بدھ، 21 جولائی، 2021

عید الاضحی و دیگر مواقع پر سر منڈانے کا حکم ‏علامہ ‏غلام ‏مصطفی ‏ظہیر

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
°^°^°^°^°^°^°^°^°^°^°^°
عید الاضحی و دیگر مواقع پر سر منڈانے کا حکم 

~~~~~~~~~~~~~؛ 

سر کے بال منڈوانے کی مشروعیت اور جواز 

محدث العصر علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری 
(شاگرد محدث العصر علامہ زبیر علی زئی) 



حج و عمرہ کے علاوہ سر منڈوانا جائز ہے، کراہت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ جیسا کہ 

1. 
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ، وَأَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یُّضَحِّيَ، فَلَا یَمَسَّ مِنْ شَعَرِہٖ وَبَشَرِہٖ شَیْئًا. 

”جب عشرہ ذو الحجہ داخل ہو جائے اور تم قربانی کرنا چاہتے ہو، تو اپنے سر اور جسم کے بال نہ مونڈھیں۔” 
(صحیح مسلم: ١٩٧٧) 

سنن النسائی (٤٣٦٢) میں یہ الفاظ ہیں: 
مَنْ أَرَادَ أَنْ یُّضَحِّيَ فَلَا یَقْلِمْ مِنْ أَظْفَارِہٖ، وَلَا یَحْلِقْ شَیْئًا مِّنْ شَعْرِہٖ فِي عَشْرِ الْـاُوَلِ مِنْ ذِي الْحِجَّۃِ. 

”جو قربانی کرنا چاہتا ہو، وہ ذو الحجہ کے پہلے دس دن ناخن تراشے، نہ جسم سے کوئی بال مونڈھے۔” 


2. 
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: 
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَآی صَبِیًّا قَدْ حُلِقَ بَعْضُ شَعْرِہٖ وَتُرِکَ بَعْضُہ، فَنَہَاہُمْ عَنْ ذَالِکَ، وَقَالَ: احْلِقُوہُ کُلَّہ، أَوِ اتْرُکُوہُ کُلَّہ. 

”نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر ایک بچے پر پڑی، جس کے کچھ بال مونڈھ دئے گئے تھے اور بعض چھوڑ دئے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع کر دیا اور فرمایا: اس کا مکمل سر مونڈھیں یا مکمل چھوڑ دیں۔” 
(سنن أبي داؤد: ٤١٩٥، و سندہ صحیحٌ، وأصلہ، في صحیح مسلم: ٢١٢٠) 

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ بچوں اور بچیوں دونوں کا سر مونڈھنا جائز ہے، صرف بچوں کی تخصیص ثابت نہیں! 

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٩٧ھ) فرماتے ہیں: 
وَقَوْلُہ، : اِحْلِقُوا کُلَّہ، دَلِیلٌ عَلٰی جَوَازِ حَلْقِ الرَّأْسِ مِنْ غَیْرِ کَرَاہِیَۃٍ. 

”یہ حدیث بغیر کسی کراہت کے سر منڈوانے کا جواز فراہم کرتی ہے۔” 
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین: ٢/٥٥٧) 

شارح صحیح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (م: ٦٧٦ھ) لکھتے ہیں: 
وَھٰذَا صَرِیحٌ فِي إِبَاحَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ لَا یَحْتَمِلُ تَأْوِیلًا، وَقَالَ أَصْحَابُنَا: حَلْقُ الرَّأْسِ جَائِزٌ بِّکُلِّ حَالٍ. 

”یہ سر مونڈھنے کی ایسی صریح دلیل ہے، جس میں تاویل کی گنجائش نہیں، ہمارے اصحاب کہتے ہیں کہ سر کے بال مونڈھنا ہر حال میں جائز ہے۔” 
(شرح صحیح مسلم: ٤/٢٤) 

علامہ سندھی حنفی صاحب (م: ١١٣٨ھ) لکھتے ہیں: 
وَھٰذَا صَرِیحٌ فِي إِبَاحَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ، لَایَحْتَمِلُ تَأْوِیلًا. 

”یہ سر مونڈھنے کی ایسی صریح دلیل ہے، جسمیں تاویل کی گنجائش نہیں۔” 
(حاشیۃ السندي علی سنن ابن ماجۃ: ١/٧٥) 

ملا علی قاری حنفی صاحب (١٠١٤ھ) لکھتے ہیں: 
(اِحْلِقُوا کُلَّہ، ): أَيْ کُلَّ الرَّأْسِ أَيْ شَعْرَہ، ، (أَوِ اتْرُکُوا کُلَّہ،) : فِي إِشَارَۃٍ إِلٰی أَنَّ الْحَلْقَ فِي غَیْرِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ جَائِزٌ، وَأَنَّ الرَّجُلَ مُخَیَّرٌ بَّیْنَ الْحَلْقِ وَتَرْکِہٖ. 

”اس حدیث میں واضح اشارہ ہے کہ حج و عمرہ کے علاوہ بھی سر کے بال منڈھوانا جائز ہے، نیز انسان کو سر منڈوانے یا بال رکھنے میں اختیار ہے۔” 
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: /٢٨١٨، ح: ٢٤٢٧) 


3. 
سیدنا عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: 
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْہَلَ آلَ جَعْفَرٍ ثَلَاثًا أَنْ یَّأْتِیَہُمْ، ثُمَّ أَتَاہُمْ، فَقَال: لَاتَبْکُوا عَلٰی أَخِي بَعْدَ الْیَوْمِ، ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا لِي بَنِي أَخِي، فَجِيءَ بِنَا کَأَنَّا أَفْرُخٌ، فَقَالَ: ادْعُوا لِي الْحَلَّاقَ، فَأَمَرَہ، فَحَلَقَ رُءُ وسَنَا. 

”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آل جعفر کو تین دن تک چھوڑ دیا کہ رو دھو لیں، پھر ان کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا: میرے بھائی (جعفر کی شہادت) پر آج کے بعد کوئی نہ روئے، پھر فرمایا: میرے بھتیجوں کو بلایا جائے۔ ہمیں لایا گیا، ہم تو گویا رو رو کر چوزے بن چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نائی کو بلاؤ، اور اسے ہماری ٹنڈ کرنے کو کہا۔” 
(مسند الإمام أحمد: ١/٢٠٤، سنن أبي داو، د: ٤١٩٢، سنن النسائي: ٥٢٢٩، وسندہ، صحیحٌ) 
حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
رَوَاہُ أَبُو دَاو، دَ بِإِسْنَادٍ صَحِیحٍ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٌ. 
”یہ سنن ابو داود کی روایت ہے۔ سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔”
(ریاض الصالحین: ١٦٤٠) 
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (٧٣٥۔٨٠٧ھ) لکھتے ہیں: 
رَوَاہُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُھَا رِجَالُ الصَّحِیحِ. 
”یہ مسند احمد اور معجم طبرانی کی روایت ہے اور اس کے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔” 
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ٦/١٥٧) 

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کی: 
أَرَأَیْتَ إِنْ لَّمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِیَّۃً أُنْثٰی أَفَأُضَحِّي بِہَا؟ قَالَ: لَا، وَلٰکِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِکَ وَأَظْفَارِکَ وَتَقُصُّ شَارِبَکَ وَتَحْلِقُ عَانَتَکَ، فَتِلْکَ تَمَامُ أُضْحِیَّتِکَ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ. 

”میرے پاس صرف ایک بکری ہے (جو میں نے کسی کو دودھ کے لے عاریۃً دے رکھا ہے) کیا میں اس کی قربانی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، آپ اپنے بال مونڈھ لیں، ناخن تراش لیں، مونچھیں کاٹ لیں اور زیر ناف بال صاف کر لیں، آپ کو پوری قربانی کا ثواب مل جائے گا۔” 
مسند الإمام أحمد: ٢/١٦٩، سنن أبي داو، د: ٢٧٨٩، سنن النسائي: ٤٣٦٥، وسندہ، حسنٌ) 
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (٥٩١٤) نے ”صحیح” اور امام حاکم رحمہ اللہ (٤/٢٢٣) نے ”صحیح الإسناد” کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ 

علامہ عینی حنفی (٧٦٢۔٨٥٥ھ) اس کی سند کو ”صحیح ” قرار دے کر لکھتے ہیں: 
فِیہِ اسْتِحْبَابُ حَلْقِ الرَّأْسِ وَقَصِّ الْـأَظْفَارِ وَالشَّارِبِ وَحَلْقِ الْعَانَۃِ یَوْمَ عِیْدِ الْـأُضْحِیَۃِ. 

”اس حدیث میں عید الاضحی والے دن سر منڈوانے، ناخن اور مونچھیں کاٹنے اور زیر ناف بال مونڈنے کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔” 
(نخب الأفکار في تنقیح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار: ١٤/٥٢١) 


4.
سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: 
مَنْ تَرَکَ مَوْضِعَ شَعْرَۃٍ مِّنْ جَنَابَۃٍ لَّمْ یَغْسِلْہَا فُعِلَ بِہَا کَذَا وَکَذَا مِنَ النَّارِ قَال عَلِيٌّ: فَمِنْ ثَمَّ عَادَیْتُ رَأْسِي ثَلَاثًا، وَکَانَ یَجُزُّ شَعْرَہ. 

”جس نے غسل جنابت کے دوران بال برابر بھی جسم کا حصہ خشک چھوڑ دیا، اسے دوزخ میں ایسا ایسا عذاب ہوگا۔  علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہ حدیث سننے کے بعد میں نے اپنے سر سے لگالی۔ آپ رضی اللہ عنہ سر منڈوا کر رکھتے تھے۔” 
(حدیث شعبۃ ابن الحجاج للحافظ محمد بن المظفر بن موسیٰ ابو الحسین البزار: ٢٤، الختارۃ للضیاء: ٤٥٣، مسند الإمام أحمد: ١/٩٤، سنن أبي داؤد: ٢٤٩، سنن ابن ماجۃ: ٥٩٩، وسندہ حسنٌ) 
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے۔ 
(التلخیص الحبیر: ١/١٤٢) 

علامہ طیبی (٧٤٣ھ) اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
وَفِیہِ أَنَّ الْمُدَاوَمَۃَ عَلٰی حَلْقِ الرَّأْسِ سُنَّۃٌ؛ لِـأَنَّہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَّرَہ، عَلٰی ذٰلِکَ، وَلِـأَنَّہ، رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ الَّذِینَ أُمِرْنَا بِا تِّبَاعِ سُنَّتِہِمْ، وَالْعَضِّ عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ. 

”اس میں دلیل ہے کہ سدا بہار سر منڈوانا سنت ِتقریری ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ثابت رکھا ہے اور اس لیے بھی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میں سے ہیں، جن کے طریقے کو دل و جان سے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔” 
(شرح الطیبي: ٣/٨١٤) 

علامہ سندھی حنفی (م: ١١٣٨ھ) لکھتے ہیں: 
وَاسْتُدِلَّ بِالْحَدِیثِ عَلٰی جَوَازِ حَلْقِ الرَّأْسِ وَجَزِّہٖ لِـأَنَّہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقَرَّ عَلِیًّا عَلٰی ذَالِکَ وَلِـأَنَّہ، مِنْ جُمْلَۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ الْمَأْمُورِ النَّاسَ بِالِاقْتِدَاءِ بِہِمْ وَالتَّمَسُّکُ بِسُنَّتِہِمْ. 

” اس حدیث سے سر منڈوا نے کا جواز ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عمل کو ثابت رکھا۔ نیز آپ رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میں سے ہیں، کہ جن کے طریقے کو سختی سے اپنانے کا حکم ملا ہے۔” 
(حاشیۃ السندي علی ابن ماجۃ: ١/٢٠٨) 


5. 
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: 
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْقَزَعِ. 
 
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”قزع” سے منع فرمایا۔” 
(صحیح البخاري: ٥٩٢٠، صحیح مسلم: ٢١٢٠، واللفظ لہ) 

”قزع” کا معنی یہ ہے کہ سر کے بعض حصے کے بال مونڈھ دینا اور بعض کو چھوڑ دینا۔ جیسے فوجی کٹنگ، پیالہ کٹنگ وغیرہ۔ 

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) اس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
وَلِـأَنَّہ، نَھٰی عَنِ الْقَزَعِ، وَالْقَزَعُ حَلْقُ الْبَعْضِ، فَدَلَّ عَلٰی جَوَازِ حَلْقِ الْجَمِیعِ. 

”چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرما دیا ہے اور قزع سر کے کچھ حصے کو مونڈھنے کو کہتے ہیں، لہٰذا یہ پورا سر مونڈھنے کے جواز پر دلیل ہے۔” 
(مجموع الفتاویٰ: ٢١/١١٩) 


6. 
مشہور تابعی احنف بن قیس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: 
قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ فَدَخَلْتُ مَسْجِدَہَا، فَبَیْنَمَا أَنَا أُصَلِّي إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ طَوِیلٌ آدَمُ أَبْیَضُ اللِّحْیَۃِ، وَالرَّأْسُ مَحْلُوقٌ، یُشْبِہُ بَعْضُہ، بَعْضًا، فَخَرَجْتُ فَاتَّبَعْتُہ، ، فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ قَالُوا: أَبُو ذَرٍّ. 

”میں مدینہ آیا اور مسجد نبوی میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ اسی اثنا میں ایک آدمی داخل ہوا، جس کا قد قدرے طویل، رنگ گندمی، داڑھی سفید، سر مونڈھا ہوا اور ایک حصہ دوسرے سے واضح مشابہت رکھتا ہوا تھا۔ میں جلدی سے اس کے پیچھے ہو لیا اور لوگوں سے پوچھا: یہ صاحب کون ہیں: جواب ملا: صحابی رسول ابو ذر رضی اللہ عنہ ۔” 
(مصنَّف ابن أبي شیبۃ: ٢٥٠٥٦، وسندہ، حسنٌ) 


7. 
تابعی کبیر امام نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: 
کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ یَقُولُ: لَیْسَ حِلاَقُ الرَّأْسِ بِوَاجِبٍ عَلٰی مَنْ ضَحّٰی، إِذَا لَمْ یَحُجَّ وَقَدْ فَعَلَہُ ابْنُ عُمَرَ. 

”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ قربانی کرنے والے غیر حاجی کے لیے سر منڈھوانا واجب نہیں ہے۔ ” جب کہ آپ (ابن عمر) خود سر منڈھوا لیا کرتے تھے۔” 
(موطّأ الإمام مالک: ٢/٤٨٣، موطّأ الإمام مالک بروایۃ أبي مصعب: ٢/١٨٦، واللفظ لہ، ، السنن الکبریٰ للبیھقي: ٩/٢٨٨، وسندہ، صحیحٌ) 


8. 
امام نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: 
إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ لَمْ یَتْرُکِ الْحَجَّ إِلَّا عَامًا وَّاحِدًا اشْتَکٰی، فَأَرْسَلَنِي، فَاشْتَرَیْتُ أُضْحِیَّۃً، ثُمَّ ذَبَحَہَا فِي الْمُصَلّٰی، ثُمَّ جِئْتُ حِینَ صَلَّی النَّاسُ، فَأَخْبَرْتُہ، ، فَحَلَقَ رَأْسَہ. 

”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر سال حج کیا کرتے تھے۔ ایک سال بیماری کی وجہ سے نہ کر سکے۔ مجھے قربانی خریدنے کے لیے بھیجا، لے آیا، تو عید گاہ میں ذبح کر دی۔ جب عید کی نماز ہو گئی، میں آیا اور آپ کو خبر دی، تو آپ نے اپنا سر مونڈھ لیا۔ 
(جزء أبي جھم: ٦٤، وسندہ، صحیحٌ) 

دوسری روایت میں ہے: 
أَنَّہ، ضَحّٰی بِالْمَدِینَۃِ، وَحَلَقَ رَأْسَہ. 

”آپ رضی اللہ عنہما نے مدینہ میں قربانی کی اور سر مونڈھ لیا۔” 
(مصنّف ابن أبي شیبۃ: ٤/١/٢٥٢) 


9. 
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں: 
وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ فِي جَمِیعِ الْـآفَاقِ عَلٰی إِبَاحَۃِ حَبْسِ الشَّعْرِ وَعَلٰی إِبَاحَۃِ الْحِلَاقِ. 

”تمام علاقوں کے اہل علم کا بال رکھنے اور بال مونڈھنے کے جواز پر اجماع ہے۔” 
(التمھید لما في الموطّأ من المعاني والأسانید: ٢٢/١٣٨) 

علامہ غزالی(٤٥٠۔٥٠٥ھ) لکھتے ہیں: 
شَعْرُ الرَّأْسِ وَلَا بَأْسَ بِحَلْقِہٖ لِمَنْ أَرَادَ التَّنْظِیفَ وَلَا بِأْسَ بِتَرْکِہٖ لِمَنْ یُدَہِّنُہ، وَیُرَجِّلُہ، إِلَا إِذَا تَرَکَہ، قَزَعَاً أَيْ قَطْعاً وَہُوَ دَأْبُ أَہْلِ الشَّطَارَۃِ أَوْ أَرَسَلَ الذَّوَائِبُ عَلٰی ہَیْئَۃِ أَہْلِ الشَّرَفِ حَیْثُ صَارَ ذٰلِکَ شِعَارًا لَّہُمْ فَإِنَّہ، إِذَا لَمْ یَکُنْ شَرِیفًا کَانَ ذٰلِکَ تِلْبِیسًا. 

”جو صفائی کے ارادے سے سر منڈوائے، تو کوئی حرج نہیں اور جو تیل،  کنگھی کر سکتا ہو، وہ بال رکھ بھی سکتا ہے۔ لیکن ”قزع” (سر کے بعض حصے کو منڈھوا دینا اور بعض کو چھوڑ دینا) جائز نہیں۔ کیوں کہ یہ بد معاشوں کا کام ہے۔ اسی طرح شرفا کی نقالی کرتے ہوئے لٹکیں چھوڑے، جو کہ شرفا کا شعار تھا، ایسا شخص شرفا میں سے نہ ہوا، تو تلبیس کر رہا ہے۔” 
(إحیاء علوم الدین: ١/١٤٠) 

حنفی مذہب کی معتبر ترین کتاب میں لکھا ہے: 
وَیُسْتَحَبُّ حَلْقُ الرَّأْسِ فِي کُلِّ جُمُعَۃٍ، کَذَا فِي الْغَرَائِبِ. 

”ہر جمعہ سر منڈوانا مستحب ہے۔ الغرائب میں ایسے ہی لکھا ہے۔” 
(فتاویٰ عالمگیری: ٥/٣٥٧)


10. 
 ہشام بن حسان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: 
إِنَّ الْحَسَنَ کَانَ یَحْلِقُ رَأْسَہ، یَوْمَ النَّحْرِ بِالْبَصْرَۃِ. 
 
”بصرہ میں حسن بصری رحمہ اللہ عید الاضحی والے دن سر منڈواتے تھے۔” 
(مصنّف ابن أبي شیبۃ: ٤/١/٢٥٢، وسندہ، صحیحٌ) 

امام قتادہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
کُنَّا نُصَلِّي مَعَ الْحَسَنِ عَلَی الْبَوَارِي، وَکَانَ الْحَسَنُ یَحْلِقُ رَأْسَہ، کُلَّ عَامٍ یَّوْمَ النَّحْرِ. 

”ہم حسن بصری رحمہ اللہ کی معیت میں نماز پڑھتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ ہر سال عید الاضحی کو سر منڈھوایا کرتے تھے۔” 
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد: ٧/١٣٠، وسندہ، صحیحٌ) 


11. 
عبد اللہ بن عون رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: 
قُلْتُ لِمُحَمَّدٍ: کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ أَنْ یَّأْخُذَ الرَّجُلُ مِنْ شَعْرِہٖ یَوْمَ النَّحْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ. 
”میں امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے پوچھا: [آیا صحابہ کرام] عید الاضحی والے دن حلق کروانا مستحب سمجھتے تھے؟ فرمایا: جی۔” 
(مصنّف ابن أبي شیبۃ: ٤/١/٢٥٢، وسندہ، صحیحٌ) 


12. 
ابو وائل شقیق بن سلمہ تابعی کبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: 
حَلَقَ حُذَیْفَۃُ رَأْسَہ، بِالْمَدَائِنِ. 

”سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے مدائن کے علاقے میں سر منڈھوایا۔” 
(الأموال للإمام القاسم بن سلام: ١٣٥، الأموال لابن زبجویہ: ٢١٣، مجموع فیہ مصنّفات أبي جعفر ابن البختري: ٢٥٦، وسندہ، صحیحٌ کالشمس) 

زبیر بن خریت رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
عَن عِکْرِمَۃَ فِي الرَّجُلِ یَحْلِقُ رَأْسَہ، یَوْمَ النَّحْرِ قَالَ: کَانَ لَا یَرٰی بِہٖ بَأْسًا بِّأَنْ یَّغْسِلَہ، بِالْخَِطْمِيِّ ثُمَّ یَحْلِقُہ. 

”عکرمہ رحمہ اللہ سے عید الاضحی والے دن حلق کروانے کی بابت پوچھا گیا۔ فرمایا: کوئی حرج نہیں، خطمی (بوٹی کا نام) سے سر دھو کر حلق کر وا سکتا ہے۔” 
(الثّقات لابن حبان: ٦/٣٣٢، ت: ٧٩٧٧، وسندہ، صحیحٌ) 

حافظ نووی رحمہ اللہ (م: ٦٧٦ھ) لکھتے ہیں: 
وَالْمُخْتَارُ أَنْ لَّا کَرَاہَۃَ فِیہِ وَلٰکِنَّ السُّنَّۃَ تَرْکُہ، فَلَمْ یَصِحَّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَلَقَہ، إلَّا فِي الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ وَلَمْ یَصِحَّ تَصْرِیحٌ بِّالنَّہْيِ عَنْہُ. 

”سر منڈوانے کی عدم کراہت ہی درست معلوم ہوتی ہے، لیکن سر کے بال نہ منڈوانا سنت ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے حج و عمرہ کے علاوہ سر منڈوانا ثابت نہیں اور نہ ہی منع ثابت ہے۔” 
(المجموع شرح المھذب: ١/٢٩٦) 


لطیفہ: 
علامہ خطابی رحمہ اللہ (٣١٩۔٣٨٨ھ) حدیث (نَھٰی عَنِ الحلق قَبْلَ الصَّلٰوۃِ یَوْمَ النَّحْرِ) کے تحت لکھتے ہیں: 

اَلْحِلَقُ مَکْسُورَۃُ الْحَاءِ مَفْتُوحَۃُ اللَّامِ جَمَاعَۃُ الْحَلْقَۃِ وَکَانَ بَعْضُ مَشَایِخُنَا یَرَوْنَہ، أَنَّہ، نَہٰی عَنِ الْحَلْقِ بِسُکُونِ اللَّامِ وَأَخْبَرَنِي أَنَّہ، بَقِيَ أَرْبَعِینَ سَنَۃً لَّا یَحْلِقُ رَأْسَہ، قَبْلَ الصَّلَاۃِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فَقُلْتُ لَہ، إِنَّمَا ہُوَ الْحِلَقُ جَمْعُ الْحَلْقَۃِ؛ وَإِنَّمَا کَرِہَ الِاجْتِمَاعَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ لِلْعِلْمِ وَالْمُذَاکَرَۃِ وَأَمَرَ أَنْ یَّشْتَغِلَ بِالصَّلَاۃِ وَیَنْصِتَ لِلْخُطْبَۃِ وَالذِّکْرِ فَإِذَا فَرَغَ مِنْہَا کَانَ الِاجْتِمَاعُ وَالتَّحَلُّقُ بَعْدَ ذٰلِکَ فَقَالَ: قَدْ فَرَّجْتَ عَنِّي وَجَزَانِي خَیْراً وَکَانَ مِنَ الصَّالِحِینَ رَحِمَہ، اللّٰہُ. 

”(حلق) حا کے نیچے زیر اور لام پر زبر کے ساتھ حلقہ کی جمع ہے۔ ہمارے بعض مشائخ اس حلق (لام کی جزم کے ساتھ) سے سمجھے کہ اس سے مراد جمعہ والے دن نماز سے پہلے سر نہ منڈوایا جائے۔ مجھے خبر ملی کہ وہ چالیس سال تک نمازِ جمعہ سے پہلے سر منڈوانے سے رکے رہے۔ پھر میں نے انہیں کہا کہ یہ تو حلقہ کی جمع ہے، مراد یہ ہے کہ نمازِ جمعہ سے پہلے اجتماع اور علمی مذاکرہ قائم کرنے کے لیے بیٹھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور نوافل اور خطبہ سننے کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اجتماع و حلقے جائز ہیں۔ شیخ فرمانے لگے: آپ نے میرا مسئلہ ہی حل کردیا۔ نیز انہوں نے مجھے جزاک اللہ خیرا کہا۔ آپ رحمہ اللہ نیک و پارسا آدمی تھے۔” 
(معالم السنن: ١/٢٤٧) 

تنبیہ: 
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: 
قِیلَ: مَا سِیمَاہُمْ؟ قَالَ: سِیمَاہُمْ التَّحْلِیقُ أَوْ قَالَ: التَّسْبِیدُ. 

”[صحابہ کرام] نے پوچھا: خارجیوں کی نشانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سر منڈوانا۔” 
(صحیح البخاري: ٧٥٦٢) 
صحیح مسلم (١٠٦٤) کی روایت ہے۔ 

سِیمَاھُمُ التَّحَالُقُ. 
”سر منڈوانا ان کی نشانی ہے۔” 
اس حدیث کی وضاحت شارحینِ حدیث کی زبانی سنیں۔ 

شارحِ صحیح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں: 
وَالْمُرَادُ بِالتَّحَالُقُ حَلْقُ الرُّؤُوسِ وَفِي الرِّوَایَۃِ الْـأُخْرٰی التَّحَلُّقُ وَاسْتَدَلَّ بِہٖ بَعْضُ النَّاسِ عَلٰی کَرَاہَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ وَلَا دَلَالَۃَ فِیہِ وَإِنَّمَا ہُوَ عَلَامَۃٌ لَّہُمْ وَالْعَلَامَۃُ قَدْ تَکُونُ بِحِرَامٍ وَّقَدْ تَکُونُ بِمُبَاحٍ کَمَا قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: آیَتُہُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدٰی عَضُدَیْہِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَۃِ وَمَعْلُومٌ أَنَّ ہٰذَا لَیْسَ بِحِرَامٍ وَّقَدْ ثَبَتَ فِي سُنَنِ أَبِي دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٍ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (رَآی صَبِیًّا قَدْ حَلَقَ بَعْضَ رَأْسِہٖ فَقَالَ احْلِقُوہُ کُلَّہ، أَوِ اتْرُکُوہ، کُلَّہ،) وَہٰذَا صَرِیحٌ فِي إِبَاحَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ لَا یَحْتَمِلُ تَأْوِیلًا، قَالَ أَصْحَابُنَا حَلْقُ الرَّأْسِ جَائِزٌ بِّکُلِّ حَالٍ لّٰکِنْ إِنْ شَقَّ عَلَیْہِ تَعَہُّدُہ، بِالدُّہْنِ وَالتَّسْرِیحِ اسْتُحِبَّ حَلْقُہ، وَإِنْ لَمْ یَشُقَّ اسْتُحِبَّ تَرْکُہ. 

”تحالق سے مراد سروں کو مونڈھنا ہے، دوسری روایت میں تحلق کے الفاظ ہیں۔ بعض لوگوں نے اس سے سر منڈوانے کی کراہت پر دلیل بنانے کی کوشش کی ہے، جب کہ ان کی یہ دلیل بنتی نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ تو خارجیوں کی ایک علامت بیان ہوئی ہے اور علامت حرام چیز سے بھی ہو سکتی ہے اور مباح اور جائز سے بھی۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ان کی علامت یہ ہے کہ ان میں ایک سیاہ فام آدمی ہوگا، جس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح ہو گا۔ یہ تو طے ہے کہ یہ کوئی حرام چیز نہیں ہے۔ اس پر سہاگہ یہ کہ سنن ابو داؤد (٤١٩٢) کی روایت جو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے، میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا جس کا کچھ سر مونڈھا ہوا تھا اور کچھ چھوڑ دیا گیا تھا، آپ نے فرمایا: ”سارا سر مونڈھو یا سارا چھوڑ دو۔” حلق کے جواز پر یہ حدیث اس قدر صریح ہے کہ تاویل کی کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی۔ ہمارے اصحاب کہتے ہیں کہ سر منڈوانا ہر حال میں جائز ہے۔ بالوں کو تیل و کنگھی کا اہتمام کرنا مشکل ہو، تو سر منڈوانا مستحب ہے اور اگر مشکل نہیں، تو بال رکھنا مستحب ہے۔” 
(شرح صحیح مسلم: ٧/١٦٧) 

علامہ طیبی (٧٤٣ھ) لکھتے ہیں: 
(اَلتَّحْلِیقُ) أَيْ عَلَامَتُہُمُ التَّحْلِیقُ، وَإِنَّمَا أُتِي بِہٰذَا الْبَنَاءِ إِمَّا لِتَعْرِیفِ مُبَالَغَتِہِمْ فِي الْحَلْقِ أَوِ لْـإِکْثَارِہِمْ مِّنْہ، ، وَفِیہِ وَجْہَانِ، أَحَدُہُمَا: اسْتِئْصَالُ الشَّعْرِ مِنَ الرَّأْسِ، وَہُوَ لَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْحَلْقَ مَذْمُومٌ، فَإِنَّ الشِّیَمَ والْحِلَی الْمَحْمُودَۃَ قَدْ یَتَزَیَّنُ بِہِ الْخَبِیثُ تَلْبِیسًا تَرْوِیجًا لِّخُبْثِہٖ وَإِفْسَادِہٖ عَلٰی النَّاسِ، وَہُوَ کَوَصْفِہِمْ بِّالصَّلَاۃِ وَالصِّیَامِ. 

”یعنی ان کی علامت سر منڈوانا ہے۔ تحلیق کا لفظ اس لیے لایا گیا کہ یا تو وہ سر مونڈھنے میں مبالغہ کرتے ہوں گے یا کثرت سے سر منڈواتے ہوں گے۔ لہٰذا اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلاً سر کے بال جڑ سے ہی اکھاڑ دینا۔ اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ حلق کرنا مکروہ ہے، کیوں کہ کبھی برا آدمی اپنی خباثت کو فروغ دینے اور لوگوں کے لیے فساد کھڑا کرنے کے لیے عمدہ اخلاق اور ظاہری وضع قطع کا روپ دھارتا ہے۔ یہ خارجی بھی ایسے ہی ہوں گے، جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان کر دیا ہے۔” 
(شرح الطیبي: ٨/٢٥٠٤) 

علامہ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩۔٩١١ھ) لکھتے ہیں: 
قَالَ الْقُرْطُبِيُّ: قَوْلُہ، سِیمَاہُمُ التَّحْلِیقُ أَيْ جَعَلُوا ذَالِکَ عَلَامَۃً لَّہُمْ عَلٰی رَفْضِہِمْ زِینَۃَ الدُّنْیَا وَشِعَارًا لِّیُعْرَفُوا بِہٖ وَہٰذَا مِنْہُمْ جَہْلٌ بِّمَا یُزْہَدُ وَمَالَا یُزْہَدُ فِیہِ وَابْتِدَاعٌ مِّنْہُمْ فِي دِینِ اللّٰہِ شَیْئًا. 

”امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سِیمَاہُمُ التَّحْلِیقُ" کا معنی یہ ہے کہ وہ سر منڈوانے کو دنیا سے بے رغبتی کا معیار اور شعار بنا لیں گے کہ اس سے پہچان ہو سکے۔ یہ ان کی معیارِ زہد سے نا واقفیت اور دین میں اختراع کی بنا پر ہو گا۔” 
(حاشیۃ السیوطي علی النسائي: ٧/١٢١) 


تنبیہات: 
~~~~~؛

1. بعض لوگ بچوں کو مزاروں، مقبروں اور خانقاہوں پر لے جا کر ان کے سر کے بال منڈاتے ہیں، بزرگوں کے نام پر بالوں کی لٹ چھوڑ دیتے ہیں، یہ واضح شرک ہے، نیز ممنوع و حرام بھی ہے، کیوں کہ یہ قزع کی صورت بنتی ہے۔ 

2. شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) سر کے بال منڈوانے کی ایک نا جائز اور حرام صورت یوں بیان کرتے ہیں: 

حَلْقُہ، عَلٰی وَجْہِ التَّعَبُّدِ وَالتَّدَیُّنِ وَالزُّہْدِ؛ مِنْ غَیْرِ حَجٍّ وَّلَا عُمْرَۃٍ مِّثْلَ مَا یَأْمُرُ بَعْضُ النَّاسِ التَّائِبَ إذَا تَابَ بِحَلْقِ رَأْسِہٖ وَمِثْلَ أَنْ یُّجْعَلَ حَلْقُ الرَّأْسِ شِعَارَ أَہْلِ النُّسُکِ وَالدِّینِ؛ أَوْ مِنْ تَمَامِ الزُّہْدِ وَالْعِبَادَۃِ أَوْ یُجْعَلَ مَنْ یَّحْلِقُ رَأْسَہ، أَفْضَلَ مِمَّنْ لَّمْ یَحْلِقْہُ أَوْ أَدْیَنَ أَوْ أَزْہَدَ أَوْ أَنْ یُّقَصَّرَ مِنْ شَعْرِ التَّائِبِ
کَمَا یَفْعَلُ بَعْضُ الْمُنْتَسِبِینَ إلَی الْمَشْیَخَۃِ إذَا تُوْبَ أَحَدًا أَنْ یَّقُصَّ بَعْضَ شَعْرِہٖ وَیُعَیِّنُ الشَّیْخُ صَاحِبَ مِقَصٍّ وَسَجَّادَۃٍ؛ فَیَجْعَلُ صَلَاتَہ، عَلَی السَّجَّادَۃِ وَقَصَّہ، رُءُوسَ النَّاسِ مِنْ تَمَامِ الْمَشْیَخَۃِ الَّتِي یَصْلُحُ بِہَا أَنْ یَّکُونَ قُدْوَۃً یَّتُوبُ لِلتَّائِبِینَ فَہٰذَا بِدْعَۃٌ لَّمْ یَأْمُرِ اللّٰہُ بِہَا وَلَا رَسُولُہ، ؛ وَلَیْسَتْ وَاجِبَۃً وَّلَا مُسْتَحَبَّۃً عِنْدَ أَحَدٍ مِّنْ أَئِمَّۃِ الدِّینِ؛ وَلَا فَعَلَہَا أَحَدٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ لَہُمْ بِّإِحْسَانِ وَّلَا شُیُوخِ الْمُسْلِمِینَ الْمَشْہُورِینَ بِالزُّہْدِ وَالْعِبَادَۃِ لَا مِنَ الصَّحَابَۃِ وَلَا مِنَ التَّابِعِینَ وَلَا تَابِعِیہِمْ وَمَنْ بَّعْدَہُمْ مِّثْلُ الْفُضَیْلِ بْنِ عِیَاضٍ؛ وَإِبْرَاہِیمَ بْنِ أَدْہَمَ؛ وَأَبِي سُلَیْمَانَ الدَّارَانِيِّ وَمَعْرُوفٍ الْکَرْخِيِّ وَأَحْمَد بْنِ أَبِي الْحِوَارِيِّ؛ وَالسَّرِيِّ السَّقَطِيِّ؛ والْجُنَیْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَّسَہْلِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ التُسْتَرِيِّ وَأَمْثَالِ ہٰؤُلَاءِ لَمْ یَکُنْ ہٰؤُلَاءِ یَقُصُّونَ شَعْرَ أَحَدٍ إذَا تَابَ وَلَا یَأْمُرُونَ التَّائِبَ أَنْ یَّحْلِقَ رَأْسَہ، ، وَقَدْ أَسْلَمَ عَلٰی عَہْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیعُ أَہْلِ الْأَرْضِ وَلَمْ یَکُنْ یَّأْمُرُہُمْ بِّحَلْقِ رُءُ وسِہِمْ إذَا أَسْلَمُوا وَلَا قَصَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأْسَ أَحَدٍ. 

”حج و عمرہ کے علاوہ نیکی، دینداری اور زہد سمجھ کر سر منڈوانا ممنوع و حرام ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ توبہ کرنے والے کو سر منڈوانے کا کہتے ہیں۔ یا سر منڈوانا اللہ والوں کا شعار و معیار قرار دینا یا زہد و عبادت کی تکمیل کا ذریعہ سمجھنا یا اسے دوسروں سے افضل، دیندار اور زاہد سمجھنا یا گناہ سے تائب ہونے والے کے کچھ بال کاٹ دینا، جیسا کہ بزرگوں کی طرف منسوب بعض لوگوں کا وطیرہ ہے کہ جب کسی کو توبہ کرواتے ہیں، تو اس کے کچھ بال کاٹ دیتے ہیں اور بزرگ صاحب کاٹنے والے اور جائے نماز کا تعین بھی کرتا ہے۔ وہ نماز اس مصلے پر ادا کرتا ہے اور اس کے بال بزرگی کی تکمیل کے لیے سب کے سامنے کاٹے جاتے ہیں، تاکہ توبہ کرنے والوں کے لیے نمونہ بن جائے۔ یہ تو صریح بدعت ہے، اللہ اور اس کے رسول نے اس کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی ائمہ دین کے ہاں اس کے واجب، یا مستحب ہونے کی کوئی حیثیت ہے۔  صحابہ کرام، تابعین عظام اور زہد و تقوی سے مزین شیوخ المسلمین نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ایسا کوئی نہ صحابہ میں تھا، نہ ہی تابعین و اتباع تابعین میں۔ جیسا کہ فضیل بن عیاض، ابراہیم بن ادہم، ابو سلیمان دارانی، معروف کرخی، سری سقطی، جنید بن محمد اور سہل بن عبد اللہ تستری وغیرہم گناہ سے توبہ کرتے ہوئے بال نہیں کاٹتے تھے اور نہ کسی توبہ کرنے والے کو کاٹنے کا کہتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پورا عرب مسلمان ہو کر تائب ہوا لیکن آپ نے انہیں اپنے بال کاٹنے کا نہیں کہا اور نہ ہی خود کسی کے بال کاٹے۔ 
(مجموع الفتاویٰ: ٢١/١١٧۔١١٩) 

احمد رضا خان بریلوی صاحب لکھتے ہیں: 
”بعض جاہل عورتوں میں دستور ہے کہ بچے کے سر پر بعض اولیائے کرام کے نام کی چوٹی رکھتی ہیں اور اس کی کچھ میعاد مقرر کرتی ہیں، اس میعاد تک کتنے ہی بار بچے کا سر منڈے وہ چوٹی برقرار رکھتی ہیں، پھر میعاد گزار کر مزار پر لے جا کر وہ بال اتارتی ہیں، تو یہ ضرور محض بے اصل وبدعت ہے۔” 
(فتاوی افریقہ، ص: 73) 

3. مصیبت کے وقت سر منڈوانا کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ محرم الحرام میں غم حسین میں سر کے بال منڈوا لیتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی بات ہے۔ مومنوں کو چاہیے کہ وہ مصائب و آلام میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کا مظاہرہ کریں۔ جیسا کہ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے بیماری کی حالت میں کہا تھا: 

أَنَا بَرِيءٌ مِّمَّنْ بَّرِیئَ مِنْہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَرِیئَ مِنَ الصَّالِقَۃِ وَالْحَالِقَۃِ وَالشَّاقَّۃِ. 

”جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بری ہیں، میں بھی اس سے بری ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کے وقت بین اور واویلہ کرنے والی، سر منڈوانے والی اور کپڑے پھاڑنے والی سے بری ہیں۔” 
(صحیح البخاري: ١٢٩٦، صحیح مسلم: ١٠٤) 


حج وعمرہ میں بال منڈانا مستحب ہے: 
~~~~~~~~~~~~~؛

حج و عمرہ میں سر کے بال منڈوانے کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ اس کی مشروعیت و سنیت کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(مُحَلِّقِینَ رُء ُوسَکُمْ وَمُقَصِّرِینَ) 
(الفتح: ٢٧) 
”اپنے سر کے بال منڈوانے والے اور کٹوانے والے۔” 


حج و عمرہ میں سر کے بال منڈوانا افضل اور کٹوانا جائز ہے۔ 
~~~~~~~~~~~~~؛

جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

اَللّٰہُمَّ ارْحَمِ المُحَلِّقِینَ، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِینَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: اللّٰہُمَّ ارْحَمِ المُحَلِّقِینَ قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِینَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: وَالْمُقَصِّرِینَ. 

”اللہ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ عرض گزار ہوئے: اللہ کے رسول! سر کے بال کٹوانے والوں کے لیے بھی دعا فرمائیے۔ فرمایا: اللہ! سر کے بال منڈوانے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ کرام نے پھر عرض کی: اللہ کے رسول! بال کٹوانے والوں پر بھی!۔ فرمایا: بال کٹوانے والوں پر بھی۔” 
(صحیح البخاري: ١٧٢٧، صحیح مسلم: ٣١٠١) 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بال منڈوانے والوں کے حق میں تین بار دعائے رحمت و مغفرت فرمائی۔ صحابہ کرام کے کہنے پر بال کٹوانے والوں کے حق میں ایک بار دعا فرمائی۔ 

فائدہ نمبر 1: 
صحیح البخاری (١٧٢٨) اور صحیح مسلم (١٣٠٢) میں دعائے مغفرت بھی ثابت ہے۔ 

فائدہ نمبر 2: 
حج و عمرہ میں عورتوں کے لیے ایک دو انچ بال کٹوانے کی اجازت ہے۔  جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

لَیْسَ عَلَی النِّسَاءِ الْحَلْقُ، إِنَّمَا عَلَی النِّسَاءِ التَّقْصِیرُ. 

”عورتیں سر کے بال نہیں منڈوائیں گی، بلکہ صرف (معمولی) بال کاٹ لیں گی۔” 
(سنن أبي داؤد: ١٩٨٥، سنن الدارمي: ٢/٦٤، سنن الدارقطني: ٢/٢٧١، و سندہ، حسنٌ) 
اس حدیث کو امام ابو حاتم رازای رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔ 
(العلل لابن أبي حاتم: ١/٢٨١) 
حافظ نووی رحمہ اللہ (المجموع: ٨/١٩٧) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (بلوغ المرام: ٧٦٩) نے اس کی سند کو ”حسن” کہا ہے۔ 

حافظ ابن المنذر (٢٤٢۔٣١٩ھ) لکھتے ہیں: 
أَجْمَعُوا أَنْ لَّیْسَ عَلَی النِّسَاءِ حَلْقٌ. 

”اہل علم کا اجماع ہے کہ عورتیں بال نہیں منڈوائیں گے۔ 
(الإجماع، ص: ٥٨، الإشراف علی مذاہب العلماء: ٣/٣٥٩) 

بہت سارے اہل علم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ جیسا کہ
حافظ ابن القطان فاسی (الامتناع فی مسائل الاجماع: ١٦٤٦)، حافظ نووی (المجموع: ٨/٢١٠)، علامہ ابن قدامہ مقدسی (المغنی: ٣/٣٩٠)، علامہ قرطبی (تفسیر قرطبی: ٢/٣٨١)، علامہ کاسانی حنفی (بدائع الصنائع: ٢/١٤١) وغیرہ۔ 
شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٨٥٢ھ) لکھتے ہیں: 

وَأَمَّا النِّسَاءُ فَالْمَشْرُوعُ فِي حَقِّہِنَّ التَّقْصِیرُ بِالْإِجْمَاعِ. 

”حج و عمرہ میں عورتوں کے لیے (معمولی) بال کاٹنا بالاجماع مشروع ہے۔”
(فتح الباري: ٣/٥٦٥) 

تنبیہ: 
علامہ کاسانی حنفی (م: ٥٨٧ھ) لکھتے ہیں: 
لِہٰذَا لَمْ تَفْعَلْہُ وَاحِدَۃٌ مِّنْ نِّسَاءِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. 

”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں کسی نے بھی سر نہیں منڈوایا۔” 
(بدائع الصنائع: ٢/١٤١) 

کاسانی صاحب کی یہ بات درست نہیں۔ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے ایسا کرنا ثابت ہے۔ 

یزید بن اصم رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
رَأَیْتُ أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ مَیْمُونَۃَ تَحْلِقُ رَأْسَہَا بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. 

”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد میں نے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو سر منڈواتے دیکھا۔” 
(طبقات ابن سعد: ٨/١١٠، المعجم الکبیر للطبراني: ٢٣/٤٢٢، ح: ١٠٢٢، وسندہ، حسنٌ) 

نیز کہتے ہیں: 
دَفَنَّا مَیْمُونَۃَ بِسَرِفَ فِي الظُّلَّۃِ الَّتِي بَنٰی بِہَا فِیہَا رَسُولُ اللّٰہِ وَکَانَتْ یَوْمَ مَاتَتْ مَحْلُوقَۃً قَدْ حَلَقَتْ فِي الْحَجِّ. 

”ہم نے سرف مقام پر سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو اسی شامیانے میں دفن کیا، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی رخصتی ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے سر کے بال وفات والے دن مونڈے ہوئے تھے، جو انہوں نے حج کے موقع پر منڈوائے تھے۔” 
(الطبقات لابن سعد: ٨/١١٠، سندہ، صحیحٌ) 

سیدہ میمونہ نے اجتہاداً ایسا کر لیا، چوں کہ آپ بوڑھی تھیں اور دنیا سے بے غرض تھیں۔ 


حالتِ احرام میں عذر کی بنا پر سر منڈانے کی اجازت: 
~~~~~~~~~~~~~؛

احرام میں مریض کو دوائی لگانے یا جوؤں کو تلف کرنے کی غرض سے سر کے بال منڈوانے کی شریعت مطہرہ میں اجازت ہے۔ 

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
(وَلَا تَحْلِقُوا رُء ُوسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْيُ مَحِلَّہ، فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیضًا أَوْ بِہٖ أَذًی مِّنْ رَّأْسِہٖ فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ) 
(البقرۃ: ١٩٦) 

”اس وقت تک سر نہ منڈواؤ، جب تک قربانی ذبح نہ کر دی جائے، جو بیمار ہو یا سر میں تکلیف ہو (وہ ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوا سکتا ہے لیکن) روزوں، صدقہ یا دم کا فدیہ ہے۔” 

سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے سر میں جوئیں پڑ گئیں، جو ان کے لیے حالت احرام میں باعث اذیت تھیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

اِحْلِقْ رَأْسَکَ، وَصُمْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ، أَوْ أَطْعِمْ سِتَّۃَ مَسَاکِینَ، أَوْ انْسُکْ بِشَاۃٍ. 

”اپنے سر کے بال منڈوا دیں اور تین روزیں رکھ لیں یا چھ مساکین کو کھانا کھلا دیں یا ایک بکری ذبح کردیں۔” 
(صحیح البخاري: ١٨١٤، صحیح مسلم: ١٢٠١) 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: ٧٢٨ھ) فرماتے ہیں: 
حَلْقُ الرَّأْسِ لِلْحَاجَۃِ مِثْلُ أَنْ یَّحْلِقَہ، لِلتَّدَاوِي فَہٰذَا أَیْضًا جَائِزٌ بِّالْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَالْإِجْمَاعِ. 

”حاجی کے لیے بہ وقت ضرورت دوائی وغیرہ لگانے کے لئے سر منڈوانا کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔” 
(مجموع الفتاویٰ: ٢١/١١٧) 


پیالہ کٹنگ: 
~~~~~~؛

قزع (پیالہ کٹنگ) کی بہت ساری صورتیں ہیں۔ 

1. 
سر کے بال بغیر ترتیب کے منڈوانا۔ مثلا سر کے دائیں بائیں اور پیشانی کے بال منڈوا لینا اور باقی کو چھوڑ دینا۔ 

2. 
سر کے درمیان سے بال منڈوانا اور سائیڈوں کے بال چھوڑ دینا۔ 

3. 
سر کے درمیان سے بال چھوڑ دینا اور سائیڈوں کے بال منڈوا دینا۔ 

4. 
پیشانی کے بال منڈوانا اور سر کے باقی حصے کے بال چھوڑ دینا وغیرہ۔ 

یہ ساری کی ساری ممنوع و حرام صورتیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہ کفار کی مشابہت ہے، کافروں کی وضع قطع اختیار کرنا حرام ہے، یہ غیر سنجیدہ، گھٹیا اور پست ذہنیت کی عکاسی ہے۔ 

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: 
سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہٰی عَنِ القَزَعِ. 

”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیالہ کٹنگ سے منع فرماتے ہوئے سنا۔” 
(صحیح البخاري: ٥٩٢٠، صحیح مسلم: ٢١٢٠) 


http://mazameen.ahlesunnatpk.com/masla-sar-k-balon-ka 

~~~~~~~~~~~~~; 

Salafi Tehqiqi Library
سلفی تحقیقی لائبریری

Website:
ویبسائٹ:

فیس بک گروپ:

کتاب و سنت اور فہم سلف پر مبنی تحقیق و تخریج کردہ دینی کتب و مقالات کی لنکس حاصل کر سکتے ہیں کبھی بھی کسی بھی وقت، ٹیلگرام چینل

*"سلفی تحقیقی لائبریری"*

میں جوائین ہوکر، سرچ کرکے

بذریعہ ٹیلیگرام اس چینل میں جوائین کرنے کیلئے لنک 👇🏻
ٹیلی گرام چینل:
Telegram Channel:

~~~~

ٹیلی گرام اکاؤنٹ اوپن کرنے کیلئے حاصل کریں ٹیلی گرام کی ایپ نیچے کی لنک سے 👇🏻

 "Telegram"

~~~~

شئیر

.