پیر، 27 جولائی، 2020

میت ‏کی ‏جانب ‏سے ‏قربانی؟ ‏عبد ‏العلیم ‏سلفی

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

میت کی طرف سے قربانی کا حکم؟ 

ماخوذ 
قربانی کے احکام و مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں 

فضیلۃ 
الشیخ عبد العلیم عبد الحفیظ سلفی 
داعیہ مکتب توعیۃ الجالیات یدمہ سعودی عرب 

نظر ثانی 
فضیلۃ الشیخ احمد مجتبی سلفی مدنی 
 رکن مجلس علمی دار الدعوہ دہلی و مشرف اعلی امام ابن باز تعلیمی و رفاہی سوسائٹی 

~~~~~~~~~~؛

 میّت کی طرف سے قربانی کے جواز کےسلسلے میں جو دلیلیں پیش کی جاتی ہیں وہ تین طرح کی ہیں 

اول 
 وہ حدیث جو میّت کی طرف سے قربانی کے جواز میں صریح ہے 
 
دوم 
 وہ روایتیں جو میّت کی طرف سے قربانی کے جواز میں صریح نہیں ہیں 
 
سوم 
 عام صدقات اور حج وغیرہ پر قیاس 

ذیل کی سطور میں ہم تینوں طرح کی دلیلوں کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ حق واضح ہوجائے اور ہمارا عمل کتاب و سنّت کے مطابق انجام پائے 
واللہ ھوالموفق للحق والصواب 

اوّل 
 پہلی قسم کی دلیل حنش کی روایت ہے جسے ابوداؤد، ترمذی 
اور احمد وغیرہ نے روایت کیاہے 
أبوداؤد، 
الضحایا، 2، 2790
الترمذي، الأضاحي، 3، 1495، و أحمد 1، 150، 
وہ کہتے ہیں کہ 

علی رضی اللہ عنہ دو 
مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے، ایک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور دوسری اپنی طرف سے، جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا 
 أمرني به، يعني النبي صلی اللہ علیہ وسلم، فلا أدعه أبدا 
 
 مجھے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیاہے اس لئے میں اسے کبھی نہیں چھوڑتا ہوں 

اور ابوداؤد کی روایت میں ہے 

إن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أوصاني أن أضحي عنه فأنا أضحي عنه 
 
 نبی أكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کروں اس لئے میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں 
 
مندرجہ بالا روایت حد درجہ ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے کیوں کہ اس کی سند میں تین راوی معلول ہیں 

۱ ؛ 
شریک بن عبداللہ نخعی 

ان کو علمائے حدیث نے سوء حفظ کی بنیاد پر ضعیف قرار دیا ہے 
دیکھئے، تھذیب التھذیب رقم 577 

۲ ؛
شریک کے استاد ابوالحسناء 

 یہ مجہول ہونے کی بنا پر متروک ہیں 
دیکھئے، التقریب 
رقم 8053 

۳ ؛
حنش بن عبداللہ ابو المعتر الکنانی 

 ان کے متعلق ابن حبان لکھتے ہیں 
كان كثير الوهم في الأخبار ينفرد عن علي بأشياء لايشبه حديث الثقات حتى صار ممن لا يحتج به 
المجروحين 1، 269 
 
یہ احادیث میں بہت زیادہ وہم کے شکار تھے، علی رضی اللہ عنہ سے بہت ساری روایتوں میں منفرد ہیں، جو ثقات کی روایتوں کے مشابہ نہیں، 
یہاں تک کہ یہ ان لوگوں میں سے ہوگئے جو ناقابلِ احتجاج ہیں 
 
منذری لکھتےہیں 
 ان کے سلسلے میں کئی ایک لوگوں نے کلام کیا ہے 
دیکھئے، تحفۃالاحوذی، 5، 79 

دوم 
 وہ روایتیں جو اس معنی میں صریح نہیں ہیں، جیسے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا قربانی کے وقت یہ دعاء کرنا 
 اللهم تقبّل من محمد و آل محمد و أمة محمد 
 مسلم، الأضاحي، 3، 1967 

 اے اللہ محمد کی طرف سے اور محمد کی آل و اولاد کی طرف سے اور محمد کی امّت کی طرف سے اس قربانی کو قبول فرما 
مذکورہ روایت کے لفظ 
 أمة 
کی عمومیت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس کے اندر زندہ اور مردہ ہر قسم کے لوگ شامل ہیں 
 مذکورہ روایت کے لفظ 
 أمة کی عمومیت میں گرچہ فوت شدہ مسلمان بھی شامل ہیں اس کے باوجود اس سے میت کی طرف سے قربانی کے جواز پر استدلال کئی وجوہات سے درست نہیں ہے، کیونکہ اس سے زیرِ نظر مسئلہ کی پوری وضاحت نہیں ہوپارہی ہے، اس لئےکہ لفظ أمة کی عمومیت میں آئندہ نسل بھی شامل ہے اور یہ معلوم ہے کہ کسی پُر اُمّید فرد کی جانب سے قربانی یا کسی بھی قسم کا کار خیر جائز نہیں ہے، نیز کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ پوری امت کی طرف سے قربانی کرے، لہذا اس بنیاد پر یہ عمل نبی أكرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خصائص میں سے ہوگا، جیسا کہ شیخ البانی رحمہ الله نے حافظ ابن حجررحمہ الله کی فتح الباری کے حوالہ سے بعض اہلِ علم سےنقل کیاہے دیکھئے، ارواء الغلیل، 4، 354 

نیز صحابہ کرام رضي الله عنهم کی معتدبہ تعداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہی اور بعض نے لمبی عمریں پائیں، 
اس کے باوجود کسی بھی صحابی سے رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اور نہ ہی کسی دوسرے فوت شدہ شخص کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے، اگر یہ کار خیر ہوتا یا جواز کی کوئی صورت ہوتی تو صحابہ 
کرام رضي الله عنهم اس کے کرنے میں ایک دوسرے سے ضرور سبقت کرتے اور اگر کسی نے کیا ہوتا تو ہم تک ضرور پہنچتا 

اسی طرح اللہ کے رسول کے رشتہ داروں میں سب سے پیارے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ سب سے پیاری بیوی خدیجہ رضي الله عنها اور آپ کی اپنی اولادیں آپ کی زندگی میں فوت ہوچکی تھیں اگر مُردوں کی طرف سے قربانی نیک عمل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم 
ان کی طرف سے ضرور کرتے، یا تقریرًا کسی کو اجازت دینا ثابت ہوتا 
 
شیخ ابن العثیمین رحمہ اللہ فرماتےہیں 
قربانی کے سلسلے میں اصل یہ ہے کہ یہ زندوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اپنی طرف سے اور اپنے اہل کی طرف سے کیا کرتے تھے، 
اور بعض لوگ جو مردوں کی طرف سے مستقل قربانی کرتے ہیں تو اس کی کوئی اصل نہیں ہے 
 
اور مردے کی طرف سے قربانی کی تین قسمیں ہیں 

پہلی 
 زندہ لوگوں کی طرف سے قربانی میں مُردوں کو شامل کر لیا جائے جیسے قربانی کرتے وقت آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرے اور اس میں زندہ اور مُردہ سب کی نیت کرلے جس کی دلیل 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اور اپنے اہل کی طرف سے قربانی کرنی ہے اور اہل میں جو پہلے وفات پا چکے تھے وہ بھی شامل ہیں 

دوسری 
 مرنے والے کی اگر وصیت تھی کہ اس کی طرف سے قربانی کرنی ہے تو اس کی وصیّت پوری کی جائے گی اور اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے، فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ 
البقرة 181 
پس اگر کوئی شخص وصیت سن لینے کے بعد اسے بدل دے گا تو اس کا گناہ اس کے بدلنے والوں کو ہوگا، بے شک اللہ بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے 

تیسری 
 اگر میت کی طرف سے مستقلاً کی جا‏ئے تو فقہاء حنابلہ کے نزدیک صدقہ پر قیاس کرتے ہوئے اس کا ثواب میّت کو پہنچے گا، 
لیکن میں نہیں سمجھتا کہ خاص میت کی طرف سے قربانی کرنا سنت ہے، کیونکہ نبی کریم 
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بھی بیوی کی طرف سے خصوصی طور سے قربانی نہیں کی ہے اور نہ ہی اپنے رشتہ داروں میں سب سے پیارے چچا حمزہ کی طرف سے اور نہ ہی اپنی اولادوں کی طرف سے جو آپ کی زندگی میں وفات پاگئیں تھیں، جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں اور تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور نہ اپنی سب سے پیاری بیوی خدیجہ رضی اللہ عنھا کی طرف سے اور نہ ہی آپ کے عہد میں کسی صحابی ہی سے اپنے کسی وفات شدہ رشتہ دار کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے 
دیکھئے احکام الاضحیۃ والذکاۃ، نیزدیکھۓ الشرح الممتع علی زاد المستقنع، 7، 455، 456، رسالۃ الاضحیۃ،51 اور الجامع لاحکام الاضحیہ، ص 48 

سوم 
عام صدقات اور حج پر قیاس 
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله فرماتےہیں، 
و تجوز الأضحية عن الميت كمايجوز الحج و الصدقة عنه 
مجموع فتاوی، 26، 306 
یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس طرح کوئی بھی عبادت جب تک کتاب و سنت سے معمول بہا نہ ہو اس کا کرنا جائز نہیں ہے، 
ٹھیک اسی طرح سنت سے ثبوت کے بغیر نیابتا اس کا کرنا جائز نہیں ہے 

شیخ البانی رحمہ 
الله فرماتے ہیں 
وبالأحرى أن لايجوزله القياس عليها غيرها من العبادات كالصلاة والصيام والقراءة ونحوهامن الطاعات لعدم ورودذلك عنه صلی اللہ علیہ وسلم فلايصلى عن أحدولايصوم عن أحد ولايقرأ عن أحد وأصل ذلك كله قول تعالى، وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى، 
النجم 39 
نعم هناك أموراستثنيت من هذا الأصل بنصوص وردت ........... 
إرواءالغليل، 4، 354 
زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ قربانی پر دیگر عبادات کا قیاس جائز نہیں ہے جیسے نماز، روزہ اور تلاوت وغیرہ جیسی عبادتیں کیونکہ اس سلسلے میں سنت سے کوئی چیز ثابت نہیں ہے، اس لئے کسی کی طرف سے نماز پڑھ سکتا ہے، روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ ہی تلاوت کر سکتا ہے اور اس سلسلے میں دلیل اللہ تعالی کافرمان وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى، النجم 39 
انسان کی اپنی محنت ہی کار گر ہو گی سورہ نجم 39 ہے، البتہ نصوص کی بنیاد پر کچھ چیزیں اس سے مستثنی ہیں ......

کچھ لوگ حج پر قیاس کرتے ہوئے میت کی طرف سے قربانی کو جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ میت کی طرف سے حج کا ثبوت ہے اور حج کےاندر ھَدي بھی ہے ! 
لیکن یہ قیاس کئی وجہوں کی بنا پر درست نہیں ہے، کیونکہ حج ایک مستقل عبادت ہے جس کے مستقل اور متعین ارکان و فرائض ہیں جن میں احرام، تلبیہ، طواف، منی، مزدلفہ اور عرفات کے احکام و عبادات، 
رمی جمار، سعی، حلق یا قصر اور ھدي وغیرہ ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی رکن سنت سے ثبوت کے بغیر کسی اور کے لئے کرنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ امام البانی کے قول میں گزرا، لہذا جن عبادتوں کا کرنا نصوص سے ثابت ہے ان کا کرنا جائز ہے، لیکن جن کا کرنا ثابت نہیں اسے کرنا اور رواج دینا قطعا درست نہیں ہے، کیونکہ اس سے دین میں بدعات کی راہ کھلنے کا خطرہ پایا جاتا ہے، 
اور ایسا بہت ساری عبادتوں کے اندر ہم آئے دن ملاحظہ کرتے رہتے ہیں اور اس وجہ سے بہت سارے مسائل بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں، اب قربانی کو ہی لے لیجئے، جن لوگوں نے مُردے کی طرف سے قربانی کے جواز کا فتوی دیا ہے ان کے درمیان یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ میت کی طرف سے کی گئی قربانی کے جانور کا گوشت کا کیا حکم ہے؟ اسے استعمال کیا جا سکتا ہے، یا تمام کے تمام کو صدقہ کر دینا چاہئے؟ کسی نبی خاص طور سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے قربانی کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اگر کرلی گئی تو اس کے گوشت اور چمڑے کا کیا حکم ہوگا؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کی کتاب و سنت اور آثار صحابہ میں کوئی دلیل نہیں ہے، چنانچہ قربانی بھی انہیں عبادتوں میں سے ہے جن کا فوت شدہ آدمی کی طرف سے کرنا ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی یہ سنت ہے، البتہ رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے آدمی قربانی کرتے وقت یہ کہے 
أللهم تقبل مني و من أهل بيتي 
 اے اللہ میری اور میرے گھر والوں کی طرف سے قبول فرما تو یہ عین سنت ہے اور اس میں زندہ اور مردہ سب شامل ہيں 

واللہ أعلم بالصواب 

http://abuzahraabdulaleemsalafi.blogspot.com/2014/09/blog-post_17.html 

.