۔
﷽
مسئلہ رؤیتِ ہلال
علامہ حافظ صلاح الدین یوسف ؒ
*ہ ےےےےےے ہ*
کیا پورے عالم اسلام میں عید ایک ہی دن منائی جا سکتی ہے؟
چند دن گزرے، ایک استفتاء دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک سے علماء کرام کے نام موصول ہوا ہے جس کا تعلق اس امر سے ہے کہ "پورے عالم اسلام میں ایک ہی دن عید ہو اور ایک ہی دن روزے کا آغاز و اختتام ہو"۔
فاضل مستفتی نے، جو ایک عالم دین، محقق اور مفتی ہیں، اپنے دلائل میں یہ ثابت کرنے کی سعی کی ہے کہ احناف، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اختلافِ مطالع کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس لیے عالم اسلام کے کسی ایک خطے میں اگر رؤیتِ ہلال کا اثبات ہو جائے، تو اسے پورے عالم اسلام کے لیے تسلیم کر کے تمام اسلامیانِ عالم ایک ہی دن عیدالفطر و عید الاضحیٰ منائیں اور ایک ہی دن روزوں کا آغاز و اختتام کریں۔
لیکن ہمارے فہم و شریعت کی رو سے ایسا کرنا صحیح نہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عیدین اگرچہ مسلمانوں کے ملی تہوار ہیں۔ لیکن یہ دوسرے مذاہب کے سے ملی تہوار نہیں، جن میں وہ لوگ تہوار کی سرمستی میں ہر چیز کو فراموش کر دیتے ہیں حتی کہ تمام اخلاقی قدروں اور ضابطوں اور تمام بندھنوں سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اسلام میں ایسا نہیں ہے۔ اسلام میں عیدیں کا آغاز بھی اللہ کی تکبیر و تحمید اور اس کی بارگاہ میں دوگانہ ادا کر کے اس کے سامنے عجز و نیاز کے اظہار سے ہوتا ہے اور پھر کسی بھی مرحلے میں اس آزاد روی کی اجازت نہیں ہے جس کا مظاہرہ عیدین کے موقعوں پر دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی اور نقالی میں، جاہل مسلمانوں اور شریعت سے نا آشنا لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ وہ بھی خدا فراموش اور اخلاقی حدود سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔
اسلام میں عیدین کی حیثیت ملی تہوار کے علاوہ عبادت کی بھی ہے۔ اور رمضان المبارک تو ہے ہی عبادات کا خصوصی مہینہ۔ اس لئے ان میں وحدت کا اہتمام غیر ضروری ہے۔ جس طرح عالم اسلام میں بلکہ ایک ملک میں بھی نمازوں کے اوقات میں فرق و تفاوت ہے، اور اسے وحدت کے منافی نہیں سمجھا جاتا، تو عالم اسلام میں رؤیتِ ہلال کے حساب سے الگ الگ دن عیدین اور رمضان کے آغاز کو، عالم اسلام کی وحدت کی منافی کیوں سمجھا جائے؟ اپنے اپنے حساب سے ہر ملک میں الگ الگ عید منائی جا سکتی ہے اور رمضان کے روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ شریعت نے ایسا کوئی حکم دیا ہے اور نہ اس کا کوئی اہتمام ہی کیا ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ ایک ہی دن عید منائیں اور ایک ہی دن روزے رکھیں۔ بلکہ اس کے برعکس یہ حکم دیا گیا ہے صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَ أَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ (صحیح مسلم، کتاب الصیام)
"چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزے بند کرو"۔
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جب تک ہر ملک میں اس کے حساب سے رؤیتِ ہلال کا اثبات نہ ہو جائے، نہ رمضان کا آغاز کرنا صحیح ہے اور نہ روزے ختم کر کے عید کا اہتمام کرنا مناسب ہے۔
جیسے ہر ملک اور علاقے میں جب تک صبح صادق نہ ہو جائے، فجر کی نماز نہیں پڑھی جا سکتی اور جب تک سورج غروب نہ ہو جائے مغرب کی نماز نہیں پڑھی جا سکتی، اسی طرح رؤیتِ ہلال کا مسئلہ بھی ہے۔ یہ بھی طلوع و غروب شمس کی طرح اختلافِ مطالع کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے، اس میں یکسانیت و وحدت پیدا کی جا سکتی ہے اور نہ اس کا ہمیں کوئی حکم ہی دیا گیا ہے۔
چودہ صدیوں سے عالم اسلام میں اپنے اپنے حساب سے عیدین اور رمضان کا اہتمام ہوتا چلا آ رہا ہے، اسے کبھی بھی وحدت و یک جہتی کے منافی نہیں سمجھا گیا۔ اب ایسا کرنا کیوں کر وحدت کے منافی ہو جائے گا؟
بعض جلیل القدر علمائے احناف نے تو صرف پاکستان کی حد تک بھی ایک ہی دن عید منانے کو شرعی لحاظ سے غیر ضروری قرار دیا ہے ۔۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
"اگرچہ شرعی حیثیت سے اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ پورے ملک میں عید ایک ہی دن منانے کا کوئی اہتمام نہیں ہوا اور ملک کے وسیع و عریض ہونے کی صورت میں شدید اختلافاتِ مطالع کی مشکلات بھی اس میں پیش آ سکتی ہیں۔ لیکن پاکستان کے عوام اور حکومت کی اگر یہی خواہش ہے کہ عید پورے پاکستان میں ایک ہی دن ہو تو شرعی اعتبار سے اس کی بھی گنجائش ہے۔ شرط یہ ہے کہ عید کا اعلان پوری طرح شرعی ضابطہ شہادت کے تابع ہو"۔
(جواہر الفقہ، مفتی محمد شفیع مرحوم: جلد اول، ص 397،398)
اس تحریر پر مولانا مفتی محمد شفیع کے علاوہ، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا محمد یوسف بنوری اور مولانا مفتی رشید احمد صاحب کے بھی دستخط ہیں اور یہ تحریر 1386ھ (آج سے 32 سال پہلے) کی ہے۔
اس میں مذکورہ عبارت کے بعد شہادت کا وہ ضابطہ بیان کیا گیا ہے جس کے مطابق مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ہم نے یہ اقتباس صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ اس میں صرف ایک ملک کے اندر بھی عید کی وحدت کو غیر ضروری قرار دیا گیا ہے، چہ جائیکہ عالم اسلام میں ایک ہی دن عید کا اہتمام ضروری قرار دیا جائے۔
دوسرے، اختلافِ مطالع میں بہت زیادہ فرق کی صورت میں رؤیتِ ہلال میں جو مشکلات ہیں، اس کا بھی اعتراف ہے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اختلافِ مطالع میں بہت زیادہ فرق کو نظر انداز کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کسی ایک ملک کی حد تک، تو عیدین و رمضان میں وحدت کا اہتمام ممکن ہے اور صحیح بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے مختلف علاقوں میں مطالع کا اختلاف زیادہ نہیں ہوتا، تھوڑا بہت جو اختلاف ہے اسے ناقابل اعتبار قرار دیا جا سکتا ہے لیکن جن ملکوں کے درمیان مطالع کا بہت زیادہ اختلاف اور فرق ہے، اسے کیوں کر ناقابل اعتبار قرار دیا جا سکتا ہے؟
اس کے لیے جب تک کوئی معقول شرعی دلیل نہیں ہو گی، اسے تسلیم کرنا مشکل ہے۔
عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک نظیر :
ہ ےےےےےے ہ
علاوہ ازیں اس کی ایک دوسری وجہ عہد صحابہ کی ایک نظیر ہے جس سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے جو مذکورہ سطور میں پیش کیا گیا ہے ۔۔ وہ واقعہ حسب ذیل ہے:
"حضرت کریب رحمۃ اللہ علیہ (تابعی) بیان کرتے ہیں کہ مجھے ام الفضل نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہا کے پاس شام بھیجا۔ میں وہاں گیا اور اپنا کام پورا کیا اور ملک شام میں ہی میری موجودگی میں وہاں رمضان کا چاند ہو گیا اور یہ جمعہ کی رات تھی۔ پھر جب میں مہینے کے آخر میں مدینہ واپس آیا، تو مجھ سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم نے وہاں چاند کب دیکھا تھا، میں نے بتلایا کہ جمعہ کی رات کو۔ انہوں نے پوچھا، تم نے خود دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں میں نے بھی اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا اور اس کے مطابق ہی لوگوں نے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے روزے رکھے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، لیکن ہم نے تو یہاں (مدینے میں) ہفتے کی رات کو چاند دیکھا تھا، چنانچہ ہم تو پورے تیس روزے رکھیں گے یا پھر (29 رمضان کو) ہم چاند دیکھ لیں۔ تو میں نے کہا: کیا آپ کے لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ انہوں نے فرمایا: "نہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ہی حکم دیا ہے" ۔۔۔
(صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب بيان أن لكل بلد رؤيتهم وأنهم إذا رأوا الهلال ببلد لا يثبت حكمه لما بعد عنهم)
۔۔ صحیح مسلم میں اس واقعے پر باب کا جو عنوان دیا گیا ہے، اس کا ترجمہ ہی یہ ہے:
"اس بات کا بیان کہ ہر علاقے کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہے، نیز یہ کہ جب کسی علاقے کے لوگ چاند دیکھ لیں تو یہ رؤیت ان لوگوں کے حق میں ثابت نہیں ہو گی جو اُن سے دور ہوں گے۔"
اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بھی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
وانما راوه لان الرؤية لا يثبت حكمها فى حق البعيد
"حضرت ابن عباس نے حضرت کریب رحمۃ اللہ علیہ کی رؤیت کو اس لیے تسلیم نہیں کیا کہ رؤیت کا حکم دور والے لوگوں کے حق میں ثابت نہیں ہوتا۔"
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہ واقعہ اپنی سنن ترمذی کے ابوابُ الصوم میں نقل کیا ہے اور انہوں نے بھی اس پر یہ عنوان قائم کیا ہے:
"باب ما جاء لكل اهل بلد رؤيتهم"
"اس بات کا بیان کہ ہر علاقے کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہے"
بہرحال اِس میں واضح طور پر موجود ہے کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینے والوں کے لیے شام کی رؤیت کا اعتبار نہیں کیا، جس سے اسی موقف کا اثبات ہوتا ہے کہ پورے عالم اسلام کے لیے کسی ایک ہی علاقے کی رؤیت کافی نہیں ہے۔ اور احادیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْا الْهِلَال وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ "
(صحیح مسلم، کتاب الصیام: باب وجوب صومِ رمضان ۔۔)
"اور اس وقت تک روزہ نہ رکھو، جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اس وقت تک روزہ رکھنا بند نہ کرو، جب تک چاند نہ دیکھ لو، اگر بادل چھا جائے تو پھر (تیس دن کا) اندازہ پورا کرو" ۔
بہر حال اس تفصیل سے مقصود اس نکتے کی وضاحت ہے کہ رؤیتِ ہلال کے اثبات میں اس حد تک تو وسعت اختیار کرنے کی گنجائش موجود ہے جس کی تائید میں علم ہئیت و جغرافیہ دانوں کے صدیوں کے تجربات ہیں۔
لیکن محض یہ جذبہ کہ پورے عالم اسلام میں ایک ہی دن عید اور رمضان کا آغاز ہو، اس کی کوئی شرعی اور عقلی دلیل نہیں ہے۔
اس لیے یہ جذبہ اچھا اور مخلصانہ ہونے کے باوجود ناقابل عمل ہے، کیونکہ یہ شرعی اور عقلی دلیل سے محروم ہے۔
هذا ما عندى و الله اعلم بالصواب
ہ ےےےےےے ہ
ماخوذ :
مضمون : مسئلہ رؤیتِ ہلال
مضمون نگار : حافظ صلاح الدین یوسف ؒ
محدث لاہور ، مارچ 1999ء
جوائین ان :
۔