﷽
مشہور عام لیکن ضعیف
" ميرے صحابہ ستاروں كي مانند ہيں جس كي بھي اتباع كرو گے كامياب هو جاؤ گے۔ "
تمام طرق سے ضعیف ہے ⸮
مختلف علماء
ہ ےےےےے ہ
1 ۔
سوال :
مشکواۃ میں جو حدیث حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت آئی ہے۔ کہ
" اصحابي كالنجوم بايهم اقتديتم "
یعنی میرے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین ستاروں کی مانند ہیں ، جس کی اقتداء کرو گے ہدایت والے ہو جاؤ گے۔
کیا حدیث صحیح ہے یا غیر صحیح ہے ⸮
( اے ۔ ای ۔ پٹیل۔ ٹون افریقہ )
جواب :
یہ روایت صحیح نہیں ۔
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کئی طرق نقل کر کے لکھتے ہیں " لايثبت شي منها "
( کوئی روایت ثابت نہیں )
آگے لکھا ہے :
فهذا الكلام لا يصح عن النبي ﷺ ۔
فتاویٰ ثنائیہ امرتسری
جلد 2 ، ص 156
محدث فتوی
ہ ےےےےےے ہ
2 ۔
سوال :
حدیث :
« اصحابی کالنجوم بایدیھم اقتدیتم اھتدیتم »
" میرے صحابہ ستاروں جیسے ہیں جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پاؤگے ‘"
جو لوگوں میں مشہور ہے ، کیا یہ صحیح ہے ؟ یا نہیں ، مدلل ذکر کریں کیونکہ میں صرف دلیل کا تابعدار ہوں ۔
اخوکم عبد المجید
جواب :
یہ حدیث سند اور متن دونوں لحاظ سے موضوع اور باطل ہے جو اہل سنت میں سے کسی جاہل نے شیعہ کی دشمنی میں گھڑی ہے ،
اسی کا بیان مختلف وجوہ سے درج ذیل ہے :
اول وجہ :
رسول الله ﷺ كی طرف منسوب یہ روایت ابن عبد البر نے جامع بیان العلم و فضلہ (2 / 191 ) میں اور ابن حزم نے الاحکام ( 6 / 82 ) میں ذکر کی ہے ،
اس میں ایک راوی سلام بن سلیم ہے یا سلام بن سلیمان طویل ہے ۔
ابن خراش کہتے ہیں : کذاب ہے ، ابن حبان کہتے ہیں یہ موضوع احادیث روایت کرتا ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے ، اور اس میں حارث بن غصین ہے جو مجہول ہے اور اس طرح کی روایت خطیب الکفایہ فی علم الروایۃ ( ص : 48 ) اور ابن عساکر ( 7 / 315 / 2 ) میں لاتے ہیں اور اس میں سلیمان بن ابی کریمہ ضعیف ہے ۔
اسی طرح ابن ابی حاتم نے بھی کہا ہے ، اور اس میں جویبر بن سعید ازدی متروک ہے ، اور اس میں ضحاک بن مزاحم ہے اس کی ملاقات ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نہیں ہوئی تو حدیث مقطوع بھی ہے ، اور قسم کی روایت ابن بطۃ الابانہ ( 4 / 11 / 2 ) میں اور خطیب ضیاء نے المنتقی میں اپنی مرو میں سنی ہوئی احادیث میں ذکر کیا ہے اور اسی طرح ابن عساکر ( 116 / 2 ) نے ( 6 / 203 / 1 ) میں ۔ اس میں نعیم بن حماد ضعیف اور زبد العمی کذاب ہے اور اسی قسم کی روایت عبد بن حمید نے المنتخب من المسند کہتے ہیں اس کی اکثر روایتیں موضوع ہیں ، اور اسی طرح ابن حبان نے بھی کہا ہے ۔
یہ اس موضوع حدیث کی سند کے لحاظ سے بحث ہوئی ۔
دوسری وجہ معنی کے لحاظ سے :
یہ حدیث باطل ہے کیونکہ نبی ﷺ نے اختلاف جائز نہیں کیا بلکہ امت کو اتفاق کا حکم دیا ہے ۔ اور تفرق و اختلاف سے منع فرمایا ہے صحابہ کی شرعی مسائل میں مختلف آراء تھیں بعض صحیح اور بعض واضح خطاء تھیں ۔
بطور مثال ثمرہ بن جندب شراب کی بیع جائز خیال کرتے تھے ، ابو طلحہ صائم کے لئے اولوں کا کھانا جائز سمجھتے تھے ، عثمان ، علی ، طلحہ اور عبد اللہ بن مسعود جنبی کے لئے تیمم جائز سمجھتے تھے ، اور ابو السنابل فوت ہونے والے شخص کی بیوی کے لئے عدت ابعد الاجلین کا فتویٰ دیتے تھے ۔
سمرۃ بن جندب نے حالت حیض میں رہ جانے والی نمازوں کے اعادہ کا حکم دیا ، ابو بکر رضی للہ عنہ سے تعبیر رؤیا میں خطاء ہوئی ، عمر رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے مہاجرین کو کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے تم سے زیادہ حقدار ہیں ۔
تو کیا ان سارے صحابہ کی ان اخطاء میں اقتداء کرنا جائز ہے جن میں وہ بلا قصد سنت سے چوک گئے تھے یہ ان کا اجتہاد تھا اور مجتہد کبھی غلطی کر جاتا ہے اور کبھی صحیح بات کو پہنچ جاتا ہے تو ہم حق اور سنت کی اتباع کریں گے اور خطاء میں ان کا قول ترک کر دیں گے ، دین یہ ہے اور جو ان کی ہر روایت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی طرح سمجھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور صحابہ کے علاوہ ائمہ میں سے کسی مجتہد کے قول کو نبی کے قول کے برابر درجہ دے یا اس پر فوقیت دے تو اس سے بھی بڑی فاحش غلطی ہے ، ظالم لوگ اپنے مذہب کی تائید کے لۓ اقوال و افعال نبی ﷺ میں بھی تاویل سے گریز نہیں کرتے ، بلکہ مذہب کو سنن مصطفیٰ ﷺ کے تابع کرنا فرض ہے ، حق ہو تو قبول کرے ورنہ رد کر دے ۔ کہنے والا کوئی بھی ہو ، ائمہ کرام نے یہی حکم دیا ہے۔ جیسے کہ مقدمہ میں گذر چکا ہے۔
تیسری وجہ متن کے لحاظ سے :
یہ صحابہ کی تشبیہ ستاروں کے ساتھ درست نہیں ہے صحیح بات کو پہنچنے والوں کی تشبیہ کے ساتھ فاسد تشبیہ ہے کیونکہ جس کا ارادہ ہو جدی کے طلوع ہونے کی سمت کا اور چل پڑے سرطان کے طلوع ہونے کی طرف تو وہ بھٹک جائے گا اور بڑی فاحش غلطی کا مرتکب ہوگا۔ ہر راستے کی راہنمائی ہر ستارے سے نہیں مل سکتی تو اس سےثابت ہوا کہ کہ حدیث باطل ہے اور اس کا جھوٹ عیاں اور ساقط الاعتبار ہونا واضح ہے ۔
مراجعہ کریں الخلاصۃ لابن الملقن ( 2 ، 175 ) الضعیفہ ( 1، 78 ۔ 85 ، رقم : 58 ۔ 63 ) مشکاۃ ( 2 ، 554 ) اسی لۓ معتمد کتب کے مصنفین نے اسے نہیں روایت کیا ۔ اگر نجات چاہتے ہو تو بچ کر رہیں اور غفلت نہیں تدبر سے کام لیں ۔
ھذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب
فتاویٰ الدین الخالص
ج 1 ، ص 250
محدث فتویٰ
ہ ےےےےے ہ
3 ۔
الكلام على حديث ( أصحابي كالنجوم ) سندا ومتنا .
السؤال :
أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم ،
هل هذا الحديث صحيح ؟
الجواب :
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله، وبعد:
هذا الحديث رواه ابن عبد البر في "جامع بيان العلم وفضله" (895) وابن حزم في "الإحكام" (6/244) من طريق سلام بن سليم ، قال : حدثنا الحارث بن غصين ، عن الأعمش ، عن أبي سفيان ، عن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم )
وسلام بن سليم ، ويقال ابن سليمان ، متروك متهم قال ابن معين : ليس حديثه بشيء ، وقال ابن حبان : يروى عن الثقات الموضوعات كأنه كان المعتمد لها .
"المجروحين" (1 /339)
وأخرجه الخطيب في " الكفاية في علم الرواية " ( ص 48 ) والبيهقي في " المدخل " ( 152 ) والديلمي ( 4 / 75 ) من طريق سليمان ابن أبي كريمة عن جويبر عن الضحاك عن ابن عباس مرفوعا بلفظ : ( إن أصحابي بمنزلة النجوم في السماء ، فأيها أخذتم به اهتديتم ، واختلاف أصحابي لكم رحمة )
وهذا إسناد ضعيف جدا : سليمان بن أبي كريمة ضعيف ، وجويبر هو ابن سعيد الأزدي ، متروك ، كما قال الدارقطني والنسائي وغيرهما ، وضعفه ابن المديني جدا .
"ميزان الاعتدال" (2/222) – "التهذيب" (2/106)
والضحاك هو ابن مزاحم الهلالي لم يلق ابن عباس ، وقال البيهقي عقبه : " هذا حديث متنه مشهور ، وأسانيده ضعيفة ، لم يثبت في هذا إسناد " .
ورواه ابن عساكر في "تاريخه" (19/383) والديلمي في " مسنده " (2/190) من طريق نعيم ابن حماد حدثنا عبد الرحيم بن زيد العمي عن أبيه عن سعيد بن المسيب عن عمر بن الخطاب مرفوعا : ( سألت ربي عز وجل فيما اختلف فيه أصحابي من بعدي فأوحى الله إلي : يا محمد إن أصحابك عندي بمنزلة النجوم في السماء ، بعضها أضوأ من بعض ؛ فمن أخذ بشئ مما هم عليه من اختلافهم فهو عندي على هدى "
وهذا إسناد تالف ، نعيم بن حماد ضعيف ، وعبد الرحيم بن زيد العمي كذاب .
"التهذيب" (6/274)
وذكره ابن عبد البر معلقا ( 2 / 183) من طريق أبي شهاب الحناط عن حمزة الجزري عن نافع عن ابن عمر مرفوعا به .
ثم قال ابن عبد البر : " وهذا إسناد لا يصح ، ولا يرويه عن نافع من يحتج به " .
وحمزة هذا هو ابن أبي حمزة ، قال ابن معين : لا يساوى فلسا ، وقال البخاري: منكر الحديث ، وقال الدارقطني : متروك ، وقال ابن عدى : عامة ما يرويه موضوع .
"ميزان الاعتدال" (1 /606)
وقد تواردت نصوص أهل العلم بعدم صحة هذا الحديث :
فقال الإمام أحمد : " لا يصح هذا الحديث " .
"سلسلة الأحاديث الضعيفة" ، للشيخ الألباني (1 /145) .
وَقَالَ الْحَافِظ أَحْمد بن عَمْرو بن عبد الْخَالِق الْبَزَّار :
" هَذَا الْكَلَام لم يَصح عَن النَّبِي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم " .
"البدر المنير" (9 /587) .
وقال ابن حزم :
" باطل مكذوب من توليد أهل الفسق لوجوه ضرورية " .
"الإحكام في أصول الأحكام " (5 /61) .
وقال ابن الملقن :
" جميع طرقه ضعيفة " .
"البدر المنير" (9 /587)
وقال ابن القيم :
" روي من طرق ، ولا يثبت شيء منها " .
إعلام الموقعين [2 /242]
وقال الشوكاني في"الفتح الرباني" (5/179)
" صرح أئمة الجرح والتعديل بأنه لا يصح منها شيء ، وأن هذا الحديث لم يثبت عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم " .
وقال الألباني في "السلسلة الضعيفة" (58) : " موضوع " .
قال الإمام ابن حزم رحمه الله في بيان بطلان هذا الحديث متنا :
" من المحال أن يأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم باتباع كل قائل من الصحابة رضي الله عنهم ، وفيهم من يحلل الشيء وغيره منهم يحرمه ، ولو كان ذلك لكان بيع الخمر حلالا اقتداء بسمرة بن جندب ، ولكان أكل البرَد للصائم حلالا اقتداء بأبي طلحة وحراما اقتداء بغيره منهم ، ولكان ترك الغسل من الإكسال واجبا اقتداء بعلي وعثمان وطلحة وأبي أيوب وأبي بن كعب ، وحراما اقتداء بعائشة وابن عمر ، ولكان بيع الثمر قبل ظهور الطيب فيها حلالا اقتداء بعمر ، حراما اقتداء بغيره منهم ، وكل هذا مروي عندنا بالأسانيد الصحيحة " انتهى . "الإحكام" (6 /244) .
فتبين بما سبق بطلان هذا الحديث وعدم صحته سندا ومتنا ، فلا تجوز نسبته للنبي صلى الله عليه وسلم ، لعموم قوله : ( مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ ) رواه مسلم في مقدمة الصحيح (ص 7) .
والله تعالى أعلم .
المصدر:
ہ ےےےےے ہ
4 ۔
بحث
" میرے صحابہ ستاروں کی مانند" ؟
https://forum.mohaddis.com/threads/%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%92-%D8%B5%D8%AD%D8%A7%D8%A8%DB%81-%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A7%D9%86%D9%86%D8%AF%D8%9F.9629/page-2
ہ ےےےےے ہ
5۔
جزء فيه تخريج حديث (أصحابي كالنجوم بأيهم اهتديتم اقتديتم) والكلام على علله وأسانيده
۔