تمام انشورنس بیمہ ناجائز - کبار علماء
• کبھی بھی انشورنس نہ کروائیں
• سمندر کوزے میں
• تاریخ بیمہ و انشورنس
• تمام قسم کے بیمہ انشورنس قطعا ناجائز کیوں ؟
• کسی بھی ملک علاقے و ادارے کا تیار کردہ بیمہ و انشورنس کا حکم ؟
• کونسی قباحتیں نہ ہوں تو کوئی بھی بیمہ و انشورنس جائز بن سکتا ہے ؟
• اسلام میں بیمہ و انشورنس سے بھی بہتر بدل کیا ہے ؟
• سینکڑوں فتاویٰ ، مضامین ، مقالات اور کئی کتب دیکھنے کے بعد اپنے موضوع و عنوان میں ( جو کہ بہت ہی عمیق و دقیق و علمی اور بہت ہی زیادہ تفصیلات کا حامل اور سمجھنے کے لحاظ سے کافی مشکل عنوان ہے ) سمندر کو کوزے میں بھرنے کے مصداق فتوی کی صورت میں تحریر ملی ہے اور مشکل ترین موضوع کو بالکل ہی جامع اور سہل و آسان انداز میں پیش کر دیا گیا ہے جو کہ ہر قاری کی توجہ کا مستحق ہے جس سے موضوع کو سمجھنے کے لئے قاری کا کافی وقت بچ جائے گا اور موضوع سے متعلق دیگر کتب و مقالات و مضامین کے سمجھنے میں بھی آسانی ہوگی ان شاء الله ۔
طالب علم
عزیز ادونوی
؛
اقتباس
فتوی نمبر : 114
۔۔۔ کسی بھی قسم کی انشورنس، بیمہ وغیرہ کروانا قطعا ناجائز ہے ، اور اس میں کئی ایک قباحتیں ہیں ۔ تفصیل کے لیے فتوی نمبر (54) ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ ۔۔۔
اقتباس
فتوی نمبر : 114
مفتیانِ کرام
ن ۱.
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
ن ۲.
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
ن ۳.
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
ن ۴.
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
ن ۵.
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
ن ۶.
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
ن ۷.
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ
ن ۸.
فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
اقتباس
فتوی نمبر : 114 ، 02 نومبر ، 2022
؛
فتوی نمبر : 54
کیا اسٹیٹ لائف کمپنی میں انشورنس کروانا جائز ہے؟ -
سوال :
مفتیانِ کرام سے گزارش ہے کہ کیا " اسٹیٹ لائف کمپنی " میں انشورنس کروانا جائز ہے کہ نہیں ؟
جواب :
الحمدلله لله وحده ، و الصلاة و السلام على من لا نبي بعده !
بیمہ یا انشورنس (insurance) کے قائلین اسکا تاریخی پس منظر کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ
1400ء میں اٹلی کے تاجروں میں سے ایک تاجر کا جہاز سمندر میں غرق ہو گیا اور وہ انتہائی تنگ دست ہو گیا ۔
دوسرے تاجروں نے اس کے ساتھ تعاون کیا اور اس کے لئے کچھ رقم اکٹھی کر کے اسے اس قابل بنایا ، کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے ۔
چونکہ ایسے حادثات کا آئندہ بھی امکان تھا ، سو تاجروں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ تمام تاجر ہر ماہ یا ہر سال جیسے بھی سہولت ہو ، ایک معین رقم ادا کر دیا کریں تاکہ اس فنڈ سے اس قسم کے حوادثات و خطرات کے نقصان کا کسی حد تک تدارک کیا جا سکے ۔
انشورنس کا یہ پس منظر ہی کفار کی تنگ دلی کی واضح مثال ہے جبکہ اسلام نے ایسے حوادث کے پیشِ نظر ایک بہترین نظام متعارف کروایا ہے جسے “ صدقہ ” کہا جاتا ہے ۔
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
“ رَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ ”
[ صحیح مسلم : 1044 ]
ایسا شخص جس پر کوئی آفت آئی ، اور اسکا سارا مال نگل گئی ، تو اس کے لئے سوال کرنا حلال ہو جاتا ہے ، حتى کہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہو جائے ۔
ایسے لوگوں کو ’’ غارمین ‘‘ کہہ کر اللہ تعالى نے زکاۃ کے مال میں بھی ایسے لوگوں کا حق رکھا ہے ۔
[ سورۃ التوبۃ : 60 ] اور
صاحب حیثیت مسلمانوں پر فرض کیا ہے ، کہ وہ اپنے مال میں سے ہر سال مخصوص رقم “ زکاۃ ” کی مد میں نکالیں ۔
اسی طرح نفلی صدقات کرنے پر بھی انہیں ترغیب دلائی گئی ہے کہ وہ اپنے مال میں سے فرضی صدقہ ( زکاۃ ، عشر ، فطرانہ وغیرہ ) کے علاوہ بھی اللہ کے راستے میں خرچ کریں ۔
پھر اسلام نے یہ پابندی بھی نہیں رکھی کہ جو صدقہ دے گا ، مصیبت میں صرف اسی کو ہی صدقہ دیا جائے گا ۔ بلکہ ہر وہ شخص جو اسلام قبول کر لے ، اگر وہ صدقہ کا مستحق ہے ، تو اس پر صدقات حلال ہو جاتے ہیں ۔
اسلام کے اس حسین نظامِ صدقات و زکاۃ کے مقابل قائم کیا جانے والا بیمہ یا انشورنس کا نظام انتہائی بھیانک قسم کا ہے ۔
مختلف انشورنس کمپنیاں سادہ لوح عوام کو سبز باغ دکھا کر ‘ ملمع سازی کرتے ہوئے اپنے جال میں پھنساتی ہیں ۔
اسی طرح کئی بڑی بڑی کمپنیوں کے “ عقلمند ” ان شاطروں کی چرب زبانی کا شکار ہو کر اپنے تمام تر ملازمین کے لئے بیمہ کو لازم قرار دے دیتے ہیں ۔
جبکہ شرعی نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو بیمہ یا انشورنس جسے بعض لوگوں نے “ تکافل ” کا خوبصورت نام دے کر حلال کرنے کا حیلہ کیا ہے ، درجِ ذيل کئی ایک قباحتوں کا مرکب ہے :
• اس میں ربا ( سود ) ، قمار ( جوا ) اور غرر ( دھوکہ دہی ) ہے ۔ لائف انشورنس ہو یا میڈیکل انشورنس ، مکان و دکان کی انشورنس ہو ، یا گاڑیوں کی ، ہمہ قسم انشورنس میں یہ چیزیں پائی جاتی ہیں ۔
• اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ایمان بالقدر کے عقیدہ کو بھی انشورنس کمزور کر دیتی ہے ۔
• شریعت کے نظامِ وراثت کو بھی متاثر کرتی ہے ، کیونکہ انشورنس میں مرنے والے کی رقم ، اسلامی شریعت کے مطابق تقسیم ہونے کی بجائے ، اس کے نامزد کردہ افراد کو ملتی ہے ۔
• انشورنس پر بونس کے نام سے دیا جانے والا سود ، اور اس میں پایا جانے والا غرر یعنی دھوکہ ( کیونکہ نہ تو بیمہ دار کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنی رقم ادا کرے گا اور نہ ہی کمپنی کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا وصول کرے گی) جس طرح واضح طور پر حرام ہے ، بعینہ اس میں پایا جانے والا اِضرار ( نقصان پہنچانا ) بھی ناجائز ہے ۔ کیونکہ اگر کوئی شخص بیمہ پالیسی ترک کرنا چاہے تو اسکی چالیس فیصد رقم کمپنی ضبط کر لیتی ہے ، اور بسا اوقات تو جس شخص کا بیمہ ہوا ہوتا ہے اسے اس کے ورثا ہی قتل کر دیتے ہیں ، تاکہ جلد تھوڑے نقصان کے ساتھ زیادہ رقم ہاتھ آئے ۔
ان قباحتوں کی وجہ سے بیمہ یا انشورنش ، چاہے جس کمپنی یا ادارے کی طرف سے بھی ہو ، شرعی طور پر واضح حرام اور ناجائز ہے ۔
• بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ انشورنس بعض اسلامی ملکوں ( سعودی عرب وغیرہ ) میں بھی ہوتی ہے، اور اسلامی ناموں سے ہوتی ہے ، تو ہماری گزارش ہے کہ انشورنس میں اگر یہ قباحتیں موجود ہیں تو وہ سعودی عرب میں ہونے ، یا کوئی اسلامی نام رکھنے کی وجہ سے حلال نہیں ہو جائے گی ۔ كسی چیز کا نام یا مقام بدلنے سے اس کی حقیقت نہیں بدل سکتی ۔
اگر ہم خنزیر کو بکرا کہہ دیں تو وه خنزیر ہی رہے گا ، کسی صورت بکرا نہیں بن جائے گا ۔ اسی طرح یہودیوں کی بیمہ کمپنی ، اگر سعودی عرب میں ہو تب بھی یہودیوں کی کمپنی ہے ، پاکستان میں ہو تب بھی یہودیوں کی کمپنی ہے ۔
البتہ اگر اس سے یہ قباحتیں دور کر دی جائیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں تو پھر جہاں سے بھی کروا لیں جائز ہے ۔
اگر یہ قباحتیں موجود ہیں تو پھر جہاں سے بھی کروائیں ناجائز ہے ، سعودیہ ہو یا پاکستان ، یا کوئی تیسری جگہ ۔
لہذا کبھی بھی انشورنس نہ کروائیں اور اگر کوئی ایسی کمپنی ہے جو انشورنس کے بغیر ملازمت نہیں دیتی تو اس سے کنارہ کر کے کہیں اور اللہ کا فضل تلاش کریں ۔
و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
و کتبہ :
محمد رفیق طاہر
جواب درست ہے ۔
ن ۱.
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ ( رئیس اللجنۃ )
ن ۲.
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
ن ۳.
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
ن ۴.
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
ن ۵.
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
ن ۶.
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فتوی نمبر : 54 ، 10 اکتوبر , 2022
جوائین ان
۔