جمعہ، 31 جولائی، 2020

اڈوانس ‏عید ‏مبارک ‏اور ‏عید ‏کے ‏دن ‏مصافحہ ‏و ‏معانقہ ‏کا ‏حکم ‏مقالات ‏و ‏فتاوی

.

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

عید سے پہلے مبارکبادی 
عید کے دن مصافحہ اور معانقہ کا حکم 

مجموعہ مقالات و فتاوی 

جمع کردہ 
سید محمد عزیر ادونوی 

=================

پوسٹ نمبر ۱ 

ایک علمی گذارش :- 

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ  

    علماء کرام و پڑھے لکھے حضرات! 
    
 ابھی ھند و نیپال میں عید کی نماز ہوئی بھی نہیں اور مبارکبادی و تھنیئات کا انبار لگ گیا- کون عالم اور کون متعلم سارے برابر ہیں اس باب میں- 
 
      مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مدنی طلبہ حضرات بھی اس میں پیش پیش نظر آتے ہیں جبکہ ان کا ہمیشہ دلیل اور علم کے ساتھ چلنے کا شیوہ رہا ہے وہ کیسے عید کی نماز سے قبل مبارکبادی دے رہے ہیں- 

      نیز کچھ محققین علماء و طلاب بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھلنے سے چکے نہیں ہیں- 
       لیکن  کچھ علم دوست حضرات (جزاھم اللہ خیرا) شیخ فوزان و دیگر علماء کے فتاوے نقل کر بھی رہے ہیں لیکن مبارکبادی کے اس سیل رواں میں کس کو فرصت ہے کہ طائرانہ نظر ہی ڈال لیتے ان فتاوی پر- 
       
   علی کل حال :-  
بہت سارے علماء نے نماز عید سے قبل تہنیئہ اور مبارکبادی دینے کو محدثات میں شمار کیا ہے- لہذا ہم لوگ باز آجائیں اور جب کل عید کی نماز سے فارغ ہو جائیں تب جی بھر کر مبارکبادی پیش کردیں- 
     اللہ تعالی ہمیں صحیح اور درست باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- 
آمین 

اخوکم/ محمد مستقیم مدنی نیپال 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۲ 

سوال 
 عید آنے سے ایک یا دو دن پہلے عید کی مبارک باد دینے کا کیا حکم ہے؟ 
 
 
جواب 
الحمد للہ 
عید کی مبارک باد دینا اچھا عمل ہے، کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی یہ عمل مروی ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن عقیل  رحمہ اللہ نے عید کی مبارک باد دینے کے متعلق کچھ احادیث ذکر کی  ہیں، جن میں یہ حدیث بھی ہے کہ محمد بن زیاد کہتے ہیں میں ابو امامہ باہلی  اور دیگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے ساتھ ہوتا تھا، چنانچہ جب صحابہ کرام نماز عید سے فارغ ہوتے تو ایک دوسرے کو کہتے "تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ" امام احمد اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی سند جید ہے" انتہی
" المغنی " (2/130)

صحابہ کرام کے اس منقول عمل سے یہی واضح ہوتا ہے کہ عید کی مبارک باد عید کی نماز کے بعد ہو گی، چنانچہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی بات پر اکتفا کیا جائے تو یہ اچھا ہے،  تاہم اگر دوستوں کو عید کی  نماز سے پہلے مبارک باد دے دے تو یہی لگتا ہے کہ ان شاء اللہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہو گا کیونکہ عید کی مبارک باد کا تعلق عادات اور عرف سے ہے،  اور شریعت میں عادات و عرف کا معاملہ عبادات سے کا وسیع ہے، کیونکہ عرف اور رواج کی بنیاد معاشرتی اقدار پر ہوتی ہے۔

چنانچہ شروانی  شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں 
" مؤلف  [ تحفۃ المحتاج] کی ذکر کردہ قید "عید کے دن" سے  یہ اخذ ہوتا ہے کہ عید کی مبارک باد ایام تشریق اور عید الفطر کے بعد  نہیں دی جا سکتی، لیکن لوگوں میں یہ رواج عام ہو چکا ہے کہ وہ ان دنوں میں بھی  عید کی مبارک باد دیتے ہیں، نیز عید کی مبارک باد دینے میں کوئی مانع بھی نہیں ہے؛ کیونکہ عید کی مبارک باد دینے کا مقصد  باہمی محبت میں اضافہ اس کا اظہار ہے ، نیز مؤلف کی اس قید سے یہ بھی  اخذ ہوتا ہے کہ  عید کی مبارک باد کا وقت فجر کے بعد داخل ہوتا ہے، عید کی رات سے نہیں، اگرچہ [تحفۃ المحتاج کے] کچھ حاشیوں میں  [فجر سے پہلے کا بھی ذکر ہے] انتہی
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ  اگر لوگوں میں چاند رات کو ہی عید کی مبارک باد دینے کا رواج ہو جائے تو اس میں بھی کوئی مانع نہیں ہے؛ کیونکہ عید کی مبارک باد دینے کا مقصد  باہمی محبت میں اضافہ اس کا اظہار ہے ، نیز اس [رات کو عید مبارک کہنے] کی  تائید عید کی رات میں تکبیرات کہنے سے بھی ملتی ہے" انتہی
"حواشي الشرواني على تحفة المحتاج" (2/57)

واللہ اعلم.
https://islamqa.info/ur/answers/192665/ 
 
~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۳ 

سوال: عیدین میں خطبۂ عید کے بعد عید مبارک کی ملاقات کرنا اور بغل گیر ہونے کا جو دستور ہے، شرعاً کیسا ہے؟

الجواب: بغل گیر ہونے کا کوئی ثبوت میرے علم میں نہیں ہے، البتہ تقبل اللہ منا و منک والی دعا صحابہ کرام سے منقول ہے۔ (دیکھئے فتاویٰ علمیہ زبیر علی زئی 132/2، 133)

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ 121 صفحہ 13 
https://ishaatulhadith.com/unicode/eid-ky-baaz-masahil/

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۴ 

مبارکبادیں 
(مبارکبادیاں) 

ابوصفوان عبدالرزاق جامعیؔ 

رمضان شروع ہونے سے ایک دو ماہ قبل سے لے کر رمضان کی عید ختم ہونے کے ایک ہفتہ تک کتنی مبارکبادیاں دی جاتی ہیں اس کی لسٹ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔

یاد رہے کہ صرف عیدکی نماز کے بعد کی دعا "تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ"(حواله:فتحُ الباري،الترغيب والترهيب للأصبهاني ،وتمام المنّہ)  احادیث سے ثابت ہے اور بقیہ غیرمسلموں کی نقالی اور سوشیل میڈیا کی پیداوار ہے اور کاپی، پیسٹ کرنے والے جاہل قسم کے لوگوں نے اس کو بڑھاوا دیا ہوا ہےجن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات سے کوئی واسطہ اور مطلب نہیں ہے۔ اہلِ علم سے گذارش ہے کہ اس کورد کرنے میں جلدی کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والی  نسلیں اس کو دین کا حصہ نہ سمجھ بیٹھیں۔

1۔ رمضان شروع ہونے سے ایک دو مہینے پہلے ہی سے ایک میسیج گردش کرتا رہتاہے کہ جس نے سب سے پہلے رمضان کی مبارکبادی دی اس کوجھنم کی آزادی کا پروانہ مل جائیگا۔ یعنی ہماری ساری عبادات اس ایک میسج کے مقابلے میں فیل ہیں۔ تو پھر مبارکبادیاں ہی دیتے رہو، عبادت کی ضرورت ہی کیاہے۔ (اللہ کی پناہ) 

2۔چاند نظر آنے سے دو تین دن پہلے"اڈوانس میں چاند مبارک"۔ 

3۔چاند رات کو"چاندمبارک"۔

4۔سحری سے قبل "پہلی سحری مبارک"۔ 

5۔رمضان کے پہلے روزے کو "رمضان مبارک"۔

6۔پہلے دس روزے ختم ہونے پر "پہلا عشرہ مبارک"۔

7۔پندرہ روزے ختم ہونے پر"نصف(آدھا) رمضان مبارک"۔ 

8۔سَترہ(17) رمضان کو "یومِ بدر مبارک"۔ 

اس سال تو سوشیل میڈیا پر لوگوں نے حد کردی اور اس کو دین کا حصہ بنا ڈالا۔ حتی کہ ایک میسیج پڑھنے کو ملا جس میں لکھا ہوا تھا "جس نے یوم بدر کی مبارکبادی نہیں دی اس کو اصحابِ بدر سے بغض ہے۔ العیاذ باللہ 

9۔ستائیسویں رات کو یہ میسیج عام ہوگا دیکھ لینا "شبِ قدر مبارک ہو"۔  
جبکہ ایسی مبارکبادی دینے والوں کی رات مسجد وں میں نہیں بازاروں، چوراہوں، ہوٹلوں، قبرستانوں اور شاپنگ سنٹرس  میں گزری ہوگی۔ 

بھلا بتلایئے کیا ایسے لوگ صرف مبارکبادی کے ذریعے سے اجر و ثواب کے مستحق ہونگے؟ 

10۔عید سے ایک دو دن قبل"اڈوانس میں عید مبارک"۔ 

11۔عید کی چاند رات "چاند مبارک"۔ 

12۔عید کے دن" عید مبارک، عید مبارک"۔ 
اس وقت ان کو وہ دعا ہی یاد نہیں آئے گی۔جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ 

13۔عید کے دوسرے اور تیسرے دن تک"باسِی عید مبارک۔ (باسی یعنی پرانی)

14۔شوال کے چھے روزے جنہوں نے رکھے ہوتے ہیں ان کو اس طرح مبارکبادی دی جاتی ہے۔ 
"چھوٹی عید مبارک"۔ کچھ لوگ شوال کے چھےروزے رکھنے کے بعد گھروں میٹھا بناکر کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری چھوٹی عید ہے۔"پتہ نہیں اس چھوٹی عید کی نماز کتنی رکعت ہے؟؟؟

اس میسیج کو زیادہ سے زیادہ عام کریں تاکہ اس طرح کی خرافات سے تمام مسلمان محفوظ رہ سکیں۔
اللہ تعالٰی ہمیں دین کی صحیح سمجھ دے اور صراطِ مستقیم پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۵ 

نماز عید کے بعد گلے ملنا اور مصافحہ کرنا کیسا ہے۔؟ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 
بعد نماز عید آپس میں عید مبارک کہہ کر گلے ملے  سکتے یا مصافحہ کر سکتے ہیں۔اس کا جواب حدیث سے یا خلافت راشدہ کے زمانے کے عمل سے کوئی روایت ہو تو بتایئں؟

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعون الوہاب نماز عید پڑھ کر ناواقف لوگ مصافحۃ کرتے ہیں  اور گلے ملتے ہیں حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔البتہ مجمع الندو وائد جلد نمبر 2 ص 104 میں ہے کہ نماز عید  سے فارغ ہوکر ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا ومنکم کہنا مسنون ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری سب کی طرف سے قبول فرمائے۔البتہ دور سے آنے والا مصافحہ یا معانقہ کرے۔تو اس کا  کوئی مضائقہ نہیں اس لئے کہ یہ مصافحہ اور معانقہ مروجہ عید کے لئے نہیں۔ بلکہ ملاقات کے لئے ہے جو سنت ہیت اور مقصد بدلنے سے حکم کی نوعیت بدل جاتی ہے۔فقط عبد القادر روپڑی۔ 
(اخبار تنظیم اہل حدیث  لاہور جلد نمبر 22 ش 37۔38)

توضیح المرام
نماز عید کے بعد مصافحہ یا معانقہ کی اگر قرآن و حدیث میں مخالفت  آئی ہے تو منع ہے ورنہ حدیث ترکتمونی لھ ترکتم کے تحت جائز ہے بدعت وغیرہ نہیں۔الراقم علی محمد سعیدی خانیوال 

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 11 ص 254
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/3651/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۶ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عید کے دن ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کا کیا حکم ہے ؟ اور کیا نماز کے بعد معانقہ و مصافحہ ثابت ہے ؟ اس کی ذرا ہمیں وضاحت فرما دیں۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جاننا چاہیئے کہ اچھا طریقہ طریقہ محمدی ہے اور عید کے دن معانقے اور مصافحے کے ساتھ مبارکبادی آپﷺ کا طریقہ نہ تھا ، جیسے کہ ہمارے علاقوں میں عادت ہے اور اس قسم کا ہر کام بدعت ہے اور نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر وہ عمل جس پر ہمارا امر نہیں وہ مردود ہے (مسلم)۔

مگر صحابہ ؓ جب عید پڑھ کر واپس آتے تو ایک دوسرے کو "تقبل الله منا ومنكم" کہتے جیسے کہ الجوهر النقى (3/319) باب قول الناس في العيد تقبل الله منا ومنك میں ہے ، محمد بن زیاد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ابو امامہ باھلی اور دیگر صحابہ کے ساتھ تھا جب وہ عید کی نماز پڑھ کر لوٹتے تو ایک دوسرے کو کہتے ، اللہ تعالی ہم سے بھی قبول کرے اور آپ سے بھی۔

امام احمد بن حنبل کہتے ہیں اس کی سند عمدہ ہے امام بیہقی ؒ نے اپنی سنن میں اس مضمون کو ضعیف حدیثیں ذکر کی ہیں اور اسی طرح هيثمي ؒ نے مجمع الزوائد (2/206) باب التهنئة بالعيد میں ایک حدیث ذکر کی ہے اور اس کی سند کو ضعیف کہا ہے اور اسی وجہ سے امام ابن قدامۃ ؒ نے المغنی (2/250) میں کہا ہے کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں "اگر کوئی شخص دوسرے کو عید کے دن "تقبل الله منا ومنكم" کہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔"

حربؒ کہتے ہیں : "امام احمدؒ سے عیدین میں لوگوں کا "تقبل الله منا ومنكم" کہنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ۔" اہل شام ابو امامہؓ سے اسے روایت کرتے ہیں۔

پوچھا گیا : اور واثلہ بن اسقع ؟ فرمایا : "ہاں" کہا گیا کہ عید کے دن اگر یہ کہا جائے تو آپ اسے مکروہ نہیں سمجھتے تو انہوں نے کہا "نہیں"۔

اور ابن عقیلؒ نے عید کی مبارک بادی کے بارے میں کچھ حدیثیں ذکر کی ہیں ان میں سے ایک محمد بن زیاد کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں میں ابو امامہ الباہلی اور دیگر صحابہ کے ساتھ تھا جب وہ عید سے واپس ہوتے تو ایک دوسرے کو "تقبل الله منا ومنك" کہتے اور امام احمدؒ ابو امامہ کی حدیث کی سند کو جید کہتے ہیں اور علی بن ثابت کہتے ہیں میں مالک بن انس سے پینتیس سال سے پوچھتا رہا ہوں وہ کہتے ہیں یہ مدینہ میں معروف چلا آرہا ہے۔

اور امام احمدؒ کہتے سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں کسی کو ابتداء نہیں کہوں گا اور کسی نے مجھے کہا تو میں اسے جوابا کہوں گا۔

اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ سے پوچھا گیا : کہ عید کی مبارکبادی اور "عید مبارک " جو زبان زد عام ہے اور اس جیسے اور کلمات کیا اس کی شریعت میں اصل ہے یا نہیں ؟ اور اس کی شریعت میں اصل ہے تو کیا کہنا چاہیئے ؟ ہمیں فتوی دیں اللہ تعالی آپ کو اجر دے تو انہوں نے جواب دیا ؛ عید کے دن مبارکبادی کے طور پر نماز عید کے بعد ملتے وقت "تقبل الله منا ومنكم" اللہ تعالی ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے۔ اور "أحاله الله عليك" اللہ تعالی اسے تم پر دوبارہ لائے، وغیرہ کہنا تو یہ صحابہ کے ایک  طائفہ سے مروی ہے کہ وہ یہ کرتے تھے اور ائمہ میں امام احمد وغیرہ نے اس کی رخصت دی ہے، لیکن امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ پہل نہیں کرونگا اگر کسی نے مجھ پر پہل کی تو میں اسے جواب دونگا اس لیے کہ تحیہ کا جواب دینا فرض ہے اور مبارکبادی کی پہل کرنی مامور بہا سنت نہیں اور نہ اس سے روکا گیا ہے کرنے والے کے بھی مقتداء ہیں اور چھوڑنے والے کے بھی مقتدا ہیں۔

میں کہتا ہوں: کہ مسجد میں شور مچانا اور معانقہ کرنا جبکہ وہیں اکھٹے رہنے والے ہوں تو یہ بدعت و معصیت ہے اس سے اجتناب ضروری ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ الدین الخالص
ج1ص234
محدث فتویٰ 
https://urdufatwa.com/view/1/11788/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۷ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز عید کےبعد مصافحہ ،معانقہ کرنے یا نہ کرنے کےمتعلق صحیح مؤقف کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم نے اہل حدیث مجریہ ۲۰دسمبر ۲۰۰۲ءمیں اس مسئلہ کےمتعلق تفصیلی فتویٰ لکھا تھا کہ نماز عید کےبعد مصافحہ کرنے  یا گلے ملنے کا ثبوت  کتاب و سنت سے نہیں ملتا، یہ ایک رسم و رواج ہے جس سے گریز کرنا چاہیے۔ البتہ عید کے بعد ایک دوسرے کو بایں الفاظ مبارک باد دی جاسکتی ہے‘‘تقبل اللہ منا و منکم’’یعنی‘‘اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے (یہ عبادت)قبول فرمائے۔’’اگرچہ اس کے متعلق بھی کوئی مرفوع روایت صحیح سندسے ثابت نہیں ہے،تاہم بعض صحابہ کرامؓ سے ان الفاظ کے ساتھ عید کےموقع پر مبارک باد دینا صحیح سند سے مروی ہے۔اب ہم اس کےمتعلق مزید گزارشات پیش کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں عید کے بعد جس دھوم دھام سے مصافحہ اور معانقہ کا جاتا ہے، یہ عمل رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ سے بالکل ثابت نہیں ہے۔رسول اللہﷺ کا ارشادگرامی ہے کہ ‘‘جس عمل پر ہماری طرف سے کوئی امر نہ ہو وہ رد کردینے کے قابل ہے۔’’ (صحیح مسلم ،الاقضیہ:۴۴۹۳)

پھر مصافحہ اور معانقہ ملاقات اور رخصت ہوتے وقت مشروع ہے لیکن عید کے موقع پر اکٹھے روانگی ،پھر واپسی ہوتی ہے اس موقع پر مصافحہ اور معانقہ کا کوئی سبب اور وجہ معلوم نہیں ہوتی مولانا ثناءاللہ امرتسری ؒ سے کسی نے اس کےمتعلق سو ال کیا تو آپ نے بڑے جامع الفاظ میں جواب دیا فرماتے ہیں:‘‘مصافحہ بعد سلام آیا ہے،عید کے روز بھی بنیت تکمیل سلام مصافحہ تو جائز ہے،بنیت خصوص عید ،بدعت ہے کیونکہ زمانہ ٔرسالت و خلافت میں مروج نہ تھا۔’’(فتاویٰ ثنائیہ،ص:۴۵۰،ج۱)

امام احمد بن حنبلؒ سےسوال ہوا کہ لوگ عیدین کےموقع پر ‘‘تقبل اللہ منا ومنکم’’سے ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں  اس کی کیا حیثیت ہے؟تو آپ نے فرمایا :‘‘ایساکہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اہل شام حضرت ابوامامہ باہلی ؓ سے اسے بیان کرتے ہیں اس کی سند جید ہے۔’’امام احمدؒ سے یہ بھی روایت ہے کہ میں ابتدا میں کسی کو ان الفاظ سے مبارک باد نہیں دیتا،البتہ اگر مجھے کوئی کہتا ہے تو اس کا جواب دے دیتا ہوں علی بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے آج سے پینتیس سال قبل اس مبارک باد کے متعلق سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ ہمارے ہاں مدینہ میں عرصہ دراز سے یہ بات معروف ہے۔ (مغنی ابن قدامہ،ص:۲۹۵،ج۳)

امام ابن تیمیہؒ سے سوال ہوا کہ لوگ عید کےموقع پر ایک دوسرے کو ‘‘عید مبارک’’ کہتے ہیں کی شرعی طورپر اس کی کوئی بنیاد ہے اگر ہے تو اس کی وضاحت فرمائیں۔امام صاحب نے بایں الفاظ جواب دیا:‘‘عید کےدن نماز کے بعد ‘‘تقبل اللہ منا و منکم’’سے ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاسکتی ہے کیونکہ چند ایک صحابہ کرام ؓ سے یہ عمل مروی ہے اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے ائمہ کرام نے بھی اس کی رخصت دی ہے اس کے متعلق رسول اللہﷺ سے کوئی حکم یا نہی مروی نہیں ہے ،اس لئے اس کےکرنے یا نہ کرنے میں چنداں مضائقہ نہیں ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ،ص:۲۵۳،ج۲۴)

امام ا بن تیمیہ ؒ نے جن صحابہ کرامؓ کےعمل کی طرف اشارہ کیا ہے اس کی تفصیل ہم پہلے فتویٰ میں بیان کرآئے ہیں، اسے دوبارہ ذکرکیاجاتا ہے:

٭حضرت جبیر بن مطعم ؓ فرماتےہیں کہ صحابہ کرامؓ جب عید کے دن ملتے تو مذکورہ الفاظ سے ایک دوسرے کو مبارک باددیتے تھے۔ (فتح الباری،ص:۴۴۶۔ج۳)

٭محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ باہلیؓ اوردیگر صحابہ کرامؓ کےہمراہ تھا جب وہ عید پڑھ کر واپس ہوئے تو انہوں نے انہی الفاظ کےساتھ ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔ (الجوہرالنقی،ص:۳۲۰،ج۳)

کتب حدیث میں بعض ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے اس کی کراہت معلوم ہوتی ہے اور اسے اہل کتاب کا طریقہ بتایا گیا ہے لیکن  وہ روایات محدثین کےقائم کردہ معیار صحت  پر پورا نہیں اترتیں۔ (بیہقی،ص:۳۲۰،ج۳)

ان حقائق کےپیش نظر‘‘تقبل اللہ منا و منکم’’کےالفاظ سے عید  کے موقع پر مبارک باد تو دی جاسکتی ہے لیکن مصافحہ کرنا اور گلے ملنا ایک رواج ہے جس کا ثبوت محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث
جلد:2 صفحہ:168
https://urdufatwa.com/view/1/12087/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۸ 

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عید کے موقع پر گلے ملنے اور ’’ عید مبارک‘‘ کہنے کی کتاب وسنت سے کوئی دلیل ہے؟ ایک مولانا صاحب نے فرمایا کہ عید کے موقع پر گلے ملنا بدعت ہے مہربانی فرما کر کتاب وسنت کی روشنی میں جواب سے مطلع فرما دیں۔

 
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عید کا دن مسلمانوں کے لیے خوشی اور باہمی موّدت ومحبت کے اظہار کا دن ہے۔ لہٰذا اس میں خوشی کااظہار ہونا چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   بسند حسن جبیر بن نفیر سے بیان کرتے ہیں، کہ نبیﷺ کے اصحاب عید کے روز جب آپس میں ملاقات کرتے تو" تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنكَ" (اللہ ہماری اور تمہاری عید قبول فرما لے! کہہ کر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے۔ فتح الباری ۲/ ۴۴۶، السنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ مَا رُوِیَ فِی قَولِ النَّاسِ یَومَ العِیدِ بَعضُهُم لِبَعضٍ: تَقَبَّلَ …الخ، رقم:۶۲۹۴، الجامع الصحیح للسنن والمسانید، اَلتَّهنِئَة بِالعِیدِ

امام احمد فرماتے ہیں۔ کہ اس میں کوئی حرج نہیں، کہ ایک آدمی دوسرے کو عید کے دن " تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنكَ" کہے۔ حرب نے کہا، کہ امام احمد سے سوال ہوا کہ عیدین میں لوگ یہ کہتے ہیں" تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنكَ" اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ یہ بات اہلِ شام نے ابوامامہ سے نقل کی ہے۔ (المغنی ۳/ ۲۹۴) ابوامامہ کا یہ أثر ترکمانی نے سنن کبری بیہقی کے حاشیے پر ذکر کیا ہے(۳/۳۲۰)۔ امام احمد نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔ البتہ خصوصی گلے ملنے کی کسی روایت میں صراحت نہیں، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(عید کے دن ایک دوسرے سے گلے ملنا کوئی مسنون اورثابت شدہ عمل نہیں۔ البتہ عام اظہارِ محبت کے لیے اگر معانقہ کر بھی لیا جائے، تو اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔ (واللہ اعلم)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:842
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/25070/ 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۹ 

حكم التهنئة قبل حلول العيد 

السؤال 
التواصل الاجتماعي الحديثة في هذه الأيام أنه لا تجوز المعايدة أو المباركة بالعيد ـ عيد الفطر أو الأضحى ـ قبل صلاة العيد، فهل هذا صحيح؟ وهل من دليل على جواز أو عدم جواز هذا العمل؟ أفيدوني أفادكم الله. 

الإجابــة 
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد:

فلم نقف على دليل يمنع التهنئة قبل صلاة العيد، جاء في إجابة للشيخ ابن عثيمين رحمه الله: التهنئة بالعيد قد وقعت من بعض الصحابة ـ رضي الله عنهم ـ وعلى فرض أنها لم تقع فإنها الآن من الأمور العادية التي اعتادها الناس، يهنئ بعضهم بعضاً ببلوغ العيد واستكمال الصوم والقيام.

فالشيخ جعلها من الأمور التي اعتادها الناس ببلوغ العيد واستكمال الصوم...

وسئل فضيلة الشيخ العلامة صالح الفوزان ـ حفظه الله ـ سؤالا نصه: انتشر بين الناس في هذه الأيام رسائل عبر الجوال تتضمن تحريم التهنئة بالعيد قبل العيد بيوم أو يومين وأنه من البدع، فما رأي فضيلتكم؟ الشيخ الفوزان: لا أعلم هذا الكلام، هذه يروجوها ولا أعلم له أصلا، فالتهنئة مباحة في يوم العيد، أو بعد يوم العيد مباحة، أما قبل يوم العيد فلا أعلم أنها حصلت من السلف وأنهم يهنئون قبل يوم العيد، كيف يُهَنَأ بشيء لم يحصل، التهنئة تكون يوم العيد أو بعد يوم العيد مع أنها لا دليل عليها...

والظاهر من بعض الآثار الواردة في التهنئة أن بعض السلف كانوا يفعلونها بعد الصلاة، فقد جاء في المغني لابن قدامة قال: وذكر ابن عقيل في تهنئة العيد أحاديث منها: أن محمد بن زياد، قال: كنت مع أبي أمامة الباهلي وغيره من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فكانوا إذا رجعوا من العيد يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا ومنك، وقال أحمد: إسناد حديث أبي أمامة إسناد جيد، وقال علي بن ثابت: سألت مالك بن أنس منذ خمس وثلاثين سنة وقال: لم يزل يعرف هذا بالمدينة.

وفي سنن البيهقي: عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ قَالَ: لَقِيتُ وَاثِلَةَ بْنَ الأَسْقَعِ فِي يَوْمِ عِيدٍ فَقُلْتُ: تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكَ، فَقَالَ: نَعَمْ تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكَ، قَالَ وَاثِلَةُ: لَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ عِيدٍ فَقُلْتُ: تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكَ، فَقَالَ: نَعَمْ تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكَ.

ولم نقف على نهي عنها قبل الصلاة ـ كما أشرنا ـ أو تخصيصها بما بعد الصلاة أو غيره.

والله أعلم. 

https://www.islamweb.net/ar/fatwa/187457/%D8%AD%D9%83%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%87%D9%86%D8%A6%D8%A9-%D9%82%D8%A8%D9%84-%D8%AD%D9%84%D9%88%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%8A%D8%AF

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۰ 

..تقبل الله منا ومنك..؟ 

~~~~؛

1. 
أن واثلة لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عيد 
فقال : تقبل الله منا ومنك ، 
فقال : نعم تقبل الله منا ومنكم. 

الراوي: - المحدث: ابن حجر العسقلاني - 

المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 2/517 

خلاصة حكم المحدث: [فيه] محمد بن إبراهيم الشامي ضعيف، وقد تفرد به مرفوعا، وخولف فيه

2. 
كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض : 
تقبل الله منا ومنك. 

الراوي: جبير بن نفير (تابعي) 

المحدث: ابن حجر العسقلاني - 

المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 2/517

خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

3. 
كنت مع أبي أمامة الباهلي وغيره من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ، فكانوا إذا رجعوا من العيد يقول بعضهم لبعض : 
تقبل الله منا ومنك. 

الراوي: محمد بن زياد 

المحدث: الإمام أحمد - 

المصدر: المغني - الصفحة أو الرقم: 3/294

خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد

4. 
كان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض : 
تقبل الله منا ومنك. 

الراوي: جبير بن نفير (تابعي) 

المحدث: الألباني - 

المصدر: تمام المنة - الصفحة أو الرقم: 354

خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

پوسٹ نمبر ۱۱ 

حكم قول كل عام وأنتم بخير 

الشيخ ابن عثيمين رحمه اللّٰه كل عام أنتم بخير لا تقال لافي عيد فطر ولا أضحى ولاغيره 
 لقاء الباب المفتوح ص202

الشيخ الفوزان حفظه اللّٰه لا ليست مشروعة ولا يجوز هذا 
 الإجابات المهمةص229

الشيخ الألباني رحمه اللّٰه: قول كل عام وأنتم بخير لاأصل لها وحسبك تقبل الله طاعتكم أما هي فهي تحية الكفار دخلت إلينا في غفلة منا 
سلسلة الهدى والنور شريط رقم 323

هنا قول الشيخ ابن باز رحمه الله عن ماورد في تهنئة المسلمين يوم العيد 

تقبل الله منا ومنك، أو عيدكم مبارك، أو العيد مبارك، أو جعل الله عيدكم مباركًا سواء كان عيد الأضحى أو عيد الفطر كله واحد، وهكذا في الحج حجك مقبول، تقبل الله منك، عمرة مقبولة، تقبل الله منك، كل هذا وأشباهه كافِ، نسأل الله للجميع الهداية والتوفيق، نعم. 

~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~

ختم شد 

.