جمعہ، 19 جون، 2020

قبر ‏والی ‏مسجد ‏میں ‏نماز ‏نہیں ‏ہوتی؟ ‏

قبر کو مسجد میں داخل کرو گے تو اس وعید کے مستحق بنو گے، اور نہی تحریم کے لیے ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں ’’اور جس سے روکے رک جاؤ" (حشر:7) کیا اس فعل شنیع میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی مشابہت کرنی کسی کے لیے حلال ہے؟ نبی ﷺ نے یہ بات امت کو ڈرانے کے لیے کہی جیسے عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، "ان کے کرتوت سے بچاتے تھے‘‘ مسلمان جو اپنے نبی ﷺ پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے یہ احادیث کفایت کرتی ہیں 
لیکن ہم علماء کے فتوے بھی بصیرت میں اضافے کے لیے لکھتے ہیں 

(1).؛ 
حنفیہ کہتے ہیں قبور کے پاس مکروہ تحریمی ہے 

امام محمد نے اپنی کتاب الاثار (45) میں صراحتا کہا ہے 

’’قبرکے علاوہ اس پر مزید اضافہ ہم درست نہیں سمجھتے اور قبر پکی بنانا اس کی لیپاپوتی اور اس کے پاس مسجد بنانا ہم مکروہ سمجھتے ہیں" 

حنفیوں میں علامہ ابن مالک کہتے ہیں 

؛’’اس پر مسجد بنانا حرام ہے کیونکہ اس میں نماز پڑھنا یہودیوں کی سنت پر عمل کرنا ہے"؛ 

علی القاری نے مرقاۃ (1، 470) میں نقل کرکے اسے ثابت رکھا ہے،؛

کتب حنفیہ میں سے شرعۃ الاسلام (ص 569) میں ہے ’’قبر پر مسجد تعمیر کرنا مکروہ ہے جس میں نماز پڑھی جائے"؛ 

الکوکب الدری (1، 153) میں ہے ’’قبروں پر بنی ہوئی مسجدوں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے خواہ قبر سامنے ہو یا پیچھے ہو یا ایک جانب ہو لیکن قبر کی طرف منہ کرنے میں کراھت اشد ہے‘‘ تلخیص کے ساتھ ۔

اور اسی طرح الطحاوی علی مراقی الفلاح، (ص 208) میں ہے ’’اور کہا گیا ہے کہ بتوں کی عبادت کی بنیاد نیک لوگوں کی قبروں پر مسجد بنانا ہے ..... الخ 

اسی طرح فتاویٰ دیوبند (1، 254) میں ہے مراجعہ کریں عینی شرح البخاری (4، 149) ردالمختار المعروف بالشامی، (1، 254) میں ہے ’’اور کہا گیا ہے کہ بتوں کی عبادت کی بنیاد نیک لوگوں کی قبروں پر مسجدیں بنانا ہے .....الخ، اسی طرح فتاویٰ دیو بند (1، 92) تفسیرآلوسی (15، 231)؛ 

(2).؛ 
شافعیہ کہتے ہیں قبروں پر مسجدیں بنانی اور اس میں نماز پڑھنی کبیرہ گناہوں میں سے ہیں 

ابن حجر الھیثمی نے الزواجر عن اقتراف الکبائر (1، 120) جو بڑی مفید کتاب ہے میں صراحتاً کہا ہے ’’ قبروں پر مسجدیں بنانا کبیرہ گناہ ہے اور شرک کا سبب ہے یہ مکروہ نہیں حرام ہے‘‘ (تلخیص کے ساتھ)؛ 

امام شافعی نے خود کتاب الأم (1، 246) میں فرمایا ہے کہ ’’میں قبر پر مسجد بنانے کو مکروہ سمجھتا ہوں اور اسی طرح اس پر نماز پڑھنا یا نیت کرنا یا اس کی طرف نماز پڑھنا بھی، کیونکہ اس میں فتنہ اور گمراہی ہے ‘‘ (تلخیص کے ساتھ )؛ 

حافظ عراقی کہتے ہیں "اگر کوئی مسجد تعمیر کرے اور اس کے حصے میں دفن ہونے کا قصد کرے تو وہ لعنت میں داخل ہے بلکہ مسجد میں دفن ہونا حرام ہے، اگر دفن ہونے کی شرط لگائی ہے تو وہ شرط صحیح نہیں مسجد کے وقف کی مخالفت کی وجہ سے‘‘،؛

یہ نقل کیا ہے مناوی نے فیض القدیر (5، 274) میں 

(3).؛
مالکیہ کہتے ہیں یہ حرام ہے 

امام قرطبی نے اپنی تفسیر (1، 38) میں صراحتاً کہا ہے کہ ہمارے علماء نے کہا ہے کہ یہ حرام ہے مسلمانوں پر کہ وہ انبیاء اور علماء کی قبروں پر مساجد تعمیر کریں  

(4).؛
حنابلہ کہتے ہیں ایسی مساجد میں نمازیں پڑھنا حرام بلکہ باطل ہے 

امام ابن قیم نے زادالمعاد (۳، 22) میں تصریح کی ہے 
اور ان میں سے معصیت والی جگہوں کو جلانا اور منہدم کرنا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہوتی ہو جیسے رسول اللہ ﷺ نے مسجد ضرار جلائی اور اسے منہدم کرنے کا حکم دیا، وہ مسجد جس میں نماز پڑھی جاتی ہے اور اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن اس کی تعمیر مومنوں کو نقصان پہنچانے، ان میں تفرقہ بازی ڈالنے کے لیے تھی اور وہ منافقین کا ٹھکانا تھا اور وہ جگہ جو اس قسم کی ہو تو حاکم کو چاہیے کہ اسے معطل کرے اسے جلائے یا منہدم کرے یا اس کی صورت بدل دے تا کہ جس کام کے لیے بنائی گئی ہے اس کام کی نہ رہے، مسجد ضرار کی یہ حالت تھی تو شرک کے اڈے جس کے مجاور اس میں مدفون لوگوں کا شریک بنانے کی دعوت دیتے ہیں جلانے اور منہدم کرنے کے زیادہ حقدار ہیں، پھر کہا اس بنا پر وہ مسجدجو قبر پر بنائی گئی ہے منہدم کردی جائے، اسی طرح اگر مسجد میں کسی میت کو دفن کر دیا جائے تو اسے نکال دیا جائے، امام احمد وغیرہ نے اس پر نص کی ہے 

دین اسلام میں مسجد اور قبر جمع نہیں ہو  سکتے اور ان میں جو بھی دوسرے پر بنائی جائے تو اس کو روکا جائے گا، اور حکم پہلے سے جو موجود ہو اسی کا ہوگا، اگر دونوں اکٹھی بیک وقت بنائی جا رہی ہوں تو جائز نہیں اور یہ وقف صحیح نہیں اور ایسی مسجد میں جائز اور درست نہیں، رسول  اللہ ﷺکی نہی کی وجہ سے اور جو یہ کام کرے اس پر لعنت کرنے کی وجہ سے، یہ دین اسلام ہے جس کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنے نبی اور رسول کو مبعوث فرمایا اور لوگوں میں اس کا انوکھا پن آپ دیکھ رہے ہیں" انتھیٰ

شیخ الا سلام امام ابن تیمیہ  اس مسئلے کے بابت اپنے فتوے (1، 107)، (2، 196) میں عجیب باتیں ذکر کرتے ہیں اور مجمو عۃ الفتاویٰ (27، 140 - 141) میں کہا ہے  
’’ایسی مساجد میں نماز پڑھنا بلا شک حرام ہے اور باطل ہیں ان میں قرض یا نفل کچھ بھی جائز نہیں‘‘  مراجعہ کریں ابن عروہ حنبلی کی الکوکب الدری (2، 244)، امام ابن تیمیہ کی الا ختیارات العلمیہ (ص 52)، شرح المنتھی (1، 353)؛

ہماری ذکر کردہ نقول صحیحہ سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ قبروں پر مسجدیں بنانا اور قبروں کو مسجدوں میں داخل کرنا جائز نہیں ایسی مسجدوں میں نمازیں پڑھنی جائز نہیں کیونکہ یہ مشرکوں کی مشابہت ہے،  جیسے نبی ﷺ نے سورج کے طلوع و غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس میں مشرکین کی مشابہت تھی ہم اس فتوے میں نقول اور احادیث کے ذکر کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے کیونکہ انصاف پسند مسلمان کے لیے اسی قدر کافی ہے اور بھائیوں کو مذکورہ کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں خصوصا شیخ البانی کی "تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد"؛

اور شیخ عثیمین نے مجموعہ (2، 119) میں قبر رسول ﷺ کے چار جواب دئیے ہیں 

اول 
مسجد نبوی، قبر پر تعمیر نہیں ہوئی بلکہ نبی ﷺ کی زندگی میں تعمیر ہو چکی تھی 

دوم 
بنی ﷺ مسجد میں دفن نہیں ہوئے کہ کوئی کہے یہ صالحین کا مسجد میں دفن ہونا ہے بلکہ آپ اپنے گھر میں دفن ہوئے تھے 

سوم 
رسول اللہ ﷺ کے گھروں کا سمیت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے مسجد سے شامل کیا حانا، صحابہ کے اتفاق سے نہیں تھا بلکہ 94ھ میں اکثر ان میں سے بکھر گے تھے تو یہ کام صحابہ کی اجازت سے نہیں ہوا، بلکہ بعض نے مخالفت بھی کی جن میں سعید بن مسیب بھی ہیں 

چہارم 
داخل کئے جانے کے بعد بھی قبر مسجد میں نہیں کیونکہ قبر مسجد سے مستقل حجرے میں ہے تو مسجد قبر پر نہیں بنی، اسی لیے اس جگہ کو محفوظ کر دیا گیا ہے اور اسے تین دیواروں کی مثلث سے اس طرح گھیر دیا گیا ہے کہ دیوار قبلے سے منحرف ہے اور شمالی کونہ کچھ اس طرح ہے کہ نماز پڑھنے والے کا منہ اس طرف نہیں ہوتا ،کیونکہ وہ قبلہ سے منحرف ہے اس لحاظ سے قبوریوں کا اس شبہ سے حجت پکڑنا باطل ہے الخ  

وباللہ التوفیق 

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1، ص160 

محدث فتویٰ 

https://urdufatwa.com/view/1/11422 

،