ہفتہ، 26 جون، 2021

نکاح ‏کے ‏بعد ‏دعائے ‏زلیخا ‏و ‏بلقیس ‏ ‏علامہ ‏عبید ‏اللہ ‏مبارکپوری

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،'،

نکاح کے بعد دعائے زلیخا و بلقیس 

علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری 


؛~~~~~~~~~~~~~؛ 


سوال 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

دلہا یا دلہن کےحق میں نکاح میں خطبہ مسنونہ کے بعد ذیل کی دعائیں پڑھنی جیسا کہ علاقہ مدراس میں جماعت احناف کے نکاح خواں میں پڑھتے ہیں جائز ہیں یا نہیں؟ نیز بعد نکاح دلہا قاضی اور خویش و اقارب کی قدم بوسی کرتا ہے۔ کیا ایسا کرنا بدعت اور خلاف سنت نہیں ہے؟ 

مروجہ ادعیہ یہ ہے: 

1:اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا آدم وسيدنا حواء الصلوة والسلام 

2: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدناابراهيم وسيدناساره الصلوة والسلام 

3: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا موسىٰ وسيدنا صفوره الصلوة والسلام 

4: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا سليمان وسيدنا بلقيس الصلوة والسلام 

5: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنايوسف وسيدنا زليخا الصلوة والسلام 

6: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا محمد صلى الله عليه وسلم وسيدنا خديجة الكبرىٰ وعائشه عليهم الصلوة والسلام 

7: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا آدم وسيدنا فاطمه عليهم الصلوة والسلام 

؛………………؛

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

دولہا دلہن دونوں کےحق میں یاصرف دولہا کےحق میں بعد از نکاح متعد صحیح حدیثوں میں دعا نبوی وارد ہے اور جسے آں حضرت ﷺ نے صحابہ کو تعلیم دی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: 

1: حضرت عبدالرحمن بن عوف سے ان کے نکاح کی خبر سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: 
بارك الله لك (بخاري) 

2: بارك الله لك و بارك عليك و جمع بينكما فى خير (ترمذى) 

3: اللهم بارك لهم و بارك عليهم (نسائى) 

4: بارك الله لكم و بارك فيكم و بارك عليكم 

5: بارك الله فيك و بارك لك فيها (احمد عن عقيل) 

یہ مختصر دعا جو الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ مختلف صحابہ سے مروی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ: 
 اللہ تعالیٰ اس نکاح کو تم دونوں (میاں بیوی) اور تمہارے متعلقین کے لئے ہر قسم کی بھلائی اور خیر و برکت کا باعث بنائے تمہیں آفات و بلیات سے محفوظ رکھے۔ 
تمہیں صالح اور سعادت مند اولاد بخشے تم دونوں  کو محبت الفت کے ساتھ بھلائی اور نیکی پر قائم  رکھے۔ ظاہر  ہے کہ یہ دعا نہایت جامع کافی اور وافی ہے۔ 

امام بخاری نے اپنے صحیح میں باب کیف یدعی للمتزوج؟ کے تحت میں عبد الرحمن بن عوف کی حدیث ذکر کی ہے۔ جس میں بارک اللہ لک کے ساتھ دعاء مذکور ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: 
و دل صنيع المؤلف على أن الدعاء للمتزوج بالبركة هو المشروع و لاشك أنها لفظه جامعة يدخل فيها كل مقصود من والد وغيره 
(فتخ البارى222/9) 

پس اس جامع مسنون دعا کے ہوتے ہوئے اپنی طرف سے دوسری دعا گھڑنا دعائے نبوی کو کافی اور جامع نہ سمجھنے پر دال ہے اور دعائے نبوی سے اعراض کرنا ہے جو بڑی بدبختی اور شقاوت ہے ادعیہ مذکورہ مسنونہ مبتدعہ میں چوتھی اور پانچویں دعا اس وجعہ سے بھی واجب الترک ہے کہ حضرت یوسف کا امراۃ عزیر مصر (زلیخا یا راعیل بنت رعابیل) سے اور حضرت سلیمان کا بلقیس سے نکاح کرنا کسی صحیح اور معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے۔ 

و في القصة إن الملك توَّجَهُ و ختمه و ولاه مكان العزيز و عزله فمات بعد، فزوجه امرأته فوجدها عذراء و ولدت له ولدين و أقام العدل بمصر و دانت له الرقاب. قاله السيوطي. و عن ابن زيد أن يوسف عليه السلام تزوج امرأة العزيز فوجدها بكراً، و كان زوجها عنيناً (5/47) 

وَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ: لَمَّا قَالَ يُوسُفُ لِلْمَلِكِ: اجْعَلْنِي عَلى خَزائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ [يوسف: 55] قَالَ الْمَلِكُ: قَدْ فَعَلْتُ، فَوَلَّاهُ فِيمَا ذَكَرُوا عَمَلَ إِطْفِيرَ، وَعَزَلَ إِطْفِيرَ عَمَّا كَانَ عَلَيْهِ، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ: وَكَذلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْها حَيْثُ يَشاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنا مَنْ نَشاءُ وَلا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ قال: فَذُكِرَ لِي- وَاللَّهُ أَعْلَمُ- أَنَّ إِطْفِيرَ هَلَكَ فِي تِلْكَ اللَّيَالِي، وَأَنَّ الْمَلِكَ الرَّيَّانَ بْنَ الْوَلِيدِ زَوَّجَ يُوسُفَ امْرَأَةَ إِطْفِيرَ رَاعِيلَ، وَأَنَّهَا حين دخلت عليه قال لها: أَلَيْسَ هَذَا خَيْرًا مِمَّا كُنْتِ تُرِيدِينَ؟ قَالَ: فَيَزْعُمُونَ أَنَّهَا قَالَتْ: أَيُّهَا الصِّدِّيقُ لَا تَلُمْنِي، فَإِنِّي كُنْتُ امْرَأَةً كَمَا تَرَى حَسْنَاءَ جَمِيلَةً نَاعِمَةً فِي مُلْكٍ وَدُنْيَا، وَكَانَ صَاحِبِي لَا يَأْتِي النِّسَاءَ، وَكُنْتَ كَمَا جَعَلَكَ اللَّهُ فِي حُسْنِكَ وَهَيْئَتِكَ عَلَى مَا رَأَيْتَ، فَيَزْعُمُونَ أَنَّهُ وجدها عذراء. 
(تفسير ابن كثير 2/594) 

ان عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت یوسف کے عزیز مصر کی بیوی سے نکاح کی حکایت محض ایک داستان ہے جس کی کوئی اصل اور سند نہیں۔ 

و أخرج ابن المنذر، وعبد بن حميد، و ابن أبي شيبة و غيرهم عن ابن عباس في أثر طويل " إن سليمان تزوجها بعد ذلك "، قال أبو بكر بن أبي شيبة: ما أحسنه من حديث. 

قال ابن كثير في تفسيره بعد حكاية هذا القول: بل هو منكر جداًً، ولعله من أوهام عطاء بن السائب على ابن عباس والله أعلم. والأقرب في مثل هذه السياقات أنها متلقاة عن أهل الكتاب مما يوجد في صحفهم كروايات كعب ووهب سامحهما الله فيما نقلا إلى هذه الأمة من بني إسرائيل؛ من الأوابد والغرائب والعجائب، مما كان، ومما لم يكن ومما حرف وبدل ونسخ، وقدأغنانا الله سبحانه عن ذلك بما أصح منه وأنفخ وأوضح وأبلغ انتهى. 
(فتح البيان 7/73) 

غرض یہ کہ حضرت یوسف کا زلیخا سے اور حضرت سلیمان کا بلقیس سے نکاح کا معاملہ داستان سے زیادہ کچھ نہیں رکھتا۔ 

بنا بریں یہ مروجہ دعا ترک کر دینی چاہئے۔ کسی صحیح یا ضعیف روایت سے زمانہ رسالت یا زمانہ صحابہ میں نکاح کے بعد دولہا کا قاضی یا دیگر خویش و اقارت کی قدم بوسی کرنی ثابت نہیں. اس لئے یہ فعل بھی بدعت ہونے کی وجہ سے سخت مذموم ہے۔ ایسا ہی ایجاب و قبول کے بعد دولہا کا حاضرین مجلس نکاح کو کھڑا ہو کر سلام کرنا بھی بدعت ہے۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب 

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری 
جلد نمبر 2، کتاب النکاح 
صفحہ نمبر 181 

.

.