے ایسے میں کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا ہمیں ایسا کرنا چاہئے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی مصلحت کے تئیں دشمنان اسلام کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے ۔ 

میکڈونل کا ایک ٹویٹ دیکھا گیا ہے جس میں یہ لکھا تھا کہ ہم اسرائیلی فوجی کو فری فوڈ مہیا کریں گے ۔ اب ایسے میں میکڈونل اور اس جیسے تمام ادارے و مصنوعات کا جن سے اسرائیل کو تقویت پہنچتی ہے بائیکاٹ ہونا چاہئے تاکہ معاشی اعتبار سے اسرائیل کو نقصان پہنچے ۔ 

دنیا میں ہر ایک سامان کا متعدد متبادل موجود ہے ہم غیر یہودی متبادل مصنوعات کا استعمال کریں ۔ 
 

( 12 ) امام مہدی اور دجال کے ظہور کا وقت ہو گیا ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

اسرائیلی اقدام کے پس منظر میں کچھ صوفیت پسند لوگ امام مہدی کے ظہور کی تاریخ بھی بتلا رہے ہیں ۔ 

کسی نا معلوم بندہ نے حنفی صوفی مفتی ابولبابہ شاہ منصور کے حوالہ سے لکھا ہے کہ 2024 میں امام مہدی کا ظہور ہوگا ۔ 

ایک اور حنفی صوفی پیر ذوالفقار نقشبندی نے حرم میں قسم کھا کرکہا کہ 2025 میں امام مہدی کا ظہور ہوگا ۔ 

اسی طرح حنفی صوفی مولانا سجاد نعمانی نے سورہ کہف سے مطلب نکالا ہے کہ سورۂ کہف پندرھویں پارے کے نصف سے شروع ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ دجال کا خروج پندرھویں صدی کے نصف پر ہوگا ۔ 

یہ سب فضول قیاس آرائیاں ہیں، علمائے امت کو چاہئے کہ مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کریں اور دین میں عقل لگانے سے پرہیز کریں ۔ 

جو تاریخ ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے نہیں بتائی ہے اس میں اٹکل نہ لگائیں ۔ 


( 13 ) فلسطینی مسلمانوں کو زکوۃ سے امداد کرنا کیسا ہے ؟ 
؛…………………………………………؛

آج کل مختلف ممالک میں امدادی تنظیم فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے لئے خوراک کا انتظام کرکے فلسطین بھیج رہی ہے، ایسے میں بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا اس مد میں زکوۃ کا مال لگا سکتے ہیں؟

تو اس کا جواب ہے کہ ہاں فلسطینیوں کی امداد میں زکوۃ کا مال لگا سکتے ہیں ۔ 

زکوۃ کے علاوہ بھی صدقات و خیرات اور عطیات سے خوب خوب مدد کی جائے کیونکہ اس وقت وہ بہت زیادہ محتاج و مستحق ہیں ۔ 


آخری کلام 
؛…………………………………………؛

فلسطین کے مسلمان ہمارے بھائی ہیں، ان کی تکلیف ہماری تکلیف ہے اور ان کے غم میں ہم برابر کے شریک ہیں 

تاہم یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قرآن نے ایک معصوم کا قتل ساری انسانیت کا قتل ٹھہرایا ہے ایسے میں ہم حماس کے اقدام کو غلط سمجھتے ہیں ۔ 

آج فلسطین میں جتنے مسلمان شہید ہو رہے ہیں ان سب کا ذمہ دار حماس ہے اس لئے ہمیں جذبات سے اوپر اٹھ کر اسلام کے آئینہ میں دیکھنا چاہئے کہ اسلام میں جنگ کے کیا اصول ہیں ؟ اسلام امن پسند مذہب ہے، یہ حالت جنگ میں بھی عورت، بوڑھے، بچے، مریض اور امن پسندوں کا قتل جائز نہیں ٹھہراتا ۔ 

بہر کیف! اس وقت اہل فلسطین کو ہماری ضرورت ہے، ہم ان کو اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھیں، جہاں تک ہوسکے امداد فراہم کریں اور مسلم حکمرانوں کی اصل ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی کا کردار نبھائے اور امن مذاکرات کے ذریعہ قضیہ فلسطین کا مستقل حل نکالے ۔ 



 .