مشہور عام لیکن ضعیف
تحقیق حدیث
سفر ہجرت میں غار ثور کے اندر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سانپ کے ڈسنے کا قصہ
شیخ اسحاق سلفی رحمہ اللہ
؛
۱. ؛
عن عمر ( رضي الله عنه )
ذكر عنده أبو بكر فبكى و قال : وددت أن عملي كله مثل عمله يوما واحدا من أيامه وليلة واحدة من لياليه أما ليلته فليلة سار مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الغار فلما انتهينا إليه قال : والله لا تدخله حتى أدخل قبلك فإن كان فيه شيء أصابني دونك فدخل فكسحه ووجد في جانبه ثقبا فشق إزاره وسدها به وبقي منها اثنان فألقمها رجليه ثم قال لرسول الله ﷺ ادخل
فدخل رسول الله ﷺ
ووضع رأسه في حجره ونام فلدغ أبو بكر في رجله من الجحر ولم يتحرك مخافة أن ينتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم فسقطت دموعه على وجه رسول الله ﷺ فقال : «ما لك يا أبا بكر؟» قال : لدغت فداك أبي وأمي فتفل رسول الله صلى الله عليه وسلم فذهب ما يجده ثم انتقض عليه وكان سبب موته وأما يومه فلما قبض رسول الله ﷺ ارتدت العرب وقالوا : لا نؤدي زكاة. فقال : لو منعوني عقالا لجاهدتهم عليه. فقلت : يا خليفة رسول الله ﷺ تألف الناس وارفق بهم. فقال لي : أجبار في الجاهلية وخوار في الإسلام؟ إنه قد انقطع الوحي وتم الدين أينقص وأنا حي؟ .
رواه رزين
مشکاۃ المصابیح باب مناقب ابو بکر رضی اللہ عنہ
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دن ) ان کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق کا ذکر چھڑ گیا تو وہ
( ان کی پاکیزہ و بلند قدر زندگی کو یاد کر کے ) رونے لگے اور پھر بولے : مجھ کو آرزو ہے کہ کاش میری پوری زندگی کے اعمال ( قدر و قیمت کے اعتبار سے ) حضرت ابو بکر کے صرف اس ایک دن کے عمل کے برابر ہو جاتے جو ( آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات کے ) دنوں میں سے ایک دن تھا ۔۔ یا اس ایک رات کے عمل کے برابر ہو جاتے جو ( آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات کی ) راتوں میں سے ایک رات تھی یہ ان کی اس رات کا ذکر ہے جس میں وہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ سفر ہجرت پر روانہ ہوئے اور غار ثور ان کی پہلی منزل بنا تھا ، جب آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر اس غار میں پر پہنچے ( اور آنحضرت ﷺ نے غار میں داخل ہونا چاہا ) تو حضرت ابو بکر نے کہا : اللہ کے واسطے آپ ﷺ اس غار میں ابھی داخل نہ ہوں پہلے میں اندر جاتا ہوں تاکہ اگر اس میں کوئی موذی چیز ( جیسے سانپ بچھو وغیرہ ) ہو اور وہ ضرر پہنچائے تو مجھ کو ضرر پہنچائے نہ کہ آپ ﷺ کو ۔۔ اور یہ ( کہہ کر ) حضرت ابو بکر ( آنحضرت ﷺ سے پہلے غار میں داخل ہو گئے اور اس کو جھاڑ جھٹک کر صاف کیا ۔۔ انہوں نے غار کے ایک کونے میں کئی سوراخ بھی دیکھے تھے ان میں سے بیشتر سوراخوں کو انہوں نے اپنے تہبند سے چیتھڑے پھاڑ کر بند کر دیا اور جو دو سوراخ ( اس وجہ سے ) باقی رہ گئے تھے ( ان کو بند کرنے کے لئے تہبند کے چیتھڑوں میں سے کچھ نہیں بچا تھا ) ان کے منہ میں وہ اپنے دونوں پاؤں ( کی ایڑیاں ) اڑا کر بیٹھ گئے ( تاکہ کسی زہر یلے اور موذی جانور کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہ رہے ) پھر انہوں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ اب اندر تشریف لے آئیے ! چنانچہ رسول کریم ﷺ غار میں داخل ہوئے اور اپنا سر مبارک حضرت ابو بکر کی گود میں رکھ کر سو گئے ، اسی دوران ایک سوراخ کے اندر سے سانپ نے حضرت ابو بکر کے پاؤں کو کاٹ لیا لیکن ( وہ اسی طرح بیٹھے رہے اور ) اس ڈر سے اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کی کہ کہیں رسول کریم ﷺ جاگ نہ جائیں ۔۔ آخر ( شدت تکلیف سے ) ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل گئے اور رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک پر گرے ( جس سے آپ ﷺ کی آنکھ کھل گئی ) آپ ﷺ نے ( ان آنکھوں میں آنسو دیکھے تو ) پوچھا : ابو بکر ! یہ تمہیں کیا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے ( کسی زہریلے جانور یعنی سانپ نے ) کاٹ لیا ہے آنحضرت ﷺ نے ( یہ سن کر ) اپنا مبارک لعاب دہن ( ان کے پاؤں میں کاٹی ہوئی جگہ پر ) ٹپکا دیا اور ( تکلیف و اذیت کی ) جو کیفیت ان کو محسوس ہو رہی وہ فورا جاتی رہی ۔۔ اسی سانپ کا وہ زہر تھا جو حضرت ابو بکر پر دوبارہ اثر انداز ہوا اور اسی کے سبب ان کی موت واقع ہوئی اور ان کا وہ دن ( کہ جس کے بارے میں میری آرزو ہے کہ کاش میرے زندگی بھر کے اعمال ان کے صرف اس دن کے عمل کے برابر قرار پائیں ) وہ دن تھا جب رسول کریم ﷺ نے اس دنیا سے رحلت فرمائی تھی
اس قصہ کی تحقیق
؛
رواها البيهقي في " دلائل النبوة " ( 2 / 476 – 477 ) من طريق عبد الرحمن بن إبراهيم الراسبي ، قال : حدثني فرات بن السائب ، عن ميمون بن مهران ، عن ضبة بن محصن العبري ، به . ‘‘ و هذا القصة موضوعة ، عبد الرحمن بن إبراهيم الراسبي ضعفه الدارقطني و أبو نعيم ،
اس قصہ کو امام بیہقی ؒ نے دلائل النبوۃ میں مذکورہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے ، اور یہ قصہ موضوع ( جھوٹا ، من گھڑت ) ہے ، سند میں موجود عبد الرحمن بن ابراہیم کو امام دارقطنی اور ابو نعیم نے ضعیف قرار دیا ہے ، اور امام الذہبی ؒ ’’ میزان الاعتدال ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
و قال الذهبي في " الميزان " ( 2 / 454 ) : " و أتى عن فرات بن السائب ، عن ميمون بن مهران ، عن ضبة بن محصن العبري ، عن أبي موسى بقصة الغار ، و هو شبه وضع الطرقية " ، و أقره ابن حجر في " اللسان " ( 4 / 397 ) .
و فرات بن السائب ، و قال ابن معين : " ليس بشيء " ، و قال البخاري : " منكر الحديث " ، و قال أبو حاتم : " ضعيف الحديث ، منكر الحديث " ، و تركه النسائي و الدارقطني
( الميزان 4 / 503 – 504 واللسان 6 / 9 – 10 ) .
و روى الحاكم في " المستدرك " ( 3 / 6 ) من طريق عفان بن مسلم ، ثنا السري بن يحيى ، ثنا محمد بن سيرين ، عن عمر ، به ، و ليس فيه ذكر الثعبان .
قال الحاكم : " هذا حديث صحيح الإسناد على شرط الشيخين ، لو لا إرسال فيه " ، و وافقه الذهبي .
قلت : لم يخرج مسلم للسري بن يحيى ، و هذا مرسل كما قالا .
وقد وهم السخاوي في " فتح المغيث " ( 4 / 118 ) في عزوه للبيهقي في " الدلائل " من هذا الطريق .
۲. ؛
اس قصہ کو ’‘ اسلام ویب ‘‘ islamweb.net/fatwa
میں ’‘ ضعیف اور نا قابل اعتبار قرار دیا ہے ’‘
الحمد لله و الصلاة و السلام على رسول الله و على آله و صحبه ، أما بعـد :
فقصة تعرض أبي بكر للدغ حية له أثناء مرافقته رسول الله صلى الله عليه وسلم في غار ثور أثناء هجرته قصة مشهورة ، ذكرها أهل السير و التراجم : و ممن ذكرها الخطيب في مشكاة المصابيح في باب مناقب أبي بكر رضي الله عنه ، و ذكرها الحافظ الذهبي في سير أعلام النبلاء ، و قال بعد ذكر الرواية : وه و منكر سكت عنه البيهقي و ساقه من حديث يحيى بن أبي طالب ( و ذكر السند ) ثم قال : و آفته من هذا الراسبي فإنه ليس بثقة مع كونه مجهولاً ذكره الخطيب في تاريخه فغمزه.
فالحاصل أن الرواية ضعيفة من حيث السند ، و لا يعني ذلك الجزم بعدم وقوعه
۳. ؛
تخریج مزید
اس قصے کو امام أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي ( المتوفى : 418هـ ) نے بھی ’’ شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة ‘‘
میں اور امام بیہقی ؒنے ۔۔ ۔۔ دلائل النبوۃ ۔۔ میں اور امام ابن عساکر " تاريخ دمشق " میں اسی سند مذکورہ بالا سے روایت کیا ہے ۔۔
اور علامہ علی الحشیش نے " تحذير الداعية من القصص الواهية " میں پہلا واہی قصہ یہی بیان کیا ہے ،
أخرجها اللالكائي في " شرح أصول اعتقاد أهل السنة " ( 2426 ) ، و البيهقي في " دلائل النبوة " ( 2 / 476-477 ) ، و ابن عساكر في " تاريخ دمشق " ( 30 / 79 ) من طريق عبد الرحمن بن إبراهيم الراسبي ، قال : حدثني فرات بن السائب ، عن ميمون بن مهران ، عن ضبة بن محصن ، عن عمر أنه قال له :
و الله لليلة من أبي بكر و يوم خير من عمر ، هل لك بأن أحدثك بليلته و يومه ؟
قال : قلت : نعم يا أمير المؤمنين .
قال : أما ليلته لما خرج رسول الله هارباً من أهل مكة خرج ليلاً فتبعه أبو بكر فجعل يمشي مرة أمامه ، و مرة خلفه ، و مرة عن يمينه ، و مرة عن يساره .
فقال له رسول الله : ما هذا يا أبا بكر ما أعرف هذا من فعلك ؟
قال : يا رسول الله أذكر الرصد فأكون أمامك ، و أذكر الطلب فأكون خلفك ، ومرة عن يمينك ، و مرة عن يسارك ، لا آمن عليك .
قال : فمشى رسول الله ليلته على أطراف أصابعه [حتى] حفيت رجلاه ، فلما رآها أبو بكر أنها قد حفيت ( ( حمله على كاهله و جعل يشتد به حتى أتى به الغار فأنزله ) ) ، ثم قال : و الذي بعثك بالحق لا تدخله حتى أدخله فإن كان فيه شيء نزل بي قبلك ، فدخل فلم ير شيئا فحمله و أدخله .
و كان في الغار خرق فيه حيات و أفاعي فخشي أبو بكر أن يخرج منهن شيء يؤذي رسول الله فألقمه قدمه ، ( ( فجعلت تضربنه أو تلسعنه الحيات و الأفاعي و جعلت دموعه تنحدر ) ) ، و رسول الله يقول : ( ( يا أبا بكر لا تحزن إن الله معنا ) ) ، فأنزل الله سكينته إلا طمأنينة لأبي بكر ، فهذه ليلته و أما يومه ................. الحديث .
قال ابن كثير :
[ و في هذا السياق غرابة و نكارة ] .
قلت : هذا إسناد ضعيف جداً ، فيه علتان :
الأولى :
فرات بن السائب ، قال البخاري : " منكر الحديث " ، و قال ابن معين : " ليس بشيء " ، و قال الدارقطني : " متروك " ، و قال أبو حاتم : " ضعيف الحديث منكر الحديث " ، و قال الساجي : " تركوه " ، و قال النسائي : " متروك الحديث " . انظر " لسان الميزان " ( 6 / 10-11 / 6603 - ط. دار الفاروق ) .
الثانية :
عبد الرحمن بن إبراهيم الراسبي ، لم أجد له ترجمة .
و قد ذكر هذه القصة الشيخ علي حشيش في سلسلة " تحذير الداعية من القصص الواهية " ، الحلقة الأولى ، و ذلك ضمن عدد جمادى الأولى من " مجلة التوحيد المصرية " لعام 1421.
۴. ؛
علامہ علی الحشیش نے " تحذير الداعية من القصص الواهية " میں پہلا واہی قصہ یہی بیان کیا ہے ،
اور لکھا ہے کہ یہ بالکل جھوٹا قصہ ہے
فوٹو
کتبہ
شیخ اسحاق سلفی
مصدر
https://forum.mohaddis.com/threads/%D8%B3%D9%81%D8%B1-%DB%81%D8%AC%D8%B1%D8%AA-%DB%94%DB%94%DB%94%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%BA%D8%A7%D8%B1-%D8%AB%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D8%B3%DB%8C%D8%AF%D9%86%D8%A7-%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%A8%DA%A9%D8%B1-%D8%B5%D8%AF%DB%8C%D9%82-%D8%B1%D8%B6%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%86%DB%81-%DA%A9%D9%88-%D8%B3%D8%A7%D9%86%D9%BE-%DA%A9%DB%92-%DA%88%D8%B3%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D9%82%D8%B5%DB%81.28285/
جوائین ان
سلفی تحقیقی لائبریری
۔