منگل، 28 جولائی، 2020

میت ‏کی ‏طرف ‏سے ‏قربانی ‏مقالات ‏و ‏فتاوی

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین​ 

میت کی طرف سے قربانی 
جواز و عدم جواز 
مقالات و فتاوی 

جمع کردہ 
سید محمد عزیر ادونوی 

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱ 

کیا میت کے لیے قربانی کرنا جائز ہے؟ 

الحمد للہ 

اصل کے اعتبارسے قربانی کی مشروعیت پرمسلمانوں کااجماع ہے، 

اورمیت کی جانب سے قربانی کرنا جائز ہے اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذيل فرمان کا عموم ہے جسں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جب ابن آدم فوت ہوجاتا ہے توتین کے علاوہ اس کے سب اعمال منقطع ہوجاتے ہیں ، صدقہ جاریہ ، یا وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا رہے ، یا نیک اولاد جواس کے لیے دعا کرے ) 

صحیح مسلم ، سنن ابوداود ، سنن ترمذی ، سنن نسائي ، اورامام بخاری نے الادب المفرد میں ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ۔

اورمیت کی جانب سے قربانی کرنا صدقہ جاریہ ہے ، کیونکہ قربانی کرنے سے قربانی کرنے والے اورمیت وغیرہ کونفع حاصل ہوتا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔ .

اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء
 
https://forum.mohaddis.com/threads/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%86%D8%A8%DB%8C-%D8%B5%D9%84%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-%D9%88%D8%B3%D9%84%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%B7%D8%B1%D9%81-%D8%B3%DB%92-%D9%82%D8%B1%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%D8%A7-%D8%B3%DA%A9%D8%AA%DB%8C-%DB%81%DB%92-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D9%85%D9%82%D8%B5%D9%88%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B3%D9%86-%D9%81%DB%8C%D8%B6%DB%8C-%D8%AD%D9%81%D8%B8%DB%81-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81.25414/ 

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲ 

کیا میں اپنے فوت شدہ والدین کی طرف سے قربانی کرسکتاہوں ؟

الحمد للہ 
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے 

https://drive.google.com/file/d/1IgU_L91F_0LWzhZm0c9KP0-UNcBVFFfc/view?usp=drivesdk 

اصل تویہی ہے کہ قربانی کرنا زندہ لوگوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے ، اورجوکچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ قربانی فوت شدگان کے ساتھ خاص ہے تواس کی کوئي اصل نہيں ۔

فوت شدگان کی جانب سے قربانی کی تین اقسام ہيں :

پہلی قسم :

کہ زندہ کے تابع ہوتے ہوئے ان کی جانب سے قربانی کی جائے مثلا : کوئي شخص اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے اوراس میں وہ زندہ اورفوت شدگان کی نیت کرلے ( تویہ جائز ہے ) ۔

اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی ہے جوانہوں نے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے تھی اوران کے اہل وعیال میں کچھ پہلے فوت بھی ہوچکے تھے ۔

دوسری قسم :

یہ کہ فوت شدگان کی جانب سے ان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے قربانی کرے ( اوریہ واجب ہے لیکن اگراس سےعاجز ہوتوپھر نہيں ) اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ توجوکوئي بھی اسے سننے کے بعد تبدیل کرے تواس کا گناہ ان پر ہے جواسے تبدیل کرتے ہيں یقینا اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے } ۔

تیسری قسم :

زندہ لوگوں سے علیحدہ اورمستقل طور پرفوت شدگان کی جانب سے قربانی کی جائے ( وہ اس طرح کہ والد کی جانب سے علیحدہ اوروالدہ کی جانب سے علیحدہ اورمستقل قربانی کرے ) تویہ جائز ہے ، فقھاء حنابلہ نے اس کوبیان کیا ہے کہ اس کا ثواب میت کوپہنچے گا اوراسے اس سے فائدہ ونفع ہوگا ، اس میں انہوں نے صدقہ پرقیاس کیا ہے ۔

لیکن ہمارے نزدیک فوت شدگان کے لیے قربانی کی تخصیص سنت طریقہ نہيں ہے ، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فوت شدگان میں سےبالخصوص کسی ایک کی جانب سے بھی کوئي قربانی نہیں کی ، نہ توانہوں نے اپنے چچا حمزہ رضي اللہ تعالی عنہ کی جانب سے حالانکہ وہ ان کے سب سے زيادہ عزيزاقرباء میں سے تھے ۔

اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگي میں فوت ہونے والی اپنی اولاد جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں ، اورتین چھوٹے بیٹے شامل ہیں کی جانب سے قربانی کی ، اورنہ ہی اپنی سب سے عزيز بیوی خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی جانب سے حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سےپیاری تھیں ۔

اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عھد مبارک میں کسی بھی صحابی سے بھی یہ عمل نہيں ملتا کہ انہوں نے اپنے کسی فوت شدہ کی جانب سے قربانی کی ہو ۔

اورہم اسے بھی غلط سمجھتے ہیں جوآج کل بعض لوگ کرتے ہیں کہ پہلے برس فوت شدہ کی جانب سے قربانی کرتے ہیں اوراسے ( حفرہ قربانی ) کا نام دیتے اوریہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس کے ثواب میں کسی دوسرے کوشریک ہونا جائز نہيں ، یا پھروہ اپنے فوت شدگان کے لیے نفلی قربانی کرتے ، یاان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے اوراپنی اوراپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرتے ہی نہيں ۔

اگر انہيں یہ علم ہو کہ جب کوئي شخص اپنے مال سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرتا ہے تواس میں زندہ اورفوت شدگان سب شامل ہوتے ہيں تو وہ کبھی بھی یہ کام چھوڑ کراپنے اس کام کونہ کریں ۔ .

دیکھیں : رسالۃ : احکام الاضحيۃ الذکاۃ

https://urdufatwa.com/view/1/13959/ 

http://islamqa.info/ur/36596  

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۳ 

میت کی جانب سے قربانی کرنے کا حکم 
دكتور فضل الرحمن المدني‎

https://m.facebook.com/drfazlurrahmanalmadni/posts/588265897875708 

سوال: میت کی طرف سے قربانی کر نا درست ہے یا نہیں؟ 

جواب: میت کی طرف سے قربانی کر نا جائز ہے ،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی ہے،”عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِى سَوَادٍ وَيَبْرُكُ فِى سَوَادٍ وَيَنْظُرُ فِى سَوَادٍ فَأُتِىَ بِهِ لِيُضَحِّىَ بِهِ فَقَالَ لَهَا : يَا عَائِشَةُ هَلُمِّى الْمُدْيَةَ ِ، ثُمَّ قَالَ : اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ ، فَفَعَلَتْ ، ثُمَّ أَخَذَهَا وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ ثُمَّ ذَبَحَهُ ثُمَّ قَالَ : بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ، ثُمَّ ضَحَّى بِهِ “ (رواہ مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ایک سینگ والا مینڈھا لایا جائے جس کے پاؤں ،سینہ ، منہ اور آنکھوں کے ارد گرد کا حصہ کالا ہو ، چنانچہ وہ لا یا گیا توآپ نے فر مایا: اے عائشہ ! چھری لاؤ اور اس کو پتھر سے تیز کر و،چنانچہ میں نے چھری لا کر تیز کیا، پھر آپ نے چھری لی اور دنبہ کو لٹایا اور ذبح کیا اور کہا :بسم اللہ، اے اللہ تو محمد اور امت محمد کی جانب سے قبول فر ما، پھر آپ نے اس کی قربانی کی ۔
اس حدیث کے بموجب آپ نے ایک مینڈھے کی قربانی اپنی اور اپنی امت کی جانب سے کی ۔ظاہر ہے کہ لفظ” امت“امت سابقہ اور موجودہ (احیاء اور اموات ) سب کو شامل ہے ۔
بعض روایتوں میں: ”هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي “ کے الفاظ ہیں، یعنی میری جانب سے اور میری امت کے ان لوگوں کی جانب سے جنھوں نے قربانی نہیں کی، اس میں آپ نے”لَمْ يُضَحِّ “ کاصیغہ استعمال کیا ہے،جس سے امت محمد یہ میں سے ان لوگوں کی طرف اشارہ ملتا ہے جو قربانی کر نے سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔
نیز میت کی جانب سے قربانی کر نا ایک مالی عبادت ہے ،اور مالی عبادت کے سلسلے میں اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ اس کا ثواب میت تک پہونچتا ہے، مالی عبادت کے ذریعہ ایصال ثواب کے سلسلے میں صحیح بخاری وغیرہ کی ایک روایت ہے :
”عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ “ (رواہ البخاری: کتاب الجنائز، باب موت الفجأة: 3/254 )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺسے کہا: میری ماں اچانک انتقال کر گئی،اور میرا خیال ہے کہ اگروہ گفتگو کرتی تو کچھ صدقہ وخیرات کرتی ،توکیا اس کے لئے اجر وثواب ہوگا اگر میں اس کی جانب سے صدقہ کرو ں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ مالی عبادت کا ثواب میت تک پہنچے گا،اگرچہ اس نے وصیت نہ کی ہو ۔
اسی طرح میت کی جانب سے حج بدل کرنا اور قرض ادا کرنا وغیرہ جائز ہے، تو اس کی جانب سے قربانی کر نا بھی جائز ہو نا چاہئے ۔
رسول اللہ ﷺ کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قربانی کر نی والی روایت سے بھی اس کے لئے استیناس کیا جا سکتا ہے : عَنْ حَنَشٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ “ (سنن ابو داؤد:3/50 ]2792[ كتاب الضحايا باب الأضحية عن الميت)
حنش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبہ قربانی کرتے ہو ئے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺنے مجھے وصیت کی ہے کہ آپ کی جانب سے قربانی کرتا رہو ں ،چنانچہ آپ کی جانب سے قربانی کررہا ہوں۔
حنش کی روایت کے بارے میں اختلاف ہے ،علامہ مبارکپوری ، منذری اور ابن حبان وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے، جبکہ حاکم، ذہبی، احمد شاکر اور شیخ صفی الرحمن مبارکپوری نے اس کی تصحیح وتحسین کی ہے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے :”عَنْ عَاصِمِ بْنِ شُرَيْبٍ قَالَ : أُتِىَ عَلِىُّ بْنُ أَبِى طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ النَّحْرِ بِكَبْشٍ فَذَبَحَهُ وَقَالَ : بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ مُحَمَّدٍ لَك ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَتُصُدِّقَ بِهِ ثُمَّ أُتِىَ بِكَبْشٍ آخَرَ فَذَبَحَهُ فَقَالَ : بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ عَلِىٍّ لَكَ ، قَالَ ثُمَّ قَالَ : ائْتِنِى بِطَابِقٍ مِنْهُ وَتَصَدَّقْ بِسَائِرِهِ “ (میزان الاعتدال للذھبی: 2/352 ، وعاصم بن شریک عن علی مجھول ،لسان المیزان لابن حجر : 3/219 ،عاصم بن شریک عن علی مجھول ،وذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال: انہ الزبیدی من اھل الکوفة)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس قربانی کے دن ایک دنبہ لایا گیا توآپ نے اس کو ذبح کیا اور کہا : ”بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ مُحَمَّدٍ لَك “پھر اس کو صدقہ کر نے کا حکم دیا ، اس کے بعد ایک دوسرا دنبہ لایا گیا ،اس کو بھی ذبح کیا اور کہا:”بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ عَلِىٍّ لَكَ “،راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس میں سے ایک کڑا ہی لاؤ اور باقی صدقہ کر دو ۔
اگر چہ یہ روایتیں راجح قول کے مطابق ضعیف ہیں مگر بطور استیناس ان کے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں،اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ،حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایتوں سے بھی میت کی جانب سے قربانی کرنے کا جوازثابت ہوتا ہے اور اس کے قائل حنفیہ وغیرہ بھی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ میت کی جانب سے قربانی کا جواز راجح معلوم ہو تا ہے ۔ خاص طور سے زندوں کے ساتھ اشتراک کی صورت میں۔


میت کی طرف سے قربانی کے سلسلہ میں چند سوالات اور ان کے جوابات

سوال:مکرمی و محترمی جناب بھائی محمد حسن صاحب دامت برکاتہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

امید کہ مزاج گرامی بخیر ہو گا، آپ کا ارسال کردہ فتویٰ موصول ہوا ،لیکن دلی اطمینان نہ ہو سکا، مزید تلاش کرنے پر میں اس نتیجہ پر پہونچا کہ میت کی طرف سے قربانی کرنے کا جواز نہیں ،اب رہے دلائل تو اس پر کچھ سرسری جائزہ پیش خدمت ہے ،امید کہ مزید تحقیق کرا کے مجھے اطلاع دیں گے۔
پہلی دلیل: حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی ۔(صحیح مسلم ،مشکاة المصابیح)
اعتراض:فتویٰ میں جس حدیث شریف کا ترجمہ کیا گیا ہے اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں:”عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ نِسَائِهِ “ (صحیح مسلم :4/345،کتاب الحج باب الاشتراك فى الهدى وإجزاء البقرة والبدنة كل منهما عن سبعة )
اس حدیث کو امام مسلم کتاب الحج ،باب جواز الاشتراک فی الھدی،یعنی قربانی کے ایک جانو ر میں کئی آدمی شریک ہوسکتے ہیں ، کے تحت یہ حدیث لاکر یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک جانور کو اپنی تمام بیویوں کی طرف سے قربان کیا، لیکن اس حدیث سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی کریم ﷺنے اپنی وفات شدہ بیوی حضرت خدیجۃ رضی اللہ عنہا کو بھی اس میں شامل کیاتھا، جیسا کہ فتویٰ میں اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ۔یہ استدلال تو قیاس پر مبنی ہے ،اگر اس حدیث سے میت کی طرف سے قربانی کرنے پر استدلال کرتے ہیں یعنی کہ اس پر قیاس کر تے ہیں تو کیا ہم بھی اس حدیث سے یہ استدلال نہیں کر سکتے کہ آپ نے اپنی تمام ان بیویوں کی طرف سے قربانی کی جواس وقت زندہ تھیں؟ اس کے علاوہ اس حدیث کے ساتھ ہی ساتھ دوسری سطر میں یہ بھی ہے کہ آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ایک گائے ذبح کیا تھا۔”عَنْ عَائِشَةَ بَقَرَةً فِى حَجَّتِهِ “ اور اسی صفحہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ایسی بھی ہے : ”عَنْ جَابِرٍ قَالَ ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ عَائِشَةَ بَقَرَةً يَوْمَ النَّحْرِ “(صحیح مسلم :4/345،کتاب الحج باب الاشتراك فى الهدى وإجزاء البقرة والبدنة كل منهما عن سبعة) یعنی یوم النحرکو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے نبیﷺ نے ایک گائے کی قربانی کی ۔
اعتراض یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نبیﷺنے تمام بیویوں کی طرف سے ایک قربانی دی تھی تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے الگ ایک گائے کی قربانی دینے کی کیا ضرورت تھی؟
مندرجہ بالا حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نبیﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی ،اگرمیت کی طرف سے قربانی دینا جائز ہوتا تو آپ نے تمام زندہ بیویوں کی طرف سے ایک قربانی دے دی تھی، جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی آگئی تھیں،تو پھر الگ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے قربانی دینے کی کیا ضرورت تھی؟کیا آپ اسی گائے کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بجائے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے نہیں دے سکتے تھے؟آپ نے ایسا نہیں کیا کیوں؟اس لئے کہ میت کو صرف تین چیزوں کے علاوہ کسی چوتھی چیز کا ثواب نہیں ملتا ہے،ملاحظہ ہو:” عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَةٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ “(مسلم بشرح النووی :4/355 ، کتاب الوصیۃ باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته)
اس حدیث کی رو سے صرف تین چیزوں کا ثواب میت کو پہونچتا ہے:(١) صدقہ جاریہ (٢)وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں(٣) وہ نیک بخت لڑکا جو اس کے حق میں دعا کرے۔ان تینوں قسموں میں سے آپ میت کی طرف سے قربانی کرنے کو کس قسم میں شمار کرتے ہیں؟ آپ اس کو صدقہ میں شمار کرتے ہیں تو پھر قربانی کیونکر ہوئی؟اور قربانی کرنے کی نیت کرنا چہ معنی دارد؟
ولو بالفرض یہ مان لیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام بیویوں کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بھی اس میں شریک کرلیا تھا توکہیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میت کی طرف سے الگ بھی ایک گائے دینی چاہئے۔
براہ کرم اس حدیث کے علاوہ کو ئی دوسری حدیث جس میں واضح طور پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے قر بانی کرنے کا ثبوت ہو تو ہمیں بھی اس سے مطلع فرما کر عند اللہ ماجور ہوں ۔
دوسری دلیل:آپ کی دوسری دلیل حضرت حنش سے مروی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فعل ہے، حدیث مع سند ملاخطہ ہو:” حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ “ (سنن ابو داؤد:3/50 ]2792[ كتاب الضحايا باب الأضحية عن الميت)
یعنی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کی وصیت کے مطابق آپ کی وفات کے بعد آپ کی جانب سے بھی قربانی دیا کرتے تھے ،اس حدیث میں توواضح الفاظ موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی ،تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آپﷺ کی وصیت کو پورا کر رہے تھے۔
یہ بات تو مسلم ہے کہ جب کسی نے مرنے سے قبل وصیت کی کہ میری وفات کے بعد قربانی کرنا تو اس کی وصیت کی بنا پر اس کی لاج رکھ لی جائیگی ،اس پر تو اعتراض نہیں، اگر اعتراض ہے تو اس بات پر کہ بغیر وصیت کے قربانی کر نا درست ہے یا نہیں ؟
اگر آپ بغیر وصیت کے بھی قربانی جائز قرار دیتے ہیں تو پھر اس کی کوئی دلیل بھی ہو نی چاہئے، شاید میرے علم میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے ،اگر آپ کو معلوم ہو تو ازراہ کرم مطلع فرمائیں۔
ہاں! البتہ اگر کوئی بغیر وصیت کے بھی کرناچاہے تو کر سکتا ہے مگر قربانی نہیں، بلکہ ایصال ثواب کی نیت سے کیا جانا چاہئے ،اور یہ بھی مالی صدقہ پر قیاس کرتے ہوئے ممکن ہے ورنہ نہیں۔ اب ذرا اس حدیث کا جائزہ بھی لیتے چلئے: یہ حدیث بالکل ضعیف ہے دیکھئے: (مختصر ابی داؤد للمنذری :4/95، تحفۃ الاحوذی)اس لئے کہ اس حدیث کی سندمیں تین ایسے راوی ہیں جن پر ائمہ حدیث نے کلام کیا ہے (١) شریک القاضی (٢)ابوالحسناء (٣)حنش، جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث کی سندمیں گذر چکا ہے ۔
شریک القاضی:جن کے متعلق حافظ ابن حجر ﷫کہتے ہیں ”صدوق يخطىء كثيرا تغير حفظه منذ ولي القضاء “(تقریب التہذیب: ص266) یعنی کہ صدوق تو ہیں ،لیکن غلطیاں زیادہ کرتے ہیں، اور جب سے یہ قاضی مقرر ہوئے تھے ان کی قوت حافظہ میں تغیر واقع ہو گیا تھا، یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی ہے کہ یہ روایت قاضی بننے سے قبل کی ہے ۔
ابوالحسناء: ان کے متعلق حضرت امام بخاری ﷫ فرماتے ہیں کہ میں نے علی بن المدینی سے ان کا نام دریافت کیا تو ان کو اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا ۔(سنن ترمذی) امام ذہبی میزان الاعتدال اور امام ہیثمی، اور حافظ ابن حجر تقریب التہذیب میں فر ما تے ہیں کہ یہ ایک مجہول آدمی ہیں ، مجہول آدمی کی روایت ناقابل قبول ہے ،اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
حنش: ان کے متعلق امام بخاری﷫ فرماتے ہیں کہ :”یتکلمون فی حدیثه“ (التا ریخ الکبیر:3/99)محدثین کو ان کی روایت پر کلام ہے ،امام ابوحاتم رازی (الجرح والتعدیل :3/291) میں فر ماتے ہیں :”لم أرهم یحتجون بحدیثه“ امام ابن حزم فرماتے ہیں :” ساقط مطرح“ یعنی گرے پڑے راوی ہیں ۔
امام ترمذی نے اس حدیث پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ،اور ہم شریک کی سند کے علاوہ کسی اور سند سے نہیں جانتے:”هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ “(ترمذی :1/باب الاضحیة بکبش)(صحیح یہ ہے : کتاب الاضاحی باب ما جاء في الأضحية عن الميت )
امام ترمذی کا حدیث کو غریب کہنا گویا اس کے ضعف کی طرف اشارہ ہے، اس کے علاوہ بھی بہت سارے محدثین نے ان راویوں پر کلام کیا ہے، الغرض اگر ”حنش “ کے متعلق ابوداود کی توثیق مان لی جائے تو پھر دو راویوں ”شریک اور ابو الحسناء“کی کمزوری تو مانع صحت رہے گی ،معلوم ہوا کہ یہ حدیث ضعیف ہے ،پھر ضعیف حدیث سے میت کی طرف سے قربانی کے جوازپر فتویٰ صادر فرمانا کیا مطلب ہے؟ جب کہ اہلحدیث کا مسلک صحیح احادیث کو اپنانا ہے ۔
تیسری دلیل:فتویٰ میں تیسری دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت پیش کی گئی ہے۔ حدیث طویل ہے جس کے آخری الفاظ ملاحظہ ہوں :”ثُمَّ قَالَ : بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ، ثُمَّ ضَحَّى بِهِ “ ( مسلم بشرح النووی:5/باب اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے کا) اس روایت کو پیش کرکے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی تمام امت کی جانب سے قربانی کی، جس میں زندہ و مردہ سب شامل ہیں ۔
اعتراض:اس حدیث میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ آپ نے اپنی امت کے مردوں کی طرف سے قربانی کی ہے، یہ تو قیاس ہے ، جب آپ نے قیاس کی بناء پر میت کی جانب سے قر بانی کا جواز اس حدیث سے اخذکیا ہے تو کیوں نہ ہم یہ مراد لیں کہ آپ نے اپنی امت کے ان زندہ افراد کی طرف سے قربانی کی جن کو قربانی میسر نہ ہو سکی تھی ؟ اس کے علاوہ حدیث کا یہ اصول کہ بعض حدیث بعض حدیثوں کی تشریح کرتی ہے، اس کے مطابق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت اس روایت کی تشریح کررہی ہے۔ ملاحظہ ہو:
”ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْش ، أَحَدُهُمَا عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَالآخَرُ عَنْهُ وَعَنْ مَنْ لَمْ يُضَحيِّ مِنْ أُمَّتِهِ “(الطبرانی فی الاوسط) اس کے علاوہ احمد، ابوداود ، ترمذی ، ابن ماجہ، دارمی وغیرہ کی بھی روایت ہے جو اس طرح ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں : ”بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي “(مشکاة ، انوار المصابیح :3/789 )یعنی کہ آپ نے اپنی جانب سے اور اپنی امت کے ان افراد کی جانب سے جنھوں نے قربانی نہیں کی تھی ایک قربانی کی، اور یہ ظاہر بات ہے کہ ”عَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي “کا لفظ زندوں کے لئے مستعمل ہے ۔ اگر آپ ”عن امتہ“ کے لفظ سے یہ مفہوم لیں کہ اس میں مردے بھی شامل ہیں تو پھر اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ نے زندہ اور مردہ امتیوں کی طرف سے بالاشتراک کیا تھا ۔ لیکن یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ مردہ کی طرف سے مستقلا ایک جانور کی قربانی دینی چاہئے ؟لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ میت کی طرف سے قربانی کے جواز پر کوئی حدیث صراحۃً وارد نہیں ہے ۔ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب. اگر کوئی دلیل صراحۃً ہو تو بندہ کو بھی مطلع فرمائیں۔
سائل:مختار احمد تقی الدین جامعی۔عثمانیہ محمدیہ مسجد پیرمورے

جواب:سب سے پہلے یہ وضاحت کردینا مناسب ہے کہ میرے علم کی حد تک صرف میت کی جانب سے قربانی کے جواز کے لئے کوئی صریح و صحیح حدیث نہیں ہے، لیکن متعدد صحیح احادیث کے عموم وغیرہ سے استدلال کی گنجائش ہے ،اس واسطے میں اس سے منع تو نہیں کرتا لیکن میت کی طرف سے قربانی کرنے کی بہ نسبت اس کی جانب سے صدقہ و خیرات کو ترجیح دیتا ہوں ۔
اس کے بعد جواز کے قائلین کی دلیلوں پر آپ کے اعتراضات کے سلسلہ میں چند ملاحظات عرض کرتا ہوں۔
پہلی دلیل پر اعتراض سے متعلق چند گذارشات:
(١) حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث : ” نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ نِسَائِهِ “سے جنھوں نے استدلال کیا ہے انھوں نے”نساء“میں جو عموم ہے اس سے استدلال کیا ہے، کیونکہ” نساء“ کے عموم میں آ پ کی زندہ ومردہ تمام ازواج مطہرات داخل ہیں، اگرآپ زندوں کے ساتھ اس کی تخصیص کے قائل ہیں تو اس کی دلیل دیجئے؟
آپ کا یہ قول درست نہیں کہ یہ استدلال قیاس پر مبنی ہے، کیونکہ قیاس میں ایک منصوص چیز کا حکم دوسری غیر منصوص چیز کو دونوں کے درمیان ایک علت جامعہ کی بناء پر دیا جاتا ہے ،جیسے ”خمر العنب “کاحکم ”تحریم“ تمرسے تیار کردہ شراب کو دیدیناایک علت جامعہ”اسکار“ کی بناء پر (علی رایٔ من یقول ان الخمر یطلق علی خمرالعنب فقط)اور یہاں یہ چیز نہیں ہے (اگر آپ کے نزدیک ہے تو مقیس ، مقیس علیہ اور علت کی توضیح کیجئے) بلکہ لفظ ”نساء“ کا عموم جو زندہ اور مردہ دونوں قسم کی عورتوں کو شامل ہے اس سے استدلال ہے۔
(٢)رہاآپ کا یہ اعتراض: کہ جب نبی ﷺ نے تمام بیویوں کی طرف سے ایک قربانی دی تھی تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے الگ ایک گائے کی قربانی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تو یہ اعتراض جیسے مردوں کی جانب سے قربانی کرنے کے قائلین پر وارد ہوتاہے اسی طرح آپ پر بھی وارد ہوتاہے، اگر آپ کے بقول یہی تسلیم کرلیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندہ ازواج مطہرات کی جانب سے ایک گائے ذبح کی تھی، توپھر سوال یہ ہے کہ جب آپ نے تمام زندہ ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے الگ ایک گائے ذبح کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دوسری ازواج پر کیوں ترجیح دی ؟ وما ھو جوابکم فھو جواب الآخرین.
(٣) میت کی جانب سے قربانی کو اگر اس کی وصیت یا نذر کی تنفیذ کے لئے نہیں ہے تو صدقہ میں شمار کیا جائے گا ۔
رہا آپ کا یہ سوال کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام بیویوں کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بھی شریک کیا تھا تو کہیں اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ الگ سے ایک گائے میت کی جانب سے قربانی کی جانی چاہئے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے نہ تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ میت کی جانب سے الگ ایک گائے ذبح کرنا ضروری ہے ۔ اور نہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب میت کی جانب سے قربانی کریں تو اس میں زندوں کو بھی شریک کرنا ضروری ہے، بلکہ اس سے صرف میت کی جانب سے قربانی کے جواز کے لئے استدلال کی گنجائش ہے ،مگر ا س پر نص صریح نہیں ہے۔ (٤) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی جانب سے قربانی کرنے کے بارے میں کوئی صریح حدیث میری نظر سے نہیں گذری۔
دوسری دلیل پر اعتراضات کے متعلق گذارشات:
(١) آپ فرماتے ہیں کہ” یہ بات تو مسلم ہے کہ جب کسی نے مرنے سے قبل وصیت کی کہ میری وفات کے بعد قربانی کرنا ،تو اس کی وصیت کی بناء پر اس کی لاج رکھ لی جائے گی ، اس پر تو اعتراض نہیں ، اعتراض ہے تو اس پر کہ کیا بغیر وصیت کے بھی قربانی کرنا درست ہے یا نہیں ؟ اگر آپ بغیر وصیت کے بھی جائز قرار دیتے ہیں تو پھر اس کی کوئی دلیل ہونی چاہئے، شاید میرے علم میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے اگر آپ کو معلوم ہوتو ازراہ کرم مطلع فرمائیں “۔
شاید نہیں ، بلکہ یقینا آپ کے علم میں اس کی دلیل نہیں ہے، مگر آپ یہ تو جانتے ہیں کہ نبی ﷺ کسی ناجائز فعل کی وصیت نہیں کریں گے ، اور صرف وصیت کرنے سے کوئی ناجائز چیز جائز نہیں ہو جاتی، اگر آپ یہ جانتے ہیں اور پھر آپ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اس کی وصیت کی ہے اور ایسی وصیت جائز ہے، تو پھر آپ کویہ بھی مان لینا چاہئے کہ میت کی جانب سے قربانی کرنا جائز ہے ، کیونکہ میت کی وصیت کی لاج جائز چیزوں میں ہی رکھی جائے گی ، ناجائز میں نہیں ،اسی لئے اگر کوئی ثلث مال سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو ایک ثلث سے زیادہ میں اس کی وصیت کی تنفیذ نہیں ہو گی ،، کیونکہ ثلث سے زیادہ کی وصیت اس کے لئے ورثہ کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ، اسی طرح اگر وہ کسی وارث کے لئے وصیت کرے توحدیث : ” لا وصیةَ لوارثٍ“ کی مخالفت کی وجہ سے اس کی تنفیذ نہیں ہوگی ۔ ”قال ابن قدامة: لاتصح الوصیة بمعصية وفعل محرم“ ( المغنی :6/122 )
یعنی کسی معصیت یا فعل حرام کی وصیت صحیح نہیں۔
آگے آپ فرماتے ہیں:”اگر کوئی بغیر وصیت کے بھی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ،مگر قربانی نہیں بلکہ ایصال ثواب کی نیت سے کیا جانا چاہئے“۔
اب آپ نے تقریباً جواز کے قائلین کی رائے کو تسلیم کرلیا ہے، مگر آپ ایک غلط فہمی کا شکار ہیں ، وہ یہ کہ آپ سمجھتے ہیں کہ قربانی کی نیت اور ایصال ثواب کی نیت میں تضاد ہے ، دونوں کی نیت ایک ساتھ نہیں ہو سکتی، اس واسطے فرماتے ہیں کہ ” قربانی نہیں ایصال ثواب کی نیت سے کیا جانا چاہئے“ حالانکہ دونوں میں تضاد نہیں ہے۔
اگر آپ مسجد میں داخل ہوں تو دورکعت تحیۃالمسجد اور فجر کی سنت کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں، اگر کسی نے قربانی کی وصیت کی ہے تو ایک جانور کی قربانی اس کی وصیت کی تنفیذ اور ایصال ثواب دونوں کی نیت سے کرسکتے ہیں ،اگر کسی نے نذر مانی کہ ایک مسجد بنواؤں گا اور بنوانے سے قبل فوت ہو گیا تو اس کا وارث میت کی نذر کو پورا کرنے اور ایصال ثواب دونوں کی نیت سے مسجد بنوا سکتا ہے۔
اسی طرح وصیت نہ کرنے کی صورت میں بھی قربانی اور ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کرنا جائز ہوگا۔
(٢)حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بہت سے علماء نے مذکورہ تینوں راویوں کی بناء پر تضعیف کی ہے، اور کچھ لوگوں نے اس کو صحیح کہا ہے ۔ امام حاکم فرماتے ہیں : ” ھذا حدیث صحیح السناد“ اور علامہ ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے ۔ ( المستدرک مع التلخیص للذھبی:4/229-230 ) اور احمد شاکر فرماتے ہیں :”إسناده صحيح، وقال بعد نقل كلام الترمذي: وفي طبعة بولاق (ج1 ص282-283) زيادة نصها "قال محمد: قال علي بن المديني: وقد رواه غير شريك. قلت له: أبوالحسناء ما اسمه فلم يعرفه. قال مسلم: اسمه الحسن"، وهذه الزيادة ثابتة في مخطوطتنا الصحيحة من الترمذي، وأبوالحسناء هذا مترجم له في التهذيب، فلم يذكر فيه جرحاً ولا تعديلاً، وقال: اسمه الحسن، ويقال: الحسين، وترجمه الذهبي في الميزان فقال: لا يعرف، ولكن الحديث رواه الحاكم، وقال: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وأبوالحسناء هذا هو الحسن بن الحكم النخعي، ووافقه الذهبي، والراجح عندي ما قاله الحاكم، والحسن بن الحكم النخعي الكوفي يكنى أباالحسن. ورجح الحافظ في التهذيب (ج2 ص271) أنه يكنى أباالحكم، فقد اختلف في كنيته، فالظاهر أن بعضهم كناه أيضاً أباالحسناء، وهو من شيوخ شريك أيضاً، وقد وثقه أحمد وابن معين، وترجمه البخاري في الكبير فلم يذكر فيه جرحاً - انتهى. “(مسند احمد مع تعلیق احمد شاکر: 2/152، مرعاة المفاتیح :5/94 )
اور اگر اس حدیث کو ضعیف بھی مان لیں تو ممانعت کی بھی کوئی صریح اور صحیح دلیل نہیں، اور دوسری حدیثوں سے جواز کی گنجائش نکلتی ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے غنیة الالمعی: ص ١٦٣، ١٧٦،المطبوع فی آخر المعجم الصغیر للطبرانی، المرعاة:5/93 ، ٩٥، محدث ستمبر :١٩٨٤ء) تیسری دلیل پر اعتراضات سے متعلق چند گذارشات:
(١)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے یہ الفاظ : ” ثُمَّ قَالَ : بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ، ثُمَّ ضَحَّى بِهِ “ (رواہ مسلم) نقل کرنے کے بعد اس سے استدلال پر آپ اعتراض کرتے ہیں کہ ” اس حدیث میں کہیں اس کا ذکر نہیں ہے کہ آپ نے اپنی امت کے مردوں کی جانب سے بھی قربانی کی ہے ،یہ تو قیاس ہے“ ۔
یہاں آپ سے پھر وہی عموم اور قیاس میں عدم تمیز والی غلطی ہوئی ہے ۔ آپ غور کیجئے ” وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ “ کے عموم میں وہ مسلمان جو وفات پاگئے داخل ہیں یا نہیں؟ اگر داخل ہیں اور یقینا داخل ہیں تو یہ عموم اللفظ سے استدلال ہوا نہ کہ قیاس سے ، ہاں اگر یہاں ”ومن امةِ محمد الأحیاء“ ہوتا اور ان کے ساتھ مردوں کو بھی شامل کرتے تو قیاس ہوتا۔
(٢) آگے آپ لکھتے ہیں :” جب آپ نے قیاس کی بناء پر میت کی جانب سے قربانی کا جواز اس حدیث سے اخذ کیا ہے ،تو ہم کیوں نہ مراد لیں کہ آپ نے اپنی امت کے ان زندہ افراد کی طرف سے قربانی کی جن کو قربانی میسر نہ ہو سکی؟“۔
ابھی اس کی وضاحت ہو چکی ہے کہ یہ قیاس سے استدلال نہیں ہے بلکہ لفظ ” أُمَّةِ مُحَمَّدٍ “ کے عموم سے استدلال ہے ، رہا آپ کایہ سوال کہ کیوں نہ اس سے یہ مراد لیں کہ ان زندہ افراد کی طرف سے قربانی کی جن کو قربانی میسر نہ ہو سکی تھی ؟تو عرض ہے کہ ابو رافع کی حدیث : ”أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ ، فَإِذَا صَلَّى وَخَطَبَ النَّاسَ أَتَى بِأَحَدِهِمَا وَهُوَ قَائِمٌ فِي مُصَلاَّهُ فَذَبَحَهُ بِنَفْسِهِ بِالْمُدْيَةِ ، ثُمَّ يَقُولُ : اللَّهُمَّ هَذَا عَنْ أُمَّتِي جَمِيعًا مِمَّنْ شَهِدَ لَكَ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لِي بِالْبَلاَغِ ، ثُمَّ يُؤْتَى بِالآخَرِ فَيَذْبَحُهُ بِنَفْسِهِ وَيَقُولُ : هَذَا عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ . . . الحديث“(رواہ احمد: 6/391 )
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہ حدیث: ”أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ ، اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ ، سَمِينَيْنِ ، أَقْرَنَيْنِ ، أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ ، فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ ، لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ ، وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلاَغِ ، وَذَبَحَ الآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ ، وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ “(سنن ابن ماجہ :2/1044 )
پہلی حدیث میں آپ نے ” عَنْ أُمَّتِي جَمِيعًا “یعنی میری تمام امت کی جانب سے فرمایا ہے ، پھر آپ اسے زندہ افراد کے ساتھ کیسے خاص کریں گے ؟کیا یہ ”عن امتی جمیعا “کے خلاف نہیں؟ پھر دونوں روایتوں میں ” شَهِدَ لَكَ بِالتَّوْحِيدِ “ یا” شَهِدَ لِلَّهِ ، بِالتَّوْحِيدِ “ الخ میں” شھد“ فعل ماضی ہے ۔ آپ اسے فی الحال زندہ افراد کے ساتھ کیسے خاص کریں گے ؟
آپ نے حد یث: ” ”ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ ، أَحَدُهُمَا عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَالآخَرُ عَنْهُ وَعَنْ مَنْ لَمْ يُضَحيِّ مِنْ أُمَّتِهِ “اورحدیث”بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي “ذکر کی ہے، دونوں میں ”عَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ “ہے یعنی جس نے قربانی نہیں کی پھر بھی آپ اسے زندوں کے ساتھ خاص کرتے ہیں ، کیسے ؟
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ان امتیوں کی جانب سے ذبح کیا جنھو ں نے قربانی نہیں کی تھی ،لیکن میت کی جانب سے قربانی تو پھر بھی ثابت ہوگی ، البتہ جنھوں نے قربانی نہیں کی تھی ان کی جانب سے نصا ًاور جنھوں نے کی ہے ان کی جانب سے قیاساً ۔
آگے آپ فرماتے ہیں: ” اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ نے زندہ اور مردہ امتیوں کی طرف سے بالاشتراک کیا تھ، لیکن یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ مردہ کی طرف سے مستقل ایک جانور کی قربانی دینی چاہئے“۔
اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے یہ مان لیا کہ اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اپنے زندہ اور مردہ امتیوں کی طرف سے قربانی کی ہے، یعنی آپ نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ اسے زندوں کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں ۔
رہا آپ کا یہ سوال کہ” یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ مردہ کی طرف سے مستقلاًایک جانور کی قربانی دینی چاہئے ؟“
تو میں یہ پوچھتا ہوں کہ اس سے یہ کہاں معلوم ہوتا ہے کہ میت کی جانب سے ایک جانور کی قربانی نہیں دے سکتے ہیں ؟ آپ نے اپنی طرف سے اور اپنے آل کی طرف سے ایک دنبے کی قربانی کی ہے، اگر کوئی ایسا کرے تو جائز ہے اور اگر کوئی ایک دنبہ اپنی جانب سے یا کسی ایک زندہ شخص کی جانب سے کرے تو بھی جائز ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی اشتراک و انفراد دونوں جائز ہے ۔ مردہ کی جانب سے مستقلاً ایک جانور کے وجوب کا میں قائل نہیں اس لئے یہ سوال ان سے پوچھئے جو اسے واجب کہتے ہیں۔
پھر آپ فرماتے ہیں :” لہٰذا یہ معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے قربانی کے جواز پر کوئی حدیث صراحۃ ً وارد نہیں “۔
نص صریح صحیح تو یقینا نہیں ہے، مگر چند صحیح احادیث کے عموم سے جواز نکلتا ہے اور منع کے لئے بھی کوئی صریح حدیث نہیں ہے۔
مرعاة المفاتیح:(5/93 ) میں ہے : ”قال في غنية الألمعي ما محصله: إن قول من رخص في التضحية عن الميت مطابق للأدلة، ولا دليل لمن منعها “ اس واسطے اسے حرام مت کہئے ،البتہ یہ کہہ ہی کہ ان اختلافات و اعتراضات کے پیش نظر اگر کوئی میت کو ایصال ثواب کرنا چاہتا ہے تو بہتر ہے کہ اس کی جانب سے قربانی کرنے کے بجائے صدقہ و خیرات کردے۔ ھذا ماتبین لی فان کان صوابا فمن اللّٰہ، وان کان خطأًفمنی ومن الشیطان، وأستغفراللّٰہَ العلیَّ العظیمَ.
 
https://forum.mohaddis.com/threads/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%86%D8%A8%DB%8C-%D8%B5%D9%84%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-%D9%88%D8%B3%D9%84%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%B7%D8%B1%D9%81-%D8%B3%DB%92-%D9%82%D8%B1%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%D8%A7-%D8%B3%DA%A9%D8%AA%DB%8C-%DB%81%DB%92-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D9%85%D9%82%D8%B5%D9%88%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B3%D9%86-%D9%81%DB%8C%D8%B6%DB%8C-%D8%AD%D9%81%D8%B8%DB%81-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81.25414/ 

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۴ 

میت کی طرف سے قربانی 

اسحاق سلفی 

میت کی طرف سے قربانی کے ثبوت صریح دلیل صرف ایک روایت پیش کی جاتی ہے ، جو درج ذیل ہے :

امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ سنن الترمذی ‘‘ میں فرماتے ہیں :
حدثنا محمد بن عبيد المحاربي الكوفي ، حدثنا شريك ، عن ابي الحسناء عن الحكم ، عن حنش ، عن علي " انه كان يضحي بكبشين ، احدهما عن النبي صلى الله عليه وسلم ، والآخر عن نفسه " ، فقيل له:‏‏‏‏ فقال:‏‏‏‏ امرني به يعني:‏‏‏‏ النبي صلى الله عليه وسلم فلا ادعه ابدا ، قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث شريك ، وقد رخص بعض اهل العلم ان يضحى عن الميت ، ولم ير بعضهم ان يضحى عنه ، وقال عبد الله بن المبارك:‏‏‏‏ " احب إلي ان يتصدق عنه ، ولا يضحى عنه ، وإن ضحى ، فلا ياكل منها شيئا ، ويتصدق بها كلها " ، قال محمد ، قال علي بن المديني ، وقد رواه غير شريك ، قلت له:‏‏‏‏ ابو الحسناء ما اسمه ، فلم يعرفه ، قال مسلم اسمه:‏‏‏‏ الحسن‘‘
(سنن الترمذی ، حدیث نمبر: 1495۔۔باب: میت کی طرف سے قربانی کا بیان )

جناب علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے، تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے اس کا حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، لہٰذا میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اس کو صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: علی بن مدینی نے کہا: اس حدیث کو شریک کے علاوہ لوگوں نے بھی روایت کیا ہے، میں نے ان سے دریافت کیا: راوی ابوالحسناء کا کیا نام ہے؟ تو وہ اسے نہیں جان سکے، مسلم کہتے ہیں: اس کا نام حسن ہے،
۳- بعض اہل علم نے میت کی طرف سے قربانی کی رخصت دی ہے اور بعض لوگ میت کی طرف سے قربانی درست نہیں سمجھتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: مجھے یہ چیز زیادہ پسند ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ (جاریہ ) کر دیا جائے، قربانی نہ کی جائے، اور اگر کسی نے اس کی طرف سے قربانی کر دی تو اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ تمام کو صدقہ کر دے۔

سنن ابی داود/ الأضاحي ۲ (۲۷۹۰)، (تحفة الأشراف : ۱۰۰۸۲) (ضعیف) (سند میں ’’ شریک ‘‘ حافظے کے کمزور ہیں، اور ابو الحسناء ‘‘ مجہول، نیز ’’ حنش ‘‘ کے بارے میں بھی سخت اختلاف ہے)

اور علامہ البانی نے ’’ مشکاۃ ‘‘ کی تحقیق میں اور ضعیف سنن الترمذی میں اسے ضعیف کہا ہے ‘‘صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1495
وضاحت: ۱؎ : اس ضعیف حدیث، اور قربانی کرتے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا : «اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد» سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء کہتے ہیں کہ میت کی جانب سے قربانی کی جا سکتی ہے، پھر اختلاف اس میں ہے کہ میت کی جانب سے قربانی افضل ہے یا صدقہ ؟ حنابلہ اور اکثر فقہاء کے نزدیک قربانی افضل ہے، جب کہ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ قیمت صدقہ کرنا زیادہ افضل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ قربانی دراصل دیگر عبادات (صوم و صلاۃ) کی طرح زندوں کی عبادت ہے، قربانی کے استثناء کی کوئی دلیل پختہ نہیں ہے،

جناب علی رضی الله عنہ کی حدیث سخت ضعیف ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے وقت کی دعا سے استدلال زبردستی کا استدلال ہے جیسے بدعتیوں کا قبرستان کی دعا سے غیر اللہ کو پکارنے پر استدلال کرنا، جب کہ اس روایت کے بعض الفاظ یوں بھی ہیں «عمن لم يضح أمتي» (یعنی میری امت میں سے جو قربانی نہیں کر سکا ہے اس کی طرف سے قبول فرما) اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ” میری امت میں سے جو زندہ شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور اس کی وجہ سے قربانی نہ کر سکا ہو اس کی طرف سے یہ قربانی قبول فرما “، نیز امت میں میت کی طرف سے قربانی کا تعامل بھی نہیں رہا ہے۔ «واللہ اعلم بالصواب»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میت تک صرف انہی اعمال کا ثواب پہنچ سکتا ہے، جن کے بارے میں دلیل موجود ہے، یہی موقف راجح ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
( وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى ) اور انسان کیلئے وہی ہے جس کیلئے اس نے خود جد و جہد کی۔[النجم:39]

اور جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة : إلا من صدقة جارية ، أو علم ينتفع به ، أو ولد صالح يدعو له ) أخرجه مسلم (1631)
(جب انسان مر جائے تو اسکے تین اعمال کے علاوہ سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں: صدقہ جاریہ، علم جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، یا نیک اولاد جو اسکے لئے دعا کرتی ہو) مسلم: (1631) 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپکے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ، آپکی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا، اور آپکی تین بیٹیاں رضی اللہ عنہن فوت ہوئیں، لیکن یہ کہیں بھی وارد نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کی طرف سے قرآن پڑھا ہو، یا خاص انکی طرف سے قربانی ، روزہ، یا نماز پڑھی ہو، ایسے ہی صحابہ کرام کی طرف سے بھی کوئی ایسا عمل منقول نہیں ہے، اور اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ کرام ہم سے پہلے یہ کام کر چکے ہوتے۔

اور جن اعمال کے بارے میں میت تک ثواب پہنچنے کا استثناء دلائل میں موجود ہے ان میں حج، عمرہ، واجب روزہ، صدقہ، اور دعا شامل ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرمان باری تعالی: ( وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"اسی آیت سے امام شافعی اور انکے موقف کی تائید کرنے والوں نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ فوت شدگان تک تلاوت قرآن کا ثواب نہیں پہنچتا؛ کیونکہ تلاوت انہوں نے خود نہیں کی، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کام کیلئے ترغیب نہیں دلائی، اور نہ انکے کیلئے اسے اچھا قرار دیا، اور نہ ہی اس کام کیلئے واضح یا اشارۃً لفظوں میں رہنمائی فرمائی ، آپ کے کسی صحابی سے بھی ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے، اگر یہ کام خیر کا ہوتا تو وہ ہم سے پہلے کر گزرتے۔

عبادات کے معاملے میں شرعی نصوص کی پابندی کی جاتی ہے، اسی لئے عبادات کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی، جبکہ دعا اور صدقہ جاریہ کے بارے میں یہ ہے کہ یہ میت کو پہنچ جاتا ہے، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح لفظوں میں بیان کیا ہے"

( تفسير ابن كثير: 4/ 258 )

https://forum.mohaddis.com/threads/%D9%85%DB%8C%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%B7%D8%B1%D9%81-%D8%B3%DB%92-%D9%82%D8%B1%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C.29995/ 

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۵ 

میت کی طرف سے قربانی کا تحقیقی جائزہ 

ماہنامہ نور توحید نیپال 
نومبر 2010 

https://drive.google.com/file/d/1F-3ljVrtUs20G1TgDThSRQ9As7Yy1KRh/view?usp=drivesdk 

قربانی ایک عظیم عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک اہم ذریعہ ہے (فصل لربک وانحر۔۔۔ قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین) غیراللہ کے لئے ذبح و قربانی حرام اور شرک اور باعث لعنت عمل ہے۔ حدیث رسول ہے '’لعن اللہ من ذبح لغیراللہ ‘‘ (الحدیث)
مسلمانوں کی دینی و اجتماعی زندگی میں سال کے اندر دو عیدیں ہیں۔ 
 ایک عیدالفطر جو ماہ رمضان ختم ہونے پر پہلی شوال کو منائی جاتی ہے۔ اس دن امام کی اقتداء میں دورکعت صلاۃ باجماعت ادا کی جاتی ہے اور امام خطبہ دیتا ہے اور مسلمان اس دن خوشی کا اظہار کرتے ہوئے حسب توفیق عمدہ پکوان بالخصوص میٹھی لذیذ سوئیاں وغیرہ کھاتے اور کھلاتے ہیں. 
دوسری عید عید الاضحیہ (عید قرباں) ہے جو ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو منائی جاتی ہے. عیدالفطر کی طرح اس دن بھی مسلمان صلاۃ ادا کرتے اور امام کا خطبہ سماعت کرتے ہیں اور صلاۃ و خطبہ سے فارغ ہو کر مستطیع حضرات اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس کے نام پر اضاحی (یعنی بہیمۃ الانعام، اونٹ، گائے، بھیڑ و دنبہ اور بکرے کی قربانی) پیش کرتے ہیں جو دراصل ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام کی سنت کا احیاء ہے اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع ہے. 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپ قربانی کرتے رہے اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم بھی قربانی کرتے رہے. 
قربانی کے احکام و مسائل قرآن کریم اور احادیث نبویہ صحیحہ میں بیان کئے گئے ہیں اس موضوع پر متعدد علماء و فقہاء نے فقہی کتابوں میں روشنی ڈالی ہے. 
اہل علم نے قربانی کے احکام و مسائل پر مستقل تصنیفات و تالیفات مرتب و مدون کی ہیں 
جب عید الاضحی کا زمانہ قریب آتا ہے تو اسلامی دینی مجلات و رسائل میں اس موضوع پر علماء و طلبہ کے مقالات و مضامین شائع ہوتے ہیں موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے خطبات جمعہ میں اس موضوع پر ائمہ و خطباء گفتگو کرتے ہیں. 
اب تک اس موضوع ’’میت کی طرف سے قربانی کا حکم کیا ہے؟‘‘ پر علماء کرام کی لکھی ہوئی کل تحریر کا خلاصہ درج ذیل ہے 
۱. اکثر و بیشتر اہل علم میت کیطرف سے قربانی کے جواز کے قائل ہیں بعض اہل علم نے یوں تفصیل بیان کی ہے کہ آدمی ایک جانور کی قربانی اپنی طرف سے کرے اور ایک دوسرے جانور کی قربانی میت کیطرف سے کرے. 
* بعض علماء نے در حقیقت اس کو صدقہ مان کر جائز قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص میت کی طرف سے قربانی کرے تو ایسی صورت میں اس جانور یا سہم کا پورا گوشت تقسیم کر دے اور خود وہ اور اس کے گھر والے نہ کھائیں. 
* بعض دیگر اہل علم نے کہا کہ میت کی طرف سے قربانی جائز ہے اور قربانی کرنے والا اسے خود بھی کھا سکتا ہے اور مستحقین کو کھلائے 
۲. کچھ اہل علم بلکہ طلبہ علم کا قول یہ ہے کہ میت کی طرف سے قربانی جائز نہیں ہے. جو عبادت جائز نہ ہو اور اسے دین و عبادت سمجھ کر کیا جائے وہ بدعت ہے اور بدعت شریعت میں مردود ہے لہذا میت کی طرف سے قربانی مردود ہوگی. 
درج ذیل سطور میں تین نکتے ذکر کئے جا رہے ہیں، جنہیں ذہن نشین رکھنا بہت ضروری ہے. 
۱. اس دین اور اس کی شریعت کے احکام کے مکلف اور اس کے مخاطب زندہ اشخاص ہیں. 
لہذا اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے کنارہ کشی زندہ اشخاص کا کام ہے. 
مردے اس شرع اسلامی کے بعد از موت نہ مخاطب ہیں نہ ہی مکلف ہیں. وہ اپنے پیش کردہ عمل کے پاس جا پہنچے. ’’فإنہم افضوا إلی ما قدموا‘‘ وہ اپنے پیش کردہ عقائد واعمال لیکر پہنچ چکے ہیں. 
۲. ایک اہم اسلامی اصول اور شرعی ضابطہ ہے جو جملہ اہل علم کے نزدیک متفق علیہ اصل اور قاعدہ ہے 
’’الأصل فی الأشیاء الإباحۃ حتی یرد دلیل المنع والأصل فی العبادۃ المنع حتی یرد دلیل الفعل‘‘ 
عام امور واشیاء میں اصل جواز و اباحت ہے یہاں تک کہ منع و تحریم کی دلیل وارد ہو اور عبادات میں أصل اور بنیادی بات ممانعت و تحریم اور عدم فعل ہے یہاں تک کہ اس کے فعل (کرنے) کی دلیل وارد ہو. 
اس کی علت یہ ہے کہ عبادات اور طریقہ عبادات توقیفی ہوتے ہیں یعنی عبادات اور ان کے طریقوں کا علم اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی عطا کرتے ہیں. کسی بھی مسلمان کے لئے از خود بلا دلیل و حجت کوئی عبادت اور اس کے لئے اپنی جانب سے مقرر کردہ کوئی طریقہ ایجاد و اختیار کرنے کا حق حاصل نہیں ہے. 
۳. تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان مرد ہو یا زن جب مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، مرنے کے بعد اس کے لئے اجر و ثواب کا سلسلہ اساسی طور پر تین راہوں کے ذریعہ جاری رہ سکتا ہے اگر وہ تینوں راہیں پائی جائیں. 
نبی ﷺ کا فرمان ہے 
’’إذا امات الإنسان انقطع عنہ عملہ إلا من ثلاث صدقۃ جارہۃ أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعولہ‘‘
پہلی راہ صدقہ جاریہ ہے، یہ صدقہ اسکا اپنا کیا ہوا عمل ہو سکتا ہے، یا اس کے ورثہ اس کے مرنے پر اس کے ترکہ کے ثلث سے انجام دیں، یا اس کے اولاد و أحفاد و أقرباء اس کو ثواب پہنچانے کی نیت سے یہ صدقہ جاریہ انجام دیں. 
دوسری راہ، ایسا علم جس سے نفع اٹھایا جائے، 
یعنی وہ شخص اسلامی دینی کتابوں کا مؤلف ومصنف رہا ہو اور اپنی تصنیف چھوڑ گیا ہو جس سے اہل علم اور عام قارئین فائدہ اٹھائیں، یا وہ شخص اسلامیات و دینیات کا مدرس رہا ہو اور اس کے تلامذہ کا تسلسل ہو جو اپنے علم سے اوروں کو فائدہ پہنچاتے رہے ہوں. 
تیسری راہ، صالح اولاد، دینی و شرعی نقطہ نظر سے نیک اولاد کی دعا، 
یعنی اسکی اولاد، بچے بچیاں، نیک ہوں اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں. 
تو ان تینوں راہوں اور جو راہیں ان اصول کے تحت آتی ہوں ان سے میت کو اجر و ثواب حاصل ہوگا۔ 
یوں ان تینوں راہوں سے اس کا عمل منقطع نہیں ہوا، جیسا کہ اوپر یہ نکتہ بیان کیا گیا کہ شریعت کے اوامر و نواہی کے مخاطب زندہ لوگ ہیں کیونکہ خطاب زندوں سے ہوتا ہے، حکم اضحیہ پر عمل پیرائی کے مخاطب بھی زندہ لوگ ہیں. 
مردہ شخص نہ (اقیموا الصلاۃ وآتوا الزکاۃ) کا مخاطب بننے کے لائق ہے نہ ہی ’’علیکم بقیام اللیل‘‘ کا مکلف بننے کے قابل ہے نہ ہی وہ ’’من وجد سعۃ ولم یضح فلا یقربن مصلانا‘‘ کے اندر وعید سے بھر پور حکم کا مخاطب بننے کے لائق ہے ’’فإنہم أفضوا إلی ما قدموا‘‘، نہ اس مردہ شخص کے پسماندگان اس بات کے مکلف ہیں کہ سال بہ سال اس کی طرف سے یوم النحر اور أیام التشریق میں أضاحی پیش کریں، ہاں مردہ شخص کے زندوں پر اور بالخصوص اس کے اقرباء وغیرہ پر کچھ حقوق ہیں انھیں چاہئے کہ وہ ان حقوق کو ادا کریں اگر زندوں کو مردوں کے لئے ثواب پہونچانا مقصود ہے تو وہ متفق علیہ راہ اختیار کریں. 
 اضحیہ عن المیت یعنی میت کی طرف سے قربانی جو بہر حال ایک اختلافی مسئلہ بن گیا ہے، پر اصرار نہ کریں زندہ شخص کو اپنی طرف سے کی جانے والی قربانی کی قبولیت کی فکر ہونی چاہئے، کیونکہ بہت سے اضاحی پیش کرنے والے نماز کے تارک اور دیگر فرائض نہ ادا کرنے والے ہوتے ہیں، ساتھ ہی بہت سے حرام واضح کے مرتکب ہوتے ہیں، اس لئے اپنی عبادت کی قبولیت کی فکر کرنی چاہئے، یوں انسان نیک بن کر مردہ کے لئے دعا کر کے اسکو ثواب پہنچاسکتا ہے، ہاں مردے کی جانب سے کئے جانے والے بعض أعمال درست ہیں جن کے دلائل واضح ہیں. 
دوسرا نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ متفق علیہ أصول ہے کہ عبادات میں أصل نہی و تحریم ہے تا آنکہ فعل عبادت کی دلیل موجود ہو اسلئے کہ عبادات توقیفی ہوا کرتے ہیں. 
قربانی ایک عظیم عبادت ہے، اضحیہ اور اس کا پیش کیا جانا اللہ تعالی کی خوشنودی کا باعث عمل ہے اضحیہ نبی ﷺ کے عمل اور اسوہ سے ثابت ایک ایسی عبادت ہے جو اسلامی شعار ہے اس سے مسلمانوں کا ایک تشخص اور امتیاز قائم ہوتا ہے یہ عظیم عبادت ہے جس کی ایک روشن قدیم تاریخ ہے جو ابراہیم و اسماعیل اور ہاجرہ علیہم السلام سے متعلق ایک انوکھی اور نرالی داستان حق کی یادگار ہے اس یادگار کو خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قیام مدینہ کے دوران مسلسل و مستمر عمل کے ذریعہ زندہ و پائندہ بنا دیا ہے. 
اضحیہ ایک خاص عبادت ہے جسے عید الاضحی کو یعنی دسویں ذی الحجہ کو صلاۃ و خطبہ سے فراغت کے بعد انجام دیا جاتا ہے اور قربانی کا وقت ایام التشریق یعنی گیارہویں بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ تک پھیلا ہوا ہے. 
اگر کسی نے قبل از صلاۃ عید، اضحیہ کا جانور ذبح کر دیا تو وہ اضحیہ نہیں ہے بلکہ وہ کھانے والا گوشت مثلا گوشت کا بکرا کہا جا سکتا ہے لیکن بہر حال وہ مسنون قربانی نہیں کہی جا سکتی ہے ایسے ہی پورا وقت گذر جانے کے بعد کوئی اضحیہ نہیں کر سکتا ہے. 
اضاحی کی مشروعیت ثابت ہے دلائل و براہین حسب ذیل ہے 
۱۔ ( فصل لربک والنحر) 
اپنے رب کے لئے صلاۃ ادا کرو اور قربانی کرو. 
۲۔ ’’اقام رسول اللہ ﷺ بالمدینۃ عشراً یضحی‘‘ 
رسول اللہ مدینہ میں دس سال تک قیام فرما رہ کر قربانی کرتے رہے. 
۳۔ ’’ضحی رسول اللہ ﷺ والمسلمو ن‘‘ 
رسول اللہ نے قربانی کی اور مسلمانوں نے بھی. 
یہ سب جانتے ہیں کہ اعمال و عبادات زندہ ہی بجا لاتے ہیں مردوں کی طرف کئے جانے والے عمل کی صحیح اور واضح دلیل چاہئے، جیسے قضاء دین میت کا مسئلہ ہے اس کی واضح دلیل موجود ہے، اضحیہ ایک عبادت ہے مردہ آدمی کی جانب سے اضحیہ کے جائز و درست ہونے کی ایسی صحیح دلیل چاہئے جس سے اس مسئلہ پر استدلال بھی درست ہو، تبھی اضحیہ عن المیت کو صحیح اور جائز کہنا درست ہے. 
کیا مردہ انسان کی طرف سے اضحیہ کے جواز کی کوئی صحیح اور واضح دلیل ہے؟ اس کا مختصرا جواب یہ ہے کہ ’’أضحیہ عن المیت‘‘ کی کوئی صحیح اور واضح دلیل نہیں ہے. 
جواز کے قائلین کے دلائل اور ان سے استدلال کرنے کی کیفیت اور اسکا تجزیہ درج ذیل سطور میں بالاختصار قلمبند کیا جا رہا ہے. 
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ’’أنہ کان یضحی بکبشین أحدہما عن النبی ﷺ والآخر عن نفسہ۔ فقیل لہ؟ فقال أمرنی بہ یعنی النبی ﷺ فلا أدعہ أبدا (رواہ الترمذی ج رقم ۱۴۹۵)
علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ دو مینڈھے کی قربانی کرتے تھے ایک نبی ﷺ کی طرف اور دوسرا اپنی طرف سے اس بابت ان سے کلام کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ آپ یعنی نبی ﷺ نے مجھے اس کا حکم کیا ہے میں اسے ترک نہیں کر سکتا. 
یہ حدیث صحیح اور ثابت نہیں ہے۔ اس حدیث پر اہل علم کے کلام ملاحظہ فرمائیں 
قال ابو عیسی الترمذی "ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من حدیث شریک‘‘ 
قال الشیخ محمد عبدالرحمن المباکفوری رحمہ اللہ۔ بعد نقل کلام الأئمۃ فی بعض رواۃ ہذا الحدیث ’’ابوالحسناء شیخ عبداللہ مجہول کما عرفت فالحدیث ضعیف‘‘ 
(تحفۃ الأحوذی ج۴،ص۴۳۴)
ثم قال المبارکفوری "لم أجد فی التضحیۃ عن المیت منفردا حدیثا مرفوعا صحیحا و أما حدیث علی المذکور فی ہذا الباب فضعیف کما عرفت. 
(تحفۃ الأحوذی ج۴، ص۴۳۴) 
شیخ محمد عبدالرحمن مبارکپوری صاحب تحفہ نے اس حدیث کے بعض روات کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کا کلام نقل کرنے کے بعد فرمایا ابوالحسناء عبداللہ کے استاذ مجہول ہیں جیسا کہ آپ جان چکے ہیں چنانچہ حدیث ضعیف ہے۔ پھر اخیر میں محدث مبارکپوری نے فرمایا میت کی طرف سے انفرادی طور پر قربانی کے سلسلے میں مجھے کوئی مرفوع صحیح حدیث نہیں ملی، رہی اس باب میں مذکورہ حضرت علی کی حدیث تو جیسا کہ معلوم ہے کہ وہ ضعیف ہے. 
علامہ محمد ناصرالدین الألبانی رحمہ اللہ نے حدیث علی کی اسناد کو ضعیف قراردیا ہے، 
امام حاکم صاحب المستدرک نے اس کو صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے اور علامہ أحمد محمد شاکر نے بھی اس کی تصحیح کی ہے علامہ عبیداللہ الرحمانی مبارکفوری صاحب مرعاۃ  نے کہا ’’فی کون ہذا الحدیث صحیحاً عندی نظر قوی و ہذا لا یخفی علی من تأمل فی ترجمہ شریک وأبی الحسناء وحنش‘‘ 
صاحب مرعاۃ نے فرمایا کہ اس حدیث کے صحیح ہونے میں مجھے شدید تأمل ہے اور یہ چیز کسی بھی شخص پر مخفی نہیں رہ سکتی جو شریک ابوالحسناء اور حنش کے حالات پر غور و فکر کرے. 
خلاصہ یہ ہے کہ حدیث علی رضی اللہ عنہ ضعیف ہے اور ضعیف حدیث لائق استدلال اور قابل احتجاج نہیں ہوا کرتی ہے، حدیث ضعیف سے کوئی بھی شرعی حکم نہیں ثابت ہوتا ہے، لہذا اس حدیث ضعیف کی روشنی میں اضحیہ عن المیت کا شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا ہے نہ اس سے اس عبادت کا جواز ملتا ہے. 
اضحیہ عن المیت کے جواز کے قائلین کی سب سے قوی اور صحیح دلیل صحیح البخاری میں تخریج کردہ وہ حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں’’اللہم تقبل من محمد وآل محمد و أمۃ محمد" '’امت محمد‘‘ 
کے لفظ سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی امت کی طرف سے اضحیہ پیش کیا اور ’’امت‘‘ میں ’’احیاء و اموات‘‘ زندہ و مردہ دونوں شامل ہیں. 
یہ حدیث اپنی جگہ اعلی درجہ کی صحت والی حدیث ہے مگر اس سے استدلال درست نہیں ہے. 
کیوں کہ بعض روایات میں ’’عمن لم یضح من امتی‘‘ کے الفاظ وارد ہیں گویا آپ ﷺ نے اپنی امت کے ان اشخاص کیطرف سے قربانی کی جو قربانی نہ کر سکے تھے. 
 رہی یہ بات کہ ’’امت‘‘ میں زندہ و مردہ دونوں شامل ہیں اس لئے میت کی طرف سے قربانی صحیح اور جائز ہے، تو یاد رہے کہ امت میں موجود و معدوم بھی شامل ہیں تو جس طرح موجودتین کی طرف سے قربانی جائز ہے، اسی طرح ابھی ’’لم یکن شےئا مذکوراً" غیر مولود ’’ما فی بطن الأم‘‘ مافی الأرحام، نیز عیسی علیہ السلام کے نزول کے وقت پیدا ہونے والے شخص وغیرہ کی جانب سے بھی قربانی درست ہونی چاہئے. اگر آپ الفاظ حدیث پر غور کریں تو یہ امر بھی واضح ہو گا کہ آپ اپنے اضحیہ میں اپنے آپ کو اور اپنے آل کو نیز اپنی امت کو شامل کیا تھا۔ رہی یہ بات کہ آپ نے مستقل جانور خاص مردہ یا مردوں کی طرف بطور اضحیہ پیش کیا ہو اس پر یہ حدیث دلالت نہیں کرتی ہے پھر اضحیہ عن المیت کے جواز پر اسے دلیل بنانا کیونکر درست ہو سکتا ہے. 
بڑے نامی گرامی علماء کرام نے درحقیقت اضحیہ عن المیت کو اس لئے جائز قرار دیا ہے کہ وہ صدقہ ہے اور میت کی طرف سے صدقہ مشروع ہے، یا اس بنا پر اس کے جواز کے قائل ہیں کہ مرنے والے نے اس کی وصیت کی ہے، یا اس نے اپنا مال اسی لئے وقف کیا ہے، چنانچہ علامہ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں "جہاں تک اضحیہ عن المیت کا سوال ہے اگر اس نے اپنے مال کے ثلث (تہائی) میں اس کی وصیت کر رکھی ہے یا اس کو اس کیلئے وقف کر رکھا ہے تو وقف یا وصیت کے ذمہ دار پر اسکی تنفیذ واجب ہے اور اگر اس نے نہ اسکی وصیت کر رکھی ہے نہ وقف قرار دے رکھا ہے اور کوئی بھی انسان یہ چاہتا ہے کہ اپنے باپ یا اپنی ماں یا ان دونوں کے علاوہ کی طرف قربانی کرے تو یہ اچھی بات ہے یہ میت کی طرف سے صدقہ معتبر ہوگا اور اہل سنت و جماعت کے قول کی روشنی میں اس کی طرف سے صدقہ مشروع ہے، رہا اضحیہ کی قیمت کا صدقہ کرنا کیونکہ وہ ذبح سے افضل ہے تو اگر وقف یا وصیت میں اضحیہ کرنے کی تنصیص و تصریح ہے تو وکیل کیلئے اس سے عدول و کنارہ کشی جائز نہیں ہے ہاں اگر اس کے علاوہ کی طرف سے بطور تطوع ہے تو پھر اس میں کافی وسعت وگنجائش ہے، رہا زندہ مسلمان کی طرف سے اور اس کے اہل خانہ کی طرف سے قربانی تو مستطیع اور صاحب قدرت کیلئے یہ سنت مؤکدہ ہے اور ذبح کرنا اس کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے وباللہ التوفیق". 
(مجموع فتاوی اسلامیۃ ۲، ۳۲۱)
چونکہ وصیت والی حدیث جو علی سے مروی ہے وہ ضعیف ہے اسلئے وصیت اضحیہ کے درست و جائز ہونے والی بات صحیح نہیں ہے. 
وقف قربانی کی بات بھی وقف کی اصل روح کے منافی ہے اور اس سے میل نہیں کھاتی ہے کیونکہ وقف یہ ہے اسکی اصل باقی رہے جس سے انتفاع کا سلسلہ مستمر اور جاری رہے، 
قال النبی ﷺ لعمر "إن شئت حبست أصلہا وتصدقت بہا قال؛ فتصدق بہا عمر غیر أنہ لا یباع أصلہا ولا یورث ولا یوہب۔۔۔۔۔۔" الحدیث (رواہ البخاری ومسلم) 
نبی ﷺ نے عمر بن خطاب سے فرمایا "اگر تم چاہو تو اسکی اصل روک رکھو، یعنی وقف کردو اور اسے صدقہ کردو راوی کا بیان ہے کہ عمر نے اسے صدقہ کر دیا، مگر یہ کہ اس کا اصل نہ اس کی خرید و فروخت ہو سکتی ہے نہ وہ محروت بن سکتا ہے نہ ہی اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے. 
وقف کی تعریف یہ ہے ’’الوقف ہو تجیس الأصل وتسبیل المنافع‘‘
 اصل کو روک رکھنا اور منافع و فوائد کو فی سبیل اللہ بنا دینا. 
أضحیہ پر وقف کی تعریف ہی صادق نہیں آتی ہے. واللہ اعلم. 
رہی یہ بات وہ صدقہ عن المیت معتبر ہوگا، بے شک صدقہ عن المیت جائز ہے لیکن صدقہ عن المیت کی دو اساسی شکلیں ہوسکتی ہیں. 
۱۔ ایک صدقہ خود مال میت کے ثلث سے ہوگا. 
۲۔ دوسرا صدقہ میت کے اقرباء ورثاء وغیر ورثاء کے مال سے اس کی طرف سے صدقہ جس میں یہ نیت ہو کہ اس کا ثواب میں سے اللہ تعالیٰ اسے عطا کرے، 
یہ صدقہ عام ہو جس کی کوئی مخصوص و متعین شکل نہ ہو، اس کو کسی خاص ماہ یا ہفتہ یا دن وغیرہ سے مقید نہ کیا جائے اسکا کوئی وقت مخصوص نہیں ہے. 
اضحیہ کو صدقہ ٹھہرانا ہی درست نہیں ہے کیونکہ اضحیہ یہ خاص عبادت ہے اسکا شرعی نام اضحیہ ہے اس کی ایک روشن قدیم تاریخ ہے اس کیلئے ماہ و دن اور وقت خاص ہے اگر اس ماہ و دن اور وقت کی خلاف ورزی ہو تو اس کو اضحیہ کہنا ہی درست نہیں ہوگا. 
مثلا اگر ایک شخص ماہ ذی الحجۃ کے علاوہ ماہ یا دسویں سے تیرہویں ذی الحجہ کے علاوہ دیگر تواریخ و ایام یا خود یوم النحر دسویں ذی الحجہ کو قبل از صلاۃ اضحیہ کا جانور ذبح کر ڈالے تو اسکی یہ پیش کردہ قربانی اضحیہ نہیں قرار دی جا سکتی ہے بلکہ یہ عام گوشت کا ذبیحہ کہلایا جائے گا. 
جندب بن سفیان کی روایت میں وارد ہے آپ ﷺ نے فرمایا "من کان ذبح اضحیتہ قبل أن یصلی أو نصلی فلیذبح مسکانہا أخری ومن کان لم یذبح فلیذبح باسم اللہ". (رواہ البخاری ومسلم) 
صدقہ کے لئے اس طرح شہور و ایام و اوقات کی کوئی پابندی نہیں ہے لہذا اضحیہ عن المیت کو صدقہ قرار دیکر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ہے، ایک بات یہ بھی یاد رہے کہ صدقہ خود متصدق نہیں کھا سکتا ہے الا یہ کہ متصدق اس کو بطور عطیہ دے یا ہبہ کرے مگر اضحیہ کا مصرف معلوم و متعین ہے. اس کو کھانے اور لاچار نادار اور غیور نہ مانگنے والے محتاج اور سائل کو کھلانے کا حکم ہے اور حالات و ظروف کے مطابق کھانے اور ذخیرہ کرنے کی اجازت ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (فکلوا منہا وأطعموا القانع والمعتر) اس میں سے خود کھاؤ اور نہ مانگنے والے اور مانگنے والے کو کھلاؤ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’کلووتزدوا وادخروا (رواہ مسلم) کھاؤ، زاد راہ بناؤ اور ذخیرہ کرو. رہاصدقہ تو متصدق مستحق شخص کو دیدے وہ اپنے نفقات ومصارف میں کام لے متصدق کو نفلی صدقات میں اخفاء و پوشیدگی سے کام لینا چاہئے، اخلاص کا تقاضا یہی ہے۔ میت کی جانب سے قربانی کرنے والا اگر یہ صدقہ ہے تو بھی خود کھاتا ہے اور کھلاتا ہے جو کہ قربانی کا مصرف ہے. 
رہی ان علماء کرام و فقہاء عظام اور مفتیان ذو احترام کی بات کہ "اگر کوئی شخص میت کی جانب سے قربانی کرے تو اس کا سارا گوشت صدقہ کردے اس میں سے کچھ بھی نہ کھائے‘‘. 
سوال یہ ہے کہ آخر جب وہ اضحیہ (قربانی) ہے اور اضحیہ کا مصرف کتاب و سنت میں مذکور ہے آخر اس مصرف سے عدول کیوں؟ آیا اسکی کوئی دلیل کتاب و سنت میں ہے، زندہ و مردہ کی طرف سے کی جانے والی قربانی کے الگ الگ مصارف کی کیا دلیل ہے؟ من ادعی فعلیہ البیان
درحقیقت اضحیہ عن المیت کو صدقہ کہنا بے دلیل بات ہے اور اسے صدقہ پر قیاس کرنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہے. 
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اضحیہ عن المیت ناجائز ہے کیونکہ اس پر نہ کوئی صحیح ثابت دلیل ہے نہ ہی صحیح ثابت حدیث سے استدلال درست ہے نہ ہی اس کو صدقہ کہنا اور صدقہ پر قیاس کرنا ہی صحیح ہے عہد صحابہ وخیر القرون میں اس کی تظیریں بھی نہیں ملتی ہیں. 
اس مسئلہ پر کچھ اور زاویوں سے نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے. 
۱. اس وقت مسلمانوں میں بالخصوص بر صغیر کے اندر بدعملی بہت عام ہے، مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت شرک و بدعت کی آلائشوں میں گرفتار ہے اور دونوں ہی محبط عمل ہیں مسلمانوں میں جن کے یہاں شرک جلی اور بدعات ظاہرہ کا چلن نہیں ہے وہ بے عملی کا شکار ہیں ان کی ایک بڑی تعداد تارک الصلاۃ ہے اور کسب حلال کی بجائے کسب حرام میں مبتلا ہے، فرائض و شعائر سے غافل اور محرمات و منہیات میں ملوث ہے، بہتوں دیانت و تقوی خال خال ہے، ایسی صورت میں ان زندہ اشخاص کی پیش کردہ قربانی کا حکم جاننے کی شدید ضرورت ہے. 
۲. لوگ سوال عام کرتے ہیں کہ مردہ کی طرف سے قربانی کا حکم شرعی کیا ہے؟ مگر وہ صرف اپنے والدین یا ان میں سے ایک کی طرف سے ہی قربانی کا ارادہ رکھتا ہے، جو ابھی تازہ فوت ہوئے ہیں، 
میرے علم میں کسی شخص نے کبھی مثلا اپنے بڑے بھائی کی زوجہ کی طرف سے قربانی کا خیال بھی دل میں نہ بسایا ہوگا، تو سوال یہ کرنا چاہئے کہ مرے ہوئے باپ یا ماں کی طرف سے قربانی جائز ہے یا نہیں؟ 
۳. سائل اس قربانی عن الوالد أو الوالدۃ سے کیا چاہتا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ اپنے والد یا والدہ کو ثواب پہنچانا چاہتا ہے، اگر کسی کے یہاں یہی مقصود ہے اور وہ اسمیں مخلص ہے اور اپنی کمائی کا ایک حصہ اس غرض سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس کو متفق علیہ اور بے وہم و گماں صحیح راہ کیوں نہیں نظر آتی ہے کہ جس کو اپنا کر وہ اپنے والدین کو ثواب پہنچا سکتا ہے مثلا وہی رقم جس کو بشکل أضحیہ خرچ کرنا چاہتا ہے کسی بھی مستحق کو عام صدقہ کر دے یا کسی بھی صحیح اسلامی کاز میں لگا دے، آخر وہ اس سے گریز کیوں؟ دراصل قربانی میں دلچسپی اس لئے زیادہ ہوتی ہے کہ اسے صد فیصد یقین ہے کہ اگر چار پانچ ہزار کی رقم تعمیر مدرسہ میں صرف کر دیں مجھے اس میں کچھ نہیں ملنے والا ہے اور قربانی کی صورت میں اس کے اور اس کے گھر والوں کے لئے لذت کام و دہن کا سامان فراہم ہوگا، ساتھ ہی والد یا والدہ کا حق بھی پورا ہو جائے گا.
۳. اس کچھ شدت سے عمل پیرا انسان عموما خود بے عمل اور بے دین ہوا کرتے ہیں، بر الوالدین کا کچھ زیادہ خیال نہیں کرتے ہیں، بعد از وفات ایک مخصوص رقم لگا کر اپنی فرمانبرداری اور غایت درجہ سعادت مندی کا اعلان کرنا چاہتے ہیں اور ایک حصہ گوشت سے جذیہ گوشت خوری کو تسکین بھی پہنچاتے ہیں، ہم فرما و ہم ثواب والی بات ہے. 
۴. مقصود اگر اس قربانی کا یہ ہے کہ مردہ کو اللہ کی رحمت و مغفرت مل جائے تو ایک اور متفق علیہ راہ اپنانے میں عملی گریز کیوں ہے وہ راہ تو ایسی ہے جس میں درہم و دینار کی قطعی ضرورت نہیں ہے وہ راہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین کی صالح اولاد بن کر ان کیلئے دعا کرے، مگر بالعموم وہی جو قربانی کے لئے خوب چاق و چوبند نظر آتا ہے، برسوں کا بے نمازی ہے صلاح و تقوی سے دور ہے فریضہ عبادت سے یکسر کوتاہ و غافل ہے، معصیت میں گرفتار ہے، اسے اپنے والدین کی اگر فکر ہے کہ انھیں اس کے عمل سے ثواب مل جائے تو وہ نیک بن کر وہ ان کے لئے شب و روز کے کچھ معمولی لمحات اور قلیل اوقات میں اللہ تعالی سے ان کے لئے دعائیں کیوں نہیں کرتا؟ بہت سے لوگوں کے ظاہری احوال یہ بتاتے ہیں کہ انہیں دعاؤں کی توفیق نہیں ملتی ہے. یہ بات بھی تو قابل غور ہے کہ اگر انسان میں صلاح وتقوی نہیں ہے تو اس کی کل عبادت اسی طرح اس کی اپنی قربانی یا اس کی میت کی طرف سے پیش کردہ قربانی کی قبولیت ہی محل نظر ہے. 
اللہ تعالی کا ارشادہے. 
’’إنما یتقبل اللہ من المتقین‘‘ 
اللہ تعالیٰ تو صرف متقیوں سے قبول کرتا ہے. 
۵. اسلامی عبادات محض رسوم و عادات نہیں ہیں یہاں تو عبادت درحقیقت اللہ تعالی کیلئے خضوع تذلل، کامل تابعداری و اطاعت گذاری کا نام ہے جس کا مقصود رضاء الٰہی ہوتا ہے اور اس فعل عبادت کے لئے اللہ کی کتاب اور نبی اللہ ﷺ کی حدیث میں صحیح دلیل بھی چاہئے اگر عبادت میں ہوائے نفس اور اپنی من مانی کا دخل ہو تو وہ عبادت نہیں ہو سکتی ہے آپ اس کا کوئی بھی نام دیں. 
صحت و قبول عمل کے لئے توحید و اخلاص اور سنت کی اتباع و موافقت بہت ضروری شرط ہے. 
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو صلاح و تقوی اور اتباع کتاب و سنت نیز عبادات کا صحیح طریق اپنانے کی توفیق عطا فرما اور ان کی مخلصانہ عبادتوں کو قبول فرمائے. آمین. 

https://noor-e-tauheed.blogspot.com/2011/06/nov-2010_27.html

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۶ 

قربانی کے بعض تحقیقی مسائل 

غازی عزیر مبارکپوری 

صفحات 16 

https://drive.google.com/file/d/1HKjeEhjlPe77ERx9amJgJTQ5JQeHTYHo/view?usp=drivesdk 

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۷ 

میت کی طرف سے قربانی دلائل کا تجزیہ 

شیخ محمد جعفر الہندی 

صفحات 5 

https://drive.google.com/file/d/1GGzgww2WohzgvHLgLKKMHfSYQ-4YOLNb/view?usp=drivesdk 

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۸ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میت کی طرف سے قربانی کرنا شرعاً کیسا ہے؟
 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کی طرف سے قربانی کے جواز والی روایت ابو الحسناء راوی کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے جیسا کہ راقم الحروف کی تحقیق ماہنامہ شہادت میں شائع ہوچکی ہے، تاہم صدقہ کے جواز کے عمومی دلائل کی رو سے میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے۔ یہ قربانی صدقہ ہوگی لہٰذا اس کا سارا گوشت غریبوں میں تقسیم کر دینا چاہئے۔

شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’احب الی ان یتصدق عنه ولا یضحی عنه، وان ضحی فلا یاکل منها شیئا و یتصدق بها کلها‘‘

میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ میت کی طرف سے (مطلقاً) صدقہ کیا جائے اور قربانی نہ کی جائے اور اگر کوئی قربانی کر دے تو اس میں سے کچھ بھی نہ کھائے (بلکہ) سارے گوشت کو صدقہ کر دے۔ (سنن الترمذی ابواب الاضاحی باب ماجاء فی الاضحیۃ عن المیت ح۱۴۹۵)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)
زبیر علی زئی 
ج 2، ص 182

محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/13564

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۹ 

سوال 
کیا یہ بات صحیح ہے کہ مسلمان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے قربانی کرسکتا ہے؟ اس مسئلے میں اہل علم کی کیا رائے ہے؟
نیز درج ذیل حدیث کی صحت کیسی ہے؟ اور اس کا جواب کیا  ہو گا؟ حنش سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ: "وہ دو مینڈھے قربانی کیا کرتے تھے، ایک ان میں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ہوتا اور دوسرا اپنی طرف سے، تو آپ سے اس بابت بات کی گئی تو کہا: مجھے اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا تھا، میں اس عمل کو کبھی ترک نہیں کروں گا" ترمذی، ابو داود 

جواب 
الحمد للہ:
کسی کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے قربانی کرے؛ کیونکہ عبادات میں اصل ممانعت ہے  اور عبادات توقیفی ہوتی ہیں، تو جب تک عبادت کی دلیل نہیں مل جاتی عبادت نہیں کی جائے گی۔

اور سائل نے جو حدیث ذکر کی ہے اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے البانی رحمہ اللہ سمیت دیگر  اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے، جیسے کہ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔

امام ترمذی ( 1495) کہتے ہیں:  ہمیں محمد بن عبید محاربی کوفی نے بیان کیا، انہیں شریک نے ابو خنساء سے  وہ الحکم سے اور وہ  حنش  سے کہ: " سیدنا علی رضی اللہ عنہ دو مینڈھے قربانی کیا کرتے تھے، ایک ان میں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ہوتا اور دوسرا اپنی طرف سے، تو آپ سے اس بابت بات کی گئی تو کہا: مجھے اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا تھا، میں اس عمل کو کبھی ترک نہیں کروں گا"

امام ترمذی نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ:
"یہ حدیث غریب ہے، اور ہمیں یہ روایت شریک  کے علاوہ کہیں سے نہیں ملی"۔۔۔ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ: "اسے احمد: (1219) اور ابو داود: (2790) میں شریک بن عبد اللہ القاضی سے ہی  روایت کیا ہے، لیکن اس میں حُکم کی بجائے وصیت کا ذکر ہے"

ہمیں حدیث بیان کی عثمان بن ابی شیبہ نے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں شریک نے ابو الحسناء  کے واسطے سے الحکم سے بیان کی اور وہ حنش سے بیان کرتے ہیں کہ: " میں نے علی کو دو مینڈھے عید کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے انہیں کہا: یہ کس لیے؟ تو انہوں نے کہا کہ : بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں تو میں یہ ان کی طرف سے کر رہا ہوں"

اس حدیث کی شرح میں مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"منذری رحمہ اللہ کہتے ہیں: حنش  ؛ ابو معتمر کنانی صنعانی ہے، اس کے بارے میں متعدد اہل علم نے کلام کیا ہے، ابن حبان بستی کہتے ہیں:  حنش کو احادیث میں بہت زیادہ وہم لگتا تھا، انہوں نے علی سے ایسی احادیث بیان کی ہیں جو ثقہ راویوں کی احادیث سے مطابقت نہیں رکھتیں تو اسی لیے اس کا شمار ان لوگوں میں ہونے لگا جن کی احادیث حجت نہیں ہوتیں۔

اور شریک ، ابن عبد اللہ قاضی ہیں، ان پر بھی کلام ہے، تاہم ان کی روایت کو امام مسلم نے متابعات میں نقل کیا ہے۔ امام منذری کی گفتگو ختم ہوئی

میں [مبارکپوری]کہتا ہوں کہ : ابو الحسناء جو کہ عبد اللہ کا  استاد ہے، مجہول ہے، جیسے کہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے تو اس لیے یہ حدیث ضعیف ہے" ختم شد
" تحفة الأحوذي "

اور شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"میں یہ کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے؛ کیونکہ شریک بن عبد اللہ القاضی کا حافظہ خراب تھا۔

اسی طرح حنش  بن معتمر صنعانی کو بھی جمہور علمائے کرام ضعیف قرار دیتے ہیں۔

اسی طرح ابو الحسناء بھی مجہول ہے۔" ختم شد
"ضعيف أبي داود"

اسی طرح شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ نے بھی  اس حدیث کو شرح سنن ابو داود میں ضعیف قرار دیا ہے اور اس کی وجہ سابقہ علتوں کو بنایا ہے۔

چنانچہ جب حدیث کا ضعف ثابت ہو گیا تو  اصل حکم پر عمل کرنا متعین ہو جائے گا اور وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔

چنانچہ اس بارے میں شیخ عبد المحسن العباد کہتے ہیں:
"انسان جس وقت قربانی کرتا ہے تو وہ اس کی اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی ہوتی ہے، اسی طرح انسان اپنے فوت شدگان یا بقید حیات اہل خانہ کو بھی اپنی قربانی میں شامل کر سکتا ہے، اور اگر کوئی شخص یہ وصیت کر کے جائے کہ اس کی طرف سے قربانی کرنی ہے تو اس کی طرف سے قربانی کرے۔

لیکن میت کی طرف سے الگ سے قربانی کی جائے  تو اس کے بارے میں ہمیں کوئی دلیل معلوم نہیں ہے ، تاہم اگر کوئی اپنی قربانی میں اپنے اہل خانہ، رشتہ داروں، فوت شدگان اور بقید حیات افراد کو شامل کر لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، احادیث میں اس کے دلائل موجود ہیں، تو ایسی صورت میں فوت شدگان قربانی کرنے والے کے ماتحت ہو کر قربانی میں شامل ہوں گے۔ تو فوت شدگان کی طرف سے الگ سے قربانی کرنا ، یا ان کی وصیت کے بغیر ان کی طرف سے قربانی کرنا ؛ اس کے بارے میں مجھے کوئی دلیل معلوم نہیں ہے۔

نیز جو حدیث ابو داود نے علی رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے کہ وہ دو مینڈھے قربانی کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اپنی طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیا تھا، تو یہ حدیث ثابت نہیں ہے؛ کیونکہ اس حدیث کی سند میں مجہول راوی ہے اور اسی طرح مجہول راوی کے علاوہ متکلم فیہ راوی بھی ہے۔

 اور اگر کوئی انسان چاہتا ہے کہ اس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درجات میں بلندی ہو ، آپ کا مقام مزید بڑھ جائے تو ایسے شخص کو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنی چاہییں؛ کیونکہ اللہ تعالی ہر شخص کی نیکی کے بدلے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اتنا ہی ثواب عطا کرتا ہے، جتنا نیکی کرنے والے کو ملتا ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے  ہی ان نیکیوں کے بارے میں لوگوں کو بتلایا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص کسی نیکی کے کام کی رہنمائی کرے تو نیکی کرنے والے کے برابر رہنمائی کرنے والے کو بھی ثواب ملتا ہے۔۔۔)" ختم شد
ماخوذ از : شرح سنن ابو داود

اور اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیں ، تو پھر یہ حدیث وصیت کرنے کی صورت کے ساتھ مختص ہو گی، جیسے کہ ابو داود کی روایت میں وصیت کا صریح لفظوں میں ذکر موجود ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کو بھی اپنی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت نہیں فرمائی، تو اس لیے حدیث کی نص کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے، اس سے تجاوز ممکن نہیں ہے۔

میت کی طرف سے قربانی کرنے کا حکم جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (36596) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم. 

https://islamqa.info/ur/192721 

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۰ 

سوال 
میت کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے؟ 
دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرتے ہیں اور کچھ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرتے ہیں کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

الجواب بعون الوہاب 
میت کی طرف سے قربانی کرنے کی کوئی خاص دلیل موجود نہیں۔ بالعموم مندرجہ ذیل روایات پیش کی جاتی ہیں جو کہ پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔  

۱۔ ابو رافع ﷜کی روایت کہ: " ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين موجيين خصيين ، فقال : " أحدهما عمن شهد بالتوحيد ، وله بالبلاغ ، والآخر عنه وعن أهل بيته " [[مسند احمد (26649)، 391/6، 392 (23348)، مجمع الزوائد22,21/4، سنن البیہقی268,259/9، معجم الکبیر للطبرانی 311/1 (920)، 312/1 (921)، شعب الایمان474/5، المجروحین4/2باب العین(522)، مسند البزار319/9]] رسول اللہ ﷺ نےدوموٹے تازے خصی مینڈھوں کی قربانی کی ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنھوں نے اللہ توحید اور آپﷺ کے لیے پیغام پہنچانے کی گواہی دی اور دوسرا اپنی اور اپنی آل کی طرف سے۔ اس روایت کی تمام ترا سانید عبداللہ بن محمد بن عقیل پر جمع ہوجاتی ہیں جو کہ لین الحدیث ہے اس کے علاوہ مسند احمد والی ایک سند میں زہیر بن محمد سوء الحفظ ہے اور ایک سند میں شریک بن عبداللہ بن ابی شریک کثرت خطا اور سوء حفظ کا شکار ہے۔ لہٰذا یہ روایت قابل احتجاج نہیں ہے۔  

۲۔ اسی طرح کی ایک اور روایت حذیفہ بن اسید ﷜سے مروی ہے جسے حاکم نے مستدرک 686/3 (6521)میں اور علامہ ہیثمی مجمع الزوائد 23/4میں ذکر کیاہے ۔ اس کی سند میں یحییٰ بن نصر بن حاجب نامی راوی ضعیف ہے۔  

۳۔ حضرت علی ﷜کے بارہ میں روایت ہے کہ : " أنه كان يضحي بكبشين أحدهما عن النبي صلى الله عليه وسلم ، والآخر عن نفسه ، فقيل له : فقال : " " أمرني به " " - يعني النبي صلى الله عليه وسلم - فلا أدعه أبدا" [[جامع الترمذي ، أبواب الأضاحي ،باب ما جاء في الأضحية عن الميت، حديث:1495، سنن أبی داؤد ، کتاب الضحایا، باب الأضحیۃ عن المیت، حدیث: 279]] وہ دو مینڈھے ذبح کیا کرتے تھے ، ایک نبیﷺ کی طرف سے اوردوسرا اپنی طرف سے ، جب ان سے پوچھا گیا تو کہنے لگےکہ: مجھے اس کا حکم نبیﷺ نے دیا تھا لہٰذا میں یہ کام کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اس کی سند میں شریک بن عبداللہ بن شریک کثیر الخطاء ہونے کی وجہ سے ضعیف اور اس کا شیخ ابوالحسناء حسن کوفی مجہول ہے ۔ لہٰذا یہ روایت بھی قابل احتجاج نہیں ہے۔ 

لہذا میت کی طرف سے قربانی کرنا درست نہیں ۔ ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم 

وکتبہ 
 أبو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

https://www.rafiqtahir.com/ur/play-swal-515.html 

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۱ 

سوال 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 
کیا یہ جائز ہے کہ قربانی کا ثواب فوت شدہ کو ہدیہ کر دیا جائے؟ 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی، عیدالاضحیٰ یا اس کے تین دن بعد جانور ذبح کر کے یا اونٹ نحر کر کے تقرب الہی حاصل کرنے کا نام ہے۔ زندہ انسان کے لیے یہ سنت ہے کہ وہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کیا کرتے تھے۔

جب کوئی انسان اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرے اور یہ نیت کرے کہ اس کا اجروثواب اس کے اور اس کے زندہ ومردہ اہل خانہ کے لیے ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، باقی رہی میت کے لیے خاص قربانی تو اس کی دو حالتیں ہیں:

(1)میت نے اس کی وصیت کی ہو تو اس کی وصیت پر عمل کے پیش نظر اس کی طرف سے قربانی کی جائے گی کہ وصیت کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿فَمَن بَدَّلَهُ بَعدَ ما سَمِعَهُ فَإِنَّما إِثمُهُ عَلَى الَّذينَ يُبَدِّلونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ ﴿١٨١﴾فَمَن خافَ مِن موصٍ جَنَفًا أَو إِثمًا فَأَصلَحَ بَينَهُم فَلا إِثمَ عَلَيهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ‌ رَ‌حيمٌ ﴿١٨٢﴾... سورة البقرة
"جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے تو اس کے (بدلنے) کا گناہ انہیں لوگوں پر ہے جو اس کو بدلیں اور بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے، جاننے والا ہے۔ اگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف سے (کسی وارث کی) طرف داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو اگر وہ (وصیت کو بدل کر) وارثوں میں صلح کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔"

یہ دونوں آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ میت کی وصیت پر عمل کیا جائے گا بشرطیکہ اس میں گناہ یا کسی کی حلق تلفی نہ ہو۔

(2)میت نے وصیت تو نہ کی ہو بلکہ از خود اس کی طرف سے قربانی کی جائے، اس کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ یہ مشروع ہے یا غیر مشروع! بعض نے اسے زندہ کی طرف سے قربانی اور مردہ کی طرف سے صدقہ کی طرح مشروع قرار دیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ غیر مشروع ہے کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ آپ کی حیات میں آپ کے اعزہ و اقارب اور ازواج مطہرات میں سے کئی ایک کا انتقال ہوا لیکن یہ ثابت نہیں کہ آپ نے ان میں سے کسی کی طرف سے بطور خاص قربانی کی ہو۔ اسی طرح آپ کی حیات پاک ہی میں آپ کی تین صاجزادیوں اور تین صاجزادوں کا انتقال ہوا لیکن یہ قطعا ثابت نہیں ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی کی طرف سے بطور خاص قربانی کی ہو۔ آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شہید ہوئے اور آپ نے ان کی طرف سے قربانی نہیں کی اور اسی طرح آپ کی حیات ہی میں آپ کی دوبیویوں حضرت خدیجہ اور زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہن کا انتقال ہوا اور آپ نے ان کی طرف سے بھی کبھی کوئی قربانی نہیں کی تھی۔

اس سے معلوم ہوا کہ اگر یہ امر مشروع ہوتا تو آپ اسے ضرور سر انجام دیتے، لیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ کا ارادہ میت کی طرف سے قربانی کرنے کا ہے تو اپنی طرف سے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے قربانی کیجئے اور نیت یہ کیجئے کہ یہ آپ کی اور آپ کے زندہ اور مردہ قریبی رشتہ داروں کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم بے حد وسیع ہے۔ (امید ہے وہ ان سب کو اپنے فضل و کرم سے سرفراز فرما دے گا)۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب 

محدث فتوی
فتوی کمیٹی

https://urdufatwa.com/view/1/9237/

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۲ 

سوال 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کسی فوت شدہ کی طرف سے قربانی کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے، اگر قربانی کردی جائے تو کیا اہل خانہ اس کا گوشت استعمال نہیں کرسکتے،نیز قربانی کےلئے صرف دانتہ جانور ہوناچاہیے،ا س کے علاوہ چوگا یا چھگا جانور ذبح نہیں کیا جاسکتا ، کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں؟ 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زندہ کی طرف سے غائبانہ طورپر قربانی کرنے کا حدیث سے ثبوت ملتا ہے، جیسا کہ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے کی قربانی دی تھی، جبکہ انہیں اس بات کا علم نہیں تھا۔ (صحیح البخاری ،الحج:۱۷۰۹)

لیکن فوت شدہ کی طرف سے مستقل حیثیت سے انفرادی طور پر قربانی دینےکے متعلق کوئی صحیح اور صریح حدیث  ہمیں نہیں مل سکی۔ اگرچہ امام ابوداؤد اور امام ترمذی نے میت کی طرف سے قربانی  کا عنوان قائم کرکے حضرت علیؓ سےمروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے۔ اس کےمتعلق سوال کرنے پر آپ نے بتا یا کہ رسول اللہﷺ نے اپنے بعد مجھے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (ابوداؤد،الضحایا :۲۷۹۰)

ترمذی کےالفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےمجھے اپنے بعد قربانی کرنے کا حکم دیا تھا۔ (ترمذی ، الاضاحی:۱۴۹۵)

لیکن محدثین کرام نے تین خرابیوں کی وجہ سے اس حدیث کو ناقابل حجت قرار دیا ہے۔ جو حسب ذیل ہیں:

(۱)امام ترمذی اسے بیان کرنے کےبعد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے کہ ہم اسے شریک کےواسطہ  کےعلاوہ اور کسی واسطہ سے نہیں پہچانتے اور شریک بن عبداللہ کاحافظہ متغیر ہوگیا  تھا، جیسا کہ اس کےمتعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:‘‘سچا ہے لیکن بکثرت غلطیاں کرنے والا،نیز جب سے اسے کوفہ کا قاضی بنایا گیا اس کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا۔’’(تقریب التہذیب،ص:۱۴۵)

(۲)شریک راوی اپنے شیخ ابوالحسناء سے بیا ن کرتا ہے کہ اس کےمتعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ مجہول راوی ہے اور درجہ سابع سے تعلق رکھتا ہے۔ (تقریب،ص:۴۰۱)

(۳)حضرت علیؓ سے بیان کرنے والا ایک حنش نامی راوی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ سچا ہے،لیکن اس کےبےشمار اوہام ہیں اور مرسل روایات بیان کرتا ہے۔ (تقریب :ص۸۵)

اس کےمتعلق امام ابن حبان لکھتے ہیں کہ یہ کثیرالوہم ہے اورحضرت علی ؓ  سے بعض روایات کرنے میں متفرد ہے۔اس بنا پر قابل حجت نہیں ہے۔ (عون المعبود،ص:۵۱،ج ۳)

ان تصریحات سےمعلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سخت ضعیف  ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں۔ اگر اس کی صحت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو وصیت کی صورت میں میت کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے۔ وصیت کےبغیر قربانی کرنا محل نظر ہے۔ اس سلسلہ میں ایک روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مینڈھا ذبح کرتے وقت فرمایا کہ ‘‘ یہ محمد ﷺ اور اس کی امت کی طرف سے ہے۔’’ (ابو داؤد،الضحایا:۲۷۹۶)

ایک روایت میں ہے کہ ‘‘ یہ میری طرف سے اور میری امت کے ہر شخص کی طرف سے ہے جو قربانی نہ کرسکا ہو۔’’

ایک روایت می ہے کہ آپ نے دو جانور ذبح کئے اور فرمایا کہ ‘‘ایک میری امت کےہر شخص کےلئے ہے جس نے اللہ کےلئے توحید اور میرے لئے شریعت پہنچا دینے کی گواہی دی اور دوسرا محمدﷺ اور اس کی آل کی طرف سے ہے۔’’(ابن ماجہ ،الاضاحی:۳۱۲۲)

مذکورہ روایات بھی محدثین کرام کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں ۔ اس کےعلاوہ ان سے مراد خاص فوت شدہ  ہی نہیں بلکہ مرنے والے اور زندہ ملے جلے مراد ہیں، خاص انفرادی طور پر اکیلی میت کی طرف سے قربانی کرنے کی کوئی صحیح حدیث  ہمیں نہیں مل سکی۔

علامہ البانی ؒ حافظ ابن حجر ؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے امت کے نادار افراد کی طرف سے جو قربانی دی ہے، وہ آپ کا خاصہ ہے ، اس لئے کسی اور کےلئے جائز نہیں ہے کہ وہ امت کےنادار افراد کی طرف سے قربانی دے اور نہ ہی اس پر قیاس کرکے کسی دوسرے کی طرف سے نماز،روزہ  ادا کیا جاسکتاہے اور نہ ہی قرآن کریم کی تلاوت کی جاسکتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے اس کا ثبوت نہیں ملتا۔  (ارواءالغلیل،ص:۳۵۴،ج۳)

ہاںمیت کی طرف سے صدقہ کرنا درست ہے ، جیسا کہ حضرت سعد ؓ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ صدقہ خواہ جانور کا ہو یا کسی اور چیز کا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس قسم کے صدقہ سے خود بھی کھایا جاسکتاہے ، لیکن غربا اور مساکین کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جیسا کہ حضرت ابو رافع ؓ فرماتے  ہیں کہ رسول اللہﷺ جب وہ جانور بطور قربانی ذبح کرتے تو ان سے مساکین کو کھلاتے اور خود بھی کھاتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس سے محروم نہ کرتے۔ (مسند امام احمد،ص ۳۹۱،ج ۶)

اس سلسلہ میں صحیح مسلم کی حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے قربانی کا ایک جانور ذبح کیا اور فرمایا :‘‘اے اللہ ! محمدﷺ،ا سکی آل اور اس کی امت کی طرف سے قبول کر۔’’  (صحیح مسلم،الاضاحی:۱۹۶۷)

اس حدیث سے  یہ ثابت ہوتا کہ رسول اللہﷺ نے ذبح کرتے وقت دعافرمائی ‘‘ کہ اے اللہ!میری قربانی بھی قبول فرما اور میری آل و اولاد کی طرف سے قبول کر بلکہ ساری امت کی قربانی کو قبول فرما۔ جانور ذبح کرتے وقت یہ نہیں فرمایا کہ یہ جانور میری طرف سے ، میری آل کی طرف سے اور میری امت کی طرف سے ، یعنی اس روایت میں دوسروں کی طرف سے کسی قربانی کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ (واللہ اعلم )

سوال کے دوسرے حصے کےمتعلق ہماری گزارشات یہ ہیں کہ اس حدیث میں قربانی کےجانور کی کم ازکم حالت کو بیان کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ دودانتا سے اوپر جو جانور چوگا یا چھگا ہے اس کی قربانی جائزنہیں ۔ اس کی  متعدد مثالیں احادیث میں ملتی ہیں جن  میں کم ازکم نصاب کو بیان کیا گیا ہے، مثلاً :چوری کےمتعلق فرمایا کہ ‘‘ دس درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا یا پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں ، اسی طرح پانچ و سق سے کم اجناس میں صدقہ نہیں یا پانچ اونٹوں  سےکم میں زکوٰۃ نہیں ۔’’ان روایات میں چوری یا زکوٰۃ کا کم ازکم نصاب بیان ہوا ہے، اسی طرح حدیث میں ہے کہ قربانی میں دودانتا جانور ذبح کرو، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے زیادہ عمر والاجانور قربانی میں نہیں دیا جاسکتا ،جیسا کہ سوال میں تاثر دیا گیا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب 

فتاوی اصحاب الحدیث 
جلد:2 صفحہ:373 
https://urdufatwa.com/view/1/12355/

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۳ 

سوال: 
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، کیا عید الاضحیٰ کے موقعہ پر خاندان کے فوت شدہ بزرگوں کی طرف سے ان کی اولاد قربانی کر سکتی ہے؟ جب کہ گھر کی طرف سے ایک قربانی بھی ساتھ کی جا رہی ہو؟ مختلف کتب میں مختلف جواب ملا ہے۔ ازراہ کرم اگر کچھ تفصیل سے مسئلہ کو اور

جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس مسئلہ میں اہل الحدیث اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض اہل علم مثلا مولانا عبد المنان نورپوری اور حافظ عبد الستار حماد حفظہما اللہ نے اپنے فتاوی میں اس کو جائز قرار نہیں دیا ہے اور اس کی بنیاد اس کا بنایا ہے کہ یہ عمل سنت سے ثابت نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی میت کی طرف سے قربانی دی ہو یعنی اس کے ایصال ثواب کے لیے قربانی دی ہو۔ اور سنن ترمذی میں جو یہ روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کی وفات کے بعد بھی قربانی دیا کرتے تھے، تو یہ روایت ضعیف ہے۔ اور جہاں تک اس روایت کا معاملہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی طرف سے قربانی دی تو اس کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ یہ قربانی نہیں تھی بلکہ امت کے حق میں دعا تھی جبکہ قربانی صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہی کی تھی یا اگر یہ قربانی بھی تھی تو یہ حاضر امت کی طرف سے تھی۔ یہ اہل علم اس کے قائل ہیں کہ حاضر یا زندہ کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی۔
اہل علم کی ایک دوسری جماعت میت کی طرف سے قربانی کے جواز کی قائل ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یا شیخ بن باز رحمہ اللہ وغیرہما کا موقف ہے۔ ان کے موقف کی بنیاد قیاس و حکمت دین ہے۔ ان اہل علم کا کہنا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صدقہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اور قربانی بھی صدقہ ہی کی ایک قسم ہے۔ پس جب میت کی طرف سے عام صدقہ جاریہ یا نفلی صدقہ وغیرہ کیا جا سکتا ہے تو اس کی طرف سے قربانی بھی کی جا سکتی ہے۔
اس کی ایک دلیل یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ بالاتفاق میت کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے اور حج تمتع وغیرہ میں قربانی بھی ہوتی ہے لہذا ثابت ہوتا ہے کہ میت کو قربانی کا ثواب پہنچتا ہے۔ ریہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو صدقہ آپ زندہ کے حق میں کر سکتے ہیں تو وہ صدقہ تو میت کے لیے بالاولی جائز ہونا چاہیے کیونکہ وہ اس کی زیادہ محتاج ہے۔ پس قربانی اگر زندہ کے لیے جائز ہے تو میت کے لیے بالاولی جائز ہونی چاہیے۔
مجھے ذاتی طور تو یہ دلیل کچھ زیادہ اپیل نہیں کرتی ہے کہ یہ عمل سنت میں نہیں ہے۔ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ ظاہر سنت میں نہیں ہے تو شریعت کا ایک بڑا حصہ ظاہر سنت میں موجود نہیں ہے۔ پس سنت میں موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمل سنت سے ظاہرا، یا قیاسا یا مصلحتا وغیرہ ثابت ہو رہا ہو۔ مثلا قیاس یا مصلحت وغیرہ کے پیش نظر ایک حکم سنت سے ماخوذ کیا جا رہا ہے تو وہ بھی سنت ہی میں موجود ہوتا ہے اگرچہ بعض اہل علم اس کو قواعد عامہ کے ذریعے اخذ کر لیتے ہیں اور بعض ظاہر نصوص پر زیادہ توجہ کی وجہ سے اس دائرہ سے باہر نہیں نکل پاتے ہیں۔ یہ دونوں مزاج صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں موجود تھے اور وہاں سے ہی منتقل ہوئے ہیں جیسا کہ غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ٍ صحابہ کو حکم دیا:
لا یصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ
تو میں کوئی ایک بھی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ کی بستیوں کے قریب جا کر۔
اب بنو قریظہ کی بستیاں مدینہ سے کچھ فاصلے پر عام شہر سے باہر تھیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم متفرق چھوٹی بڑی ٹولیوں کی صورت میں ان بستیوں کا گھیراو کرنے کے لیے ظہر کے بعد وقتا فوقتا نکلے۔ بعض صحابہ کو عصر کی نماز نے رستے میں پا لیا تو ان میں اختلاف ہو گیا۔ بعض نے عصر کی نماز رستے ہی میں پڑھ لی اور بعض نے کہا کہ ہم اس کو بنو قریظہ کی بستیوں میں جا کر ادا کریں گے، چاہے مغرب کے بعد پہنچیں اور ایسا ہی ہوا کہ بعض نے مغرب کے بعد بنو قریظہ کی بستیوں میں پہنچ کر اس نماز عصر کو ادا کیا۔
اب جن صحابہ نے ظاہر الفاظ کو مد نظر رکھا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ تھے، ان الفاظ کی حکمت کیا تھی، ہمیں نہیں معلوم، ہمیں تو ظاہر الفاظ کی پیروی کرنی ہے اور وہ یہ ہیں کہ عصر کی نماز بنو قریظہ کی بستیوں میں جا کر ادا کرو۔ دوسری جماعت نے یہ کہا کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا تھا لیکن آپ کا مقصود یہ تھا کہ جلدی نکلو اور عصر سے پہلے وہاں پہنچ جاو تا کہ عصر کی نماز وہاں جا کر ادا کرو، نہ کہ آپ کا مقصود یہ تھا کہ اگر تاخیر کے سبب رستے میں عصر ہو جائے تو پھر بھی وہاں ہی جا کر عصر ادا کرو، چاہے مغرب کے بعد ہی ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں کو برقرار رکھا۔
یہ دو مزاج اور سوچنے کے انداز ہیں جنہیں ہم ختم نہیں کر سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر میں اس وقت موجود ہوتا اور وہاں آدھی رات کے بعد پہنچتا تو عصر کی نماز بھی آدھی رات کے بعد ہی ادا کرتا۔ ان مزاجوں کو ہم ختم نہیں کر سکتے ہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ کا جو مزاج ہے، آپ اس مزاج کے حامل اہل علم کو تلاش کریں اور ان سے استفادہ کریں تو آپ کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ میں ذاتی طور دوسری جماعت کے مزاج کے حامل افراد میں سے ہوں اور اس مزاج کے حامل افراد میں میں سب سے زیادہ اہل اور قابل شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو پایا ہے۔ یہ مزاج یا سوچنے کے انداز کی مناسبت بھی کیا چیز ہے کہ پانچ یا چھ دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے کوئی مسئلہ درپیش آیا اور میں نے کہا کہ شیخ الاسلام کی رائے اس مسئلہ میں یہ ہو گی، اور بعد میں اس کا مطالعہ کیا تو وہ وہی رائے تھی۔ اسے مزاج کی مناسبت یا سوچنے کے انداز کی مشابہت کہتے ہیں۔ پس اس مسئلہ میں بھی دراصل مزاجوں اور سوچنے کے اندازوں کا فرق ہے۔ اس کے علاوہ بھی اہل علم میں کچھ اور علمی مزاج اور مناسبتیں پائی جاتی ہیں، کسی مناسب وقت میں ان کا بھی تذکرہ کروں گا۔ اہل الحدیث میں، مزاجوں کی مناسبت سے جو یہ فتاوی کا فرق آ جاتا ہے تو ذاتی طور ان میں حساسیت محسوس نہیں کرتا ہوں۔ بس اپنے ہم مزاج اہل علم اور دوسروں کی رائے کا مطالعہ کر لیتا ہوں اور عموما ہی ہم مزاج اہل علم کی رائے پر ہی دل مطمئن ہو جاتا ہے۔
زیر بحث مسئلہ میں راقم کی ذاتی رائے یہی ہے کہ اس قسم کی قربانی کی جا سکتی ہے۔  
واللہ اعلم بالصواب 

https://urdufatwa.com/view/1/430/

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۴ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میت کی طرف سے وارث قربانی کر سکتے ہیں یا نہیں جو کہتے ہیں کر سکتے ہیں تو دلیل دیتے ہیں کہ حضرت علی﷜نے کی ہے دوسری دلیل ہے کہ آپﷺنے امت کی طرف سے بھی کی ہے۔

جو کہتے ہیں کہ نہیں کر سکتے تو وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ آپﷺنے فرمایا جب انسان مر جائے تو اس کے عمل منقطع ہو جاتے ہیں ان احادیث کی تطبیق تحریر فرمادیں؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

زندہ کی طرف سے قربانی کر سکتے ہیں رسول اللہﷺنے حج کے موقع پر اپنی بیویوں کی طرف سے گائے ذبح فرمائی تھی میت کی طرف سے قربانی کرنے کے متعلق مجھے کوئی خاص صحیح حدیث معلوم نہیں ۔علی ﷜ کی روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں شریک کثیر الغلط ہیں اور ان کے شیخ ابوالحسناء مجہول ہیں حدیث

«إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُه إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَةٍ»كتاب العلم-مشكوة-جلد اول- الفصل الاول
’’جب آدمی مر جاتا ہے اس کے عمل کا ثواب موقوف ہو جاتا ہے مگر تین عملوں کا ثواب باقی رہتا ہے‘‘ سے میت کی طرف سے اس کے وارثوں کے قربانی نہ کرنے یا نہ ہونے پر استدلال درست نہیں کیونکہ اس حدیث میں فوت ہونے والے کے اپنے عمل کے منقطع ہونے کا ذکر ہے۔

وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
قربانی اور عقیقہ کے مسائل ج1ص 439
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/2058/

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۵ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میت کی طرف سے کوئی چیز پکا کر خیرات کرنا ۔ میت کی طرف سے قربانی کرنا یا والدین کی طرف سے اولاد کا قربانی کرنا کیسا ہے؟
 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کی طرف سے صدقہ درست ہے وہ چیز پکا کر کیا جائے یا کچی چیز کا البتہ رائج الوقت قل ، تیجا ، ساتواں ، دسواں ، چالیسواں ، اور دیگر ختم کتاب وسنت میں کہیں وارد نہیں ہوئے ۔

میت کی طرف سے قربانی کسی صحیح صریح نص میں نہیں آئی البتہ زندہ کی طرف سے قربانی کرنا حدیث سے ثابت ہے۔

وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
جنازے کے مسائل ج1ص 263
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/1816/

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۶ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا میت کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے ؟ اس سلسلے میں مسلم شریف کی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ آپ نے اپنے اہل اور آل اور امت محمدیہ کی طرف سے قربانی کی۔ اور اس کے علاوہ سیدنا علی ﷜ کا عمل ظاہر کیا جاتا ہے کہ آپ نے دو دنبے ذبح کیے۔ صحابی یا تابعی کے پوچھنے پر آپ ﷜ نے فرمایا ایک میری طرف سے اور دوسرا رسول اللہﷺ کی طرف سے ہے۔ اس حدیث سے میت کی طرف سے قربانی کا جواز نکالنا کیسا ہے ؟ اس کے علاوہ خطبہ حجۃ الوداع سے اقتباس بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میری اگلی اور پچھلی امت کی طرف سے یہ قربانی پیش کر رہا ہوں۔ کیا حجۃ الوداع میں ایسے اقتباس ہیں ؟ اب مندرجہ بالا باتوں میں سائل کو کون سی راہ اختیار کرنی چاہیے؟ کیا آپﷺنے امت مسلمہ کو اس عمل کو جاری رکھنے کا حکم دیا ؟ کیا صحابہ﷢ کی جماعت کا یہ عمل رہا ہے ؟ کیا یہ آپﷺ کے لیے خاص ہے یا ہم بھی اس قربانی سے مستفید ہو سکتے ہیں ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیجئے؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

صحیح مسلم والی حدیث سے زندہ مراد ہیں پھر صحیح مسلم کے لفظ ہیں :

«وَأَخَذَ الْکَبْشَ فَأَضْجَعَهُ ، ثُمَّ ذَبَحَهُ ، ثُمَّ قَالَ: بِسْمِ اﷲِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ ، وَّآلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ، ثُمَّ ضَحَّی بِه»
’’اور آپﷺنے مینڈھا پکڑا اور اس کو لٹایا پھر اس کو ذبح کیا پھر فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ قبول فرما محمدﷺ کی طرف سے اور آل محمدﷺ کی طرف سے اور امۃ محمدیہﷺ کی طرف سے پھر قربانی کی ساتھ اس کے‘‘ اس میں یہ نہیں آیا ’’کہ آپ نے اپنے اہل اور آل اور امت محمدیہ کی طرف سے قربانی کی‘‘ اس میں تو ذبح کے بعد اپنی ، آل محمد اور امت محمدﷺ کی طرف سے قبولیت کی دعا کا تذکرہ ہے ۔

علی ﷜ کی اپنی اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دو دنبے قربانی کرنے والی روایات ثابت نہیں کیونکہ اس کی سند میں شریک نامی راوی کثرت خطا اور سوء حفظ کے باعث ضعیف ہیں اور ان کے شیخ ابوالحسناء مجہول ہیں ۔

رہا خطبہ حجۃ الوداع کا اقتباس ’’آپﷺنے فرمایا کہ میری اگلی اور پچھلی امت کی طرف سے یہ قربانی پیش کر رہا ہوں‘‘ تو وہ مجھے ابھی تک نہیں ملا۔

رہے لفظ

«اَللّٰهُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّأُمَّتِهِ‘‘ الخ اور لفظ ’’اَللّٰهُمَّ هٰذَا عَنِّی وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِیْ»
 تو وہ رسول اللہﷺسے ثابت نہیں۔

آپ کے باقی تین چار سوال میت کی طرف سے قربانی کے ثبوت پر مبنی ہیں تو جب ثبوت کا حال معلوم ہو گیا تو یہ تین چار سوال خود بخود ختم ہو گئے ۔

وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
قربانی اور عقیقہ کے مسائل ج1ص 438
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/2057/

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۷ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقہ میں میت کی طرف سے قربانی کے مسئلہ پر کافی لے دے ہو رہی ہے اس مسئلہ کی شرعی حیثیت واضح کریں اور وصیت غیر وصیت کا فرق بھی واضح کریں؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

کافی جستجو کی مگر اس موضوع پر کوئی واضح نص صریح قرآن وحدیث سے مجھے نہیں ملی علی بن ابی طالب t کی وصیت والی روایت کمزور ہے باقی دور کے استدلال واستنباط ہیں البتہ زندہ کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے اگر یہ قاعدہ ثابت ہو جائے کہ جو چیز زندہ کی طرف سے کی جا سکتی ہے مثلاً صدقہ اور قرض وہ میت کی طرف سے بھی کی جا سکتی ہے تو پھربات بن سکتی ہے مگر اس قاعدہ کے متعلق بھی مجھے ابھی انشراح صدر نہیں مزید غور فرما لیں۔

وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
قربانی اور عقیقہ کے مسائل ج1ص 439
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/2059/ 

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۸ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے یا نہیں؟       (ظفر اقبال ، نارووال)

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زندہ اگر صاحب استطاعت ہے تو اس پر قربانی فرض ہے جبکہ میت مکلف نہیں ، پھر میت کی طرف سے قربانی کی کوئی خاص دلیل بھی موجود نہیں چنانچہ محدث مبارکپوری نے لکھا ہے اکیلی میت کی طرف سے برسبیل انفراد قربانی کی کوئی صحیح مرفوع حدیث مجھے نہیں ملی ، دیکھئے : مرعاة المفاتیح اور تحفة الاحوذی ابواب الاضاحی باب فی الاضحیة بکبشین 

رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت والی روایت پیش کی جاتی ہے مگر وہ کمزور ہے ۔ اس کی سند میں شریک بن عبداللہ نخعی بوجہ کثرت غلط اور ان کے شیخ ابو الحسناء بوجہ جہالت کمزور ہیں ہاں میت کی طرف سے صدقہ درست ہے خواہ جانور کا ہی ہو۔            ۲۰؍۱۲؍۱۴۲۲ھ

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل 
جلد 02 ص 654 
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/5028/ 

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۹ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قربانی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا میت کی طرف سے بھی قربانی کرنا جائز ہے؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اکثر علماء کے قول کے مطابق قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قربانی کی اور اپنی امت کو بھی قربانی کی ترغیب دی۔ قربانی دراصل زندہ انسان سے مطلوب ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرے، لیکن وہ اپنی قربانی کے ثواب میں زندہ اور مردہ انسانوں میں سے جس کو چاہے شریک کر سکتا ہے۔

میت کی طرف سے قربانی کے بارے میں گزارش یہ ہے کہ میت نے اگر اپنے ثلث مال میں سے اس کی وصیت کی ہو یا اپنے وقف مال کے بارے میں یہ وصیت کی ہو کہ اس سے اس کی طرف سے قربانی کی جائے تو وارثوں کے لیے یہ واجب ہے کہ اس کی وصیت اور وقف کو اس کی خواہش کے مطابق عملی جامہ پہنائیں اور اگر وصیت و وقف کی صورت نہ ہو اور کوئی انسان اپنے ماں، باپ یا کسی اور کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو یہ ایک اچھا عمل ہے، اسے میت کی طرف سے صدقہ شمار کیا جائے گا اور اہل سنت والجماعت کے قول کے مطابق میت کی طرف سے صدقہ مشروع ہے۔ قربانی کے جانور کی قیمت کو جانور ذبح کرنے سے افضل قرار دیتے ہوئے صدقہ کرنے کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر وصیت یا وقف میں قربانی ہی کا ذکر ہو تو پھر وکیل کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ قربانی کے بجائے قیمت کو صدقہ کر دے، اس صورت میں اسے قربانی ہی کرنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص ازخود کسی کی طرف سے صدقہ کر رہا ہو تو اس میں بہت وسعت ہے جس صورت کو وہ چاہے اختیار کر لے۔ ہر وہ زندہ مسلمان جسے استطاعت ہو اس کے لیے اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے اور قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
محدث فتوی
فتوی کمیٹی
https://urdufatwa.com/view/1/9235/ 

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲۰ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے، امید ہے آپ دلیل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے، نیز یہ فرمائیں گے کہ جانور کی قیمت صدقہ کر دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زندہ اور مردہ کی طرف سے قربانی مشروع ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک بکری کی اپنے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے قربانی دیا کرتے تھے، [1]حالانکہ آپ کے اہل بیت میں بعض فوت شدگان بھی تھے، مثلا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ کی دو صاجزادیاں حضرت رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا قربانی بھی ایک صدقہ ہے۔ لہذا یہ صدقہ اور قربت کے اعتبار سے دیگر صدقات کے مشابہہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے زندہ انسان کے لیے اس کی بہت تاکید معلوم ہوتی ہے نیز آپ کے اس ارشاد سے بھی ہے:

(من كان له ذبح يذبحه‘ فاذا اهل هلال ذي الحجة‘ فلا ياخذن من شعره ولا من اظفاره شيئا‘ حتي يضحي) (صحيح مسلم‘ الاضاحي‘ باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة...الخ‘ ح: 1977)
"جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔"

بعض فقہاء نے اس مسئلہ میں جو یہ ذکر کیا ہے کہ جو شخص کسی کی طرف سے قربانی کر رہا ہو تو وہ بھی اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے تو مجھے اس کی کوئی قابل اعتبار دلیل نہیں ملی کیونکہ اس حکم کا مخاطب صرف وہ انسان ہے جو اپنے مال سے قربانی کر رہا ہو، لہذا اس کے بیوی بچوں کو بال اور ناخن کاٹنے سے منع نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ قربانی کرنے والے نہیں ہیں بلکہ ان کی طرف سے ان کے گھر کے سربراہ نے قربانی کی ہے، لہذا اس ممانعت کا مخاطب بھی وہی ہے۔

قربانی کے جانور کو ذبح کرنا اس کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے کیونکہ اس میں سنت کا احیاء، اظہار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اسوہ حسنہ کی اتباع ہے۔ 

[1] جامع ترمذی، الاضاحی، باب ما جاء ان الشاة الواحدة تجزی عن اھل البیت، حدیث: 1505 وسنن ابن ماجہ، حدیث: 3147

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب 
محدث فتوی 
فتوی کمیٹی 
https://urdufatwa.com/view/1/9236/

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲۱ 

سوال
 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلا م آبا د سے محمد صدیق  لکھتے ہیں  کہ  میت  کی طرف  سے قر با نی  دینے  کی شر عی حیثیت  واضح  کر یں ؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زندہ  کی طرف سے غا ئبا نہ قر با نی  کر نا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت  ہے جیسا کہ آپ نے حجۃ الوداع کے مو قع پر اپنی  بیو یو ں  کی طرف  سے  گا ئے  ذبح  کی تھی۔(صحیح بخا ری :حدیث نمبر 5548)

میت کی طرف سے  قر با نی  دینے  کے متعلق  مجھے  کو ئی  صحیح  اور صریح  حدیث  نہیں مل سکی  البتہ  حضرت  علی  رضی ا للہ تعالیٰ عنہ   کے متعلق  مر وی ہے  کہ وہ جانورو ں  کی قر با نی  دیتے تھے  ایک  اپنی  طرف  سے  دوسر ی  رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے   اور فرما یا  کر تے تھے  کہ مجھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایسا  کر نے کا حکم  دیا تھا ۔( جا مع تر ندی )

لیکن یہ رو ایت   ضعیف  ہے کیو ں کہ اس کی سند  میں ایک  شر یک نا می راوی  کثر ت  خطا  اور سو ء حفظ  کے با عث  ضعیف  ہے اس کے علا وہ  اس کے شیخ  ابو  الحسنا ء  مجہو ل  ہی ان  دو علتو ں  کی وجہ  سے  یہ رو ا یت  قا بل  حجت نہیں  اگر  کسی  کو اس  کی صحت  پر اصرار ہو  تو وصیت  کر نے  کی صورت  میں میت  کی طرف  سے قر با نی  کی جا سکتی  ہے  اس کے علا وہ  دور  کے استدا لا ل  وا ستنباط  ہیں جن کے  متعلق  ہمیں  شر ح  صدر  نہیں ہے ۔(عمدۃ القا ری :4/562)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث
جلد:1 صفحہ:197
https://urdufatwa.com/view/1/11323/

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲۲ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہﷺ کی طرف سےقربانی دینے کی شرعی حیثیت کیاہے؟ آج کل بعض لوگ اس طرح کرتےہیں۔ کیا یہ جائز ہے؟ حضرات صحابہ کرام، ائمہ وفقہاء اور سلف صالحین سےاس کاثبوت ملتا ہے؟ ( عائشہ صدیقہ،برمنگھم )

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض اہل علم میت کی طرف سے قربانی کےقائل ہیں۔ ان میں عبداللہ بن مبارک شامل ہیں۔وہ کہتےہیں کہ مجھے یہ بات زیادہ پسند ہےکہ میت کی طرف سے صدقہ کردیا جائے لیکن قربانی نہ کی جائے اوراگرقربانی کی جائے توخود اس میں سے کچھ نہ کھایا جائے، سارے کاسارا صدقہ کردیا جائے۔

اس موضوع پرمزید بحث کرنےسے قبل مندرجہ ذیل دو حدیثوں کاجائزہ لیاجاتا ہے:

1۔ امام ترمذی حضرت علی﷜ کی یہ روایت لائے ہیں کہ دو مینڈھے ذبح کیا کرتے تھے۔ ایک اپنی طرف سے اورایک نبی کریم﷜ کی طرف سے۔ ان سےپوچھا گیا تو انہوں نےکہا:اس بات کاحکم مجھے نبیﷺ نےدیا ہے، اس لیے میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ ایسی ہی روایت امام ابوداؤد نےبھی سنن میں ذکر کی ہے۔ ( سنن ابی داؤد، الضحایا، حدیث: 2790، وجامع الترمذی ، الاضاحی، حدیث: 1495، )

امام حاکم  نےاپنی روایت میں دو دو مینڈھوں کاذکر کیاہے، یعنی اپنی طرف سے دو اور رسول اللہﷺ کی طرف سےدو۔

(مؤلف کویہاں تسامح ہوا ہے کیونکہ مستدرک حاکم میں بھی ایک ایک مینڈھا ذبح کرنےکاتذکرہ ہے۔(المستدرک للحاکم:5؍255، حدیث ، 7556) ہاں! مسند ابی یعلیٰ میں ایک روایت ہےکہ مجھے (علی﷜ کو) رسول اللہﷺ نےحکم دیا تھا کہ میں آپ کی طرف  دومینڈھے ذبح کیاکروں۔(مسند ابی یعلیٰ:1؍355) اس روایت کےراوی وہی ہیں جوسنن ابی داؤد اورسنن الترمذی میں اس حدیث کےراوی ہیں، اس لیے یہ حدیث بھی ضعیف ہے)۔

2۔ امام ترمذی اورامام ابوداؤد دونوں نےحضرت جابر﷜ سےیہ روایت بیان کی ہے:

حضرت جابر ﷜ بیان کرتےہیں کہ میں نےنبیﷺ کےساتھ عیدگاہ میں نماز پڑھی۔

آپ ﷺ خطبہ ختم کرنےکےبعد منبر سےاترے۔ آپ کےپاس ایک مینڈھا لایا گیا توآپ نےیہ کہتے ہوئے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا:

« بسم الله والله أكبر،هذا عنى وعمن لم يضح من أمتى »
’ اللہ کےنام کےساتھ اور اللہ سب سے بڑا ہے، یہ میری طرف سے ہےاور میری امت کے  ان تمام  لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔،،

میت کی طرف سے قربانی کےجواز کادارومدار ان دو احادیث پرہے۔ اب آئیے ملاحظہ کریں کہ محدثین نےان دونوں احادیث کی سند کےبارے میں کیا لکھا ہے؟

پہلی حدیث کی سند میں امام ترمذی کےبعد راویوں کی ترتیب اس طرح ہے:

محمد بن عبیدالمحاربی الکوفی: جوکہ امام ترمذی کےشیخ ہیں۔

شریک بن عبداللہ القاضی: فيه مقال وهو سى الحفظ،ان کےبارے میں اعتراض کیاگیا ہےاورحافظے کےاعتبار سے وہ اچھے نہیں ہیں۔امام مسلم ﷫ نےمتابعات یعنی حدیث کےشواہد کےطورپر ان کی حدیث کولیا ہے۔

ابوالحسناء :مجہول ہیں، حکم بن عتیبہ سےان کی روایت معروف نہیں ہے۔

حکم بن عتیبہ : ثقہ اور قابل اعتبار ہیں۔

حنش بن معتمر الکنانی: حضرت علی﷜ کےاصحاب میں سے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ حدیث ضعیف ہے۔

دوسری حدیث کی سند میں حضرت جابر﷜ سےروایت کرنےوالے مطلب بن عبداللہ بن حنطب ہیں۔ ان کےبارے میں کہاگیا کہ حضرت جابر سےان کاسماع ثابت نہیں۔ حافظ ابن حجر ان کےبارےمیں کہتےہیں کہ وہ کثرت سےتدلیس اورارسال کیا کرتےتھے۔ اس حدیث میں انہوں نےجابرسےسننےکی تصریح نہیں کی، ابوحاتم الرازی نےبھی ان کی عدم سماعت کاتذکرہ کیا ہے۔ ان کے بیٹے عبدالرحمٰن الرازی کہتےہیں:معلوم ہوتاہےکہ وہ جابر تک پہنچے ہوں۔’’يشبه أن يكون أدركه،،

گویا اس حدیث کی سند میں بھی اشتباہ ہے۔

شارح ترمذی محمد عبدالرحمٰن بن عبدالرحیم مبارکپوری تحفۃ الاحوزی میں لکھتےہیں:

میت کی طرف سے انفرادی طورپر قربانی کرنے کےبارےمیں مجھے ایک بھی صحیح مرفوع حدیث نہیں ملی۔

حضرت علی کی حدیث ضعیف ہے، اس لیے اگر کوئی شخص میت کی طرف سے انفرادی طورپر بھی قربانی کرےتو احتیاط سب کا سب صدقہ دے دے اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتےہیں۔( تحفۃ الاحوذی :5؍66 )

رسول اللہ ﷺ کی امت کی طرف سے قربانی کےبارےمیں لکھتےہیں:

’’ نبی ﷺ کااپنی امت کی طرف سے قربانی کرنااور اپنی قربانی میں ان کوشریک کرناآپﷺ کےساتھ خاص ہے، البتہ اپنی طرف سے اوراپنے اہل وعیال  کی طرف سے قربانی کرناآپ کےساتھ خاص نہیں ہےاورنہ منسوخ ہی ہے اوراس کی دلیل یہ ہےکہ صحابہ کرام ایک ایک قربانی اپنی طرف سےاور اپنےگھروالوں کی طرف سےکیا کرتےتھے۔کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں کہ وہ بھی امت کی جانب سےقربانی کیاکرتے ہوں اورانہیں اپنی قربانی میں شریک کرتےہوں۔،،

(تحفۃ الاحوذی : 5؍66)

آخر میں شیخ محمدبن عثیمین﷫ کی رائے پربات ختم کی جاتی ہے۔

میت کےلیے قربانی کی دو قسمیں ہیں:

1۔(پہلی ) یہ کہ شرعی قربانی ہواور وہ یہ ہےکہ جوعیدالاضحیٰ میں اللہ کا تقرب حاصل کرنے کےلیے ذبح کی جاتی ہے اوراس کاثواب میت کےلیے مقرر کردیا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اس سے بھی افضل یہ ہےکہ انسان اپنی طرف سے اور اپنےگھروالوں کی طرف سے قربانی کرےاور اس کےساتھ زندہ اورفوت شدہ (افراد) کی بھی نیت کرلے تو تبعاً میت بھی اس میں شامل ہوجائے گی کیونکہ نبیﷺ نےصرف اپنےگھر کےفوت شدگان میں سے کسی طرف سے قربانی نہیں کی۔

آپﷺ کی تین بیٹیاں زینب،ام کلثوم اوررقیہ ؓ جوآپ کو بیویوں میں سب سے زیادہ محبوب تھیں، آپ نے ان کےلیے بھی قربانی نہیں کی اوراسی طرح خدیجہ ؓ جوآپ کی بیویوں میں سب سے زیادہ محبوب تھیں،آپ نےان کےلیے بھی قربانی نہیں کی اوراسی طرح آپ کی چچا حضرت حمزہ ﷜  جوجنگ احد میں شہید کردئیے گئے تھے، آپ نے ان کی طرف سے بھی قربانی نہیں کی۔ ہاں! آپ ﷺ نےاپنی طرف سے اوراپنے گھر والوں(مجموعی طورپر زندہ یافوت شدہ) کی طرف سے قربانی کی ہے۔

2۔ غیرعیدالاضحیٰ میں میت کی طرف سے جانور ذبح کرناجیسا کہ بعض جاہل لوگ ایسا کرتےہیں کہ میت کےلیے اس کی وفات کےساتویں روز جانور ذبح کیا جاتاہے یا اس کی وفات کےچالیسویں روز یا اس کی وفات کےتیسرے روز،یہ بدعت ہے اور جائز نہیں کیونکہ یہ ایسے بےفائدہ کام ہیں جن میں مال کاضیاع ہے، جس میں نہ تو دینی فائدہ ہےاور نہ دنیاوی بلکہ دینی نقصان ہےاور تمام بدعتیں گمراہی ہیں جیسا کہ آپ ﷺ نےفرمایا:’’ ہربدعت گمراہی ہے۔،،

( فتاویٰ منارالاسلام :2؍ 411، منقول از جریدہ محدث، لاہور، عدد277)

میت کی طرف سے کون کون سےاعمال کیے جاسکتےہیں، ان کا جواب اگلے سوال کےضمن میں آجائے گا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ صراط مستقیم
حج و قربانی کےمسائل،صفحہ:334
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/23329/

~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲۳ 

میت کی طرف سے قربانی کا حکم؟ 

ماخوذ 
قربانی کے احکام و مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں 

فضیلۃ 
الشیخ عبد العلیم عبد الحفیظ سلفی 
داعیہ مکتب توعیۃ الجالیات یدمہ سعودی عرب 

نظر ثانی 
فضیلۃ الشیخ احمد مجتبی سلفی مدنی 
 رکن مجلس علمی دار الدعوہ دہلی و مشرف اعلی امام ابن باز تعلیمی و رفاہی سوسائٹی 

 میّت کی طرف سے قربانی کے جواز کےسلسلے میں جو دلیلیں پیش کی جاتی ہیں وہ تین طرح کی ہیں 

اول 
 وہ حدیث جو میّت کی طرف سے قربانی کے جواز میں صریح ہے 
 
دوم 
 وہ روایتیں جو میّت کی طرف سے قربانی کے جواز میں صریح نہیں ہیں 
 
سوم 
 عام صدقات اور حج وغیرہ پر قیاس 

ذیل کی سطور میں ہم تینوں طرح کی دلیلوں کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ حق واضح ہوجائے اور ہمارا عمل کتاب و سنّت کے مطابق انجام پائے 
واللہ ھوالموفق للحق والصواب 

اوّل 
 پہلی قسم کی دلیل حنش کی روایت ہے جسے ابوداؤد، ترمذی 
اور احمد وغیرہ نے روایت کیاہے 
أبوداؤد، 
الضحایا، 2، 2790
الترمذي، الأضاحي، 3، 1495، و أحمد 1، 150، 
وہ کہتے ہیں کہ 

علی رضی اللہ عنہ دو 
مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے، ایک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور دوسری اپنی طرف سے، جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا 
 أمرني به، يعني النبي صلی اللہ علیہ وسلم، فلا أدعه أبدا 
 
 مجھے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیاہے اس لئے میں اسے کبھی نہیں چھوڑتا ہوں 

اور ابوداؤد کی روایت میں ہے 

إن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أوصاني أن أضحي عنه فأنا أضحي عنه 
 
 نبی أكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کروں اس لئے میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں 
 
مندرجہ بالا روایت حد درجہ ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے کیوں کہ اس کی سند میں تین راوی معلول ہیں 

۱ ؛ 
شریک بن عبداللہ نخعی 

ان کو علمائے حدیث نے سوء حفظ کی بنیاد پر ضعیف قرار دیا ہے 
دیکھئے، تھذیب التھذیب رقم 577 

۲ ؛
شریک کے استاد ابوالحسناء 

 یہ مجہول ہونے کی بنا پر متروک ہیں 
دیکھئے، التقریب 
رقم 8053 

۳ ؛
حنش بن عبداللہ ابو المعتر الکنانی 

 ان کے متعلق ابن حبان لکھتے ہیں 
كان كثير الوهم في الأخبار ينفرد عن علي بأشياء لايشبه حديث الثقات حتى صار ممن لا يحتج به 
المجروحين 1، 269 
 
یہ احادیث میں بہت زیادہ وہم کے شکار تھے، علی رضی اللہ عنہ سے بہت ساری روایتوں میں منفرد ہیں، جو ثقات کی روایتوں کے مشابہ نہیں، 
یہاں تک کہ یہ ان لوگوں میں سے ہوگئے جو ناقابلِ احتجاج ہیں 
 
منذری لکھتےہیں 
 ان کے سلسلے میں کئی ایک لوگوں نے کلام کیا ہے 
دیکھئے، تحفۃالاحوذی، 5، 79 

دوم 
 وہ روایتیں جو اس معنی میں صریح نہیں ہیں، جیسے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا قربانی کے وقت یہ دعاء کرنا 
 اللهم تقبّل من محمد و آل محمد و أمة محمد 
 مسلم، الأضاحي، 3، 1967 

 اے اللہ محمد کی طرف سے اور محمد کی آل و اولاد کی طرف سے اور محمد کی امّت کی طرف سے اس قربانی کو قبول فرما 
مذکورہ روایت کے لفظ 
 أمة 
کی عمومیت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس کے اندر زندہ اور مردہ ہر قسم کے لوگ شامل ہیں 
 مذکورہ روایت کے لفظ 
 أمة کی عمومیت میں گرچہ فوت شدہ مسلمان بھی شامل ہیں اس کے باوجود اس سے میت کی طرف سے قربانی کے جواز پر استدلال کئی وجوہات سے درست نہیں ہے، کیونکہ اس سے زیرِ نظر مسئلہ کی پوری وضاحت نہیں ہوپارہی ہے، اس لئےکہ لفظ أمة کی عمومیت میں آئندہ نسل بھی شامل ہے اور یہ معلوم ہے کہ کسی پُر اُمّید فرد کی جانب سے قربانی یا کسی بھی قسم کا کار خیر جائز نہیں ہے، نیز کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ پوری امت کی طرف سے قربانی کرے، لہذا اس بنیاد پر یہ عمل نبی أكرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خصائص میں سے ہوگا، جیسا کہ شیخ البانی رحمہ الله نے حافظ ابن حجررحمہ الله کی فتح الباری کے حوالہ سے بعض اہلِ علم سےنقل کیاہے دیکھئے، ارواء الغلیل، 4، 354 

نیز صحابہ کرام رضي الله عنهم کی معتدبہ تعداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہی اور بعض نے لمبی عمریں پائیں، 
اس کے باوجود کسی بھی صحابی سے رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اور نہ ہی کسی دوسرے فوت شدہ شخص کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے، اگر یہ کار خیر ہوتا یا جواز کی کوئی صورت ہوتی تو صحابہ 
کرام رضي الله عنهم اس کے کرنے میں ایک دوسرے سے ضرور سبقت کرتے اور اگر کسی نے کیا ہوتا تو ہم تک ضرور پہنچتا 

اسی طرح اللہ کے رسول کے رشتہ داروں میں سب سے پیارے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ سب سے پیاری بیوی خدیجہ رضي الله عنها اور آپ کی اپنی اولادیں آپ کی زندگی میں فوت ہوچکی تھیں اگر مُردوں کی طرف سے قربانی نیک عمل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم 
ان کی طرف سے ضرور کرتے، یا تقریرًا کسی کو اجازت دینا ثابت ہوتا 
 
شیخ ابن العثیمین رحمہ اللہ فرماتےہیں 
قربانی کے سلسلے میں اصل یہ ہے کہ یہ زندوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اپنی طرف سے اور اپنے اہل کی طرف سے کیا کرتے تھے، 
اور بعض لوگ جو مردوں کی طرف سے مستقل قربانی کرتے ہیں تو اس کی کوئی اصل نہیں ہے 
 
اور مردے کی طرف سے قربانی کی تین قسمیں ہیں 

پہلی 
 زندہ لوگوں کی طرف سے قربانی میں مُردوں کو شامل کر لیا جائے جیسے قربانی کرتے وقت آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرے اور اس میں زندہ اور مُردہ سب کی نیت کرلے جس کی دلیل 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اور اپنے اہل کی طرف سے قربانی کرنی ہے اور اہل میں جو پہلے وفات پا چکے تھے وہ بھی شامل ہیں 

دوسری 
 مرنے والے کی اگر وصیت تھی کہ اس کی طرف سے قربانی کرنی ہے تو اس کی وصیّت پوری کی جائے گی اور اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے، فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ 
البقرة 181 
پس اگر کوئی شخص وصیت سن لینے کے بعد اسے بدل دے گا تو اس کا گناہ اس کے بدلنے والوں کو ہوگا، بے شک اللہ بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے 

تیسری 
 اگر میت کی طرف سے مستقلاً کی جا‏ئے تو فقہاء حنابلہ کے نزدیک صدقہ پر قیاس کرتے ہوئے اس کا ثواب میّت کو پہنچے گا، 
لیکن میں نہیں سمجھتا کہ خاص میت کی طرف سے قربانی کرنا سنت ہے، کیونکہ نبی کریم 
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بھی بیوی کی طرف سے خصوصی طور سے قربانی نہیں کی ہے اور نہ ہی اپنے رشتہ داروں میں سب سے پیارے چچا حمزہ کی طرف سے اور نہ ہی اپنی اولادوں کی طرف سے جو آپ کی زندگی میں وفات پاگئیں تھیں، جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں اور تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور نہ اپنی سب سے پیاری بیوی خدیجہ رضی اللہ عنھا کی طرف سے اور نہ ہی آپ کے عہد میں کسی صحابی ہی سے اپنے کسی وفات شدہ رشتہ دار کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے 
دیکھئے احکام الاضحیۃ والذکاۃ، نیزدیکھۓ الشرح الممتع علی زاد المستقنع، 7، 455، 456، رسالۃ الاضحیۃ،51 اور الجامع لاحکام الاضحیہ، ص 48 

سوم 
عام صدقات اور حج پر قیاس 
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله فرماتےہیں، 
و تجوز الأضحية عن الميت كمايجوز الحج و الصدقة عنه 
مجموع فتاوی، 26، 306 
یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس طرح کوئی بھی عبادت جب تک کتاب و سنت سے معمول بہا نہ ہو اس کا کرنا جائز نہیں ہے، 
ٹھیک اسی طرح سنت سے ثبوت کے بغیر نیابتا اس کا کرنا جائز نہیں ہے 

شیخ البانی رحمہ 
الله فرماتے ہیں 
وبالأحرى أن لايجوزله القياس عليها غيرها من العبادات كالصلاة والصيام والقراءة ونحوهامن الطاعات لعدم ورودذلك عنه صلی اللہ علیہ وسلم فلايصلى عن أحدولايصوم عن أحد ولايقرأ عن أحد وأصل ذلك كله قول تعالى، وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى، 
النجم 39 
نعم هناك أموراستثنيت من هذا الأصل بنصوص وردت ........... 
إرواءالغليل، 4، 354 
زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ قربانی پر دیگر عبادات کا قیاس جائز نہیں ہے جیسے نماز، روزہ اور تلاوت وغیرہ جیسی عبادتیں کیونکہ اس سلسلے میں سنت سے کوئی چیز ثابت نہیں ہے، اس لئے کسی کی طرف سے نماز پڑھ سکتا ہے، روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ ہی تلاوت کر سکتا ہے اور اس سلسلے میں دلیل اللہ تعالی کافرمان وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى، النجم 39 
انسان کی اپنی محنت ہی کار گر ہو گی سورہ نجم 39 ہے، البتہ نصوص کی بنیاد پر کچھ چیزیں اس سے مستثنی ہیں ......

کچھ لوگ حج پر قیاس کرتے ہوئے میت کی طرف سے قربانی کو جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ میت کی طرف سے حج کا ثبوت ہے اور حج کےاندر ھَدي بھی ہے ! 
لیکن یہ قیاس کئی وجہوں کی بنا پر درست نہیں ہے، کیونکہ حج ایک مستقل عبادت ہے جس کے مستقل اور متعین ارکان و فرائض ہیں جن میں احرام، تلبیہ، طواف، منی، مزدلفہ اور عرفات کے احکام و عبادات، 
رمی جمار، سعی، حلق یا قصر اور ھدي وغیرہ ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی رکن سنت سے ثبوت کے بغیر کسی اور کے لئے کرنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ امام البانی کے قول میں گزرا، لہذا جن عبادتوں کا کرنا نصوص سے ثابت ہے ان کا کرنا جائز ہے، لیکن جن کا کرنا ثابت نہیں اسے کرنا اور رواج دینا قطعا درست نہیں ہے، کیونکہ اس سے دین میں بدعات کی راہ کھلنے کا خطرہ پایا جاتا ہے، 
اور ایسا بہت ساری عبادتوں کے اندر ہم آئے دن ملاحظہ کرتے رہتے ہیں اور اس وجہ سے بہت سارے مسائل بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں، اب قربانی کو ہی لے لیجئے، جن لوگوں نے مُردے کی طرف سے قربانی کے جواز کا فتوی دیا ہے ان کے درمیان یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ میت کی طرف سے کی گئی قربانی کے جانور کا گوشت کا کیا حکم ہے؟ اسے استعمال کیا جا سکتا ہے، یا تمام کے تمام کو صدقہ کر دینا چاہئے؟ کسی نبی خاص طور سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے قربانی کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اگر کرلی گئی تو اس کے گوشت اور چمڑے کا کیا حکم ہوگا؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کی کتاب و سنت اور آثار صحابہ میں کوئی دلیل نہیں ہے، چنانچہ قربانی بھی انہیں عبادتوں میں سے ہے جن کا فوت شدہ آدمی کی طرف سے کرنا ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی یہ سنت ہے، البتہ رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے آدمی قربانی کرتے وقت یہ کہے 
أللهم تقبل مني و من أهل بيتي 
 اے اللہ میری اور میرے گھر والوں کی طرف سے قبول فرما تو یہ عین سنت ہے اور اس میں زندہ اور مردہ سب شامل ہيں 

واللہ أعلم بالصواب 

http://abuzahraabdulaleemsalafi.blogspot.com/2014/09/blog-post_17.html 

~~~~~~~~~~~~~

ختم شد 

.