پیر، 7 جون، 2021

جلسہ ‏کی ‏دعاء ‏صحیح ‏یا ‏ضعیف ‏ ‏مختلف ‏علماء

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
۵*۵*۵*۵*۵*۵*۵*۵*۵*۵

تحقیق دعاء "اللهم اغفر لي وارحمني واهدني وعافني وارزقني" 

تحقیق دعاء بین سجدتین 

جلسہ کی دعاء کی تحقیق 

دو سجدوں کے درمیان کی دعاء کی تحقیق 

؛~~~~~~~~~~~؛
؛~~~~~~~~~~~؛

۱. 
سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

نماز میں دعا بین السجدتین کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟ 
 اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاجْبُرْنِیْ وَارْفَعْنِیْ وَعَافِنِیْ وَاھْدِنِیْ وَارْزُقْنِیْ
’’ اے اللہ! مجھے بخش دے ، مجھ پر رحم فرما اور میرے نقصان پورے کر اور مجھے بلندی عطا فرما، مجھے ہدایت دے، مجھے عافیت سے رکھ اور مجھے روزی عطا کر۔‘‘ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے صفۃ الصلاۃ میں اس دعاء کو نقل کرنے کے بعد تعلیق میں لکھا ہے: ( ابو داؤد والترمذی و ابن ماجۃ والحاکم وصححہ ووافقہ الذہبی )

فتاویٰ علمائے حدیث
کتاب الصلاۃ،  جلد 1 
محدث فتویٰ 


(467) دو سجدوں کے درمیان کی دعا کی اسنادی حیثیت | اردو فتویٰ 

https://urdufatwa.com/view/1/2752/%D8%AF%D9%88%20%D8%B3%D8%AC%D8%AF%D9%88%DA%BA


؛~~~~~~~~~~~؛


۲. 
سوال 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

(( اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاھْدِنِیْ وَعَافِنِیْ وَارْزُقْنِی )) 4 [ابو داوٗد ، ترمذی ] اس کی سند حبیب بن ابی ثابت کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ تاہم اسے حاکم و ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ [بحوالہ صلوٰۃ الرسول  صلی الله علیہ وسلم صادق سیالکوٹی رحمۃ اللّٰہ] تخریج حافظ زبیر علی زئی ۔ کیا یہ روایت صحیح ہے، اگر صحیح نہیں تو پھر کون سی دعاء رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نماز میں جلسے کی حالت میں پڑھتے تھے؟ 
--------------
4 ابو داوٗد ؍ ابواب الرکوع والسجود ؍ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ 
 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

 رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان (( رَبِّ اغْفِرْلِیْ ، رَبِّ اغْفِرْلِیْ )) پڑھتے۔ 5 
--------------
5 ابو داوٗد ؍ الصلاۃ ؍ باب الدعاء بین السجدتین ، ترمذی ؍ الصلاۃ ؍ باب ما یقول بین السجدتین اسے حاکم ، ذہبی ، نووی اور شیخ البانی رحمہم اللہ اجمعین نے صحیح کہا ہے۔ 

فتاویٰ علمائے حدیث، جلد 04 


(249) دعاء رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نماز میں جلسے کی حالت میں پڑھتے تھے؟ | اردو فتویٰ 

https://urdufatwa.com/view/1/4680/%D8%AF%D9%88%20%D8%B3%D8%AC%D8%AF%D9%88%DA%BA


؛~~~~~~~~~~~؛


۳. 
سوال 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

 اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاھْدِنِیْ وَعَافِنِیْ وَارْزُقْنِی (ابو داؤد ، سنن الترمذی) اس کی سند حبیب بن ابی ثابت کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ تاہم اسے حاکم و ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ [بحوالہ صلوٰۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم صادق سیالکوٹی رحمۃ اللّٰہ] تخریج حافظ زبیر علی زئی ۔ کیا یہ روایت صحیح ہے، اگر صحیح نہیں تو پھر کون سی دعاء رسول اللہ نماز میں جلسے کی حالت میں پڑھتے تھے؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان «رَبِّ اغْفِرْلِیْ ، رَبِّ اغْفِرْلِیْ» پڑھتے۔ (سنن ابی داؤد)

فتاویٰ علمائے حدیث
کتاب الصلاۃ، جلد 1 
محدث فتویٰ 

(466) دو سجدوں کے درمیان کی دعا | اردو فتویٰ 

https://urdufatwa.com/view/1/2751 


؛~~~~~~~~~~~؛


۴. 
سوال 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

دو سجدوں  کے درمیان  مشہور دعا "الهم  اغفرلي  وارحمني  واهدني  وعافني وارزقني " یہ حدیث صحیح  ہے یا ضعیف؟  اگر ضعیف ہے تو کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ 

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس روایت  کی سند  تو بے  شک ضعیف ہے  لیکن اس  دعا  کا ایک قوی  شاہد صحیح  مسلم  (2697) میں  موجود  ہے لہذا اس دعا پر  عمل صحیح  ہے۔ علاوہ  ازیں دو سجدوں  کے  درمیان " رب اغفرلي  رب  اغفرلي  پڑھنا  بھی ثابت  ہے ۔

دیکھئے سنن ابی داود (874) والنسائی (1070)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب 

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) 
ج1، ص476 
محدث فتویٰ 

دو سجدوں کے درمیان دعا کی تحقیق | اردو فتویٰ 

https://urdufatwa.com/view/1/13456 


؛~~~~~~~~~~~؛

۵. 
سوال 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

صلوۃ النبی نئے ایڈیشن  میں جلسہ  کی دعا "رب اغفرلي  رب اغفرلي  ہے جب  کہ   پرانے  ایڈیشن  میں (نماز نبوی  ) میں  لمبی دعا ہے. اس لمبی  دعا  کی شرعی  حیثیت  تحریر  فرمائیں. 

 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

"اللهم  اغفرلي وارحمني  واهدني وعافني  وارزقني" والی دعا کی سند  حبیب  بن ابی  ثابت  کی تدلیس کی وجہ سے  ضعیف  ہے تاہم  برادر  محترم  مولانا غلام  مصطفی ظہیر کی توجہ  دلانے  پر اس کا شاہد  مل گیا۔ یہی دعا "من وعن " رسول اللہﷺ نے ایک شخص  کو نماز میں پڑھنے کا حکم دیا ۔ (صحیح  مسلم  کتاب الذکر  والدعاء باب  فضل  التھلیل  والتسبیح  والدعاءص 2697)

اگر چہ اس  میں سجدوں  کے درمیان  کی صراحت نہیں   ہے مگر نماز کے عموم  میں سجدوں  کا درمیان  بھی شامل  ہے لہذا حبیب  بنابی ثابت والی روایت  اس شاہد  کی وجہ سے  حسن  ہے ۔ 
(شہادت  ،اگست  2001) 

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب 
فتاوی علمیہ 
جلد1۔ كتاب الصلاة، صفحہ 476 
محدث فتویٰ 


(248) دو سجدوں کے درمیان دعا | اردو فتویٰ 

https://urdufatwa.com/view/1/21141/%D8%AF%D9%88%20%D8%B3%D8%AC%D8%AF%D9%88%DA%BA


؛~~~~~~~~~~~؛


۶. 
سوال 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

ایک عالم صاحب کراچی میں پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ دو سجدوں کے درمیان اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی …الخ۔ دعا والی حدیث ضعیف ہے اس کو ترک کر دینا چاہیے۔ اصل حقیقت کیا ہے؟ براہ کرم تفصیل سے وضاحت فرما دیں۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

یہ روایت ترمذی، ابودائود اور ابن ماجہ وغیرہ میں ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی حبیب بن ابی ثابت ہے جو مدلس ہے۔ جملہ کتب میں کسی محدث نے اس کی تحدیث یا سماع کی صراحت نہیں کی۔ اس لیے حدیث ضعیف ہے۔ نسائی، ابودائود اور ابن ماجہ وغیرہ میں ’ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ‘ کے الفاظ ہیں۔ ابن ماجہ میں دو دفعہ کی تصریح ہے۔ یہ روایت صحیح ہے لہٰذا بَینَ السَّجدَتَینِ ان الفاظ کو پڑھنا چاہیے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! کتاب القول المقبول (ص ۴۴۱)

یہ بھی یاد رہے، کہ مسلک حقہ سے لگائو محض جذباتی انداز سے نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کی اساس کتاب و سنت پر ہونی چاہیے۔ جو اصحاب الحدیث کا امتیازی نشان ہے۔ واللّٰہ ولی التوفیق۔ 

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب 

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی 
کتاب الصلوٰۃ، صفحہ 555 
محدث فتویٰ 


(642) دو سجدوں کے درمیان اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی …الخ۔ دعا والی حدیث کا حکم | اردو فتویٰ 

https://urdufatwa.com/view/1/24652/%D8%AF%D9%88%20%D8%B3%D8%AC%D8%AF%D9%88%DA%BA


؛~~~~~~~~~~~؛


۷. 
سوال 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

میں نے الاعتصام (۵۳؍۳۰) میں آپ کے جوابات کا مطالعہ کیا، دو سجدوں کے درمیان جلسے کی دعا کے بارے میں پڑھا کہ وہ حدیث ضعیف ہے۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ سنن ابی دائود (رقم الحدیث ۸۵۰) میں حدیث کے الفاظ یوں ہیں: 

’ اَللّٰهُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَ عَافِنِی وَاهدِنِی وَارزُقنِی۔‘ 

اور یہ حدیث جیسے کہ آپ نے بتایا کہ حبیب بن ابی ثابت کے مدلس ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس کی سند میں کامل بن العلاء ابو العلاء راوی بھی صدوق یخطئی ہے۔ لیکن الکلم الطیب میں البانی رحمہ اللہ نے جس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اس کی الفاظ یوں ہیں: 

’ اَللَّهُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَاهِدنِی وَاجبُرنِی وَعَافَانِی وَارزُقنِی۔ ‘ (الرقم :۹۷) 

صاحب القول المقبول کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن بھی نہیں ہے اور نہ جید ہے اب میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ: 

۱۔         یہ دونوں حدیثیں ایک ہی سند سے ہیں یا مؤخر الذکر دوسری سند سے ہے؟ 

۲۔        اگر دوسری سند سے مروی ہے تو اس کا حکم کیا ہے؟ 

۳۔        کیا یہ دونوں حدیثیں ایک ہی ہیں اور الفاظ کی تبدیلی راویوں کی طرف سے ہے؟ 

۴۔        اگر حدیث ضعیف ہے تو حاکم، ذہبی، نووی، عبدالقادر الارناؤوط اور البانی رحمہم اللہ  نے اسے صحیح اور مبارکپوری رحمہ اللہ  نے حسن کیوں کہا ہے؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

الاعتصام کے ایک شمارہ میں ’’جلسہ بین السجدتین‘‘ میں پڑھی جانے والی معروف روایت کو میں نے ضعیف قرار دیا۔ جن پر آپ کے استفسارات کی تفصیل اور جوابات درج ذیل ہیں۔ 

آپ نے سنن ابی دائود سے الفاظ ِحدیث نقل کرنے کے بعد الکلم الطیب سے حدیث کے الفاظ نقل کیے جو قدرے مختلف ہیں۔ 

اول الذکر تین سوالوں کا جواب یہ ہے کہ مختلف کتب میں وارد یہ حدیث ایک ہی طریق سے مروی ہے۔ تفصیلی تخریج کے لیے القول المقبول (۴۴۰ - ۴۴۱) کی طرف رجوع فرمائیں! یاد رہے کہ ’’الکلم الطیب‘‘ حدیث کی مستقل کتاب نہیں، کہ اس میں مندرجہ روایات اپنی سند سے مروی ہوں، بلکہ حدیث کی دوسری مستقل کتب سے روایات نقل کی گئی ہیں۔ اس حدیث میں الفاظ کا قدرے اختلاف راویوں کی طرف سے ہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ حدیث کا ’’مَخرَج‘‘ ایک ہی ہے۔

آخری سوال کا جواب یہ ہے، کہ ائمہ مذکورین نے حبیب بن ابی ثابت کی تدلیس کی طرف توجہ نہیں کی، حبیب بن ابی ثابت چونکہ ’’صحیحین‘‘ کا راوی ہے۔ بظاہر اسی لیے اس کی تدلیس کی طرف التفات نہ ہوسکا۔ 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’تقریب‘‘ میں اس کی توثیق ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے : 

’ وَ کَانَ کَثِیرَ الاِرسَالِ، وَالتَّدلِیسِ۔‘ 

ابن عجمی نے بھی اسے ’’التبیین لاسماء المدلسین‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے ’’تعریف اہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس‘‘ میں اسے طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے، اور اس طبقہ کے مدلّسین کے متعلق محققین کی راجح رائے یہ ہے، کہ جب یہ تحدیث کی صراحت کریں (یعنی حَدَّثَنَا کہیں) تو قابلِ حجت ہیں۔ وگرنہ نہیں۔ زیربحث روایت کے جمیع طرق میں حبیب بن ابی ثابت عنعنہ (عَن عَن کے الفاظ) سے روایت کرتے ہیں۔ لہٰذا بموجب اصول محدثین یہ روایت ضعیف ہےـ اگرچہ بعض اہلِ علم نے اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ ہذا ماعندی واللہ اعلم۔ 

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب 

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی 
کتاب الصلوٰۃ، صفحہ 556 
محدث فتویٰ 


(645) کیا دو سجدوں کے درمیان جلسے والی دعا ضعیف ہے؟ | اردو فتویٰ 

https://urdufatwa.com/view/1/24655/%D8%AF%D9%88%20%D8%B3%D8%AC%D8%AF%D9%88%DA%BA


؛~~~~~~~~~~~؛

۸. 
سوال 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

الاعتصام جلد ۵۳ کا شمارہ نمبر ۴۰ زیر نظر ہے۔ اس شمارے کے صفحہ نمبر ۷ پر ’’بین السجدین‘‘ کی معروف دعا ’اَللّٰهُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَاھدِنِی وَ عَافِنِی وَارزُقنِی" کے بارے آپ نے تحریر فرمایا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’روایت ہذا حبیب بن ابی ثابت کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔‘‘ (الاعتصام ۵۳؍ ۴۰ مجریہ ۱۹؍ اکتوبر ۲۰۰۱ء ) 

 لیکن مذکورہ دعا صحیح مسلم سے ثابت ہے۔ 

 "عَن اَبِی مَالِكِ الاَشجَعِیِّ عَن اَبِیهِ قَالَ: کَانَ الرَّجُلُ اِذَا اَسلَمَ عَلَّمَهُ النَّبِیَّﷺ الصَّلٰوةَ ثُمَّ اَمَرَهُ اَن یَدعُوا بِهٰؤلَاءِ الکَلِمَاتِ : اَللّٰهُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَاهدِنِی وَ عَافِنِی وَارزُقنِی" 
صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعا، بَابُ فَضْلِ التَّهْلِیلِ وَالتَّسْبِیحِ وَالدُّعَاءِ، رقم:۲۶۹۷ 
 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

بلاشبہ یہ دعا ’’صحیح مسلم (۲؍ ۳۴۵) میں ثابت ہے۔ لیکن عمومی دعا کے طور پر۔ جس حدیث کا ضعف بیان ہوا ہے، وہ دو سجدوں کے درمیان ہے۔ 

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب 

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی 
کتاب الصلوٰۃ، صفحہ 556 
محدث فتویٰ 


(643) بین السجدتین کی دعا | اردو فتویٰ 

https://urdufatwa.com/view/1/24653/%D8%AF%D9%88%20%D8%B3%D8%AC%D8%AF%D9%88%DA%BA


؛~~~~~~~~~~~؛

.
.
.

ختم شد 

جمع و ترتیب 
سید محمد عزیر ادونوی 

.