منگل، 14 اکتوبر، 2025

تحقیق مؤذن ایسا رکھنا جو اذان کی اجرت نہ لے کفایت اللہ سنابلی

۔


۔ ہ ﷽ ہ ۔

مشہور عام لیکن ضعیف

مؤذن ایسا رکھنا جو اذان کی اجرت نہ لے
حدیث کے طرق ، تخریج و تحقیق

شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ 



ہ ےےےےےے ہ 

 
عثمان بن ابي العاص رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں انہوں نے اللہ کے نبی ﷺ سے اپنی آخری ملاقات اور اس موقع سے اللہ کے نبی ﷺ کی وصیتوں کو ذکرکیا ہے ۔ 
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے اور 
اکثر طرق میں اذان کی اجرت کا ذکر نہیں ہے اور یہی صحیح ہے یعنی ، 
اس روایت میں اذان کی اجرت سے متعلق کوئی بات ثابت نہیں ہے ۔ 
.
*تاہم بالفرض اگر ان الفاظ کو صحیح و ثابت تسلیم کر لیا جائے تو اس سے اذان پر اجرت کی حرمت نہیں بلکہ جواز ثابت ہوتا ہے*

چنانچہ امام جورقاني رحمہ الله ( المتوفى 543 ) فرماتے ہیں : 

 « فإن صحت هذه اللفظة ، كان فيه دليل على إباحة الأجرة ، لأن في قوله : " اتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا " دليل أن هناك من يأخذ الأجرة ، و إنما ذكره ( كذا ولعل الصواب كره ) ذلك ، ولو كان ذلك على الزجر لقال لا تؤخذ على الأذان أو لا يجوز » 

 " اگر یہ الفاظ ثابت بھی ہوجائیں تو اس میں اجرت کے جواز کی دلیل ہوگی کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ کا یہ فرمانا کہ : " ایسا مؤذن تلاش کرو جو اپنی اذان پر اجرت نہ لے " *یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت اجرت لینے والے بھی تھے لیکن آپ ﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا ، اگر یہ حرام قرار دینے کے لئے ہوتا تو آپ ﷺ یوں کہتے کہ : اذان پر اجرت نہ لی جائے یا اذان پر اجرت لینا ناجائز ہے " * 
 [ الأباطيل و المناكير للجورقاني : 2 / 171 ما بين القوسين من الناقل ] 

*لیکن حقیقت یہ ہے کہ اذان پر اجرت والے الفاظ کے ساتھ یہ روایت ثابت ہی نہیں ہے ، اب آگے ہم اس حدیث کے تمام طرق کو دیکھتے ہیں ۔ *



پہلا طریق : حسن بصری عن عثمان بن أبي العاص
ہ ےےےےےے ہ

امام ترمذي رحمہ الله ( المتوفى 279 ) نے کہا : 

حدثنا هناد قال : حدثنا أبو زبيد وهو عبثر بن القاسم ، عن أشعث ، عن الحسن ، عن عثمان بن أبي العاص ، قال : إن من آخر ما عهد إلي رسول الله ﷺ : أن 
 « اتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا » 

عثمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سب سے آخری وصیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے یہ کی کہ 
 " مؤذن ایسا رکھنا جو اذان کی اجرت نہ لے " ۔ 

 [ سنن الترمذي رقم ( 209 ) و إسناده ضعيف ومن طريق الترمذي أخرجه ابن الجوزي في التحقيق ( 1 / 315 ) و أخرجه ابن أبي شيبة ( 2 / 491 ) ومن طريق ابن أبي شيبه أخرجه ابن ماجه رقم ( 714 ) من طريق حفص بن غياث ، و أخرجه أيضا الحميدي في مسنده رقم ( 930 ) و الطبراني في معجمه الكبير رقم 8378 و أبونعيم في حلية الأولياء ( 8 / 134 ) من طرق عن فضيل بن عياض كلاهما ( حفص بن غياث وفضيل بن عياض ) عن أشعث به ] 
.

یہ روایت درج ذیل علتوں کی بناپر ضعیف ومردود ہے ۔ 

① پہلی علت : 
حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں کئی محدثین نے صراحت کی ہے کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے ، چنانچہ
.
امام حاكم رحمہ اللہ الله ( المتوفى 405 ) نے کہا : 

 « فإن الحسن لم يسمع من عثمان بن أبي العاص » 

 " حسن بصری نے عثمان بن ابی العاص سے نہیں سنا ہے " ، 
 [ المستدرك للحاكم ، ط الهند : 1 / 176 ] 
.
حافظ ابن حجر رحمه الله ( المتوفى 852 ) نے کہا : 

 « روى عن… عثمان بن أبي العاص ومعقل بن سنان ولم يسمع منهم » 

 " حسن بصری نے عثمان بن ابی العاص اور معقل بن سنان سے روایت کیا ہے اور ان سے نہیں سنا ہے " 
 [ تهذيب التهذيب لابن حجر ، ط الهند : 2 / 264 ] 

تنبیہ : 
بعض روایات میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حسن بصری نے عثمان بن ابی العاص کو دیکھا ہے ان سے ملاقات کی ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ ایسی ملاقات اور رویت میں حدیث کا سماع نہیں کیا ہے جیسا کہ ابن معین رحمہ اللہ کے کلام سے پتہ چلتا ہے چنانچہ امام ابن معين رحمه الله ( المتوفى 233 ) نے کہا : 

 « ويقال إنه رأى عثمان بن أبي العاص » ، 

 " اور کہاجاتا ہے کہ انہوں نے عثمان بن ابی العاص کو دیکھا ہے " 
 [ تاريخ ابن معين ، رواية الدوري : 4 / 260 ] 

② دوسری علت : 
حسن بصری سے اس روایت کو نقل کرنے والا " اشعث بن سوار " ہے اور یہ ضعیف ہے ۔ 

محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اسے ضعیف قرار دیا ہے 
مثلا : 
امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ ( المتوفى 241 ) نے کہا : 
 « أشعث بن سوار ضعيف الحديث » ، " اشعث بن سوار ضعیف الحدیث ہے " 
 [ العلل ومعرفة الرجال لأحمد ، ت وصي : 1 / 494 ] 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ( المتوفى 852 ) نے کہا : 
 « ضعيف » ، " یہ ضعیف ہے " 
 [ تقريب التهذيب لابن حجر : رقم 524 ] 

دکتور بشار اور ان کی ٹیم نے اسی سبب اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھا : 

 « إِسناده ضعيفٌ؛ أَشعث بن سَوَّار الكِندي ليس بثق » 

 " اس کی سند ضعیف ہے ، اشعث بن سوار کندی ثقہ نہیں ہے " 
 [ المسند المصنف المعلل ( 20 / 97 ) ] 

③ تیسری علت : 
اشعث بن سوار کے علاوہ حسن بصری کے دوسرے شاگردوں نے جب اسی حدیث کو روایت کیا تو اس میں اذان پر اجرت والی بات کا ذکر نہیں بلکہ دوسری بات کا تذکرہ کیا ملاحظہ ہو دیگر شاگردوں کی روایات : 

* ہشام بن حسان کی روایت
امام ابن ماجة رحمه الله ( المتوفى 273 ) نے کہا : 

حدثنا إسماعيل بن أبي كريمة الحراني قال : 
حدثنا محمد بن سلمة ، عن محمد بن عبد الله بن علاثة ، عن هشام بن حسان ، عن الحسن ، عن عثمان بن أبي العاص ، قال : قال رسول الله ﷺ : 
 « إني لأسمع بكاء الصبي ، فأتجوز في الصلاة » .

عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 
 " میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز ہلکی کر دیتا ہوں " ۔ [ سنن ابن ماجه رقم 990 و إسناده صحيح إلي هشام ] 


* حميد بن أبي حميد کی روایت : 
امام أبوداؤد رحمه الله ( المتوفى 275 ) نے کہا : 

حدثنا أحمد بن علي بن سويد يعني ابن منجوف ، حدثنا أبو داود ، عن حماد بن سلمة ، عن حميد ، عن الحسن ، عن عثمان بن أبي العاص ، أن وفد ثقيف لما قدموا على رسول الله ﷺ ، أنزلهم المسجد ليكون أرق لقلوبهم ، فاشترطوا عليه أن لا يحشروا ، ولا يعشروا ، ولا يجبوا ، فقال رسول الله ﷺ : 
 « لكم أن لا تحشروا ، ولا تعشروا ، ولا خير في دين ليس فيه ركوع » 

عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ثقیف کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اہل وفد کو مسجد میں ٹھہرایا تاکہ ان کے دل نرم ہوں ، انہوں نے شرط رکھی کہ وہ مقابلہ کے لیے نہ اکٹھے کئے جائیں نہ ان سے عشر ( زکاۃ ) لی جائے اور نہ ان سے نماز پڑھوائی جائے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 
 " خیر تمہارے لیے اتنی گنجائش ہو سکتی ہے کہ تم مقابلہ کے لیے نہ بلائے جاؤ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم سے زکاۃ نہ لی جائے ( کیونکہ بالفعل سال بھر نہیں گزرا ) لیکن اس دین میں اچھائی نہیں جس میں رکوع ( نماز ) نہ ہو " ۔ 

 [ سنن أبي داود 3026 و إسناده صحيح إلي حميد و أخرجه أيضا أحمد في مسنده رقم ( 17913 ) من طريق عفان عن حمادبه ] 

 " عبيدة بن حسان " کی بھی ایک روایت " حسن بصری " سے اجرت اذان کے ذکر کے بغیر مروی ہے مگر عبیدہ تک سند صحیح نہیں ہے دیکھیں : 
 [ المعجم الكبير للطبراني 9 / 57 ] 
خلاصہ یہ کہ اجرت اذان کے ذکر کے ساتھ یہ طریق ضعیف و مردود ہے ۔ 



دوسرا طريق : موسى بن طلحة ، عن عثمان بن أبي العاص الثقفي : 
ہ ےےےےےے ہ

امام مسلم رحمه الله ( المتوفى 261 ) نے کہا : 
امام مسلم رحمه الله ( المتوفى 261 ) نے کہا : 
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا أبي ، حدثنا عمرو بن عثمان ، حدثنا موسى بن طلحة ، حدثني عثمان بن أبي العاص الثقفي ، أن النبي ﷺ قال له : « أم قومك » قال : قلت : يا رسول الله ، إني أجد في نفسي شيئا قال : « ادنه » فجلسني بين يديه ، ثم وضع كفه في صدري بين ثديي. ثم قال : « تحول » فوضعها في ظهري بين كتفي ، ثم قال : « أم قومك. فمن أم قوما فليخفف ، فإن فيهم الكبير ، و إن فيهم المريض ، و إن فيهم الضعيف ، و إن فيهم ذا الحاجة ، و إذا صلى أحدكم وحده ، فليصل كيف شاء » 

حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 
 " اپنی قوم کی امامت کراؤ " ۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ جھجک محسوس ہوتی ہے ، آپﷺ نے فرمایا : " قریب ہوجا " ۔ آپﷺ نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا ، پھر اپنی ہتھیلی میرے سینہ پر میرے پستانوں کے درمیان رکھی ، پھر فرمایا : " پھر جا " پھرنے کے بعد آپﷺ نے ہتھیلی میری پشت پر میرے کندھوں کے درمیان رکھی ، پھر فرمایا : " اپنی قوم کی امامت کراؤ اور جو لوگوں کا امام بنے وہ نماز میں تخفیف کرے ، کیونکہ ان میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں ، ان میں بیمار بھی ہوتے ہیں ، ان میں کمزور بھی ہوتے ہیں ۔ اور ان میں ضرورت مند بھی ہوتے ہیں جب تم میں سے کوئی اکیلا پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے ۔ " 
 [ صحيح مسلم رقم 468 و أخرجه البيهقي في " سننه " ( رقم 5278 ) من طريق محمد بن عبد الله بن نمير و أبونعيم في " مستخرجه " ( رقم 1035 ) من طريق أبي كريب ( كلاهما محمد بن عبد الله بن نمير و أبو كريب ) من طريق ابن نمير ۔ و أخرجه البيهقي أيضا في " سننه " ( رقم 5278 ) من طريق أحمد بن نصر ، و أخرجه ابوعوانه في " مستخرجه " ( 1 / 420 ) من طريق حمدان بن علي ، و أخرجه السراج في " حديثه " ( رقم 337 ) من طريق مجاهد بن موسى ، كلهم ( أحمد بن نصرو حمدان بن علي ومجاهد بن موسى ) من طريق أبي نعيم ۔ و أخرجه أيضا أحمد في " مسنده " ( رقم 16276 ) و ابن أبي شيبه في " مصنفه " ( رقم 4659 ) و أبوعوانة في " مستخرجه " ( رقم 556 ) من طريق ابن أبي رجاء و أبونعيم في " مستخرجه " ( رقم 1035 ) من طريق أبي كريب ، كلهم ( أحمدوابن ابي شيبه و أبوعوانه و أبو كريب ) من طريق وكيع ۔ و أخرجه أيضا أبوعوانة في " مستخرجه " ( رقم 1 / 420 ) من طريق محمد بن عبيد ۔ و أخرجه أيضا أحمد في " مسنده " ( رقم 17899 ) و السراج في " حديثه " ( رقم 335 ) من طريق عبيد الله بن سعيد ، كلاهما ( أحمدوعبيد الله بن سعيد ) من طريق يحيى بن سعيد ۔ و أخرجه أيضا السراج في " حديثه " ( رقم 336 ) من طريق عباد بن العوام ۔ و أخرجه أيضا أبونعيم في " مستخرجه " ( رقم 1035 ) من طريق محمد بن بشر ويونس بن بكير ۔ جميعهم ( ابن نميرو أبو نعيم ووكيع ومحمد بن عبيدويحيى بن سعيدوعباد بن العوام و محمد بن بشر ويونس بن بكير ) من طريق عمرو بن عثمان به ] 

صحیح مسلم کی اس روایت میں بھی اذان پر اجرت والی بات کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ 

تنبیہ : 
اس کے ایک طریق میں اذان پر اجرت والی بات مروی ہے چنانچہ : 

ابو عوانة يعقوب بن إسحاق الإسفرائني ( المتوفی 316 ) نے کہا : 

حدثنا علي بن حرب قال : ثنا يعلى ومحمد ابنا عبيدٍ ، ح وحدثنا عمار قال : ثنا محمد بن عبيد ، ح وحدثنا حمدان بن علي قال : ثنا أبو نعيم قالوا : ثنا عمرو بن عثمان ، بإسناده مثله بمعناه. زاد علي : 
 « واتخذ مؤذنا لا يأخذ على الآذان أجرا » ‌

 " علی بن حرب عن يعلى ومحمد ابنا عبيدٍ کے طریق میں یہ اضافہ ہے کہ : 
اور ایسا مؤذن رکھئےجو اذان پر اجرت نہ لیتا ہوں " 
 [ مستخرج أبي عوانة رقم 1557 ] 

عرض ہے کہ : 
امام ابوعوانہ نے اذان پر اجرت والی بات کے اضافہ کو " علی بن حرب " کی طرف منسوب کیا ہے اور سند میں علی بن حرب کے دو استاذ ہیں " یعلی بن عبید " اور " محمد بن عبید " ۔ 

جہاں تک " محمد بن عبید " کی بات ہے تو ان کے بیان میں اضطراب ہے کیونکہ : 

➊ علی بن حرب کی روایت میں انہوں نے اس اضافہ کو ذکر کیا ہے ۔ 

➋ جبکہ عمار کی روایت میں یہ اضافہ ذکر نہیں کیا ہے دیکھئے : [ مستخرج أبي عوانة رقم 1557 ] 

➌ اور ایک دوسری روایت میں انہوں نے اس اضافہ والی بات کو مرسل سند سے ذکر کیا ہے چنانچہ : 

امام ابن سعد رحمه الله ( المتوفى 230 ) نے کہا : 
أخبرنا محمد بن عبيد الطنافسي قال : حدثنا عمرو بن عثمان ، عن موسى بن طلحة ( ؟ ) قال : 
بعث رسول الله ﷺ عثمان بن أبي العاص على الطائف ، وقال : 
 « صل بهم صلاة أضعفهم ، ولا يأخذ مؤذنك أجرا » 

موسی بن طلحہ ( تابعی ) روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عثمان بن ابی العاص کو طائف بھیجا اور کہا : 
 " تم انہیں ان کے کمزور لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے نماز پڑھانا اور تمہارا مؤذن اجرت لینے والا نہ ہو " 
 [ الطبقات الكبرى ط دار صادر 7 / 40 و إسناده مرسل ] 

معلوم ہوا کہ محمد بن عبید اس روایت کے بیان میں سند ومتن دونوں اعتبار سے اضطراب کا شکار ہوا ہے ۔ اس لئے اس کے ان بیانات میں وہی بیان معتبر ہوگا جو اس کے استاذ کے دیگر عام شاگردوں کے موافق ہو ۔ 

رہی بات " یعلی بن عبید " کی تو ان کا یہ اضافہ بھی مردود ہوگا کہ کیونکہ ان کی معتبر متابعت موجود نہیں ہے ، اور محمد بن عبید کی روایت بجائے خود غیر معتبر ہے کیونکہ وہ کسی ایک بیان پر رکے نہیں ہیں بلکہ سند ومتن دونوں اعتبار سے اضطراب کے شکار ہوئے ہیں ۔ 
لہٰذا ان کی روایت یعلی بن عبید کے اضافہ کی مؤید نہیں ہوسکتی ۔ 
علاوہ بریں " یعلی بن عبید " کے استاذ " عمرو بن عثمان " سے ان کے دیگر سات شاگردوں نے صحیح سندون سے یہی روایت بیان کی ہے مگر کسی نے بھی اذان پر اجرت والی بات روایت نہیں کی ہے ملاحظہ ہوں دیگر شاگردوں کی روایات : 

➊ عبد الله بن نمير حدثنا عمرو بن عثمان 
 ( صحيح مسلم رقم 468 ) 

➋ أبو نعيم ، ثنا عمرو بن عثمان 
 ( السنن الكبرى للبيهقي رقم 5278 و إسناده حسن ) 

➌ وكيع ، عن عمرو بن عثمان 
 ( مصنف ابن أبي شيبة رقم 4659 و إسناده صحيح ) 

➍ يحيى بن سعيد ، قال : حدثنا عمرو بن عثمان 
 ( مسند أحمد رقم 17899 و إسناده صحيح ) 

➎ عباد ‌بن ‌العوام ثنا عمرو بن عثمان 
 ( حديث السراج رقم 336 و إسناده حسن ) 

➏ محمد بن بشر عن عمرو بن عثمان 
 ( المسند المستخرج على صحيح مسلم 2 / 85 و إسناده صحيح ) 

➐ يونس بن بكير عن عمرو بن عثمان
 ( المسند المستخرج على صحيح مسلم 2 / 85 و إسناده صحيح ) 

ان سات لوگوں کا بالاتفاق اپنے استاذ سے اس حدیث کو اذان پر اجرت والے الفاظ کے بغیر روایت کرنا بہت واضح دلیل ہے کہ اس حدیث میں اذان پر اجرت والی بات موجود ہی نہیں ، یہی وجہ ہے کہ امام مسلم نے بھی اسی طریق سے اس حدیث کو روایت کیا ہے مگر اذان پر اجرت والی بات ذکر نہیں کی ہے ۔ 



تیسرا طريق : طريق مطرف بن عبد الله
ہ ےےےےےے ہ

 مطرف بن عبد الله ، عن عثمان بن أبي العاص الثقفي

امام أبوداؤد رحمه الله ( المتوفى 275 ) نے کہا : 

حدثنا موسى بن إسماعيل ، حدثنا حماد ، أخبرنا سعيد الجريري ، عن أبي العلاء ، عن مطرف بن عبد الله ، عن عثمان بن أبي العاص ، قال : قلت : وقال موسى في موضع آخر إن عثمان بن أبي العاص قال – يا رسول الله اجعلني إمام قومي ، قال : « أنت إمامهم واقتد بأضعفهم واتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا » 

عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : 
اے اللہ کے رسول! آپ مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیجئیے ، 
آپ ﷺ نے فرمایا : 
 " تم ان کے امام ہو تو تم ان کے کمزور ترین لوگوں کی رعایت کرنا ، اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان پر اجرت نہ لے " ۔ 

 [ سنن أبي داود رقم 531 و إسناده ضعيف ومن طريق أبي داؤد أخرجه ابن حزم في " المحلي " ( 3 / 15 ) والبغوي في " شرح السنة " ( رقم 417 ) . و أخرجه عفان ( أحاديث عفان 236 ترقیم الشاملة ) ترقيم الشاملة و أخرجه أيضا أحمد في مسنده ( 29 / 435 ) ومن طريقه أخرجه ابن الجوزي في " التحقيق " ( رقم 1575 ) من طريق حسن بن موسى الأشيب ، و أخرجه أيضا ابن قانع في " معجم الصحابه " ( 2 / 256 ) من طريق أبي سلمة ، و أخرجه أيضا ابن المنذر في " الأوسط " ( رقم 1238 ) و الطحاوي في شرح مشكل الآثار ( رقم 6000 ) من طريق يحيى بن حسان التنيسي ، و أخرجه أيضا الجورقاني في الأباطيل ( رقم 531 ) من طريق عبيد الله بن محمد العيشي ، و أخرجه أيضا في " مسنده " ( رقم 214 ) من طريق سليمان بن حرب ، و أخرجه أيضا الطبراني في " معجمه الكبير " ( رقم 8365 ) من طريق حفص بن عمر الضرير وحجاج بن المنهال ، و أخرجه أيضا ابن خزيمة في " صحيحة " ( 1 / 221 ) من طريق هشام بن الوليد و محمد بن الفضل عارم ، كلهم ( عفان و حسن بن موسى الأشيب و أبو سلمة و يحيى بن حسان التنيسي و عبيد الله بن محمد العيشي و سليمان بن حرب وحفص بن عمر الضرير وحجاج بن المنهال وهشام بن الوليد و محمد بن الفضل عارم ) من طريق حماد بن سلمة به ] 
.
یہ روایت ضعيف ہے ۔ 
امام جورقاني رحمه الله ( المتوفى 543 ) اس روایت کے تمام طرق کے پیش نظر اس پر نقد کرنے کے بعد فرماتے ہیں : 

 " رواه جماعة كثيرة عن عثمان ولم يقل منهم أحد : واتخذ [ مؤذنا ] لا يأخذ على أذانه أجرا ، إلا ما تفرد به حماد عن الجريري " 

 " اس حدیث کو عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی یہ الفاظ نہیں بیان کئے کہ : 
 " ایسا مؤذن رکھیں جو اجرت نہ لیتا ہو " ، 
یہ الفاظ صرف حماد بن سلمہ نے جریری کے طریق سے بیان کیا ہے " 

 [ الأباطيل والمناكير للجورقاني : 2 / 171 ما بين القوسين من الناقل ] 
.
یادرہے " حماد بن سلمہ " نے کئی روایات کو بیان کرتے ہوئے سند و متن میں غلطیاں کی ہیں چنانچہ : 

امام ذهبي رحمه الله ( المتوفى 748 ) نے کہا : 

 " هو ثقة صدوق يغلط " ، 
 " یہ ثقہ وصدوق ہیں اور غلطی کرتے ہیں " 
 [ الكاشف للذهبي ت عوامة : 1 / 349 ] 

بلکہ بعض نے تویہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ آخری عمر میں سوئے حفظ کے شکار ہوگئے تھے لیکن علی الاطلاق ایسا کہنا درست نہیں ہے ۔ 

البتہ جس روایت میں یہ ثقات کی مخالفت کریں وہاں ان کی روایت قابل حجت نہ ہوگی جیساکہ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 

 « و إذا كان الأمر على هذا فالاحتياط لمن راقب الله تعالى أن لا يحتج بما يجد في أحاديثه مما يخالف الثقات » 

 " جب حماد بن سلمہ کا معاملہ ایسا ہے تو اللہ والوں کے لئے احتیاط اسی میں ہے کہ یہ جن روایات کو بیان کرنے میں ثقات کی مخالفت کریں ان میں ان کو حجت نہ مانا جائے " 

 [ الخلافيات للبیہقی : 2 / 50 ] 
نیز دیکھیں : ہماری کتاب احکام طلاق ( ص ) 

تنبیہ : 
بعض لوگوں نے امام جورقانی کی اس جرح کا یہ جواب دیا ہے کہ حماد بن سلمہ کی متابعت " حماد بن زید " نے بھی کردی ہے جیساکہ مسند احمد میں ہے ۔ 
 [ مسند أحمد 26 / 201 ] 

جوابا عرض ہے کہ : 
امام احمد رحمہ اللہ نے اسے عفان کے واسطے سے نقل کیا ہے اور عفان کے دیگر تمام شاگردوں نے بلکہ دوسری جگہ خود امام احمدذ رحمہ اللہ نے بھی اس روایت میں عفان کے استاذ کی جگہ " حماد بن سلمہ " ہی کانام لیا ہے حوالے ملاحظہ ہوں : 

➊ احمد بن حنبل حدثنا عفان ، قال : حدثنا حماد بن سلمة 
 ( مسند أحمد رقم 16271 ) 

➋ أحمد بن سليمان ، قال : حدثنا عفان ، قال : حدثنا حماد بن سلمة
 ( السنن الكبرى للنسائي 2 / 250 ) 

➌ محمد بن إسحاق الصغاني ثنا عفان ثنا حماد بن سلمة
 ( السنن الكبرى للبيهقي 1 / 631 ) 

نیز " احادیث عفان " میں بھی یہ حدیث صرف حماد بن سلمہ ہی کے طریق سے دیکھیں : [ أحاديث عفان 236 ] 

علاوہ بریں عفان کے علاوہ تمام رواۃ نے اسے بالاتفاق حماد بن سلمہ سے ہی روایت کیا ہے ۔ حوالے ملاحظہ ہوں : 

➊ موسى بن إسماعيل ثنا حماد بن سلمة 
 ( المحلى لابن حزم ، ط بيروت : 3 / 15 ) 

➋ حسن بن موسى ، حدثنا حماد بن سلمة 
 ( مسند أحمد 29 / 435 ) 

➌ يحيى بن حسان ، حدثنا حماد بن سلمة 
 ( شرح مشكل الآثار 15 / 263 ) 

➍ سليمان بن حرب ثنا حماد بن سلمة 
 ( مسند السراج ص100 ) 

➎ حجاج بن المنهال ، قالوا : ثنا حماد بن سلمة 
 ( المعجم الكبير رقم 8365 ) 

➏ ابو عمر الضرير ، ثنا حماد بن سلمة 
 ( المعجم الكبير رقم 8365 ) 

ان حقائق سے روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ یہ طریق حماد بن سلمہ ہی کا ہے ۔ 

تاہم اگرفرض کرلیں کہ اس مقام پر حماد بن زید ہی ہے اور اس نے حماد بن سلمہ کی متابعت کردی ہے تو بھی سند کے اوپری طبقات میں بھی علتیں موجود ہیں چنانچہ : 
.
 " مطرف بن عبد الله " سے اسی روایت کو جب ان کے دوسرے شاگرد " سعید بن ابی الھند " نے روایت کیا تو اس میں اذان پر اجرت والی بات ذکر نہ کی چنانچہ : 

امام حمیدی رحمہ اللہ ( المتوفی219 ) نے کہا : 

ثنا سفيان قال : ثنا محمد بن إسحاق ، سمعه من سعيد بن أبي هند ، سمعه من مطرف بن عبد الله بن الشخير ، قال : سمعت عثمان بن أبي العاص الثقفي ، يقول : قال رسول الله ﷺ : 
 « أم قومك واقدرهم بأضعفهم ، فإن منهم الكبير ‌والضعيف ‌وذا ‌الحاجة » 

مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : 

 " عثمان! نماز ہلکی پڑھنا ، اور لوگوں میں جو سب سے زیادہ کمزور ہوں ان کی رعایت کرنا ، اس لیے کہ لوگوں میں بوڑھے ، ناتواں اور ضرورت مند سبھی قسم کے لوگ ہوتے ہیں " ۔ 

 [ مسند الحميدي رقم 929 و إسناده صحيح و أخرجه ابن أبي شيبة في مصنفه ( رقم 8891 ) من طريق إسماعيل بن إبراهيم ومن طريقه أخرجه ابن ماجه في سننه ( رقم 987 ) من طريق إسماعيل ابن علية ، و أخرجه أيضا أحمد في مسنده ( رقم 16273 ) من طريق حماد بن زيد ، و أخرجه أيضا أبونعيم في معرفة الصحابة ( رقم 4936 ) من طريقه يزيد بن هارون ، و أخرجه أيضا ابن المنذر في الأوسط ( رقم 2030 ) من طريق يزيد بن زريع ، و أخرجه أيضا ابن خزيمه في صحيحه ( رقم 1608 ) من طريق سلمة بن الفضل وابن عدي و سفيان ، كلهم ( اسماعيل بن عليلة وحماد بن زيد ويزيد بن هارون ويزيد بن زريع ) عن ابن اسحاق به ، وصرح ابن اسحاق بالسماع عند ابن المنذر ] .
.

نیز " عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ " سے ان كے شاگرد " مطرف بن عبد الله " کے علاوه دیگر شاگردوں نے یہ روایت بیان کی تو انہوں نے بھی اذان پر اجرت والی بات ذکر نہ کی ۔ 

موسى بن طلحة عن عثمان بن أبي العاص کی روایت صحیح مسلم ( رقم 468 ) کے حوالے سے گزرچکی ہے ۔ 

دیگر شاگردوں کی روایات اگلے طرق میں ملاحظہ ہوں : 



چوتھا طریق : سعيد بن المسيب عن عثمان بن أبي العاص : 
ہ ےےےےےے ہ

امام مسلم رحمہ الله ( المتوفى 261 ) نے کہا : 
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قالا : حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال : سمعت سعيد بن المسيب ، قال : حدث عثمان بن أبي العاص ، قال : 
 « آخر ما عهد إلي رسول الله ﷺ إذا أممت قوما ، فأخف بهم الصلاة » 

سعید بن مسیب نے کہا : حضرت عثمان بن ابی عاص رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے آخری بات جو میرے ذمے لگائی یہ تھی : 
 " جب تم لوگوں کی امامت کراؤ تو انہیں نماز ہلکی پڑھاؤ ۔ " 

 [ صحيح مسلم رقم 468 ومن طريق جعفر أخرجه أحمد في " مسنده " ( رقم 16277 ) ، و أخرجه البيهقي في سننه ( رقم 5269 ) من طريق أبي داؤد ، و أخرجه أيضا أبونعيم في معرفة الصحابة رقم 4937 من طريق بشر بن عمروسليمان بن حرب و أبي الوليد ، كلهم ( أبوداود وبشر بن عمروسليمان بن حرب و أبو الوليد ) من طريق شعبة به ] 

یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے اور اس میں اذان کی اجرت کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ 



پانچواں طریق : حكيم بن حكيم عن عثمان بن أبي العاص : 
ہ ےےےےےے ہ

امام طبراني رحمه الله ( المتوفى 360 ) نے کہا : 

حدثنا يحيى بن أيوب العلاف المصري ، ثنا سعيد بن أبي مريم ، ثنا محمد بن جعفر ، عن سهيل بن أبي صالح ، عن حكيم بن حكيم بن عباد بن حنيف ، عن عثمان بن أبي العاص ، قال : قدمت في وفد ثقيف حين وفدوا على رسول الله ﷺ ، فلبسنا حللنا بباب النبي ﷺ ، فقالوا : 
من يمسك لنا رواحلنا ، وكل القوم أحب الدخول على النبي ﷺ وكره التخلف عنه ، قال عثمان : وكنت أصغر القوم ، فقلت : إن شئتم أمسكت لكم على أن عليكم عهد الله لتمسكن لي إذا خرجتم ، قالوا : فذلك لك ، فدخلوا عليه ثم خرجوا فقالوا : انطلق بنا ، قلت : أين؟ فقالوا : إلى أهلك ، فقلت : ضربت من أهلي حتى إذا حللت بباب النبي ﷺ أرجع ولا أدخل عليه ، وقد أعطيتموني من العهد ما قد علمتم؟ قالوا : فأعجل فإنا قد كفيناك المسألة ، لم ندع شيئا إلا سألناه عنه ، فدخلت فقلت : يا رسول الله ، ادع الله أن يفقهني في الدين ويعلمني ، قال : « ماذا قلت؟ » فأعدت عليه القول ، فقال : « لقد سألتني شيئا ما سألني عنه أحد من أصحابك ، اذهب فأنت أمير عليهم وعلى من تقدم عليه من قومك ، و أم الناس بأضعفهم » فخرجت حتى قدمت عليه مرة أخرى فقلت : يا رسول الله ، اشتكيت بعدك ، فقال : ضع يدك اليمنى على المكان الذي تشتكي ، وقل : أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد سبع مرات ففعلت فشفاني الله عز وجل

عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ ثقیف کے لوگ جب اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آئے تو میں بھی ان میں تھا ۔ ہم نے نبی ﷺ کے دروازے پر اپنے کپڑے پہنے ۔ وفد کے لوگوں نے کہا : کون ہمارے جانوروں کو سنبھالے گا؟ سب لوگ نبی ﷺ سے ملنا چاہتے تھے اور کوئی پیچھے رہنا نہیں چاہتا تھا ۔ عثمان کہتے ہیں : میں وفد میں سب سے کم عمر تھا ، تو میں نے کہا : اگر تم چاہو تو میں تمہارے جانور سنبھال لوں ، بشرطیکہ تم اللہ کا عہد دو کہ جب تم باہر آؤ گے تو میرے جانور سنبھالو گے ۔ انہوں نے کہا : ٹھیک ہے ، آپ کی بات منظور ہے ۔ چنانچہ وہ نبی ﷺ سے ملنے اندر گئے اور پھر باہر آئے ۔ انہوں نے مجھ سے کہا : چلو ہمارے ساتھ ۔ میں نے پوچھا : کہاں؟ انہوں نے کہا : اپنے گھر والوں کے پاس ۔ میں نے کہا : میں اپنے گھر والوں سے اتنی دور تک آیا ہوں اور اب نبی ﷺ کے دروازے پر پہنچ کر واپس چلا جاؤں اور ان سے نہ ملوں؟ تم نے مجھے جو عہد دیا تھا ، وہ تم جانتے ہو! انہوں نے کہا : ٹھیک ہے لیکن جلدی کرنا کیونکہ ہم نے تمہاری جگہ سب کچھ پوچھ لیا ہے کوئی سوال نہیں چھوڑا جو ہم نے نبی ﷺ سے نہ کیا ہو ۔ پھر میں اندر گیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے دین کی سمجھ عطا فرمائے اور مجھے دین کا علم سکھائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے کیا کہا؟ میں نے اپنی بات دہرائی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : 
تم نے مجھ سے ایسی چیز مانگی جو میرے کسی اور ساتھی نے نہیں مانگی ۔ جاؤ ، تم اپنے وفد اور جن لوگوں کے پاس تم جارہے ہو ان کے امیر ہو ، اور لوگوں کی امامت کرتے ہوئے کمزوروں کی رعایت کرنا ۔ 
پھرمیں واپس آیا اور کچھ عرصے بعد دوبارہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کے بعد مجھے بیماری ہوئی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اپنا دایاں ہاتھ اس جگہ پر رکھو جہاں تکلیف ہے اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھو : أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد 
 ( میں اللہ کی عزت اور اس کی قدرت کے ساتھ اس شر سے پناہ مانگتا ہوں جو مجھے محسوس ہو رہا ہے ) ۔ 
میں نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا عطا فرمائی ۔ 

 [ المعجم الكبير للطبراني رقم 8356 و إسناده حسن و أخرجه أيضا السراج في " مسنده " ( رقم 221 ) من طريق محمد بن جعفر به مختصرا ] 

یہ حسن روایت ہے اس میں بھی اذان کی اجرت کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ 
.
مذکورہ طرق کے علاوہ اس حدیث کے اور بھی طرق ہیں اور ان میں بھی اذان پر اجرت والے الفاظ ثابت نہیں ہیں لیکن ہماری نظر میں وہ سب کے سب ضعیف و غیر ثابت ہیں اور وہ ہیں : 



چھٹا طریق : - 
ہ ےےےےےے ہ

 داود بن أبي عاصم الثقفي ، عن عثمان بن أبي العاص 
 ( مسند أحمد 29 / 440 وقال المعلقون عليه : إسناده قوي ) 



ساتواں طریق : -  
ہ ےےےےےے ہ

عبد ‌الله ‌بن ‌الحكم عن ‌عثمان ‌بن ‌أبي ‌العاص 
 ( مسند أحمد 29 / 441 ) 



آٹھواں طریق : -  
ہ ےےےےےے ہ

نعمان بن سالم ، عن عثمان بن أبي العاص 
 ( معجم الصحابة لابن قانع 2 / 256 ) 



نواں طریق : -  
ہ ےےےےےے ہ

المغيرة بن شعبة عن عثمان بن أبي العاص 
 ( المعجم الكبير للطبراني 9 / 44 ) 



دسواں طریق : -  
ہ ےےےےےے ہ

اشیاخ بنی ثقیف عن عثمان بن أبي العاص 
 ( مسند أحمد 26 / 203 وقال المعلقون عليه : حديث صحيح ، ولا يضر جهالة الرواة الذين حدث عنهم النعمان بن سالم الثقفي ، لأنهم جمع ) 

ان طرق میں سے بھی کسی ایک میں اذان پر اجرت والی بات مذکور نہیں ہے ، لیکن چونکہ ہماری نظر میں یہ سارے طرق ضعیف ہیں اس لئے ہم اس کی تفصیل میں نہیں جاتے ۔ 

ایک شاہد کا جائزہ
امام طبراني رحمه الله ( المتوفى 360 ) نے کہا : 

حدثنا ‌عبد ‌الله ‌بن ‌أحمد ‌بن ‌حنبل ، ‌حدثني ‌محمد ‌بن ‌عبد ‌الرحيم البرقي ، ثنا شبابة بن سوار ، ثنا المغيرة بن مسلم ، عن الوليد بن مسلم ، عن سعيد القطيعي ، عن المغيرة بن شعبة ، قال : سألت النبي ﷺ أن يجعلني إمام قومي فقال : 
 « صل صلاة أضعف القوم ، ولا تتخذ مؤذنا يأخذ على أذانه أجرا » 

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے مطالبہ کیا کہ مجھے میری قوم کا امام بنادیں ، تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ : 
 " تم انہیں ان کے کمزورں کی رعایت کرتے ہوئے نماز پڑھانا اور اور ایسا مؤذن مت رکھنا جو اپنی اذان پر اجرت لیتا ہو " 

 [ المعجم الكبير للطبراني 20 / 434 و إسناده ضعيف جدا و أخرجه البخاري في " التاريخ " ( 3 / 486 ) من طريق محمد أبي يحيي عن شبابة به ولم يذكر في الإسناد الوليد بن مسلم ] 
.
یہ روایت درج ذیل علتوں کی بنا پر سخت ضعیف ہے : 

① اولا : 
سعید بن طھمان کا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے ۔ 

کسی بھی محدث نے سعید بن طہمان کے اساتذہ میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔ 

امام ابو حاتم الرازي رحمہ اللہ الله ( المتوفى 277 ) نے کہا : 
 " يروي عن أنس ، لا يذكر سماعا ، ولا رؤية " 

 " یہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے لیکن نہ تو ان سے سماع کا ذکر کرتا ہے نہ رؤیت کا " 

 [ الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ، ت المعلمي : 4 / 35 ] 
.
غور کیجئے کہ جب ان کا سماع انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت نہیں ہے جن کی وفات 93 ہجری میں ہوئی ہے ۔ 
 [ تهذيب الكمال للمزي : 3 / 377 ] 

تو پھرمزید چالیس سال سے بھی زیادہ پیچھے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع کیسے ثابت ہو سکتا ہے جن کی وفات 50 ہجری میں ہوئی ہے ۔ 
 [ تاريخ بغداد ، مطبعة السعادة : 1 / 191 ] 

② ثانیا : 
طبرانی کی روایت میں مغیرہ بن مسلم اور سعيد القطيعي کے درمیان ولید بن مسلم کا اضافہ ہے اور انہوں نے آگے سند کے تمام طبقات میں سماع کی صراحت ذکر نہیں کی ہے جبکہ یہ بکثرت تدلیس و تسویہ کرنے والے ہیں ۔ 

حافظ ابن حجر رحمه الله ( المتوفى 852 ) نے ان کے بارے میں کہا : 

 « كثير التدليس والتسوية » ، " یہ بکثرت تدلیس اور تسویہ کرنے والے ہیں " 
 [ تقريب التهذيب لابن حجر : رقم 7456 ] 

اور یہ سند سے کذابین اور وضاعین کو ساقط کرتے تھے اس لئے ان کے عنعنہ والی روایت سخت ضعیف شمار ہوگی خواہ عنعنہ کسی بھی طبقہ میں ہو ۔ 

ترمذی ( رقم 3570 ) کی روایت کے تمام رجال بخاری ومسلم کے رجال ہیں اور سند میں علت صرف ولید بن مسلم کا عنعنہ ہے لیکن محدثین نے موضوع ومن گھڑت قرار دیا ہے ۔ 

علامه الباني رحمه الله نے اسے موضوع کہا ہے ، اور اس کاسبب وليد کے تسويه کو قرار ديا ہے 
 [ الضعيفة : 7 387 ، تحت الرقم 3374 ] 

حافظ ابن حجر رحمه الله نے بھی اس روايت کو موضوع کہا ہے 
 ( لسان الميزان : 205 ) اور 
وليدبن مسلم کي تدليس تسويه کو علت قرارديا ہے 
 [ النکت الظراف : 915 ] 

③ ثالثا : 
روایت میں امامت کا متن دسیوں طرق سے مروی ہے جن میں بہت سارے طرق صحیح ہیں 
ان تمام طرق میں رواۃ کا اتفاق ہے کہ امامت کی یہ بات عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے کی تھی ۔ 

لہٰذا ان تمام طرق کے بر خلاف اس روایت میں اس بات کو دوسرے صحابی کے حوالے ذکر کرنا یہ بھی دلیل ہے کہ یہ روایت باطل اور کالعدم ہے ۔ 



خلاصہ کلام : 
ہ ےےےےےے ہ

زیر بحث حدیث کے کل دس طرق ملتے ہیں جن میں چھ طرق ( پہلا اور چھٹا تا دسواں ) سرے سے ضعیف وغیر ثابت ہیں ۔ 

باقی بچے چار طرق ( دوسرا تا پانچواں ) تو ان میں دو طرق ( چوتھا اور پانچواں ) میں اذان پر اجرت والی بات کا ذکر ہی نہیں ہے ۔ 
باقی بچے دو طرق ( دوسرا اور تیسرا ) تو ان میں سے دوسرے یعنی موسى بن طلحة والے طریق میں اذان پر اجرت والی بات شاذ ہے اور اصل اور ثابت روایت میں یہ بات مذکور ہی نہیں ہے 
اسی لئے امام مسلم نے اپنی صحیح میں جب اس طریق سے روایت درج کی تو اس میں اذان پر اجرت والےالفاظ ذکر نہیں کئے ۔ 

اور باقی بچا تیسرا یعنی مطرف والا طریق تو اس میں بھی اذان پر اجرت والے الفاظ ثابت نہیں ہیں  کیونکہ حماد سے اوپر طبقات میں مخالفت ہے جیسا کہ تفصیل گزچکی ہے ۔ اسی لئے امام جورقانی رحمہ اللہ نے حماد کے بیان کردہ اضافہ کو ضعیف قرار دیا ہے کما مضی ۔ 


 ماخوذ : 







ہ ےےےےےے ہ


جوائین ان :


شئیر

 ۔