جمعہ، 19 جون، 2020

قبر ‏والی ‏مسجد ‏میں ‏نماز ‏نہیں ‏ہوتی؟ ‏

 ۔ 
 

 ۔ ﷽ ۔ 
 

جس مسجد میں قبر ہو اس میں نماز نہیں ہوتی 


ہ ےےےےےےےےے ہ


سوال :  

علمائے کرام اس مسجد کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ جس میں ایک یا زیادہ فبریں ہوں ، کیا اس میں نماز پڑھنی جائز ہے ⸮ ۔ کیا اس میں فرق ہے کہ قبر نمازی کے آگے یا پیچھے یا پہلو میں ہو ، کتاب و سنت اجماع امت اور اعتبار صحیح کے ساتھ ہمیں فتویٰ دیں ۔ 



جواب :  

و لا حول و لا قوۃ الا باللہ   

ہم پہلے آپ کے لئے امام المفتین محمد ﷺ کا فتویٰ ذکر کر کے اس کے بعد تائید و وضاحت کے لئے ائمہ اربعہ کے فتاویٰ ذکر کریں گے ۔ 

ہم کہتے ہیں اور اللہ تعالی سے صحیح بات کہنے کے لۓ مدد چاہتے ہیں ۔ 

ابن ابی شیبہ ؒ مصنف ( 2 ، 83 ) میں امام مالک ؒ مؤطا ( 1 ، 376 ) میں روایت لاتے ہیں حارث نجرانی سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا نبی ﷺ سے موت سے پانچ دن پہلے آپ ﷺ فرما رہے تھے : 

 " خبر دار جو لوگ تم سے پہلے تھے انہوں نے اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں پر مساجد بنا رکھی تھیں ۔  خبردار قبروں کو مساجد مت بناؤ میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں " ۔ 

اور سند اس کی صحیح ہے اور یہ حدیث مختلف طرق سے متعدد سندوں کے ساتھ وارد ہے جو پندرہ تک پہنچتی ہیں ۔ یہ عائشہ ، اسامہ ، جندب ، ابوھریرۃ ، ابن عباس ، ابو عبیدہ بن الجراح ، زید بن ثابت ، ابن مسعود ، علی ین ابی طالب اور امھات المؤمنین ؓ سے ثابت ہے ، 

بخاری ( 1 ، 422 ) ، مسلم ( 2 ، 67 ) ، نسائی ( 1 ، 115 ) ، دارمی ( 1 ، 326 ) ، احمد ( 1 ، 218 ) ، عبد الرزاق  ( 1 ، 406 ) بیہقی ( 4 ، 80 )   شرح السنہ للبغوی  ( 2 ، 415 ) 

جیسے کہ اس کی تحقیق " احکام جنائز " اور " تحذیر المساجد عن اتخاذ القبور مساجد"  میں ہے ، 

یہ حدیث قبروں پر مسجدیں بنانے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے ، تم جب قبر کو مسجد میں داخل کرو گے تو اس وعید کے مستحق بنو گے ، 

اور نہی تحریم کے لۓ ہے ،
اللہ تعالی فرماتے ہیں :
" اور جس سے روکے رک جاؤ " ( حشر : 7 ) 

کیا اس فعل شنیع میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی مشابہت کرنی کسی کے لۓ حلال ہے؟ 

نبی ﷺ نے یہ بات امت کو ڈرانے بچانے کے لۓ کہی 
جیسے عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، 
" ان کے کرتوت سے بچاتے تھے " 

مسلمان جو اپنے نبی ﷺ پر ایمان رکھتا ہو کے لۓ یہ احادیث کفایت کرتی ہیں 


لیکن ہم علماء کے فتوے بھی بصیرت میں اضافے کے لۓ لکھتے ہیں 


 ( 1 ) ۔  حنفیہ : 
کہتے ہیں قبور کے پاس مساجد بنانی مکروہ تحریمی ہے ۔ 

امام محمد ؒ نے اپنی کتاب الاثار ( 45 ) میں صراحتا کہا ہے : 
 " قبر کے علاوہ اس پر مزید اضافہ ہم درست نہیں سمجھتے اور قبر پکی بنانا اس کی لیپاپوتی اور اس کے پاس مسجد بنانا ہم مکروہ سمجھتے ہیں "  

حنفیوں میں علامہ ابن مالک ؒ  کہتے ہیں : 
 " اس پر مساجد بنانا حرام ہے کیوں کہ اس میں نماز پڑھنا یہودیوں کی سنت پر عمل کرنا ہے "  
علی القاری نے مرقاۃ ( 1 ، 470 ) میں نقل کر کے اسے ثابت رکھا ہے ، 


کتب حنفیہ میں سے شرعۃ الاسلام ( ص 569 ) میں ہے :
" قبر پر مسجد تعمیر کرنا مکروہ ہے جس میں نماز پڑھی جائے " 

الکوکب الدری ( 1 ، 153 ) میں ہے :
" قبروں پر بنی ہوئی مسجدوں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے خواہ قبر سامنے ہو یا پیچھے ہو یا ایک جانب ہو لیکن قبر کی طرف منہ کرنے میں کراہت اشد ہے " تلخیص کے ساتھ ۔ 

اور اسی طرح الطحاوی علی مراقی الفلاح ، ( ص 208 ) میں ہے مراجعہ کریں عینی شرح البخاری ( 4/ 149 ) ، رد المختار المعروف بالشامی ( 1 / 254 ) میں ہے : 
" اور کہا گیا ہے کہ بتوں کی عبادت کی بنیاد نیک لوگوں کی قبروں پر مسجد بنانا ہے ۔۔۔۔۔ الخ ۔ 

اسی طرح فتاویٰ دیوبند ( 1 ، 92 ) تفسیر آلوسی ( 15 ، 231 )  


 ( 2 ) ۔  شافعیہ : 
کہتے ہیں قبروں پر مسجدیں بنانی اور اس میں نماز پڑھنی کبیرہ گناہوں میں سے ہیں ۔ 

ابن حجر الھیثمی ؒ نے الزواجر عن اقتراف الکبائر ( 1 ، 120 ) جو بڑی مفید کتاب ہے میں صراحتاً کہا ہے : 
" قبروں پر مسجدیں بنانا کبیرہ گناہ ہے اور شرک کا سبب ہے یہ مکروہ نہیں حرام ہے " ( تلخیص کے ساتھ )  

امام شافعی ؒ نے خود کتاب الأم ( 1 ، 246 ) میں فرمایا ہے کہ : 
" میں قبر پر مسجد بنانے کو مکروہ سمجھتا ہوں اور اسی طرح اس پر نماز پڑھنا یا نیت کرنا یا اس کی طرف نماز پڑھنا بھی ، کیونکہ اس میں فتنہ اور گمراہی ہے " ( تلخیص کے ساتھ )  

حافظ عراقی ؒ کہتے ہیں :
" اگر کوئی مسجد تعمیر کرے اور اس کے حصے میں دفن ہونے کا قصد کرے تو وہ لعنت میں داخل ہے بلکہ مسجد میں دفن ہونا حرام ہے ، اگر دفن ہونے کی شرط لگائی ہے تو وہ شرط صحیح نہیں مسجد کے وقف کی مخالفت کی وجہ سے " 
یہ نقل کیا ہے مناوی نے فیض القدیر ( 5 ، 274 ) میں 


 ( 3 ) ۔ مالکیہ :
کہتے ہیں یہ حرام ہے ۔ 

امام قرطبی نے اپنی تفسیر ( 1 ، 38 ) میں صراحتاً کہا ہے کہ :
" ہمارے علماء نے کہا ہے کہ یہ حرام ہے مسلمانوں پر کہ وہ انبیاء اور علماء کی قبروں پر مساجد تعمیر کریں " ۔ 


 ( 4 ) ۔ حنابلہ : 
کہتے ہیں ایسی مساجد میں نمازیں پڑھنا حرام بلکہ باطل ہے ۔ 

امام ابن قیم ؒ نے زاد المعاد ( ۳ ، 22 ) میں تصریح کی ہے 
" اور ان میں سے معصیت والی جگہوں کو جلانا اور منہدم کرنا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہوتی ہو جیسے رسول اللہ ﷺ نے مسجد ضرار جلائی اور اسے منہدم کرنے کا حکم دیا ، وہ مسجد جس میں نماز پڑھی جاتی ہے اور اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن اس کی تعمیر مومنوں کو نقصان پہنچانے ، ان میں تفرقہ بازی ڈالنے کے لۓ تھی اور وہ منافقین کا ٹھکانا تھا اور وہ جگہ جو اس قسم کی ہو تو حاکم کو چاہۓ کہ اسے معطل کرے اسے جلائے یا منہدم کرے یا اس کی صورت بدل دے تاکہ جس کام کے لۓ بنائی گئی ہے اس کام کی نہ رہے ، مسجد ضرار کی یہ حالت تھی تو شرک کے اڈے جس کے مجاور اس میں مدفون لوگوں کا شریک بنانے کی دعوت دیتے ہیں جلانے اور منہدم کرنے کے زیادہ حقدار ہیں ، پھر کہا اس بنا پر وہ مسجدجو قبر پر بنائی گئی ہے منہدم کر دی جائے ، اسی طرح اگر مسجد میں کسی میت کو دفن کر دیا جائے تو اسے نکال دیا جائے ، امام احمد ؒ وغیرہ نے اس پر نص کی ہے ۔ 
دین اسلام میں مسجد اور قبر جمع نہیں ہو سکتے اور ان میں جو بھی دوسرے پر بنائی جائے تو اس کو روکا جائے گا ، اور حکم پہلے سے جو موجود ہو اسی کا ہوگا ، اگر دونوں اکٹھی بیک وقت بنائی جا رہی ہوں تو جائز نہیں اور یہ وقف صحیح نہیں اور ایسی مسجد میں نماز جائز اور درست نہیں ، رسول  اللہ ﷺ کی نہی کی وجہ سے اور جو یہ کام کرے اس پر لعنت کرنے کی وجہ سے ، یہ دین اسلام ہے جس کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنے نبی اور رسول کو مبعوث فرمایا اور لوگوں میں اس کا انوکھا پن آپ دیکھ رہے ہیں " انتھیٰ ۔ 

شیخ الا سلام امام ابن تیمیہ ؒ  اس مسئلے کی بابت اپنے فتوے ( 1 ، 107 ) ، ( 2 ، 192 ) میں عجیب باتیں ذکر کرتے ہیں اور مجموعۃ الفتاویٰ ( 27 ، 140 ۔ 141 ) میں کہا ہے : 
 " ایسی مساجد میں نمازیں پڑھنی بلا شک حرام ہے اور باطل ہیں ان میں قرض یا نفل کچھ بھی جائز نہیں " ۔ 

مراجعہ کریں ابن عروہ حنبلی کی الکوکب الدری ( 2 ، 244 ) ، امام ابن تیمیہ کی الا ختیارات العلمیہ ( ص 52 ) ، شرح المنتھی ( 1 ، 353 ) 


ہماری ذکر کردہ نقول صحیحہ سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ قبروں پر مسجدیں بنانا اور قبروں کو مسجدوں میں داخل کرنا جائز نہیں ، ایسی مسجدوں میں نمازیں پڑھنی جائز نہیں کیونکہ یہ مشرکوں کی مشابہت ہے ،   جیسے نبی ﷺ نے سورج کے طلوع و غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس میں مشرکین کی مشابہت تھی ہم نے اس فتوے میں نقول اور احادیث کے ذکر کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے کیونکہ انصاف پسند مسلمان کے لۓ اسی قدر کافی ہے اور بھائیوں کو مذکورہ کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں خصوصا شیخ البانی ؒ کی " تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد " 


اور شیخ عثیمین نے مجموعہ ( 2 ، 119 ) میں قبر رسول ﷺ کے چار جواب دیئے ہیں 

اول : 
مسجد نبوی ، قبر پر تعمیر نہیں ہوئی بلکہ نبی ﷺ کی زندگی میں تعمیر ہو چکی تھی 

دوم : 
نبی ﷺ مسجد میں دفن نہیں ہوئے کہ کوئی کہے یہ صالحین کا مسجد میں دفن ہونا ہے بلکہ آپ اپنے گھر میں دفن ہوئے تھے 

سوم : 
رسول اللہ ﷺ کے گھروں کا ، سمیت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے ، مسجد سے شامل کیا حانا ، صحابہ کے اتفاق سے نہیں تھا ، بلکہ 94ھ میں اکثر ان میں سے بکھر گۓ تھے ، تو یہ کام صحابہ کی اجازت سے نہیں ہوا ، بلکہ بعض نے مخالفت بھی کی جن میں سعید بن مسیب بھی ہیں 

چہارم : 
داخل کئے جانے کے بعد بھی قبر مسجد میں نہیں کیونکہ قبر مسجد سے مستقل حجرے میں ہے تو مسجد قبر پر نہیں بنی ، اسی لۓ اس جگہ کو محفوظ کر دیا گیا ہے اور اسے تین دیواروں کی مثلث سے اس طرح گھیر دیا گیا ہے کہ دیوار قبلے سے منحرف ہے اور شمالی کونہ کچھ اس طرح ہے کہ نماز پڑھنے والے کا منہ اس طرف نہیں ہوتا ، کیونکہ وہ قبلہ سے منحرف ہے ، اس لحاظ سے قبوریوں کا اس شبہ سے حجت پکڑنا باطل ہے ۔ الخ  

و باللہ التوفیق 

و صلی اللہ علی نبینا محمد و علی آله وصحبه اجمعین ۔ 

شیخ الاسلام امین اللہ ال بشا وری حفظہ اللہ 
فتاویٰ الدین الخالص 
ج 1 ، ص 160  


جوائین ان  


۔