بدھ، 24 دسمبر، 2025

کتنے کلو علم کی شرط ہے ؟ فیصل عادل

۔

۔ ﷽ ۔

۔

*کتنے کلو علم کی ضرورت ہے؟*

*بلغوا عني ولو آية؟*

*...کیا آج کے منہجِ سلف پر قائم سلفی علماء ورثۃ الانبیاء ہو کر اس انبیائی مشن غیر مسلموں میں توحید کی نشر و اشاعت دعوتِ حق کے لیے کوشاں ہیں؟...*

ہ ےےےےےے ہ 


*دعوت الی اللہ یعنی غیر مسلموں کو اسلام سے متعارف کروانے اور دین کی موٹی موٹی باتوں سے روشناس کروانے کے لیے کتنے کلو علم کی ضرورت ہے؟*

نگارش: 🖋️.......... فضیلۃ الشیخ  فیصل عادؔل

۔🔵🔵🔵🔵🔵🔵🔵🔵🔵۔


🔶 وَكُلُّهُمۡ ءَاتِیهِ یَوۡمَ ٱلۡقِیَـٰمَةِ فَرۡدًا
کے تحت 
اللہ اگر روزِ قیامت ہندوستان کے کسی کافر سے پوچھے گا کہ تم کیوں اسلام قبول نہیں کیے جبکہ وہ بردر بھی تمھارے سامنے اسلام پیش کیا تھا؟ 

اب وہ کافر کہہ دے گا کہ فلاں دکتور کے بقول وہ بردر ہے وہ دعوتِ دین نہیں کر سکتا ہے ۔

میرے پاس مدنی دکتور لیول کا کوئی فرد دعوتِ دین لے کر نہیں آیا مجھ پر حجت قائم نہیں ہوی! 
مجھے معاف کیجیو اور سورگ عطا کیجیو! 

کیا اللہ مان لے گا کہ چلو حجت قائم نہیں ہوی کیوں کہ مدنی  دکتور کے بجائے کسی بردر نے تمھارے سامنے اسلام پیش کیا! 

کیا بردر کے اسلام پیش کرنے توحید رسالت آخرت کو کھول کر بیان کرنے کے بعد بھی واقعی اس کافر پر حجت قائم نہیں ہوی؟ 

اس کا جواب ہمارے دکتور بھائی ضرور جانتے ہوں گے تاہم قارئین کے لیے 

🔷بَوّبَ الإمام البخاري 
بَاب وَصَاةِ النَّبِيِّ ﷺ وُفُودَ الْعَرَبِ أَنْ يُبَلِّغُوا مَنْ وَرَاءَهُمْ 
اس باب کے نام سے امام بخاری کی فقاہت سمجھیے (فقه البخاري في تراجمه) 

وفد عبد القيس کی حدیث جو امام بخاری نے لائی ہے۔
فتح الباری میں اس حدیث کے شارح علامہ ابن حجر کی بات دیکھ  لیتے ہیں👇

قال الحافظ ابن حجر (852هـ): 

(قوله في آخره ((احفظوهنَّ وأبلغوهنَّ من وراءكم))؛ فإنَّ الأمر بذلك يتناول كل فردٍ، فلولا أنَّ الحجة تقوم بتبليغ الواحد، ما حضَّهم عليه. 

(ترجمہ)  ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں 👇
 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب یہ کہا کہ یہ ساری باتیں سیکھ کر حافظے میں بٹھالو اور اپنے پیچھے رہ جانے والے قبیلے کے سبھی بھائیوں کو ان باتوں سے روشناس کراؤ، 
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دین کی بنیادی باتوں سے روشناس کروانے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سیکھ کر جانے والے ہر فرد کو شامل ہے۔ کسی ایک فرد کی دعوت سے ہی اگر حجت قائم نہیں ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم انھیں تبلیغِ دین پر نہ ابھارتے ۔


⏪ وفد عبد القيس کی حدیث جو صحیح بخاری میں ہے 

اس وفد میں آنے والے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دین کی اہم اور اصولی باتیں بتانے کی پیشکش کی اور کہا کہ ہم یہ باتیں ہمارے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو بھی بتائیں گے اور سب ان باتوں پر عمل پیرا ہو کر جنت میں داخل ہوں گے! 👇

فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لاَ نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الحَرَامِ، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ، نُخْبِرْ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا، وَنَدْخُلْ بِهِ الجَنَّةَ،

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں اسلام کی بنیادی باتیں شہادت، نماز، روزہ ، زکات وغیرہ بتائیں اور بعض برتنوں کے استعمال سے منع فرماتے ہوئے کہا👇

 وقالَ: احْفَظُوهُنَّ وأَخْبِرُوا بهِنَّ مَن وراءَكُمْ ۔ 
 
رواہ البخاري رقم ٥٣  

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا 👇
یہ باتیں اچھے سے ذہن نشین کر لیں اور اپنے قبیلے کے لوگوں کو جو پیچھے رہ گئے اور حاضر نہ ہوسکے انھیں بتائیں ( اور شمعِ دین نورِ توحید سے منور ہوں) 


اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث میں وارد ہے

آمركم بأربع وأنهاكم عن أربع 

یعنی چار باتیں اوامر میں سے اور چار نواہی میں سے کل اس طرح آٹھ باتیں ہوتی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں سکھائی تھیں ۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا وفد عبد القیس میں شامل سبھی لوگ ان آٹھ باتوں کو جان کر شریعتِ اسلامیہ کی سبھی جزئیات کی تفصیلات سے آگاہ ہوگئے تھے؟ 

کیا وہ سبھی درجہ ء اجتہاد پر فائز ہو گئے تھے ؟

کیا وہ اسلام کے دقیق جزئیات اور دینی و دنیوی سبھی معاملات ہمہ اصول و فروع کو پورے طور سے جان چکے تھے ؟ 

 واضح امر ہے! 
اگر وہ دین کے باریک دقیق مسائل جزئیات و کلیات اور مکمل علمِ شریعت نہیں رکھتے تھے اور درجہ ء اجتہاد پر فائز نہیں تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں تبلیغ کا حکم کیوں دیا؟ 
اور دین پھیلانے کا اجازت نامہ مرحمت کیوں فرمایا؟ 
کیا وہاں غلطیوں کے صدور کا امکان نہیں تھا؟ 
 
ظاہر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دینِ اسلام کے چند احکامات ہی موٹے موٹے طور پر انھیں ذہن نشین کروائے تھے ۔
اور اور اتنے ہی علم کو ان کی بستی میں جا کر پھیلانے کا حکمِ نبوی صادر ہوا تھا! 

جب اس طرح غیر مسلموں کو  اسلام کا تعارف کرانے کے لئے موٹی موٹی باتیں پھیلانے کے لئے دینی معلومات کی مکمل گہرائی کلیات و جزئیات سبھی جان کر مجتہد ہونے کی شرط نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں لگائی تو آپ کیوں  بے جا خطرات کے اندیشے کو عذر بنا کر عبث سختی کرنے والے ہوتے ہیں؟ 

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ آپ کو دین کا فہم ہے؟ 
نعوذ باللہ من ذلک

کیا یہاں احناف کی طرح مسجد میں نماز سے عورتوں کو روکنے کے لیے جو دلیل وہ دیتے ہیں آپ لوگ بھی دیتے نظر نہیں آتے؟ 
جبکہ اصل فتوی جواز کا ہے ۔ 

ایک جائز امر پر بے جا شدت پسندی کا ہتھوڑا چلانے والے احناف کی طرح آپ کون ہوتے ہیں؟ 

اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کم ( تقریب ِ فہم کے طور پر دس کلو) علم کو تبلیغ کے لیے کافی مانا ہے تو آپ مزاجی شدت کی بنا پر سو ٹن علم کی بیجا شرط لگانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ 

🔵 ہندوستان میں جب بعض منہجی علماء کوئی جمعیت بناتے ہیں اور اس میں امیر چنتے ہیں اور تبلیغی جماعت کی طرح امیر چنتے ہیں اہلِ تصوف کی طرح بیعت لیتے ہیں اور اخوانیوں کی طرح امیر کی اطاعت کے لیے یہ دلیل پیش کرتے ہیں 
جو کہ اصل میں امیر المومنین کے لیے ہے 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ

ہم منہجِ سلف کے مطابق ان پر رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تو امیر المومنین کے لیے ہے جہاں اسلامی حکومت ہو وہاں سب پر امیر کی اطاعت ضروری ہے ۔ 
آپ خود کی جمعیت و جماعت کے امیر پر اس آیت کو منطبق کر کے صریح غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔

اب دیکھیں ہمارے بعض دکاترہ نے مندرجہ ذیل آیتوں کا ویسے ہی انطباق کیا ہے جیسے ہندوستان میں بعض جمعیت کے امیر نے خود کے لیے امیر المومنین والی آیت کے ساتھ معاملہ کیا۔

یعنی ہمارے بعض علماء و مشائخ نے جو آیتیں کم علموں کے علمِ دین پھیلانے کی رد میں پیش کی ہیں وہ آیات شہادت گواہی سے متعلق ہونے کی وجہ سے خلطِ مبحث کے شکار نظر آتے ہیں ۔ 


🔷 زیرِ نظر پہلی آیت میں مفسر قرآن ابن کثیر کے بقول اللہ کا لڑکا قرار دینا  یہ مشرکین کا قول و عقیدہ تھا اسی لیے وأن تشركوا بالله کے سا تھ عطف کر کے أن تقولوا علی اللہ ما لا تعلمون مذکور ہے اسی کی سخت مذمت میں یہ آیت نازل ہوئی 👇

قُلۡ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ ٱلۡفَوَ ٰ⁠حِشَ مَا ظَهَرَ مِنۡهَا وَمَا بَطَنَ وَٱلۡإِثۡمَ وَٱلۡبَغۡیَ بِغَیۡرِ ٱلۡحَقِّ وَأَن تُشۡرِكُوا۟ بِٱللَّهِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِهِۦ سُلۡطَـٰنࣰا وَأَن تَقُولُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعۡلَمُونَ۔ 
[ا لأعراف ٣٣ ]

قال ابن كثير في تفسيره
وَأَنْ تَقُولُوا عَلَيْهِ مِنَ الِافْتِرَاءِ وَالْكَذِبِ مِنْ دَعْوَى أَنَّ لَهُ وَلَدًا وَنَحْوَ ذَلِكَ، مِمَّا لَا عِلْمَ لَكُمْ بِهِ 

جو لوگ دعوتی کام کرتے ہیں وہ قول علی اللہ کے بجائے علم کی روشنی میں قول فی توحید اللہ  کرتے ہیں۔
 گویا اللہ کے تعلق سے جو بری باتیں جہل و کفر کی وجہ سے کہتے ہیں اس کو آپ اس پر منطبق کر دے رہے ہیں جو کہ کونوا أنصار الله کے تحت غیر مسلموں کو اللہ سے متعارف کروا رہا ہوتا ہے 
لہذا انھیں زبردستی اس آیت کا مصداق نہ بنائیں! 

معلوم و واضح رہے کہ میرا موقف یہ نہ سمجھا جائے کہ میں بغیر شرعی علم کے اکتساب کے مولانا بن کر سبھی چھوٹے بڑے مسائل کی تعلیم دینے کے جواز کی تصویب کر رہا ہوں ۔


🔷 ایک اور آیت👇 دیکھیں ۔ 
مفسر قرآن ابن کثیر وغیرہ نے اس کو تنازعات میں جھوٹی گواہی کے معاملے سے متعلق بتا رہے ہیں۔ 
یعنی اللہ تعالیٰ کسی معاملے میں بغیر دیکھے جھوٹی گواہی دینے سے منع فرماتے ہوئے کہا اور قتادہ کے بقول دیکھے،سنے، جانے بغیر دیکھنے،سننے اور جاننے کے دعوے کرنے سے منع کرتے ہوئے یہ آیت اللہ نے نازل کی ہے۔ 👇
﴿وَلَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَكَ بِهِۦ عِلۡمٌۚ إِنَّ ٱلسَّمۡعَ وَٱلۡبَصَرَ وَٱلۡفُؤَادَ كُلُّ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ كَانَ عَنۡهُ مَسۡـُٔولࣰا﴾ 
[الإسراء ٣٦]

قال ابن کثیر في تفسيره:
قَالَ مُحَمَّدُ بن الحَنفية: يَعْنِي شَهَادَةَ الزُّورِ.
وَقَالَ قَتَادَةُ: لَا تَقُلْ: رَأَيْتُ، وَلَمْ تَرَ، وَسَمِعْتُ، وَلَمْ تُسْمِعْ، وَعَلِمْتُ، وَلَمْ تَعْلَمْ؛ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُكَ عَنْ ذَلِكَ كُلِّهِ.
وَمَضْمُونُ مَا ذَكَرُوهُ: أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى نَهَى عَنِ الْقَوْلِ بِلَا عِلْمٍ،


🔷 اب تیسری آیت دیکھ لیتے ہیں 
اس آیت کی تفسیر میں بھی ابن کثیر کے بقول حاکم کے سامنے فاسق کی گواہی سے متعلق ہدایات جاری کی گئی ہیں 
فَيَكُونَ الْحَاكِمُ بِقَوْلِهِ قَدِ اقْتَفَى وَرَاءَهُ، 
یہ وجہ استشہاد ہے کہ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ خبر بیان کرنے والے شخص سے متعلق تاکّـد وتثبـّت کیا جائے 👇

﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِن جَاۤءَكُمۡ فَاسِقُۢ بِنَبَإࣲ فَتَبَیَّنُوۤا۟ أَن تُصِیبُوا۟ قَوۡمَۢا بِجَهَـٰلَةࣲ فَتُصۡبِحُوا۟ عَلَىٰ مَا فَعَلۡتُمۡ نَـٰدِمِینَ

قال ابن كثير 👇
يَأْمُرُ تَعَالَى بِالتَّثَبُّتِ فِي خَبَرِ الْفَاسِقِ ليُحتَاطَ لَهُ، لِئَلَّا يُحْكَمَ بِقَوْلِهِ فَيَكُونَ -فِي نَفْسِ الْأَمْرِ-كَاذِبًا أَوْ مُخْطِئًا، فَيَكُونَ الْحَاكِمُ بِقَوْلِهِ قَدِ اقْتَفَى وَرَاءَهُ، 

یہاں العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب کی روشنی میں عمومِ لفظ کو بھی لیتے ہیں تب بھی فاسق کے لفظ کو دین کے داعی پر منطبق کیسے کیا جائے گا؟ 

🔶 آگے کی آیات میں صراحت کے ساتھ شھداء گواہی دینے والوں کی عدالت کی شرط رکھی جا رہی ہے 
قال ابن کثیر 
وقوله: 
ممِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ﴾ فِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى اشْتِرَاطِ الْعَدَالَةِ فِي الشُّهُودِ 

اسی طرح اس آیت میں بھی 
قال ابن کثیر 
﴿وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ﴾ قَالَ: لَا يَجُوزُ فِي نِكَاحٍ وَلَا طَلَاقٍ وَلَا رِجَاعٍ إِلَّا شَاهِدَا عَدْلٍ 


🔷 آپ نے دیکھا کہ کس طرح شہادت گواہی سے متعلق امور میں جو آیات وارد ہوی ہیں ۔ خلطِ مبحث کے سبب ان آیات کا جبری انطباق کم علم بردرس جو غیر مسلموں میں دعوت کا کام کرتے ہیں جو عربی سے نابلد ہیں ان پر کیا جا رہا ہے ۔

⬅️ البتہ بعض مفسرین کے بقول ولا تقف مالیس لک کی تفسیر میں علم کے بغیر بات کرنا بھی ہے یہاں سے  استشہاد و استیناس مل سکتا ہے ۔ یہ دلیل ہمارے مشائخ کی قوی معلوم ہوتی نظر آتی ہے مگر یہ اسی وقت کارگر ہوگی جب وہ داعی حضرات بغیر علم و بغیر دلیل شرعی کے گفتگو کرتے ہوں ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے۔ 

بس مشائخ نے اپنے طور پر ایسا گمان پال لیا ہے۔ یا پھر اپنے سے کم تر جان کر انھیں حقیر سمجھ کر جو خدمت دین ان سے انجام پا رہا ہے اور ان کی شہرت و ناموری نیک نامی پر بظاہر حسد کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
عربی میں کہا جاتا ہے الناس أعداء لما جهلوا بسا اوقات بعض غیر عالم فی زمانہ زیادہ عوام تک پہنچنے کے وسائل و تراکیب کا علم رکھتے ہیں۔ 
گویا علمِ دین سے زیادہ ان کا علم اس فن میں ہوتا ہے کہ مؤثر طریقے سے کیسے لوگوں کو اپنے خیالات کا حامی بنا لیا جائے انھیں اپنی طرف راغب کرلیا جائے۔ 
بعض مشائخ اس فن سے ناواقفیت کی بنیاد پر پورے طور سے اس فن کے حاملین کو ہی دشمن سمجھتے ہیں ۔ 
جبکہ پختہ سلفی علماء بھی اسی طرح کے مؤثر پلیٹ فارم اور تکنیک و تراکیب کے استخدام کر کے ان سے بہتر دینی خدمات انجام دے سکتے ہیں مگر انھیں آپسی منہجی انحراف کو سونگھنے اور منہج بدری کے عمل سے فراغت نصیب ہوگی تبھی دیگر امور پر تامل فرمانے کا وقت 
دستیاب ہوگا۔ (معلوم رہے کہ یہاں روئے سخن
کم علم والے داعیان ِدین  کے متعلق ہے اور ہندوستان کے تناظر میں بات رکھی جا رہی ہے۔ پڑوسی ملک کے یوتھ کلب اور ساحل عدیم وغیرہ اس سے مستثنیٰ ہیں ساحل عدیم تو بس ہالی ووڈ فلمیں دیکھ کر دین میں پورٹل کھولتے ہیں اور بلا علم کے دین و ائمہ ء دین کی طرف منسوب کر کے کہانیاں گھڑتے ہیں۔نعوذ باللہ من ذلک ) 

واضح رہے کہ ولا تقف ما ليس لك به علم اس آیت کو  بیشترمفسرین نے گواہی کے معاملے سے جوڑا ہے ۔

لیکن میں تعریف اور قدر کرتا ہوں ان مشائخ کی جو درج ذیل قول ذکر کرتے ہیں وہ عین موضوع کے مطابق ہے
👇۔
 وفي صحيح مسلم عن محمد بن سيرين قال: 
إن هذا العلم دين، فانظروا عمن تأخذون دينكم

یہ قول غیر مسلموں کے بجائے ان لوگوں کے لیے درست طور پر بیٹھے گا جو مسلمان لوگ بڑے علماء کے بجائے متعالم سے مکمل دینی معلومات لے کر گمرہی کے شکار ہو رہے ہیں ۔ اس پر قدغن لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

اوپر وفد عبد القيس کی حدیث میں آپ نے دیکھا کہ صحابہ کو دین کے چند بنیادی احکامات بتا کر اپنے قبیلے جا کر دینِ اسلام کے تعارف کرانے کا نبوی حکم موجود تھا۔

🔶 اب صحیح بخاری کی ایک اور حدیث دیکھیں، بنی لیث کے چند نوجوان صحابہ بیس دن دینی تعلیم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سیکھ کر گئے  تو نبی ﷺ نے کہا کہ واپس جا کر لوگوں میں دین کی باتیں رکھو تعلیم دو👇

أَتَيْنا إلى النبيِّ ﷺ ونَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقارِبُونَ، فأقَمْنا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا ولَيْلَةً، وكانَ رَسولُ اللَّهِ ﷺ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمّا ظَنَّ أنّا قَدِ اشْتَهَيْنا أهْلَنا - أوْ قَدِ اشْتَقْنا - سَأَلَنا عَمَّنْ تَرَكْنا بَعْدَنا، فأخْبَرْناهُ، قالَ: ارْجِعُوا إلى أهْلِيكُمْ، فأقِيمُوا فيهم وعَلِّمُوهُمْ ومُرُوهُمْ - وذَكَرَ أشْياءَ أحْفَظُها أوْ لا أحْفَظُها - وصَلُّوا كما رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، فإذا حَضَرَتِ الصَّلاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أحَدُكُمْ، ولْيَؤُمَّكُمْ أكْبَرُكُمْ.
الراوي: مالك بن الحويرث • البخاري، صحيح البخاري (٦٣١) 

وجہ استشہاد یہ ہے👇
ارْجِعُوا إلى أهْلِيكُمْ، فأقِيمُوا فيهم وعَلِّمُوهُمْ ومُرُوهُمْ 

◀️🔷 حدیث وفد عبد القيس  اور اوپر درج کردہ نوجوان صحابہ بیس دن تعلیم پا کر دین کے داعی بن کر گئے دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ 
دین کی موٹی موٹی باتیں جنھیں معلوم من الدين بالضرورة، 
توحید، رسالت آخرت کی بات اسلام کا تعارف کراتے ہوئے غیر مسلموں کو بتانے میں کوئی حرج نہیں ہونی چاہیے البتہ متعالم بن کر اسٹیج سجا کر مسلمانوں کو اصولی اور فروعی مسائل بتانے والوں، فتووں کی دکانیں سجانے والوں کی ہمت شکنی ہونی چاہیے ۔ 
اگر وہ اپنے ساتھ جید سلفی علماء کو ساتھ رکھیں، ہر ہر مسئلے میں ان سے دلیل کے ساتھ دین کے بڑے چھوٹے مسائل سیکھ لیں اور عربیت میں مہارت حاصل کر لیں۔ اصول و فروع سے مکمل آگاہ ہوجائیں تب بھی فتوے کے معاملے میں احتیاط بہتر ہے! 

اسی لیے بہتر ہے کہ
 دعوتِ دین کے لیے بنیادی طور پر
طلب العلم فريضة على كل مسلم کے پیشِ نظر قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ یقینی علم، خاص طور پر توحید، عقائد اور واضح احکام کی سمجھ حاصل کرنا ضروری ہے۔ 

جیسا کہ وفد عبد القیس کی حدیث میں 🔷 احفظوهن 
کے لفظ سے دلیل ملتی ہے ۔ یعنی ہو بہو  موٹی موٹی شرعی بات دعوت دیتے ہوئے مخاطب کے سامنے رکھے ۔ تفصیلات بیان کرتے ہوئے مشکل مسائل، تطبیق بین النصوص اور دیگر باریک جزئیات تک میں نہ الجھے۔

اس طرح غیر مسلموں کو اسلام سے تعارف کرانے میں تفصیلی فقہی یا اجتہادی درجے کا عالم ہونا شرط نہیں ۔

بلغوا عني ولو آية
کی رو سے اگر قطعی طور پر بصیرت کے ساتھ دین کی موٹی موٹی باتیں معلوم ہیں تو انھیں باتوں کو اپنے علم کے بقدر پھیلانے میں کوئی حرج نہیں۔
 جتنا حصہ دین کا صحیح و یقینی طور پر آتا ہو، اُتنے ہی  
حصے کی تبلیغ جائز و مطلوب ہے۔ یہی بات عبد الرحمن مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی اور مرعاۃ شرح مشکاۃ میں بھی لکھی ہے ۔

قال عبد الرحمن المباركفوري 
 قوله: 
(بلغوا عني ولو آية) أي ولو كانت آية قصيرة من القرآن، والقرآن مُبلَّغ عن رسول الله - ﷺ  
لأنه الجائي به من عند الله، ويفهم منه تبليغ الحديث بالطريق الأولى۔

مولانا مبارکپوری کے بقول قرآن اور حدیث دونوں ہی کی کوئی بات جب یقینی طور پر  معلوم ہے تو اسے دوسروں تک پہنچانا جائز و مطلوب ہے! 

 ان بنیادی ٹھوس معلومات سے تجاوز کر کے ہر ہر مسئلے اور باریک علمی فروعی مسائل میں بغیر علم کے فتوی بازی کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ٹھہرے گا ۔ 
جیسا کہ امام ابن باز رحمہ اللہ سے جب اسی طرح کا مسئلہ پوچھا جاتا ہے تو وہ کم علم شخص کے بارے میں کہتے ہیں: 
لنک سے تفصیلی معلومات دیکھ سکتے ہیں 
https://binbaz.org.sa/fatwas/22968/%D9%85%D8%B9%D9%86%D9%89-%D8%A8%D9%84%D8%BA%D9%88%D8%A7-%D8%B9%D9%86%D9%8A-%D9%88%D9%84%D9%88-%D8%A7%D9%8A%D8%A9-%D9%88%D9%85%D9%86-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%83%D9%84%D9%81-%D8%A8%D9%87%D8%A7

إذا عَلَّم الناس القرآن، إذا خرج يعلّم القرآن فلا حرج، لكن لا يجوز له يدخل فيما لا يعنيه، لا يجوز له يتكلم في العلم وهو على غير بصيرة، لكن يعلّمهم القرآن، يعلّمهم الفاتحة، يعلّمهم المُفَصّل، جزاه الله خيرًا يعلمهم، تعليم القرآن متيسّر ولو ما كان عنده علم، يعلمهم القرآن، يقول النبيﷺ: خيركم من تعلم القرآن وعلمه. انتہی کلامہ

جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انھوں نے جہاں تعلیم قرآن کی بات کہی ہے ساتھ ہی وہ شرط لگاتے ہیں کہ آدمی ایسی باتوں میں زبان نہ کھولے جن کے بارے میں اسے بصیرت نہ ہو، 
یعنی تفصیلی مسائلِ علم و فتویٰ اور تاویلات میں کم علم شخص کے لیے دخل جائز نہیں۔

اسی طرح کم پڑھے لکھے داعیوں کو ہمیشہ طلبِ علم اور ممتاز سلفی عالم کی صحبت اور ان سے استفادے کی شرط رکھی جاتی ہے ۔


🔶 خلاصے کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ دین کی بنیادی اور اصولی موٹی باتیں ہر مسلمان اپنے علم کے بقدر دعوت دے سکتا ہے۔​​ 
ہندوستان میں توحید کی ٹھوس معلومات حاصل کرنی ضروری ہے یہ اس لیے ہے کہ مقامی بدعات اور اہلِ الحاد اسے چیلنج کرتے ہیں۔​

🔶 دین کی باریک باتیں، علمی موضوعات، مکمل فتویٰ یا وعظ کے لیے اہلِ حدیث علماء و حدیث پڑھنے پڑھانے والے محدثین علماء سے طویل صحبت اور اجازہ اور سند کو ضروری قرار دینا چاہیے۔ اللہ اعلم

🔴 مضمون کے آخر میں قارئین سے سوال ہے کہ قلیل مدت گزار کر جو وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دین سیکھ کر داعی بن کر گیا، اسی طرح کا کام موجودہ زمانے میں کونسے لوگ سلفی علماء سے دعوہ ٹریننگ لے کر غیر مسلموں میں دعوت کا کام کر رہے ہیں؟ 
کمنٹ بکس میں لکھیے! 

اگر کوئی گروپ نہیں کر رہا ہے تو کیا ہم لوگوں کو ایسا کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ 

جس طرح کا کام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے وفد عبد القيس کو کرنے کے لیے کہا تھا کیا اسی طرز کا کام آج ناقابل ِ عمل ہے؟ 

اگر ناقابلِ عمل جانتے ہیں تو کن اسباب کی وجہ سے؟ 

کیا آپ مانتے ہیں کہ ہندوستان میں اس طرح کے دعوتی کام کی فی زمانہ سخت ضرورت ہے؟ 

کیا آج کے منہجِ سلف پر قائم سلفی علماء ورثۃ الانبیاء ہو کر اس انبیائی مشن غیر مسلموں میں توحید کی نشر و اشاعت دعوتِ حق کے لیے کوشاں ہیں؟ 

ہمیں اپنے نفوس میں جھانک کر دیکھنا چاہیے ۔

🔷 میں ایسے مخلص علماء کو جانتا ہوں جو دعوتِ دین کے لیے انتھک جہد کرتے ہیں حتی کہ پنڈتوں کی زبان سنسکرت تک سیکھ کر ان تک دعوتِ اسلام پہنچا کر اتمامِ حجت کرتے ہیں! بارک الله في جهودهم وقدر الله مساعيهم
اس طرح دین کے بہت سارے محاذ پر علمائے دین کام کر رہے ہیں ۔

دوسری طرف بعض مدارس کے فارغین ہیں انکا دن رات کا یہی مشغلہ ہے کہ 
فلاں میں منہجی خلل ہے 
فلاں ادارہ منہجِ سلف سے منحرف ہے، 
فلاں میں کجی ہے 
فلاں میں شدید انحراف ہے! 

اب آپ ہی دیکھ لیجیے آپ کس زمرے میں خود کو رکھ کر کامیابی پانا چاہتے ہیں! 

کیا ہماری مثال شہد کی مکھی کی طرح نفع بخش ہے یا اس مکھی کی طرح ہے جو صرف نجاست پر بیٹھ کر اڑتی پھرتی ہے؟ 

ایسے لوگوں کو اس آیت پر غور کر کے خود کا محاسبہ کرنا چاہیے 
وَٱلَّذِینَ ٱهۡتَدَوۡا۟ زَادَهُمۡ هُدࣰى وَءَاتَىٰهُمۡ تَقۡوَىٰهُمۡ ۔
(سورۃ محمد آیت 17) 
یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق آیت ہے۔

اگر آج کے لوگ خود کو ہدایت پر قائم جان رہے ہیں تو مزید ہدایت کی بڑھوتری اور تقوی کے حصول کی کوشش ہونی چاہیے ۔

مضمون کے اختتام پر ایک حدیث پیش ہے 👇

قالَ النبيُّ صَلّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَومَ خَيْبَرَ: لَأُعْطِيَنَّ الرّايَةَ غَدًا رَجُلًا يُفْتَحُ على يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللَّهَ ورَسولَهُ، ويُحِبُّهُ اللَّهُ ورَسولُهُ، فَباتَ النّاسُ لَيْلَتَهُمْ أيُّهُمْ يُعْطى، فَغَدَوْا كُلُّهُمْ يَرْجُوهُ، فَقالَ: أيْنَ عَلِيٌّ؟، فقِيلَ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، فَبَصَقَ في عَيْنَيْهِ ودَعا له، فَبَرَأَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ به وجَعٌ، فأعْطاهُ فَقالَ: أُقاتِلُهُمْ حتّى يَكونُوا مِثْلَنا؟ فَقالَ: انْفُذْ على رِسْلِكَ حتّى تَنْزِلَ بساحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إلى الإسْلامِ، وأَخْبِرْهُمْ بما يَجِبُ عليهم، فَواللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بكَ رَجُلًا خَيْرٌ لكَ مِن أنْ يَكونَ لكَ حُمْرُ النَّعَمِ ۔
رواه البخاري رقم ٣٠٠٩

اسلام کی دعوت قبول کر کے ہدایت کوئی آپ سے پالیتا ہے تو کئی سرخ اونٹوں سے بہتر ہے 👆

آخر میں دعوت و اصلاح جیسے انبیائی مشن سے متعلق اک شعر برائے عمل! 

جنھیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے 
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی


ماخوذ :




۔