بدھ، 28 جولائی، 2021

تجارت ‏میں ‏منافع ‏کی ‏حد ‏ہے ‏یا ‏نہیں؟ ‏محدث ‏فتوی ‏

.
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
>)>)>)>)>)>)>)>)>)> 

تجارت میں منافع کی حد؟ 

محدث فتوی 

تخریج 
سید محمد عزیر ادونوی 

~~~~~~~~~~~~~~؛


سوال 
 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا شریعت نے تجارت میں منافع (Profit) کی کوئی حد مقرر کی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کس حد تک منافع لیا جا سکتا ہے؟یا شریعت نے اس معاملے میں تاجر کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق منافع کی شرح مقرر کرلے؟ اُمید ہے کہ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں گے۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
و علیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! 

الحمد لله، و الصلاة و السلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

بلاشبہ شریعت کی نظر میں دولت کمانے اور منافع حاصل کرنے کے لیے تجارت ایک بہترین اور معزز پیشہ ہے۔ قرآن کی متعدد آیتوں اور صحیح حدیثوں میں تجارت کا تذکرہ اچھے (Profit) میں ہوا ہے۔ بلکہ قرآن کی مختلف آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے منافع کو "فَضْلِ اللَّهِ " (اللہ کا فضل) قراردیا ہے: 

﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلو‌ٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ وَابتَغوا مِن فَضلِ اللَّهِ ... ﴿١٠﴾... 
سورة الجمعة 

’’پس جب نماز ختم ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔‘‘ 

﴿وَءاخَرونَ يَضرِبونَ فِى الأَرضِ يَبتَغونَ مِن فَضلِ اللَّهِ...﴿٢٠﴾... 
سورة المزمل 

’’اور کچھ دوسرے ہیں جو زمین میں سفر کرتے ہیں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے۔‘‘

حج جیسی عظیم عبادت کے دوران بھی اللہ نے اس فضل کو کمانے سے منع نہیں کیا ۔۔۔ فرماتا ہے: 

﴿لَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَبتَغوا فَضلًا مِن رَبِّكُم...﴿١٩٨﴾... 
سورة البقرة 

’’تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو (یعنی حج کے دوران بھی)‘‘ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 

"أَلَا مَنْ وَلِيَ يَتِيمًا لَهُ مَالٌ فَلْيَتَّجِرْ فِيهِ وَلَا يَتْرُكْهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الصَّدَقَةُ" 
(ترمذی) 

’’سنو جب کوئی شخص کسی ایسے یتیم کا سرپرست بنایا جائے جس کے پاس مال و دولت ہے تو اسے چاہیے کہ اس مال میں تجارت کرے اور اسے یونہی بغیر تجارت کے نہ چھوڑ دے کیونکہ اس طرح چھوڑنے سے اس کا سارا مال زکوٰۃ کھا جائے گی۔‘‘ (۱) 

جس مال میں تجارت نہ کی جائے اور ہر سال اس میں زکوٰۃ ادا کی جائے تو دھیرے دھیرے یہ بغیر کسی منافع کے ختم ہو جائے گا۔ یہ حدیث تجارت کے سلسلے میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ وہ یہ کہ کسی بھی تجارت کا کم از کم یہ مقصد ہونا چاہیے کہ اس سے نفع حاصل کیا جائے تاکہ اس نفع سے انسان کی ضرورتیں پوری ہوں۔ نان و نفقہ کا انتظام ہو جائے۔ اور اس نفع کی وجہ سے اصل سرمایہ میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے نہ کہ زکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے دھیرے دھیرے یہ اصل سرمایہ بھی ختم ہوجائے۔

قرآن و سنت کے تفصیلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے منافع کی کوئی شرح متعین نہیں کی ہے۔ نہ دس فیصد نہ بیس فیصد اور نہ اس سے زیادہ یا کم۔ شاید اس کی حکمت و مصلحت یہ ہے کہ ہر زمانے اور ہر علاقے کے لیے منافع کی ایک ہی شرح متعین کرنا عدل و انصاف کے منافی ہے، کیونکہ کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کی کھپت (Consurning) بہت تیز ہوتی ہے۔ اور ان کی فروخت جلد جلد ہوتی ہے۔ مثلاً کھانے پینے کی چیزیں۔ کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کی کھپت بہت سست اور کبھی کبھی ہوتی ہے۔ مثلاً کار، فرنیچر اور کپڑے وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں طرح کے سامان تجارت میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ جس سامان تجارت کی کھپت جلد اور تیز ہوتی ہے ان میں منافع کی شرح کم ہونی چاہیے۔ جب کہ دوسری قسم کے سامان تجارت میں یہ شرح زیادہ ہوسکتی ہے۔ 

سامان تجارت کبھی نقد بیچے جاتے ہیں اور کبھی اُدھار۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہو سکتی. نقد خرید و فروخت میں منافع کی شرح اُدھار کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ 

بعض دکان دار چھوٹے ہوتے ہیں اور کم سرمایے سے تجارت کرتے ہیں۔ جب کہ بڑے دکان دار بڑے سرمایہ سے تجارت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بڑا سرمایہ دار بہت کم منافع لے کر بھی فائدے میں رہے گا۔ جب کہ چھوٹا دکان دار کم منافع لے کر اپنی تجارت کو فروغ نہیں دے سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ نفع لے۔ 

کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کا شمار ضروری اور بنیادی اشیاء صرف (Essential) (Goods اور کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کاشمار سامان تعیش (Luxury Goods) میں ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں قسم کے سامان تجارت میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ بنیادی اشیاء غریب لوگ بھی خریدتے ہیں اس لیے ان میں منافع کی شرح بہت کم ہونی چاہیے۔ جب کہ سامان تعیش میں منافع کی شرح زیادہ بھی کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ضروری اور بنیادی اشیاء صرف مثلاً غلہ وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے ان میں بہت زیادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو غریبوں کے لیے تباہ کن ہے۔

بعض سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جو صرف ایک واسطے (Mediator) کے بعد بازار میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے ان میں منافع کی شرح کم ہوتی ہے۔ جب کہ بعض سامان تجارت فیکٹری سے نکل کر کئی واسطوں سے ہوتے ہوئے بازار میں آتے ہیں۔ اس قسم کے سامان تجارت میں پہلے سامان کے مقابلے میں منافع کی شرح زیادہ ہونی چاہیے۔ 

غرض کہ منافع کی شرح متعین کرنے میں بہت سارے عوامل کارفرما ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ 

عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ منافع کی شرح متعین کرتے وقت ان سب عوامل کی رعایت کی جائے اگر شریعت نے تمام حالات اور تمام طرح کے سامان تجارت میں منافع کی ایک ہی شرح متعین کردی ہوتی تو یہ بات عدل و انصاف کے منافی ہوتی۔ شریعت نے تاجر کے ضمیر پر یہ بات چھوڑ دی ہے کہ وہ ان سب عوامل کی رعایت کرتے ہوئے اور معاشرہ میں مروجہ اصول کو دیکھتے ہوئے منافع کی کوئی شرح متعین کر لے۔ وہ ایسی شرح متعین کرے جس سے نہ اسے نقصان ہو اور نہ خریداروں کو، کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ کیونکہ اسلامی معاشیات میں اخلاقیات کا بڑا عمل دخل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بالکل برعکس کہ جس میں دولت کمانے کی خاطر یہ طریقہ کار جائز ہے چاہے یہ دولت سود سے آتی ہو یا ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ یا شراب اور دوسری مضر اشیاء فروخت کر کے۔ اسلامی معاشیات میں ہر وہ طریقہ تجارت حرام ہے جس میں کسی کی حق تلفی ہوتی ہو یا جو اخلاقیات کے منافی ہو۔ 

اسلام نے اگرچہ منافع کی کوئی شرح متعین نہیں کی ہے لیکن اخلاقیات کی پابندی ہرحالت میں ضروری ہے۔ 

بعض حنفی علماء نے سو یا اس سے زائد فیصد منافع حاصل کرنے کو غلط قرار دیا ہے۔ جب کہ بعض مالکی علماء نے تیس پینتیس فیصد سے زیادہ نفع کو غلط قرار دیا ہے۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عمل سے ثابت ہے کہ انھوں نے کبھی سو فیصد اور کبھی اس سے بھی زیادہ نفع لیا ہے۔ ان لوگوں کا عمل اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ بعض صورتوں میں سو یا اس سے زیادہ فیصد نفع لیا جا سکتا ہے بشرط یہ کہ کسی پر ظلم نہ ہو رہا ہو یا کسی کی حق تلفی نہ ہو رہی ہو۔ 

میں چند ایسے واقعات پیش کررہا ہوں جن میں سو فیصد یا اس سے بھی زیادہ نفع لینے کا تذکرہ موجود ہے۔ 

1۔ 
بخاری، ترمذی اور مسند احمد وغیرہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دینار دے کر بھیجا کہ وہ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بکری خرید لیں۔ عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بکری والے سے مول تول کیا اور ایک دینار میں دو بکریاں خرید لیں۔ وہ دونوں بکریاں لے کر آ رہے تھے کہ راستے میں انھیں ایک شخص مل گیا اس نے دونوں بکریوں میں سے ایک بکری ایک دینار کے عوض خرید لی۔ (گویا حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سو فیصد نفع لے کر بکری فروخت کی) پھر عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ یہ لیجئے ایک بکری اور ساتھ میں ایک دینار۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے دریافت کیا کہ عروہ تم نے یہ کیسے کیا؟ عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا واقعہ بیان کردیا۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی تجارت میں برکت کی دعادی۔ ( ۲) 

2۔ 
سو فیصد سے زیادہ نفع لینے کا واقعہ بخاری شریف میں ذرا تفصیل کے ساتھ درج ہے۔ اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن العوام جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور جنھیں دنیا ہی میں جنت کی خوش خبری دے دی گئی تھی۔ انھوں نے مدینہ کے مضافات میں ایک زمین ایک لاکھ ستر ہزار درہم میں خریدی۔ ان کی شہادت کے بعد ان کا قرض چکانے کے لیے ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی زمین سولہ لاکھ درہم میں فروخت کی۔ (۳) 

گویا کئی سو گنا نفع حاصل کیا۔ یہ واقعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کا ہے۔ زمین فروخت کرنے والے حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور زمین خریدنے والے متعدد جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے مثلاً معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ۔ اور یہ سودا بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں طے پایا۔ اگر اس طرح کوئی سو فیصد نفع لینا شریعت کی نظر میں غلط ہو تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ضرور اعتراض کرتے لیکن کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ اس لیے یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ سو فیصد سے زیادہ نفع بھی لیا جا سکتا ہے بشرط یہ کہ اس میں کوئی غبن دھوکا اور ذخیرہ اندوزی نہ ہو۔ 

ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہر طرح کی تجارت میں سو یا اس سے زیادہ فیصد نفع لینا جائز ہے۔ ان کے بیان کامقصد صرف یہ ہے کہ شریعت نے نفع کی کوئی شرح مقرر نہیں کی ہے۔ بعض صورتوں میں نفع کی شرح سو فیصد یا اس سے زائد بھی ہو سکتی ہے اور شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ بشرط یہ کہ غبن، دھوکا اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے یہ نفع نہ حاصل کیا جائے۔ 


ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن منافعوں کا بھی تذکرہ کردوں جن کا حاصل کرنا حرام ہے۔ 

1۔ 
حرام اشیاء مثلاً شراب، نشیلی دواؤں اور مورتیوں وغیرہ کی تجارت سے حاصل کیا گیا نفع حرام ہے۔ اسی طرح ہر اس چیز کی تجارت سے حاصل کیا ہوا نفع حرام ہے جو لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ مثلاً کھانے کی وہ چیزیں جو زیادہ وقت گزرنے کی وجہ سے گل سڑ گئی ہوں یا وہ دوائیں جو صحت کے لیے مضر ہوں وغیرہ وغیرہ۔ 

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: 

"إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ" (۴) 
(بخاری، مسلم) 

’’بلا شبہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردہ، سور اور مورتیوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ 

2۔ 
فریب دھوکے سے حاصل کیا گیا منافع حرام ہے۔ مثلاً سامان تجارت کا عیب چھپا کر اسے فروخت کرنا یا دھوکے سے کسی چیز کو فروخت کرنا۔ اس ضمن میں وہ اشتہارات بھی آئیں گے جن میں کمپنیوں کی پیداوار (Product) کی ترویج کے لیے اس کی تعریف میں بہت کچھ جھوٹ بولا جاتا ہے۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
"مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا" (۵) 
(بخاری) 

’’جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ 

ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: 

"المُسلِمُ أخُو المُسلِمِ، و لا يَحِلُّ لِمُسلِمٍ باعَ مِن أخيهِ بَيعاً فيهِ عَيبٌ إلّا بَيَّنَهُ لَهُ" (۶) 
(مسند احمد، ابن ماجه) 

’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے کسی بھائی سے کچھ فروخت کرے اور اس میں کوئی عیب ہو مگر یہ کہ وہ اسے اس عیب کے بارے میں بتا دے۔‘‘ 

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کبھی بھی سامان کا عیب چھپا کر سامان فروخت نہیں کرتے تھے۔ اگر اس میں کوئی عیب ہوتا تو خریدنے والے پر عیب ظاہر کر دیتے۔ اس بات پر ان کا سختی سے عمل تھا۔ 

دھوکے کی صورتیں یہ بھی ہیں کہ خریدار کو بھولا بھالا اور سادہ لوح سمجھ کر اس سے ضرورت سے زیادہ قیمت وصول کرلی جائے۔ یاخریدار کی شدید ضرورت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دگنی چوگنی قیمت وصول کی جائے۔ نفع حاصل کرنے کے یہ طریقے حرام ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ کم منافع پر قناعت کیا جائے۔ کم منافع لینے سے سامان کی فروخت بڑھ جاتی ہے اور کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ زیادہ منافع لینے سے وقتی فائدہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن حقیقت میں زیادہ نفع لینے سے کاروبار میں زوال شروع ہوجاتا ہے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو نہایت مال دار صحابی تھے اور دنیا ہی میں انھیں جنت کی خوشخبری دے دی گئی تھی ان سے ان کی مال داری کا سبب پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے کبھی کم سے کم نفع کو بھی نہیں ٹھکرایا۔ 

3۔ 
سامان تجارت کی ذخیرہ اندوزی کر کے حاصل کیا گیا نفع بھی حرام ہے۔ 

حدیث نبوی ہے: 
"لَا يَحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ" (۷) 
(مسلم) 

’’وہی شخص ذخیرہ اندوزی کرتا ہے جو گناہگار ہوتا ہے۔‘‘ 

ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: 

"من احتكر طعاما أربعين يوما يريد به الغلاء فقد برئ من الله و برئ الله منه" (۸) 
(مسند احمد) 

’’جس نے کھانے پینے کی اشیاء کی چالیس دن تک ذخیرہ اندوزی کی تو وہ اللہ سے بری ہے اور اللہ اس سے بری ہے۔‘‘ 

ذخیرہ اندوزی یہ ہے کہ سامان تجارت کو بازار میں جانے سے روک دیا جائے تاکہ اس قلت کی وجہ سے سامان کی قیمت بڑھ جائے، اور اس کے بعد اسے فروخت کیا جائے۔ 

ایسی ذخیرہ اندوزی اس لیے حرام ہے کہ اس سے عوام کو تکلیف اور نقصان ہوتا ہے۔ یہ تکلیف اور نقصان اس وقت دو چند ہوتا ہے کہ جب ذخیرہ اندوزی کرنے والا صرف ایک شخص یا ایک کمپنی ہو۔ یہ شخص یا کمپنی اشیاء صرف کو بازار میں پہنچنے سے قبل اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔ اور جب ان اشیاء صرف کی مانگ بڑھتی ہے تو یہ کمپنی ان کی من مانی قیمت وصول کرتے ہیں۔ اسے اصطلاح میں Monopcly یا اجارہ بھی کہتے ہیں۔ سود کی طرح سے یہ چیز بھی سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں میں سے ہے۔ 

فقہاء کے نزدیک اس بات میں اختلاف ہے کہ کن اشیاء صرف کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے؟ بعض فقہاء کے نزدیک صرف کھانے پینے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے۔ میرے نزدیک زیادہ صحیح اور متعبر رائے یہ ہے کہ ان تمام اشیاء صرف کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے جنھیں ضروری اور لازمی اشیاء (Essential Goods) کا نام دیا جا سکتا ہے مثلاً کھانے پینے کی چیزیں، دوائیں، کپڑے، مکانات اور روز مرہ کے استعمال کی چیزیں وغیرہ وغیرہ۔ 

لازمی اور ضروری اشیاء کا تعین زمانے کے لحاظ سے کیا جائے گا کیوں کہ بہت ساری ایسی چیزیں جنھیں آج سے چند سال قبل سامان تعیش (Luxury Goods) کہا جاتا تھا۔ آج انھیں لازمی اشیاء میں شمار کیا جاتا ہے۔ 

امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "الخراج" میں لکھا ہے کہ ہر اس چیز کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے جس کی ذخیرہ اندوزی سے عوام کو نقصان اور تکلیف ہو۔ 

فقہاء کے درمیان اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ کیا ہر حالت میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے یا صرف تنگی اور قلت کی حالت میں؟ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ صرف تنگی اور قلت کے زمانے میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے۔ لیکن اگر ان اشیاء کی تنگی اور قلت نہ ہو بلکہ مارکیٹ میں ان اشیاء کی بہتات ہو تو ایسی صورت میں ان اشیاء کی ذخیرہ اندوزی حرام نہیں ہے۔ لیکن بعض فقہاء کےنزدیک ہر حالت میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے کیونکہ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے لازمی طور پر ان اشیاء کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ 

قصہ مختصر یہ کہ شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے اور اسے مارکیٹ پر چھوڑ دیا ہے کیونکہ مانگ اور سپلائی کے اُصول پر مارکیٹ منافع کی شرح خود ہی مقرر کرلیتا ہے۔معاشیات کا علم رکھنے والے اس اُصول کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ البتہ اگر صورت حال ایسی ہو کہ مارکیٹ میں منافع کی شرح چند اسباب کی بنا پر ضرورت سے زیادہ ہو تو ایسی صورت میں حکومت کے لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ میں دخل اندازی کرتے ہوئے قیمت اور منافع کی شرح کو متعین کردے۔ 

اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ تجارت میں منافع حاصل کرنا جائز بلکہ پسندیدہ عمل ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے "فضل اللہ" سے تعبیر کیا ہے۔ شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ بعض احادیث میں سو فیصد یا اس سے زیادہ نفع لینے کا تذکرہ موجود ہے۔ 

بہت زیادہ نفع لینا صرف بعض حالات میں جائز ہے۔ تمام حالات میں نہیں۔ وہ اشیاء صرف جن کا تعلق غریبوں سے ہوتا ہے اور وہ اشیاء صرف جنھیں ہم لازمی اور ضروری اشیاء قرار دیتے ہیں۔ مثلاً کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑے وغیرہ۔ ان میں ضرورت سے بہت زیادہ نفع لینا جائز نہیں ہے۔ 

دھوکا، غبن، ذخیرہ اندوزی یا ہر اس طریقے سے نفع حاصل کرنا حرام ہے، جس سے خریداروں کو نقصان پہنچے۔ اسی طرح حرام چیزوں کی تجارت سے کمایا ہوا نفع بھی حرام ہے۔ 

گرچہ تاجروں کو حلال نفع کمانے کا پورا حق ہے، لیکن حکومت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ ضرورت پڑنے پر اشیاء صرف کی قیمت اور منافع کی شرح متعین کرنے کے لیے دخل اندازی کرے تاکہ چند لوگ مل کر عوام کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ 

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب 
محدث فتویٰ 


~~~~~~~~

تخریج از عزیر ادونوی: 

(۱) ترمذی 641، علامہ البانی و زبیر علی زئی نے ضعیف قرار دیا 

(۲) صحیح بخاری 3642، سنن ترمذی 1258، سنن ابن ماجہ 2402، مسند احمد 19356 

(۳) بخاری 3129 

(۴) بخاری 2236، مسلم 1581 

(۵) مسلم 101 

(۶) أخرجه ابن ماجه (2246) واللفظ له، وأحمد (17487) بنحوه، صححه الألباني 

(۷) مسلم 1605 

(۸) أنكره الألباني، تخريج مشكاة المصابيح 2728 

~~~~~~~~~~~~~; 


Salafi Tehqiqi Library
سلفی تحقیقی لائبریری

Website:
ویبسائٹ:

فیس بک گروپ:

کتاب و سنت اور فہم سلف پر مبنی تحقیق و تخریج کردہ دینی کتب و مقالات کی لنکس حاصل کر سکتے ہیں کبھی بھی کسی بھی وقت، ٹیلگرام چینل

*"سلفی تحقیقی لائبریری"*

میں جوائین ہوکر، سرچ کرکے

بذریعہ ٹیلیگرام اس چینل میں جوائین کرنے کیلئے لنک 👇🏻
ٹیلی گرام چینل:
Telegram Channel:

~~~~

ٹیلی گرام اکاؤنٹ اوپن کرنے کیلئے حاصل کریں ٹیلی گرام کی ایپ نیچے کی لنک سے 👇🏻

 "Telegram"

~~~~

شئیر

.