ہفتہ، 21 اکتوبر، 2023

زمانے کو برا بھلا کہنے کی صورتیں، اقسام، حکم


 . 

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ 

انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں 
زمانے کو برا بھلا کہنے کی صورتیں، اقسام، حکم 

فتاوی، مضامین، شروحات حدیث 

مختلف علماء 

جمع و ترتیب 
سید محمد عزیر ادونوی 

پی ڈی یف لنک 

~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر 1 
____________

سوال 

السلام عليكم و رحمة الله و بركاته 

کیا یہ حدیث ہے کہ

 ( لَا تَسُبُّوا الدَّھْرَ فَأَنَا الدَّھْرُ أُقَلَّبُ… الخ ) 

’’زمانے کو گالی نہ دو ۔ میں ہی زمانہ ہوں… ’’ 
اگر یہ حدیث ہے تو کیا یہ صحیح حدیث ہے؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

و علیکم السلام و رحمة الله و برکاته! 

الحمد لله، و الصلاة و السلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : 

 ( قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی یُوْذِینِیْ ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّھْرَ وَأَنَا الدَّھْرُ أَقْلِّبُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ ) 

’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ابن آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے، وہ زمانے کو گالی دیتا ہے اور میں ہی زمانہ ہوں، رات اور دن کو بدلتا ہوں‘‘ 

 ( لَا تَسُبُّو الدَّھْرَ فَأِنَّ اللّٰہَ ھُوَالدَّھْرُ ) 
 
’’زمانے کو گالی نہ دو کیونکہ اللہ ہی زمانہ ہے ۔ ‘‘

اس حدیث کی تشریح میں امام بغوی فرماتے ہیں :  

’’عربوں کی یہ عادت تھی کہ وہ مصیبت کے وقت زمانے کو برا بھلا کہتے اور گالی دیتے تھے ۔ کیونکہ وہ مصیبتوں اور تکلیفوں کو زمانے کی طرف منسوب کرتے تھے ۔ 

وہ کہتے تھے ’’فلاں شخص کو زمانے کی چوٹیں پڑیں اور فلاں قبیلے کو زمانے نے تباہ کردیا ۔ ‘‘ 

چونکہ وہ مصائب کو زمانے کی طرف منسوب کرتے تھے، لہٰذا وہ ان حوادث کے فاعل کو برا بھلا کہتے تھے ۔ اس طرح وہ گالی اصل میں اللہ تعالیٰ کو دی جاتی تھی، کیونکہ ان واقعات کا فاعل حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہے ( نہ کہ زمانہ جسے وہ اپنے خیال میں مصیبت کا سبب قرار دے رہے تھے ) ۔ اس لئے انہیں زمانے کو گالی دینے سے منع کر دیا گیا ۔ 

وَ بِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَ آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَ سَلَّمَ 

اللجنۃ الدائمۃ ۔ 
رکن : 
عبداللہ بن قعود، 
عبداللہ بن غدیان، 
نائب صدر : 
عبدالرزاق عفیفی، 
صدر : 
عبدالعزیز بن باز 
فتویٰ ( ۸۴۸۷ ) 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب 

فتاویٰ ابن باز رحمہ اللہ
جلد دوم - صفحہ 25

~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر 2 
____________

صحيح البخاري 6181، 
كِتَاب الْأَدَبِ 

کتاب : اخلاق کے بیان میں

101 . بَابُ لاَ تَسُبُّوا الدَّهْرَ : 

101 . باب : زمانہ کو برا کہنا منع ہے ۔ 

 ( مرفوع ) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، اخبرني ابو سلمة، قال : قال ابو هريرة رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " الله يسب بنو آدم الدهر وانا الدهر بيدي الليل والنهار " . 

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں ابو سلمہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں رات اور دن ہیں ۔ “ 

تخریج 
 ● صحيح البخاري 7491عبد الرحمن بن صخر يؤذيني ابن آدم يسب الدهر أنا الدهر بيدي الأمر أقلب الليل والنهار
 
 ● صحيح البخاري 6181عبد الرحمن بن صخر يسب بنو آدم الدهر أنا الدهر بيدي الليل والنهار

● صحيح البخاري 4826عبد الرحمن بن صخر يؤذيني ابن آدم يسب الدهر أنا الدهر بيدي الأمر أقلب الليل والنهار
 
● صحيح مسلم 5867عبد الرحمن بن صخر لا يسب أحدكم الدهر فإن الله هو الدهر لا يقولن أحدكم للعنب الكرم فإن الكرم الرجل المسلم
 
● صحيح مسلم 5863عبد الرحمن بن صخر يؤذيني ابن آدم يسب الدهر أنا الدهر أقلب الليل والنهار
 
● صحيح مسلم 5865عبد الرحمن بن صخر لا يقولن أحدكم يا خيبة الدهر فإن الله هو الدهر
 
● صحيح مسلم 5864عبد الرحمن بن صخر يؤذيني ابن آدم يقول يا خيبة الدهر فلا يقولن أحدكم يا خيبة الدهر أنا الدهر أقلب ليله ونهاره فإذا شئت قبضتهما
 
● صحيح مسلم 5862عبد الرحمن بن صخر يسب ابن آدم الدهر أنا الدهر بيدي الليل والنهار
 
● صحيح مسلم 5866عبد الرحمن بن صخر لا تسبوا الدهر فإن الله هو الدهر
 
● سنن أبي داود 5274عبد الرحمن بن صخر يؤذيني ابن آدم يسب الدهر أنا الدهر بيدي الأمر أقلب الليل والنهار
 
● صحيفة همام بن منبه 118عبد الرحمن بن صخر لا يقل ابن آدم يا خيبة الدهر أنا الدهر أرسل الليل والنهار فإذا شئت قبضتهما
 
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم 13عبد الرحمن بن صخر لا يقولن احدكم : يا خيبة الدهر، فإن الله هو الدهر
 
● مشكوة المصابيح 22عبد الرحمن بن صخر قال الله تعالى : يؤذيني ابن آدم يسب الدهر وانا الدهر بيدي الامر اقلب الليل والنهار


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ


 الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4826 
 
´زمانے کو برا نہ کہو`

 « . . . قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : 
يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ، وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ . . . » 

” . . . اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے ۔ میں رات اور دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہوں ۔ “ 
[صحيح البخاري / كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ : 4826]

فوائد و مسائل
زمانہ جاہلیت میں جب مشرکین عرب کو کوئی دکھ، غم، شدت و بلا پہنچتی تو وہ کہتے :  
« يا خيبة الدهر »  
یعنی ہائے زمانے کی بربادی! 
 وہ ان افعال کو زمانے کی طرف منسوب کرتے اور زمانے کو برا بھلا کہتے اور گالیاں دیتے حالانکہ ان افعال کا خالق اللہ جل جلالہ ہے تو گویا انہوں نے اللہ تعالیٰ کو گالی دی ۔ 

◈ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے سورہ جاثیہ کی تفسیر میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

 « كان اهل الجاهليه يقولون انما يهلكنا الليل والنهار وهو الذي يهلكنا يميتنا ويحيينا فقال الله في كتابه وقالوا ما هي الا حياتنا الدنيا نموت ونحيا وما يهلكنا الا الدهر » 
[تفسیر ابن کثیر : 4 / 109] 

” اہل جاہلیت کہتے تھے کہ ہمیں رات اور دن ہلاک کرتا ہے، وہی ہمیں مارتا اور زندہ کرتا ہے ۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا : ” انہوں نے کہا ہماری زندگی صرف اور صرف دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے ۔ 
دراصل انہیں اس کی خبر نہیں یہ تو صرف اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں ۔ 

 اس آیت کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ زمانے کو برا بھلا کہنا اور اپنی مشکلات اور دکھوں کو زمانے کی طرف منسوب کر کے اسے برا بھلا کہنا مشرکین عرب اور دھریہ کا کام ہے ۔ دراصل زمانے کو برا بھلا کہنا اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہنا ہے ۔ 

❀ صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

 « قال الله عز وجل : ‏‏‏‏ يؤذيني ابن آدم يسب الدهر، ‏‏‏‏‏‏وانا الدهر بيدي الامر اقلب الليل والنهار » 

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : 
" ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے، وہ زمانے کو گالیاں دیتا ہے اور میں ( صاحب ) زمانہ ہوں ۔ میرے ہاتھ میں معاملات ہیں ۔ میں رات اور دن کو بدلتا ہوں ۔ “ 
[بخاري، كتاب التفسير : باب تفسير سوره جاثيه : 4826، مسلم : 2246، حميدي : 2 / 468، مسند احمد : 2 / 238، ابوداؤد : 5274] 

❀ اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

 « لا تسبوا الدهر فان الله هو الدهر » 
 
” زمانے کو برا نہ کہو یقیناً اللہ ہی زمانہ ہے ( یعنی زمانے والا ہے ) ۔ “ 
 [مسند ابي يعلي : 10 / 452]

❀ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں : 

 « لا يقولن احدكم يا ضيعة الدهر! فان الله هو الدهر » 

ہرگز کوئی یہ نہ کہے : 
"ہائے زمانے کی بربادی!“ بے شک اللہ ہی زمانے والا ہے ۔  
[حلية الاولياء : 8 / 258] 

◈ امام خطابی رحمہ اللہ « انا الدهر » کا معنی بیان کرتے ہیں : 

 « أنا صاحب الدهر، ومدبر الأمور التي ينسبونها إلى الدهر، فمن سب الدهر عن أجل أنه فاعل هذه الأمور؛ عاد سبه إلى ربه الذي هو فاعلها » 

” میں زمانے والا اور کاموں کی تدبیر کرنے والا ہوں، جن کاموں کو یہ زمانے کی طرف منسوب کرتے ہیں ( یعنی دن رات کا نظام وغیرہ ابدی ہے خود بخود چل رہا ہے ۔ یہ زمانہ ہی مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے ) جس نے زمانے کو اس بنا پر برا بھلا کہا کہ وہ ان امور کا بنانے والا ہے تو اس کی گالی اس رب کی طرف لوٹنے والی ہے جو ان امور کا بنانے والا ہے ۔ “ 
[فتح الباري : 575 / 16] 

 لہٰذا زمانے کو برا بھلا کہنا کہ عوام الناس میں رائج ہے کہ زمانہ برا آ گیا ہے، گیا گزرا زمانہ ہے، وقت کا ستیاناس وغیرہ، دراصل اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہنا ہے، کیونکہ سارا نظام عالم اللہ وحدہ لا شریک لہ کے قبضہ قدرت میں ہے، وہی پیدا کرنے والا اور وہی مارنے والا ہے ۔ وہی مدبر الامور ہے، منتظم اور سب کی بگڑی بنانے والا گنج بخش، غوث اعظم، داتا، فیض بخش اور دست گیر ہے ۔ اس لیے ان امور اور زمانے کو برا کہنا اللہ تعالیٰ کو برا کہنا ہے جو ان کا خالق ہے ۔ لہٰذا ایسے کلمات سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ 

 احکام و مسائل، حدیث \ صفحہ نمبر : 26 


 حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 13 
 
´زمانے کو برا نہیں کہنا چاہئیے`

 « . . . 364 - وبه : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : 
 ”لا يقولن أحدكم : يا خيبة الدهر، فإن الله هو الدهر“ . . . . » 

” . . . اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

"تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ ہائے زمانے کی رسوائی! کیونکہ اللہ ہی زمانہ ( بدلنے والا ) ہے ۔ “ . . . “ 
[موطا امام مالك رواية ابن القاسم / 0 / 0 : 13] 

تخریج الحدیث : 
[وأخرجه البخاري فى الادب المفرد 729، من حديث ما لك به بلفظ : ”لا يقولن أحدكم“ إلخ ورواه مسلم فواد 2246، من حديث ابي الزناد به] 

تفقه : 
➊ زمانے کو برا کہنا گویا الله تعالیٰ پر اعتراض کرنا ہے کیونکہ وہی زمانے کا خالق اور وہی زمانے کا مدبر ہے لہٰذا زمانے کو برا نہیں کہتا چاہئے ۔ 

➋ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

 « قال الله عز وجل : يؤذيني ابن آدم، يسب الدهر وأنا الدهر، بيدي الأمر، أقلب الليل والنهار ۔ »  

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مجھے ابن آدم ایذا ( تکلیف ) دیتا ہے، وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور میں زمانہ بدلنے والا ہوں ۔ میرے ہی ہاتھ میں اختیار ہے، رات اور دن کو میں ہی تبدیل کر رہا ہوں ۔ 
[صحيح بخاري : 4826، صحيح مسلم : 2246]

◄ اس حدیث سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں پانچ مزید فوائد پیش خدمت ہیں : 

① الله کوتکلیف دینے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی اس حرکت پر الله تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے ۔ 

② مطلقاً زمانے کو برا کہنا یعنی گالیاں وغیرہ دینا ممنوع ہے کیونکہ زمانے کا خالق الله تعالیٰ ہے، اس سے یہ مفہوم بھی نکل سکتا ہے کہ اعتراض کرنے والا زمانے کے خالق یعنی الله تعالیٰ پر اعتراض کر رہا ہے ۔ معاذ اللہ

③ دہریہ عقائد والے کفار زمانے کو برا کہتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں ان کا قول منقول ہے :  

« وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ » یعنی ہمیں صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے ـ 
 [45 - الجاثيه : 24] 

● انھی کی پیروی کرتے ہوئے بعض جاہل عوام زمانے کو برا کہہ بیٹھتے ہیں حالانکہ ہر انسان پر فرض ہے کہ وہ ان تمام کاموں سے بچے جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے ۔ 

④ صرف اللہ ہی مدبر اور متصرف ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ جو لوگ اس کے شریک بنا لیتے ہیں، ان کے شرک اور شریکوں سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ پاک اور بلند ہے ۔ 

⑤ بعض روایتوں میں زمانے کی مذمت بھی آئی ہے مثلا ایک حدیث میں آیا ہے کہ

 « لايأتي عليكم زمان إلا والذي بعده أشرمنه ۔ »  
تم پر جو زمانہ بھی آئے گا اس کے بعد والا زمانہ اس کی بہ نسبت زیادہ شر والا ( خراب ) ہوگا ۔  
[البخاري : 1068] 

● تو ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ اچھا زمانہ ہو یا بظاہر برا زمانہ، سب الله کی طرف سے ہے ۔ اس میں زمانے کو برا نہیں کہا گیا اور نہ گالیاں دی گئی ہیں ۔ 

 موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث \ صفحہ نمبر : 364 
 

 حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 22 
 
´ابن آدم کا اللہ تعالیٰ کو جھٹلانا؟ `

 « . . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم : " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِيَ الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ " . . . » 

” . . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

”اللہ تعالیٰ نے فرمایا : 
 انسان مجھے تکلیف دیتا ہے وہ زمانہ کو برا کہتا ہے اور اس کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں خود ہی زمانہ ہوں میرے ہاتھ میں حکم ہے رات کو دن میں بدلتا ہوں ۔ “ . . . “ 
[مشكوة المصابيح / كِتَاب الْإِيمَانِ : 22]

تخریج الحدیث : 
[صحیح بخاری 4826]، 
[صحیح مسلم 5863] 

فقہ الحدیث 
➊ اللہ کو تکلیف دینے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی اس حرکت پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے ۔ 

➋ مطلقاً زمانے کو برا کہنا، یعنی گالیاں وغیرہ دینا ممنوع ہے، کیونکہ زمانے کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، اس سے یہ مفہوم بھی نکل سکتا ہے کہ اعتراض کرنے والا زمانے کے خالق یعنی اللہ تعالیٰ پر اعتراض کر رہا ہے ۔ « معاذ الله » 

➌ دہریہ عقائد والے کفار زمانے کو برا کہتے تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ان کا قول منقول ہے : 

 « وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ » 

یعنی ہمیں صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے ۔ 
[سورة الجاثيه : 24] 

انہی کی پیروی کرتے ہوۓ بعض جاہل عوام زمانے کو برا کہہ بیٹھتے ہیں ۔ 
حالانکہ ایسی حرکتوں سے کلی اجتناب کرنا چاہئے ۔ ہر انسان پر فرض ہے کہ وہ ان تمام کاموں سے بچے جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے ۔ 

➍ صرف ایک اللہ ہی مدبر اور متصرف ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ جو لوگ اس کے شریک بنا لیتے ہیں، ان شریکوں سے اللہ پاک ہے ۔ 

➎ بعض روایتوں میں زمانے کی مذمت بھی آئی ہے، مثلاً ایک حدیث میں آیا ہے کہ : 

 « لا ياتي عليكم زمان إلا الذى بعده أشر منه » 

”تم پر جو زمانہ بھی آئے گا اس کے بعد والا زمانہ اس کی بہ نسبت زیادہ شر والا ( خراب ) ہو گا ۔ “ 
 [صحيح البخاري : 7068] 

ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ اچھا زمانہ ہو یا بظاہر برا زمانہ، سب اللہ کی طرف سے ہے ۔ اس میں زمانے کو برا نہیں کہا گیا اور نہ گالیاں دی گئی ہیں ۔ 

 اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث \ صفحہ نمبر : 22 
 

 الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود، تحت الحديث 5274 
 
´زمانے کو برا بھلا کہنے کی ممانعت کا بیان ۔ `

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : 

”اللہ عزوجل فرماتا ہے : 
 ابن آدم ( انسان ) مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، وہ زمانے کو گالی دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہی ہوں، تمام امور میرے ہاتھ میں ہیں، میں ہی رات اور دن کو الٹتا پلٹتا ہوں ۔ ‏‏‏‏“ 
[سنن ابي داود / أبواب السلام / حدیث : 5274] 

فوائد و مسائل : 

1 ۔ دور یا زمانے کو برا بھلا کہنا ناجائز ہے دور یا زمانہ تو ہمیشہ سے ایک ہی ہے، البتہ لوگ اپنی بد اعمالیوں کو بھول کر زمانے کی طرف نسبت کرنے لگتے ہیں ۔ 

2 ـ چونکہ اللہ عزوجل زمانے کا خالق اور اس میں تغیر و تبدل کرنے والا ہے، اس نسبت سے اس نے اپنے آپ کو دھر سے تعبیر فرمایا ہے، اس سبب کے باوجود یہ کلمہ اللہ کے اسماء یا صفات میں سے نہیں ہے ۔ 

 سنن ابی داود، شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث \ صفحہ نمبر : 5274 

~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر 3 
____________

غاية المريد فی شرح کتاب التوحید 

زمانے کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کے مترادف ہے 

باب : 44 - - زمانے کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کے مترادف ہے ( 1 ) ​

اللہ تعالی کا ارشاد ہے : 
 ( ( وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ 
 ( سورة الجاثية45 : 24 ) ) 

“اور وہ کہتے ہیں ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی ہے ۔ ہم یہاں مرتے اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں مار دیتا ہے ۔ انہیں حقیقت کا کچھ علم نہیں ۔ اور وہ محض گمان سے کام لیتے ہیں ۔ ” ( 2 ) 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا : 

 ( ( يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ) 

 ( صحیح البخاری، التفسیر، سورۃ حم الجاثیۃ، باب وما یھلکنا الا الدھر، ح : 4826 وصحیح مسلم، الالفاظ من الادب و غیرھا، باب النھی عن سب الدھر، ح : 2246 ) ) 

“اللہ تعالی فرماتے ہیں ابن آدم زمانے کو گالیاں دے کر ( برا بھلا کہہ کر ) مجھے ایذا پہنچاتا ہے کیونکہ ( در حقیقت ) میں ہی زمانہ ( کا خالق اور مالک ) ہوں ۔ دن اور رات کو میں ہی تبدیل کرتا ہوں ۔ ” 

اور ایک روایت میں ہے : 

 ( ( لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ، فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ ) 
 ( صحیح مسلم، الالفاظ من الادب، باب النھی عن سب الدھر، ح : 2246 ) ) 

“زمانہ کو گالی مت دو ( برا بھلا مت کہو ) کیونکہ در حقیقت اللہ تعالی ہی زمانہ ہے ۔ ” ( 3 ) 

مسائل : 
1 ) ان احادیث میں زمانے کو گالی دینے اور برا بھلا کہنے کی ممانعت ہے ۔ 

2 ) رسول اللہ ﷺ نے زمانے کو برا بھلا کہنا، اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کے مترادف قرار دیا ہے ۔ 

3 ) “فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ " 
 ( در حقیقت اللہ ہی زمانہ ہے ) 
یہ جملہ ازحد قابل توجہ ہے ۔ 

4 ) انسان کو سب و شتم سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ بسا اوقات لا شعوری طور پر انسان سب و شتم کا مرتکب ہو جاتا ہے اگرچہ وہ اس کا ارادہ نہ بھی کرے ۔ 

نوٹ : - 

 ( 1 ) زمانے کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا ہرگز جائز نہیں ۔ یہ بات توحید کے منافی ہے ۔ اس لیے اس سے احتراز ضروری ہے ۔ 

جہلاء کی عادت ہے کہ جب کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف ہو تو زمانے کو برا بھلا کہنے یا گالیاں دینے لگتے ہیں اور اس دن، ماہ یا سال کو لعنتی قرار دے کر شر یا برائی کی نسبت زمانہ کی طرف کرتے ہیں کہ زمانہ بڑا خراب ہے، بڑا خراب زمانہ آگیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زمانہ تو کوئی کام ہی نہیں کرتا ۔ زمانے میں حقیقی متصرف اللہ تعالی ہے ۔ اور اس کا خالق بھی وہی ہے . 

لہذا زمانے کو برا بھلا کہنا اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کے مترادف ہے ۔ 

البتہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ سال بڑے سخت ہیں، یہ دن بڑے سیاہ ہیں، یہ مہینے بڑے منحوس ہیں تو اس قسم کے الفاظ پہ کوئی مواخذہ نہیں کیونکہ ان سے متکلم کی مراد یہ ہوتی ہے کہ میرے لیے یہ سال بڑے سخت، یہ مہینے بڑے منحوس ( نا مبارک ) یا یہ دن بڑے سیاہ ہیں ۔ اس سے وہ زمانے کو برا نہیں کہتا بلکہ اپنے حالات بیان کر رہا ہوتا ہے ۔ اس لیے یہ الفاظ مذموم نہیں ۔ 

 ( 2 ) حالات و واقعات کی نسبت زمانہ کی طرف کرنا مشرکین کا طریقہ ہے ۔ جبکہ اہل توحید تمام امور کی نسبت اللہ تعالی ہی کی طرف کرتے ہیں ۔ 

 ( 3 ) اس کا مطلب یہ نہیں کہ “الدهر” ( زمانہ ) اللہ تعالی کا نام ہے بلکہ اس سے بتلانا یہ مقصود ہے کہ زمانہ از خود نہ تو کسی چیز کا مالک ہے اور نہ کچھ کرتا یا کر سکتا ہے بلکہ زمانے میں حقیقی متصرف اللہ تعالی ہے لہذا زمانے کو برا بھلا کہنا، اس میں تصرف کرنے والے اللہ تعالی کو برا بھلا کہنے کے مترادف ہے ۔ 


~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر 4 
____________

کچھ لوگ کہتے ہیں : " زمانہ غدار ہے " اس کا کیا حکم ہے؟ 

 نمبر 145615 
 
 سوال 
کیا یہ کہنا جائز ہے کہ زمانہ غدار ہے؟ کیونکہ زمانہ بھی " دَھَر " کا ایک حصہ ہے، اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ " دھر " یعنی زمانے کو برا بھلا نہ کہو، کیونکہ اللہ تعالی " الدَھَر " ہے ۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے ۔ 


جواب کا متن 

الحمد للہ . 

یہ کہنا کہ : " زمانہ غدار ہے " جائز نہیں ہے، کیونکہ زمانہ کسی کے معاملے میں کچھ بھی تصرف نہیں کر سکتا، در حقیقت اس کائنات کے تمام معاملات اور امور میں تصرف اور ان کی منصوبہ بندی صرف اللہ تعالی ہی فرماتا ہے کہ جو یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے " الدَھَر " کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے، کیونکہ " الدَھَر " کو گالی دینے والے کی گالی در حقیقت اللہ تعالی تک پہنچتی ہے، اور اللہ تعالی ہر قسم کی برائی سے بلند و بالا ہے ۔ 
اس حوالے سے تفصیلات پہلے سوال نمبر : ( 9571 ) کے جواب میں گزر چکی ہیں ۔ 

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے کچھ جملوں کی بابت استفسار کیا گیا کہ : " زمانہ بہت خراب ہو گیا ہے " یا " زمانہ غدار ہے " یا " وہ گھڑی بڑی منحوس تھی جس میں میں نے تمہیں دیکھا " کہنا صحیح ہے؟ 

تو انہوں نے جواب دیا : 
 " سوال میں مذکور جملوں کا مفہوم دو طرح کا ہو سکتا ہے : 
 
پہلا مفہوم :  
یہ جملے زمانے کو گالی اور دشنام دینے کے لیے ہوں، تو پھر یہ جملے حرام ہیں جائز نہیں ہیں، کیونکہ زمانے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے، اس لیے اگر کوئی زمانے کو گالی دیتا ہے تو وہ اللہ تعالی کو گالی دے رہا ہے، اسی لیے تو اللہ تعالی نے حدیث قدسی میں فرمایا : 

( مجھے ابن آدم تکلیف دیتا ہے، کہ وہ الدھر کو گالی دیتا ہے اور میں الدھر ہوں، یعنی زمانے کے سارے معاملات میرے ہاتھ میں ہیں میں ہی دن اور رات لاتا اور لے جاتا ہوں ۔ ) 

دوسرا مفہوم :  
انسان یہ جملے محض خبر دینے کے لیے کہے، تو پھر اس صورت میں یہ جملے بولنے میں کوئی حرج نہیں ہے. 

قران کریم میں سیدنا لوط علیہ السلام کا قول اللہ تعالی نے نقل فرمایا کہ : 

وَقَالَ هَذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ 

ترجمہ :  
اور لوط نے کہا کہ : یہ دن بہت شدید ہے ۔ [ھود : 77] 

یعنی سخت دن ہے، اب یہ جملہ تقریباً سب لوگ ہی بولتے ہیں کہ یہ دن سخت ہے، فلاں دن میں ایسے ایسے معاملات ہوئے تھے ۔ تو اس مفہوم میں یہ جملے کہے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔  

جبکہ یہ کہنا کہ : " زمانہ غدار ہے " تو یہ زمانے کو گالی دینے کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ غداری مذموم صفت ہے، کسی کو اس صفت سے موصوف کرنا جائز نہیں ہے ۔ 

اور تیسرا جملہ کہ :  
" وہ گھڑی بڑی منحوس تھی جس میں میں نے تمہیں دیکھا " اگر اس سے مراد یہ لے کہ اس وقت میں میں  منحوس تھا، تو اس میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ یہ زمانے کو گالی نہیں ہے، لیکن اگر اس سے مراد زمانہ لے، یا دن لے تو پھر یہ زمانے کو گالی ہو گی جو کہ جائز نہیں ہے ۔ " ختم شد
 " مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین " ( 1 / 198 ) 

واللہ اعلم 

محمد صالح المنجد 
اسلام سوال و جواب 

~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر 5 
____________

انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں 

مضمون نگار 
ساجد تاج 


انسان کے ساتھ جب بھی کچھ بُرا ہوتا ہے تو وہ اُس کا الزام زمانے کو دینے لگتا ہے کہ زمانہ ہی خراب ہے ۔ اسی طرح جب بُرے حالات کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ آج کا زمانہ کتنا بُرا ہے پچھلا زمانہ ایسا نہ تھا یا پچھلا زمانہ بُرا نہ تھا ۔ 

حقیقت بات یہ ہے کہ انسان کو آج تک زمانے کا مطلب سمجھ میں‌ ہی نہیں‌ آیا ہے کہ زمانہ ہے کیا اور زمانہ کہتے کس کو ہیں ۔ بس ایک عادت بن چکی ہے کہ کچھ بھی غلط ہو جائے تو بِنا سوچے سمجھے الزام زمانے کو دے دو ۔ ہمیں‌ تو سب سے پہلے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ زمانہ ہے کیا؟ 

زمانہ کوئی اچھے بُرے لوگوں کا گروپ نہیں جو آج کچھ ہے تو کل کچھ اور ہوگا ۔ زمانہ انسان سے نہیں‌ ہے بلکہ انسان زمانے سے ہے ۔ انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان خراب ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان ظالم ہوتا ہے زمانہ نہیں، بے وفائی اور دھوکہ انسان کرتا ہے زمانہ نہیں ۔ 

زمانہ تو اللہ تعالی سے ہے، یہ سورج، چاند و ستارے، زمین و آسمان، درخت، پہاڑ، ہوا، پانی، سمندر، دریا، دن و رات وغیرہ یہ سب زمانے کا حصہ ہیں ۔ 

زمانہ انسان کے کہنے پر نہیں چلتا بلکہ یہ تو اللہ تعالی کے تابع ہیں جو اُس کے حکم سے اپنے اپنے کام سر انجام دے رہیں ہیں ۔ 

زمانہ انسان کا محتاج نہیں بلکہ انسان زمانے کا محتاج ہے ۔ 

زمانے کو بُرا کہنے کا مطلب نعوذ باللہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ اللہ تعالی کو بُرا کہنے کے برابر ہے ۔ جو اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے ۔ 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : 

قال النبی صلی اللہ علیه و سلم قال اللہ تعالی : 

یوذینی ابن آدم، یسب الدھر بیدی الامر اقلب اللیل والنھار ۔ 

ترجمہ : 
“ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ 

ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانے کو بُرا بھلا کہتا ہے ۔ حالانکہ میں ہی زمانہ کا پیدا کرنے والا ہوں ۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، میں جس طرح چاہتا ہوں رات اور دن کو پھیرتا رہتا ہوں ۔ “

 ( صحیح بخاری ( مترجم )، جلد 8، صفحہ 596، کتاب التوحید جلد نمبر 6، کتاب التفسیر، باب وما یھلکنا الا الدھر ۔ صفحہ نمبر 386 ) 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیھ و سلم نے فرمایا : 

یقول اللہ استقرضت عبدی فلم یقرضنی وشتمنی عبدی وھو لایدری مایقول وادھراہ وادھراہ وانالدھر 

ترجمہ : 
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں‌ نے اپنے بندے سے قرض مانگا اس نے مجھے قرض نہ دیا اور میرے بندے نے لاعلمی میں مجھے گالی دی، وہ کہتا ہے ہائے زمانہ ہائے زمانہ ۔ حالانکہ زمانہ درحقیقت میں ہوں ۔ 

 ( مستدرک الحاکم کتاب الزکاتہ، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 418، صحیح الترغیب و الترھیب، کتاب الادب، باب الترھیب من السباب، جلد نمبر 3، صفھہ نمبر 66، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ، جلد نمبر 7، جز نمبر 3، صفحہ نمبر 1395، حدیث نمبر 3477، ) 

ہم زمانے کو جھوٹا، مکار، دھوکہ دینے والا، فریبی، بُرا، خراب، ذلیل کہتے رہتے ہیں لیکن درحقیقت ان تمام چیزوں کی جڑ واحد انسان ہی ہے ۔ جو جھوٹ بھی بولتا ہے، دھوکا بھی دیتا ہے، ظلم بھی کرتا ہے، بے وفائی بھی کرتا ہے، خرابیاں بھی پیدا کرتا ہے، جبکہ اللہ تعالی نہ جھوٹ بولتا ہے، نہ وعدہ خلافی کرتا ہے، نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ہی بے وفائی کرتا ہے ۔ 

زمین میں فساد کون کرتا ہے؟ “ انسان “

قتل و غارت کون کرتا ہے؟ “ انسان “

جھوٹ کون بولتا ہے؟ “ انسان “

ظلم کون کرتا ہے؟ “ انسان “

چوریاں کون کرتا ہے؟ “ انسان “

غیبت کون کرتا ہے؟ “ انسان “

زانی کون ہے؟ “ انسان “

بے وفائی کون کرتا ہے؟ “ انسان “

شراب کون پیتا ہے؟ “ انسان “

ناپ تول میں کمی کون کرتا ہے؟ “ انسان “

جب یہ سارے کام انسان کرتا ہے تو زمانہ کیسے بُرا ہو گیا؟ زمانہ کیسے خراب ہو گیا؟ زمانہ کیسے جھوٹا ہو گیا؟ زمانہ کیسے ظالم ہو گیا؟ انسان اپنے لیے بُرے حالات خود پیدا کرتا اور الزام زمانے کو دے دیتا ہے ۔ کیونکہ جب انسان سے کچھ نہیں ہوتا یا وہ بے بس ہو جاتا ہے تو الزام تراشی دوسروں پر کرنے لگتا ہے ۔ انسان جب پریشان یا بیمار ہوتا ہے تو یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ وقت بُرا آ گیا ہے اب وہ زمانہ نہیں رہا بُرا زمانہ آ گیا ہے تو یہ سراسر اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے ۔ 

لوگوں کے بُرے حالات، پریشانیاں یا بیماریوں کی وجہ زمانہ نہیں بلکہ انسان خود ہے ۔ 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : 

لاتسبوا الدھر قال اللہ عزوجل انا لدھر، الایام واللیالی ( 1 ) جددھا وابلیھا، وآتی بملوک بعد ملوک ( 2 ) 

ترجمہ : 
زمانے کو گالی مت دو، اللہ عزوجل فرماتے ہیں : 
زمانہ میں ہوں، دن اور رات کو نیا اور پرانا میں کرتا ہوں اور ایک بادشاہ کے بعد دوسرے بادشاہ کو بادشاہی دیتا ہوں ۔ 

1 ۔ کتاب الدعر، اللطبرانی صفحہ نمبر 568، مجمع الزوائد 8 / 71 

2 ۔ صحیح الترغیب و الترھیب جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 66، کتاب الادب، باب الترھیب من السیاب

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

عن النبی صلی اللہ علیه و سلم قال لا تسموا العنب الکرم، ولا تقولوا : خیبتھ الدھر فان اللہ ھو الدھر . 

ترجمہ : 
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا “انگور“ عنب کو “کرم“ نہ کہو اور یہ نہ کہو کہ ہائے زمانہ کی نامرادی، کیونکہ زمانہ تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔ 

صحیح بخاری ( مترجم ) جلد، 7، صفحہ 536، کتاب الادب، باب لاتسبوا الدھر 



بات ہے سمجھنے کی پر سمجھے کون؟ 

زمانے کو بُرا کہنے والے ذرا اپنا گریبان جھانک کر تو دیکھ 

اللہ سے گلہ کرتا ہے اپنی غلطیوں پہ نظر ڈال کر تو دیکھ 

کہتا ہے کہ زمانے کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے ساجد 

سچے دل سے اپنی اس بات کو مان کر تو دیکھ 



سمجھےجو اگر انسان تو بات ہے سیدھی سی 

یہ دنیا ہے فانی یہ دنیا ہے عام سی 

کھو رہے ہیں ہم جہالت کی اندھیر نگری میں ساجد 

سوچتا ہوں کہ رکھتے ہیں خواہشیں ہم کتنی عجیب سی
تحریر : ساجد تاج 

~~~~~~~~~~~~~؛

پوسٹ نمبر 6 
____________

زمانے کو برا کہنے کی صورتیں 
زمانے کو برا بھلا کہنے کی تین صورتیں ہیں : 

 ( ۱ ) ؛ 
بطورِ خبر زمانے کا شدت و حدت اور مشکل کا تذکرہ کیا جائے، اس سے مراد ملامت یا اعتراض نہ ہو ۔ جیسے کوئی کہے آج کی سخت گرمی یا سردی نے تو مجھے تھکا مارا ہے ۔ یہ جائز ہے، کیونکہ اعمال کا دار و مدار نیّت پر ہے، اس کی نیت ملامت نہیں، بلکہ موسم کی شدت کی خبر دینا ہے ۔ 

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا لوط کے حوالے سے فرمایا ہے : 

﴿وَلَمَّا جَاءَتْ رُ‌سُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْ‌عًا وَقَالَ هَ ـ ٰذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ ٧٧ ﴾ ۔ ۔ ۔ 
سورة هود 

کہ جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وه ان کی وجہ سے بہت غمگین ہو گئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے ( 77 ) 

مصیبت و آزمائش آنے پر زمانے کو اس نیت کے ساتھ برا بھلا کہا جائے کہ جیسے زمانہ ہی اس کا باعث ہے، تو یہ *شرکِ اکبر* ہے ۔ کیونکہ یہ شخص اس کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی اور کو بھی مدبّر اور تصرف کرنے والا سمجھ رہا ہے ۔ 

 ( ۲ ) ؛ 
اگر وہ آزمائش و مصیبت کی وجہ سے زمانے کو برا کہتا ہے، لیکن اس کا اعتقاد یہ ہے کہ یہ نعمتیں اور آزمائشیں اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، تو یہ فعل منافی صبر ہونے کی وجہ سے حرام اور ناجائز تو ہے لیکن کفر نہیں، کیونکہ اس نے براہِ راست اللہ تعالیٰ کو برا نہیں کہا ۔ 

تفصیل کیلئے دیکھئے : 
موقع الإسلام سؤال وجواب - ما معنى لا تسبوا الدهر فإن الله هو الدهر 
http://www.islamqa.com/ar/ref/9571 

 ( ۳ ) ؛ 
اسی طرح کسی شخص یا قوم کے برے اعمال کے نتیجے میں کسی مخصوص دن ان پر آنے والے عذاب پر اس دن کو بطورِ خبر اس مخصوص قوم کیلئے برا یا منحوس کہا جا سکتا ہے ۔ 
یہ بھی درج بالا تین صورتوں میں سے پہلی صورت ہوگی ۔ گویا اس میں مطلقاً اس دن کو منحوس نہیں کہا جاتا بلکہ مخصوص قوم کیلئے اس مخصوص دن کو منحوس کہا گیا ہے، جیسے فرمانِ باری ہے : 

﴿ فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّ اللَّ ـ هَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ ١٥ فَأَرْ‌سَلْنَا عَلَيْهِمْ رِ‌يحًا صَرْ‌صَرً‌ا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَ‌ةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنصَرُ‌ونَ ١٦ ﴾ ۔ ۔ ۔ 
سورة فصّلت 

اب عاد نے تو بے وجہ زمین میں سرکشی شروع کر دی اور کہنے لگے کہ ہم سے زور آور کون ہے؟ کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وه ان سے ( بہت ہی ) زیاده زور آور ہے، وه ( آخر تک ) ہماری آیتوں کا انکار ہی کرتے رہے ( 15 ) بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز و تند آندھی منحوس دنوں میں بھیج دی کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کامزه چکھا دیں، اور ( یقین مانو ) کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیاده رسوائی والا ہے اور وه مدد نہیں کیے جائیں گے ( 16 ) 

نیز فرمایا : 
﴿ كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ‌ ١٨ إِنَّا أَرْ‌سَلْنَا عَلَيْهِمْ رِ‌يحًا صَرْ‌صَرً‌ا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ‌ ١٩ ﴾ ۔ ۔ ۔ 
سورة القمر 

قوم عاد نے بھی جھٹلایا پس کیسا ہوا میرا عذاب اور میری ڈرانے والی باتیں ( 18 ) ہم نے ان پر تیز و تند مسلسل چلنے والی ہوا، ایک پیہم منحوس دن میں بھیج دی ( 19 ) 

اب یہی ایام ( آٹھ دن اور سات راتیں ) جو قومِ عاد کیلئے تو منحوس ثابت ہوئے، سیدنا ہود اور ان پر ایمان والوں کیلئے خوش بختی اور سعادت کے ایام ثابت ہوئے ۔ 

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
کوئی شک نہیں کہ جن ایام میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسولوں کے دشمنوں پر عذاب بھیجے وہ ایام ان کیلئے منحوس تھے، کیونکہ انہیں ایام میں ان پر نحوست ( عذاب کی صورت ) پہنچی تھی ۔ اگرچہ یہ دن اللہ کے ولیوں کیلئے خوشگوار تھے ۔ تو یہ ایام مکذبین کیلئے منحوس تھے، مؤمنین کیلئے خوش بختی کے تھے ۔ یہی معاملہ قیامت کا ہے کہ یہ کافروں کیلئے تو مشکل اور منحوس ثابت ہوگا جبکہ مؤمنوں کیلئے آسان اور سعادت والا ہوگا ۔ امام مجاہد نے أيام نحسات سے مراد منحوس دن لیے ہیں ۔ تو دنوں کی خوش بختی اور نحوست کا تعلّق، خوش بخت اعمال اور منحوس اعمال سے ہے، اللہ کو راضی کرنے والے اور ناراض کرنے والے اعمال سے ہے ۔ ایک ہی دن ایک قوم کیلئے سعاوت والا اور دوسری قوم کیلئے منحوس ہو سکتا ہے، جیسے یوم بدر مؤمنوں کیلئے سعاوت والا اور کافروں کیلئے منحوس تھا ۔ 
مفتاح دار السعادة 2 / 194 . 

تفصیل کیلئے دیکھئے : 
موقع الإسلام سؤال وجواب - هل الدعاء ب ـ " اللهم أرنا فيهم يومًا أسوداً " من سب الدهر؟ 
http://www.islamqa.com/ar/ref/143212/%D9%86%D8%AD%D8%B3%D8%A7%D8%AA 

واللہ تعالیٰ اعلم! 

تحریر : انس نضر 

~~~~~~~~~~~~~؛

کیا اللہ کو کوئی ایذا دینے پر قادر ہے؟ 

 اللہ کو ایذا دینے کا مطلب ان کے افعال کا ارتکاب ہے جو وہ ناپسند فرماتا ہے ورنہ اللہ پر ایذا پہنچانے پر کون قادر ہے؟ جیسے مشرکین، یہود اور نصاریٰ وغیرہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں ۔ یا جس طرح حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ' ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں اس کے رات دن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے ( صحیح بخاری ) یعنی یہ کہنا کہ زمانے نے یا فلک کج رفتار نے ایسا کر دیا یہ صحیح نہیں اس لیے کہ افعال اللہ کے ہیں زمانے یا فلک کے نہیں . 

تفسیر احسن البیان 
مفسر حافظ صلاح الدین یوسف، 
سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 57 

~~~~~~~~~~~~~؛

ختم شد 

 .