۔
۞۞•─┅═༻▣ ﷽ ▣༺═┅─•۞۞
قسطوں میں خرید و فروخت
ادھار و نقد
قیمت میں فرق
مختلف علماء
جمع و ترتیب
طالب علم
سید محمد عزیر ادونوی
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 1
بیع قسط
( استاذ حدیث حافظ ذو الفقار حفظہ اللہ کی کتاب " دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم " سے اقتباس )
( ص 99 تا 109 )
کتاب کی پی ڈی یف لنک :
دور حاضر میں جن معاملات کو وسیع پیمانے پر فروغ حاصل ہوا ہے ان میں قسطوں پر خرید و فروخت بھی شامل ہے اس کو عربی میں البيع بالتقسيط کہا جاتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ چیز تو فورا مشتری کے حوالے کر دی جائے مگر اس کی قیمت طے شدہ اقساط میں وصول کی جائے قسط کو نجم بھی کہتے ہیں ۔ جس کا معنی ہے " ستارہ " ۔
شارح بخاری علامہ وحید الزمان ؒ اس کی وجہ تسمیہ میں فرماتے ہیں :
" عرب میں تمام معاملات تاروں کے طلوع پر ہوا کرتےتھے کیونکہ وہ حساب نہیں جانتے تھے وہ یوں کہتے تھے کہ جب فلاں تارہ نکلے گا تو یہ معاملہ ہوگا اسی وجہ سے قسط کو نجم کہنے لگے ۔ "
( تیسیر الباری ج 2 ص 626 )
بعض لوگ اس کو موجودہ دور کی ایجاد سمجھتے ہیں جو درست نہیں اس کا رواج تو عہد رسالت و صحابہ میں بھی موجود تھا جیساکہ ذیل کے دو واقعات سے ثابت ہوتا ہے ۔
پہلا واقعہ
" عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ ، قَالَ : وَقَفْتُ عَلَى سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، فَجَاءَ المِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى إِحْدَى مَنْكِبَيَّ ، إِذْ جَاءَ أَبُو رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا سَعْدُ ابْتَعْ مِنِّي بَيْتَيَّ فِي دَارِكَ؟ فَقَالَ سَعْدٌ : وَاللَّهِ مَا أَبْتَاعُهُمَا ، فَقَالَ المِسْوَرُ : وَاللَّهِ لَتَبْتَاعَنَّهُمَا ، فَقَالَ سَعْدٌ : وَاللَّهِ لاَ أَزِيدُكَ عَلَى أَرْبَعَةِ آلاَفٍ مُنَجَّمَةً ، أَوْ مُقَطَّعَةً ، قَالَ أَبُو رَافِعٍ : لَقَدْ أُعْطِيتُ بِهَا خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ ، وَلَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : « الجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ » ، مَا أَعْطَيْتُكَهَا بِأَرْبَعَةِ آلاَفٍ ، وَأَنَا أُعْطَى بِهَا خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ ، فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ " ( صحيح البخاري ، رقم 2258 ، بَابُ عَرْضِ الشُّفْعَةِ عَلَى صَاحِبِهَا قَبْلَ البَيْعِ)
" عمرو بن شرید کہتے ہیں کہ میں سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس کھڑا تھا ، اتنے میں مسور بن مخرمۃ آئے انھوں نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا ۔ اتنے میں نبی ﷺ کے غلام ابو رافع آگئے ۔ انہوں نے کہا : اے سعد آپ کے محلے میں میرے موجود دو گھر ہیں وہ آپ خرید لیں ۔ سعد نےکہا : اللہ کی قسم میں نہیں خریدتا ۔ حضرت مسور نےکہا کہ اللہ کی قسم آپکو ضرور خریدنا ہوں گے ۔ تب سعد نے کہا میں چار ہزار درہم سے زیادہ نہیں دوں گا وہ بھی قسطوں میں ۔ ابو رافع نےکہا کہ مجھے ان گھروں کے پانچ سو دینار ( نقد ) ملتے تھے اور اگر میں نے بنی ﷺ کویہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے تو میں آپ کو یہ گھر چار ہزار درہم میں بھی نہ دیتا ۔ جب کہ مجھے ان کے پانچ سو دینار ( نقد ) ملتے تھے ۔ "
دوسرا واقعہ
( ( قَالَ عُرْوَةُ : قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : إِنَّ بَرِيرَةَ دَخَلَتْ عَلَيْهَا تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا ، وَعَلَيْهَا خَمْسَةُ أَوَاقٍ نُجِّمَتْ عَلَيْهَا فِي خَمْسِ سِنِينَ ) )
( صحيح البخاري رقم 2560 ، كتاب المكاتب )
" عروہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ ؓ ا نے فرمایا : بریرہ ؓ ا ان کے پاس اپنی مکاتبت میں مدد کے سلسلے میں حاضر ہوئی اس کے ذمہ پانچ اوقیہ چاندی تھی جو اس نے پانچ سالانہ اقساط میں ادا کرنا تھی ۔ "
امام بخاری ؒ نے صحیح بخاری میں اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :
( ( بَابُ المُكَاتِبِ ، وَنُجُومِهِ فِي كُلِّ سَنَةٍ نَجْمٌ ) )
" مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان ، ہر سال میں ایک قسط ۔ "
بیع قسط چونکہ بیع مؤجل ہی کی ایک شکل ہے ۔ جس میں چیز کی قیمت بیک مشت ادا کرنے کی بجائے اقساط مقرر کر دی جاتی ہیں ۔ اس لئے ہمارے فقہاء نے اس کو الگ عنوان میں ذکر کرنے کی بجائے عموما بیع مؤجل کے ضمن میں ہی بیان کیا ہے ۔
قسطوں پر خریداری کی مختلف صورتیں :
1 ۔ نقد اور ادھار دونوں صورتوں میں ایک ہی قیمت ہو ۔ ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے ۔ تاہم اس کے جواز میں کوئی کلام نہیں ۔
2 ۔ ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت وصول کی جائے ۔ مثلا یوں کہا جائے کہ یہ چیز نقد سو روپے کی اور ادھار ایک سودس کی ہوکی ۔
اس کے بارہ میں تین نقطہ نظر ہیں :
( 1 ) ہ
جمہور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کی رائے میں یہ جائز ہے ۔ چنانچہ امام شوکانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
( ( و قالت الشافعیة والحنفية و زيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور إنه يجوز ) )
( نيل الأوطار ج 8 ص 201 )
اهل حديث علماء میں سے سید نذیر حسین محدث دہلوی ، نواب صدیق حسن خان اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہم اللہ جمیعا بھی اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
( فتاوی نذیریہ ج 2 ص 162 و الروضۃ الندیۃ ج 2 ص 89 و فتاوی اہل حدیث ج 2 ص 663 ، 664 )
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ ابن باز ؒ بھی اس کے جواز کے حامی ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
" قسطوں کی بیع میں کوئی حرج نہیں جب کہ مدت اور قسطیں معلوم ہوں خواہ قسطوں کی صورت میں قیمت نقد قیمت سے زیادہ ہو کیونکہ قسطوں کی صورت میں بائع اور مشتری دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ بائع زیادہ قیمت سے اور مشتری مہلت سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ "
( فتاوی اسلامیہ ج 2 ص 445 )
اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے بھی اپنے چھٹے اور ساتویں اجلاس میں جو بالترتیب سترہ تا تیس شعبان 1410 ھ اور سات سے بارہ ذیقعدہ 1412 ھ کو جدہ میں ہوئے ، اس کو جائز قرار دیا ہے ۔ چھٹے اجلاس کی قرار داد کے متعلقہ الفاظ یہ ہیں :
( ( تجوز الزيادة في الثمن المؤجل عن الثمن الحال كما يجوز ذكر ثمن المبيع نقد ا و ثمنه بالأقساط بمدة معلومة ) )
( موسوعة القضايا الفقهية المعاصرة والاقتصاد الإسلامي للدكتور على أحمد سالوس )
" ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت جائز ہے ۔ جس طرح چیز کی قیمت نقد اور متعینہ اقساط میں ذکر کرنا جائز ہے ۔ "
ساتویں اجلاس کے الفاظ یوں ہیں :
( ( البيع بالتقسيط جائز شرعا و لو زاد فيه ثمن المؤجل على المعجل ) ) ( أيضا )
" بیع قسط شرعا جائز ہے خواہ اس میں ادھار قیمت نقد سے زیادہ ہو ۔ "
( 2 ) ہ
امام ابن حزم ، امام ابن سیرین اور زین العابدین عدم جواز کے قائل ہیں ۔
محدث البانی ؒ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں ۔
( سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5 )
( 3 ) ہ
حضرات طاؤس ، ثوری ، اور اوزاعی کی رائے میں یہ ہے تو ناجائز لیکن اگر بائع اس طرح ہونے کے بعد دو قیمتوں میں سے کم یعنی نقد والی قیمت وصول کرے تو جائز ورنہ نا جائز ۔
( سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5 )
قائلین جواز کے دلائل :
جو حضرات اس کے حق میں ہیں ان کا استدلال ایک تو اس بات سے ہے کہ معاملات میں اصل اباحت ہے ۔ یعنی کاروبار کی ہر وہ صورت جائز ہے جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو ۔
قرآن حکیم کی آیت :
( وَ أَحَل اللہُ البیعَ )
" اللہ تعالی نے بیع کو حال کیا ہے "
سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ سوائے ان بیوع کے جن کی حرمت قرآن و حدیث میں واضح کر دی گئی ہے ، ہر قسم کی بیع جائز ہے ، اور قرآن و حدیث میں کوئی ایسی نص موجود نہیں جس سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہو ۔
ان حضرات کی دوسری دلیل ذیل کاواقعہ ہے :
( ( عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو : « أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُجَهِّزَ جَيْشًا فَنَفِدَتْ الْإِبِلُ فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ فِي قِلَاصِ الصَّدَقَةِ » ، فَكَانَ يَأْخُذُ الْبَعِيرَ بِالْبَعِيرَيْنِ إِلَى إِبِلِ الصَّدَقَةِ ) )
( سنن أبی داؤد رقم 3357 ، کتاب البیوع ، باب فی الرخصة في ذلك ) ( شيخ الباني رحمه الله نے اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے ۔ از خضرحیات )
" حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو جیش تیار کرنے کا حکم دیا تو اونٹ کم پڑگئے ، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ صدقے کے اونٹ آنے تک ادھار لے لو ۔ تو انہوں نے لوگوں سے اس شرط پر اونٹ لے کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے تو ایک کے بدلے دد دد دیے جائیں گے ۔ "
مانعین کے دلائل :
جو حضرات اس کی ممانعت کے قائل ہیں
ان کی پہلی دلیل یہ ہے :
ادھار کی صورت میں اضافی رقم اصل میں مدت کا معاوضہ ہے اور مدت کا معاوضہ لینا سود ہے ۔
اس رائے کے حق میں دوسری دلیل وہ روایات ہیں جن میں ایک بیع میں دو بیعوں کی ممانعت بیان ہوئی ہے ۔ مثلا :
( ( نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ) )
( ترمذي : كتاب البيوع ، باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة )
" رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع کیا ہے ۔ "
( ( نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة ) )
( مسند احمد بن حنبل ج 8 ص 383 )
" رسول اللہ ﷺ نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع کیا ہے ۔ "
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ انسان یہ کہے :
( ( وإن کان ب نقد فبكذا وإن كان بنسيئة فبكذا ) )
( مصنف ابن أبي شيبة ج 5 ص 54 )
" اگر نقد ہو تو اتنے اور ادھار ہو تو اتنے کی ۔ "
راجح نقطہ نظر
ہمارے خیال میں حسب ذیل وجوہ کے باعث ان لوگوں کی رائے زیادہ وزنی ہے جوجواز کے حق میں ہیں :
ادھار کی صورت میں اضافے کا جواز خود قرآن کی آیت ( وَأَحَل اللہُ البیعَ ) " اللہ تعالی نے بیع کو حال کیا ہے " سے ثابت ہے ۔ کیونکہ یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی ہے جیساکہ ابن جریر طبری ، علامہ ابن العربی اور امام رازی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے ۔ جن کا اعتراض یہ تھا کہ جب عقد بیع کے وقت ادھار کی زیادہ قیمت مقرر کی جاسکتی ہے تو پھر وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اضافہ کیوں نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ کہتے دونوں صورتیں یکساں ہیں ۔
چنانچہ امام المفسرین امام ابن جریر طبری ؒ لکھتے ہیں :
( ( وذلك أن الذين يأكلون من الربا من أهل الجاهلية كان إذا حل مال أحدهم على غريمه يقول الغريم لغريم الحق زدني في الأجل و أزيدك في مالك فكان يقال لهما إذا فعلا ذلك هذا ربا لا يحل فإذا قيل لهما ذلك قالا سواء علينا زدنا في أول البيع أو عند محل المال فكذبهم الله في قيلهم ) )
( تفسیر طبری )
" اہل جاہلیت میں سے جولوگ سود کھاتے تھے اس کی صورت یہ ہوتی کہ جب کسی کا دوسرے کے ذمے مال ہوتا جس کی ادائیگی کا وقت آچکا ہوتا وہ صاحب حق سے کہتا آپ مدت میں اضافہ کر دیں میں آپ کے مال میں اضافہ کرتا ہوں ۔ ج ان سے یہ کہاجاتا کہ یہ توسود ہے جو حلال نہیں تو کہتے کہ ہم بیع کے آغاز میں اضافہ کریں یا مدت پوری ہونے پر دونوں صورتوں میں یکساں ہیں ۔ تو اللہ تعالی نے ان کی تردید فرمائی ۔ "
مشہور محدث و مفسر علامہ ابن العربی ؒ رقمطراز ہیں :
( ( و کانت تقول إنما البيع مثل الربا أي إنما الزيادة عند حلول الأجل آخرا مثل أصل الثمن من أول العقد و رد الله عليهم قولهم ) )
( أحكام القرآن )
" اہل جاہلیت کہتے تھے بیع سود کی مثل ہی ہے یعنی مدت پوری ہونے پر جو اضافہ کیا جاتا ہے وہ شروع عقد میں اصل قیمت میں اضافہ کی مانند ہے تو اللہ تعالی نے ان کے اس قول کا رد فرمایا ہے ۔ "
امام رازی فرماتے ہیں :
( ( القوم كانوا في تحليل الربا على هذه الشبهة وهي أن من اشترى ثوبا بعشرة ثم باع بأحد عشر فهذا حلال فكذا إذا باع العشرة بأحد شرة يجب أن يكون حلال لأنه لا فرق في العقل بين الأمرين فهذا في ربا ال نقد وأما في ربا النسئة فكذلك أيضا لأنه لو باع الثوب الذي يساوي عشرة في الحال بأحد عشر إلى شهر جاز فكذا إذا أعطى العشرة بأحد عشر إلى شهر وجب أن يجوز لأنه لا فرق في العقل بين الصورتين ) )
( التفسير الكبير )
" ربا کو حلال قراردینے کے متعلق لوگوں کا شبہ یہ تھاکہ جب کوئی شخص ایک کپڑا دس کا خرید کر گیارہ کا بیچے تو یہ جائز ہے اسی طرح جب دس ( درہم ) گیارہ کے بیچے تو معاملہ بھی جائز ہونا چاہئے ۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں عملا کوئی فرق نیہں ہے ۔ یہ شبہ تو ربا ال نقد کے متعلق تھا ۔ " رباالنسیئۃ " کے بارہ میں یہ شبہ تھا کہ وہ کپڑا جس کی نقد قیمت دس ( درہم ) دے کر مہینے بعد گیارہ لے تو یہ بھی جائز ہونا چاہئے کیونکہ عقلی اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ "
ان جلیل القدر آئمہ تفسیر کے بیان سے ثابت ہوا کہ اہل جاہلیت کی اصل غلطی یہ تھی کہ وہ وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اصل دین پر اضافہ کو ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت لینے پر قیاس کرتے تھے ۔ تو اللہ تعالی نے اس کا رد کرتےہوئے فرمایا کہ ادھار کی صورت میں قیمت میں اضافہ کرنا بیع میں شامل ہے جوجائز ہے جب کہ بروقت ادائیگی نہ کرنیکی صورت میں اضافہ سود ہے جو حرام ہے ۔
ہر مدت کا معاوضہ سود نہیں ہوتا ۔ مہلت کا اضافہ تب سود بنتا ہےجب انسان کی ذمہ قرض ، دین ( Debit ) کی تاخیر یا اموال ربویہ کے تبادلے کی صورت میں ہو ۔
نبی ﷺ نے سونے کے سونے کے ساتھ تبادلے میں دو شرطیں لگائیں ہیں :
1 ۔ برابر ہو ۔
2 ۔ دونوں جانت سے نقد ہو ۔
اگر اسلام میں مدت کی قیمت کا اعتبار نہ ہوتا تو دونوں طرف سے نقد کی قید لگانے کی ضرورت نہ تھی ۔ نیز ادھار کی صورت میں اضافہ بیع کے ضمن میں ہے اس لئے جائز ہے ۔
فقہاء کرام نے بیع کے ضمن میں مدت کے اضافہ کو جائز قرار دیا ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھیے :
" المعاملات المالية المعاصرة للدكتور وهبة الزحيلي حفظه الله "
یہ اضافہ ربا کی کسی قسم میں شامل نہیں ۔ اس کا اقرار ان لوگوں کو بھی ہے جو اس کے مخالف ہیں ۔
چنانچہ مفتی سیاح الدین کاکا خیل ؒ لکھتے ہیں :
" ادھار کی وجہ سے جو ثمن میں اضافہ کیاجاتا ہے اس کوعین ربا اوربا حقیقی کی طرح حرام نہیں کہا جاسکتا کیونکہ فقہاء کرام اور حضرات مفسرین نے حقیقی ربا کی جو تعریف کی ہے اس کے مطابق یہ ربا کی تعریف میں داخل نہیں ہے ۔
( حکمت قرآن : جنوری 1992 ص 14 )
مزید لکھتے ہیں :
" سود سے اس کا فرق دو وجہوں سے ہے ۔ ایک تو یہ دَین پر اضافہ نہیں بلکہ شروع ہی سے ثمن مہنگا بتلادینا ہے وہ اضافہ محض اس کے ذھن میں ہے نیز مدت کے بڑھنے کے ساتھ اس زیادتی میں اضافہ نہیں ہوتا ۔ "
( ماہنامہ حکمت قرآن : جنوری 1992 ء ص 16 )
محدثین کرام اور فقہاء عظام نے " بیعتین فی بيعة " کے مختلف مفاہیم بیان کئے ہیں :
• بائع يہ کہے کہ یہ کپڑا نقد دس کا اور ادھار بیس کا ۔ مشتری کسی ایک قیمت کا تعین کئے بغیر خرید لے ۔
• یہ کہا جائے کہ میں اپنا گھر تجھے اتنے میں بیچتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ نے اپنا غلام اتنے میں مجھے بیچنا ہے ۔
• انسان کسی چیز کا سودا کرے مثلا ایک قفیز گندم کا اور اس کی قیمت پیشگی ادا کردے ۔ گندم کی ادائیگی کیلئے ایک مہینہ مدت مقرر ہوجائے ۔ جب مقررہ آئے تو فروخت کنندہ کہے کہ وہ گندم آپ مجھے دو مہینے کی مدت کے لئے دو قفیز کے عوض فروخت کر دیں ۔
( تحفة الأحوذي )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کے نزدیک اس سے " بیع عینہ " مراد ہے ۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
( ( وفی السنن عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ) ) من باع بيعتين في بيعة فله أو كسها أو الربا ) ) وفيه أيضا عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ( ( إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر و تركتم الجهاد في سبيل الله أرسل الله عليكم ذلا لا يرفعه عنكم حتى ترجعوا إلى دينكم و هذا كله في بيعة العينة و هو بيعتان في بيعة ) )
( مجموع الفتاوى ج 29 ص 432 )
" من باع بيعتين اور إذا تبايعتم بالعينة یہ سب بیع عینہ کے متعلق ہیں اور یہی ایک بیع میں دو بیع کرنے کا معنی ہے ۔ "
پہلی صورت کے ناجائز ہونے کی علت قیمت کا متعین نہ ہونا ہے ۔ دوسری صورت میں بیع کو مستقبل کی شرط پر معلق کیا گیا ہے ، اور آخری دو صورتوں میں ربا لازم آتا ہے جب کہ بیع تقسیط ان سب سے الگ ہے ۔
مانعین کا حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی تشریح سے استدلال درست نہیں کیونکہ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ مشتری ایک قیمت طے کئے بغیر چیز اٹھا کرلے جائے احتمال کی صورت میں جمہور کی تشریح ہی معتبر ہوگی جنہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ مشتری نقد یا ادھار کی صراحت کئے بغیر چیز اٹھا کر لے جائے ۔
ملاحظہ :
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ یہ جواز صرف اس وقت ہے جب ادائیگی میں تاخیر پر اضافی رقم خواہ وہ جرمانہ کے نام پر ہو وصول نہ کی جائے ۔
دونوں صورتوں میں فرق ہے ۔ پہلی صورت میں جب چیز ایک قیمت طے ہوجاتی ہے تو پھر اس میں اضافہ ممکن نہیں ہوتا خواہ ادائیگی مدت مقررہ پر کی جائے یاتاخیر کرکے ۔
دوسری صورت میں فریقین کے درمیان طے ہونے کے بعد تاخیر پر جرمانہ وصول کیا جاتا ہے جو زمانہ جاھلیت کے سود " إما أن تقضي وإما أن تربي " " یا ادا کرو یا اضافہ کرو " میں داخل ہےجو سراسر ناجائز ہے ۔
ہمارے ہاں چونکہ قسطوں کی خریدو فروخت میں عموما تاخیر پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے لہذا اس کو مطلق جائز قراردینا درست نہیں ۔
خلاصہ :
• ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت لگائی جاسکتی ہے ۔
• اکثر محدثین عظام نے ایک بیع میں دو بیع کی جو تشریح کی ہے بیع قسط اس میں شامل نہیں ۔
• ادائیگی میں تأخیر پر جرمانہ عائد کرنا سود ہے ۔
تمت بالخير
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 2
قسطوں کا کاروبار حرام اور سود ہے
سوال :
آج تک یہی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ قسطوں کا کاروبار حرام اور سود ہے ۔ لیکن ہفت روزہ اہل حدیث میں مولانا صاحب نے جائز قرار دیا ہے ۔ براہِ مہربانی وضاحت فرما دیں ۔ شکریہ ۔
( محمد سرور دکاندار ، چک چٹھہ ، حافظ آباد )
ہفت روزہ اہل حدیث ۲۵ ربیع الاوّل ۱۴۲۳ھ میں
جواب :
(جواب میں ذیل کا فتوی پیش کیا گیا ہے )
مولانا حافظ ابو محمد عبد الستار الحماد میاں چنوں کا فتویٰ
سوال :
فاروق آباد سے سعید ساجد لکھتے ہیں کہ آج کل قسطوں کا کاروبار تقریباً ۷۵ / فی صد لوگ کر رہے ہیں ، جس کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی کوئی گاڑی نقد خریدتا ہے تو وہ پانچ لاکھ روپے کی ہے لیکن قسطوں میں وہی گاڑی آٹھ لاکھ روپے میں ملتی ہے کیا یہ صورت سود کے زمرے میں تو نہیں آتی؟
جواب :
واضح رہے کہ صورتِ مسئولہ کا تعلق مالی معاملات سے ہے ، مالی معاملات کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے : " اے ایمان والو1 آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ مگر یہ کہ کوئی مال رضا مندانہ تجارت کی راہ سے حاصل ہو جائے ۔ "
( سورۃ النساء : ۲۹ )
باطل طریقہ سے مراد لین دین ، کاروبار اور تجارت کے وہ طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضا مندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد محفوظ رہتا ہے جب کہ دوسرا غرر یاضرر کا ہدف بنتا ہے ۔ اگر کسی معاملہ میں دھوکا پایا گیا یااس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہو تو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی بھی ہوں تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں ۔ جنہیں شریعت نے ناجائز ٹھہرایا ہے اس لئے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی ناجائز دباؤ سے ہواور نہ ہی اس میں فریب اور ضرر کو دخل ہو اگر چہ خرید و فروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے ۔ { وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ } ( بقرۃ : ۲۷۵ ) [ " اور اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے ۔ " ] لیکن ہر قسم کی خرید و فروخت حلال نہیں ہے ۔ بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے ۔
1 فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں ۔
2 خرید کر دہ اشیاء اور ان کا معاوضہ مجہول نہ ہو ۔
3 قابل فروخت چیز فروخت کنندہ کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو ۔
4 فروخت کردہ چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوا نہ ہو ۔
5 خرید و فروخت کسی حرام چیز کی نہ ہو اور نہ ہی اس میں سود وغیرہ کو بطورِ حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو ۔
6 اس خرید و فروخت میں کسی فریق کو دھوکہ دینا مقصود نہ ہو ۔
7 اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو ۔
کتب حدیث میں خرید و فروخت کی تقریباً تیس ( ۳۰ ) اقسام کو انہیں وجوہ کی بنیاد پر حرام ٹھہرایا گیا ہے ۔ پھر عام طور پر خریدو فروخت کی دو قسمیں ہیں :
( ۱ ) ۔ نقد ( ۲ ) ۔ اُدھار
نقد یہ ہے کہ چیز اور اس کا معاوضہ فورًا حوالے کر دیا جائے پھر معاوضہ کے لحاظ سے اس کی مزید دو اقسام ہیں :
( ۱ ) ۔ معاوضہ نقد ی کی صورت میں ہو ۔
( ۲ ) ۔ معاوضہ جنس کی صورت میں ہو ۔
جہاں معاوضہ جنس کی صورت میں ہو اس کی دو صورتیں ہیں : ( ۱ ) ۔ حرام ( ۲ ) ۔ جائز
حرام یہ ہے کہ ایک ہی جنس کی خریدو فروخت میں ایک طرف سے کچھ اضافہ ہو جیسا کہ ایک تولہ سونا دے کر دو تولے سونا لینا ایک کلو کھجور کے بدلے دو کلو کھجور لینا وغیرہ ۔
جائز یہ ہے کہ مختلف اجناس کی خرید و فروخت کرتے وقت کسی ایک طرف سے کچھ اضافہ کے ساتھ وصولی کرنا مثلاً ایک من گندم کے عوض دو من جو لینا ، لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ سودا نقد ب نقد ہو ۔
خرید و فروخت کے اُدھار ہونے کی صورت میں بھی اس کی کئی اقسام ہیں : مثلاً :
( ۱ ) … چیز اور اس کا معاوضہ دونوں ہی اُدھار ہوں ، ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔ فقہی اصطلاح میں اسے بیع الکالی کہتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
( ۲ ) … اگر دونوں میں سے ایک نقد اور دوسری اُدھار ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں :
( ۱لف ) معاوضہ نقد ی کی صورت میں پہلے ادا کر دیا جائے لیکن مبیع یعنی فروخت کر دہ جنس بعد میں حوالہ کرنا ہو اسے بیع سلم یا سلف کہا جاتا ہے اس کی شرعاً اجازت ہے بشرط یہ کہ :
( ۱ ) جنس کی مقدار اور اس کا بھاؤ پہلے سے طے شدہ ہو ۔
( ۲ ) جنس کی ادائیگی کا وقت بھی متعین ہو ۔
( ب ) مبیع یعنی فروخت کردہ چیز پہلے وصول کر لی جائے لیکن معاوضہ کی ادائیگی اُدھار ہو ، یہ بھی جائز ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے عمر کے آخری دور میں ایک یہودی سے آئندہ قیمت کی ادائیگی پر کچھ جو لئے تھے اسے بیع نسئیہ کہتے ہیں ،
اس بیع کی دو صورتیں ہیں :
( ۱ ) فروخت کردہ چیز کا بھاؤ ایک ہو خواہ نقد یا اُدھار ، اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔
( ۲ ) فروخت شدہ چیز کے نقد اُدھار کے دو بھاؤ ہوں اس کے جواز یا عدم جواز کے متعلق علماء کا اختلاف ہے ، صورت مسئولہ میں بھی اسی کو بیان کیا گیا ہے ، اس کے متعلق ہم نے کچھ گزارشات پیش کرنا ہیں لیکن ان گزارشات سے پہلے دو اصولی باتیں گوش گزار کرنا ضروری خیال کرتے ہیں :
1 معاملات اور عبادات میں فرق یہ ہے کہ عبادات میں اصل حرمت ہے الا یہ کہ شریعت نے اس کی بجا آوری کا حکم دیا ہو جب کہ معاملات میں اصل اباحت ہے الا یہ کہ شریعت نے کسی کے متعلق حکم امتناعی نہ دیا ہو ۔ صورتِ مسئولہ کا تعلق معاملات سے ہے اس کے متعلق ہم نے حکم امتناعی تلاش کرنا ہے ۔ بصورتِ دیگر یہ حلال اور جائز ہے ۔
2 کسی چیز کا بھاؤ متعین کر دینا شرعاً جائز نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکو اہل مدینہ نے اشیاء کے بھاؤ متعین کر دینے کے متعلق عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق اور اُتار چڑھاؤ کا مالک ہے نیز وہ تمام مخلوق کا رازق ہے میں نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن میرے ذمے کسی کا کوئی حق ہو ۔ " 1 ( مسند امام احمد : ۳ / ۱۵۶ )
اس بناء پر اشیاء کی قیمتیں توقیفی نہیں ہیں کہ ان میں کمی بیشی نہ ہو سکتی ہو نیز کسی چیزکا نفع لینے کی شرح کیا ہو؟ اس کے متعلق بھی شریعت کا کوئی ضابطہ نہیں ہے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ایسے واقعات بھی منقول ہیں کہ انہوں نے قیمت خرید پر دو گنا وصول کیا ۔
( صحیح بخاری ) 2
صورتِ مسئولہ یوں ہے کہ ایک دکاندار اپنی اشیاء بایں طور فروخت کرتا ہے کہ نقد ادائیگی کی شکل میں ایک چیز کی قیمت ۳۰۰ روپے ہے لیکن وہی چیز ایک سال کے اُدھار پر ۴۰۰ روپے میں اور دوسال کے اُدھار پر ۵۰۰ روپے میں فروخت کرتا ہے ۔ اُدھار کی شکل میں خریدار کو اختیار ہے کہ وہ سال کے اختتام پر واجب الاداء رقم یکمشت ادا کر دے یا حسب معاہدہ اس رقم کو بالاقساط ادا کرے ، موجودہ دور میں قسطوں پر اشیاء ضرورت بیچنے کا رواج تمام اسلامی ممالک میں عام ہو چکا ہے اور بہت سے لوگ اپنی ضرورت کی اشیاء صرف قسطوں پر خرید سکتے ہیں اور نقد خریدنا ان کی طاقت سے باہر ہوتا ہے واضح رہے کہ قسطوں کی صورت میں ایک چیز کی قیمت بازاری قیمت سے زیادہ مقرر کی جاتی ہے بعض علماء اس زیادتی کو ناجائز کہتے ہیں کیونکہ ثمن کی یہ زیادتی " مدت " کے عوض میں ہے اور جو ثمن " مدت " کے عوض میں ہو وہ سود ہے جسے شریعت نے حرام کہا ہے ۔ علامہ شوکانی نے زین العابدین علی بن حسین ، ہادویہ کا یہی مسلک نقل کیا ہے ۔ لیکن ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء اور محدثین کا مسلک یہ ہے کہ خرید و فروخت کے عمومی دلائل کے پیش نظر اُدھار بیع میں نقد کے مقابلہ میں قیمت زیادہ کرنا جائز ہے ۔ بشرط یہ کہ خریدار اور فروخت کنندہ اُدھار یا نقد قطعی فیصلہ کر کے کسی ایک قیمت پر متفق ہو جائیں ۔
( نیل الاوطار : ۵ / ۱۷۲ )
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
1 ترمذی ، کتاب البیوع ، باب ما جاء فی التسعیر ۔ ابو داؤد ، کتاب الاجارۃ ، باب التسعیر ابن ماجہ ، کتاب التجارات ، باب من کرہ ان یعسر
2 بخاری ، کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۔ ترمذی ، کتاب البیوع ، باب ۳۴
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
لہٰذا اگر بائع یہ کہے کہ میں یہ چیز نقد اتنے میں اور اُدھار اتنے میں فروخت کرتا ہوں ، اس کے بعد کسی ایک بھاؤ پر اتفاق کئے بغیر دونوں جدا ہو جائیں جہالت ثمن کی وجہ سے یہ بیع ناجائز ہے لیکن اگر عاقدین مجلس عقد میں ہی کسی ایک شق اور کسی ایک ثمن پر اتفاق کر لیں تو بیع جائز ہو جائے گی چنانچہ امام ترمذی جامع ترمذی میں لکھتے ہیں :
" بعض اہل علم نے حدیث " بیعتین فی بیعۃ " کی تشریح بایں الفاظ کی کہ " بائع مشتری سے کہے کہ میں کپڑا تمہیں نقد دس اور اُدھار بیس روپے میں فروخت کرتا ہوں اور پھر کسی ایک بیع پر اتفاق کر کے جدائی نہیں ہوئی لیکن اگر ان دونوں میں سے کسی ایک پر اتفاق ہونے کے بعد جدائی ہوئی تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ معاملہ ایک پر طے ہو گیا ہے ۔ "
( جامع ترمذی / کتاب البیوع )
امام ترمذی کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ " بیعتین فی بیعۃ " کے ناجائز ہونے کی علت یہ ہے کہ عقد کے وقت کسی ایک صورت کی عدم تعیین سے ثمن دو حالتوں میں متردد ہو جائے گی اور یہ تردد جہالت ثمن کو مستلزم ہے ، جس کی بناء پر ناجائز ہوئی ، مدت کے مقابلہ میں ثمن کی زیادتی ممانعت کا سبب نہیں لہٰذا اگر عقد کے وقت ہی کسی ایک حالت کی تعیین ہو جائے اور جہالت ثمن کی خرابی دور کر دی جائے تو پھر اس کے جواز میں شرعاً کوئی قباحت نہیں رہے گی ، یہی موقف راجح ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں اس بیع کے عدم جواز پر کوئی نص موجود نہیں ، علامہ ابن تیمیہ معاملات کے متعلق فرماتے ہیں : " جو معاملات انسان کو ضرورت کے طور پر پیش آتے ہیں وہ سب حلال اور جائز ہیں الا یہ کہ اس کی حرمت پر قرآن و حدیث میں کوئی واضح دلیل موجو د ہو ۔ "
( مجموع الفتاویٰ : ۲۸ / ۳۸۶ )
ہم نے آغاز میں جو ایک اصول بیا ن کیا تھا اسے ایک مرتبہ پھر بنظر غائر دیکھ لیا جائے اور اس بیع میں جو ثمن کی زیادتی ہے اس پر ربا کی تعریف بھی صادق نہیںآتی کیونکہ وہ قرض نہیں اور نہ ہی اموال ربویہ کی خریدو فروخت ہو رہی ہے بلکہ یہ عام بیع ہے اور اس عام بیع میں فروخت کنندہ کو شرعاً مکمل اختیار ہے کہ وہ اپنی چیز جتنی قیمت میں چاہے فروخت کرے اور اس کے لئے شرعاً یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی چیز کو بازار کے بھاؤ سے فروخت کرے اور قیمت کی تعیین میں ہر تاجر کا اپنا ایک اصول اور انداز ہوتا ہے ۔ اس پر پابندی نہیں ہے کہ وہ ایک متعین ریٹ پر اپنی اشیاء کو فروخت کرے اس سلسلہ میں ہمارا بیان کردہ دوسرا اُصول پیش نظر رہنا چاہئے کہ بعض اوقات ایک ہی چیز کی قیمت حالات کے اختلاف سے مختلف ہو تی ہے اگر کوئی بائع اپنی چیز کی قیمت ایک حالت میں کچھ مقرر کرے اوردوسری حالت میں کچھ مقرر کر دے تو شریعت نے اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی ، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنی چیز نقد آٹھ روپے میں اور اُدھار دس روپے میں فروخت کرتا ہے تو اس شخص کے لئے بالاتفاق یہ جائز ہے کہ وہ اسی چیز کو نقد دس روپے میں فروخت کر دے بشرط یہ کہ اس میں ضرر یا غرر نہ ہو اور جب دس روپے میں نقد فروخت کرنا جائز ہے اور اُدھار دس روپے میں فروخت کرنا کیوں ناجائز ہوا ؟
( فتدبر )
اب ہم قارئین کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ زیر نظر مسئلہ میں نقد کی نسبت سے اُدھار قیمت میں یہ تفاوت کیا اُدھار کا عوض ہے یا اُدھار کی وجہ سے ہے؟ ان دونوں کے درمیان مابہ الامتیاز کیا ہے تاکہ بذریعہ نص حرام اور ناجائز سود سے اس کا فرق ہو سکے ، واضح رہے کہ اُدھار کی وجہ سے قیمت میں یہ تفاوت اُدھار کا معاوضہ نہیں ہے کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اس اُدھار کی قیمت میں جو کچھ قیمت تو بیع کی ہو اور کچھ قیمت اس اجل کی ہو جو عاقدین نے قیمت کی ادائیگی کے لئے طے کی ہے ۔ بلکہ معاشرتی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اُداھار میں جو سہولت میسر آتی ہے اس کی وجہ سے کچھ اضافہ ہوا ہے ۔ ہم آسانی کے پیش نظر اسے یوں تعبیر کر تے ہیں : ان الزیادۃ ھٰھنا لاجل لا لعوض الاجل " یہاں پر قیمت میں اضافہ اُدھار کی وجہ سے ہے اُدھار کے عوض میں نہیں ہے ۔ قرآن و حدیث میں اس قسم کے متعدد نظائر پائے جاتے ہیں جس میں اُدھار کی وجہ سے قیمت میں زیادتی آتی ہے جنہیں ہم آئندہ بیان کریں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اجل ایک وصف ہے اور وصف کا معاوضہ نہیں ہوتا لیکن وصف کے مرغوب ہونے کی وجہ سے قیمت بڑھ سکتی ہے اور وصف کے ناپسند ہونے کی وجہ سے قیمت کم ہو جاتی ہے اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو صاع کھجور کے عوض ایک صاع کھجور لینے کو ناجائز ٹھہرایا ہے 1 آپ نے اس کے متعلق مزید تاکید کی ہے کہ عمدہ اور ردّی کھجور کا بھی مقابلہ ہو تو برابر برابر لینا ہو گا ۔ 2 اس کے عمدہ ہونے کی صورت میں اضافہ نہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی لے سکتے ہیں ۔ بہترین کھجور کے ایک سیر کے بدلہ میں معمولی کھجور کے دو سیر دینے سے منع فرمادیا کیونکہ اس میں سیر کے بدلے میں آجاتا ہے اور دوسرا سیر اس کے وصف جو دت ( عمدگی ) کے عوض میں لیا جاتا ہے جو کہ ناجائز ہے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کی تدبیر یوں فرمائی کہ ردی کھجور کو کم قیمت پر فروخت کر دو پھر حاصل ہونے والے زر ثمن سے بہتر کھجور کو زیادہ قیمت سے خرید لو ۔ 3 اس معاملہ میں بہتر کھجور کی قیمت میں اضافہ اس کے وصف مرغوب کی وجہ سے ہے ۔ اس عقلی اور فطری بات سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ مرغوب چیز کی قیمت بمقابلہ نا مرغوب کے زیادہ ہے ۔ لیکن یہ صورت ناجائز ہے کہ ایک سیر بہتر کھجور کے بد ل میں دو سیر معمولی کھجور دی جائے اس طرح یہ بھی ناجائز ہے کہ بہتر کھجور والے کو معمولی کھجور کا ایک سیر اور اس کے ساتھ ایک روپیہ بھی دے دیا جائے کیونکہ اس صورت میں یہ روپیہ یا دوسرا سیر وصف جو دت کا عوض ثابت ہو گا اور وصف کا عوض لینا جائز نہیں ہے ۔ لیکن بہتر کھجور کو عام نرخ سے زیادہ قیمت پر خریدنا بالکل جائز ہے کیونکہ یہاں قیمت کا اضافہ اس کے وصف ( عمدگی ) کی وجہ سے اس وصف کا عوضانہ نہیں ہے ۔ آپ نے ملتان سے لاہور جانے کا پروگرام بنایا ہے اس کے لئے عام گاڑی ، اے سی اور ہوائی جہاز تین ذرائع ہیں ، ان تینوں ذرائع کا کرایہ الگ الگ ہے ، یہ تفاوت ان ذرائع میں دی گئی سہولتوں کے پیش نظر ہے ایسا نہیں ہوتا کہ اصل کرایہ تو عام گاڑی کا ہے باقی جو کرایوں میں تفاوت ہے وہ ان سہولتوں کا عوض ہے جو آ پکو دی گئی ہیں ۔ اب آپ اُدھار پر فروخت کی گئی چیز کی مدت پر غور کریں کہ نفس اجل کا عوض لینا ناجائز ہے لیکن اس کی وجہ سے قیمت کا بڑھ جانا فطری اور عقلی بات ہے اور شریعت نے اس سے منع نہیں کیا ، اسی کو فقہاء اسلام نے یوں تعبیر کیا ہے : " ان الاجل لا یقابلہ الثمن و ان الثمن یزاد لِلْاَجل " " ثمن ، اجل کا عوض نہیں ہوتی البتہ اجل کی وجہ سے اس میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ "
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
1 مسلم ، کتاب البیوع ، باب بیع الطعام مثلاً بمثل 2 مسلم ، کتاب البیوع ، باب بیع الطعام مثلاً بمثل
3 مسلم ، کتاب البیوع ، باب بیع الطعام مثلاً بمثل
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
نفس اجل پر عوض لینے کی صورت یوں ہو سکتی ہے کہ ایک ماہ پر کسی چیز کا اُدھار سودا ہوا کہ اس کی قیمت ایک ہزار روپیہ ایک ماہ پر ادا ہو گی ، جب خریدار نے ایک ماہ بعد اس کی قیمت ادا نہ کی تو اسے کہا جائے کہ آپ دوسرے ماہ کے اختتام پر اس کی قیمت ادا کر دیں لیکن ساتھ پچاس روپے اضافی طور پر دیں ۔ یہ صورت ناجائز ہے کیونکہ اس میں اجل کو فروخت کیا گیا ہے اور پچاس روپے اس اجل کا عوض ہیں اس کے برعکس اجل ایک وصف مرغوب ہے کہ مشتری کو فوری طو رپر رقم ادا نہیں کرنا پڑتی ، آسانی سے کام چلا لیتاہے ۔ اس لئے وہ چیز اُدھار پر دینے کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ اس بیع مؤجل اور معاملہ سود میں فرق یہ ہے کہ سودی معاملہ میں اصل دین ( قرض ) پر مہلت کے عوض اضافہ ہوتا ہے جب کہ بیع مؤجل میں مہلت کی وجہ سے بوقت عقد زیادہ قیمت طے کی جاتی ہے ۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ سودی معاملہ میں مدت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس زیادتی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جب کہ بیع مؤجل میں ایک ہی دفعہ قیمت زیادہ لگائی جاتی ہے ، بار بار ایسا نہیں کیا جاتا ، ہم اسے ایک مثال سے سمجھاتے ہیں :
اگر مشتری نے کوئی چیز دس روپے میں اس شرط پر خریدی کہ ایک ماہ بعد اس کی قیمت ادا کر ے گا اگر وہ ایک ماہ کے بجائے دو ماہ میں قیمت ادا کرے گا تو بھی وہ دس روپے ہی ادا کرے گا ۔ اب مدت کی زیادتی کی وجہ سے قیمت میں زیادتی نہیں ہو گی ۔ لیکن اگر بائع معاملہ طے ہونے کے بعد ایک ماہ کی تاخیر پر دو ، پھر دو ماہ کی تاخیر پر چار اور اسی طرح تین ماہ کی تاخیر پر چھ روپے اصل طے شدہ رقم سے زیادہ وصول کرے تو یہ سود ہے جو کسی صورت میں جائز نہیں ہے ۔
قارئین کرام ! جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ زیرِ نظر مسئلہ یعنی نقد اور اُدھار کے بھاؤ میں کمی بیشی کرنا شرعاً جائز ہے ۔ کیونکہ یہ اُدھار خرید و فروخت کی ہی ایک صورت ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہے ۔ اور اس کے متعلق صریح نصوص موجود ہیں ۔ تاہم اُدھار کی بناء پر قیمت زیادہ وصول کرنا فکر و نظر اور غورو خوض کی متقاضی ہے کیونکہ خریدو فروخت کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں اُدھار جائز نہیں ہے جیسا کہ سونے کے بدلے سونا یا گندم کے عوض گندم لینا اسی طرح بعض صورتیں ایسی ہیں کہ کسی طرف سے اضافہ حرام ہے جیسا کہ چاندی کے بدلے چاندی کا کاروبار کرنا ، نیز اُدھار کی وجہ سے قیمت بڑھا دینا کسی صریح نص سے ثابت نہیں ہے ۔ البتہ قرائن و شواہد اور استنباط و استخراج سے اس کا جواز ملتا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے :
" ارشاد باری تعالیٰ ہے : " ایمان والو ! جب تم ایک وقت مقررہ تک اُدھار کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو "
[ البقرۃ : ۲۸۵ ]
اس آیت کو آیت مداینہ کہا جاتا ہے ، حضرت ابن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے مقررہ مدت تک کئے ہوئے عقد سلم کے معاملہ کو اپنی کتاب میں آیت مداینہ کی رُو سے حلال قرار دے کر اس کی اجازت دی ہے ۔ "
( مستدرک حاکم : ۲ / ۲۸۶ )
عقد سلم کی تعریف محدثین اور فقہاء نے بایں الفاظ کی ہے : " بیع اجل بعاجل " نقد پیشگی قیمت دے کر آئندہ خرید کر دہ چیز وصول کرنے کا عقد ، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی مشتری مقرر شرائط کی رعایت کرتے ہوئے کسی شخص کو ایک ہزار روپیہ دے اور یہ معاہدہ کرے کہ تم یہ رقم پیشگی وصول کر کے فلاں وقت میں مجھے اتنی گندم اس بھاؤ سے دینے کے پابند ہو اور بائع بھی مقرر شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے رقم وصول کر کے معاہدہ کرے تو اسے عقد سلم کہا جاتا ہے ، اس عقد کی ماہیت پر غور کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مشتری وقتی طور پر یکمشت زر سلم کی ادائیگی پر تیار ہو کر مہینوں تک خرید کردہ چیز کی وصولی کا انتظار کرتا ہے ایسا کیوں ہے؟ کیا اس میں فریقِ ثانی کی خیر خواہی اور ہمدردی مقصود ہے ؟ ہر گز نہیں اگر ایسی بات ہوتی تو اسے قرض حسنہ دے کر مشکل کے وقت اس کے کام آتا ۔ متعدد شرائط کی رعایت کر کے پیشگی رقم دے کر مہینوں تک خرید کردہ چیز کی وصولی کا انتظار کرنے سے اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسے مقررہ وقت پر خرید کردہ چیز ارزاں قیمت پر میسر ہو کیونکہ عقد سلم میں خرید کردہ چیز بائع کو بازار کی قیمت سے سستی پڑتی ہے ۔
اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ عقد سلم میں قیمت کی پیشگی ادائیگی اور خرید کردہ چیز کی تاخیر سے اس چیز کی قیمت متاثر ہوتی ہے ۔ عقد سلم میں ادھار شرط ہے جیساکہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ا س پر ایک عنوان بھی قائم کیا ہے اگر اس میں اُدھار نہ ہو تو عقد سلم کی حقیقت ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ لہٰذا جب بیع آجل بعاجل میں اُدھار کی وجہ سے قیمت میں تفاوت کا آنا ممنوع نہیں تو زیر نظر مسئلہ جو دراصل بیع عاجل بآجل ہے ۔ اس میں قیمت کا تفاوت کیوں ممنوع قرار دیا جائے ۔ بلکہ نقد اور اُدھار کی وجہ سے خرید کردہ چیز اور اس کی قیمت کا متاثر ہو کر کم یا زیادہ ہونا غیر مشروع نہیں اور نہ ہی سود کے زمرے میں آتا ہے ۔
( فتدبر )
حضرت عائشہ ؓ ما فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے ابو الشحم نامی ایک یہودی سے جو اُدھار پر لئے اور اپنی زرہ اس کے ہاں گروی رکھی ۔
( صحیح بخاری / کتاب البیوع / باب شراء النبی بالنسیئۃ )
ہم یہودی کے اس معاملہ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ایک متعصب دشمن اسلام سے رسول اللہ ﷺ کا معاملہ اور اس کے بعد روزمرہ ضروریات میں کام آنے وال چیز زرہ کو رہن رکھنے کے پس پردہ واقعات کا جائزہ لینے سے جو صورت سامنے آتی ہے اس میں زیرِ نظر مسئلہ کے جواز پر قوی شواہد موجود ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرہ میں جب کسی چیز کی مانگ زیادہ ہو تو اس کے خریدار بھی بڑھ جاتے ہیں اور جب خریدار زیادہ ہوں تو اس چیز کے نقد فروخت ہونے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں ایسے مواقع پر بائع اُدھار کی نسبت نقد کو زیادہ ترجیح دیتا ہے ۔ ہاں اگر اسے اُدھار فروخت کرنے میں مالی منفعت زیادہ نظر آئے تو پھر اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکے اس معاملہ کے وقت مدینہ منورہ کی معاشی حالت یہ تھی کہ غلہ کی ضرورت بہت زیادہ تھی عموماً لوگوں کو بیرونی قافلوں کے آنے کا انتظار کرنا پڑتا اور جب کبھی قافلہ آنے کی خوشخبری سنائی جاتی تو فاقہ زدہ معاشرہ کی حالت بسا اوقات غیر ہو جاتی ۔
چنانچہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ 1خطبہ جمعہ دے رہے تھے کہ قافلہ آنے کی خبر ملی ، خبر سنتے ہی صحابہ کرامرضوان اللہ علیھم اجمعین کی کثیر تعداد رسول اللہ ﷺ کو خطبہ کی حالت میں اکیلے چھوڑ کر قافلہ کی طرف دوڑ پڑی او ر اس وقت خرید و فروخت کی مارکیٹ پر یہودیوں کا قبضہ تھا ۔ وہ قافلہ سے غلہ خرید کر بعدمیں اپنی مرضی کی قیمت پر اسے فروخت کرتے تھے ۔ ایسی ضرورت کی اشیاء میں انہیں نقد کا گاہک بسہولت میسر تھا ۔ یہ لوگ نقد کی بجائے اُدھار کو ترجیح کسی شوق یا جذبہ ہمدردی کی وجہ سے نہ دیتے تھے بلکہ مالی منفعت کی خاطر اُدھار کا معاملہ کرتے تھے ۔ ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ کے اُدھار کے معاملہ سے غالب گمان یہی ہے کہ نقد کی نسبت سے اُدھار کی قیمت کا تفاوت لازمی طور پر اختیار کیا گیا ہو گا ، مالی منفعت اور زیادہ قیمت کی وصولی کے سوا یہودی کے اس اقدام کے لئے اور کوئی دوسرا محرک نظر نہیں آتا تھا ۔
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
1 بخاری ، کتاب التفسیرسورۃ الجمعۃ ، باب واذارأو تجارۃ او لھوا ۔ مسلم ، کتاب الجمعۃ ، باب فی قولہ تعالیٰ واذآ رأوا تجارۃ اولھوا ۔ ترمذی ، کتاب التفسیر سورۃ الجمعۃ ۔
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
آخر میں ہم شیخ عبد العزیز بن باز کا ایک فتویٰ درج کئے دیتے ہیں کیونکہ اس فتویٰ سے مزید کئی پہلو روشن ہوتے ہیں ۔
شیخ صاحب سے کسی نے بایں الفاظ سوال کیا :
" بیع میں اگر نقد کی نسبت اُدھار یا قسطوں پر قیمت زیادہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ "
اس پر آپ نے حسب ذیل جواب دیا :
" معلوم مدت والی بیع جائز ہے جب کہ اس بیع میں معتبر شرائط پائی جاتی ہوں ، اس طرح قیمت کی قسطیں کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جب کہ یہ اقساط معروف اور مدت معلوم پر مشتمل ہوں چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
" اے ایمان والو ! جب تم ایک مقررہ مدت کے اُدھار پر لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو ۔ "
( البقرۃ : ۲۸۲ )
نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ، " جب کوئی شخص کسی چیز میں بیع سلم کرے تو ناپ تول اور مدت معین کر کے کر لے ۔ "
( صحیح بخاری ) 1
حضرت بریرہ ؓ ما کے متعلق احادیث میں ہے کہ انہوں نے خود کو اپنے مالکوں سے نواوقیہ چاندی میں خرید لیاکہ ہر سال ایک اوقیہ چاندی ادا کر نا ہوگی ۔
( صحیح بخاری ) …2
یہی قسطوں والی بیع ہے رسول اللہ ﷺ نے اس بیع کو معیوب خیال نہیں کیا بلکہ آپ ﷺ خاموش رہے اس سے منع نہیں فرمایا اور اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ قسطوں میں قیمت نقد کے برابر ہو یا مدت کی وجہ سے زیادہ ہو ۔
( فتاویٰ شیخ عبد العزیز بن باز : ۱۴۲ )
ایک اور فتویٰ میں آپ نے اس روایت سے بھی اس کے جواز پر استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے فرمایا تھا کہ ایک لشکر ترتیب دیں اور اس کے لئے لوگوں سے حاضر اونٹ اس شرط پر خرید لیں کہ جب زکوٰۃ کے اونٹ آئیں گے تو ایک اونٹ کے عوض دو اونٹ دیے جائیں گے ۔
( مستدرک حاکم و بیہقی ) 3
ان قرائن و شواہد کی بنا ء پر ہم کہتے ہیں کہ نقد اور اُدھار کی قیمت میں فرق کیا جا سکتا ہے اور اُدھار کی اقساط بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ معاملہ غلط ہے کہ اگر کسی ایک قسط میں دیر ہو جائے تو اس کی باقی اقساط ضبط کرلی جائیں یامدت بڑھا کر ان میں اضافہ کر دیا جائے ایسا کرنا سراسر زیادتی اور ظلم کے ساتھ ساتھ صریح سود ہے ۔
( و اللہ اعلم )
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
1 بخاری ، کتاب السلم ، باب السلم فی کیل معلوم ۔ مسلم ، کتاب البیوع ، باب السلم ۔ ترمذی ، کتاب البیوع ، باب ما جاء فی السلف فی الطعام والتمر ۔ ابن ماجہ ، کتاب التجارات ، باب السلف فی کیل معلوم و وزن معلوم الی أجل معلوم ۔
2 بخاری ، کتاب المکاتب ، باب استعانۃ المکاتب وسؤالہ الناس ۔
3 ابو داؤد ، کتاب البیوع ، باب فی الرخصۃ حدیث ضعیف ہے ۔ وضاحت ص : ۵۱۶ پر ملاحظہ فرمائیں ۔
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
ہ ÷÷÷÷÷÷÷÷÷ ہ
( مذکورہ بالا جواب کا جواب )
از عبد المنان نور پوری بطرف محترم محمد بشیر سیالکوٹی
( رئیس التحریر مجلۃ " نداء الاسلام " حفظھما اللہ القدوس السلام )
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ : …
أما بعد ! میں نے آپ کے مجلہ " نداء الاسلام " کے سال چہارم کے پہلے شمارہ کا مطالعہ کیا ، اس میں میں نے جناب دکتور حسین مطاوع الترتوری حفَظہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ ، وَبَارَکَ فِیْ عِلْمِہِ وَعَمَلِہٖ ، وَوَفَّقَنا وَإِیَّاہُ لِمَا یُحِبُّہُ وَیَرْضَاہُ کا مضمون " قسطوں کی بیع " پڑھا ، جس میں انہوں نے قسطوں کو جائز قرار دیا ہے ۔
چنانچہ اس مضمون کی فصل " مُنَاقَشَۃُ الْأدِلَّۃِ وَبَیَانُ الرَّاجِحِ "
( دلائل کا مناقشہ اور راجح چیز کا بیان ) میں فرماتے ہیں :
" راجح ۔ و اللہ اعلم ۔ یہی ہے کہ قسطوں کی بیع جائز ہے خواہ اس میں قیمت زیادہ ہی دینی پڑے ، بشرط یہ کہ خرید و فروخت کے وقت شروع میں ہی یہ بات ہو جائے ( کہ پیسے تاخیر سے دینے ہیں اور اتنی مقدار میں دینے ہیں ) ترتوری صاحب مضمون کے آخر میں فرماتے ہیں :
خلاصہ یہ ہے کہ قسطوں کی بیع جائز ہے……
صاحب مضمون کے دلائل :
صاحب مضمون نے اپنے دعویٰ کے اثبات کے لئے مندرجہ ذیل چند دلائل پیش کئے ہیں :
۱ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : { وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ } ( " اللہ تعالیٰ نے خریدو فروخت حلال کی ہے ۔ " ) ( البقرۃ : ۲۷۵ ) کے تحت قسطوں کی بیع بھی داخل ہے ۔
۲ ۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان : { یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِِّنْکُمْ } ( اے ایمان والو ! اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ ، مگر یہ کہ باہم رضا مندی سے تجارت ہو ۔ " ) ( النساء : ۲۹ ) کے تحت بھی داخل ہے ۔
۳ ۔ نبی ﷺ کی حدیث : ( ( لَا یَحِلُّ مَالُ امْرِیٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ عَنْ طِیْبِ نَفْسٍ ) ) ( کسی مسلمان کا مال جائز نہیں مگر اس کی خوشنودی سے ) ( مستدرک علی الصحیحین للحاکم کتاب العلم : ۳۱۸ ۔ سنن دار قطنی کتاب البیوع : ۹۲ ) سے بھی قسطوں کی بیع کی اجازت ہے ۔
۴ ۔ اصل میں تمام معاملات ، لین دین جائز ہیں ، جب تک کوئی منع کی دلیل وارد نہ ہو ، اور جو آدمی کہتا ہے کہ قسطوں کی بیع جائز نہیں اس کے پاس کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جس سے قسطوں کی بیع کی ممانعت نکلتی ہو ۔
۵ ۔ لوگوں کو ایک چیز کی ضرورت ہو اور نقد پیسے نہ ہوں تو آسان قسطوں پر چیز کو اس کے ریٹ سے مہنگا خرید لینے میں ان کو کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : { وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ } ( اللہ تعالیٰ نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالی ۔ ) [ الحج : ۷۸ ] اور فرماتا ہے : { یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ } ( اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا ۔ ) [ البقرۃ : ۱۸۶ ]
۶ ۔ اس وقت ایسے محسنوں کی کمی ہے جو اپنے ضرورت مند بھائیوں کو قرضِ حسنہ دے سکیں ۔
۷ ۔ اس سے سود کا دروازہ بند ہو گا کیونکہ ایک آدمی کو جب ایک چیز کی ضرورت ہو اور اس کے پاس اسے خریدنے کے لئے پیسے نہ ہوں ، نہ ہی کوئی قسطوں پر بیچنے کے لئے تیار ہو تو اُسے وہ چیز خریدنے کے لئے سود پر پیسے لینے پڑیں گے ۔
۸ ۔ قیمت میں اضافہ کا جواز تا خیر کا بدل و معاوضہ ہے ۔
دلائل کا تجزیہ :
ان آٹھ دلائل میں کوئی دلیل بھی ایسی نہیں ، نہ کوئی اور دلیل ایسی ہے جو صاحب مضمون کے دعویٰ " قسطوں کی بیع کے جواز " کو ثابت کر سکے ۔
۱ ، ۲ ، ۳ ( پہلے تین دلائل تو اس لئے دلیل نہیں بنتے کہ غیر شرعی خریدو فروخت اور تجارتیں سرے سے ان تینوں دلائل کے عموم میں داخل ہی نہیں ، اور اگر داخل ہیں تو شریعت نے ان عمومی دلائل سے نکال کر ان کا بطورِ خاص الگ حکم بتایا ہے ۔ ورنہ لازم آئے گا کہ ان کے ساتھ ( ۱ ) شراب اور خنزیر کی خریدو فروخت ( ب ) گندم کی خریدو فروخت برابر وزن سے ، ایک جانب سے نقد اور دوسری جانب سے اُدھار ۔ ( ج ) دونوں جانب سے گندم نقد ہو لیکن ایک فریق زیادہ لے ۔ ( د ) ایک فریق کم لے اور دوسرا زائد لے جب کہ ایک اُدھار کرے ۔ تو یہ اور اس طرح دوسری بیوع اور تجارتیں اگر رضا مندی سے ہو جائیں تو جائز ہونی چاہئیں؟ لیکن ظاہر ہے کہ سود ہیں تو قسطوں کی بیع بھی صرف رضا مندی کی وجہ سے کیسے جائز ہو گئی؟
صاحب مضمون بھی اس طرح کی خرید و فروخت اور تجارت کو اس بناء پر جائز قرار نہیں دیتے کہ یہ ان دلائل کے عموم کے تحت داخل ہیں ، اس لئے کہ شریعت نے ان کو اور اس طرح کی دوسری بیوع اور تجارات کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور قسطوں کی بیع بھی انہی بیوع میں سے ہے جنہیں شریعت نے حرام کیا ہے کیونکہ اس میں زیادہ منافع صرف تاخیر کی وجہ سے لیا جاتا ہے ۔ اور صرف تاخیر وقت کا منافع شریعت میں جائز نہیں ، جس طرح سود ( قرض کے سود اور بیع کے سود ) کی حرمت کے بہت سے دلائل سے سمجھ آتا ہے ۔ پھر قسطوں کی بیع ان بیوع سے ہے جن پر نبی ﷺ کا یہ فرمان صادق آتاہے :
( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) ( " جس نے ایک بیع ( چیز فروخت ) کے دو بھاؤ لگائے تو اس کے لئے کم ریٹ اور بھاؤ لینا جائز ہے اور اگر زیادہ لیا تو سود ہو گا ۔ " )
یہ مسئلہ آگے آ رہا ہے ۔ اِنْ شَآء اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ
لہٰذا ان تین اور ان کے علاوہ دوسرے دلائل سے قسطوں کی بیع کے جواز پر استدلال کرنا درست نہیں ۔
چوتھی دلیل اس لئے نہیں بنتی کہ یہاں قسطوں کی بیع کی ممانعت کی مضبوط دلیل موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ قسطوں کی بیع کا انحصار اس پر ہے کہ اس میں صرف تاخیر اور دیر سے ادائیگی کرنے پر منافع لیا جاتا ہے اور یہ ایسی بیوع سے ہے جن پر نبی ﷺ کا یہ قول : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) صادق آتا ہے ۔
پانچویں پیش کردہ دلیل اس لئے صحیح نہیں کہ اس سے شریعت میں ہر حرام کردہ چیز اس وجہ سے جائز اور حلال ٹھہرے گی کہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہے مثلاً :
کسی آدمی کو ایک چیز کی ضرورت ہو لیکن خریدنے کے لئے پیسے نقد موجود نہیں ، وہ کسی آدمی سے پیسے لے کر چیز خرید لے اور بعد میں اسے پیسے واپس کر ے تو اضافی رقم بھی ادا کرے اور یہ معاملہ اور لین دین سود کے باوجود حلال ٹھہرے ؟ نہیں ۔ ہر گز نہیں ! لہٰذا اصل یہی ہے کہ جو چیز شریعت نے حرام کی ہے وہ حرام ہی ہے لوگوں کو اس کی ضرورت پڑے یا نہ پڑے ۔ چیز خریدنے کے لئے نقد قیمت ملے یا نہ ملے ۔ اور قسطوں کی بیع حرام بیوع سے ہے ، یہ رفع حرج اور اردۂ یسر کے قاعدہ ( کہ شریعت میں تنگی نہیں آسانی ہے ) کے زمرے میں نہیں آتی ۔ جن کے پاس نقد قیمت موجود ہے اور جن کے پاس موجود نہیں سب پر لازم ہے کہ حلال کو لازم پکڑیں اور حرام سے اجتناب کریں ، جو آدمی حلال لینا چاہے وہ حرام سے بچ جاتا ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا : ( ( وَمَنْ یَّسْتَعِفَّ یُعِفَّہُ اللّٰہُ ، وَمَنْ یَّستَغْنِ یُغْنِنْہُ اللّٰہُ ) ) ( جو پاکدامنی اختیار کرنا چاہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے پاکدامن بنا دیتا ہے اور جو حرام سے بچنا چاہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے حرام سے بچا لیتا ہے ۔ ) 1 اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : { وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا } [ الطلاق : ۳ ] ( " جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے وہ اس کے لئے کوئی نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اُسے اُمید بھی نہیں ہوتی اور جو اللہ پر بھروسہ کر لے تو وہ اُسے کافی ہو جاتا ہے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے کام کو پورا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ لگا رکھا ہے ۔ " ) لہٰذا اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین : { وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ } [ الحج : ۸۷ ] اور { یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ } [ البقرۃ : ۱۸۵ ] ( " اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی حرام کردہ چیزوں کو دفعِ حرج اور رفع عسر ( تنگی اُٹھانا اور دور کرنا ) کے دعویٰ سے حلال نہیں کرتے ۔ " ) ورنہ لازم آئے گا کہ ہر حرام حلال ہو جائے اور یہ ٹھیک نہیں ۔
چھٹی دلیل بھی صحیح نہیں ، کیونکہ اسے صحیح ماننے سے شریعت کی ہر حرام کردہ چیز اس علت اور وجہ سے حلال ٹھہرے گی کہ جی 1 ایسے محسنین کی کمی ہے جو لوگوں کو اپنے مال بطورِ قرض حسنہ دیں ۔ اور یہ علت بھی کمزور ہے ۔
ساتویں دلیل سے بھی " قسطوں کی بیع کا جواز " ثابت نہیں ہوتا ، اس لئے کہ
( ا ) قسطوں کی بیع " سودی بیع ہے جس میں زائد منافع ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے ہوتا ہے جو کہ شریعت میں سود کہلاتا ہے ۔
( ب ) نبی ﷺ نے فرمایا : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) دراصل قسطوں کی بیع میں تھوڑے درہم یا دینار کی زیادہ کے بدلے بیع ( خریدو فروخت ) ہوتی ہے اور یہ تو سود کے لئے واضح طور پر حیلہ ہے ( یہ مسئلہ ان شاء اللہ تعالیٰ آگے آ رہا ہے )
لہٰذا پتہ چلا کہ قسطوں کی بیع سے سود کا راستہ بند نہیں ہوتا بلکہ یہ سود کا بہت بڑا دروازہ خوب کھول دیتی ہے ۔
آٹھویں دلیل سے صاحب مقال کا دعویٰ اس لئے ثابت نہیں ہوتا کہ ذکر کردہ دلیل " قیمت میں تاخیر کے عوض اضافہ کا جواز " نہ قرآن سے ثابت ہے نہ نبی صلی الله علیہ وسلمکی کسی حدیث سے بلکہ یہ صرف دعویٰ ہے ۔ ہاں 1 یہ ضرور ثابت ہے کہ قیمت مؤجل ہونے کی بناء پر نفع لینا ( اور اس میں زائد قیمت بھی آگئی ) جائز نہیں ۔ اور سود کی حرمت کے بہت سارے دلائل اس پر دلالت کرتے ہیں ۔
جو لوگ " قسطوں کی بیع " کو اس وجہ سے سودی بیع کہتے ہیں کہ اس میں صرف ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے پیسے زیادہ لئے جاتے ہیں ، اس کا جواب دیتے ہوئے صاحب مضمون کہتے ہیں :
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
1 بخاری ، کتاب الزکاۃ ، باب لا صدقۃ الا عن ظھر غنا : ۱۴۲۸ ۔ مسلم ، کتاب الزکاۃ ، باب فضل التعفف والصبر : ۱۰۵۳
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
" یہ استدلال صحیح نہیں ، اس لئے کہ بیع شروع سے ہی معین قیمت پر ہوئی ہے کہ اتنے عرصے میں ادائیگی ہو گی اور اتنا ریٹ ہے ۔ دوسرے ریٹ کی بات ہی نہیں ہوئی ۔ اور ایسا جب فریقین کی رضا مندی سے طے ہو جائے تو جائز ہے ۔ "
جواب :
اس کے کئی جواب ہیں :
( ۱ ) صاحب مضمون " پہلے خود " قسطوں کی بیع " کی اہم خصوصیات بیان کر چکے ہیں کہ :
( ا ) ہ
( ۱ ) سامان ( قابل فروخت ) فوری دیا جائے گا ۔
( ۲ ) قیمت مؤجل ہو گی اور قسطوں میں دی جائے گی ۔
( ۳ ) قیمت میں اضافہ تاخیر کا عوض ہے ۔
( ب ) ہ
پھر یہ بھی کہہ کر آئے ہیں کہ تیسری بات ( قیمت میں اضافہ تاخیر کی نظیر ہے ) میں اختلاف ہے ۔
( ج ) ہ
پھر کہتے ہیں کہ " قیمت میں اضافہ تاخیر کی نظیر ہے ۔ " کوجائز قرار دینے والوں کی دلیل یہی ہے کہ قیمت میں اضافہ تاخیر کی نظیر ہے ۔
آپ کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ صاحب مضمون نے اپنے ان تینوں اقوال میں " قسطوں کی بیع میں " قیمت میں اضافہ کو تاخیر اور ادائیگی کا عوض و بدل ٹھہرایا ہے لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ :
" قیمت جو طے ہو رہی ہے وہ سامان ( قابل فروخت ) کی پوری قیمت ہے ۔ "
ان کے پچھلے تین اقوال اور اس قول میں واضح تضاد ہے ، کیونکہ جب قیمت سامان کی پوری قیمت بن رہی ہو تو پھر " قیمت میں اضافہ تاخیر کا عوض و بدل ہے " باقی نہیں رہتا ۔ اور جب " قیمت میں اضافہ تاخیر کا عوض و بدل ہو " سامان فروخت کی قیمت اس کی پوری قیمت نہیں ہو سکتی ۔ یہ بالکل واضح بات ہے جسے ذہین اور کند ذہن سبھی جانتے ہیں ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ جب ساری قیمت جو قسطوں میں قابل ادا ہے سامان کی کل قیمت ہے اور ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا تو پھر تو یہ بیع " قسطوں کی بیع " رہتی ہی نہیں ۔ ( کیونکہ قسطوں کی بیع میں تاخیر ادائیگی کی وجہ سے پیسے زیادہ دینے پڑتے ہیں ) اور جب یہ صورت " قسطوں کی بیع " والی بنتی ہی نہیں تو صاحب مضمون کا یہ جواب اسے سود کہنے والوں کے لئے جواب نہیں بنتا ۔
اگر قسطوں میں ادا ہونے والی رقم سامانِ فروخت کی کل قیمت ہے اور تاخیر ادائیگی کی وجہ سے ریٹ نہیں بڑھایا گیا تو اگر یکبارگی ساری رقم ادا کر دی جائے تو ریٹ کم نہیں ہونا چاہئے جب کہ ایسا نہیں ہوتا ۔
" قیمت ( قابل ادا ) کو سامان کی مکمل اور پوری قیمت کہنا " اس کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ " شروع سے ایک معین ریٹ ہی طے پایا جائے گا لیکن ابتداء میں ایسا ہو جانے سے وہ بیع صحیح نہیں ہو جاتی 1 دیکھئے :
ایک آدمی دوسرے سے کہتا ہے : میں تجھے یہ " درھم " ایک درہم اور چوتھائی درہم " کے عوض بیچتا ہوں ( جب کہ قیمت میں دونوں برابر ہوں ) یا کہتا ہے : میں تمہیں یہ سودا دو درھم اُدھار میں بیچتا ہوں ( جب کہ نقد اس سودے کی قیمت دو درہم سے کم ہو ) اور دوسرا آدمی کہہ دے : مجھے یہ بیع اور سودا قبول ہے " اس سے " درھم اور چوتھائی درھم " ایک درہم کی پوری قیمت نہیں بنتی ۔ نہ ہی دو درھم سامان کی پوری قیمت بنتے ہیں ( بالکل قیمت زیادہ ہے ) یہ اضافی ریٹ ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے ہے ۔ تو اب یہ بیع اس دلیل سے جائز نہیں ہو جائے گی کہ " بیع ابتداء ہی سے معین ریٹ پر ہوئی تو کل قیمت سامان کی پوری قیمت ہی ہے "
شریعت جو " نقد درھم کی اُدھار درھم سے بیع " کو سود قرار دیتی ہے " قسطوں کی بیع " بالاولیٰ سود قرار دیتی ہے کیونکہ اس میں تو ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے قیمت زیادہ لی جاتی ہے جب کہ " نقد درھم کی اُدھار درھم سے بیع " میں بھی زیادہ قیمت نہیں لی جاتی اور پھر بھی سود ٹھہر تا ہے ۔ اسی طرح جب شریعت میں " نقد گندم کی اُدھار جو سے بیع " سود ہے تو قسطوں کی بیع با لأولیٰ سود ہے ۔ لہٰذا واضح ہو گیا کہ قسطوں کی بیع سود کی ایک شکل ہی ہے { وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا } " اور اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے ۔ "
حدیث ِ" مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ… الخ " کے تین معانی :
صاحب مضمون کہتے ہیں : " اس طرح ان ( قسطوں کی بیع کو حرام کہنے والوں ) کا اس حدیث : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) سے استدلال قسطوں کی بیع جس میں اضافی رقم دینا پڑتی ہے ۔ پر منطبق نہیں ہوتا کیونکہ حدیث سے مندرجہ ذیل تین معانی میں سے ایک معنی مراد ہے اور تینوںمیں قسطوں کی بیع شامل نہیں ۔
1 ایک بیع میں دو بیعوں سے مراد " بیع عینہ " ہے جس کا مطلب ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کوئی چیز فروخت کرتا ہے اور ادائیگی کا وقت معینہ مدت تک طے ہو جاتا ہے ، پھر وہ چیز خریدنے والے سے نقد رقم پر کم قیمت میں خرید لیتا ہے ۔
2 بعض نے کہا ہے :
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی چیز دو مرتبہ فروخت ہوتی ہے جیسے : ایک آدمی ایک مہینہ اُدھار پر کوئی چیز بیچتا ہے ، جب ادائیگی کا وقت آتا ہے ، خریدار کے پاس قیمت موجود نہیں ہوتی ، فروخت کنندہ اس پر اور پیسے چڑھا دیتا ہے ، اسے دوبارہ نئے سرے سے نئی قیمت پر بیچتا ہے اور ادائیگی کی پہلی رقم اس کے ذمہ بدستور قائم رہتی ہے ۔
3 بعض کہتے ہیں :
حدیث کا معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کو کوئی چیز فروخت کرے اور ساتھ شرط لگائے کہ خریدار بھی اسے کوئی دوسری چیز فروخت کرے ۔
جواب :
میں کہتا ہوں اس کے کئی جواب ہیں :
جواب نمبر ۱ :
یہ حدیث : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) صرف ایک ، دو تین یا چار ، پانچ کو شامل نہیں بلکہ ہر اس بیع کو شامل ہے جس میں دو بیعیں کی جائیں ۔ اور یہ بالکل واضح بات ہے جو کسی اہل علم سے مخفی نہیں ، لہٰذا صاحب مضمون کا یہ کہنا کہ یہ حدیث " قسطوں کی بیع ( جس میں اضافی رقم دینا پڑتی ہے ) پر منطبق نہیں ہوتی " صحیح نہیں ، کیونکہ اس بات کی بنیاد اس نظریہ اور فکر پر ہے کہ حدیث صرف مذکورہ تین معانی پر ہی منحصر ہے ، حالانکہ حدیث میں کوئی قصر ہے نہ حصر ، جیسا کہ آپ معلوم کر چکے ہیں ۔
جواب نمبر ۲ :
صاحب مضمون نے حدیث کو تین معانی میں بند کر کے رکھ دیا ہے ، یہ بات کسی اہل علم سے ثابت نہیں ، ہاں بعض نے اس سے صرف " بیع عینہ " مراد لی ہے جیسا کہ آگے ان شاء اللہ تعالیٰ آ رہا ہے ۔ بلکہ کئی علما نے " کوئی چیز نقد کم قیمت پر اور اُدھار زیادہ قیمت پر بیچنے " کو ہی ایک بیع میں دو بیعیں قرار دیا ہے ۔
امام ترمذی ؒ اپنی کتاب جامع ترمذی میں فرماتے ہیں :
( ( وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَھْلِ الْعِلْمِ قَالُوْا : بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ أَنْ یَّقُوْلَ : أَبِیْعُکَ ھٰذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ ، وَبِنَسِیْئَۃٍ بِعِشْرِیْنَ وَلَا یُفَارِقُہٗ عَلیٰ أَحَدِ الْبَیْعَیْنِ فَاِذَا فَارَقَہٗ عَلیٰ أَحَدَھَمَا فَلَا بَأسَ إِذَا کَانَتِ الْعُقْدَۃُ عَلیٰ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا ) ) 1
" بعض اہل علم نے وضاحت کی ہے کہ ایک بیع میں دو بیعیں یہ ہیں کہ آدمی ایک ہی مجلس میں کہے میں یہ کپڑا آپ کو نقد دس درھم میں دیتا ہوں اور ادھار بیس درھم میں ، لیکن اگر صرف ایک ہی قیمت ( دس درھم ) یا ( بیس درھم ) کہے اور سودا ہو جائے اور بائع و مشتری جدا جدا ہو جائیں تو پھر کوئی حرج نہیں ۔ "
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
1 ابواب البیوع عن رسول اللہ ﷺ باب ما جاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ ۔
محدث البانی ؒ ارواء الغلیل میں فرماتے ہیں :
( ( وَقَدْ مَضیٰ قَرِیْبًا تَفْسِیْرُہٗ بِمَا ذُکِرَ عَنْ سِمَاکٍ وَکَذَا فَسَّرۃٗ عَبْدُ الْوَھَّابِ بْنُ عَطَائٍ فَقَالَ : یَعْنِیْ یَقُوْلُ : ھُوَ لَکَ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ ، وَبِنَسِیئَۃٍ بِعِشْرِیْنَ ) ) ( ۵ ، ۱۵۱ )
" پیچھے قریب ہی اس کی تفسیر میں سماک کا قول ذکر ہوا ہے ، اسی طرح عبد الوھاب بن عطاء نے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا : " یعنی آدمی کہے : نقد تیرے لئے دس میں ہے اور اُدھار بیس میں ۔ "
عبد الرزاق ؒ اپنی کتاب " مصنف " میں لکھتے ہیں :
( ( قَالَ الثَّورِیُّ إِذَا قُلْتَ : أَبِیْعُکَ بِالنَّقْدِ بِکَذَا وَبِالنَّسِیْئَۃِ بِکَذَا وَکَذَا فَذَھَبَ بِہِ الْمُشْتَرِیُّ فَھُوَ بِالْخِیَارِ فِی الْبَیْعَیْنِ مَالَمْ یَکُنْ وَقَعَ بَیْعٌ عَلیٰ أَحَدِھِمَا فَإِنْ وَقَعَ الْبَیْعُ ھٰکَذَا فَھٰذَا مَکْرُوْہٌ ، وَھُوَ بَیْعَتَانِ فِیْ بَیْعَۃٍ ، وَھُوَ مَرْدُوْدٌ وَھُوَ الَّذِیْ یُنْھیٰ عَنْہُ ، فَإِذَا وَجَدْتَّ مَتَاعَکَ بِعَیْنِہٖ أَخَذْتَہٗ ، وَاِنْ کَانَ قَد اسْتَھْلَکَ فَلَکَ أَوْکَسُ الْثَمَنَیْنِ، وَأَبْعَدُ الْأَجْلَیْنِ ) ) ( ۸ ، ۱۳۸ ۔ ۱۴۶۳۲ )
" امام ثوری ؒ نے کہا : جب آپ کہیں کہ " نقد آپ کو اتنے میں دوں گا اور اُدھار اتنے میں " کوئی ایک صورت طے ہونے کے بغیر گاہک اگر وہ چیز لے جائے تو اسے اختیار ہے دو قیمتوں میں سے جو مرضی ادا کر دے لیکن اگر اس طرح بیع طے ہو جائے تو ایسی بیع مکروہ ہے اور ایک بیع میں دو بیعیں ہیں جو کہ مردود اور ممنوع ہے ، اگر آپ کو اپنا سامان بعینہ مل جائے تو اسے لے لو اور اگر خراب ہو چکا ہو تو دو قیمتوں میں جو کم ہے وہ لے لیں اور ادائیگی کے دو اوقات میں سے زیادہ تاخیر والا وقت ہے اس وقت وصول کریں گے ۔ "
( ( وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاق : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیْلُ قَالَ : حَدَّثَنَا سِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ابْنِ عَبْدَ اللّٰہِ عَنْ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ؓ قَالَ : لَا تَصْلُحُ الْصَّفْقَتَانِ فِی الصَّفْقَۃِ أَنْ یَّقُوْلَ : ھُوَ بِالنَّسِیْئَۃِ بِکَذَا وَکَذَا ، وَبِالنَّقْدِ بِکَذَا وَکَذَا ) ) ( ۸ ، ۱۳۸ )
" عبد الرزاق فرماتے ہیں : ہمیں اسرائیل نے خبر دی ، اس نے کہا ، ہمیں سماک بن حرب نے بیان کیا از عبد الرحمن بن عبد اللہ کو عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا : ایک چیز کے دو سودے کرنا کہ " ادھار اتنے کی اور نقد اتنے کی ہے " درست نہیں ۔ "
امام شوکانی نیل الاوطار میں فرماتے ہیں :
( ( قَوْلُہٗ : مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فَسَّرَہٗ سِمَاکٌ بِمَا روَاہُ المُصَنَّفْ عَن أَحْمَدُ عَنْہُ وَقَدْ وَافقَہٗ عَلیٰ مثْل ذٰلِکَ الشَّافِعیُّ ، فَقَال : بِأَنْ یَّقُوْلَ : بِعْتُکَ بِأَلْفٍ نَقْداً أَوْ أَلْفَیْنِ إلیٰ سَنَۃٍ ، فَخُذْ أَیَّھُمَا شِئْتَ أَنْتَ وَشِئْتَ اَنَا ، وَنَقَلَ ابْنُ الرَّفْعَۃَ عنِ الْقَاضِیْ أَنَّ الْمَسْأَلَۃَ مَفْرُوضَۃٌ عَلیٰ أَنَہٗ قَبِل عَلیٰ الْاَبْھَام أَمَّا لَوْ قَالَ قُلْتُ بِأَلْفٍ نَقْداً ، أَوْ بِأَلْفِیْنَ بِالنَّسِیْئَۃِ صَحَّ ذٰلِکَ ، وَقَدْ فَسَّرَ ذٰلِکَ الشَّافِعِیُّ بِتَفْسِیْرٍ آخَرَ ، فَقَالَ : ھُوَ أَنْ یَّقُوْل : بِعْتُکَ ذَالْعَبْدُ بِأَلْفٍ عَلیٰ أَنَّ تَبیْعَنِیْ دَارَکَ بِکَذَا ۔ أَیْ إِذجا وَجَبَ لَکَ عِنْدِیْ وَجَبَ لِیْ عِنْدَکَ وَھٰذَا یَصْلُحُ تَفْسِیْرًا لروَایَۃ الأُخریٰ مِنْ حَدِیْث أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، لَا لِلْأُولیٰ فَإِنَّ قَوْلَہٗ فَلَہُ أَوْ کَسُھُمَا یَدُلُّ عَلیٰ أَنَّہُ بَاعَ الشَّیْئُ الْوَاحِدَ بیْعَتَیْنِ بَیْعَۃٌ بِأَقَلَ وَبَیْعَۃ بِأَکْثَرَ : وَقِیْلَ فِیْ تَفْسِیْرٍ ذٰلِکَ : ھُوَ أَنْ یُّسْلِفَہُ دِیْنَارًا فِیْ قَفِیْز حِنْطَۃٌإلیٰ شَھْرٍ ، فَلَمَّا حِلَّ الْاَجْلُ ، وَطالبہ بالحنطۃ قال : یعنی القَفِیزَ الَّذِیْ لَکَ عَلَیَّ اِلیٰ شَھْرِیْنَ بِقَفِیْزَیْنِ ۔ فَصَارَ ذٰلِکَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃِ: لِأَنَ الْبَیْعَ الثَّانِیْ قَدْ دَخَلَ عَلَی الاوّل فیرُدُّ إِلَیْہِ أَوْ کسَھُمَا وَھُوَ الْاَوَّلُ ، کَذَا فِیْ شَرْحِ السُّنَنِ لِاَبْنِ رُسْلَان ) )
( کتاب البیوع ، باب بیعتین فی بیعۃ : ۵ ، ۲۴۹ )
" حدیث مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ کی تفسیر سماک نے اسی طرح کی ہے جس طرح مصنف نے امام احمد کے واسطے سے سماک سے روایت کیاہے ۔ امام شافعی کا قول بھی ہے کہ موافق ہی ہے ، امام شافعی فرماتے ہیں کہ حدیث کا مطلب ہے کہ آدمی مثال کے طور پر کہے : نقد ہزار کی اور ایک سال تک ادائیگی کردو تو دو ہزار کی ، جو آپ چاہتے ہیں وہ لے لیں اور جو میں چاہوں ۔ ابن رفعہ نے قاضی سے نقل کیا ہے کہ اس صور ت میں جب بات مبہم اور غیر واضح ہو لیکن اگر وضاحت ہو جائے اور کہہ دے کہ نقد ہزار کی مجھے منظور ہے یا ادھار دو ہزار کی مجھے قبول ہے تو ایسا کرنا صحیح ہے ۔
اس کی وضاحت امام شافعی نے اور طرح بھی کی ہے کہ وہ کہے : یہ غلام میں تمہیں ایک ہزار میں فروخت کرتا ہوں ، بشرط یہ کہ تو اپنا گھر مجھے اتنی اتنی قیمت پر بیچے ۔ یعنی جب غلام تیرا ہو جائے گا تو گھر میرا ہو جائے گا ۔
یہ ابو ہریرہ ؓ کی دوسری روایت کی تفسیر تو بن سکتا ہے مگر پہلی روایت کی نہیں کیونکہ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَا ( اس کے لئے کم قیمت لینا جائزہے ) کے الفاظ اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کی دو بیعیں کر رہا ہے ۔ ایک بیع کی قیمت کم ہے جب کہ دوسری کی زیادہ ۔
اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ ایک آدمی کسی کو ایک دینار اُدھار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مہینے بعد مجھے اس کے بدلے ایک قفیز گندم دے دینا ، وقت آنے پر وہ اس گندم کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے ، آپ کا جو ایک قفیز میرے ذمہ ہے وہ مجھے بیچ دو اور دو مہینے بعد دو قفیز مجھ سے لے لینا ۔
یہ ایک بیع میں دو بیعیں ہیں کیونکہ دوسری بیع پہلی بیع پر داخل ہوئی ہے ۔ تو خریدار دو قیمتوں میں سے کم قیمت ہی ادا کرے گا اور وہ پہلی ( ایک قفیز ہی ) ہے شرح السنن لابن رسلان میں اسی طرح ہے ۔ امام شوکانی کی بات ختم ہوئی ۔
حدیث کے الفاظ " فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا " کا مطلب ہے دونوں قیمتوں میں کم درجہ کی قیمت ۔
علامہ خطابی فرماتے ہیں :
( ( لَا أَعْلَمُ أَحَداً قَالَ بِظَاھِرِ الْحَدِیْثِ، وَصَحَّحَ الْبَیْعَ بِأَوْکَسِ الثَّمَنِیْنِ إِلاَّ مَا حُکِیَ عَنِ الْاَوْزَاعِیِّ وَھُوَ مَذْھَبٌ فَاسِدٌ ) ) 1
" میں کسی کو نہیں جانتا جس نے حدیث کے ظاہر الفاظ کو سامنے رکھ کر " دو قیمتوں میں سے کم قیمت والی بیع " کو صحیح قرار دیا مگر امام اوزاعی اسے صحیح کہتے ہیں اور امام اوزاعی کا یہ نظریہ فاسد ہے ۔ انتہی "
یہ تو واضح ہے کہ امام اوزاعی نے جو فرمایا حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے ، کیونکہ " فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا " کا یہی تقاضا ہے کہ دو قیمتوں میں سے کم قیمت لینا جائز ہے ۔
( ( قَوْلُہٗ : ( أَوِ الرِّبَا ) یَعْنِیْ أَوْ یَکُوْنُ قَدْ دَخَلَ ھُوَ وَصَاحِبُہٗ فِی الرِّبَا الْمُحَرَّمِ إِذَا لَمْ یَأْخُذِ الْأَوْکَسَ ، بَلْ أَخذَ الْاَکْثَرَ وَذٰلِکَ ظَاھِرٌ فِی التَّفْسِیْرِ الَّذِیْ ذَکَرَہُ ابْنُ رَسْلَانَ ، وَأَمَّا فِی التَّفْسِیْرِ الَّذِیْ ذَکَرَہُ أَحْمَدُ عَنْ سَمَّاکٍ ، وَذَکَرَہُ الشَّافِعِیْ فَفِیْہِ مُتمَسَّکَ
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
1 تحفۃ الاحوذی ، شرح جامع الترمذی لأبی العلاء المبارکفوری أبواب البیوع ، باب ما جاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ : ۴ ، ۳۵۹
لِمَنْ قَال : یَحْرُمُ بَیْعُ الشَّیْئِ بِأَکْثَرِ مِنْ سِعْرِ یَوْمِہٖ لِاَجْلِ النَّسأ ) ) 1
حدیث کے الفاظ " فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا " یعنی دو قیمتوں میں سے " کم قیمت " کی بجائے اگر " زیادہ قیمت " لے لے تو بائع اور مشتری دونوں حرام سود میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ یہ بات ابن رسلان کی بیان کردہ تفسیر میں واضح ہے ۔ رہی وہ تفسیر جو امام احمد نے سماک سے ذکر کی ہے اور امام شافعی نے بھی ذکر کی ہے تو اس سے اس آدمی کے قول کو تقویت ملتی ہے جو کہتا ہے " کسی چیز کو اُدھار کی وجہ سے اس کی موجودہ قیمت سے زیادہ پر بیچنا حرام ہے ۔ "
ہماری ان نقل کردہ عبارات سے معلوم ہوا کہ بیع کی یہ شکل " نقد دس کی ، اُدھار پندرہ کی " نبی ﷺ کی اس حدیث ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) میں شامل ہے ۔ اور بلا شبہ " قسطوں کی بیع جس میں تاخیر ادائیگی کی وجہ سے قیمت زیادہ کی جاتی ہے " اسی سے ہے ۔ اور صاحب مضمون ان صورتوں میں جن پر حدیث منطبق ہوتی ہے اس صورت کا ذکر چھوڑ گئے ہیں ۔
پھر ان کی یہ بات " یہ حدیث قسطوں والی بیع پر منطبق نہیں ہوتی کیونکہ حدیث کا ان تینوں معانی جن میں قسطوں والی بیع جس میں قیمت بڑھائی جاتی ہے شامل نہیں ، میں سے ہی کوئی معنی مراد ہے " فقہ و انصاف سے بالکل عاری ہے ۔
جواب نمبر ۳ :
آپ یہ دیکھ چکے ہیں کہ صاحب مضمون نے کہا : بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی چیز اس شرط پر فروخت کرے کہ خریدار اسے کوئی دوسری چیز فروخت کرے ۔
حالانکہ پہلے یہ کہہ کر آئے ہیں کہ : حدیث سے تین معانی میں سے ہی کوئی ایک معنی مراد ہے ۔ تو اب لکھ رہے ہیں کہ یہ صورت بھی حدیث ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) کے تحت داخل ہے ۔
پہلے امام شافعی کی تفسیر جو امام شوکانی نے نقل کی ہے بھی جان چکے ہیں کہ : میں تمہیں یہ غلام ایک ہزار کا اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ تم مجھے اپنا گھر اتنے میں فروخت کرو ۔ پھر امام شوکانی نے فرمایا کہ یہ ابو ہریرہ ؓ کی دوسری روایت ( ( نَھَی النَّبِیُّ ﷺ عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ ) ) ( رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع فرمایا ) کی تفسیر بنتی ہے پہلی روایت کی نہیں ۔ کیونکہ یہ الفاظ " فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا " اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نے ایک چیز کی دو بیعیں کیں ۔ ایک کم قیمت پر ، دوسری زیادہ پر ۔
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
1 تحفۃ الاحوذی ، شرح جامع الترمذی لأبی العلاء المبارکفوری أبواب البیوع ، باب ما جاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ : ۴ ، ۳۵۹
تو تین صورتوں میں سے آخری تیسری صورت جس پر حدیث ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) صاحب مضمون کے ہاں منطبق ہوتی ہے لیکن یہ حدیث ان الفاظ سے اس صورت پر منطبق نہیں ہوتی ۔
جواب نمبر ۴ :
بیع عینہ … ایک شخص کا دوسرے سے کوئی سامان اُدھار خریدنا ، پھر فروخت کنندہ کا خریدار سے نقد اً اُسے کم قیمت پر لینا ۔ بھی ان صورتوں سے نہیں جن پر حدیث " فَلَہُ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا " صادق آتی ہے کیونکہ حدیث میں ربا ( سود ) اضافی قیمت والی بیع کو کہا گیا ہے ، کم قیمت والی بیع کو نہیں ، جب کہ بیع عینہ میں معاملہ اس کے برعکس ہے ، اس لئے کہ اس میں کم قیمت پر خریدنا حرام ہے ، زیادہ قیمت پر خریدنا حرام نہیں ۔ اور اس لئے بھی کہ حدیث اس صورت کا ذکر کر رہی ہے جس میں ایک ہی بائع چیز کی دو بیعیں کرتا ہے ایک کم قیمت والی اور دوسری زیادہ قیمت والی ، جب کہ بیع عینہ میں ایسی صورت نہیں ۔
جواب نمبر ۵ :
جب دو صورتیں " بیع عینہ اور بیع بشرط بیع " صاحب مضمون کی حدیث ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) کے مصداق میں ذکر کردہ تین صورتوں سے نکل گئیں تو تین میں سے ایک صورت باقی رہ گئی جس کو حدیث شامل ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کوکوئی چیز ایک مہینہ کے اُدھار پر فروخت کرتا ہے ، جب ادائیگی کا وقت آتا ہے خریدار کے پاس قیمت موجود نہیں ہوتی تو بائع مشتری پر مزید بوجھ اس طرح ڈالتا ہے کہ وہی سامان اُسے دوبارہ نئی قیمت اور نئے اُدھار پر فروخت کرتا ہے جب کہ پہلی قیمت بدستور اُس پر واجب الادا رہتی ہے ۔ تو اس صورت میں " دوسری بیع " صاحب مضمون کے نزدیک بھی سود ہے ۔ اور جو دلیل اس دوسری بیع کو سود ٹھہراتی ہے وہ بعینہ ان دو بیعوں میں سے پہلی بیع کو سود ٹھہراتی ہے جب اس میں نقد کی قیمت سے زیادہ قیمت ہو ۔
اسی طرح بعینہ یہ دلیل قسطوں کی بیع کو سود ٹھہراتی ہے کیونکہ قسطوں کی بیع دو بیعوں میں سے پہلی بیع ہے ، جب اس میں نقد کی قیمت سے زیادہ قیمت ہو ۔ یہ صورت بقیہ ایک صورت جیسی ہی ہے جو حدیث کے منطوق میں آتی ہے ۔ ہاں اتنا فرق ہے کہ قسطوں کی بیع میں ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے قیمت قسطوں کی شکل میں ادا کرنا ہوتی ہے اور حکماً دونوں صورتیں ایک ہی ہیں ۔ اس فرق سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ تو کیا وجہ ہے کہ صاحب مضمون دوسری نئی بیع کو تو حرام اور سود قرار دیتے ہیں اور پہلی بیع خواہ نقد قیمت سے مہنگی ہو اسی طرح قسطوں کی بیع کو سود قرار نہیں دیتے ہیں؟
اگر وہ کہتے ہیں : قسطوں کی بیع میں ساری قیمت سامان کے مماثل اور اس کی پوری قیمت ہے اور پہلی بیع دوسری نئی بیع کے علاوہ ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ محض دعویٰ ہے ، حالانکہ صورت مذکورہ میں " قسطوں کی بیع پہلی بیع اور دوسری نئی بیع کے درمیان کوئی فرق نہیں ، کیونکہ دوسری نئی بیع میں ساری قیمت جب سامان فروخت کی مماثل نہیں ۔ کیونکہ تاخیر ادائیگی کی وجہ سے قیمت بڑھائی جا رہی ہے ۔ تو قسطوں کی بیع اور پہلی بیع میں بھی تمام قیمت سامان فروخت کے مماثل نہیں کیونکہ ان میں بھی زیادہ قیمت لینے کا دارو مدار تاخیر ادائیگی پر ہے ۔
چند فوائد
فائدہ اولیٰ :
اکثر علما نے ایک بیع میں دو بیعوں کی ممانعت کی وجہ معاملہ کے مبہم اور مجہول ہونے کو ٹھہرایا ہے ۔ یہ بات ان اقوال سے ظاہر ہے جو شوکانی نے نیل الاوطار میں اور دوسرے علماء نے اپنی کتابوں میں ذکر کئے ہیں ۔ " ایک بیع میں دو بیعوں " کی بعض صورتوں میں یہ وجہ ہو سکتی ہے لیکن اس حدیث : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) میں منع کی علت یہ وجہ نہیں بلکہ اس میں ممانعت کی وجہ اس کا سود ہونا ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے اس کی وضاحت کی ہے ۔
فائدہ ثانیہ :
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ایک بیع میں دو بیعوں کے منع کی علت کا وہ احتمال ہو سکتا ہے جو متنازع فیہ مسئلہ سے خارج ہے ، جس طرح ابن رسلان کا قول پیچھے گزرا ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس صورت میں واقع ہونے والی بیع " نقد اتنے کی اور اُدھار اتنے کی " کو منع کہہ سکتے ہیں لیکن اگر شروع ہی میں بات کرے کہ " اُدھار اتنے کی دوں گا " ( اور اس کی قیمت اس روز کے ریٹ سے زیادہ ہو ) تو ایسی بیع جائز ہے ، ویسے اس حدیث کا تمسک کرنے والے ( دلیل پکڑنے والے ) اس صورت سے منع کرتے ہیں حالانکہ حدیث میں یہ معنی موجودنہیں ، تو دلیل دعویٰ سے أخص ہے ۔ ( انتہیٰ )
میں کہتا ہوں :
۱ ۔ اس کا یہ قول ایک بیع میں دو بیعوں کے منع کی علت کا وہ احتمال ہو سکتا ہے متنازع فیہ مسئلہ …ا گر تسلیم کر لیا جائے تو بھی متنازع فیہ مسئلہ پر حدیث سے کئے گئے استدلال میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی کیونکہ حدیث عام ہے اور وہ ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت اور متازع فیہ صورت دونوں کو شامل ہے اور حدیث کے عموم سے متازع فیہ مسئلہ کو خاص اور مستثنیٰ کرنے کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔
یہ بات بھی ہے کہ ایک قفیز گندم کی دو قفیز کے ساتھ بیع منع اور سود ہے ، خواہ ایک دو دن یا مہینہ دو مہینہ تک کی مدت حائل نہ ہو بلکہ تاخیر ادائیگی کا اس میں دخل تک نہ ہو اور قیمت کی زیادتی بھی تاخیر کی وجہ سے نہ ہو ۔ تو ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت میں دوسری بیع منع اور سود بنتی ہے خواہ وہ شروع سے ہی ایسا طے کیا جا رہا ہو ۔ ہماری اس بات سے واضح ہو گیا کہ ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت کا اس حدیث کی تشریح میں داخل ہونا ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) صحیح نہیں ۔ لہٰذا ان کا یہ کہنا کہ ایک بیع میں دو بیعوں کے منع کی علت کا وہ احتمال ہو سکتا ہے جو متنازع فیہ مسئلہ کے علاوہ ہے ۔ درست نہیں ہے ، کیونکہ حدیث میں ابن رسلان کی تفسیر والا احتمال بالکل نہیں پایا جاتا ۔ ابن رسلان کا احتمال پیچھے حدیث کی تفسیر میں میں نے صرف بطورِ نقل و حکایت ذکر کیا ہے ۔
ہماری اس ساری بات چیت سے واضح ہو گیا کہ نبی ﷺ کی حدیث : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) کا مصداق ایک صورت ہو یا کئی صورتیں ، انہیں ان چیزوں پر مشتمل ہونا چاہئے :
( ۱ ) وہ صورت ایسی ہو کہ اس میں ایک چیز کی دو بیعیں ہوں ۔
( ۲ ) وہ دونوں بیعیں ایک بیع میں ہوں ۔
( ۳ ) ان دونوں میں سے ایک بیع کم قیمت پر ہو ۔
( ۴ ) ان میں سے ایک کم قیمت والی بیع حلال ہو ، سود نہ ہو ۔
( ۵ ) دونوں میں سے ایک بیع زیادہ قیمت والی ہو ۔
( ۶ ) دونوں سے زیادہ قیمت والی بیع حرام اور سود ہو ۔
( ۷ ) دونوں بیعوں میں بائع ( بیچنے والا ) ایک ہو ۔
( ۸ ) دونوں میں بیعوں میں سے اکثر اور زیادہ قیمت والی بیع کی حرمت کا سبب سود ہو ۔
( ۹ ) دونوں میں سے جس چیز کو فروخت کیا جا رہا ہو وہ ایک ہی چیز ہو ۔
( ۱۰ ) ایسی بیع کی حرمت ، جس کا ذکر کیا جا رہا ہے ، اس میں مندرجہ بالا نو چیزیں جمع ہوں ۔
ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت میں بائع ( فروخت کنندہ ) بدل گیا ہے ، کیونکہ پہلی بیع میں جو بائع ہے ، دوسری بیع میں وہ مشتری ( خریدار ) ہوتا ہے ۔ اور پہلی بیع میں جو مشتری ہوتا ہے ، دوسری بیع میں وہ بائع بنتا ہے ۔ لہٰذا واضح ہو گیا کہ ابن رسلان نے جو صورت ذکر کی ہے وہ ان صورتوں سے نہیں جن پر نبی صلی الله علیہ وسلم کی حدیث : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) صادق آتی ہے ۔
بائع جب شروع سے صرف یہی کہے کہ " ادھار اتنے کی " اور یہ نہ کہے کہ " نقد اتنے کی " اور ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے قیمت زیادہ لگائے تو تحقیقاً تو یہ ایک بیع ہے اور تقدیراً یہ دو بیعیں ہیں ، اس لئے کہ وہ زیادہ پیسے ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے لے رہا ہے ۔ اور نبی ﷺ کا فرمان : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) دو بیعوں کو مشتمل ہے ، خواہ وہ حقیقی ہوں یا ان میں سے ایک حقیقی ہو ۔ اور دوسری مخفی اور تقدیری ۔ تو دلیل دعویٰ سے اخص نہیں ۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اگر شروع سے ہی کہا جائے کہ " اُدھار اتنے کی " اور اُدھار کی وجہ سے پیسے بھی زیادہ لگا لے ، تو یہ حدیث کے منطوق میں داخل نہیں ہوتا لیکن ہم کہتے ہیں : " حدیث کے مفہوم میں یہ چیز داخل ہے ، کیونکہ دوسری بیع یعنی " اُدھار اتنے کی " اور ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے قیمت بھی زیادہ لگا لے تو یہ سودی بیع ہے ( جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ) خواہ " نقد اتنے کی " کہہ کر کہے اور خواہ اس کے بغیر صرف یہی کہے کہ " اُدھار اتنے کی " مفہوم سے جو بات سمجھ میں آتی ہے اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : { وَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ } اور انہیں ( والدین کو ) اُف نہ کہو ۔ " اور نبی صلی الله علیہ وسلمکا فرمان : ( ( لَا یَبُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ فِی الْمَائِ الدَّائِمِ ) ) 1 ( " تم میں سے ہر گز کوئی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے ۔ " ) اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ جب والدین کو اُف کہنا حرام ہے تو جوتے کے ساتھ مارنابھی حرام ہے ۔ اور کھڑے پانی میں پیشاب کرنا حرام ہے تو پاخانہ کرنا بھی حرام ہے ۔ تو کیا یہ کہا جائے گا کہ آیت اور حدیث میں تو یہ بات نہیں آئی کہ والدین کو جوتے کے ساتھ مارنا حرام ہے ، اور کھڑے پانی میں پاخانہ کرنا حرام ہے ، اس لئے کہ دلیل دعویٰ سے اخص ہے؟ " نہیں ہر گز نہیں " کیونکہ استدلال مفہوم سے لیا گیا ہے اور یہ صحیح استدلال ہے ، اس طرح جو استدلال ہم کر رہے ہیں وہ بھی مفہوم سے ہی سمجھ آ رہا ہے ، لہٰذا ان کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ " حدیث اس پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ دلیل دعویٰ سے اخص ہے ۔ "
ان کا استدلال " علت کے ساتھ استدلال کرنے کی قبیل سے ہے کیونکہ یہ صورت کہ " میں نقد تمہیں یہ چیزدس درھم کی دیتا ہوں اور یہی چیز اُدھار پندرہ درھم کی دیتا ہوں ۔ " دوسری بیع کی حرمت کی علت " سود " کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ۔ اور اگر کوئی آدمی کوئی چیز اُدھار اس وجہ سے موجودہ ریٹ سے زیادہ پر بیچتا ہے کہ پیسے تاخیر سے ملنے ہیں تو شروع سے ہی صرف اُدھار کی وجہ سے چیز کو زیادہ قیمت پر بیچنا سود اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قسطوں کی بیع میں نقد قیمت سے زیادہ لینا اسی قبیل سے ہے تو پھر قسطوں کی بیع کیسے جائز ہوئی جب کہ وہ سود پر مشتمل ہے؟
فائدہ ثالثہ :
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ " نبی ﷺ کی حدیث : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) ضعیف اور شاذ ہے لہٰذا اس سے حجت پکڑنا اور استدلال کرنا صحیح نہیں ۔ " لیکن ان کی یہ بات درست نہیں ، اس لئے کہ حدیث حسن اور صحیح ہے ، نہ ضعیف ہے ، نہ شاذ اور نہ معلل ، لہٰذا اس سے حجت پکڑنا اور استدلال کرنا درست ہے ۔
ہ ـــــــــــــــــــــــــ ہ
1 صحیح مسلم ، کتاب الطہارۃ ، باب النھی عن البول فی الماء الراقد : ۲۸۲
محدث البانی ؒ إرواء الغلیل میں فرماتے ہیں :
( ( ۷ ۔ ۱۳قَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ ( صَفْقَتَان فِیْ صَفْقَۃٍ رِبًا ) صحیح … الخ ) )
ابن مسعود ؓ نے فرمایا : " ایک چیز کے دو سودے کرنا سود ہے ۔ "
البانی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح اور اس کے شواہد ابو ہریرہ ، عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن عمرورضوان اللہ علیھم اجمعین کی حدیث سے ملتے ہیں ۔ ابو ہریرہ ؓ والی حدیث : ( ( عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍ و عَنْ أبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أبِیْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ : نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃ ) ) ( النسائی : ۲ ، ۲۷۷ ، الترمذی : ۱ ، ۲۳۲ ، ابن الجارود : ۶۰۰ ، ابن حبان : ۱۱۰۹ ، البیہقی : ۵ ، ۳۴۳ ، أحمد : ۲ ، ۴۳۲ ، ۴۷۵ ، ۵۳ ) امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ میں کہتا ہوں ، اس کی سند حسن ہے ۔ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) ( مصنف ابن ابی شیبۃ : ۷ ، ۱۹۲ ، ۲ ، ابو داؤد : ۳۴۶۰ ، ابن حبان : ۱۱۱۰ ، الحاکم : ۲ ، ۴۵ ، البیہقی : ۵ ، ۳۴۳ ) امام حاکم نے کہا : مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ، ابن حزم نے بھی المحلی ( ۹ ، ۱۶ ) میں اسے صحیح کہا ، اسی طرح عبد الحق نے اپنی کتاب " الاحکام " میں اس حدیث کو ( پہلے الفاظ کے ساتھ ) صحیح کہا ۔ میں کہتا ہوں یہ صرف " حسن " ہے کیونکہ محمد بن عمرو کے حافظے میں تھوڑا سا کلام ہے ۔ امام بخاری نے باقی راویوں کے ساتھ ملا کر اس سے روایت کی ہے ، اور امام مسلم نے متابعت میں ۔ حافظ ابن حجرتقریب التہذیب میں فرماتے ہیں : صَدُوْقٌ لَہٗ أَوْھَامٌ ( صدوق ہے اور اسے بعض دفعہ وہم بھی ہوئے ہیں ) البانی ؒ کا کلام ختم ہوا ۔
فائدہ رابعہ :
بعض کہتے ہیں حدیث تو صحیح ہے لیکن منسوخ ہے ۔ لیکن ان کی یہ بات محض دعویٰ ہے ، قرآن و حدیث سے اس کے نسخ کی کوئی دلیل نہیں ملتی اور منسوخ جیسے مسائل صرف دعوی کرنے سے ثابت نہیں ہوتے خواہ بڑے بڑے علماء ہی اس کا دعویٰ کریں ۔
صاحب مضمون لکھتے ہیں : " اسی طرح ان کا عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہ کے اس قول ( ( إِذَا سْتَقَمْتَ أَیْ قَوَّمْتُ السَلْعَۃَ بِنَقْدٍ ، ثُمَّ بَعْتَ بِنَقْدٍ فَلَا بَاْسٌ ، وَإِذَا اسْتَقَمْتَ بِنَقْدٍ ثُمَّ بِعْتَ بِنَسِیْئَۃٍ فَتِلْکَ دَرَاھِمٌ بِدَارِھِمٍ ) ) ( جب تو چیز کی قیمت نقد لائے پھر نقد بیچ دے تو کوئی حرج نہیں ، اور جب نقد کی قیمت لگائے اور اُدھار بیچے تو یہ درہموں کی درہموں سے بیع ہے ) جو جائز نہیں ) " سے حجت پکڑنا صحیح نہیںاس لئے کہ عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہ کا یہ قول اتنے ہی درجہ کے ایک دوسرے قول کے معارض اور برعکس ہے ۔ چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ یہ جائز ہے جب فریقین جدا ہونے سے پہلے ایسی بیع پر متفق ہو جائیں ۔ اور پھر عبد اللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے بھی اس کا جواز مروی ہے ۔ انتہی ۔
میں کہتا ہوں :
ہم ایک چیز کے " نقد ایک قیمت پر اور اُدھار اس سے زیادہ قیمت پر بیچنے کو ، اسی طرح قسطوں کی بیع کو عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہ کے اس قول یا دوسری موقوف اور مقطوع روایات کی بناء پر حرام نہیں سمجھتے ، ہم نے تو اپنے اس دعویٰ کو نبی ﷺ کی مرفوع ، حسن اور صحیح حدیث سے ثابت کیا ہے ، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔ ابن عباس اور دوسرے صحابہ کرامرضوان اللہ علیھم اجمعین کا قول تو ہم صرف تمہیں یہ بتانے کے لئے ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کی حدیث پر عمل کیا اور اس پر فتویٰ بھی دیا ۔
صاحب مضمون نے ابن عباس رضی الله عنہ کے قول سے کئے گئے استدلال کو اس دلیل سے غیرصحیح کہا ہے کہ وہ اتنے ہی درجے کے دوسرے اقوال سے معارض ہے اور ٹکراتا ہے ۔ صاحب مضمون کی یہ دلیل بڑی عجیب و غریب ہے ۔ کیونکہ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ تم جو ابن عباس رضی الله عنہ سے اس کا جواز ثابت کر رہے ہو یہ صحیح نہیں اس لئے کہ ابن عباس کا وہ قول جو جواز والا ہے ان کے دوسرے عدم جواز والے قول " إِذ استقمت ب نقد ثم بعت " کے معارض ہے؟ پھر ابن مسعود کے قول : " الصفقتان فی صفقۃ ربا " کے بھی معارض ہے؟
پھر ابن عباس رضی الله عنہ سے اس کے جواز کا قول مروی ہے وہ ان سے ثابت ہی نہیں ، چنانچہ محدث البانی ؒ إرواہ الغلیل میں لکھتے ہیں :
( ( أَخرج ابْنُ أبِیْ شَیْبَۃ فِی الْبَابِ عَنْ أَشْعث عَنْ عِکْرَمَۃ عِن ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَا بَأسَ أَن یَّقُوْلَ لِلسَّلْعَۃِ ھِیَ بِنَقْدٍ بِکَذَا ، وَبِنَسِیْئَۃٍ بِکَذَا ، وَلٰکِنْ لَا یَفْتَرِقَا إِلاَّ عَنْ رِضًی ، قُْلْتُ : وَھٰذَا إِسْنَادٌ ضَعِیْفٌ مِنْ أَجْلِ أَشْعَثُ ھٰذَا ، وَھُوَ ابْنُ سِوَارٍ الْکِنْدِیُّ ، وَھُوَ ضَعِیْفٌ کَمَا فِی التَّقْرِیْبِ، وَإِنَّمَا أَخْرَجَ لَہُ مُسْلِمٌ مُتَابَعَۃً ) ) ( ۵ ، ۱۵۲ )
" ابن ابی شیبہ نے اس باب میں اشعث از عکرمہ از ابن عباس روایت کی ہے ، ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا : سامان کے لئے یہ کہنا کہ نقد اتنے کااور اُدھار اتنے کا ( سودا کر کے ) دونوں ( بائع اور مشتری ) اگر رضا مندی سے جدا ہو جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ " میں کہتا ہوں : اشعث بن سوار کندی کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے کیونکہ وہ ضعیف ہے ۔ جیسا کہ تقریب میں ہے ، امام مسلم نے ان کی احادیث متابعت کے طور پر روایت کی ہیں ۔ " انتہی
عبد اللہ بن عمرو رضی الله عنہسے جواز کی روایت ہے اگر صاحب مضمون کا اشارہ سنن أبی داؤد کی مندرجہ ذیل روایت کی طرف ہے :
( ( أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ أَمَرَہٗ أَنْ یُّجَھِّزَ جَیْشًا فَنَفِدَتِ الْاِبِلُ فَأَمَرَہٗ أَنْ یَأْخُذَ عَلیٰ قَلَائِصِ الصَّدَقَۃِ، فَکَانَ یَأْخُذُ الْبَعِیْرَ بِالْبَعِیْرَیْنِ إِلیٰ اِبِلِ الصَّدَقَۃ ) )
( مشکوٰۃ المصابیح بتحقیق الألبانی : ۲ ، ۸۵۸ )
" عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہروایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلمنے انہیں ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا ، اونٹ کم پڑ گئے تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا : صدقے کی اونٹنیاں آنے تک اُدھار لے لو ، چنانچہ وہ صدقے کے اونٹ آنے تک دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ لیتے تھے ( یعنی جس سے اُدھار اُونٹ لیتے اسے کہتے کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے تو ہم تمہیں ایک کی بجائے دو اونٹ دیں گے ) "
تو اس روایت کے بارے میں محدث البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے ۔
( مشکوٰۃ المصابیح بتحقیق الألبانی : ۲ ، ۸۵۸ )
پھر سمرہ بن جند ب ؓ کی حدیث سے ثابت ہے جو کہ ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ، أحمد ، ابو یعلیٰ اور المختارۃ للضیاء میں ہے : ( ( أَنَّ النَّبِیَّ صلی الله علیہ وسلمنَھیٰ عَنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃً ) ) نبی ﷺ نے حیوان کی حیوان کے ساتھ اُدھار بیع سے منع فرمایا ۔ "
ترمذی اور ابن الجارود نے اسے صحیح کہا جیسا کہ " تنقیح الرواۃ فی تخریج أحادیث المشکاۃ " میں ہے ۔ صاحب تنقیح فرماتے ہیں : عبد اللہ بن أحمد نے اسی طرح جابر بن سمر ؓ کی حدیث روایت کی ہے ۔ انتہی
عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہ کا قول " موقوف " ہے اور موقوف روایت حجت نہیں ہوتی ۔ خصوصاً جب وہ ایک دوسری موقوف روایت کے معارض ہو جیسے یہ عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہ کے قول : " إِذ استقمت ب نقد " ابن مسعود ؓ کے قول : " الصفقتان فی صفقہ رِبا " کے معارض ہے بلکہ مرفوع حدیث : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) کے بھی مخالف ہے ۔
پھر صاحب مضمون کے اپنے طریقے اور منہج کے مطابق بھی یہ دلیل صحیح نہیں بنتی کیونکہ وہ اس کے مثل سے معارض ہے ، چنانچہ انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے کہ : ( ( نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ صَفْقَتَیْنِ فِیْ صَفْقَۃٍ ) ) ـ ( رسول اللہ ﷺ نے ایک سودے میں دوسودے کرنے سے منع فرمایا ) جیسا کہ ابن مسعود ؓ سے ثابت ہے انہوں نے فرمایا : ( ( اَلصَّفْقَتَانِ فِی صَفْقَۃٍ ) ) " ایک سودے میں دو سودے کرنا سود ہے ۔ "
عبد اللہ بن عمرو رضی الله عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں :
( ( أَنَّـہٗ نَھٰی عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، وَعَٰنْ شَفٍّ مَالَمْ یَضْمَنْ وَعَنْ بَیْعٍ وَسَلَفٍ ) )
آپ ﷺ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ، نفع اور فائدہ لینے سے منع فرمایا جب تک ضامن نہ بن جائے اور بیع و سلف سے منع فرمایا ۔
صاحب شرح السنہ فرماتے ہیں : ایوب از عمرو بن شعیب از أبیہ از جدہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
( ( لَا یَحِلُّ سَلَفٌ وَبَیْعٌ وَلَا شَرْطَان فِیْ بَیْعٍ وَلَا رِبْحُ مَالَمْ یَضْمَنْ ، وَلَا بَیْعُ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ ) )
" سلف و بیع جائز نہیں ، ایک بیع میں دو شرطیں جائز نہیں ، ایسی چیز کا منافع لینا جائز نہیں جس کا ابھی ضامن نہیں بنا اور نہ ایسی چیز کی بیع جائز ہے جو تیرے پاس موجود نہیں ۔ "
پھر اس کے بعد صاحب شرح السنہ لکھتے ہیں کہ : ( ( وَلَا شَرْطَانِ فِیْ بَیْعٍ ) ) سے مراد یہ ہے کہ کہے : " میں تمہیں یہ غلام نقد ہزار کا دیتا ہوں اور اُدھار دو ہزار کا " تو یہ ایک بیع میں دو بیع ہی ہیں ۔ انتہی
محدث البانی إرواہ الغلیل میں فرماتے ہیں :
عبد اللہ بن عمرو کی حدیث عمرو بن شعیب از أبیہ از جدہ کی روایت سے مرفوعاً مروی ہے جس کا بیان ایک حدیث سے پہلے گزر چکا ہے ۔ اس کے الفاظ ابو ہریرہ کی پہلی حدیث والے ہی ہیں : ( ( نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ ) ) عبد اللہ بن عمرو کی یہ حدیث ابن خزیمہ اور بیہقی میں موجود ہے اور امام أحمد اس حدیث کے ضمن میں اسے لائے ہیں جو پہلے گزر چکی ہے ۔ بعض نے اسے : ( ( وَلَا شَرْطَانِ فِیْ بَیْعَۃٍ ) ) ( ایک بیع میں دو شرطیں جائز نہیں ) کے الفاظ سے روایت کیا ہے ۔ ظاہراً یہی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں الفاظ کا معنی ایک ہی ہے کیونکہ دونوں الفاظ عمرو بن شعیب کی سند سے مروی ہیں بعض رواۃ نے پہلے الفاظ روایت کئے ہیں اور بعض نے دوسرے ۔ پھر غریب الحدیث ( ۱ ، ۱۸ ) میں ابن قتیبہ کا قول بھی اس کی تائید کرتا ہے وہ فرماتے ہیں : " ممنوع بیوع سے " شرطان فی بیع " ( ایک بیع میں دو شرطیں ) بھی ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی دو مہینوں کے لئے دو دینار پر ایک چیز خریدتا ہے اور اگر تین مہینوں کے لئے خریدے تو تین دینار کی خریدتا ہے ، یہ ایک " بیع میں دو بیع " کے معنی میں ہے ۔ " سماک سے مذکور اس کی تفسیر قریب ہی گزری ہے ، اسی طرح عبد الوھاب بن عطاء اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی کہے : " نقد یہ تیرے لئے دس کی ہے اور اُدھار بیس کی " انتہی ( ۵ ، ۱۵۱ ) اس کی تائید بغوی کی اس حدیث : ( ( وَلَا شَرْطَانِ فِیْ بَیْعٍ ) ) کی تفسیر سے بھی ہوتی ہے جسے ہم پہلے نقل کر آئے ہیں ، انہوں نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے : ( ( فَمَعْنَاہُ مَعْنَی الْبَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ ) ) کہ اس کا معنی ایک بیع میں دو بیع کرنا ہی ہے ۔
صاحب تہذیب السنن ( رَحِمَہُ اللّٰہُ ذُوالْمِنَنِ ) بیع عینہ کی حرمت کے دلائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : چھٹی دلیل ابو داؤد میں ابو ہریرہ ؓ کی حدیث ہے ، وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) علماء کے اس کی تفسیر میں دو قول ہیں :
پہلا قول یہ ہے کہ کہے :
نقد ( یہ چیز ) تمہیں دس کی ، یا اُدھار بیس کی دیتا ہوں ۔ یہی بات احمد نے سماک سے روایت کی ہے ۔ چنانچہ ابن مسعود ؓ والی حدیث : ( ( نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ صَفْقَتَیْنِ فِیْ صَفْقَۃٍ ) ) کی تفسیر میں سماک فرماتے ہیں : " آدمی ایک چیز بیچتا ہے تو کہتا ہے : اُدھار اتنے کی بیچنا مجھے منظور ہے اور نقد اتنے کی " لیکن یہ تفسیر ضعیف ہے کیونکہ اس صورت میں رِبا ( سود ) نہیں بنتا اور نہ ہی دو سودے بنتے ہیں بلکہ یہ دو قیمتوں میں سے ایک کے ساتھ ایک ہی سودا ہے ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ کہے :
میں یہ چیز تمہیں ایک سال کے اُدھار پر ایک سو کی اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ اسے تجھ سے ابھی اسی ( ۸۰ ) کی خریدوں گا ۔ بس حدیث کا یہی معنی ہے ، کوئی اور معنی نہیں ، اور یہ آپ ﷺ کے قول : ( ( فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) کے بھی مطابق ہے ۔ کیونکہ یا تووہ زائد قیمت لے گا جو کہ سود ہے یا پہلی قیمت لے جو کہ کم ہے ۔ یہ صورت ایک سودے میں دو سودے والی بنتی ہے ، کیونکہ اس نے نقد و اُدھار کے دونوں سودوں کو ایک سودے اور بیع میں جمع کر دیا ہے اور وہ فوری اور نقد تھوڑے درھم دے کر تاخیر سے زیادہ درھم لینے چاہتا ہے حالانکہ وہ اپنے اصل مال جو کہ دو قیمتوں سے کم قیمت ہے ، کا مستحق ہے لیکن اگر وہ زائد ہی لے تو اس نے سود لیا ۔ انتہی ( ۵ ، ۱۰۵ ۔ ۱۰۶ )
اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری صورت میں اسی ( ۸۰ ) کی سو کے ساتھ بیع کی گئی اور یہ بیع سود ہے اور اسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پہلی صورت میں دس کو بیس کے ساتھ بیچا گیا ، اور یہ بیع بھی سود ہے ۔ تو پہلی صورت کو چھوڑ کر صرف دوسری صورت کو سود بنانا تحکم اور سینہ زوری کے علاوہ کچھ نہیں ۔
پہلے ہم بیان کر آئے ہیں کہ جب دس نقد کی دس اُدھار سے بیع سود ہے تو دس نقد کی بیس اُدھار سے بیع بالاولیٰ سود ہے ، رہا سامان فروخت1 تو جس طرح وہ دوسری صورت میں حیلہ ہے اُسی طرح پہلی صورت میں بھی وہ حیلہ ہی ہے ۔
پھر پہلی صورت میں اگر وہ دو قیمتوں میں سے ایک قیمت کے ساتھ ایک ہی سود اہے تودوسری صورت میں بھی دو قیمتوں میں سے ایک قیمت کے ساتھ ہی سود اہے ، اور اگر دوسری صورت میں ایک سودے میں دو سودے اس لئے بنتے ہیں کہ یہ صورت نقد اور اُدھار کے دونوں سودوں کو ایک سودے اور ایک بیع میں جمع کرتی ہے اور مالک تھوڑے درہموں کی بجائے زیادہ درہم لینا چاہتا ہے تو پہلی صورت میں بھی ایک سودے میں دو سودے بنتے ہیں کیونکہ یہ صورت بھی نقد اور اُدھار کے دونوں سودوں کو ایک سودے اور ایک بیع میں جمع کرتی ہے اور اس کا مالک بھی تھوڑے درھموں کی بجائے زیادہ درھم لینا چاہتا ہے… الخ
علاوہ ازیں صاحب تہذیب السنن کے قول کہ " یہ دو قیمتوں میں سے ایک کے ساتھ ایک ہی سودا ہے " اس کی بنیاد پہلی تفسیر وارد مثال ( ( بَعْثُکَ بِعَشْرَۃٍ نَقْدًا أَوْ عِشْرِیْنَ ) نَسِیْئَۃً ) ) کے لفظ " أو " ( یا ) پر ہے ۔ لفظ " أو " تردد اور ابہام پر دلالت کرتا ہے ۔ لیکن پہلے آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ بعض نے حدیث کی یہ تفسیر " أو " کی بجائے " و " ( اور ) کے ساتھ کی ہے ۔ لہٰذا پھر نہ تردد باقی رہتا ہے اور نہ کوئی ابہام ، اس وقت یہ صورت دو بیع پر مشتمل ہو گی جن میں سے ایک کم قیمت پر ہو گی اور دوسری زیادہ قیمت پر ، پہلی نقد پر ہو گی اور دوسری اُدھار پر ۔
پھر صاحب تہذیب کے اس کلام میں کئی اور مقام قابل نظر ہیں جو کہ ہماری سابقہ بحث اور خصوصاً نبی ﷺ کا قول : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) کس پر صادق آتا ہے اور کس پر صادق نہیں آتا؟ کی تفصیل پر غور کرنے سے ظاہر ہو سکتے ہیں ۔
صاحب مضمون کہتے ہیں : اس طرح قسطوں کی بیع کی ممانعت پر ان کا استدلال کہ اس سے سود اور فضول خرچی کا دروازہ بند ہو گا " اس بات کی کوئی قدرو قیمت نہیں جب کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) ) یہ حدیث اپنے عموم کی وجہ سے قسطوں کی بیع کو بھی شامل ہے کیونکہ اس میں بھی نقد قیمت سے زیادہ وصول کی جاتی ہے ( جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے ۔ )
" قسطوں کی بیع " افراد ، خاندانوں اور سوسائیٹیز پر کیا بھیانک اور برے اثرات مرتب کرتی ہے؟ اس کے بارے میں اگر آپ صحیح معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو الریاض سپریم کورٹ کے قاضی الشیخ عبد اللہ بن ناصر السلمان حفظہ اللہ تعالیٰ کی کتاب " وجوب حفظ المال و أثر التقسیط علیہ " " پڑھیں ، قطع نظر اس بات کے کہ قسطوں کی بیع جائز ہے یا ناجائز ۔
اور اگر آپ بیوع کے حیلوں کے بار ے میں " جو آخر کار سود تک لے جاتے ہیں " معلوم کرنا چاہتے ہیں تو بیع عینہ وغیرہ کی حرمت کے اسباب کے متعلق حافظ ابن قیم ؒ نے " تہذیب السنن " میں جو لکھا ہے وہ پڑھیں ، انہوں نے اس مسئلہ پر بہت عمدہ اور اچھے پیرائے میں کلام کیا ہے مگر بعض مقامات پر اُن سے تسامح ہوا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی چیز کی " نقد بیع مثلاً دس کی ، اور اُدھار پندرہ کی " جائز نہیں اور اس بیع کی صورتوں میں سے قسطوں کی بیع بھی ہے جس میں ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے نقد کی قیمت سے زیادہ لی جاتی ہے ۔ دلیل اس کی نبی ﷺ کا یہ فرمان ہے : ( ( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ) )
اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کو خواہ شروع میں صرف اُدھار کی ہی بات ہو " اس کو موجودہ قیمت سے زیادہ پر بیچنا جائز نہیں ، اس لئے کہ اس میں سود داخل ہے ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان اعمال کی توفیق عطا فرمائے جن میں اس کی رضا ہے ، اور ہمارے نبی ﷺ اور ان کے آل و اصحاب پر کثرت سے درُود و سلام بھیجے ۔
والسلام علیکم وعلی من لدیکم
ابن عبد الحق بقلمہ
۱۹ ، ۶ ، ۱۴۲۱ھ
قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل
جلد 02 ص 556 - 587
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 3
اُدھاری کاروبار حقیقت پسندانہ جائزہ
عبد الرحمن عبد الخالق
مترجم
جمشید عالم عبد السلام سلفی
صفحات 74
خلاصہ کتاب
قسطوں میں ادھاری زائد قیمیت جائز نہیں سود ہے
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 4
سوال :
قسطوں میں لین دین کرتے ہوئے ایسے کون سے ضوابط ہیں جو خریدار اور دکاندار کے حقوق کو تحفظ دیتے ہوئے معاشرے اور نظام تجارت کو محفوظ بناتے ہیں؟
جواب :
الحمد للہ .
" مؤخر ادائیگی کے ساتھ خرید و فروخت کرنا جائز ہے ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان عام ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ
ترجمہ : اے ایمان والو ! جب تم مقررہ وقت تک ادھار پر لین دین کرو تو تم اسے لکھ لو ۔
[ البقرۃ : 282 ]
وقت کے عوض قیمت میں اضافہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے جواز کی دلیل ملتی ہے ، وہ اس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ ما سے فرمایا تھا کہ لشکر کو تیار کریں اور ایک اونٹ کو مؤخر ادائیگی کے دو اونٹوں کے عوض خرید لو ۔ یہاں اس طرح کے لین دین میں شرعی تقاضوں کو جاننا ضروری ہے تا کہ خریدار اور فروخت کنندہ حرام لین دین میں ملوث نہ ہو جائیں ، کیونکہ کچھ لوگ ایسے کرتے ہیں کہ ایسی چیز فروخت کر دیتے ہیں جو ابھی ان کے پاس نہیں ہے ، بات پکی کرنے کے بعد جا کر چیز خرید کر گاہک کو تھما دیتے ہیں ۔
جب کہ کچھ لوگ کوئی چیز خرید کر دکاندار کے پاس ہی رکھ دیتے ہیں اور پھر ابھی وہاں سے اپنے قبضے میں نہیں لیتے کہ آگے فروخت کر دیتے ہیں ۔
یہ دونوں چیزیں جائز نہیں ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا حکیم بن حزام ؓ کو فرمایا تھا کہ : ( جو چیز تمہاری ملکیت میں نہ ہو تو اسے فروخت نہ کرو )
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ : ( ادھار اور بیع دونوں کو اکٹھا کرنا جائز نہیں ہے ، نہ ہی ایسی چیز کو فروخت کرنا درست ہے جو ابھی آپ کے پاس نہیں ہے )
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
( جو اناج خریدے تو اسے آگے اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک اسے پوری طرح اپنے قبضے میں نہیں لے لیتا )
سیدنا ابن عمر ؓ ما کہتے ہیں کہ :
" ہم اناج ڈھیری کی شکل میں خریدتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے پاس ایک شخص کو بھیجا جس نے ہمیں منع کیا کہ ہم اسے اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے فروخت کریں ۔ "
مسلم
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ :
( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا کہ جب تک تاجر سامان تجارت کو اپنے گھروں میں نہ لے جائیں اس وقت تک اسے فروخت نہ کیا جائے ۔ )
مذکورہ اور انہی جیسی دیگر احادیث میں متلاشیان حق کے لئے بالکل واضح ہے کہ : مسلمان کو کوئی ایسی چیز فروخت نہیں کرنی چاہئے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو اور پھر جا کر اسے خریدے ۔ بلکہ واجب یہ ہے کہ بیع کو اس چیز کی خریداری تک مؤخر کرے اور پہلے اسے اپنی ملکیت میں لے ، پھر فروخت کرے ۔ اسی طرح یہ بھی واضح ہو گیا کہ بہت سے لوگ یوں کرتے ہیں کہ ابھی چیز دکاندار کے پاس پڑی ہے ، اسے اپنے قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کر دیتے ہیں یہ بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی مخالفت ہے ، اسی طرح لین دین میں خرابی پیدا ہوتی ہے ، اور شرعی احکامات پر پابندی نہیں ہے جس کی وجہ سے بے شمار نقصانات اور برائیاں جنم لیتی ہیں ۔ " ختم شد
مجموع فتاوى ابن باز ( 19 / 15 - 17 )
محمد صالح المنجد
ماخذ :
الاسلام سوال و جواب
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 5
قسطوں پر خرید و فروحت
ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی ؒ
85 - قسطوں پر سونا خریدنے کا حکم
اگر کسی آدمی نے یہ سونا ، کرنسی اور سونے اور چاندی کے علاوہ کسی چیز کے بدلے خریدا تو اس میں کوئی حرج نہیں ، مثال کے طور پر یہ کھجور یا گندم کی طرح کسی کھانے والی چیز کے بدلے خریدا جائے ، یا گاڑیوں کے بدلے یا اس جیسی کسی چیز کے بدلے خریدا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، کیونکہ سونے چاندی اور معلومات ( غلے ) کے درمیان ، اور سونے چاندی اور مصنوعات کے درمیان سود نہیں ہوتا ، لیکن اگر اس نے سونا ، سونے چاندی یا کرنسی کے بدلے قسطوں پر خریدا تو یہ حرام ہے کیونکہ سونے کے بدلے سونا بیچنے کی دو شرطیں ہیں :
( 1 ) پہلی شرط : وزن میں برابری
( 2 ) دوسری شرط : عقد کی مدت میں قبضہ
جب سونے کی بیع چاندی کے ساتھ یا کرنسی کے ساتھ کی جائے تو اس میں ایک ہی شرط ہے اور وہ ہے علاحدہ ہونے سے پہلے مدت عقد میں قبضہ دینا ۔
اس کی دلیل یہ حدیث نبوی ہے :
" سونے کے بدلے سونا ، ایک دوسرے کے مثل ایک دوسرے کے برابر اور نقد بہ نقد ۔ "
[ صحيح مسلم 1587 / 81 ]
ایک حدیث میں اس طرح ہے :
" سونے کے بدلے سونا ، چاندی کے بدلے چاندی گندم کے بدلے گندم ، کھجور کے بدلے کھجور ، جو کے بدلے جو ، نمک کے بدلے نمک ، ایک دوسرے کے مثل ، ایک دوسرے کے برابر مگر جب یہ اصناف مختلف ہو جائیں تو جس طرح چاہو بیچو مگر نقد بہ نقد ہو ۔ "
[ ابن عثيمين : نور على الدرب : 16 / 235 ]
86 - قسطوں پر گاڑیاں اور فرنیچر خریدنے کا حکم
فرنیچر اور گاڑیاں اگر بائع کے پاس ہو اور خریدار بعینہ انھیں خریدنے کا ارادہ رکھتا ہو تو ان آیات :
« وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا »
[ البقرة : 275 ]
" حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ۔ "
نیز فرمایا :
« يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ »
[ البقرة : 282 ]
" اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب آپس میں ایک مقرر مدت تک
قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو ۔ "
کے عموم میں داخل ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی حرج نہیں ۔
لیکن اگر وہ سامان کے طلبگار کے ساتھ بیع عینہ کا معاملہ کر لیتا ہے ، پھر اسے خرید لاتا ہے اور اس کو فروخت کر دیتا ہے تو یہ جائز نہیں کیونکہ یہ سود خوری کے لئے حیلہ ہے ، اس معاملے کا مطلب ہے کہ اس نے اس کو قیمت ، سود اور سودی اضافے کے ساتھ قرض دی کیونکہ تاجر نے وہ چیز مثلا سو ( 100 ) میں خریدی اور اس کو ایک سو بیس ( 120 ) میں بیچ دی ، اگر وہ بائع کے پاس ہوتی اور اس کی ملکیت میں ہوتی اور خریدار اسے خرید لیتا ، وہ بعینہ اس چیز کا طلبگار نہیں تھا بلکہ وہ اسے بیچنا اور اس کی قیمت سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا ، یہ مسئلہ تورق ہے جس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ، کچھ نے اس کی اجازت دی ہے اور کچھ نے اس سے منع کیا ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی منع کرنے والوں میں شامل ہیں ، احتیاط اسی میں ہے کہ انسان یہ کام نہ کرے ، خصوصاً جب تجارتی مقصد کے لئے ہو ، کیونکہ انسان بھی نفع کماتا ہے تو کبھی نقصان اٹھاتا ہے اور یہ تو یقینی بات ہے کہ وہ مہلت کی خاطر قیمت زیادہ دے کر نقصان ہی اٹھاتا ہے ۔
[ ابن عثيمين : نورعلي الدرب : 18 / 243 ]
87 - قسطوں پر حرام بیع کی ایک صورت
سوال : کوئی گاڑی شو روم پر آتی ہے ، پھر شو روم کا مالک وہ گاڑی کsی شخص کو بیچ دیتا ہے ، وہ شخض گاڑی تیسرے شخص کو قسطوں پر دے دیتا ہے ، گاڑی کا مالک ، جس نے اسے خریدا تھا ، اسے بیچ دیتا ہے اور گاڑی پھر نئے سرے سے شو روم میں لوٹ آتی ہے ، بلکہ کبھی گاڑی شو روم کے مالک کے پاس ایک سے زیادہ مرتبہ لوٹ آتی ہے ، اس موضوع کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب :
میری رائے یہ ہے کہ یہ معاملہ جائز نہیں کہ کوئی شخص تاجر کے پاس آئے اور کہے : میں آپ سے قسطوں پر گاڑی خریدنا چاہتا ہوں ، پھر تاجر اس سے کہتا ہے کہ آپ شو روم میں چلے جائیں اور جو گاڑی چاہے پسند کر لیں ، وہ تاجر کے پاس دوبارہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں گاڑی پسند کرتا ہوں ، تاجر شو روم سے وہ گاڑی خریدتا ہے اور اس ضرورت مند کو بیچ دیتا ہے ، یہ حرام ہے اور بلاشبہ حیلہ ہے ، یہ تاجر اس کے بدلے کہ اس آدمی کو گاڑی کی نقد قیمت دیتا ، وہ کہتا ہے گاڑی کی قیمت تیرے ذمے اتنی نقد ہے اور اتنی زیادہ ایک سال تک ۔ اس بات کے درمیان اور یہ کہنے کے درمیان کوئی فرق نہیں کہ جا ، جا کر میرے لئے گاڑی خرید ، پھر وہ میں تجھے بیچ دوں گا ۔
یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ حیلہ سازی کے ذریعے سے معاملات میں صریح معاملات کی نسبت زیادہ گناہ ہے کیونکہ جو حرام کام میں حیلہ سازی کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے اس نے حرام کا ارتکا ب کیا ہے ، یا اسلام کو دھوکا دے کر یہودیوں کی مشابہت اختیار کی ہے ۔ فرمان نبوی ہے :
" جو کام یہودیوں نے کیا تم وہ کام نہ کرنا ، کہ چھوٹے چھوٹے حیلوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا کو حلال کرنے لگو ۔ "
[ ضعيف : غاية المرام ، رقم الحديث 11 ]
مثال بالکل واضح ہے ، اس آدمی کو شو روم سے گاڑی خریدنے کی ضرورت تھی جس کی قیمت 50 ہزار ریال تھی ، یہ تاجر کے پاس گیا اور کہنے لگا : مجھے گاڑی کی ضرورت ہے جس کی قیمت 50 ہزار ریال ہے ، مجھے قسطوں پر پچاس ہزار ریال دو ، میں ہر مہینے دو ہزار اس کی قسط ادا کر دوں گا ، وہ اس کو نقد پچاس ہزار ریال دے دیتا ہے ، جس کی میعاد یہ ہے کہ ہر مہینے وہ دو ہزار ادا کرتا ہے ، پھر یہ آدمی گاڑی خرید لیتا ہے اور چلا جاتا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاملہ حرام ہے کیونکہ یہ درہم کے بدلے درہم ہیں ، جن میں اضافہ اور تاخیر ہے ۔ اب اس صورت میں اور تاجر کے اس قول میں کیا فرق ہے کہ میں تیرے لئے گاڑی پچاس ہزار میں نقد خرید رہا ہوں پھر میں وہ گاڑی شو روم کو دے دیتا ہوں ، پھر میں وہ گاڑی تمھیں ستر ہزار میں تین سال کے لئے قسطوں پر بیچ دیتا ہوں؟ !
ان دونوں باتوں میں معاملے کی صورت میں کیا فرق ہے؟ حقیقت میں کوئی فرق نہیں ، خدا کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے معاف رکھو ۔ بالکل کوئی فرق نہیں بلکہ یہ زیادہ خبیث معاملہ ہے کیونکہ یہ سود کے لئے حیلہ ہے اور پہلی صورت صریح سود ہے ، صریح سود کھانے والا محسوس کرتا ہے کہ وہ نافرمانی کا مرتکب ہو رہا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ سے شرمندہ بھی ہوتا ہے ، اور توبہ کی کوشش بھی کرتا ہے اور یہ جو اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیتا ہے ، سمجھتا ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ حلال ہے ، تو وہ اللہ تعالیٰ سے شرمندہ نہیں ہوتا اور اپنے کام پر کار بند رہتا ہے ۔ دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ، لہٰذا لوگوں کا بکثرت یہ کام کرنا تمھیں دھوکے میں نہ ڈال دے کیونکہ اکثر لوگوں کا کوئی کام کرنا حجت نہیں ہوتا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
« وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ »
[ القصص : 65 ]
" اور جس دن وہ انہیں آواز دے گا ، پس کہے گا : تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟ "
نیز فرمایا :
« وَلَن يَنفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذ ظَّلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ »
[ الزخرف : 39 ]
" اور آج یہ بات تمھیں ہگز نفع نہ دے گی ، جب کہ تم نے ظلم کیا کہ بے شک تم ( سب ) عذاب میں شریک ہو ۔ "
یہ مسئلہ بالکل واضح ہے اور حرام ہے ، اگر کسی نے اس کے حلال ہونے کا فتوی دیا ہے تو یہ غلط ہے ، رانا آدمی بخوبی جانتا ہے کہ اس حیلے یا اس حیلے میں کونسا حیلہ زیادہ عظیم اور خطرنا ک ہے جو یہودیوں نے اس وقت اختیار کیا تھا
جب ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں نے اسے پہلے پگھلا لیا ، پھر اسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی ، یہ حیلہ جس کا میں نے ذکر کیا ہے ، یہودیوں کے حیلے سے زیادہ سخت ہے ، کیونکہ یہودیوں نے چربی کھائی نہیں اور بیچی بھی نہیں بلکہ اسے پگھلایا پھر اسے بیچا اور پھر اس کی قیمت کھائی ۔
بہر حال اس انداز میں بیع حرام ہے اور جائز نہیں ، اگر انسان کو اونٹ کے پائے بھی کھانے پڑ جائیں پھر بھی یہ معاملہ نہ کرے ۔
[ ابن عثيمين : نور على الدرب : 18 / 205 ]
88 - قسطوں پر حرام بیع کی ایک اور صورت
جب انسان کوئی چیز قسطوں پر ادھار خرید لے ، پھر جس سے خرید لے اسے ہی نقد بیچ دے ، اسے بیع عینہ کہا جاتا ہے جو جائز نہیں ، لیکن اگر کسی دوسرے کو بیچ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، جیسے اس نے قسطوں پر گاڑی خریدی ، پھر وہ گاڑی کسی دوسرے کو نقد ی دی تاکہ شادی کرے ، یا اپنے قرض ادا کر لے ، یا گھر خرید لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، لیکن گاڑی یا کوئی اور چیز قسطوں پر خرید کر اس شخص کو نقد بیچ دینا عینہ کہلاتا ہے کیونکہ زیادہ ادھار درہموں ( پیسوں ) کے بدلے کم نقد درہم حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔
[ ابن عثيمين : نور على الدرب : 13 / 19 ]
https://tohed. com/%D9%82%D8%B3%D8%B7%D9%88%DA%BA-%D9%BE%D8%B1-%D8%AE%D8%B1%DB%8C%D8%AF-%D9%88-%D9%81%D8%B1%D9%88%D8%AD%D8%AA/
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 6
قسطوں پر اشیاء خریدنے کا حکم
تحریر :
الشیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ
سوال :
قسطوں پر اشیاء حاصل کرنا جائز ہے؟
جواب :
قسطوں پر خریدنے کی صورت میں بھی اگر اشیاء کی قیمتیں وہی ہوں جو نقد کی صورت میں ہیں تو ان کی بیع جائز ہے بصورت دیگر ناجائز ہے ۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے :
« نهٰي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين فى بيعة »
[ مسند أحمد 432 / 2 ، بيهقي 343 / 5 ]
" رسول اللہ ﷺ نے ایک چیز کی دو قیمتیں ( مقرر کرنے سے ) منع فرمایا ہے ۔ "
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
« من باع بيعتين فى بيعة فله اوكسهما او الربا »
[ ابن حبان 226 / 8 ، 4953 ، مستدرك حاكم 45 / 2 ، بيهقي 343 / 5 ]
امام حاکم ؒ نے اس حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی ؒ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
" جو شخص کسی چیز کی دو قیمتیں مقرر کرے گا یا تو وہ کم قیمت لے گا یا پھر وہ سود ہو گا ۔ "
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں :
« لا تحل صفقتان فى صفقة »
[ الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان 242 / 8 ]
" ایک عقد میں دو معاملے کرنا حلال نہیں ۔ "
امام سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں :
" جب تو یہ کہے میں یہ چیز تمہارے ہاتھ اتنے میں اور ادھار اتنے کی بیچتا ہوں تو یہی « بيعتان فى بيعة » ہے ۔ اور یہ مردود ہے اور یہی وہ تجارت ہے جس سے منع کیا گیا ہے ۔
[ عبد الرزاق 14632 ، شرح السنة 8 / 143 ] ۔
امام سماک بن حرب ؒ فرماتے ہیں :
" کوئی شخص کوئی چیز بیچتے وقت کہے یہ چیز ادھار اتنے پر اور نقد اتنے پر بیچتا ہوں تو یہ « بيعتين فى بيعة » ہے ۔ "
[ مسند أحمد 398 / 1 ]
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ ادھار کی صورت میں رقم بڑھانا سود ہے ، لہٰذا ایسا کاروبار کرنا درست نہیں ، یہ سود لینا اور دینا ہے اور لعنت کا حق دار بننے کے مترادف ہے ، لہٰذا دکاندار اور گاہک کو ایسے معاملات سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے ۔
https://tohed.com/%D9%82%D8%B3%D8%B7%D9%88%DA%BA-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%D8%B4%DB%8C%D8%A7%D8%A1-%D8%AE%D8%B1%DB%8C%D8%AF%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%AD%DA%A9%D9%85/
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 7
قسطوں کا مروجہ کاروبار شریعت کی نظر میں
تحریر :
ابوالحسن مبشر احمد ربانی ؒ
قسطوں کا کاروبار شریعت کی نظر میں
حرام امور کی مذمت
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
( ( يأتي على الناس زمان لا يبالي المرء ما أخذ منه أمن الحلال أم من الحرام ؟ ) )
لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی کو جو چیز بھی مل جائے ، وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور یہ نہ دیکھے گا کہ وہ حلال ہے یا حرام ؟ [ یعنی حلال و حرام کی تمیز ختم ہوجائے گی ۔ ]
( صحیح بخاری : ۲۰۵۹ )
دوسری حدیث میں ہے :
( ( بادروا بالأعمال فتناً كقطع الليل المظلم ، يصبح الرجل مؤمناً و يمسي كافرًا ، أو يمسي مؤمناً ويصبح كافرًا ، يبيع دينه بعرض من الدنيا . ) )
ان فتنوں کے پیش آنے سے پہلے ( نیک ) اعمال میں جلدی کرو جو تاریک رات کی ٹکڑیوں کی مانند ہوں گے ( کہ اس وقت ) آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں ہوگا تو شام کو کافر ہو جائے گا یا شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر ہو جائے گا ( اور اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ) وہ اپنے دین کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کی خاطر بیچ ڈالے گا ۔
( صحیح مسلم : ۱۱۸ ، دار السلام : ۳۱۳ )
نیز حرام کھانے والے کے لئے سخت وعید بھی بیان فرمائی :
( ( لا يدخل الجنة لحم نبت من سحت ، النار أولى به . ) )
وہ گوشت جس نے حرام سے پرورش پائی ، جنت میں داخل نہیں ہوگا ( اور جس گوشت نے حرام سے نشو نما پائی ہو ) اس کے لئے جہنم کی آگ ہی اولیٰ ہے ۔
( احمد۳ ۲۹۹ ، ۳۲۷ ، وھو حدیث حسن ، الموسوعة الحديثية ۳۳۲ / ۲۲ ، وصحه ابن حبان ، الموارد : ۱۵۶۹ ، والی کم ۴ ۴۲۲٫ و وافقه الذہبی )
تنبیہ :
عبد الرحمٰن بن سابط کا سیدنا جابرؓ سے سماع ثابت ہے ، دیکھئے
الجرح والتعدیل ( ۲۴۰ / ۵ت ۱۱۳۷ )
لہٰذا اس روایت کی سند حسن ہے ۔
اور دوسری روایت میں ہے کہ ( حرام خور طویل سفر طے کرتا ہے اور ) آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے کہتا ہے :
اے میرے رب ! اے میرے رب ! جب کہ اس کا کھانا حرام ، اس کا پینا حرام ، اس کا پہننا حرام اور حرام ہی سے اس نے پرورش پائی تو پھر اس کی دعا کیونکر قبول ہو؟
( صحیح مسلم : ۱۰۱۵ ، دار السلام : ۲۳۴۶ )
اس پرفتن دور میں حلال و حرام کا فرق اب ختم ہوتا چلا جا رہا ہے اور لوگ مختلف طریقوں سے حرام خوری میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں ۔
سود کی حرمت
حرام کاموں میں سب سے بڑا حرام کام سود ہے جس نے عالمگیر شکل اختیار کر لی ہے اور یہ چیز بینکوں کی شکل میں امت مسلمہ پر مسلط ہو چکی ہے حالانکہ سود کے متعلق اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے :
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبوا إِنْ كُنتُم مُؤْمِنِينَ O فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ﴾
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور ( اصل رقم کے علاوہ ) وہ حصہ چھوڑ دو جو باقی بچ جائے سود سے ، اگر تم واقعی مومن ہو ۔ پس اگر ( سود سے ) باز نہ آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ ۔
( البقرۃ : ۲۷۹ )
اور سیدنا جابرؓ سے روایت ہے :
لعن رسول الله ﷺ آكل الربا وموكله وكاتبه و شاهدیه وقال : ( ( هم سواء ) )
رسول الله ﷺ نے سود کھانے والے کھلانے والے ، اس کے لکھنے والے اور اس کے دو گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا :
یہ ( گناہ میں ) برابر ( کے شریک ) ہیں ۔
( صحیح مسلم : ۱۵۹۸ ، دار السلام : ۴۰۹۳ )
نیز سیدنا عبد اللہ بن حنظلہ غسیل ملائکہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
سود کا ایک درہم جس کو آدمی جان بوجھ کر کھائے چھتیس زنا سے زیادہ گناہ رکھتا ہے ۔
( مسند احمد ۲۲۵ / ۵ وسنده حسن سنن دار قطنی ۱۶ / ۳ ح ۲۸۱۹ )
تنبیہ :
اس کی سند حسن ہے ۔ ( مشكوة المصابيح 12825 ) " سنده ضعيف في سماع ابن أبي مليكة من عبد الله بن حنظلة لہٰذا الحديث نظر و للحديث عنة أخرى "
حافظ بزار کا یہ فرمانا :
" وقد رواه بـعـضـهـم عـن ابـن أبـي مليكة عن رجل عن عبد الله بن حنظلة "
بلا دلیل ہے لہٰذا اس قول کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
تجارت میں سود
تجارت میں قرض کی صورت میں بھی سود وصول کیا جاتا ہے ، جس کی ایک صورت یہ ہے کہ آسان اقساط پر چیزیں فروخت کی جاتی ہیں ۔ یہی اشیاء جب نقد خریدی جائیں تو ان کی قیمت کم ہوتی ہے لیکن ادھار اور آسان اقساط کی صورت میں ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
( وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبوا )
اور اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے ۔
( البقرۃ : ۲۷۵ )
عصر حاضر میں قسطوں والا کاروبار عروج پر ہے اور لوگ آسان اقساط پر مختلف اشیاء مثلاً پنکھے ، واشنگ مشینیں ، فریج ، ٹی وی اور گاڑیاں وغیرہ خریدتے ہیں اور ان چیزوں کی نقد اور ادھار قیمتوں میں کافی فرق ہوتا ہے ایک چیز اگر نقد دس ہزار روپے میں ملتی ہے تو قسطوں کی صورت میں بارہ ہزار روپے کی ہے ، اب یہ دو ہزار روپے جو اس کی قرض رقم کے ساتھ وصول کئے جارہے ہیں ، ان کی حیثیت شرعی اعتبار سے کیا ہوگی؟ ظاہر ہے یہ کھلاسود ہے ۔
اس مسئلہ کو یوں سمجھ لیں کہ کوئی آدمی کسی کمپنی یا دکان سے دس ہزار روپے اس شرط پر قرض لیتا ہے کہ وہ یہ قرض رقم دس ہزار کے بجائے بارہ ہزار روپے آسان قسطوں میں ادا کرے گا ، ظاہر بات ہے کہ یہ سود ہے ۔ اسی طرح دوسرا شخص دس ہزار روپے قرض لینے کے بجائے دس ہزار روپے کی کوئی چیز اس صورت میں خریدتا ہے کہ وہ اس چیز کے بارہ ہزار روپے آسان قسطوں میں بطور قرض ادا کرے گا ، ظاہر بات ہے کہ اس شخص کے ذمے تو دس ہزار روپے ہی واجب تھے لیکن قرض لینے کی وجہ سے اس کی اصل رقم میں دو ہزار روپے مزید اضافہ کر دیا گیا ہے لہٰذا یہ بھی سود ہے ۔
نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
( ( الربا في النسيئة و في رواية قال : لا ربا فيما كان يدا بيد . ) )
سودا دھار میں ہوتا ہے اور ایک روایت میں ہے جو چیز نقد بیچی جائے اس میں سود نہیں ہے ۔
( صحیح بخاری : ۲۱۷۹ ، ۲۱۷۸ صحیح مسلم : ۵۹۶ ، دار السلام : ۴۰۹۰ ، ۴۰۸۹ ، ۴۰۸۸ )
سیدنا فضالہ بن عبیدؓ نے فرمایا :
" کل قرض جرمنفعة فهو وجه من وجوه الربا "
ہر قرض جو نفع کھینچے وہ سود کی وجوہ میں سے ایک وجہ ( قسم ) ہے
( اسنن الکبریٰ للبیہقی ۳۵۰٫۵ وسنده صحیح واخطا من ضعفه )
سید نا ابو موسیٰ الاشعریؓ کے بیٹے ابو بردہؒ سے روایت ہے کہ میں مدینہ گیا تو ( سیدنا ) عبد اللہ بن سلامؓ سے ملا ۔ انھوں نے فرمایا :
کیا تم ( میرے پاس ) نہیں آتے تا کہ میں تمھیں ستو اور کھجور کھلاؤں اور گھر میں داخل ہو جاؤ ؟ پھر فرمایا :
تم ایسے علاقے میں ہو جہاں سود پھیلا ہوا ہے ، اگر تمھارا کسی آدمی پر کوئی حق ( قرض ) ہو پھر وہ تمھیں بھوسہ ، جو یا ( فضول ) جنگلی دانوں والی گھاس تحفہ میں دے تو اسے نہ لینا کیونکہ یہ سود ہے ۔
( صحیح بخاری : ۳۸۱۴ )
ادھار کے بدلے زیادہ قیمت جائز نہیں
قسطوں کی صورت میں جو ادھار کے بدلے زیادہ قیمت ادا کی جاتی ہے ،
اس کے نا جائز ہونے کے درج ذیل دلائل ہیں :
➊ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے :
" نھی رسول الله ﷺ عن بيعتين في بيعة "
رسول اللہ ﷺ نے ایک چیز کی دو قیمتیں مقرر کرنے سے منع کیا ہے ۔
( ترمذی : ۱۲۳۱ ، و اسناده حسن ، نسائی : ۴۶۳۶ ، وصححہ ابن الجارود : ۶۰۰ ، وابن حبان : ۴۹۵۲ )
➋ سیدنا ابو ہریرہؓ کی یہ حدیث ان الفاظ سے بھی مرفوعاً مروی ہے :
( ( من باع بيعتين في بيعة فله أو كسهما أو الربا ) )
جو شخص کسی چیز کی دو قیمتیں مقرر کرے گایا تو وہ کم قیمت لے گا یا پھر وہ سود ہوگا ۔
( سنن ابی داود : ۳۴۶۱ ، و اسناده حسن ، وصحه ابن حبان : ۱۱۱۰ ، والحاکم ۴۵٫۲ ، ووافقه الذہبی )
➌ سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :
" لا تحل صفقتان في صفقة و أن رسول الله ﷺ لعن آكل الربا وموکله و شاهدیه و کاتبه "
ایک عقد ( بیع ) میں دو معاملے کرنا حلال نہیں ہے اور بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے پر ، کھلانے والے پر ، اسکے گواہوں پر اور اس کے لکھنے والے پر لعنت کی ہے ۔
( مسند احمد ا / ۳۹۳ ، و اسناه حسن ، والموسوعة الحديثية ۲۷۰ ، ۲۶۹ / ۶ )
" لا تحل " کے الفاظ معجم الاوسط ( ۳۶۴ / ۲ ) اور مجمع الزوائد ( ۸۴ / ۴ ) میں ہیں جب کہ مسند احمد میں " لا تصلح " ہے ۔
➍ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :
" لا تصلح الصفقتان في الصفقة ، أن يقول : هو بالنسيئة بكذا وكذا ، وبال نقد بکذا و کذا "
ایک عقد میں دو معاملے کرنا جائز نہیں ہے ( اور ایک عقد میں دو معاملے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ) ایک شخص کہے کہ اگر تم نقد خرید و تو اتنے روپے میں اور اگر ادھار خرید و تو اتنے روپے میں ۔
( مصنف عبد الرزاق ۱۳۷ / ۸ ح ۱۴۶۳۳ ، و سنده حسن )
سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ کی اس وضاحت سے واضح ہو گیا کہ کسی چیز کی نقد اور ادھار کی صورت میں قیمت جدا جدا مقرر کرنا درست نہیں بلکہ ادھار کی صورت میں زیادہ وصول کی گئی قیمت سود ہے ۔
سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ " صفقتان في صفقة ربا "
ایک عقد میں دو معاملے کرنا سود ہے ۔
( السنتہ للمروزی : ۱۹۱ ، وسندہ حسن )
راویانِ احادیث اور محدثین و فقہاء نے ان احادیث کی یہی وضاحت کی ہے ۔
امام بیہقی فرماتے ہیں :
➊ قال عبد الوهاب يعني يقول : هو لك ب نقد بعشرة و بنسيئة بعشرين .
عبد الوہاب ( بن عطاء ) فرماتے ہیں :
یعنی دکاندار یوں کہے :
یہ چیز تیرے لئے نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں ہے ۔
( السنن الکبریٰ للبیہقی ۳۴۳٫۵ ، السلسلة الصحيحتہ ۴۲٫۵ )
➋ علامہ ابن قتیبہ دینوری غریب الحدیث ( ۱۸ / ۱ ) میں فرماتے ہیں :
" ومن البيوع المنهي عنها شرطان في بيع ، وهو أن يشتري الرجل السلعة إلى شهرين بدينارين و إلى ثلاثة أشهر بثلاثة دنانير وهو بمعنى بيعتين في بيعة "
اور منع کردہ بیوع میں سے ایک سودے میں دو شرطیں لگانا اور وہ یہ ہے کہ آدمی دو ماہ تک سودا فروخت کرے دو دیناروں میں اور تین ماہ تک تین دیناروں میں یہ معنی " بيعتين في بيعة " کا ہے ۔
( السلسلۃ الصحیحتہ الالبانی ۴۲۰٫۵ ۵ ۲۳۲۶ ) .
➌ اور مسند احمد میں سماک بن حرب کا یہی قول ہے ۔
( ۳۹۸ / ۱ )
سماک بن حرب معروف ثقہ وصدوق تابعی ہیں جنھوں نے اسی ( ۸۰ ) صحابہ کرام کو پایا ہے اور اس حدیث کے راوی ہیں اور ان کی تفسیر و توضیح اس مقام پر دوسرے لوگوں سے مقدم ہے ۔
اس لئے کہ راوی حدیث اپنی روایت کا مفہوم دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ جانتا ہے ۔
➍ امام محمد بن نصر المروزی نے کتاب السنۃ ( رقم : ۱۹۴ ، دوسرا نسخہ : ۲۰۵ ) میں اور امام عبد الرزاق نے المصنف ( ۱۳۷ / ۸ ، ح ۱۴۶۲۹ ) میں صحیح سند کے ساتھ قاضی شریح سے حرف بحرف ان کا قول او پر ذکر کردہ حدیث کے مطابق نقل کیا ہے ۔
➎ امام محمد بن سیرین سے ایوب ( السختیانی ) نقل کرتے ہیں : أنه كان يكره أن يقول : أبيعك بعشرة دنانير نقد ا أو بخمسة عشر إلى أجل
" وہ مکروہ سمجھتے تھے کہ آدمی یوں کہے : میں تمھیں نقد دس دینار میں اور ادھار پندرہ دینار میں فروخت کروں گا ۔
( مصنف عبد الرزاق ۱۳۶ / ۸ ح ۱۴۶۳۰ ، وسندہ صحیح )
➏ امام طاؤس کہتے ہیں :
" إذا قال : هو بكذا و كذا إلى كذا و كذا ، وبكذا وكذا إلى كذا و كذا فوقع البيع على هذا فهو / بأقل الثمنين إلى أبعد الأجلين "
جب آدمی یوں کہے :
فلاں چیز اتنی اتنی رقم کے ساتھ ، اس اس طرح مدت تک اور اتنی اتنی رقم کے ساتھ ، اس اس طرح مدت تک ہے تو بیع واقع ہو جائے گی اور اس کے لئے دو قیمتوں میں سے کم قیمت ہوگی اور دومدتوں میں سے دور کی مدت ہوگی ۔
( مصنف عبد الرزاق ۱۳۶ / ۸ ح ۱۴۶۳۱ ، وسندہ صحیح )
➐ امام نسائی نے باب " بيعتين في بيعة " کے تحت لکھا ہے :
" وهو أن يقول : أبيعك هذه السلعة بمائة درهم نقد ا أو بمائتي درهم نسيئة "
میں تمھیں یہ سودا نقد سو درہم میں اور ادھار دوسو درہم میں فروخت کرتا ہوں ۔
( سنن النسائی قبل حدیث : ۴۶۳۶ جس ۶۳۷ مطبوعہ دارالسلام )
➑ حافظ ابن حبان نے اپنی صحیح ( ۳۴۷ / ۱۱ رقم ۴۹۷۳ ) میں فرمایا ہے :
" ذكر الزجر عن بيع الشي بمئة دينار نسيئة و بتسعين دينارا نقد ا . "
کسی چیز کو ادھار سود دینار میں اور نقد نوے دینار میں بیچنے پر زجر وتو ریخ کا بیان ۔
➒ امام شافعیؒ فرماتے ہیں :
" أن يقول : بعتك بألفين نسيئةً ، بألف نقد ًا فأيهما شئت أخذت به وهذا بيع فاسد … . وعلة النهي على الأول عدم استقرار الثمن و لزوم الربا عند من يمنع بيع الشي بأكثر من سعر يومه لأجل النسيئة . "
آدمی یوں کہے :
میں تجھے یہ چیز دو ہزار میں ادھار بیچتا ہوں اور نقد ایک ہزار میں تمھیں جس طرح پسند ہو لے لو تو بیع فاسد ہے اور اس سے منع کی علت یہ ہے کہ اس چیز کی قیمت مقرر نہیں کی گئی اور پھر اس میں سود ہے ، اس شخص کے ہاں جو ادھار کی وجہ سے اس دن کے بھاؤ سے زیادہ قیمت لیتا ہے ۔
( امام للشافعي / مختصر المزنی ص ۸۸ سبل السلام ، البوع باب شروطه و مانھی عنہ واللفظ له ص۵۵۲ تحت ح ۷۹۱ )
➓ امام ترمذی فرماتے ہیں :
" حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم وقد فسر بعض أهل العلم قالوا : بيعتين في بيعة أن يقول : أبيعك هذا الثوب ب نقد بعشرة و بنسيئة بعشرين . "
ابو ہریرہؓ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے اور اس حدیث کی تفسیر میں بعض اہلِ علم نے کہا کہ ایک چیز میں دو بیعوں کا معنی یہ ہے کہ آدمی کہے :
میں تجھے یہ کپڑا نقد دس کا اور ادھار بیس کا بیچتا ہوں ۔
( سنن الترمذی بعد حدیث : ۱۲۳۱ )
⓫ امام بغوی فرماتے ہیں :
" وقوله : ولا شرطان في بيع ، فهو أن يقول : بعتك هذا ال عبد بألف نقد ا أو بألفين نسيئة ، فمعناه معنى البيعتين في بيعة . "
نبی ﷺ کا فرمان :
ایک سودے میں دو شرطیں جائز نہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یوں کہے :
میں تجھے یہ غلام نقد ایک ہزار میں اور ادھار دو ہزار میں فروخت کرتا ہوں ، اس کا معنی " البيعتين في بيعة " کا معنی ہے ۔ [ یعنی اس حدیث کا یہی مفہوم ہے ۔ ] `
( شرح السنته ۱۴۵ / ۸ ح ۲۱۱۲ )
مذکورہ بالا ائمہ محدثین کی توضیحات سے واضح ہو گیا کہ نقد اور ادھار کے فرق پر بیع کرنا درست نہیں اور ادھار کی وجہ سے جو قیمت زائد لگائی جاتی ہے ، وہ سود کے زمرے میں آتی ہے اور رسول الله ﷺ کے فرمان :
( ( فله أو كسهما أو الربا ) )
کے مطابق واضح سود ہے ۔ اور اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔
شبہات کا ازالہ
پہلا شبہ :
جو علماء قسطوں والی مروجہ بیع کو جائز کہتے ہیں ، انھوں نے اس حدیث کی یہ توجیہ کی ہے کہ اس میں ممانعت کا سبب اور علت قیمت کا مجہول ہونا ہے اور وہ اس طرح ہے کہ جب بائع ( بیچنے والا ) کہے :
یہ چیز نقد سو روپے میں اور ادھار ڈیڑھ سو روپے میں ہے اور خریدار کہے کہ مجھے منظور ہے اور یہ طے نہ ہو کہ سو روپیہ ادا کرنا ہے یا ڈیڑھ سوروپے ، لہٰذا جب طے ہو گیا تو قیمت مجہول نہ رہی اور خریدار نے واضح کر دیا کہ وہ نقد لے گا یا ادھار ۔
ازالہ :
یہ قول کئی وجہ سے باطل ہے :
➊ اس جگہ بیع میں جہالت کا ہونا مضر نہیں ہے کیونکہ خریدار اور بائع با اختیار ہیں اور وہ دونوں ہی اگر دو قیمتوں میں سے ایک قیمت کا یقین کئے بغیر جدا ہو جائیں اور بائع خریدار کو بعد میں ملے اور خریدار سے کہہ دے کہ مجھے ادھار منظور ہے اور وہ نقد پیسے اسے دے دے اس صورت میں کوئی ایسی جہالت نہیں پائی جاتی جو بیع کی صحت کے لئے مضر ہو اور یہ بات بھی واضح اور عیاں ہے کہ ہر جہالت بیع کی صحت کے لئے مضر نہیں ہوتی ، اسی لئے تو اناج کے ڈھیر کی بیع جائز ہے اسی طرح اخروٹ ، بادام ، اور تربوز وغیرہ کی چھلکے کے اندر ہی بیع درست ہے حالانکہ ان سب میں جہالت ہوتی ہے لیکن یہ جہالت غیر مضر ہے اور ادھار والی بیع میں ممانعت کی علت میں جو جہالت ذکر کی جاتی ہے وہ بھی غیر مضر ہے اور اگر اس کا مضر ہونا مان بھی لیا جائے تو پھر بھی ممانعت کی علت ہونا نہیں ہوگا کیونکہ حقیقت میں اس جہالت کی وجہ سے یہ ممانعت قطعا نہیں ہے ۔
➋ اگر یہ ممانعت قیمت کی جہالت کی وجہ سے ہوتی تو فرمان نبوی ﷺ :
( ( فله أو كسهما أو الربا ) )
اس بائع کے لئے کم مقدار والی قیمت ہے یا پھر سود ہے ، کا کیا مطلب اور کیا موقع ومحل رہتا ہے؟
اور یہ بات یقینی ہے کہ اس بیع سے ممانعت کی اصل وجہ رقم کی وہ زیادتی ہے جو دکاندار یا بائع ادھار کی وجہ سے وصول کرتا ہے ۔ اس حدیث کی رو سے تو دو ہی صورتیں بنتی ہیں :
دکاندار یا بائع یا تو کم مقدار والی قیمت کے ساتھ اپنی چیز بیچے گا اور وہ نقد کی قیمت ہے یا پھر ادھار کی وجہ سے سودی اضافہ وصول کرے گا جس کی اس نے ادھار کی صورت میں شرط لگائی تھی ۔
دوسرا شبہ :
بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ " بیعتین في بيعة " کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی کوئی چیز ایک مدت تک ادھار دیتا ہے پھر اس خریدار سے خود کم قیمت پر نقد خرید لیتا ہے جسے " بيع العينة " کہا جاتا ہے اور سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی حدیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
( ( إذا تبـايـعـتـم بالعينة و أخذتـم أذناب البقر و رضيتم بالزرع وتركتم الجهاد سلط الله عليكم ذلاً لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم ) )
جب تم بیع عینہ کرنے لگ جاؤ گے اور گائے بیل کی دموں کے پیچھے لگ جاؤ گے اور کھیتی باڑی کو پسند کرو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تمھارے اوپر ذلت مسلط کرے گا ، اس وقت تک اسے دور نہیں کرے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف پلٹ نہیں آؤ گے ۔
( سنن ابی داود : ۳۴۶۲ ، مسنداحمد ۲۸ / ۲ ح ۴۸۲۵ ، و اسناده ضعیف )
تنبیہ :
اس روایت کی سند میں اسحاق بن اسید قول راجح میں ضعیف ہے اور اس کے شواہد بھی ضعیف ہیں جن کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہی ہے ۔
ازالہ :
اس میں کوئی شک نہیں کہ بیع عینہ بھی باطل ہے ، اس لئے کہ یہ سود کا ذریعہ ہے اور اس کی حرمت پر بہت سے آثار صحابہ دلالت کرتے ہیں اور حدیث " نهى عن بيعتين في بيعة " کے عموم میں یہ بھی داخل ہے ۔
لیکن نبی ﷺ کا یہ فرمان
( ( من باع بيعتين في بيعة فله أو كسهما أو الربا ) )
جو ایک بیع میں دو بیعیں کرلے تو اس کے لئے ان دونوں میں سے کم مقدار والی قیمت ہے یا پھر سود ہے ، اس بیع عینہ پر منطبق نہیں ہوتا اور نہ یہ بیع اس حدیث کا مصداق ہی ہے ۔
اس لئے کہ بائع یاد کا ندار جب کوئی چیز فروخت کرتا ہے اور پھر خود ہی اسے کم قیمت میں خرید لیتا ہے اس صورت میں ( ( فله أو كسهما أو الربا ) ) کوئی معنی نہیں رکھتا ۔
جائز کہنے والوں کے دلائل اور ان کا تجزیہ
جو لوگ قسطوں والی مروجہ بیع کو جائز قرار دیتے ہیں ، انھوں نے اس کے لئے مختلف دلائل کا سہارا لیا ہے :
پہلی دلیل :
ان کا کہنا ہے کہ اشیاء اور معاملات میں اصل اباحت ہے اور کسی بھی شے کے حرام ہونے کی دلیل چاہئے اور قسطوں والی بیع معاملات میں سے ایک معاملہ ہے لہٰذا یہ مباح ہے اور اس کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔
تجزیہ :
یہ بات تو درست ہے کہ اشیاء و معاملات میں اصل اباحت ہے الا یہ کہ اس کے ناجائز ہونے کی دلیل مل جائے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس معاملے کے حرام ہونے کی کوئی دلیل ہے؟
تو یادر ہے کہ اس کے حرام ہونے کی دلیل وہ صحیح حدیث ہے جو سیدنا ابو ہریرہؓ سے بایں الفاظ مروی ہے
( ( من باع بيعتين فله أوكسهما أو الربا ) )
جس کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے اور اسی طرح کچھ آثار صحابہ بھی بیان ہو چکے ہیں ، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ اس کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہیں !
دوسرا یہ کہ سد الذرائع بھی اس اباحت اصلیہ کے خلاف دلیل ہے ۔ یعنی ناجائز کاموں کی طرف لے جانے والے ذرائع اور وسائل کو روکنا ۔ یہ ایک شرعی قاعدہ ہے ، عوام الناس کو ایسے فتاویٰ جات دے کر انھیں سودی کاموں پر دلیر کرنا اور سودی معاملات کی راہ ہموار کرنا ہے جو کسی بھی طرح جائز نہیں ہے ۔
دوسری دلیل :
قسطوں والی بیع اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت جائز ہے :
( وَاحَلَّ اللهُ البيع )
اللہ تعالیٰ نے بیع حلال کی ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ﴾
اے ایمان والو ! اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ الا یہ کہ تمھاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو ۔
( النساء : ۲۹ )
بیع تقسیط ( قسطوں والی خرید و فروخت ) بھی باہمی رضا مندی سے تجارت ہے ۔
تجزیہ :
وہ بیوع اور تجارت جو شرعاً نا جائز ہیں وہ ان آیات کے عمومی حکم میں داخل نہیں ہیں ورنہ لازم آئے گا کہ شراب ، خنزیر اور گندم کے بدلے برابر برابر اور ایک جانب سے نقد اور دوسری جانب سے ادھار اور نقد ب نقد ایک طرف سے زائد وغیرہ بیوع ( سودے ) جائز قرار پائیں ! کیونکہ یہ بھی تو بیوع ہی ہیں حالانکہ ان بیوع کے جواز کے یہ لوگ بھی قائل نہیں ہیں کیونکہ یہ شرعاً حرام ہیں ۔ اسی طرح قسطوں کی صورت میں ادھار کے بدلے زائد رقم وصول کرنا بھی حلال نہیں جیسا کہ حدیث ابی ہریرہؓ سے واضح ہے ۔
تیسری دلیل :
عقلی قیاس بیع تقسیط مروجہ کے حلال ہونے کا تقاضا کرتا ہے ، اس لئے کہ تاجر کو پورا اختیار ہے کہ وہ اپنی چیز کی جتنی چاہے قیمت مقرر کر سکتا ہے کبھی وہ کسی خریدار کو ایک چیز تھوڑی قیمت میں دے دیتا ہے اور وہی چیز دوسرے خریدار کو زیادہ قیمت میں فروخت کر دیتا ہے جب یہ اس کے لئے جائز ہے تو پھر یہ بھی جائز ہے کہ جو خریدار اُسے قیمت ( دیر سے ) لیٹ ادا کرتا ہے وہ اس سے زیادہ قیمت وصول کرے اور جو اسے نقد دیتا ہے وہ اس سے کم قیمت وصول کرے ۔
تجزیہ :
جو لوگ اس قیاس کو عقلی کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں ، یہ ایسے لوگوں کی عقل کے اعتبار سے تو جائز ہے جن کی عقل شریعت کی پابند نہیں بلکہ شرع پر حاکم بنی بیٹھی ہے لیکن جن کی عقل شریعت کی پابند ہے ان کے نزدیک جائز نہیں ۔ کیونکہ وہ نص کے مقابلے میں عقل سے کام نہیں لیتے ۔ یہاں تو نص موجود ہے جس کا سابقہ صفحات پر تذکرہ ہو چکا ہے ۔ ہاں تاجر کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اس قیمت کے ساتھ ادھار فروخت کرے جس کے ساتھ وہ اب نقد بیچنا چاہتا ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی آدمی کی غربت یا دوستی کی وجہ سے وہ اسے کم قیمت پر بیع دیتا ہے اور کبھی اسے روزانہ کا گاہک سمجھ کر کم قیمت پر فروخت کر دیتا ہے اور ان کے علاوہ دوسرے گاہکوں سے زیادہ قیمت وصول کر لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس بیع میں قیمت کی زیادتی اور اضافہ ادھار کی وجہ سے نہیں ہے ۔ جس بیع میں قیمت کی زیادتی صرف ادھار کی وجہ سے ہو ، وہ منع اور حرام ہے ۔ اس طرح کی بیع کی حقیقت یہ بن جاتی ہے کہ اس دکاندار یا بائع نے اس گاہک کے ساتھ قرض کا لین دین کیا ہے اور اس نے اس قرض و دین میں زیادتی اور اضافہ لیا ہے کیونکہ اسے اس پر کچھ صبر بھی کرنا پڑے گا چنانچہ تاجر جب خریدار سے کہے گا کہ یہ سامان ہے اگر تو اس کی قیمت اب ادا کرتا ہے تو میں تجھے ایک ہزار کا فروخت کرتا ہوں لیکن اگر تو مجھے اس کی قیمت ایک سال بعد ادا کرے گا تو میں تجھ سے ڈیڑھ ہزار روپے لوں گا تو پھر اس بیع کی حقیقت یہ بنتی ہے کہ دراصل گا ہک نے تاجر سے یہ سامان ابھی ایک ہزار روپے کے بدلے خرید لیا ہے اور اپنے قبضے میں کر لیا ہے چونکہ اب وقتی طور پر اس کے پاس ایک ہزار موجود نہیں ہے ، اب یہ ہزار اس کے ذمہ قرض ہے جو اس نے سال بعد ادا کرنا ہے اور تاجر نے اسے زبانِ حال سے یہ کہ دیا ہے کہ میں تجھے اس شرط پر ایک سال کی مہلت دیتا ہوں کہ تم مجھے پانچ سو روپے زائد بھی دو ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے یہ شخص خریدار کے ساتھ بیع کا معاملہ کرنے والا تا جر تھا ، اب تاجر سے منتقل ہو کر ہزار کے بدلے پندرہ سو وصول کر کے سودی معاملہ کرنے والا بن گیا ہے اور یہی بعینہ سود ہے ۔ معلوم ہوا کہ ان کا یہ قیاس باطل ہے ۔
صحیح عقلی قیاس یہ ہے کہ ادھار کی شکل میں نقد کی قیمت سے زیادہ وصول کرنا ہی زیادتی اور اضافہ ہے جو سودی لین دین والا کرتا ہے ۔ جو اس کے رأس المال ( اصل سرمائے ) سے زائد ہوتا ہے ۔
چوتھی دلیل :
نقد سے زیادہ قیمت کے ساتھ ادھار کی یہ بیع ، بیع سلم ہی ہے اس لئے کہ یہ ادھار کی بیع ، بیع سلم کا عکس ہے کیونکہ بیع سلم میں قیمت پہلے دی جاتی ہے اور سامان بعد میں وصول کیا جاتا ہے اور ادھار کی بیع میں سامان پہلے دیا جاتا ہے اور رقم بعد میں وصول کی جاتی ہے لہٰذا یہ بھی جائز ہے ۔
تجزیہ :
یہ قول بھی فاسد ہے اور باطل قیاس ہے ۔ اس کے باطل ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بیع سلم یا بیع سلف کے مباح ہونے کی واضح دلیل موجود ہے جب کہ اس ادھار والی بیع کی حرمت کی واضح دلیل موجود ہے تو جسے شرع نے حرام کیا ہو ، وہ اس طرح کیسے ہو سکتی ہے جسے شرع نے حلال کیا ہو؟ جس چیز کی حلت پر نص شرعی موجود ہو ، اس پر اسے کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے جس کی حرمت پر نص موجود ہو؟
ادھار والی اس مروجہ بیع کی حرمت پر حدیث ابی هریرہؓ ( ( من باع بيعتين في بيعة فله أو كسهما أو الربا ) ) موجود ہے اور علماء وفقہاء اور محدثین کی ایک کثیر جماعت نے اس کا مطلب نقد اور ادھار میں قیمت کے فرق کے ساتھ بیع ( خرید و فروخت ) بیان کیا ہے جو سابقہ صفحات پر گزر چکا ہے اور بیع سلم کی حلت میں عبد اللہ بن عباسؓ کی حدیث ہے کہ نبی ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تھے تو اس وقت مدینہ والے سال ، دو سال تک بیع سلم کیا کرتے تھے ۔ یہ دیکھ کر نبی ﷺ نے انھیں فرمایا تھا :
( ( من أسلف في شيءٍ ففي كيل معلوم و وزن معلوم إلى أجل معلوم ) )
جو شخص بھی بیع سلم کرے تو وہ ایک معین مدت تک معین ماپ اور معین وزن ہی میں کرسکتا ہے ۔
( بخاری : ۲۲۴۰ )
لہٰذا جو چیز نص اور دلیل سے حرام ہو اسے ایسی چیز پر قیاس نہیں کیا جاسکتا جو نص اور دلیل سے حلال ہو کیونکہ نص کی موجودگی میں قیاس باطل ہے اور ایک وجہ یہ ہے کہ بیع سلم ، بیع کے عام قاعدے سے مستثنیٰ اور مخصوص ہے اور جو چیز خود کسی عام قاعدے سے مخصوص ہو ، اس پر قیاس کرنا جائز نہیں ہوتا اور بیع میں عام قاعدہ یہی ہے کہ معدوم ( غیر موجود ) شے کی بیع درست نہیں ہے اور بیع سلم کو اس قاعدے سے مستثنیٰ کیا گیا ہے دیکھئے :
الوجيز في أصول الفقه
( ص۵۲ ، از عبد الکریم زیدان )
" جب اصل ( مقیس علیہ ) کسی عام قاعدے سے مستثنی ہو تو اس پر کسی چیز کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔ "
( الوجیز ص ۱۹۹ )
بیع مسلم پر اس بیع اجل ( ادھار کی بیع ) کو اس لئے بھی قیاس کرنا درست نہیں ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے ۔ بیع الاجل میں جو زیادہ قیمت لی جاتی ہے وہ صرف ادھار کی وجہ سے ہے جو عین سود ہے ۔ جب کہ بیع سلم میں مدت اور ادھار کی وجہ سے پھلوں کی اصل قیمت سے زائد کچھ بھی وصول نہیں کیا جاتا ، لہٰذا دونوں میں فرق واضح ہے اور معترضین کا قیاس ، قیاس مع الفارق اور باطل ہے ۔
پانچویں دلیل :
قسطوں والی مروجہ بیع کو جائز کہنے والوں نے آیت مدینہ سے بھی استدلال کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَينِ إِلَى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ﴾
اے ایمان والو ! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے قرض کا معاملہ مقرر و معین مدت تک کرو تو اسے لکھ لو ۔
( البقرہ : ۲۸۲ )
ان کا کہنا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقرر و عین مدت تک قرض کا معاملہ کیا جاسکتا ہے اور قسطوں والی بیع بھی مقررہ مدت تک قرض کا معاملہ ہے لہٰذا یہ جائز ٹھہرا ۔
تجزیہ :
اس آیت کریمہ کا ادھار والی مروجہ بیع سے نہ قریب کا تعلق ہے اور نہ ہی دور کا ۔ اس میں صرف قرض لکھنے ، اس پر گواہ مقرر کرنے کا حکم ہے ۔
اس میں یہ بات موجود نہیں کہ ادھار کے بدلے زیادہ قیمت وصول کر سکتے ہو لہٰذا اس آیت سے یہ مسئلہ کشید کرنا محض سینہ زوری ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
چھٹی دلیل :
ان لوگوں کا چھٹا استدلال یہ ہے کہ نبی ﷺ نے خود ادھار والی بیع کی ہے ۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں :
رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے اُدھار اناج خریدا تھا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی تھی ۔
( صحیح بخاری : ۲۰۶۸ صحیح مسلم : ۱۲۰۳ )
تجزیہ :
یہ بات تو درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے ادھار غلہ خریدا تھا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی تھی جیسا کہ صحیح بخاری کتاب الرہن میں موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس حدیث میں یا اس طرح کی کسی دوسری حدیث میں یہ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس یہودی کو وقتی قیمت سے زیادہ قیمت دے کر ادھار سودا لیا تھا؟
جو شخص اس بات کا مدعی ہے وہ دلیل پیش کرے بصورت دیگر وہ رسول اللہ ﷺ کے ذمے ایسا کام لگا رہا ہے جو آپ نے نہیں کیا ۔
ساتویں دلیل :
رسول اللہ ﷺ نے دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ اُدھار خریدا ۔ آپ ﷺ نے عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کو حکم دیا تھا کہ صدقے کے اونٹوں کے بدلے اونٹ لے ۔ انھوں نے دو دو اور تین تین اونٹنیوں کے بدلے ایک ایک اونٹ اُدھار لیا لہٰذا اُدھار کے بدلے اضافہ ہوسکتا ہے ۔
( ابوداود : ۳۳۵۷ ، مسند احمد۲ / ا۱۷ ، واسنادہ ضعیف )
تجزیہ :
یہ حدیث مسند احمد سنن ابی داود اورسنن دارقطنی ( ۶۹٫۳ ح ۳۰۳۳ وسندہ حسن ) میں موجود ہے ۔ مکمل حدیث اس طرح ہے کہ سید نا عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں :
رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں ان اونٹوں پر سوار کر کے ایک لشکر روانہ کروں جو میرے پاس تھے ، چنانچہ میں نے اپنے اونٹوں پر لشکر کو سوار کیا حتی کہ اونٹ ختم ہو گئے اور لشکر کے کچھ مجاہدین بچ گئے ، ان کے لئے کوئی سواری نہ تھی ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ بعض لوگ بچ گئے ہیں ، ان کے لئے کوئی سواری نہیں بچی ۔ آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ صدقہ کے اونٹوں کے بدلے میں لوگوں سے ادھار اونٹ خرید لو تا کہ لشکر تیار ہو جائے اور جب صدقہ کے اونٹ آئیں گے تو ہم انھیں وہ اونٹنیاں دے دیں گے جو طے کی ہیں تا کہ تم اس لشکر کو تیار کر کے روانہ کر دو ۔
عبد اللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں :
میں لوگوں سے صدقے کے دو دو اور تین تین اونٹنیوں کے بدلے ایک ایک اونٹ لینے لگا ، اس شرط پر کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے تو ہم آپ کا دین واپس کر دیں گے حتی کہ وہ لشکر میں نے تیار کر کے روانہ کر دیا ۔ جب صدقے کے اونٹ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں وہ اونٹنیاں ادا کر دیں ۔
یاد رہے کہ یہ بیع حیوانوں کے ساتھ خاص ہے کیونکہ نص اور دلیل صرف حیوان کی بیع کے متعلق وارد ہوئی ہے ، اس سے عام قاعدہ اور ضابطہ اخذ نہیں کیا جاسکتا جس سے رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ بات کی تردید کی جائے اور وہ یہی ہے کہ ایک جنس کی دو چیزوں میں ایک طرف سے زائد وصول کر کے بیع کرنا جائز نہیں اور جو لوگ عبد اللہ بن عمرؓ کی اس حدیث سے ادھار کی وجہ سے ہر طرح کی زیادتی وصول کرنے پر جواز کا استدلال کرتے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں کیونکہ ان کا قیاس ایسی جگہ پر ہے جہاں قیاس کی گنجائش ہی نہیں ورنہ تو ایک دینار کے بدلے میں دو دیناروں کی بیع ادھار جائز ٹھہرے گی ، اسی طرح ایک من گندم کی بیع دو من گندم کے ساتھ ادھار بھی جائز ہوگی وغیرہ ، حالانکہ اس کی حرمت پر اتفاق ہے ۔ پھر یہ بھی یادر ہے کہ ایک اونٹ کی دو اونٹوں کے بدلے بیع میں یہ شرط نہیں ہے کہ یہ بیع دو اونٹوں کے ایک اونٹ سے افضل ہونے کی وجہ سے ہے بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک اکیلا اونٹ دو اونٹوں سے بہتر ہوتا ہے جیسا کہ امام بخاری نے عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ " قد يكون البعير خيراً من البعيرین " کبھی ایک اونٹ دو اونٹوں سے بہتر ہوتا ہے ۔
( بخاری قبل حدیث : ۲۲۲۸ )
بہر حال مذکورہ حدیث حیوان کے ساتھ ایک طرف سے زیادتی کی ادھار بیع کے ساتھ ہی خاص ہے عام قاعدہ نہیں ہے ورنہ ایک جنس کی دو چیزوں کی آپس میں بیع کمی بیشی کے ساتھ جائز ٹھہرے گی جس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے ۔ یہ بھی واضح رہے کہ ابو داود اور مسند احمد کی مرفوع روایت سند ضعیف ہے اور سید نا عبد اللہؓ کا دو کے بدلے ایک اونٹ لینا موقوفاً ذاتی عمل ہے نہ کہ مرفوعاً ۔
و اللہ اعلم
آٹھویں دلیل
زیادہ قیمت کے ساتھ ادھار فروخت کرنے میں عوام الناس کے لئے آسانی ہے اور شریعت کے بہت سارے امور کا مدار آسانی پر ہے ۔ غریب لوگ جو ضروریات زندگی کی اشیاء یکمشت قیمت ادا کر کے نہیں خرید سکتے ، وہ قسطوں کی صورت میں آسانی سے خرید سکتے ہیں اور دکاندار کو چونکہ قسطوں کی صورت میں لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے ، اس لئے وہ اس کے بدلے میں زیادہ قیمت وصول کر کے فائدہ اٹھا لیتا ہے اس طرح تاجر اور خریدار دونوں کو فائدہ پہنچ جاتا ہے ۔
تجزیہ :
قسطوں کے کاروبارکو جواز فراہم کرنے کے لئے جو دلیل ذکر کی گئی ہے یہ دلیل وہ لوگ بھی دیتے ہیں جو خالص سودی کاروبار کرتے ہیں ۔ جو شخص سود پر کسی سے قرض لیتا ہے وہ بھی اس مال یا جائیداد اور خرچ کرنے یا سرمایہ کاری کی صورت میں فائدہ اٹھا رہا ہے پھر جب اسے آسانی ہوتی ہے ، اس وقت وہ اصل سے کچھ زائد رقم دے کر جس سے قرض لیا ہوتا ہے اسے فائدہ پہنچا دیتا ہے ، اس طرح قرض دینے والے اور لینے والے دونوں فائدہ حاصل کر لیتے ہیں ، لہٰذا یہ سود بھی جائز ٹھہرا ۔ !
( العیاذ باللہ )
ثابت ہوا کہ اُدھار کے بدلے زائد رقم وصول کرنے والوں کی دلیل سودی کاروبار پر بھی فٹ ہورہی ہے اور سود خور یہ دلیل پیش کر کے سودی کاروبار چلا رہے ہیں ۔ اگر یہ لوگ واقعتاً آسانی کرنا چاہتے ہیں تو ادھار کے بدلے زائد رقم وصول کئے بغیر بھی آسانی کر سکتے ہیں اور سود سے بھی بچ سکتے ہیں ۔ کسی چیز کو قسطوں پر دینے میں خریدار پر آسانی ہے لیکن اگر ساتھ زیادہ قیمت لگا ئیں گے تو تنگی بھی ہوگی اور سود بھی وصول ہوگا تو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مہلت کیوں نہیں دیتا اور انتظار کیوں نہیں کرتا تا کہ شرعی حقیقی آسانی ہو جس کی اسلام نے ترغیب دی ہے اور اس پر اجر و ثواب بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
( وَانْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ )
اگر تنگ دست ہو تو آسانی تک اسے مہلت دینا ہے ۔
( البقرۃ : ۲۸۰ )
اور مروجہ ادھار بیع روح اسلام کے خلاف ہے اور ایسے تاجروں سے لوگ اپنی مجبوری کی وجہ سے اشیاء خریدتے ہیں ، اگر انھیں ایسا تاجرمل جائے جو ادھار کے بدلے زائد قیمت وصول نہ کرتا ہو تو لوگ اس سے اشیاء خریدیں گے ، ادھار کے بدلے زائد رقم وصول کرنے والوں سے قطعاً سودا نہیں خریدیں گے ۔ اس سے اس کے مال میں اضافہ بھی ہوگا ، تجارت بڑھے گی اور لوگوں پر مہلت کی آسانی کرنے پر اللہ تعالیٰ راضی ہوگا اور جس تاجر کا جتنا مال زیادہ فروخت ہوتا ہے ، اسے اتنازیادہ نفع ملتا ہے اور اللہ کی رضا اس پر مستزاد ہے ۔
یہ بھی یادر ہے کہ اگر لوگوں کی حاجت اور ضرورت کی بنا پر حلت وحرمت کی بنیا درکھی جائے تو پھر شرع میں ہر حرام کے حلال ہونے کی بھی لوگ دلیل یں بنالیں گے ۔
اصل تو یہ ہے کہ شریعت نے جس چیز کو حلال بنایا وہ حلال ہے اور جسے حرام قرار دیا وہ حرام ہے ۔ لوگوں کی حاجات اور ضروریات کو حلال و حرام میں دخل نہیں ہے اور مروجہ قسطوں کی بیع ، بیوع محرمہ میں داخل ہے اور رفع حرج اور ارادہ کیسر کا قاعدہ اس پر فٹ نہیں ہوتا ۔
جو لوگ نقد قیمت ادا کر کے سامان خریدنے کی ہمت نہیں رکھتے اور جو ہمت رکھتے ہیں دونوں کو حلال پر اکتفا کرنا چاہئے اور حرام سے اجتناب کرنا چاہئے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
( وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا )
جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ اس کے لئے نکلنے کی کوئی راہ پیدا کر دیتا ہے ۔
( الطلاق : ۲ )
اور فرمایا :
﴿وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ﴾
اور اسے وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا ۔
( الطلاق : ۳ )
نیز فرمایا :
﴿وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾
اور جو اللہ پر توکل کرتا ہے ، وہ اسے کافی ہے ۔
( الطلاق : ۳ )
نویں دلیل :
اُدھار مال دینے والا اپنے مال کو خطرے میں ڈالنے والا ہے کیونکہ اسے مکمل طور پر یقین نہیں ہوتا کہ اُدھار لینے والا اسے وہ قرض واپس بھی کرے گا یا نہیں اور جتنی مہلت لمبی ہو گی ، اتنا ہی خطرہ بڑھتا چلا جائے گا لہٰذا ایسا دکاندار یا تاجر اس خطرے کو برداشت کرنے کی وجہ سے اُدھار کے بدلے زائد رقم وصول کرے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
تجزیہ :
اس دلیل کے باطل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سود پر قرض دینے والے بھی بعینہ یہی دلیل دیتے ہیں اور اس دلیل کی بنا پر تو سود بھی جائز ٹھہرتا ہے ۔
حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ وہ تاجر جو ادھار کی وجہ سے قیمت میں زیادتی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ چیز نقد تو سوروپے کی ہے اور اُدھار ایک سو دس روپے کی اور خریدار کو اس نے مثلاً سال کی مہلت دے دی تو اس نے حقیقت میں تمھیں وہ چیز سوروپے کی فروخت کی ہے اور خریدار کے ذمے اس کے سوروپے ثابت ہو گئے ، جب خریدار بعد میں اسے ایک سودس روپے دے تو گویا دکاندار نے اس کے سوروپے کے بدلے میں اسے ایک سو دس روپے دیئے ہیں جوصریحا سود ہے ۔
خلاصہ یہ نکلا کہ انظار اور مہلت کی وجہ سے مال کو خطرے میں ڈالنے والی دلیل بالکل بودی اور سود خوروں کو سود کا جواز فراہم کرنے والی ہے ۔
دسویں دلیل :
جمہور علماء نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے ۔
تجزیہ :
گیارہویں دلیل :
بعض لوگ جب کوئی دلیل بیع تقسیط کے جواز کی نہیں پاتے تو کہہ دیتے ہیں کہ ( ( من باع بيعتين في بيعة فله أو كسهما أو الربا ) ) والى حديث ضعیف وشاذ ہے اور اس سے استدلال درست نہیں ہے ۔
تجزیہ :
الفصل في بيع الأجل " اس مسئلہ میں بہت مفید اور اس باب میں یکتا ہے تو اس کی تلاش میں فضیلۃ الشیخ عبد الرحمٰن ضیاء صاحب حفظہ اللہ سے جامعہ ابن تیمیہ لاہور میں ملاقات ہوئی ، انھوں نے بتایا کہ یہ رسالہ ان کے پاس موجود ہے بلکہ انھوں نے اس کے اکثر حصے کا اُردو میں ترجمہ بھی کر دیا ہے اور شفقت فرماتے ہوئے یہ رسالہ اور اس کا ترجمہ عنایت فرمایا لہٰذا اس بحث کا اکثر حصہ اسی رسالے سے ماخوذ ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی حسنات میں اضافہ کرے اور سیئات سے درگز رفرمائے ۔ آمین اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ راقم الحروف کو ایسے جید باعمل علمائے کرام سے کما حقہ فائدہ اُٹھانے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین ۔
https://tohed.com/%d9%82%d8%b3%d8%b7%d9%88%da%ba-%da%a9%d8%a7-%d9%85%d8%b1%d9%88%d8%ac%db%81-%da%a9%d8%a7%d8%b1%d9%88%d8%a8%d8%a7%d8%b1-%d8%b4%d8%b1%db%8c%d8%b9%d8%aa-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%b8%d8%b1-%d9%85%db%8c%da%ba/
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 8
کیا قسطوں پر قیمت بڑھا کر خرید و فروخت کرنا جائز ہے؟
سوال : کیا قسطوں پر ریٹ بڑھا کر خرید و فروخت کرنا جائز ہے؟
جواب :
الحمدللہ ... ! !
*قسطوں پر خرید و فروخت جائز ہے ، بشرط یہ کہ چیز کی جو قیمت نقد مارکیٹ میں ہے قسطوں پر بھی اسی قیمت میں خرید و فروخت ہو ۔ اور اگر قسطوں کی وجہ سے چیز کی قیمت اس کی نقد مارکیٹ قیمت سے بڑھا دی جائے تو یہ نا جائز اور حرام ہے ۔ کیونکہ یہ سود کی پھیلی ہوئی بے شمار صورتوں میں سے ایک صورت ہے*
📚ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ،
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ .
رسول ﷺ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ،
( سنن ترمذی ، حدیث نمبر_1231 / حدیث صحیح )
مزید ایک حدیث میں اسکی وضاحت اس طرح فرمائی ،
📚ابو ہریرہ ؓ راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا
جس شخص نے ایک چیز میں دو قیمتیں مقرر كیں تو اس کے لئے ان میں سے کم قیمت والی بیع ( جائز ) ہے یا پھر اس کے لئے سود ہے ،
( سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر - 3461حدیث حسن ہے )
( سلسلہ صحیحہ حدیث نمبر - 2614 )
( ارواء الغلیل ، حدیث نمبر - 1295 )
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں ،
📚نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة ،
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع فرمایا ہے ،
( مسند احمد ، ج8 / ص383 ، حدیث نمبر - 3783 )
📚حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں
( کہ ایک سودے میں دو سودوں کا مطلب یہ ہے ) کہ انسان یہ کہے :
وإن کان ب نقد فبكذا وإن كان بنسيئة فبكذا ،
یہ چیز نقد ہو تو اتنے کی اور اگر ادھار ہو تو اتنے کی ،
( مصنف ابن ابی شیبہ ، ج4 / ص307 ،
حدیث نمبر - 20454 )
📚اسی طرح اوپر ذکر کردہ ابو داؤد والی حدیث کے ایک راوی سماک بن حرب ؒ ( تابعی ) ایک بیع میں دو بیعیں کرنے کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آدمی کوئی چیز فروخت کرتا ہے اور وہ خریدار سے کہتا ہے کہ نقد لو گے تو اتنے کی اور اگر ادھار ( قسطوں پر ) لو گے تو اتنے کی ،
📒عام شارحینِ حدیث آئمہ نے اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے جن میں ،
امام ابن قتیبہ ، امام ابن سیرین ، امام ابن الاثیر ، امام نسائی ، امام ابن حبان ؒ اور ان کے علاوہ کئی آئمہ شامل ہیں ۔
📒کچھ علماء جن میں عرب کے مفتیان بھی شامل ہیں قسطوں پر قیمت بڑھانے کو جائز کہتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ جس حدیث میں دو قیمتوں سے منع کہا گیا ہے وہ انکے لئے ہے جو قیمت مقرر نہ کریں ، یعنی بیچنے والے نے جب خریدار سے کہا کہ نقد کی قیمت یہ اور قسطوں پر یہ ہے اور خریدار اس چیز کو لے گیا اور یہ نہ بتایا کہ میں نقد لے جا رہا ہوں یا قسطوں پر تو اس جہالت کی بنا پر یہ بیع حرام ہے ۔
اور اگر خریدار بتا دیتا کہ میں نے نقد مثلاً 100 روپے کی لی ہے یا قسطوں پر 150کی تو پھر یہ بیع صحیح ہوئی ۔ )
*یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے ، بعض علماء جو اسے جائز کہتے کہ اگر شروع میں قیمت متعین کر لی جائے تو پھر جائز ہو گا ، ان علماء کی بات رسول اللہ ﷺ کے صریح فرمان کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے ، *
📒کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صاف واضح فرمان ہے کہ ایک چیز کی دو قیمتیں لگانا درست نہیں ، اور اگر ادھار میں زیادہ قیمت لگائی تو وہ سود ہے ، اس حدیث میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ اگر خریدتے وقت قیمت مقرر کر لی جائے یا اگر خریدنے والا خوشی سے ادھار پر زیادہ پیسوں میں خرید لے تو یہ جائز ہو گا ،
📒اگر صاف واضح حدیث نہ بھی ہوتی تو بھی ایسی تجارت حرام ہے کیونکہ یہ سودی کاروبار ہی ہے ، پیسوں پر سود بھی وقت اور مہلت کا لیا جاتا اور چیزوں پر اضافی پیسے بھی مدت اور مہلت کے لئے جاتے جو کہ سود ہے ۔ ۔ ! !
*خلاصہ یہ ہوا کہ پہلی حدیث سے یہ بات سمجھ آئی کہ ایک ہی چیز کے دو ریٹ لگانا جائز نہیں اور دوسری میں مزید وضاحت آ گئ کہ اگر دو ریٹ لگانے بھی ہیں تو جو ادھار والا دوسرا ریٹ ہے وہ نقد ریٹ سے کم لگایا جائے ، اگر نقد قیمت کم رکھی جائے اور ادھار پر قیمت بڑھا دی جائے تو یہ سود ہو جائے گا ، اور ادھار کی صورت میں اضافی رقم اصل میں مدت کا معاوضہ ہے اور مدت کا معاوضہ لینا سود ہے ، اور پھر قسطوں کے کاروبار میں دنیاوی لحاظ سے بھی بہت ساری خرابیاں ہیں ، جس طرح سود پر قرضہ لینے والے کی مجبوری سے فائد اٹھا کر اس سے اضافی پیسے لئے جاتے اسی طرح قسطوں کا لالچ دے کر غریب آدمی کے پیسے برباد کئے جاتے ، جس طرح سودی کاروبار میں امیر آدمی مزید امیر اور غریب آدمی مزید غریب اور قرضوں میں ڈوب رہا اسی طرح قسطوں کے کاروبار میں بھی یہی کچھ ہو رہا ، نبی ﷺ نے بلا وجہ قرض لینے سے بچنے کی طرف رغبت دلائی ہے ، کیونکہ قرضے سے بہت سارے فتنے جنم لیتے ہیں ، کبھی قرض لینے والے کی نیت بدل جاتی ہے کبھی قرض دینے والا زیادتی کرتا ہے ، نتیجہ لڑائی جھگڑے اور قطع تعلقی کی صورت میں نکلتا ہے ، جب کہ ان قسطوں والوں نے ہر تیسرے شخص کو قرض کی دلدل میں دھنسا دیا ہے جسکا اکثر و بیشتر نتیجہ بھی لڑائی جھگڑا ، لوٹ مار اور فریب ہی کی صورت میں نکلتا ہے ، *
*شریعت واضح حرام سے بچنے کے ساتھ ساتھ مشتبہات سے بچنے کا بھی حکم دیتی ہے ، تو جس چیز میں شک ہو کہ وہ حلال ہے یا حرام تو اس چیز کو جائز کہنا کیسے ٹھیک ہو سکتا؟*
📚رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح کرلیا ہے ، اور ان كےدرمیان كچھ شبہے والی چیزیں ہیں ، جو ان میں داخل ہو گیا تو قریب ہے كہ وہ گناہ كر لے اور جو ان شبہے والی چیزوں سے بچ گیا تو اس نے اپنے آپ کو كو محفوظ کرلیا ، مثال اس چرواہے کی طرح ہے جسکی بکریاں چراگاہ كے ارد گرد چر رہی ہیں قریب ہے كہ وہ بکریاں بھاگ کر اس ممنوعہ چراگاہ میں داخل ہو جائیں ،
ہر بادشاہ كی ایک چراگاہ ہے اور اللہ كی چراگاہ حرام كر دہ چیزیں ہیں ۔
( مسند احمد ، حدیث نمبر - 18384 )
( سلسلہ حدیث الصحیحہ ، 128 )
( ( ( و اللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ) ) )
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 9
نقد اور ادھار یا قسطوں پر بیع کی الگ الگ قیمت کا شرعی حکم
محمد ضیاء الحق تیمی
دی فری لانسر
آنلائین مطالعہ لنک :
پی ڈی یف لنک
خلاصہ مضمون
جواز کا حکم راجح ہے
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 10
قسطوں کے کاروبار کا شرعی حکم
الشیخ ڈاکٹر حافظ محمد یونس اثری حفظہ اللہ
اہل علم کا قسطوں کے کاروبارکی صحت میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔
اور جو جمہور اہل علم کا مؤقف معلوم ہوتا ہے وہ یہی کہ قسطوں کا کاروبار جائز ہے اور ضرورت کا تقاضہ بھی یہی ہے ۔ جس طرح خریدار کو یہ اختیار ہے کہ وہ چیز کی نقد قیمت ادا کرے یا رضامندی سے ایک مقررہ وقت تک اسے مؤخر کر لے ۔ اسی طرح عمومی دلائل کی بناء پر فروخت کنندہ کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ ایک معقول حد تک وجوہات کی بنا پر قیمت بڑھاسکتا ہے ۔ البتہ قیمت کا یہ اضافہ مجبوری کا فائدہ اٹھانے اورظلم و زیادتی پر مبنی نہیں ہونی چاہئے ۔
قسطوں کے کاروبار کے جواز کے دلائل
1 معاملات میں اصل حلال ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ ۔
المائدة – 01
" اے ایمان والو ! عہد و پیمان پورے کرو " ۔
اور قیمت کی زیادتی تاخیر کی وجہ سے ہے لہٰذا اس معاملے میں تاجر اور خریدار دونوں کی مصلحت ہے ، تاجر کی مصلحت قیمت زیادہ لینے میں اورخریدار کی مصلحت اس میں ہے کہ اس کو مطلوبہ چیز ماہانہ اقساط پر دستیاب ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ اس معاملے کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ملتی لہذا اصل کی بنیاد پر اس پر حلال کا حکم لگے گا ۔
2 شریعت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ معاہدوںمیں شروط و قیود لگانا جائز ہے بشرط یہ کہ وہ شریعت کے مخالف نہ ہوں ، تو جب فریقین اس شرط پر اتفاق کر لیں کہ قیمت قسطوں میں ادا کی جائے گی تومذکورہ اصول کی بنیاد پر اس کا حکم جواز کا ہے ، جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ
المائدة – 01
" اے ایمان والو ! عہد و پیمان پورے کرو " ۔
3 عدل کا تقاضہ بھی یہی ہے اس لئے کہ تاجر کو اس کی چیز کی قیمت اور اس سے حاصل ہونے والا فائدہ بعد میں ملا ، لہٰذا تاخیر کے نقصان کے پیش نظر اس کے لئے قیمت میں اضافہ جائز ہے ۔
4 بیع سلم پر قیاس بھی اس امر کے جواز کا متقاضی ہے ۔ ۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں :
" قدم رسول اللہ ﷺ المدينة وهم يسلفون في التمر السنة والسنتين والثلاثة فقال رسول الله ﷺ من أسلف في شيءٍ ففي كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم "
" رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہل مدینہ پھلوں میں بیع سلم کیا کرتے تھے ایک سال ، دو سال ، تین سال کی مدت کے لئے پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص پھلوں میں بیع سلف کرے تو اسے چاہئے کہ متعین پیمانہ ، متعین وزن اور متعین مدت کے ساتھ بیع سلف کرے " ۔ [ 3 ]
سلم سے مراد : " یہ کہ قیمت پیشگی ادا کر دینا اور چیز ایک مدت کے بعد حاصل کرنا ہے " ۔
اس میں عموماً چیز بڑھا کر اد ا کی جاتی ہے کیونکہ سلف کا معاملہ کرنے والا قیمت پیشگی ادا کرتا ہے اور سامان ایک مدت کے بعد لیتا ہے ، اورعام طور پر ان چیزوں کی قیمت سستی ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی بھی زیادہ کی صورت میں ہوتی ہےبنسبت اس قیمت کے جو بوقت عقد مقرر ہوتی ہے ۔
5 بیع کی بنیادہی بڑھوتری پر مبنی ہے جب کہ قرض کی بنیاد تعاون ہے ۔ اسی لئے قرض میں زیادہ وصول کرنا اسےتعاون کے دائرہ کار سے خارج کر دیتا ہے کہ جس کی بنیاد پر قرض کو جائزکیا گیا ہے ۔
تنبیہ :
تاخیر کی بنیاد پرقسطوں کی رقم میں اضافہ کی شرط کا حکم : جب کوئی کہے کہ میں تمھیں یہ گاڑی دس ہزار ریال میں بیچتا ہوںاس شرط پرکہ اگر طے شدہ مدت میں ادائیگی نہ کی تو ایک مہینہ کی تاخیرکی صورت میں ایک سو ریال اضافی وصول کروں گا اور دو مہینے کی تاخیر کی صورت میں دو سو ریال ، اور اسی طرح جیسے جیسے تاخیر ہوتی گئی قیمت بڑھتی رہے گی ۔ یہ معاملہ اور بیع حرام ہے ، جائز نہیں ہے اس لئے کہ یہ ( بعینہ ) جاہلیت والا سود ہے ۔
فقہ اسلامی اکیڈمی کی قسطوں کے کاروبار کے حوالے سے قرار داد
مجلس مجمع الفقه الاسلامی کاجدہ سعودی عرب میں منعقدہ چھٹے اجلاس جو بمطابق 17 تا 23 شعبان 1410ہجری موافق 14 تا 20 مارچ منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں قسطوں کے کاروبار کے حوالے سے پیش کردہ مقالہ جات سننے اور ان کا جائزہ لینے کے بعد جو قرارداد طے پائی وہ درج ذیل ہے ۔
1 نقد کی بنسبت ادھار ( قسطوں ) کی بیع پر قیمت بڑھانا جائز ہے جس طرح فروخت کی جانے والی چیز کی نقد قیمت بتانا جائزہے اسی طرح معینہ مدت کی اقساط میں ادائیگی کی قیمت بتانا بھی جائز ہے ۔ البتہ یہ بیع اس وقت صحیح ہو گی جب خریدار اور فروخت کنندہ دونوں یقینی طور پر نقد اور ادھار ( میں سے کسی ایک ) کا سودا کرنے میں سنجیدہ ہوں ۔ اور اگر یہ سودا نقد و ادھار میں تردد کے ساتھ واقع ہو کہ کسی ایک قیمت پر یقینی اتفاق نہیں ہوا تو یہ شرعا جائز نہیں ہے ۔
2 مدت سے مربوط کسی بھی قسم کی بیع میں شرعا یہ جائز نہیں کہ اس معاہدے میں حالیہ قیمت سے قسطوں کے منافع کا الگ سے ذکر کیا جائے جوکہ وقت سے مربوط ہو ۔ چاہے فریقین اس منافع کو فیصدی طور پر اتفاق کریں یا اسے مارکیٹ ریٹ سے مربوط کریں ۔ [ 4 ]
3 خریدار اگر قسطوں کی ادائیگی میں طے شدہ وقت سے تاخیر کرے ۔ تو ایسی صورت میں اس کی قسطوں کی رقم کو کسی صورت بڑھایا نہ جائے گا نہ ہی کسی سابقہ شرط کی صورت میں یا بغیر شرط کے کیونکہ یہ حرام کردہ سود ہے ۔
4 ایسا مقروض جو ادائیگی کرسکتا ہے اس پر ادائیگی میں سستی کرنا حرام ہے لیکن اس کے باوجود ادائیگی میں تاخیر پر اس پر کوئی مالی جرمانہ نہیں لگایا جائے گا ۔
5 بائع کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ خریدار کی طرف سے چند اقساط کی تاخیر سے ادائیگی کے سبب دیگر اقساط کی مدت مختصر کردے ( یعنی وہ قسطیں مقررہ وقت سے پہلے وصول کرے ) بشرط یہ کہ قرضدار نے بوقت عقد اس شرط پر اتفاق کیا ہو ۔
6 فروخت کنندہ کو معاہدہ کے بعد ملکیت رکھنے کا حق حاصل نہیں البتہ اس کے لئے یہ جائز ہے کہ مشتری پر سامان کے بطور ضمانت گروی رکھنے کی شرط لگا دے تاکہ اس کی تمام اقساط ادا ہوجائیں ۔ [ 5 ]
شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز ؒ سے پوچھا گیا کہ : جب کسی آدمی کے پاس کوئی سامان ہو اور خریدار اس شخص سے وہ سامان نقد کے بجائے ادھار میں زیادہ قیمت ادا کرکے خریدنا چاہےتو اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟
انہوں نے جواب دیا :
" اکثر علماء کے نزدیک یہ جائز ہے اس فرمان الہی کی روسے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ
البقرة 282
" اے ایمان والو جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقررہ پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور لکھنے والے کو چاہئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے " ۔
اللہ تعالی نے یہاں یہ شرط نہیں لگائی کہ یہ قرض کا معاملہ بس موجودہ قیمت ہی کے ساتھ ہو ۔
اسی طرح یہ معاملہ آپ ﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے بھی جائز قرار پاتا ہے کہ جب آپ ﷺ مدینہ آئے اور مدینہ والے پھلوں میں ایک ، دو سال تک بیع سلم کرتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا :
" من أسلف في تمر فليسلف في كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم "
" جو شخص پھلوں میں بیع سلف کرے تو اسے چاہئے کہ متعین پیمانہ ، متعین وزن اور متعین مدت کے ساتھ بیع سلف کرے " ۔ [ 6 ]
اس حدیث میں نبی ﷺ نے بھی موجودہ وقت کی قید نہیں لگائی ۔ نیز امام حاکم اور بیہقی نے اسناد جید سے نقل کیا ہے عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے کہ انہیں نبی ﷺ نے حکم دیا کہ وہ ایک لشکر کو تیار کریں اس وقت اونٹ کم پڑ گئے ۔ نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ایک اونٹ کے بدلے دو اونٹ خرید لیں صدقہ کے اونٹ آنے تک ۔ اس معنی میں اور بھی دلائل بہت ہیں اس لئے کہ تجارت کا معاملہ ادھار میں صحیح نہیں رہ سکتا الا یہ کہ تاجر مقررہ قیمت سے زیادہ لے اس لئے کہ وہ سارے نقصانات کا پابند ہوتا ہے اور اس لئے کہ بائع قیمت کی زیادتی کے ذریعے ہی فائدہ حاصل کرتا ہے اورخریدار کو چھوٹ میں اور ادائیگی میں آسانی کا فائدہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ ہر ایک تو یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ اپنی ضرورت کی چیز یکمشت خرید لے اگر ادھار میں زیادتی ممنوع ہوتی تو اس سے کئی نقصانات جنم لیتے ۔ کیونکہ شریعت کاملہ مصالح کے حصول اور ان کی تکمیل کیلئے اور مفاسد کے ازالے اور ان کو کم کرنے کیلئے آئی ہے ۔ اور میں نہیں جانتا کہ اس مسئلے میں کسی نے اختلاف کیا ہو ، بلکہ علماء کے کلام میں اس کا جواز و اباحت معروف ہے ۔ اور یہ اس وقت ہے جب خرید و فروخت استعمال اور فائدے کے لئے کی جا رہی ہو ۔
مگر جب خریدار کوئی چیز اداھار میں اس لئے خریدے تاکہ اس کو نقد میں بیچ کراپنی فوری ضرورت کو پورا کر سکے ، جیسے قرض کی ادئیگی ، گھر کی تعمیر ، یا شادی وغیرہ کیلئے ، تو اگر یہ معاملہ صرف خریدار کی طرف سے ہے ( یعنی ادھار میں بیچنے والا اس معاملہ سے لا تعلق ہو ) تو اسکے جواز میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ، اور اس کا نام مسئلہ التورق اور بعض نے اس کا نام الوعدۃرکھا ہے ۔ اس معاملہ میں زیادہ راجح یہی کہ یہ جائز ہے اور یہ فتوی ہم سابقہ عمومی دلائل کی وجہ سے دیتے ہیں ، اس لئے کہ معاملات میں اصل جواز و اباحت ہے الا کہ جس کی حرام ہونے کے حوالہ سے کوئی خاص دلیل ہو ، اور ضرورت بھی اس کی متقاضی ہے اس لئے کہ ضرورت مندکو بوقت ضرورت کوئی مدد کرنے والا نہیں ملتااور نہ ہی کوئی اسے قرض کے طور پر کچھ دیتا ہے اور اس وقت اس کی ضرورت بھی سخت ہے جو اسی معاملے کا تقاضا کرتی ہے تاکہ وہ اپنی ضرورت بھی پوری کر لے جو اسکے قرض کی ادائیگی کے راستے کھول دے " [ 7 ]
وصلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آله وصحبه أجمعین
حوالہ جات
[ 1 ] استاد : فقہ اسلامی ، مدینہ یونیورسٹی ، مدینہ منورہ
[ 2 ] مدرس : معہد السلفی للتعلیم والتربیہ ، کراچی
[ 3 ] سنن ابی داؤد : کتاب لبیوع ، باب السلم فی وزن المعلوم ( صحیح )
[ 4 ] اس شرط کو مثال سے ایسے سمجھا جائے کہ بائع خریدار سے کہے کہ میں فلاں گاڑی تمہیں نقد قیمت پر دس لاکھ میں بیچوں گا اور اگر قسطوں پر لو گے تو ایک سال کیلئے دس پرسنٹ اوپر لوں گا یا مارکیٹ ویلیو کے مطابق لوں گا ۔ اس کی ممانعت کا سبب قیمت کی لاعلمی ہے ۔ جوکہ جائز نہیں ۔
[ 5 ] قرار داد نمبر : 51 ( 2 / 6 ) قسطون کے کاروبار کے حوالے سے : مجلۃ المجمع : ع6ج1ص193 اور ع7ج2ص9
[ 6 ] ابو داؤد : 68متفق على صحته
[ 7 ] فتاوی ابن باز ؒ 19 / 98
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 11
قسطوں کے کاروبار کی شرائط
فقہ حنفی کی روشنی میں
قسطوں کے کاروبار کی شرائط
فتوی نمبر : 22 - 293
قسطوں کے کاروبار کے بارے میں معلومات لینی ہیں ، ہم لوگوں کو اشیاء خرید کر دیتے ہیں جس کے اوپر ہم ایک خاص فیصد کے تحت نفع وصول کرتے ہیں ۔ نوٹ : ہم لوگوں کو نقد پیسے نہیں دیتے بلکہ کوئی چیز جو ان کی ضرورت ہو اور وہ لینا چاہتے ہوں وہ لے کر دیتے ہیں ۔ جیسے کسی نے موبائل لینا ہوجو کہ 30000 کا ہوتو ہم وہ موبائل لے کر اسے فروخت دیتے ہیں جس پر ہم اس سے ایک خاص فیصد کے لحاظ سے منافع لیتے ہیں جو منافع وہ شخص ہمیں قسطوں کی صورت میں ادا کرتا ہے ۔
( 30000×40%=42000 ( 3000قسط مہانہ )
الجواب :
قسطوں پر خرید و فروخت میں درج ذیل شرائط کا لحاظ اور رعایت کرنا ضروری ہے :
( 1 ) قسط کی رقم متعین ہو
( 2 ) مدت متعین ہو
( 3 ) معاملہ کرتے وقت یہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار کا
( 4 ) چیزکی کل قیمت متعین ہو
( 5 ) کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے جرمانہ وصول نہ کیا جائے
( 6 ) قسطوں کی جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی مشروط یا معروف نہ ہو
( 7 ) اسی طرح قسطوں پر خرید و فروخت میں یہ شرط بھی شرط فاسد ہے کہ اگر تمام قسطیں ادا نہ کیں تو فروخت کیا ہوا سامان بھی واپس لیا جائے گا اور ادا شدہ قسطیں بھی ضبط کرلی جائیں گی اگر بوقتِ عقد یہ شروط ہوں گی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا
( 8 ) جو چیز پہلے سے آپ کی ملکیت میں نہ ہو اور آپ گاہک کی فرمائش پر وہ چیز خرید کر اسے بیچیں تو پہلے سے آپس میں جو بات ہوگی اس کی حیثیت صرف وعدہ کی ہوگی آپ اس چیز کو خریدنے کے بعد اسے بیچنے اور وہ خریدنے کاپابند نہ ہوگاپھر چاہے رضامندی سے آپ دونوں معاملہ کرلیں اور اگر دونوں ایک دوسرے کے پابند سمجھے جائیں تو یہ صورت ناجائز ہے ۔
عام طور سے ان شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدو فروخت کرنا جائز ہےتاہم قسطوں کے کسی کاروبار میں مذکورہ شرائط کے علاوہ بھی ہوں تو ان کو ذکر کرکے ان کے بارے میں معلوم کرلیا جائے ۔
ہدايہ ( 2 / ٢٢ ) میں ہے :
قال ويجوز البيع بثمن حال ومؤجل إذا كان الأجل معلوما لإطلاق قوله تعالى { وأحل الله البيع } وعنه عليه الصلاة والسلام أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه ولا بد أن يكون الأجل معلوما .
الفقه الإسلامی وأدلتہ ( ٥ / ١٤٧ ) میں ہے :
أجاز الشافعية والحنفية والمالكية والحنابلة وزيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور : بيع الشيء في الحال لأجل أو بالتقسيط بأكثر من ثمنه ال نقد ي إذا كان العقد مستقلاً بهذا النحو ، ولم يكن فيه جهالة بصفقة أو بيعة من صفقتين أو بيعتين ، حتى لايكون بيعتان في بيعة .
شرح المجلہ ( ۱ / ۲٤٦ ) میں ہے :
البیع مع تأجیل ا لثمن وتقسیطه صحیح یلزم أن تکون المدّة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط .
مسائل بہشتی زیور ( 2 / 238 ) میں ہے :
مسئلہ : قسطوں پر سودا کرتے وقت عام طور سے یہ شرط ذکر کی جاتی ہے کہ اگر خریدار نے ایک یادو قسطیں بروقت ادا نہ کیں تو اس کو زائد رقم یعنی جرمانہ ادا کرنا ہوگا تو یہ شرط جائز نہیں ہے کیونکہ زائد رقم سود بنتی ہے اور سودا کرتے وقت ایسی شرط لگانے سے سودا بھی فاسد ہوجاتا ہے ۔
مسئلہ :
اسی طرح قسطوں پر خرید و فروخت میں یہ شرط کرنا کہ اگر تمام قسطیں ادا نہ کیں تو فروخت کیا ہوا سامان بھی واپس لیا جائے گا اور ادا شدہ قسطیں بھی ضبط کرلی جائیں گی یہ شرط فاسد ہے جس سے سودا بھی فاسد ہوتا ہے ۔
مسئلہ :
قسطوں پر بیع میں یہ شرط کرنا جائز ہے کہ اگر خریدار مقررہ وقت پر قسط ادا نہ کرسکا تو اس کو باقی اقساط فی الفور ادا کرنی ہوں گی ۔ اگر یہ معاملہ اس طرح ہوا ہو کہ بائع نے کہا ادھار لینے کی صورت میں قیمت دس ہزارہوگی جو ماہانہ قسطوں میں وصول کی جائے گی ۔ اس صورت میں خریدار اگر وقت سے پہلے ادائیگی کردے تو قیمت میں کچھ کمی نہ کی جائے گی ۔
فقط
و اللہ تعالی اعلم
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 12
قسطوں کا کاروبار
العلماء
سوال ( 1228 )
ایک سوال ہے قسطوں کے کاروبار کے حوالے سے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ایک چیز آپ نے خود نقد میں خریدی ہے اور آگے اپنی مرضی سے قسطوں میں فروخت کر دی ہے ، لیکن کیا گھر کے مینٹنس میں قسطوں کا کاروبار چل سکتا ہے یا نہیں ؟ مثلاً کسی کے گھر میں مینٹنس کا کام ایک لاکھ روپے کا ہے ، وہ کہتا ہے کہ یہ کام ایک لاکھ کا مجھے کرکے دے دو ، آپ مجھ سے پیسے قسطوں میں منافع سمیت وصول کرتے جائیں ، یعنی آپ مجھ سے دس ہزار یا پندرھ ہزار مہینہ وصول کرلیں ، تو کیا یہ صورت جائز ہے ؟
جواب :
جی یہ اگر قیمت طئے کر لے تو جائز ہے ، قسطوں کا کاروبار بھی جائز ہے اگر دو قیمتوں میں سے ایک قیمت طے کر لے . اس کا جواز تابعین اور آئمہ دین سے ثابت ہے ، بعض اہل علم نے اس کے جواز پر علماء کا اتفاق نقل کیا ہے
مزید تفصیل کے لئے یہ لنک دیکھیے
YouTube Link :
سائل : شیخ محترم سوال کرنے والے نے بیان کیا ہے ٹھیکہ ایک لاکھ کا ہے ، لیکن پیسے قسطوں میں ادا کرے گا اور اس حالت میں وہ اسے لاکھ کی جگہ ڈیڑھ لاکھ ادا کر دے گا تو یہ کیسے جائز ہوا ہے ، جب کہ ابو داؤد میں غالباً حدیث ہے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا سود صرف ادھار میں ہے ۔
جواب :
اگر اس طرح طئے ہو کہ یہ ٹھیکہ نقد ایک لاکھ کا ہے اور ادھار ڈیڑھ لاکھ کا اور ان میں سے ایک قیمت طے ہو جائے تو یہ جائز ہے ۔
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ
سائل :
شیخ محترم جو احادیث میں آتا ہے کہ سود صرف ادھار میں ہے اس کی وضاحت فرما دیں اس سے کیا مراد ہے ؟
جواب :
جی جب ایک ہی جنس کی دو چیزوں میں آپ نے تبادلہ کرنا ہے تو پھر نقد اور برابری شرط ہے جیسے درہم کے بدلے درہم گندم کے بدلے گندم اس صورت میں ادھار سود ہو گا ۔
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 13
قسط وار لین دین شریعت کی نظر میں
حسان عبد الغفار
دی فری لانسر
آنلائین مطالعہ لنک :
پی ڈی یف لنک
خلاصہ مضمون
جواز کے دلائل ہی قوی ہیں
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
مضمون نمبر 14
قسطوں کے کروبار کی شرعی حیثیت
حافظ ابویحیی نور پوری
اسلام دین فطرت ہے ۔ یہ ایک ایسا ضابطہ حیات ہے ، جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے ۔ معاشی جدوجہد جو انسانوں کی ایک بنیادی ضرورت ہے ، اس کے حوالے سے بھی اسلام نے ہر ہر قدم پر ہماری رہنمائی فرمائی ہے ۔ شریعت ِاسلامیہ نے کاروبار کو جائز و مباح اور حرام و ممنوع میں تقسیم کر کے ہر فرد کو معاشی استحصال سے محفوظ کیا ہے ۔ اگر معیشت کے اسلامی اصولوں کو اپنا لیا جائے ، تو لین دین میں ہر قسم کے فساد اور نقصان سے بچا جا سکتا ہے ۔
خریدی گئی چیز کی قیمت قسطوں میں ادا کرنا " بیع تقسیط " کوئی نیا طریقۂ کاروبار نہیں ، لیکن عصر حاضر میں اس کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کی کثیر تعداد تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتی ہے ۔ ایسے لوگ مہنگی ضروریات ِ زندگی کی قیمت یکمشت ادا نہیں کر سکتے ، لہٰذا وہ قسطوں کی صورت میں خریداری ہی کو اپنے مسائل کا بہترین حل سمجھتے ہیں ۔
موجودہ دَور کے معتبر اہل علم اس حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں ، اکثر تو اسے جائز قرار دیتے ہیں ، جب کہ کچھ اہل علم نقد و ادھار کی قیمت میں فرق کو سود کی مد میں شامل کر کے اسے ناجائز و حرام کہتے ہیں ۔
اس مختصر مضمون میں ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ شریعت ِاسلامیہ کی روشنی میں اس کاروبار کی کیا حیثیت ہے؟کیا یہ جائز ہے یا واقعی سود کی ایک صورت ہونے کی بنا پر ممنوع و حرام ہے؟کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم فریقین کے دلائل کا موازنہ کریں ۔ یقینا دونوں قسم کے اہل علم نے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور اپنی پوری اجتہادی صلاحیتیں صرف کرتے ہوئے فیصلہ کیا ، لہٰذا وہ اس فیصلے کے صحیح ہونے پر اللہ کے ہاں دوہرے اور غلط ہونے پر اکہرے اجر کے مستحق ٹھہرے ۔ لیکن ہمارا فرض یہ ہے کہ فریقین کے دلائل کو تحقیق کی کسوٹی پر رکھ کر صحیح فیصلے تک پہنچنے کی جستجو کریں اور اس سارے عمل کو خوف ِالٰہی اور عدل و انصاف کے سائے میں سرانجام دیں ۔ جو شخص اس مرحلے میں تعصب و ہٹ دھرمی کا شکار ہو جاتا ہے ، وہ جو بھی موقف اپنائے ، اللہ کے ہاں مجرم ہی ٹھہرتا ہے ۔
ایک محقق کو تحقیق پیش کرتے وقت کبھی بھی قارئین کی پسند و ناپسند کا دھیان نہیں کرنا چاہئے ، کیونکہ اس کی اصل قوت اس کے قارئین کی تعداد نہیں ، بلکہ اس کا اصل سرمایہ اپنی بے لاگ تحقیق ہے ۔ الحمد للہ ! ہمارا یہی طرۂ امتیاز ہے ۔ قارئین کرام کو بھی چاہئے کہ وہ دلائل ہی کی بنا پر اپنی پسند و ناپسند کا فیصلہ کیا کریں ۔ ان کا یہی فرض ہے ۔
ہم اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دُعا کرتے ہوئے اس سلسلے میں قرآن و سنت کو سلف صالحین ، یعنی صحابہ کرام ، تابعین عظام اور ائمہ دین کے فہم کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ صراطِ مستقیم کو پانے کا یہی واحد طریقہ ہے ۔ ہمارے اسلاف نے اسی طرف ہماری رہنمائی کی ہے ، جیسا کہ :
شیخ الاسلام ، احمد بن عبد الحلیم ، ابن تیمیہ ؒ ( 728 - 661ھ )
فرماتے ہیں :
فَإِذَا افْتَقَرَ الْعَبْدُ إِلَی اللّٰہِ وَدَعَاہُ ، وَأَدْمَنَ النَّظَرَ فِي کَلَامِ اللّٰہِ ، وَکَلَامِ رَسُولِہٖ ، وَکَلَامِ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ وَأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ ، انْفَتَحَ لَہٗ طَرِیقُ الْہُدٰی ۔
" جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کا طالب اور دُعا گو ہو جائے اور اس کے ساتھ ساتھ قرآنِ کریم ، احادیث ِرسول اور صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے فتاویٰ جات کا گہرا مطالعہ کر لے ، تو اس کے لئے راہِ ہدایت کھل جاتی ہے ۔ "
( مجموع الفتاوٰی : 118 / 5 )
آئیے اسی رَوَش کو اپناتے ہوئے دیانتداری کے ساتھ فریقین کے دلائل کا تقابل کرتے ہیں :
مجوّزین کی اکلوتی دلیل
کاروبار میں اصل اباحت :
خرید و فروخت ان امور میں داخل ہے ، جن میں اصل جواز ہے ۔ یعنی اگر شریعت ِ اسلامیہ کاروبار کے کسی معاملے کو منع نہیں کرتی ، تو وہ حلال ہی ہوتا ہے ۔
قرآنِ کریم :
فرمانِ باری تعالی ہے :
{ وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا } ( البقرۃ 2 : 275 )
" اللہ تعالیٰ نے کاروبار کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے ۔ "
اس آیت ِکریمہ میں بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ سود کی صورتیں شریعت نے بیان کر دی ہیں ۔ نقد و ادھار کے فرق کو شریعت نے حرام یا سود قرار نہیں دیا ، اس لئے یہ جائز ہے ۔
اسی بارے میں سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ ما فرماتے ہیں :
کَانَ أَھْلُ الْجَاھِلِیَّۃِ یَأْکُلُونَ أَشْیَائَ وَیَتْرُکُونَ أَشْیَائَ تَقَذُّرًا ، فَبَعَثَ اللّٰہُ تَعَالٰی نَبِیَّہٗ وَأَنْزَلَ کِتَابَہٗ ، وَأَحَلَّ حَلَالَہٗ وَحَرَّمَ حَرَامَہٗ ، فَمَا أَحَلَّ فَھُوَ حَلَالٌ ، وَمَا حَرَّمَ فَھُوَ حَرَامٌ ، وَمَا سَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مَعْفُوٌّ ... ۔ ۔
" اہل جاہلیت کچھ چیزیں کھا تے تھے اور کچھ کو ناپسند کرتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا اور اپنی کتاب نازل کی ۔ اپنے ( نزدیک ) حلال کو حلال اور اپنے ( نزدیک ) حرام کو حرام قرار دیا ۔ تو جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ، وہ حلال اور جس کو اس نے حرام قراردیا ، وہ حرام ہے اور جس سے اس نے خاموشی اختیار کی ، وہ معاف ( حلال ) ہے ... "
( سنن ابی داوٗد : 3800 ، وسندہٗ صحیحٌ ، وقال الحاکم [ 115 / 4 ] : صحیح الإسناد )
اجماعِ امت :
شیخ الاسلام ، امام ابن تیمیہ ؒ ( 728 - 661ھ ) سے اس سلسلے میں سوال ہوا ، تو انہوں نے کیا جواب دیا ، ملاحظہ فرمائیں :
وَسُئِلَ رَحِمَہُ اللّٰہُ عَنْ رَّجُلٍ مُّحْتَاجٍ إِلٰی تَاجِرٍ ، عِنْدَہٗ قُمَاشٌ ، فَقَالَ : أَعْطِنِي ہٰذِہِ الْقِطْعَۃَ ، فَقَالَ التَّاجِرُ : مُشْتَرَاہَا بِثَلَاثِینَ ، وَمَا أَبِیعُہَا إِلَّا بِخَمْسِینَ إِلٰی أَجَلٍ ، فَہَلْ یَجُوزُ ذٰلِکَ أَمْ لَا؟
فَأَجَابَ : الْمُشْتَرِي عَلٰی ثَلَاثَۃِ أَنْوَاعٍ ، أَحَدُہَا أَنْ یَّکُونَ مَقْصُودُہُ السِّلْعَۃَ یَنْتَفِعُ بِہَا لِلْـأَکْلِ وَالشُّرْبِ وَاللُّبْسِ وَالرُّکُوبِ وَغَیْرِ ذٰلِکَ ، وَالثَّانِي أَنْ یَّکُونَ مَقْصُودُہُ التِّجَارَۃَ فِیہَا ، فَہٰذَانِ نَوْعَانِ جَائِزَانِ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَالْإِجْمَاعِ ۔
" آپ ؒ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا ، جسے ایسے تاجر کی احتیاج ہوئی ، جس کے پاس کپڑا تھا ۔ اس نے کہا : مجھے کپڑے کا یہ ٹکڑا دے دو تاجر کہنے لگا : اس کی موجودہ قیمت تو تیس ہے ، لیکن میں اسے ادھار پر پچاس میں بیچوں گا ۔ یہ معاملہ جائز ہو گا یا نہیں؟
شیخ الاسلام ؒ نے جواب دیا :
خریدار تین قسم کا ہو سکتا ہے ، ایک وہ جس کا مقصود چیز لے کر اس سے کھانے ، پینے ، پہننے اور سواری وغیرہ کا فائدہ حاصل کرنا ہو ۔ دوسرا وہ جس کا مقصود چیز حاصل کر کے اس میں تجارت کرنا ہو ۔ مذکورہ صورت میں یہ دونوں قسم کے معاملے کتاب وسنت اور اجماعِ امت کی روشنی میں جائز ہیں ۔ "
( مجموع الفتاوٰی : 499 - 498 / 29 )
اگر سلف صالحین میں سے کسی سے بھی ادھار کی صورت میں قیمت کے اضافے کو سود ثابت کر دیا جائے ، تو یہ دعویٔ اجماع ختم ہو جائے گا ، ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ اسلاف ِامت اس کے جواز پر متفق تھے ، کیونکہ آئندہ بحث میں بہت سے اسلاف سے بالصراحت اس کا جواز ثابت کیا جائے گا ۔
فریقِ اوّل کے مطابق فریق ثانی نقد و ادھار کے فرق کے سود ہونے کی جو دلیل پیش کرتا ہے ، وہ اس بارے میں صریح نہیں ۔ اس کا تعلق نقد و ادھار کے فرق کی ایک خاص نوع سے ہے ، جس کو فریق اوّل بھی سود ہی کہتا ہے ۔ قارئین اس کی تفصیل مانعین کے دلائل میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔
فریقِ اوّل کے محققین اگرچہ اور بہت سی دلیل یں ذکر کرتے ہیں ، لیکن وہ یا تو موضوع سے خارج ہوتی ہیں ، یا پھر انہیں بطور ِ دلیل ذکر کرنا مناسب نہیں ہوتا ، کیونکہ وہ صرف اور صرف بطور ِتائید ہوتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کاروبار میں اصل اباحت کی دلیل ہی فریقِ اوّل کے لئے کارگر ہے ، الا یہ کہ فریقِ ثانی نقد و ادھار کے فرق کو سود ثابت کر دے ۔ اگر ایسا ہو گیا ، تو اصل اباحت والی دلیل بھی بے کار ہو جائے گی اور دیگر تائیدات بھی ۔ بصورت ِدیگر نقد و ادھار کے فرق کے جواز پر صرف اصل اباحت ہی کافی دلیل ہو گی ۔
ملاحظہ :
قیمت کے تعیّن میں مدت کا عمل دخل :
فریق اوّل کی دلیل تو یہی ہے کہ کاروبار میں اصل اباحت ہے ، لیکن بطور ِتائید جو بہت سی باتیں ان کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں ، ان میں سے مشہور ترین بات ہم یہاں ذکر کئے دیتے ہیں ۔ فریقِ اوّل کا کہنا ہے کہ قیمت کے تعین میں ادائیگی کے وقت کا عمل دخل خود اسلامی شریعت نے روا رکھا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے :
بیع سلف / سلم : اس کی ایک مثال بیع سلف ہے ، جسے بیع سلم بھی کہتے ہیں ۔ اس میں خریدار معینہ مدت ، جو کہ بسا اوقات کئی سال پر محیط ہوتی ہے ، پہلے ہی قیمت ادا کر دیتا ہے اور بعد میں چیز حاصل کرتا ہے ۔ اس طرح مروّجہ قیمت سے کم معاوضہ ادا کرنا پڑتاہے ۔ اگرکسی کو اسی وقت اسی قیمت پر وہی چیز میسر ہو ، تو وہ دو ، تین سال بعد لینے پر کیونکر رضامند ہو گا ، نیز اگر اسے دو ، تین سال بعد بھی اسی قیمت پر چیز مہیا ہو ، تووہ پیشگی ادائیگی کیوں کرے گا ؟
بیع سلف میں ادھار بیچنے والے کی طرف سے ہوتا ہے ، جب کہ قسطوں میں ادھار خریدنے والے کی جانب سے ہوتا ہے ۔ بیع سلف میں خریدنے والا فائدے میں نظر آتا ہے ، جب کہ قسطوں میں بیچنے والا ۔ حقیقت میں دونوں طریقوں میں دونوں فریق ہی اپنے فائدے کے لئے ایسا کرتے ہیں ۔
بیع سلف رسول اللہ ﷺ کے عہد ِمبارک میں رائج تھی اور آپ ﷺ نے اس کی توثیق کی ، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ ما بیان کرتے ہیں :
قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِینَۃَ ، وَہُمْ یُسْلِفُونَ بِالتَّمْرِ السَّنَتَیْنِ وَالثَّلاَثَ ، فَقَالَ : " مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْئٍ ، فَفِي کَیْلٍ مَّعْلُومٍ ، وَوَزْنٍ مَّعْلُومٍ ، إِلٰی أَجَلٍ مَّعْلُومٍ " ۔
" نبی اکرم ﷺ جب ( ہجرت کر کے ) مدینہ منورہ تشریف لائے ، تو وہاں کے لوگ کھجوروں میں دو ، تین سال تک کی بیع سلف کرتے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی چیز میں بیع سلف کرنا چاہتا ہے ، وہ طَے شدہ ماپ یا وزن کی طَے شدہ مدت تک بیع کرے ۔ "
( صحیح البخاري : 2240 ، صحیح مسلم : 1604 )
یعنی اگر مدت کے حساب سے چیز کی مقدار اور قیمت مقرر کر کے معاملہ طَے کر لیا جائے ، تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ بیع تقسیط میں بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے ۔
جب خریدار پیشگی رقم دے کر زیادہ سودا لینے کا مستحق ہو سکتا ہے ، تو دوکاندار پیشگی چیز دے کر زیادہ قیمت لینے کا مستحق کیوں نہیں ہو سکتا؟اگر ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے قیمت میں زیادتی سود ہے ، تو پیشگی ادائیگی کی وجہ سے چیز کے سستے دام یا اضافی مقدار کو کیا نام دیا جائے گا؟اگر بیع سلف میں دوکاندار کے ادھار کی وجہ سے خریدار کو فائدہ ہو ، تو یہ جائز ہو ، لیکن اگر بیع تقسیط میں خریدار کے ادھار کی وجہ سے دوکاندار کو فائدہ ہو ، تو وہ ناجائز کیوں؟
ان کے بقول بعض اہل علم کو یہ دھوکہ ہوا ہے کہ بیع سلم میں مدت کی وجہ سے قیمت کی کمی و بیشی نہیں ہوتی ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
" بیع سلم پر اس بیع اجل ( ادھار کی بیع ) کو اس لئے بھی قیاس کرنا درست نہیں ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے ۔ بیع الاجل میں جو زیادہ قیمت لی جاتی ہے ، وہ صرف ادھار کی وجہ سے ہے جو عین سود ہے ، جب کہ بیع سلم میں مدت اور ادھار کی وجہ سے پھلوں کی اصل قیمت سے زائد کچھ بھی وصول نہیں کیا جاتا ، لہٰذا دونوں میں فرق واضح ہے اور معترضین کا قیاس ، قیاس مع الفارق اور باطل ہے ۔ "
جب کہ بیع سلف میں چیز کی حوالگی کی مدت کے حساب سے قیمت مقرر ہوتی ہے اور یہی چیز اس بیع میں لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہوتی ہے ۔ جتنی جلدی چیز ملتی ہے ، اتنی ہی قیمت زیادہ اور جتنی تاخیر سے ملتی ہے ، اتنی ہی قیمت کم ہوتی ہے ، جیسا کہ :
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں :
وَلَا یَجُوزُ أَنْ یُّسَلِّفَہٗ مِائَۃَ دِینَارٍ فِي عَشْرَۃِ أَکْرَارٍ ، خَمْسَۃٌ مِّنْہَا فِي وَقْتِ کَذَا ، وَخَمْسَۃٌ فِي وَقْتِ کَذَا ، لِوَقْتٍ بَعْدَہٗ ، لَمْ یَجُزِ السَّلَفُ ، لِأَنَّ قِیمَۃَ الْخَمْسَۃِ الْـأَکْرَارِ الْمُؤَخَّرَۃِ أَقَلُّ مِنْ قِیمَۃِ الْـأَکْرَارِ الْمُقَدَّمَۃِ ، فَتَقَعُ الصَّفْقَۃُ ، لَا یُعْرَفُ کَمْ حِصَّۃُ کُلِّ وَاحِدَۃٍ مِّنَ الْخَمْسَتَیْنِ مِنَ الذَّہَبِ ، فَوَقَعَ بِہٖ مَجْہُولًا ، وَہُوَ لَا یَجُوزُ مَجْہُولًا ۔
" سو دینار کے بدلے دس اکرار ( عراقی پیمانہ ) غلے کی بیع سلف اس صورت میں ناجائز ہے کہ پانچ اکرار ایک وقت میں اور پانچ اس کے بعد کسی وقت میں ملیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعد میں ملنے والے پانچ اکرار کی قیمت پہلے ملنے والے پانچ اکرار سے کم ہو گی ۔ سودا تو طَے ہو جائے گا ، لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکے گا کہ مقررہ قیمت میں پہلے اور بعد والے اکرار کا حصہ کتنا کتنا ہے ۔ یوں دونوں کی قیمت نامعلوم ہو گی اور اس صورت میں بیع سلف جائز نہیں رہتی ۔ "
( الأمّ : 98 / 3 )
رہی ان کی یہ بات کہ " بیع سلم میں مدت اور ادھار کی وجہ سے پھلوں کی اصل قیمت سے زائد کچھ بھی وصول نہیں کیا جاتا " تو جو ادھار کرتا ہے ، زیادہ اسے ہی دینا پڑتا ہے ۔ یہاں ادھار خریدار نہیں کر رہا کہ اسے زیادہ قیمت دینی پڑے ، بلکہ یہاں ادھار پھلوں والا کر رہا ہے ، جسے مدت کی بنا پر پھل سستے دینے پڑتے ہیں اور وہ اتنی ہی قیمت میں زیادہ پھل دیتا ہے ، جیسا کہ امام شافعی ؒ کا بیان ذکر کیا جا چکا ہے ۔
بیع تقسیط صرف ابہام کی صورت میں ممنوع ہے :
اگر فریق ثانی یہ کہے کہ بیع تقسیط اس لئے ممنوع ہے کہ اس کی ممانعت پر دلیل موجود ہے ، تو فریق اوّل جواباً کہتا ہے کہ بیع تقسیط کی ممانعت اسی صورت میں ہے ، جب نقد یا ادھار والی قیمت کا تعین نہ ہو سکے ، بلکہ ابہام ہی میں سودا طَے ہو جائے اور ابہام کی صورت میں تو بیع سلف بھی جائز نہیں رہتی ، جیسا کہ گزشتہ فرمانِ رسول ﷺ اور امام شافعی ؒ کے فتوے سے واضح ہے ۔ اس کی مزید تفصیل فریق ثانی کے دلائل کے ضمن میں پیش کی جائے گی ۔
معلوم ہوا کہ فریقِ اوّل کے پاس صرف ایک ہی دلیل ہے کہ کاروبار میں اصل اباحت ہے اور شریعت نے نقد و ادھار کے فرق کو سود قرار نہیں دیا ، لہٰذا ایسا معاملہ جائز ہے ۔
آئیے اب فریقِ ثانی کے دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔
اگر فریقِ ثانی قرآن و سنت اور فہم سلف کی روشنی میں قیمت کے تعین کی صورت میں بھی نقد و ادھار کے فرق کو سود ثابت کر دے ، تو بلاشبہ نقد و ادھار کے فرق کا معاملہ سود ہی ہو گا اور اس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں رہے گا ۔
مانعین کے دلائل
خاص ممانعت اصل اباحت پر مقدم ہے :
فریق ثانی کا کہنا ہے کہ کاروبار میں اصل اباحت سے کوئی انکار نہیں ، لیکن جب شریعت کسی کاروبار کو خاص طور پر منع کر دے ، تو وہ اصل اباحت سے نکل کر حرام ہو جاتا ہے ۔ اس بات سے کوئی ایک مسلمان بھی اختلاف نہیں کرتا ۔
بیع تقسیط کی حرمت :
فریق ثانی کے بقول بیع تقسیط ، یعنی نقد و ادھار کا فرق شریعت نے منع قرار دیا ہے ۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے :
" نَہٰی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ " ۔
" رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا ۔ "
سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
" مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ ، فَلَہٗ أَوْکَسُہُمَا أَوِ الرِّبَا " ۔
" جو شخص ایک بیع میں دو سودے کرے ، اس کے لئے یا تو کم قیمت لینا جائز ہے یا پھر وہ سود لے گا ۔ "
( سنن أبي داوٗد ، کتاب البیوع ، أبواب الإجارۃ ، باب فیمن باع بیعتین في بیعۃ : 3461 ، وسندہٗ حسنٌ )
فرمانِ نبوی کا صحیح مفہوم :
اس فرمانِ نبوی میں ایک بیع میں دو سودے کرنے سے کیا مراد ہے؟فریقِ ثانی کا کہنا ہے کہ اس کی اگرچہ کئی تفسیریں ہیں ، لیکن صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے فتاویٰ جات کی روشنی میں نقد و ادھار کا فرق بھی بیع کی انہی اقسام میں شامل ہے ، جو اس حدیث کی وجہ سے حرام قرار پاتی ہیں ۔ ان سب فتاویٰ جات کو ذکر کرنا طوالت کا باعث ہو گا ، شائقین تفصیل کے لئے ماہنامہ الحدیث حضرو کا شمارہ نمبر40 ملاحظہ فرما لیں ۔
اسلافِ امت دراصل کیا کہتے ہیں ؟
فریقِ اوّل کہتا ہے کہ فریقِ ثانی کے ذکر کردہ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے فتاویٰ جات بلاشبہ معتبر ہیں ، لیکن ان کی اصل مراد کو نہیں سمجھا گیا ۔ یہ فتاویٰ جات تو الٹا انہی کی دلیل بنتے ہیں ، کیونکہ ان سب میں ابہام کی صورت کو ایک بیع میں دو سودے قرار دے کر ناجائز قرار دیا گیا ہے ۔ ان میں سے کوئی فتویٰ ایسا نہیں ، جس میں نقد و ادھار میں سے ایک پر سودا طَے ہو جانے کی صورت میں بھی ناجائز یا سود قرار دیا گیا ہو ۔ جب کوئی بیچنے والا کہے کہ نقد لاکھ کا اور ادھار سوا لاکھ کا اور اسی پر سودا ہو جائے ، تو کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک بیع میں دو سودے ہیں ، جو حرام ہی ہیں ، لیکن جب خریدنے والا کہے کہ میں ادھار ہی خریدنا چاہتا ہوں اور بیچنے والا اسے بتائے کہ ادھار کی صورت میں اسے سوا لاکھ روپے ادا کرنا پڑیں گے ، تو ایک بیع میں دو سودے ہوئے ہی نہیں ، صرف ایک ہی ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ معلوم مدت ، مثلاً تین سال میں ادائیگی کی صورت میں چیز کی قیمت سوا لاکھ روپے ہے ۔
فریقِ اوّل کے بقول اصل غلطی یہی ہوئی کہ ائمہ اسلاف کے فتاویٰ جات ، جو کہ ابہام میں سودا طَے ہونے کے متعلق تھے ، انہیں ادھار طَے ہونے والی صورت پر بھی منطبق کر دیا گیا ۔
فریقِ ثانی اور تحقیق میں دیانتداری :
فریقِ اوّل کے بقول فریقِ ثانی کے بعض افراد نے اس سلسلے میں کئی مقامات پر دیانتداری کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑا ہے ، مثلاً ،
1 جن اسلاف کا یہ کہنا تھا کہ نقد و ادھار کا فرق ذکر کر کے اسی پر سودا کرنا منع ہے ، لیکن اگر ادھار پر معاملہ طَے ہو جائے ، تو کوئی حرج نہیں ، انہوں نے ان کے وہ اقوال لے لئے جن سے اپنا مطلب نکل سکتا تھا اور جن الفاظ سے ان کے موقف کی تردید ہوتی تھی ، ان کو ہڑپ کر گئے ، مثلاً ،
امام ترمذی ؒ کا موقف :
امام ترمذی ؒ کی صرف اتنی عبارت ذکر کی گئی :
[ حَدِیثُ أَبِي ہُرَیْرَۃَ حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ ، وَالْعَمَلُ عَلٰی ہٰذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ ، وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ، قَالُوا : بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ أَنْ یَّقُولَ : أَبِیعُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَۃٍ ، وَبِنَسِیئَۃٍ بِعِشْرِینَ ۔
ابو ہریرہ ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے اور اس حدیث کی تفسیر میں بعض اہل علم نے کہا کہ ایک چیز میں دو بیعوں کا معنیٰ یہ ہے کہ آدمی کہے : میں تجھے یہ کپڑا نقد دس کا اور ادھار بیس کا بیچتاہوں ۔
( سنن الترمذی بعد حدیث : 1231 ) ]
امام ترمذی ؒ نے اس سے آگے کیا فرمایا ہے ، ذرا ملاحظہ فرمائیں ،
وَلاَ یُفَارِقُہٗ عَلٰی أَحَدِ الْبَیْعَیْنِ ، فَإِذَا فَارَقَہٗ عَلٰی أَحَدِہِمَا ، فَلاَ بَأْسَ إِذَا کَانَتِ العُقْدَۃُ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْہُمَا ۔
" یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب خریدنے والا بیچنے والے سے نقد یا ادھار میں سے کسی ایک معاملے کو طَے کر کے جدا نہ ہو ۔ اگر وہ کوئی ایک معاملہ طَے کر کے جدا ہوا ہو ، تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ جب نقد و ادھار میں سے کسی ایک پر ہی سودا طَے ہو جائے ( تو ایک بیع میں دو سودے ہوئے ہی نہیں ) ۔ "
فریقِ ثانی کی ذکر کردہ عبارت سے متصل یہ الفاظ چونکہ ان کے موقف کی تردید کرتے تھے ، لہٰذا ان کو حذف کر دیا گیا ، حالانکہ ان کے بغیر عبارت مکمل ہی نہیں ہوتی ۔
امام بغوی ؒ کا فیصلہ :
انہی افراد کی ایک اور عبارت ملاحظہ فرمائیں :
[ امام بغوی فرماتے ہیں : وَقَوْلُہٗ : وَلاَ شَرْطَانِ فِي بَیْعٍ ، فَہُوَ أَنْ یَّقُولَ : بِعْتُکَ ہٰذَا الْعَبْدَ بِأَلْفٍ نَقْدًا ، أَوْ بِأَلْفَیْنِ نَسِیئَۃً ، فَمَعْنَاہُ مَعْنَی الْبَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ ۔
نبی ﷺ کا فرمان :
ایک سودے میں دو شرطیں جائز نہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یوں کہے : میں تجھے یہ غلام نقد ایک ہزار میں اور ادھار دو ہزار میں فروخت کرتا ہوں ، اس کا معنی " البیعتین في بیعۃ " کا معنی ہے ( یعنی اس حدیث کا یہی مفہوم ہے ) ۔
( شرح السنۃ ۸ / ۱۴۵ح ۲۱۱۲ ) ]
یہ عبارت بتا رہی ہے کہ اگر نقد و ادھار میں سے کوئی معاملہ طَے نہ ہو ، تو یہ ناجائز ہے ، اس سے یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ اگر ادھار پر معاملہ طَے ہو جائے ، تو یہ سود ہو گا؟
آئیے امام بغوی ؒ ( م : 516ھ ) کی اس عبارت سے صرف دو صفحات پیچھے سے پڑھتے ہیں ، فرماتے ہیں :
وَفَسَّرُوا الْبَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ عَلٰی وَجْہَیْنِ ، أَحَدُہُمَا أَنْ یَّقُولَ : بِعْتُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ بِعَشْرَۃٍ نَقْدًا ، أَوْ بِعِشْرِینَ نَسِیئَۃً إِلٰی شَہْرٍ ، فَہُوَ فَاسِدٌ عِنْدَ أَکْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ ، لِأَنَّہٗ لَا یُدْرٰی أَیُّہُمَا الثَّمَنُ ، وَجَہَالَۃُ الثَّمَنِ تَمْنَعُ صِحَّۃَ الْعَقْدِ ، وَقَالَ طَاوُسٌ : لَا بَأْسَ بِہٖ ، فَیَذْہَبُ بِہٖ عَلٰی أَحَدِہِمَا ، وَبِہٖ قَالَ إِبْرَاہِیمُ ، وَالْحَکَمُ ، وَحَمَّادٌ ،
وَقَالَ الْـأَوْزَاعِيُّ : لَا بَأْسَ بِہٖ ، وَلٰکِنْ لَّا یُفَارِقُہٗ حَتّٰی یُبَاتَّہٗ بِأَحَدِہِمَا ، فَإِنْ فَارَقَہٗ قَبْلَ ذٰلِکَ ، فَہُوَ لَہٗ بِأَقَلِّ الثَّمَنَیْنِ إِلٰی أَبْعَدِ الْـأَجَلَیْنِ ، أَمَّا إِذَا بَاتَّہٗ عَلٰی أَحَدِ الْـأَمْرَیْنِ فِي الْمَجْلِسِ ، فَہُوَ صَحِیحٌ بِہٖ ، لَا خِلافَ فِیہِ ۔
" سلف صالحین نے ایک بیع میں دو سودے کرنے کی تفسیر یہ کی ہے کہ بیچنے والا کہے : میں یہ کپڑا نقد ادائیگی پر دس میں اور ایک ماہ کے ادھار پر بیس میں بیچتا ہوں ۔ یہ صورت اکثر اہل علم کے نزدیک فاسد ہے ، کیونکہ اس میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اصل قیمت کون سی ہے؟قیمت کا نامعلوم ہونا اس معاملے کو صحیح نہیں رہنے دیتا ۔ امام طاؤس ؒ فرماتے ہیں کہ اگر نقد و ادھار میں سے کسی ایک معاملے کو طَے کر لیا جائے ، تو کوئی حرج نہیں ۔ امام ابراہیم نخعی ، حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابو سلیمان Sبھی یہی کہتے ہیں ۔ امام اوزاعی ؒ فرماتے ہیں : نقد و ادھار کی قیمت میں فرق جائز ہے ، لیکن خریدنے والا اس وقت تک بیچنے والے سے جُدا نہ ہو ، جب تک نقد و ادھار میں کوئی ایک معاملہ طَے نہ کر لیا جائے ۔ اگر اس سے پہلے جُدا ہو گیا ، تو پھر کم قیمت اور زیادہ مدت پر معاملہ طَے ہو گا ( اس کی سند نہیں مل سکی ، البتہ یہ قول امام طاؤس ؒ سے ثابت ہے ، چند سطروں بعد اسے پیش کیا جا رہا ہے ۔ ناقل ) ۔ البتہ اگر نقد و ادھار میں سے کسی ایک معاملے کو اسی مجلس میں طَے کر لیا جائے ، تو اس کے درست ہونے میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ۔ "
( شرح السنۃ : 143 / 8 )
معلوم ہوا کہ امام بغوی ؒ تو نقد و ادھار میں سے ایک معاملہ طَے ہونے کی صورت میں بیع کے جواز پر اجماع نقل کر رہے ہیں اور بعض لوگ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ وہ ادھار کے بدلے میں قیمت کے اضافے کو حرام اور سود قرار دیتے تھے ۔
العیاذ باللّٰہ !
امام طاؤس ؒ کا فتوی :
امام طاؤس ؒ کا جو قول انہوں نے پیش کیا ، وہ ان کے موقف کی تردید اور فریقِ اوّل کی تائید میں بالکل واضح تھا ، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں :
[ امام طاؤس کہتے ہیں : إِذَا قَالَ : ہُوَ بِکَذَا وَکَذَا إِلٰی کَذَا وَکَذَا ، وَبِکَذَا وَکَذَا إِلٰی کَذَا وَکَذَا ، فَوَقَعَ الْبَیْعُ عَلٰی ہٰذَا ، فَہُوَ بِأَقَلِّ الثَّمَنَیْنِ إِلٰی أَبْعَدِ الْـأَجَلَیْنِ ۔
جب آدمی یوں کہے : فلاں چیز اتنی اتنی رقم کے ساتھ ، اس اس طرح مدت تک اور اتنی اتنی رقم کے ساتھ ، اس اس طرح مدت تک ہے ، تو بیع واقع ہو جائے گی اور اس کے لئے دو قیمتوں میں سے کم قیمت ہو گی اور دو مدتوں میں سے دور کی مدت ہو گی ۔
( مصنف عبد الرزاق ۸ / ۱۳۶ح ۱۴۶۳۱ ، وسندہ صحیح ) ]
اس عبارت کے ترجمے میں بھی غلطی کی گئی ہے ۔ فَوَقَعَ الْبَیْعُ عَلٰی ہٰذَا کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ " تو بیع واقع ہو جائے گی ۔ "
حالانکہ اصل ترجمہ یہ ہے :
" اور اسی ( نقد یا ادھار کے ابہام ) پر بیع واقع ہو جائے ، تو ... "
یعنی امام طاؤس ؒ کا یہ قول بالکل واضح ہے کہ اگر بیچنے والا نقد و ادھار دونوں قیمتیں بتائے اور خریدنے والا کوئی ایک قیمت طَے نہ کرے اور اسی مبہم طریقے سے بیع واقع ہو جائے ، تو پھر یہی ہو گا کہ سب سے کم قیمت اور سب سے زیادہ مدت سمجھی جائے گی ، لیکن اگر بیچنے والا نقد و ادھار دونوں قیمتیں بتا دے اور باہمی رضامندی سے ادھار طَے ہو جائے ، تو یہ صورت وہ نہیں ہو گی ، جس کے بارے میں امام طاؤس ؒ یہ فرما رہے ہیں کہ : فَوَقَعَ الْبَیْعُ عَلٰی ہٰذَا ۔
عظیم تابعی ، امام طاؤس ؒ کے اس قول کی صحیح مراد تک پہنچنے کے لئے ہم محولہ بالا کتاب ہی سے انہی کا ایک اور قول پیش کر دیتے ہیں ، جو مذکورہ بالا قول سے چند سطریں پیچھے موجود ہے ۔
امام طاؤس ؒ فرماتے ہیں :
لَا بَأْسَ بِأَنْ یَّقُولَ : أَبِیعُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ بِعَشَرَۃٍ إِلٰی شَہْرٍ ، أَوْ بِعِشْرِینَ إِلٰی شَہْرَیْنِ ، فَبَاعَہٗ عَلٰی أَحَدِہِمَا قَبْلَ أَنْ یُّفَارِقَہُ ، فَلَا بَأْسَ بِہٖ ۔
" یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ میں تجھے یہ کپڑا مہینے کے ادھار پر دس میں اور دو مہینوں کے ادھار پر بیس میں فروخت کرتا ہوں اور پھر جدا ہونے سے پہلے اسے کسی ایک معین قیمت پر فروخت کر دے ، تو اس میں کوئی بھی حرج نہیں ۔ "
( مصنّف عبد الرزّاق : 136 / 8 ، وسندہٗ صحیحٌ )
کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ امام طاؤس ؒ ادھار کی صورت میں بڑھنے والی رقم کو سود سمجھتے تھے؟
بے احتیاطی اور امام شافعی ؒ کا اصل موقف :
2 فریقِ اوّل کو یہ بھی شکوہ ہے کہ فریقِ ثانی کے بعض محققین نے اس مسئلے میں تحقیق کے اسلوب کو بالائے طاق رکھا ہے ۔ مثلاً بعض اہل علم نے لکھا ہے :
[ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں :
أَنْ یَّقُولَ : بِعْتُکَ بِأَلْفَیْنِ نَسِیئَۃً ، بِأَلْفٍ نَقْدًا ، فَأَیَّہُمَا شِئْتَ أَخَذْتَ بِہٖ ، وَہٰذَا بَیْعٌ فَاسِدٌ ... ، وَعِلَّۃُ النَّہْيِ عَلَی الْـأَوَّلِ عَدَمُ اسْتِقْرَارِ الثَّمَنِ ، وَلُزُومُ الرِّبَا عِنْدَ مَنْ یَّمْنَعُ بَیْعَ الشَّيْئِ بِأَکْثَرَ مِنْ سِعْرِ یَوْمِہٖ لِأَجْلِ النَّسِیئَۃِ ۔
آدمی یوں کہے : میں تجھے یہ چیز دو ہزار میں ادھار بیچتا ہوں اور نقد ایک ہزار میں ۔ تمہیں جس طرح پسند ہو لے لو ، تو بیع فاسد ہے اور اس سے منع کی علت یہ ہے کہ اس چیز کی قیمت مقرر نہیں کی گئی اور پھر اس میں سود ہے ، اس شخص کے ہاں جو ادھار کی وجہ سے اس کے دن کے بھاؤ سے زیادہ قیمت لیتا ہے ۔
( الام للشافعی / مختصر المزنی ص ۸۸ ، سبل السلام ، البیوع باب شروطہ وما نھی عنہ واللفظ لہ ص ۵۵۲ تحت ح ۷۹۱ ) ]
یہ عبارت نقل کرتے وقت انتہائی بے احتیاطی برتی گئی ہے ۔ ایک تو اس طرح کہ یہ عبارت فریقِ ثانی کے موقف کے بالکل برعکس ہے ، مزنی نے امام شافعی ؒ سے جو نقل کیا ہے ، وہ یوں ہے :
بَابُ الْبَیْعِ بِالثَّمَنِ الْمَجْہُولِ ... ،
( قَالَ الشَّافِعِيُّ ) : ...
عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ نَہٰی عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ ، ( قَالَ الشَّافِعِيُّ ) : وَہُمَا وَجْہَانِ ، أَحَدُہُمَا أَنْ یَّقُولَ : قَدْ بِعْتُک ہٰذَا الْعَبْدَ بِأَلْفٍ نَقْدًا أَوْ بِأَلْفَیْنِ إِلٰی سَنَۃٍ ، قَدْ وَجَبَ لَک بِأَیِّہِمَا شِئْتُ أَنَا وَشِئْتَ أَنْتَ ، فَہٰذَا بَیْعُ الثَّمَنِ ، فَہُوَ مَجْہُولٌ ۔
" نامعلوم قیمت والی بیع کا بیان ... امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا ۔ اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ ہے کہ بیچنے والا کہے : میں تجھے یہ غلام نقد قیمت پر ایک ہزار میں ، جب کہ سال کے ادھار پر دو ہزار میں فروخت کرتا ہوں ۔ ان میں سے جو میں چاہوں اور جو تُو چاہے ، اس پر تیرے لئے یہ معاملہ واجب ہو گیا ۔ یہ قیمت والا معاملہ ہے ، لیکن اس میں قیمت نامعلوم ہے ( اس لئے یہ بیع فاسد ہے ) ۔ "
( مختصر المزني : 186 / 8 )
یعنی امام شافعی ؒ نے اس معاملے کو فاسد اس لئے کہا کہ نقد و ادھار میں سے کسی کا تعین نہیں ہوا ۔ قیمت نقد کے حساب سے ہو گی یا ادھار کے حساب سے ، اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ۔ اسی ابہام کی وجہ سے بیع فاسد ہوئی ، نہ کہ قیمت کی زیادت کی وجہ سے ۔ اگر ادھار پر معاملہ طَے ہو جاتا ، تو اس میں کوئی خرابی نہ ہوتی ۔ مزنی کی تبویب بھی یہی بتا رہی ہے کہ یہ معاملہ تب ہی ناجائز ہو گا ، جب کوئی ایک بات طَے نہیں ہوتی ۔ فریقِ ثانی کو اپنی یہ دلیل اپنے ہی خلاف پڑ گئی ہے ، کیونکہ ان کا موقف ہے کہ اس بیع کے ناجائز ہونے کا سبب ادھار کے بدلے قیمت کا اضافہ ہے ، نہ کہ قیمت کا عدمِ تعین ۔
دوسری بے احتیاطی یہ ہے کہ اس عبارت میں علامہ صنعانی ؒ کی بات کو شامل کر کے اسے امام شافعی ؒ کی بات قرار دے دیا گیا ہے ۔ علامہ صنعانی ؒ نے واضح طور پر انتہی لکھ کر بتا دیا تھا کہ یہاں پر امام شافعی ؒ کی بات ختم ہو گئی ہے اور آگے میرا اپنا تبصرہ ہے ، لیکن ناقل نے اس بات کو [ ... ] کے نشان کے ساتھ حذف کر دیا اور علامہ صنعانی کے تبصرے کو بھی امام شافعی ؒ کی عبارت میں شامل کر دیا ۔
تیسری بے احتیاطی یہ کی گئی کہ علامہ صنعانی کی جو عبارت ، امام شافعی ؒ سے منسوب کی گئی ، اس کا ترجمہ بھی غلط کیا گیا ہے ۔ اگر اس کا صحیح ترجمہ ہو جاتا تو اصل بات سمجھ میں آ جاتی ۔
علامہ صنعانی کی عبارت کا ترجمہ یوں کیا گیا :
وَعِلَّۃُ النَّہْيِ عَلَی الْـأَوَّلِ عَدَمُ اسْتِقْرَارِ الثَّمَنِ ، وَلُزُومُ الرِّبَا عِنْدَ مَنْ یَّمْنَعُ بَیْعَ الشَّيْئِ بِأَکْثَرَ مِنْ سِعْرِ یَوْمِہٖ لِأَجْلِ النَّسِیئَۃِ ۔
" اور اس سے منع کیعلت یہ ہے کہ اس چیز کی قیمت مقرر نہیں کی گئی اور پھر اس میں سود ہے ، اس شخص کے ہاں جو ادھار کی وجہ سے اس کے دن کے بھاؤ سے زیادہ قیمت لیتا ہے ۔ "
حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے :
پہلی صورت کے مطابق ممانعت کی علت ( امام شافعی ؒ کے نزدیک ) یہ ہے کہ قیمت کا تعین نہیں ہو ااورجو شخص ادھار کی وجہ سے چیز کا بھاؤ موجودہ بھاؤ سے بڑھا کر بیچنے سے منع کرتا ہے ، اس کے نزدیک علت یہ ہے کہ اس طرح سود لازم آتا ہے ۔ "
یعنی علامہ صنعانی ؒ کی یہ عبارت صاف بتا رہی ہے کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک اس بیع کی ممانعت اس لئے نہیں کہ اس میں سود ہے ، بلکہ صرف اس لئے ہے کہ نقد و ادھار میں سے کسی قیمت کا تعین نہیں ہوا ۔ سود کو اس بیع کے ممنوع ہونے کا سبب قرار دینے والا وہ شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ ادھار کی وجہ سے موجودہ بھاؤ سے زیادہ قیمت مقرر کرنا منع ہے ۔ یہ شخص کون ہے؟اس کا تعین فریقِ ثانی ہی کی ذمہ داری ہے ۔ ہمیں تو اسلاف ِ امت میں سے کوئی ایک بھی اس موقف کا حامل نظر نہیں آیا ۔
بہر حال اس بیع کی ممانعت کا سبب امام شافعی ؒ کے نزدیک سود ہونا نہیں تھا ، بلکہ عدمِ تعین ہی تھا ۔
آئیے امام شافعی ؒ کی ایک اور عبارت ملاحظہ فرمائیں :
وَنَہَی النَّبِيُّ ﷺ عَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ ، وَمِنْہُ أَنْ أَقُولَ : سِلْعَتِي ہٰذِہٖ لَک بِعَشَرَۃٍ نَقْدًا ، أَوْ بِخَمْسَۃَ عَشَرَ إلٰی أَجَلٍ ، فَقَدْ وَجَبَ عَلَیْہِ بِأَحَدِ الثَّمَنَیْنِ ، لِأَنَّ الْبَیْعَ لَمْ یَنْعَقِدْ بِشَيْئٍ مَّعْلُومٍ ۔
" نبی اکرم ﷺ نے دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے ۔ اس کی ایک قسم یہ ہے کہ میں کہوں : میرا یہ سامان تیرے لئے نقد میں دس کا یا ایک مدت کے ادھار میں پندرہ کا ہے ۔ یوں خریدار پر یہ بیع دو قیمتوں میں سے کسی ایک ( نامعلوم ) قیمت کے ساتھ پکی ہو گی ، کیونکہ کسی معین چیز پر تو یہ بیع طَے نہیں ہوئی ۔ "
( کتاب الأم : 305 / 7 )
اگر اس کی ممانعت سود کی بنا پر ہوتی ، تو امام صاحب اس کی ممانعت عدمِ تعین کو نہیں ، بلکہ سود ہی کو بتاتے ۔
معلوم ہوا کہ محققین اہل علم کا یہی فیصلہ ہے کہ نقد و ادھار میں سے کسی ایک پر معاملہ طَے ہو جائے ، تو اس میں کوئی حرج نہیں ، نہ ہی ادھار کی بنا پر قیمت میں اضافہ سود ہے ۔
راویِ حدیث سماک بن حرب کا فہم کیا ہے؟
فریقِ ثانی کے بعض اہل علم نے لکھا ہے :
" اور مسند احمد میں سماک بن حرب کا یہی قول ہے ۔ ( ۱ / ۳۹۸ ) سماک بن حرب معروف ثقہ تابعی ہیں جنھوں نے اَسی ( ۸۰ ) صحابہ کرام کو پایا ہے اور اس حدیث کے راوی ہیں اور ان کی تفسیر وتوضیح اس مقام پر دوسرے لوگوں سے مقدم ہے ۔ اس لئے راویِ حدیث اپنی روایت کا مفہوم دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ جانتا ہے ۔ "
آئیے اہل علم سے پوچھتے ہیں کہ سماک بن حرب ؒ کا فہم کیا ہے :
علامہ محمد بن علی ، شوکانی ؒ ( 1250 - 1173ھ ) فرماتے ہیں :
فَسَّرَہٗ سِمَاکٌ بِمَا رَوَاہُ الْمُصَنِّفُ عَنْ أَحْمَدَ عَنْہُ ، وَقَدْ وَافَقَہٗ عَلَی مِثْلِ ذٰلِکَ الشَّافِعِيُّ ، فَقَالَ : بِأَنْ یَّقُولَ : بِعْتُکَ بِأَلْفٍ نَقْدًا أَوْ أَلْفَیْنِ إِلٰی سَنَۃٍ ، فَخُذْ أَیَّہُمَا شِئْتَ أَنْتَ وَشِئْتُ أَنَا ، وَنَقَلَ ابْنُ الرِّفْعَۃِ عَنِ الْقَاضِي أَنَّ الْمَسْأَلَۃَ مَفْرُوضَۃٌ عَلٰی أَنَّہٗ قَبِلَ عَلَی الْإِبْہَامِ ، أَمَّا لَوْ قَالَ : قَبِلْتُ بِأَلْفٍ نَقْدًا ، وَبِأَلْفَیْنِ بِالنَّسِیئَۃِ ، صَحَّ ذٰلِکَ ۔
" اس کی تفسیر سماک بن حرب ؒ نے وہ کی ہے ، جو صاحب ِکتاب ( منتقی الاخبار ) نے امام احمد ؒ کی روایت سے ذکر کی ہے ۔ امام شافعی ؒ نے بھی اس سلسلے میں ان کی موافقت کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں : ( ناجائزیہ ہے کہ ) وہ کہے : میں نے یہ چیز نقد ایک ہزار کی اور سال کے ادھار پر دوہزار کی بیچی ۔ ان دونوں صورتوں میں سے جو تمہیں اور مجھے پسند ہے ، اسے لے لو ۔ ابن رفعہ ( احمد بن محمد شافعی ، معاصر شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ ) نے قاضی ( عیاض؟ ) سے نقل کیا ہے کہ یہ مسئلہ اس صورت میں ہے ، جب وہ اسی ابہام وعدمِ تعین پر بیع قبول کر لے ۔ اگر وہ یہ کہہ دے کہ میں نے یہ چیز ایک ہزار میں نقد یا دوہزار میں ادھار لی ، تو یہ بالکل درست ہے ۔ "
( نیل الأوطار : 180 / 5 )
شارحِ سنن ابو داؤد ، علامہ ، ابو طیب ، شمس الحق ، عظیم آبادی ؒ ( م : 1329ھ ) فرماتے ہیں :
قَالَ الْخَطَّابِيُّ : وَتَفْسِیرُ مَا نَہٰی عَنْہُ مِنْ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ عَلٰی وَجْہَیْنِ ، أَحَدُہُمَا أَنْ یَّقُولَ : بِعْتُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ نَقْدًا بِعَشَرَۃٍ ، أَوْ نَسِیئَۃً بِخَمْسَۃَ عَشَرَ ، فَہٰذَا لَا یَجُوزُ ، لِأَنَّہٗ لَا یَدْرِي أَیُّہُمَا الثَّمَنُ الَّذِي یَخْتَارُہٗ مِنْہُمَا ، فَیَقَعُ بِہِ الْعَقْدُ ، وَإِذَا جَہِلَ الثَّمَنَ بَطَلَ الْبَیْعُ ، انْتَہٰی ، قُلْتُ : وَبِمِثْلِ ہٰذَا فَسَّرَ سِمَاکٌ رَوَاہُ أَحْمَدُ ۔
" علامہ خطابی ؒ نے فرمایا ہے : رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے جو منع فرمایا ہے ، اس کی تفسیر دو طرح سے ہے ، ایک تو یہ کہ بائع کہے : میں یہ کپڑا نقد دس کا اور ادھار پندرہ کا بیچتا ہوں ۔ یہ جائز نہیں ، کیونکہ اسے یہ معلوم نہیں کہ خریدار ان میں سے کون سی قیمت منتخب کرے گا ، تاکہ اسی قیمت پر معاملہ طَے ہو ۔ جب قیمت نامعلوم ہوئی ، تو بیع باطل ہو گئی ۔ میں ( عظیم آبادی ) کہتا ہوں کہ سماک بن حرب ؒ نے بھی اس حدیث کی یہی تفسیر کی ہے ، اسے امام احمد ؒ نے روایت کیا ہے ۔ "
( عون المعبود في شرح سنن أبي داوٗد : 238 / 9 )
شارحِ ترمذی ، علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ ( م : 1353ھ ) لکھتے ہیں :
قَالَ الْبَائِعُ : أَبِیعُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ وَّبِنَسِیئَۃٍ بِعِشْرِینَ ، فَقَالَ الْمُشْتَرِي : اشْتَرَیْتُہٗ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ ، ثُمَّ نَقَدَ عَشْرَۃَ دَرَاہِمَ ، فَقَدْ صَحَّ ہٰذَا الْبَیْعُ ، وَکَذٰلِکَ إِذَا قَالَ الْمُشْتَرِي : اشْتَرَیْتُہٗ بِنَسِیئَۃٍ بِعِشْرِینَ ، وَفَارَقَ الْبَائِعَ عَلٰی ہٰذَا ، صَحَّ الْبَیْعُ ، لِأَنَّہٗ لَمْ یُفَارِقْہُ عَلٰی إِیہَامٍ وَّعَدَمِ اسْتِقْرَارِ الثَّمَنِ ، بَلْ فَارَقَہٗ عَلٰی وَاحِدٍ مُّعَیَّنٍ مِنْہُمَا ، وہٰذَا التَّفْسِیرُ قَدْ رَوَاہُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ فِي رِوَایَتِہٖ عَنْ سِمَاکٍ ... ۔ ۔
" جب بائع کہے : میں تجھے یہ کپڑا نقد پر دس کا اور ادھار پر بیس کا دیتا ہوں اور مشتری کہہ دے : میں اسے نقد پر دس کا خریدتا ہوں ، پھر دس درہم نقد دے بھی دے ، تو یہ بیع درست ہو گی ۔ اسی طرح جب مشتری کہے : میں یہ کپڑا ادھار پر بیس کا خریدتا ہوں اور اسی معاملے پر وہ بائع سے جدا ہو جائے ، تو یہ بیع بھی درست ہے ، کیونکہ مشتری بائع سے کسی ابہام اور قیمت کے عدمِ تعین پر جدا نہیں ہوا ، بلکہ نقد و ادھار میں سے ایک معین معاملے پر جدا ہوا ہے ۔ امام احمد ؒ نے اپنی روایت میں سماک بن حرب ؒ سے یہی تفسیر نقل کی ہے ۔ "
( تحفۃ الأحوذي : 358 / 4 )
یعنی امام سماک بن حرب جو کہ اس حدیث کے راوی بھی ہیں ، ان کا یہ موقف ہرگز نہیں جو فریقِ ثانی ثابت کرنا چاہتا ہے ۔ ان کا یہی موقف ہے اگر ابہام اور قیمت کے عدمِ تعین پر معاملہ طَے ہوتا ہے ، تو وہ ممنوع و حرام ہے ، لیکن اگر کسی ایک معین قیمت پر بات طَے ہوجائے ، تو وہ بالکل جائز ہے ۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن اسلاف نے یہ کہا ہے کہ " نقد اتنے کا اور ادھار اتنے کا " کی بیع منع ہے ، محققین اہل علم نے ان کی مراد یہی بیان کی ہے کہ عدمِ تعین والا معاملہ جائز نہیں ۔ معلوم نہیں کہ بعض متاخرین اہل علم نے متقدمین کے برعکس سلف کے اقوال کی یہ مراد کیوں لے لی؟
یہ ہے اُن اسلاف ِامت کا صحیح موقف ، جن کے مبہم اقوال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نقد و ادھار کی قیمت میں فرق کرنا حدیث کی روشنی میں منع ہے اور ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت مقرر کرنا سودی معاملہ ہے ۔ انہی کے اقوال کو نقل کرنے کے بعد یہ لکھا گیا تھا :
" مذکورہ بالا ائمہ محدثین کی توضیحات سے واضح ہو گیا کہ نقد اور ادھار کے فرق پر بیع کرنا درست نہیں اور ادھار کی وجہ سے جو قیمت زائد لگائی جاتی ہے ، وہ سود کی زمرے میں آتی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان ( ( فلہ أوکسہما أو الربا ) ) کے مطابق واضح سود ہے ۔ "
حالانکہ یہ اقوال واضح طور پر فریقِ ثانی کے موقف کی تردید کر رہے ہیں اور بتا رہے کہ اگر نقد یا ادھار میں سے کوئی ایک معاملہ طَے ہو جائے ، تویہ ناجائز نہیں رہتا ۔
مزید اسلافِ امت کے فتاوی جات :
یہاں پر ہم کچھ اور اہل علم کے اقوال بھی پیش کر رہے ہیں :
امام عطا بن ابو رباح ؒ :
عظیم المرتبت تابعی ، امام عطا بن ابو رباح ؒ فرماتے ہیں :
لَا بَأْسَ أَنْ یَّقُولَ : ہٰذَا الثَّوْبُ بِالنَّقْدِ بِکَذَا ، وَبِالنَّسِیئَۃِ بِکَذَا ، وَیَذْہَبُ بِہٖ عَلٰی أَحَدِہِمَا ۔
" کوئی کہے کہ یہ کپڑا نقد میں اتنے کا اور ادھار میں اتنے کا ہے اور خریدار اسے کسی ایک قیمت پر لے جائے ، تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ "
( مصنّف ابن أبي شیبۃ : 307 / 4 ، وسندہٗ صحیحٌ )
ایک دفعہ امام عطا ؒ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کوئی چیز خریدتا ہے ، پھر کہتا ہے : میرے پاس اس کی نقد قیمت نہیں ہے ، میں اسے ( زیادہ قیمت پر ) ادھار خرید سکتا ہوں ۔ کیا یہ بیع درست ہے؟ تو فرمایا :
إِذَا صَارَ کَالْبَیْعِ اشْتَرَاہُ إِنْ شَائَ ۔
جب یہ معاملہ بیع کی طرح ہو ( یعنی بائع کہے : ادھار کی قیمت یہ ہے ) ، تو اسے خرید سکتا ہے ۔ "
( مصنّف ابن أبي شیبۃ : 307 / 4 ، وسندہٗ حسنٌ )
امام زہری تابعی و امام قتادہ تابعی :
مشہور تبع تابعی ، امام معمر بن راشد ؒ بیان کرتے ہیں :
أَبِیعُکَ بِعَشَرَۃِ دَنَانِیرَ نَقْدًا ، أَوْ بِخَمْسَۃَ عَشْرَ إِلٰی أَجَلٍ ... ، وَکَانَ الزُّہْرِيُّ وَقَتَادَۃَ لَا یَرَیَانِ بِذٰلِکَ بَأْسًا ، إِذَا فَارَقَہٗ عَلٰی أَحَدِہِمَا ۔
" ( بائع اگر مشتری کو کہے کہ یہ چیز ) میں تجھے نقد پر دس دینار میں اور ایک معین مدت کے ادھار پر پندرہ میں فروخت کرتا ہوں ۔ اگر نقد و ادھار میں کسی ایک قیمت کے طَے ہونے پر ان کی جدائی ہو ، تو امام ابن شہاب زہری تابعی اور امام قتادہ بن دعامہ تابعیHاس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ۔ "
( مصنّف عبد الرزّاق : 137 / 8 ، وسندہٗ صحیحٌ )
حکم بن عُتَیبہ تابعی و حماد بن ابو سلیمان تابعی :
عظیم تبع تابعی ، امیرا لمومنین فی الحدیث ، امام شعبہ بن حجاج ؒ ( م : 160ھ ) کا بیان ہے :
سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا ، عَنِ الرَّجُلِ یَشْتَرِي مِنَ الرَّجُلِ الشَّيْئَ ، فَیَقُولُ : إِنْ کَانَ بِنَقْدٍ فَبِکَذَا ، وَإِنْ کَانَ إِلٰی أَجَلٍ فَبِکَذَا ، قَالَ : لَا بَأْسَ إِذَا انْصَرَفَ عَلٰی أَحَدِہِمَا ، قَالَ شُعْبَۃُ : فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِمُغِیرَۃَ ، فَقَالَ : کَانَ إِبْرَاہِیمُ لَا یَرٰی بِذٰلِکَ بَأْسًا إِذَا تَفَرَّقَ عَلٰی أَحَدِہِمَا ۔
" میں نے امام حکم بن عتیبہ تابعی اور حماد بن ابو سلیمان تابعی سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو کسی سے کوئی چیز خریدتا ہے ، تو بیچنے والا کہتا ہے : نقد اتنے میں اور اتنی مدت کے ادھار پر اتنے میں ۔ ان دونوں نے فرمایا : جب وہ نقد و ادھار میں سے کسی ایک معاملے پر جدا ہوں ، تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ( امام شعبہ فرماتے ہیں : ) میں نے یہ بات مغیرہ بن مقسم سے بیان کی ، تو انہوں نے کہا : امام ابراہیم نخعی تابعی ؒ بھی اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے ، اگر بائع اور مشتری نقد و ادھار میں سے کسی ایک معاملے پر جدا ہوتے ۔ "
( مصنّف ابن أبي شیبۃ : 307 / 4 ، وسندہٗ صحیحٌ إلی شعبۃ )
امام دار الہجرہ ، مالک بن انس ؒ :
امام مدینہ ، مالک بن انس ؒ ( 179 - 93ھ ) نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے ممانعت والی حدیث کی تفسیرمیں تین صورتیں ذکر کی ہیں ، مؤطا کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن عبد البر ؒ نے اس بارے میں لکھا ہے :
وَقَدْ فَسَّرَ مَالِکٌ مَّذْہَبَہٗ فِي مَعْنَی النَّہْيِ عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ وَّاحِدَۃٍ ، وَأَنَّ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ عَلٰی ثَلَاثَۃِ أَوْجُہٍ ، أَحَدُہَا الْعِینَۃُ ، وَالثَّانِي أَنَّہٗ یَدْخُلُہٗ مَعَ الطَّعَامِ مِنْ جِنْسٍ وَّاحِدٍ مُّتَفَاضِلًا ، وَالثَّالِثُ أَنَّہٗ مِنْ بُیُوعِ الْغَرَرِ ۔
" امام مالک ؒ نے ایک بیع میں دو سودے کرنے کی ممانعت والی حدیث کے معنیٰ و مفہوم میں اپنا مذہب واضح کر دیا ہے ۔ ان کے نزدیک اس کی تین صورتیں ہیں ، ایک صورت بیع عینہ ( کسی سے کوئی چیز زیادہ قیمت میں ادھار خرید کر اسی کو کم قیمت میں نقد بیچ دینا ) ، دوسری صورت ایک ہی قسم کے غلے کا کمی و بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا اور تیسری صورت بیع غرر ( دھوکے کی بیع ) ہے ۔ "
( الاستذکار : 450 / 6 )
نقد و ادھار کا فرق ان تینوں قسموں میں سے صرف اور صرف بیع غرر پر منطبق ہوتا ہے ۔ بیع غرر اس بیع کو کہتے ہیں ، جس میں کسی قسم کا کوئی ابہام ہو ۔ چیز نامعلوم ہویا قیمت ، بیع غرر ہی کے زمرے میں آتی ہے ۔ کسی ایک قیمت کے تعین کی صورت میں نقد و ادھار کے فرق کو بیع غرر نہیں کہا جا سکتا ۔
معلوم ہوا کہ دیگر اسلاف کی طرح امام مالک ؒ بھی کسی ایک قیمت کے تعین پر اس بیع کو ناجائز نہیں سمجھتے تھے ۔
امام اہل سنت ، احمد بن حنبل ؒ :
امام اہل سنت ، احمد بن حنبل ؒ ( 241 - 164ھ ) سے ان کے بیٹے ابو الفضل صالح ؒ نے پوچھا :
اَلرَّجُلُ یَبِیعُ الْمَتَاعَ ، فَیَقُولُ : أَبِیعُکَ بِالنَّقْدِ بِأَلْفٍ ، وَإِلٰی شَہْرٍ بِأَلْفٍ وَّمِائَۃٍ ، وَإِلٰی شَہْرَیْنِ بِأَلْفٍ وَّمِائَتَیْنِ ۔
" ایک شخص اپنا سامان یہ کہہ کر فروخت کرتا ہے : میں تجھے یہ سامان نقد میں ایک ہزار کا ، ایک مہینے کے ادھار پر ایک ہزار ایک سو کا اور دو مہینے کے ادھار پر ایک ہزار دو سو کا بیچتا ہوں ( تو اس کا کیا حکم ہے؟ ) ۔ "
اس پر امام صاحب ؒ نے فرمایا :
ہٰذَا مَکْرُوہٌ إِلٰی أَنْ یُّفَارِقَہٗ عَلٰی أَحَدِ الْبیُوعِ ۔
" یہ مکروہ ہے ، الا یہ کہ خریدنے والا بیچنے والے سے کوئی ایک معاملہ طَے کر کے جدا ہو ۔ "
( مسائل الإمام أحمد بروایۃ ابنہ عبد اللّٰہ : 378 / 1 ، رقم المسئلۃ : 353 )
امام ابن المنذر ؒ :
امام ، محمدبن ابراہیم ، ابن منذرنیشاپوری ؒ ( 319 - 242ھ ) نے اس حدیث کی شرح میں امام طاؤس ، حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابو سلیمان کا قول ذکر کیا ہے کہ اگر بائع و مشتری کے جدا ہونے سے قبل نقد و ادھار میں سے ایک چیز طَے ہو جائے ، تو پھر یہ بیع جائز ہے ۔
( الإشراف علی مذاہب العلماء : 42 / 6 )
ائمہ لغت وشارحین حدیث ائمہ دین :
آئیے اب ائمہ لغت اور شارحین حدیث ائمہ دین سے بھی اس حدیث کا صحیح معنیٰ و مفہوم دریافت کرتے ہیں ۔
امام ابو عُبَید قاسم بن سلام ؒ :
دور ِاوّل کے عظیم فقیہ و محدث اور ماہر لغت ِحدیث ، علامہ ابو عبید ، قاسم بن سلام ؒ ( 225 - 150ھ ) سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ کی ایک بیع میں دو سودے کرنے کی ممانعت والی روایت کی شرح میں لکھتے ہیں :
صَفْقَتَانِ فِي صَفْقَۃٍ رِبًا ، مَعْنَاہُ أَنْ یَّقُولَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ: أَبِیعُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ بِالنَّقْدِ بِکَذَا ، وَبِالتَّأْخِیرِ بِکَذَا ، ثُمَّ یَفْتَرِقَانِ عَلٰی ہٰذَا الشَّرْطِ ، وَمِنْہُ حَدِیثُ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہٗ نَہٰی عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ ، فَإِذَا فَارَقَہٗ عَلٰی أَحَدِ الشَّرْطَیْنِ بِعَیْنِہٖ ، فَلَیْسَ بِبَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ ۔
" ایک چیز میں دو سودے کرنا سود ہے ۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار سے کہے : میں تجھے یہ کپڑا نقد پر اتنے میں اور ادھار پر اتنے میں بیچتا ہوں ۔ پھر وہ دونوں اسی ( مبہم ) شرط پر جدا ہو جائیں ۔ نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کا بھی یہی مطلب ہے ، جس میں آپ ﷺ نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ اگر خریدار بیچنے والے سے نقد و ادھار میں سے کسی ایک خاص شرط پر جدا ہو ، تو یہ معاملہ ایک بیع میں دو سودوں والا ہے ہی نہیں ۔ "
( غریب الحدیث : 110 / 4 )
حافظ ابو سلیمان خطابی ؒ :
حافظ ، ابو سلیمان ، خطابی ؒ ( 388 - 319ھ ) فرماتے ہیں :
وَتَفْسِیرُ مَا نُہِيَ عَنْہُ مِنْ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ عَلٰی وَجْہَیْنِ ، أَحَدَہُمَا أَنْ یَّقُولَ بِعْتُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ نَقْدًا بِعَشْرَۃٍ وَنَسِیئَۃً بِخَمْسَۃَ عَشَرَ ، فَہٰذَا لَا یَجُوزُ لأَِنَّہٗ لَا یُدْرٰی أَیُّہُمَا الثَّمَنُ الَّذِي یَخْتَارُہٗ مِنْہُمَا ، فَیَقَعُ بِہِ الْعَقْدُ ، وَإِذَا جُہِلَ الثَّمَنُ بَطَلَ الْبَیْعُ ۔
" ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع کرنے والی حدیث کی دو تفسیریں کی گئی ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ بیچنے والا یوں کہے : میں تجھے یہ کپڑا نقد قیمت پر دس میں اور ادھار پر پندرہ میں دوں گا ۔ یہ صورت جائز نہیں ، کیونکہ اس صورت میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ خریدنے والا کون سی قیمت منتخب کرے گا ۔ اسی طرح ہی سودا طَے ہو جاتا ہے ، لیکن جب قیمت نامعلوم ہو ، تو بیع فاسد ہوتی ہے ۔ "
( معالم السنن : 123 / 3 )
علامہ ابن عبد البر ؒ :
حافظ یوسف بن عبد اللہ ، ابن عبد البر ؒ ( 463 - 368ھ ) فرماتے ہیں :
ہٰذَا مِنْ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ عِنْدَ الْجَمِیعِ إِذَا افْتَرَقَا عَلٰی ذٰلِکَ ۔
" سب اہل علم کے نزدیک یہ صورت ( کہ نقد اتنے میں اور ادھار اتنے میں ) ایک بیع میں دو سودے کی اس وقت ہو گی جب بائع اور مشتری اسی ( عدمِ تعین ) پر جدا ہو جائیں ۔ "
( الاستذکار : 450 / 6 )
نیز فرماتے ہیں :
وَمِمَّا نَہٰی عَنْہُ ، بَیْعَتَانِ فِي بَیْعَۃٍ ، وَذٰلِکَ أَنْ یَّبِیعَ الرَّجُلُ سِلْعَۃً بِخَمْسَۃٍ نَّقْدًا ، أَوْ عَشْرَۃٍ إِلٰی أَجَلٍ ، قَدْ وَجَبَ الْبَیْعُ بِأَحَدِ الثَّمَنَیْنِ ، وَالْبَائِعُ بِالْخِیَارِ بِأَيِّ الثَّمَنَیْنِ شَائَ أَوْجَبَ بِہٖ لِلْمُشْتَرِي ، فَہٰذَا بَیْعٌ فَاسِدٌ ، ... ، فَإِنْ کَانَ الْبَیْعُ عَلٰی أَنَّ الْمُشْتَرِيَ بِالْخِیَارِ فِیہِمَا جَمِیعًا ، بَیْنَ أَنْ یَّأْخُذَ بِأَیَّتِہِمَا شَائَ ، وَبَیْنَ أَنْ یَّرُدَّہُمَا جَمِیعًا ، فَذٰلِکَ جَائِزٌ ، وَلَیْسَ مِنْ بَابِ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ ، لِأَنَّ الْبَیْعَ ہٰہُنَا نَافِذٌ ، وَقَعَ عَلٰی شَيْئٍ بِعَیْنِہٖ ، یَخْتَارُہٗ مِنْ شَیْئَیْنِ مَعْلُومَیْنِ ، لَہُ الْخِیَارُ فِي أَحَدِہِمَا ، وَالسِّلْعَۃُ الْـأُولٰی لَمْ یَقَعْ شِرَاؤُہَا عَلٰی شَيْئٍ بِعَیْنِہٖ بِقَطْعٍ أَوْ خِیَارٍ ۔
" رسول اللہ ﷺ نے جن بیوع سے منع فرمایا ہے ، ان میں سے ایک وہ بیع ہے ، جس میں دو سودے کئے گئے ہوں ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ بیچنے والا نقد میں پانچ کا اور ادھار میں دس کا بیچ رہا ہو ، توان دونوں میں سے کسی ایک ( نامعلوم ) قیمت پر سودا ہو گا اور بیچنے والے کو اختیار ہو گا کہ وہ جو قیمت چاہے گا ، خریدنے والے کے ذمے لگائے گا ۔ یہ بیع فاسد ہے ... لیکن اگر یہ بیع اس طرح ہو کہ خریدار کو نقد یا ادھار میں سے کوئی ایک قیمت منتخب کرنے یا دونوں کو ردّ کرنے کا اختیار ہو ، تو یہ جائز ہے اور ایک بیع میں دو سودوں کے زمرے میں نہیں آتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بیع ایسے معین معاملے پر طَے ہوئی ہے ، جسے خریدار دو معلوم صورتوں میں سے پسند کرے گا اور اس کو ان دونوں میں سے کسی ایک کے منتخب کرنے کا مکمل اختیار ہے ۔ اس کے برعکس پہلے بیان کی گئی صورت میں چیز کی بیع کسی ایک طَے شدہ معاملے یا خریدار کے اختیار پر واقع نہیں ہوئی تھی ۔ "
( الکافي في فقہ أہل المدینۃ : 740 - 739 / 2 )
حافظ ابن اثیر جزری ؒ :
مشہور لغوی و اصولی اور محدث ، علامہ مبارک بن محمد ، ابن اثیر ، جزری ؒ ( 606 - 544ھ ) اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
نَہٰی عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ ، ہُوَ أَنْ یَّقُولَ : بِعْتُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ نَقْدًا بِعَشَرَۃٍ وَّنَسِیئَۃً بِخَمْسَۃَ عَشَرَ ، فَلَا یَجُوزُ ، لِأَنَّہٗ لَا یُدْرٰی أَیُّہُمَا الثَّمَنُ الَّذِي یَخْتَارُہٗ لِیَقَعَ عَلَیْہِ الْعَقْدُ ۔
" نبی اکرم ﷺ نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا ۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ بیچنے والا کہے : میں نے تجھے یہ کپڑا نقد دس کا اور ادھار پندرہ کا بیچا ۔ یہ صورت جائز نہیں ، کیونکہ یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ وہ کون سی قیمت منتخب کر رہا ہے تاکہ اس پر معاملہ طَے ہو ۔ "
( النہایۃ في غریب الحدیث والأثر : 173 / 1 )
علامہ ابن منظور افریقی ؒ :
علامہ ، محمد بن مکرم ، ابن منظور ، افریقی ؒ ( 711 - 630ھ ) نے بھی اس حدیث کی شرح میں بالکل یہی بات لکھی ہے ۔ ( لسان العرب : 26 / 8 )
معلوم ہوا کہ اگر نقد یا ادھار میں سے کوئی ایک صورت طَے ہو جائے ، تو کوئی ابہام نہیں رہتا اور خرید و فروخت درست ہو جاتی ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ :
شیخ الاسلام ، امام ، ابن تیمیہ ؒ ( 728 - 661ھ ) کا تفصیلی فتویٰ تو شروع کے صفحات میں ذکر کیا جا چکا ہے ، جہاں انہوں نے کتاب وسنت اور اجماع کی بنا پر اسے جائز کہا ، البتہ یہاں ان کا ایک اور صریح قول پیش کیا جا رہا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں :
فَإِنَّ الْـأَجَلَ یَأْخُذُ قِسْطًا مِّنَ الثَّمَنِ ۔
" بلاشبہ مدت ، قیمت میں اپنا حصہ رکھتی ہے ۔ "
( مجموع الفتاوٰی : 499 - 498 / 29 )
علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری ؒ :
شارحِ سنن ترمذی ، علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ ( م : 1353ھ ) فرماتے ہیں :
قَالَ الْبَائِعُ : أَبِیعُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ وَبِنَسِیئَۃٍ بِعِشْرِینَ ، فَقَالَ الْمُشْتَرِي : اشْتَرَیْتُہٗ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ ، ثُمَّ نَقَدَ عَشْرَۃَ دَرَاہِمَ ، فَقَدْ صَحَّ ہٰذَا الْبَیْعُ ، وَکَذٰلِکَ إِذَا قَالَ الْمُشْتَرِي : اشْتَرَیْتُہٗ بِنَسِیئَۃٍ بِعِشْرِینَ ، وَفَارَقَ الْبَائِعَ عَلٰی ہٰذَا ، صَحَّ الْبَیْعُ ، لِأَنَّہٗ لَمْ یُفَارِقْہُ عَلٰی إِیہَامٍ وَّعَدَمِ اسْتِقْرَارِ الثَّمَنِ ، بَلْ فَارَقَہٗ عَلٰی وَاحِدٍ مُّعَیَّنٍ مِّنْہُمَا ۔
" جب بیچنے والا خریدار سے کہے کہ میں تجھے یہ کپڑا نقد قیمت پر دس میں اور ادھار پر بیس میں دیتا ہوں اور خریدار یہ کہہ دے کہ میں اسے نقد دس میں خریدتا ہوں ، پھر دس درہم نقد دے بھی دے ، تو یہ بیع درست ہو گی ۔ اسی طرح جب خریدار کہے کہ میں اس کپڑے کو ادھار پر بیس درہم میں خریدتا ہوں اور اسی معاملے پر وہ بیچنے والے سے جدا ہو جائے ، تو یہ بیع بھی درست ہو گی ، کیونکہ وہ کسی وہمی معاملے اور قیمت کے عدم تعین پر جدا نہیں ہوا ، بلکہ ایک معین معاملے پر جدا ہوا ہے ۔ "
( تحفۃ الأحوذي : 358 / 4 )
نواب صدیق حسن خان قنوجی ؒ :
علامہ ، محمد صدیق خان بن حسن ، قنوجی ؒ ( 1307 - 1248ھ ) فرماتے ہیں :
وَأَمَّا بَیْعُ الشَّيْئِ بِأَکْثَرَ مِنْ سِعْرِ یَوْمِہٖ مُؤَجَّلًا ، فَأَقُولُ : الزِّیَادَۃُ عَلٰی سِعْرِ یَوْمِ الْبَیْعِ لَیْسَتْ مِنَ الرِّبَا فِي وَرْدٍ وَلَا صَدْرٍ ، لأَِنَّ الرِّبَا زِیَادَۃُ أَحَدِ الْمُتَسَاوِیَیْنِ عَلَی الْآخَرِ ، وَلَا تَسَاوِي بَیْنَ الشَّيْئِ وَثَمَنِہٖ ، مَعَ اخْتِلَافِ جِنْسِہِمَا ، فَلَا یَصِحُّ أَنْ یَّکُونَ تَحْرِیمُ ہٰذِہِ الصُّورَۃِ لِکَوْنِہَا رِبًا ۔
" رہا کسی چیز کو ایک مدت کے موجودہ بھاؤ سے مہنگی بیچنا ، تو میں کہتا ہوں کہ یہ کسی دور میں بھی سود نہیں کہلایا ، کیونکہ دو برابر کی چیزوں میں سے ایک کا دوسرے سے زائد ہونا سود کہلاتا ہے ۔ یہاں چیز اور قیمت میں کوئی برابری نہیں ہوتی ، مزید یہ کہ ان کی جنس بھی مختلف ہوتی ہے ۔ لہٰذا اس صورت کو سود ہونے کی بنا پر حرام قرار دینا درست نہیں ۔ "
( الروضۃ الندیّۃ شرح الدرر البہیّۃ : 106 / 2 )
اکثر عرب علمائےِ کرام :
اکثر عرب علماء مثلاً شیخ ابن باز ، شیخ ابن عثیمین وغیرہ کا یہی موقف ہے ۔
صرف ادھار والا معاملہ کیوں منع ہے؟
یہاں ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ مذکورہ حدیث ، جسے مانعین اپنی دلیل بناتے ہیں ، وہ تو صرف ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع کرتی ہے ، لیکن یہ لوگ اس صورت کو بھی کیوں منع قرار دیتے ہیں کہ بیچنے والا کہے : میں صرف ادھار بیچتا ہوں اور اتنی قیمت لیتا ہوں؟اس کی کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی جا سکی ۔
اس سلسلے میں علامہ محمد بن علی شوکانی ؒ ( 1250 - 1173ھ ) فرماتے ہیں :
إِنَّ غَایَۃَ مَا فِیہَا الدَّلَالَۃُ عَلَی الْمَنْعِ مِنَ الْبَیْعِ إِذَا وَقَعَ عَلٰی ہَذِہِ الصُّورَۃِ ، وَہِيَ أَنْ یَّقُولَ : نَقْدًا بِکَذَا ، وَنَسِیئَۃً بِکَذَا ، لَا إِذَا قَالَ : مِنْ أَوَّلِ الْـأَمْرِ: نَسِیئَۃً بِکَذَا فَقَطْ ، وَکَانَ أَکْثَرَ مِنْ سِعْرِ یَوْمِہٖ ، مَعَ أَنَّ الْمُتَمَسِّکِینَ بِہٰذِہِ الرِّوَایَۃِ یَمْنَعُونَ مِنْ ھٰذِہِ الصُّورَۃِ ، وَلَا یَدُلُّ الْحَدِیثُ عَلٰی ذٰلِکَ ، فَالدَّلِیلُ أَخَصُّ مِنَ الدَّعْوٰی ۔
" اس حدیث کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ اس صورت کی ممانعت ثابت ہوتی ہے کہ بیچنے والا یہ کہے : نقد اتنے کی اور ادھار اتنے کی ۔ جب وہ شروع ہی سے یہ کہے کہ میں ادھار دوں گا اور قیمت یہ ہو گی اور وہ قیمت موجودہ قیمت سے زیادہ ہو ، تو یہ صورت اس حدیث سے منع نہیں ہوتی ، لیکن اس حدیث سے دلیل لینے والے اس صورت کو بھی ممنوع قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں بنتی ۔ یوں ان کا دعویٰ عام ہے ، جب کہ دلیل خاص ۔ "
( نیل الأوطار : 181 / 5 )
فلہ أوکسہما أو الربا :
رہے حدیث ِنبوی کے وہ الفاظ جن سے بعض متاخرین کو یہ شبہ ہوا ہے کہ ادھار کی وجہ سے قیمت بڑھانا سود ہے ، تو ان الفاظ کی یہ مراد قطعاً نہیں ۔
ایک تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس حدیث کی تمام سندوں میں صرف یہی بات مذکور ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ صرف ایک سندمیں یہ اضافہ ہے کہ جو شخص ایسا کرے گا ، یا تو وہ کم قیمت پر معاملہ کرے گا یا پھر وہ سود ہو گا ۔ اسی بنا پر بعض اہل علم نے ان الفاظ کو " شاذ " بھی قرار دے یا ہے ۔ لیکن حقیقت میں یہ سند بھی " حسن " ہے ۔ اسے " شاذ " یا " ضعیف " کہنا درست نہیں ، البتہ اس صورت ِحال میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بیع تقسیط کے علاوہ بھی ایک بیع میں دو سودے کرنے کی کئی صورتیں موجود بھی ہیں ، جنہیں فریقِ اوّل اور فریقِ ثانی یکساں تسلیم کرتے ہیں ، ان میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ :
زید نے بکر کو ایک دینار پیشگی دیا کہ وہ اس کے بدلے ایک مہینے بعد ایک کلو گندم دے گا ۔ جب مہینہ گزرا تو زید نے بکر سے ایک کلو گندم کا مطالبہ کیا ، لیکن بکر کہنے لگا کہ جو ایک کلو گندم تم نے مجھ سے لینی ہے ، اسے ایک مہینے کے ادھار پر دو کلو گندم کے بدلے مجھے بیچ دو ۔
یعنی ایک سودا پورا ہونے سے پہلے ہی اسی سودے میں دوسرا سودا کر لینا ۔
حدیث کے زیر بحث الفاظ اسی صورت کے بارے میں ہیں ۔ اہل علم بھی یہی کہتے ہیں ، جیسا کہ :
علامہ خطابی ؒ کی تفسیر :
امام بیہقی ؒ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
قَرَأْتُ فِي کِتَابِ أَبِي سُلَیْمَانَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِي تَفْسِیرِ ہٰذَا الْحَدِیثِ ، ... کَأَنَّہٗ أَسْلَفَ دِینَارًا فِي قَفِیزِ بُرٍّ إِلٰی شَہْرٍ ، فَلَمَّا حَلَّ الْـأَجَلُ وَطَالَبَہٗ بِالْبُرِّ ، قَالَ لَہٗ : بِعْنِي الْقَفِیزَ الَّذِي لَکَ عَلَيَّ بِقَفِیزَیْنِ إِلٰی شَہْرَیْنِ ، فَہٰذَا بَیْعٌ ثَانٍ قَدْ دَخَلَ عَلَی الْبَیْعِ الْـأَوَّلِ ، فَصَارَ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ ، فَیُرَدَّانِ إِلٰی أَوْکَسِہِمَا ، وَہُوَ الْـأَصْلُ ، فَإِنْ تَبَایَعَا الْبَیْعَ الثَّانِيَ قَبْلَ أَنْ یَّتَنَاقَضَا الْبَیْعَ الْـأَوَّلَ ، کَانَا مُرْبِیَیْنِ ۔
" میں نے ابو سلیمان ( حافظ خطابی ) ؒ کی کتاب میں اس حدیث کی یہ تفسیر پڑھی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کو ایک دینار پیشگی دیا تاکہ مہینے بعد گندم کا ایک قفیز ( پیمانہ ) لے سکے ۔ جب وقت آیا اور اس نے گندم کا مطالبہ کیا ، تو دوسرا شخص کہنے لگا : تم مجھے وہ گندم بیچ دو ، جو مجھ سے لینی تھی اور اس کے بدلے دو مہینوں بعد دو قفیزگندم لے لینا ۔ یہ دوسرا سودا ہے ، جو پہلے سودے پر داخل ہو گیا ہے ۔ یوں یہ ایک بیع میں دو سودے ہو گئے ہیں ۔ ان دونوں سودوں کو کم ، جو کہ اصل ( ایک ) ہے ، کی طرف لوٹایا جائے گا ۔ اگر وہ پہلا سودا ختم ہونے سے پہلے دوسرا سودا کرتے ہیں ، تو وہ سود والا معاملہ کریں گے ۔ "
( السنن الکبرٰی للبیہقي : 561 / 5 ، لسان العرب لابن منظور : 257 / 6 ، النہایۃ في غریب الحدیث والأثر لابن الأثیر : 220 / 5 )
علامہ ابن قیم ؒ کی تفسیر :
شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، علامہ ابن قیم ؒ ( 751 - 691ھ ) فرماتے ہیں :
وَالتَّفْسِیرُ الثَّانِي أَنْ یَّقُولَ أَبِیعُکَہَا بِمِائَۃٍ إِلٰی سَنَۃٍ عَلٰی أَنْ أَشْتَرِیَہَا مِنْکَ بِثَمَانِینَ حَالَّۃً ، وَہٰذَا مَعْنَی الْحَدِیثِ الَّذِي لَا مَعْنٰی لَہٗ غَیْرُہٗ ، وَہُوَ مُطَابِقٌ لِّقَوْلِہٖ : " فَلَہٗ أَوْکَسُہُمَا أَوِ الرِّبَا " ، فَإِنَّہٗ إِمَّا أَنْ یَّأْخُذَ الثَّمَنَ الزَّائِدَ ، فَیُرْبِي ، أَوِ الثَّمَنَ الْـأَوَّلَ ، فَیَکُونَ ہُوَ أَوْکَسَہُمَا ، وَہُوَ مُطَابِقٌ لِّصَفْقَتَیْنِ فِي صَفْقَۃٍ ، فَإِنَّہٗ قَدْ جَمَعَ صَفْقَتَيِ النَّقْدِ وَالنَّسِیئَۃِ فِي صَفْقَۃٍ وَّاحِدَۃٍ وَّمَبِیعٍ وَّاحِدٍ ، وَہُوَ قَصْدُ بَیْعِ دَرَاہِمَ عَاجِلَۃٍ بِدَرَاہِمَ مُؤَجَّلَۃٍ أَکْثَرَ مِنْہَا ، وَلَا یَسْتَحِقُّ إِلَّا رَأْسَ مَالِہٖ ، وَہُوَ أَوْکَسُ الصَّفْقَتَیْنِ ، فَإِنْ أَبٰی إِلَّا الْـأَکْثَرَ ، کَانَ قَدْ أَخَذَ الرِّبَا ۔
" اس حدیث کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے : میں تجھے یہ چیز ایک سال کے ادھار پر سو درہم میں بیچتا ہوں ، اس شرط پر کہ ابھی میں تم سے یہی چیز اسی درہم میں خریدوں گا ۔ اس ( اضافی الفاظ والی ) حدیث کا یہی معنیٰ ہے ، اس کے علاوہ کوئی معنیٰ نہیں اور یہی معنیٰ نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کے مطابق ہے کہ وہ کم قیمت پر فروخت کرے گا یا سود لے گا ۔ کیونکہ بیچنے والے کے پاس دو راستے ہیں ، یا تو وہ زائد قیمت لے ، جو کہ سود ہے یا پھر پہلی قیمت ، جو کہ کم ہے ، وہ لے ۔ یہی چیز ایک بیع میں دو سودے والی ہے ، کیونکہ اس نے ایک بیع میں دو سودے جمع کر لئے ہیں ۔ دراصل اس معاملے کے ذریعے وہ پیشگی درہموں کے بدلے تاخیر سے زیادہ درہم دینا چاہتا ہے ، حالانکہ وہ صرف اپنے سرمایہ کا مستحق ہے اور یہی دو سودوں میں سے کم قیمت والا سودا ہے ۔ اگر وہ زیادہ لینے پر ہی اصرار کرے ، تو پھر وہ سود ہی لے گا ۔ "
( تہذیب السنن مع عون المعبود : 247 / 9 )
شارحِ ترمذی ابن رسلان :
شارحِ جامع ترمذی ، شیخ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ نے ابن رسلان ( م : 844ھ ) سے بھی یہی معنیٰ نقل کیا ہے ۔
ہم بیان کر چکے ہیں کہ اسلاف ِامت میں سے کسی نے چیز کی ادھار میں زائد قیمت کو سود نہیں کہا ۔ اگر حدیث ِنبوی کی یہ مراد ہوتی ، تو ائمہ محدثین ضرور اس سے واقف ہوتے ۔
اگر کوئی اصرار کرے کہ ان الفاظ کا تعلق نقد و ادھار کے فرق سے بھی ہے ، تو پھر بھی یہ تعلق اس صورت میں ہو گا ، جب نقد وا دھار میں سے کوئی چیز طَے نہیں ہوتی ، بلکہ ابہام میں ہی سودا طَے ہو جاتا ہے ۔ اگر نقد و ادھار میں سے کوئی ایک طَے ہو جائے ، تو پھر ایک بیع میں دو سودے ہوئے ہیں نہیں ، بلکہ ایک ہی سودا ہوا ہے ، جو بالکل جائز ہے ۔
حدیث کے الفاظ اور سلف صالحین کا فہم یہی بتاتا ہے اور گزشتہ صفحات میں اس کا ذکر تفصیل سے کیا جا چکا ہے ۔
قیمت کا عدم تعین ہی ممانعت کا سبب ہے :
بعض لوگ یہ کہتے ہیں قیمت کا عدمِ تعین اس بیع کی ممانعت کا سبب نہیں ۔ ان کا یہ فہم ائمہ محدثین اور اسلاف ِامت کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ ہم امام طاؤس ، امام زہری ، امام قتادہ ، امام حکم بن عتیبہ ، امام حماد بن ابو سلیمان ، امام شافعی ، امام ترمذی ، امام قاسم بن سلام ، امام بغوی ، حافظ ابن عبد البر ، علامہ خطابی اور ابن اثیر جزری وغیرہ سے یہ ثابت کر آئے ہیں کہ نقد و ادھار میں سے کسی ایک قیمت کا عدمِ تعین ہی اس بیع کی ممانعت کا سبب ہے ۔ اسی لئے اگر نقد و ادھار میں سے ایک کا تعین ہو جائے تو یہ معاملہ ان اہل علم کے نزدیک جائز ہو جاتا ہے ۔ اس کے خلاف اسلاف سے کچھ بھی ثابت نہیں ۔ جب سلف صالحین نے قیمت کے عدمِ تعین کو ممانعت کا سبب سمجھا ہے ، تو بعد والوں کو اپنی سمجھ اسی کے مطابق بنانی چاہئے ۔
بعض نے لکھا ہے :
" اس جگہ بیع میں جہالت کا ہونا مضر نہیں ہے کیونکہ خریدار اور بائع بااختیار ہیں اور وہ دونوں ہی اگر دو قیمتوں میں سے ایک قیمت کا تعین کئے بغیر جدا ہو جائیں اور بائع خریدار کو بعد میں ملے اور خریدار سے کہہ دے کہ مجھے ادھار منظور ہے اور وہ نقد پیسے اسے دے دے ، تو اس صورت میں کوئی ایسی جہالت نہیں پائی جاتی ، جو بیع کی صحت کے لئے مضر ہو ۔ "
بات بہت واضح تھی ، لیکن اسے دھندلانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اگر خرید و فروخت کا معاملہ اس طرح ہو کہ یہ کپڑا نقد دس کا اور ایک ماہ کے ادھار پر پندرہ کا ہے اور دونوں فریق بغیر نقد و ادھار طَے کئے جُدا ہو جائیں اور اگلے دن جب ملیں تو خریدنے والا کہے کہ میں جو کپڑا لے کر گیا تھا ، وہ نقد پر تھا ، یہ لو دس روپے اور بیچنے والا کہے کہ میں نے تو ادھار بیچا تھا ، اس لئے میں دس نہیں لیتا ، بلکہ ایک ماہ بعد پندرہ ہی لوں گا ۔ تو بتائیے کہ کیا جہالت اس بیع میں فساد کا سبب بنی کہ نہیں؟
مختلف مکاتب ِفکر کے فقہاء کا نظریہ :
اب مختلف مسالک کے فقہاء کی صراحت بھی ملاحظہ فرمائیں :
امام طحاوی حنفی ؒ :
ى امام ابو جعفر ، احمد بن محمد بن سلامہ ، طحاوی ؒ ( 321 - 238ھ ) ایک بیع میں دو شرطوں کے بارے میں بعض اہل علم کا موقف ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فَالْبَیْعُ فَاسِدٌ ، لِأَنَّہُ وَقَعَ بِثَمَنٍ مَجْہُولٍ ۔
" یہ بیع فاسد ہے ، کیونکہ یہ نامعلوم قیمت پر واقع ہوئی ہے ۔ "
( شرح معاني الآثار : 47 / 4 )
علامہ شیرازی شافعی ؒ :
علامہ ابو اسحاق ، شیرازی ، شافعی ؒ ( 476 - 393ھ ) فرماتے ہیں :
نَہٰی رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ ، فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُونَ الْمُرَادُ بِہٖ أَنْ یَّقُولَ : بِعْتُکَ ہٰذَا بِأَلْفٍ نَّقْدًا أَوْ بِأَلْفَیْنِ نَسِیئَۃً ، فَلَا یَجُوزُ لِلْخَبَرِ ، وَلِأَنَّہٗ لَمْ یَعْقِدْ عَلٰی ثَمَنٍ مَّعْلُومٍ ۔
" رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ اس کی ایک مراد یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی کہے : میں تجھے یہ چیز ایک ہزار میں نقد اور دو ہزار میں ایک سال کے ادھار پر فروخت کرتا ہوں ۔ مذکورہ حدیث کی وجہ سے یہ ناجائز ہے ، اس لئے بھی کہ اس نے کسی معین قیمت پر معاملہ طَے نہیں کیا ۔ "
( المہذّب في فقہ الإمام الشافعي : 20 / 2 )
علامہ سرخسی حنفی ؒ :
ى علامہ ، محمد بن احمد ، سرخسی ، حنفی ؒ ( م : 483ھ ) لکھتے ہیں :
وَإِذَا عَقَدَ الْعَقْدَ عَلٰی أَنَّہٗ إِلٰی أَجَلِ کَذَا بِکَذَا ، وَبِالنَّقْدِ بِکَذَا ، أَوْ قَالَ إِلٰی شَہْرٍ بِکَذَا ، أَوْ إِلٰی شَہْرَیْنِ بِکَذَا ، فَہُوَ فَاسِدٌ ، لِأَنَّہٗ لَمْ یُعَاطِہٖ عَلٰی ثَمَنٍ مَّعْلُومٍ ۔
" جب کوئی اس صورت میں معاملہ کرے کہ اتنی مدت کے ادھار پر اتنی قیمت میں اور نقد اتنی قیمت میں یا ایک مہینے کے ادھار پر اتنی قیمت میں اور دو مہینوں کے ادھار پر اتنی قیمت میں ، تو یہ بیع فاسد ہے ، کیونکہ اس نے کسی معین قیمت پر معاملہ طَے نہیں کیا ۔ "
( المبسوط : 13 / 8 )
علامہ کاسانی حنفی ؒ :
علامہ ابوبکر ، مسعود بن احمد ، کاسانی حنفی ؒ ( م : 587ھ ) لکھتے ہیں :
وَکَذَا إِذَا قَالَ : بِعْتُکَ ہٰذَا الْعَبْدَ بِأَلْفِ دِرْہَمٍ إِلٰی سَنَۃٍ ، أَوْ بِأَلْفٍ وَّخَمْسِمِائَۃٍ إِلٰی سَنَتَیْنِ ، لِأَنَّ الثَّمَنَ مَجْہُولٌ ۔
" اسی طرح ( یہ بیع بھی فاسد ہے ) جب کوئی کہے : میں نے تجھے یہ غلام سال کے ادھار پر ایک ہزار درہم میں یا دو سال کے ادھار پر پندرہ سو درہم میں بیچا ، کیونکہ قیمت معلوم ( معین ) نہیں ۔ "
( بدائع الصنائع : 158 / 5 )
ابن قدامہ مقدسی حنبلی ؒ :
ى علامہ ، عبد اللہ بن احمد ، ابن قدامہ ، مقدسی ؒ ( 620 - 541ھ ) فرماتے ہیں :
وَہُوَ أَیْضًا بَاطِلٌ ، وَہُوَ قَوْلُ الْجُمْہُورِ ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَجْزِمْ لَہٗ بِبَیْعٍٍ وَّاحِدٍ ، فَأَشْبَہَ مَا لَوْ قَالَ : بِعْتُکَ ہٰذَا أَوْ ہٰذَا ، وَلِأَنَّ الثَّمَنَ مَجْہُولٌ ، فَلَمْ یَصِحَّ ، کَالْبَیْعِ بِالرَّقْمِ الْمَجْہُولِ ... ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ طَاوٗسٍ وَّالْحَکَمِ وَحَمَّادٍ أَنَّہُمْ قَالُوا : لَا بَأْسَ أَنْ یَّقُولَ : أَبِیعُکَ بِالنَّقْدِ بِکَذَا وَبِالنَّسِیئَۃِ بِکَذَا ، فَیَذْہَبُ عَلٰی أَحَدِہِمَا ، وَہَذَا مَحْمُولٌ عَلٰی أَنَّہٗ جَرٰی بَیْنَہُمَا بَعْدَ مَا یَجْرِي فِي الْعَقْدِ ، فَکَأَنَّ الْمُشْتَرِيَ قَالَ : أَنَا آخُذُہٗ بِالنَّسِیئَۃِ بِکَذَا ، فَقَالَ : خُذْہُ ، أَوْ قَدْ رَضِیتُ ، وَنَحْوَ ذٰلِکَ ، فَیَکُونُ عَقْدًا کَافِیًا ۔
" یہ بیع بھی باطل ہے ، جمہور بھی یہی کہتے ہیں ، کیونکہ اس میں کسی ایک معاملے کو طَے نہیں کیا گیا ۔ یہ ایسے ہی ہے ، جیسے کوئی کہے : میں تمہیں یہ یا یہ چیز بیچتا ہوں ۔ یہ اس لئے بھی باطل ہے کہ قیمت معین نہیں اور ایسے ہی ہے جیسے نامعلوم قیمت پر بیع کی جا رہی ہو ... امام طاؤس ، امام حکم اور حماد سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا : اگر کوئی کہے : میں تجھے نقد اتنے میں ، جب کہ ادھار اتنے میں دوں گا اور خریدار کسی ایک قیمت پرمعاملہ طَے کر لے ، تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سودا کرتے وقت بائع اور مشتری میں جو بحث و تکرار ہوتی ہے ، اسی میں مشتری نے کہہ دیا کہ میں اسے اتنے میں ادھار لیتا ہوں اور بائع نے کہہ دیا : لے لو یا میں راضی ہوں وغیرہ ، تو یہ سودا مکمل ہو جائے گا ۔ "
( المغني : 177 / 4 )
حافظ نووی شافعی ؒ :
ى حافظ ، یحییٰ بن شرف ، نووی ، شافعی ؒ ( 676 - 631ھ ) فرماتے ہیں :
أَنْ یَّقُولَ بِعْتُکَ ہٰذَا بِأَلْفٍ نَّقْدًا ، أَوْ بِأَلْفَیْنِ نَسِیئَۃً ، فَلاَ یَجُوزُ لِلْخَبَرِ ، وَلِأَنَّہٗ لَمْ یَعْقِدْ عَلٰی ثَمَنٍ مَّعْلُومٍ ۔
" کوئی کہے : میں نے تجھے یہ چیز نقد میں ایک ہزار کی اور ادھار میں دو ہزار کی بیچی ، تو یہ اس حدیث کی وجہ سے جائز نہیں ، نیز اس وجہ سے بھی کہ اس نے کسی معین قیمت پر معاملہ طَے نہیں کیا ۔ "
( المجموع شرح المہذّب : 314 / 9 )
خطیب شربینی شافعی ؒ :
ى فقیہ و مفسر ، محمد بن احمد ، خطیب شربینی شافعی ؒ ( م : 977ھ ) فرماتے ہیں :
وَہُو بَاطِلٌ لِّلْجَہَالَۃِ ۔
" یہ بیع ( قیمت کے ) عدمِ تعین کی بنا پر فاسد ہے ۔ "
( مغني المحتاج إلی معرفۃ معاني ألفاظ المنہاج : 381 / 2 )
علامہ دسوقی مالکی ؒ :
علامہ محمد بن احمد ، دسوقی ، مالکی ؒ ( م : 1230ھ ) لکھتے ہیں :
وَإِنَّمَا مُنِعَ لِلْجَھْلِ بِالثَّمَنِ حَالَ الْبَیْعِ ۔
" یہ معاملہ اس لئے منع کیا گیا ہے کہ بیع کے وقت قیمت معلوم نہیں ہوتی ۔ "
( حاشیۃ الدسوقي علی الشرح الکبیر : 58 / 3 )
علامہ شوکانی ؒ :
علامہ محمد بن علی شوکانی ؒ ( 1250 - 1173ھ ) بھی فرماتے ہیں :
وَالْعِلَّۃُ فِي تَحْرِیمِ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ عَدَمُ اسْتِقْرَارِ الثَّمَنِ فِي صُورَۃِ بَیْعِ الشَّيْئِ الْوَاحِدِ بِثَمَنَیْنِ ۔
" ایک بیع میں دو سودے کرنے سے ممانعت کا سبب یہ ہے کہ ایک چیز کی دو قیمتیں بتانے کی صورت میں قیمت متعین نہیں ہوتی ۔ " ( نیل الأوطار : 181 / 5 )
علامہ شنقیطی :
دورِ حاضر کے عرب محقق ، محمد بن محمد مختار ، شنقیطی لکھتے ہیں :
لَوْ قَالَ لَہٗ : أَبِیعُکَ بِعَشْرِۃٍ حَاضِرَۃً وَّبِعِشْرِینَ إِلٰی أَجَلٍ ، وَافْتَرَقَا قَبْلَ التَّحْدِیدِ ، فَقَدْ أَدْخَلَا الصَّفْقَتَیْنِ فِي صَفْقَۃٍ وَّاحِدَۃٍ ، ... ، أَمَّا لَوْ بَتَّ ، وَاشْتَرٰی بِمِائَۃٍ حَاضِرَۃٍ أَوْ بِمِائَتَیْنِ إِلٰی أَجَلٍ ، کَمَا ہُوَ مَوْجُودٌ فِي بَیْعِ التَّقْسِیطِ ، فَلَیْسَ ہٰذَا بِبَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ ، لأَِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ أَوْکَسُہُمَا وَلَا الرِّبَا ، وَلِأَنَّ الْعَقْدَ تَمَّ عَلٰی سِعْرٍ مُّعَیَّنٍ ، فَالسِّلْعَۃُ قِیمَتُہَا حَاضِرَۃً بِمِائَۃٍ ، وَقِیمَتُہَا إِلٰی أَجَلٍ بِمِائَتَیْنِ ، سَتَشْتَرِیہَا بِمِائَۃٍ حَاضِرَۃٍ أَوْ بِمِائَتَیْنِ إِلٰی أَجَلٍ ، فَہٰذَا لَیْسَ مِنْ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ فِي شَيْئٍ ، وَلَوْ قُلْنَا : إِنَّ کَوْنَہٗ یُعْرَضُ عَلَیْہِ الْقِیمَتَیْنِ فِي الصَّفْقَۃِ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ ، لَدَخَلَتْ جَمِیعُ الْبُیُوعَاتِ فِي الْمُسَاوَمَاتِ ، لأَِنَّہٗ فِي الْمُسَاوَمَۃِ یَقُولُ لَہٗ : بِعْنِي بِعِشْرِینَ ، فَیَقُولُ : لَا ، بَلْ بِثَلَاثِینَ ، کَمَا لَوْ قَالَ لَہٗ : بِعْنِي بِعَشَرَۃٍ حَاضِرَۃً أَوْ بِعِشْرِینَ إِلٰی أَجَلٍ ، فَالْمَعْنٰی فِي ہٰذَا وَاضِحٌ ۔
" اگر بائع مشتری کو کہے : میں تجھے یہ چیز نقد پر دس میں اورایک معین مدت تک ادھار میں بیس کی دوں گا اور وہ دونوں نقد و ادھار میں سے کسی چیز کو معین کئے بغیر جدا ہو جائیں ، تو انہوں نے ایک بیع میں دو سودے کر دیے ... لیکن اگر آپ طَے کر لیں اور گاہک نقد پر سو میں یا ادھار پر دو سو میں خرید لے ، جیسا کہ بیع تقسیط میں ہوتا ہے ، تو یہ ایک بیع میں دو سودے ہرگز نہیں ، کیونکہ کسی ایک معین قیمت کا نہ تو کم حصہ موجود ہے نہ اس میں سود ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ خرید و فروخت کے معاملے کا اختتام ایک معین قیمت پر ہوا ہے ۔ نقد پر چیز کی قیمت ایک سو اور ادھار پر اس کی قیمت دو سو ہے ۔ آپ اس کو نقد پر سو کی یا معین مدت کے ادھار پر دو سو کی خرید لیں گے ۔ اس صورت کا ایک بیع میں دو سودوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ اگر ہم کہیں کہ سودا کرتے ہوئے اس کی دو قیمتیں بولنا ہی بتا رہا ہے کہ یہ ایک بیع میں دو سودے ہیں ، تو پھر خرید و فروخت کی تمام صورتیں اسی ممنوعہ قسم میں داخل ہو جائیں گی ، مثلاً سودا کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں : یہ چیز مجھے بیس کی بیچ دو ، لیکن بائع کہتا ہے : نہیں ، میں تو تیس میں دوں گا ( یہ بھی تو ایک بیع میں دو قیمتیں ہوئیں ) ، بالکل اسی طرح ہو گا کہ اگر خریدار کہہ دے کہ مجھے نقد پر دس کی یا ادھار پر بیس کی دے دو ۔ اس سلسلے میں بات خوب واضح ہو چکی ہے ۔ "
( شرح زاد المستقنع ، باب الوکالۃ ، حکم بیع الوکیل إلی أجل ، الدرس : 6 ، نقلًا عن المکتبۃ الشاملۃ )
نیز لکھتے ہیں :
وَبَیْعُ التَّقْسِیطِ ، فِیہِ شِبْہُ إِجْمَاعٍ عِنْدَ الْعُلَمَائِ عَلٰی جَوَازِہٖ ۔
" قسطوں کی بیع کے جائز ہونے پر گویا علمائِ کرام کا اجماع ہے ۔ " ( أیضًا )
ایک اور دلیل ... قرض پر نفع سود ہے :
بعض اہل علم نے ادھار کی صورت میں قیمت کے اضافے کو سیدنا فضالہ بن عبید ؓ کے اس اثر کی بنا بھی ناجائز کہا ہے کہ :
کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً ، فَہُوَ وَجْہٌ مِّنْ وُّجُوہِ الرِّبًا ۔
" جو قرض نفع حاصل کرے ، وہ سود کی قسموں میں سے ایک قسم ہے ۔ "
( السنن الکبرٰی للبیہقي : 350 / 5 ، وسندہٗ صحیحٌ )
قرض اور بیع میں فرق ہے :
لیکن یہ استدلال ان کی فاش غلطی ہے ، کیونکہ قرض اور بیع دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ۔ قرض سے نفع لینا جائز نہیں ، جیسا کہ مذکورہ بالا اثر بتا رہا ہے ، جب کہ بیع کی ہی اس لئے جاتی ہے کہ اس سے نفع حاصل ہو ۔ اس صورت ِحال میں اس اثر سے بھلا کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے؟
نیت اور الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے :
اگر کوئی عقلی طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ یہ معاملہ قرض پر نفع ہی کے مشابہ ہے ، کیونکہ اس میں بھی مدت کی بنا پر نفع حاصل کیا جاتا ہے اور اس صورت میں بھی ایسے ہی کیا جاتا ہے ، تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ بہت سی چیزیں عقلی طور پر ایک جیسی ہوتی ہیں ، لیکن نیت اور الفاظ کے بدلنے سے ان کا حکم مختلف ہوتا ہے ، مثلاً :
ایک شخص کسی سے کہتا ہے : مجھے دو دینار قرض دے دو ، میں ایک ماہ بعد دو دینار لوٹا دوں گا ، تو یہ بالکل درست عمل ہے ، لیکن اگر وہ کہے : مجھے دو دینار بیچ دو ، میں ایک ماہ بعد ان کی قیمت دو دینار کی صورت میں واپس کر دوں گا ، تو یہ ناجائز اور حرام عمل ہو گا ، کیونکہ رقم کی رقم کے ساتھ ادھار بیع شریعت کے مطابق سود ہوتی ہے ۔
دیکھا آپ نے کہ دونوں صورتوں کا نتیجہ ایک ہی ہے ، لیکن الفاظ اور نیت کے بدلنے سے حکم بالکل مختلف ہو گیا ۔ ایک صورت میں بالکل جائز اور دوسری صورت میں بالکل ناجائز اور سود ۔ بعینہٖ یہی معاملہ قرض اور بیع میں ادھار کی بنا پر نفع کا ہے ۔
فلیتدبّر !
اسلافِ امت کا فہم :
یہی وجہ ہے کہ متقدمین اہل علم کے پاس بھی یہ اثر پہنچا تھا ، لیکن ان میں سے کسی نے اس کی بنا پر ادھار کے اضافے کو سود قرار نہیں دیا ۔
انہوں نے اس کی کیا تفسیر کی ، ملاحظہ فرمائیں :
امام قتادہ بن دعامہ تابعی ؒ :
امام معمر ؒ بیان کرتے ہیں کہ امام قتادہ تابعی ؒ نے فرمایا :
کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً ، فَہُوَ مَکْرُوہٌ ۔
" ہر وہ قرض جو نفع حاصل کرے ، وہ مکروہ ( حرام ) ہے ۔ "
( مصنّف عبد الرزّاق : 145 / 8 ، وسندہٗ صحیحٌ )
اور یہی امام معمر ؒ انہی امام قتادہ ؒ سے یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ نقد و ادھار کے فرق کی صورت میں اگر ادھار طَے ہو جائے ، تو زیادہ قیمت لینا دینا جائز ہے ، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر ہو چکا ہے ۔
کیا امام قتادہ تابعی ؒ کو اس کا صحیح معنیٰ معلوم تھا یا بعض متاخرین کو؟
امام احمد بن حنبل ؒ :
امام اہل سنت ، احمدبن حنبل ؒ ( 241 - 164ھ ) کے بیٹے ابو الفضل صالح ؒ بیان کرتے ہیں :
وَسَأَلْتُہٗ عَنْ قَوْلِہٖ : کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً ، حَرَامٌ ، مَا مَعْنَاہُ ؟
" ہر وہ قرض جو نفع حاصل کرے ، وہ حرام ہے ، اس قول کا کیا معنیٰ ہے؟
تو امام صاحب ؒ نے فرمایا :
مِثْلُ الرَّجُلِ تَکُونُ لَہُ الدَّارُ ، فَیَجِيْئُ السَّاکِنُ ، فَیَقُولُ : أَقْرِضْنِي خَمْسِینَ دِرْہَمًا حَتّٰی أُسَکِّنَ ، فَیُقْرِضُہٗ وَیَسْکُنُ فِي دَارِہٖ ، أَوْ یَکُونُ یُقْرضُہُ الْقَرْضَ ، فَیُہْدِي لَہُ الْہَدِیَّۃَ ، وَقَدْ کَانَ قَبْلَ ذٰلِکَ لَا یُہْدِي لَہٗ ، أَوْ یُقْرِضُہُ الْقَرْضَ ، وَیَسْتَعْمِلُہُ الْعَمَلَ الَّذِي کَانَ لَا یَسْتَعْمِلہٗ قَبْلَ أَنْ یُّقْرِضَہٗ ، فَیَکُونُ قَرْضُہٗ جَرَّ ہٰذِہِ الْمَنْفَعَۃَ ، وَہٰذَا بَابٌ مِّنْ أَبْوَابِ الرِّبَا ، وَذٰلِکَ أَنْ یَّرْجِعَ بِقَرْضِہٖ ، وَقَدِ ازْادَادَ مَنْفَعَۃً ۔
" اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کا گھر ہو اور کوئی اس میں رہنے کے لئے آئے ، تووہ کہے : مجھے پچاس درہم قرض دو تاکہ میں تمہیں یہاں رہنے کی اجازت دوں ۔ وہ قرض دے دیتا ہے اور اس کے گھر میں رہتا ہے ۔ یا کوئی اس کو قرض دیتا ہے اور وہ اس کے لئے تحائف لاتا ہے ، حالانکہ اس سے پہلے وہ اسے تحفہ نہیں دیتا تھا ، یا کوئی اسے قرض دیتا ہے اور وہ اسے عامل مقرر کر دیتا ہے ، حالانکہ اس سے پہلے وہ اسے عامل نہیں بناتا تھا ۔ ان سب صورتوں میں قرض نے نفع حاصل کیا ہے اور یہ سود کی ایک قسم ہے ، کیونکہ اس شخص نے اپنا دیا ہوا قرض بھی واپس لے لیا اور ساتھ میں زائد چیز بھی حاصل کی ۔ "
( مسائل الإمام أحمد بروایۃ ابنہ صالح : 320 / 1 ، رقم المسئلۃ : 271 )
امام احمد ؒ کے یہی بیٹے صالح ؒ ہی نے اپنے والد سے ادھار کی صورت میں قیمت کے اضافے کا پوچھا تھا ، تو امام صاحب نے اسے جائز قرار دیا تھا ، یہ بات ہم ذکر کر چکے ہیں ۔ کیا امام احمد بن حنبل ؒ کو اس قول کا معنیٰ و مفہوم زیادہ معلوم تھا یا آج کے بعض اہل علم کو؟پھر اگر ادھار کی وجہ سے قیمت کے اضافے کا اس قول سے کوئی تعلق ہوتا ، تو ان کے ہونہار بیٹے امام صالح ؒ اس فتوے پر خاموش نہ رہتے ۔ کیا ان اسلاف کا فہم زیادہ بہتر ہے یا بعض متاخرین کا؟
امام ابن منذر ؒ :
مشہور فقیہ ، امام ابن منذرنیشاپوری ؒ ( 319 - 242ھ ) نے بھی اس قول کو ذکر کیا ہے ( الاشراف علی مذاہب العلماء : 142 / 6 ) ، لیکن اس کے باوجود ہم ذکر کر چکے ہیں کہ انہوں نے اسلاف کے اقوال نقل کر کے ادھار کی صورت میں قیمت کے اضافے کو جائز قرار دیا ہے ۔
حافظ خطابی ؒ :
حافظ ، حمد بن محمد ، بستی ، خطابی ؒ ( 388 - 319ھ ) نے بھی اس قول کو بطور ِ دلیل ذکر کیا ہے ( معالم السنن : 122 / 3 ) ، اس کے باوجود اگلے ہی صفحے پر وہ ادھار کی صورت میں قیمت کے اضافے کو جائز بھی کہتے ہیں ۔
کیا حافظ خطابی ؒ جیسا لغت و حدیث کا ماہر غلطی پر تھا یا آج کے اہل علم؟
علامہ بغوی ؒ :
علامہ ، ابو محمد ، حسین بن مسعود ، بغوی ؒ ( م : 516ھ ) نے بھی یہ قول ذکر کیا ( شرح السنۃ : 145 / 8 ) ، لیکن اس کے باوجود وہ ادھار کی صورت میں قیمت کے اضافے کے قائل تھے ، جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے ۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے اہل علم ایسے ہیں ، جنہوں نے اس قول کو ذکر کرنے کے باوجود ادھار کی وجہ سے قیمت کے اضافے کو جائز کہا ہے ۔ ہم بہت طوالت کے خوف سے ان سب کے اقوال بیان نہیں کر رہے ۔
یعنی جن متقدمین اہل علم نے ادھار کی بنا پر قیمت کے اضافے کو جائز کہا ، یہ اثر ان کے بھی مدنظر تھا ، لیکن انہوں نے اس سے وہ نہیں سمجھا ، جو بعض متاخرین نے سمجھ لیا ۔ متقدمین کے مقابلے میں متاخرین کا فہم کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ لہٰذا اس اثر سے ادھار کے بدلے قیمت میں اضافے کو سود کہنا کسی بھی صورت جائز نہیں ۔
ادھار میں سود ہوتا ہے ، نقد میں نہیں :
بعض متاخرین نے ادھار میں قیمت کے اضافے کے ناجائز ہونے کی ایک دلیل یہ بھی دی ہے :
[ " اَلرِّبَا فِي النَّسِیئَۃِ " ، وَفِي رِوَایَۃٍ : " لَا رِبًا فِیمَا کَانَ یَدًا بِیَدٍ " ۔
" سود ادھار میں ہوتا ہے اور ایک روایت میں ہے : جو چیز نقد بیچی جائے ، اس میں سود نہیں ہے ۔ "
( صحیح بخاری : ۲۱۷۸ ، ۲۱۷۹ ، صحیح مسلم : ۵۹۶ ( ۱۵۹۶ ) ، دارالسلام : ۴۰۸۸ ، ۴۰۸۹ ، ۴۰۹۰ ) ]
لیکن ان کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ اس فرمانِ نبوی کا صحیح مطلب سمجھیں ۔ یہ الفاظ تو درہم کی درہم اور دینار کی دینار کے ساتھ بیع ، یعنی رقم کی رقم کے بدلے بیع کے بارے میں ہیں ۔
صحیح مسلم کی محولہ بالا ( 1596 ) روایت میں سیدنا ابو سعید خدری ؓ کے الفاظ یہ ہیں :
اَلدِّینَارُ بِالدِّینَارِ ، وَالدِّرْہَمُ بِالدِّرْہَمِ ، مِثْلًا بِمِثْلٍ ، مَنْ زَادَ أوِ ازْدَادَ ، فَقدْ أَرْبٰی ۔
" دینار کی دینارکے ساتھ اور درہم کی درہم کے ساتھ بیع برابر برابر ہو گی ۔ جو شخص زیادہ دے یا زیادہ طلب کرے ، وہ سودی معاملہ کرے گا ۔ "
امام بخاری ؒ کی اس حدیث پر تبویب یوں ہے :
بَابُ بَیْعِ الدِّینَارِ بِالدِّینَارِ نَسَائً ۔
" دینار کی دینار کے ساتھ ادھار بیع کا بیان ۔ "
یعنی اس حدیث کا تعلق ربوی اجناس سے ہے ، جن میں سونا ، چاندی اور غلے کی مخصوص چیزیں شامل ہیں ۔ اس بارے میں تفصیلات اہل علم کے ہاں معروف ہیں کہ اگر ایک جنس کا باہمی تبادلہ کرنا ہو تو نہ کمی و بیشی جائز ہوتی ہے نہ ادھار ، لیکن اگر جنس مختلف ہو تو ان میں کمی و بیشی تو ہو سکتی ہے ، لیکن ادھار جائز نہیں ہوتا ۔ ان میں ادھار ہی سود ہوتا ہے ، جسے " ربا النسیئہ " کہا جاتا ہے ۔ مذکورہ فرمانِ نبوی میں اسی سود کا ذکر ہو رہا ہے ۔
بعض صحابہ کرام کو اس فرمانِ نبوی سے یہ شبہ ہو گیا تھا کہ شاید سونے کے سونے اور چاندی کے چاندی کے ساتھ باہمی تبادلے کی صورت میں کمی و بیشی صرف ادھار کی صورت میں ناجائز ہے ، اگر نقد ہو ، تو جائز ہے ۔ حالانکہ اس فرمان کا صدور کسی سوال کے جواب میں ہوا تھا ، جو کہ دو مختلف جنسوں کے تبادلے کے وقت کمی و بیشی کے بارے میں کیا گیا تھا ، اس پر نبی اکرم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ ( مختلف جنسوں کے تبادلے میں ) سود تو صرف ادھار میں ہوتا ہے ، نقد میں نہیں ۔ اہل علم نے اس کی وضاحت بھی کی ہے ، جیسا کہ :
امام ، محمد بن ادریس ، شافعی ؒ ( 204 - 150ھ ) فرماتے ہیں :
قَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُونَ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ یُسْأَلُ عَنِ الرِّبَا فِي صِنْفَیْنِ مُخْتَلِفَیْنِ ، ذَہَبٍ بِفِضَّۃٍ ، وَتَمْرٍ بِحِنْطَۃٍ ، فَقَالَ : " إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِیئَۃِ " ، فَحَفِظَہٗ ، فَأَدّٰی قَوْلَ النَّبِيِّ ، وَلَمْ یُؤَدِّ مَسْأَلَۃَ السَّائِلِ ۔
" ممکن ہے کہ سیدنا اسامہ بن زید ؓ نے سنا ہو کہ رسول اللہ ﷺ سے دو مختلف جنسوں ، سونے کی چاندی اور کھجور کی گندم کے ساتھ بیع میں ( مقدار میں اضافے کی وجہ سے ) سود کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : سود تو ادھار میں ہوتا ہے ۔ سیدنا اسامہ ؓ نے نبی اکرم ﷺ کے یہ الفاظ یاد کر کے آگے بیان کر دیے ہوں ، لیکن سائل کا سوال ذکر نہ کیا ہو ۔ "
( اختلاف الحدیث مع کتاب الأم : 642 / 8 )
علامہ ، یوسف بن عبد اللہ ، ابن عبد البر ؒ ( 463 - 368ھ ) فرماتے ہیں :
وَمَعْنَی الْحَدِیثِ عِنْدَ الْعُلَمَائِ أَنَّہٗ خَرَجَ عَلٰی جَوَابِ سَائِلٍ سَأَلَ عَنِ الذَّہَبِ بِالْوَرِقِ ، أَوِ الْبُرِّ بِالتَّمْرِ ، أَوْ نَحْوِ ذٰلِکَ مِمَّا ہُوَ جِنْسَانِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ : " لَا رِبًا إِلَّا فِي النَّسِیئَۃِ " ۔
" علماء ِ کرام کے نزدیک اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ یہ کسی سائل کے جواب میں وارد ہوئی ، جس نے سونے کی چاندی کے ساتھ یا گندم کی کھجور کے ساتھ بیع یا اسی طرح کی دو جنسوں کی آپس میں بیع کے بارے میں سوال کیا تھا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ( ان چیزوں میں ) سود ( مقدار میں اضافے سے نہیں ، بلکہ ) ادھار میں ہوتا ہے ۔ "
( الاستذکار لمذاہب علماء الأمصار : 353 / 6 )
علامہ ابو الفرج ، ابن الجوزی ؒ ( 597 - 508ھ ) فرماتے ہیں :
ہٰذَا الْحَدِیثُ مَحْمُولٌ عَلٰی أَنَّ أُسَامَۃَ سَمِعَ بَعْضَ الْحَدِیثِ ، کَأَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ سُئِلَ عَنْ بَیْعِ بَعْضِ الْـأَعْیَانِ الرِّبْوِیَّۃِ بِبَعْضٍ ، کَالتَّمْرِ بِالشَّعِیرِ ، وَالذَّہَبِ بِالْفِضَّۃِ مُتَفَاضِلًا ، فَقَالَ : إِنَّمَا الرِّبَا فِی النَّسِیئَۃ ، وَإِنَّمَا حَمَلْنَاہُ عَلٰی ہٰذَا لإِجْمَاعِ الْـأُمَّۃ عَلٰی خِلَافہٖ ، وَإِلٰی ہٰذَا الْمَعْنٰی ذَہَبَ أَبُو بَکْرٍ الْـأَثْرَمُ ۔
" اس حدیث کو یوں محمول کیا جائے گا کہ سیدنا اسامہ ؓ نے حدیث کا کچھ حصہ سنا ۔ آپ ﷺ سے ربوی اجناس میں سے ایک کی دوسری کے ساتھ کمی و بیشی والی بیع کے بارے میں پوچھا گیا ، جیسے کھجور کی جَو کے ساتھ اور سونے کی چاندی کے ساتھ ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : ( اس صورت میں ) سود تو ادھار ہی میں ہوتا ہے ۔ ہمارے اس حدیث کو اس معنیٰ پر محمول کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ( ظاہری معنیٰ کے ) خلاف امت ِمسلمہ کا اجماع ہے ۔ یہی معنیٰ ابو بکر اثرم ؒ نے لیا ہے ۔ "
( کشف المشکل من حدیث الصحیحین : 15 / 4 )
لہٰذا اس فرمانِ نبوی کو غیر ربوی اجناس میں ادھار سے جوڑنا سرے ہی سے صحیح نہیں ۔
پھر جتنے بھی اسلاف ِامت نے ادھار کی صورت میں قیمت میں اضافے کو جائز قرار دیا ہے ، ان سب کے علم میں یہ فرمانِ نبوی تھا ، لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کی بنا پر ادھار کی وجہ سے قیمت کے اضافے کو سود نہیں کہا ، بلکہ اس کے جواز کا فتویٰ دیا ۔
ممنوعہ صورت میں کم قیمت بھی جائز نہیں :
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جو لوگ قسطوں کے کاروبار کو جائز نہیں سمجھتے ، وہ حدیث ِنبوی پیش کر کے یہ کہتے ہیں :
" اس حدیث کی رُو سے تو دو ہی صورتیں بنتی ہیں :
دکاندار یا بائع یا تو کم مقدار والی قیمت کے ساتھ اپنی چیز بیچے گا اور وہ نقد کی قیمت ہے یا پھر ادھار کی وجہ سے سودی اضافہ وصول کرے گا ، جس کی اس نے ادھار کی صورت میں شرط لگائی تھی ۔ "
یعنی ان کے نزدیک اگر کم قیمت پر وہی سودا ہو جائے ، تو وہ جائز ہے ، لیکن اہل علم کچھ اور کہتے ہیں ۔ بعینہٖ اسی حدیث کے مطابق امام طاؤس ؒ نے یہ فتوی دیا :
إِذَا قَالَ : ہُوَ بِکَذَا وَکَذَا إِلٰی کَذَا وَکَذَا ، وَبِکَذَا وَکَذَا ، إِلٰی کَذَا وَکَذَا ، فَوَقَعَ الْبَیْعُ عَلٰی ہٰذَا ، فَہُوَ بِأَقَلِّ الثَّمَنَیْنِ إِلٰی أَبْعَدِ الْـأَجَلَیْنِ ۔
" جب آدمی یوںکہے :
فلاں چیز اتنی مدت تک اتنی قیمت میں اور اتنی مدت تک اتنی قیمت میں ہے اور اسی پر بیع واقع ہو گئی ہو ، تو اس کے لئے دو قیمتوں میں سے کم قیمت ہو گی اور دو مدتوں میں سے دُور کی مدت ہو گی ۔ "
یہ قول امام طاؤس ؒ سے ثقہ امام ، معمر بن راشد ؒ نے روایت کیا ۔ اس قول کو نقل کرنے کے بعد امام طاؤس ؒ کے یہی شاگرد فرماتے ہیں :
وَہٰذَا إِذَا کَانَ الْمُبْتَاعُ قَدِ اسْتَہْلَکَہٗ ۔
" یہ اس صورت میں ہو گا ، جب خریدی گئی چیز کو خریدار نے صرف کر لیا ہو ۔ "
( مصنّف عبد الرزّاق : 136 / 8 ، وسندہٗ صحیحٌ )
معلوم ہوا کہ جب ایک بیع میں دو سودے ہوں ، یعنی نقد اتنے میں ، ادھار اتنے میں اور کوئی چیز معین نہ ہو سکے ، تو یہ بیع ہی فاسد ہوتی ہے ، ایسا معاملہ منعقد ہی نہیں ہوتا ۔
ہاں ! اگر ایسے معاملے میں خریدار خریدی ہوئی چیز کو استعمال میں لا چکا ہو ، مثلاً جانور کو ذبح کر کے کھا چکا ہو ، تو پھر نقد والی قیمت اور ادھار والی مدت کو لاگو کیا جائے گا ، ورنہ سود ہو جائے گا ۔
مصنف عبد الرزاق میں امام طاؤس ؒ کے اسی قول کے بالکل متصل بعد امام سفیان ثوری ؒ سے منقول یہ فتویٰ بھی موجود ہے :
إِذَا قُلْتَ : أَبِیعُکَ بِالنَّقْدِ إِلٰی کَذَا ، وَبِالنَّسِیئَۃِ بِکَذَا وَکَذَا ، فَذَہَبَ بِہِ الْمُشْتَرِي ، فَہُوَ بِالْخِیَارِ فِي الْبَیْعَیْنِ مَا لَمْ یَکُنْ وَّقَعَ بَیْعٌ عَلٰی أَحَدِہِمَا ، فَإِنْ وَّقَعَ الْبَیْعُ ہٰکَذَا ، فَہٰذَا مَکْرُوہٌ ، وَہُوَ بَیْعَتَانِ فِي بَیْعَۃٍ ، وَہُوَ مَرْدُودٌ ، وَہُوَ الَّذِي یُنْہٰی عَنْہُ ، فَإِنْ وَّجَدْتَ مَتَاعَکَ بِعَیْنِہٖ أَخَذْتَہٗ ، وَإِنْ کَانَ قَدِ اسْتُہْلِکَ ، فَلَکَ أَوْکَسُ الثَّمَنَیْنِ وَأَبْعَدُ الْـأَجَلَیْنِ ۔
" جب آپ کہیں :
میں نقد پر اتنے میں اور ادھار پر اتنے میں دوں گا ۔ پھر خریدار اسے لے جائے ، تو جب تک کسی ایک معاملے پر بات طَے نہ ہو ، اسے دونوں میں سے ایک کو منتخب کرنے کا اختیار رہے گا ۔ اگر اسی ابہام پر معاملہ طَے ہوا ، تو یہ مکروہ ( حرام ) ہو گا ۔ یہی ایک بیع میں دو سودے ہیں ، جو کہ باطل ہیں ۔ اسی سے حدیث میں منع کیا گیا ہے ۔ اگر آپ اپنے سامان کو اسی حالت میں پائیں ، تو اسے واپس لے لیں اور اگر وہ استعمال کیا جا چکا ہو ، تو آپ کے لئے کم قیمت لینا اور زیادہ مدت دینا ضروری ہو گا ۔ "
( مصنّف عبد الرزّاق : 137 / 8 )
یہ قول اگرچہ امام عبد الرزاق ؒ کی " تدلیس " کی وجہ سے ثابت نہیں ، لیکن امام سفیان ثوری ؒ اور دیگر اسلاف سے جو کچھ پیش کیا جا چکا ہے ، اس کی روشنی میں اسے تقویت مل جاتی ہے ۔
حافظ خطابی ؒ کا یہ قول اسی بارے میں ہے کہ :
لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِّنَ الْفُقَہَائِ قَالَ بِظَاہِرِ ہٰذَا الْحَدِیث ، أَوْ صَحَّحَ الْبَیْعَ بِأَوْکَسِ الثَّمَنَیْنِ ، إِلَّا شَيْئٌ یُّحْکٰی عَنِ الْـأَوْزَاعِيِّ ، وَہُوَ مَذْہَبٌ فَاسِدٌ ، وَذٰلِکَ لِمَا یَتَضَمَّنہٗ ہٰذَا الْعَقْدُ مِنَ الْغَرَرِ وَالْجَہْلِ ۔
" میرے علم میں کوئی ایک بھی ایسا فقیہ نہیں ، جو اس حدیث کے ظاہری الفاظ کے مطابق فتویٰ دیتا ہویا کم قیمت میں بیع کو درست قرار دیتا ہو ، سوائے امام اوزاعی ؒ سے منقول ایک روایت کے ( وہ بھی ثابت نہیں ) ۔ یہ مذہب فاسد ہے ، کیونکہ اس معاملے میں دھوکہ اور جہالت موجود ہے ۔ "
( معالم السنن شرح سنن أبي داوٗد : 112 / 3 )
بعض اہل علم نے امام خطابی ؒ پر سخت تنقید کی کہ ان کی یہ بات اس حدیث کے الفاظ کے خلاف ہے ، لیکن دراصل یہ مخالفت نہیں ، بلکہ حدیث کا وہ فہم ہے ، جو ظاہراً اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے ۔ امام معمر بن راشد ؒ وغیرہ کی وضاحت یہی بتاتی ہے کہ کم قیمت پر معاملہ طَے کرنے کا یہ حکم نبوی اس صورت میں ہے ، جب خریدار اس چیز کو صرف کر چکا ہو اور وہ اپنی اصلی صورت میں نہ رہی ہو ۔ اگر وہ چیز اسی طرح پڑی ہو ، تو قیمت کے عدمِ تعین کی بنا پر یہ بیع فسخ ہو جائے اور چیز مالک کو واپس مل جائے گی ۔
اب اگر قیمت کے تعین و عدمِ تعین سے قطع نظر صرف بیع میں نقد و ادھار کی قیمت میں فرق کرنا ہی ممنوع ہے ، تو فریقِ ثانی کا اسی بیع میں نقد قیمت پر خریدو فروخت کی اجازت دینا بھی قطعًا صحیح نہیں ۔
لیکن اصل بات ، جو ائمہ اسلاف نے بھی بتائی ہے ، یہی ہے کہ قیمت کے عدمِ تعین کی صورت میں ہی یہ بیع ناجائز ہوتی ہے اور ایسی صورت میں کم قیمت پر بھی بیع جائز نہیں ہوتی ، الا یہ کہ خریدار چیز کو صرف کر چکا ہو ۔ سد ذرائع کا اصول بھی اسی کا متقاضی ہے ، ورنہ خریدار کم قیمت کی نیت سے ایسا کریں گے ، جب کہ بیچنے والے کے ذہن میں یہ ہو گا کہ اب ابہام میں سودا طَے پا گیا ہے ، تو میں زیادہ ہی لوں گا ۔ یوں آپس کے تنازعات بنیں گے ۔ اگر نقد و ادھار میں سے ایک کا تعین ہو جائے گا ، تو کوئی تنازعہ نہیں ہو گا ۔
خلاصۃ التحقیق :
ہ^^^^^^^^^^^^^^^ہ
فریقین کے دلائل کا تجزیہ کر کے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر بائع نقد و ادھار میں فرق کرے اور خریدار اسی مبہم معاملے پر اس سے جدا ہو جائے ، تو یہ ناجائز و حرام ہے ،
لیکن اگر دونوں نقد و ادھار میں سے کسی ایک معاملے کو طَے کر لیں ، تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
ادھار کی بنا پر قیمت کے اضافے کی حرمت پر کوئی نص موجود نہیں اور اس پر مستزاد ادھار پر قیمت کے اضافے کے جواز پر اہل علم کا اجماع واتفاق بھی ہے ۔
رہی وہ حدیث جسے مانعین دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، تو اسلاف ِامت اور ائمہ محدثین صرف ابہام والی صورت کو اس حدیث کا مصداق ٹھہراتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ قیمت کا عدمِ تعین ہی اس بیع کے ناجائز ہونے کا سبب ہے ۔ اسلاف کے خلاف بعض متاخرین کا قیمت کے عدمِ تعین کو سبب ِحرمت نہ ماننا کوئی وقعت نہیں رکھتا ۔
نقد و ادھار کے فرق کے ناجائز ہونے کے حوالے سے بعض اہل علم نے کل بارہ اقوال پیش کئے ، ان میں یا تو یہ مذکور ہے کہ " نقد اتنے میں اور ادھار اتنے میں " کے مبہم معاملے پر بیع کرنا ناجائز ہے اور یہ بات ان لوگوں کے بالکل موافق ہے ، جو نقد و ادھار میں فرق کر کے کسی ایک پر معاملہ طَے کرنے کو جائز کہتے ہیں ۔ یا پھر ان اقوال میں واضح طور پر یہ موجود ہے کہ اگر نقد و ادھار میں سے کسی ایک معاملے کو طَے کر لیا جائے ، تو کوئی حرج نہیں ، چاہے ادھار کی قیمت زیادہ ہی کیوں نہ ہو ۔ یوں فریقِ ثانی کے ذکر کردہ تمام اقوال فریقِ اوّل ہی کی تائید میں ہیں ۔ اس پر مستزاد کہ سلف صالحین ، محدثین اور ائمہ دین سے ثابت شدہ مزید صریح اقوال بھی فریقِ اوّل ہی کی تائید کرتے ہیں ۔
اس کے برعکس سلف میں سے کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں ملتا ، جس نے یہ کہا ہو کہ ادھار کے بدلے میں قیمت کا اضافہ سود ہے اور ایک بیع میں دو سودے کرنے کے مترادف ہے ۔ اگر کسی اہل علم کے پاس اسلاف ِامت کا کوئی ایسا قول ہو ، تو وہ ہمیں اس سے ضرور آگاہ کرے ۔
مندرجہ بالا تحقیق کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے کہ قسطوں کا کاروبار شرعی اعتبار سے جائز ہے اور کسی چیز کو فروخت کرتے وقت نقد و ادھار کا فرق کرنا ممنوع نہیں ، البتہ یہ ضروری ہے کہ سودا کسی معین قیمت ہی پر طَے ہو ، یعنی بائع و مشتری جدا ہونے سے پہلے نقد و ادھار میں سے کسی ایک قیمت پر اتفاق کر چکے ہوں ۔
اس تحقیق سے پہلے ہم بھی نقد و ادھار کے فرق کو سود قرار دیتے تھے اور قسطوں کے کاروبار کو سودی کاروبار گردانتے تھے ، لیکن حق واضح ہو جانے کے بعد ہمارے لئے اپنے اس موقف پر ڈٹے رہنا ممکن نہیں رہا ۔
ہم اپنی سابقہ اجتہادی غلطی پر اللہ تعالیٰ سے معافی کے طلبگار ہیں اور پُر امید ہیں کہ ہماری یہ اجتہادی غلطی بھی ہمارے لئے ثواب ہی کا باعث بنی ہو گی ، کیونکہ اس وقت بھی ہمارے سامنے دلائل شرعیہ ہی تھے ، لیکن ان کو سمجھنے میں ہمیں غلطی لگی تھی ۔ اب بھی ہم نے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے فریقین کے دلائل کا انصاف کے ساتھ جائزہ لیا ہے اور جسے حق سمجھا ہے ، قارئین کرام کی خدمت میں پیش کر دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی تحقیق میں ہٹ دھرمی اور جانبداری سے کام نہیں لیا ۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کی سمجھ بھی عطا فرمائے اور اس پر عمل کی توفیق بھی ۔
آمین !
اس مضمون کی پی ڈی یف لنک :
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
ختم شد
؞؞؞؞؞؞؞؞؞ہ؞؞؞؞؞؞؞؞؞
۔