جمعرات، 15 اگست، 2024

تمام انشورنس بیمہ ناجائز - کبار علماء

۔ 

تمام انشورنس بیمہ ناجائز - کبار علماء 




   • کبھی بھی انشورنس نہ کروائیں 

   • سمندر کوزے میں 

   • تاریخ بیمہ و انشورنس 

   • تمام قسم کے بیمہ انشورنس قطعا ناجائز کیوں ؟ 
   
   • کسی بھی ملک علاقے و ادارے کا تیار کردہ بیمہ و انشورنس کا حکم ؟ 

   • کونسی قباحتیں نہ ہوں تو کوئی بھی بیمہ و انشورنس جائز بن سکتا ہے ؟ 

   • اسلام میں بیمہ و انشورنس سے بھی بہتر بدل کیا ہے ؟ 

   • سینکڑوں فتاویٰ ، مضامین ، مقالات اور کئی کتب دیکھنے کے بعد اپنے موضوع و عنوان میں ( جو کہ بہت ہی عمیق و دقیق و علمی اور بہت ہی زیادہ تفصیلات کا حامل اور سمجھنے کے لحاظ سے کافی مشکل عنوان ہے ) سمندر کو کوزے میں بھرنے کے مصداق فتوی کی صورت میں تحریر ملی ہے اور مشکل ترین موضوع کو بالکل ہی جامع اور سہل و آسان انداز میں پیش کر دیا گیا ہے جو کہ ہر قاری کی توجہ کا مستحق ہے جس سے موضوع کو سمجھنے کے لئے قاری کا کافی وقت بچ جائے گا اور موضوع سے متعلق دیگر کتب و مقالات و مضامین کے سمجھنے میں بھی آسانی ہوگی ان شاء الله ۔ 

طالب علم 
عزیز ادونوی 

؀؀؀؀؀؀؀؀؛ 


اقتباس 
 فتوی نمبر : 114  
۔۔۔ کسی بھی قسم کی انشورنس، بیمہ وغیرہ کروانا قطعا ناجائز ہے ، اور اس میں کئی ایک قباحتیں ہیں ۔ تفصیل کے لیے فتوی نمبر (54) ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ ۔۔۔

اقتباس 
 فتوی نمبر : 114  

مفتیانِ کرام 

ن ۱.  
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

ن ۲. 
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ 

ن ۳. 
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ 

ن ۴. 
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ 

ن ۵. 
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ 

ن ۶. 
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ 

ن ۷. 
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ 

ن ۸. 
فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ 

اقتباس 
 فتوی نمبر : 114 ، 02 نومبر ، 2022  
 


؀؀؀؀؀؀؀؀؛ 


فتوی نمبر : 54 
 

کیا اسٹیٹ لائف کمپنی میں انشورنس کروانا جائز ہے؟ -  


سوال : 

مفتیانِ کرام سے گزارش ہے کہ کیا " اسٹیٹ لائف کمپنی " میں انشورنس کروانا جائز ہے کہ نہیں ؟ 



جواب : 

الحمدلله لله وحده ، و الصلاة و السلام على من لا نبي بعده ! 

بیمہ یا انشورنس (insurance) کے قائلین اسکا تاریخی پس منظر کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ 

1400ء میں اٹلی کے تاجروں میں سے ایک تاجر کا جہاز سمندر میں غرق ہو گیا اور وہ انتہائی تنگ دست ہو گیا ۔ 

دوسرے تاجروں نے اس کے ساتھ تعاون کیا اور اس کے لئے کچھ رقم اکٹھی کر کے اسے اس قابل بنایا ، کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے ۔ 

چونکہ ایسے حادثات کا آئندہ بھی امکان تھا ، سو تاجروں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ تمام تاجر ہر ماہ یا ہر سال جیسے بھی سہولت ہو ، ایک معین رقم ادا کر دیا کریں تاکہ اس فنڈ سے اس قسم کے حوادثات و خطرات کے نقصان کا کسی حد تک تدارک کیا جا سکے ۔ 

انشورنس کا یہ پس منظر ہی کفار کی تنگ دلی کی واضح مثال ہے جبکہ اسلام نے ایسے حوادث کے پیشِ نظر ایک بہترین نظام متعارف کروایا ہے جسے “ صدقہ ” کہا جاتا ہے ۔  

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

 “ رَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ ” 

[ صحیح مسلم : 1044 ] 

ایسا شخص جس پر کوئی آفت آئی ، اور اسکا سارا مال نگل گئی ، تو اس کے لئے سوال کرنا حلال ہو جاتا ہے ، حتى کہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہو جائے ۔ 

ایسے لوگوں کو ’’ غارمین ‘‘ کہہ کر اللہ تعالى نے زکاۃ کے مال میں بھی ایسے لوگوں کا حق رکھا ہے ۔ 
[ سورۃ التوبۃ : 60 ] اور 

صاحب حیثیت مسلمانوں پر فرض کیا ہے ، کہ وہ اپنے مال میں سے ہر سال مخصوص رقم “ زکاۃ ” کی مد میں نکالیں ۔ 

اسی طرح نفلی صدقات کرنے پر بھی انہیں ترغیب دلائی گئی ہے کہ وہ اپنے مال میں سے فرضی صدقہ ( زکاۃ ، عشر ، فطرانہ وغیرہ ) کے علاوہ بھی اللہ کے راستے میں خرچ کریں ۔ 

پھر اسلام نے یہ پابندی بھی نہیں رکھی کہ جو صدقہ دے گا ، مصیبت میں صرف اسی کو ہی صدقہ دیا جائے گا ۔ بلکہ ہر وہ شخص جو اسلام قبول کر لے ، اگر وہ صدقہ کا مستحق ہے ، تو اس پر صدقات حلال ہو جاتے ہیں ۔ 

اسلام کے اس حسین نظامِ صدقات و زکاۃ کے مقابل قائم کیا جانے والا بیمہ یا انشورنس کا نظام انتہائی بھیانک قسم کا ہے ۔ 

مختلف انشورنس کمپنیاں سادہ لوح عوام کو سبز باغ دکھا کر ‘ ملمع سازی کرتے ہوئے اپنے جال میں پھنساتی ہیں ۔  

اسی طرح کئی بڑی بڑی کمپنیوں کے “ عقلمند ” ان شاطروں کی چرب زبانی کا شکار ہو کر اپنے تمام تر ملازمین کے لئے بیمہ کو لازم قرار دے دیتے ہیں ۔ 

جبکہ شرعی نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو بیمہ یا انشورنس جسے بعض لوگوں نے “ تکافل ” کا خوبصورت نام دے کر حلال کرنے کا حیلہ کیا ہے ، درجِ ذيل کئی ایک قباحتوں کا مرکب ہے :
 

   • اس میں ربا ( سود ) ، قمار ( جوا ) اور غرر ( دھوکہ دہی ) ہے ۔ لائف انشورنس ہو یا میڈیکل انشورنس ، مکان و دکان کی انشورنس ہو ، یا گاڑیوں کی ، ہمہ قسم انشورنس میں یہ چیزیں پائی جاتی ہیں ۔

   • اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ایمان بالقدر کے عقیدہ کو بھی انشورنس کمزور کر دیتی ہے ۔ 

   • شریعت کے نظامِ وراثت کو بھی متاثر کرتی ہے ، کیونکہ انشورنس میں مرنے والے کی رقم ، اسلامی شریعت کے مطابق تقسیم ہونے کی بجائے ، اس کے نامزد کردہ افراد کو ملتی ہے ۔ 

   • انشورنس پر بونس کے نام سے دیا جانے والا سود ، اور اس میں پایا جانے والا غرر یعنی دھوکہ ( کیونکہ نہ تو بیمہ دار کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنی رقم ادا کرے گا اور نہ ہی کمپنی کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا وصول کرے گی) جس طرح واضح طور پر حرام ہے ، بعینہ اس میں پایا جانے والا اِضرار ( نقصان پہنچانا ) بھی ناجائز ہے ۔ کیونکہ اگر کوئی شخص بیمہ پالیسی ترک کرنا چاہے تو اسکی چالیس فیصد رقم کمپنی ضبط کر لیتی ہے ، اور بسا اوقات تو جس شخص کا بیمہ ہوا ہوتا ہے اسے اس کے ورثا ہی قتل کر دیتے ہیں ، تاکہ جلد تھوڑے نقصان کے ساتھ زیادہ رقم ہاتھ آئے ۔ 

ان قباحتوں کی وجہ سے بیمہ یا انشورنش ، چاہے جس کمپنی یا ادارے کی طرف سے بھی ہو ، شرعی طور پر واضح حرام اور ناجائز ہے ۔ 

   • بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ انشورنس بعض اسلامی ملکوں ( سعودی عرب وغیرہ ) میں بھی ہوتی ہے،  اور اسلامی ناموں سے ہوتی ہے ، تو ہماری گزارش ہے کہ  انشورنس میں اگر  یہ قباحتیں  موجود ہیں تو وہ سعودی عرب میں ہونے ، یا کوئی اسلامی نام رکھنے کی وجہ سے حلال نہیں ہو جائے گی ۔ كسی چیز کا نام یا مقام  بدلنے سے اس کی حقیقت نہیں بدل سکتی ۔ 

اگر ہم خنزیر کو بکرا کہہ دیں تو وه خنزیر ہی رہے گا ، کسی صورت  بکرا نہیں بن جائے گا ۔ اسی طرح یہودیوں کی بیمہ کمپنی ، اگر سعودی عرب میں ہو تب بھی یہودیوں کی کمپنی ہے ، پاکستان میں ہو تب  بھی یہودیوں کی کمپنی ہے ۔ 

البتہ اگر اس سے یہ قباحتیں دور کر دی جائیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں تو پھر جہاں سے بھی کروا لیں جائز ہے ۔ 

اگر یہ قباحتیں موجود ہیں تو پھر جہاں سے بھی کروائیں ناجائز ہے ، سعودیہ ہو یا پاکستان ، یا کوئی تیسری جگہ ۔

لہذا کبھی بھی انشورنس نہ کروائیں اور اگر کوئی ایسی کمپنی ہے جو انشورنس کے بغیر ملازمت نہیں دیتی تو اس سے کنارہ کر کے کہیں اور اللہ کا فضل تلاش کریں ۔ 

و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين 

و کتبہ : 
محمد رفیق طاہر 

جواب درست ہے ۔ 

ن ۱. 
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ ( رئیس اللجنۃ ) 

ن ۲. 
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ 

ن ۳. 
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ 

ن ۴. 
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ 

ن ۵. 
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ 

ن ۶. 
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ 

فتوی نمبر : 54 ، 10 اکتوبر , 2022  


جوائین ان 

۔

اتوار، 11 اگست، 2024

غار ثور پر مکڑی کا جالہ کبوتر و درخت مبشر ربانی

.

مشہور عام لیکن ضعیف 

غار ثور پر مکڑی کا جالہ ، کبوتر و درخت 


؀؀؀؀؀؀؀؛ 

سوال

کیا مکڑی کو مارنا جائز ہے؟ 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ مکڑی کے جالا تاننے کی وجہ سے نبی اکرم  ﷺ  غار ثور میں کفار کے ہاتھ آنے سے بچ گئے تھے لہذا اسے مارنا جائز نہیں ہے 


جواب

الحمد للہ

مکڑی کو مارنے کی ممانعت کسی صحیح حدیث میں ہمارے علم کے مطابق وارد نہیں ہوئی جو لوگ ہجرت کے واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ 

جب آپ  ﷺ  غار ثور میں تشریف لے گئے ، اس وقت غار کے منہ پر مکڑی نے جالا بن دیا تھا ، جس کی وجہ سے آپ کفار کے ہاتھوں بچ گئے تھے خطباء اور واعظین اس بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں لیکن اہل علم کے ہاں یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی 


ذیل میں اس واقعہ کے متعلق مروی روایات پر مختصر سا تبصرہ درج کیا جاتا ہے 
؀؀؀؀؀؀؀؀؛ 

 ( 1 ) اس سلسلہ میں ایک روایت ابو مصعب مکی نے بیان کی ہے کہ میں نے انس بن مالک ، زید بن ارقم اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنھم کو گفتگو کرتے ہوئے سنا کہ  

غار کی رات اللہ تعالیٰ نے ایک درخت کو غار کے دھانے پر اگنے کا حکم دیا تاکہ وہ نبی کریم  ﷺ  کو کفار سے چھپائے اور مکڑی کو بھیج دیا اس نے وہاں پر جالا بن دیا اور دو جنگلی کبوتروں کو بھیج دیا جب قریش مکہ اپنی لاٹھیوں ، تلواروں اور کمانوں سمیت تلاش کرتے کرتے وہاں پہنچے ، نبی اکرم  ﷺ  اور ان کافروں کے درمیان چالیس ہاتھ کا فاصلہ تھا ان میں سے بعض نے غار کے دھانے کی طرف جلدی سے دیکھا تو اس نے وہاں کبوتروں اور جالے کو دیکھا تو واپس پلٹ گیا تو اس کے ساتھیوں نے کہا : کیا ہوا تو نے غار نہیں دیکھا ؟ 
اس نے کہا میں نے وہاں دو جنگلی کبوتر دیکھے ہیں جس کی وجہ سے میں پہچان گیا کہ اس غار میں کوئی آدمی نہیں اس کی اس بات کو رسول اللہ  ﷺ  نے سن لیا جس بناء پر آپ نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ہم سے دور کر دیا ہے 

کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی جلد 3 ، صفحہ 422 ، 423 ،  طبقات ابن سعد ، جلد 1 ، ص 228، 229 ، کشف الاستار ، جلد 2 ، ص 299 ، میزان الاعتدال جلد 3 ، ص 307 ، دلائل النبوۃ للبیہقی ، جلد 2 ، ص 482 ،  البدایۃ و النھایۃ ، جلد 3 ، ص 158 ، 159 


مذکورہ بالا روایت کے اندر دو خرابیاں ہیں : 

 ( 1 ) اس کو بیان کرنے والا راوی ابو مصعب مکی مجہول راوی ہے یہ بات امام عقیلی نے اپنی کتاب الضعفاء ، جلد 3 ، ص 423 میں ، امام ذھبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال ، جلد 3 ص ، 307 میں تحریر کی ہے 

 ( 2 ) ابو مصعب سے روایت کرنے والا عون بن عمرو القیسی بھی قابل حجت نہیں ہے امام بخاری نے اسے منکر الحدیث اور امام یحییٰ بن معین نے اسے لا شیء ( کچھ نہیں ہے ) کہا ( میزان الاعتدال ، جلد 3 ، ص 304 ) 


یہ روایت حسن بصری سے بھی مروی ہے : 

 ( ملاحظہ ہو البدایہ و النھایہ ، جلد 3 ، ص 158 ، مسند ابی بکر الصدیق لابی بکر احمد بن علی المروزی ، ص 118 ، رقم الحدیث 73 ، یہ روایت بھی سندا کمزور ہے اس کے اندر بھی دو خرابیاں ہیں ) 

( 1 ) یہ حسن بصری کی مرسل روایت ہے اور مرسل حدیث جمہور محدثین ، فقہاء اور اصولیین کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے 
( اصول الحدیث ، جلد 1 ، ص 350 ) 

( 2 ) دوسری خرابی یہ ہے اس کی سند میں بشار بن موسی الخفاف ضعیف راوی ہے امام بخاری نے اسے منکر الحدیث ، امام نسائی نے غیر ثقہ اور حافظ ابن حجر وغیرہ نے بہت غلطیاں کرنے والا قرار دیا ہے 
المغنی فی الضعفاء ، جلد 1 ، ص 150 ، تقریب  ، ص 44 


تیسری روایت 
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مصنف عبدالرزاق ، جلد 3 ، ص 389 ، مسند احمد ، جلد 1 ، ص 348 ، مجمع الزوائد ، جلد 7 ، ص 30 میں مروی ہے 

اس کی سند میں عثمان بن عمرو الجزری ضعیف راوی ہے امام ابو حاتم رازی نے اسے ناقابل حجت اور حافظ ابن حجر نے اسے ضعیف کہا ہے الجرح و التعدیل ، جلد 2 ، ص 126 ، تقریب ، ص 235  

امام ازدی فرماتے ہیں کہ محدثین اس کی روایت میں کلام کرتے ہیں کتاب الضعفاء و المتروکین لابن جوزی ، جلد 2 ، ص 71 

ابن حبان کے سوا اسے کسی نے بھی قابل اعتماد قرار نہیں دیا لہذا یہ روایت بھی قابل حجت نہیں 


اس سلسلے کی چوتھی روایت یہ ہے کہ 

رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا : اللہ تعالیٰ مکڑی کو ہماری جانب سے اچھا بدلہ دے اس نے مجھ پر غار میں جالا بنا تھا ۔ 

( الجامع الصغیر للسیوطی ، ص 218 ، رقم الحدیث : 3585 ) 

امام سیوطی نے اس کو مسند فردوس دیلمی کے حوالے سے ذکر کر کے آگے ضعف کی علامت لگائی ہے 

علامہ البانی حفظہ اللہ نے سلسلہ ضعیفہ ، جلد 3 ، ص 338 ، 339 میں اسے نقل کر کے اس کے دو راویوں عبداللہ بن موسی اسلمی اور اس کے استاد ابراہیم بن محمد پر جرح نقل کی 


مذکورہ بالا توضیح سے واضح ہوا کہ غار ثور کے دھانے پر جالا بننے والی مکڑی کے بارے میں بیان کی گئی روایات صحیح نہیں ہیں لہذا یہ بات درست نہیں علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ہجرت کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا : 

﴿ إِلّا تَنصُروهُ فَقَد نَصَرَهُ اللَّهُ إِذ أَخرَجَهُ الَّذينَ كَفَروا ثانِىَ اثنَينِ إِذ هُما فِى الغارِ إِذ يَقولُ لِصـٰحِبِهِ لا تَحزَن إِنَّ اللَّهَ مَعَنا فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكينَتَهُ عَلَيهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنودٍ لَم تَرَوها وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذينَ كَفَرُوا السُّفلىٰ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِىَ العُليا وَاللَّهُ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٤٠﴾... 
سورةالتوبة

 " اگر تم اس کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ ہی نے اس کی مدد کی اس وقت جب کہ اسے کافروں کے دیس سے نکال دیا تھا وہ دو میں سے دوسرا تھا جب کہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر ، اللہ ہمارے ساتھ ہے پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا بھی نہیں اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے اللہ غالب حکمت والا ہے " 

اس آیت کریمہ میں اللہ نے ہجرت کے دوران مدد کا ذکر کیا ہے ایک سکینہ ہے اور دوسری ایسے لشکروں سے ہے جنہیں دیکھا نہیں گیا جب کہ مکڑی اور کبوتروں کی مدد تو دیکھی جانے والی ہے ، نہ دیکھی جانے والی مدد اللہ کے فرشتوں سے تھی 

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
 " و هم الملائكة نزلوا يصرفون وجوه الكفار و أبصارهم عن رؤيته " 
( تفسیر بغوی ، جلد 2 ، ص 296 ) 

" وہ اللہ کے فرشتے تھے جو اتر کر کافروں کے چہروں اور آنکھوں کو رسول اللہ کی رؤیت سے پھیرتے تھے " 

اور اس معنی کی تائید اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غار کے سامنے ایک آدمی دیکھا فرمانے لگے : 
اے اللہ کے رسول  ﷺ  وہ ہمیں دیکھنے والا ہے آپ  ﷺ  نے فرمایا : ہرگز نہیں ، بے شک فرشتے اب اسے اپنے پروں سے چھپا رہے ہیں پھر وہ آدمی ان کے سامنے پیشاب کرنے بیٹھ گیا تو آپ  ﷺ  نے فرمایا اے ابو بکر ! اگر یہ دیکھ رہا ہوتا تو یہ کام نہ کرتا 

( مجمع الزوائد ، جلد 6 ، ص 56 اور طبرانی کبیر ، جلد 24 ، ص 106 ( 284 ) 

اس کی سند میں یعقوب بن حمید بن کاسب راوی حسن الحدیث ہے ابن حجر نے تقریب میں اسے صدوق ( سچا ) قرار دیا ہے مندرجہ بالا دلائل سے واضح ہو گیا کہ مکڑی کے جالے والی روایت جو غار ثور کے متعلق بیان کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے لہذا اس روایت سے مکڑی کو نہ مارنے پر استدلال کرنا درست نہ ہوا 

ھذا ما عندی و الله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل ، 
ابو الحسن مبشر احمد ربانی ، 
جلد 3 ، کتاب البیوع ، صفحہ 436  ۔ 

محدث فتویٰ 


جوائین ان 
سلفی تحقیقی لائبریری 

۔

جمعہ، 9 اگست، 2024

غار ثور میں سانپ کا ڈسنا اسحاق سلفی

۔


مشہور عام لیکن ضعیف 

تحقیق حدیث 

سفر ہجرت میں غار ثور کے اندر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سانپ کے ڈسنے کا قصہ 

شیخ اسحاق سلفی رحمہ اللہ 

؀؀؀؀؀؀؀؀؛ 

۱. ؛ 
عن عمر ( رضي الله عنه ) 
ذكر عنده أبو بكر فبكى و قال : وددت أن عملي كله مثل عمله يوما واحدا من أيامه وليلة واحدة من لياليه أما ليلته فليلة سار مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الغار فلما انتهينا إليه قال : والله لا تدخله حتى أدخل قبلك فإن كان فيه شيء أصابني دونك فدخل فكسحه ووجد في جانبه ثقبا فشق إزاره وسدها به وبقي منها اثنان فألقمها رجليه ثم قال لرسول الله ﷺ ادخل
فدخل رسول الله ﷺ
ووضع رأسه في حجره ونام فلدغ أبو بكر في رجله من الجحر ولم يتحرك مخافة أن ينتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم فسقطت دموعه على وجه رسول الله ﷺ فقال : «ما لك يا أبا بكر؟» قال : لدغت فداك أبي وأمي فتفل رسول الله صلى الله عليه وسلم فذهب ما يجده ثم انتقض عليه وكان سبب موته وأما يومه فلما قبض رسول الله ﷺ ارتدت العرب وقالوا : لا نؤدي زكاة. فقال : لو منعوني عقالا لجاهدتهم عليه. فقلت : يا خليفة رسول الله ﷺ تألف الناس وارفق بهم. فقال لي : أجبار في الجاهلية وخوار في الإسلام؟ إنه قد انقطع الوحي وتم الدين أينقص وأنا حي؟ . 

رواه رزين 
مشکاۃ المصابیح باب مناقب ابو بکر رضی اللہ عنہ

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دن ) ان کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق کا ذکر چھڑ گیا تو وہ
 ( ان کی پاکیزہ و بلند قدر زندگی کو یاد کر کے ) رونے لگے اور پھر بولے : مجھ کو آرزو ہے کہ کاش میری پوری زندگی کے اعمال ( قدر و قیمت کے اعتبار سے ) حضرت ابو بکر کے صرف اس ایک دن کے عمل کے برابر ہو جاتے جو ( آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات کے ) دنوں میں سے ایک دن تھا ۔۔ یا اس ایک رات کے عمل کے برابر ہو جاتے جو ( آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات کی ) راتوں میں سے ایک رات تھی یہ ان کی اس رات کا ذکر ہے جس میں وہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ سفر ہجرت پر روانہ ہوئے اور غار ثور ان کی پہلی منزل بنا تھا ، جب آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر اس غار میں پر پہنچے ( اور آنحضرت ﷺ نے غار میں داخل ہونا چاہا ) تو حضرت ابو بکر نے کہا : اللہ کے واسطے آپ ﷺ اس غار میں ابھی داخل نہ ہوں پہلے میں اندر جاتا ہوں تاکہ اگر اس میں کوئی موذی چیز ( جیسے سانپ بچھو وغیرہ ) ہو اور وہ ضرر پہنچائے تو مجھ کو ضرر پہنچائے نہ کہ آپ ﷺ کو ۔۔ اور یہ ( کہہ کر ) حضرت ابو بکر ( آنحضرت ﷺ سے پہلے غار میں داخل ہو گئے اور اس کو جھاڑ جھٹک کر صاف کیا ۔۔ انہوں نے غار کے ایک کونے میں کئی سوراخ بھی دیکھے تھے ان میں سے بیشتر سوراخوں کو انہوں نے اپنے تہبند سے چیتھڑے پھاڑ کر بند کر دیا اور جو دو سوراخ ( اس وجہ سے ) باقی رہ گئے تھے ( ان کو بند کرنے کے لئے تہبند کے چیتھڑوں میں سے کچھ نہیں بچا تھا ) ان کے منہ میں وہ اپنے دونوں پاؤں ( کی ایڑیاں ) اڑا کر بیٹھ گئے ( تاکہ کسی زہر یلے اور موذی جانور کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہ رہے ) پھر انہوں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ اب اندر تشریف لے آئیے ! چنانچہ رسول کریم ﷺ غار میں داخل ہوئے اور اپنا سر مبارک حضرت ابو بکر کی گود میں رکھ کر سو گئے ، اسی دوران ایک سوراخ کے اندر سے سانپ نے حضرت ابو بکر کے پاؤں کو کاٹ لیا لیکن ( وہ اسی طرح بیٹھے رہے اور ) اس ڈر سے اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کی کہ کہیں رسول کریم ﷺ جاگ نہ جائیں ۔۔ آخر ( شدت تکلیف سے ) ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل گئے اور رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک پر گرے ( جس سے آپ ﷺ کی آنکھ کھل گئی ) آپ ﷺ نے ( ان آنکھوں میں آنسو دیکھے تو ) پوچھا : ابو بکر ! یہ تمہیں کیا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے ( کسی زہریلے جانور یعنی سانپ نے ) کاٹ لیا ہے آنحضرت ﷺ نے ( یہ سن کر ) اپنا مبارک لعاب دہن ( ان کے پاؤں میں کاٹی ہوئی جگہ پر ) ٹپکا دیا اور ( تکلیف و اذیت کی ) جو کیفیت ان کو محسوس ہو رہی وہ فورا جاتی رہی ۔۔ اسی سانپ کا وہ زہر تھا جو حضرت ابو بکر پر دوبارہ اثر انداز ہوا اور اسی کے سبب ان کی موت واقع ہوئی اور ان کا وہ دن ( کہ جس کے بارے میں میری آرزو ہے کہ کاش میرے زندگی بھر کے اعمال ان کے صرف اس دن کے عمل کے برابر قرار پائیں ) وہ دن تھا جب رسول کریم ﷺ نے اس دنیا سے رحلت فرمائی تھی 

 
اس قصہ کی تحقیق
؀؀؀؀؀؀؛ 

رواها البيهقي في " دلائل النبوة " ( 2 / 476 – 477 ) من طريق عبد الرحمن بن إبراهيم الراسبي ، قال : حدثني فرات بن السائب ، عن ميمون بن مهران ، عن ضبة بن محصن العبري ، به . ‘‘ و هذا القصة موضوعة ، عبد الرحمن بن إبراهيم الراسبي ضعفه الدارقطني و أبو نعيم ، 

اس قصہ کو امام بیہقی ؒ نے دلائل النبوۃ میں مذکورہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے ، اور یہ قصہ موضوع ( جھوٹا ، من گھڑت ) ہے ، سند میں موجود عبد الرحمن بن ابراہیم کو امام دارقطنی اور ابو نعیم نے ضعیف قرار دیا ہے ، اور امام الذہبی ؒ ’’ میزان الاعتدال ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 

و قال الذهبي في " الميزان " ( 2 / 454 ) : " و أتى عن فرات بن السائب ، عن ميمون بن مهران ، عن ضبة بن محصن العبري ، عن أبي موسى بقصة الغار ، و هو شبه وضع الطرقية " ، و أقره ابن حجر في " اللسان " ( 4 / 397 ) .

و فرات بن السائب ، و قال ابن معين : " ليس بشيء " ، و قال البخاري : " منكر الحديث " ، و قال أبو حاتم : " ضعيف الحديث ، منكر الحديث " ، و تركه النسائي و الدارقطني 
( الميزان 4 / 503 – 504 واللسان 6 / 9 – 10 ) .

و روى الحاكم في " المستدرك " ( 3 / 6 ) من طريق عفان بن مسلم ، ثنا السري بن يحيى ، ثنا محمد بن سيرين ، عن عمر ، به ، و ليس فيه ذكر الثعبان .
قال الحاكم : " هذا حديث صحيح الإسناد على شرط الشيخين ، لو لا إرسال فيه " ، و وافقه الذهبي .

قلت : لم يخرج مسلم للسري بن يحيى ، و هذا مرسل كما قالا .
وقد وهم السخاوي في " فتح المغيث " ( 4 / 118 ) في عزوه للبيهقي في " الدلائل " من هذا الطريق .


۲. ؛
اس قصہ کو ’‘ اسلام ویب ‘‘ islamweb.net/fatwa
میں ’‘ ضعیف اور نا قابل اعتبار قرار دیا ہے ’‘ 

الحمد لله و الصلاة و السلام على رسول الله و على آله و صحبه ، أما بعـد : 

فقصة تعرض أبي بكر للدغ حية له أثناء مرافقته رسول الله صلى الله عليه وسلم في غار ثور أثناء هجرته قصة مشهورة ، ذكرها أهل السير و التراجم : و ممن ذكرها الخطيب في مشكاة المصابيح في باب مناقب أبي بكر رضي الله عنه ، و ذكرها الحافظ الذهبي في سير أعلام النبلاء ، و قال بعد ذكر الرواية : وه و منكر سكت عنه البيهقي و ساقه من حديث يحيى بن أبي طالب ( و ذكر السند ) ثم قال : و آفته من هذا الراسبي فإنه ليس بثقة مع كونه مجهولاً ذكره الخطيب في تاريخه فغمزه.

فالحاصل أن الرواية ضعيفة من حيث السند ، و لا يعني ذلك الجزم بعدم وقوعه


۳. ؛ 
تخریج مزید 
اس قصے کو امام أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي ( المتوفى : 418هـ ) نے بھی ’’ شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة ‘‘
میں اور امام بیہقی ؒنے ۔۔ ۔۔ دلائل النبوۃ ۔۔ میں اور امام ابن عساکر " تاريخ دمشق " میں اسی سند مذکورہ بالا سے روایت کیا ہے ۔۔ 
اور علامہ علی الحشیش نے " تحذير الداعية من القصص الواهية " میں پہلا واہی قصہ یہی بیان کیا ہے ، 

أخرجها اللالكائي في " شرح أصول اعتقاد أهل السنة " ( 2426 ) ، و البيهقي في " دلائل النبوة " ( 2 / 476-477 ) ، و ابن عساكر في " تاريخ دمشق " ( 30 / 79 ) من طريق عبد الرحمن بن إبراهيم الراسبي ، قال : حدثني فرات بن السائب ، عن ميمون بن مهران ، عن ضبة بن محصن ، عن عمر أنه قال له : 

و الله لليلة من أبي بكر و يوم خير من عمر ، هل لك بأن أحدثك بليلته و يومه ؟
قال : قلت : نعم يا أمير المؤمنين .
قال : أما ليلته لما خرج رسول الله هارباً من أهل مكة خرج ليلاً فتبعه أبو بكر فجعل يمشي مرة أمامه ، و مرة خلفه ، و مرة عن يمينه ، و مرة عن يساره .
فقال له رسول الله : ما هذا يا أبا بكر ما أعرف هذا من فعلك ؟
قال : يا رسول الله أذكر الرصد فأكون أمامك ، و أذكر الطلب فأكون خلفك ، ومرة عن يمينك ، و مرة عن يسارك ، لا آمن عليك .
قال : فمشى رسول الله ليلته على أطراف أصابعه [حتى] حفيت رجلاه ، فلما رآها أبو بكر أنها قد حفيت ( ( حمله على كاهله و جعل يشتد به حتى أتى به الغار فأنزله ) ) ، ثم قال : و الذي بعثك بالحق لا تدخله حتى أدخله فإن كان فيه شيء نزل بي قبلك ، فدخل فلم ير شيئا فحمله و أدخله .
و كان في الغار خرق فيه حيات و أفاعي فخشي أبو بكر أن يخرج منهن شيء يؤذي رسول الله فألقمه قدمه ، ( ( فجعلت تضربنه أو تلسعنه الحيات و الأفاعي و جعلت دموعه تنحدر ) ) ، و رسول الله يقول : ( ( يا أبا بكر لا تحزن إن الله معنا ) ) ، فأنزل الله سكينته إلا طمأنينة لأبي بكر ، فهذه ليلته و أما يومه ................. الحديث .

قال ابن كثير : 
[ و في هذا السياق غرابة و نكارة ] .

قلت : هذا إسناد ضعيف جداً ، فيه علتان : 

الأولى : 
فرات بن السائب ، قال البخاري : " منكر الحديث " ، و قال ابن معين : " ليس بشيء " ، و قال الدارقطني : " متروك " ، و قال أبو حاتم : " ضعيف الحديث منكر الحديث " ، و قال الساجي : " تركوه " ، و قال النسائي : " متروك الحديث " . انظر " لسان الميزان " ( 6 / 10-11 / 6603 - ط. دار الفاروق ) .

الثانية : 
عبد الرحمن بن إبراهيم الراسبي ، لم أجد له ترجمة .

و قد ذكر هذه القصة الشيخ علي حشيش في سلسلة " تحذير الداعية من القصص الواهية " ، الحلقة الأولى ، و ذلك ضمن عدد جمادى الأولى من " مجلة التوحيد المصرية " لعام 1421.


۴. ؛ 
علامہ علی الحشیش نے " تحذير الداعية من القصص الواهية " میں پہلا واہی قصہ یہی بیان کیا ہے ، 
اور لکھا ہے کہ یہ بالکل جھوٹا قصہ ہے 

فوٹو 



کتبہ  
شیخ اسحاق سلفی  

مصدر 

https://forum.mohaddis.com/threads/%D8%B3%D9%81%D8%B1-%DB%81%D8%AC%D8%B1%D8%AA-%DB%94%DB%94%DB%94%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%BA%D8%A7%D8%B1-%D8%AB%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D8%B3%DB%8C%D8%AF%D9%86%D8%A7-%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%A8%DA%A9%D8%B1-%D8%B5%D8%AF%DB%8C%D9%82-%D8%B1%D8%B6%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%86%DB%81-%DA%A9%D9%88-%D8%B3%D8%A7%D9%86%D9%BE-%DA%A9%DB%92-%DA%88%D8%B3%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D9%82%D8%B5%DB%81.28285/ 

جوائین ان 
سلفی تحقیقی لائبریری 

 ۔