جمعہ، 27 اکتوبر، 2023

مسجد اقصی تاریخ و فضیلت محمد مصطفی کعبی ازہری

 . 

تاریخ مسجد اقصٰی اور اس کے فضائل 

 (تحریر : - محمد مصطفیٰ کعبی ازہریؔ / فاضل الازہر اسلامک یونیورسٹی مصر عربیہ ) 

=================؛ 

مسئلہ فلسطین ایسا سلگتا ہوا سانحہ ہے جس نے عالم اسلام کو ایک رستا ہوا زخم دیا ہے جو دن بدن گہرا ہوتا جا رہا ہے ۔ امت کی ہر کوشش وہاں پر دم توڑ دیتی ہے جس نے سبھی کے ہاتھ پاؤں اقوام متحدہ کی زنجیروں میں باندھ رکھے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائيل کی شیطنت کا جواز اور سربہ مہر تصدیق نامہ وہ فراہم کرتا ہے جس کا بغل بچہ خود اقوام متحدہ ہے اور یہ آقا امریکہ ہے جو اپنے ویٹو اختیار کے ذریعہ اس قضیہ کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھائے ہوئے رہتا ہے ۔ 
اور اقوام متحدہ نے 1947ء میں فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے ، مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد تھی وہاں یہودی اسرائیل کی ریاست قائم کریں اور مشرقی علاقہ میں فلسطینی عرب مسلمانوں کی ریاست قائم ہو جائے ۔ جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے ۔ یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کر لیا جبکہ فلسطینی مسلمانوں اور عرب ممالک نے اپنے درمیان میں ایک یہودی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کر دیا ۔ 
 اور مسجد اقصیٰ یہ تاریخی مسجد ، فلسطین کے شہر یروشلم (القدس ) میں واقع ہے ، جو ان دنوں غاصب صہیونی اور ناجائز ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہے اور جس ریاست کی بنیاد 14 مئی 1948ء میں رکھی گئی تھی ۔ 
اور 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا ۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہو گیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب گیا تھا ۔ صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں ۔ 

فلسطین اسرائیل کی موجودہ جنگ جو 7 اکتوبر 2023 سے چل رہی ہے امت کی اس بےحسی کو چیلنج کرتی ہے جس نے اب تک کی بڑی کامیابی کو منظرعام پر دیکھنے کے باوجود کوئی اقدامی فیصلے نہیں کر پا رہی ہے ۔ ظاہراََ اس جنگ کا سہرا مختلف انتفاضہ گروپوں کو جاتا ہے تاہم غور کی بات یہ ہے کہ اس تحریک کے لئے عوامی جذبہ سب سے زیادہ مقدم ہے جو کسی زید و بکر کی پرواہ کیے بغیر اپنے ہدف کو حاصل کرتا ہے ۔ یہ جنگ اگرچہ ایک بڑی طاقت امریکہ کی بالواستہ کمان میں ہو رہی ہے مگر اس کے نتائج ایک کمزور اور نہتھے قوم کی کامیابی پر جب ختم ہوں گی تب ہی دنیا کی آنکھیں کھلیں گی کہ ایمان کی طاقت کیا ہے اور اسلحہ کی پسپائی کیا ہوتی ہے ۔ ان شاء اللہ 

مسجد اقصی حقیقت میں مسلمانوں کی میراث ہے جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے مگر یہ جس جگہ پر تعمیر کی گئی ، یہود کے موقف کے مطابق اِس جگہ پر پہلے سُلیمانی ہیکل تھی ۔ مُسلمانوں کے یروشلیم شہر پر قبضہ کرنے کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی ۔ حالانکہ کہ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں مذکور ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سفر معراج کیا تو اس باب میں اس مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے ۔ گویا یہ مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعثت سے بھی پہلے موجود تھی ۔ متعدد صحیح روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے روئے زمین پر سب سے پہلے تعمیر کی جانے والی مسجد حرام ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے روئے زمین پر دوسری مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی تھی ۔ 
اور بیت المقدس سر زمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جہاں متعدد انبیاء کرام مبعوث ہوئے نیز دیگر کئی علاقوں سے انبیاء کرام نے ہجرت فرما کر اس علاقے کو اپنا مسکن بنایا اور جس کی طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت کی ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے لئے فلسطین کو وطن بنایا (سورہ الانبیاء : 70 و71 ) اور اسی طرح حضرت اسحاق علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت یوشع علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام (سورہ الانبیاء : 81 ، وسورہ الاعراف : 137 ) ، حضرت زکریا علیہ السلام ، حضرت لوط علیہ السلام (سورہ الانبیاء : 71 ) ، حضرت یحیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ( سورہ المؤمنون : 50 ) نے بھی ہجرت کی اور جس میں دفن ہونے کے لئے حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے دعا کی ، اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر زمین محشر قرار دیا اور وادی نمل بھی ارض فلسطین میں واقع ہیں ۔ 

❀ یہ تاریخی مسجد ، فلسطین کے شہر یروشلم؛ (القدس ) میں واقع ہے ۔ 

❀ پہلی صلیبی جنگ کے بعد ، جب 15/جولائی 1099ء کو عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوا؛ تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا ۔ پھرصلاح الدین ایوبی نے 583ھ/1187ء میں بیت المقدس کو فتح کیا؛ تو مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے خرافات سے پاک کیا ۔ 88 سالوں کے علاوہ ، عہد فاروقی سے بیت المقدس اور مسجد اقصی مسلمانوں کے قبضے میں رہے ہیں ۔ افسوس ہے کہ ادھر چند سالوں سے پھر قدس اور مسجد اقصی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہیں ۔ 

❶ مسجد اقصیٰ با برکت زمین میں واقع ہے ۔ 
 ( الاعراف : 137 ، والانبیاء : 71 و 81 ، وسبا : 18 ) 

❷ مسجد أقصی کے ارد گرد کی سر زمین بھی با برکت ہے ۔ 
 (الاسراء : 1 ) 

❸ مسجد الاقصیٰ ارض مقدسہ میں ہے ۔ 
 (سورہ المائدة : 21 ) 

❹ مسجد الاقصیٰ پر سکون ، اطمینان اور چشمے والی جگہ ہے ۔ 
 (المؤمنون : 50 ) 

❺ مسجد الاقصیٰ وہ عظیم جگہ ہے جہاں کی اللہ نے قسم کھائی ہے ۔ 
 (سورہ التین : 1 و 2 و 3 ) 

❻ مسجد اقصیٰ سر زمین اسراء و معراج ہے ۔ 
 ( سورة الإسراء : 1 ، والبخاری : 3887 ، و مسلم : 162 ) 

❼ مسجد اقصیٰ کو انبیاء نے تعمیر کیا ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه النسائی في سننه : 693 ) 

❽ مسجد اقصی وہ مسجد ہے جس کی بنیاد روئے زمین پر مسجد حرام کے تقریبا چالیس سال بعد رکھی گئی ۔ 
 (صحيح : رواه البخاري : 3366 و 3425 ، و مسلم : 520 ) 

❾ مسجد اقصیٰ عبادت کی غرض سے بنائی گئی اس روئے زمین پر دوسری مسجد ہے ۔ ( صحيح : رواه البخاری : 1189 ، ومسلم : 520 ) 

⓿❶ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔ 
 ( صحيح : رواه البخاری : 40 و388و4486 و4492 و7252 ، و مسلم : 524 ، و الترمذی : 540 و2962 ) 

❶❶ مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تقریبا سولہ یا سترہ مہینے تک نمازیں ادا کی ۔ 
 (صحيح : رواه البخارى : 40 ، ومسلم : 525 ) 

❷❶ جب مسجد الاقصی سے تحویل قبلہ بیت اللہ کا معاملہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب عصر کی نماز میں تھے ۔ 
 ( صحیح : رواه البخاری : 4486 ) 

❸❶ مسجد اقصیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام انبیاء کرام کی امامت کی ۔ 
 (صحيح : رواه البخاری : 3394 و 3437 ، ومسلم : 172 ، والترمذی : 3130 ) 

❹❶ مسجد اقصٰی نماز پڑھنے کی بہترین جگھوں میں سے ایک ہے ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه الحاكم في المستدک علی الصحیحین : 8553 ، و المعجم الاوسط للطبرانی : 6983 ، والہیثمی فی مجمع الزوائد : 4 / 10 ، والالبانی فی الثمر المستطاب : 1 / 548 ، والصحیحة : 6 / 954 رقم : 2902 ، و تمام المنة : 294 ، وصححه الحاكم ووافقه الذهبي ) 

❺❶ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنا تمام گناہوں کا کفارہ ہے ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه النسائی في سننه : 693 ) 

❻❶ دجال مسجد الحرام ، مسجد نبوی ، مسجد اقصیٰ ، مسجد طور میں داخل نہیں ہوسکتا - 
 ( اسنادہ صحیح : رواه ابن أبي شيبة في مصنفه : 38661 ) 

❼❶ مسجد الحرام ، مسجد نبویؐ ، مسجد اقصیٰ کی جانب عبادت کی غرض سے سفر کرنا جائز ہے ۔ 
 (صحيح : رواه البخاری : 1189 ، ومسلم : 1397 ) 

❽❶ بیت المقدس کی آبادی یثرب (مدینے ) کی آبادی کا پیش خیمہ ہو گی ۔ 
 (اسنادہ حسن : رواه أبو داود في سننه : 4294 ) 

❾❶ مسجد الاقصیٰ وہ جگہ ہے جہاں طائفہ منصورہ کا قیام ہوگا ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه الترمذی : 2192 ، وابن ماجہ : 6 ، واحمد : 15596 و 15597 و 20361 و 20367 ) 

⓿❷ مسجد الاقصیٰ میں اعتکاف کرنا جائز ہے ۔ 
 (اسنادہ صحیح : المعجم للاسماعیلی : 4 / 729 ، و مشکل الآثار للطحاوي : 4 / 20 ، و المحلی لابن حزم : 5 / 194 ، وصححه الألباني في الصحيحة : 2786 ) 

❶❷ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم براق دابہ جانور پر سوار ہو کر مکہ سے مسجد اقصیٰ تک گئے ۔ 
 ( صحیح : رواه البخاری : 3887 ، و مسلم : 162 ) 

❷❷ مسجد الاقصیٰ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دودھ کو پسند کیا ۔ 
 ( صحیح : رواه البخاری : 3394 ، ومسلم : 168 ، والترمذی : 3130 ) 

❸❷ بیت المقدس سر زمین محشر و منشر ہے ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه الترمذی : 3918 ، والبزار في مسنده : 3965 ، و فضائل الشام للربعی : 13 ، و صحیح الجامع للالبانی : 2726 ، و فضائل الشام ودمشق للالبانی : 4 ) 

❹❷ بیت المقدس کے قریب باب " لد " کے پاس دجال کو قتل کیا جائے گا ۔ 
 (صحيح : رواه ، مسلم : 2997 ) 

❺❷ مسجد الاقصیٰ کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے روبر و ظاہر کر دیا جب قریش نے واقعہ معراج کو جھٹلایا ۔ 
 (صحيح : رواه البخاري : 3886 ، ومسلم : 170 ) 

❻❷ مسجد الاقصیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ نصاریٰ کے لئے دعا کی کہ وہ اسلام قبول کر لے ۔ 
 ( صحیح : رواه البخاری : 2978 ) 

❼❷ موسى علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ میری روح قبض ہو بیت المقدس کے قریب ۔ 
 ( صحیح : رواه البخاری : 1339 و 3407 ، ومسلم : 1842 ) 

❽❷ مسجد الاقصی منبر الانبیاء ہے ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه الترمذی : 2863 ، و السنن الکبریٰ للنسائی : 8815 و 11287 ، واحمد : 17302 ، وابن خزيمة : 1895 ، و صحيح الجامع : 1724 ) 

❾❷ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر ماننا جائز ہے ۔ 
 ( اسنادہ صحیح : رواه أبو داود في سننه : 3305 و 3306 ) 

⓿❸ بیت المقدس کے قریب والا پہاڑ یاجوج ماجوج کا قتل گاہ ہے ۔ 
 (صحيح : رواه مسلم : 2937 ) 

❶❸ بیت المقدس حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں 15 ہجری کو فتح ہوا ۔ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے خلافت کے دوران چار دفعہ ملک شام تشریف لائے ۔ 

❷❸ بیت المقدس زمانہ خلافت کے بعد گیارہویں صدی کے آخر سے تیرہویں صدی کے آخر میں مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں ، تاریخ عالم میں صلیبی جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسی جنگ میں عیسائی بیت المقدس کو فتح کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ 

❸❸ بیت المقدس 583 ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر فتح کیا ۔ 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ - : 
اللہ تعالی قدس اور مسجد اقصی کو ان ظالم و جابر اور غاصب لوگوں کے قبضے سے اسے آزاد کر دے اور فلسطینیوں کی قربانی بار آور ثابت ہو ! آمین ! 

 .