بدھ، 30 جون، 2021

بیعت ‏پیر ‏و ‏مرشد ‏کا ‏شرعی ‏حکم؟ ‏

.


بسم اللہ الرحمن الرحیم 
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

بیعت اور بیعتِ پیر و مرشد کی شرعی حیثیت 


مسئلہ بیعت 
شرع کی نظر میں 

شیخ صہیب حسن 

سوال: 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین بابت اس مسئلہ کے، کہ ہند و پاک میں پیر و مرشد عوام سے جو بیعت لیتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور یہ بات کہاں تک درست ہے کہ جس کا کوئی پیر و مرشد نہ ہو، اس کا پیر و مرشد شیطان ہوتا ہے، جیسا کہ عوام میں مشہور ہے؟ براہِ کرام کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما کر ممنون فرمائیں. 
(قاری محمد ایاز الدین، حیدر آباددکن) 


جواب: 
الحمد ﷲ رب العالمین و الصلاة و السلام علی سیّد المرسلین محمد و علی آله و أصحابه أجمعین 

جواباً عرض ہے کہ یہ سوال تفصیلی وضاحت چاہتا ہے جو درج ذیل ہے: 

بیعت کا لفظ بـیـع سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے سودا کرنا، چاہے یہ سودا مال کا ہو یا کسی اور ذمہ داری کا، اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں: 

إِنَّ ٱللَّهَ ٱشْتَرَ‌ىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَ‌ٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلْجَنَّةَ ۚ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِى ٱلتَّوْرَ‌ىٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ وَٱلْقُرْ‌ءَانِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِۦ مِنَ ٱللَّهِ ۚ فَٱسْتَبْشِرُ‌وا بِبَيْعِكُمُ ٱلَّذِى بَايَعْتُم بِهِۦ ۚ وَذَ‌ٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿١١١﴾
سورة التوبہ 

''بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور اُن کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں۔ اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور کون ہے اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا؟ تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے، خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔'' 

اور اصطلاحاً بیعت اس معاہدے کو کہتے ہیں جو امیر کی اطاعت کے لئے کیا جاتا ہے۔ بیع و شراء میں چونکہ خریدنے والا، بیچنے والے کے ہاتھ میں پیسہ تھماتا ہے اور بیچنے والا مشتری کے ہاتھ میں اس کی خرید کردہ چیز دیتا ہے، اُسی طرح بیعت کرنے والا اپنے امیر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کا اقرار کرتا ہے۔ 

قرآنِ مجید میں چار  مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اہل ایمان کی بیعت کا ذکر ہے: 

ن ۱ 
عمومی بیعت: 
…………………؛ 

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 

إِنَّ ٱلَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ ٱللَّـهَ يَدُ ٱللَّـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِۦ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَـٰهَدَ عَلَيْهُ ٱللَّـهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿١٠﴾ 
سورة الفتح 

''جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں، وہ یقینا اللہ سے بیعت کرتے ہیں ۔ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ تو جو شخص عہد شکنی کرے، وہ اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔'' 


ن ۲ 
بیعت ِرضوان: 
…………………؛

جو ۶ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر لی گئی تھی: 

لَّقَدْ رَ‌ضِىَ ٱللَّـهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَ‌ةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَـٰبَهُمْ فَتْحًا قَرِ‌يبًا ﴿١٨﴾ 
سورة الفتح 

''یقینا اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے خوش ہو گیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا، اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔'' 


ن ۳ 
فتح مکہ اور اس کے بعد عورتوں سے خاص طورپر بیعت: 
…………………………………؛

 فرمایا: 
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُؤْمِنَـٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰٓ أَن لَّا يُشْرِ‌كْنَ بِٱللَّـهِ شَيْـًٔا وَلَا يَسْرِ‌قْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَـٰدَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَـٰنٍ يَفْتَرِ‌ينَهُۥ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْ‌جُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِى مَعْرُ‌وفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَٱسْتَغْفِرْ‌ لَهُنَّ ٱللَّـهَ ۖ إِنَّ ٱللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٢﴾ 
سورة الممتحنہ 

''اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری حکم عدولی نہ کریں گی تو آپ اُن سے بیعت کر لیا کریں اور اُن کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں، بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے اور معاف کرنے والا ہے۔'' 


ن ۴ 
انفرادی بیعت: 
…………………؛ 

عمرو بن العاصؓ اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: 
''جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا: 
اپنا دایاں ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کر سکوں، تو آپؐ نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا، لیکن میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپؐ نے کہا: عمرو! کیا ہوا؟ میں نے کہا: میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں. آپؐ نے کہا: کون سی شرط؟ میں نے کہا کہ اللہ میری مغفرت فرمائیں ! تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام لانے سے پچھلے (تمام گناہ) ختم ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی ہجرت کرنے اور حج کرنے سے جو کچھ پہلے کیا تھا، سب معاف ہوجاتا ہے؟'' 1

بیعت سے متعلق چند دیگر احادیث بھی ملاحظہ ہوں: 
~~~~~~~~~~~~~؛

حاکم وقت کی اطاعت کا عہد: 
………………………………؛

عبادة بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں پر بیعت کی: 

''آپ کی سمع و اطاعت کریں گے چاہے تنگی کا عالم ہو یا فراخی کا، چاہے پسندیدہ بات ہو یا ناپسندیدہ، چاہے ہمارے اوپر کسی کو ترجیح ہی کیوں نہ دی گئی ہو، اس شرط کے ساتھ کہ ہم صاحبِ امر کے ساتھ جھگڑ انہیں کریں گے، اور یہ کہ ہم جہاں کہیں ہوں حق بات کہیں گے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔'' 2 

ابن کثیر نے البدایة و النھایة میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیعت وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے آنے والوں سے مقامِ عقبہ (منیٰ) میں لی تھی: 

''اور یہ کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یثرب آئیں تو ہم ان کی مدد کریں گے اور جس طرح ہم اپنی جانوں، اپنی اَرواح اور اپنی اولاد کا دفاع کرتے ہیں، ویسا ہی اُن کا بھی دفاع کریں گے اور ہمارے لئے جنت ہو گی۔'' 3 


یہ اطاعت مشروط ہے: 
……………………………؛ 

حضرت ابن عمرؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

''ایک مسلمان کے لیے سمع و اطاعت کرنا لازم ہے، چاہے پسندیدہ امر ہو یا ناپسندیدہ امر میں، الا یہ کہ اسے کسی گناہ کا حکم دیا جائے۔ ایسی صورت میں سمع و اطاعت نہیں ۔'' 4 


ایک امام کی بیعت کے بعد دوسرے امام کی بیعت جائز نہیں: 
……………………………؛ 

عبد اللہ بن عمرو بن العاص آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طویل خطبہ نقل کرتے ہیں، جس میں یہ الفاظ شامل ہیں: 

''جس کسی نے کسی امام کی بیعت کی یا اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا اور اپنا دل اس کے حوالہ کر دیا تو جب تک استطاعت ہے، اس کی اطاعت کرے۔ پھر اگر کوئی دوسرا شخص (امامت میں ) اس کے ساتھ نزاع کرے تو دوسرے شخص کی گردن مار دو۔'' 5 


جماعت سے خروج نا جائز ہے 
……………………………؛ 

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

''جو شخص حلقہ اطاعت سے نکل گیا اور جماعت کو چھوڑ گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اور جو شخص کسی اندھے جھنڈے کے نیچے قتال کرتا ہے، یا کسی عصبیت کی بنا پر غصہ میں آجاتا ہے یا عصبیت کی طرف دعوت دیتا ہے یا عصبیت کی مدد کرتا ہے اور اس دوران قتل ہوجاتا ہے تو اس کی موت بھی جاہلیت کی موت ہو گی اور جو شخص میری اُمت پر خروج کرتا ہے، نیکو کار یا گناہ گار، سب کو مارتا ہے اور کسی مؤمن کے ساتھ برائی کرنے سے باز نہیں آتا اور جس سے عہد کیا ہے اُس عہد کو پورا نہیں کرتا تو وہ مجھ سے نہیں اور میں اُس سے نہیں.'' 6 


آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیعت کے سلسلہ میں صحابہ کرامؓ کا بھی یہی طرزِ عمل تھا. 
…………………………………؛ 

نافع روایت کرتے ہیں کہ
''عبد اللہ بن عمرؓ، عبد اللہ بن مطیع کے پاس آئے اور یہ وہ وقت تھا جب یزید بن معاویہؓ کے زمانہ میں حرہ کا واقعہ پیش آیا۔ ابن مطیع نے کہا: ''ابو عبد الرحمن کے لئے تکیہ بچھا دو۔'' 
عبداللہ بن عمرؓ نے کہا: میں بیٹھنے کے لئے نہیں آیا، تمہیں صرف ایک حدیث سنا نے آیا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور وہ یہ کہ 
''جس نے اپنا ہاتھ، حلقہ اطاعت سے ہٹا لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس عالم میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل (عذر خواہی) نہ ہوگی، اور جو شخص اس عالم میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔'' 7


مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ باتیں معلوم ہوئیں:
؛*********************؛ 

*  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کسی دوسرے خلیفہ یا امام کی بیعت سے مختلف ہے، اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت گویا اللہ سے بیعت ہے۔ 

*  آپؐ نے عقبہ میں جب انصارِ مدینہ سے بیعت لی تھی تو گو اس وقت آپؐ کے پاس اقتدار نہ تھا، لیکن بحیثیتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ؐ نے یہ بیعت لی تھی، اور یہ بھی ایک خاص مقصد کے لئے تھی کہ جب آپ مدینہ پہنچ جائیں گے تو انصار آپؐ کی پوری پوری حفاظت کریں گے. 

*  مدینہ پہنچ کر آپؐ بلا شرکتِ غیرے اقتدار کے مالک تھے۔ آپؐ نے صحابہ کرام ؓسے مختلف مواقع پر سمع و اطاعت کی بیعت لی، اور بعض مواقع پر خاص خاص باتوں پر بیعت لی. حدیبیہ کے مقام پر جب یہ افواہ پھیلی کہ مکہ والوں نے آپؐ کے ایلچی حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا ہے تو آپؐ نے اپنے پندرہ سو رفقا سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ راہِ فرار اختیار نہ کریں گے اور دوسری روایت کے مطابق یہ بیعت موت پر تھی۔ 

*  صلح حدیبیہ کے بعد جو خواتین ہجرت کر کے مدینہ آئیں یا فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئیں، اُن سے سورہ الممتحنہ کی آیت کے مطابق چند مخصوص باتوں پر بیعت لی گئی۔ یہ عورتیں چونکہ نئی نئی مسلمان ہوئیں تھیں، اس لئے اُن چیزوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جو ایامِ جاہلیت میں عام تھیں. آپؐ نے تومسلم مردوں سے بھی انہی باتوں پر بیعت لی تھی۔ 

*  آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہر حال میں واجب ہے اور بعد کے امراء و خلفا کے لئے بھی سمع و اطاعت کی بیعت کا حکم دیا گیا ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر وہ گناہ کی طرف بلائیں گے تو ان کی اطاعت نہیں ہوگی. 

*  خلیفہ کی بیعت اتنی اہم ہے کہ اگر کوئی دوسرا دعویدارِ خلافت پیدا ہو جائے تو اُس کی گردن مارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ اس لئے ہے کہ اسلامی مملکت میں بد امنی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب خلیفہ کے پاس مکمل اقتدار ہو، وہ حدود نافذ کر سکتا ہو، جنگ اور صلح کے معاہدے کرسکتا ہو. 

*  خلیفہ کے ہوتے ہوئے اس کی اطاعت نہ کرنا اور جماعت سے خروج کرنا قابل مؤاخذہ جرم ہیں اور ایسے آدمی کی موت جاہلیت کی موت ہے اور ایسے ہی اُن لوگوں کی بھی جو کسی مذموم عصبیت (برادری، قومیت، زبان، رنگ اور پارٹی) کی بنا پر قتل و قتال پر آمادہ ہوجائیں. 

بنی اُمیہ کے دور کے بعد جب بنی عباس سریر آرائے خلافت ہوئے، لیکن اندلس جیسے دور دراز علاقہ میں بنی اُمیہ کے امراء نے اپنی حکومت قائم کرلی، تو علمائے امت نے فتنہ و فساد کا دروازہ بند کرنے کے لئے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک وقت میں دور دراز کے علاقوں میں دو علیحدہ علیحدہ خلافتیں ہوسکتی ہیں. اور پھر اس اُصول کے تحت، بعد کے ادوار میں،  خراسان اور ہندوستان کی مملکتیں بھی برداشت کی گئیں. 

*  صحابہ کرامؓ نے اس شخص کی بیعت نہیں کی جس نے خلیفہ وقت کے خلاف خروج کیا ہو۔ 

*  ان تمام تفصیل سے یہ تو واضح ہو گیا کہ بیعت کا دائرہ 'امامت ِکبریٰ' تک محدود ہے، ایسے امام کی بیعت ہی کی جا سکتی ہے جو واقعی اقتدار رکھتا ہو، حدود نافذ کر سکتا ہو، صلح و جنگ کے معاہدے کرسکتا ہو۔ وہ چاہے جہاد پر بیعت لے یا کسی فعل خیر پر یا کسی برائی سے رُکنے پر۔ بیعت لینا اس کا حق ہے، البتہ اگر وہ کسی غیر اسلامی کام پر بیعت لینا چاہے تو اس کی بات ہرگز نہ مانی جائے گی۔ 


پیر و مرشد کی بیعت: 
……………………………؛ 

صوفیائے کرام کے حلقہ میں "بیعتِ اصلاح و ارشاد" کے نام سے ایک نئی روایت ڈالی گئی ہے جس کا خیر القرون میں وجود نہیں ملتا۔ اگر اس فعل کا مقصود لوگوں کی اصلاح ہے تو وہ مسجد کے منبر سے، خطیب کے خطبات سے، معلم کی تعلیم سے اور بڑے بوڑھوں کی فہمائش سے بھی حاصل ہو سکتی ہے اور ان سب سے بڑھ کر نیک لوگوں کی صحبت اس کام کیلئے ایک نسخہ کیمیا ہے. 

شریعت اپنے ماننے والوں کو کوئی ایسا حکم نہیں دیتی جو غیر ضروری اور بے فائدہ ہو، وہ شیخ یا مرشد جسے کوئی اختیار حاصل نہ ہو، اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے آخر کونسا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ بالفرض اگر ایک لمحہ کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ لوگوں کی اصلاح کے لئے یہ طریقہ کارگر ہو سکتا ہے، تب بھی مندرجہ ذیل قباحتوں کی بنا پر اسے قبول نہیں کیا جاسکتا: 

وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَ‌ٰ‌طِى مُسْتَقِيمًا فَٱتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا ٱلسُّبُلَ فَتَفَرَّ‌قَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِۦ ۚ ذَ‌ٰلِكُمْ وَصَّىٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٥٣﴾ 
سورة الانعام 

''اور یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے، سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔ اس کا تم کو اللہ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔'' 

اور فرمایا: 

وَلَا تَكُونُواكَٱلَّذِينَ تَفَرَّ‌قُوا وَٱخْتَلَفُوامِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُ ۚ وَأُولَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ  ﴿١٠٥﴾ 
سورة آل عمران 

''تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا۔ ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔'' 

اُمتِ مسلمہ میں ایک طرف مذہبی فرقہ بندی شروع ہوگئی تھی تو دوسری طرف طریقت کے نام پر بے شمار سلسلے وجود میں آگئے اور پھر ہر سلسلہ ایک مستقل فرقہ اور جماعت بنتی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ناجی جماعت کی نشانی یہ بتائی تھی: 

ما أنا علیه و أصحابي 
''جس پر میں ہوں اورمیرے صحابہ''

لیکن اس کے بالکل برعکس ہر صاحبِ سلسلہ اور ہر وہ جماعت جو بیعت کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے، اپنے طرزِ عمل سے یہ کہہ رہی ہوتی ہے: 

 ''ما أنا علیه وسلسلتي أو حزبي'' 
''یعنی جس پر میں ہوں اور میرا طریقہ یا میری جماعت۔'' 

چنانچہ اس سلسلہ یا جماعت کو چھوڑنے کا مطلب ہے کہ گویا وہ شخص اسلام سے خارج ہوگیا ہے۔

یہاں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمة اللہ علیہ کا ذکر کردہ ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جو ان کے جریدہ "اہل حدیث" امرتسر کے شمارہ 17، مارچ 1924ء میں شائع ہوا تھا، لکھتے ہیں: 
''یہاں پر ایک واقعہ بلاکم و کاست ناظرین کے سامنے رکھتا ہوں. 

حافظ عزیز الدین صاحب مراد آبادی (جو میرے گمان میں مردِ صالح ہیں ) مولوی اشرف علی تھانوی کے مرید تھے۔ بعد بیعت آپ مسئلہ تقلید کی تحقیق کر کے مقلد سے غیر مقلد ہو گئے مگر مولانا مرحوم کے حق میں اُنہوں نے کسی قسم کی بدگمانی نہیں کی۔ اس پر بھی مولانا کا ایک پوسٹ کارڈ (جو میں نے بچشم خود دیکھا ہے) موصوف کو پہنچا جس کا مضمون یہ تھا کہ غیر مقلد ہو جانے کی وجہ سے میں تم کو اپنے حلقہ بیعت سے خارج کرتا ہوں. اب میرا تمہارا پیری مریدی کا تعلق نہیں رہا۔ (اوکما قال) ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔'' 8 

شیخ سے بیعت کرنا عذابِ قبر سے چھٹکارا دلاتا ہے، پہلے یہ واقعہ پڑھئے اور پھر تبصرہ ملاحظہ کیجئے: 
……………………………؛ 

''شیخ الاسلام خواجہ فرید الدین احمد نے فرمایا کہ اُن کے دادا پیر شیخ معین الدین حسن سنجری چشتی اجمیری قدس سرہ العزیز کی یہ رسم تھی کہ جو کوئی ہمسایہ میں سے اس دنیا سے نقل (انتقال) کرتا، اس کے جنازہ کے ساتھ جاتے اور خلق کے لوٹ جانے کے بعد اس کی قبر پر بیٹھتے اور جو درود، کہ ایسے وقت میں پڑھتے آئے ہیں،  پڑھتے۔ پھر وہاں سے آتے۔چنانچہ اجمیر میں آ پ کے ہمسایوں میں سے ایک نے انتقال کیا۔ دستور کے مطابق آپ جنازہ کے ساتھ گئے، جب اُسے دفن کرچکے، خلق لوٹ آئی اور خواجہ وہیں ٹھہر گئے اور تھوڑی دیر کے بعد آپ اُٹھے۔ شیخ الاسلام قطب الدین فرماتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ تھا۔ میں نے دیکھا کہ دم بدم آپ کا رنگ متغیر ہوا، پھر اسی وقت برقرار ہوگیا۔ جب آپ وہاں سے کھڑے ہوئے تو فرمایا: الحمدﷲ! بیعت بڑی اچھی چیز ہے۔'' 
شیخ الاسلام قطب الدین اوشی نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب لوگ اس کو دفن کر کے چلے گئے تھے تو میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ عذاب کے فرشتے آئے اور چاہا کہ اس کو عذاب کریں، اسی وقت شیخ عثمان ہارونی (آپ کے پیر، م634ھ) قدس سرہ العزیز حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ شخص میرے مریدوں میں سے ہے۔ جب خواجہ عثمان نے یہ کہا تو فرشتوں کو فرمان ہوا کہ کہو: ''یہ تمہارے برخلاف تھا۔'' خواجہ نے فرمایا: بے شک اگرچہ برخلاف تھا مگر چونکہ اس نے اپنے آپ کو اس فقیر کے پلے باندھا تھا، تو میں نہیں چاہتا کہ اس پر عذاب کیا جائے، فرمان ہوا: اے فرشتو! شیخ کے مرید سے ہاتھ اُٹھاؤ، میں نے اس کو بخش دیا۔ پھر شیخ الاسلام کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور فرمانے لگے کہ اپنے آپ کو کسی کے پلے باندھنا بہت ہی اچھی چیز ہے۔" 9 

* سبحان اللہ! 
نہ شریعت پرعمل کرنے کی ضرورت نہ کتاب و سنت کا کوئی لحاظ، شیخ کی بیعت جنت کا پروانہ ہوگیا۔ اور پھر جس طرح سے یہاں کتاب و سنت کی دھجیاں اُڑائی گئی ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمالیں: 

* اللہ عالم الغیب ہے، لیکن یہاں شیخ عذابِ قبر کا سارا انتظام دیکھ رہے ہیں. 

* اللہ کے رسول فرشتہ جبرئیل ؑ سے ہم کلام ہوتے تھے، یہاں شیخ عذاب کے فرشتوں سے مجادلہ کررہے ہیں. 

* حدیث کے مطابق انبیا اور صلحا کو قیامت کے دن شفاعت کا موقع دیا جائے گا، یہاں عین عذابِ قبر سے پہلے شفاعت کی جارہی ہے جو فوراً ہی اجابت کے مراحل طے کرگئی۔ 

* جس صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو قبروں پر سے گزرنے، دونوں کوعذابِ قبر ہونے، آپ ؐ کے ان دونوں قبروں پر ٹہنی لگانے کا واقعہ نقل ہوا ہے اور پھر ٹہنیوں کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف کا ذکر ہے، اُسے ذرا ذہن میں تازہ کیجئے۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں الہامِ خداوندی سے دو اشخاص کے عذابِ قبر کے بارے میں بتایا گیا، وہ یقینا مسلمان تھے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں داخل تھے، لیکن اُنہیں تو یہ بیعت کام نہ آئی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی اور بطورِ علامت دو ٹہنیاں بھی لگائیں کہ جن کے خشک ہونے تک دونوں کے عذاب میں تخفیف کی گئی تھی۔ 

کیا یہ ایک قباحت ہی کافی نہیں کہ جس سے مزعومہ بیعت کی قلعی کھل جاتی ہے؟ 


طریقت اور بیعت چونکہ لازم و ملزوم ہیں، چنانچہ اس تعلق سے بھی نئے نئے شگوفے کھلتے رہتے ہیں. 

مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: 

''بیعت کے سلسلہ میں صوفیا نے ایک اور شاندار کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اُنہوں نے جب دیکھا کہ اویس قرنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا، نہ بیعت کی، تو اُن کی ارواح کی آپس میں بیعت کرا دی اور اسے نسبتِ اُویسیہ کا نام دیا اور راستہ کی اس رکاوٹ کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ فلاں شیخ کی فلاں شیخ سے ملاقات ہی ثابت نہیں یا پیر کی وفات کے بہت عرصہ بعد مرید کی پیدائش ہو تو وہ یہی نسبتِ اُویسیہ قائم کر کے اپنا سلسلہ جاری فرما کر کام چلا لیتے ہیں.'' 10 

انہی غلط رسموں کو جائز کرنے کے لئے قرآن و سنت کی نصوص کی ایسی تاویلاتِ فاسدہ کی جاتی ہیں کہ انسان اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے. 

ابن الجوزی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: 
محمد بن طاہر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ''پھٹے ہوئے کپڑے (مرقعہ) پہننے کے بارے میں شیخ کا مرید پر شرط رکھنا، اور بطورِ دلیل عبادة بن صامت کی حدیث پیش کی کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ہم تنگی اور فراخی ہر حال میں سمع و اطاعت کریں گے۔'' 

دیکھئے کیا خوب نکتہ نکالا ہے، کہاں شیخ کا مرید پر مذکورہ شرط رکھنا اور اُسے جوڑنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعتِ اسلام سے جو کہ نہ صرف لازم ہے بلکہ خود رسول کی اطاعت بھی واجب ہے۔" 11 

اگر اُمتِ مسلمہ ایک بڑے جہاز کی مانند ہے تو یہ مختلف فرقے اور طریقے چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی مانند ہیں. شدید طوفان کی صورت میں جہاز تو بچ جاتا ہے، لیکن چھوٹی کشتیاں غرقِ آب ہوجاتی ہیں. تعجب ہے کہ کتاب و سنت کے جہاز کو چھوڑ کر لوگ ان بجروں (چھوٹی کشتیوں ) پر کیوں سوار ہوتے ہیں!؟ جب کہ سمندر میں تلاطم ہی تلاطم ہے اور کشتی کسی وقت بھی ڈوب سکتی ہے۔ 


قائلین بیعت کے شبہات
اور آخر میں ان چند شبہات کا جائزہ بھی لے لیا جائے جو قائلین بیعت کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں: 
………………………………؛ 


* "تین آدمی بھی سفر کر رہے ہوں تو ایک کو امیر بنانے کا حکم ہے، چہ جائیکہ پوری جماعت ہو اور اس کا امیرنہ ہو۔'' 

جائزہ: 
سفر میں امیر بنانا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے، لیکن وہاں بیعت کا ذکر نہیں ہے، اور یہ امارت سفر کے ختم ہونے کے ساتھ تمام ہوجاتی ہے۔ گویا وقتی طور پر نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لئے ایسے امیر کی اطاعت لازمی قرار دی گئی لیکن اس کا قیاس امامتِ کبریٰ پر نہیں کیا جا سکتا جہاں دوسرے مدعی ٔامارت کو برداشت نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی گردن مار دی جاتی ہے. 


*  "بیعتِ اصلاح و ارشاد کو نماز کی امامت کی طرح سمجھا جائے، یعنی امامتِ کبریٰ کے ساتھ امامتِ صغریٰ کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔'' 

جائزہ: 
امارتِ سفر کی طرح نماز کی امامت بھی نماز کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔جو نہی امام نے 'السلام علیکم و رحمتہ اﷲ' کہا، مقتدی اور امام کا تعلق ختم ہو گیا۔ دوسرے یہ کہ خلیفہ وقت کی موجودگی میں کیا صرف ایک ہی نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاتا تھا یا ہر علاقے بلکہ ہر محلے کی مسجد میں نماز نہیں ہوتی تھی؟ 

حضرت معاذؓ بن جبل عشاء کی نماز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے اور پھر عوالی جا کر اہل محلہ کو نماز پڑھایا کرتے تھے۔ لیکن امامِ وقت یا خلیفہ حاضر سے بیعت کرنے کے بعد کیا ہر شہر یا ہر محلہ میں جزوی بیعت ہوا کرتی تھی جو ہر مرشد اپنے لئے روا رکھتا ہو؟ کم از کم خیرالقرون کے زمانہ میں تو ایسی بیعت کا نام و نشان نہ تھا۔ قرونِ ثلاثہ (زمانۂ رسول ؐ اور زمانۂ صحابہؓ ، زمانۂ تابعین رحمة اللہ علیہ اور تبع تابعین رحمة اللہ علیہ) کے بعد جہاں فرقہ بازی کی بدعت پیدا ہوئی، وہاں تصوف کے سلسلوں کے نام پر مشائخ کے ہاتھ پر بیعتِ اصلا ح و ارشاد کا دروازہ بھی کھول دیا گیا۔ 


* فرمانِ نبویؐ ہے: ''جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں طوقِ بیعت نہ تھا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔" 12 

جائزہ: 
شریعت کے تمام احکامات استطاعت سے مشروط ہیں۔ ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہو لیکن بیت اللہ تک پہنچنے کے تمام راستے مسدود ہوں، چاہے جنگ و جدال کی بنا پر یا کسی دوسرے سبب کی بنا پر، تو ایسے شخص پر حج کرنا واجب نہ ہوگا جب تک کہ راستے کھل نہ جائیں. حالانکہ ایسی ہی وعید حج پر نہ جانے والوں کے لئے بھی ہے، ایسے ہی زکوٰة نہ ادا کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے، لیکن جس شخص کے پاس اتنا مال ہی نہ ہو کہ جس میں زکوٰة واجب ہو تو وہ زکوٰة دینے سے مستثنیٰ ہے۔ وضو میں ہاتھ پیر دھونے لازم ہیں، لیکن اگر کسی کا ہاتھ یا پیر کٹا ہوا ہو تو وہ اُسے کیسے دھوئے گا؟ 
بعینہٖ اگر ایسا خلیفہ موجود ہو جو صاحب ِاقتدار ہو، حدود کو نافذ کرسکتا ہو، صلح و جنگ کے جھنڈے بلند کر سکتا ہو، قرآن و سنت کو نافذ کرسکتا ہو تو جہاں جہاں اس کا اقتدار ہے، وہاں وہاں تمام لوگوں پر اس کی بیعت لازم ہے۔ بیعت نہیں کریں گے تو بموجب ِحدیثِ مذکور جاہلیت کی موت مریں گے۔ 
لیکن اگر ایسا خلیفہ سرے سے موجود ہی نہ ہو تو پھر بیعت کا محل نہ ہونے کی بنا پر یہ حکم بھی ساقط ہوجائے گا، اور ایسے ہی وہ لوگ جو ایک خلیفہ کے دائرئہ اقتدار سے خارج رہتے ہوں، اُن کے لئے بھی ایسے خلیفہ کی بیعت لازم نہ ہوگی. 
۱۹۲۴ء میں خلافت ِعثمانیہ کے ختم کئے جانے کے بعد اوّل تو مسلم ممالک پر استعمار کا غلبہ ہو گیا، خود ہندوستان بھی سو ڈیڑھ سو سال انگریزی استعمار کا ہر اول دستہ بنا رہا، جب خلیفہ ہی نہ رہا تو بیعت کس کے ہاتھ پر کی جاتی؟مسلم ممالک آزاد ہونا شروع ہوئے تو اکثر نے جمہوری یا آمرانہ نظام اپنایا، بیعت کے اُس طریقہ کو خیر باد کہہ دیا گیا جو اہل حل و عقد کی مشاورت سے منعقد ہوتی ہے، لہٰذا نظامِ بیعت بھی معطل ہوتا چلا گیا۔ اب جہاں جہاں کسی درجے میں بھی ایسا نظام قائم ہو جو کتاب و سنت کو نافذ کرتا ہو، لیکن بادشاہ کی بیعت کے بعد ہی اس کی حکومت کا آغاز ہوتا ہے۔ 


* بیعتِ اصلاح و ارشاد کا ایک "عہدنامہ" کی طرح اعتبار کیا جائے تو کیا حرج ہے؟ کیا یہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ سلف صالح میں اس کا رواج نہ تھا؟ 

جائزہ: 
ابو نعیم اصبہانی اپنی کتاب حلیة الأولیاء (2، 204) میں اپنی اسناد ذکر کرنے کے بعد مطرف بن عبداللہ بن شخیر (تابعی) کی یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ہم زید بن صوحان کے پاس جایا کرتے تھے جو کہا کرتے تھے: 
''اے اللہ کے بندو! اکرام کرو اور (عمل میں) خوبصورتی پیدا کرو! بندے اللہ تک ان دو وسیلوں سے پہنچ سکتے ہیں: خوف اور طمع''
ایک دن ہم ان کے پاس آئے تو دیکھا کہ (شاگردوں) نے ایک عبارت اس مضمون کی لکھی ہے: 
''اللہ ہمارا ربّ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبیؐ ہیں ، قرآن ہمارا امام ہے، جو ہمارے ساتھ ہوگا، ہم اس کے ساتھ ہیں اور اس کے لئے ہیں. جو ہمارے مخالف ہوگا، ہمارا ہاتھ اس کے خلاف ہوگا اور ہم ایسا ویسا کریں گے۔'' 
پھر اُنہوں نے یہ مکتوب لیا اور ہر شخص سے باری باری یہ کہا: اے فلاں! کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو؟ یہاں تک کہ میری باری آگئی اور اُنہوں نے کہا: اے لڑکے! تم بھی اقرار کرتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں. کہنے لگے: اس لڑکے کے بارے میں جلد بازی نہ کرو، پھر مجھ سے پوچھا: بچے! تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: اللہ نے اپنی کتاب میں مجھ سے ایک عہد لیا ہے اور میں اس عہد کے بعد کسی اور عہد کا پابند نہیں ہوں۔'' یہ سننا تھا کہ تمام کے تمام لوگ اس عہد نامے سے رجوع کر گئے، کسی ایک نے بھی اقرار نہ کیا۔ میں نے مطرف سے پوچھا: تمہاری تعداد کیا تھی؟ بولے: ''تیس کے قریب آدمی تھے۔" 13 

امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اس مسئلہ کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ وہ ایک فتویٰ کے ضمن میں کہتے ہیں: 
''اگر لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت اور بر و تقویٰ پر تعاون کرنے پر جمع ہوں تو بھی ہر شخص دوسرے شخص کے ساتھ ہر بات میں معاون نہ ہوگا بلکہ صرف اس حد تک جہاں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہوگی، اگر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہو رہی ہو تو وہ ساتھ نہ دے گا، یہ لوگ سچائی، انصاف، احسان، امربالمعروف، نہی عن المنکر، مظلومین کی مدد اور ہر اس کام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہیں.  وہ نہ ظلم کرنے پر، نہ کسی جاہلی عصبیت پر، نہ ہی خواہشات کی پیروی پر تعاون کریں گے، نہ ہی فرقہ بازی اور اختلاف پر، اور نہ ہی اپنی کمر کے گرد پیٹی باندھ کر کسی شخص کی ہر بات ماننے پر تعاون کریں گے اور نہ ہی کسی ایسے حلف نامے میں شریک ہوں گے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہو۔'' 

''ان میں سے کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ اپنے یا کسی دوسرے کے استاد کی خاطر اپنی کمر کے گرد پیٹی باندھے اور جیسے سوال میں پوچھا گیا ہے، کسی ایک معین شخص کے لئے پیٹی باندھنا یا اس کی طرف نسبت کرنا، جاہلیت کی بدعات میں سے ہے اور ان حلف ناموں کی مانند ہے جو اہل جاہلیت کیا کرتے تھے یا قیس و یمن کی فرقہ بازیوں کی طرح ہے۔ اگر اس کے باندھنے سے مراد بر و تقویٰ پر تعاون ہے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی ایسے بندھن کے اس کا حکم دیا ہے اور اگر اس سے مراد گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون ہے تو وہ ویسے ہی حرام ہے، یعنی اگر اس طرح خیر کا کام کرنا مقصود ہے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کام کی پوری رہنمائی ملتی ہے، استاد کے ساتھ (اس نسبت) کی کوئی ضرورت نہیں. اگر برائی مقصود ہے تو اللہ اور اس کے رسول اُسے حرام قرار دے چکے ہیں ۔۔۔ 

کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ کسی دوسرے شخص سے اپنی ہر بات منوانے پر عہد لے یا اس بات پر کہ جس کامیں دوست ہوں، اس سے دوستی رکھو اور جس کا میں دشمن ہوں، اُس سے دشمنی رکھو، بلکہ ایسا کرنے والا چنگیز خان اور اس کے حواریوں جیسا ہے جو ہر اس شخص کو اپنا دوست اور حمایتی سمجھتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتا ہو اور ہر اس شخص کو اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہیں جو ان کی مخالفت کرتا ہو، بلکہ اُنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہوا عہد یاد رکھنا چاہئے کہ اطاعت صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہے۔ اسے وہی کام کرنا ہے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسولؐ نے دیا ہے، ہر اُس چیز کو حرام ٹھہرانا ہے جسے اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ وہ اپنے اساتذہ (و مشائخ) کے حقوق کا ضرور خیال رکھے، لیکن اُتنا جتنا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کسی کا اُستاد مظلوم ہو تو اس کی مدد کرے، اگر ظلم کرے تو اس کی ظلم پر اعانت نہ کرے بلکہ اُسے ظلم کرنے سے روکے، جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یامظلوم!'' 
آپؐ سے کہا گیا: مظلوم ہو تو ہم اس کی مدد کرتے ہیں، لیکن ظالم ہو تو اس کی مدد کیسے ہوگی؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''تم اُسے ظلم کرنے سے روکو، یہی اس کی مدد ہے۔'' 14 


''جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر و مرشد شیطان ہے۔'' 

جائزہ: 
یہ بات اُس شخص کے لئے تو درست ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا طوق اپنی گردن سے اُتار پھینکا ہو، لیکن وہ شخص جو صرف اپنی نسبت اللہ کے رسولؐ اور اُن کی حدیث کی طرف کرتا ہو، اُسے شیطان کی طرف منسوب کرنا، اپنے ایمان کو ضائع کرنا ہے، ''ما أنا علیه و أصحابي'' کا تقاضا یہی ہے کہ ہر اُس عمل سے اجتناب کیا جائے جس پر مہر نبوت ثبت نہ ہو اور جسے صحابہ کرامؓ نے نہ کیا ہو۔ 

اللہ تعالیٰ تمام کلمہ گو حضرات کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں. 

و آخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العالمین  


~~~~~~~~~~~~~~؛


حوالہ جات 

1. صحیح مسلم : 121 

2. صحیح بخاری: 7199، صحیح مسلم: 1709، سنن نسائی: 4160 

3. البدایة والنهایة: 3، 189 

4. صحیح مسلم: 1839 

5. صحیح مسلم: 1844 

6. صحیح مسلم: 1848 

7. صحیح مسلم: 1851 

8. فتاویٰ ثنائیہ: 1، 356 

9. بحوالہ شریعت و طریقت از مولانا عبدالرحمن کیلانی: ص 305 

10. شریعت و طریقت: ص 433 

11. تلبیس ابلیس: ص 192 

12. صحیح مسلم: 1851 

13. بحوالہ عربی کتابچہ:  ''بیعت،سنت و بدعت کے مابین'' از شیخ علی حسن 

14. فتاویٰ ابن تیمیہ: 8، 16 تا 18 


https://magazine.mohaddis.com/shumara/67-sep2007/1262-masla-beaat-sharaa-ki-nazar-main

.