پیر، 26 اکتوبر، 2020

کیا یہ اہل حدیث نہیں؟ فاروق عبد اللہ نراین پوری

.

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ 
○═┅═┅═┅═┅═┅═┅═┅═┅○ 

سلف صالحین کے نزدیک لفظ ”اہل حدیث“ کا معنی ومفہوم 

✍ فاروق عبداللہ نراین پوری 

بعض حضرات کہتے ہیں کہ علمائے متقدمین جب لفظ ”اہل الحدیث“ یا ”اصحاب الحدیث“ کا اطلاق کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد وہ جماعت ہوتی ہے جن کا مشغلہ علم حدیث پڑھنا اور پڑھانا ہے۔ یعنی محدثین کی جماعت۔

ان کے مطابق آج کل جو ”منہج صحابہ وتابعین پر چلنے والوں‘‘ کے معنی میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے اور ایسے شخص کے لیے بھی اسے استعمال کرتے ہیں جن کا علم حدیث سے کوئی شغف نہیں ہوتا یہ ایک نئی اصطلاح ہے۔ سلف اس معنی میں اس لفظ کا استعمال نہیں کرتے تھے۔

اسی مغالطہ کو دور کرنے کے لیے یہ چند سطور آپ کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

اگر علماء متقدمین ومتاخرین کی کتابوں میں بغور دیکھا جائے تو لفظ ”اہل حدیث“ یا ”اصحاب حدیث“ کا اطلاق ان کے نزدیک دو معنوں میں ہوتا ہے:

(۱)خاص معنی: 
ہر وہ شخص جس کا تعلق علم حدیث پڑھنے پڑھانےسے ہو۔ یعنی محدثین کرام۔چونکہ اس معنی کا کوئی انکار نہیں کرتا اس لیے اس کی تفصیل کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔

(۲)عام معنی: 
ہر وہ شخص جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وتابعین اور ان کی اتباع کرنے والوں کے طریقے اورمنہج پر قائم ہو، چاہے اس کا تعلق علم حدیث سے ہو، یا فقہ سے، یا لغت وادب سے، یا کسی بھی دوسرے فن سے۔ بلکہ ایک عام شخص بھی اس وصف کے اندر داخل ہے گرچہ اس کا تعلق کسی بھی علم سے نہ ہو، جاہل ہو، اگر وہ صحابہ وتابعین کے منہج پر قائم ہے، بدعات وخرافات سے دور ہے، توسلف صالحین اس پر ”اہل حدیث“اور ”اصحاب حدیث“ کا اطلاق کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ ان کے نزدیک ”اہل سنت والجماعت“کےمترادف ہے۔ جس کسی نے بھی علمائے سلف کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اس کے لیے یہ چیز اظہر من الشمس ہے۔
سلف صالحین کے اقوال سے چند دلیلیں بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں: 

پہلی دلیل: 
یزید بن ہارون رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے حماد بن زید رحمہ اللہ سے پوچھا:
يَا أَبَا إِسْمَاعِيلَ هَلْ ذَكَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ فِي الْقُرْآنِ؟ فَقَالَ:بَلَى، أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى قَوْلِهِ: {لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ} فَهَذَا فِي كُلِّ مَنْ رَحَلَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ، وَيَرْجِعُ بِهِ إِلَى مَنْ وَرَاءَهُ، يُعَلِّمُهُمْ إِيَّاهُ(اے ابو اسماعیل کیا اللہ تعالی نے قرآن میں اصحاب حدیث کا تذکرہ کیا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا: ہاں،کیا تم نے یہ آیت نہیں سنی: {لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ}، یہ آیت ہر اس شخص کے متعلق ہے جو علم وفقہ کے حصول کے لیے سفر کرتا ہے اور واپس آکر دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا ہے) [ شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی ، ص۵۹]
یہاں حماد بن زیدرحمہ اللہ نے ”اصحاب حدیث“ کا لقب صرف محدثین کے لیے خاص نہیں کیا ہے، بلکہ ہر وہ شخص جو علم دین حاصل کرتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی فن سے ہو اس پر ”اصحاب حدیث“ کا اطلاق کیا ہے۔
اسی طرح کی بات عبد الرزاق الصنعانی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔[دیکھیں: شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی ، ص۵۹] 

دوسری دلیل: 
ابو بکر احمد بن عبد الرحمن النسفی المقری فرماتے ہیں:
كَانَ مَشَايِخُنَا يُسَمُّونَ أَبَا بَكْرِ بْنَ إِسْمَاعِيلَ أَبَا ثَمُودَ، لِأَنَّهُ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ، فَصَارَ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْيِ، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: {وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى}(ہمارے مشایخ ابو بکر بن اسماعیل کو ابوثمود کے نام سے یاد کرتے تھے؛ کیونکہ وہ پہلےاصحاب حدیث میں سے تھے، بعد میں اصحاب رائے میں سے ہو گئے۔ اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اور ثمود کو ہم نے ہدایت کا راستہ دکھایا لیکن انھوں نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو پسندکیا) [شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی، ص۷۵]
یہاں پر سیاق بالکل واضح ہے کہ ”اصحاب حدیث“ کا اطلاق ”اہل سنت والجماعت“ کے معنی میں کیا گیا ہے۔ جب تک وہ صحیح منہج پر قائم رہے انھیں وہ ”اصحاب حدیث“ میں سے شمار کرتے رہے لیکن جیسے ہی ان کا منہج بگڑا اور نصوص کو چھوڑ کر رائے ،قیاس اور خواہشات نفسانی کے پیچھے پڑ گئے انھیں ”اصحاب حدیث“ کے زمرے سے نکال کر ”ابو ثمود“ کہنے لگے؛ کیونکہ قرآن میں اللہ تعالی نے ثمود کی یہ صفت بیان کی ہے کہ انھوں نے ہدایت کا راستہ پانے کے باوجود گمراہی کو ہدایت پر فوقیت دی۔
یعنی ان مشایخ کے بقول صحیح منہج پر چلنے والے ہدایت یافتہ اور ”اصحاب حدیث“ ہیں۔ اور ان کے مقابلے میں ”اہل بدعت“ہیں۔
پتہ چلا کہ سلف ”اصحاب حدیث“ کا اطلاق علم حدیث کے ماہرین پر ہی نہیں کرتے تھے بلکہ صحیح منہج کے پیروکاروں کے لیے یہ لقب ان کے یہاں بالکل عام تھا۔ ورنہ یہ لازم آئےگا کہ ابو بکر بن اسماعیل پہلے علم حدیث کے ماہر تھے پھر اچانک جاہل ہو گئے جس کی وجہ سے سلف نے ان کے لیے یہ لقب استعمال کرنا بند کر دیا۔ یہ معنی کوئی متعصب شخص بھی نہیں سوچ سکتا۔ 

تیسری دلیل: 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی ہے کہ قیامت تک ایک جماعت حق پر قائم رہے گی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائےگی ، سبھی جہنم جانے والے ہیں سوائے ایک فرقے کے، اور یہ وہ جماعت ہے جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوں۔
اس جماعت کی تشریح میں سلف صالحین کی ایک جماعت مثلا: عبد اللہ بن مبارک، یزید بن ہارون، علی بن مدینی، احمد بن حنبل اور محمد بن اسماعیل البخاری رحمہم اللہ وغیرہم نے کہا ہے کہ وہ ”اصحاب حدیث“ ہیں۔ [دیکھیں: شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی، ص۲۵-۲۷]
ظاہر سی بات ہے کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ صرف علم حدیث پڑھنے پڑھانے والے ہی اس نجات یافتہ جماعت میں داخل ہیں اور باقی جو دوسرے علوم وفنون سے تعلق رکھتے ہیں، یا جن کا تعلق علم کے ساتھ نہیں ہے وہ نجات یافتہ نہیں۔ بلکہ ہر کوئی یہ مانتا ہے کہ چاہے کوئی جاہل ہی کیوں نہ ہواگر سلف صالحین کے منہج پر ہے، اہل بدعت کے منہج پر نہیں تو وہ ان شاء اللہ نجات یافتہ ہے۔ اور انھی کے متعلق نبوی بشارت ہے۔ باقی جو دوسرے گروہ ہیں وہ تحت المشیئہ ہیں۔ [تفصیل کے لیے امام صنعانی رحمہ اللہ کی کتاب: ”افتراق الأمة إلى نيف وسبعين فرقة“ کی طرف رجوع کریں]
ان اجلائے سلف کا مذکورہ احادیث کی شرح میں نجات یافتہ جماعت پر ”اصحاب الحدیث“ کا اطلاق کرنا واضح دلیل ہے کہ یہ لفظ ان کے نزدیک صرف علم حدیث کے ساتھ جڑے رہنے والوں کے لیے خاص نہیں تھا بلکہ ”اہل بدعت“کے مقابلے میں ہر اس شخص پر جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طریقے پر ہو اس کا اطلاق کرتے تھے۔ اور یہ اطلاق ان کے نزدیک بہت معروف ومشہور تھا۔ ورنہ یہ لازم آئےگا کہ سلف کے نزدیک نجات یافتہ جماعت صرف علم حدیث پڑھنے پڑھانے والے ہی ہیں۔ جس کا بطلان ہر ایک کے لیے بالکل واضح ہے۔ 

چوتھی دلیل: 
امام ابو عثمان اسماعیل بن عبد الرحمن الصابونی (متوفی۴۴۹ھ) نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب کا نام ہی ”عقیدۃ السلف اصحاب الحدیث“ رکھا ہے جس سے واضح ہے کہ اہل حدیث سے ان کی مراد سلف صالحین ہیں، صرف علم حدیث پڑھنے پڑھانے والے نہیں۔ اور اس کتاب میں بہت ساری جگہوں پر سلف کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے اسے ”اہل حدیث اور اصحاب حدیث کا عقیدہ“ کہا ہے۔ بطور مثال چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:

الف:
ويعتقد أهل الحديث ويشهدون أن الله سبحانه وتعالى فوق سبع سموات على عرشه[عقيدة السلف أصحاب الحديث:ص۶]

ب:
مذهب أهل الحديث أن الإيمان قول وعمل ومعرفة، يزيد بالطاعة وينقص بالمعصية[عقيدة السلف أصحاب الحديث:ص۲۵]

ج:
يشهد أصحاب الحديث ويعتقدون أن القرآن كلام الله وكتابه، ووحيه وتنزيله غير مخلوق، ومن قال بخلقه واعتقده فهو كافر عندهم[عقيدة السلف أصحاب الحديث:ص۳]

د:
ومن قال: إن القرآن بلفظي مخلوق، أو لفظي به مخلوق فهو جاهل ضال كافر بالله العظيم. وإنما ذكرت هذا الفصل بعينه من كتاب ابن مهدي لاستحساني ذلك منه، فإنه اتبع السلف أصحاب الحديث [عقيدة السلف أصحاب الحديث:ص۴]

ه:
يثبت أصحاب الحديث نزول الرب سبحانه وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا، من غير تشبيه له بنزول المخلوقين، ولا تمثيل ولا تكييف بل يثبتون ما أثبته رسول الله صلى الله عليه وسلم، وينتهون فيه إليه، ويمرون الخبر الصحيح الوارد بذكره على ظاهره، ويكلون علمه إلى الله [عقيدة السلف أصحاب الحديث:ص۹]

و:
يعتقد ويشهد أصحاب الحديث أن عواقب العباد مبهمة، لا يدري أحد بما يختم له[عقيدة السلف أصحاب الحديث:ص۳۰]

ان تمام نصوص کو بغور دیکھیں! مسئلہ کی حقیقت جاننے کے لیے یہ کافی وشافی ہیں۔

امام صابونی کی اس کتاب میں ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جن سے بالکل صاف ہے کہ ”اہل حدیث“ اور ”اصحاب حدیث“ کا استعمال سلف صالحین کے نزدیک علم حدیث پڑھنے پڑھانے والوں کے لیے خاص نہیں تھا بلکہ عمومی معنی میں ہر اس شخص پر اس کا استعمال ان کے نزدیک معروف ومشہور تھا جو صحابہ وتابعین کے منہج پر چلنے والے تھے۔

پانچویں دلیل: 
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ صفات باری تعالی کے سلسلے میں سلف کا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مذهب أهل الحديث -وهم السلف من القرون الثلاثة، ومن سلك سبيلهم من الخلف-: أن هذه الأحاديث تمر كما جاءت [مجموع الفتاوى:۶/۳۵۵](اہل حدیث کا مذہب -اور وہ قرون ثلاثہ کے سلف ہیں اور خلف میں سے جو بھی ان کے راستے پر چلنے والے ہیں- یہ ہے کہ ان احادیث کو ویسے ہی بیان کیا جائے جیسے وہ وارد ہوئے ہیں)
یہاں شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بہت ہی صریح لفظوں میں بیان کیاہے کہ ”اہل حدیث“ کا اطلاق قرون ثلاثہ کے سلف صالحین اور بعد کے زمانے میں ان کے منہج پر چلنے والوں پر ہوتا ہے۔

خلاصۂ کلام: سلف صالحین کے نزدیک ”اہل حدیث“ اور ”اصحاب حدیث“ کا اطلاق جس طرح ’’محدثین“ پر ہوتا ہے اسی طرح عام معنی میں وہ ”صحابہ وتابعین کے منہج پر چلنے والوں“ پر بھی ہوتا ہے، چاہے ان کاتعلق علم حدیث پرھنے پڑھانے سے ہو یا کسی بھی علم سے۔ بلکہ اگر پڑھنا لکھنا نہ بھی جانتے ہوں اگر اہل سنت والجماعت کے اصول سے منحرف نہیں ہیں، سلف کے منہج پر چلنے والے ہیں تو سلف کی اصطلاح میں وہ اہل حدیث ہیں۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ ان کے کلام میں”اہل حدیث“ و ”اصحاب حدیث“ کا مطلب محدثین ہی ہیں، منہج صحابہ وتابعین پر چلنے والے نہیں۔ 

اللهم أرنا الحق حقًا، وارزقنا اتباعه، وأرنا الباطل باطلًا، وارزقنا اجتنابه 

.