بدھ، 24 دسمبر، 2025

کتنے کلو علم کی شرط ہے ؟ فیصل عادل

۔

۔ ﷽ ۔

۔

*کتنے کلو علم کی ضرورت ہے؟*

*بلغوا عني ولو آية؟*

*...کیا آج کے منہجِ سلف پر قائم سلفی علماء ورثۃ الانبیاء ہو کر اس انبیائی مشن غیر مسلموں میں توحید کی نشر و اشاعت دعوتِ حق کے لیے کوشاں ہیں؟...*

ہ ےےےےےے ہ 


*دعوت الی اللہ یعنی غیر مسلموں کو اسلام سے متعارف کروانے اور دین کی موٹی موٹی باتوں سے روشناس کروانے کے لیے کتنے کلو علم کی ضرورت ہے؟*

نگارش: 🖋️.......... فضیلۃ الشیخ  فیصل عادؔل

۔🔵🔵🔵🔵🔵🔵🔵🔵🔵۔


🔶 وَكُلُّهُمۡ ءَاتِیهِ یَوۡمَ ٱلۡقِیَـٰمَةِ فَرۡدًا
کے تحت 
اللہ اگر روزِ قیامت ہندوستان کے کسی کافر سے پوچھے گا کہ تم کیوں اسلام قبول نہیں کیے جبکہ وہ بردر بھی تمھارے سامنے اسلام پیش کیا تھا؟ 

اب وہ کافر کہہ دے گا کہ فلاں دکتور کے بقول وہ بردر ہے وہ دعوتِ دین نہیں کر سکتا ہے ۔

میرے پاس مدنی دکتور لیول کا کوئی فرد دعوتِ دین لے کر نہیں آیا مجھ پر حجت قائم نہیں ہوی! 
مجھے معاف کیجیو اور سورگ عطا کیجیو! 

کیا اللہ مان لے گا کہ چلو حجت قائم نہیں ہوی کیوں کہ مدنی  دکتور کے بجائے کسی بردر نے تمھارے سامنے اسلام پیش کیا! 

کیا بردر کے اسلام پیش کرنے توحید رسالت آخرت کو کھول کر بیان کرنے کے بعد بھی واقعی اس کافر پر حجت قائم نہیں ہوی؟ 

اس کا جواب ہمارے دکتور بھائی ضرور جانتے ہوں گے تاہم قارئین کے لیے 

🔷بَوّبَ الإمام البخاري 
بَاب وَصَاةِ النَّبِيِّ ﷺ وُفُودَ الْعَرَبِ أَنْ يُبَلِّغُوا مَنْ وَرَاءَهُمْ 
اس باب کے نام سے امام بخاری کی فقاہت سمجھیے (فقه البخاري في تراجمه) 

وفد عبد القيس کی حدیث جو امام بخاری نے لائی ہے۔
فتح الباری میں اس حدیث کے شارح علامہ ابن حجر کی بات دیکھ  لیتے ہیں👇

قال الحافظ ابن حجر (852هـ): 

(قوله في آخره ((احفظوهنَّ وأبلغوهنَّ من وراءكم))؛ فإنَّ الأمر بذلك يتناول كل فردٍ، فلولا أنَّ الحجة تقوم بتبليغ الواحد، ما حضَّهم عليه. 

(ترجمہ)  ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں 👇
 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب یہ کہا کہ یہ ساری باتیں سیکھ کر حافظے میں بٹھالو اور اپنے پیچھے رہ جانے والے قبیلے کے سبھی بھائیوں کو ان باتوں سے روشناس کراؤ، 
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دین کی بنیادی باتوں سے روشناس کروانے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سیکھ کر جانے والے ہر فرد کو شامل ہے۔ کسی ایک فرد کی دعوت سے ہی اگر حجت قائم نہیں ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم انھیں تبلیغِ دین پر نہ ابھارتے ۔


⏪ وفد عبد القيس کی حدیث جو صحیح بخاری میں ہے 

اس وفد میں آنے والے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دین کی اہم اور اصولی باتیں بتانے کی پیشکش کی اور کہا کہ ہم یہ باتیں ہمارے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو بھی بتائیں گے اور سب ان باتوں پر عمل پیرا ہو کر جنت میں داخل ہوں گے! 👇

فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لاَ نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الحَرَامِ، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ، نُخْبِرْ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا، وَنَدْخُلْ بِهِ الجَنَّةَ،

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں اسلام کی بنیادی باتیں شہادت، نماز، روزہ ، زکات وغیرہ بتائیں اور بعض برتنوں کے استعمال سے منع فرماتے ہوئے کہا👇

 وقالَ: احْفَظُوهُنَّ وأَخْبِرُوا بهِنَّ مَن وراءَكُمْ ۔ 
 
رواہ البخاري رقم ٥٣  

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا 👇
یہ باتیں اچھے سے ذہن نشین کر لیں اور اپنے قبیلے کے لوگوں کو جو پیچھے رہ گئے اور حاضر نہ ہوسکے انھیں بتائیں ( اور شمعِ دین نورِ توحید سے منور ہوں) 


اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث میں وارد ہے

آمركم بأربع وأنهاكم عن أربع 

یعنی چار باتیں اوامر میں سے اور چار نواہی میں سے کل اس طرح آٹھ باتیں ہوتی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں سکھائی تھیں ۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا وفد عبد القیس میں شامل سبھی لوگ ان آٹھ باتوں کو جان کر شریعتِ اسلامیہ کی سبھی جزئیات کی تفصیلات سے آگاہ ہوگئے تھے؟ 

کیا وہ سبھی درجہ ء اجتہاد پر فائز ہو گئے تھے ؟

کیا وہ اسلام کے دقیق جزئیات اور دینی و دنیوی سبھی معاملات ہمہ اصول و فروع کو پورے طور سے جان چکے تھے ؟ 

 واضح امر ہے! 
اگر وہ دین کے باریک دقیق مسائل جزئیات و کلیات اور مکمل علمِ شریعت نہیں رکھتے تھے اور درجہ ء اجتہاد پر فائز نہیں تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں تبلیغ کا حکم کیوں دیا؟ 
اور دین پھیلانے کا اجازت نامہ مرحمت کیوں فرمایا؟ 
کیا وہاں غلطیوں کے صدور کا امکان نہیں تھا؟ 
 
ظاہر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دینِ اسلام کے چند احکامات ہی موٹے موٹے طور پر انھیں ذہن نشین کروائے تھے ۔
اور اور اتنے ہی علم کو ان کی بستی میں جا کر پھیلانے کا حکمِ نبوی صادر ہوا تھا! 

جب اس طرح غیر مسلموں کو  اسلام کا تعارف کرانے کے لئے موٹی موٹی باتیں پھیلانے کے لئے دینی معلومات کی مکمل گہرائی کلیات و جزئیات سبھی جان کر مجتہد ہونے کی شرط نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں لگائی تو آپ کیوں  بے جا خطرات کے اندیشے کو عذر بنا کر عبث سختی کرنے والے ہوتے ہیں؟ 

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ آپ کو دین کا فہم ہے؟ 
نعوذ باللہ من ذلک

کیا یہاں احناف کی طرح مسجد میں نماز سے عورتوں کو روکنے کے لیے جو دلیل وہ دیتے ہیں آپ لوگ بھی دیتے نظر نہیں آتے؟ 
جبکہ اصل فتوی جواز کا ہے ۔ 

ایک جائز امر پر بے جا شدت پسندی کا ہتھوڑا چلانے والے احناف کی طرح آپ کون ہوتے ہیں؟ 

اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کم ( تقریب ِ فہم کے طور پر دس کلو) علم کو تبلیغ کے لیے کافی مانا ہے تو آپ مزاجی شدت کی بنا پر سو ٹن علم کی بیجا شرط لگانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ 

🔵 ہندوستان میں جب بعض منہجی علماء کوئی جمعیت بناتے ہیں اور اس میں امیر چنتے ہیں اور تبلیغی جماعت کی طرح امیر چنتے ہیں اہلِ تصوف کی طرح بیعت لیتے ہیں اور اخوانیوں کی طرح امیر کی اطاعت کے لیے یہ دلیل پیش کرتے ہیں 
جو کہ اصل میں امیر المومنین کے لیے ہے 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ

ہم منہجِ سلف کے مطابق ان پر رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تو امیر المومنین کے لیے ہے جہاں اسلامی حکومت ہو وہاں سب پر امیر کی اطاعت ضروری ہے ۔ 
آپ خود کی جمعیت و جماعت کے امیر پر اس آیت کو منطبق کر کے صریح غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔

اب دیکھیں ہمارے بعض دکاترہ نے مندرجہ ذیل آیتوں کا ویسے ہی انطباق کیا ہے جیسے ہندوستان میں بعض جمعیت کے امیر نے خود کے لیے امیر المومنین والی آیت کے ساتھ معاملہ کیا۔

یعنی ہمارے بعض علماء و مشائخ نے جو آیتیں کم علموں کے علمِ دین پھیلانے کی رد میں پیش کی ہیں وہ آیات شہادت گواہی سے متعلق ہونے کی وجہ سے خلطِ مبحث کے شکار نظر آتے ہیں ۔ 


🔷 زیرِ نظر پہلی آیت میں مفسر قرآن ابن کثیر کے بقول اللہ کا لڑکا قرار دینا  یہ مشرکین کا قول و عقیدہ تھا اسی لیے وأن تشركوا بالله کے سا تھ عطف کر کے أن تقولوا علی اللہ ما لا تعلمون مذکور ہے اسی کی سخت مذمت میں یہ آیت نازل ہوئی 👇

قُلۡ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ ٱلۡفَوَ ٰ⁠حِشَ مَا ظَهَرَ مِنۡهَا وَمَا بَطَنَ وَٱلۡإِثۡمَ وَٱلۡبَغۡیَ بِغَیۡرِ ٱلۡحَقِّ وَأَن تُشۡرِكُوا۟ بِٱللَّهِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِهِۦ سُلۡطَـٰنࣰا وَأَن تَقُولُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعۡلَمُونَ۔ 
[ا لأعراف ٣٣ ]

قال ابن كثير في تفسيره
وَأَنْ تَقُولُوا عَلَيْهِ مِنَ الِافْتِرَاءِ وَالْكَذِبِ مِنْ دَعْوَى أَنَّ لَهُ وَلَدًا وَنَحْوَ ذَلِكَ، مِمَّا لَا عِلْمَ لَكُمْ بِهِ 

جو لوگ دعوتی کام کرتے ہیں وہ قول علی اللہ کے بجائے علم کی روشنی میں قول فی توحید اللہ  کرتے ہیں۔
 گویا اللہ کے تعلق سے جو بری باتیں جہل و کفر کی وجہ سے کہتے ہیں اس کو آپ اس پر منطبق کر دے رہے ہیں جو کہ کونوا أنصار الله کے تحت غیر مسلموں کو اللہ سے متعارف کروا رہا ہوتا ہے 
لہذا انھیں زبردستی اس آیت کا مصداق نہ بنائیں! 

معلوم و واضح رہے کہ میرا موقف یہ نہ سمجھا جائے کہ میں بغیر شرعی علم کے اکتساب کے مولانا بن کر سبھی چھوٹے بڑے مسائل کی تعلیم دینے کے جواز کی تصویب کر رہا ہوں ۔


🔷 ایک اور آیت👇 دیکھیں ۔ 
مفسر قرآن ابن کثیر وغیرہ نے اس کو تنازعات میں جھوٹی گواہی کے معاملے سے متعلق بتا رہے ہیں۔ 
یعنی اللہ تعالیٰ کسی معاملے میں بغیر دیکھے جھوٹی گواہی دینے سے منع فرماتے ہوئے کہا اور قتادہ کے بقول دیکھے،سنے، جانے بغیر دیکھنے،سننے اور جاننے کے دعوے کرنے سے منع کرتے ہوئے یہ آیت اللہ نے نازل کی ہے۔ 👇
﴿وَلَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَكَ بِهِۦ عِلۡمٌۚ إِنَّ ٱلسَّمۡعَ وَٱلۡبَصَرَ وَٱلۡفُؤَادَ كُلُّ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ كَانَ عَنۡهُ مَسۡـُٔولࣰا﴾ 
[الإسراء ٣٦]

قال ابن کثیر في تفسيره:
قَالَ مُحَمَّدُ بن الحَنفية: يَعْنِي شَهَادَةَ الزُّورِ.
وَقَالَ قَتَادَةُ: لَا تَقُلْ: رَأَيْتُ، وَلَمْ تَرَ، وَسَمِعْتُ، وَلَمْ تُسْمِعْ، وَعَلِمْتُ، وَلَمْ تَعْلَمْ؛ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُكَ عَنْ ذَلِكَ كُلِّهِ.
وَمَضْمُونُ مَا ذَكَرُوهُ: أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى نَهَى عَنِ الْقَوْلِ بِلَا عِلْمٍ،


🔷 اب تیسری آیت دیکھ لیتے ہیں 
اس آیت کی تفسیر میں بھی ابن کثیر کے بقول حاکم کے سامنے فاسق کی گواہی سے متعلق ہدایات جاری کی گئی ہیں 
فَيَكُونَ الْحَاكِمُ بِقَوْلِهِ قَدِ اقْتَفَى وَرَاءَهُ، 
یہ وجہ استشہاد ہے کہ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ خبر بیان کرنے والے شخص سے متعلق تاکّـد وتثبـّت کیا جائے 👇

﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِن جَاۤءَكُمۡ فَاسِقُۢ بِنَبَإࣲ فَتَبَیَّنُوۤا۟ أَن تُصِیبُوا۟ قَوۡمَۢا بِجَهَـٰلَةࣲ فَتُصۡبِحُوا۟ عَلَىٰ مَا فَعَلۡتُمۡ نَـٰدِمِینَ

قال ابن كثير 👇
يَأْمُرُ تَعَالَى بِالتَّثَبُّتِ فِي خَبَرِ الْفَاسِقِ ليُحتَاطَ لَهُ، لِئَلَّا يُحْكَمَ بِقَوْلِهِ فَيَكُونَ -فِي نَفْسِ الْأَمْرِ-كَاذِبًا أَوْ مُخْطِئًا، فَيَكُونَ الْحَاكِمُ بِقَوْلِهِ قَدِ اقْتَفَى وَرَاءَهُ، 

یہاں العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب کی روشنی میں عمومِ لفظ کو بھی لیتے ہیں تب بھی فاسق کے لفظ کو دین کے داعی پر منطبق کیسے کیا جائے گا؟ 

🔶 آگے کی آیات میں صراحت کے ساتھ شھداء گواہی دینے والوں کی عدالت کی شرط رکھی جا رہی ہے 
قال ابن کثیر 
وقوله: 
ممِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ﴾ فِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى اشْتِرَاطِ الْعَدَالَةِ فِي الشُّهُودِ 

اسی طرح اس آیت میں بھی 
قال ابن کثیر 
﴿وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ﴾ قَالَ: لَا يَجُوزُ فِي نِكَاحٍ وَلَا طَلَاقٍ وَلَا رِجَاعٍ إِلَّا شَاهِدَا عَدْلٍ 


🔷 آپ نے دیکھا کہ کس طرح شہادت گواہی سے متعلق امور میں جو آیات وارد ہوی ہیں ۔ خلطِ مبحث کے سبب ان آیات کا جبری انطباق کم علم بردرس جو غیر مسلموں میں دعوت کا کام کرتے ہیں جو عربی سے نابلد ہیں ان پر کیا جا رہا ہے ۔

⬅️ البتہ بعض مفسرین کے بقول ولا تقف مالیس لک کی تفسیر میں علم کے بغیر بات کرنا بھی ہے یہاں سے  استشہاد و استیناس مل سکتا ہے ۔ یہ دلیل ہمارے مشائخ کی قوی معلوم ہوتی نظر آتی ہے مگر یہ اسی وقت کارگر ہوگی جب وہ داعی حضرات بغیر علم و بغیر دلیل شرعی کے گفتگو کرتے ہوں ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے۔ 

بس مشائخ نے اپنے طور پر ایسا گمان پال لیا ہے۔ یا پھر اپنے سے کم تر جان کر انھیں حقیر سمجھ کر جو خدمت دین ان سے انجام پا رہا ہے اور ان کی شہرت و ناموری نیک نامی پر بظاہر حسد کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
عربی میں کہا جاتا ہے الناس أعداء لما جهلوا بسا اوقات بعض غیر عالم فی زمانہ زیادہ عوام تک پہنچنے کے وسائل و تراکیب کا علم رکھتے ہیں۔ 
گویا علمِ دین سے زیادہ ان کا علم اس فن میں ہوتا ہے کہ مؤثر طریقے سے کیسے لوگوں کو اپنے خیالات کا حامی بنا لیا جائے انھیں اپنی طرف راغب کرلیا جائے۔ 
بعض مشائخ اس فن سے ناواقفیت کی بنیاد پر پورے طور سے اس فن کے حاملین کو ہی دشمن سمجھتے ہیں ۔ 
جبکہ پختہ سلفی علماء بھی اسی طرح کے مؤثر پلیٹ فارم اور تکنیک و تراکیب کے استخدام کر کے ان سے بہتر دینی خدمات انجام دے سکتے ہیں مگر انھیں آپسی منہجی انحراف کو سونگھنے اور منہج بدری کے عمل سے فراغت نصیب ہوگی تبھی دیگر امور پر تامل فرمانے کا وقت 
دستیاب ہوگا۔ (معلوم رہے کہ یہاں روئے سخن
کم علم والے داعیان ِدین  کے متعلق ہے اور ہندوستان کے تناظر میں بات رکھی جا رہی ہے۔ پڑوسی ملک کے یوتھ کلب اور ساحل عدیم وغیرہ اس سے مستثنیٰ ہیں ساحل عدیم تو بس ہالی ووڈ فلمیں دیکھ کر دین میں پورٹل کھولتے ہیں اور بلا علم کے دین و ائمہ ء دین کی طرف منسوب کر کے کہانیاں گھڑتے ہیں۔نعوذ باللہ من ذلک ) 

واضح رہے کہ ولا تقف ما ليس لك به علم اس آیت کو  بیشترمفسرین نے گواہی کے معاملے سے جوڑا ہے ۔

لیکن میں تعریف اور قدر کرتا ہوں ان مشائخ کی جو درج ذیل قول ذکر کرتے ہیں وہ عین موضوع کے مطابق ہے
👇۔
 وفي صحيح مسلم عن محمد بن سيرين قال: 
إن هذا العلم دين، فانظروا عمن تأخذون دينكم

یہ قول غیر مسلموں کے بجائے ان لوگوں کے لیے درست طور پر بیٹھے گا جو مسلمان لوگ بڑے علماء کے بجائے متعالم سے مکمل دینی معلومات لے کر گمرہی کے شکار ہو رہے ہیں ۔ اس پر قدغن لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

اوپر وفد عبد القيس کی حدیث میں آپ نے دیکھا کہ صحابہ کو دین کے چند بنیادی احکامات بتا کر اپنے قبیلے جا کر دینِ اسلام کے تعارف کرانے کا نبوی حکم موجود تھا۔

🔶 اب صحیح بخاری کی ایک اور حدیث دیکھیں، بنی لیث کے چند نوجوان صحابہ بیس دن دینی تعلیم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سیکھ کر گئے  تو نبی ﷺ نے کہا کہ واپس جا کر لوگوں میں دین کی باتیں رکھو تعلیم دو👇

أَتَيْنا إلى النبيِّ ﷺ ونَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقارِبُونَ، فأقَمْنا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا ولَيْلَةً، وكانَ رَسولُ اللَّهِ ﷺ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمّا ظَنَّ أنّا قَدِ اشْتَهَيْنا أهْلَنا - أوْ قَدِ اشْتَقْنا - سَأَلَنا عَمَّنْ تَرَكْنا بَعْدَنا، فأخْبَرْناهُ، قالَ: ارْجِعُوا إلى أهْلِيكُمْ، فأقِيمُوا فيهم وعَلِّمُوهُمْ ومُرُوهُمْ - وذَكَرَ أشْياءَ أحْفَظُها أوْ لا أحْفَظُها - وصَلُّوا كما رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، فإذا حَضَرَتِ الصَّلاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أحَدُكُمْ، ولْيَؤُمَّكُمْ أكْبَرُكُمْ.
الراوي: مالك بن الحويرث • البخاري، صحيح البخاري (٦٣١) 

وجہ استشہاد یہ ہے👇
ارْجِعُوا إلى أهْلِيكُمْ، فأقِيمُوا فيهم وعَلِّمُوهُمْ ومُرُوهُمْ 

◀️🔷 حدیث وفد عبد القيس  اور اوپر درج کردہ نوجوان صحابہ بیس دن تعلیم پا کر دین کے داعی بن کر گئے دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ 
دین کی موٹی موٹی باتیں جنھیں معلوم من الدين بالضرورة، 
توحید، رسالت آخرت کی بات اسلام کا تعارف کراتے ہوئے غیر مسلموں کو بتانے میں کوئی حرج نہیں ہونی چاہیے البتہ متعالم بن کر اسٹیج سجا کر مسلمانوں کو اصولی اور فروعی مسائل بتانے والوں، فتووں کی دکانیں سجانے والوں کی ہمت شکنی ہونی چاہیے ۔ 
اگر وہ اپنے ساتھ جید سلفی علماء کو ساتھ رکھیں، ہر ہر مسئلے میں ان سے دلیل کے ساتھ دین کے بڑے چھوٹے مسائل سیکھ لیں اور عربیت میں مہارت حاصل کر لیں۔ اصول و فروع سے مکمل آگاہ ہوجائیں تب بھی فتوے کے معاملے میں احتیاط بہتر ہے! 

اسی لیے بہتر ہے کہ
 دعوتِ دین کے لیے بنیادی طور پر
طلب العلم فريضة على كل مسلم کے پیشِ نظر قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ یقینی علم، خاص طور پر توحید، عقائد اور واضح احکام کی سمجھ حاصل کرنا ضروری ہے۔ 

جیسا کہ وفد عبد القیس کی حدیث میں 🔷 احفظوهن 
کے لفظ سے دلیل ملتی ہے ۔ یعنی ہو بہو  موٹی موٹی شرعی بات دعوت دیتے ہوئے مخاطب کے سامنے رکھے ۔ تفصیلات بیان کرتے ہوئے مشکل مسائل، تطبیق بین النصوص اور دیگر باریک جزئیات تک میں نہ الجھے۔

اس طرح غیر مسلموں کو اسلام سے تعارف کرانے میں تفصیلی فقہی یا اجتہادی درجے کا عالم ہونا شرط نہیں ۔

بلغوا عني ولو آية
کی رو سے اگر قطعی طور پر بصیرت کے ساتھ دین کی موٹی موٹی باتیں معلوم ہیں تو انھیں باتوں کو اپنے علم کے بقدر پھیلانے میں کوئی حرج نہیں۔
 جتنا حصہ دین کا صحیح و یقینی طور پر آتا ہو، اُتنے ہی  
حصے کی تبلیغ جائز و مطلوب ہے۔ یہی بات عبد الرحمن مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی اور مرعاۃ شرح مشکاۃ میں بھی لکھی ہے ۔

قال عبد الرحمن المباركفوري 
 قوله: 
(بلغوا عني ولو آية) أي ولو كانت آية قصيرة من القرآن، والقرآن مُبلَّغ عن رسول الله - ﷺ  
لأنه الجائي به من عند الله، ويفهم منه تبليغ الحديث بالطريق الأولى۔

مولانا مبارکپوری کے بقول قرآن اور حدیث دونوں ہی کی کوئی بات جب یقینی طور پر  معلوم ہے تو اسے دوسروں تک پہنچانا جائز و مطلوب ہے! 

 ان بنیادی ٹھوس معلومات سے تجاوز کر کے ہر ہر مسئلے اور باریک علمی فروعی مسائل میں بغیر علم کے فتوی بازی کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ٹھہرے گا ۔ 
جیسا کہ امام ابن باز رحمہ اللہ سے جب اسی طرح کا مسئلہ پوچھا جاتا ہے تو وہ کم علم شخص کے بارے میں کہتے ہیں: 
لنک سے تفصیلی معلومات دیکھ سکتے ہیں 
https://binbaz.org.sa/fatwas/22968/%D9%85%D8%B9%D9%86%D9%89-%D8%A8%D9%84%D8%BA%D9%88%D8%A7-%D8%B9%D9%86%D9%8A-%D9%88%D9%84%D9%88-%D8%A7%D9%8A%D8%A9-%D9%88%D9%85%D9%86-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%83%D9%84%D9%81-%D8%A8%D9%87%D8%A7

إذا عَلَّم الناس القرآن، إذا خرج يعلّم القرآن فلا حرج، لكن لا يجوز له يدخل فيما لا يعنيه، لا يجوز له يتكلم في العلم وهو على غير بصيرة، لكن يعلّمهم القرآن، يعلّمهم الفاتحة، يعلّمهم المُفَصّل، جزاه الله خيرًا يعلمهم، تعليم القرآن متيسّر ولو ما كان عنده علم، يعلمهم القرآن، يقول النبيﷺ: خيركم من تعلم القرآن وعلمه. انتہی کلامہ

جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انھوں نے جہاں تعلیم قرآن کی بات کہی ہے ساتھ ہی وہ شرط لگاتے ہیں کہ آدمی ایسی باتوں میں زبان نہ کھولے جن کے بارے میں اسے بصیرت نہ ہو، 
یعنی تفصیلی مسائلِ علم و فتویٰ اور تاویلات میں کم علم شخص کے لیے دخل جائز نہیں۔

اسی طرح کم پڑھے لکھے داعیوں کو ہمیشہ طلبِ علم اور ممتاز سلفی عالم کی صحبت اور ان سے استفادے کی شرط رکھی جاتی ہے ۔


🔶 خلاصے کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ دین کی بنیادی اور اصولی موٹی باتیں ہر مسلمان اپنے علم کے بقدر دعوت دے سکتا ہے۔​​ 
ہندوستان میں توحید کی ٹھوس معلومات حاصل کرنی ضروری ہے یہ اس لیے ہے کہ مقامی بدعات اور اہلِ الحاد اسے چیلنج کرتے ہیں۔​

🔶 دین کی باریک باتیں، علمی موضوعات، مکمل فتویٰ یا وعظ کے لیے اہلِ حدیث علماء و حدیث پڑھنے پڑھانے والے محدثین علماء سے طویل صحبت اور اجازہ اور سند کو ضروری قرار دینا چاہیے۔ اللہ اعلم

🔴 مضمون کے آخر میں قارئین سے سوال ہے کہ قلیل مدت گزار کر جو وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دین سیکھ کر داعی بن کر گیا، اسی طرح کا کام موجودہ زمانے میں کونسے لوگ سلفی علماء سے دعوہ ٹریننگ لے کر غیر مسلموں میں دعوت کا کام کر رہے ہیں؟ 
کمنٹ بکس میں لکھیے! 

اگر کوئی گروپ نہیں کر رہا ہے تو کیا ہم لوگوں کو ایسا کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ 

جس طرح کا کام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے وفد عبد القيس کو کرنے کے لیے کہا تھا کیا اسی طرز کا کام آج ناقابل ِ عمل ہے؟ 

اگر ناقابلِ عمل جانتے ہیں تو کن اسباب کی وجہ سے؟ 

کیا آپ مانتے ہیں کہ ہندوستان میں اس طرح کے دعوتی کام کی فی زمانہ سخت ضرورت ہے؟ 

کیا آج کے منہجِ سلف پر قائم سلفی علماء ورثۃ الانبیاء ہو کر اس انبیائی مشن غیر مسلموں میں توحید کی نشر و اشاعت دعوتِ حق کے لیے کوشاں ہیں؟ 

ہمیں اپنے نفوس میں جھانک کر دیکھنا چاہیے ۔

🔷 میں ایسے مخلص علماء کو جانتا ہوں جو دعوتِ دین کے لیے انتھک جہد کرتے ہیں حتی کہ پنڈتوں کی زبان سنسکرت تک سیکھ کر ان تک دعوتِ اسلام پہنچا کر اتمامِ حجت کرتے ہیں! بارک الله في جهودهم وقدر الله مساعيهم
اس طرح دین کے بہت سارے محاذ پر علمائے دین کام کر رہے ہیں ۔

دوسری طرف بعض مدارس کے فارغین ہیں انکا دن رات کا یہی مشغلہ ہے کہ 
فلاں میں منہجی خلل ہے 
فلاں ادارہ منہجِ سلف سے منحرف ہے، 
فلاں میں کجی ہے 
فلاں میں شدید انحراف ہے! 

اب آپ ہی دیکھ لیجیے آپ کس زمرے میں خود کو رکھ کر کامیابی پانا چاہتے ہیں! 

کیا ہماری مثال شہد کی مکھی کی طرح نفع بخش ہے یا اس مکھی کی طرح ہے جو صرف نجاست پر بیٹھ کر اڑتی پھرتی ہے؟ 

ایسے لوگوں کو اس آیت پر غور کر کے خود کا محاسبہ کرنا چاہیے 
وَٱلَّذِینَ ٱهۡتَدَوۡا۟ زَادَهُمۡ هُدࣰى وَءَاتَىٰهُمۡ تَقۡوَىٰهُمۡ ۔
(سورۃ محمد آیت 17) 
یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق آیت ہے۔

اگر آج کے لوگ خود کو ہدایت پر قائم جان رہے ہیں تو مزید ہدایت کی بڑھوتری اور تقوی کے حصول کی کوشش ہونی چاہیے ۔

مضمون کے اختتام پر ایک حدیث پیش ہے 👇

قالَ النبيُّ صَلّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَومَ خَيْبَرَ: لَأُعْطِيَنَّ الرّايَةَ غَدًا رَجُلًا يُفْتَحُ على يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللَّهَ ورَسولَهُ، ويُحِبُّهُ اللَّهُ ورَسولُهُ، فَباتَ النّاسُ لَيْلَتَهُمْ أيُّهُمْ يُعْطى، فَغَدَوْا كُلُّهُمْ يَرْجُوهُ، فَقالَ: أيْنَ عَلِيٌّ؟، فقِيلَ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، فَبَصَقَ في عَيْنَيْهِ ودَعا له، فَبَرَأَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ به وجَعٌ، فأعْطاهُ فَقالَ: أُقاتِلُهُمْ حتّى يَكونُوا مِثْلَنا؟ فَقالَ: انْفُذْ على رِسْلِكَ حتّى تَنْزِلَ بساحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إلى الإسْلامِ، وأَخْبِرْهُمْ بما يَجِبُ عليهم، فَواللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بكَ رَجُلًا خَيْرٌ لكَ مِن أنْ يَكونَ لكَ حُمْرُ النَّعَمِ ۔
رواه البخاري رقم ٣٠٠٩

اسلام کی دعوت قبول کر کے ہدایت کوئی آپ سے پالیتا ہے تو کئی سرخ اونٹوں سے بہتر ہے 👆

آخر میں دعوت و اصلاح جیسے انبیائی مشن سے متعلق اک شعر برائے عمل! 

جنھیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے 
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی


ماخوذ :




۔

منگل، 14 اکتوبر، 2025

تحقیق مؤذن ایسا رکھنا جو اذان کی اجرت نہ لے کفایت اللہ سنابلی

۔


۔ ہ ﷽ ہ ۔

مشہور عام لیکن ضعیف

مؤذن ایسا رکھنا جو اذان کی اجرت نہ لے
حدیث کے طرق ، تخریج و تحقیق

شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ 



ہ ےےےےےے ہ 

 
عثمان بن ابي العاص رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں انہوں نے اللہ کے نبی ﷺ سے اپنی آخری ملاقات اور اس موقع سے اللہ کے نبی ﷺ کی وصیتوں کو ذکرکیا ہے ۔ 
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے اور 
اکثر طرق میں اذان کی اجرت کا ذکر نہیں ہے اور یہی صحیح ہے یعنی ، 
اس روایت میں اذان کی اجرت سے متعلق کوئی بات ثابت نہیں ہے ۔ 
.
*تاہم بالفرض اگر ان الفاظ کو صحیح و ثابت تسلیم کر لیا جائے تو اس سے اذان پر اجرت کی حرمت نہیں بلکہ جواز ثابت ہوتا ہے*

چنانچہ امام جورقاني رحمہ الله ( المتوفى 543 ) فرماتے ہیں : 

 « فإن صحت هذه اللفظة ، كان فيه دليل على إباحة الأجرة ، لأن في قوله : " اتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا " دليل أن هناك من يأخذ الأجرة ، و إنما ذكره ( كذا ولعل الصواب كره ) ذلك ، ولو كان ذلك على الزجر لقال لا تؤخذ على الأذان أو لا يجوز » 

 " اگر یہ الفاظ ثابت بھی ہوجائیں تو اس میں اجرت کے جواز کی دلیل ہوگی کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ کا یہ فرمانا کہ : " ایسا مؤذن تلاش کرو جو اپنی اذان پر اجرت نہ لے " *یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت اجرت لینے والے بھی تھے لیکن آپ ﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا ، اگر یہ حرام قرار دینے کے لئے ہوتا تو آپ ﷺ یوں کہتے کہ : اذان پر اجرت نہ لی جائے یا اذان پر اجرت لینا ناجائز ہے " * 
 [ الأباطيل و المناكير للجورقاني : 2 / 171 ما بين القوسين من الناقل ] 

*لیکن حقیقت یہ ہے کہ اذان پر اجرت والے الفاظ کے ساتھ یہ روایت ثابت ہی نہیں ہے ، اب آگے ہم اس حدیث کے تمام طرق کو دیکھتے ہیں ۔ *



پہلا طریق : حسن بصری عن عثمان بن أبي العاص
ہ ےےےےےے ہ

امام ترمذي رحمہ الله ( المتوفى 279 ) نے کہا : 

حدثنا هناد قال : حدثنا أبو زبيد وهو عبثر بن القاسم ، عن أشعث ، عن الحسن ، عن عثمان بن أبي العاص ، قال : إن من آخر ما عهد إلي رسول الله ﷺ : أن 
 « اتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا » 

عثمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سب سے آخری وصیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے یہ کی کہ 
 " مؤذن ایسا رکھنا جو اذان کی اجرت نہ لے " ۔ 

 [ سنن الترمذي رقم ( 209 ) و إسناده ضعيف ومن طريق الترمذي أخرجه ابن الجوزي في التحقيق ( 1 / 315 ) و أخرجه ابن أبي شيبة ( 2 / 491 ) ومن طريق ابن أبي شيبه أخرجه ابن ماجه رقم ( 714 ) من طريق حفص بن غياث ، و أخرجه أيضا الحميدي في مسنده رقم ( 930 ) و الطبراني في معجمه الكبير رقم 8378 و أبونعيم في حلية الأولياء ( 8 / 134 ) من طرق عن فضيل بن عياض كلاهما ( حفص بن غياث وفضيل بن عياض ) عن أشعث به ] 
.

یہ روایت درج ذیل علتوں کی بناپر ضعیف ومردود ہے ۔ 

① پہلی علت : 
حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں کئی محدثین نے صراحت کی ہے کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے ، چنانچہ
.
امام حاكم رحمہ اللہ الله ( المتوفى 405 ) نے کہا : 

 « فإن الحسن لم يسمع من عثمان بن أبي العاص » 

 " حسن بصری نے عثمان بن ابی العاص سے نہیں سنا ہے " ، 
 [ المستدرك للحاكم ، ط الهند : 1 / 176 ] 
.
حافظ ابن حجر رحمه الله ( المتوفى 852 ) نے کہا : 

 « روى عن… عثمان بن أبي العاص ومعقل بن سنان ولم يسمع منهم » 

 " حسن بصری نے عثمان بن ابی العاص اور معقل بن سنان سے روایت کیا ہے اور ان سے نہیں سنا ہے " 
 [ تهذيب التهذيب لابن حجر ، ط الهند : 2 / 264 ] 

تنبیہ : 
بعض روایات میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حسن بصری نے عثمان بن ابی العاص کو دیکھا ہے ان سے ملاقات کی ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ ایسی ملاقات اور رویت میں حدیث کا سماع نہیں کیا ہے جیسا کہ ابن معین رحمہ اللہ کے کلام سے پتہ چلتا ہے چنانچہ امام ابن معين رحمه الله ( المتوفى 233 ) نے کہا : 

 « ويقال إنه رأى عثمان بن أبي العاص » ، 

 " اور کہاجاتا ہے کہ انہوں نے عثمان بن ابی العاص کو دیکھا ہے " 
 [ تاريخ ابن معين ، رواية الدوري : 4 / 260 ] 

② دوسری علت : 
حسن بصری سے اس روایت کو نقل کرنے والا " اشعث بن سوار " ہے اور یہ ضعیف ہے ۔ 

محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اسے ضعیف قرار دیا ہے 
مثلا : 
امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ ( المتوفى 241 ) نے کہا : 
 « أشعث بن سوار ضعيف الحديث » ، " اشعث بن سوار ضعیف الحدیث ہے " 
 [ العلل ومعرفة الرجال لأحمد ، ت وصي : 1 / 494 ] 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ( المتوفى 852 ) نے کہا : 
 « ضعيف » ، " یہ ضعیف ہے " 
 [ تقريب التهذيب لابن حجر : رقم 524 ] 

دکتور بشار اور ان کی ٹیم نے اسی سبب اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھا : 

 « إِسناده ضعيفٌ؛ أَشعث بن سَوَّار الكِندي ليس بثق » 

 " اس کی سند ضعیف ہے ، اشعث بن سوار کندی ثقہ نہیں ہے " 
 [ المسند المصنف المعلل ( 20 / 97 ) ] 

③ تیسری علت : 
اشعث بن سوار کے علاوہ حسن بصری کے دوسرے شاگردوں نے جب اسی حدیث کو روایت کیا تو اس میں اذان پر اجرت والی بات کا ذکر نہیں بلکہ دوسری بات کا تذکرہ کیا ملاحظہ ہو دیگر شاگردوں کی روایات : 

* ہشام بن حسان کی روایت
امام ابن ماجة رحمه الله ( المتوفى 273 ) نے کہا : 

حدثنا إسماعيل بن أبي كريمة الحراني قال : 
حدثنا محمد بن سلمة ، عن محمد بن عبد الله بن علاثة ، عن هشام بن حسان ، عن الحسن ، عن عثمان بن أبي العاص ، قال : قال رسول الله ﷺ : 
 « إني لأسمع بكاء الصبي ، فأتجوز في الصلاة » .

عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 
 " میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز ہلکی کر دیتا ہوں " ۔ [ سنن ابن ماجه رقم 990 و إسناده صحيح إلي هشام ] 


* حميد بن أبي حميد کی روایت : 
امام أبوداؤد رحمه الله ( المتوفى 275 ) نے کہا : 

حدثنا أحمد بن علي بن سويد يعني ابن منجوف ، حدثنا أبو داود ، عن حماد بن سلمة ، عن حميد ، عن الحسن ، عن عثمان بن أبي العاص ، أن وفد ثقيف لما قدموا على رسول الله ﷺ ، أنزلهم المسجد ليكون أرق لقلوبهم ، فاشترطوا عليه أن لا يحشروا ، ولا يعشروا ، ولا يجبوا ، فقال رسول الله ﷺ : 
 « لكم أن لا تحشروا ، ولا تعشروا ، ولا خير في دين ليس فيه ركوع » 

عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ثقیف کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اہل وفد کو مسجد میں ٹھہرایا تاکہ ان کے دل نرم ہوں ، انہوں نے شرط رکھی کہ وہ مقابلہ کے لیے نہ اکٹھے کئے جائیں نہ ان سے عشر ( زکاۃ ) لی جائے اور نہ ان سے نماز پڑھوائی جائے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 
 " خیر تمہارے لیے اتنی گنجائش ہو سکتی ہے کہ تم مقابلہ کے لیے نہ بلائے جاؤ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم سے زکاۃ نہ لی جائے ( کیونکہ بالفعل سال بھر نہیں گزرا ) لیکن اس دین میں اچھائی نہیں جس میں رکوع ( نماز ) نہ ہو " ۔ 

 [ سنن أبي داود 3026 و إسناده صحيح إلي حميد و أخرجه أيضا أحمد في مسنده رقم ( 17913 ) من طريق عفان عن حمادبه ] 

 " عبيدة بن حسان " کی بھی ایک روایت " حسن بصری " سے اجرت اذان کے ذکر کے بغیر مروی ہے مگر عبیدہ تک سند صحیح نہیں ہے دیکھیں : 
 [ المعجم الكبير للطبراني 9 / 57 ] 
خلاصہ یہ کہ اجرت اذان کے ذکر کے ساتھ یہ طریق ضعیف و مردود ہے ۔ 



دوسرا طريق : موسى بن طلحة ، عن عثمان بن أبي العاص الثقفي : 
ہ ےےےےےے ہ

امام مسلم رحمه الله ( المتوفى 261 ) نے کہا : 
امام مسلم رحمه الله ( المتوفى 261 ) نے کہا : 
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا أبي ، حدثنا عمرو بن عثمان ، حدثنا موسى بن طلحة ، حدثني عثمان بن أبي العاص الثقفي ، أن النبي ﷺ قال له : « أم قومك » قال : قلت : يا رسول الله ، إني أجد في نفسي شيئا قال : « ادنه » فجلسني بين يديه ، ثم وضع كفه في صدري بين ثديي. ثم قال : « تحول » فوضعها في ظهري بين كتفي ، ثم قال : « أم قومك. فمن أم قوما فليخفف ، فإن فيهم الكبير ، و إن فيهم المريض ، و إن فيهم الضعيف ، و إن فيهم ذا الحاجة ، و إذا صلى أحدكم وحده ، فليصل كيف شاء » 

حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 
 " اپنی قوم کی امامت کراؤ " ۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ جھجک محسوس ہوتی ہے ، آپﷺ نے فرمایا : " قریب ہوجا " ۔ آپﷺ نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا ، پھر اپنی ہتھیلی میرے سینہ پر میرے پستانوں کے درمیان رکھی ، پھر فرمایا : " پھر جا " پھرنے کے بعد آپﷺ نے ہتھیلی میری پشت پر میرے کندھوں کے درمیان رکھی ، پھر فرمایا : " اپنی قوم کی امامت کراؤ اور جو لوگوں کا امام بنے وہ نماز میں تخفیف کرے ، کیونکہ ان میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں ، ان میں بیمار بھی ہوتے ہیں ، ان میں کمزور بھی ہوتے ہیں ۔ اور ان میں ضرورت مند بھی ہوتے ہیں جب تم میں سے کوئی اکیلا پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے ۔ " 
 [ صحيح مسلم رقم 468 و أخرجه البيهقي في " سننه " ( رقم 5278 ) من طريق محمد بن عبد الله بن نمير و أبونعيم في " مستخرجه " ( رقم 1035 ) من طريق أبي كريب ( كلاهما محمد بن عبد الله بن نمير و أبو كريب ) من طريق ابن نمير ۔ و أخرجه البيهقي أيضا في " سننه " ( رقم 5278 ) من طريق أحمد بن نصر ، و أخرجه ابوعوانه في " مستخرجه " ( 1 / 420 ) من طريق حمدان بن علي ، و أخرجه السراج في " حديثه " ( رقم 337 ) من طريق مجاهد بن موسى ، كلهم ( أحمد بن نصرو حمدان بن علي ومجاهد بن موسى ) من طريق أبي نعيم ۔ و أخرجه أيضا أحمد في " مسنده " ( رقم 16276 ) و ابن أبي شيبه في " مصنفه " ( رقم 4659 ) و أبوعوانة في " مستخرجه " ( رقم 556 ) من طريق ابن أبي رجاء و أبونعيم في " مستخرجه " ( رقم 1035 ) من طريق أبي كريب ، كلهم ( أحمدوابن ابي شيبه و أبوعوانه و أبو كريب ) من طريق وكيع ۔ و أخرجه أيضا أبوعوانة في " مستخرجه " ( رقم 1 / 420 ) من طريق محمد بن عبيد ۔ و أخرجه أيضا أحمد في " مسنده " ( رقم 17899 ) و السراج في " حديثه " ( رقم 335 ) من طريق عبيد الله بن سعيد ، كلاهما ( أحمدوعبيد الله بن سعيد ) من طريق يحيى بن سعيد ۔ و أخرجه أيضا السراج في " حديثه " ( رقم 336 ) من طريق عباد بن العوام ۔ و أخرجه أيضا أبونعيم في " مستخرجه " ( رقم 1035 ) من طريق محمد بن بشر ويونس بن بكير ۔ جميعهم ( ابن نميرو أبو نعيم ووكيع ومحمد بن عبيدويحيى بن سعيدوعباد بن العوام و محمد بن بشر ويونس بن بكير ) من طريق عمرو بن عثمان به ] 

صحیح مسلم کی اس روایت میں بھی اذان پر اجرت والی بات کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ 

تنبیہ : 
اس کے ایک طریق میں اذان پر اجرت والی بات مروی ہے چنانچہ : 

ابو عوانة يعقوب بن إسحاق الإسفرائني ( المتوفی 316 ) نے کہا : 

حدثنا علي بن حرب قال : ثنا يعلى ومحمد ابنا عبيدٍ ، ح وحدثنا عمار قال : ثنا محمد بن عبيد ، ح وحدثنا حمدان بن علي قال : ثنا أبو نعيم قالوا : ثنا عمرو بن عثمان ، بإسناده مثله بمعناه. زاد علي : 
 « واتخذ مؤذنا لا يأخذ على الآذان أجرا » ‌

 " علی بن حرب عن يعلى ومحمد ابنا عبيدٍ کے طریق میں یہ اضافہ ہے کہ : 
اور ایسا مؤذن رکھئےجو اذان پر اجرت نہ لیتا ہوں " 
 [ مستخرج أبي عوانة رقم 1557 ] 

عرض ہے کہ : 
امام ابوعوانہ نے اذان پر اجرت والی بات کے اضافہ کو " علی بن حرب " کی طرف منسوب کیا ہے اور سند میں علی بن حرب کے دو استاذ ہیں " یعلی بن عبید " اور " محمد بن عبید " ۔ 

جہاں تک " محمد بن عبید " کی بات ہے تو ان کے بیان میں اضطراب ہے کیونکہ : 

➊ علی بن حرب کی روایت میں انہوں نے اس اضافہ کو ذکر کیا ہے ۔ 

➋ جبکہ عمار کی روایت میں یہ اضافہ ذکر نہیں کیا ہے دیکھئے : [ مستخرج أبي عوانة رقم 1557 ] 

➌ اور ایک دوسری روایت میں انہوں نے اس اضافہ والی بات کو مرسل سند سے ذکر کیا ہے چنانچہ : 

امام ابن سعد رحمه الله ( المتوفى 230 ) نے کہا : 
أخبرنا محمد بن عبيد الطنافسي قال : حدثنا عمرو بن عثمان ، عن موسى بن طلحة ( ؟ ) قال : 
بعث رسول الله ﷺ عثمان بن أبي العاص على الطائف ، وقال : 
 « صل بهم صلاة أضعفهم ، ولا يأخذ مؤذنك أجرا » 

موسی بن طلحہ ( تابعی ) روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عثمان بن ابی العاص کو طائف بھیجا اور کہا : 
 " تم انہیں ان کے کمزور لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے نماز پڑھانا اور تمہارا مؤذن اجرت لینے والا نہ ہو " 
 [ الطبقات الكبرى ط دار صادر 7 / 40 و إسناده مرسل ] 

معلوم ہوا کہ محمد بن عبید اس روایت کے بیان میں سند ومتن دونوں اعتبار سے اضطراب کا شکار ہوا ہے ۔ اس لئے اس کے ان بیانات میں وہی بیان معتبر ہوگا جو اس کے استاذ کے دیگر عام شاگردوں کے موافق ہو ۔ 

رہی بات " یعلی بن عبید " کی تو ان کا یہ اضافہ بھی مردود ہوگا کہ کیونکہ ان کی معتبر متابعت موجود نہیں ہے ، اور محمد بن عبید کی روایت بجائے خود غیر معتبر ہے کیونکہ وہ کسی ایک بیان پر رکے نہیں ہیں بلکہ سند ومتن دونوں اعتبار سے اضطراب کے شکار ہوئے ہیں ۔ 
لہٰذا ان کی روایت یعلی بن عبید کے اضافہ کی مؤید نہیں ہوسکتی ۔ 
علاوہ بریں " یعلی بن عبید " کے استاذ " عمرو بن عثمان " سے ان کے دیگر سات شاگردوں نے صحیح سندون سے یہی روایت بیان کی ہے مگر کسی نے بھی اذان پر اجرت والی بات روایت نہیں کی ہے ملاحظہ ہوں دیگر شاگردوں کی روایات : 

➊ عبد الله بن نمير حدثنا عمرو بن عثمان 
 ( صحيح مسلم رقم 468 ) 

➋ أبو نعيم ، ثنا عمرو بن عثمان 
 ( السنن الكبرى للبيهقي رقم 5278 و إسناده حسن ) 

➌ وكيع ، عن عمرو بن عثمان 
 ( مصنف ابن أبي شيبة رقم 4659 و إسناده صحيح ) 

➍ يحيى بن سعيد ، قال : حدثنا عمرو بن عثمان 
 ( مسند أحمد رقم 17899 و إسناده صحيح ) 

➎ عباد ‌بن ‌العوام ثنا عمرو بن عثمان 
 ( حديث السراج رقم 336 و إسناده حسن ) 

➏ محمد بن بشر عن عمرو بن عثمان 
 ( المسند المستخرج على صحيح مسلم 2 / 85 و إسناده صحيح ) 

➐ يونس بن بكير عن عمرو بن عثمان
 ( المسند المستخرج على صحيح مسلم 2 / 85 و إسناده صحيح ) 

ان سات لوگوں کا بالاتفاق اپنے استاذ سے اس حدیث کو اذان پر اجرت والے الفاظ کے بغیر روایت کرنا بہت واضح دلیل ہے کہ اس حدیث میں اذان پر اجرت والی بات موجود ہی نہیں ، یہی وجہ ہے کہ امام مسلم نے بھی اسی طریق سے اس حدیث کو روایت کیا ہے مگر اذان پر اجرت والی بات ذکر نہیں کی ہے ۔ 



تیسرا طريق : طريق مطرف بن عبد الله
ہ ےےےےےے ہ

 مطرف بن عبد الله ، عن عثمان بن أبي العاص الثقفي

امام أبوداؤد رحمه الله ( المتوفى 275 ) نے کہا : 

حدثنا موسى بن إسماعيل ، حدثنا حماد ، أخبرنا سعيد الجريري ، عن أبي العلاء ، عن مطرف بن عبد الله ، عن عثمان بن أبي العاص ، قال : قلت : وقال موسى في موضع آخر إن عثمان بن أبي العاص قال – يا رسول الله اجعلني إمام قومي ، قال : « أنت إمامهم واقتد بأضعفهم واتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا » 

عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : 
اے اللہ کے رسول! آپ مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیجئیے ، 
آپ ﷺ نے فرمایا : 
 " تم ان کے امام ہو تو تم ان کے کمزور ترین لوگوں کی رعایت کرنا ، اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان پر اجرت نہ لے " ۔ 

 [ سنن أبي داود رقم 531 و إسناده ضعيف ومن طريق أبي داؤد أخرجه ابن حزم في " المحلي " ( 3 / 15 ) والبغوي في " شرح السنة " ( رقم 417 ) . و أخرجه عفان ( أحاديث عفان 236 ترقیم الشاملة ) ترقيم الشاملة و أخرجه أيضا أحمد في مسنده ( 29 / 435 ) ومن طريقه أخرجه ابن الجوزي في " التحقيق " ( رقم 1575 ) من طريق حسن بن موسى الأشيب ، و أخرجه أيضا ابن قانع في " معجم الصحابه " ( 2 / 256 ) من طريق أبي سلمة ، و أخرجه أيضا ابن المنذر في " الأوسط " ( رقم 1238 ) و الطحاوي في شرح مشكل الآثار ( رقم 6000 ) من طريق يحيى بن حسان التنيسي ، و أخرجه أيضا الجورقاني في الأباطيل ( رقم 531 ) من طريق عبيد الله بن محمد العيشي ، و أخرجه أيضا في " مسنده " ( رقم 214 ) من طريق سليمان بن حرب ، و أخرجه أيضا الطبراني في " معجمه الكبير " ( رقم 8365 ) من طريق حفص بن عمر الضرير وحجاج بن المنهال ، و أخرجه أيضا ابن خزيمة في " صحيحة " ( 1 / 221 ) من طريق هشام بن الوليد و محمد بن الفضل عارم ، كلهم ( عفان و حسن بن موسى الأشيب و أبو سلمة و يحيى بن حسان التنيسي و عبيد الله بن محمد العيشي و سليمان بن حرب وحفص بن عمر الضرير وحجاج بن المنهال وهشام بن الوليد و محمد بن الفضل عارم ) من طريق حماد بن سلمة به ] 
.
یہ روایت ضعيف ہے ۔ 
امام جورقاني رحمه الله ( المتوفى 543 ) اس روایت کے تمام طرق کے پیش نظر اس پر نقد کرنے کے بعد فرماتے ہیں : 

 " رواه جماعة كثيرة عن عثمان ولم يقل منهم أحد : واتخذ [ مؤذنا ] لا يأخذ على أذانه أجرا ، إلا ما تفرد به حماد عن الجريري " 

 " اس حدیث کو عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی یہ الفاظ نہیں بیان کئے کہ : 
 " ایسا مؤذن رکھیں جو اجرت نہ لیتا ہو " ، 
یہ الفاظ صرف حماد بن سلمہ نے جریری کے طریق سے بیان کیا ہے " 

 [ الأباطيل والمناكير للجورقاني : 2 / 171 ما بين القوسين من الناقل ] 
.
یادرہے " حماد بن سلمہ " نے کئی روایات کو بیان کرتے ہوئے سند و متن میں غلطیاں کی ہیں چنانچہ : 

امام ذهبي رحمه الله ( المتوفى 748 ) نے کہا : 

 " هو ثقة صدوق يغلط " ، 
 " یہ ثقہ وصدوق ہیں اور غلطی کرتے ہیں " 
 [ الكاشف للذهبي ت عوامة : 1 / 349 ] 

بلکہ بعض نے تویہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ آخری عمر میں سوئے حفظ کے شکار ہوگئے تھے لیکن علی الاطلاق ایسا کہنا درست نہیں ہے ۔ 

البتہ جس روایت میں یہ ثقات کی مخالفت کریں وہاں ان کی روایت قابل حجت نہ ہوگی جیساکہ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 

 « و إذا كان الأمر على هذا فالاحتياط لمن راقب الله تعالى أن لا يحتج بما يجد في أحاديثه مما يخالف الثقات » 

 " جب حماد بن سلمہ کا معاملہ ایسا ہے تو اللہ والوں کے لئے احتیاط اسی میں ہے کہ یہ جن روایات کو بیان کرنے میں ثقات کی مخالفت کریں ان میں ان کو حجت نہ مانا جائے " 

 [ الخلافيات للبیہقی : 2 / 50 ] 
نیز دیکھیں : ہماری کتاب احکام طلاق ( ص ) 

تنبیہ : 
بعض لوگوں نے امام جورقانی کی اس جرح کا یہ جواب دیا ہے کہ حماد بن سلمہ کی متابعت " حماد بن زید " نے بھی کردی ہے جیساکہ مسند احمد میں ہے ۔ 
 [ مسند أحمد 26 / 201 ] 

جوابا عرض ہے کہ : 
امام احمد رحمہ اللہ نے اسے عفان کے واسطے سے نقل کیا ہے اور عفان کے دیگر تمام شاگردوں نے بلکہ دوسری جگہ خود امام احمدذ رحمہ اللہ نے بھی اس روایت میں عفان کے استاذ کی جگہ " حماد بن سلمہ " ہی کانام لیا ہے حوالے ملاحظہ ہوں : 

➊ احمد بن حنبل حدثنا عفان ، قال : حدثنا حماد بن سلمة 
 ( مسند أحمد رقم 16271 ) 

➋ أحمد بن سليمان ، قال : حدثنا عفان ، قال : حدثنا حماد بن سلمة
 ( السنن الكبرى للنسائي 2 / 250 ) 

➌ محمد بن إسحاق الصغاني ثنا عفان ثنا حماد بن سلمة
 ( السنن الكبرى للبيهقي 1 / 631 ) 

نیز " احادیث عفان " میں بھی یہ حدیث صرف حماد بن سلمہ ہی کے طریق سے دیکھیں : [ أحاديث عفان 236 ] 

علاوہ بریں عفان کے علاوہ تمام رواۃ نے اسے بالاتفاق حماد بن سلمہ سے ہی روایت کیا ہے ۔ حوالے ملاحظہ ہوں : 

➊ موسى بن إسماعيل ثنا حماد بن سلمة 
 ( المحلى لابن حزم ، ط بيروت : 3 / 15 ) 

➋ حسن بن موسى ، حدثنا حماد بن سلمة 
 ( مسند أحمد 29 / 435 ) 

➌ يحيى بن حسان ، حدثنا حماد بن سلمة 
 ( شرح مشكل الآثار 15 / 263 ) 

➍ سليمان بن حرب ثنا حماد بن سلمة 
 ( مسند السراج ص100 ) 

➎ حجاج بن المنهال ، قالوا : ثنا حماد بن سلمة 
 ( المعجم الكبير رقم 8365 ) 

➏ ابو عمر الضرير ، ثنا حماد بن سلمة 
 ( المعجم الكبير رقم 8365 ) 

ان حقائق سے روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ یہ طریق حماد بن سلمہ ہی کا ہے ۔ 

تاہم اگرفرض کرلیں کہ اس مقام پر حماد بن زید ہی ہے اور اس نے حماد بن سلمہ کی متابعت کردی ہے تو بھی سند کے اوپری طبقات میں بھی علتیں موجود ہیں چنانچہ : 
.
 " مطرف بن عبد الله " سے اسی روایت کو جب ان کے دوسرے شاگرد " سعید بن ابی الھند " نے روایت کیا تو اس میں اذان پر اجرت والی بات ذکر نہ کی چنانچہ : 

امام حمیدی رحمہ اللہ ( المتوفی219 ) نے کہا : 

ثنا سفيان قال : ثنا محمد بن إسحاق ، سمعه من سعيد بن أبي هند ، سمعه من مطرف بن عبد الله بن الشخير ، قال : سمعت عثمان بن أبي العاص الثقفي ، يقول : قال رسول الله ﷺ : 
 « أم قومك واقدرهم بأضعفهم ، فإن منهم الكبير ‌والضعيف ‌وذا ‌الحاجة » 

مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : 

 " عثمان! نماز ہلکی پڑھنا ، اور لوگوں میں جو سب سے زیادہ کمزور ہوں ان کی رعایت کرنا ، اس لیے کہ لوگوں میں بوڑھے ، ناتواں اور ضرورت مند سبھی قسم کے لوگ ہوتے ہیں " ۔ 

 [ مسند الحميدي رقم 929 و إسناده صحيح و أخرجه ابن أبي شيبة في مصنفه ( رقم 8891 ) من طريق إسماعيل بن إبراهيم ومن طريقه أخرجه ابن ماجه في سننه ( رقم 987 ) من طريق إسماعيل ابن علية ، و أخرجه أيضا أحمد في مسنده ( رقم 16273 ) من طريق حماد بن زيد ، و أخرجه أيضا أبونعيم في معرفة الصحابة ( رقم 4936 ) من طريقه يزيد بن هارون ، و أخرجه أيضا ابن المنذر في الأوسط ( رقم 2030 ) من طريق يزيد بن زريع ، و أخرجه أيضا ابن خزيمه في صحيحه ( رقم 1608 ) من طريق سلمة بن الفضل وابن عدي و سفيان ، كلهم ( اسماعيل بن عليلة وحماد بن زيد ويزيد بن هارون ويزيد بن زريع ) عن ابن اسحاق به ، وصرح ابن اسحاق بالسماع عند ابن المنذر ] .
.

نیز " عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ " سے ان كے شاگرد " مطرف بن عبد الله " کے علاوه دیگر شاگردوں نے یہ روایت بیان کی تو انہوں نے بھی اذان پر اجرت والی بات ذکر نہ کی ۔ 

موسى بن طلحة عن عثمان بن أبي العاص کی روایت صحیح مسلم ( رقم 468 ) کے حوالے سے گزرچکی ہے ۔ 

دیگر شاگردوں کی روایات اگلے طرق میں ملاحظہ ہوں : 



چوتھا طریق : سعيد بن المسيب عن عثمان بن أبي العاص : 
ہ ےےےےےے ہ

امام مسلم رحمہ الله ( المتوفى 261 ) نے کہا : 
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قالا : حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال : سمعت سعيد بن المسيب ، قال : حدث عثمان بن أبي العاص ، قال : 
 « آخر ما عهد إلي رسول الله ﷺ إذا أممت قوما ، فأخف بهم الصلاة » 

سعید بن مسیب نے کہا : حضرت عثمان بن ابی عاص رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے آخری بات جو میرے ذمے لگائی یہ تھی : 
 " جب تم لوگوں کی امامت کراؤ تو انہیں نماز ہلکی پڑھاؤ ۔ " 

 [ صحيح مسلم رقم 468 ومن طريق جعفر أخرجه أحمد في " مسنده " ( رقم 16277 ) ، و أخرجه البيهقي في سننه ( رقم 5269 ) من طريق أبي داؤد ، و أخرجه أيضا أبونعيم في معرفة الصحابة رقم 4937 من طريق بشر بن عمروسليمان بن حرب و أبي الوليد ، كلهم ( أبوداود وبشر بن عمروسليمان بن حرب و أبو الوليد ) من طريق شعبة به ] 

یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے اور اس میں اذان کی اجرت کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ 



پانچواں طریق : حكيم بن حكيم عن عثمان بن أبي العاص : 
ہ ےےےےےے ہ

امام طبراني رحمه الله ( المتوفى 360 ) نے کہا : 

حدثنا يحيى بن أيوب العلاف المصري ، ثنا سعيد بن أبي مريم ، ثنا محمد بن جعفر ، عن سهيل بن أبي صالح ، عن حكيم بن حكيم بن عباد بن حنيف ، عن عثمان بن أبي العاص ، قال : قدمت في وفد ثقيف حين وفدوا على رسول الله ﷺ ، فلبسنا حللنا بباب النبي ﷺ ، فقالوا : 
من يمسك لنا رواحلنا ، وكل القوم أحب الدخول على النبي ﷺ وكره التخلف عنه ، قال عثمان : وكنت أصغر القوم ، فقلت : إن شئتم أمسكت لكم على أن عليكم عهد الله لتمسكن لي إذا خرجتم ، قالوا : فذلك لك ، فدخلوا عليه ثم خرجوا فقالوا : انطلق بنا ، قلت : أين؟ فقالوا : إلى أهلك ، فقلت : ضربت من أهلي حتى إذا حللت بباب النبي ﷺ أرجع ولا أدخل عليه ، وقد أعطيتموني من العهد ما قد علمتم؟ قالوا : فأعجل فإنا قد كفيناك المسألة ، لم ندع شيئا إلا سألناه عنه ، فدخلت فقلت : يا رسول الله ، ادع الله أن يفقهني في الدين ويعلمني ، قال : « ماذا قلت؟ » فأعدت عليه القول ، فقال : « لقد سألتني شيئا ما سألني عنه أحد من أصحابك ، اذهب فأنت أمير عليهم وعلى من تقدم عليه من قومك ، و أم الناس بأضعفهم » فخرجت حتى قدمت عليه مرة أخرى فقلت : يا رسول الله ، اشتكيت بعدك ، فقال : ضع يدك اليمنى على المكان الذي تشتكي ، وقل : أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد سبع مرات ففعلت فشفاني الله عز وجل

عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ ثقیف کے لوگ جب اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آئے تو میں بھی ان میں تھا ۔ ہم نے نبی ﷺ کے دروازے پر اپنے کپڑے پہنے ۔ وفد کے لوگوں نے کہا : کون ہمارے جانوروں کو سنبھالے گا؟ سب لوگ نبی ﷺ سے ملنا چاہتے تھے اور کوئی پیچھے رہنا نہیں چاہتا تھا ۔ عثمان کہتے ہیں : میں وفد میں سب سے کم عمر تھا ، تو میں نے کہا : اگر تم چاہو تو میں تمہارے جانور سنبھال لوں ، بشرطیکہ تم اللہ کا عہد دو کہ جب تم باہر آؤ گے تو میرے جانور سنبھالو گے ۔ انہوں نے کہا : ٹھیک ہے ، آپ کی بات منظور ہے ۔ چنانچہ وہ نبی ﷺ سے ملنے اندر گئے اور پھر باہر آئے ۔ انہوں نے مجھ سے کہا : چلو ہمارے ساتھ ۔ میں نے پوچھا : کہاں؟ انہوں نے کہا : اپنے گھر والوں کے پاس ۔ میں نے کہا : میں اپنے گھر والوں سے اتنی دور تک آیا ہوں اور اب نبی ﷺ کے دروازے پر پہنچ کر واپس چلا جاؤں اور ان سے نہ ملوں؟ تم نے مجھے جو عہد دیا تھا ، وہ تم جانتے ہو! انہوں نے کہا : ٹھیک ہے لیکن جلدی کرنا کیونکہ ہم نے تمہاری جگہ سب کچھ پوچھ لیا ہے کوئی سوال نہیں چھوڑا جو ہم نے نبی ﷺ سے نہ کیا ہو ۔ پھر میں اندر گیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے دین کی سمجھ عطا فرمائے اور مجھے دین کا علم سکھائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے کیا کہا؟ میں نے اپنی بات دہرائی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : 
تم نے مجھ سے ایسی چیز مانگی جو میرے کسی اور ساتھی نے نہیں مانگی ۔ جاؤ ، تم اپنے وفد اور جن لوگوں کے پاس تم جارہے ہو ان کے امیر ہو ، اور لوگوں کی امامت کرتے ہوئے کمزوروں کی رعایت کرنا ۔ 
پھرمیں واپس آیا اور کچھ عرصے بعد دوبارہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کے بعد مجھے بیماری ہوئی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اپنا دایاں ہاتھ اس جگہ پر رکھو جہاں تکلیف ہے اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھو : أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد 
 ( میں اللہ کی عزت اور اس کی قدرت کے ساتھ اس شر سے پناہ مانگتا ہوں جو مجھے محسوس ہو رہا ہے ) ۔ 
میں نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا عطا فرمائی ۔ 

 [ المعجم الكبير للطبراني رقم 8356 و إسناده حسن و أخرجه أيضا السراج في " مسنده " ( رقم 221 ) من طريق محمد بن جعفر به مختصرا ] 

یہ حسن روایت ہے اس میں بھی اذان کی اجرت کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ 
.
مذکورہ طرق کے علاوہ اس حدیث کے اور بھی طرق ہیں اور ان میں بھی اذان پر اجرت والے الفاظ ثابت نہیں ہیں لیکن ہماری نظر میں وہ سب کے سب ضعیف و غیر ثابت ہیں اور وہ ہیں : 



چھٹا طریق : - 
ہ ےےےےےے ہ

 داود بن أبي عاصم الثقفي ، عن عثمان بن أبي العاص 
 ( مسند أحمد 29 / 440 وقال المعلقون عليه : إسناده قوي ) 



ساتواں طریق : -  
ہ ےےےےےے ہ

عبد ‌الله ‌بن ‌الحكم عن ‌عثمان ‌بن ‌أبي ‌العاص 
 ( مسند أحمد 29 / 441 ) 



آٹھواں طریق : -  
ہ ےےےےےے ہ

نعمان بن سالم ، عن عثمان بن أبي العاص 
 ( معجم الصحابة لابن قانع 2 / 256 ) 



نواں طریق : -  
ہ ےےےےےے ہ

المغيرة بن شعبة عن عثمان بن أبي العاص 
 ( المعجم الكبير للطبراني 9 / 44 ) 



دسواں طریق : -  
ہ ےےےےےے ہ

اشیاخ بنی ثقیف عن عثمان بن أبي العاص 
 ( مسند أحمد 26 / 203 وقال المعلقون عليه : حديث صحيح ، ولا يضر جهالة الرواة الذين حدث عنهم النعمان بن سالم الثقفي ، لأنهم جمع ) 

ان طرق میں سے بھی کسی ایک میں اذان پر اجرت والی بات مذکور نہیں ہے ، لیکن چونکہ ہماری نظر میں یہ سارے طرق ضعیف ہیں اس لئے ہم اس کی تفصیل میں نہیں جاتے ۔ 

ایک شاہد کا جائزہ
امام طبراني رحمه الله ( المتوفى 360 ) نے کہا : 

حدثنا ‌عبد ‌الله ‌بن ‌أحمد ‌بن ‌حنبل ، ‌حدثني ‌محمد ‌بن ‌عبد ‌الرحيم البرقي ، ثنا شبابة بن سوار ، ثنا المغيرة بن مسلم ، عن الوليد بن مسلم ، عن سعيد القطيعي ، عن المغيرة بن شعبة ، قال : سألت النبي ﷺ أن يجعلني إمام قومي فقال : 
 « صل صلاة أضعف القوم ، ولا تتخذ مؤذنا يأخذ على أذانه أجرا » 

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے مطالبہ کیا کہ مجھے میری قوم کا امام بنادیں ، تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ : 
 " تم انہیں ان کے کمزورں کی رعایت کرتے ہوئے نماز پڑھانا اور اور ایسا مؤذن مت رکھنا جو اپنی اذان پر اجرت لیتا ہو " 

 [ المعجم الكبير للطبراني 20 / 434 و إسناده ضعيف جدا و أخرجه البخاري في " التاريخ " ( 3 / 486 ) من طريق محمد أبي يحيي عن شبابة به ولم يذكر في الإسناد الوليد بن مسلم ] 
.
یہ روایت درج ذیل علتوں کی بنا پر سخت ضعیف ہے : 

① اولا : 
سعید بن طھمان کا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے ۔ 

کسی بھی محدث نے سعید بن طہمان کے اساتذہ میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔ 

امام ابو حاتم الرازي رحمہ اللہ الله ( المتوفى 277 ) نے کہا : 
 " يروي عن أنس ، لا يذكر سماعا ، ولا رؤية " 

 " یہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے لیکن نہ تو ان سے سماع کا ذکر کرتا ہے نہ رؤیت کا " 

 [ الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ، ت المعلمي : 4 / 35 ] 
.
غور کیجئے کہ جب ان کا سماع انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت نہیں ہے جن کی وفات 93 ہجری میں ہوئی ہے ۔ 
 [ تهذيب الكمال للمزي : 3 / 377 ] 

تو پھرمزید چالیس سال سے بھی زیادہ پیچھے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع کیسے ثابت ہو سکتا ہے جن کی وفات 50 ہجری میں ہوئی ہے ۔ 
 [ تاريخ بغداد ، مطبعة السعادة : 1 / 191 ] 

② ثانیا : 
طبرانی کی روایت میں مغیرہ بن مسلم اور سعيد القطيعي کے درمیان ولید بن مسلم کا اضافہ ہے اور انہوں نے آگے سند کے تمام طبقات میں سماع کی صراحت ذکر نہیں کی ہے جبکہ یہ بکثرت تدلیس و تسویہ کرنے والے ہیں ۔ 

حافظ ابن حجر رحمه الله ( المتوفى 852 ) نے ان کے بارے میں کہا : 

 « كثير التدليس والتسوية » ، " یہ بکثرت تدلیس اور تسویہ کرنے والے ہیں " 
 [ تقريب التهذيب لابن حجر : رقم 7456 ] 

اور یہ سند سے کذابین اور وضاعین کو ساقط کرتے تھے اس لئے ان کے عنعنہ والی روایت سخت ضعیف شمار ہوگی خواہ عنعنہ کسی بھی طبقہ میں ہو ۔ 

ترمذی ( رقم 3570 ) کی روایت کے تمام رجال بخاری ومسلم کے رجال ہیں اور سند میں علت صرف ولید بن مسلم کا عنعنہ ہے لیکن محدثین نے موضوع ومن گھڑت قرار دیا ہے ۔ 

علامه الباني رحمه الله نے اسے موضوع کہا ہے ، اور اس کاسبب وليد کے تسويه کو قرار ديا ہے 
 [ الضعيفة : 7 387 ، تحت الرقم 3374 ] 

حافظ ابن حجر رحمه الله نے بھی اس روايت کو موضوع کہا ہے 
 ( لسان الميزان : 205 ) اور 
وليدبن مسلم کي تدليس تسويه کو علت قرارديا ہے 
 [ النکت الظراف : 915 ] 

③ ثالثا : 
روایت میں امامت کا متن دسیوں طرق سے مروی ہے جن میں بہت سارے طرق صحیح ہیں 
ان تمام طرق میں رواۃ کا اتفاق ہے کہ امامت کی یہ بات عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے کی تھی ۔ 

لہٰذا ان تمام طرق کے بر خلاف اس روایت میں اس بات کو دوسرے صحابی کے حوالے ذکر کرنا یہ بھی دلیل ہے کہ یہ روایت باطل اور کالعدم ہے ۔ 



خلاصہ کلام : 
ہ ےےےےےے ہ

زیر بحث حدیث کے کل دس طرق ملتے ہیں جن میں چھ طرق ( پہلا اور چھٹا تا دسواں ) سرے سے ضعیف وغیر ثابت ہیں ۔ 

باقی بچے چار طرق ( دوسرا تا پانچواں ) تو ان میں دو طرق ( چوتھا اور پانچواں ) میں اذان پر اجرت والی بات کا ذکر ہی نہیں ہے ۔ 
باقی بچے دو طرق ( دوسرا اور تیسرا ) تو ان میں سے دوسرے یعنی موسى بن طلحة والے طریق میں اذان پر اجرت والی بات شاذ ہے اور اصل اور ثابت روایت میں یہ بات مذکور ہی نہیں ہے 
اسی لئے امام مسلم نے اپنی صحیح میں جب اس طریق سے روایت درج کی تو اس میں اذان پر اجرت والےالفاظ ذکر نہیں کئے ۔ 

اور باقی بچا تیسرا یعنی مطرف والا طریق تو اس میں بھی اذان پر اجرت والے الفاظ ثابت نہیں ہیں  کیونکہ حماد سے اوپر طبقات میں مخالفت ہے جیسا کہ تفصیل گزچکی ہے ۔ اسی لئے امام جورقانی رحمہ اللہ نے حماد کے بیان کردہ اضافہ کو ضعیف قرار دیا ہے کما مضی ۔ 


 ماخوذ : 







ہ ےےےےےے ہ


جوائین ان :


شئیر

 ۔ 

جمعرات، 25 ستمبر، 2025

لاؤڈ اسپیکر کی اقتداء مختلف علماء



 ۔  

✿ ۔ ﷽ ۔ ✿

فتاوی 
لاؤڈ اسپیکر کی اقتداء ، 
راستوں سڑکوں پر نماز ، 
صفوں میں فاصلہ ، 
ستونوں کے درمیان نماز ، 

مختلف علماء

جمع و ترتیب
سید محمد عزیر ادونوی


ہ ےےےےےے ہ


01 ۔  
کیا امام کی آواز سنائی دینے کی صورت میں نماز گھر پر ادا کرنا جائز ہے ؟ 



سوال : 

اگر امام کی آواز سنائی دیتی ہو تو کیا مسلمان کے لیے اپنے گھر میں نماز جمعہ ادا کرنا جائز ہے ؟ 



جواب : 

نماز جمعہ ادا کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ مسلمان مسجد میں حاضر ہو کر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز ادا کریں ۔  
جمعہ کی نماز کو جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا ہی جائز اور مشروع طریقہ ہے ۔  

✿ اگر مسجد نمازیوں سے بھر جائے اور صفیں سڑکوں یا مسجد سے باہر دیگر جگہوں تک جا پہنچیں ، تو اس صورت میں باہر نماز ادا کرنا ضرورت کی بناء پر جائز ہے ۔  

✿ لیکن اپنے گھر یا دکان میں جمعہ کی نماز ادا کرنا کسی صورت بھی جائز اور حلال نہیں ہے ، چاہے امام کی آواز گھر میں واضح طور پر سنائی دے رہی ہو ۔  


✿ جمعہ کی نماز کا مقصد : 

 جمعہ و جماعت کا بنیادی مقصد صرف نماز ادا کرنا نہیں بلکہ مسلمانوں کا باہم اجتماع اور میل جول بھی ہے ۔  


✿ اس اجتماع سے : 

◈ مسلمانوں کے درمیان امت کا تصور مضبوط ہوتا ہے ۔  

◈ محبت و الفت پیدا ہوتی ہے ۔  

◈ جاہل ، عالم سے سیکھتا ہے اور علم کا تبادلہ ہوتا ہے ۔  


✿ اگر ہر شخص کو اجازت دے دی جائے : 
✿ اگر ہر مسلمان کو یہ کہہ دیا جائے کہ : 

◈ تم ریڈیو سے خطبہ سن کر نماز ادا کرلو ، 

◈ یا اسپیکر کی آواز سن کر گھر میں نماز پڑھ لو ، 

✿ تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ : 

◈ مساجد کی اہمیت ختم ہو جائے گی ۔  

◈ لوگ مسجد آنا چھوڑ دیں گے ۔  

◈ جمعہ و جماعت کا اجتماعی نظام درہم برہم ہو جائے گا ۔  

اس لئے یہ عمل کسی طور درست نہیں ہے اور اس کی اجازت دینا دین کے اجتماعی نظم کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے ۔  

فتاویٰ ارکان اسلام 

https://tohed.com/280413


ہ ےےےےےے ہ


02 ۔  
سڑکوں کو بلاک کرکے عید کی نماز پڑھنے کا شرعی حکم 



سوال : 

بعض اہلحدیث علاقوں میں دیکھا گیا ہے کہ مسجد کے اندر جگہ نہ ہونے کے باعث لوگ مسجد کے باہر یا سڑکوں کو بند کر کے عید کے اجتماعات منعقد کرتے ہیں ۔  ایسی صورتِ حال میں شرعی حکم کیا ہے ؟ 



جواب : 

✿ عید کی نماز کا اجتماع کھلے میدان یا مخصوص عیدگاہ میں کرنا سنت طریقہ ہے ۔  

✿ اگر روڈ یا سڑک کو بند کر کے اجتماع کیا جائے اور اس سے لوگوں کو تکلیف پہنچے ، تو ایسا عمل شرعاً درست نہیں ۔  
ایسی صورت سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ شریعت کا اصول ہے : 

"لاضرر و لاضرار”

یعنی "نہ خود کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ کسی کے نقصان کا سبب بنو ۔  ”

چنانچہ لوگوں کے لیے راستہ بند کرکے نماز کا اجتماع کرنا ، اگر ان کے لیے تکلیف دہ ہو ، تو یہ قابلِ اجتناب ہے ۔  

فتاویٰ علمیہ ، جلد 1 ، کتاب الصلاۃ ، صفحہ 454

https://tohed.com/86f037


ہ ےےےےےے ہ


03 ۔ 
 جمعہ میں بھیڑ کی وجہ سے سڑکوں پر نماز پڑھنا



سوال : 

جمعہ کے دن بعض مسجدوں میں اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ بعض لوگ امام کی اقتدا میں راستوں اور سڑکوں پر نماز پڑھتے ہیں اس سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ 

نیز کبھی تو نمازیوں کے اور مسجد کے درمیان کوئی سڑک وغیرہ حائل ہوتی ہے اور کبھی کوئی فاصلہ نہیں ہوتا کیا مذکورہ دونوں صورتوں میں حکم یکساں ہے یا کوئی فرق ہے ؟ 



جواب : 

✿ اگر صفیں متصل ہوں اور ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں

✿ اسی طرح اگر مسجد کے باہر والے مقتدی اپنے آگے کی صفوں کو دیکھ رہے ہوں یا تکبیر کی آواز سن رہے ہوں تب بھی کوئی حرج نہیں بھلے ہی ان کے درمیان کوئی سڑک وغیرہ حائل ہو ۔  
کیونکہ جب وہ دیکھ کر یا سن کر باآسانی امام کی اقتدا کر سکتے ہیں تو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے ۔  

✿ البتہ امام سے آگے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا درست نہیں کیونکہ یہ مقتدی کے کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہے ۔  

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ
صفحہ : 124
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/21564/%D8%B5%D9%81%D9%88%DA%BA


ہ ےےےےےے ہ


04 ۔  
مسجد میں ستونوں کے درمیان صف بنانا



سوال : 

اکثر مساجد میں ستون ہوتے ہیں ۔  تو کیا ستونوں کے درمیان صف بنائی جا سکتی ہے ؟ 
کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں ؟ 



جواب : 

✿ قرہ بن ایاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔  
"كُنَّا نُنْهَى أَنْ نَصُفَّ بَيْنَ السَّوَارِي عَلَى عَهْدِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .... بَيْنَ السَّوَارِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُطْرَدُ عَنْهَا طَرْدًا"

’’ہمیں رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک میں ستونوں کے درمیان صف بنانے سے منع کیا جاتا اور ہمیں پیچھے ہٹا دیا جاتا ۔  ‘‘
(الصحیحہ : 335)

یہ حدیث ستونوں کے درمیان صف نہ بنانے کی صریح دلیل ہے ۔  
لہٰذا آگے یا پیچھے لازمی ہے سوائے کسی مجبوری کے ۔  

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا : 
"لا تصفُّوا بَيْنَ السَّوَارِي"
’’تم ستونوں کے درمیان صف نہ بناؤ ۔  ‘‘
(المدونہ1/106 ۔  بیہقی 3/104)

✿ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔  
’’یہ ممانعت اس لیے کہ ستون صف کے ملانے جوڑنے میں رکاوٹ بنتا ہے ۔  ‘‘

✿ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔  
’’امام کے لیے دو ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا مکروہ نہیں ۔  مقتدیوں کے لیے مکروہ ہے ۔  اس لیے کہ ستون کی صفوں کو منقطع کر دیتا ہے ۔  

✿ ابن مسعود ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے ۔  خذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے ۔  

✿ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ مالک رحمۃ اللہ علیہ اہل الرائے رحمۃ اللہ علیہ اور ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ نے اس لیے اس کی رخصت دی ہے کہ اس کے منع کی کوئی دلیل نہیں ۔  

✿ (امام ابن مکرامہ فرماتے ہیں)ہماری دلیل قرہ بن ایاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے ۔  اور اس کے منع کی وجہ ہے کہ اس سے صف منقطع ہو جاتی ہے ۔  (ہاں) اگر صف ہی دو ستونوں کے درمیان چھوٹی سی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں اس لیے کہ اس سے صف نہیں ٹوٹتی ۔  "

✿ فتح الباری 1/477"میں لکھا ہے : 
’’امام الطبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔  ایک جماعت نے ستون کے درمیان صف بنانے کی ممانعت کی ۔  حدیث کی وجہ سے ۔  ناپسند کیا ہے اور اس کی وجہ تنگی نہ ہونا ہے(یعنی اور جگہ موجود ہے)اور اس کی حکمت یا توصف کے انقطاع ہے یا جوتے رکھنے کی جگہ ہے ۔  


✿ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : 
اس کی کراہت کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مومن جنوں کے نماز ادا کرنے کی جگہ ہے ۔  ‘‘

✿ قلت : 
ایسا بڑا منبر جس کے بہت سے درجے ہوتے ہیں کہ وہ پہلی صف کو بسا اوقات دوسری صف کو بھی منقطع کر دیتا ہے کا بھی یہی حکم ہے ۔  

✿ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : 
"منبر صف کے کچھ حصے کو منقطع کر دیتا ہے ۔  خصوصاً منبر کے سامنے پہلی صف دونوں اطراف سے منقطع ہوتی ہے (یعنی درمیان میں منبر آنے سے صف ٹوٹ جاتی ہے)

✿ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔  

پہلی صف وہ ہوتی ہے اور اس پر بیٹھ کر کوئی بھی خطیب کے سامنے آکر اس کا خطبہ سنتا ہے ۔  (الاحیاء 2/139)
یعنی امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مقطوع صف صفوں میں شمار ہی نہیں ہوتی ۔  

✿ قلت : 
منبر صف اس وقت بھی کاٹنا ہے جب وہ نبی اکرم ﷺ کے منبر کے مخالف ہو ۔  اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ کے منبر کے تین درجے تھے ۔  ایسا منبر صف کو منقطع نہیں کرتا ۔  اس لیے کہ امام سب سے نچلے درجہ کے برابر کھڑا ہو جاتا ہے ۔  

✿ منبر کے معاملے میں سنت کی مخالف کی نحوست سے حدیث میں وارد نہی کا ارتکاب ہوتا ہے ۔  

اسی طرح بعض مساجد میں (قالین یا چٹائی کی)صفیں اس انداز سے بچھائی جاتی ہیں کہ صف منقطع ہو جاتی ہے اور اس ممنوع کام پر امام مسجد یا کوئی نمازی توجہ نہیں دیتا اس کی پہلی وجہ تو لوگوں کا دین سے دوری اور دوسری وجہ شارع کے منع کردہ اور ناپسندیدہ کاموں سے بچنے میں لا پرواہی ہے ۔  

ہر وہ شخص جو مسجد میں صف منقطع کرنے والے منبر یا(قالین چٹائی کی) صفیں لگانے کی تگ و دو کرتے ہیں ۔  اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ یہ بات جان لے کہ اسے رسول اللہ ﷺ کی بد دعاء ہے : 

"وَ مَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ "

’’اور جس نے صف کو توڑا اللہ اسے توڑے گا ۔  ‘‘
(صحیح ابو داؤد : 672)
(نظم الفرائد : 1/361 ۔  360)

فتاویٰ البانیہ
نماز کا بیان ، صفحہ : 188
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/21854/%D8%B5%D9%81%D9%88%DA%BA


ہ ےےےےےے ہ


05 ۔  
سوال 1 : 

کیا لاؤڈ سپیکر کی آواز سن کر فرض نماز ادا کی جا سکتی ہے ؟ 


جواب : 

جی ہاں ، لاؤڈ سپیکر کی آواز پر فرض نماز ادا کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ امام کی آواز کو مقتدیوں تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے ۔  

اس کے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں ہے ۔  

لاؤڈ سپیکر کا مقصد صرف امام کی آواز کو دور تک پہنچانا ہے ، جس سے نماز کی ادائیگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔  


سوال 2 : 

اگر مسجد گاؤں کے درمیان ہو اور لاؤڈ سپیکر کا انتظام ہو تو کیا مرد اور عورتیں اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ سکتے ہیں ؟ 


جواب : 

✿ لاؤڈ سپیکر کی آواز پر گھروں میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ، چاہے مرد ہوں یا عورتیں ۔  

✿ امام اور مقتدی کے درمیان کوئی بہت زیادہ فاصلہ نہیں ہونا چاہیے ، جیسا کہ احادیث میں حکم دیا گیا ہے کہ صفوں کو قریب اور درست رکھا جائے ۔  

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 
"رصوا صفوفکم وقاربوا بینھا”
( سنن ابي داود : 667 ، سنن نسائی 819 )

(یعنی اپنی صفوں کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح بناؤ اور صفوں کے درمیان فاصلہ نہ رکھو ۔  )

✿ اگر مرد اپنے گھروں یا کھیتوں میں لاؤڈ سپیکر کی آواز پر نماز پڑھیں گے تو امام اور مقتدی کے درمیان بہت بڑا فاصلہ ہو جائے گا ، اور ایسی حالت میں ان کی نماز درست نہیں ہوگی ۔  

✿ عورتیں اپنے گھروں میں نماز پڑھ سکتی ہیں ، کیونکہ ان کے لیے مسجد میں حاضری فرض نہیں ہے ، بلکہ ان کا اپنے گھروں میں نماز پڑھنا افضل ہے ۔  


سوال 3 : 

کیا زمیندار اپنے کھیتوں میں لاؤڈ سپیکر کی آواز سن کر جماعت کے ساتھ نماز ادا کر سکتے ہیں ؟ 



جواب : 

✿ نہیں ، زمیندار اپنے کھیتوں میں لاؤڈ سپیکر کی آواز پر جماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کر سکتے ۔  

✿ امام اور مقتدی کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہونا چاہیے ، 

✿ اور کھیتوں میں نماز پڑھنے سے یہ فاصلہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے ، جو کہ شرعاً جائز نہیں ہے ۔  

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو زیادہ پیچھے کھڑے ہونے سے منع کیا اور انہیں قریب ہو کر کھڑے ہونے کا حکم دیا : 

"تقدموا فاتموا بي ولياتم بكم من بعدكم ”
صحیح مسلم ، الصلاة 28 (438)

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 

"آگے ہو جاؤ اور میری اقتداء کرو ، اور جو لوگ بعد میں آئیں گے ، وہ تمہاری اقتداء کریں گے ۔  ”


✿ خلاصہ : 

◄ لاؤڈ سپیکر کی آواز پر نماز ادا کی جا سکتی ہے ، لیکن گھروں یا کھیتوں میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ۔  

◄ مردوں کو مسجد میں نماز پڑھنی چاہیے ، اور امام اور مقتدیوں کے درمیان فاصلہ زیادہ نہیں ہونا چاہیے ۔  

◄ عورتوں کے لیے اپنے گھروں میں نماز پڑھنا افضل ہے ۔  

تنظیم اہل حدیث ، جلد نمبر 22 ، شمارہ نمبر 36

فتاویٰ علمائے حدیث ، کتاب الصلاۃ جلد 1 ، ص 237 ۔  238

https://tohed.com/36c9f0


ہ ےےےےےے ہ


06 ۔ 
مسجد کے ستونوں کے درمیان نماز


سوال : 

جب مسجد میں نمازیوں کی کثرت ہو تو کیا مسجد کے ستونوں کے ساتھ جماعت کی صف میں فاصلہ آجانا جائز ہے ؟ 



جواب : 

لاریب ! افضل یہ ہے کہ صفیں باہم دگر ملی ہوں ۔  مسلسل ہوں اور دور نہ ہوں کہ سنت یہی ہے نبی کریم ﷺ کا یہی حکم ہے کہ صفیں خوب ملی ہوئی ہوں اور ان میں خلل نہ ہو ۔  
( صفوں کو درست کرنے کے بارے میں بے شمار روایات ہیں ۔  چند کے حوالے مذکور ہیں ۔  
 1. صحیح بخاری کتاب الاذان باب اقامۃ الصف من تمام الصلاۃ ح : 723 ، 
2. مسلم کتاب الصلاۃ باب تسویۃ الصفوف ح : 433
3. ابودائود ابواب الصفوف باب تسویۃ الصفوف ح : 667 اسے امام ابن حبان اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے ۔  )

حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ستونوں کے درمیان صفیں بنانے سے بچتے تھے ۔  
کیونکہ اس طرح صف کا ایک حصہ دوسرے سے الگ ہوجاتا ہے ۔  
لیکن اگر ضرورت و حاجت پیش ہو جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ اگر مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہو تو پھر اس حالت میں ستونوں کے درمیان صفیں بنانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ در پیش امور کے لئے خاص احکام ہوتے ہیں اور ضرورتوں اورحاجتوں کے لئے وہ احکام ہوتے ہیں ۔  جو ان کے مطابق ہوں ۔  
(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ )

فتاویٰ اسلامیہ : جلد 1 ، 
صفحہ 399
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/16546/%D8%B5%D9%81%D9%88%DA%BA


ہ ےےےےےے ہ


07 ۔  
 مسجد میں جگہ نہ ملنے کی صورت میں سڑکوں پر نماز پڑھنا



سوال : 

جو شخص مسجد سے باہر نماز جمعہ ادا کرتا ہے کیا اسے نماز جمعہ میں حاضر سمجھا جائے گا ؟ حالانکہ فرشتے تو مسجدوں کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لکھتے ہیں کہ پہلے کون آیا پھر کون ؟ اس کے ساتھ ساتھ جو شخص مسجد سے باہر نماز پڑھے گا وہ تحیۃ المسجد پڑھے ، مسجد کے اندر بیٹھے اور خطبہ سننے سے بھی محروم رہے گا اور باہر سڑکوں پر صفیں بھی عموما سیدھی نہیں ہوتیں ؟ 



جواب : 

✿ جو شخص مسجد سے باہر سڑکوں پر نماز جمعہ ادا کرے گا ، 

✿ اسے نماز جمعہ میں حاضر سمجھا جائے گا بشرط یہ کہ وہ امام کے ساتھ مل کر نماز ادا کر سکتا ہو

✿ لیکن اس شخص کا ثواب مسجد کے اندر نماز پڑھنے والے کی طرح نہ ہوگا

✿ خصوصا ان لوگوں کے ثواب کی طرح تو بالکل نہ ہوگا جو پہلی صفوں میں شامل ہوں گے ۔  

✿ فرشتے خطیب کے منبر پر چڑھنے سے پہلے وقت کے حساب سے اجر و ثواب لکھتے ہیں جیسا کہ اس سلسلہ میں وارد حدیث کے عموم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اعتبار حاضری کا ہے مسجد کے اندر ہونے کا نہیں

✿ ہاں البتہ انتظار نماز اور سماعت خطبہ کی کمی کی وجہ سے اس کے اجر و ثواب میں بھی کمی ہوگی اور

✿ صفوں کے درست نہ ہونے کی کمی کی وجہ سے اس کے ثواب میں کمی ہوگی ۔  

فتاویٰ اسلامیہ
مساجد کے احکام ، ج 2 ، 
صفحہ 30
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/8553/%D8%B5%D9%81%D9%88%DA%BA


ہ ےےےےےے ہ


08 ۔  
خواتین تکبیر تو سنتی ہیں لیکن امام اور اس کے پیچھے مقتدیوں کو نہیں دیکھتیں



سوال : 

ہماری مسجد دو منزلہ ہے ۔  اوپر کی منزل مردوں کے لیے اور نچلی منزل عورتوں کے لیے ہے ۔  عورتیں بھی مسجد میں مردوں کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرتی ہیں لیکن عورتیں امام کو بلکہ مردوں کی صفوں تک کو بھی نہیں دیکھ سکتیں ، وہ صرف مائیکروفون کے ذریعے آواز سن سکتی ہیں تو اس حالت میں نماز کا کیا حکم ہے ؟ 



جواب : 

✿ اس مذکورہ صورت میں سب کی نماز صحیح ہے
✿ کیونکہ سب مسجد میں نماز ادا کر رہے ہیں اور
✿ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے آواز سننے کی وجہ سے امام کی اقتداء ممکن ہے ، 

چنانچہ اس صورت میں علماء کے دو اقوال میں سے صحیح ترین قول یہی ہے کہ نماز صحیح ہے

ہاں البتہ اس صورت میں اختلاف کی ضرور اہمیت ہے جب کچھ مقتدی مسجد سے باہر ہوں اور وہ امام اور مقتدیوں کو نہ دیکھ سکتے ہوں ۔  

فتاویٰ اسلامیہ
مساجد کے احکام ، ج 2 ، 
صفحہ 26
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/8548/%D8%B5%D9%81%D9%88%DA%BA


ہ ےےےےےے ہ


09 ۔  
اگر امام مسجد کے دروازے کے اندر کھڑے ہو کر جماعت کرا دے اور مقتدی سب مسجد کے باہر ، جائز ہے یا نہیں ؟ 



سوال : 

 اگر امام مسجد کےدروازے کے اندر کھڑے ہو کر جماعت کرا دے اور مقتدی سب مسجد کے باہر ، جائز ہے یا نہیں ؟ 



جواب : 

یہ صورت جائز ہے بشرط یہ کہ صفیں ایک دوسری سے متصل ہوں

’’ولوقام على دكان خارج المسجد متصل بالمسجد ، يجوز الإقتداء ، لكن يشترط اتصال الصفوف ، كذا فى الخلاصة ، ويجوز اقتداء جارالمسجد بإيام المسجد وهو فى بيته ، إذا لم يكن بينه وبين المسجد طريق عام ، وإن كان طريقا عاما ولكن سدته الصفوف ، جاز الإقتداء لمن فى بيته بإمام . كذا فى التاتارخانية ناقلا عن الحجة ، ، 
(عالمگیری 1؍69).

 ’ وإن كانا أى الإمام والمأمون خارجين عن المسجد ، أو كان الماموم وحده خارجامن المسجد الذى به الإمام ، ولوبمسجد آخروأمكن الإقتداء صحت صلاة المأموم ، إن رأى المأموم أحدهماأى الإمام أوبعض من واء ، ولوكانت جمعة فى دار أودكان الإنتفاء المفسد ، ووجود المفتضى للصحة وهو الرؤية وإمكان الإقتداء ، ، الخ
(كشف القناع 1؍579).

 کبتہ عبید اللہ المبارکفوری الرحمانی
المدرس بمدرسۃ دارالحدیث الرحمانیہ بدہلی

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری
جلد 1 ، صفحہ 273
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/17203


ہ ےےےےےے ہ


10 ۔  
کیا امام کو دیکھنا واجب ہے



سوال : 

ہماری مسجد کے شمالی جانب ایک قطعہ زمین ہے جو مسجد سے ملحق ہے اور اس کی چار دیواری بنی ہوئی ہے ہم اس زمین کو عورتوں کے لئے مخصوص کر دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ رمضان میں یہاں نماز ادا کر سکیں تو کیا یہ جائز ہے جب کہ وہ یہاں نماز پڑھتے ہوئے امام کو نہ دیکھ سکیں گی بلکہ صرف لاؤڈ اسپیکر سے ہی امام کی متابعت کر سکیں گی ؟ 



جواب : 

اس مذکورہ زمین میں ان کی نماز کی صحت کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے جہاں سے وہ نہ امام کو دیکھ سکیں اور نہ مقتدیوں کو بلکہ صرف تکبیر کی آواز سن سکیں ان کے لئے زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ مذکورہ جگہ نماز ادا نہ کریں بلکہ اپنے گھر میں ادا کریں الا یہ کہ مسجد میں انھیں نمازیوں کے پیچھے جگہ مل جائے یا کوئی ایسی جگہ ہو جہاں سے وہ امام یا کچھ مقتدیوں کو دیکھ سکیں تو وہاں نماز ادا کر لیں ۔  
( ابن باز ؒ )

فتاویٰ اسلامیہ
ج 1 ، ص 470
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/10466/%D8%B3%D9%BE%DB%8C%DA%A9%D8%B1


ہ ےےےےےے ہ


11 ۔  
مسجد کے پڑوس میں عورتوں کے لئے امام کی اقتداء



سوال : 

ہمارے مسجد کی شمالی جانب ایک چاردیواری شدہ احاطہ ہے جو مسجد سے ملحقہ ۔  ہم رمضان میں نماز کی ادائیگی کے لیے اس احاطہ کو عورتوں کے لیے مخصوص کر دیں تو کیا یہ جائز ہوگا ؟ جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ امام کو نہ دیکھ سکیں گی ، فقط لاؤڈ سپیکر سے امام کی متابعت کر سکیں گی ۔  ؟ 



جواب : 

ایسی جگہ میں ان کی نماز کی صحت کے بارے میں علماء میـں اختلاف ہے جہاں سے نہ تو وہ امام کو دیکھ سکیں اور نہ ان لوگوں کو جو امام کے پیچھے ہیں ۔  وہ تو صرف تکبیر ہی سن سکتی ہیں لہٰذا محتاط صورت یہی ہے کہ وہ ایسی جگہ نماز ادا نہ کریں بلکہ اپنے گھروں ہی میں ادا کریں ۔  الا یہ کہ مسجد میں کوئی ایسی جگہ مل جائے جو نماز ادا کرنے والوں کے پیچھے ہو ۔  یا کسی خارجی مکان میں نماز ادا کریں جس میں وہ خود امام ہوں یا کوئی مقتدی امام ہو ۔  

فتاویٰ دار السلام ، ج 1
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/16212/%D8%B3%D9%BE%DB%8C%DA%A9%D8%B1


ہ ےےےےےے ہ

12 ۔ 
مسجد کے سپیکر پر آواز سن کر عورت کا گھر میں امام مسجد کی اقتداء کرنا



سوال : 

الاعتصام کے کسی سابقہ اشاعت میں پڑھا ہے کہ مسجد کے اسپیکر پر آواز سن کر عورت کا گھر میں امام مسجد کی اقتداء میں نماز ادا کرنا درست نہیں ، فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے اقتداء میں خلل پڑتا ہے ۔  

اگر امام کے نظر نہ آنے کی وجہ سے ہے تو ہمارے محلے کی مسجد میں جس جگہ امام نماز پڑھاتا ہے ، اس سے اوپر والی منزل والے اور مسجد میں نماز پڑھنے والی عورتیں نیچے نہ تو امام یا مقتدیوں کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ سپیکر کے بغیر امام کی آواز سن سکتے ہیں ۔  اگر کبھی بجلی بند ہو جانے کی وجہ سے سپیکر پر امام کی آواز سنائی دینا بند ہو جائے تو اس وقت کوئی تکبیر وغیرہ کے ذریعے دوسرے نمازیوں کو آگاہ بھی نہیں کرتا ۔  ایسی مسجد میں امام کی اقتداء کرنے والوں اور گھر میں امام کی اقتداء کرنے والیوں کی حالتِ اقتدا ایک جیسی ہے ۔  اب کیا آپ ان دونوں پرایک ہی حکم لگائیں گے ؟ خیال رہے کہ امام کو شاذ و نادر ہی سہو ہوتا ہے اور عام حالات میں آواز سن کر بخوبی اقتداء کی جا سکتی ہے ۔  


جواب : 

✿ مسجد میں بجلی بند ہو جانے کی صورت میں بآواز بلند تکبیر کے ذریعہ دوسرے نمازیوں کو آگاہ کرنا چاہیے ۔  

✿ امام یا مکبّر کے سہو یا عدمِ سماع کی صورت میں عورتیں خود اپنی نماز مکمل کر لیں اقتداء ان کی درست ہے جبکہ

✿ سابقہ مشار الیہ صورت میں اقتداء ہی غیر درست ہے ۔  شاذ و نادر حالت کو عمومی حالت پر قیاس کرنا ویسے بھی صحیح نہیں لہٰذا دونوں حالتوں میں فرق واضح ہے ۔  

✿ ویسے اصل یہ ہے کہ عورتوں کو امام نظر آنا چاہیے ۔  ملاحظہ ہو فتاویٰ اسلامیہ

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
کتاب الصلوٰۃ ، صفحہ 353
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/24398/%D8%B3%D9%BE%DB%8C%DA%A9%D8%B1


ہ ےےےےےے ہ


13 ۔  
امام اور مقتدیوں کے درمیان دیوار ، سُترہ ، نہر یا راستے وغیرہ کے فاصلے پر نماز پڑھنا



سوال : 

خواتین نے تقریباً ۱۰۰ میٹر دور ایک مسجد سے لاؤڈ سپیکر کی تار کے ذریعے جمعہ کی باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کیا ہے ۔  
امام یا خطیب کی آواز صاف سنائی دیتی ہے ۔  
مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ درست ہے کہ مسجد سے باہر ایسا اہتمام کر لیا جائے ؟ 
یہاں اعتبار فاصلے کا ہوگا یا صف کے ساتھ صف کے اتصال کا ؟ 



جواب : 

✿ امام اور مقتدیوں کے درمیان دیوار ، سُترہ ، نہر یا راستے وغیرہ کے فاصلے پر نماز پڑھی جا سکتی ہے ۔  
امام بخاریؒ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں آثار و اقوال اور حدیث سے اس بات کو ثابت کیا ہے ۔  

چنانچہ فرماتے ہیں : 
’ بَابُ اِذَا کَانَ بَینَ الاِمَامِ ، وَ بَینَ القَومِ حَائِطٌ ، اَو سُترَةٌ ۔  وَ قَالَ الحَسنُ : لَا بَأسَ أَن تُصَلِّیَ ، وَ بَینَكَ ، وَ بَینَهٗ نَهرٌ ۔  وَ قَالَ اَبو مِجلَز : یَاتَمُّ بِالاِمَامِ ، وَ اِن کَانَ بَینَهُمَا طَرِیق ، ٌ اَو جِدَارٌ ، اِذَا سَمِعَ تَکبِیرَ الاِمَامِ ۔  ‘

✿ مشار الیہ فاصلہ کوئی زیادہ معلوم نہیں ہوتا ۔  لہٰذا بایں صورت باجماعت نماز پڑھی جا سکتی ہے ، بشرط یہ کہ عورتیں امام سے آگے نہ ہوں ۔  

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
کتاب الصلوٰۃ ، صفحہ 353
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/24399/%D8%B3%D9%BE%DB%8C%DA%A9%D8%B1


ہ ےےےےےے ہ


14 ۔  
گھر میں سپیکر کی آواز پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا



سوال : 

ہمارے گھر سے تھوڑے فاصلے پر مسجد ہے جہاں جمعہ کی نماز سپیکر لگا کر پڑھتے ہیں ، 
میری والدہ گھر میں سپیکر کی آواز پر امام کی اقتداء میں نماز پڑھتی ہیں ۔  یعنی وہ ظہر کی نماز ادا نہیں کرتیں ۔  
کیا اس طرح کرنا درست ہے ؟ 



جواب : 

✿ گھر میں امام مسجد کی اقتداء میں جمعہ یا کوئی دوسری نماز نہیں پڑھنی چاہیے ۔  

✿ کیونکہ فاصلہ زیادہ ہے جس سے اقتداء میں خلل واقع ہونے کا اندیشہ ہے ۔  

لہٰذا گھر میں بمطابق عادت اپنی تمام نمازیں الگ پڑھنی چاہئیں ۔  

ھذا ما عندي و الله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
کتاب الصلوٰۃ ، صفحہ 354
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/24400/%D8%B3%D9%BE%DB%8C%DA%A9%D8%B1


ہ ےےےےےے ہ

ختم شد 

جوائین ان :

شئیر

۔

اتوار، 15 جون، 2025

صحابہ ستاروں جیسے ⸮ مختلف علماء

۔





مشہور عام لیکن ضعیف  

" ميرے صحابہ ستاروں كي مانند ہيں جس كي بھي اتباع كرو گے كامياب هو جاؤ گے۔ " 

تمام طرق سے ضعیف ہے ⸮

 مختلف علماء


ہ ےےےےے ہ  
 
 
 1 ۔ 
سوال :   

مشکواۃ میں جو حدیث حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت آئی ہے۔  کہ

" اصحابي كالنجوم بايهم اقتديتم "
 
یعنی میرے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  ستاروں کی مانند ہیں ، جس کی اقتداء کرو گے ہدایت والے ہو جاؤ گے۔ 

کیا حدیث صحیح ہے یا غیر صحیح ہے ⸮ 
( اے ۔ ای ۔ پٹیل۔ ٹون افریقہ ) 

 
جواب : 

یہ روایت صحیح نہیں ۔ 

حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  کئی طرق نقل  کر کے لکھتے ہیں " لايثبت شي منها "
( کوئی روایت ثابت نہیں ) 

آگے لکھا ہے : 

فهذا الكلام لا يصح عن النبي ﷺ ۔ 

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری
جلد 2 ، ص 156
محدث فتوی


ہ ےےےےےے  ہ 


2 ۔ 
سوال :  
حدیث : 
« اصحابی کالنجوم بایدیھم اقتدیتم اھتدیتم » 

" میرے صحابہ ستاروں جیسے ہیں جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پاؤگے ‘"

جو لوگوں میں مشہور ہے ، کیا یہ صحیح ہے ؟ یا نہیں ، مدلل ذکر کریں کیونکہ میں صرف دلیل کا تابعدار ہوں ۔
اخوکم عبد المجید 

 
جواب :  

یہ حدیث سند اور متن دونوں لحاظ سے موضوع اور باطل ہے جو اہل سنت میں سے کسی جاہل نے شیعہ کی دشمنی میں گھڑی ہے ،

اسی کا بیان مختلف وجوہ سے درج ذیل ہے :

اول وجہ : 

رسول الله ﷺ كی طرف منسوب یہ روایت ابن عبد البر نے جامع بیان العلم و فضلہ (2 / 191 )  میں اور ابن حزم نے الاحکام ( 6 / 82 ) میں ذکر کی ہے ، 

اس میں ایک راوی سلام بن سلیم ہے یا سلام بن سلیمان طویل ہے ۔

ابن خراش کہتے ہیں :  کذاب ہے ، ابن حبان کہتے ہیں یہ موضوع احادیث روایت کرتا ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے ، اور اس میں حارث بن غصین ہے جو مجہول ہے اور اس طرح کی روایت خطیب الکفایہ فی علم الروایۃ ( ص : 48 ) اور ابن عساکر ( 7 / 315 / 2 ) میں لاتے ہیں اور اس میں سلیمان بن ابی کریمہ ضعیف ہے ۔

اسی طرح ابن ابی حاتم نے بھی کہا ہے ، اور اس میں جویبر بن سعید ازدی متروک ہے ، اور اس میں ضحاک بن مزاحم ہے اس کی ملاقات ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نہیں ہوئی تو حدیث مقطوع بھی ہے ، اور قسم کی روایت ابن بطۃ الابانہ ( 4 / 11 / 2 ) میں اور خطیب ضیاء نے المنتقی میں اپنی مرو میں سنی ہوئی احادیث میں ذکر کیا ہے اور اسی طرح ابن عساکر ( 116 / 2 ) نے ( 6 / 203 / 1 ) میں ۔  اس میں نعیم بن حماد ضعیف اور زبد العمی کذاب ہے اور اسی قسم کی روایت عبد بن حمید نے المنتخب من المسند کہتے ہیں اس کی اکثر روایتیں موضوع ہیں ، اور اسی طرح ابن حبان نے بھی کہا ہے ۔

یہ اس موضوع حدیث کی سند کے لحاظ سے بحث ہوئی ۔


دوسری وجہ معنی کے لحاظ سے :

یہ حدیث باطل ہے کیونکہ نبی ﷺ نے اختلاف جائز نہیں کیا بلکہ امت کو اتفاق کا حکم دیا ہے ۔  اور تفرق و اختلاف سے منع فرمایا ہے صحابہ کی شرعی مسائل میں مختلف آراء تھیں بعض صحیح اور بعض واضح خطاء تھیں ۔

بطور مثال ثمرہ بن جندب شراب کی بیع جائز خیال کرتے تھے ، ابو طلحہ صائم کے لئے اولوں کا کھانا جائز سمجھتے تھے ، عثمان ، علی ، طلحہ اور عبد اللہ بن مسعود جنبی کے لئے تیمم جائز سمجھتے تھے ، اور ابو السنابل فوت ہونے والے شخص کی بیوی کے لئے عدت ابعد الاجلین کا فتویٰ دیتے تھے ۔

سمرۃ بن جندب نے حالت حیض میں رہ جانے والی نمازوں کے اعادہ کا حکم دیا ، ابو بکر رضی للہ عنہ سے تعبیر رؤیا میں خطاء ہوئی ، عمر رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے مہاجرین کو کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے تم سے زیادہ حقدار ہیں ۔

تو کیا ان سارے صحابہ کی ان اخطاء میں اقتداء کرنا جائز ہے جن میں وہ بلا قصد سنت سے چوک گئے تھے یہ ان کا اجتہاد تھا اور مجتہد کبھی غلطی کر جاتا ہے اور کبھی صحیح بات کو پہنچ جاتا ہے تو ہم حق اور سنت کی اتباع کریں گے اور خطاء میں ان کا قول ترک کر دیں گے ، دین یہ ہے اور جو ان کی ہر روایت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی طرح سمجھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور صحابہ کے علاوہ ائمہ میں سے کسی مجتہد کے قول کو نبی کے قول کے برابر درجہ دے یا اس پر فوقیت دے تو اس سے بھی بڑی فاحش غلطی ہے ، ظالم لوگ اپنے مذہب کی تائید کے لۓ اقوال و افعال نبی ﷺ میں بھی تاویل سے گریز نہیں کرتے ، بلکہ مذہب کو سنن مصطفیٰ ﷺ کے تابع کرنا فرض ہے ، حق ہو تو قبول کرے ورنہ رد کر دے ۔  کہنے والا کوئی بھی ہو ، ائمہ کرام  نے یہی حکم دیا ہے۔ جیسے کہ مقدمہ میں گذر چکا ہے۔


تیسری وجہ متن کے لحاظ سے : 

یہ صحابہ کی تشبیہ ستاروں کے ساتھ درست نہیں ہے صحیح بات کو پہنچنے والوں کی تشبیہ کے ساتھ فاسد تشبیہ ہے کیونکہ جس کا ارادہ ہو جدی کے طلوع ہونے کی سمت کا اور چل پڑے سرطان کے طلوع ہونے کی طرف تو وہ بھٹک جائے گا اور بڑی فاحش غلطی کا مرتکب ہوگا۔ ہر راستے کی راہنمائی ہر ستارے سے نہیں مل سکتی تو اس سےثابت ہوا کہ کہ حدیث باطل ہے اور اس کا جھوٹ عیاں اور ساقط الاعتبار ہونا واضح ہے ۔ 

مراجعہ کریں الخلاصۃ لابن الملقن ( 2 ، 175 ) الضعیفہ ( 1، 78 ۔ 85 ، رقم : 58 ۔ 63 ) مشکاۃ ( 2 ، 554 )  اسی لۓ معتمد کتب کے مصنفین نے اسے نہیں روایت کیا ۔  اگر نجات چاہتے ہو تو بچ کر رہیں اور غفلت نہیں تدبر سے کام لیں ۔  

ھذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص
ج 1 ، ص 250 
محدث فتویٰ


ہ ےےےےے  ہ 


3 ۔ 
الكلام على حديث ( أصحابي كالنجوم ) سندا ومتنا .


السؤال :  

أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم ، 
هل هذا الحديث صحيح ؟

الجواب :  
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله، وبعد:

هذا الحديث رواه ابن عبد البر في "جامع بيان العلم وفضله" (895) وابن حزم في "الإحكام" (6/244) من طريق سلام بن سليم ، قال : حدثنا الحارث بن غصين ، عن الأعمش ، عن أبي سفيان ، عن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم )
وسلام بن سليم ، ويقال ابن سليمان ، متروك متهم قال ابن معين : ليس حديثه بشيء ، وقال ابن حبان : يروى عن الثقات الموضوعات كأنه كان المعتمد لها .
"المجروحين" (1 /339)

وأخرجه الخطيب في " الكفاية في علم الرواية " ( ص 48 ) والبيهقي في " المدخل " ( 152 ) والديلمي ( 4 / 75 ) من طريق سليمان ابن أبي كريمة عن جويبر عن الضحاك عن ابن عباس مرفوعا بلفظ : ( إن أصحابي بمنزلة النجوم في السماء ، فأيها أخذتم به اهتديتم ، واختلاف أصحابي لكم رحمة )
وهذا إسناد ضعيف جدا : سليمان بن أبي كريمة ضعيف ، وجويبر هو ابن سعيد الأزدي ، متروك ، كما قال الدارقطني والنسائي وغيرهما ، وضعفه ابن المديني جدا .
"ميزان الاعتدال" (2/222) – "التهذيب" (2/106)
والضحاك هو ابن مزاحم الهلالي لم يلق ابن عباس ، وقال البيهقي عقبه : " هذا حديث متنه مشهور ، وأسانيده ضعيفة ، لم يثبت في هذا إسناد " .

ورواه ابن عساكر في "تاريخه" (19/383) والديلمي في " مسنده " (2/190) من طريق نعيم ابن حماد حدثنا عبد الرحيم بن زيد العمي عن أبيه عن سعيد بن المسيب عن عمر بن الخطاب مرفوعا : ( سألت ربي عز وجل فيما اختلف فيه أصحابي من بعدي فأوحى الله إلي : يا محمد إن أصحابك عندي بمنزلة النجوم في السماء ، بعضها أضوأ من بعض ؛ فمن أخذ بشئ مما هم عليه من اختلافهم فهو عندي على هدى "
وهذا إسناد تالف ، نعيم بن حماد ضعيف ، وعبد الرحيم بن زيد العمي كذاب .
"التهذيب" (6/274)
وذكره ابن عبد البر معلقا ( 2 / 183) من طريق أبي شهاب الحناط عن حمزة الجزري عن نافع عن ابن عمر مرفوعا به .
ثم قال ابن عبد البر : " وهذا إسناد لا يصح ، ولا يرويه عن نافع من يحتج به " .
وحمزة هذا هو ابن أبي حمزة ، قال ابن معين : لا يساوى فلسا ، وقال البخاري: منكر الحديث ، وقال الدارقطني : متروك ، وقال ابن عدى : عامة ما يرويه موضوع .
"ميزان الاعتدال" (1 /606)

وقد تواردت نصوص أهل العلم بعدم صحة هذا الحديث :
فقال الإمام أحمد : " لا يصح هذا الحديث " .
"سلسلة الأحاديث الضعيفة" ، للشيخ الألباني (1 /145) .
وَقَالَ الْحَافِظ أَحْمد بن عَمْرو بن عبد الْخَالِق الْبَزَّار :
" هَذَا الْكَلَام لم يَصح عَن النَّبِي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم " .
"البدر المنير" (9 /587) .
وقال ابن حزم :
" باطل مكذوب من توليد أهل الفسق لوجوه ضرورية " .
"الإحكام في أصول الأحكام " (5 /61) .
وقال ابن الملقن :
" جميع طرقه ضعيفة " .
"البدر المنير" (9 /587)
وقال ابن القيم :
" روي من طرق ، ولا يثبت شيء منها " .
إعلام الموقعين [2 /242]
وقال الشوكاني في"الفتح الرباني" (5/179)
" صرح أئمة الجرح والتعديل بأنه لا يصح منها شيء ، وأن هذا الحديث لم يثبت عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم " .
وقال الألباني في "السلسلة الضعيفة" (58) : " موضوع " .

قال الإمام ابن حزم رحمه الله في بيان بطلان هذا الحديث متنا :
" من المحال أن يأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم باتباع كل قائل من الصحابة رضي الله عنهم ، وفيهم من يحلل الشيء وغيره منهم يحرمه ، ولو كان ذلك لكان بيع الخمر حلالا اقتداء بسمرة بن جندب ، ولكان أكل البرَد للصائم حلالا اقتداء بأبي طلحة وحراما اقتداء بغيره منهم ، ولكان ترك الغسل من الإكسال واجبا اقتداء بعلي وعثمان وطلحة وأبي أيوب وأبي بن كعب ، وحراما اقتداء بعائشة وابن عمر ، ولكان بيع الثمر قبل ظهور الطيب فيها حلالا اقتداء بعمر ، حراما اقتداء بغيره منهم ، وكل هذا مروي عندنا بالأسانيد الصحيحة " انتهى . "الإحكام" (6 /244) .

فتبين بما سبق بطلان هذا الحديث وعدم صحته سندا ومتنا ، فلا تجوز نسبته للنبي صلى الله عليه وسلم ، لعموم قوله : ( مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ ) رواه مسلم في مقدمة الصحيح (ص 7) .

والله تعالى أعلم .

المصدر: 


ہ ےےےےے ہ


4 ۔ 
بحث 
" میرے صحابہ ستاروں کی مانند" ؟ 

https://forum.mohaddis.com/threads/%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%92-%D8%B5%D8%AD%D8%A7%D8%A8%DB%81-%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A7%D9%86%D9%86%D8%AF%D8%9F.9629/page-2 


ہ ےےےےے ہ 


جزء فيه تخريج حديث (أصحابي كالنجوم بأيهم اهتديتم اقتديتم) والكلام على علله وأسانيده 


۔