ہفتہ، 20 مارچ، 2021

اسلام میں بیماریوں سےبچاؤکے لئے احتیاطی تدابیر عبدالعلیم عبد ‏سلفی ‏

.

بسم الله الرحمن الرحيم 
*%*%*%*%*%*%*%*

اسلام میں بیماریوں سےبچاؤکے لئے احتیاطی تدابیر 

عبدالعلیم عبد الحفیظ سلفی /سعودی عربیہ 

؛> صحت وتندرستی اللہ کی عظیم نعمت ہے جو انسان کی زندگی کے لئے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے اگر صحت تندرستی ہے تو دینی ودنیاوی ہر کام بحسن وخوبی انجام دیا جا سکتاہے ورنہ زندگی ضرر ونقصان اور پریشانی کی حالت میں گذرتی ہے، جس کا احساس ہر اس انسان کو ہے جو تندرستی اور صحت سے محروم ہے ۔ اسی لئے اسلام میں عبادات ومعاملات سے لیکر جہاد اور معاشرتی عمل ہر میدان میں صحت کا اعتبار کیا گیاہے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

الْمُؤْمِنُ الْقَوِىُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ " "مضبوط مومن کمزور مومن کے مقابلے اللہ کے نزدیک بہتر اورزیادہ محبوب ہے " (صحیح مسلم /2664 ) ۔

بعض اہل علم (جن میں امام نووی بھی ہیں ) نے اس سے دین ، تقوی ، عبادت ، عقیدہ وعمل وغیرہ میں قوت مرادلیاہے ۔ اور کچھ نے بدن وعمل حتی کہ دنیوی عمل میں قوت مراد لیاہے۔

لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت میں ہر اس عمل سے یا ہر اس چیز کے استعمال سے روکا گیاہے جو طبی اصول کے مطابق نقصان دہ اور ضرررساں ہو ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"لا ضررَ ولا ضِرارَ"( صحيح ابن ماجہ/ 1909) "نہ نقصان اٹھایا جائے گا اور نہ ہی دوسروں کو نقصان میں ڈالاجائےگا "(یہ روایت تجارت ، معاملات اور کھانے پینے سے متعلق ہر طرح کے نقصان کو شامل ہے ۔)

ایک مثل مشہورہے : (درهم وقاية خير من قنطار علاج) ( an ounce of prevention is worth a pound of cure ) یعنی ڈھیروں دولت خرچ کرکے علاج س کرانے سے درہم بھرکی احتیاط بہتر ہے ۔

آیئے ہم ایک نظر اسلام کے ان احکام وامور پرڈالتےہیں جن میں انسان کی صحت اور تندرستی کی مکمل رعایت کی گئی ہے ، اگر ان احکام پر مکمل طریقے سے عمل کیاجائے تو مختلف قسم کےخطرناک جراثیم جو چھوٹی بڑی بے شمار بیماریوں کا سبب بنتے ہیں سے آدمی بچ جائے ۔بلکہ ہم ان احکام کو تعبد اور اللہ کی خوشنودی اور اس کی قربت کے حصول کے ذرائع کےساتھ ساتھ بیماریوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدبیریں بھی کہہ سکتے ہیں ۔

آیئے ہم موضوع کے بعض نکات کو مختصر اندازمیں پیش کرتے ہیں ، اس امید کے ساتھ کہ کم ازکم مسلم افراد ان پر عمل کرکے اللہ کی قربت ومحبت اور بیماریوں سے بچنے کے لئے ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرکے اچھی صحت اور صالح ماحول ومعاشرہ پا سکے ۔

 وہ احکام جن میں نقصان اور ضررکے امکان کے پیش نظر چھوٹ دی گئی ہے : اسلامی عبادات سے متعلق احکام کے اندر اگر جسم وجان کو نقصان اور ضررکا خطرہ ہوتو جزوی یا کلی رعایت اورچھوٹ دی گئی ہے۔

حالت سفر اور حالت بیماری میں جان کا خطرہ ہو ، جسم کو نقصان پہنچتاہو تو روزہ چھوڑنے کا حکم ہے ۔(پھراگر خطرہ ٹل جا‎ئےتو اس کی قضاء کرنی ہوگی سوائے ایسی بیماری کے جس سے شفا وبرءت کی امید نہ ہو تواس کے لئے ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلانا ہوگا، اللہ تعالی فرماتاہے 
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ * أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ * 

اے ایمان والو!تم پرروزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگاراور تقوی شعاربنو۔ یہ گنتی کے چند دن ہیں۔لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرلے۔ اورجو اس کی طاقت رکھتے ہوں (یعنی بڑھاپے یا مرض جس سے برءت کی امیدنہ ہو کی وجہ سے روزہ میں مشقت محسوس کرتےہوں)تو ان پرروزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھاناکھلاناہے۔ پھر جو شوق سے کوئی نیکی کرے تویہ اس کے لیے بہتر ہے، اورروزہ رکھ لو تو یہ تمھار ے لیے اور بھی اچھا ہے،اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ (سورہ بقرہ/183-184)

انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ : " سافرنا مع رسولِ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ في رمضانَ فصامَ بعضنا وأفطرَ بعضنا فلم يعبِ الصَّائمُ علَى المفطرِ ولا المفطرُ علَى الصَّائمِ " (صحیح بخاری/1947 ، صحیح مسلم /1118) " ہم نے رمضان میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا ، ہم میں سے کچھ لوگ روزے سےتھے اور کچھ بنا روزے کے ، روزہ داروں نے روزہ نہ رکھنے والوں پر اور بنا روزے والوں نے روزہ داروں پر کوئی تنقید نہیں کی "۔

بلکہ ایک روایت میں مشقت کی حالت میں روزہ رکھنے والوں کو نافرمان کہاگیاہے، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع سے رمضان کے مہینے میں مکہ کے لئے نکلے پھر جب مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع کراع الغمیم نامی جگہ پر پہنچے تو آپ کو بتایا گیاکہ لوگوں پر روزہ مشقت کا باعث بن رہاہے اور وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ آپ کیاکرتے ہیں ، تو آپ نے عصرکے بعد پانی کا پیالہ منگایااور لوگوں کو دکھا کر نوش فرمایا ، اس کے بعدآپ کو خبردی گئی کہ کچھ لوگ اب بھی روزے سے ہیں تو آپ نے فرمایا " أُولَئِكَ الْعُصَاةُ ، أُولَئِكَ الْعُصَاةُ" " یہ لوگ نافرمان ہیں ، یہ لوگ نافرمان ہیں "۔(صحیح مسلم /1114)۔

اسی طرح ایک سفرمیں ایک جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی بھیڑدیکھی جس میں ایک آدمی پر سایہ کیاگیاتھا ، آپ کے استفسار پر بتایاگیاکہ یہ آدمی روزے سے ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا: " لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِي السَّفَرِ " " سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے "(صحیح بخاری / 1946 ، صحیح مسلم/1115)۔

؛> اسی طرح حمل والی اوربچوں کو دودھ پلانے والی عورتوں کو اگر ان کے روزہ رکھنے سے ان کی یا ان کے بچے کی صحت پر کوئی اثر پڑتاہوتو ان کے لئے اس حالت میں روزہ توڑنے کا اختیارہے ۔

؛> بیماری کا خطرہ ہوتو وضوء اور غسل میں تاخیر یا تیمم کا حکم ہے ۔

؛> حالت احرام میں اگر سرمیں کوئی بیماری لاحق ہو تو بیماری کو زائل کرنے کے لئے حالت احرام میں سرمنڈانے کی اجازت ہے ۔

؛> بارش اور دیگر ایسے حالات جب مسجد وغیرہ میں جانے سے مشقت وپریشانی اور بیماری وغیرہ کا خطرہ ہوتو شریعت نے امت کو مسجد میں نہ آکر گھر میں نمازکی ادائیگی کی اجازت دی ہے ، جیساکہ عبداللہ بن عمر ، عبدا اللہ بن عباس اور عمرو بن اوس رضی اللہ عنہ کی روایت کے اندر ہے کہ بارش اور کیچڑ کے وقت حی علی الصلاۃ کی جگہ ( ألا صلوا في الرحال) (صلوا في رحالكم ) ( صلوا في بيوتكم ) کہا گیا ۔ (بخاری مسلم نسائی اور احمد نے ان روایتوں کو ذکرکیاہے)۔

 ان چیزو ں سے پرہیز جوکلی یا جزوی بیماری ،مشقت یا نقصان کا سبب بنے :

؛> حالت حیض ماہواری میں بیوی سے جماع سے ممانعت ہے : اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے : ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ ﴾ (سورہ بقرہ/222) ( آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتےہیں ، کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے ، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو،اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ )۔اس آیت میں اس بات کی صراحت ہے کہ عورت کے ایام خاص کا خون گندگی ہے، اور ایسی حالت میں جماع ضررونقصان کا سبب ہے ، اطباء نے بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ایسی حالت میں جماع سے انسان کے تولیدی نظام میں انفیکشن پھیلنےکا زیادہ خطرہ ہوتاہے ،نیزسوزش کے اثرات کی وجہ سے بیکٹیریاکی زیادتی اور اس کو مضبوطی دینے کا سبب بنتاہے، اور کی وجہ سےہونے والی سوزش تولیدی نظام میں خلل ڈالتاہے ۔ اسی طرح عورت کے رحم کی رگیں نرم ونازک ہونے کی وجہ سے ایسی حالت میں ان رگوں کے پھٹنے، سوزش اور خون کی زیادتی کا سبب بن سکتاہے۔

؛> جہاں متعدی وباء یا بیماری پھیلی ہو وہاں جانے سے اور وہاں سے نکلنے سے منع ہے : اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (طاعون کے سلسلےمیں) فرمایا": إذَا سمِعْتُمْ الطَّاعُونَ بِأَرْضٍ، فَلاَ تَدْخُلُوهَا، وَإذَا وقَعَ بِأَرْضٍ، وَأَنْتُمْ فِيهَا، فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا " (صحیح بخاری /5728" صحیح مسلم /2218) "جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون ہے تووہاں مت جاؤ ، اور جہاں تم ہو وہاں یہ وباء پھیل جائے تو وہاں سے مت نکلو"۔

؛> ایسے کام سے بچنا جن سے لوگوں کو تکلیف ہو یا انہیں ان کے جراثیم کےپھیلنے کی وجہ سے بیماری وغیرہ لاحق ہونے کا خطرہ ہو،جیسے راستے میں جہاں لوگ بیٹھتے ہوں ،پانی میں اور عام گذرگاہوں پر قضائے حاجت سے حدیث میں منع کیاگیاہے ،جیساکہ روایت میں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" تین لعنت کا سبب والی چیزوں سے بچو : پانی میں ، عام گذرگاہوں پر اور سایے میں قضائے حاجت سے " ۔ (سنن ابی داوود/ سنن ابن ماجہ/ علامہ البانی نے اسے صحیح الجامع /112 کے اندر حسن قراردیاہے۔ اس معنی کی اور بھی بہت ساری روایتیں ہیں ۔)

؛> اسی طرح پانی میں پیشاب کرنے سے خطرناک جراثیم پھیلتے ہیں اسی وجہ سے اسلامی شریعت میں اس سے منع کیاگیاہے ،امام مسلم نے صحیح ( 281) کے اندر جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ اللہ کے رسول صلی نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایاہے ۔

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرکے اس میں غسل کرنے سے منع فرمایاہے۔ (صحیح بخاری/238 ، صحیح مسلم /282)

؛> کھانے پینے کے برتنوں کو کھلا رکھنےسے ممانعت: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((أطْفِئوا المصابيح بالليل إذا رقَدتم، وأغلِقوا الأبواب، وأوْكِئوا الأَسْقِية، وخمِّروا الطعام والشراب"(صحیح بخاری/5624 و صحیح مسلم/2012 عن جابر رضی اللہ عنہ) "رات میں جب تم سونے جاؤتو چراغوں کو بجھادو ، دروازوں کو بند کرلو ، پینے کے کے برتن کوبند کردو اور کھانے اور پینے کے سامان کو ڈھنک دو)۔

کیونکہ ان کو کھلا رکھنے سے ان کے اندر زہریلے کیڑے پڑنے یا قاتل جراثیم کے پڑنے کا خطرہ ہوتاہے جس سے آدمی کی صحت پہ برا اثر پڑسکتاہے۔

 وہ کام جن کے کرنے سے بیماریوں سے بچاؤ ہوتاہے :

؛> مسواک کی تاکید : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي - أو على الناس -،لَأَمَرْتُهُمْ بالسِّوَاكِ مع كُلِّ صَلَاةٍ" " اگر میری امت - یا لوگوں - کو پریشانی نہ ہوتی تو میں انہیں ہر نمازکے ساتھ مسواک کرنے کاحکم دیتا "۔(صحیح بخاری/847، صحیح مسلم/252، مسند احمد/7513 والنسائی (الکبری/3027)

اسی طرح عا‎‎‎ئشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی حکمت کے بارے میں ارشاد فرمایا :" السواك مَطهرةٌ للفمِ ، مَرضاةٌ للرَّبِّ " " مسواک صفائی اور پاکی کا ذریعہ اور رب کی رضاکا سبب ہے " ۔ ( سنن النسائی:1/50 ، مسند احمد:6/47 ، امام بخاری نے تعلیقا ذکرکیاہے:2/274 اور علامہ البانی نے ارواء الغلیل :1/105 کے اندر صحیح قراردیاہے۔(

مسواک کا طبی فائدہ یہ ہے کہ اس میں پنسلن نما اینٹی بیکٹیریل مادہ ہوتا ہے ، جو جراثیم کے خاتمے کے لئے نہایت ہی اثردار ہے، جوکہ کم ازکم منہ میں موجود پانچ طرح کے بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کو ختم کرتاہے۔

؛> سونے سے پہلے ہاتھ اور منھ میں گوشت یا چربی وغیرہ کا اثر یا مہک ہو تو اس کو دھو لینا چاہیے : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : " جس کے ہاتھ میں (گوشت یا چربی کی ) چکنائی مہک یا اس کااثر موجود ہواور اسے دھوئے بغیر سوگیا ، پھر اسے کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اپنے آپ کو ملامت کرے" ۔ (أبو داود /3852 ، وأحمد /7569 , ترمذي /1860 ، نسائي ((السنن الكبرى)) /6905 اور ابن ماجہ 3297 ۔ علامہ البانی نے اسے صحیح قراردیاہے۔)

؛> صبح اٹھ کر پہلے ہاتھ دھولنا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ ، فَلَا يَغْمِسْ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يَغْسِلَهَا ثَلَاثًا ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ " "جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدارہوتو اپنا ہاتھ اس وقت تک برتن میں نہ ڈالے جب تک اسے تین بارنہ دھل لے ، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ رات میں اس کے ہاتھ کہاں تھے "۔(صحیح بخاری/162 ، صحیح مسلم /278 )۔

کیونکہ انسان کی لاعلمی میں اس کا ہاتھ گندی جگہوں پر گیاہو یا کوئی کیڑہ وغیرہ گذرا ہو جس کی وجہ سے خطرناک جراثیم پیداہوتے ہیں لہذا اگر ایسے ہاتھ کو پانی میں ڈالتاہے تو اس سے بیمار ہونے کا خطرہ ہے ، اس لئے احتیاط یہ ہے کہ کسی برتن وغیرہ میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے خوب اچھی طرح سے دھل لیاجائے ۔

؛> چھینکتے وقت چہرے کر ڈھنکنا : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ کے نبی صلَّى اللَّهُ علیہ وسلَّمَ کے بارے میں فرماتےہی :" كانَ إذا عطسَ غطَّى وجهَهُ بيدِهِ أو بثوبِهِ وغضَّ بِها صوتَهُ" "آپ کو جب چھینک آتی تو آپ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھ سےیا کپڑے سے ڈھک لیاکرتے اور اپنی آواز کو پست کرتے "۔ ( ابو داوود /5029، ترمذی / 2745 واحمد/9662 ۔ علامہ البانی نے اسےحسن صحیح قراردیاہے)۔

موجودہ حالات میں جہاں کوویڈ - 19 اور اس جیسی بے شمار متعدی اور وبائی بیماریاں اپنا بھیانک روپ دکھارہی ہیں اور ان کے جراثیم کے پھیلنے کے جو اسباب اور راستے ہیں ، اسے دیکھتے ہوئے چھینکتے وقت سنت کے اس طریقہ کی اہمیت اور ضرورت کا پتا چلتاہے ۔ بلکہ ان بیماریوں کے پھیلنے میں سب سے زیادہ اثر چھینکتے وقت بے احتیاطی ہے۔ اسی لئے اطباء ہر وقت یہ نصیحت کرتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ چھینکتے وقت ناک پر رومال وغیرہ لازما رکھ لینا چاہئے ۔

اسی طرح چھینکتے وقت جسم کے اندر بہت ساری تبدیلیا پیدا ہوتی ہیں ، جو انسان کے بعض اعضاء کے تعطل کا سبب ہیں ، حالانکہ کے چھینک کا دورانیہ ایک سیکنڈیا اس سے کم کا ہوتاہے لیکن اس کی رفتار تقریبا سو کیلومیٹر ہوتی ہے اس لئے ایسے موقع سے سنت میں بتایا گیا عمل خاص طور سے آواز کو پست رکھنا ہی صحت کی حفاظت کے لئے ضروری اور مفید ہے ۔

؛> استنجاء کرنا ۔ جب انسان قضائے حاجت کرتاہے تو اس کے پیٹ سے فضلہ نکلتاہےاگر اسے صاف نہ کیاجائے تو مختلف جراتیم اوربیماریوں کا سبب بنتاہے ،اسی لئے شریعت اسلامیہ نے استنجاءکے آداب بیان کرکے اس سے پیدا ہونے والے مختلف بیماریوں سے بچاؤ کی طرف رہنمائی کی ہے ، جیسے : تین عدد ڈھیلا یا پتھر یا پھر پانی سے صفائی کرنا۔ عا‎ئشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " إذا ذهب أحدُكم إلى الغائط، فليذهب معه بثلاثة أحجارٍ يستطيب بهن.

" جب تم میں سے کوئی ‍ قضائے حاجت کے لئے جائے تو اپنے ساتھ تین پتھرلےکرجائے جن سے صفائی کرے "۔ (ابوداوو/40، نسائی /44 امام البانی نے اسے حسن کہاہے ۔ )

اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ : " اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں جاتے تو میں اور ایک غلام پانی کابرتن اور چھڑی لے کر جاتے "(صحیح بخاری /151 ، صحیح مسلم /270) ۔

؛> حدیث میں اللہ کی بعض مخلوق کی خوراک ہونے کی وجہ سے استنجاء کے لئے گوبر اور ہڈی وغیرہ کے استعمال سے منع فرمایا گیاہے ، لیکن صفائی کے لئے ان چیزوں کا استعمال ضرر ونقصان سے بھی خالی نہیں ہے ۔ (دیکھئے :صحیح البخاری/156، صحیح مسلم/262،263) ۔

؛> اسی طرح استنجاء کے لئے داہنے ہاتھ کے استعمال سے منع فرمایاگیاہے ، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا دفرمایا:" "إذا بال أحدُكم فلا يأخذن ذكَره بيمينه، ولا يستنجي بيمينه .." "جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو داہنے ہاتھ سے اپنے شرم گاہ کو نہ چھوئے اور نہ ہی داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے ۔۔۔"۔ (بخاری /153 ، مسلم/267)

کیونکہ کھانے پینے اور اس جیسے وہ کام جو شرف اور پاکی والے ہوتے ہیں آدمی داہنے ہاتھ سے ہی کرتاہے ، لہذا اگر استنجاء کے لئے اس کا استعمال کرتاہے تو اس ذریعہ سے خطرناک جراثیم منہ اور پیٹ تک پہنچ کربیماریوں کا سب بن سکتے ہیں ۔

؛> اسی طرح کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ کی صفائی مستحب ہے جو ہاتھ کے ذریعہ منہ اور پیٹ تک نقصان دہ مواد کو پہنچنے سے روکتاہے ۔ 
؛> جسم وجان کے لئے نقصان دہ اشیاء جیسے : شراب ، تمباکو ، حشیش ، گانجہ ، سگریٹ ، بیڑی یا ان جیسے اور اشیاء جو کہ حرام ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کے لئے نہایت ہی نقصان دہ ہیں ، شریعت نے مکمل طور سے حرام قراردیا ہے ۔

؛> اسی طرح ان اشیاء کا استعمال بھی جائز نہیں جن سے جسم وصحت پر برا اثر پڑتاہو گرچہ وہ حلال ہوں ، جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" نہ خود کو ضرر پہونچائے اور نہ دوسروں کو " ، لہذا اس ضمن میں اطباء کے مشورہ پر پوری طرح سے عمل اور ان چیزوں کے استعمال سے مکمل پرہیزی جن سے انہوں نے منع کیاہو نہایت ہی ضروری اور اسلام کے حفظان صحت اور بیماریوں سے بچاؤ کے تدابیر کے عین موافق ہے ۔

؛> کچھ پیتے وقت برتن میں سانس لینے سے منع کیاگیاہے ، کیونکہ اس کے ذریعہ سے بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ ہوتاہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " إذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء " "جب تم میں سےکوئی کچھ بیئے تو برتن میں سانس نہ لے " ۔ (بخاری/149 ،مسلم/3780)

؛> اسی طرح وضوء کے دوران اچھی طرح سے کلی کرنے ، ناک میں اچھی طرح سے پانی ڈالنے اورناک جھاڑنے کا بیان موجود ہے جو شرعی اہمیت کے ساتھ ساتھ صحت وبیماری سے بچاؤ کی حکمت سے پرہیں ۔(یہ روایتیں بخاری/192، مسلم /235، ابوداود،ترمذی /788، نسائی /114 ، ابن ماجہ /448 اور حدیث کی دیگر کتابوں میں موجودہیں )۔

؛> کتاکسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس وقت تک اس کا استعمال جا‏ئزنہیں ہے جب تک کہ شریعت کے متعین کردہ طریقے سے صاف کرکے اس کے جراثیم زائل نہ کردئے جائیں ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" إذا ولغ الكلب في إناء أحدكم، فليُرِقْه، ثم ليغسله سبع مِرَارٍ" جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اس کے پانی کو پھینک دے اور پھر اسے سات بار دھلے "(صحیح مسلم/279) بعض روایتوں میں صراحت ہے کہ پہلے مٹی سے دھلے پھرباقی مرتبہ پانی سے ۔

طبی عروج کے اس دور میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ کتے کے منہ میں جو خطرناک جراثیم ہوتے ہیں وہ ایک دوبار کے دھولنے سے زائل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے سات بار دھولنا ہی مفیدہے ، اور وہ بھی شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ پر ۔

؛> ہمارے اردگرد مکھیو ں کا وجود کائناتی حقیقت ہے ، جو وقتافوقتا ہمار ےکھانے پینے کی چیزوں میں گرتی بھی رہتی ہیں ، اور اللہ رب العزت نے مکھیوں کے پروں میں سے ایک میں بیماری اورایک میں شفاء اور علاج رکھاہے ،جسے اس دورکے جدید میڈیکل سائنس نے بھی ثابت کردیاہے ۔(جسے علوم حشرات کے معروف ڈاکٹرمصطفی ابراہیم حسن نے اپنی کتاب " الداء والدواء في جناحي الذباب " کے اند ر تفصیل سے ذکرکیاہے ۔)

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مکھی جب کسی چیز میں گرتی ہے تو اپنے اس پر کو ڈھال بناتی ہے جس میں بیماری ہے لہذا وہی پر پینے والی چیزوں میں پہلے پڑتا ہے ،اور دوسراجس میں علاج ہے وہ باہر رہ جاتاہے ۔ اس لئے حدیث میں یہ حکم دیاگیاہے ایسی صورت میں اس مکھی کو اس میں مکمل طریقے سے ڈبو دیاجائے تاکہ بیماری کا اثر زائل ہوجائے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" إذا وقع الذباب في شرابِ أحدِكم فليغمِسْه ثم لينزعه؛ فإن في أحد جناحَيْه داءً، وفي الآخر شفاءً" (صحیح بخاری / 3320 ) جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی پڑجائے تواسے اس میں ڈبو دوپھر اسے باہر پھینک دو ،کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفاء"۔

؛> معاشرتی فاصلہ (social distance) : بیماریو ں کے پھیلاؤکو روکنے کے لئے جہاں شریعت نے ڈھیروں تدابیربتائے ہیں وہی پر معاشرتی فاصلہ دوری کو بھی کافی اہمیت دی ہے، تاکہ انسان مختلف قسم کی وباء وبیماریوں کے ساتھ ساتھ عقیدہ میں خلل وخرابی سے محفوظ رہ سکے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"فِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كما تَفِرُّ مِنَ الأسَدِ" "جس طرح شیرسے دور بھاگتے ہو اسی طرح کوڑھ کی بیماری والے سے دور رہو"۔ (احمد، بخاری / 5707 تعلیقا )

اسی طرح ثقیف کے وفدکے ساتھ ایک جذام والا شخص آیاتھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ملے بغیر اس کے پاس خبر بھیجی کہ ہم نے تجھ سے بیعت کرلی تم واپس جاؤ" ۔ (صحيح مسلم /2231)۔

؛> اسی طرح امام طبری نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ انہوں نے معیقیب رضی اللہ عنہ جن کو بیماری تھی کہا " اجلس مني قيد رمح " "مجھ سے ایک کمان (جو تقریباایکم میٹریا کچھ زیادہ کا ہوتاہے) کے برابر بیٹھو"(تہذیب الآثار:3/32)۔

یہ روایت دو طرق سے مروی ہے اور دونوں منقطع ہے۔ لیکن پھربھی اتنا پتاچلتاہے کہ اسلام کے بعض ادوارمیں متعدی بیماریوں کی وجہ سے سوشل ڈسٹینسنگ کا اعتبار کیاجاتاتھا۔

؛> اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" لا يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ علَى مُصِحٍّ ""کسی بیمار اونٹ کو صحیح اونٹ سے نہ ملایاجائے" ۔(صحیح بخاری/5771 ، صحیح مسلم/2221)۔ یہ اس لئے کہ ایک تو اس سے تندرست اونٹوں میں بیماری پھیلنے کا خطرہ ہوتاہے ، اور دوسری اگراونٹوں کو بیماری لگ گئی تو عقیدے میں کمزوری اور خلل پیداہوتاہے، کہ اگر اس بیمار اونٹ کو نہ لاتے تو یہ بیماری دوسرے اونٹوں کو نہ لگتی ۔

 اس کے علاوہ شریعت میں صبح وشام اور نمازکے بعدکی دعائیں ، سونے سے قبل وبعد اور رات کے اذکار اور قرآن وحدیث کے بعض نصوص بھی آفت ، بلاء اور بیماریوں سے بچاؤ اورحفاظت کے لئے اہم ذرائع اور اسباب ہیں جن کا ذکر الگ سے ایک طویل موضوع کا متقاضی ہے ۔

اللہ رب العزت ہمیں صحت وعافیت کے ساتھ رکھے اور ایسی چیزوں کے استعمال سے بچائے جو ہمار ے دین ودنیا اور جسم وصحت کے لئےنقصان دہ ہوں ۔ وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔آمین۔

https://m.dailyhunt.in/news/india/urdu/baseerat+online-epaper-baonline/+-newsid-179624602?listname=topicsList&index=0&topicIndex=0&mode=pwa&action=swipe

.