جمعہ، 16 اپریل، 2021

تحقیق ‏حلیم ‏

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`|`

پوسٹ نمبر ۱ 

*"تحقیقِ حلیم" :*

کہا جاتا ہے کہ رمضان میں جو خاص دش بنائی جاتی ہے اسکو *حلیم* کہنا غلط ہے، نہیں کہنا چاہئے .


13-06-2017 

~~~~~~~~~~

✖❎❌

*مذکورہ بات غلط ہے. جسے مشہور کیا گیا*

~~~~~~~~~~

*وضاحت :*

لفظ حلیم عام ہے جسکا معنیٰ "نرم ہونا" ہے.

یہ لفظ اللہ کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور مخلوق کیلئے بھی استعمال ہوتا، جاہلوں نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ یہ صرف اللہ کا نام ہے کسی دش (کھانے کی چیز) کیلئے استعمال نہیں کر سکتے اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے نام کی بے حرمتی ہے تو جان لیں کہ یہ سب جاہلوں کی باتیں ہیں جو عربی کے معمولی سے گرامر سے بھی واقف نہیں ہوتے ہیں 

جو دش رمضان میں خاص کر کے پکائی جاتی ہے اور عرفِ عام میں جس کو *حلیم* کہا جاتا ہے تو جان لیں کہ یہ کہنا درست ہے، کیونکہ حلیم کا معنیٰ ہے نرم ہونا اور اس رمضانی دِش کو سب جانتے ہیں کہ یہ نرم ہوتی ہے، البتہ کسی شئے و مخلوق کو *"الحلیم"* نہیں کہہ سکتے کیونکہ لفظ *الحلیم* صرف اللہ کیلئے خاص ہو جاتا ہے، جس کو عربی گرامر میں معرفہ، نکرہ کہا جاتا، جیسے انگریزی میں "A & The" کا فرق ہوتاہے

*خلاصہ کلام* یہ کہ رمضانی دش کو *حلیم* کہنا درست ہے البتہ *الحلیم* نہیں کہہ سکتے کیونکہ لفظ الحلیم صرف اللہ کی جانب منسوب و مستعمل ہے. 

🖌سید محمد عزیر 
+919059677668

Nurul Huda نور الھدیٰ

~~~~~~~~~~

شئیر 
جوائین ان ٹیلی گرام چینل 
"نور الھدی"

~~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲ 

کیا حلیم کو دلیم اور کریم کو کاریم کہنا اسماء الہی کے ادب میں سے ہے؟ 

جمع و ترتیب: طارق بن علی بروہی 

مصدر: کتاب و سنت سے مفہوم 

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام 

اس میں کوئی شک نہيں کہ ہمارے معاشروں میں اللہ تعالی کی توحید کے تعلق سے بہت سی گمراہیاں پائی جاتی ہيں جیسا کہ توحید الوہیت  وعبادت کے باب میں شرکیات کے بہت سے مظاہر عام ہیں اسی طرح سے اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے تعلق سے بھی گمراہ فرقے زمانۂ قدیم سے چلے آرہے ہيں جن میں سے بعض تو انکار کردیتے ہيں اور بعض حقیقی معانی سے ہٹ کر تاویلات کرتے ہيں، جبکہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بالکل کتاب و سنت اور سلف صالحین کے منہج کے مطابق ہے کہ اللہ تعالی کے جتنے پیارے نام اور اعلیٰ صفات کتاب و سنت میں بیان ہوئی ہيں انہیں بنا تحریف، تعطیل(انکار)، تمثیل(مثال کے بغیر)، تشبیہ، تکییف (کیفیت بیان کیے بغیر) و تاویل(حقیقی معنی سے ہٹ کر مجازی معنی مراد لینا) کے مانتے ہيں جیسا کہ اللہ تعالی کی شان کے لائق ہے۔

کہيں تو اس بارے میں یوں گمراہیاں ہیں جبکہ  دوسری طرف خودساختہ فہم و کم علمی کی بنیاد پر  بعض الفاظ کو اللہ تعالی کی جناب میں ادب و بے ادبی کا معیار بناکر  عام کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ ان کی نیت نصیحت و خیرخواہی اور اللہ کے ناموں و صفات کے ادب کی ہوتی ہے لیکن کم علمی اور اصول اہل سنت والجماعت سے ناواقفیت کی بناء پر ان سے اس قسم کی بات سرزد ہوتی ہے۔

ہماری طرح آپ نے بھی آجکل ا س بات کو کافی جگہ سنا ہوگا کہ برصغیر کے دال او رگوشت سے تیار کردہ مشہور  پکوان ”حلیم“ کو حلیم کہنا اللہ کی صفت اور نام حلیم کے حق میں بے ادبی ہے لہذا اسے ”دلیم“ کہا جائے، یا اصل لفظ ”دلیم“ ہے! پھر اسے سوشل میڈیا، ایس ایم ایس اور  پیغامات  میں خوب پھیلایا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض نے تو اپنی دکانوں  اور مینو کے نام بھی باقاعدہ حلیم سے دلیم کردیے ہيں۔ اور بہت سے لوگ جو ان کی اس خود ساختہ تشریح پر عمل پیرا نہ ہو ان سے ناراض  تک ہوجاتے ہیں۔

چناچہ اس بارے میں کچھ قواعد و وضاحت پیش خدمت ہے۔

اللہ تعالی کے اسماء وصفات میں بعض الفاظ اللہ تعالی اور مخلوق کے لیے مشترک استعمال ہوتے ہيں۔ لیکن دونوں کی حقیقت میں فرق ہوتا ہے۔  لیکن کچھ اسماء اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہیں جیسے اسم جلالہ ”اللہ“ اور ”الرحمن“ وغیرہ۔ بعض مثالیں:

اللہ تعالی کے لیے رؤف  و رحیم کے نام اس آیت میں ثابت ہيں:

﴿اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ﴾  (النحل: 7)

(بے شک تمہارا رب یقیناً رؤف (بہت نرمی کرنے والا) اور رحیم ( نہایت رحم کرنے والا ہے))

یہی نام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے لیے بھی اس آیت میں ثابت ہیں:

﴿لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ﴾

(التوبۃ: 128)

(بلاشہ یقیناً تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ، تمہارا مشقت میں پڑنا جس پر بہت شاق گزرتا ہے، تم پر بہت حرص رکھنے والا ہے، مومنوں پر رؤف (بہت شفقت کرنے والا)  اور رحیم ( نہایت مہربان ہے))

اللہ کے اسماء و صفات  کے باب میں جو آیت اصول کی حیثیت رکھتی ہے اس میں بہت ہی خوبی سے ان صفات کو بیان کیا گیا ہے جو نام کے اعتبار سے مخلوق کے لیے بھی ثابت ہے، البتہ دونوں کی حقیقتوں میں کوئی مماثلت نہيں،  جیسا کہ ذات میں مماثلت نہیں کہ اللہ کی ذات ہے اور انسان ذات ہے، اسی طرح صفات میں بھی وہی خالق و مخلوق کا فرق ہے۔اس مماثلت کا  تو خود اسی آیت میں انکار بھی کیا گیا ہے، کہ ہم اللہ تعالی کی صفا ت کو ثابت کرتے ہيں بغیر تشبیہ کے  اور تنزیہ (اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں) بغیر صفات کی تعطیل (انکار) کے۔ فرمان الہی:

﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ (الشوری: 11)

(اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی السمیع (سب کچھ سننے والا) اور البصیر( سب کچھ دیکھنے والا ہے))

انسان کے لیے بھی سورۃ الانسان میں یہ الفاظ استعمال ہوئے:

﴿اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ     ڰ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا﴾  (الانسان: 2)

(بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفے سے پیدا کیا، ہم اسے آزماتے ہیں، سو ہم نے اسے سمیع (خوب سننے والا)، بصیر ( خوب دیکھنے والا بنادیا))

بلکہ خود اسم ”حلیم“ مخلوق کے لیے بھی قرآن میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام  کے تعلق سے فرمان باری تعالی ہے:

﴿فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ﴾  (الصافات: 101)

(تو ہم نے انہیں ایک بہت حلیم (برد بار)  لڑکے کی بشارت دی)

البتہ معرفہ کے طور پر الحلیم اللہ تعالی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے دیگر اسماء ہيں۔

اور یہ دلیم بھی کسی لغت کی معتبر کتب و تاریخ سے ثابت نہیں۔ بلکہ وہاں بھی حلیم ہی لکھا ہوتا ہے اور اس کی تعریف ہوتی ہے کہ:

”ایک قسم کا کھانا جو گیہوں چنے کی دال گوشت اور مصالحہ  ڈال کر پکایا جاتا ہے“۔

اگر اسی طرح کم علمی کا مظاہرہ کیا جائے جس پر یہ اعتراض کرنے والے خود بھی روزمرہ کی زندگی میں نہيں چل سکتے تو کسی حکیم صاحب کو حکیم نہيں دکیم کہنا پڑے گا کیونکہ ”حکیم “بھی اللہ تعالی کا صفاتی نام ہے۔

اپنے کسی عزیز کو ”عزیز“ نہ کہيں گے اور نہ ان کا  بچہ کلاس میں ”اول“ آئے  گا، نہ  کوئی ”آخر“ آنے والا کہلائے گا۔ اسی طرح اور بھی سوچتے جائيں شہید، غنی، مالک اور مَلِک وغیرہ۔

یہی معاملہ کریم کا ہے جیسا کہ ایک آن لائن ٹیکسی سروس ایپ کا نام  ”کریم“ ہے تو بے جا تکلف کرکے لوگوں کو باور کروایا  جارہا ہوتا ہے  ”کار یم“ کہو کیونکہ  ”کریم“ تو اللہ ہے۔ حالانکہ مخلوق کے لیے کریم کا لفظ خود قرآن مجید میں مستعمل  ہے جیسے:

﴿لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ﴾  (الانفال: 4)

(انہی کے لیے ان کے رب کے پاس بہت سے درجے اور بڑی بخشش اور کریم (با عزت)  رزق ہے)

﴿رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ﴾ (المؤمنون: 116)

((وہ) عرش کریم (عزت والے عرش) کا رب ہے)

یا جیسے پیارے معزز بھائی کو ”اخی الکریم “کہا جاتا ہے۔

بلکہ ایک جگہ تو مذمت تک کے معنی میں استعمال ہوا ہے، چناچہ  جہنمی کو کہا جائے گا:

﴿ذُقْ ڌ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيْمُ﴾  (الدخان: 49)

(چکھ، بے شک تو ہی وہ شخص ہے جو بڑا عزیز (زبردست)، بہت  کریم (باعزت)  بنا پھرتا تھا)

مزید اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے تعلق سے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ جاننے کے لیے پڑھیں ہماری شائع کردہ کتاب ”توحید اسماء و صفات“۔

05-09-2019 


.