۔
۔ ﷽ ۔
صحیح اور غلط وظائف
ہ ےےےےےےےہ
اسم الہی یا کسی آیت کو وظیفہ میں خاص کر لینا ⸮
سوال :
مختلف قرآنی آیات یا اسماء الہی کو مفید جان کر نماز یا کسی دوسرے وقت کا تعین کر کے پڑھنا جب کہ سنت سے اس طرح کرنا ثابت نہیں کیا یہ بدعت کے زمرہ میں آتا ہے ؟ مثلا ایک مشہور عمل یہ ہے کہ سورۃ الفاتحہ ما بین سنت فجر ٤١ مرتبہ بیماری دور کرنے کے لیے پڑھنا اسی طرح یہ عمل دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے کچھ لوگ اس میں اضافہ کرتے ہیں کہ ‘‘بسم اللہ الرحمن الرحیم’’ کے میم کو الحمد کے لام کے ساتھ ملاکرپڑھاجائے،اسی طرح آیت
﴿ وَأُفَوِّضُ أَمْرِىٓ إِلَى ٱللَّهِ۔۔۔۔۔۔ ﴾
كو ہر نماز کے بعد مقررہ تعداد میں پڑھنا ، کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے مطلوبہ حاجت پوری ہو جاتی ہے۔ یا پھر سورۃ التوبہ کی آخری دو آیات یا ایک آیت کو بعد نماز عشاء ١۰١ مرتبہ پڑھنا کہا جاتا ہے کہ یہ عمل قید اور دشمنی سے بچنے کے لیے مفید ہے ۔ کیا اس طرح کے یہ اعمال شرعا ناجائز ہیں؟
میری سمجھ کے مطابق اس طرح کے وظائف کو اختیار کرنے میں شرعا ممانعت نہیں اور نہ ہی یہ بدعت کے زمرہ میں آتے ہیں بشرط یہ کہ انہیں سنت یا ماثور نہ سمجھا جائے۔ الغرض آپ دلائل کے ساتھ وضاحت کریں تاکہ اطمینان حاصل ہو؟
جواب :
الحمد للہ
اس کا جواب یہی ہے کہ آیات قرآنیہ یا اسماء الہی کو کسی خاص تعداد اور کسی مخصوص اوقات میں بطور وظیفہ یا دینی خواہ دنیوی خیر و بھلائی کے حصول کے لیے پڑھا جا سکتا ہے۔( جیسا کہ خود محترم نے سوال کے آخر میں فرمایا ہے ) بشرط یہ کہ اسے سنت ماثورہ نہ سمجھا جائے اور مقررہ تعداد کو لازم و واجب تصور نہ کیا جائے۔
اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے جس میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سفر میں تھے کسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا پھر ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پر سورۃ الفاتحہ کا سات مرتبہ دم کیا اور وہ تندرست ہو گیا بالآخر وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور یہ واقعہ آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تو آپ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ ’’ماادراك انها رقية۔‘‘ ’’یعنی آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ فاتحہ رقیہ ( دم ) ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: ’’يا رسول الله ﷺ ’’شئي القي في روعي‘‘ ’’یعنی ایک چیز تھی جو میرے دل میں ڈالی گئی۔‘‘
اس صحيح حديث سے معلوم ہوا کہ صحابی رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلے نبی کریم ﷺ سے یہ علم حاصل نہ کیا تھا کہ سورۃ فاتحہ دم ہے اور ڈسے ہوئے شخص پر سات مرتبہ پڑھنا بھی اس صحابی کے دل میں القاء کی ہوئی بات کے ماتحت اسی تعداد میں یہ سورۃ مبارکہ پڑھی۔
پھر رسول اکرم ﷺ نے ان کی ان دونوں باتوں کو بحال رکھا۔ لہذا یہ تقریری دلیل ہے کہ کوئی شخص قرآن کریم کی کوئی سورت یا ایک یا دو آیات کسی خاص مقدار میں کسی مرض کی شفا یا کسی مشکل کے حل وغیرہ کے لیے پڑھے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اگر یہ بات درست نہ ہوتی تو صحابی رضی اللہ عنہ کے جواب
’’شئي القي في روعي‘‘ پر ضرور آپ ﷺ اسے زجر و توبیخ فرماتے کہ یہ کیا ہے کہ جو بات دل میں آئے اس پر عمل کرتے پھروگے؟ لیکن آپ ﷺ کا سے بحال رکھنا اور اس فعل کو ثابت رکھنا اس پر واضح دلیل ہے کہ یہ بات شریعت کے ہرگز خلاف نہ تھی اور مسئلہ ہذا کی عمومی دلیل:
﴿ وَ نُنَزِّلُ مِنَ ٱلْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَ لَا يَزِيدُ ٱلظَّـٰلِمِينَ إِلَّا خَسَارًۭا ﴾
( الاسراء : ٨٢ )
’’اور ہم قرآن وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
بھی ہو سکتی ہے اور شفا سے روحانی و جسمانی ، مادی، معنوی شفاء مراد لی جا سکتی ہے۔ تخصیص کی کوئی بھی وجہ نہیں، وجہ یہی ہے کہ جب صحابی ؓ نے فاتحہ کو دم سمجھ کر پڑھا تو اللہ سبحانہ و تعالی کے رسولﷺ نے اس پر کوئی اعتراض نہ فرمایا:
باقی رہا اسماء الالہیہ کا معاملہ تو خود قرآن کریم میں ہے کہ:
﴿ وَلِلَّهِ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ فَٱدْعُوهُ بِهَا ﴾
( الاعراف : ۰ ١٨ )
لہذا اسماء الالہیہ میں جس اسم میں بھی قاری کو مشکل حل ہونے کی توقع ہو تو اسے کچھ تعداد مقرر کر کے ( محض اپنی سہولت کی خاطر نہ کر اسے لازم سمجھتے ہوئے ) پڑھے اور نماز کے بعد بھی پڑھ سکتا ہے کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نماز کے بعد دعا قبول ہوتی ہے یا کسی اور وقت میں پڑھے تو بھی اس میں کچھ حرج نہیں۔
ھذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب
فتاویٰ راشدیہ
صفحہ نمبر 62
* ےےےےےےےے *
مجرب وظیفہ کی شرعی حیثیت
تحریر :
مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
بیماری سے نجات پانے ، مشکل کو دور کرنے اور اپنے کسی مقصد کو پانے کے لئے اکثر آپ نے وظیفہ کا لفظ سنا ہوگا جیسے شادی کا وظیفہ ، اولاد کا وظیفہ، نوکری کا وظیفہ ، میاں یا بیوی کو قابو میں کرنے کا وظیفہ ، نفرت یا محبت پیدا کرنے کا وظیفہ ، ویزہ لگانے کا وظیفہ ، پیٹ کم کرنے کا وظیفہ ، وزن بڑھانے یا گھٹانے کا وظیفہ ، خوبصورت اولاد پانے کا وظیفہ ، بیٹا حاصل کرنے کا وظیفہ، کینسر کا وظیفہ، کورونا کا وظیفہ وغیرہ
غرض ہر کام کا الگ الگ بلکہ ایک ایک کام کے سو سو وظائف لوگوں میں مشہور ہیں ۔
کچھ نمونے آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ بات پوری طرح واضح ہو۔
میں یہاں چھوٹے لوگوں کی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ بڑے اور عالم طبقہ کی بات کر رہا ہوں ۔
پاکستان کے ایک بڑے حنفی ادارے جامعہ نبوریہ عالمیہ کی ویب سائٹ پر مجرب وظائف کی ایک لمبی فہرست موجود ہے اس میں سے چند نمونے یہاں پیش کرتا ہوں۔
٭ پسند کی شادی کے لئے مجرب وظیفہ :
سورہ طہ کی آیت نمبر 131، 132 کسی کاغذ پر لکھ کر بازو پر باندھ لیں۔
٭ چوری شدہ بائیک حاصل کرنے کا وظیفہ :
سورہ بقرہ آیت نمبر 148 کسی گول کٹے ہوئے کپڑے پر لکھ کر اس پر بائیک کا نام لکھ کر چوری شدہ جگہ پر کسی میخ سے لٹکا دے بائک مل جائے گی ۔
٭ نوکری کا وظیفہ :
عشاء کی نماز کے بعد روزانہ یا وھاب 414 مرتبہ پڑھیں اور "یا وھاب ھل لی من نعمۃ الدنیا و الآخرۃ انک انت الوھاب" 112 مرتبہ پڑھے ۔
٭ نرینہ اولاد کا مجرب وظیفہ :
حمل ٹھہرنے کے بعد عورت کے پیٹ پر انگلی سے ستر بار گول دائرہ کھینچے اور ہر دائرہ کے ساتھ "یا متین " پڑھے۔ حمل کے شروع میں عورت کے داہنی پسلی پر سورہ الاعلی لکھے۔ جب بچہ پیٹ میں ہو تو اس کا نام محمد تجویز کرے ۔
٭ جیل سے قیدی کی جلد رہائی کا وظیفہ:
عصر یا مغرب کے بعد سوا لاکھ مرتبہ یہ آیت پڑھے "ربنا اکشف عنا العذاب انا مومنون"۔
٭ کینسر کا وظیفہ:
"اللھم صل علی محمد بعدد کل داء و دواء و بارک و سلم" بعد نماز فجر و مغرب دو مرتبہ اس طرح پڑھے کہ سو بار پڑھنے کے بعد سات مرتبہ سورہ فاتحہ بغیر آمین اور تین مرتبہ سورہ اخلاص اور پھر سو مرتبہ مذکورہ درود شریف پڑھے اور اس کا ایصال ثواب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، حضرت مولانا محمد ہاشمی سندھی ، اور حضرت مولانا یوسف لدھیانوی کو کرے اور مریض پر دم کرے اور پانی پر دم کر کے پلائے ۔
یہ دو چند نمونے ذکر کیا ہوں ، و گرنہ ان کے یہاں بڑی بڑی کتابیں وظائف پر موجود ہیں ۔
ان سب کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے ،بس اتنا سمجھ لیں کہ مسلمانوں کے بعض طبقات (اہل بدعت و اہل تصوف )میں ایک قسم کا دھندا ہے ، اس طبقہ کے اکثر علماء اس کام میں ملوث ہیں ۔
کورونا کے وقت پاکستان کے ایک بڑے عالم نے ٹی وی پر آ کر کورونا بھگانے کا وظیفہ بتایا تھا کہ تین مرتبہ سورہ فاتحہ ، تین مرتبہ سورہ اخلاص اور تین سو تیرہ مرتبہ حسبنا اللہ و نعم الوکیل پڑھو کورونا بھاگ جائے گا۔
انہوں نے رمضان المبارک 2022 کے موقع سے تیسرے رمضان کا خاص وظیفہ اس طرح بتایا کہ درود ابراہیم گیارہ بار، سورہ الم نشرح اکیس بار، سورہ قدر اکیس بار اور پھر درود ابراہیم گیارہ بار پڑھو ہر چھوٹا بڑا مرض دور ہو جائے گا ، اس قسم کے بہت سارے وظائف ان کی طرف سے منقول ہیں۔
یہ حضرت اپنے طبقہ میں شیخ الاسلام سےمشہور ہیں ، جب شیخ الاسلام کا یہ حال ہے تو ان سے نیچے کا کیا حال ہوگا؟
آخر کبھی آپ نے سوچا ہے کہ لوگوں کے یہ بناؤٹی وظیفے شریعت کی روشنی میں کیا حیثیت رکھتے ہیں ؟
شاید کم ہی لوگوں نے اس بارے میں سوچا ہو۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مولوی یا مولوی نما لوگوں نے ہی اس کام کو بڑھاوا دیا ہے جس سے عوام کو لگتا ہے کہ یہ صحیح عمل ہے ۔
پھر مولویوں میں جب بڑے بڑے مولوی ہر ہرکام کا الگ الگ وظیفہ گھڑ گھڑ کر لوگوں میں پھیلائے تو چھوٹے چھوٹے مولوی اور مولوی نما مولوی پھر کیوں اس میدان میں پیچھے رہیں گے ۔
گویا بناوٹی اور خود ساختہ وظائف مولوی کی ہی دین ہے مگر یہ بدعتی مولوی ہیں ، سلف کا یہ شیوہ نہیں رہا ہے اور آج نوبت یہ آگئی ہے کہ ایک عام آدمی بھی شہرت اور مال کے لالچ میں وظائف کی دُکان اور کاروبار چلا رہا ہے ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ یہ کاروبار دین کے نام پر چل رہا ہے اور اس سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ کتاب و سنت کا علم رکھنے والے بھی کچھ لوگ اس قسم کے وظائف بتانے لگے ۔
بعض علماء کی تقریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دین بس وظائف کا نام ہے، دین کا عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بیحد افسوس کی بات ہے کہ جو دین عمل کرنے کے لئے آیا تھا آج اسے محض وظیفہ کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے اور اس کے نام سے کمائی کی جار ہی ہے۔
ایسے میں غیور علماء کو آگے آکر اس قسم کے وظائف اور کاروبار پر روک لگانے کے لئے کوشش کرنی چاہئے یا کم ازکم عوام کو اس کی حقیقت سے روشناس کرانا چاہئے تاکہ بدعات و خرافات سے بچ سکے۔
آئیے میں آپ کو آج اس کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ مجرب وظیفہ کی کیا حیثیت ہے ؟
پہلے یہ جان لیں کہ مجرب وظیفہ کسے کہتے ہیں ۔
مجرب وظیفہ سے مراد کسی کا ایجاد اور تجربہ کیا ہوا وظیفہ یعنی کسی نے اپنی طرف سے کوئی وظیفہ ایجاد کیا ہو اس کو مجرب وظیفہ کہتے ہیں ۔
اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بناؤٹی وظیفہ کو مجرب وظیفہ کہا جاتا ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین میں کسی کو وظیفہ ایجاد کرنے کی اجازت ہے اور جو متعدد قسم کے مجرب وظائف بنائے گئے ہیں اور روز نئے نئے وظیفے بنائے جا رہے ہیں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
اس سوال کا جواب کئی جہت سے جاننے کی کوشش کریں
چنانچہ یہاں سب سے پہلی بات یہ جان لیں کہ دین اسلام، محمد ﷺ کے زمانہ میں ہی مکمل ہو گیا ،
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۔
( المائدہ : 3 )
ترجمہ :
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ ہمارا دین مکمل ہو چکا ہے اس لئے کسی کو دین میں کوئی بات داخل کرنے کی قطعی اجازت نہیں ہے ، جو کوئی بات دین میں اضافہ کی جائے گی وہ بدعت اور مردود ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:
من أَحْدَثَ في أَمْرِنَا هذا ما ليسَ فِيهِ، فَهو رَدٌّ ۔
(صحيح البخاري:2697،صحيح مسلم:1718،سنن أبي داود4606, سنن ابن ماجه:14,مشكوة المصابيح:140 )
ترجمہ :
جس نے ہمارے دین میں اپنی طرف سے کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو دین میں نہیں تو وہ مردود ہے۔
اسی حدیث سے جہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دین میں جو بات داخل کر دی جائے وہ مردود و باطل ہے، اس کو بدعت کہتے ہیں
اسی طرح ایک تیسری بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ تجربہ دین میں نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی معاملات میں تجربہ کیا جائے گا۔
دین پر ویسے ہی عمل کیا جائے گا جیسا کہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ نے چل کر دکھایا ہے۔
ان بنیادی تین باتوں کو جان لینے کے بعد اب یہ سمجھیں کہ وظیفہ ذکر ہے اور ذکر عبادت کی ایک قسم ہے لہذا عبادت کے باب میں جو ذکر جیسے وارد ہے اسی طرح کیا جائے گا۔
شریعت میں اذکار دو قسم کے ہیں ۔
پہلی قسم :
خاص ذکر :
بعض اذکار خاص ہوتے ہیں خواہ وہ وقت کے ساتھ خاص ہو یا مرض کے ساتھ خاص ہو یا ضرورت کے ساتھ خاص ہو یا تعداد کے ساتھ خاص ہو
جیسے صبح و شام کے اذکار،
کسی بیماری کی خاص دعا،
کسی خاص ضرورت مثلا قرض کی دعا اور
اسی طرح بعض ذکر میں تعداد متعین ہوتی ہے مثلا « لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ » دن میں سو مرتبہ پڑھنا جس کی بڑی فضیلت وارد ہے ۔
دوسری قسم :
عام ذکر :
وہ تمام اذکار جو عام ہیں کسی خاص موقع سے نہیں ہیں وہ عام اذکار ہیں ان کو آپ کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں حتی کہ خاص اذکار بھی عام حالات میں کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں کیونکہ ذکر کا مقصد اللہ کی بڑائی بیان کرنا ہے ۔
اب گزشتہ سوال کا جواب یہ ہوا کہ دین میں وظیفہ بنانے اور ایجاد کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہے ، یہ دین کا معاملہ ہے اور دین مکمل ہو چکا ہے ۔
گویا مجرب وظیفہ اسلام کی نظر میں بدعت ہے کیونکہ یہ وحی الہی نہیں ہے بلکہ انسانوں کی طرف سے ایجاد کردہ ہے۔
آپ ذرا اندازہ لگائیں کہ مصائب و مشکلات جیسے آج ہیں کل بھی موجود تھے ، عہد صحابہ میں بھی موجود تھے ، کیا صحابہ کرام اپنی طرف سے الگ الگ کام کا الگ الگ وظیفہ ایجاد کیا کرتے تھے ۔
فلاں کام کے لئے فلاں آیت یا فلاں ذکر 313 مرتبہ فلاں وقت میں پڑھو ؟
کیا آپ نے کسی صحابی کا ایسا کوئی عمل سنا یا پڑھا ہے ؟
آپ نے ایسا نہیں سنا یا پڑھا ہوگا
کیونکہ صحابہ کرام ایسا کرتے ہی نہیں تھے ۔ وہ اسی طرح سے ذکر کرتے تھے جیسے نبی ﷺ نے تعلیم دی ہے ۔
آخر سب سے پہلے صحابہ نے ہی نبی ﷺ سے دین سیکھا پھر دوسروں کو سکھایا، تو صحابہ نے دین کو عین اسی طرح پہنچایا جیسا کہ نبی ﷺ سے سیکھا ، اپنی طرف سے کوئی نہ ذکر ایجاد کیا اور نہ ہی کسی ذکر کی کوئی تعداد متعین کی ۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سونے کے وقت ایک ذکر جو رسول اللہ ﷺ نے سکھائی ہے اس ذکر میں ایک صحابی نے لفظ "نبی" کی جگہ رسول پڑھ دیا تو نبی ﷺ نے منع فرمایا کہ نبی کہو۔ وہ حدیث دیکھیں اور عبرت حاصل کریں ۔
نبی ﷺ نے سونے کے وقت ایک دعاء سکھائی ہے وہ یہ ہے :
« اللهم أسلمت وجهي إليك، و فوضت أمري إليك، و ألجأت ظهري إليك، رغبة و رهبة إليك، لا ملجأ و لا منجا منك إلا إليك، اللهم آمنت بكتابك الذي أنزلت، و بنبيك الذي أرسلت »
(بخاری:247، مسلم:2710)
اس دعا کے جملہ"وبنبيك الذي أرسلت" میں نبی کی جگہ صحابی نے رسول یعنی « و رسولك » کا لفظ کہہ دیا تو نبی ﷺ نے فرمایا اس طرح کہو : "و بنبيك الذي أرسلت"۔
جب ایک ذکر میں کوئی صحابی نبی کی جگہ رسول کا لفظ استعمال نہیں کر سکتا ہے اور یہ ممانعت رسول اللہ ﷺ سے وارد ہے پھر کسی عالم یا عام آدمی کو اپنی طرف سے وظیفہ گھڑنے یا وظیفہ کی تعداد متعین کرنے یا کوئی وقت خاص کرنے یا کوئی خاص فضیلت بیان کرنے یا کسی خاص ضرورت و حاجت سے جوڑنے کی کیسے اجازت ہو سکتی ہے ؟
اس لئے جان لیں کہ کوئی عالم ہو یا غیر عالم ان کو اجازت نہیں ہے کہ وہ
٭ کسی آیت یا ذکر یا دعاء کو اپنی طرف سے کسی حاجت کے لئے خاص کرے جس کو شریعت نے خاص نہیں کیا ہو۔
٭ کسی آیت یا ذکر یا دعاء کی تعداد اپنی طرف سے متعین و مقرر کرے جو تعداد شریعت نے نہ بتلائی ہو۔
٭ کسی آیت یا ذکر یا دعاء کا وقت اپنی طرف سے متعین کرے جو وقت شریعت نے متعین نہ کیا ہو۔
٭ مذکورہ تین باتوں کے علاوہ بعض ایسے بھی کلمات ذکر کے طور پر کہے جاتے ہیں جو اصلا ذکر ہیں ہی نہیں جیسے یا اللہ ، الا اللہ ، یا ودود، یا وھاب، یا لطیف، یا متین وغیرہ ۔
اس قسم کے اذکار رسول اللہ ﷺ سے وارد نہیں ہیں ۔
ذکر اس قسم کا ہوتا ہے ، سبحان اللہ ، الحمد للہ ، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ ، لاحول و لا قوۃ الا باللہ وغیرہ۔۔
یعنی ذکر ایک ایسا کلمہ ہے جس سے کوئی ایک اہم بات سمجھی جاتی ہے
جیسے ہم اللہ اکبر کہتے ہیں تو اس سے اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہیں جب کہ اللہ اللہ یا الا اللہ میں بات مکمل نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کا ذکر شریعت میں وارد ہے ۔
٭ کبھی کبھی لوگ کسی ذکر کو ایک لاکھ مرتبہ مل مل کر آپس میں تقسیم کرتے پڑھتے ہیں مثلا ایک لاکھ مرتبہ درود دس افراد مل کر دس دس ہزار کر کے پڑھے ،
اس طرح اجتماعی صورت میں ذکر کرنا بھی بدعت ہے کیوں کہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
٭ کسی ذکر اور وظیفہ کو لکھ کر جسم میں کہیں لٹکانا شرک ہے کیوں کہ نبی ﷺ نے ہر قسم کے تعویذ کو شرک قرار دیا ہے ۔
٭ کسی عورت یا مرد کے جسم پر قرآن لکھنا قرآن کی بے حرمتی ہے ، العیاذ باللہ ۔
عالمی ادارہ کیسےحاملہ عورت کی پسلی پر سورہ الاعلی لکھنے کی تعلیم دیتا ہے اور کیسے پیٹ پر ستر مرتبہ گول دائرہ بنانے اور اس پر یا متین پڑھنے کو کہتا ہے ۔
دراصل ایسی ہی تعلیمات کی وجہ سے سماج میں ایمان فروش عاملین وافر مقدار میں پیدا ہو گئے جنہوں نے رقیہ کے نام پر عورتوں کی عفت و عصمت سے کھلواڑ کیا حتی کہ عورتوں کی شرمگاہ پر بھی اشیاء رکھی جاتی ہیں ، الحفیظ و الامان ۔
٭ کسی مجرب وظیفہ کو انجام دینے سے اگر کچھ فائدہ نظر آئے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسی خاص وظیفہ سے فائدہ ہوا ہے بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ فائدہ پہنچانے والا اللہ ہے ، وہ بنا مانگے بھی دیتا ہے ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ ہر قسم کا مصنوعی اور مجرب وظیفہ بدعتی ہے اور بدعتی وظیفہ شریعت کی نظر میں مردود و باطل ہے لہذا آپ لوگ اس قسم کے وظائف سے دور رہیں ۔
بدعت پر عمل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے ، بھلائی اس طریقہ میں ہے جس کو شریعت نے مقرر کیا ہے ۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ جیسے ہم اپنی زبان میں اللہ سے دعا مانگ سکتے ہیں اسی طرح اپنی زبان میں بھی اللہ کی بڑائی بیان کر سکتے ہیں ، اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے لیکن کسی مقصد اور ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مخصوص وظیفہ ایجاد کرنا، یا وظیفہ میں اپنی طرف سے تعداد اور وقت متعین کرنا بے دینی ، جہالت اور بدعت ہے ۔
آئیے آپ کو پریشانی کا شرعی علاج و حل بتاتا ہوں ۔
آپ کسی بھی معاملہ میں پریشان ہیں یا بڑی سے بڑی مصیبت میں آپ مبتلا ہیں تو پہلے ایمان درست کریں، گزشتہ برے اعمال سے توبہ کریں اور اللہ سے تعلق جوڑیں اور اس کی بندگی کریں جس کے لئے اس نے ہمیں پیدا کیا ہے ، ساتھ ہی اذکار بھی کرتے رہیں، دعاء بھی کریں خصوصا افضل اوقات میں اور دنیاوی اسباب بھی اپنائیں ۔
اس طرح سے ہم شریعت کے دائرے میں مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں ۔
آج ہمارے اعمال بد سے بدتر ہیں، پانچ کی نماز تک صحیح سے ادا نہیں کرتے اور دن و رات نہ جانے کتنے کفریہ عمل اور معصیت کے کام کرتے ہیں نتیجتا ہم مشکلات کا شکار ہوتے ہیں
تو مشکل سے نکلنے کے لئے ان اسباب کو دور کرنا پڑے گا جن کی وجہ سے مصیبت آئی ہے تبھی مصیبت کا صحیح علاج ہوگا ورنہ ایک وظیفہ پڑھنے سے ممکن ہے کچھ جھوٹی تسلی مل جائے مگر نجات تو بالکل نہیں ملے گی خصوصا اخروی نجات۔
دین پرعمل کرنے والوں کو پریشانی لاحق ہوتی ہے اور اللہ تعالی نے جنت کو پریشانیوں سے گھیر رکھا ہے اس جنت میں داخل ہونے کے لئے دنیا میں ہی پریشانی برداشت کرنی ہے اس لئے اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھی جائے ۔
دین قرآن اور حدیث کا نام ہے ، اس پورے دین پر چلنا ہمارا کام ہے ۔ اسی پر چل کر ہمیں دنیا میں بھی اللہ کی طرف سے نجات و نصرت ، رحمت و شفقت اور فوز و ترقی ملتی ہے اور آخرت میں بھی ملے گی ۔
* ےےےےےےےے *
41 مرتبہ یا باطن وظیفہ صحیح ہے ⸮
سوال :
ایک آدمی کہتا ہے کہ 41 مرتبہ یا باطن پڑھنے سے پیٹ کی ساری بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں ، کیا یہ بات صحیح ہے ⸮ ۔
جواب :
نبی کریم ﷺ اس کائنات میں بعد خدا سب سے بڑے خیرا خواہ اور سب کے خیر خواہ تھے ، اس کے باوجود اس قسم کے وظائف نہ تو آپ ﷺ نے پڑھے اور نہ تو صحابہ کو پڑھنے کو کہا اور نہ ہی آپ ﷺ نے اس کی تعلیم دی ، دین امام الانبیاء ﷺ پر ان کی زندگی میں مکمل ہو چکا ہے ، کوئی کمی رہنے نہیں دی گئی کہ مزید اس میں کچھ وظائف ، عبادات وغیرہ ہم ایجاد کرتے بیٹھیں اور بائیں طور اللہ و اس کے رسول ﷺ کے سکھائے ہوۓ وظائف اعمال و عبادات کو ناقص ، ادهورا و کمتر باور کرائیں اور یہ کہ دیکھو ہم ان سے زیادہ پہنچے ہوۓ ہیں نعوذ باللہ ۔ ایسے وظائف بتانے والوں کو اپنے اس عمل سے توبہ کرنا چاہئے اگر وہ واقعی اللہ اور اس کے رسول کو ماننے والے ہیں ۔
ہم کیا ہیں ، ہماری تکالیف کی حیثیت و وقعت کیا ہے ⸮ انبیاء ان کے حواری ، صحابہ پر ہم سے زیادہ بلکہ سب سے زیادہ تکالیف و آزمائشیں آئیں لیکن وہ اس طرح کے وظئف نہیں اختیار کئے ، پھر کس طرح کے اختیار کئے صحیح احادیث میں مذکور ہیں ان کو جانیں اور اپنائیں ۔
سلفی علماء میں بھی کچھ علماء نے اس طرح کے وظائف کو کچھ احادیث سے استدلال کر جائز قرار دیا ہے جو کہ دیگر سلفی محققین کی تحقیق کے مطابق محل نظر و غیر درست ہے ۔
و اللہ اعلم
طالب علم
عزیر ادونوی
جوائین ان
۔