پیر، 24 مارچ، 2025

رمضان میں خوب سخاوت کریں عمران محمدی

۔

۔ ۔ ۔> ﷽ <۔ ۔ ۔ 



رمضان میں خوب سخاوت کریں 

بقلم : 
عمران محمدی عفا اللہ عنہ 

تلخیص :
عزیر ادونوی

ہ ے ے ے ے ے ے ے ے ہ 


لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ ۔ 


۔۔> رمضان میں تیز آندھی سے بڑھ کر صدقہ کرتے <۔۔

حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں :

 كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ ، وَ كَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ ، وَ كَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ ، فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ۔
 
بخاري 6 

 کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ جواد ( سخی ) تھے اور رمضان میں ( دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب ) جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺ سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے ۔ 
جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے ، 
غرض آنحضرت ﷺ لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے ۔


۔۔> روزہ اور صدقہ دخول جنت کا راستہ <۔۔

ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ 
آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں پیشگی کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ 

آپ نے فرمایا : 
 کہ اللہ کی عبادت کر اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا ، فرض نماز قائم کر ، فرض زکوۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ ۔ 

دیہاتی نے کہا : 
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ 

اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے ۔

صحیح بخاری 1397 


۔۔> روزہ اور صدقہ گناہوں کا کفارہ <۔۔

حضرت حزیفہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا :

فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَ مَالِهِ وَ جَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَ الصِّيَامُ وَ الصَّدَقَةُ۔
 
آدمی کی آزمائش ہوتی ہے اس کے بال بچوں کے بارے میں ، اس کے مال میں اور اس کے پڑوسی کے سلسلے میں ، ان آزمائشوں کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ ہیں۔ 


۔۔> روزہ اور صدقہ اسلام کی بنیاد <۔۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

 بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ ، ‏‏‏‏‏‏شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏وَ إِقَامِ الصَّلَاةِ ، ‏‏‏‏‏‏ وَ إِيتَاءِ الزَّكَاةِ ، ‏‏‏‏‏‏وَ الْحَجِّ ، ‏‏‏‏‏‏وَ صَوْمِ رَمَضَانَ . 
 
 اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے ۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ 

بخاری  


۔۔> نبی کریم ﷺ نے کبھی کسی سائل کو نفی میں جواب نہیں دیا <۔۔

 حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : 
 
مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ لَا ۔ 

مسلم ، كِتَابُ الْفَضَائِلِ ، بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي ﷺ 6018
 
ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ نے ( نا یا نہیں ) فرمایا ہو ۔ 


۔۔> احد پہاڑ برابر سونا اللہ کیق راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ <۔۔ 

ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 

 لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا لَسَرَّنِي أَنْ لَا تَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثُ لَيَالٍ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ ۔ 
 
بخاري 6080 

اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو ، تو بھی مجھے اس میں خوشی ہوگی کہ تین دن بھی مجھ پر اس حال میں نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ بھی باقی بچے ۔ البتہ اگر کسی کا قرض دور کرنے کے لئے کچھ رکھ چھوڑوں تو یہ اور بات ہے ۔


۔۔> میرے نبی ﷺ محنت کر کے لوگوں کی ضروریات پوری کرتے <۔۔


آپ کی اسی خوبی کے متعلق خدیجہ ؓ کا تبصرہ بھی ملاحظہ فرمائیں :  

 كَلَّا وَ اللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا ، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَ تَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ ، وَ تَقْرِي الضَّيْفَ ، وَ تُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ۔ 
 
اللہ کی قسم !  
آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا ، 
آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں ، 
آپ تو کنبہ پرور ہیں ، 
بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں ، 
مفلسوں کے لۓ آپ کماتے ہیں ، 
مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور 
مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں ۔ 


۔۔> بکریوں کی بھری ہوئی وادی صدقہ کر دی <۔۔

انس ؓ سے روایت ہے 
آپؓ فرماتے ہیں :

مَا سُئِلَ رَسُولُ ﷺ عَلَى الْإِسْلَامِ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ ، قَالَ : فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ ، فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ ، فَقَالَ : يَا قَوْمِ أَسْلِمُوا ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لَا يَخْشَى الْفَاقَةَ ۔

مسلم ، كِتَابُ الْفَضَائِلِ ، بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي ﷺ 6020  

رسول اللہ ﷺ سے اسلام ( لا نے ) پر جوبھی چیز طلب کی جاتی آپ وہ عطاء فرما دیتے ، کہا : 
ایک شخص آپ کے پاس آیا تو آپ ﷺ دو پہاڑوں کے درمیان ( چرنے والی ) بکریاں اسے دے دیں ، وہ شخص اپنی قوم کی طرف واپس گیا اور کہنے لگا : 
میری قوم ! مسلمان ہو جاؤ بلا شبہ محمد ﷺ اتنا عطاء کرتے ہیں کہ فقر و فاقہ کا اندیشہ تک نہیں رکھتے ۔ 


۔۔> صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا <۔۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 

مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ ، وَ مَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا ، وَ مَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ .

صحيح مسلم 2588

 صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے ۔ 

 کم اس لۓ نہیں ہوتا کہ صدقہ کسی بڑی مصیبت کو ٹال دیتا ہے 


۔۔> صدقہ ٹالتا ہے رب تعالیٰ کے غصے اور بری موت کو <۔۔

انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 

إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ ، وَ تَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ ۔ 

ترمذي 664

صدقہ رب کے غصے کو بجھا دیتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے ۔ 

نوٹ : 
حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے ۔ 
سند میں حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے ، اور عبد اللہ بن عیسیٰ الخزار ضعیف ہیں لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں ۔ 
دیکھئے الصحیحۃ رقم ۱۹۰۸  

500 دے کر بیٹے کی ٹانگ ٹوٹنے سے بچا لیا اور 500 نہ دے کر ٹانگ تڑوالی 
بتائیں مال کم ہوا یا زیادہ ⸮ 


۔۔> وہ کنواں خشک نہیں ہوتا جسے استعمال کیا جاتا ہو <۔۔

جس کنویں سے لوگ پانی پیتے رہیں وہ کبھی نہیں سو کھتا
لوگ پانی پینا چھوڑ دیں تو کنواں سوکھ جاتا ہے 

آباد عمارت ویران اور بوسیدہ نہیں ہوتی 

چلتی گاڑی ، کھڑی گاڑی کی نسبت جلدی خراب نہیں ہوتی 

یہ قدرت کا قانون ہے یہ بڑے راز کی بات ہے 

باپ صدقہ کرتا تھا باغ پھل دیتا تھا بیٹوں نے چھوڑ دیا رب نے توڑ دیا 


۔۔> ایک دینار دے کر ساتھ مزید 50 لے لۓ <۔۔

حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ حَازِمٍ الْبَلْخِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَال : ‏‏‏‏ سَمِعْتُ الْمَكِّيَّ بْنَ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ : ‏‏‏‏ كُنَّا عِنْدَ ابْنِ جُرَيْجٍ الْمَكِّيِّ ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ سَائِلٌ فَسَأَلَهُ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ لِخَازِنِهِ : ‏‏‏‏ أَعْطِهِ دِينَارًا ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ : ‏‏‏‏ مَا عِنْدِي إِلَّا دِينَارٌ إِنْ أَعْطَيْتُهُ لَجُعْتَ وَ عِيَالُكَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ فَغَضِبَ وَقَالَ : ‏‏‏‏ أَعْطِهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْمَكِّيُّ : ‏‏‏‏ فَنَحْنُ عِنْدَ ابْنِ جُرَيْجٍ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ بِكِتَابٍ وَصُرَّةٍ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْهِ بَعْضُ إِخْوَانِهِ ، ‏‏‏‏‏‏وَ فِي الْكِتَابِ إِنِّي قَدْ بَعَثْتُ خَمْسِينَ دِينَارًا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ فَحَلَّ ابْنُ جُرَيْجٍ الصُّرَّةَ : ‏‏‏‏ فَعَدَّهَا فَإِذَا هِيَ أَحَدٌ وَ خَمْسُونَ دِينَارًا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ لِخَازِنِهِ : ‏‏‏‏ قَدْ أَعْطَيْتَ وَاحِدًا فَرَدَّهُ اللَّهُ عَلَيْكَ وَ زَادَكَ خَمْسِينَ دِينَارًا. 

سنن الترمذی : تحت 2035 سندہ حسن ان شاءاللہ 

مکی بن ابراہیم کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن جریج مکی کے پاس تھے ، ایک مانگنے والا آیا اور ان سے کچھ مانگا ، ابن جریج نے اپنے خزانچی سے کہا : اسے ایک دینار دے دو ، خازن نے کہا : میرے پاس صرف ایک دینار ہے اگر میں اسے دے دوں تو آپ اور آپ کے اہل و عیال بھوکے رہ جائیں گے ، یہ سن کر ابن جریج غصہ ہو گئے اور فرمایا : اسے دینار دے دو ، ہم ابن جریج کے پاس ہی تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس ایک خط اور تھیلی لے کر آیا جسے ان کے بعض دوستوں نے بھیجا تھا ، خط میں لکھا تھا : میں نے پچاس دینار بھیجے ہیں ، ابن جریج نے تھیلی کھولی اور شمار کیا تو اس میں اکاون دینار تھے ، ابن جریج نے اپنے خازن سے کہا : تم نے ایک دینار دیا تو اللہ تعالیٰ نے تم کو اسے مزید پچاس دینار کے ساتھ لوٹا دیا ۔ 


۔۔> اللہ تعالیٰ کی محبت پر کھانا کھلانے والے قیامت کے دن بڑے شر سے محفوظ رہیں گے <۔۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَ يَتِيمًا وَ أَسِيرًا 0 

اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو ۔ 
الإنسان : 8

إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَ لَا شُكُورًا 0 

(اور کہتے ہیں) ہم تو صرف اللہ کے چہرے کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں ، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ ۔ 
الإنسان : 9 

إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا 0 

یقینا ہم اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو بہت منہ بنانے والا ، سخت تیوری چڑھانے والا ہوگا ۔  
الإنسان : 10 

فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَ لَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَ سُرُورًا 0 

پس اللہ نے انھیں اس دن کی مصیبت سے بچا لیا اور انھیں انوکھی تازگی اور خوشی عطاء فرمائی ۔  
الإنسان : 11 

وَ جَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَ حَرِيرًا 0 

اور انھیں ان کے صبر کرنے کے عوض جنت اور ریشم کا بدلہ عطا فرمایا ۔  
الإنسان : 12  


۔۔> مقروض پر صدقہ اور اللہ تعالیٰ کا سایہ <۔۔


اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 
جس نے اپنے قرض دار کو مہلت دی یا قرض معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ اسے ( قیامت کے دن ) اپنا سایہ عطاء فرمائے گا ۔ 

مسلم ، الزہد ، باب حدیث جابر الطویل … ۳۰۰۶ ، عن عبادۃ بن الصامت ؓ 


۔۔> مال کے ساتھ تعلق رکھنے والے چار قسم کے افراد <۔۔

ابو کبشہ الانماری ؓ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ( لمبی حدیث ہے ) ، اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :  

 إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ : 
 عَبْدٍ رَزَقَهُ اللّٰهُ مَالاً وَ عِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِيْ رَبَّهُ فِيْهِ وَ يَصِلُ فِيْهِ رَحِمَهُ وَ يَعْلَمُ لِلّٰهِ فِيْهِ حَقًّا فَهٰذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ
 وَ عَبْدٍ رَزَقَهُ اللّٰهُ عِلْمًا وَ لَمْ يَرْزُقْهُ مَالاً فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ يَقُوْلُ لَوْ أَنَّ لِيْ مَالاً لَعَمِلْتُ فِيْهِ بِعَمَلِ فُلاَنٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ
 وَ عَبْدٍ رَزَقَهُ اللّٰهُ مَالاً وَ لَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يُخْبَطُ فِيْ مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لاَ يَتَّقِيْ فِيهِ رَبَّهُ وَ لاَ يَصِلُ فِيْهِ رَحِمَهُ وَ لاَ يَعْلَمُ لِلّٰهِ فِيْهِ حَقًّا فَهٰذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ
 وَ عَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْهُ اللّٰهُ مَالاً وَ لاَ عِلْمًا فَهُوَ يَقُوْلُ لَوْ أَنَّ لِيْ مَالاً لَعَمِلْتُ فِيْهِ بِعَمَلِ فُلاَنٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ ۔ 
 
 ترمذي ، الزھد ، باب ما جاء مثل الدنیا مثل أربعۃ نفر ۲۳۲۵ 
 
 دنیا صرف چار آدمیوں کے لئے ہے :

1۔ ایک وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال اور علم عطا فرمایا ، چنانچہ وہ اس کے بارے میں اپنے رب سے ڈرتا ہے اور صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ کا حق جانتا ہے ، یہ سب سے افضل مرتبے میں ہے 
2۔ اور ایک وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے علم دیا ، مگر مال نہیں دیا ، چنانچہ وہ سچی نیت والا ہے کہتا ہے ، اگر میرے پاس مال ہو تو میں فلاں شخص جیسا عمل کروں ، سو یہ اس کی نیت ہے اور دونوں کا اجر برابر ہے ۔ 
3۔ اور ایک وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ، مگر علم نہیں دیا ، چنانچہ وہ اس میں علم کے بغیر ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرتا ہے ، نہ اس میں اپنے رب سے ڈرتا ہے ، نہ اس میں صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ اس میں اللہ کا کوئی حق جانتا ہے ، سو وہ بدترین مرتبے میں ہے 
4۔ اور ایک وہ بندہ جسے اللہ نے نہ مال دیا ہے نہ علم ، چنانچہ وہ کہتا ہے ، اگر میرے پاس مال ہو تو میں فلاں شخص جیسا عمل کروں تو یہ اس کی نیت ہے اور ان دونوں کا گناہ برابر ہے ۔ 


۔۔> تجارت کی لالچ صدقہ سے نہ روکے <۔۔

رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ إِقَامِ الصَّلَاةِ وَ إِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَ الْأَبْصَارُ 0 

وہ بڑی شان والے مرد جنھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ کوئی تجارت غافل کرتی ہے اور نہ کوئی خرید و فروخت ، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی ۔ 

النور 37  



۔۔> اپنے مال کا مخصوص حصہ صدقہ کرنے والا جنت میں جائے گا <۔۔

وَ الَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ 0

اور وہ جن کے مالوں میں ایک مقرر حصہ ہے ۔ 
المعارج 24 

لِلسَّائِلِ وَ الْمَحْرُومِ 0

سوال کرنے والے کے لئے اور ( اس کے لئے ) جسے نہیں دیا جاتا ۔ 
المعارج 25

أُولَئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُكْرَمُونَ 0

یہی لوگ جنتوں میں عزت دیے جانے والے ہیں۔ 
المعارج 35  


۔۔> اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ، تو نے نہیں کھلایا <۔۔

ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : 
يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي. 
قَالَ : يَا رَبِّ ، كَيْفَ أَعُودُكَ وَ أَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ⸮ 
قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ ⸮ 
 يَا ابْنَ آدَمَ ، اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي. 
قَالَ : يَا رَبِّ ، وَ كَيْفَ أُطْعِمُكَ وَ أَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ⸮ 
قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْهُ ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي ⸮ 
يَا ابْنَ آدَمَ ، اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي. 
قَالَ : يَا رَبِّ ، كَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ⸮ 
قَالَ : اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي . 

صحيح مسلم 2569

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ 
اللہ عزوجل قیامت کے دن کہے گا :  

اے ابن آدم ! 
میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ، تو نے نہیں کھلایا ۔ 
تو وہ کہے گا کہ اے میرے ربّ !  میں تجھے کیسے کھلاتا جب کہ تو سب لوگوں کی پرورش کرنے والا ہے ۔ 
اللہ کہے گا : 
 کیا تجھے خبر نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا ، لیکن تو نے اُسے نہیں کھلایا ، کیا تجھے خبر نہیں کہ اگر تو اسے کھلاتا تو اپنے کھلائے ہوئے کھانے کو میرے ہاں پاتا ⸮ 

 اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے مجھے نہیں پلایا 
تو وہ کہے گا : 
 اے میرے ربّ !  میں تجھے کیسے پلاتا جبکہ تو خود ربّ العٰلمین ہے ۔ 
اللہ کہے گا : 
میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا ، لیکن تو نے اُسے پانی نہیں دیا ، اگر تو اسے پانی پلاتا تو وہ پانی میرے ہاں پاتا ۔ 

ختم شد 


ہ ےےےےےے ہ 


جوائین ان 


۔