۔
بسم الله الرحمن الرحیم
تصویر نمبر
خصوصی شمارہ ماہنامہ محدث لا ہور
جون 2008
مختلف مکاتب فکر کے علماء کی تحقیقات و مضامین
( تصویر متحرک ، ساکن ، ہاتھ والی ، کیمرے والی ، عکسی ، غیر عکسی ، وڈیو والی، غیر وڈیو والی ، ورق نقدی والی ، بطاقۃ المعرفۃ والی ، جواز والی ، رخصہ والی ، تذکرات البرید وغیرہ والی، کتب و صحائف والی ، اختبارات و امتحانات والی ، معاہدات و وظائف والی اور بچوں کے کھلونوں والی ۔۔۔۔ )
ہ^^^^^^^^^^^^^^^^^ہ
الیکٹرونک میڈیا پر تصویر کا شرعی حکم تقابلی جائزہ
حسن مدنی
ءءءءءءءءءءءءءءءء
موجودہ دور ترقی ، انقلابات ، میڈیا اور اطلاعات کا دور ہے ۔ اگرچہ ایک صدی قبل انسان نے بجلی ، فون ، ایندھن ، نقل و حمل اور مواصلات کے دوسرے ذرائع دریافت کر لئے تھے ، تاہم دریافت و ایجاد کے اس سفر میں جو کامیابی اور تیزی گذشتہ چند برسوں میں دیکھنے میں آئی ہے ، اس کی تیز رفتاری نے واقعتا عقل کو حیران و پریشان کر دیا ہے ۔ آج سے کم و بیش 15 ، 20 برس قبل کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد نے تو گویا ہرچیز بدل کے رکھ دی ہے ۔ اور ہر آنے والا دن اس میں کئی گنا اضافہ کر رہا ہے ۔
میڈیا کی اس تیز رفتاری اور ترقی سے بہت سے نئے مسائل نے جنم لیا ہے جن میں ایک اہم مسئلہ ہر دَم بڑھتے ٹی وی چینلوں کا بھی ہے ۔ پا ک ستان میں کیبل ٹی وی کے بعد اور مشرف حکومت کی نرم میڈیا پالیسیوں کے سبب پا ک ستان ی قوم اس وقت ٹی وی چینلوں کے ایک طوفانِ بلاخیز سے دوچار ہے ۔ پا ک ستان کے تین درجن کے لگ بھگ ملکی ٹی وی چینلوں میں ایک تہائی تعداد درجہ اوّل کے چینلز کی ہے مثلاً " جیو " کے تین چینل ، " اے آر وائی " کے دو چینل ، نوائے وقت کا " وقت " چینل ، " آج " ٹی وی ، " بزنس پلس " ، " ایکسپریس نیوز " اور " ڈان نیوز " وغیرہ ۔ باقی درجہ دوم اور سوم کے چینلز بھی اتنی ہی تعداد میں موجود ہیں جن میں مذہبی چینلز بھی شامل ہیں ۔ یہ سب چینل محض گذشتہ ۳ سے ۵ برس کے دوران وجود میں آئے ہیں ۔ ان چینلوں کو باہمی مقابلہ اور عوام میں مقبولیت کے لئے جہاں رقص و موسیقی کے بے ہنگم پروگرام پیش کرنے ہوتے ہیں جس سے روز بروز موج مستی اور عیش پرستی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے ، وہاں عوام کے رہے سہے دینی جذبہ کی تسکین کے لئے اُنہیں برائے نام ایسے علمائے دین کی ضرورت بھی ہوتی ہے ، جو عالم دین کہلانے کی بجائے " اخلاقی ماہرین Ethical Experts اور " سکالرز " کہلوانا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ پردۂ سکرین کی مخصوص ضروریات اور ماحول کے تقاضوں کو یوں بھی حقیقی عالم دین تو پورا نہیں کر سکتا نتیجتاً " ضرورت ایجاد کی ماں ہے " کے مصداق ایسے " دینی ماہرین " کی ایک فوج ظفر موج وجود میں آ چکی ہے جو کسی دینی درسگاہ سے باقاعدہ تعلیم یافتہ ہونے کی بجائے عوام کے دینی جذبات کا خوبصورت الفاظ میں استحصال کرنے کی صلاحیت سے تو مالا مال ہوتے ہیں تاکہ عوام کی دین سے وابستگی کے فطری جذبہ کی بھی تسکین ہو سکے اور ہر دم بدلتی نئی دنیا کے تقاضے بھی پورے ہوتے رہیں ۔ ان نام نہاد دینی پروگراموں کے معیار کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عین پروگرام سے قبل مرد وزَن کے اختلاط کے مناظر بھی ٹی وی پر چلتے رہتے ہیں ، دورانِ پروگرام فحش ٹی وی اشتہارات بھی اور پس منظر میں دھیمے سروں کی موسیقی بھی ، ان چیزوں کے جلو میں عوام کو دینی رہنمائی بھی حاصل ہوتی رہتی ہے ۔
ٹی وی چینلوں کی مقبولیت اور عوام میں ان کی اثر پذیری کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پا ک ستان کے کئی ایک " مذہبی " سکالروں کی مقبولیت اسی پردۂ سیمیں کی مرہونِ منت ہے اور محض اسی سبب وہ اسلامیانِ پا ک ستان کے مذہبی قائد و رہنما کے منصب و اِعزاز پر براجمان ہیں جب کہ ان کے پندارِ علم اور دینداری کا یہ عالم ہے کہ طبقہ علماء میں نہ تو ان کی ذات کو کوئی اچھا تعارف حاصل ہے اور نہ ہی اُن کے پایۂ علم کو مستند خیال کیا جاتا ہے ۔
لیکن اس سب کے باوجود اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جدید میڈیا کی کرشمہ سازیوں کے سبب عوامِ پا ک ستان کی دینی بساط اب مسجد و مدرسہ سے نکل کر اسی ٹی وی سکرین کی مرہونِ منت ہو چکی ہے جس پر حیا باختہ اداکارائیں بھی مختصر لباس میں جلوہ افروز ہوتی ہیں ۔
ہر لمحے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے اس ماحول اور زوال پذیر معاشرتی صورت حال کو ہر درد مند مسلمان بری طرح محسوس کرتا ہے ۔ اور اسی تناظر میں ہر صاحب ِ فکر یہ توقع کرتا دکھائی دیتا ہے کہ منبر و محراب کے حقیقی وارث علمائے کرام بھی اَب روایتی اُسلوبِ دعوت و تربیت سے آگے بڑھتے ہوئے ان ٹی وی چینلوں کے ذریعے ان کے مذہبی رجحانات کی تشفی کریں ۔ یہاں یہ بنیادی نکتہ ان کی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے کہ جب دین کی مقدس تعلیم کو بھی مقصد و ہدف سے قطع نظر ٹی وی چینل کے مالک کے جذبہ حصولِ منفعت کے پیش نظر ابلاغ کی لہروں کے سپرد کیا جائے گا تو منبر نبویؐ کا یہ مقدس مشن کیسے لوگوں کے سپرد ہوگا اور عوام کی دینی تعلیم و تدریس کی کون سی نوعیت اربابِ ابلاغ کے ہاں مطلوب و معتبر قرار پائے گی ... ؟
یہ ہے ٹی وی پر تبلیغ دین کے موجودہ داعیہ کا پس منظر جس کی راہ میں اکثر و بیشتر اسلام کی رو سے مسئلہ تصویر حائل ہوتا رہا ہے ۔
محتاط اور جید علمائے کرام اس بنا پر ہمیشہ ٹی وی پر آنے سے گریز کرتے رہے ہیں ۔ یوں بھی ٹی وی کی سکرین جس طرزِ استدلال اور عاقلانہ معروضیت کی متقاضی ہے ، ایمان و ایقان کے اُسلوب میں ڈھلے اعتقادات و نظریات اس سے یکسر مختلف روحانی ماحول میں ہی پروان چڑھ سکتے ہیں ۔
بہر طور اس ضرورت کے سبب اور درپیش حالات میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلی کو سامنے رکھتے ہوئے مسئلہ تصویر پر علمائے کرام میں کئی بار یہ موضوع اُٹھایا گیا جس کے نتیجے میں کئی ایک مذاکرے اور مباحثے منعقد ہوتے رہے ۔
مسئلہ تصویر پر جملہ مکاتب ِ فکر کا نمائندہ مذاکرہ
ماضی میں جب بھی کسی مذہبی جماعت نے عامۃ المسلمین میں دینی دعوت کو توسیع دینے کا سوچا تو سب سے پہلے اسی مسئلہ تصویر پر ایک معرکہ اُنہیں طئے کرنا پڑا ،
چنانچہ ۸۰ء کے عشرے میں جماعت ِ اسلامی میں یہ مسئلہ پیدا ہوا اور اُنہوں نے ایک موقف پر اطمینان حاصل کیا ۔
حالیہ میڈیا پالیسی کے بعد ٹی وی چینلوں کی بھرمار کے اِنہی دنوں میں جب دین کے نام لیوا بعض حلقوں نے ٹی وی کو اپنی جہد و کاوش کا مرکز بنانا چاہا تو " تصویرکے مسئلہ " پر اُنہوں نے بھی ایک " باضابطہ " موقف اختیار کیا ،
اب جب مدارس و مساجد سے وابستہ علمائے کرام کے معاشرتی کردار کو مزید مؤثر کرنے پر غور وخوض ہوا تو یہی مسئلہ سب سے پہلے اَساسی توجہ کا طالب ٹھہرا ۔ اس اعتبار سے مسئلہ تصویر جدید میڈیا کے اس دور میں انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔
گذشتہ برس جملہ مکاتب ِ فکر کی سر کردہ علمی شخصیات پر مشتمل " ملی مجلس شرعی " کے نام سے ایک مستقل پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا تھا جس کا ہدف یہ تھا کہ " فروعی اختلافات سے بالاتر رہتے ہوئے عوام الناس کو اسلام کی روشنی میں در پیش جدید مسائل کا حل " پیش کیا جائے ۔ اس مجلس شرعی کے تاسیسی اجلاس ( منعقدہ جامعہ نعیمیہ ، لا ہور ) میں بھی سب سے پہلے یہی " مسئلہ تصویر " ہی موضوعِ بحث بنا ۔ " ملی مجلس شرعی " کا دوسرا اجلاس جامعہ اشرفیہ ، لا ہور میں 4 ، نومبر 2007ء کو منعقد ہوا تو اس میں اس مسئلہ کے بنیادی خطوط پر سرسری تبادلہ خیال کیا گیا اور وہیں وسیع پیمانے پر علماء کا ایک نمائندہ اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ ہوا ۔
چنانچہ اِمسال 13 ، اپریل کو " ملی مجلس شرعی " کے پلیٹ فارم سے جملہ مکاتب ِ فکر کا ایک وسیع سیمینار مفتی محمد خاں قادری صاحب کی درسگاہ جامعہ اسلامیہ ، ٹھوگرنیاز بیگ ، لا ہور میں منعقد ہوا ۔ اس سیمینار میں تین مجالس بالترتیب ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی ( مہتمم جامعہ نعیمیہ لا ہور ) ، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی ( مہتمم جامعہ لا ہور الاسلامیہ [ رحمانیہ ] ) اور مولانا حافظ فضل الرحیم ( مہتمم جامعہ اشرفیہ ، لا ہور ) کے زیر صدارت منعقد ہوئیں جس میں
بریلوی مکتب ِ فکر سے
1 ۔ مفتی محمد خاں قادری ، مہتمم جامعہ اسلامیہ ، ٹھوکر نیاز بیگ ، لا ہور
2 ۔ ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری ، مہتمم جامعہ رضویہ ، ماڈل ٹائون ، لا ہور
3 ۔ مفتی شیر محمد خاں ، شیخ الحدیث دار العلوم محمدیہ غوثیہ ، بھیرہ
4 ۔ مفتی غلام حسین ، شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ خیر المعاد ، ملتان
دیوبندی مکتب ِ فکر سے
1 ۔ مولانا رشید میاں تھانوی ، مہتمم جامعہ مدنیہ ، لا ہور
2 ۔ قاری احمد میاں تھانوی ، نائب مہتمم دار العلوم اسلامیہ ، لا ہور
3 ۔ مولانا محمد یوسف خاں ، اُستاذِ حدیث جامعہ اشرفیہ لا ہور
4 ۔ مولانا عتیق الرحمن ، مہتمم جامعہ عبد اللہ بن عمر ، لا ہور
5 ۔ مفتی محمد طاہر مسعود ، مہتمم جامعہ مفتاح العلوم ، سرگودھا
اور اہل حدیث مکتب ِ فکر سے
1 ۔ مولانا حافظ عبد العزیز علوی ، شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ ، فیصل آباد
2 ۔ حافظ صلاح الدین یوسف ، مدیر ترجمہ و تحقیق ، دارالسلام ، لا ہور
3 ۔ مولانا محمد رمضان سلفی ، نائب شیخ الحدیث جامعہ لا ہور الاسلامیہ [ رحمانیہ ]
4 ۔ مولانا محمد شفیق مدنی ، اُستاذِ حدیث و فقہ ، جامعہ لا ہور الاسلامیہ ، لا ہور
اور شیخ الحدیث مولانا عبد المالک ( مہتمم مرکز ِ علوم اسلامیہ ، منصورہ ) وغیرہ نے اس موضوع پر اپنے قیمتی خیالات پیش کئے ، جب کہ علماء اور فاضلینِ مدارس کی ایک بڑی تعداد بھی سیمینار میں شریک ہوئی ۔ اجلاس کے داعی ڈاکٹر محمد امین نے نقابت کے فرائض انجام دئے ۔ یوں تو اجلاس میں تمام خطابات ہی بڑے علمی ، استدلال سے بھرپور اور پر مغز و بامقصد تھے ... جن کی ریکارڈنگ " ملی مجلس شرعی " کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد امین صاحب سے حاصل کی جا سکتی ہے ... لیکن ان میں ایسے خطابات جو مختلف مکاتب ِ فکر کے نمائندہ اور متنوع رجحانات کی عکاسی کرتے تھے ، ادارۂ محدث نے بقدر ِ استطاعت اُن کو مدوّن کر کے یا خطاب کو سامنے رکھتے ہوئے دوبارہ لکھوا کر اُنہیں زیر نظر شمارہ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے تاکہ اس اہم اجلاس کا فائدہ عام اور محفوظ ہو سکے ۔
یہ مذاکرہ دراصل دو بنیادی موضوعات پر منعقد ہوا تھا :
* تصویر ، فوٹوگرافی اور ویڈیو وغیرہ کی شرعی حیثیت
* دورِ حاضر میں تبلیغی ضروریات کے لئے تصویر ، ٹی وی اور ویڈیو کا جواز ؟
جیسا کہ اوپر درج شدہ ناموں کی فہرست سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس مذاکرہ میں جہاں ملک کی نامور اور سرکردہ اہل علم شخصیات شامل تھیں ، وہاں ان کا تعلق ایک نقطہ نظر کی بجائے مختلف پس منظر اور مکاتب ِ فکر سے تھا ، چنانچہ اشتراک و یگانگت کے کئی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ہر صاحب ِ علم نے اپنے اپنے ڈھنگ میں ان دونوں مسائل پر تبادلہ خیال کیا ۔
اس مذاکرہ کے اختتام پر ایک متفقہ قرار داد بھی منظور کی گئی جس کا تذکرہ زیر نظر تحریر کے آخر میں موجود ہے ، لیکن مختلف افراد کے خیالات میں قدرِ مشترک اور ان کے طرزِ استدلال پر تبصرہ اور باہمی تقابل بھی ہمیں موضوع کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا ۔
تصویر کا شرعی حکم
سب سے پہلے تصویر کے بارے میں شرعی حکم کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیے ... پھر اہل علم کے تینوں موقفوں کا بالاختصار تذکرہ ، تجزیہ اور نتیجہ و ثمرہ
تصویر کی حرمت کے بارے میں احادیث ِ نبویہؐ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ، جن میں صراحت کے ساتھ تصویر کی حرمت کو شدت سے بیان کیا گیا ہے ۔
غور کیا جائے تو ان احادیث و آثار میں تصویر کی حرمت کو تین نتائج ، وجوہات میں منحصر کیا جا سکتاہے :
1. ہ
تصویر کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کی صفت ِ تخلیق سے مشابہت پائی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں ایک نام " مصور " اور اس کی صفات میں
{هُوَ ٱلَّذِى يُصَوِّرُكُمْ فِى ٱلْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَآءُ ۚ ... ﴿٦﴾ ... سورة آل عمران}
شامل ہے ، اس بنا پر تصویر بنانا سرے سے حرام ہے اور تصویر کشی کی فی نفسہٖ ممانعت کی وجہ یہی ہے ۔
اسی لئے مصوروں کے لئے احادیث میں سخت ترین وعید آئی ہے کہ روزِ قیامت اُنہیں شدید ترین عذاب ہوگا اور اُن سے اپنی تصویر شدہ اشیاء میں روح ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے گا ۔ البتہ بعض احادیث و آثار سے پتہ چلتا ہے کہ مشابہت کا یہ وصف صرف ذی روح اشیا تک محدود ہے ۔ جمادات اور قدرتی مناظر کی تصاویر بنانا جائز ہے ۔
غرض تصویر کی حرمت کی ذاتی اور اہم وجہ اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہے ۔
اس نکتہ کی مزید وضاحت مولانا شفیق مدنی کے خطاب ( ص 6 ) ، شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کے کتابچہ بر تصویر ( ص5 ) اور ابن دقیق العید ( شرح العمدة : 3 ، 256 ) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔
2. ہ
تصویر کی حرمت کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے شرک اور غیر اللہ کی معبودیت کا دروازہ کھلتا ہے ۔ امکانِ شرک کا یہ عنصر مقدس اور عظیم شخصیات میں قوی تر ہو جاتا ہے جیسا کہ پہلی اَقوام میں تصویر اور مجسمہ سازی اسی نتیجہ شرک پر منتج ہوتی رہی ہے ۔ اس بنا پر شرک کا رستہ بند کرنے کے لئے سد ِ ذریعہ کے طور پر تصویر کشی حرام ہے ۔ اس امکان کے اِزالے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تصویر میں سر وغیرہ کٹے ( i ) ہوئے ہوں ، اور اگر وہ کہیں موجود ہو تو اس کو محل اِہانت میں رکھا جائے کیونکہ پوری تصویر کسی بھی وقت شرک کا نقطۂ آغاز بن سکتی ہے ۔
اس نکتہ کی مزید تفصیل والد گرامی حافظ عبد الرحمن مدنی کے خطاب ( ص : 2 ، 3 ) میں اور شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کے کتابچہ ( ص : 6 ) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔
3. ہ
تصاویر بنانا تو مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر حرام ہے ، البتہ کسی بنا پر حاصل ہو جانیوالی تصویر کے بارے میں شریعت ِ اسلامیہ کا موقف یہ ہے کہ تصویر کو نمایاں کرنا باعث ِ نحوست ہے اور اس کے سبب رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے ۔ اس نحوست کے خاتمے کا طریقہ احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ تصویر کو اِعزاز و اِ کرام کی بجائے زمین میں پامال کیا اور روندا جائے ۔
بعض اہل علم نے حرمت ِ تصویر کی وجہ غیر مسلموں سے مشابہت بھی بتائی ہے ۔ البتہ تصویر کے اس حکم ممانعت سے بصراحت لڑکیوں کا اپنی گڑیوں وغیرہ سے کھیلنا خارج ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث ِ نبویہ میں نبی کریم ﷺ نے یہ اجازت دی ہے ۔
قاضی عیاض ؒ نے قرار دیا ہے کہ جمہور اہل علم کے نزدیک گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت مستثنیٰ ہے ۔ ( فتح الباری ) البتہ بعض علماء کے نزدیک یہ اجازت بھی منسوخ ہے ۔ 1
مذاکرہ میں پیش کردہ آرا کا تقابل و تجزیہ
مذاکرہ کے دوران راقم کا تأثر یہ رہا کہ حالات کی سنگینی اور تبلیغ اسلام کے اہم فریضے سے عہدہ برا ہونے کے پیش نظر ، اپنی منصبی ذمہ داری کو جانتے سمجھتے ہوئے حاصل بحث اور نتیجہ کے اعتبار سے تمام اہل علم کی آرا میں کوئی واضح اختلاف نہیں پایا جاتا ، اور یہی اتفاق اور قدرِ مشترک متفقہ قرار داد کو منظور کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔
مذکورہ بالا دو مسائل کے بارے میں علمائے کرام کے موقف اور رجحانات کا خلاصہ یہ ہے کہ
* اس نکتہ پر تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ فی زمانہ تبلیغ دین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ٹی وی پر آنا جائز ہے ، البتہ ہر عالم دین نے اپنی اپنی اُفتادِ طبع ، ذوق اور علم کی روشنی میں تشریح و تعبیرکا اُسلوب مختلف اپنایا ہے ۔ اس مرکزی نتیجہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے علماء کے موقف اور طرزِ استدلال کو جاننے کے لئے ان کو تین مختلف حلقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے :
• پہلے حلقے کے علماء کرام کے نزدیک تصویر کشی اور ٹی وی ، ویڈیو شریعت ِ اسلامیہ کی رو سے اصلاً حرام ہے جس کے نتیجے میں ٹی وی پر آنا بھی ناجائزہے ، البتہ فی زمانہ تبلیغ اسلام کے لئے مختلف خارجی وجوہ کی بنا پر اس کی اجازت دی یا اسے گوارا کیا جا سکتا ہے ۔
• بعض علماء نے تصویر اور ٹی وی ، ویڈیو کے احکام میں فرق کیا ہے ۔ ان کے نزدیک تصویر تو اصلاً حرام ہے ، البتہ ٹی وی ، ویڈیو تصویر کی اس شرعی حرمت میں شامل نہیں ۔ چنانچہ اس طرح احکامِ تصویر کی توجیہ اور ان میں باہمی فرق کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ گنجائش دی ہے کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ہی جدید الیکٹرانک میڈیا وغیرہ پر آنا شرعاً جائز ہے ۔
• اہل علم کے تیسرے گروہ کے نزدیک تصویر کے شرعی حکم میں فوٹوگرافی شامل ہی نہیں بلکہ یہ عکس ہے ۔ بعض دانشوروں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ تصویر کی کوئی صورت بھی فی نفسہٖ ( بشمول ہاتھ سے بنائی گئی ) حرام نہیں ، شریعت میں تصویر کی تمام تر حرمت خارجی وجوہ ( مثلاً فحاشی و شرک وغیرہ ) کی بنا پر ہے ۔ تصویر کشی اسلامی شریعت کی رو سے ایک مرغوب و مطلوب امر ہے ۔
الغرض اس سلسلے میں علماء کے تین حلقے ہیں جن سب کا اس نتیجہ میں تو اتفاق ہے کہ فی زمانہ تبلیغ اسلام کیلئے ٹی وی پر آنا جائز ہے ، البتہ فتویٰ کی تعبیر و توجیہ ہر ایک کے ہاں جداگانہ ہے ۔
پہلا حلقہ
پہلے گروہ کی نظر میں تصویر کی اوّلین نوعیت اور فی زمانہ استعمال کی جانے والی تصاویر میں ماہیت اور طریقہ کے اعتبار سے اگرچہ کچھ فرق بھی پایا جاتا ہو لیکن ان کے حکم میں کوئی فرق نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شریعت قیامت تک کے لئے ہے ، اور اس میں ہر دور کے مسائل کے بارے میں مکمل رہنمائی موجود ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تصویر کی حرمت کی وجوہات فوٹو گرافی والی تصویر میں زیادہ بہتر ( کاملاً ) اور ویڈیو میں انتہائی بہترین ( اکملا ً ) پائی جاتی ہیں ، اس لئے تصویر کے ظاہری پہلو سے ان پر بحث کرنے کی بجائے ان تمام نئی صورتوں کو بھی تصویر قرار دیا جائے گا ، بلکہ جوں جوں اس میں تصویری عنصر اور خصوصیات کامل تر ہوتی جائیں گی ، توں توں اس کی حرمت شدید تر ہوتی جائے گی ۔ ان علماء کے خیال میں یہ بحث کہ تصویر ہاتھ سے بنائی گئی ، یا ظاہری سادہ وجود رکھتی ہے یا نہیں ؟ اس کا تعلق نفسِ مسئلہ کی بجائے تمدن کی ترقی سے ہے اور صرف طریقہ مختلف ہونے کی بنا پر تصویر کے حکم میں تبدیلی پیدا کرنا حیلے سازی کے مترادف ہے ، ان چیزوں سے اصل مسئلہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس سلسلہ میں ان کا استدلال " نفس تصویرکی خصوصیات " اور اس کے لئے عربی لغت میں بولے جانے والا اَلفاظ و اِطلاقات سے بھی ہے ۔ جب ہر نوعیت کی تصویر کو آج تک " تصویر " اور " صورت " سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے تو احادیث میں " صورت " ، " مصور " اور تصویر کے لئے بولے جانے والے تمام الفاظ دورِ حاضر کی جملہ تصاویر کو بھی شامل ہیں ۔
مذاکرہ میں ان راسخ فکر علماء کا یہ موقف تھا کہ کسی خارجی غلط وجہ ( مثلاً فحاشی اور فسق و فجور ) کے بغیر بھی تصویر کی حرمت براہِ راست قائم ہے جس کی وجہ اللہ کی صفت ِ خالقیت و مصوریت میں مشابہت ہے اور اس کی احادیث میں انتہائی سنگین وعید آئی ہے ۔ البتہ یاد رہے کہ تصویر کی یہ شناعت انہی احادیث کی بنا پر فقط ذی روح اشیاء تک ہی محدود ہے ۔ ان وجوہ کی بنا پر ایسے علماء تصویر کے مسئلے اور مصداق میں اُصولی طور پر کوئی استثنا پیدا کرنے سے کلی احتراز کرتے ہیں ۔
پہلے گروہ میں بھی آگے علماء کی دو قسمیں ہیں
° بعض تو وہ ہیں جو احادیث کے ظاہری الفاظ پر انحصار کرتے ہوئے کسی تفصیل اور بحث میں جائے بغیر ہر قسم کی تصویر کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ ان علماء کا رویہ حدیث کے ظاہری الفاظ پر زور دینے کا ہے کہ ہر ایسی شئے جس پر تصویر کا اطلاق کیا جاتا ہے ، اس کو حرام سمجھا جائے ۔ اسی بنا پر یہ اہل علم حدیث میں وارد لفظ إلا رقمًا في الثوب وغیرہ کو بھی مختلف دلائل کی بنا پر بے جان شے کی تصویر پر ہی محمول کرتے ہیں ۔ البتہ حدیث میں گڑیوں وغیرہ کے استعمال کے جواز کو حکم تصویر سے مستثنیٰ کہتے ہیں ، اور اس جواز کی بنیاد بھی یہی ہے کہ احادیث ِ نبویہؐ کے ظاہری متن سے اس کی گنجائش ملتی ہے ۔
اس استدلال کا منطقی نتیجہ تو یہ ہونا چاہئے کہ ان علماء کے ہاں ٹی وی اور میڈیا پر تبلیغ اسلام کے لئے تصویر سازی اور فلم بندی حرام ہو لیکن مذکورہ استدلال کے بعد یہ علماء بھی کسی نہ کسی درجہ میں فی زمانہ تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی وغیرہ پر آنے کو جائز یا گوارا ہونے کا ہی فتویٰ دیتے ہیں ، اس سلسلے میں ان کا استدلال مریض عورت کا غیر محرم ڈاکٹر سے علاج کرانا ، شناختی کارڈ اور سرکاری دستاویزات وغیرہ تیار کرنے جیسی مثالیں ہیں جن کو پورا کرنا مسلمانوں پر بطورِ اضطرار لازمی ٹھہرتا ہے ۔
° اسی گروہ کے دوسرے علماء کا رجحان یہ ہے کہ احادیث کی ظاہری پابندی ایک نہایت قابل تعریف رویہ ہے ، لیکن دین میں فقاہت کو اللہ تعالیٰ نے باعث ِ خیر و برکت قرار دیا ہے ۔ چنانچہ صرف الفاظِ حدیث پر ڈیرہ جما دینے کی بجائے ان الفاظ کی علتوں اور حکمتوں پر غور و خوض کرنا بھی ضروری ہے ۔ یہ رویہ فقہائے محدثین سے قریب تر ہے کہ حدیث کی الفاظ کی رعایت رکھتے ہوئے ان میں موجود حکمتوں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے ۔
چنانچہ غیر ذی روح کی تصویر کی اجازت یا بچیوں کے کھیلنے کے لئے گڑیوں کی اجازت ، یا تصویر کو پائوں میں روندنے یا اس کا چہرہ وغیرہ ختم کر دینے کے حدیثی استثناءات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ علمائے کرام قرار دیتے ہیں کہ ہر وہ تصویر جس سے کوئی مفید دینی مقصد پورا نہ ہوتا ہو تو ایسی تصاویر تو لازماً حرام ہیں ، لیکن جہاں اس سے کوئی زیادہ مفید ( ضروری مقصد ) پورا ہوتا ہو جس کا پورا ہونا اس تصویر کے بغیر مشکل ہے تو ایسی صورت میں تصویر جائز ہے ۔ اس موقف کی دلیل بچیوں کی تربیتی ضرورت کے لئے نبی کریم ﷺ کا حضرت عائشہ کو گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت دینا ہے ۔ اس بنا پر اگر مذکورہ بالا صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آیا جائے یا ویڈیو بنائی جائے تو اس صورت میں تصویر کشی و فلم بندی گوارا ہے ، جیسا کہ علامہ البانی ؒ کا یہی موقف آگے آ رہا ہے ۔
اس طرح بعض علماء شریعت کے مقاصد ِ عامہ یعنی اَخف الضررین ، مصلحت اور سدذریعہ وغیرہ کے تحت اس امر کی گنجائش پیدا کرتے ہیں کہ جب حالات و ظروف کے اعتبار سے تبلیغ اسلام کی مصلحت کا یہ تقاضا نظر آئے کہ ٹی وی پر آئے بغیر دفاعِ اسلام اور تعبیر دین کا فرض مؤثر طریقہ سے پورا نہیں ہو سکتا تو ایسی صورت میں بھی جدید ذرائع کو استعمال کرنے کا جواز ہے ۔
گویا پہلے گروہ کے دونوں اہل علم کے موقف میں فرق یہ ہے کہ پہلا موقف اضطرار اور نئے حالات کے جبر کے نتیجے میں پیدا ہو رہا ہے جب کہ دوسرے موقف میں گڑیوں کے کھیل ، دیگر استثناءات اور مقاصد ِ شریعت سے استدلال کرتے ہوئے یہ گنجائش دی گئی ہے ۔
پہلے موقف کی نمائندگی بالترتیب حافظ عبد العزیز علوی ، حافظ صلاح الدین یوسف اور مولانا رمضان سلفی کر رہے ہیں ، جیسا کہ ان کے خطابات اور قرار دادوں سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے ۔
ایسے ہی حالت ِ اضطرار کا دوٹوک موقف مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور مولانا رشید میاں تھانوی نے بھی اختیار کیا ہے ۔ جب کہ دوسرے موقف کی طرف رجحان مولانا محمد شفیق مدنی اور حافظ عبدالرحمن مدنی کے ہاں پایا جاتا ہے ۔ البتہ نتیجہ و فتویٰ ہر دو کے ہاں بہر طور یہی ہے کہ تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنا گوارا یا جائز ہے ، اگرچہ تعلیل و توجیہ میں دونوں کا طریقہ مختلف ہے ۔
عرب علماء کا موقف
یوں تو یہ پہلو مذاکرہ سے خارج ہے ، البتہ محض تکمیل افادہ کی خاطر یہاں عالم عرب کے مستند علماء ( علامہ البانی ، ؒ ، شیخ ابن باز ؒ ، شیخ ابن جبرین اور شیخ محمد علی الصابونی وغیرہ ) کے موقف کا نتیجہ پیش کرنا بھی مفید ہوگا ۔
علامہ محمد ناصر الدین البانی ؒ فرماتے ہیں :
و إن کنا نذهب إلی تحریم الصُّور بنوعیه جازمین بذلك فإننا لا نرٰی مانعًا من تصویر ما فیه فائدة متحققة بدون أن یقترن بها ضرر ما ، و لا تتیسر هذہ الفائدة بطریق أصله مباح ، مثل التصویر الذي یحتاج إلیه الطبّ و في الجغرافیا و في الاستعانة علی اصطیاد المجرمین و التحذیر منهم و نحو ذلك فإنه جائز بل قد یکون بعضه واجبًا في بعض الأحیان و الدلیل علی ذلك حدیثان ... الخ 2
اگرچہ ہم تصویر کی ہر دو نوع ( تصویر بنانا اور لٹکانا ) کی حرمت کے پورے وثوق سے قائل ہیں لیکن اس کے باوجود ایسی تصویر جس سے کوئی یقینی فائدہ حاصل ہوتا ہو اور اس سے کوئی شرعی ضرر لاحق نہ ہو ، کو بنانے میں ہم کوئی مانع نہیں سمجھتے ۔ بشرط یہ کہ یہ فائدہ اس جائز طریقے کے سوا حاصل ہونا ممکن نہ ہو جیسا کہ طب و جغرافیہ میں تصویر کی ضرورت پیش آتی ہے ، یا مجرموں کو پکڑنے اور ان سے بچائو وغیرہ کے سلسلے میں ۔ تو یہ تصویریں شرعاً نہ صرف جائز بلکہ بسا اوقات واجب بھی ہو جاتی ہیں جس کی دلیل یہ دو احادیث ہیں ... "
پھر اُنہوں نے حضرت عائشہؓ کی اپنی گڑیوں سے کھیلنے اور حضرت ربیع ؓ بنت ِ معوذ کی اس حدیث کو ذکر کیا ہے جس میں اُنہوں نے چھوٹے بچوں کو روزے کی تربیت کے دوران روئی کے کھلونے بنا کر دینے اور ان سے جی بہلانے کا تذکرہ کیا ہے ۔
ان احادیث کی تحقیق و تخریج کے بعد نتیجہ کے طور پر مزید فرماتے ہیں :
فقد دلّ هذان الحدیثان علی جواز التصویر و اقتنائه إذا ترتبت من وراء ذلك مصلحة تربویة تُعین علی تهذیب النفس و تثقیفها و تعلیمها ، فیلحق بذلك کل ما فیه مصلحة للإسلام و المسلمین من التصویر و الصور ۔ و یبقی ما سوٰی ذلك علی الأصل و هو التحریم مثل صور المشایخ و العظماء و الأصدقاء و نحوها ممّا لا فائدة فیه بل فیه التشبه بالکفار عبدة الأصنام ... و ﷲ أعلم ۔ 3
" یہ دونوں احادیث جوازِ تصویر اور استعمال پر دلیل ہیں ، بشرط یہ کہ اس سے ایسی کوئی تربیتی مصلحت پوری ہو رہی ہے جس سے کسی فرد کے تہذیب و سلیقہ اور تعلیم میں مدد ملتی ہو ۔ اس جواز سے تصویر کشی اور تصاویر کی وہ صورتیں بھی ملحق ہو جاتی ہیں جن میں اسلام یا مسلمانوں کی کوئی دینی مصلحت پائی جاتی ہو ۔ البتہ اس کے ماسوا اُمور میں تصویر کی حرمت اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے ، مثلاً مشایخ ، بڑی ہستیوں ، دوستوں وغیرہ کی تصویر کشی جس میں بتوں کے بچاری کفار کی مشابہت کے سوا کوئی دینی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ۔ "
شیخ ناصر الدین البانی کا مذکورہ بالا موقف پہلے حلقے کے دوسرے علماء والا ہے ۔ جس میں حدیث ِ نبویؐ کی بنا پر گڑیوں کے استثنا کو دلیل بناتے ہوئے اس پر باقی ضروریاتِ دین و معاشرہ کو قیاس کیا گیا ہے ۔
البتہ درج ذیل علمائے عرب نے اس حدیث کی بجائے تصویر کے شرعی احکام کو عمومی مقاصد ِ شریعت کے پیش نظر اضطراراً یا اَخف الضررین یا مصلحت کے قواعد کے تحت گوارا کیا ہے ... و اللہ اعلم
ملاحظہ فرمائیں ۔
مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز ؒ فرماتے ہیں :
فجمیع الصور للذکرٰی تُتلف بالتمزیق أو بالإحراق ، إنما یُحتفظ بالصور التي لها ضرورة کالصورة في حفیظة النفوس و ما أشبه ذلك ۔
" گزری یادوں کو محفوظ کرنے کے لئے بنائی گئی تمام تصاویر کو جلا یا پھاڑ کر تلف کر دینا ضروری ہے ، البتہ ایسی تصاویر جن سے کوئی شرعی ضرورت پوری ہوتی ہو ، مثلاً لوگوں ( یا مجرموں ) کی شناخت وغیرہ جیسی ضرورتیں تو ان کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے ۔ " 4
سعودی عرب کے متبحر عالم دین شیخ ابن جبرین کا موقف بھی تصویر کی حرمت پر دوٹوک ہے ، البتہ وہ بھی اضطراری صورت میں ہی تصویر کو جائز قرار دیتے ہیں :
و قد یُستثنٰی في هذہ الأزمنة الأوراق النقدیة التي فیها صُور المُلوك و کذا الجوازات و حفائظ النفوس للحاجة و الضرورة إلی حملها و لکن یُقتصر علی قدر الحاجة ...
و ﷲ أعلم ۔ 5
" فی زمانہ کرنسی نوٹوں پر حکمرانوں کی تصاویر ممانعت ِ تصویر کے شرعی حکم سے مستثنیٰ ہیں ، ایسے ہی پاسپورٹ ، شناختی کارڈ وغیرہ جن کی وجہ ان کو ساتھ رکھنے کی ضرورت اور تمدنی حاجت ہے ( وہ بھی مستثنیٰ ہیں ) ، البتہ یاد رہے کہ ان کا جواز اسی حاجت تک ہی محدود رہے گا ۔ "
سعودی عرب کے ایک عالم محمد علی صابونی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں :
بل یُقتصر فیه علی حد الضرورة کإثبات الشخصیة و کل ما فیه مصلحة دنیویة مما یحتاج الناس إلیه ،
و ﷲ أعلم ۔ 6
" بلکہ تصویر کی اجازت کے سلسلے میں ضرورت تک ہی محدود رہا جائے گا ، جیسا کہ شناختی ضرورت یا ایسی کوئی بھی دنیوی مصلحت ہے جس کے لوگ محتاج ہوتے ہیں ۔ "
مذکورہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب علمائے کرام ( بشمول علمائے عرب ) اصلاً تصویر کی حرمت کے قائل ہیں ، اور جدید تصاویر کو بھی اسی حرمت میں شامل سمجھتے ہیں لیکن اِضطرار یا مقاصد عامہ کے تحت تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
دوسرا گروہ
مسئلہ تصویر پر دوسرا گروہ اُن اہل علم کا ہے جو عام تصویر کو تو حرام قرار دیتا ہے ، لیکن ٹی وی اور ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر کو ایک توجیہ کے ذریعے تصویر کے اصل حکم سے خارج سمجھتا ہے ۔ گویا ان کے نزدیک جدید ترین تصاویر براہِ راست حکم شرعی میں شامل نہیں اور فرامینِ نبویؐ صرف انہی تصاویر پر صادق آتا ہے جو آپ کے دور میں مروّج تھیں ۔ اس گروہ کی نمائندگی مذاکرہ میں جماعت ِ اسلامی کے مولانا عبد المالک صاحب اور جامعہ اشرفیہ کے مولانا محمد یوسف خاں نے کی ۔
چنانچہ مولانا عبد المالک صاحب نے مسئلہ تصویر کو ضرورت اور حاجت کے اعتبار سے تقسیم کرنے کا رجحان اختیار کیا ۔ ان کی نظر میں ہر وہ تصویر جس کی حاجت اور ضرورت نہیں ، اس کو حرام ہونا چاہئے مثلاً پورٹریٹ ، بیج ، خواتین کی تصویر اور تصویری نمائشیں وغیرہ ۔ البتہ ایسی تصاویر جن کی کوئی دینی یا معاشرتی ضرورت موجود ہے ، ان کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا چاہئے ۔ گویا وہ تصویر بنانے کو تو ناجائز سمجھتے ہیں ، البتہ دو فقہی قواعد ( ii ) کے سبب ان کو بقدرِ ضرورت جائز قرار دیتے ہیں ۔ یہاں تک ان کا موقف پہلے گروہ کے ساتھ ہے ۔
جہاں تک ٹی وی اور ویڈیو کا تعلق ہے تو مولانا موصوف نے اس سلسلے میں یہ توجیہ اختیار کی ہے کہ چونکہ ان دونوں میں تصویر کا کوئی ظاہری وجود نہیں ہوتا ، اس لئے یہ دونوں جدید ذرائع تصویر کے مروّجہ شرعی حکم سے خارج ہیں ۔ چنانچہ ٹی وی کے مسئلہ کو حرمت کی بجائے آلہ اور وسیلہ کے طور پر دیکھا جانا چاہئے اور اس آلہ ، وسیلہ کو تبلیغ دین کے لئے استعمال کرنے کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہئے ۔ بالفرض ٹی وی کی حرمت کو بھی تصویر کے حکم نبویؐ میں داخل سمجھ لیا جائے تو جنگ ِ قادسیہ میں ہاتھی کی مورتی بنانے کی غالب حکمت کے مثل اس کی بھی اجازت ہونی چاہئے ۔ مزید تفصیل کے لئے مولانا کا مکمل خطاب ملاحظہ فرمائیں ۔
ایسا ہی موقف ان علماء کا بھی ہے جنہوں نے تصویر کی حرمت کو کاغذ پر وجود سے مشروط قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ان کے نزدیک جب تک کیمرہ کی تصویر کاغذ پر شائع نہ ہو جائے ، اس وقت تک وہ حرام نہیں ٹھہرتی ۔ اس بنا پر وہ عام تصویر اور کیمرہ کی تصویر کو تو حرام سمجھتے ہیں لیکن ڈیجیٹل کیمرہ اور ٹی وی ، ویڈیو کی تصویر میں اصلاً جواز نکالتے ہیں کہ یہ محرم تصویر ہی نہیں ہے ۔
ان کے نزدیک چونکہ ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام میں حفاظت یا دوام کا کوئی پہلو موجود نہیں ہوتا بلکہ وہ محض نشریاتی لہریں ہوتی ہیں ، اس بنا پر عکس اور حبس الظّل ہونے کے ناطے ٹی وی نشریات میں شریک ہونا جائز ہے اور یہ تصویر کے حکم ممانعت میں شامل نہیں بلکہ یہ محض ایک نشریاتی عکس ہے ۔ علاوہ ازیں ویڈیو فلم میں بھی چونکہ ظاہری طور پر کوئی تصویر موجود نہیں ہوتی بلکہ برقی ذرّات کی شکل میں محفوظ ہوتی ہے ، اس بنا پر اس کو بھی حرام قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
تبصرہ :
دراصل اس موقف میں تصویر کو نفسِ تصویر کی بجائے بعض دیگر خصائص کا اعتبار کرتے ہوئے اس پر شرعی حکم لگایا جا رہا ہے ۔ حالانکہ اگر کوئی تصویر کاغذ پر پرنٹ کرنے کی بجائے کمپیوٹر سکرین پر ہی دیکھی جا سکے تو اس تصویر کو حرام کیوں نہیں کہا جائے گا جیسا کہ اس دور کے ڈیجیٹل کیمروں میں ایسے ہی ہوتا ہے کہ شاذ و نادر ہی کوئی تصویر کاغذ پر شائع کی جاتی ہے اور اکثر پردۂ سکرین تک ہی محدود رہتی ہیں جب کہ ایسی تصویر میں بھی دوام ، جاذبیت اور تصویر کے دیگر خصائص بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں ۔
ان علماء کے اس موقف کے پس پردہ عکس اور تصویر کا باہمی فرق کارفرما ہے ۔ عکس اور تصویر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ عکس کا وجود اصل پر قائم ہوتا ہے اور اصل کے ختم ہو جانے سے عکس بھی جاتا رہتا ہے ۔ ان کی نظر میں جب کوئی تصویر کاغذ پر منتقل ہو جائے تو وہ عکس کی بجائے ثبوت اور دوام اختیار کر جاتی ہے ، اس لئے وہ حرام ہے ۔ دوام کی یہ خصوصیت اس لئے بھی ہے کیونکہ اصل پر قائم تصویر کی بقا کا کوئی امکان نہیں ہوتا ، اس لئے شرک کا امکان بھی معدوم ہو جاتا ہے ۔
ہماری نظر میں دوام کی یہی خصوصیت ویڈیو اور جدید ڈیجیٹل کیمرہ میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہاں تصویر کا وجود عکس کے بجائے مستقل بالذات ہو جاتا ہے ، البتہ یہ استقلال و استقرار کاغذ کی بجائے جدید میڈیا کی شکل میں ہوتا ہے ۔ چنانچہ دوام اور ثبوت کو صرف کاغذ میں منحصر سمجھنا درست نہیں ۔ تصویر کی حرمت کو اسی بات سے مشروط کرنا کہ وہ کاغذ پر یا سادہ انداز میں موجود ہو ، مناسب نہیں بلکہ میڈیا کی کسی بھی صورت میں اس کا مستقل وجود ، چاہے وہ کمپیوٹر ڈاٹا کی شکل میں ہو ، اپنی تصویری خصوصیت و حکمت ِ ممانعت کے باعث قابل گرفت ہے ۔ البتہ ٹی وی کی ایسی نشریات جن کو محفوظ نہیں کیا جاتا ، ان کے بارے میں عکس کی اس توجیہ میں امکانِ شرک کے نہ ہونے کی حد تک تو وزن موجود ہے کیونکہ وہ مستقل بالذات قائم نہیں رہتیں ۔
ڈیجیٹل کیمرے اور ویڈیو فلم والی تصویر کو براہِ راست نہ سہی تو کم از کم سد ذریعہ کے طور پر حرام ہونا چاہئے کیونکہ ایسی تصویر میں شرک کا نکتہ آغاز بننے یا نحوست پیدا کرنے کی صلاحیت تو بہرحال بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے ۔
ٹی وی ، ویڈیو کے بارے میں مذکورہ بالا موقف مولانا محمد تقی عثمانی نے اختیار کیا ہے جس کی تفصیل حافظ محمد یوسف خاں کے مقالہ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔ یاد رہے کہ ان کے ہاں ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویر اور عام کیمرہ کی تصویر کی ممانعت برقرار ہے ۔ البتہ جامعہ اشرفیہ ، لا ہور کا ٹی وی کے بارے میں فتویٰ قدرے مختلف ہے کہ آلۂ لہو و لعب ہونے کی وجہ سے اس کو استعمال کرنا یا اس پر تصویر نشر کرنا درست نہیں ۔ اور مولانا برہان الدین سنبھلی نے بھی اپنی کتاب میں یہی فتویٰ دیا ہے ۔ 7
اس سلسلے میں بعض علماء کے لئے ایک مشکل فقہائے اَربعہ کے اقوال کی کوئی مناسب توجیہ کرنا ہے کیونکہ فقہائے اربعہ حرمت ِ تصویر کے مسئلہ پر متفق ہیں ۔
چنانچہ حنفی بریلوی علماء میں سے مثلاً مولانا شیخ الحدیث شیر محمد خاں نے قرار دیا کہ جدید دور کی تصویر کو بعض قیود کے ساتھ جائز ہونا چاہئے اور اس احتمالی جواز کی گنجائش کے لئے عرف و رواج یعنی تبدیلی حالات کے تصور سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ، اسی بنا پر فقہاء کے فتاویٰ میں فی زمانہ گنجائش نکالی جا سکتی ہے ۔ اس سلسلے میں اپنے خطاب میں اُنہوں نے علامہ شامی ؒ کی ذکر کردہ بہت سی مثالیں پیش کیں ـ ۔
بہرحال توجیہ کے اس رجحان میں کئی ایک لوگ شامل ہیں جو مختلف شبہات ( عکس ، ہاتھ کا استعمال ) کے سہارے جدید آلاتِ تصویر کے استعمال کے لئے اصل حکم سے ہی گنجائش پیدا کرتے ہیں ۔
الغرض اس گروہِ علماء کے ہاں بھی تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنا جائز بلکہ ضروری ہے کیونکہ ٹی وی ، ویڈیو کی صورت میں بالخصوص تصویر کی شرعی ممانعت ہی موجود نہیں ۔ نتیجہ یہاں بھی آخرکار وہی ہے کہ " ٹی وی پر آنے کا شریعت میں اصلاً ہی جواز " پایا جاتا ہے ۔
تیسرا گروہ
اس سلسلہ میں آخری گروہ بعض عرب اہل علم کا ہے جن کے ساتھ متجددین بھی شامل ہو جاتے ہیں ۔ ان میں ایک طبقہ تو ان مصری علماء کا ہے جو علامہ قرضاوی کی سرپرستی میں تصویر کی حرمت کو اس کے اصل الفاظ کی بناء پر صرف ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویر تک محدود کرنے کا میلان رکھتے ہیں اور ہر قسم کی فوٹو گرافی کو اصلاً جائز قرار دیتے ہیں ۔
علامہ قرضاوی نے اپنی کتاب ( الحلال و الحرام في الإسلام ) میں یہ موقف مصر کے ایک عالم محمد بخیت کی کتاب الجواب الشافي في إباحة التصویر الفوتوغرافي سے متاثر ہو کر اختیار کیا ہے ۔
دیگر مصری علماء میں شیخ سائس ( آیات الاحکام : 4 ، 61 ) اور ڈاکٹر احمد شرباصی ( یسئلونک في الدین و الحیاة : 1 ، 632 ) وغیرہ شامل ہیں ۔
علاوہ ازیں اس موقف کے بعض راسخ فکر علماء بھی شکار ہو گئے ہیں ، جن میں سعودی عرب کے شیخ ابن عثیمین ؒ اور کویت کے شیخ عبد الرحمن عبد الخالق وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ ان کی نظر میں تصویر کی حرمت میں ہر قسم کی فوٹوگرافی بشمول ٹی وی ویڈیو وغیرہ سرے سے شامل ہی نہیں ہیں ۔
دوسرے گروہ سے ان کے موقف میں فرق یہ ہے کہ یہ موجودہ دور کی ہر قسم کی فوٹو گرافی کو عکس کی بنا پر مستثنیٰ سمجھتے ہیں ،
جب کہ دوسرا گروہ کیمرے کی تصویر کو تو ناجائز خیال کرتا ہے لیکن ڈیجیٹل کیمرے اور ٹی وی ، ویڈیو کو جائز قرار دیتا ہے ۔
مزید برآں تیسرا گروہ جدید آلات کی تصاویر کو حرام تصویر ہی نہیں سمجھتا بلکہ اسے عکس قرار دیتا ہے ،
جب کہ دوسرے گروہ کے لوگ اس میں تصویر کے بعض اوصاف مثلاً ثبوت و دوام نہ ہونے کے سبب اُنہیں تصویر کے شرعی حکم سے خارج سمجھتے ہیں ۔
یہ اہل علم کہتے ہیں کہ مشابہت بہ خلق اللہ کا مسئلہ تو اس وقت پیدا ہوگا جب کوئی فرضی شخصیت ہو یا حقیقی شخصیت کی ہو بہو تصویر نہ بنے ، جیسا کہ ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر اصل کے بالکلیہ مطابق نہیں ہوتی ۔ ان کی نظر میں ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر تو انسان کی ذہنی واردات ہے جب کہ فوٹو گرافی امر واقعہ کی حکایت ہے ۔
چنانچہ ایسی تصویر جو اصل خلقت کا ہی عکس ہے ، اس پر حدیث میں وارد یہ الٰہی اعتراض پیدا ہی نہیں ہوگا کہ وہ اس میں روح پھونک کر دکھائے ، یہ مشابہت نہیں بلکہ محض حبس الظل ہے ۔
شیخ ابن عثیمین کی زبانی اس کی مثال ملاحظہ فرمائیں :
و الأحادیث الواردة إنما هي في التصویر الذي یکون بفعل العبد و یضاهي به خلق اﷲ و یتبین لك ذلك جیّدًا بما لو کتبَ لَکَ شخصٌ رسالةً فصوَّرتها في الآلة الفوتوغرافیة فإن هذہ الصورة التي تخرج لیست هي من فعل الذي أدار الآلة و حرکها فإن هذا الذي حرّك الآلة ربَّما یکون لا یعرف الکتابة أصلاً و الناس یعرفون أن هذا کتابة الأول و الثاني لیس له أي فعل فیها و لکن إذا صُوِّر هذا التصویر الفوتوغرافي لغرض محرم فإنه یکون حرامًا تحریم الوسائل ۔
" تصویر کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ، وہ بندے کے ایسے فعل کے حوالے سے ہیں جس میں وہ اللہ کی خلقت کی مشابہت کرتا ہے ۔ یہ بات آپ بہتر جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص آپ کو خط لکھ کر دے اور فوٹو گرافی کے آلہ ( فوٹو سٹیٹ مشین ) سے آپ اس کی تصویر بنائیں تو اس سے نکلنے والی تصویر اُس شخص کا فعل نہیں کہلاتی جس نے مشین کو چلایا اور اسے حرکت دی ہے ۔ کیونکہ بعض اوقات فوٹو کاپی کرنے والا شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو سرے سے لکھنا ہی نہیں جانتا ۔ لوگ جانتے ہیں کہ یہ فوٹو کاپی پہلے شخص کی ہی لکھائی ہے ، اور دوسرے شخص کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ البتہ جب ایسی تصویر کو کسی حرام مقصد کے لئے بنایا جائے تو پھر یہ تصویر سد ِ ذریعہ کے طور پر حرام قرار پائے گی ۔ "
ایک اور مقام پر علامہ ؒ نے احتیاطاً ایسی تصویر سے شبہ کی بنا پر گریز کا مشورہ دیا ہے ۔ یعنی ان کے ہاں فتویٰ تو ایسی تصویر کے جواز کا ہے ، البتہ تقویٰ کے پہلو سے بچنا بہتر ہے ۔
یہ موقف رکھنے والے گروہ پر پا ک ستان کے اہل علم مثلاً مولانا گوہر رحمن وغیرہ کے علاوہ عالم عرب کے متعدد علماء مثلاً شیخ ابن باز ، شیخ صالح فوزان اور شیخ محمد علی الصابونی وغیرہ نے کڑی تنقید کرتے ہوئے اس استدلال اور مثال کو ساقط الاعتبار قرار دیا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا مثال کو اگر تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ مشابہت بہ خلق اللہ کی علت کو رفع کرنے کی حد تک ہی مؤثر ہے جب کہ ایسی تصویر میں ذریعہ شرک بن نے یا نحوست کا سبب بدستور برقرار رہتا ہے ۔ علاوہ ازیں اس بنا پر تو ایسے مصور کے فعل کو ہی حرام ہونا چاہئے جو فرضی تصویریں بناتا ہو ، جب کہ ایسا مصور جو کسی جاندار کی صد فیصد تصویر بنانے پر قادر ہو ، اس پر یہ حرمت لاگو نہیں ہونی چاہئے ، وغیرہ ۔ دراصل یہ مثال ہی درست نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص قتل کرنے کی قوت نہ رکھتے ہوئے بھی ریوالور کے ذریعے اگر دوسرے کو قتل کر دے تو اس صورت میں اسے ہی قاتل سمجھا جائے گا ، ریوالور کو نہیں ۔
سعودی عرب کے عالم شیخ صالح فوزان نے اس پر پانچ اعتراضات عائد کرتے ہوئے آخر کار یہی نتیجہ قرار دیا ہے کہ
فتبیَّن مما تقدَّم أن التصویر بجمیع أنواعه تماثیل أو غیر تماثیل ، منقوشًا بالید أو فوتو غرافیًا مأخوذًا بالآلة کله حرام و أن کل من حاول إباحة شيء منه فمحاولته باطلة وحجته داحضة ۔ 8
" مندرجہ بالا بحث سے ثابت ہوا کہ تصویر کی ہر نوع حرام ہے ، چاہے وہ مجسّمے ہوں یا اس کے علاوہ ۔ ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا آلہ کے ذریعے فوٹوگرافی ہو ، سب تصاویر حرام ہیں ۔ اور جو شخص بھی ان میں سے کسی تصویر کو جائز کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی یہ کوشش باطل اور اس کی دلیل غیر معتبر ہے ۔ "
دیارِ سعودیہ کے سب سے معتبر اور محترم مفتی شیخ محمد بن ابراہیم آلِ شیخ فرماتے ہیں :
و من أعظم المنکرات تصویر ذوات الأرواح و اتخاذها واستعمالها ولا فرق بین المجسّدة و ما في الأوراق مما أُخِذَ بالآلة ۔
" بدترین گناہوں میں سے ذی روح کی تصویر بھی ہے کہ اس کو بنایا اور استعمال کیا جائے ۔ اس سلسلے میں مجسم اور کاغذوں پر آلاتِ تصویر سے لی جانے والی تصاویر میں کوئی فرق نہیں ۔ "
ایک اور عرب عالم شیخ ولید بن راشد سعیدان اس استدلال کی تردید یوں کرتے ہیں :
إنما المعتبر في ذلك کله وجود الصورة لذوات الأرواح و إن اختفلت وسیلة إنتاجها و الجُهد الذي یبذل فیها ، و قد تقرَّر في القواعد أن الحکم یدور مع علته وجودًا و عدمًا ۔ 9
" فوٹوگرافی میں اعتبار ذی روح کی تصویر کے وجود کا ہی کیا جائے گا ، باوجود یہ کہ اس کے حصول کا اُسلوب اور اس پر صرف کردہ محنت مختلف نوعیت کی ہو ۔ فقہ کے قواعد میں یہ امر مسلمہ ہے کہ شرعی حکم اپنی علت کے وجود اور عدم وجود کے ساتھ ہی مربوط رہتا ہے ۔ "
بہر حال ان جوابی دلائل کا مطالعہ ان کی کتب میں کیا جا سکتا ہے ، جہاں اس موقف کی پوری تردید بھی موجود ہے ۔ مذاکرہ میں حافظ محمد زبیر نے اس موقف کی طرف اشارہ کیا تھا ۔
آخری گروہ کا دوسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے اصل کے اعتبار سے ہی اس مسئلہ کو شرعاً جائز قرار دیا ہے ، اور وہ پا ک ستان میں جاوید احمد غامدی صاحب کا ادارہ " المورد " ہے جو اصلاً ہی اس بناء پر تصویر کو فی ذاتہ جائز بلکہ مرغوب و مطلوب قرار دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جمال کو پسند کرتے ہیں ۔
یہ لوگ قرآنِ کریم کی آیت میں حضرت سلیمانؑ کے واقعہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں کہ حضرت سلیمان کے لئے تو ایک فعل جائز ہو اور قرآن اس کو جائز قرار دے ، لیکن شریعت ِ محمدیؐ میں آ کر یہ پسندیدہ " فعلِ تشکر " مذموم ٹھہر ( iii ) جائے ، اور احادیث میں ان کی حرمت اور شناعت کا بیان آ جائے ۔
زیادہ مناسب ہے کہ اس موقف کو تیسرے کی بجائے مستقل چوتھے گروہ کے طور پر سمجھا جائے کیونکہ غامدی حلقہ ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر اور مجسّموں کو بھی جائز قرار دیتا ہے ۔
چنانچہ تصویر کی حرمت کے مروّجہ شرعی موقف پر شدید تنقید کرتے ہوئے غامدی حلقہ تصویر کی حرمت کو خالصتاً خارجی وجوہات پر موقوف ٹھہراتا اور احادیث میں بیان کردہ حرمت و شناعت کو ان خارجی وجوہات کے حوالے سے ہی مخصوص قرار دیتا نظر آتا ہے ۔ تجدد پسندوں کا یہ طبقہ ایسا ہے جو ہر نوعیت کی تصویر کو براہِ راست مطلوب قرار دیتا ہے ۔ ان کا مجسمہ سازی کے بارے میں بھی یہی موقف ہے بلکہ وہ اس سلسلے میں ذی روح اور غیر ذی روح میں بھی کوئی فرق نہیں کرتے ۔
ان کی نظر میں فی زمانہ تصویر شرک کی بجائے معلومات کو بآسانی منتقل کرنے اور یاد داشت کو محفوظ رکھنے کی خاطر استعمال ہو رہی ہے جو ایک تمدنی ضرورت ہے ، جس کی اسلام میں اس کی کوئی ممانعت موجود نہیں ۔
فن مصوری کے بارے میں ایک سوال پر ان کا جواب ملاحظہ فرمائیے :
" وہ فن جس پر شرعاً کوئی اعتراض نہیں ... قرآنِ مجید اس پر کوئی تنقید نہیں کرتا بلکہ سلیمان علیہ السلام کے اس فن سے فائدہ اُٹھانے کو اللہ کا فضل قرار دیتے ہوئے اس پر شکر بجا لانے کو کہتا ہے ، ظاہر ہے کہ وہ فن اپنے اندر ایسی شرافت رکھتا ہے کہ اسے کوئی بھی مسلمان اختیار کرے ۔ " 10
بہر حال اس آخری گروہ کا موقف بھی یہ ہے کہ ٹی وی پر آنا شرعی حوالے سے کوئی ناپسندیدہ امر نہیں بلکہ شریعت کے حکم ممانعت میں ہر تصویر سرے سے داخل ہی نہیں ۔
نتیجہ و ثمرہ
مذکورہ بالا تینوں گروہوں کے جہاں مسئلہ تصویر پر موقف باہم مختلف ہیں ، وہاں اس مسئلہ کے جواز کے لئے ہر صاحب ِ علم نے اپنے اپنا اُسلوبِ استدلال اختیار کیا ہے ۔ ایسا تو ضرور ہوا کہ کوئی شخصیت کھلے بندوں اس معاملہ کو جائز قرار دے رہی ہے اور کوئی مجبوری و اضطرار یا حالات کے جبر کے نام پر بادلِ نخواستہ اس ضرورت کو تسلیم کر رہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہر موقف کے استدلال اور توجیہ سے نتائج میں بھی خاطر خواہ فرق واقع ہوتا ہے ، چنانچہ
* پہلے گروہ کے موقف ِ اضطرار یا اخف الضررین کے مطابق سنگین حالات میں تصویر کی گنجائش نکالی جائے گی اور وہ بھی بادلِ نخواستہ ۔
* جب کہ پہلے گروہ کے دوسرے موقف کے مطابق گڑیوں کے کھیل سے استدلال کرتے ہوئے یا مقاصد عامہ کے تحت ایسی تمدنی ضروریات کے لئے تصویر کی اجازت ہوگی جن کا حصول شریعت میں اصلاً جائز ہو ۔
* دوسرے گروہ کے مطابق تصویر تو حرام ہے لیکن وصف ِ دوام نہ ہونے کے سبب وہ ٹی وی اور ویڈیو کو حرمت ِ تصویر سے نکال لیتے ہیں ۔ اس لئے ان کے ہاں ٹی وی ، ویڈیو اور ڈیجیٹل کیمرہ کو حسب ِ خواہش استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
* جب کہ تیسرے گروہ کے ہاں فوٹوگرافی تصویر کا مصداق ہی نہیں ، اس لئے صرف وہی تصویر حرام ہے جو ہاتھ سے بنائی جائے ۔ چنانچہ تصویر بنانے اور فلم و ویڈیو کی کھلی اجازت ہے ، بلکہ آخری موقف کے مطابق تو یہ مطلوب شے ہے ۔
بہر طور اَب آپ ان تقاریر کو خود بھی ملاحظہ فرمائیے ۔
پروگرام کے آخر میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرار داد حسب ِ ذیل ہے :
{ " ملی مجلس شرعی کے زیر اہتمام اس کے مستقل ارکان اور جملہ مکاتب ِ فکر کے علمائے کرام کا یہ وسیع تر اجلاس اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ
* اسلام کا حیات آفریں پیغام دوسروں تک جلد اور مؤثر انداز میں پہنچانے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیوں اور پروپیگنڈے کے ازالے کے لئے علمائے کرام کو ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا چاہئے اور
* الیکٹرانک میڈیا کے لئے ایسے تعمیری ، اصلاحی اور تعلیمی پروگرام بھی تیار کئے جانے چاہئیں جو شرعی منکرات سے پاک ہوں ،
* اسلامی دعوت و اصلاح اور تبلیغ کے لئے مفید ہوں اور
* جن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناجائز اور مکروہ پروپیگنڈے کا تدارک ہوتا ہو ۔ " }
جامعہ سلفیہ ، فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی صاحب نے اس قرارداد پر اپنے قلم سے یہ اضافہ کیا اور اس پر اپنے دستخط ثبت کئے کہ
" * میڈیا پر جو تصاویر آتی ہیں ، ان کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہوئے
إلا من أکرہ و قلبہ مطمئن
کے پیش نظرمیڈیا سے دفاعِ اسلام درست ہے ۔ "
اس موقع پر مولانا حافظ صلاح الدین یوسف نے بھی ایک تحریر بطورِ قرار داد تیار کی تھی جو پیش تو نہ کی جا سکی ، البتہ معلومات اور موقف کے اظہار کے لئے اس کا مسودہ ملاحظہ فرمائیے ۔
{ " * اہل سنت کے تینوں مکاتب ِ فکر اہل حدیث ، دیوبندی اور بریلوی علماء کا ایک اجتماع جامعہ اسلامیہ ، جوہر ٹاؤن لا ہور میں بتاریخ ۱۳ ، اپریل 2008ء کو منعقد ہوا ۔
موضوع تھا :
تبلیغ و دعوت کے لئے الیکٹرانک میڈیا ( ٹی وی ، انٹرنیٹ وغیرہ ) کا استعمال جائز ہے یا نہیں ؟
تمام علماء نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا اور اس مؤقف پر تقریباً تمام علماء نے اتفاق ظاہر کیا کہ
* تصویر کی حرمت قطعی اور ابدی ہے ، اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں ۔
* تصویر ہاتھ سے بنی ہوئی ہو یا کیمرے کے ذریعے سے ، دونوں میں کوئی فرق نہیں اور دونوں ہی یکساں طور پر حرام ہیں ۔
* آج کل بعض لوگ دینی رہنماؤں ، بزرگوں اور پیروں کی تصویریں فریم کر اکر دکانوں اور گھروں میں آویزاں کرتے ہیں ، اسی طرح بعض علماء اور نعت خوانوں کی تصاویر پر مبنی اشتہارات عام شائع ہو رہے ہیں ، یہ سب ناجائز اور حرام ہیں ۔
* تاہم ٹی وی وغیرہ پر لادینیت کی جو یلغار ہے ، اس کے سدباب کے لئے علماء کے تبلیغی پروگراموں میں حصہ لینے کی اسی طرح گنجائش ہے جیسے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کے لئے بامر مجبوری تصویر کا جواز ہے ۔ " }
آخر میں سعودی عرب کی دائمی فتویٰ کونسل کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیے :
" النهي عن التصویر عام دون نظر إلی الآلة و الطریقة التي یکون بها التصویر ۔ أما التلفزیون فیحرم ما فیه من غناء أو موسیقي و تصویر و عرض صور و نحو ذلك من المنکرات و یُباح ما فیه من محاضرات إسلامیة و نشرات تجاریة أو سیاسیة و نحو ذلك مما لم یرد في الشرع منعه و إذا غلب شرہ علی خیرہ کان الحکم للغالب "
" تصویر کی حرمت عام ہے ، چاہے آلہ یا کسی بھی طریقہ سے تصویر لی جائے ۔ البتہ ٹی وی پر گانے ، موسیقی اور تصاویر جیسی منکرات حرام ہیں ، لیکن اسلامی لیکچر ، تجارتی اور سیاسی خبریں جن کی شریعت میں ممانعت وارد نہیں ، جائز ہیں ۔ البتہ جب اِن کا شر خیر پر غالب آ جائے تو اعتبار غالب کا ہوگا ۔ " 11
مذکورہ بالا قراردادوں اور فتاویٰ سے یہ بات البتہ کھل کر واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ حالات میں تصویر کی حرمت کی بنا پر ٹی وی مذاکروں مباحثوں میں شرکت نہ کرنا شرعی طور پر کوئی وزن نہیں رکھتا ۔ کیونکہ پا ک ستان کے جملہ مکاتب ِ فکر کے علماء نے تبلیغ اسلام کے لئے تصویر کو گوارا یا جائز سمجھنے پر اتفاق کیا ہے ، البتہ کسی انتظامی مشکل یا ٹی وی پروگرام کی نوعیت و ترتیب کے پیش نظر اس سے وقتی طور پر ضرور گریز کیا جا سکتا ہے ۔ علماء کو نہ صرف اس حوالے سے مزید کوششیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنے تجربہ و استدلال کو کام میں لانا چاہئے بلکہ دیگر ایسے ذرائع جن کے بارے میں کسی قسم کی حرمت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، ان تک بھی اپنی دعوت کو وسیع کرنا چاہئے مثلاً ایف ایم ریڈیو چینل اور انٹرنیٹ وغیرہ ۔
یاد رہے کہ موجودہ متفقہ فتویٰ کا محرک وہ صورت حال ہے جس نے ٹی وی پر چینلوں کی کثرت کے حوالے سے جنم لیا ہے ، اس کا شافی و کافی جواب اُسی مقام پر ہی دیا جا سکتا ہے جہاں سے یہ فتنہ پیدا ہو رہا ہے ۔ علماء کے روایتی ذرائعِ دعوت ، منبر و محراب اور رسائل و جرائد سے نئے پیدا ہونے والے فکری انتشار کا مداوا ممکن نہیں ۔ فی الوقت علماء کے منصب ِ تبلیغ دین کے حوالے سے یہ المناک صورت حال در پیش ہے کہ عوام کے دینی رجحانات و تصورات مسخ کئے جا رہے ہیں ، اس لئے اس کا شافی جواب ہر صورت دیا جانا چاہئے ۔
اللہ تعالیٰ علماء کو اپنے فرائضِ منصبی کو مزید بہتر طور پر پورا کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور فرمائے ۔ آمین
مسئلہ تصویر پر بعض مصادر و مراجع صفحات
* الجواب المفید في حکم التصویر ( عربي ، اردو ) ص 20
شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز
* حکم الإسلام في التصویر ( عربي ) ص 68
شیخ ابن باز ، شیخ ألباني ، شیخ صالح فوزان ، شیخ صابوني
* حکم التصویر الفوتوغرافي ( عربي ) ص 25
شیخ ولید بن راشد السعیدان
* تصویر سازی اور فوٹو گرافی کی شرعی حیثیت ص 62
مولانا گوہر رحمٰن
* تصویر کے شرعی احکام ( اردو )
مولانا مفتی محمد شفیع
* أحکام التصویر في الشریعة الإسلامیة ( عربی ، اردو ) ص 25
شیخ عبد الرحمن عبد الخالق ، کویت
* حکم التصویر و حکم اقتناء الصور و حکم الصور التي تمثل الوجه
شیخ محمد بن صالح العثیمین ( عربي ، اردو ) ص 12
* الجواب الشافي في إباحة التصویر الفوتو غرافي ( عربي )
شیخ محمد بخیت المصري
* حکم التصویر الفوتوغرافي ( عربي ، اردو ) ص 12
شیخ محمد بن صالح العثیمین
* فوٹو گرافی کا جواز ( اردو ) ص 94
رانا محمد شفیق پسروری
* تصویر کا مسئلہ ( اردو ) ص 96
محمد رفیع مفتي
* جواز تصویر ( اردو ) ص 70
مفتی ڈاکٹر غلام سرور قادری
* محمد رفیع مفتي
ہ------------------ہ
حوالہ جات
1. الجواب المُفید از شیخ ابن باز : ؒ ص 22
2. أحکام التصویر في الإسلام : 66
3. ایضاً : 67
4. فتاوی المرأة : 15
5. فتاوی المرأة : 17 ، 18
6. روائع البیان : 2 ، 416
7. دیکھیں " موجودہ زمانہ کے مسائل کا شرعی حل " : ص204
8. حکم التصویر : ص 58
9. حکم التصویر الفوتوغرافي : 23
10. " تصویر کا مسئلہ " از محمد رفیع مفتی : ص 96
11. فتاوٰی اللجنة الدائمة : 1 ، 674 ، فتویٰ نمبر : 5706
ہ i.
الصورة الرأس فذا قُطع فلا صورة ( أخرجہ البیہقی 2707 ) و صحَّحہ الألبانی
ہ ii.
" الضرورات تبیح المحظورات " اور " الحاجة قد تُنْزَل منزلة الضرورة " وغیرہ
ہ iii.
حالانکہ حضرت سلیمان کے تماثیل کے بارے میں علماء کا یہ موقف ہے کہ وہ بے جان اشیا کی تماثیل تھیں یا ان کی اجازت صرف ان کی شریعت تک محدود تھی ، احادیث میں واضح طور پر بکثرت آ جانے اور نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام کو تصویریں مٹانے کے مشن پر متعدد بار بھیجنے سے شریعت ِ محمدی ﷺ کا موقف اس بارے میں بالکل واضح اور بین ہے ۔ اب بہن بھائیوں کی آپس میں شادی وغیرہ کو بھی کیا محض اسی بنا پر آج گوارا کر لیا جائے ؟
ہ^^^^^^^^^^^^^^^^^ہ
مسئلۂ تصویر
عبد العزیز علوی
ءءءءءءءءءءءءءءءء
تصویر کا لغوی مفہوم
تصویر کا معنی ہے :
صَنعُ الصورة یعنی تصویر بنانا
صورة الشيء کا معنی ہوتا ہے :
ھیئته الخاصَّة التي یتمیَّز بھا عن غیرہ
" اس کی مخصوص ہیئت و شکل جس کے ذریعے وہ دوسری چیزوں سے ممتاز ہو جائے ۔ "
اسی لئے اللہ تعالیٰ کو مُصوِّر کہا گیا ہے ، کیونکہ اس نے تمام موجودات کو ان کے اختلاف و کثرت کے باوجود مخصوص شکل اور الگ ہیئت عنایت فرمائی ہے ۔ 1
أقرب الموارد میں ہے :
صوَّر تصویرًا جَعَل له صورة وشکلًا ونقشه ورسمه ۔ الصُّورة بالضم :
الشکل وَکُلّ ما یصور مشبھًا بخلق اﷲ من ذوات الروح وغیرھا
( 1 ، 469 )
" اس کی صورت اور شکل بنائی ، اس کے خد و خال بنائے ، اس کی منظر کشی کی اور تصویر بنائی ۔
صاد پر ضمہ کے ساتھ لفظ صورہ ، ذی روح اور غیر ذی روح کی اللہ کی تخلیق کی مشابہت میں تصویر بنانا ۔ "
تاج العروس میں ہے :
الصُّورة ما ینتقش به الإنسان و یتمیز بھا عن غیرہ ۔ 2
" انسان کے خد و خال بنانا ، جس سے اس کو پہچانا جا سکے اور وہ دوسری چیزوں سے ممتاز ہو سکے ۔ "
مُفردات القرآن از امام راغب ؒ میں ہے کہ
کسی عینی یا مادی چیز کے ظاہری نشان اور خد و خال جس سے اسے پہچانا جا سکے اور دوسری چیز وں سے اسکا امتیاز ہو سکے ۔ 3
القاموس الوحید میں ہے :
صورالشيء أو الشخص ۔ 4
" تصویر بنانا یا نقشہ کھینچنا ، منظر کشی کرنا ، فوٹو کھینچنا "
التصویر :
انسان کا فوٹو ، تصویر ، کسی بھی جان دار یا غیر جاندار کی تصویر جو قلم وغیرہ سے کاغذ یا دیوار وغیرہ پر بنائی گئی ہو یا کیمرے سے لی گئی ہو ۔
التصویر الشمسي :
کیمرے سے لیا ہوا فوٹو ، عکسی تصویر
التصویر الفوتوغرا في :
عکسی تصویر ، فوٹو
الموسوعة الفقھیة الکویتیة میں ہے :
"التصویر : صنع الصورة التي هي تمثال الشيء أي : ما یماثل الشيء ویحکي هئیته التي هو علیھا سواء أکانت الصورة مجسمة أو غیر مجسمة أو کما یعبر بعض الفقھاء : ذات ظل أو غیر ذات ظل ۔ " 5
" شکل و صورت بنانا جو چیز کی تمثیل ہے یعنی شئے جیسی ہے ، اس کی اصل ہیئت کی حکایت و عکس ہے ۔ چاہے صورت کی پیکر اور جسد ہو یا پیکر و جسم نہ ہو اور بعض فقہا کے بقول اس کا سایہ ہو یا نہ ہو ۔ "
صورت کا اطلاق محض چہرہ پر بھی ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث ہے :
نهی النبي ﷺ أن تُضرب الصورة ۔ 6
" نبی اکرم ﷺ نے چہرہ پر مارنے سے منع فرمایا ۔ "
تصویر کا حکم
امام نووی ؒ فرماتے ہیں :
قال أصحابنا وغیرھم من ال علماء :
صورة الحیوان حرام شدید التحریم و ھو من الکبائر لأنه متوعد علیه بھذا الوعید الشدید المذکور في الأحادیث و سواء صنعه بما یمتھن أو بغیرہ فصُنعته حرام بکل حال لأن فیه مضاھاة لخلق اﷲ تعالیٰ و سواء ما کان في ثوبٍ أو بساط أو درهم أو دینار أو فلس أو إناء أوحائط وغیرھا ۔ ۔ ۔ لا فرق في هذا کله بین ما له ظل أو ما لا ظل له ۔ ۔ ۔ جماھیر ال علماء من الصحابة و التابعین و من بعدھم و ھو مذهب الثوري و مالك و أبي حنیفة وغیرھم ۔ 7
" شوافع اور دوسرے علماء کے نزدیک جاندار کی تصویر انتہائی سخت حرام ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، کیونکہ احادیث میں اس پر شدید ترین دھمکی دی گئی ہے ۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ تصویر ایسی چیز پر بنائی کہ اس کی توہین کی جاتی ہے یا کسی اور چیز پر تصویر بنانا ، ہر حالت میں حرام ہے ، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے ۔ یہ تصویر کپڑے پر ہو یا بچھونے پر ، درہم و دینار یا پیسے پر ہو یا برتن اور دیوار پر یا کسی اور چیز پر ۔ اس مںن بھی کوئی فرق نہیں کہ تصویر کا سایہ ہو یا سایہ نہ ہو ۔ صحابہ تابعین اور بعد کے علماء کی اکثریت کا یہی قول ہے اور امام ثوری ؒ ، امام مالک ؒ ، امام ابو حنیفہ ؒ اور دوسرے فقہاء کا بھی یہی موقف ہے ۔ "
ائمہ ثلاثہ ( امام ابو حنیفہ ؒ ، امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ ) کے نزدیک ہر قسم کی تصویر ، چاہے اس کا سایہ ہو یا نہ ہو ، حرام ہے ۔ اور مالکیہ کے ہاں اختلاف ہے جیسا کہ علامہ دردیر ؒ الشرح الصغیر علی مختصر الخلیل میں لکھتے ہیں :
الحاصل أن تصاویر الحیوانات تحرم إجماعًا إن کانت کاملة ، لھا ظل مما یطیل استمرارہ ، بخلاف ناقص عضو لا یعیش به لو کان حیوانًا و بخلاف ما له ظل له کنقش ورق أو جدار ۔ و فیما لا یطیل استمرارہ خلاف ، و الصحیح حرمته ۔ 8
" خلاصہ یہ ہے کہ جانداروں کی تصاویر بالاتفاق حرام ہیں ۔ جب وہ کامل ہوں اور سایہ دار ہوں جو طویل عرصہ تک رہتی ہیں ۔ البتہ اگر ان کا ایسا عضوء موجود نہ ہو جس کے سبب جاندار زندہ نہ رہ سکتا ہو تو اس میں اختلاف ہے ۔ اسی طرح جس تصویر کا سایہ نہ ہو ، جب وہ کاغذ یا دیوار پر منقش ہو یا ایسی چیز پر بنی ہو جو تادیر نہیں رہتی ہو تو اس میں اختلاف ہے ۔ صحیح بات یہی ہے کہ وہ بھی حرام ہے ۔ "
غیر سایہ دار کی تصویر
وہ حضرات جو غیر سایہ دار کی تصویر کو جائز سمجھتے ہیں ، ان کا مقصود یہ ہے کہ مجسمہ چونکہ سایہ دار ہوتا ہے ، اس لئے وہ تو حرام ہے ، البتہ جو تصویر کاغذ یا کپڑے پر منقوش ہو ، مجسمہ نہ ہونے کی وجہ سے ایسی تصویر جائز ہے ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رقم في الثوب ( کپڑے پر نقش ) کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن رقم في الثوب کو تصویر قرار دینا درست نہیں ہے ، کیونکہ اس سے مراد غیر جاندار کی تصویر ہے ۔
کپڑے پر بھی تصویر حرام ہے کے بعض دلائل یہ ہیں :
حضرت عائشہ ؓ صدیقہ فرماتی ہیں :
قدم رسول اﷲ ﷺ من سفر و قد سترتُ بقرام لي علی سهوة لي فیها تماثیل فلما رآہ رسول اﷲ ﷺ ھتکه ۔ 9
" رسول اللہ ﷺ سفر سے واپس تشریف لائے اور میں نے ایک باریک باتصویر پردہ سے طاقچہ کو ڈھانپا ہوا تھا ۔ آپ نے اس کو پھاڑ ڈالا ۔ "
دوسری حدیث ہے :
" میں نے تصاویر والا گدا خریدا تو نبی اکرم ﷺ دروازہ پر کھڑے ہو گئے اور اندر داخل نہ ہوئے ۔ میں نے عرض کیا کہ مجھ سے کیا گناہ سرزد ہو گیا ، میں اللہ تعالیٰ سے معافی کی طلب گار ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ماھذہ النمرقة ؟ یہ گدا کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : یہ آپ ﷺ کے بیٹھنے اور ٹیک لگانے کے لئے ہے ۔ آپؐ نے فرمایا :
( إن أصحاب ھذہ الصور یعذبون یوم القیامة ) ۔ 10
قیامت کے دن ان تصویر سازوں کو عذاب پہنچایا جائے گا ۔ "
اس کے تحت حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں :
یُستفاد منه أنه لا فرق في تحریم التصویر بین أن تکون الصورة لھا ظل أوْلا و لا بین أن تکون مدھونة أومنقوشة أومنقورة أومنسوجة ۔ 11
" اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تصویر کے حرام ہونے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا سایہ ہے یا نہیں ؛ وہ رنگ سے بنی ہے ، منقش ہے یا کھودی گئی یا بُنی گئی ہے ۔ "
دوسری جگہ لکھتے ہیں :
یؤید التعمیم فیما له ظل و فیما لا ظل له ما أخر جه أحمد من حدیث علي أن النبي ﷺ قال :
أیکم ینطلق إلی المدینة فلا یدع بھا وثنا إلا کسرہ و لا صورة إلا لطخھا أي طمسھا ۔ 12
" ہر قسم کی تصویر حرام ہے ، چاہے اس کا سایہ ہو یا نہ ہو ، اس کی دلیل مسند احمد میں حضرت علی ؓ کی حدیث ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کون مدینہ جائے گا تاکہ اسے جو وَثن ( بت مجسمہ ) ملے ، اسے توڑ دے اور ہر تصویر کو مٹا دے ۔ "
اور اس کی تائید حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ وہ مدینہ منورہ میں ایک گھر میں داخل ہوئے تو ایک مصور کو دیوار پر تصویر بناتے دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث سنائی :
( و من أظلم ممَّن ذھب یخلق کخلقي ) ۔ 13
" اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو میری تخلیق کی مشابہت اختیار کرتا ہے ۔ "
اس کی توضیح میں امام ابن بطال مالکی ؒ فرماتے ہیں :
فھم أبو هریرة أن تصویر یتناول ما له ظل و ما لیس له ظل فلھٰذا أنکر ما ینقش في الحیطان ۔ 14
" حضرت ابوہریرہ ؓ نے تصویر کا اطلاق سایہ اور غیر سایہ ہر دو تصاویر پر کیا ہے ۔ اسی لئے دیوار پر نقش بنانے پر اعتراض کیا ۔ "
کیمرے یا ویڈیو کی تصویر
کیا تصویر کااطلاق صرف اُس پر ہوتا ہے جو ہاتھ سے بنائی جائے ؟ بعض علماء کا نظریہ ہے کہ تصویر شمسی یعنی فوٹوگرافی عکس اور فوٹو ہے اور یہ ہاتھ سے بنی ہوئی وہ تصویر نہیں ہے جو حرام ہے ۔
لیکن یہ رائے درست نہیں ہے ، کیونکہ تصویر عام ہے چاہے وہ ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا کیمرہ سے ، ہر دو کو تصویر ہی کہتے ہیں ، جیسا کہ آغاز میں علمائے لغت کی تصریحات سے یہی ثابت ہوتا ہے ۔ جس طرح ہاتھ ایک آلہ اور ذریعہ ہے جس سے تصویر بنائی جاتی ہے ، ایسے ہی کیمرہ بھی آلہ اور ذریعہ ہے جس سے تصویرکھینچی جاتی ہے اور کیمرہ کا استعمال بھی ہاتھ ہی کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ ہاتھ کے ذریعے کیمرہ میں فلم ڈالی جاتی اور ہاتھ ہی سے اس فلم کے نوک پلک سنوارے جاتے ہیں ۔ اور اس کو صاف شفاف بنایا جاتا ہے ، حتیٰ کہ جس کی تصویر لینا ہوتی ہے ، اس کی طرف کیمرہ کا رخ بھی ہاتھ کے ذریعہ ہی درست کیا جاتا ہے ۔
شیخ مصطفی حمامی اپنی کتاب النھضة الإصلاحیة میں لکھتے ہیں :
" جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ کیمرہ کے ذریعے بنائی گئی تصویر میں ہاتھ کا دخل نہیں ، اس لئے وہ حرام نہیں ہے ، ان کی مثال ایسے شخص کی ہے جو چیر پھاڑ کرنے والا شیر چھوڑ دیتا ہے اور وہ کسی کو قتل کر دیتا ہے یا بجلی کا کرنٹ کھول دیتا ہے جس سے ہر چیز تباہ ہو جاتی ہے یا کھانے میں زہر کی آمیزش کر دیتا ہے جسے کھانے والا مر جاتا ہے ۔ جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو نے اسے قتل کیا ہے ؟ تو وہ جواب دیتا ہے : نہیں میں نے تو اسے قتل نہیں کیا بلکہ شیر ، بجلی اور زہر نے اسے مارا ہے ۔ " 15
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ حضورِ اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں :
( من صوَّر صورة في الدنیا کلِّف یوم القیامة أن ینفخ فیھا الروح و لیس بنافخ ) ۔ 16
" جس شخص نے دنیا میں تصویر بنائی ، اس کو قیامت کے دن مجبور کیا جائے گا کہ اس میں روح پھونکے اور وہ روح پھونک نہیں سکے گا ۔ "
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے :
( إن الذین یصنعون هذہ الصور یعذبون یوم القیامة یقال لهم : أحیُوا ما خلقتم ) ۔ 17
" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
جو لوگ یہ تصویریں بناتے ہیں ، اُنہیں قیامت کے دن عذاب پہنچایا جائے گا اور اُنہیں کہا جائے گا جو کچھ تم نے بنایا ہے ، اسے زندہ کرو ۔ "
ان احادیث میں سے پہلی حدیث میں لفظ صورة نکرہ ہے جو عموم پر دلالت کرتا ہے اور اس کا اطلاق ہر قسم کی تصویر پر ہوتا ہے ، چاہے وہ کپڑوں پر نقش ہو یا کاغذ پر ، اس کا مستقل جسم ہو یا جسم نہ ہو ، وہ ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا کیمرہ سے ، ہر شکل کو لغت کی رو سے تصویر ہی کہتے ہیں جیسا کہ لغوی بحث میں گزر چکا ہے اور
حضرت ابن عمرؓ کی حدیث میں یَصْنَعُوْنَ کا لفظ آیا ہے اور یہ بھی عام ہے ، جس میں کسی آلہ یا ذریعہ کی تخصیص نہیں ہے کہ وہ ہاتھ سے بنی ہے یا کیمرہ سے یا کسی اور آلہ سے ۔
ٹی وی اور ویڈیو کی تصویر
بعض علماء کا موقف ہے کہ ٹی وی اور ویڈیو کی تصویر " حرام تصویر " نہیں ہے ، بلکہ وہ تو محض سایہ یا عکس ہے ، جس طرح شیشہ میں انسان کا عکس آبجاتاہے یا پانی پر اس کا عکس پڑتا ہے ، یا دھوپ میں اس کا سایہ نظر آتاہے ۔ یہ بھی قیاس مع الفارق ہے ، کیونکہ :
آئینے ، پانی یا دھوپ میں عکس بننے میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ یہ قدرتی طور پر بن جاتاہے ، بنایا نہیں جاتا جب کہ ٹی وی اور ویڈیو کی صورت میں خود بنایا جاتا ہے ، خود بخود نہیں بنتا ، اس لئے ٹی وی ، کیمرہ کی تصویر انسان کی تخلیق ہے ۔
مزید برآں یہ عکس عارضی اور فانی ہوتا ہے جب تک انسان آئینے یا پانی کے سامنے ہے اور دھوپ میں چل رہا ہے تو یہ عکس قائم رہے گا اور جوں ہی انسان اس کے سامنے نہیں رہے گا ، عکس خود ختم ہو جائے گا اور اس کانشان بھی باقی نہیں رہے گا جب کہ ٹی وی اور ویڈیو وغیرہ میں اس کا عکس محفوظ کر لیا جاتاہے اور اس کے محفوظ کرنے کے لئے آلہ اور ہاتھ دونوں استعمال ہوتے ہیں اور یہ عکس طویل عرصہ کے لئے محفوظ ہو جاتاہے ، نقش برآب نہیں ہوتا ۔
ان قدرتی اشیاء میں عکس اظہارِ شخصیت اور رہنمائی کے لئے نہیں ، شخصی اور ذاتی حیثیت سے ہے جو خود دیکھتاہے ، دکھاتا نہیں ہے ۔ جب کہ آلات فوٹوگرافی کے ذریعے بے شمار لوگوں کے فوٹو بیک وقت بنائے جاتے اور ان کی رونمائی ہوتی ہے یعنی دوسروں کو دکھائے جاتے ہیں ۔ فلم اور سی ڈیز کے ذریعے ان کو لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور جب چاہیں آلات کے ذریعے اس کو دیکھ سکتے ہیں اور لوگوں پر اثرات و نتائج پیدا ہوتے ہیں ۔
آج کل ٹی وی چینلز کی کارستانیاں اپنے رنگ دکھا رہی ہیں جو لوگوں میں اشتعال پیدا کر کے تباہی کا باعث بن رہی ہیں ۔
آئینہ میں ہر انسان مرد ہو یا عورت ، جوان ہو یا بوڑھا اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے اور عورتیں میک اَپ کر کے بن سنور کر اپنا چہرہ دیکھتی ہیں اور اس پر کوئی پابندی نہیں ، کیونکہ اس سے دوسروں کے جذبات نہیں بھڑکتے ۔
اگر ٹی وی اور ویڈیو کی تصویر ، تصویر نہیں ہے تو کیا عورتوں کی ویڈیو تیار کرنا درست نہیں ہوگا اور ان کا ٹی وی کے سامنے ننگے سر ، ننگے منہ میک اپ کر کے آنا جائز نہیں ہوگا ؟ کیا اس پر پابندی عاید کرنا ممکن ہوگا اور باتصویر رسالوں میں ان کے جو فتنہ ساماں پوز شائع ہوں گے ، ان پر قدغن عاید کرنا آسان ہوگا ؟ ان آلات کے ذریعے جو بے حیائی اور بے شرمی پر مبنی مناظر عام ہو رہے ہیں اور عریانی اور فحاشی نے وبا کی صورت اختیار کر لی ہے ، اس کے سامنے بند باندھنا کیا جوئے شیر بہانے کے مترادف نہیں ہوگا ۔
تبلیغ دین کی ضرورت کے لئے تصویر سازی
یہاں عموماً ایک فقہی اُصول اور ضابطہ کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ
الضرورات تبیح المحظورات
مجبوری اور اضطرار سے ناجائز چیز مباح ہوجاتی ہے ۔
لیکن اس پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ ضرورت اور مجبوری کا دائرہ کیا ہے ، اس کی تعیین یا تحدید ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ اگر یہ عام ہے تو ہمارے ملک کی تباہی کا باعث بھی تو عدالت کا نظریۂ ضرورت ہی بنا ہے ۔ اس پر تمام حضرات کیوں معترض ہیں اور اس کے دفن کرنے پر کیوں زور دیا جا رہاہے ۔
اگر تبلیغ دین اور مصالح کے تحت تصویر کو جائز قرار دیا جائے گا تو کیا دوسروں کو تصویر سے روکا جا سکے گا ؟ اور کیا دین کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے تصویر اور فوٹو کا ہونا ضروری ہے یا مجبوری ؟ کیا تصویر کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا ؟ اس کا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ آپ کھڑے ہونے کی اجازت دیں ، " لیٹنے کی جگہ ہم خود بنا لیں گے ۔ " دین کے لئے دین کے مخالف اور متصادم ذرائع سے کام لینا کیا دینی طور پر درست ہوگا ؟
فی زمانہ اپنی اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق جماع ة ا ل دعوة اور تبلیغی جماعت بغیر تصویر کے وسیع پیمانے پر دعوتِ دین کا کام کر رہے ہیں اور آج تصویر کے سوا بھی اس قدر ذرائع ابلاغ پیدا ہو چکے ہیں جن کا کوئی شمار نہیں ، آخر ان سب سے کیوں کام نہیں لیا جاتا اور ان کے ذریعے دین کیوں نہیں پھیلایا جاتا ۔ سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ اپنا عمل اور سیرت و کردار ہے ہم اس سے اس قدر کیوں غافل ہو چکے ہیں جو دعوتِ دین اور اشاعت ِ دین کا نبویؐ اور منصوص ذریعہ ہے اور مؤثر ترین بھی ہے ۔
ہ------------------ہ
حوالہ جات
1. النهایة از ابن اثیر : 3 ، 58 ، 59 اور لسان العرب : 4 ، 473
2. ( 2 ، 342 ) ہ
3. مترجم : ص 950
4. ( ص 950 )
5. ( 22 ، 92 ، 93 )
6. صحیح بخاری : 5541
7. شرح صحیح مسلم : 2 ، 199 پا ک ستان ی نسخہ ، عمدة القاری : 10 ، 309
8. الصاوي علی الشرح الصغیر : ج 2 ، ص 501 بحوالہ تکملة فتح الملهم : ج 4 ، ص 159
9. صحیح بخاری : 5954
10. صحیح بخاری : 5957
11. ( 10 ، 390 )
12. فتح الباری : 10 ، ص384
13. صحیح بخاری : 5953
14. فتح الباری : 10 ، 386
15. ص 565
16. صحیح بخاری : 5963 ، صحیح مسلم : 2110
17. صحیح بخاری : 5951
ہ^^^^^^^^^^^^^^^^^ہ
الیکٹرانک میڈیا اور اس کا استعمال
صلاح الدین یوسف
ءءءءءءءءءءءءءءءء
آج کل الیکٹرانک میڈیا ( ٹی وی ، انٹرنیٹ ، ریڈیو وغیرہ ) اور پرنٹ میڈیا ( اخبارات و رسائل ) نشر و اشاعت کے جدید اور انتہائی مؤثر ذرائع ہیں جن کے ذریعے لاکھوں اور کروڑوں افراد تک اپنی آواز پہنچائی جا سکتی اور ان کے دل و دماغ کو متاثر کیا جا سکتا ہے ۔
ان ذرائع ابلاغ کے موجد چونکہ ملحد اور سیکولر قسم کے لوگ ہیں جو کسی قسم کے اخلاقی اُصول اور ضابطۂ حیات کے قائل نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ ایسی تہذیب کے قائل ہیں جس میں شرم و حیا اور عفت و پاکدامنی کا کوئی تصور نہیں ہے ، چنانچہ وہ ان ذرائع ابلاغ کو اپنی حیا باختہ تہذیب اور اپنے لادینی نظریات و افکار کے پھیلانے کے لئے بے دریغ استعمال کر رہے ہیں ۔
دوسری طرف بدقسمتی سے اسلامی ممالک میں برسر اقتدار طبقات ، سوائے ایک آدھ ملک کے ، سب کے سب وہ ہیں جو ذہنی طور پر مغرب کے غلام ہیں اور ان کے افکار کارگہ ِ مغرب ہی کے ڈھلے ہوئے ہیں
یا پھر وہ ہیں جو اسلامی نظام و تہذیب کے نفاذ کے حامی نہیں اور ایمانی جرأت و قوت سے بھی محروم ہیں ۔ علاوہ ازیں ان کی معاشی و سیاسی پالیسیوں نے اُن کو مغرب کا دریوزہ گر اور حاشیہ بردار بنا کر رکھا ہوا ہے جس نے ان کو اپنی اسلامی اقدار و روایات کے احیاء و فروغ اور قومی خود داری و سلامتی کے تحفظ کے جذبے سے بھی عاری کر دیا ہے ۔
اِن حالات کا جبر اور نتیجہ یہ ہے کہ مغرب کے ذرائعِ ابلاغ اور مسلمان ممالک کے ذرائع ابلاغ میں کوئی خاص فرق نہیں رہ گیا ہے ۔ دونوں ذرائع ابلاغ شب و روز بے حیائی کو پھیلانے میں نہایت سرگرمی سے مصروف ہیں جس سے مسلمانوں کی نسلِ نو شدید متاثر ہو رہی ہے اور وہ اپنے دین اور اسلامی تہذیب سے دور سے دور تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ مسلمان ذرائع ابلاغ ( اخبارات اور ٹی وی وغیرہ ) اگر کوئی دینی پروگرام نشر بھی کرتے ہیں تو وہ اصل دین نہیں ہوتا بلکہ دین کے نام پر جو غیر شرعی رسومات رائج ہیں ، ان کا پرچار کرتے ہیں
یا پھر ان متجددین اور منحرفین کو دین کی تشریح کے لئے بلاتے ہیں جو مغربی تہذیب کی تمام قباحتوں کو سند ِ جواز مہیا کر دیتے ہیں ۔
اس صورت حال نے اُس اسلامی طبقے کو پریشان اور مضطرب کر رکھا ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن اور اقدار و روایات کے تحفظ اور ان کے فروغ و ذیوع کا جذبہ اپنے دلوں میں رکھتا ہے ۔ وہ اگرچہ کتابوں اور رسائل و جرائد کے ذریعے سے دین اسلام کی ترویج اور اس کے احیا و فروغ کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق کام کر رہا ہے ، لیکن ان مساعی سے ایسے کڑوڑوں افراد تک دین اسلام کا صحیح تصور پہنچنا نا ممکن سا ہے جو صرف جدید ذرائع ابلاغ ہی سے استفادہ کرتے ہیں یا بالفاظِ دیگر وہ ان کی زد میں ہیں ۔
بنا بریں اسلامی جذبہ و شعور سے بہرہ ور یہ دینی طبقہ جدید ذرائع ابلاغ کو بھی اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے استعمال کرنا چاہتاہے ، لیکن اس کی راہ میں متعدد رکاوٹیں ہیں جس کے لئے وہ علمائے اسلام کی راہنمائی کا طالب ہے ۔
مثلاً
ٹی وی پر جتنے پروگرام ٹیلی کاسٹ ( نشر ) ہوتے ہیں ، نناوے فیصد بے ہودہ ، مخرب اخلاق ، حیا سوز اور ایمان شکن ہوتے ہیں ۔ اس اعتبار سے یہ لہو و لعب کا ایسا آلہ ہے جہاں پاکیزہ پروگرام پیش کرنا اُس پروگرام کے تقدس کے منافی محسوس ہوتا ہے ۔
تصویر شرعاً حرام ہے اور اس میں تصویر ناگزیر ہے ۔
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو اس کا جواب اکثر علماء یہ دیتے ہیں کہ ٹی وی وغیرہ محض ایک آلہ ہیں ، اُنہیں خیر کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور شر کے لئے بھی ۔ اگر خیر کے لئے اُنہیں استعمال کیا جائے تو ان کا استعمال جائز ہے ، بصورتِ دیگر ناجائز ۔
تاہم تصویر کا مسئلہ بلاشبہ نہایت قابل غور ہے ، کیونکہ تصویر کی بابت اسلام کے احکام بہت سخت ہیں ، ان کے پیش نظر اس کے جواز کا موقف رکھنا ممکن نہیں ۔
اس سلسلے میں بعض علماء تصویر کی دو قسمیں کرتے ہیں :
ایک وہ جو ہاتھ سے بنائی جاتی ہے اور
دوسری جو کیمرے کے ذریعے سے بنتی ہے ۔
اس دوسری قسم کو وہ آئینے کے عکس کی طرح قرار دے کر اس کے جواز کی گنجائش نکالتے ہیں ۔
لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ موقف کسی طرح بھی درست نہیں ۔
کیمرے کی تصویر کو آئینے یا پانی کے عکس کی طرح نہیں سمجھا جا سکتا اور دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔
کیمرے کی تصویر بھی اپنے نتیجے اور اثر کے اعتبار سے ہاتھ کی تصویر سے قطعاً مختلف نہیں بلکہ کیمرے کی تصویر صفائی ، حسن اور جاذبیت کے اعتبار سے ہاتھ کی تصویر سے کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ فتنہ انگیز ہے اور کیمرے کی ایجاد نے تصویری فتنے کو جتنا عام اور خطرناک بنا دیا ہے ، چند سال پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔
اس لئے یہ موقف یکسر غلط اور بے بنیاد ہے ، اسے کسی لحاظ سے بھی صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
بعض علماء نے ایک اور طرح سے تصویر کی دو قسمیں بنائی ہیں :
ایک تو وہ جو ٹی وی پر نشر کرنے کیلئے پہلے سٹوڈیو میں بطورِ فلم تیار کر لی جاتی ہے اور پھر اسے ٹی وی پر ریلیز کر دیا جاتا ہے ۔ یہ علماء اس صورت کو جائز قرار دے کر ٹی وی پروگراموں میں شرکت کو جائز سمجھتے ہیں ۔
ایک تیسری رائے یہ ہے کہ تصویر بہر صورت حرام ہے اور اضطراری صورت کے علاوہ تصویر کشی کی قطعاً اجازت نہیں ہے ۔ ان علمائے کرام کا کہنا ہے کہ کسی بھی نیک مقصد کے لئے ناجائز ذریعہ اور وسیلہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔
اچھے مقصد کے لئے ذریعہ بھی جائز ہی ہونا چاہئے ، کیونکہ ہم جائز حدود میں رہ کر ہی کام کرنے کے مکلف ہیں ، اس سے زیادہ کے ہم مکلف ہی نہیں ہیں : {لاَ يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا} ( البقرة : 286 )
اس لئے اگر ہم جائز حدود میں رہتے ہوئے تبلیغ و دعوت میں کوتاہی نہیں کرتے ، تو قطع نظر اس کے کہ ہمیں کامیابی حاصل ہوتی ہے یا نہیں ، عند اللہ ہم ماجور ہی ہوں گے ، ماخوذ نہیں ۔
اور اگر ہم حدود شکنی کر کے اپنے دائرۂ تبلیغ کو وسعت دے دیتے ہیں ، تو کامیابی یا ناکامیابی کا علم تو اللہ ہی کو ہے ، لیکن ہم شاید مؤاخذۂ الٰہی سے نہ بچ سکیں ،
کیونکہ حکم الٰہی ہے :
وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ ﴿٢٢٩﴾ ... سورة البقرة
" اللہ کی حدوں سے تجاوز کرنے والے ظالم ہیں ۔ "
اور ظالم اللہ کے ہاں مجرم متصور ہوں گے نہ کہ محسن ( اچھا کام کرنے والے ) ۔
علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے جوا اور شراب کی حرمت کی بابت سوال کے جواب میں فرمایاہے :
( فِيهِمَآ إِثْمٌ كَبِيرٌوَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ ... ﴿٢١٩﴾ ... سورة البقرة
" ان دونوں میں بہت گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں ۔ "
اس جواب میں ایک نہایت اہم اُصول کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے کہ کچھ نہ کچھ فوائد تو ہر چیز میں ہوتے ہیں ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ فوائد کے مقابلے میں نقصان اور ضرر کتنا ہے ؟
اگر ضرر کی مقدار زیادہ ہوگی تو وہاں فوائد کو نظر انداز کر کے نقصان کو اہمیت دی جائے گی اور اس کے پیش نظر اس کی حرمت کا فیصلہ کیا جائے گا ۔
اسلامی چینل کے قیام کا ایک بڑا نقصان یہ ہوگا کہ جو گھرانے ابھی تک ٹی وی سے محفوظ ہیں ، اس بہانے ان گھروں میں بھی ٹی وی آجائے گا اور اس کے بے ہودہ پروگراموں سے پھر انکے بچے بھی " محظوظ " نہ ہوں گے جن کو ابھی تک ان کے والدین نے اس لعنت سے بچایا ہوا تھا ۔
دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ مذہبی جماعتوں کے قائدین اور راہنماؤں کے اندر بھی اخبارات میں اپنی تصویروں کی اشاعت و وسعت میں مزید اضافہ ہو جائے گا ۔
عوام کی اکثریت فقہی باریکیوں سے تو نا آشنا ہوتی ہے ، وہ علماء کے ٹی وی چینل پر جلوہ افروز ہونے کو اپنے بے مقصد اور بلا ضرورت شادی بیاہ کی تقریبات کی فلم سازی کے لئے وجہ ِ جواز بنا لیں گے ۔
تیسرا نقصان یہ ہوگا کہ مذہبی جماعتوں کے قائدین اور راہنماؤں کے اندر بھی اخبارات میں اپنی تصویروں کی اشاعت کا اور اپنے پروگراموں کی ویڈیو فلمیں بنانے کا شوق بڑھتا جا رہا ہے ،
ٹی وی کے اذنِ عام سے اس غیر شرعی رجحان کی بھی حوصلہ افزائی ہی ہوگی جب کہ ضرورت اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔
چوتھا نقصان یہ ہوگا کہ عوام میں تصویر کی حرمت کا تصور ہی ختم ہوتا چلا جا رہا ہے ، ٹی وی کی اجازت سے اس عوامی رجحان کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی ۔
اس طرح کے اور بھی متعدد دینی نقصانات ہیں جو ٹی وی چینل کے جواز سے ہوں گے ، ان کے مقابلے میں فوائد کیا ہوں گے ؟ وہ موہوم ہیں ، یقینی نہیں ہیں جب کہ مذکورہ نقصانات یقینی بھی ہیں اور حرمت کے فتوی کے باوجود ان کا رتکاب بھی عام ہے ۔
باقی رہ گیا مسئلہ اضطرار کی صورت میں تصویر سازی کے جواز کا ۔
اس کے لئے ایک فقہی اُصول کا حوالہ دیا جاتا ہے :
الضرورات تبیح المحظورات ( ضرورتیں ممنوعہ چیزوں کو بھی جائز کر دیتی ہیں ) ۔
یہ اُصول بجائے خود درست ہے مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا کیا واقعی ایسی ضرورت ہے کہ جس کے بغیر چارہ نہ ہو ؟
کیا آڈیو کے ذریعے سے یہ کام ایک عرصے سے نہیں ہو رہا ہے ؟ اور کیا آڈیو کا ذریعہ ہی تبلیغ ودعوت کے لئے کافی نہیں ہے ؟
مسلمان قوم اس وقت جس پستی میں گری ہوئی ہے ، وہاں علماء کے مواعظ و نصائح اس کے لئے یکسر غیر مؤثر ہیں ۔ علمائے کرام اپنے خطبات و دروس میں ، جلسہ ہائے سیرت میں سالہا سال سے مسلسل قوم کی اصلاح و تطہیر اور تصفیۂ عقائد کا کام کر رہے ہیں ، لیکن قوم عقائد سے لے کر اخلاق و کردار تک ہر معاملے میں دن بدن اصلاح ہونے کے بجائے زوال پذیر ہے ، ترقی کے بجائے روبہ انحطاط ہے اور مذہب کے قریب آنے کے بجائے مذہب سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔ اگر ویڈیو کا ذریعہ اختیار کر لیا جائے تو اس سے کیا اس کی اصلاح کا آغاز ہو جائے گا ؟ اس کا عقیدہ و عمل صحیح ہو جائے گا ؟ اس کی ترجیحات تبدیل ہوں جائیں گی ؟ دنیا کے مقابلے میں آخرت کی فکر اس پر غالب آ جائے گی ؟
ہمیں تو اس تبدیلی کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے ورنہ
اضطرار کی صورت میں حرام کے حلال ہونے کا اُصول تو خود قرانِ مجید میں موجود ہے ۔
ـ ( فَمَنِ ٱضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ ... ﴿١٧٣﴾ ... سورة البقرة )
لیکن تبلیغ و دعوت کے لئے ٹی وی پر آنے کو نہ ایسی ناگزیر ضرورت ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ اضطراری ہی کہ جس سے حرمت کا حکم حلت میں تبدیل ہو جائے ۔
بہر حال زیر بحث مسئلے کی یہ وہ صورتِ حال ہے جس پر راقم کافی غور وخوض اور مختلف مجالسِ مذاکرہ میں شرکت کے بعد پہنچا ہے ۔ اس سلسلے کی ایک مجلس مذاکرہ حکیم حامد اشرف صاحب کی دعوت پر جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ فیصل آباد میں جون ۲۰۰۷ء میں ہوئی تھی ،
اس میں علماء کی اکثریت نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ علماء کو ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا چاہئے ۔
اس کے بعد ملی مجلس شرعی کے ایک اجلاس منعقدہ ۴ ، نومبر 2007ء میں اس مسئلے پر غور و خوض ہوا جو جامعہ اشرفیہ ، لا ہور میں ہوا تھا ۔ اس میں فیصلہ کیا گیا کہ اہل سنت کے تینوں مکاتب ِ فکر ( اہل حدیث ، دیوبندی اور بریلوی ) کے علماء کا مشترکہ وسیع تر اجلاس بلایا جائے ۔
چنانچہ یہ اجلاس 13 ، اپریل 2008ء کو مفتی محمد خان قادری صاحب کی درسگاہ جامعہ اسلامیہ ، جوہر ٹاؤن لا ہور میں ہوا جو صبح ۱۰ بجے سے شام ۵ بجے تک جاری رہا ، اس میں پنجاب بھر سے متعدد علمائے کرام نے شرکت کی اور مذاکرے میں حصہ لیا ۔
اس میں بھی بالآخر یہی فیصلہ کیا گیا کہ حالات کا تقاضا ہے کہ علماء ٹی وی کے محاذ کو بھی دفاع اسلام کے لئے استعمال کریں اور اسے دشمنانِ اسلام ہی کے لئے مخصوص نہ رہنے دیں ۔
گویا راقم الحروف اور اس کے ہم نوا بعض علماء کی رائے کے برعکس ، علماء کی اکثریت اس بات پر مصر ہے کہ تبلیغ و دعوت کے لئے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کیا جانا چاہئے ، وہ اسے اضطرار اور ضرورتِ مبیحہ کے تحت جواز کا درجہ دیتے ہیں ۔
یہ رائے اگرچہ محلِ نظر ہی ہے جیسا کہ اوپر اس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔ اس لئے علمائے کرام اور دیگر مخلصانِ اسلام کی خدمت میں ہماری یہی گزارش ہے کہ وہ اس کے جواز کو شرحِ صدر اور خوش دلی کے ساتھ تسلیم نہ کریں بلکہ اسے وہی حیثیت دیں جو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ ضروریات کے لئے فوٹو کی حیثیت ہے ۔
ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کے اِخلاص کے پیش نظر ٹی وی تصویر سے بھی درگزر فرما دے جیسے اس سے شناختی کارڈ وغیرہ کی تصویر میں ہمیں معافی کی اُمید ہے ۔
ہماری اس رائے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ
ٹی وی کے صرف ان پروگراموں میں شرکت کی جائے جن سے فی الواقع کچھ فائدہ متوقع ہو ۔ یہ شرکت بھی اسی طرح مع الکراہت ہو جیسے شناختی کارڈ وغیر ہ کے لئے تصویر کھنچواتے وقت کراہت پیش نظر رہتی ہے ۔
ٹی وی مذاکرات میں شرکت سے گریز کیا جائے ، کیونکہ ان میں ماہرانہ چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصحابِ زیغ و ضلال کو بھرپور موقع دیا جاتا ہے اور صحیح الفکر علماء کو صرف استعمال کیا جاتا ہے جس سے فائدے سے زیادہ نقصان ہوتا ہے ۔
اپنا ٹی وی چینل بھی اس وقت تک قائم نہ کیا جائے جب تک اس کی پشت پر کوئی اسلامی ذہن رکھنے والی حکومت یا کوئی مضبوط جماعت نہ ہو جو نفع نقصان سے بالا ہو کر اس کے تمام پروگرام اسلامی خطوط پر تیار اور نشر کرے ۔
علمائے کرام کی تقاریر کی یا مذہبی جماعتوں کے اجلاس اور کانفرنسوں کی ویڈیو فلمیں سراسر ناجائز ہیں ، اُن سے اجتناب کیا جائے ۔
مذہبی جماعتیں اپنے اجلاسوں اور کانفرنسوں میں صرف ان اخباری نمائندوں کو بلائیں یا ان کو آنے کی اجازت دیں جو تصویر کشی سے اجتناب کریں اور صرف رپورٹنگ پر اکتفا کریں ۔
الغرض ٹی وی پر بوقت ِ ضرورت تقریر کرنے کی اجازت کو بقدرِ ضرورت ہی اختیار کیا جائے ، اور اس کو بنیاد بنا کر ہمہ قسم کی مصروفیات اور پروگراموں کو تصویری سانچوں میں ڈھالنا اور رائی کو پربت بنا لینا قطعاً صحیح نہیں ہوگا ۔
هذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب
ہ^^^^^^^^^^^^^^^^^ہ
تصویر کی شرعی حیثیت اور تبلیغ دین کیلئے ویڈیو ؟
محمد رمضان سلفی
ءءءءءءءءءءءءءءءء
الحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰة والسلام علی خاتم النبیین وبعد! ...
ہمارے پیش نظر دو چیزیں ہیں
ایک تصویر کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
اور دوسری یہ کہ تصویری میڈیا میں اسلامی عقائد و افکار کی تبلیغ و ترویج کی غرض سے حصہ لینا جائز ہے یا نہیں ؟
ان ہر دو مسائل کا حکم بھی الگ الگ ہے ۔
جہاں تک تصویر کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے تو اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
کیونکہ نبی کائنات حضرت محمد ﷺ اور صحابہ کرام کے دور یعنی خیر القرون میں یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے ، جیسا کہ سعید بن ابی الحسن بیان کرتے ہیں کہ
میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس موجود تھا ۔ دریں اثنا ان کے پاس ایک آدمی آیا اور گذارش کی کہ اے ابن عباسؓ! میری معیشت اور گذران اپنے ہاتھ کی صنعت ہے اور میں تصاویر اور فوٹو بنانے کا کام کرتا ہوں ، ( تو اس بارے میں آپ کا حکم کیا ہے ؟ )
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے جواب دیا :
میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کر دیتا ہوں ، میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
من صَوَّر صورة فإن اﷲ معذِّبه حتی ینفخ فیه الروح ولیس بنافخ فیها أبدًا فَرَبَا الرجل ربوة شدیدةً واصفرَّ وجهه ۔
فقال : ویحك إن أبیت إلا أن تصنع فعلیك بھذا الشجر و کل شيء لیس فیه روح ۔ 1
" جو شخص تصویر بناتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے بنانے والے کو اس میں روح ڈالنے تک عذاب کرتا رہے گا ، جب کہ وہ ( مصور ) اس میں کبھی بھی روح نہیں ڈال سکے گا ۔ یہ بات سن کر فوٹو گرافر کا سانس چڑھ گیا اور اس کا چہرہ فق ہو گیا ، تب عبداللہ بن عباسؓ نے اس سے کہا :
" تجھے افسوس! اگر تو تصویر بنانا اب بھی ضروری سمجھتا ہے تو درختوں اور ایسی چیزوں کی تصویریں بنا لیا کر جو بے جان ہیں ۔ "
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں :
سمعتُ النبي! یقول :
( إن أشد الناس عذابا عند اﷲ یوم القیامة المصوِّرون ) ۔ 2
" میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب فوٹو گرافروں کو ہوگا ۔ "
یہ وعید تو فوٹو بنانے والوں کے متعلق ہے اور فوٹو بنوانے والوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر تنبیہ کر دی :
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ ۚ وَٱتَّقُواٱللَّهَ ۖ ... ﴿٢﴾ ... سورة المائدہ
" گناہ اور زیادتی کے کاموں پر کسی سے تعاون مت کرو ۔ "
اگر کہا جائے کہ کیمرے اور ویڈیو کی تصویر اس نہی اور ممانعت میں داخل نہیں ہے تو اس کے لئے اہل زبان کی طرف رجوع کیا جائے گا کہ وہ کیمرے کی تصویر کا نام کیا رکھتے ہیں ؟ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اسے تصویر اور اس کے بنانے والے کو " مصور " ہی کہتے ہیں ۔
تصویر بنانے والا خواہ کیمرے سے بنائے یا ہاتھ سے ، دونوں اس ممانعت میں داخل ہیں ، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
قیامت کے دن ایسی تصویریں بنانے والوں سے کہا جائے گا کہ ان میں روح بھی ڈالو اور وہ ڈال نہیں سکے گا ۔ 3
یوں وہ عذابِ الٰہی سے بچ نہیں سکے گا ۔
الغرض جہاں تک تصویر کی شرعی حیثیت کی بات ہے تو جس چیز کے بارے میں نص شرعی آجائے ، وہاں تاویلیں کر کے اصل نص کو توڑ مروڑ دینا کسی اُمتی کو زیب نہیں دیتا ۔
یاد رہے کہ اُمور شرعیہ دو قسم پرہیں :
اُمورِ منصوصہ
اُمورِ اجتہادیہ
علمائے کرام اس چیز کی قطعاً اجازت نہیں دیتے کہ منصوص اُمور میں دخل دیا جائے اور ان کی تاویلیں کر کے ان کو معاشرے کی روش کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے ۔ اگر ہم منصوص اَقوال و اعمال کو تاویلات کی بھینٹ چڑھا کر اُنہیں لوگوں کی خواہشات کے مطابق بدلنے کی کوشش شروع کر دیں تو یہ طرزِ عمل اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان کے منافی ہے بلکہ یہ کمزور ایمان کی علامت ہے ۔ کیونکہ ہمیں لوگوں کو شریعت ِ اسلامیہ کے پیچھے چلانا ہے ، اس کے برعکس شریعت کو لوگوں کے پیچھے نہیں چلانا ۔
علمائے کرام کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو اللہ و رسول ﷺ کی ہدایت کے مطابق دین کی صحیح رہنمائی مہیا کریں ، اور اُمورِ منصوصہ میں اس قسم کی متساہلانہ رائے دینے سے گریز فرمائیں ۔
دیکھئے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت منصوص ہے ، اور جن لوگوں نے اس میں گنجائش نکالنے کے لئے اس پر ہاتھ ڈالا ، ان کا حشر کیا ہوا ، وہ سب کے سامنے ہے ۔
جاندار کی تصویر کی ممانعت بھی امر منصوص ہے ، جس کے بنانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ رسول اللہ ﷺ نے مصور یعنی فوٹوگرافر پر لعنت کی ہے ۔
( صحیح بخاری : 5962 )
لہٰذا اس کے جواز کا فتویٰ دینے سے انتہائی احتیاط کرنا چاہئے ، البتہ بعض استثنائی صورتیں ہیں جن کی اضطرار کی وجہ سے اجازت دی جاتی ہے جیسے کرنسی نوٹوں اور شناختی کارڈز کی تصویروں کو بامر مجبوری برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس میں ہماری رضا و رغبت کو دخل نہیں ہے ۔
رہے اُمورِ اجتہادیہ جو شارع کی طرف سے منصوص نہیں تو ان میں ایک مجتہد کی رائے دوسرے مجتہد سے مختلف ہو سکتی ہے اور دوسرا مفتی دلیل کے ساتھ پہلے مفتی سے اختلاف کر سکتا ہے ۔
تبلیغ کی خاطر ٹی وی پروگراموں میں شرکت
اب رہی دوسری بات کہ تبلیغ دین کی خاطر علماء دین کا ٹی وی پروگراموں میں شرکت کرنا ، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ۔
آپ قرآن و حدیث کی دعوت عوام تک پہنچانے کے لئے ٹی وی پروگرام میں حاضر ہوں تو اسے گوارا کیا جا سکتا ہے ، ورنہ فتنہ باز عناصر لوگوں کو راہِ حق سے بھٹکانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ اس کے سد ِ باب کے طور پر ، خالص قرآن و حدیث کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانے کے لئے جدید و سائل سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔
اگر یہ سوال اُٹھایا جائے کہ فوٹو اور تصویر کو ممنوع سمجھنے والا ٹی وی پروگراموں میں شرکت کیسے کر سکتا ہے
تو اس کے جواز کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی ڈاکٹر ، مریض عورت کے علاج کے ارادے سے اس کا چیک اَپ کر سکتا ہے ، اس کی زبان یا آنکھوں کا مشاہدہ کرتا ہے ، یا آپریشن کی غرض سے مریضہ کے مستور اعضاء کو مس کرتا یا دیکھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، علاج جیسی اہم ضرورت کے لئے شریعت اس کی اجازت دیتی ہے ۔
اسی طرح بے دین یا دین اسلام سے غافل لوگوں تک حق کی آواز پہنچانے کے لئے جدید ذرائع پر دعوت و تبلیغ کا کام کیا جاسکتا ہے ، اور ایسی تصویر کشی میں آپ کا ذاتی کوئی دخل نہیں ہوتا کہ آپ نے تصویر کو جائز قرار دیا اور نہ ہی کیمرہ مین کو بلایا ، صرف ضرورتِ تبلیغ کے لئے آپ اس منکر کو برداشت کرتے ہیں ، ورنہ ائمۂ مُضلّین ( گمراہ کرنے والوں ) کے لئے یہ میدان خالی ہوگا ، اور کوئی روک ٹوک کرنے والا مقابلے میں نہیں ہوگا ۔
لہٰذا یہ دو صورتیں الگ الگ ہیں اور ان دونوں کا حکم بھی جدا جدا ہے ، علمائے کرام کی موجودگی میں ، مَیں جسارت نہیں کر رہا تو میری رائے میں علمائے کرام کو قرآن و حدیث کا محافظ بننا چاہئے اور جو اُمور و مسائل کتاب و سنت کی نصوص سے ثابت شدہ ہیں ، اُنہیں اپنے اصل پر ہی باقی رکھنا چاہئے اور اس میں کسی قسم کی لچک کا اظہار نہیں ہونا چاہئے ۔
اللہ ربّ العزت ہمیں توفیق دے کہ ہم دینِ اسلام کے محافظ بن کر اس کی آبیاری کا فریضہ سر انجام دے سکیں ۔
آمین یا ربّ العالمین!
ہ------------------ہ
حوالہ جات
1. صحیح بخاری : 2225
2. صحیح بخاری : 5950
3. صحیح بخاری : 5963
ہ^^^^^^^^^^^^^^^^^ہ
تبلیغ دین کے لئے تصویر و ویڈیو کا حکم
عبد الملک
ءءءءءءءءءءءءءءءء
دوستوں نے اب تک جو گفتگو کی ہے ، ما شاء اللہ پورے اخلاص اور پوری تیاری سے اُنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے ۔ میں اس اہم مجلس کے انعقاد پر ملی مجلس شرعی کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں ۔
اس سلسلے میں میری مختصر گزارشات حسب ِ ذیل ہیں :
1983ء میں جماعت ِ اسلامی میں اس موضوع پر اختلاف ہوا اور 1983ء سے 1991ء تک ہم نے وقتاً فوقتاً اس موضوع پر مباحثے منعقد کئے اور تحقیق کی جس کے نتیجے میں ہماری ایک ٹیم بنی ، مولانا محمد جان عباسی اس ٹیم کے سربراہ تھے ۔ اس کمیٹی میں میرے علاوہ مرحوم بزرگ مولانا خلیل احمد حامدی ، شیخ القران مولانا گوہر رحمن اور مولانا ملک غلام علی جیسے علمائے کرام بھی اس کمیٹی میں شامل تھے ۔ ہم نے اس مسئلے پر پوری تحقیق کی اور اس کے بعد ہماری کمیٹی نے جس فیصلہ کا اعلان کیا ، اس کو لکھنے کی سعادت بھی میرے حصہ میں آئی ، جس پر ہم سب دوستوں نے دستخط کئے تھے ۔
اپنی بحث و تحقیق میں ہم نے جملہ احادیث ، ان کی تخریج اور علماء و فقہا کے اقوال کی تحقیق کی ۔ اس میں ( رقمًا في الثوب ) اور گڑیوں کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا ، اور ان سب پر ہم نے اچھے طریقے سے بحث کرتے ہوئے غور و فکر کے تمام مراحل طئے کئے ۔
اس سارے تحقیقی عمل میں ہمیں تصویر سازی کے بارے میں ایک روایت بھی ایسی نہیں ملی جس میں نبی کریم ﷺ نے تصویر سازی کی اجازت دی ہو ۔
چنانچہ تصویر سازی کی حد تک شریعت کی حرمت بالکل واضح ہے ۔
جہاں تک تصویر کے استعمال کا تعلق ہے تو اس کے استعمال کی بعض صورتوں میں ، ان کے سر کاٹ کر استعمال کیا جائے یا پھر تکیئے کے طور پر استعمال کیا جائے ، اس کی گنجائش کی تفصیلات ہمیں ضرور میسر آئیں ۔
ان ساری صورتوں پر چونکہ ہم بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کر چکے ہیں ، اس لئے اب میں اس کو دہرانا نہیں چاہتا ۔
فوٹو گرافی
اپنی بحث اور اس کا ہم نے جو خلاصہ نکالا ، وہ سب ایک کتابچے کی شکل میں محفوظ کر دیا گیا ، اس کتابچے کو ہمارے دوست مولانا گوہر رحمن مرحوم نے مرتب کیا تھا جس کے آخر میں تصویر کے مسئلے پر خلاصہ بھی موجود ہے ۔ ہم نے اس وقت تک میسر معلومات اور علمائے کرام کی تحقیق کی روشنی میں یہ موقف اختیار کیا تھا ۔
1991ء میں ہماری کمیٹی نے جو فیصلے دیئے ، مجھے اُمید ہے کہ اس مجلس کو آج بھی اس سے اتفاق ہوگا کیونکہ جن حضرات کی میں نے گفتگو سنی ہے ، ان کی گفتگو کا حاصل بھی تقریباً یہی نکلتا ہے ۔
وہ فیصلے مندرجہ ذیل ہیں :
* قد ِ آدم تصویر کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ چھوٹی تصویر کی جو ہم نے اِجازت نکالی ، وہ " الضرورات تبیح المحظورات " اور دوسرا قاعدہ " الحاجة تنزل منزلة الضرورة عامًا أو خاصًا " کے تحت ہے ۔
حاجت ِ شدیدہ بھی بعض اوقات ضرورت کے درجے کو اختیار کر لیتی ہے ۔ تو ہم نے بھی اس موقع پر سوچا کہ پورٹریٹ کی حاجت ِ شدیدہ نہیں ہے ۔
ابھی یہاں بحث چل رہی تھی کہ بڑی بڑی شخصیات کی قدآور تصویریں لگائی جاتی ہیں اور لوگ ان کی تعظیم کرتے ہیں ۔ میری نظر میں ایسا بالکل نہیں ہونا چاہئے ۔
* تصویری بیج ، سینے پر تصویر والے بیج لگانا وغیرہ بھی نہیں ہونے چاہئیں اور اس کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔
* تصویریں فروخت نہیں کی جائیں گی ، اس کی بھی کوئی حاجت نہیں ہے کہ اس کو کاروبار بنایا جائے اور کوئی تصاویر کی فروخت یا دکان کھولے ، یہ امر بھی ناجائز ہے ۔
* خواتین کی فوٹو یا تصویر نہیں بنائی جائے گی ، کیونکہ اس کی بھی حاجت نہیں ہے ۔
* تصویری نمائش نہیں ہو گی ۔
اخبارات میں تصاویر پر سکوت
البتہ اخبارات کے اندر جو تصویریں چھپتی ہیں ، جلسے جلوسوں اور اجتماعات کے جو پروگرام اور ان کی تصویریں چھپتی ہیں ، ان کو ہم نے نفی یا اثبات ہر دو پہلو کے اعتبار سے نہیں چھیڑا ۔ نہ تو ان کی نفی کی اور نہ ہی ان کا اثبات کیا ، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی حاجت شدید ہے اور ہم نے یہی سمجھا ہے ۔
ابھی یہاں ایک دوست نے بات کی تھی کہ پوری دنیا کے اندر اب نیک لوگوں کی تصویریں بھی اَخبارات میں چھپتی ہیں ۔ اور یہ ہماری حاجت بھی ہے کہ یک طرفہ طور پر دین سے وابستہ لوگوں کو ذرائع ابلاغ سے آؤٹ نہیں ہونا چاہئے ۔ ہم آؤٹ ہو جائیں ، اخبارات اور رسالوں میں بھی ہمارا کوئی تعارف نہ ہو ، ٹی وی میں بھی ہمارا کوئی تعارف نہ ہو ، جہاں تک بے دین لوگ ہیں تو ان کو ان ذرائع ابلاغ سے خارج کرنا تو ہمارے اختیار میں نہیں اور وہ موجود رہیں گے ۔ لہٰذا ہم نے کہا کہ ہمیں یکطرفہ طور پر آؤٹ نہیں ہونا چاہئے ۔ لیکن حکمت کے تحت اخبارات میں اجتماعات وغیرہ کی تصاویر کی اشاعت کے مسئلے کو ہم نے چھیڑا ہی نہیں ۔
یہ تو ہوا تصویروں کا مسئلہ! میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم حاجت ِ شدیدہ یا ضرورت کی بنیاد پر ایسی اشیاء جن کی حاجت نہیں ہے ، ان کی ممانعت کر دیں اور یہاں سے ممانعت کی ایک قرارداد پاس کر دیں تو اس کے بالمقابل تصویر کے جواز کو بھی کھینچ تان کر ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس کی بھی کوئی حاجت نہیں کہ ہم یہاں پر بیٹھ کر اس کے جواز کے دلائل ڈھونڈتے پھریں ۔ چونکہ بقدرِضرورت اور بقدرِحاجت تو جو چیز چل رہی ہے ، اس پر علمائے کرام کا بھی کوئی شدید ردّ عمل نہیں ہے ۔ یعنی اخبار میں اگر آپ کی تصویر چھپتی ہے تو علماء بھی اس پر نکیر نہیں کرتے ، کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ اور باقی پورٹریٹ وغیرہ چونکہ ہماری ضرورت نہیں ہے بلکہ اس میں شرعی نقصان بھی ہے جیسا کہ یہاں مختلف اہل علم بیان فرما چکے ہیں ۔
ٹی وی پر آنا اور ویڈیو بنوانا ؟
جہاں تک ٹی وی کا مسئلہ ہے ، اس سلسلے میں بہت پہلے سے ہماری رائے یہی تھی کہ ٹی وی وغیرہ کی مثال اسلحہ اور ذریعہ و وسیلہ کی ہے ۔ اس کو نیکی کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور بدی کے لئے بھی ۔ اس کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہونا چاہئے کہ اسے بدی کے لئے استعمال نہ کیا جائے ۔ فحاشی و عریانی اور بے دینی کی اشاعت کے لئے اس کو استعمال نہ کیا جائے ، البتہ نیک کاموں کے استعمال کے لئے اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے ۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ ٹی وی کی تصویر " جامد تصویر " نہیں ہے بلکہ یہ پرچھائیں ہیں ۔ اس کی ریل پر تصویر کسی کو نظر نہیں آتی ۔ یہی صورت حال ویڈیو کی بھی ہے کہ جس طرح براہِ راست ٹی وی سے حرمین شریفین کو نشر کیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس کی ویڈیو وغیرہ بنا کر پیش کی جاتی ہے ۔ ٹی وی اور ویڈیو میں مآل ( انجام کار ) کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے اور مآل کے لحاظ سے دونوں میں کوئی چیز دیکھنے کو نہ ملے گی ، جامد تصویر تو ہے نہیں ، ایسے ہی ریل پر بھی تصویر موجود نہیں ہے کہ اس بنا پر اس کو حرام کہا جا سکے ، اس بنا پر ٹی وی اور ویڈیو کا حکم الگ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ۔ مولانا تقی عثمانی صاحب نے کہا اور مولانا رفیع عثمانی صاحب سے بھی ایک بار ہماری بحث ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ اس میں ہمیں تردّد ہے ۔ جو تصویر ٹی وی پر براہِ راست نشر ہوتی ہے ، وہ تو ٹھیک ہے لیکن جو براہِ راست نشر نہیں ہوتی بلکہ اس کی فلم بنائی جاتی ہے تو اس میں ہمیں تردّد ہے ۔ تو میں نے کہا کہ اس میں آپ کو کس بنیاد پر تردّد ہے ؟ دیکھنے میں تو اس ریل پر بھی کوئی تصویر نظر نہیں آتی ، نہ ویڈیو فلم میں اور نہ براہِ راست ، جہاں تک آپ اس کو نشر کریں گے ، اس میں کسی تصویر کا کوئی کام نہیں ۔
الغرض میری رائے میں براہِ راست نشر کرنا اُسی طرح ہے جس طرح فلم بنانا ۔ فلم بندی کا مآل بھی وہی ہے اور براہِ راست نشر کرنے کا بھی وہی ۔ براہِ راست کے تو اکثر لوگ قائل ہیں اور جو لوگ براہِ راست کے قائل ہیں تو اُنہیں ویڈیو فلم کا بھی قائل ہونا چاہئے کیونکہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے ... لہٰذا یہ مسئلہ تو بالکل آسان ہے ۔
لہٰذا ٹی وی میں علماء کو جانا اور پروگراموں میں پیش ہونا چاہئے ۔ میں نے اپنی بحث کے موقع پر الحاجة تنزل منزلة الضرورة کی ایک مثال بھی پیش کی تھی ۔
البدایہ والنہایہ میں یہ واقعہ ہے کہ جنگ ِ قادسیہ میں جس وقت صحابہ کرام ؓ جنگ کو نکلے تو آگے سے ایرانی لشکر ہاتھی لے کر آ گیا ۔ صحابہؓ کے پاس گھوڑے تھے جو ہاتھیوں سے بدکتے اور آگے نہیں جا سکتے تھے ۔ اس مشکل کو حل کرنے اور گھوڑوں کو ہاتھیوں سے مانوس کرنے کے لئے ہاتھی کی ایک فرضی مورتی بنائی گئی اور اس کے سامنے گھوڑوں کو لا کر اس سے مانوس کیا گیا ۔ جب گھوڑے مانوس ہوگئے تو اس کے بعد جنگ میں بدکنے کی بجائے گھوڑوں نے بڑی اچھی طرح مقابلہ کیا ۔ نتیجتاً صحابہ کرام کو فتح حاصل ہوئی ۔ جنگ ِ قادسیہ میں ہاتھی کی مورتی بنانا بھی ایک دینی مصلحت ہے ، اب مورتی بنانا تو اسلام میں جائز نہیں لیکن مورتی اس وقت اسی ضرورت کے تحت بنائی گئی کہ گھوڑوں کو مانوس کیا جائے تاکہ جنگ میں مقابلہ کرنا ممکن ہو سکے ۔
اس وقت اگر ہم یکطرفہ طور پر اپنے آپ کو آؤٹ کر لیں اور بیان ہی نہ کریں ، اس میدان میں ہم جائیں ہی نہ اور دوسرے اس میں من مانی سے جو مرضی دین کی تشریح کر کے حلیہ بگاڑتے رہیں اور ہم ذرائع ابلاغ سے مطلقاً آؤٹ ہو جائیں تو یہ دینی مصلحت کے خلاف ہے ۔ اصل چیز تویہ ہے کہ غلبۂ اسلام ہو اور دین کو قائم کرتے ہوئے باطل نظام کو نیست و نابود کیا جائے ۔ اصل مقصود تو یہی ہے جس کی خاطر وقتی طور پر اس طرح کی چیز کا ارتکاب کیا جائے یعنی مورتی کو مورتی کی حیثیت سے نہیں بلکہ کسی اور مقصد کے لئے گوارا کیا جائے تو پھر اس میں خیر ہے ۔
یہی میری گفتگو کا خلاصہ اور حاصل ہے ۔
جس طرح ابھی بعض اہل علم نے کہا ہے کہ پیروں کی بڑی بڑی تصویریں بنائی جا رہی اور ان کی تعظیم کی جا رہی ہے تو اگر ہم پورٹریٹ کو منع کر دیں گے تو مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ البتہ ایسا نہیں کیا جا سکتا کہ پیر صاحب کی تصویر تو نہ بنائی جائے ، دوسروں کی بے شک بنائی جاتی رہے ۔ ایسی تفریق کس بنا پر ہو سکے گی ؟
اس کے بجائے یہ موقف زیادہ مناسب ہے کہ کہا جائے : جس کی حاجت نہیں ، اس کی نفی کر دی جائے مثلاً عورتوں کی تصویروں کی آپ نفی کر دیں ، بیج لگانے کو آپ منع کر دیں ، اس طرح جس جس چیز کا آپ ممنوع اور بے فائدہ سمجھتے ہیں ، باقی چیزوں کو آپ مت چھیڑیں ۔
ویسے بھی ہو رہی ہیں ، کوئی نکیر بھی نہیں کر رہا ، پبلک بھی نہیں کر رہی ، علماء بھی نہیں کر رہے ، علمائے کرام بھی اخبارات میں شامل ہو رہے ہیں اور دینی حاجت پوری ہو رہی ہے ۔ آپ اگر اس کو نہیں چھیڑیں گے اور کرتے جائیں گے تو پھر ٹھیک ہے ۔
اور جہاں تک آپ نے سوات اور وزیرستان وغیرہ کے لوگوں کی مثال دی ہے کہ وہ ہر قسم کی تصویروں اور ویڈیوز کو ختم کر رہے ہیں ، تو میری رائے میں ان کا بلا تفریق یہ عمل دین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ہے ، ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ذرائع ابلاغ ہماری ضرورت اور ہماری مصلحت ہیں ،
جہاں تک ایسی فلموں کا تعلق ہے جن میں عریانی اور فحاشی ہے تو ان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے سے ختم کرنا چاہئے ، نہ کہ مار دھاڑ کے ذریعے ۔
میری گفتگو کا خلاصہ یہی ہے ۔ اب جماعت ِ اسلامی کے اندر یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ، پہلے تھا ، لیکن اب ہم ایک واضح موقف اپنا چکے ہیں ۔
ہ^^^^^^^^^^^^^^^^^ہ
حرمت ِ تصویر کی وجوہات اور دورِ حاضر میں تبلیغ دین
محمد شفیق مدنی
ءءءءءءءءءءءءءءءء
آج کی مجلس علمی میں زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ کیا علمائے کرام جدید میڈیا ( ٹی وی ، ویڈیو ) کو دعوت و تبلیغ کے لئے زیر استعمال لا سکتے ہیں یا نہیں ؟ اور تصویر کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیونکہ یہ کام بظاہر تصویر بنائے بغیر ممکن نظر نہیں آتا ... !
تصویر کی حرمت کا مسئلہ مُعَلَّل ہے!
تصویر کے شرعی حکم کے بارے میں یہاں بہت سے علمائے کرام نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا اور بعض علماء نے اس کی حرمت کو منصوص قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اس پر تو بات بھی نہیں کرنی چاہئے ۔ میں اس بات کی تائید کرتا ہوں کہ بلا حیل و حجت اور بغیر کسی تغیر و تبدل کے نص پر عمل کرنے کی حتیٰ المقدور کوشش کرنا بڑی اچھی روش ہے ، لیکن یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ یہ رویہ اُسی وقت مستحسن ہے جب نص کا حکم تعبدی ہو یعنی ایک عبادت کی ادائیگی کے سوا اس کی مشروعیت کی کوئی حکمت و علت سمجھ میں نہ آئے ، کیونکہ ایسی صورت میں کسی کا رائے زنی یا قیاس آرائی کرنا جسارت شمار ہوگی ، لیکن اگر کسی نص کا حکم مُعَلَّل ہو یعنی اس کے مقصد اور علت کا عقل سے اِدراک ہو سکتا ہو تو پھر اس میں یہ گنجائش ہونی چاہئے کہ کوئی صاحب ِ علم و فضل اجتہاد کر سکے اور نص کی تعلیل و توجیہ اور مفہوم کے تعین کے بارے میں اپنی رائے پیش کر سکے ۔ یاد رہے کہ تصویر کے مسئلہ میں بھی اکثر علماء نے حکم کو مُعلَّل قرار دیا ہے ۔
شرعی نصوص کی تعلیل و توجیہ کرنے سے دو میں سے ایک فائدہ ضرور حاصل ہوتا ہے :
آئندہ پیش آمدہ جدید مسائل کو اِن نصوص پر قیاس کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے ۔
کتاب و سنت کا متبع شخص پورے اطمینان اور شرحِ صدر سے نصوص پر عمل پیرا ہو سکتا ہے ۔
حرمت ِ تصویر کی ممکنہ علّتیں
میں یہاں ان علتوں اور توجیہات کو بیان کرنا چاہوں گا جنہیں علمائے کرام نے تصویر کی حرمت کے لئے ذکر کیا ہے :
بعض علماء نے تصویر کی حرمت کی علت یہ بیان کی ہے کہ یہ غیر اللہ کی تعظیم میں غلو اور عبادت یعنی شرک کا ذریعہ ہے جیسا کہ قومِ نوح نے اپنے صالحین کے ناموں پر ان کی تعظیم و احترام میں مجسّمے بنائے اور پھر ان کی تعظیم میں غلو کیا حتی کہ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ بعد میں آنے والی نسل ان کی عبادت کرنے لگی ۔
جیسا کہ ابن عباسؓ سے مروی حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے :
" عن ابن عباس في : ود و سواع و یغوث و یعوق و نسر قال فلمَّا هلکوا أوحی الشیطان إلی قومهم أن أنصِبوا إلی مجَالِسهم التي کانوا یجلسون إلیها أنصابًا و سمُّوها بأسمائهم ففعلوا فلم تُعبدْ حتی إذاهلك هؤلاء و تنسَّخ العلم عُبِدَت " 1
" آپؓ فرماتے ہیں کہ وَدّ ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر نامی قومِ نوح کے بزرگ جب فوت ہو گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان بزرگوں کے مجسّمے بنا کر اپنی مجلس گاہوں میں نصب کر لو اور ان کے ناموں پر ان کے نام رکھ لو ۔ انہوں نے یہ کام تو کر لیا ، لیکن ان کی عبادت نہیں ہوتی تھی ۔ یہاں تک کہ جب یہ لوگ فوت ہو گئے اور علم کا شعور جاتا رہا تو بعد والی نسل ان کی عبادت کرنے لگی ۔ "
حرمت ِ تصویر کی تعلیل کے بارے میں ابن العربی ؒ فرماتے ہیں کہ ہماری شریعت میں تصویر کی وجہ ممانعت مشرکین عرب کی مجسمہ سازی ، بت گری اور ان کی عبادت گزاری ہے ۔ یعنی تصویر کی حرمت سد ِ ذرائع کے طور پر ہے اور انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ سد ذرائع حرمت ِ تصویر کے لئے علت ِ مستنبطہ ہے جب کہ اس کی منصوص علت اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہے ۔
چنانچہ ابن العربی ؒ اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں :
نهی عن الصورة و ذکر علة التشبیه بخلق اﷲ ۔ و فیها زیادة علة : عبادتها من دون اﷲ ۔ فنبّه علی أن نفس عملها معصیة ، فما ظنك بعبادتها ؟
" نبی کریم ﷺ نے تصویر ساز ی سے منع کیا ہے ، اور اس کی علت اللہ کی تخلیق سے مشابہت ذکر کی ہے اور اس پر مزید علت یہ ہے کہ تصویر سازی میں اللہ کے ماسوا کی عبادت ہے ۔ چنانچہ آپ نے محض تصویر سازی کو ہی معصیت قرار دیا ہے ، پھر اس کی عبادت کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا ؟ " 2
اسی موقف کی تائید میں امام نووی ؒ سے منقول ہے کہ ( إن أشد الناس عذابًا یوم القیامة المصورون ) کی نبویؐ وعید کا مصداق وہ مصور ہے جو عبادت کے لئے تصویر بناتا ہے ۔ 3
یعنی تصویر کی حرمت کا سبب اس کی عبادت کا اِمکان اور شرک کے ذریعے کو روکنا ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ حرمت ِ تصویر کی تعلیل میں فرماتے ہیں کہ
" قومِ نوح کے صالحین کے پیروکاروں نے ان کے فوت ہونے کے بعد ان کی تصویریں اور مجسّمے بنائے ، لیکن ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے ۔ جب وہ پیروکار فوت ہو گئے تو بعد میں آنے والے لوگ ان نیک ہستیوں کے مجسّموں کی عبادت کرنے لگے اور ان کا وسیلہ دے کر بارش طلب کیا کرتے تھے اور یہی مجسّمے جن کی قومِ نوح نے عبادت کی ، بعد میں انہیں عربوں نے اپنا لیا اور ان کی عبادت کرنے لگے ۔ یہی وہ علت ہے کہ جس کی بنا پر شارع نے تصویر سازی سے منع کیا ہے ، کیونکہ اس عمل نے بہت سی اُمتوں کو شرک ِ اصغر یا شرکِ اکبر میں مبتلا کر دیا تھا اور یہی دراصل شرک کا مفسدہ ہے جس کو ختم کرنے کے لئے نبی ﷺ نے مقبرے میں مطلق طور پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ۔ اگرچہ نماز پڑھنے والا اپنی نماز میں اس جگہ سے برکت کے حصول کا ارادہ نہ بھی رکھتا ہو ۔ اور اسی طرح آپ نے طلوع شمس ، نصف النہار ، اور غروب شمس کے اَوقات میں نماز پڑھنے سے سد ذرائع کے طور پر منع فرمایا ، کیونکہ ان اوقات میں مشرکین سورج کی عبادت کرتے تھے ۔ اگرچہ کسی مسلمان کے ذہن میں غیر اللہ کی عبادت کا مقصد کار فرما نہ بھی ہو ۔ " 4
سد ذرائع کی توجیہ کی بنا پر بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر تصویر سازی شرک کا ذریعہ نہ بنے تو اس میں گنجائش ہوگی کیونکہ تصویر کی حرمت کو مطلق رکھنے کی وجہ سے قواعد ِ شریعت سے ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے ، اور وہ یہ کہ تصویر بنانا ایک گناہ ہے جو شرک ، قتل اور زنا سے بہرحال بڑا نہیں ، لیکن اس کے بارے میں احادیث میں وعید بہت شدید قسم کی وارد ہوئی ہے ۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس جرم کی سزا اتنی سخت اِسی صورت میں ہو سکے گی جب اسے تعظیم اور پرستش کے اِرادے سے بنایا گیا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے گھر میں ہر اس چیز کو توڑ دیتے تھے جس پر صلیب بنی ہوتی تھی ، کیونکہ یہ شرک کا مظہر تھی ۔ اسی لئے آپؐ نے حبشہ کے کنیسہ کی تصاویر کا سن کر عیسائیوں کے بارے میں فرمایاتھا کہ یہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں بدترین مخلوق قرار پائیں گے ، کیونکہ یہ نیک لوگوں کے فوت ہو جانے کے بعد ان کی قبروں کو عبادت گاہیں بناتے ہیں اور وہاں عبادت کے لئے ان صالحین کی تصاویر رکھتے ہیں ۔ 5
ہماری نظر میں تصویر کا یہ جواز اسی صورت میں نکلتا ہے جب حرمت ِ تصویر کا سبب صرف سد الذرائع کو قرار دیا جائے ، لیکن اگر اس کی دیگر تعلیلات کو بھی ملحوظ رکھا جائے تو مطلقاً جواز ختم ہو جاتا ہے ، کیونکہ ان تعلیلات میں سے بعض کافی وزنی ہیں جنہیں نظر انداز کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ، جیسا کہ وہ آگے آرہی ہیں ۔
بعض علماء کی رائے یہ بھی ہے کہ مشرکین کیونکہ تصاویر اور تماثیل بناتے ، بت گھڑتے اور ان کی پرستش کرتے تھے ، لہٰذا تصویر سازی میں ان کے فعل سے مشابہت ہے ، خواہ مصور کے ذہن میں یہ مقصد اور ارادہ کار فرما نہ بھی ہو یعنی ایک حالت کی دوسری سے محض تشبیہ ہی وجہ ممانعت کافی ہے ۔ جیسا کہ ہمیں طلوع اور غروب کے وقت نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے تاکہ سورج کے عبادت گزاروں سے مشابہت نہ ہو ، جب کہ ضروری نہیں کہ یہ مشابہت نماز پڑھنے والے کے ذہن ( i ) میں اُس وقت موجود ہو ۔
حافظ ابن حجر ؒ نے مشرکین کے ساتھ مشابہت کو اصل علت قرار دیا ہے ۔ فرماتے ہیں :
و یتاأکد المنع بما عُبد من دون اﷲ فإنه یضاهي صورة الأصنام التي هي الأصل في منع التصویر ۔ 6
اور علامہ ابن تیمیہ ؒ اُمّ حبیبہؓ اور اُمّ سلمہؓ کی حبشہ میں کنیسہ والی صحیح بخاری میں مروی حدیث :
( أولئك قوم إذا مات فیهم العبد الصالح بنوا علی قبرہ مسجدًا و صوّروا فیه تلك الصور أولئك شرار الخلق عند اﷲ عزوجل ) ۔ ( صحیح بخاری : ۴۲۶ ، صحیح مسلم : 528 ) کے تحت فرماتے ہیں کہ " نیک آدمی کی قبر پر مسجد بنانے والا ( یا اس کی تصویر بنانے والا ) اہل کتاب کے ساتھ مشابہت کرنے پر اس نبوی وعید کا مصداق ہے اور یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت کرنا ممنوع ہے ۔ " 7
اور ایک دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں کہ " کفار کے اعمال اس بات کی علامت اور دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان اعمال سے منع کیا ہے ، جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں ، یا یہ ممانعت کے متقاضی علت ہیں ۔ " 8
بعض علماء کے نزدیک تصویر کی حرمت کی علت " نحوست " یعنی تصویر والی جگہ میں فرشتوں کا داخل نہ ہونا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس ضمن میں ارشاد فرمایا ہے کہ
" جس گھر میں کتا اور تصویر ہو ، اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔ " 9
اس حدیث سے بظاہر یہ علم ہوتا ہے کہ تصویر ممنوع ہے اور اس کی وجہ ممانعت فرشتوں کا تصویر والی جگہ میں عدمِ دخول ہے ، لیکن بعض علماء اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ اس سے حرمت ِ تصویر کی تعلیل کرنا کمزور موقف ہے ، کیونکہ فرشتوں کا عدمِ دخول تو محض اس کو تعظیم اور احترام سے سجا کر رکھنے کی وجہ سے ہے جو بذاتِ خود ایک قبیح عمل ہے ۔
چنانچہ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں امام قرطبی ؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فرشتوں کے عدمِ دخول کا سبب تصاویر کی تعظیم میں کفار سے مشابہت ہے ۔ ( 10 ، 391 ، 392 ) کیونکہ اِہانت کے انداز میں کاٹ کر یا نیچے پامال کر کے استعمال کرنے یا تصویروں والے بچھونے بنانے کی صورت میں آپ ﷺ نے اِجازت دی ہے ۔ 10
علاوہ ازیں اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے تصویر کے ساتھ کتے کا ذکر بھی کیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ اس سے " تمام کتے " مراد نہیں ہیں ، کیونکہ آپ ﷺ نے شکاری کتا رکھنے کی خود اجازت دی ہے ۔
( صحیح بخاری : 175 )
ظاہر ہے کہ جس آدمی کے گھر میں شکاری کتا ہوگا ، وہ فرشتوں کے دخول کے لئے مانع نہیں ہوگا ، بالکل اسی طرح تمام تصاویر کا حکم ایک جیسا نہیں ہو سکتا ، یعنی جس طرح ممنوع کتے رکھنے کی وجہ سے گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے اسی طرح ممنوع انداز میں تصاویر رکھنے کی وجہ سے وہ گھر میں داخل نہیں ہوں گے ۔
مزید برآں سنن ابو داؤد کی ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتا ، تصویر یاجنبی شخص ہو ۔ 11
اور اس بات کا کوئی قائل نہیں کہ " جنبی ہونا " اس بنا پر ممنوع ہے کہ جنابت کی حالت میں فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے ، کیونکہ فرشتوں کا عدمِ دخول جنبی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ جنابت کی حالت میں رہنے یعنی طہارت نہ حاصل کرنے کی بنا پر ہے ۔
اگرچہ بعض علماء نے اسے علت ماننے سے انکار بھی کیا ہے لیکن اس کا نتیجہ تعلیل کی صورت میں ہی نکلتا ہے جیسا کہ امام نووی ؒ نے اکثر علماء کے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ تصویر والی جگہ میں فرشتوں کے عدمِ دخول کا سبب تصویر سازی کا گناہ ہونا ، اللہ کی تخلیق سے مشابہت اور تصویروں کی عبادت کا اِمکان ہے ۔ 12
حرمت ِ تصویر کی ایک علت علماء نے یہ بھی بیان کی ہے کہ اس میں اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہے اور بقول ابن العربی یہ منصوص علت ہے ، جیسا کہ پیچھے ان کی عبارت گزر چکی ہے ، کیونکہ اس بارے میں مختلف احادیث میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ آپ نے فرمایا : ( الذین یضاهون بخلق اﷲ ) 13 اور دوسری حدیث میں ( ومن أظلم ممن ذهب یخلق خلقا کخلقي ) 14 اور ( أحیوا ما خلقتم ) 15 اور ( من صَوَّر صُورةً کُلَِّف أن ینفخ فیها الروح و لیس بنافخ ) 16 وغیرہ الفاظ بھی وارد ہیں ، لیکن بعض علماء نے اس علت کو مقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ مشابہت تب لازم آتی ہے جب مصور اللہ تعالیٰ کی قدرت کو چیلنج کرے کہ وہ بھی اس کی تخلیق کی طرح تخلیق کرنے پر قادر ہے ۔ ایسے مصور کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تصویر میں روح پھونکنے کا مکلف بنا کر اس کا عجز اور بے بسی ظاہر کر دے گا ۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ ( مِمَّن ذهب یخلق ) میں ذَهَبَ قصد کے معنی میں ہے ۔ 17
یعنی اس کا معنی یہ ہو گا کہ وہ اللہ کی تخلیق کی طرح تخلیق کرنے کا قصد رکھتا ہو ۔ اگر اس سے مطلق مشابہت مراد لی جائے تو اس پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ کھلونے ، کٹی ہوئی تصویر ، پاؤں کے نیچے پامال ہونے والی تصاویر اور غیر ذی روح جیسے جمادات درختوں ، ستاروں ، سورج اور چاند کی تصویریں بنانے سے مشابہت کیوں لازم نہیں آتی ؟ لیکن یہ شبہ و اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ احادیث میں وارد الفاظ کا اِطلاق ( غیر مقید ہونا ) بعض تصاویر کا استثناء اور ذی روح اور غیر ذی روح کی تقسیم اس شبہ کو رفع کر دیتے ہیں ۔
عام حالات میں تصویر سازی کا حکم
علمائے کرام کی مذکورہ توجیہات و تعلیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ تکریم و تعظیم ، فیض و برکت ، عبادت و پرستش اور قدرتِ الٰہی کو چیلنج کرنے کی غرض سے تصویریں بنانا بالاتفاق حرام ہے ۔ اور ان مقاصد کے لئے تصاویر بنانے والا اَحادیث میں مذکورہ سزاؤں کا مستحق ٹھہرے گا ، لیکن اگر مصورکے ذہن میں یہ مقاصد نہ ہوں تو بعض علماء کے نزدیک تصویر سازی کا حکم جواز کا ہو گا ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حکم کا دار و مدار علت کے وجود اور عدمِ وجود پر ہوتا ہے ، مثال کے طور پر نبی کریم ﷺ نے شراب نوشی کے سلسلے میں دس آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ جن میں شراب بیچنے اور خریدنے والا بھی شامل ہے ۔ ( سنن ترمذی : 1295 ) حالانکہ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اس وعید کا مصداق وہ تاجر ہے جو نشہ کی خاطر پینے پلانے کے لئے خرید و فروخت کرتا ہے ، لیکن اگر تجارت کا یہ مقصد باقی نہ رہے تو علت کے بدل جانے کی وجہ سے حکم میں بھی تبدیلی واقع ہو جائے گی ، مثلاً اگر کوئی تاجر کیمیکل بنانے کے لئے شراب کی تجارت کرتا ہے تو وہ اس لعنت کی وعید کا مصداق نہ ہوگا ۔
بالکل اسی طرح تصویر میں بھی بعض استثنائی صورتیں موجود ہیں جہاں حرمت کی تمام علّتیں مفقود ہو جاتی ہیں اور حکم اپنی پہلی حالت پر برقرار نہیں رہتا ۔ مثال کے طور پر آپ ﷺ نے بچوں کے کھلونے بنانے اور رکھنے کی اجازت دی ہے ۔ ( صحیح ابوداؤد : 4123 ) جو بلا شک ذی اَرواح کے مجسّمے اور تماثیل ہوتی ہیں ۔ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے بچپن کے کھلونوں کو بالغ ہونے کے بعد بھی آپ ﷺ کی رحلت تک استعمال کیا ہے ۔ اسی طرح روندی جانے والی اور کٹی ہوئی تصویر کے استعمال کی اجازت بھی اس لئے ہے کہ اس حالت میں ان کی تعظیم کے بجائے اہانت کا پہلو پایا جاتا ہے ۔
بعض مالکی اور حنبلی علماء نے ذی روح کی تصویر کی حرمت میں اس کے مجسم اور سائے دار ہونے کو شرط قرار دیا ہے کیونکہ ایسی تصاویر کی ہی عبادت کی جاتی تھی ۔ اور جہاں تک کاغذ ، کپڑے اور دیوار پر بنی ہوئی تصویر کا تعلق ہے جس کا جسم اور سایہ نہیں ہوتا تو یہ حرام نہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ذی روح کو مجسم ، بلند قامت اور سایہ والا پیدا کیا ہے ، بچھا ہوا پیدا نہیں کیا ۔ لہٰذا اس میں اللہ کی تخلیق سے مشابہت لازم نہیں آتی اور ان کے خیال میں حدیث میں وارد لفظ ( إلا رقمًا في ثوب ) سے اِسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ چنانچہ موجودہ دور کے بعض علماء کا یہ موقف ہے کہ اَخبارات وغیرہ کی تصاویر بھی چونکہ بچھی ہوتی ہیں یعنی مجسم اور سائے دار نہیں ہوتیں اور ٹی وی کی تصاویر بھی غیر مجسم اور عارضی ہوتی ہیں ، گویا ان کے وجود کو شیشے ، پانی اور سائے کی تصویر کی طرح بقا حاصل نہیں ہوتی لہٰذا ایسی تصاویر بنانے میں کوئی حرج نہیں ۔
مذکورہ بالا دلائل و توجیہات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذی روح کی تصویر کو عام حالات میں جائز قرار دینے والوں کے دلائل اور تعلیل و توجیہ کمزور ہیں ، کیونکہ حرمت ِ تصویر کی تخلیق الٰہی سے مطلق مشابہت ایک منصوص ، مضبوط اور دائمی علت ہے ۔ چاہے تصویر بنانے والا قدرتِ الٰہی کو چیلنج کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو یا اس کے ذہن میں یہ مقصد کار فرما نہ ہو ، ایسے ہی تصویر شرک کا ذریعہ بنتی ہو یا اس میں شرک کا کوئی خدشہ نہ ہو اور اس کے ساتھ مشرکین کے فعل سے مجرد مشابہت کی علت کو بھی شامل کر لیا جائے تو عام حالات میں ذی روح کی تصویر کی گنجائش بالکل ختم ہو جاتی ہے ، کیونکہ اللہ کی تخلیق سے مشابہت کی نصوص مطلق وارد ہوئی ہیں یعنی ان میں قدرتِ الٰہی کو چیلنج کرنے اور نہ کرنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا اور اسی طرح ان میں مجسم ، سایہ دار یا غیر مجسم ، غیر سایہ دار کا فرق کرنے کے بجائے ذی روح اور غیر ذی روح کا فرق کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ چوتھی تعلیل کے ضمن میں احادیث گذر چکی ہیں اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں بھی مجسم اور غیر مجسم کے فرق کی نفی ہوتی ہے ، کیونکہ آپؓ فرماتی ہیں کہ میرے پاس تصویروں والے پردے تھے ۔ نبی ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو آپؐ کا غصے سے رنگ تبدیل ہو گیا اور آپؐ نے انہیں پھاڑ دیا ۔
حافظ ابن حجر ؒ اللہ کے ساتھ مضاہات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
( یضاهون خلق اﷲ ) أي یشبّهون ما یصنعونه بما یصنعه اﷲ
" یعنی نبی ﷺ کے فرمان : ( یضاہون خلق ﷲ ) سے مراد یہ ہے کہ خود بنا کر گویا وہ اللہ کی بنائی ہوئی خلقت کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں ۔ " 18
معلوم ہوا کہ کسی اور خارجی وجہ کے بغیر بھی محض تصویر بنانا ہی وجہ حرمت کافی ہے ۔ جیسا کہ اوپر ابن العربی کا قول بھی گذر چکا ہے ۔
سعودی عرب کی دائمی فتویٰ کونسل نے بھی اپنے فتویٰ میں قرار دیا ہے :
و لما فیه من التشبّه باﷲ في خلقه الأحیاء و لأنه وسیلة للفتنة و ذریعة للشرك في کثیر من الأحوال ۔ 19
" کتاب و سنت کی نصوص میں حرمت ِ تصویر پر شدید وعید کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کی ذی روح مخلوق کی تخلیق میں اللہ سے مشابہت پائی جاتی ہے اور اس بنا پر بھی کہ اکثر مواقع پر تصویر فتنہ کا وسیلہ اور شرک کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے ۔ "
علاوہ ازیں اس میں مشرکین کے فعل سے مشابہت کو شامل کرنے کا سبب یہ ہے کہ بعض مقامات پر شارع نے صرف کفار سے مشابہت کی وجہ سے بھی بعض چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جیسا کہ مسلمانوں کو محض یہود کی مشابہت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے وقت لفظ راعِنا کہنے سے منع کر دیا حالانکہ مسلمانوں کے ذہن میں یہ لفظ کہتے وقت قطعاً آپ ﷺ کی توہین مراد نہ تھی ۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ کا دوسری مشابہت کی تعلیل کے ضمن میں مذکورہ کلام بھی اسی پر دلالت کرتا ہے ۔
ہماری نظر میں تصویر کی حرمت واضح ہے ، اور اس سلسلے میں مختلف قسم کے شبہات کو کوئی وزن نہیں دینا چاہئے ، اگر ان میں بظاہر کوئی معقولیت بھی نظر آئے تب بھی تصویر کے عدم جواز کا قائل ہونا ہی احکامِ شرعیہ کی بجا آوری میں محتاط رویہ ہے جس کا بہرحال پاس اور لحاظ رہنا چاہئے کیونکہ حرام سے بچنے کے لئے تو مباح چیز کو ترک کر دینا بہتر اور اولیٰ ہوتا ہے چہ جائے کہ مباح کام کرنے کے لئے حرام کا ارتکاب کیا جائے ۔ اس کے بارے میں علماء کے ہاں ایک قاعدہ بھی معروف ہے :
إذا اجتمع الحلال و الحرام غلب الحرام
" جب حلال و حرام کے دلائل آپس میں ایک دوسرے سے معارض ہوں تو حرام کے دلائل کو ترجیح دی جائے گی ۔ "
ایسے ہی اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد بھی ہے :
( دَع ما یَریبك إلی مالا یریبك ) 20
" یعنی شک اور تردّد والی چیز کو چھوڑ کر غیر مشکوک چیز کو اختیار کرو ۔ "
اور حضرت عثمان کے اثر سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ، آپ سے سوال کیا گیا کہ دو سگی بہنوں کو نکاح میں ایک وقت میں رکھنا حرام ہے ۔ آیا دو بہنیں لونڈی کی حیثیت سے ایک آدمی کی ملکیت میں رہ سکتی ہیں ؟ تو آپؓ نے جواب دیا کہ ایک آیت نے اُنہیں حلال قرار دیا ہے اور ایک آیت نے حرام ، اور مجھے اُنہیں حرام قرار دینا زیادہ پسند ہے ۔ 21
خاص حالات میں میڈیا کے استعمال اور تصویر سازی کا حکم
تاہم خاص حالات میں تصویر سازی کی گنجائش موجود رہے گی ۔ یاد رہے کہ اس گنجائش کا مقصد لوگوں کے لئے عریانی ، فحاشی کا دروازہ کھولنا نہیں ہے جیسا کہ بعض علماء اسے دلیل بنا کر بوقت ِ ضرورت بھی گنجائش کا دروازہ حتمی طور پر بند کر دیتے ہیں ، کیونکہ اگر تصویر کا مقصد عریانی ، فحاشی یا دیگر منکرات کا فروغ ہو تو یہ عمل حرام اور گناہِ کبیرہ شمار ہوگا اور اس کی کوئی بھی صاحب ِ علم اِجازت نہیں دے سکتا ۔
اس گنجائش سے ہماری مراد اعلیٰ مقاصد کے حصول یعنی بڑے ضرر اور فساد سے بچنے یا کسی بڑے فائدے کے حصول کے لئے ایک چھوٹے نقصان اور خرابی کو قاعدہ ( یُختار أخفّ الضررین ) کے مطابق صرف برداشت اور گوارا کرنا ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے حالات کے تقاضے کے مطابق تبلیغ کا بہتر اور مؤثر طریقہ سمجھتے ہوئے میلے پر جانا گوارا کیا تھا ۔ ( صحیح بخاری : 773 ) اسی طرح آپ ﷺ نے مسجد میں دیہاتی کے پیشاب کے ضرر کو برداشت کیا تھا ۔ ( صحیح مسلم : 221 ) تاکہ اس کے جسم ، کپڑوں اور مسجد کی زیادہ جگہ ناپاک ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ اسے طبی نقصان سے بھی بچایا جا سکے ۔
ایسے ہی نبی کریم ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی قریش مکہ کی کڑی شرطیں قبول کر کے تمام مسلمانوں کو عمومی طور پر اور مکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو خصوصی طور پر بڑے ضرر سے محفوظ رکھا ۔ اور حضرت علی ؓ نے حاطب بن ابی بلتعہ کا قریشِ مکہ کے نام خط لے جانے والی عورت کو خط حوالے نہ کرنے کی صورت میں برہنہ کرنے کی دھمکی دے دی تھی ۔ ( صحیح بخاری : ۳۰۰۷ ) تاکہ مسلمانوں کو بڑے اور اجتماعی نقصان سے بچایا جا سکے ۔
شریعت کے اسی تصور کی بنا پر علمائے کرام فریضہ دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ادا کرنے کی غرض سے ایسی مجلس ، محفل یا میلہ اور دعوت میں جانے کی اجازت دیتے ہیں جہاں منکرات و فواحش کا وجود یقینی ہوتا ہے اور ایسے چند مسلمانوں کے قتل کرنے کی اجازت بھی دیتے ہیں جنہیں حملہ آور دشمن ڈھال بنا کر مسلمانوں کا اجتماعی اور بڑا نقصان کرنا چاہتا ہو ۔ لہٰذا علماء کو چاہئے کہ وہ موجودہ دور کے مؤثر ذرائع ابلاغ ، اخبارات اور ٹی وی پروگراموں میں شرکت کریں تاکہ کفر و اِلحاد ، عریانی فحاشی اور مغربی تہذیب کے مقابلہ میں عوام الناس کی صحیح دینی رہنمائی کر سکیں ، یہ ایک بہت بڑی تبلیغی ذمہ داری کی ادائیگی ہوگی ۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر علمائے کرام صرف تصویر سے بچنے کے لئے اپنی قوم کو لا دین عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ، یا اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں اور پروپیگنڈے کے اِزالہ سے چشم پوشی کرتے ہیں ، یا مغربی فکر و تہذیب کے طوفانِ بلا خیز کا سد ِ باب نہیں کرتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا قومی اور ملی نقصان ہے ۔
اس نقصان کی تلافی یا اس سے بچاؤ کا مؤثر ذریعہ میڈیا کا استعمال ہی ہے کیونکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو میڈیا کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر علماء ، مساجد اور مدارس سے خاطر خواہ متاثر نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے تبلیغی و اِصلاحی مخصوص پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں بلکہ اپنی دینی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے بھی میڈیا پر انحصار کرتے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں سد ذرائع کے اُصول کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ فتح الذرائع کے اُصول کو بھی اپنانا ہوگا ۔ یعنی جس طرح ہم ان وسائل کو حرام قرار دیتے ہیں جن کا نتیجہ بڑے فساد اور خرابی کی صورت میں نکلتا ہے خواہ فی نفسہٖ وہ وسائل جائز ہوں ، جیسا کہ شراب اور نشہ آور چیزوں کی تجارت کی مثال ہے ۔ کیونکہ تجارت فی نفسہٖ ایک مباح عمل ہے ، لیکن نشہ آور اشیاء کی خرید و فروخت میں فساد غالب ہونے کی وجہ سے یہ حرام ہے اور بعض علماء کے نزدیک حرمت ِ تصویر کا سبب بھی سد الذریعہ ہے ۔ یعنی تصویر سازی کو شرک کا ذریعہ ہونے کی بنا پر حرام کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ ابن العربی ؒ اور ابن تیمیہ ؒ نے اس کی صراحت کی ، بالکل اسی طرح ان وسائل کا استعمال کرنا بھی ضروری ہوگا جن کے نتیجے میں فساد کم اور مصلحت و منفعت غالب ہو ۔ خواہ فی ذاتہ وہ وسائل جائز ہوں یا ناجائز ۔
امام قرافی ؒ اپنی کتاب " الفروق " میں رقم طراز ہیں :
اعلم أن الذریعة کما یجب سدّها یجب فتحها و تکرہ و تندب و تباح
" یہ بات جان لیجئے کہ جس طرح کسی ذریعہ کو ( خرابی کی طرف لے جانے کی وجہ سے ) بند کرنا ضروری ہوتا ہے ، اسی طرح ( منفعت کی طرف لے جانے کی وجہ سے ) اسے کھولنا کبھی واجب ، کبھی مکروہ ، کبھی مستحب اور کبھی مباح ہوتا ہے ۔ " 22
اس کی چند ایک مثالیں یہ ہیں :
نبی کریم ﷺ نے حضرت زیدؓ کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا تھا ۔ ( ترمذی : 2715 ) جو ضرورت کے تحت دین کی اشاعت کے لئے نئے وسائل اختیار کرنے کی ترغیب ہے ، لیکن اگر کسی ذریعہ کے بغیر مقصد کا مکمل حصول ناممکن ہو تو اسے اختیار کرنا واجب ہوگا ۔
مثال کے طور پر اگر کسی زبان کے سیکھنے کے بغیر دعوت کے فریضے کی ادائیگی مشکل ہو رہی ہو تو اس زبان کو سیکھنا واجب قرار پائے گا ۔ اسی طرح ہی ٹی وی وغیرہ کی حیثیت ایک ذریعہ کی ہے ، اگر اس کے بغیر دین کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کا کام مؤثر طریقے سے سر انجام نہ پا رہا ہو تو اس کا استعمال بھی ضروری ہو جائے گا ۔ خواہ حالات ابھی اضطراری کیفیت تک نہ پہنچے ہوں ۔
بعض علمائے کرام تصویر سازی کی گنجائش کو صرف اضطراری حالت کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں اور اس کی مثال حج کی ادائیگی اور شناختی کارڈ کے لئے تصویر بنوانا اور عورت کا غیر محرم ڈاکٹر سے علاج کروانا وغیرہ پیش کرتے ہیں ، لیکن ٹی وی وغیرہ کے پروگراموں میں تبلیغ کے لئے شرکت کو ضرورت نہیں سمجھتے ، کیونکہ اس کے متبادل اور طریقے موجود ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دین کی دعوت و تبلیغ کے لئے حرام کے ارتکاب کا اللہ نے ہمیں مکلف نہیں بنایا ۔ اگر الیکٹرانک میڈیا پر تبلیغ کی اجازت دیں تو اسے " اضطرار " کا نام دیتے ہیں حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ جو وہ اضطرار کی مثالیں پیش کرتے ہیں توحقیقت میں ان میں اضطرار ثابت کرنا بہت مشکل ہے ، کیونکہ عورت کا غیر محرم مرد سے علاج کروانا اس وقت اضطرار بنتا ہے جب حتی المقدور کوشش کے باوجود کوئی ڈاکٹر عورت نہ مل سکے ۔ اسی طرح حج کے لئے تصویر بنوانا بھی اضطرار نہیں بنتا ، کیونکہ جیسے دین کی حفاظت اور تبلیغ کے لئے ... جو کل دین ہے ، بالخصوص ایسے حالات میں جب میڈیا کے ذریعے مسلمانوں پر فکری جنگ مسلط کر دی گئی ہو ... حرام کے اِرتکاب کا اللہ نے ہمیں مکلف نہیں بنایا ، ایسے ہی حج کی ادائیگی جو کہ ایک جزوی دینی مصلحت ہے ، اس کے لئے حرام کے ارتکاب کے مکلف ہم کیوں کر ہو سکتے ہیں ۔
میری رائے میں فریضۂ حج اضطرار کے بجائے ایک دینی منفعت کا حصول ہے اور حج کے لئے سفر ایک جائز ذریعہ ہے جو حج کی ادائیگی کے لئے اختیار کرنا واجب ہوگا اور سفر حج کے لئے تصویر بنوانا بھی ایک ذریعہ ہے جو فی ذاتہ ناجائز ہے ، لیکن اسے اختیار کرنا بھی ضروری ہوگا ، کیونکہ حج کی ادائیگی میں دینی مصلحت غالب ہے اور اس کے لئے تصویر وغیرہ بنوانے میں فساد مغلوب ہے ۔
طہارت کے بغیر نماز ادا کرنا حرام اور ایک مفسدہ ( خرابی ) ہے ، لیکن مستحاضہ عورت اور تسلسلِ بول کے مریض کو اس فساد کے باوجود نماز پڑھنے کا حکم ہے ۔ ( توضأي لکل صلوة ) کیونکہ نماز کی ادائیگی کی مصلحت اور فائدہ عدمِ طہارت کے فساد پر غالب ہے ۔
جان بچانے کے لئے کلمہ کفر کہنا جائز ہے ، حالانکہ یہ فساد ہے لیکن اس کا جواز اس بنا پر ہے کیونکہ ایمان پر دل مطمئن ہونے کی وجہ سے جان کی حفاظت کی منفعت کلمہ کفر کہنے کے فساد پر غالب ہے ۔
اجنبی عورت کو فساد غالب ہونے کی وجہ سے عام حالات میں دیکھنا حرام ہے ، لیکن نکاح کی نیت سے مصلحت غالب ہونے کی وجہ سے اسے دیکھنا جائز قرار دیا گیا ہے ۔
کفار کو مال دینا حرام اور ایک مفسدہ ہے ، لیکن نبی ﷺ غزوۂ خندق کے موقعہ پر بنو غطفان کو مدینہ کی ایک تہائی کھجوریں دینے پر تیار ہو گئے تھے تاکہ مسلمانوں کو نقصان سے محفوظ رکھ کر اُنہیں فائدہ پہنچایا جا سکے ۔
اسی بنا پر علماء نے مسلمان قیدیوں کی رہائی کے لئے کفار کو مال دینا ، یا کسی شخص کا اپنا حق وصول کرنے یا خود کو ظلم سے بچانے کے لئے بطورِ رشوت مال دینا جائز قرار دیا ہے ، حالانکہ عام حالات میں رشوت دینا یا کفار کو مال دینا حرام ہے ۔
اسی طرح اکثر علماء نے حرمت ِ تصویر سے بچوں کے کھلونوں کے استثنا کی توجیہ ان کی منفعت بیان کی ہے ۔ امام نووی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ نے اکثر علماء ( مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ ) کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہؓ کی صحیح بخاری میں مروی حدیث نے تصویر کی حرمت سے بچوں کے کھلونوں کو مستثنیٰ کر دیا ہے خواہ وہ کھلونے انسانی شکل پر بنے ہوئے ہوں یا کسی حیوان کی شکل میں ہوں ، مجسم ہوں یا غیر مجسم ۔ اس استثنا اور رخصت کا سبب بچیوں کو اولاد کی پرورش کی تربیت دینا ہے ۔
اور حلیمی نے اپنی کتاب المنہاج في شعب الإیمان میں یہاں تک کہا ہے :
" کھلونوں میں بچیوں کے ساتھ بچے بھی شامل ہوتے ہیں اور بعض کھلونے انسانی صورت کے علاوہ حیوانوں کی صورت پر بھی بنائے جاتے ہیں ، لہٰذا تربیت ِ اولاد کی ٹریننگ کے علاوہ بچوں کی اچھی نشو و نما کی غرض سے اُنہیں خوش رکھنا بھی ایک مصلحت ہے ، جب کہ حرمت کا سبب یعنی کھلونوں کا ذی روح کی تماثیل اور مجسّمے ہونا موجود ہے ۔ " 23
لیکن اس کے باوجود کھلونوں کی تصاویر کا جواز اس لئے ہے کہ تصویر کے فساد پر بچوں کی مصلحت غالب ہے ۔ علامہ ناصر الدین البانی ؒ کی رائے سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے ۔
لہٰذا علمائے کرام کو اسلام کے پیغامِ حق کو دنیا کے اَطراف و اکناف تک پہنچانے اور اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور دفاع کے لئے بڑی منفعت کے حصول یا بڑے نقصان سے بچاؤ کے لئے تصویر بنوانے کا ضرر اس کی حرمت کے باوجود گوارا اور برداشت کرنا ہوگا ۔ جیسا کہ کسی مریض کا علاج کرتے وقت اسے دائمی تکلیف یا جسم کے دوسرے اعضا کو بیماری کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کا بیمار عضو کاٹ کر چھوٹا نقصان گوارا کیا جاتا ہے ۔
امام احمد ؒ اپنی کتاب الزہد میں فرماتے ہیں کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم سے چند ایک لوگوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں ، لیکن اس عمل پر رضا مند ہونے کی وجہ سے عذاب میں سارے شریک تھے ۔ ( 1 ، 678 ، 679 ) اسی طرح تصویر سازی کے بارے میں وعید کا مصداق مصور کے ساتھ وہ شخص بھی ہوگا جو خود کو تصویر کے لئے خوشی سے پیش کرتا ہے ، لیکن اگر کوئی صاحب ِ علم اپنی دینی ذمہ داری کی ادائیگی میں میڈیا کا استعمال کرتا ہے اور تصویر بنوانے پر رضا مند نہ ہو تو وہ مصور کے ساتھ اس جرم میں شریک نہ ہو گا ۔
سعودی عرب کی دائمی فتویٰ کونسل نے بھی اپنے فتوی میں قرار دیا ہے کہ ٹی وی پر گانے ، موسیقی اور تصویر جیسی منکرات حرام ہیں ، لیکن اسلامی لیکچر ، تجارتی اور سیاسی خبریں جن کی شریعت میں ممانعت وارد نہیں جائز ہیں ، لیکن جب ان کا شر خیر پر غالب آ جائے تو حکم غالب پر لگے گا ۔ 24
البتہ یاد رہے کہ مصلحت اور ضرر کے تعین کا انحصار کسی عام آدمی کی پسند یا ناپسند پر نہیں ہوگا ۔ بلکہ اس کے بارے میں شریعت کے متخصص علماء کی رائے ہی معتبر اور حتمی ہو گی ۔
اس تمام گفتگو کا لب ِ لباب یہ ہے کہ حالات کے تقاضوں کے مطابق ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے جیسے جنگ میں توپ کا مقابلہ تلوار سے ، جنگی جہاز کا مقابلہ کلاشنکوف سے یا میزائل اور ایٹم بم کا مقابلہ توپوں سے نہیں کیا جا سکتا ، بالکل اسی طرح دین کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا ہوگا اور فکری سرحدوں پر دشمنانِ اسلام سے مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں جدید ہتھیاروں سے لیس ہونا پڑے گا ورنہ لادینیت ، غیر اسلامی تہذیب کی یلغار اور اسلام دشمن پروپیگنڈے کی تاثیر سے نئی نسل کو بچانا مشکل ہو جائے گا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین کو سمجھنے اور اس کی صحیح تعبیر کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔
ہ------------------ہ
حوالہ جات
1. صحیح بخاری ، کتاب التفسیر : 4920
2. تفسیر احکام القرآن : 4 ، 1600
3. شرح مسلم از نووی : 14 ، 91
4. اقتضاء الصراط المستقیم : 2 ، 193
5. صحیح بخاری : 434
6. فتح الباری : 10 ، 395
7. اقتضاء الصراط المستقیم : 1 ، 335
8. ایضاً : 1 ، 332
9. صحیح مسلم : 2106
10. صحیح بخاری : 5954
11. ابوداؤد : 4152
12. شرح مسلم للنووی : 14 ، 84
13. صحیح بخاری : 5954
14. صحیح مسلم : 2111
15. صحیح بخاری : 5951
16. صحیح مسلم : 1671
17. فتح الباری : 10 ، 386
18. فتح الباری : 10 ، 387
19. فتاوی اللجنة الدائمة : 1 ، 661
20. سنن ترمذی : 2518
21. موطا مالک : 2 ، 538
22. ( 2 ، 60 )
23. ( 3 ، 97 )
24. فتاوی اللجنة الدائمة : 1 ، 674
ہ i. جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ کے فرمان کا ترجمہ پیچھے گزر چکا ہے :
و أکثر الناس قد لا یعلمون أن طلوعہا و غروبہا بین قرن شیطان و لا أن الکفار یسجدون لہا ثم نہ ۖ نہٰی عن الصلوة فہذا الوقت حسمًا لمادة المشابہة بکل طریق
( اقتضاء الصراط المستقیم : 2181 )
ہ^^^^^^^^^^^^^^^^^ہ
مسئلہ تصویر اور دورِ حاضر
عبد الرحمن مدنی
ءءءءءءءءءءءءءءءء
مذاکرے کی ایک نشست میں حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب نے صدارتی خطاب فرمایا ، لہٰذا انہوں نے تصویر کے بارے میں مختلف پہلوؤں پر زیادہ تر تبصرہ ہی کیا اور اس سلسلہ میں جو سوالات پیدا ہوئے تھے ، ان کو نکھارنے کی کوشش کی ۔ ان کے خطاب کو تحریری شکل دیتے ہوئے ہم نے عنوانات قائم کر کے کوشش کی ہے کہ ایسے نکات واضح ہو جائیں جن کے بارے میں پہلی تقریروں میں بہت کچھ کہا جا چکا تھا ، لہٰذا اس تقریر کو تبصرہ ہی سمجھا جائے ۔ علاوہ ازیں جن فنی اُصولوں کی وضاحت ضروری تھی ان کا مختصر تعارف قوسین یا حواشی میں کر دیا گیا ہے ۔ ( مرتب )
احکامِ شرعیہ کی حکمتیں معلوم کرنا فقاہت ہے
دینِ اسلام کے احکامات کی گہری بصیرت و فہم اللہ سبحانہ و تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے ، اسی لئے آپ ﷺ کا فرمان ہے :
( مَن یُّرد اﷲ به خیرًا یفقِّهه في الدین ) 1
" جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ کرتے ہیں ، اس کو دین کی گہری سمجھ عطا کر دیتے ہیں ۔ "
نبی اکرم ﷺ سے ایک چیز کی شدید حرمت ثابت ہو جانے کے بعد کسی مسلمان کی یہ جرأت نہیں ہو سکتی کہ وہ یہ کہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جس چیز پر لعنت کی ہے ، میں اس کو جائز کرتا ہوں ۔ لیکن نبی اکرم ﷺ جس چیز کو مذموم قرار دیتے اور جس پر لعنت فرماتے ہیں ، اس کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺ کے ارشادات ہی سے اس بات کو سمجھنا کہ آپ ﷺ نے کن وجوہ کی بنا پر اس شئے پر لعنت فرمائی ہے یا کن وجوہ کی بنا پر اسے حرام قرار دیا ہے ، یہ تو دین کی فقاہت ہے ۔ اس لئے میں اس طرف بالخصوص آپ حضرات کو توجہ دلانا چاہوں گا کہ تصویر میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے مشابہت کی جو وجہ آپ ﷺ نے خود بیان فرمائی ہے ، وہ یہ ہے :
( أشد الناس عذابًا یوم القیامة الذین یضاهون بخلق اﷲ ) 2
" روزِ قیامت سخت ترین عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ کے تخلیق سے مشابہت اختیار کرتے ہیں ۔ "
اہل علم نے حرمت تصویر کی عموماً دو حکمتیں بیان کی ہیں :
اللہ کی تخلیق سے مشابہت یا تصویر کی پوجا کرنے والے مشرکوں سے مشابہت ، کیونکہ تصویر بنانے والوں سے روزِ قیامت مطالبہ کیا جائے گا
( أحیوا ما خلقتم ) 3
" جو تم نے بنایا ہے ، اسے زندہ کرو ۔ "
چونکہ شرک کی ابتدا حضرت نوح کی بعثت سے قبل قومِ نوح کے صالحین کی تصویروں سے ہی ہوئی تھی جو ہمیشہ کا خطرہ ہے ، لہٰذا زندہ تصویریں شرک کا ذریعہ ہیں جسے بند ہونا چاہئے جیسا کہ عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :
" صارت الأوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد ۔ أما ودٌّ فکانت لکلب بدومة الجندَل و أما سُواع فکانت لہذیلٍ و أما یغوثُ فکانت لمراد ثم لبني غُطَیف بالجُرف عند سبـائٍ و أما یعوقُ فکانت لہمدان و أما نسرٌ فکانت لِحِمْیر لآل ذي الکلاع أسماء رجال صالحین من قوم نوح فلما هلکوا أوحٰی الشیطان إلی قومهم أن أنصِبوا إلی مجَالِسهم التي کانوا یجلسون أنصابًا و سمُّوها بأَسمائهم ففعلوا فلم تُعبدْ حتی إذا هلك اُولئك و تنسَّخ العلم عُبِدَت " 4
" ابن عباسؓ نے فرمایا : نوح کی قوم میں جو بت پوجے جاتے تھے ، ابھی تک وہی عرب لوگوں میں موجود تھے ( جس کی تفصیل یوں ہے ) وُدّ " کلب " قبیلے والوں کا بت تھا جو دومة الجندل میں آباد ہے اور سُواع " ہذیل " قبیلے کا تھا اور یغوث " مراد " قبیلے کا بت تھا پھر بنی غطیف جو سبا بستی کے نزدیک مقام جرف میں آباد ہیں کا بت بن گیا اور یعوق " ہمدان " قبیلے کا بت تھا ، اسی طرح نسر " حمیر " قوم کا بت تھا جو ذی الکلاع ( بادشاہ ) کی اولاد میں سے ہیں ۔ یہ سب چند نیک پارسا شخصوں کے نام ہیں جو نوح کی قوم میں تھے ۔ جب وہ مر گئے تو شیطان نے ان کی قوم والوں کے دل میں یہ ڈالا کہ جن مقاموں میں یہ لوگ بیٹھا کرتے تھے ، وہاں ان کے نام کے بت بنا کر کھڑے کر دو ( تاکہ ان کی یادگار رہیں ) ۔ اُنہوں نے ا یسا ہی کیا ( کہ صرف یادگار کے لئے بت رکھے ) وہ پوجے نہ جاتے تھے ۔ جب یہ یادگار بنانے والے بھی گذر گئے اور بعد والوں کو یہ شعور نہ رہا کہ ان بتوں کو صرف یادگار کے لئے بنایا تھا تو ان کو پوجنے لگے ۔ "
پہلی حکمت کے بارے میں اِجمال ہونے کی بنا پر مغالطہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید تخلیق الٰہی سے مشابہت ہی کوئی بڑا جرم ہے ، حالانکہ غور فرمائیے کہ تصویر کے علاوہ شریعت میں کہیں بھی تخلیقِ الٰہی سے مشابہت کو گناہ نہیں قرار دیا گیا بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہی کام بطورِ معجزہ کرتے رہے ۔ علاج و معالجہ کے ذریعہ صحت کا حصول بھی تخلیق الٰہی سے مشابہت ہی ہے ، لیکن اس کی ممانعت کے بجائے حوصلہ افزائی ہے ۔ لہٰذا حرمت و ممانعت میں اصل نکتہ تخلیق الٰہی سے مشابہت نہیں کیونکہ اللہ کی ہر مخلوق جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تخلیق روح کے بعد جیتا جاگتا انسان بنتا ہے ، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے سامنے بے بس ہی ہوتا ہے ۔ یہی بے بسی ربّ العالمین کا شریک ِ کار ہونے کی نفی کرتی ہے ۔ بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اسے کسی درجہ میں بھی خالق کائنات کی طرح معبود ہونے میں شریک نہیں بنایا جا سکتا ۔ لہٰذا اوّل نکتہ کا مقصود بھی گویا شرک کی ہی مذمت ہے ۔ اس طرح حرمت کی دوسری وجہ شرک کا سدباب کرنے کے لئے ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ دونوں وجوہ دراصل ( 1 ) شرک سے مشابہت اور ( 2 ) شرک کا دروازہ بند کرنے پر مشتمل ہیں لہٰذا اس نکتہ پر دونوں حکمتوں کا اجتماع ہو کر " امتناعِ شرک " ہی تصویر کی حرمت کی بنیادی وجہ قرار پاتا ہے ۔
سادہ الفاظ میں مذکورہ دونوں حکمتیں نتیجتاً ایک ہی ہیں ، کیونکہ جب تصویر شرک کا ذریعہ بن سکتی ہے تو وسیلہ شرک کا حکم ممانعت ِ شرک ( مقصد ِ شرعی ) ہی ہوا ، اسی بنا پر اسے شرک سے مشابہ قرار دیا گیا ہے ۔ لہٰذا وسیلہ شرک اور تخلیق الٰہی سے مشابہت شرک ہی ہے ، اور اسی پر قیامت کے روز نفخ روح کا چیلنج درپیش ہوگا ۔
صرف بے جان چیزوں کی تصاویر جائز ہیں
بعض متجددین نے یہ الزامی اعتراض کیاہے کہ بے جان اشیا کی تصویر یا مجسمہ بنانے میں بھی اللہ تعالیٰ سے مشابہت لازم آتی ہے ، لہٰذا اس بنا پر بھی بے جان اشیا کی تخلیق و تصویر شرعاً حرام ہونی چاہئے جب کہ وہ بالاتفاق جائز ہے ۔
لیکن یہ الزام درست نہیں ، کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کا ایک اور فرمان اس بات کو نکھار دیتا ہے کہ تخلیق الٰہی سے آپؐ کی ہر شئے میں مشابہت مراد نہیں تھی بلکہ اس سے روح والی اشیا میں تخلیق و تصویر کی مماثلت مراد تھی جیسا کہ حدیث میں نبی ﷺ کا یہ ارشاد موجود ہے ، فرمایا :
( من صوَّر صورة في الدنیا کُلِّف یوم القیامة أن ینفخ فیھا الروح ولیس بنافخ ) 5
" دنیا کے اندر کوئی شخص تصویر بنائے تو قیامت کے دن اسے اس بات کی ذمہ داری اُٹھانا ہوگی کہ وہ اس میں روح پھونکے ، حالانکہ وہ یہ کام نہیں کر سکے گا ۔ "
اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی جس مشابہت سے منع کیا ہے ، وہ عام مشابہت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوقات کی تصویریں بنانا ہیں جن میں روح پھونک کر اللہ تعالیٰ نے زندگی پیدا کی ہے ۔ اگر ان چیزوں کے بارے میں ایسی صورتِ حال پیش آئے کہ ان کی تصویر بنا کر یا ان کے عکس کو فوٹو گرافی کے ذریعہ سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات انتہائی مذمت کے قابل ہے ۔
واضح رہے کہ بے جان اشیا کی تصویر بنانا جائز ہے
جیسا کہ عبد اللہ بن عباسؓ نے ایک پیشہ ور مصور کو مشورہ دیا تھا کہ اگر تجھے تصویریں بنانی ہی ہیں تو بے جان اشیا کی تصاویر بنا لے :
عن سعید بن أبي الحسن قال
جاء رجل إلی ابن عباس فقال یا ابن عباس إني رجل أصوّر هذہ الصور واصنع هذہ الصور فافتني فیها قال اُدن مني فدنا منه حتی وضع یدہ علی رأسه قال : أنبئك بما سمعت من رسول اﷲ یقول : ( کل مصور في النار یجعل له بکل صورة صوَّرها نفس تعذبه في جهنم ) فإن کنت لابد فاعلاً فاجعل الشجر و ما لا نفس له ۔ 6
" سعید بن ابی الحسن ؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس آیا اور اپنا مسئلہ پیش کیا کہ میں ایسی ( جاندار ) تصویریں بناتا ہوں اور یہ میرا پیشہ ہے ۔ مجھے اس بارے میں فتویٰ دیجئے تو ابن عباسؓ نے اسے قریب کر کے اس کے سر پرہاتھ رکھا اور کہا کہ میں تمہیں اس بات کی خبر دیتا ہوں جو میں نے خود نبی ﷺ سے سنی ہے ، کہ آپ نے فرمایا : ہر تصویر بنانے والا آگ میں جائے گا ، اس کی ہر تصویر کو ایک زندہ جان بنا کر اس کے ذریعہ جہنم میں عذاب دیا جائے گا ۔ اگر تو یہ پیشہ اختیار کرنا چاہتا ہے تو درخت اور بے جان اشیا کی تصویریں بنا ۔ "
چنانچہ یہ کہنا کہ تخلیق کی مشابہت حرمت ِ تصویر کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے کیونکہ یہ وجہ بے جان اشیا کی تصویر میں بھی پائی جاتی ہے جب کہ وہاں حرمت کا حکم موجود نہیں ہے اور جاندار اشیاء کو مخصوص کرنا بلا وجہ ہے بلکہ تصویر کی حرمت کی حکمت کچھ اور ہے ( مثلاً شرک یا فحاشی وغیرہ ) تو ہم کہتے ہیں کہ شرک اور فحاشی تو مطلقاً حرام ہیں خواہ تصویر کی صورت ہو یا کوئی دوسری جب کہ خاص طور پر تصویر کی حرمت بھی ہے جو جاندار کی تصاویر کے بارے میں ہے ، لہٰذا وہ حکمت اللہ کی تخلیق خاص سے مشابہت بھی ہے ۔
البتہ پہلے یہ وضاحت گزر چکی ہے کہ تخلیق الٰہی کی مشابہت سے مراد بھی فعل تخلیق کے بجائے مخلوق کو اللہ کے مشابہ قرار دینا کہ اس کی عبادت کا خطرہ ہے جس کی بنا پر تصویر کو حرام قرار دے کر شرک کے مفسدہ کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے ۔
تصویر بنانے اور تصویر رکھنے کے حکم میں فرق
شرع میں جہاں تک تصویر کے رکھنے یا نہ رکھنے کا تعلق ہے تو اس میں بنیادی بات احترام کی ہے ، یہ بھی شرک کی حوصلہ افزائی ہے ۔ تصویر بنانے اور تصویر رکھنے کا فرق ہے کہ تصویر بنانے کی حرمت تو مطلق ہے جب کہ تصویر کا وجود ذلت کی بعض صورتوں میں گوارا ہے ۔ چنانچہ حرمت کے بارے میں تو آپ ﷺ کے ارشادات بالکل واضح ہیں جن کی حکمت کی فنی تشریح تو میں بعد میں کروں گا ۔ ان شاء اللہ ، البتہ
تصویر کے وجود کے بارے میں کہ جس مقام پر تصویر موجود ہو تو اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں ؟ اس کا جواب آپ ﷺ کے ایک ارشاد میں یوں ہے ۔ حدیث میں آتا ہے :
عن أبي هریرة قال : استأذن جبریل علیه السلام علی النبي ﷺ فقال :
( اُدخل فقال : کیف أدخل وفي بیتك ستر في تصاویر فإما أن تقطع رؤسها أو تجعل بساطًا یوطأ فـإنا معشر الملائکة لا ندخل بیتًا فیه تصاویر ۔ 7
" حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نے آپ ﷺ کے ( گھر ) پاس آنے کی اجازت طلب کی تو آپؐ نے فرمایا داخل ہو جائیں ۔
جبریل کہنے لگے : میں گھر میں کس طرح داخل ہو سکتا ہوں ؟
یہاں تو پردہ لٹک رہا ہے جس میں تصویریں بنی ہیں یا تو ان کے سر کاٹ ڈالئے اور یا پھر اُنہیں بچھونا بنا دیں تا کہ یہ ( تصویریں ) روندی جائیں ، کیونکہ ہم فرشتے ایسے گھر میں جہاں تصویریں ہوں ، داخل نہیں ہوتے ۔ "
تصویر نحوست ہے ، اس لئے اس کا احترام نہیں ہونا چاہئے
معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ نے تصویر رکھنے کے سلسلے میں جو بات فرمائی ، وہ مشروط ہے ۔ یعنی جس گھر میں ایسی تصویر ہو جو عزت کی جگہ پر ہو ، اس تصویر کی موجودگی میں رحمت کے فرشتے گھر کے اندر داخل نہیں ہوتے ۔ گویا تصویر ایک نحوست والی چیز ہے ، اسی طرح کتے میں اللہ کی تخلیق ہونے کے اعتبار سے نحوست نہیں ہے ، البتہ گھر میں اس کی موجودگی کی نحوست فرمانِ رسول کے مطابق لابدی ہے ۔
چنانچہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا موجود ہوحتیٰ کہ ایک انسان جب جنبی ہو جاتا ہے تو اس وقت اس کے ساتھ بھی نحوست لاحق ہو جاتی ہے ، اسی لئے جنبی کی موجودگی میں بھی رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ رحمت کے فرشتے اس کمرہ یا گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر یا جنبی انسان یا کتا موجود ہو ۔ کیونکہ تصویر کا وجود ہی نحوست ہے ، البتہ تصویر کی حد تک یہ نحوست اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب اسے ذلیل جگہ رکھا جائے گویا ذلیل ہونے کی صورت میں تصویر کا وجود گوارا ہو جاتا ہے ۔
یاد رہے کہ تصویر کی یہ حرمت و ممانعت فوٹوگرافی والی تصویر کو بھی شامل ہے ، اور اس سلسلے میں بعض جدید دانشوروں کا موقف درست نہیں ۔
ہاتھ سے تصویر بنانے اور فوٹو گرافی میں کوئی فرق نہیں !
ہاتھ سے تصویر بنانے اور فوٹو گرافی میں جن لوگوں نے فرق کیا ہے ، کیا واقعتا ان دونوں کے حکم میں کوئی شرعی فرق ہے یا نہیں ؟
رسول اللہ ﷺ کے فرمانات کے سطحی مفہوم میں جو اس دور کے تمدن کے مطابق تھا ، ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر اور مجسّمے ہی تھے کیونکہ آپؐ کے دور میں لفظ تصویر کا واحد مصداق یہی تھا ۔ کیمرے اور ویڈیو کی تصویر تو بعد کے ادوار کی ایجادات ہیں جو دورِ حاضر کا تمدنی ارتقا ہے ، لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لفظ تصویر سے حکم ربانی کا مقصود کیا ہے ؟ یا دوسرے الفاظ میں تصویر کی حرمت والی نصوص کا مفہوم کیا ہے ؟ بعض متجددین کا خیال ہے کہ آپؐ نے تصویر کا جو لفظ ارشاد فرمایا تھا ، اس سے آپؐ کا مقصود اپنے زمانے کی مروجہ تصویر کی مختلف شکلیں تھیں جو ہاتھ ہی سے بنائی جاتی تھیں لیکن یہ درست نہیں ۔
میں تمدنی ارتقا کے اس مسئلہ کو اس لئے طول نہیں دینا چاہتا کہ مولانا محمد رمضان سلفی اور دیگر حضرات نے یہ بات کھول کر بیان کر دی ہے کہ یہ بات ہمارے کہنے کی نہیں بلکہ یہ ان سے پوچھو جن کی زبان عربی ہے کہ وہ اس کو " تصویر " کہتے ہیں یا کچھ اور ۔ میں بھی یہی کہتا ہوں کہ کیا عربی زبان میں فوٹوگرافی کو " تصویر " نہیں کہتے ... ؟ ( i )
عکس اور تصویر کا فرق
بعض لوگ فوٹوگرافی کو عکس قرار دے کر اس کا جواز نکالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ عکس اور تصویر میں فرق ہے ۔ عکس کے اندر اگرچہ پہلی نظر میں شباہت ایک جیسی معلوم ہوتی ہے ، لیکن درحقیقت اعضاء دائیں بائیں اُلٹ جاتے ہیں ، جب کہ تصویر میں دایاں بایاں اسی طرح رہتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ عکس اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اصل سامنے موجود ہو چنانچہ عکس جب ثبت ہو جاتا ہے تو وہ تصویر بن جاتی ہے ۔ اس بنا پر یہ کہنا کہ تصویر ہاتھ سے بنائی جائے تو وہ حرام ہے اور جو فوٹوگرافی کی صورت میں کھینچ لی جائے وہ حلال ہے ، درست نہیں ہے ۔ میں واضح کر چکا ہوں کہ تصویر سازی میں جدید آلات کا استعمال تو تمدنی ارتقا کا مسئلہ ہے ، بلکہ اگر اتنی اچھی تصویر بنائی جائے کہ اس کے اندر جسمانی کے علاوہ نفسیاتی آثار بھی نکھرتے چلے جائیں تو یہ انسانی ترقی کی مہارت ہے ۔ چنانچہ بعض اوقات اتنی اچھی تصویر بنائی جاتی ہے کہ اس کے اندر جذبات کا اظہار بھی ہو جاتا ہے تو یہ سب تمدنی ارتقا ٭ کی قبیل سے ہے ، کیونکہ اچھی تصویر سے اسی طرح جذبات کی عکاسی ہوتی ہے جس طرح شاعری سے جذبات کی لفاظی ہوتی ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ تمدنی ارتقا کے لئے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے اس سے تصویر کی شرعی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
شرعی نصوص میں نبی ﷺ نے تصویر اور مصور ہر دو کے لئے جو وعید سنائی ہے اس کا مقصود نتیجتاً ایسا نقش ہے جو تصویر کی صورت میں تیار ہوتا ہے ۔ تصویر کس چیز سے بنتی ہے اور کس طرح بنتی ہے ، اس کی شرع میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے ؟ اسی طرح جاندار کی ہر طرح کی تصویر حرام ہے خواہ وہ کپڑا ، پتھر ، لکڑی ، سلور یا پلاسٹک پر ہو یا کسی اور ذریعہ سے حاصل ہو ، کیونکہ تصویر تو ایک شکل ہے جب وہ کہیں قرار پا جاتی ہے تو وہ تصویر بن جاتی ہے ، البتہ جب وہ اصل کے ساتھ قائم ہوتی ہے تو اسے " عکس " کہتے ہیں ۔ چنانچہ پانی میں ہو تو عکس ہے ، آئینہ میں ہو تو عکس ہے ، لیکن اگر کہیں شکل قرار پکڑ جائے تو وہ تصویر ہے ۔ اس بنا پر ہر قسم کی تصویر " تصویر " ہی ہے اور شرع میں اس کی حرمت بالکل واضح ہے ۔
مسئلہ تصویر اور ہماری مداہنت
ہمارے ہاں یہ صورت قابل تشویش ہے کہ یوں تو اکابر علماء تصویر کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں لیکن عملاً اس معاملہ میں مداہنت دکھاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب عام علماء اور عوام بھی حرام و حلال کی تمیز کے بغیر تصویر کشی کر رہے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ تو وہ شبہات ہیں جن کا میں ذکر کر چکا ہوں ۔ ان شبہات کا خاطر خواہ جواب سامنے نہ آنے پر مسئلہ تصویر کھیل بن گیا ہے بلکہ اب موبائل فونوں اور کیمروں کی کثرت نے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں رہنے دی ۔
حرمت ِ تصویر کی حکمت
مداہنت کی ایک بڑی وجہ تصویر کشی کے بعض پہلو اور حرمت ِ تصویر کی حکمت میں بعض اختلافات بھی ہیں ۔ تصویر کشی کے وہ پہلو جن میں تمدنی ارتقا اور عکس و تصویر کا فرق تھا ، اس کی تو وضاحت ہو چکی ، البتہ حرمت ِ تصویر کی حکمت ایک خالص اُصولی مسئلہ ہے ۔ میں کوشش کروں گا کہ اسے آسان صورت میں پیش کر سکوں ۔ ابتدا میں احکامِ شرعیہ کی توجیہ و تعلیل کو ہم نے فقاہت قرار دیا تھا لیکن یہ توجیہ و تعلیل فنی طور پر قیاس میں ہوتی ہے اور سد ذریعہ میں بھی ۔
پہلے ہم قیاس اور سد ذریعہ کی تعریف کرتے ہیں :
قیاس :
کتاب و سنت میں کسی شرعی حکم کی توجیہ کی بنا پر مذکورہ حکم کو دیگر مماثل اشیا پر بھی لاگو کرنا ۔ روز مرہ معاملات میں اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ ایک کمرہ میں چند کھڑکیاں ہیں ، گھر کا مالک خادم سے کہتا ہے کہ کھڑکی بند کر دو کیونکہ کمرہ میں دھوپ آ رہی ہے ، چنانچہ ملازم نے ایک کھڑکی کے ساتھ دوسری کھڑکیاں بھی بند کر دیں کیونکہ ان سے بھی دھوپ آرہی تھی ۔ گویا قیاس میں حکم لفظ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وجہ معلوم کر کے اس سے مربوط کیا جاتا ہے ، اسی لئے اس وجہ کو " مناط " ( کھونٹی ) کہتے ہیں کیونکہ وہ حکم اس سے منسلک ہوتا ہے ۔
سد ِ ذریعہ :
لغوی معنی : " وسیلہ میں رکاوٹ ڈالنا " ۔ اس میں بھی کسی حکم کی تعمیل میں توجیہ و تعلیل پر غور کیا جاتا ہے کہ کیا کوئی نقصان یا شرعی مقاصد تو متاثر نہیں ہو رہے ۔ اگر شرعی طور پر کوئی خرابی لازم آتی ہے تو تعمیل سے ہاتھ روک لیا جاتا ہے ۔ اس کی سادہ مثال یوں ہے کہ عموماً تشدد کے خوف سے اسلحہ کی نمائش سے منع کر دیا جاتا ہے ، حالانکہ اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ رکھنا ہر انسان کی ضرورت ہے ۔ ایسے ہی شرعی طور پر سرکاری ملازمین کو رشوت کے خوف سے تحائف وصول کرنے سے ہاتھ روک لینا چاہئے ۔ سد ذریعہ میں شرعی حکم کا تعلق حکمت سے ہوتا ہے اور وہ حکمت اصل مسئلہ کی بجائے اس کے وسیلے اور ذریعے کی رکاوٹ سے حاصل ہوتی ہے ۔
دونوں میں فرق :
قیاس اور سد ذریعہ دونوں کا تعلق اگرچہ شرعی توجیہ و تعلیل سے ہے ، تاہم چند باتوں میں فرق ہے ، مثلاً
قیاس میں علت کی بنا پر حکم میں توسع پیدا ہوتا ہے جب کہ سد ذرائع میں وسعت ِ حکم میں رکاوٹ ڈال کر اسے محدود کیا جاتا ہے ۔ مثلاً اوپر کی مثالوں میں قیاس کی صورت ایک کھڑکی کے ساتھ دوسری کھڑکیوں کو بھی کھولنا میں شامل کر لیا گیا ، جب کہ سد ذرائع میں اسلحہ کی نمائش اور تحائف جیسے جائز معاملات کو بھی محدود کر دیا جاتا ہے ۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ
قیاس مخصوص نصوص کی بنا پر شرعی احکام کا پھیلاؤ ہوتا ہے جب کہ سدذریعہ کا طریقہ شرع کے عمومی مقاصد کے پیش نظر کیا جاتا ہے ۔ مثلاً عمومی امن و امان کے لئے ہتھیار کی نمائش روک دی جاتی ہے اور عمومی رشوت کا دروازہ بند کرنے کے لئے تحائف کا لین دین بھی رشوت قرار پاتا ہے ۔
تیسرا فرق یہ ہے کہ
قیاس میں علت و حکمت مطرد یعنی ہمیشہ جاری اور ساری رہتی ہے ، مثلاً مسافر کے لئے ہمیشہ روزہ میں رخصت ہے مگر سد ذریعہ میں حکمت اہمیت ِ مقاصد کے تحت بدلتی رہتی ہے بلکہ بسا اوقات راجح مصلحت کے تحت ناجائز کام بھی جائز ہو جاتے ہیں جیسا کہ حق تلفی اور ظلم کو دفع کرنے کے لئے رشوت دینے کی اجازت ہے ۔ اسی طرح مسلمان قیدیوں کو دشمن سے چھڑانے کے لئے فدیہ دینا جائز ہو جاتا ہے ۔ اسے فسخ ذریعہ کہتے ہیں ۔
سدذریعہ کے ان امتیازات کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ تصویر کا مسئلہ سد ذرائع کے باب سے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تصویر میں اکابر علماء فتویٰ کے اختلافات کے باوجود مقاصد کی اہمیت کی بات بھی کرتے ہیں ۔
مثلاً شیخ ابن باز ؒ ، علامہ البانی ؒ اور شیخ محمد صالح فوزان بچوں کو کھیل یا لڑکیوں کی تربیت کے لئے گڑیوں کی اجازت دیتے ہیں ۔ اسی طرح پاسپورٹ ، شناختی کارڈ وغیرہ کی بھی اہمیت کے پیش نظر تصویر کی رخصت دیتے ہیں ۔ ہم یہاں ان سب سے زیادہ راسخ بزرگ شیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ کی ایک عربی عبارت کا حوالہ دیتے ہیں :
و قبل أن أنهی هذہ الکلمة لایفوتني أن ألفت النظر إلی أننا و إن کنا نذهب إلی تحریم الصُّور بنوعیه جازمین بذلك فإننا لا نرٰی مانعًا من تصویر ما فیه فائدة متحققة بدون أن یقترن بها ضرر ما ، و لا تتیسر هذہ الفائدة بطریق أصله مباح ، مثل التصویر الذي یحتاج إلیه الطبّ و في الجغرافیا و في الاستعانة علی اصطیاد المجرمین و التحذیر منهم و نحو ذلك فإنه جائز بل قد یکون بعضه و اجبًا في بعض الأحیان و الدلیل علی ذلك حدیثان ... الخ 8
" ( مسئلہ تصویر پر ) اپنی گفتگو ختم کرنے سے قبل میں اس امر کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ہماری رائے تصویر کی حتمی طور پر حرمت کی ہے ۔ تاہم اس بارے میں ہم کوئی مانع نہیں پاتے کہ اگر تصویر میں کسی نقصان کے خطرہ کے بغیر حقیقی فائدہ موجود ہو اور یہ فائدہ کسی جائز طریق سے حاصل نہ ہو سکتا ہو ، تو تصویر کی گنجائش ہے ۔ علم طب ، جغرافیائی ضرورتیں ، مجرموں پر ہاتھ ڈالنے اور ان کی غلط کاریوں سے بچاؤ وغیرہ جیسے مقاصد تصویر کشی کا جواز پیدا کرتے ہیں بلکہ بعض خاص صورتوں میں تصویر کشی واجب بھی ہو جاتی ہے ۔
اس پر درج ذیل دو حدیثیں دلیل ہیں :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ( اُمّ المومنین ) گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں تو جناب رسول کریم ﷺ ان سے کھیلنے والی سہیلیاں بلا لاتے تھے ۔ 9
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے طبقات ابن سعد7 ، 66 کی ایک دوسری صحیح روایت ہے کہ کھیل کے لئے ان کے پاس گڑیاں تھیں اور جب نبی ﷺ داخل ہوتے تو نبی ﷺ کپڑے سے پردہ کر کے اوٹ میں ہو جاتے تاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنا کھیل جاری رکھیں ۔ ( یہ لفظ ابو عوانہ کے ہیں )
آگے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث بھی آرہی ہے جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ ان کے پاس گھوڑا بھی تھا جس کے چیتھڑوں کے بنے ہوئے دو پر تھے ۔
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں : " اس حدیث سے گڑیوں کی تصویریں بنانا تا کہ لڑکیاں ان سے کھیلیں ، کے جواز کی دلیل حاصل کی جاتی ہے اور یہ تصویروں کی ممانعت والے حکم سے الگ ہے ۔ اسی پر قاضی عیاض ؒ نے اطمینان ظاہر کیا ہے اور جمہور علماء کا یہی موقف نقل کیا ہے کہ جمہور نے لڑکیوں کی لڑکپن ہی سے گھریلو اور اولاد کی تربیت کی غرض سے گڑیوں سے کھیل کی اجازت دی ہے ۔ "
ربیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے عاشوراء کی صبح مدینہ منورہ کے ارد گرد بستیوں میں پیغام بھیجا کہ جو کوئی ناشتہ کر چکا ہے وہ تو سارا دن بے روزہ رہے لیکن جو نہار منہ ہے وہ روزہ رکھ لے ۔ حضرت ربیعؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم اس دن کے بعد سے ہمیشہ خود روزہ رکھتیں اور ہمارے بچے بھی روزہ سے ہوتے اور جب بچوں کو لے کر ہم مسجد میں جاتیں تو روئی سے ان بچوں کو کھلونے بنا دیتیں ۔ یہ کھلونے بھی ہمارے ساتھ ہوتے ۔ جب کوئی بچہ کھانا مانگتے مانگتے روپڑتا تو ہم یہ کھلونے دل بہلانے کو اسے دے دیتیں یہاں تک کہ افطاری کا وقت ہو جاتا ۔ "
ایک روایت میں یہ ہے :
بچے جب ہم سے کھانے کو مانگتے تو انہیں مشغول کرنے کے لئے یہ کھلونے دے دیتیں تاکہ وہ بچے بھی روزہ مکمل کر لیں ۔ 10
ہم نے جن اکابر اہل علم کا ذکر کیا ہے ، ان کے نزدیک رسول کریم ﷺ کے شدید ارشادات کی بنا پر تصویر فی نفسہٖ حرام ہے ، لیکن بعض اہم ضرورتوں کی بنا پر چند صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جیسا کہ گڑیوں اور پاسپورٹ وغیرہ کی اہمیت کے پیش نظر تصویر کی گنجائش موجود ہے ۔ جب کہ بعض متجددین کے سر پر " فنونِ لطیفہ " کا جنون سوار ہے اور وہ تصویر اور رقص و سرود کو بنیادی طور پر ایک مستحسن اور مطلوب شرعی قرار دیتے ہیں ۔ اگرچہ حلقہ اشراق نے تصویر کے موضوع پر جو کتابچہ " اشراق کے خاص نمبر بر تصویر " کے بعد شائع کیا ہے ، اس میں سد ذریعہ کا نکتہ ذکر کیا ہے لیکن انہوں نے یہ خرابی ، خاص علاقے اور خاص دور تک ہی محدود رکھی ہے اور نبی کریم ﷺ کے ارشادات کو دائمی طور پر تسلیم نہیں کیا ۔ 11
جب کہ ہماری رائے اس سے قطعی مختلف ہے ، ہم تصویر کی اصلاً حرمت کے قائل ہیں البتہ اس کی و جۂ حرمت سد ذریعہ ہی کو قرار دیتے ہیں ، کیونکہ سد ذریعہ بسا اَوقات حرام ہونے کے باوجود اہم مقاصد کے پیش نظر جائز ہو جاتا ہے ۔ ٹیلی ویژن اور اس جیسے دیگر الیکڑانک میڈیا پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر جیسے اعلیٰ شرعی مقاصد کی تکمیل کے لئے ہم احترام کئے بغیر تصویر کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں ۔
سد ذریعہ کا باب مقاصد ِ شریعت کی قبیل سے ہے اور قواعد فقہیہ کی صورت میں انہی مقاصد شریعت کا انضباط ہوتا ہے لہٰذا اسی روحِ شریعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے الضرورات تقدر بقدرہا جیسی پابندیوں کے ساتھ ہم الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ اور اگر ذریعہ غیر اہم ہو تو حکم مکروہ ہو گا ۔ اسی طرح حالات و واقعات کے تناظر میں ذرائع اور وسائل کی اہمیت بھی بدل سکتی ہے ۔ تصویر کی دورِ حاضر میں یہی صورت ہے ۔ شرعی مقاصد کے لئے اگر ذرائع ابلاغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار دیکھا جائے تو تبلیغ اسلام کے لئے تصویر کی ممانعت کے مفاسد اس کے مقابلے میں کمزور نظر آتے ہیں ، اس بنا پرتصویر کو چند شروط کے ساتھ الیکڑانک میڈیا پر گوارا کر لینے میں کوئی حرج نہیں ۔
بعض لوگ اضطراراً تبلیغ اسلام کے لئے تصویر کو جائز قرار دیتے ہیں ، جب کہ اضطرار اور حاجت ہر دو کے حوالے سے ہمیں انتہائی رویہ سے بچنا چاہئے ۔ شدید ضرورت تو وہ ہوتی ہے جس کو شرع میں اضطرار کہا جاتا ہے اور ایک عام حاجت ہوتی ہے جس میں نفع و نقصان کی مصلحت راجح پیش نظر ہوتی ہے ، چنانچہ جہاں نفع و نقصان کا تقابل کیا جاتا ہے ، اسے اضطرار نہیں کہتے ۔
جیسا کہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ سد ذریعہ کا تعلق مقاصد ِ شریعت سے ہے اور عام طور پر مقاصد ِ شریعت قواعد ِ فقہیہ سے منضبط کئے جاتے ہیں ۔ اسلئے میں قواعد فقہیہ ( Legal Maxims ) سے مسئلہ پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں ۔
مثلاً قواعد فقہیہ ہیں :
" الضرورات تبیح المحظورات " ،
" الضرورات تقدر بقدرها " یا
" الحاجات تقدر بقدرها " وغیرہ ۔
یاد رہے کہ قواعد فقہیہ کبھی بنیادی دلیل کے طور پر نہیں آتے بلکہ شریعت کا مزاج بتاتے ہیں ۔ پھر شریعت کی اس روح کا بھی ہمیں شرع کی عمومی تعلیمات سے یا خود نبی اکرم ﷺ کے طرزِ عمل سے معلوم ہوتا ہے ۔ چنانچہ تصویر کے بارے میں نبی اکرم ﷺ صریح حرمت بیان فرما رہے ہیں کہ سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو تصاویر بنانے والے ہیں ۔ علاوہ ازیں اس کے وجود کے بارے میں شرع اتنی حساس ہے کہ اُس مقام پر رحمت کا فرشتہ داخل نہیں ہوتا لیکن یہی تصویر اگر پیروں میں روندی جا رہی ہو تو فرشتہ داخل ہو جاتا ہے اور وہی تصویر اگر بچیوں کی تربیت کے لئے حاجت بن جائے تو اس کی بنا پر گھر میں گڑیاں وغیرہ رکھی جا سکتی ہیں اور بچوں کو کھلونے بنا کر بھی دیئے جا سکتے ہیں ، جیسا کہ نبی ﷺ کے گھر میں حضرت عائشہؓ کی گھڑیوں میں پروں والا گھوڑا بھی موجود تھا ۔
سنن ابوداود میں حدیث موجود ہے :
عن عائشة قالت : قدم رسول اﷲ ﷺ من غزوة تبوك أو خیبر و في سهوتها ستر ، فهبَّت ریح فکشفت ناحیة الستر عن بنات لعائشة لُعَب فقال : ( ما هذا یا عائشة ؟ ) قالت : بناتي! ورأی بینهن فرسًا له جناحان من رقاع ، فقال : ( ما هذا الذی أرٰی وسطهن ؟ ) قالت : فرس ، قال : ( و ما هذا الذي علیه ؟ ) قالت : جناحان ، قال : ( فرس له جناحان ؟ ) قالت : أما سمعت : أن لسلیمان خیلاً لها أجنحة ؟ قالت : فضحك حتی رأیت نواجذہ ۔
" امّ المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غزوۂ تبوک یا خیبر سے واپس تشریف لائے تو میرے طاقچے کے آگے پردہ پڑا ہوا تھا ۔ ہوا چلی تو اس نے پردے کی ایک جانب اُٹھا دی ، تب سامنے میرے کھلونے اور گڑیاں نظر آئے ۔ آپؐ نے پوچھا : عائشہ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا : یہ میری گڑیاں ہیں ۔ آپ نے ان میں کپڑے کا ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے دو پر تھے ۔ آپ نے پوچھا : میں ان کے درمیان یہ کیا دیکھ رہا ہوں ؟ میں نے کہا : یہ گھوڑا ہے ۔ آپ نے پوچھا : اور اس کے اوپر کیا ہے ؟ میں نے کہا : اس کے دو پر ہیں ۔ آپؐ نے کہا : کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں ؟ عائشہ ؓ نے کہا : آپ نے سنا نہیں کہ حضرت سلیمانؑ کے گھوڑے کے پر تھے ؟ کہتی ہیں : چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس قدر ہنسے کہ میں نے آپ کی ڈاڑھیں دیکھیں ۔ " 12
کیا تصویر فی نفسہٖ حرام ہے یا اس کی حرمت خارجی وجوہ پر موقوف ہے ؟
اس بنا پر میں مسئلہ تصویر کو قیاسی علت کی بجائے سد ذرائع کی حکمت کا ایک مسئلہ سمجھتا ہوں چونکہ سد ِ ذرائع کے اندر اُصول یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ ذریعہ کتنا طاقتور ہے ؟ یعنی شرعی مصلحت کا تقابل کیا جاتا ہے ۔ جہاں تک ممنوع ذرائع ہیں مثلاً شرک اور فحاشی وغیرہ تو یہ بذاتہ حرام ہیں ، تصویر اگر نہ بھی ہو تب بھی حرام ہیں ، البتہ تصویر کی ذاتی حرمت کے بارے نبی کریمؐ کے واضح ارشادات کی موجودگی میں یہ شبہ نہیں ہو سکتا کہ تصویر کو اصلاً مباح قرار دیا جائے ۔ ( ii )
حدیث ِ رسولؐ کے بجائے اپنی توجیہ وتعلیل پر زیادہ اعتماد کرنے کی بنا پر غامدی صاحب کو شبہ لاحق ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تصویر فی نفسہٖ حرام نہیں بلکہ یہ مستحسن اور مطلوب امر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جمیل ہیں اور جمال سے محبت کرتے ہیں اور انسان فنونِ لطیفہ کی صورت میں جو بھی لطافت دکھاتا ہے تو وہ درحقیقت انسان کی روحانی ، اخلاقی اور جمالیاتی قوتوں کا اظہار ہوتا ہے اور انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ اپنی ان تمام قوتوں کو فروغ دے ۔
یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی قوتوں کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ ترغیب بھی دی ہے ۔ البتہ یہ ضرور ملحوظ رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں منع کی ہیں ، ان کے اندر کوئی نہ کوئی شیطانی دخل ہو سکتا ہے ۔
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ تصویر ہو یا رقص و سرود ، یہ موسیقی کی طرح فنونِ لطیفہ میں شامل ہیں جو کسی انسان کی فنی مہارت ہے بلکہ موسیقی روح کی غذا ہے ۔
میں کہتا ہوں کہ کم از کم یہ غور کر لیتے کہ یہ روح کی غذا ہے یا بد روح کی غذا ۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ انسان کا ذوق جمال ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ ذوقِ جمال تو انسان کا یہ ہے کہ وہ ہر وقت عورت صنف ِ نازک کو دیکھتا رہے ۔ کسی عورت نے مرد سے کہا تھا کہ تومجھے کیوں گھور رہا ہے :
کسی کی جو صورت پہ ہوتے ہیں شیدا
آخر وہ رنج و اَلم دیکھتے ہیں !
تو مرد نے آگے سے دانشورانہ جواب دیا تھا کہ تم مجھے کیوں ملامت کرتی ہو :
نہ تجھ سے غرض ہے نہ صورت پہ تیری
مصور کا ہم تو قلم دیکھتے ہیں
اصل بات یہ ہے کہ اس طرح کی تاویلیں کرنے والے تو بڑے ہیں ۔ گلوکارہ نورجہاں بھی کہتی تھی کہ ہم سے زیادہ نیکی کا کام کون کرتا ہے ؟ ہم تو گانے اور اداکاری سے لوگوں کے مردہ دلوں کو زند ہ کرتے ہیں ، ان کے دل لگاتے ہیں ۔ اس طرح اگر یہ بات مان لی جائے تو دنیا کے تمام شیطانی کام جائز ہو جائیں گے ۔ پھر تو نام نہاد فطرت کے بعض شیدائیوں کے بقول انسانوں کو ننگا پھرنا چاہئے اور لوگوں کو اپنا ننگا پن دکھانا بھی چاہئے جس کی دلیل یہ ہے کہ اس سے دکھی انسانوں کو خوشی ملتی اور ان کا علاج ہوتا ہے ۔
غامدی صاحب کے شاگرد جناب محمد رفیع مفتی اپنی کتاب " تصویر کا مسئلہ " میں لکھتے ہیں :
" تصویر کے بارے میں قران کی آیات اور احادیث کی رہنمائی سے یہ بات تو کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ مذہب کا تصویر پر اعتراض صرف اور صرف کسی دینی یا اخلاقی خرابی ہی کی بنا پر ہے ، ورنہ وہ ان چیزوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہتا ۔ چنانچہ نقاشی ، مصوری ، فوٹوگرافی ، مجسمہ سازی میں سے جو چیز بھی کسی دینی یا اخلاقی خرابی کا باعث بنے گی ، وہ اس خاص حوالے سے ممنوع قرار پائے گی ۔ " 13
چنانچہ محمد رفیع مفتی صاحب کے بقول کسی خاص علاقے اور کسی خاص دور میں یہ مسئلہ صرف اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب مجسمہ سازی شرک کی طرف رغبت کا ذریعہ بننے لگے تو اس وقت تصویر حرام ہوگی ۔ اُنہوں نے تصویر سے پیدا ہونے والے شرک کو کسی خاص علاقے میں کسی خاص دور کا مسئلہ قرار دیا ہے جو ان کی بنیادی غلطی ہے ۔ دراصل تصویر کی بقا ہمیشہ ہی سے ایک خطرہ رہی ہے ۔ جب پہلے پہل نیک لوگوں کی تصویریں بنائی گئی تھیں تو ان کو اس وقت قطعاً یہ خیال نہ تھا کہ یہ بعد میں معبود بنا لئے جائیں گے ، معبود بنانے والے تو بعد میں آتے ہیں ۔ آج ذرا محمد علی جناح یا علامہ اقبال کی تصویر کو نیچے گرا کر تو دیکھئے یا کسی بڑے سیاسی لیڈر یا سرکاری عہدے دار ہی کی تصویر کو نیچے گرا دیجئے تو ایک طوفان برپا ہو جائے گا ۔ چنانچہ کسی تصویر کا اِ کرام کرنے والے تو بعد میں آتے ہیں ، لہٰذا تصویر کی حرمت کی وجہ ہمیشہ سے موجود ہے ۔
میری نظر میں شرک اور فحاشی کے علاوہ بھی تصویر کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں وہ حرام ہوگی مثلاً ان کا دکھاوا ہو رہا ہو یا ان کا غیر معمولی اِ کرام ہو ۔ شرک اور فحاشی کے علاوہ تصویر میں یہ دو چیزیں بھی اگر پائی جائیں تو ایسی تصویریں حرام ہیں ۔
میڈیا کی اہمیت
فی الوقت ہمیں نبی ؐکے زمانہ کی طرح خدشۂ شرک اور بچیوں کی تربیت وغیرہ کا تقابلی مسئلہ درپیش ہے ۔ اس دور میں " انفارمیشن ٹیکنالوجی " ( میڈیا ) اپنے مقاصد کو پھیلانے کا بہت بڑے ذریعے بن گئے ہیں ۔ آج الیکٹرانک میڈیا تو اتنا تیز جا رہا ہے کہ ہمارا پرنٹ میڈیا بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔ لوگوں پر اس کے اثرات اس قدر بڑھتے جا رہے ہیں کہ کل کلاں حدیث ِ نبوی ﷺ کی تدوین اور تحریر کے دلائل پیش کرنے کے بجائے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ مجموعہ حدیث کمپیوٹرائزڈ ہے یا نہیں ؟ جب کہ تحریر وت دوین ہو یا کمپیوٹرائزیشن یہ تو ہر زمانے کے ذرائع ابلاغ اور ان کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں ۔ میں اس بات کی بھرپور حمایت کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے ذرائع ابلاغ کے اندر جدید ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کرنا چاہئے اور ہمیں خود چینلز قائم کرنے چاہئیں ۔
شرع کے حوالے سے بعض علماء کی یہ بات کہ دوسروں سے وقت خریدا جائے اور اپنا چینل قائم نہ کیا جائے ، مجھے اس کا فرق سمجھ نہیں آیا ۔ اس لئے کہ اگر آپ اپنا چینل قائم کرنا جائز سمجھتے ہیں تو وقت خریدنے کی کیا ضرورت ہے ۔ بہت ضروری ہے کہ جدید ذرائع جو حصولِ خیر کا باعث بن سکتے ہیں ، ان کو قطعاً نہ چھوڑا جائے ، بلکہ مزید مروّجہ ذرائع کو بھی پوری طرح فروغِ اسلام کے لئے استعمال کرنا چاہئے ۔
قابل احترام تصاویر سے ہر ممکنہ احتراز
تصویر کے سلسلے میں یہ احتیاط بھی ضروری ہے کہ تصویر کا اِ کرام بھی حرام یا کم از کم مکروہ امر ضرور ہے ۔
چنانچہ اس احتیاط کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ احترام والی تصویر کی گنجائش اس سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے جتنی شرع نے اجازت دی ہے ۔ اگرچہ جدید الیکٹرانک میڈیا کے حوالہ سے ایک نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ اس میں بعض اوقات تصویر ظاہری طور پر موجود نہیں ہوتی لہٰذا اور وہاں احترام کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا تاہم اگر یہ تصاویر ظاہر ہو جائیں یا عام ظاہری تصاویر وغیرہ موجود ہوں تو اُن کو نمایاں جگہ پر رکھنے سے کلی احتراز کرنا چاہئے ۔ جہاں تک شناختی کارڈ یا دیگر سرکاری و دفتری نوعیت کی تصویروں کا تعلق ہے تو ایسی تصاویر کو رکھنا ہماری نہیں بلکہ ہمارے قانون کی مجبوری ہے ، اس لئے ان تصاویرسے دل میں نفرت ضرور ہونی چاہئے ۔
یہاں میں امام ابو حنیفہ ؒ کے حوالے سے ایک تنبیہ کی بات ذکر کرتا ہوں ۔
امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص داڑھی مونڈ کر شیشہ دیکھے اور شیشہ دیکھ کر خوش ہو تو وہ کافر ہو جاتا ہے ۔ داڑھی مونڈ کر شیشہ دیکھنے کے بعد خوشی سے معلوم ہوا کہ اسے اس برائی سے دل میں بھی نفرت نہیں رہی ، اس لئے کہ نہی عن المنکر کا آخری درجہ تو برائی سے نفرت کا ہے اور اگر وہ بھی جاتی رہی تو ایمان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہا ۔
غرض اگر کوئی خوشی سے تصویر کھنچواتا ہے تو پھر واقعی مذمت کا مستحق ٹھہرتا ہے ، لیکن اگر یہ تصویر اس لئے کھنچوائی جائے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اسلامی مقاصد کے لئے ذرائع ابلاغ سے فائدہ اُٹھا سکیں یا اپنا الیکٹرانک چینل قائم کریں اور ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں تو یہ جدید ٹیکنالوجی ایک تمدنی ارتقا ہونے کے ناطے کوئی ممانعت نہیں ہے ہمیں اپنے چینل بھی قائم کرنے چاہئے اور اُنہیں استعمال بھی کرنا چاہئے ۔
تصویر کی حرمت ہمیشہ سے ہے اور تا قیامت برقرار رہے گی!
مذکورہ بالا اہمیتوں اور احتیاطوں کے باوصف میں آخر میں واضح الفاظ میں کہوں گا کہ تصویر قدیم شریعتوں میں بھی حرام تھی اور آج بھی حرام ، البتہ بعض چیزیں بعض درمیانی اَدوار میں محدود مدت کے لئے جائز ہوئیں جب کہ شریعتیں تمام انسانیت کے اعتبار سے ابھی مکمل نہیں تھیں ، جیسا کہ حضرت سلیمان ؑکے زمانہ میں مجسّمے جائز تھے اور حضرت یوسف کے زمانے میں سجدۂ تعظیمی جائز تھا ۔ آدم ؑ کو سجدہ ٔ تعظیمی کروایا گیا لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت جو کامل و اکمل ہے اور جو ہر قسم کے حالات اور ہر قسم کے زمانہ کے لئے ایک دائمی شریعت ہے ، اس کے احکامات بھی تا قیامت دائمی ہیں ۔
کسی خاص نبی کے زمانے میں اگر کوئی چیز جائز ہو تو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ شریعت ِ کا ملہ کے اندر وہ چیزخود بخود جائز ہو جائے گی ۔
اگر پہلی شریعتوں میں بعض چیزیں مثلاً سجدۂ تعظیمی جائز تھا یا تصویر جائز تھی اور آج اگر غامدی حلقہ اس بنا پر تصویر کو جائز قرار دیتا ہے تو یہ استدلال درست نہیں جیسا کہ آج سجدہ تعظیمی بھی جائز نہیں ہو سکتا ۔
هذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب
ہ------------------ہ
حوالہ جات
1. صحیح بخاری : 71
2. صحیح بخاری : 5954
3. صحیح بخاری : 5951
4. صحیح بخاری ، کتاب التفسیر : 4920
5. صحیح بخاری : 5963
6. مسند احمد : 1 ، 308 و أصله في البخاري
7. صحیح سنن نسائی : 4958
8. بحوالہ حکم التصویر في الإسلام : 66
9. بخاری : 10 ، 434 ، مسلم : 7 ، 125 ، احمد : 6 ، 166 ، 233 ، 244 ، و اللفظ لہ ، ابن سعد : 8 ، 66
10. بخاری : 4 ، 163 ، مسلم : 3 ، 152 ۔ اصل عبارت صحیح مسلم کی ہے اور کچھ زیادہ باتیں دیگر روایات سے لی ہیں
11. دیکھیں " تصویر کا مسئلہ " از محمد رفیع مفتی : ص95
12. صحیح سنن ابوداود : 4123
13. ص 94
ہ i. مناہج شریعت اور مناسک ِ شریعت میں فرق ہے! تمدنی ارتقا کے حوالہ سے ایک نکتہ استطرادًا واضح رہنا چاہئے کہ کیا ذرائع اور وسائل کی تبدیلی سے شرعی حکم بدل جاتا ہے ؟ ظاہر ہے شریعت ِ محمدی دائمی ہے ، اگر تصویر پہلے حرام تھی تو اب بھی حرام ہے ، البتہ ایک پہلو واضح کرنا ضروری ہے جس کا تعلق مسئلہ نسخ سے ہے کیونکہ مسائل کی ایک قسم ایسی ہے جس کا اصل تعلق مناسک ِ شریعت یعنی حلال و حرام سے ہے اور دوسرے مسائل وہ ہیں جن کا تعلق نفاذِ شریعت ( یعنی مناہج شریعت ) سے ہے ۔ مثال کے طور پر مُتعہ ہنگامی طور پر نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں کئی دفعہ حلال ہوا اور کئی دفعہ حرام کیا گیا لیکن آخری بار متعہ کو حرام کر دیا گیا ۔ اب کوئی شخص حرمت ِ متعہ کی کوئی ہنگامی وجہ تلاش کرے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس خاص وجہ سے متعہ کو حرام کیا تھا اور آج متعہ پھر جائز ہو سکتا ہے تو وہ غلطی کرے گا ۔ اس لئے کہ مناسک ِ شریعت کے اندر جب نسخ ہو جاتا ہے تو پھر وہ دائمی حیثیت رکھتا ہے ۔ البتہ مناہج شریعت میں نسخ کا وہ معنی نہیں ہے جو مناسک ِ شریعت میں ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ ، سیوطی اور زرکشی رحمہم اللہ نے اس کی اچھی وضاحت کی ہے کہ وہاں اس کا تعلق حالات سے ہوتا ہے کہ حالات کی بنا پر جو طریقہ بھی موزوں ہو ، اسے اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ اس بنا پر ہر دو مقام ( مناہج اور مناسک ) میں نسخ کے معنی مختلف ہوتے ہیں ۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودیٰ نے یہ فرق ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے بعض ناگزیر حالات میں متعہ کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا تھا ، لیکن آخرکار اُنہوں نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا ۔
ہ ii. کتاب و سنت کی خصوصی تعلیمات کے ذریعہ جو شئے حرام کر دی جائے ، وہ اصلاً حرام ہی ہوتی ہے ، کیونکہ توجیہ و تعلیل بہر صورت ہمارا اجتہاد ہوتا ہے جس میں غلطی کا امکان بہر حال ہے اور جب صریح نصوص تصویر کی حرمت اور مصورین پر وعید کی موجود ہیں تو نص کے مقابلہ میں اجتہاد پر اعتماد مؤمن کا شیوہ نہیں ۔
ہ^^^^^^^^^^^^^^^^^ہ
جدید الیکٹرانک میڈیا کا دینی مقاصد کے لئے استعمال اور اس کا شرعی جائزہ
محمد یوسف خان
ءءءءءءءءءءءءءءءء
تصویر کی تعریف :
تصویر کسی حیوان کا ایسا نمونہ تیار کرنے کا نام ہے جو اس حیوان کی شکل واضح کر دے ، وہ نمونہ خواہ مجسم ہو یا مسطح ، سایہ دار ہو یا غیر سایہ دار 1
تخلیقِ خداوندی کی مشابہت پیدا کرنا اور اس کی نقالی کرنا تصویر کہلاتا ہے ۔
" التصاویر جمع التصویر ھو فعل الصورة والمراد به ھنا ما یتصور مشبھا بخلق اﷲ من ذوات الروح مما یکون علی حائط أوستر کما ذکرہ ابن المالك " 2
یہ مشابہت اور نقالی عام ہے خواہ مجسمہ کی صورت میں ہو یا نقش و رنگ کی صورت میں اور خواہ قلم سے اس کی نقاشی کی جائے یا پریس وغیرہ پر چھاپا جائے اور یا فوٹو وغیرہ کے ذریعہ عکس کو قائم کیا جائے ، یہ سب تماثیل اور تصاویر کہلاتے ہیں ۔ 3
تصویر کی ممانعت پر دلالت کرنے والی احادیث ِ مبارکہ :
عن عائشة قالت قدم رسول ﷺ من سفر و قد سترت بقرام لي فیها تماثیل فلما رآہ رسول اﷲ ﷺ ھتکه و قال :
( أشد الناس عذابا یوم القیامة الذین یضاھون بخلق اﷲ علی سهوة لي ) ۔
[قالت عائشة : فقطعناہ فجعلنا منه] وسادة أو وسادتین 4
" حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر سے واپس آئے ، میں نے ایک طاقِ الماری پر پردہ ڈالا ہوا تھا جس میں تصاویر تھیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اس کو دیکھا تو پھاڑ ڈالا اور فرمایا کہ قیامت کے روز سب سے زیادہ سخت عذاب میں وہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی صفت ِ تخلیق کی نقل اتارتے ہیں ۔ پھر ہم نے اس کو پھاڑا اور اس کے ایک یا دو گدے بنائے تھے ۔ "
عن عائشة قالت قدم النبي ﷺ من سفر و علَّقت درنوکًا فیه تماثیل فأمرني أن أنزعه فنزعته 5
" حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ سفر سے واپس تشریف لائے تو میں نے ایک چھوٹا کپڑا ( دیوار پر ) لٹکایا ہوا تھا جس میں تصاویر تھیں ۔ آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ اس کو ہٹا دوں ، سو میں نے ہٹا دیا ۔ "
حدیث ِ مذکور میں بروایت ِ صحیح مسلم پردہ پر " گھوڑے کی تصاویر " ہونا مذکور ہیں ۔ 6
عن ابن عباس عن أبي طلحة قال النبي ﷺ :
لا تدخل الملئکة بیتا فیه کلب ولا تصاویر ۔ 7
" حضرت ابن عباسؓ نے حضرت ابو طلحہؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصاویر ہوں ۔ "
تصویر کے متعلق ائمہ مجتہدین کی آرا :
ذی روح کی مجسم تصاویر کی حرمت پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے بشرط یہ کہ اس کے اعضاء مکمل ہوں اور اس کا کوئی ایسا عضو مفقود نہ ہو جس پر زندگی کا انحصار ہوتا ہے نیز وہ تصویر بہت چھوٹی نہ ہو اور وہ تصویر لعب البنات کے قبیل سے نہ ہو ۔
ذی روح کی غیر مجسم تصاویر کی حرمت پر ائمہ ثلاثہ ( امام ابوحنیفہ ، امامِ شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ) کا اتفاق ہے اور امام مالک ؒ سے بھی ایک روایت جمہور کے موافق منقول ہے ۔
دوسری روایت میں امام مالک ؒ سے غیر مجسم تصاویر کا جواز بکراہت ِ تنزیہی منقول ہے ۔
بہت سے علمائے مالکیہ نے اس روایت کو اختیار کیا ہے اور بعض نے بلا کراہت جائز کہا ہے ۔ 8
فالحاصل أن المنع من اتخاذ الصور مجمع علیه فیما بین الأئمة الأربعة إذا کانت مجسدة ، أما غیر المجسدة منھا فاتفق الأئمة الثلاثة علیٰ حرمتھا أیضاً و المختار عن الأئمة المالکیة کراھتھا لکن ذھب المالکیة الیٰ جوازھا 9
" خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کے نزدیک تصویر کشی بالاتفاق ناجائز ہے جب کہ وہ مجسم شے ہو ۔ البتہ غیر مجسم شئے کی تصویرکشی کی حرمت پر تین ائمہ فقہا تو متفق ہیں ، اور مالکیہ کا مختار مسلک کراہت کا ہے لیکن بعض مالکیہ کے ہاں اس کا جواز بھی پایا جاتا ہے ۔ "
و کان أبوھریرة یکرہ التصاویر ما نصب منھا و ما بسط و کذلك مالك إلا أنه کان یکرھھا تنزیھا ، و لا یراھا محرمة ۔ 10
" حضرت ابو ہریرہ گاڑی اور لٹکائی ہوئی تصاویر کو ناپسند سمجھتے تھے ، امام مالک بھی یہی موقف رکھتے تھے لیکن ان کی رائے میں یہ کراہت ِ تنزیہی ہے ، حرمت والی کراہت نہیں ۔ "
دلائل :
امام مالک اس حدیث
ان النبي ﷺ قال :
( لا تدخل الملائکة بیتًا فیه صورة إلا رقماً في ثوبٍ ) سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں ایسی تصویر کا استثنا کیا گیا ہے جو کسی کپڑے پر نقش ہو ، اس سے معلوم ہوا کہ بے سایہ تصویر جائز ہے ۔
جب کہ جمہور فقہا کی نہایت صریح دلیل حضرت عائشہؓ کا وہ واقعہ ہے جس میں آپ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے کمرے میں ایک پردہ لٹکا دیا تھا جس میں تصویریں نقش تھیں ۔ جب آپ ﷺ کمرے میں داخل ہوئے اور آپؐ کی نظر اس پر پڑی تو رک گئے اور آپ ﷺ نے اس پر نکیر فرمائی ۔
بعض روایات میں ہے کہ آپ ﷺ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک تم اس کو نہیں نکالوگی میں گھر میں داخل نہیں ہوں گا ، کیونکہ اس پر تصویر ہے ۔
اب اس حدیث ِ مبارکہ کی روشنی میں إلا ما کان رقمًا في ثوبٍ والی حدیث میں لفظ رقم سے مراد ایسا نقش ہے جس میں کسی ذی روح کی تصویر نہ ہو ، لیکن مالکیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث کے راوی قاسم بن محمد ہیں اور قاسم بن محمد خود اس بات کے قائل ہیں کہ بے سایہ تصویر جائز ہے ۔ اور حنفیہ کا اُصول ہے کہ جہاں کوئی راوی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتویٰ دے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ حدیث یا تو مؤول ہے یا منسوخ ۔ ( حسامی : ص ۷۶ )
علاوہ ازیں تصویر کی حرمت پر بے شمار احادیث موجود ہیں اور سب مطلق ہیں ۔
ناقص تصویر کا حکم :
سر کٹی تصویر اگرچہ ہاتھ پائوں وغیرہ موجود ہوں تو باتفاقِ ائمہ جائز ہے ۔
سر تو باقی ہو ، لیکن کوئی ایسا عضو کٹا ہو جس پر زندگی کا مدار ہوتا ہے ، مثلاً پیٹ ، سینہ وغیرہ تو ایسی تصویر میں علماء کا اختلاف ہے ۔
مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک جائز ہے اور شامی میں بھی یہی حکم مذکور ہے جب کہ شوافع کے راجح قول میں ناجائز ہے اور جواز کا قول مرجوح ہے ۔
ایسا عضو کٹا ہو جس پر زندگی کا مدار نہ ہو مثلاً ہاتھ ، پائوں ، ناک ، کان تو ایسی تصویر بالاتفاق ناجائز ہے :
و الحاصل أنه یحرم تصویر حیوان عاقل وغیرہ إذا کان کامل الأعضاء إذا کان یدوم إجماعًا و کذا إن لم یدم علی الراجح کتصویرہ من نحو قشر بطیخ و یحرم النظر إلیه إذا النظر المحرم حرام بخلاف ناقص عضو فیباح النظر إلیه وغیر ذي ظل کالمنقوش في حائط أو ورق فیکرہ إن کان غیر ممتھن و إلا فخلاف الأولیٰ کالمنقوش في الفرش ۔ أما تصویر غیر الحیوان کشجرة و سفینة فجائز ۔ قوله : بخلاف ناقص عضو مثله ما إذا کان مخروق البطن 11
" خلاصہ یہ کہ عاقل حیوان وغیرہ کی تصویر حرام ہے جب تصویر میں اس کے تمام اعضا مکمل ہوں ۔ جب اس میں استقرار و دوام ہو تب تو ایسی تصویر بالاجماع حرام ہے ، اور اگر اس مں دوام نہ ہو مثلاً تربوز کے چھلکے پر تصویر کشی تو راجح قول کے مطابق حرام ہے ۔ اور ایسی تصویر کو دیکھنا بھی ناجائز ہے کیونکہ حرام شے کو دیکھنا بھی حرام ہوتا ہے ۔ برخلاف ایسی تصویر کے جس کے اعضا ناقص ، کٹے ہوں یا ایسی تصویر جو بغیر سائے کے ہو مثلاً دیوار یا کاغذ وغیرہ پر بنائی گئی تصویر تو اس کو دیکھنا حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے بشرط یہ کہ وہ محل اہانت میں نہ ہو ۔ اور اگر وہ محل اہانت میں ہو مثلاً فرش پر تصویر تو پھر اس کو دیکھنا جائز ہے ۔ جہاں تک غیر جاندار کی تصویر کا معاملہ ہے مثلاً درخت یا کشتی وغیرہ تو یہ جائز ہے ۔ اور یہی حکم کٹے ہوئے اعضا کی تصویر ہے جب کہ اس کا پیٹ کٹا ہوا ہو ۔ "
و إن قطع منه ما لا یبقی الحیوان بعد ذھابه کصدرہ أو بطنه أو جعل له رأس منفصل عن بدنه لم یدخل تحت النھي لأن الصورة لا تبقی بعد ذھابه فهو کقطع الرأس ۔ و إن کان الذاھب یبقی الحیوان بعدہ کالعین والید والرجل فھو صورة داخلة تحت النھي ۔ 12
" اگر تصویر سے ان اعضا کو کاٹ دیا جائے مثلاً سینہ ، پیٹ جن کے کٹنے کے بعد زندگی باقی نہیں رہتی یا اس کے بدن کو سر سے جدا کر دیا جائے ، تو اس وقت یہ تصویر ممانعت میں داخل نہ ہو گی کیونکہ سر کٹنے کی طرح ان کے کٹنے کے بعد بھی صورت باقی نہیں رہتی ۔ البتہ اگر ایسا عضو کاٹا جائے جس کے بعد زندگی برقرار رہتی ہے مثلاً آنکھ ، ہاتھ اور پائوں وغیرہ تو ایسی تصویر ممانعت میں داخل ہے ۔ "
أو ممحوة عضو ألزم تعمیم بعد تخصیص ، و ھل مثل ذلك ما لو کانت مشقوبة البطن مثلاً الظاھر أنه لو کان الثغب کبیرًا یظھر به نقصھا فنعم ، و إلا فلا و ھذا مذھب الشافعي ، اختلفوا فیما إذا کان المتطوع غیر الرأس و قد بقي الرأس و الراجح عندھم في ھذہ الحالة التحریم ۔ 13
" یا تصویر کا کوئی عضو مٹا ہو تو تخصیص کے بعد عموم لازم آئے گا ۔ اور کیا جس کا پیٹ چاک ہوا ہو ، اس کا بھی حکم ایسا ہی ہوگا ؟ تو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ اگر گھائو بڑا ہے جس سے شخصیت میں نقص واضح ہو رہا ہے تو اس صورت میں تصویر کا جواز ہے وگرنہ نہیں اور یہ امام شافعی کا قول ہے ۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ متطوع اگر بغیر سر کے ہو ، اور سر باقی رہ گیا ہو تو اس صورت حال میں راجح موقف حرمت کا ہی ہے ۔ "
کیمرہ کی تصویر :
کیمرہ کی تصویر کے بارے میں اکثر فقہائے کرام تو یہ کہتے ہیں کہ آلے کے بدل جانے سے حکم نہیں بدلتا ، یہ چیز پہلے ہاتھ سے بنائی جاتی تھی ، اب مشین سے بننے لگی ہے ، محض آلہ کی تبدیلی سے کسی چیز کی حلت اور حرمت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اگر تصاویر ناجائز ہیں تو خواہ ہاتھ سے بنائی گئی ہوں یا مشین سے ، دونوں ناجائز ہیں ۔
البتہ مصر کے ایک عالم دین علامہ شیخ محمد بخیت ؒ جو عرصۂ دراز تک مصر کے مفتی بھی رہے ، بڑے عالم اور متقی تھے ، محض ہوا پرست نہیں تھے ۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ کیمرے سے لی جانی والی تصویر جائز ہے ۔ دلیل میں فرمایا کہ حدیث میں جس تصویر کی ممانعت کی گئی ہے ، اس کی علت " مشابہت بہ خلق اللہ " ہے اور اللہ کی تخلیق سے مشابہت اسی وقت ہو سکتی ہے جب کوئی شخص اپنے تصور و تخیل سے اور اپنے ذہن سے ہاتھ کے ذریعے کوئی صورت بنائے ۔ حالانکہ کیمرے کی تصویر میں تخیل کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ کیمرے کی تصویر میں یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی ایک مخلوق پہلے سے موجود ہے ، اس مخلوق کا عکس لے کر محفوظ کر لیا جاتا ہے ، لہٰذا یہاں مشابہت بہ خلق اللہ نہیں پائی جاتی بلکہ یہ حَبْس الظل ہے جو ناجائز نہیں ۔
مصر اور بلادِ عرب کے بہت سے علماء نے اس بارے میں ان کی تائید بھی کی ہے ، لیکن علماء کی اکثریت نے اس زمانے میں بھی اور بعد میں بھی ، خصوصاً ہند و پاک کے علماء نے ان کے استدلال کو قبول نہیں کیا ہے اور ان کا یہی موقف ہے کہ مشابہت بہ خلق اللہ ہر صورت میں متحقق ہو جاتی ہے ، چاہے تصویر کیمرے سے بنی ہو یا ہاتھ سے ۔ لہٰذا جمہور علماء کے نزدیک واضح یہی ہے کہ کیمرے کی تصویر کا وہی حکم ہے جو ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر کا ہے ، لہٰذا اس سے پرہیز کرنا ضرور ی ہے ، البتہ اس اختلاف سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہ مسئلہ دو وجہ سے مجتہد فیہ معاملہ بن گیا ہے ۔ ایک تو امام مالک کا اختلاف ہے ، دوسرے علامہ بخیط کا فتویٰ موجود ہے اگرچہ وہ فتویٰ ہمارے نزدیک درست نہیں ۔ لیکن بہر حال ایک جدید شئے کے بارے میں ایک متورّع عالم کا قول موجود ہے ، اس لئے یہ مسئلہ مجتہدفیہ بن گیا ۔ 14
نیز کیمرے کی تصویر اگر صرف جسم کے اوپر کے نصف کی ہو جس میں پیٹ موجود نہ ہو تو مسئلہ میں مزید تحفیف ہو جائے گی ، کیونکہ یہ حنابلہ کے یہاں جائز ہے یا بعض شوافع و احناف کے نزدیک بھی ۔
" و إنِ قطع منه ما لا یبقی الحیوان بعد ذھابه کصدرہ و بطنه لم یدخل تحت النھي " ۔ 15
" اگر تصویر سے ان اعضاء کو کاٹ دیا جائے مثلاً سینہ ، پیٹ جن کے کٹنے کے بعد زندگی باقی نہیں رہتی یا اس کے بدن کو سر سے جدا کر دیا جائے ، تو اس وقت یہ تصویر ممانعت میں داخل نہ ہو گی ۔ "
لکنها غیرت من ھیئتھا إما بقطعھا من نصفھا أو بقطع رأسھا فلا امتناع ۔ 16
" لیکن اگر تو نے اس کی ہیئت کو بگاڑ دیا ، سر کو کاٹ کر یا نصف جسم سے کاٹ کر ، تو ایسی صورت میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ "
لو قطعت من ذي الروح لما عاش دل ذلك علی إباحة ۔ 17
" اگر جاندار کی تصویر کو اس طرح کاٹ دیا جائے کہ اس صورت میں جاندار زندہ نہ رہ سکے تو پھر یہ فعل ایسی تصویر کے جواز پر دلالت کرتا ہے ۔ "
أو مقطوعة الرأس أو الوجه أو ممحوة عضو لا تعیش بدونه ۔ 18
" یا سر بریدہ ہو ، یا چہرہ غائب ہو ، یا کوئی ایسا عضوء مٹا ہو جس کے بغیر زندگی محال ہے ۔ "
ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر :
جس کیمرے میں تصویر والے نیگٹیوز نہیں ہوتے ہیں بلکہ اس میں صرف برقی شعائیں خاص ترتیب سے محفوظ ہوتی ہیں جیسے ڈیجیٹل کیمرہ تو اس کا حکم یہ ہے کہ جب تک وہ شعاعیں کسی کاغذ پر پرنٹ نہ ہوں تو اس وقت تک ان شعائووں کو تصویر قرار دینے میں علماء کی دو رائیں ہیں ۔ ہماری تحقیق کے مطابق اُنہیں تصویر قرار دینے میں تامل ہے ، لیکن جب ان شعائووں کو کسی کاغذ پر پرنٹ کیا جائے گا تو وہ تصویر کے حکم میں ہی ہوں گی ۔ 19
ٹیلی ویژن پر پیش کی جانے والی تصاویر :
ٹیلی ویژن پر پیش کی جانے والی تصاویر کی تین قسمیں ہیں :
پہلی قسم
وہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر ایسی چیز دکھائی جائے جو پہلے سے تصویر کی شکل میں موجود ہے ۔ اس کو بڑا کر کے ٹی وی سکرین پر دکھایا جا رہا ہے تو یہ تصویر نہیں بلکہ تصویر کا ظل اور سایہ ہے ، جیسا کہ کویتی موسوعہ فقہیہ میں ہے :
" و من الصّور غیر الدائمة ظل الشيء إذا قابل أحد مصادر الضوء ۔ ۔ ۔ و من الصور غیر الدائمة الصور التلیفزیونیة فإنھا تدوم ما دام الشریط متحرکًا فإذا وقف انتھت الصورة " ۔ 20
" غیر دائمی تصاویر میں سے شئے کا سایہ بھی ہے جب اس کو روشنی کے مرکز کے بالمقابل کھڑا کیا جاتا ہے ... ایسے ہی غیر دائمی تصاویر میں ٹی وی کی تصاویر بھی شامل ہیں کیونکہ یہ اسی وقت تک ہی باقی رہتی ہیں ، جب تک کیسٹ چلتی رہتی ہے ، جب کیسٹ رک جاتی ہے ، تصویر بھی رک جاتی ہے ۔ "
دوسری قسم
وہ ہے جس میں فلم کا واسطہ درمیان میں نہیں ہوتا ۔ بلکہ براہِ راست وہ چیز ٹیلی ویژن پر کاسٹ کی جاتی ہے
مثلاً ایک آدمی ٹی وی سٹیشن میں بیٹھا ہوا تقریر کر رہا ہے ۔ یا کسی اور جگہ تقریر کر رہا ہے اور ٹی وی کیمرے کے ذریعے براہِ راست اس کی تقریر اور اس کی تصویر ٹی وی سکرین پر دکھائی جا رہی ہے ۔ درمیان میں فلم اور ریکارڈنگ کا کوئی واسطہ نہیں تو یہ بھی تصویر کے حکم میں نہیں ۔ کیونکہ تصویر وہ ہوتی ہے جس کو کسی چیز پر علیٰ صفت الدوام ، ثابت اور مستقر کر دیا جائے ۔
لہٰذا اگر وہ تصویر علیٰ صفت الدوام کسی چیز پر ثابت اور مستقر نہیں ہے تو پھر وہ تصویر نہیں ہے بلکہ عکس ہے ۔
لہٰذا براہِ راست دکھائی جانے والی تصویر عکس ہے ، تصویر نہیں ۔
مثلاً کوئی شخص یہاں سے دو میل دور ہے اور اس کے پاس ایک شیشہ ہے ، اس شیشہ کے ذریعے وہ یہاں کا منظر دیکھ رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ شخص دو میل دور بیٹھ کر شیشے میں یہاں کا عکس دیکھ رہا ہے ، وہ تصویر نہیں دیکھ رہا ہے ، اس لئے کہ یہ عکس کسی جگہ پر ثابت اور مستقر علیٰ صفت الدوام نہیں بالکل اسی طرح براہِ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کی صورت میں برقی ذرات کے ذریعہ انسان کی صورت کے ذرات منتقل کئے جاتے ہیں ، پھر ان کو سکرین کے ذریعہ دکھایا جاتا ہے ، لہٰذا یہ عکس ہے تصویر نہیں ۔
تیسری قسم
وہ ہے جو ویڈیو کیسٹ کے ذریعہ دکھائی جاتی ہے ۔ یعنی ایک تقریر اور اس کی تصاویر کے ذرّات کو لے کر ویڈیو کیسٹ میں محفوظ کر لیا ۔ اور پھر ان ذرات کو اسی ترتیب سے چھوڑا تو پھر وہی منظر اور تصویر نظر آنے لگے ۔
اس کو بھی تصویر کہنا مشکل ہے ، اس لئے کہ جو چیز ویڈیو کیسٹ میں محفوظ ہوتی ہے ، وہ صورة نہیں ہوتی بلکہ وہ برقی ذرات ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اگر ویڈیو کیسٹ کی ریل کو خوردبین لگا کر بھی دیکھا جائے تو اس میں تصویر نظر نہیں آئے گی ۔ اس لئے یہ تیسری قسم بھی تصویر کے حکم میں نہیں آتی ۔ 21
في تکملة فتح الملھم :
إن صورة التلفزیون و الفیدیو لا تستقر علی شيء في مرحلة من المراحل إلا إذا کان في صورة فیلم ۔ فإن کانت صورة الإنسان حیة بحیث تبدو علیٰ الشاشة في نفس الوقت الذي یظھر فیه الإنسان أمام الکیمراء فإن الصورة لا تستقر علی الکیمراء و لا علی الشاشة الأصلي و إنما ھي أجزاء ثم تنفي و تزول إما إذا احتفظ بالصورة في شریط الفیدیو فإن الصورة لا تنقش علیٰ الشریط و إنما ھي تحفظ الأجزاء الکهربائیة التي لیس فیھا صورة فإذا ظھرت ھٰذہٖ الأجزاء علیٰ الشاشة ظھرت مرة أخریٰ بذلك الترتیب الطبع و لکن لیس لھا ثبات ولا مستقرا علی الشاشة و إنما ھي تظھر و تفنی ۔ فلا یبدو إن ھناك مرحلة من المراحل تنقش فیھا الصورة علیٰ شيء بصفة مستقرة أو دائمة و علیٰ ھذا متزین ھٰذہ الصورة ، فذلك الصورة المستقرة شکل ۔ 22
" تکملة فتح الملهم میں ہے کہ ٹی وی اور ویڈیو کی تصویر کسی بھی مرحلہ میں کسی چیز پر استقرار نہیں پکڑتی ، اِلا یہ کہ وہ فلم کی صورت میں ہو ۔ چنانچہ جب زندہ انسان کی تصویر ہو تو وہ اسی وقت تک سکرین پر نظر آتی رہتی ہے جب تک انسان کیمرے کے سامنے کھڑا رہتا ہے ۔ وہ تصویر نہ تو کیمرے میں استقرار حاصل کرتی ہے اور نہ ہی سکرین پر ۔ یہ تصویر تو برقی اجزا ہوتے ہیں جو آخر کار ختم ہو کر زائل ہو جاتے ہیں ۔ البتہ جب تصویر کو ویڈیو کیسٹ میں محفوظ کر دیا جائے تب بھی تصویر وہاں پرنقش نہیں ہوتی ، بلکہ وہ برقی ذرات ہی ہوتے ہیں جن میں کوئی صورت نہیں ہوتی ۔ جب ان برقی ٹکڑوں کو دوبارہ سکرین پر ظاہر کیا جاتا ہے تو پھر وہ اسی ترتیب ِ طبع کے مطابق ہی دوبارہ ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ لیکن تب بھی ان کا سکرین پر کوئی دوام اور استقرار نہیں ہوتا بلکہ وہ ظاہر ہوتی اور فنا ہوتی رہتی ہے ۔ الغرض یہاں کوئی بھی ایسا مرحلہ نہیں جس میں تصویر کسی شئے پر مستقل اور دائمی صورت میں محفوظ رہے ۔ یہی نوعیت تصویر کو خوبصورت بنانے والوں کے ہاں بھی ہوتی ہے ۔ خلاصہ یہ کہ دائمی اور برقرار رہنے والی تصویر ہی شکل کہلا سکتی ہے ۔ "
تصویر دیکھنے کا حکم :
جن تصاویرکا بنانا اور رکھنا ناجائز ہے ، ان کا ارادہ اور قصد کے ساتھ دیکھنا بھی ناجائز ہے ۔ البتہ تبعًا نظر پڑ جائے تو مضائقہ نہیں جیسے کوئی اخبار یا کتاب مصور ہے تو مقصود اس کتاب و اخبار کو دیکھنا ہے ۔ اگر بلا ارادہ تصویر بھی سامنے آجاتی ہے تو اس کا مضائقہ نہیں ۔ 23
تصویر کی حرمت قطعی یا ظنی ؟
جس تصویر کی حرمت پر اجماع ہے
مثلاً بت و مجسمہ تو اس کی حرمت قطعی ہے اور
جس تصویر کی حرمت مختلف فیہ ہے
مثلاً غیر مجسم منقوش تصاویر تو اس کی حرمت ظنی ہے قطعی نہیں ، کیونکہ جن نصوص سے ان کی حرمت کا استدلال کیا جائے گا وہ عام مخصوص منہ البعض کی قبیل سے ہوں گی اور عام مخصوص منہ البعض سے حکم قطعی کی بجائے حکم ظنی ثابت ہوتا ہے ، اس لئے کہ عام مخصوص منہ البعض میں تخصیص کے بعد شبہ اور احتمال پیدا ہو جاتا ہے :
ذھب جمهور الحنفیة منھم أبو الحسن الکرخي و أبو بکر الجصاص و عامة مشائخ العراقیین و أبو زید الدبوسي و أکثر مشائخ ما وراء النھر البزدوي و المتأخرون کلھم إلی أن دلالته علی کل فرد قطعیة قبل التخصیص و أما إذا دخله التخصیص و لو مرة فیکون ظنِّیًا ۔ و ذلك إذا لم یکن المخصص دلیل العقل و إلا لا یخرج عن کونه قطعیًا ۔ 24
" جمہور حنفی فقہا ، مثلاً ابو الحسن کرخی ، ابو بکر جصاص اور عام عراقی مشایخ : ابو زید دبوسی ، م اور ا النہر کے اکثر مشایخ : بزدوی اور متاخرین وغیرہ سب کے ہاں عام کی اپنے ہر جز پر تخصیص سے قبل دلالت قطعی ہوتی ہے ۔ البتہ اگر اس پر تخصیص داخل ہو جائے ، اگرچہ ایک بار ہی کیوں نہ داخل ہو تو پھر یہ دلالت ظنی ہو جاتی ہے ۔ بشرط یہ کہ تخصیص کرنے والی دلیل محض عقلی نہ ہو ، اس کے ماسوا عام اپنے افراد پر قطعی دلالت سے کبھی باہر نہیں نکلتا ۔ "
ہ ... ... ... ... ... ... ... ... ... ... ہ
فروغِ اسلام کے لئے الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرنا
اس موضوع پر گفتگو کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اس ضمن میں استعمال کی جانے والی فقہی اصطلاحات کا ایک اُصولی مفہوم اور ان کا شرعی حکم اور حیثیت پر ایک نظر ڈال لی جائے :
( الضرورة )
ھي عند الأصولین الأمور التي لا بد منھا في قیام مصالح الدین و الدنیا بحیث إذا فقدت لم تجز مصالح الدین و الدنیا علی استقامة بل علی فساد وتھارج و فوت حیات و في الاٰخرة فوت النجاة و النعیم و الرجوع بالحشران ۔ ( الضروریات ) و ھي خمسة : حفظ الدین حفظ النفس و حفظ العقل و حفظ النسب و حفظ المال ۔ 25
" اہل اصول کی اصطلاح میں " ضرورت " وہ اُمور کہلاتے ہیں جن پر دین و دنیا کے مصالح موقوف ہوں کہ ان کے فوت ہونے سے مصالح دینی و دنیوی صحیح و درست طریقہ پر انجام نہ پا سکیں مثلاً جہاد کی مشروعیت ، حفاظت ِ دین و حفاظت ِ نفس و حفاظت ِ مال وغیرہ کے لئے ہوتی ہے ۔ "
( الاضطرار )
ھو الخوف علیٰ النفس من الھلاك علماء أو ظنا أو بلوغ الإنسان حدًا إن لم یتناول الممنوع یھلك ، ھٰذا حد الإضطرار ۔ 26
" جب جان کے ضیاع کا یقین یا ظن غالب ہو جائے یا انسان ایسی حالت میں پہنچ جائے کہ اگر ممنوع کا استعمال نہ کرے تو ہلاک ہو جائے تو اسے اصطلاح میں اضطرار کہا جاتا ہے ۔ "
( الحاجة )
بأنھا ما یفتقر إلیه من حیث التوسعة و رفع للضیق المودي في الغالب إلی الحراج و المشقة اللاحقة بقوت المطلوب فإذا لم تراع دخل علی المکلفین علی الجملة الرج و المشقة ۔ قال الزرکشي وغیرہ : الحاجة کالجائع الذي لو لم یجد ما أکل لم یھلك غیر أنه یکون في جھد ومشقة و ھذا لا بیح المعوم ؟ ؟ ؟ و الفرق بین الحاجة و الضررة إن الحاجة إن کانت حالة جھد و مشقة منھي دون الضرورة و مرتبتھا أدنی منھا و لا یتأتی بفقدھا الھلاك ۔ 27
" حاجت وہ اُمور کہلاتے ہیں جس کا انسان پیش آنے والی مشقت و تنگی کو دور کرنے کے لئے محتاج ہوتا ہے ۔ "
ضرورة و اضطرار کا حکم :
ضرورت و اضطرار فقہاے کرام کے نزدیک ایک ہی ہیں ۔ یعنی ممنوع چیز کا استعمال نہ کرے تو ہلاک ہو جائے گا یا ہلاکت کے قریب یا ضروریاتِ خمسہ میں کوئی فوت ہو جائے گا ۔
{ البتہ حالت ِ ضرورت اور اِضطرار میں حرام و ممنوع چیزوں کا استعمال مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہو جاتا ہے :
* حرام چیز کے استعمال نہ کرنے کی صورت میں مذکورہ ضروریاتِ خمسہ میں سے کسی ایک کے ضیاع کا خطرہ ہو ۔
* یہ خطرہ موہوم نہ ہو بلکہ یقین و ظن غالب کے درجہ میں ہو ۔
* اس حرام چیز کے استعمال سے ضروریاتِ خمسہ میں سے پیش آمدہ ضرورت کے پورا ہونے کا یقین یا ظن غالب ہو ۔
* حرام و ممنوع چیز کے علاوہ اس ضرورت کو پوری کرنے والی کوئی حلال چیز میسر نہ ہو ۔
* اس حرام چیز کو صرف اس قدر استعمال کیا جائے جس سے ضرورت پوری ہو جائے ۔ 28 }
حاجت کا حکم :
حاجت کے معنی یہ ہیں کہ اگر ممنوع چیز استعمال نہ کرے تو ضروریات ِ خمسہ ( دین ، نفس ، عقل ، نسب اور مال ) کے ضیاع کا خطرہ تو نہیں ، لیکن مشقت اور حرج ضرور ہوگا ۔ اور کسی نا جائز چیز کے استعمال سے مشقت دور ہو سکتی ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے بشرط یہ کہ اس سے کسی صریح حکم کی مخالفت نہ ہو اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ کسی حکم کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہ ہو اور اس کے ناجائز ہونے میں علماء کا اختلاف ہو ، ایسی صورت میں اگرچہ جائز ہونے کا قول مرجوح ہو ، لیکن حاجت کے وقت اس پر فتویٰ دیا جا سکتا ہے ،
مثلاً تصویر کی اجازت پاسپورٹ کے لئے ، شناختی کارڈ کے لئے یا مجرم کی شناخت و تعین کے لئے ۔ 29
مذکورہ بالا تصورات کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نشریات کے لئے ٹیلی ویژن کے استعمال کی گنجائش نکل سکتی ہے ، کیونکہ ٹیلی ویژن کی وضع خاص صرف لہو و لعب ہی کے لئے نہیں بلکہ دوسری کار آمد اور مفید باتوں کے لئے بھی ہے یعنی ٹیلی ویژن سے ممانعت نہی لعینہٖ کی بجائے نہی لغیرہ ہے ۔
لہٰذا اسلامی نشریات کے لئے محدود شرعی چینل کے استعمال کی گنجائش نکل سکتی ہے جیسا کہ مفتی محمد شفیع صاحب ؒ
{وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشْتَرِى لَهْوَ ٱلْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ ... سورة لقمان} ( اور ایک وہ لوگ ہیں کہ خریدار ہیں کھیل کی باتوں کے تاکہ بجا لائیں اللہ کی راہ سے بن سمجھے اور ٹہرائیں اس کو ہنسی )
کے ضمن میں رقمطراز ہیں کہ " جس سامان کو جائز اور ناجائز دونوں طرح کے کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے ، اسکی تجارت جائز ہے ۔ " 30
لہٰذا درج ذیل شرائط کے ساتھ اسلامی ٹی وی چینل قائم کرنے کے بارے میں مش اور ت کی جانی چاہئے :
* اس چینل پر فلم اور گانے پیش نہ کئے جاتے ہوں ۔
* ترجمان اور خبر دینے والا مرد ہو ۔
* صرف جائز خبریں پیش کی جاتی ہوں ۔
* ذی روح کی تصویر سے حتیٰ الامکان احتراز کیا جاتا ہو ۔
تو پھر مسلمان اپنا علیحدہ ٹی وی چینل قائم کر سکتے ہیں اور ملی جماعتوں کے پروگراموں اور مجالس کو ملک و قوم تک پہنچانے کے لئے مذکورہ حدود میں رہتے ہوئے ٹی وی کے استعمال کی گنجائش نکل سکتی ہے ۔
و اللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
ہ--------------------ہ
حوالہ جات
1. الموسوعة الفقھیة : 12 ، 94 ، 93
2. المرقاة لحل المشکوة 8 ، 325
3. جو اهر الفقه 4 ، 62
4. صحیح بخاری5954 ، صحیح مسلم : 2107
5. صحیح بخاری : 5955
6. رقم : 2107
7. صحیح بخاری : 5949
8. درسِ ترمذی : 5 ، 347 ، احسن الفتاویٰ : 8 ، 425
9. تکملة فتح الملھم : 4 ، 159 ، فتح الباري 10 ، 391 و حاشیة الدسوقي 2 ، 338 وغیرھا
10. المغني لابن قدامة الحنبلي : 7 ، 6
11. الدسوقي : 2 ، 338
12. المغني لابن قدامة الحنبلي : 7 ، 7
13. الشافي : 4 ، 18 ، زکریا : 2 ، الموسوعة الفقھیة 12 ، 110
14. درسِ ترمذی : 5 ، 350
15. المغنی : 7 ، 7
16. فتح الباری : 10 ، 392
17. فتح الباری : 10 ، 395
18. درّ مختار : 2 ، 418
19. فتویٰ دارالعلوم کراچی : ج 24 ، ص 17
20. الموسوعة الفقھیة : ج 12 ، ص 93
21. درسِ ترمذی : ص 351 ، 352
22. تکملة فتح الملھم : 4 ، 167 ۔ 168
23. جواہر الفقہ : 3 ، 239
24. تیسیر الاصول : ص 107 ، اصول الشاشی
25. المصطلحات و الألفاظ الفقھیة 2 ، 410
26. المصطلحات و الألفاظ الفقھیة : 1 ، 213
27. المصطلحات و الألفاظ الفقھیة 1 ، 549
28. مستفاد فتاویٰ دار العلوم کراچی : 15 ، 7 ، 1326ھ
29. فتاویٰ دار العلوم کراچی : 15 ، 7 ، 1426ھ
30. معارف القرآن 7 ، 23
خصوصی شمارہ ختم شد
ہ^^^^^^^^^^^^^^^^^ہ
دیگر مضامین وغیرہ
محدث‘ کے ’تصویر نمبر‘ کے سلسلے میں بعض خطوط
تصویر کی شرعی حیثیت
اگست 2008ء
مضمون نگار
ادارہ محدث میگزین
ءءءءءءءءءءءءءءءء
’محدث‘ کے ’تصویر نمبر‘ کے سلسلے میں بعض خطوط
خطیب فیصل مسجد ، اسلام آباد کا مکتوب
محترم و مکرم جناب حافظ عبدالرحمن مدنی ، جناب حافظ حسن مدنی صاحب حفظہم اللہ
السلام علیکم ورحمة اﷲ و برکاتہ
اللہ کرے آپ کے ہاں مکمل خیریت و عافیت ہو ۔ آمین ۔ ماہِ جون 2008ء کا " محدث " ملا ، جس کو آپ نے " تصویر نمبر " لکھا ہے ، ماشاء اللہ پڑھ کر بہت خوشی اور فائدہ ہوا ۔ تصویر کے موضوع پر یہ ایک دستاویز ہے جس پر آپ حضرات اور آپ کی پوری ٹیم مبارکبادی کی مستحق ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور " محدث " کو مزید ترقی دے ۔ آمین!
بلاشبہ آپ کی کاوشوں اور علمی جہود کی وجہ سے " محدث " ملک بھر کے بہترین مجلات کی صف اوّل میں شمار ہوتا ہے اور قوم کی رہنمائی میں اس کا بہت اہم کردار ہے ۔ اس سے قبل " حدود آرڈیننس " کے موضوع پر جس طرح " محدث " نے قوم کی رہنمائی کی اور باطل عزائم کی بیخ کنی کر کے جہاد بالقلم کا علم بلند کیا ، اس پر اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرما دے ۔ آمین ۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ " محدث " کو مزید ترقی دے اور آپ سب کو بایں کرامت تا دیر سلامت رکھے ۔ آمین! والسلام
آپ کا بھائی ، دعا گو محمد طاہر حکیم
مراسلہ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ
محترم جناب مولانا حافظ حسن مدنی صاحب
السلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاته
" محدث " کا تازہ شمارہ " تصویرنمبر " کے عنوان سے شائع کر کے آپ نے جو فرض اور قرض اُتارا ہے ، اس پر مبارک ہو ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی ٔحسنہ کو قبول فرمائے اور مزید اپنی مرضیات سے نوازتا رہے ۔
یاد ہوگا کہ محترمی مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب زیدمجدہ " ... جنہیں اب تو بڑے مدنی صاحب کہنا چاہئے ... نے ایک عرصہ پہلے جناب رفیع مفتی صاحب کا کتابچہ " تصویر کا مسئلہ " اور اِشراق کا ایک شمارہ جو " اسلام اور موسیقی " کے عنوان سے شائع ہوا تھا ، بھجوائے اور فرمایا کہ ان کا جواب آنا چاہئے ۔ اسلام اور موسیقی کے عنوان پر تو راقم نے لکھا اور اربابِ اشراق کے موقف کی کمزوری واضح کرنے کی کوشش کی جس کے جواب الجواب کی نوبت بھی آئی ، آپ اس تفصیل سے واقف ہیں ۔ خیال تھا کہ یہ بحث کسی کنارے لگے تو تصویر کے مسئلہ کو لوں گا مگر ابھی اس کی نوبت نہ آپائی تھی کہ آپ کی جانب سے " تصویرنمبر " شائع ہو گیا جس پر بلاشبہ آپ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے!
تصویر کے مسئلہ پر یوں تو سب علمائے کرام نے بڑی عمدہ اور نفیس بحث کی ہے مگر مولانا محمد شفیق مدنی حفظہ اللہ نے جس تفصیل سے تمام پہلوؤں پربحث کی ہے اور حرمت ِ تصویر کے علل و اسباب کا جس طرح استیعاب کیا ہے وہ بہرحال قابل تحسین ہے ۔ اسی طرح محترم مدنی صاحب نے بھی اُصولی نقطہ نظر سے اس کا خوب جائزہ پیش کیا ہے تاہم اُنہوں نے جو حرمت ِ تصویر کی علت سد ِ ذرائع قرار دی ہے ، اس سے اتفاق مشکل ہے ۔ حدیث میں تو صاف طور پر ( یضاھون بخلق ﷲ ) کے الفاظ موجود ہیں ۔ جب کہ سد ِ ذرائع کو ہم علت ِ مستنبطہ کہہ سکتے ہیں جیسا کہ علامہ ابن العربی نے احکام القرآن میں فرمایا ہے ۔ بہرحال تصویرکی حرمت پر سلف کا اتفاق رہا ہے ، اس کی علت اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہو یا شرک سے بچنا مقصود ہو یا مشرکین کے عمل سے مشابہت ہو یا ان کی نحوست ہو ، تصویر بہرحال حرام ہے ۔
فوٹوگرافی اور میڈیا کے موجودہ دور میں اس مسئلہ میں اختلاف پیدا ہوا کہ یہ تصویر ہے یا عکس ؟ مگر جو کچھ بھی ہے ، کوئی بھی اسے تصویر سے خارج نہیں کرتا ہے ۔ وہ کاغذ پر محفوظ ہو یا نہ ہو ، میڈیا میں بہرحال محفوظ ہے ، جب بھی کوئی چاہے اسے دیکھ سکتا ہے بلکہ دل بہلا لیتا ہے ۔ اسے تصویر ہی کہتے ہیں ۔ شیشہ یا پانی میں عکس کو کسی نے تصویر نہیں کہا ۔
محترمی جناب حافظ مدنی صاحب زیدمجدہ " کی گفتگو میں یہ بھی آیا ہے کہ " حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ " اگر کوئی شخص داڑھی مونڈ کر شیشہ دیکھے اور شیشہ دیکھ کر خوش ہو تو وہ کافر ہو جاتا ہے ۔ " 1
اگر حوالے سے مطلع فرما دیں تو شکر گزار ہوں گا ۔ لذت و فرحت عموماً مرتکب ِ گناہ کو حاصل ہوتی ہے ۔ عقیدہ کی کتابوں میں تو عموماً یہی ہے کہ مرتکب ِ کبیرہ کافر نہیں ، البتہ اگر وہ اسے حلال اور جائز سمجھ کر کرے تو پھر کافر ہوتا ہے ۔ اگر امام صاحب کا یہ قول صحیح طور پر مل جائے تو دعوتی نقطۂ نظر سے بہرحال مؤثر ہے ۔
حیرت ہوتی ہے ان حضرات کی اس رائے پر کہ میڈیا پر آنے والی تصویر کا حکم وہ نہیں جو تصویر کاہے ۔ اسی طرح یہ بھی عجیب بات کہی گئی کہ تصویر کی حرمت کا حکم اسی تصویر کے ساتھ خاص رکھا جائے جو آں حضرت ﷺ کے دور میں تصویر سمجھی جاتی تھیں ۔ حالانکہ یہاں تو ممانعت و حرمت " تصویر " کی ہے اور ظاہر ہے کہ جسے عرفِ عام میں تصویر سمجھا جائے گا ، وہ تصویر حرام ہی ہوگی ۔ " بت " صرف پتھر یا لکڑی کے ہی نہیں ، پلاسٹک کے بھی بنالئے جائیں تو وہ بت ہی ہوں گے ۔ " شراب " کی شکل و ہیئت آج تبدیل ہو گئی ہے تو وہ بہرحال شراب ہی ہے ۔ اس لئے وقت بدلنے یا شکل و صورت میں فرق آجانے سے حکم میں تبدیلی محض طفل تسلی بلکہ اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے ۔ تصویر کی حرمت بہرحال منصوص ہے ، اس لئے اسے اپنے اصل پر ہی رہناچاہئے اور حرام کو حلال بنانے کی سعی ٔ نامشکور سے گریز کرنا چاہئے اور فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّـهُ کی جسارت نہیں کرنی چاہئے ۔
رہی میڈیا پر تبلیغ دین اور دفاعِ اسلام کے پروگرام پر تصویر تو اس کا جواز ضرورةً و اکراہاً ہے ۔ اس بے لگام معاشرے میں بھانت بھانت کی بولیاں ، روشن خیالی کے جواز میں اُلٹے سیدھے فتوے ، منصوص اور اجماعی مسائل میں انحراف اور تجدد پسندی ، اسلام کی تعبیر و تائید کی بجائے تجدد کی نت نئی راہیں ، احادیث کا استخفاف اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ اس بات کا متقاضی ہے ۔ علمائے کرام اس میدان میں اُتریں اور اسلام کی صحیح تعبیر سے آگاہ کریں ۔ اس میں اُنہیں تبلیغ دین کا فریضہ ادا کرنے کی فکر سے شامل ہونا چاہئے ، اپنے تعارف اور نئے نئے پوز بنانے کے شوق میں نہیں کہ إنما الأعمال بالنیات
جان بچانے کے لئے اگر بقدرِ ضرورت حرام کھانے کی اجازت ہے تو ایمان بچانا اس سے بھی اہم تر ہے ۔ اس لئے ضرورةً ایسے پروگرام میں شرکت یقینا باعث ِ عفو ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث نہیں بنے گا ۔
و السلام
( مولانا ) ارشاد الحق اثری
تبصرہ
سید حامد عبد الرحمن الکاف ، یمن
مسئلہ تصویر یوں تو ہر دور میں ایک زندہ حقیقت کی حیثیت سے گرما گرم بحثوں اور مباحثوں کا مرکز بنا رہا ہے ، لیکن نائن الیون کے بعد اہل صلیب اور اہل صہیون نے بعض ایسے مسلمانوں کے تعاون سے جو شکست خوردگی اور مغرب سے مرعوبیت کے مرضِ مہلک کا شکار ہیں ، اسلام اور مسلمانوں پرجہاں بڑے پیمانے پر ہلاکت کرنے والے ہتھیاروں کو پوری درندگی اور بے رحمی سے استعمال کیا ہے ، وہاں اُنہوں نے میڈیا کے سمندروں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی پیمانے پر زہرناک پروپیگنڈوں کے سونامیوں کو بھی اُبالا اور پھیلایا ہے تاکہ مادی پہلو کے ساتھ ساتھ معنوی پہلوؤں پر بھی یلغار کر کے مسلمانوں کے عقائد ، عبادات ، معاملات ، تاریخ اور تہذیب و ثقافت کو نیست و نابود کیا جا سکے ۔ ان میڈیائی سونامیوں کی اونچی اونچی موجیں اتنی طاقتور تھیں کہ عام طور پر علمائے اسلام ان کی خطرناکیوں اور تباہ کاریوں سے بےحد پریشان ہوئے ۔ پانچ سال تک یہی صورتِ حال رہی ۔ بالآخر چھٹے سال 2007ء میں پا ک ستان میں " جملہ مکاتب ِ فکر کی سرکردہ علمی شخصیات پر مشتمل " ملی مجلس شرعی " کے نام سے ایک مستقل پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا تھا جس کا ہدف یہ تھا کہ " فروعی اختلافات سے بالاتر رہتے ہوئے عوام الناس کو اسلام کی روشنی میں درپیش مسائل کا حل " پیش کیا جائے ۔ اس مجلس شرعی کے تاسیسی اجلاس ( منعقدہ جامعہ نعیمیہ ، لا ہور ) میں سب سے پہلے مسئلہ تصویر موضوع بحث بنا ۔ چنانچہ اِمسال ۱۳ ، اپریل 2008ء کو " ملی مجلس شرعی " کے پلیٹ فارم سے جملہ مکاتب ِ فکر کا ایک وسیع سیمینار منعقد ہوا جس میں بریلوی مکتب ِ فکر سے چار ، دیوبندی مکتب ِ فکر سے پانچ ، اہل حدیث مکتب ِ فکر سے چار اور جماعت ِ اسلامی سے شیخ الحدیث مولانا عبد المالک ( مہتمم مرکز علوم اسلامیہ ، منصورہ ) وغیرہ نے اس حساس اور نازک موضوع پر اپنے قیمتی خیالات پیش کئے ۔ " 2
الحمدﷲ ثم الحمدﷲ ایک عرصے کے بعد " فروعی اختلافات سے بالاتر " ہو کر ایک اہم مسئلہ پر مختلف مکاتب ِ فکر کے علمائے کرام کے اس اِجماع و اتفاق پر میں اپنی دلی مسرت کا اس دعا کے ساتھ گرم جوشی سے استقبال کرتا ہوں کہ " اساسیاتِ دین " ہی کو بنیاد بنا کر وہ اس اُمت کو پیش آمدہ مسائل پر اس قسم کے اجتماعات اور سیمینار منعقد فرما کر اگر بالاجماع نہ سحیح تو کم از کم " اکثریت ِ رائے " سے ایک راہِ عمل دکھا سکتے ہیں ۔ یہ ایک انتہائی مبارک قدم ہے اور اس راہ پر مسلسل چلتے رہنے ہی کی ضرورت بلکہ اشد ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس بشارتِ ِ خیر اور سلسلۂ خیر کو جاری رکھے اور اس کو اپنے فضل و کرم سے ثمر آور بنائے ۔ آمین!
اس موقع پر میں ماہنامہ " محدث " لا ہور کے مدیر باتدبیر جناب مولانا حافظ حسن مدنی صاحب اور مدیر اعلیٰ جناب حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب حفظہ اللہ کو ان تمناؤں کے ساتھ دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے دین کی مزید خدمات لے ۔ آمین!
یہ مبارک باد ماہنامہ " محدث " لا ہور کے اس خاص نمبر کے سلسلے میں ہے ، جو ان حضرات نے مسئلہ تصویر پر منعقدہ مذاکرۂ علمیہ پر نہ صرف شائع کی ہے بلکہ " تصویر کا شرعی حکم : ایک تقابلی جائزہ " کے تحت جناب حافظ حسن مدنی نے ایک پُر مغز اور رہنما خطوط ( Guide lines ) پر مشتمل اداریہ تحریر فرما کر تقابلی مطالعہ اور جائزہ کے بعد نتائج سیمینار کو الگ ، مختلف الالوان و الریاحین خوبصورت گلدستۂ افکارِ زرّیں کی شکل میں پیش کیا ہے ۔ اس تقابلی مطالعہ سے ہم جیسے بہت دور یمن میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی ان برادرانہ دل خوش کن فضاؤں کا اندازہ ہوا جو اُن پر چھائی ہوئی تھیں اور جو بجائے خود رحمت ِ الٰہی کی ایک بڑی خوش آئند دلیل ہے ۔
مزید اس تحریر سے ، اتفاقِ رائے کے علیٰ الرغم ان محرکات اور دلائل کو بیک نظر پڑھنے اور سمجھنے کا بھی موقع ملا جو باعث ِ اختلاف ہوئے تھے ۔ جہاں یہ اداریہ مولانا حسن مدنی کی عالمانہ شان و نظر کی عکاسی کرتا ہے ، تو وہیں وہ ان کی صحافیانہ صلاحیتوں کی منہ بولتی تصویر بھی ہے ۔ اللھم زِد فَزِد وسخّرھما لخدمة دینك و کتابك العظیم و سنة نبیك المختار و المصطفیٰ ﷺ و أصحابه و سلّم
میں ان سطور کے ذریعہ ان علماء حضرات اور ان کے مکاتب ِ فکر کو ان کے اس مبارک مگر جری اقدام پر دلی مبارک باد پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں ، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کی خاطر ان کو اور ان کے مکاتب ِ فکر کو جمع رکھے اور ایسے فکر انگیز نتائج فکر و عمل پیش کرنے کی توفیق سے مسلسل سرفراز کرتا رہے ۔ آمین!
اس وقت مجھے علمائے کرام کے اس مبارک اجتماع کی یاد آ رہی ہے جو علامہ سید سلیمان ندوی کی صدارت میں کراچی میں منعقد ہوا تھا اور جس میں سارے مکاتب ِ فکر کے علمائے عظام نے شرکت کر کے 22 ، نکات پر اپنے " اتفاق " کا اعلان کیا تھا جن کو پا ک ستان میں " علماء کے مشہور 22 دستوری نکات " کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ علماء کا آغازِ کار میں ہی اسلامی دستور سازی کی راہ پریہ ایک ایسا سنگ ِ میل تھا جس نے پا ک ستان کی منزل کا رخ فیصلہ کن انداز میں اسلام ہی کی طرف موڑ دیا تھا ۔
فجزاھم ﷲ خیرًا
میری دلی تمنا ہے کہ مذاکرے کی منتظم و داعی یہ " ملی مجلس شرعی " بھی اس نوعیت کی نشانِ راہ ( Milestone ) ثابت ہو اور اس کی یادگاریں صفحاتِ تاریخ پر سنہری حرفوں میں لکھی جائیں ۔
مولانا حافظ حسن مدنی نے مذاکرہ کے بارے میں اپنے تاثر کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے :
" مذاکرہ کے دوران راقم کا تاثر یہ رہا کہ حالات کی سنگینی اور تبلیغ اسلام کے اہم فریضے سے عہدہ برا ہونے کے پیش نظر اپنی منصبی ذمہ داری کو جانتے سمجھتے ہوئے حاصلِ بحث اور نتیجہ کے اعتبار سے تمام اہل علم کی آرا میں کوئی واضح اختلاف نہیں پایا جاتا اور یہی اتفاق اور قدرِ مشترک متفقہ قرار داد کو منظور کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔ " ( نشان زَد حروف و کلمات راقم کی طرف سے ہیں ۔ ) 3
" مسئلہ تصویر اور تبلیغ اسلام " پر مجلس مذاکرہ کی قرارداد کا متن اور اس پر دستخط کرنے والے علمائے کرام کے اسمائے گرامی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ( حوالہ بالا ، ص102 ) اس امر کی نشاندہی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ کہ مولانا عبدالعزیز علوی ( مسئلہ تصویر ، ص 25 تا 32 ) ، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ( الیکٹرانک میڈیا اور اس کا استعمال : ص 33 تا 39 ) اور مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی ( مسئلہ تصویر اور دورِ حاضر : ص 59 تا 76 ) نے اپنے اپنے مقالوں میں بڑی حد تک سخت موقف اختیار کیا ہے ۔ مگر مولانا عبدالعزیز علوی اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے ایک تحریر جو بطورِ قرار داد تیار کی تھی اور پیش نہیں کی گئی میں بالآخر کراہةً ہی صحیح ، اظہارِ اتفاق فرمایا ۔ 4
اس کے باوجود ہمیں خوشی سے بغلیں نہیں بجانا چاہئے ، کیونکہ ٹی وی کا آلہ صرف تصویر کی وجہ سے ہی ناقابل التفات نہیں بلکہ اس میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں جن کی شریعت سے کوئی گنجائش نہیں ملتی ، چنانچہ کسی اسلامی چینل کے قیام سے پہلے ہمیں کئی ایک مزید شرعی اُمور کے بارے میں واضح شرعی موقف طے کرنا ہوگا ، مثلاً :
تصویر کے ساتھ دی جانے والی موسیقی ( Music Accompaneing with picture ) خصوصاً وثائقی فلمیں ( Documentries ) اور خبرنامے وغیرہ میں ان کو ایک " شرِ ناگزیر " تصور کیا جاتاہے ۔ تو کیا اس عام رجحان کی وجہ سے اور خصوصاً اللجنة الدائمة کے اس فتویٰ کی بنا پر جس کا ذکر اس عدد خاص کے صفحہ نمبر 23 پر مدیر موصوف نے کیا ہے اور جس میں صراحتاً کہا گیر اہے :
"أما التلفریون فیحرم مافیہ غناء و موسیقي و تصویر و عرض صورة ( البتہ ٹی وی پرگانے ، موسیقی اور تصاویر جیسی منکرات ( پیش کرنا ) حرام ہے ... "
معلوم ہوا کہ نہ صرف موسیقی اور گانا بجانا ، بلکہ تصاویر کا پیش کرنا بھی حرام ہے اور اگر ان کو بھی حرام قرار دیا جائے تو پھر ٹی وی پر باقی رہ ہی کیا جاتاہے ، کیونکہ فلموں اور فیچروں میں بعض وقت زمینی حقائق کو جیسے بھی وہ ہوں ، پیش کرنے کے لئے ان کا استعمال ضروری ہو جاتا ہے ۔
بحیثیت ِ مجموعی ٹی وی میں عنصر نسائی کے حجاب ، اس کے حدود و آداب ... جن میں إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا بھی شامل ہے ... کے بارے میں بھی واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہاں فلموں اور فیچروں میں ہلکے پھلکے ، بظاہر معصوم اور بے ضرر منفی اثرات کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔ اس کی بنا پر بھی ٹی وی کا استعمال ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے ۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی مرد اور عورت کو شوہر بیوی ، ماں باپ ، بیٹا بیٹی ، سالا سالی ، بھائی بہن وغیرہ بنا کر ٹی وی پر پیش کیا جا سکتا ہے ؟ جب کہ یہ محض تمثیل اور اداکاری ( Acting ) ہوگی نہ کہ ایک حقیقت ۔ اس ضمن میں ، میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے اس رجحان کا بھی ذکر کر دوں کہ وہ سرے سے اداکاری ہی کے قائل نہیں تھے ، کیونکہ ان کے بقول وہ ایک ایسی نقالی ہے جس سے اداکار یا اداکارہ اپنی شخصیت اور کردار ہی کو کھو بیٹھتے ہیں ؟ اس طرح بذاتِ خود اداکارانہ عمل خود ایک موضوعِ بحث بن کر اُبھرتا اور فیصلہ کن جواب طلب کرتا ہے ۔ ٹی وی کے حوالے سے یہ مسئلہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔
ان کے علاوہ جنسی تعلقات ، اشارہ اور کنایات ، نکتہ سنجی اور نکتہ بازی کے حدودِ جواز بھی صاف صاف طئے کرنے ہوں گے ۔ اس سلسلے میں مختلف اوقات ، موسموں ، تقریبات اور مناسبات میں لباسوں کی خراش تراش ، رنگ و روغن اور حدود اربعہ واضح کرنے ہوں گے ۔ ظاہر ہے کہ یہ متعدد چیزیں شریعت ِ اسلامیہ سے کوئی میل نہیں رکھتیں ، اسلئے ٹی وی کا استعمال ان متعدد وجوہات کے سبب ایک مسلمان کے لئے کم از کم مکروہ ہی قرار پاتا ہے ۔
ممکن ہے کہ اور بہت سے ایسے پہلو جو میری محدود نظر سے اوجھل رہ گئے ہوں ، مگر ان کو قارئین اور خود ٹی وی کا شو کرنے والوں کو تحریراً اور کلاماً دعوتِ مشارکت دے کر بحث ِ عام کے لئے منظر عام پر لایا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو اس بارے میں واضح رہنمائی دی جا سکے ۔
یہ تو تھی میری حقیر سی رائے اس عددِ خاص کے بارے میں ، لیکن مجھے صرف اشارة ً مولانا شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی صاحب کی اس رائے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ فی زمانہ اپنی اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق جماعة الدعوة اور تبلیغی جماعت بغیر تصویر کے وسیع پیمانے پر دعوتِ دین کا کام کر رہے ہیں ۔ مزید یہ کہ آج تصویر کے سوا بھی اس قدر ذرائع ابلاغ پیدا ہو چکے ہیں جن کا کوئی شمار نہیں ، آخر ان سب سے کیوں کام نہیں لیا جاتا اور ان کے ذریعہ دین کیوں نہیں پھیلایا جاتا ۔ ( ص 32 ، حوالہ بالا ) اگر ان مزید ذرائع کی بھی مزید تفصیل پیش کر دی جاتی تو اچھا ہوتا اور ان کو بھی استعمال کرنے کی راہیں کھلتیں ۔
روزنامہ " امت " کراچی کا تبصرہ بعنوان " مستحسن اقدام "
... تحقیق کی فضا گرچہ بھارت میں سازگار ہے مگر پا ک ستان بھی یکسر محروم نہیں ۔ کچھ نوجوان اس میدان میں کودے ہیں اور اُنہوں نے فتویٰ پرستی کے ماحول میں خود کو ضائع کرنے کے بجائے تحقیق و جستجو اور تفقہ فی الدین کو حرزِ جان بنایا ہے ۔ اُنہیں میں سے ایک حافظ حسن مدنی بھی ہیں ۔ " محدث " کے نام سے ایک علمی اور معیاری ماہنامہ ان کی زیر ادارت نکلتا ہے ، جس پر کسی مسلک کا رنگ غالب نہیں ، خود ان کے اپنے مسلک کا بھی نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسائلِ زمانہ کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں اور تحقیق کی کھٹال میں کوٹ کوٹ کر ان مسائل کا علاج تلاش کرتے ہیں ۔ کبھی ثقافت کے نام پر کثافت ان کو کھلتی ہے تو کبھی دین کے نام پر لادینیت پھیلانے والے جعلی دانشوروں پر وہ گرفت کرتے ہیں ۔ ان دونوں تصویر اور ویڈیو کا مسئلہ ایک اختلافی معاملہ بنا ہوا ہے ۔ بعض مکاتب ِ فکر اس سلسلے میں ایک انتہا پر ہیں تو بعض دوسری طرف ۔ اس سلسلے میں مثبت کوشش یہ ہوئی کہ لا ہور میں تمام مکاتب ِ فکر کے نمائندے مگر جید علماء و مفتیانِ کرام کا ایک اجلاس مفتی محمد خان قادری کی درس گاہ جامعہ اسلامیہ میں منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں خالصتاً علمی انداز میں تصویر ، ویڈیو کے مسئلے کا جائزہ لیا گیا اور آخر میں تمام مکاتب ِ فکر کے علماء نے ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی جس کو اجلاس کا حاصل قرار دیا جا سکتا ہے ۔
لا ہور کے اس اجلاس میں علمائے کرام کے سامنے دو نکات تھے :
تصویر ، فوٹوگرافی اور ویڈیو کی شرعی حیثیت
دورِ حاضر میں تبلیغی ضروریات کے لئے تصویر ، ٹی وی اور ریڈیو کا جواز
علماء نے ان دونوں نکات پر بھرپور تیاری کی ۔ قرآن و حدیث سے استدلال پیش کیا اور اپنے اپنے موقف کی وضاحت کی ، مگر حسن یہ ہے کہ اپنے موقف پر جامد رہنے کے بجائے صورتِ حال کو سمجھانے اور دوسروں کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی ۔
اس مذاکرے میں جہاں
ایک نکتۂ نظر یہ تھا کہ تصویر ہر حال اور ہر حیثیت میں حرام ہے تو
دوسرے کاموقف تھا کہ صرف شرک اور فحش مقاصد میں استعمال ہونے والی تصویر حرام ہے ، باقی سب کی اجازت ہے ۔
ایک تیسرا موقف یہ تھا کہ ٹی وی ، ویڈیو تصویر کے حکم میں ہی نہیں آتے ، لہٰذا جائز ہیں ۔
دلائل سب کے پاس تھے ۔ بنیاد سب کی " قرآن و سنت " تھی مگر چونکہ معاملہ ضد کا نہیں ، تفہیم کا تھا ، لہٰذا ایک متفقہ موقف سامنے آگیا ، جس کو اتفاقِ رائے کی بنیاد کہا جا سکتا ہے ۔ جس میں کہا گیا کہ یہ وسیع تر اجلاس اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ اسلام کا پیغام دوسروں تک جلد اور مؤثر انداز میں پہنچانے اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیوں اور پروپیگنڈے کے اِزالے کے لئے علماء کو ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا چاہئے اور الیکٹرانک میڈیا کے لئے ایسے تعمیری اصلاحی اور تعلیمی پروگرام تیار کئے جانے چاہئیں جو منکرات سے پاک ہوں ۔ اسلامی دعوت و اصلاح اور تبلیغ کے لئے مفید ہوں ، جن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا تدارک ہوتا ہو ۔
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی نے اس پر یہ اضافہ کیا کہ " میڈیا پر جو تصاویر آتی ہیں ، ان کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہوئے " إلا من أکرہ و قلبه مطمئن " کے پیش نظر میڈیا پر دفاعِ اسلام درست ہے ۔ "
آراء میں بعد المشرقین اور اختلاف کی انتہا کے باوجود علماء کا ایک نکتے پر متفق ہونا بہرحال ایک احسن اقدام ہے ۔
برادرم حسن مدنی نے " سونے پر سہاگہ " والا کام یہ کیا کہ اس مجلس میں ہونے والی ساری بحث کو " محدث " کے جون کے شمارے میں شائع کر دیا ہے اور ہر نقطہ نظر کے پیچھے کارفرما استدلال کی نشاندہی کرنے کی بھی کوشش کی ، جس سے ایک عام آدمی بھی تصویر اور ویڈیو کے حوالے سے اس تحقیقی گفتگو سے استفادہ کر سکتا ہے ۔
اس سارے عمل میں شریک رہنے والے تمام حضرات نہ صرف مبارکباد کے مستحق ہیں بلکہ ان سے یہ بھی گزارش ہے کہ یہ ایک ابتدائی قدم ہے ، اس پر ابھی کامل اتفاقِ رائے کی خاطر لازم ہے کہ مزید بحث ہو اور علماء کو تحقیق کا مزید موقع دیا جائے ۔ اس کے ساتھ اس کام کو ذرا وسعت دی جائے اور اس کی رفتار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ علمی اور دینی مسائل انتہائی احتیاط کے متقاضی ہیں مگر ایک ایک معاملے پر سال سال بعد اجلاس بھی کچھ مناسب نہیں ۔ اس کے لئے مستقل بنیادوں پر موضوعاتی کمیٹیاں بنا کر کام کو وسیع اور سبک رفتار کیا جا سکتا ہے تاکہ مجتہدانہ کاوشوں کو مزید توسیع دی جاسکے ۔ 5
ہ------------------ہ
حوالہ جات
1. محدث : صفحہ 75
2. ماہنامہ " محدث " لا ہور اشاعت ِ خاص بر مسئلہ تصویر ، جون 2008ء ص 4 تا 7 بہ تصرف
3. ماہنامہ " محدث " حوالہ بالا : ص 8
4. دیکھئے ص 22 حوالہ بالا
ہ^^^^^^^^^^^^^^^^^ہ
موبائل یا کیمرے سے تصویر بنانا
سوال:
موبائیل یا کیمرے سے تصاویر بنانے کے بارے مین اسلام کیا کہتا ھے؟ تفصیل سے بتائیے
جواب:
تصویر کے مسئلہ میں اہل علم کا بہت اختلاف ہے۔ اس کے لیے آپ ماہنامہ محدث کے تصویر نمبر کا مطالعہ کریں۔
راقم کو ذاتی طور ان اہل علم کی رائے پسند ہے جن کے نزدیک تصویر کی حرمت کی اصل علت تخلیق میں مشابہت ہے لہذا صرف ہاتھ سے بنائی ہوئی تصاویر اور مجسمے حرام ہیں جب کہ کیمرے یا ویڈیو کی تصویر اصلا جائز ہے لیکن اگر اس میں بھی کوئی خارجی قباحت آ جائے مثلا کیمرہ سے بنی ہوئی پیر و مرشد کی تصویر کو تعظیم کے لیے گھر میں لٹکانا تو اس خارجی قباحت کی سبب سے وہ تصویر بھی ممنوع ہو جائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
ختم شد
۔